مشکوٰة شر یف

فضائل قرآن کا بیان

معوذتین کی فضیلت

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جحفہ اور ابواء (جو کہ مکہ اور مدینہ کے راستہ میں دو مقام ہیں) کے درمیان چلے جا رہے تھے کہ اچانک سخت آندھی اور شدید اندھیرے نے ہمیں آ گھیرا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب الناس کے ذریعہ پناہ مانگنی شروع کی (یعنی یہ سورتیں پڑھنے لگے) اور مجھ سے (بھی) فرماتے کہ عقبہ ان دونوں سورتوں کے ذریعہ پناہ چاہو، جان لو کہ کسی پناہ چاہنے والے نے ان دونوں (سورتوں) کی مانند کسی چیز کے ذریعہ پناہ نہیں چاہی ہے (کیونکہ آفات و بلاؤں کے وقت اللہ کی پناہ طلب کرنے کے سلسلے میں یہ دونوں سورتیں سب سے افضل ہیں)۔ (ابو داؤد)

معوذتین کی فضیلت

٭٭حضرت عبداللہ بن خبیب فرماتے ہیں کہ ہم ایک سخت اندھیری اور بارش کی رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ڈھونڈھتے ہوئے نکلے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہیں تشریف لے جا رہے ہم بھی آپ کو ڈھونڈھتے ہوئے نکلے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جائیں) چنانچہ ہم نے آپ کو پا لیا، آپ نے (اس وقت) فرمایا کہ پڑھو میں نے فرمایا کہ کیا پڑھوں! آپ نے فرمایا صبح اور شام کے وقت تین مرتبہ قل ہوا للہ احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کرو یہ تمہیں ہر چیز سے کفایت کریں گی (یعنی ہر آفت و بلاء کو دفع کریں گی۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی)

معوذتین کی فضیلت

٭٭حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں (پناہ چاہنے اور شر و برائی کے دفعیہ کے لئے) سورہ ہود یا سورہ یوسف پڑھ لیا کروں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اللہ کے نزدیک قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ بہتر کوئی چیز (یعنی کوئی سورۃ یا آیت) ہر گز نہیں پڑھ سکتے۔ (احمد، نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

 لن تقرأ شیئا ابلغ عنداللہ کا مطلب یہ ہے کہ آفات و بلاؤں اور برائیوں سے پناہ چاہنے کے سلسلہ میں اس سورۃ یعنی قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ کامل اور بہتر دوسری کوئی سورۃ نہیں ہے کیونکہ یہ سورۃ سب سے زیادہ کامل ہے جس میں ہر مخلوق کی برائی اور شر سے پناہ مانگی گئی ہے قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق (آپ کہئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تمام مخلوقات کے شر سے)۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پناہ چاہنے کے سلسلہ میں دونوں سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سے زیادہ کامل اور کوئی سورۃ نہیں ہے۔

 ابن مالک کہتے ہیں کہ اس جملہ سے مقصود ان دونوں سورتوں کے ذریعہ پناہ طلب کرنے کی رغبت دلانا ہے گویا علامہ طیبی اور ابن مالک دونوں کے قول کا حاصل یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی میں صرف ایک سورۃ یعنی قل اعوذ برب الفلق ذکر کی گئی ہے اور چونکہ قرینہ سے دوسری سورۃ یعنی قل اعوذ برب الناس بھی مفہوم ہوتی ہے اس لیے یہاں یہ دونوں سورتیں مراد ہیں۔

قرآن کی پیروی کرنے کا حکم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کے معانی بیان کرو اور اس کے غرائب کی پیروی کرو اس کے غرائب سے اس کے فرائض اور اس کی حدود ہیں۔

 

 

تشریح

 

 اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کے غرائب کیا ہیں؟ چنانچہ فرمایا کہ قرآن کے فرائض اور اس کی حدود، قرآن کے غرائب ہیں اب اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ فرائض اور حدود سے مراد ہیں منہیات، یعنی وہ چیزیں جن کو کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ، حاصل یہ کہ قرآن کی اطاعت و پیروی کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کو کیا جائے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔

قرآن پڑھنے کی فضیلت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز میں قرآن کی قرأت نماز کے علاوہ قرآن پڑھنے سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کا پڑھنا تسبیح و تکبیر سے زیادہ ثواب رکھتا ہے اور تسبیح صدقہ (خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے) زیادہ ثواب رکھتی ہے اور صدقہ روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے اور روزہ دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے۔

 

تشریح

 

 جس طرح حالت نماز میں قرآن پڑھنا نماز کے علاوہ تلاوت قرآن سے افضل ہے اسی طرح جو نماز کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے اس کی قرأت قرآن اس نماز کی قرأت قرآن سے افضل ہے جو بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں تلاوت قرآن تسبیح و تکبیر اور دیگر اور دو اذکار سے افضل ہے کیونکہ قرآن کریم نہ صرف یہ کہ کلام الٰہی ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام بھی مذکور ہیں۔

 تسبیح و تکبیر و  اوراد و اذکار خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے سے افضل ہے اگرچہ مشہور یہ ہے کہ عبادت متعدی کہ جس کا فائدہ اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی پہنچے (مثلاً صدقہ) افضل ہے عبادت لازم (مثلاً تسبیح اور اذکار) سے کہ جس کا فائدہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن یہ بات ذکر کے علاوہ دوسری عبادات کے ساتھ مخصوص ہے ذکر اس سے مستثنی ہے کیونکہ اللہ کا ذکر سب سے بڑا اور سب سے افضل ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں فرمایا گیا ہے کہ ذکر خدا کی راہ میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر اور افضل ہے۔

 صدقہ روزے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یعنی خدا کی راہ میں اور خدا کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرنا نفل روزہ سے افضل ہے کیونکہ صدقہ کا فائدہ متعدی ہے یعنی اس سے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے جب کہ روزہ کا فائدہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن روزہ کے سلسلہ میں یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی آدم کے ہر عمل پر دس گنا ثواب ملتا ہے مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا (یعنی روزہ کا ثواب لامحدود ہے)

 اس طرح ان دونوں روایتوں میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ روزہ سے افضل ہے جب کہ اس دوسری روایت کا حاصل یہ ہے کہ روزہ صدقہ سے افضل ہے علماء لکھتے ہیں کہ اس وجہ مطابقت سے یہ ظاہری تضاد ختم ہو جاتا کہ افضلیت بایں اعتبار ہے کہ روزہ دار اللہ رب العزت کی صفت اختیار کرتا ہے بایں طور کہ وہ کھانے پینے سے باز رہتا ہے۔

ناظرہ تلاوت زبانی تلاوت سے افضل ہے

حضرت عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہما اپنے دادا (حضرت اوس) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی کا بغیر مصحف (یعنی زبانی) قرآن پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور مصحف میں (دیکھ کر) پڑھنے کا ثواب بغیر مصحف(یعنی زبانی) پڑھنے کے ثواب سے دو ہزار درجہ تک زیادہ کیا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مصحف (قرآن مجید) میں دیکھ کر تلاوت کا ثواب زبانی تلاوت کے ثواب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس میں ثواب کی زیادتی کی وجہ یہ ہے کہ مصحف میں دیکھ کر کی جانے والی تلاوت میں غور و فکر اور خشوع و خضوع زیادہ حاصل ہوتا ہے مصحف شریف کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور مصحف کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی عظمت و احترام کا اظہار ہوتا ہے بلکہ جیسا کہ منقول ہے کہ قرآن کریم کی زیارت بھی عبادت ہے چنانچہ اکثر صحابہ و تابعین مصحف میں دیکھ کر ہی تلاوت کیا کرتے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ ناظرہ تلاوت کی کثرت کی وجہ سے ان کے پاس دو قرآن خستگی کی حالت کو پہنچ گئے تھے۔

موت کی یاد اور قرآن کی تلاوت دل کی جلا کا باعث ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یاد رکھو یہ دل زنگ پکڑتے ہیں جیسا کہ پانی پہنچنے سے لوہا زنگ پکڑتا ہے۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! اس کی جلا کا کیا ذریعہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا موت کو زیادہ یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت (یہ چاروں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ گناہ و مصیبت کے صدور اور نیکیوں میں غفلت کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو جاتا ہے لہٰذا دل کے جلا کا ذریعہ بتایا گیا ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنے سے دل کو جلا یعنی صفائی حاصل ہو جاتی ہے۔

سب سے عظیم الشان سورت

حضرت ایفع بن عبدالکلاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قرآن مجید میں (صفات باری تعالیٰ کے بیان کے سلسلہ میں) سب سے عظیم الشان سورۃ کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا قل ہو اللہ احد اس نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں سب سے عظیم الشان آیت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آیت الکرسی (اَللّٰہ لَآ اِلٰہ اِلَّا ھُوَ  ۚ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ) 2۔ البقرۃ:255) اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون سی آیت ہے جس کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پسند کرتے ہیں کہ وہ (یعنی اس کا ثواب اور اس کا فائدہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو پہنچے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورہ بقرہ کا آخری حصہ، بیشک وہ آخری آیتیں خدا کی رحمت کے خزانوں میں عرش کے نیچے سے اتری ہیں جو اس امت کو عطا کی گئی ہیں اور دنیا و آخرت کی ایسی کوئی بھلائی نہیں ہے جو اس میں نہ ہو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 گزشتہ صفحات میں ایک حدیث گزری ہے جس میں سورہ فاتحہ کو بہت بڑی اور سب سے عظیم الشان سورت فرمایا گیا ہے جب کہ یہاں قل ہواللہ احد کو سب سے عظیم الشان سورۃ فرمایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے حالانکہ حقیقت میں دونوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے کیونکہ سورہ فاتحہ اس اعتبار سے عظیم الشان ہے کہ وہ خدا کی حمد، دعا اور عبادت پر مشتمل ہے نیز وہ قرآن کا خلاصہ ہے اور سورۃ قل ہواللہ احد اس اعتبار سے سب سے عظیم الشان ہے کہ اس میں اللہ رب العزت کی صفت وحدانیت بہت عمدہ ہے اور بلیغ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

 سورہ بقرہ کا آخری حصہ سے اٰمن الرسول سے آخر سورت تک کی آیتیں مراد ہیں اسی موقع پر سائل کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں اور میرے نزدیک یہ چیز محبوب ہے کہ سورہ بقرہ کے آخری حصہ کی ان آیتوں کا ثواب اور ان کی برکت مجھے اور میری امت کو باقی تمام قرآن کی برکت و فائدہ سے پہلے پہنچے کیونکہ یہ آیتیں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہیں چنانچہ ان تمام آیتوں میں اٰمن الرسول سے اشارہ ہے اسلام و احکام کی اطاعت و پابندی کی طرف والیک المصیر سے اشارہ ہے آخرت میں جزائے عمل کی طرف اور لایکلف اللہ نفسا الخ سے اشارہ ہے منافع دنیوی و اخروی کی طرف۔

سورہ فاتحہ شفا ہے

حضرت عبدالملک بن عمیر رضی اللہ عنہ بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ (دارمی، بیہقی)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سورہ فاتحہ کو ایمان و یقین اور اعتقاد کے ساتھ پڑھے تو اس کی برکت سے دینی دنیاوی، ظاہری و باطنی غرض ہر قسم کی بیماری و مصیبت سے شفا و نجات حاصل ہوتی ہے۔

 علماء لکھتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے جسمانی و روحانی مرض میں سورہ فاتحہ لکھ کر اسے چاٹنا ، پینا یا لٹکانا فائدہ پہنچاتا ہے اور مریض کو سکون حاصل ہوتا ہے۔

آل عمران کی آخری آیتوں کی فضیلت و برکت

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رات میں آل عمران کا آخری حصہ پڑھے تو اس کے لئے قیام لیل (یعنی شب بیداری) کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

 آل عمران کے آخری حصہ سے (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ) 3۔ آل عمران:190) سے آخر سورۃ تک کی آیتیں مراد ہیں۔ رات کا مطلب رات کا ابتدائی حصہ بھی ہو سکتا ہے اور آخری حصہ بھی یعنی چاہئے تو ابتداء شب میں ہی آیتیں پڑھے چا ہے شب کے آخری حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز تہجد کے لئے اٹھتے تو اس وضوء وغیرہ سے پہلے یہ آیتیں پڑھا کرتے تھے۔

آل عمران جمعہ کے دن پڑھنے کی برکت

حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن سورہ آل عمران پڑھتا ہے تو اس کے لئے رات تک فرشتے دعا اور استغفار کرتے ہیں (یہ دونوں روایتیں دارمی نے نقل کی ہیں)

سورہ بقرہ کی آخری آیتیں عورتوں کو سکھانے کا حکم

حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو دو آیتوں (یعنی امن الرسول سے آخرت تک) 2۔ البقرۃ:190) پر ختم فرمایا ہے یہ دو آیتیں مجھے اس خزانے سے عطا فرمائی گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے لہٰذا ان آیتوں کو تم سیکھو اور اپنی عورتوں کو سکھلاؤ کیونکہ وہ آیتیں رحمت ہیں (خدا کے قرب) کا ذریعہ ہیں اور تمام دینی و دنیاوی بھلائیوں کے حصول کے لئے دعا ہیں (اس روایت کو دارمی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے)

جمعہ کے دن سورہ ہود پڑھنے کا حکم

حضرت کعب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے دن سورۃ ہود پڑھا کرو۔ (دارمی)

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی برکت

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھتا ہے تو اس کے لئے (یعنی اس کے دل میں ایمان و ہدایت کا) نور دوسرے جمعہ تک روشن رہتا ہے بیہقی نے اس روایت کو دعوات کبیر میں نقل کیا ہے۔

الم تنزیل پڑھنے کی برکت

حضرت خالد بن معدان سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (رات کے ابتدائی حصہ میں) اس سورۃ کو پڑھا کرو جو (قبر و حشر کے) عذاب سے نجات دینے والی ہے اور وہ سورۃ الم تنزیل ہے کیونکہ (صحابہ سے) مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص تھا جو یہی سورۃ پڑھا کرتا تھا وہ اس سورۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتا تھا (یعنی اس سورۃ کے علاوہ اور کسی چیز کو ورد نہیں قرار دیا تھا) اور وہ شخص بہت زیادہ گنہگار تھا، چنانچہ (جب اس شخص کا انتقال ہوا تو) اس سورت نے اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے اور فریاد کی کہ اے میرے پروردگار! اس شخص کی بخشش فرما کیونکہ یہ مجھے بہت زیادہ پڑھا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں اس سورت کی شفاعت قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ (اس کے نامہ اعمال میں) اس کے ہر گناہ کے بدلہ نیکی لکھ دو اور اس کے درجات بلند کر دو، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ بے شک یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی طرف سے قبر میں جھگڑتی ہے کہ یا الٰہی! اگر میں تیری کتاب (قرآن کریم) میں سے ہوں جو لوح محفوظ میں لکھا ہے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور اگر (بفرض محال) میں تیری کتاب میں سے نہیں ہوں تو مجھے اس میں سے مٹا دے۔ نیز حضرت خالد نے فرمایا یہ سورت (قبر میں) ایک پرندہ کی مانند آئے گی اور اس پر اپنے بازو پھیلا کر اس کے لئے (اللہ تعالیٰ سے) شفاعت کرے گی۔ حضرت خالد نے سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک کے بارہ میں بھی یہی کہا ہے کہ (اس سورۃ کی بھی یہی تاثیر اور برکت ہے) حضرت خالد کا معمول یہ تھا کہ وہ دونوں سورتیں پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کریم کی ہر سورۃ پر ساٹھ نیکیوں کے ساتھ فضیلت بخشی گئی ہے۔ (دارمی یعنی ان دونوں روایتوں کو ایک حضرت خالد سے اور دوسری حضرت طاؤس سے منقول ہے ، دارمی نے نقل کیا ہے)۔

 

تشریح

 

 حضرت خالد ایک جلیل القدر تابعی ہیں ستر صحابہ سے ملاقات اور صحبت کا شرف حاصل ہے اسی طرح حضرت طاؤس بھی مشاہیر تابعین میں سے ہیں لہٰذا حضرت خالد اور حضرت طاؤس دونوں سے منقول مذکورہ بالا روایتیں اگرچہ مرسل ہیں (کہ یہاں صحابی کا واسطہ ذکر نہیں کیا گیا ہے) لیکن حکم میں مرفوع ہی کے ہیں کیونکہ اس قسم کی باتیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی سے معلوم ہو سکتی ہیں جو صحابہ کے ذریعہ تابعین تک پہنچتی ہیں اس لیے یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ دونوں حضرات کے اپنے اقوال نہیں بلکہ مرفوع روایتیں ہیں۔

 اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ یا اس کا ثواب پرندہ کی صورت اختیار کر گیا اور اپنے بازو اپنے پڑھنے والے پر پھیلا دئیے تاکہ اس پر سایہ کر لے یا یہ کہ اس نے اپنی رحمت کے بازو پھیلا دئیے یعنی اسے اپنی پناہ میں لے لیا اور اس کی طرف سے شفاعت و وکالت کی۔

 قبر میں جھگڑتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے مداومت کے ساتھ تو یہ سورۃ اس کے لئے عذاب کی تخفیف یا قبر میں فراخی و وسعت یا اسی قسم کی دوسری آسانی و سہولت کی شفاعت و سفارش کرتی ہے۔

 حضرت طاؤس کی روایت کے یہ الفاظ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی ہر سورۃ پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس صحیح روایت کے منافی نہیں ہے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کی تمام سورتوں سے افضل ہے کیونکہ سورۃ بقرہ کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں بہت عمدہ اور اعلیٰ مضامین مذکور ہیں اور ان دونوں سورتوں کو اس جہت و اعتبار سے فضیلت حاصل ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہیں۔

سوۃ یٰسین پڑھنے کی فضیلت

حضرت عطاء بن ابی رباح (تابعی) کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص دن کے ابتدائی حصہ میں سورۃ یٰسین پڑھتا ہے تو اس کی (دینی و دنیوی) حاجتیں پوری کی جاتی ہیں۔ (دارمی نے اس روایت کو بطریق ارسال نقل کیا ہے)۔

قریب المرگ کے سامنے یٰس کا پڑھنا

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کی طلب میں سورۃ یٰسین پڑھتا ہے تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں جو اس نے پہلے کئے ہیں لہٰذا اس سورۃ کو اپنے مردوں کے سامنے پڑھو۔ (بیہقی)

 

 

تشریح

 

 گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کہ وہ اس سورۃ کی برکت سے بخش دئیے جاتے ہیں اسی طرح کبیرہ گناہ بھی بخشے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت شامل حال ہو۔

 مردوں سے مراد قریب المرگ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص قریب المرگ ہو اس کے سامنے سورہ یٰسین پڑھنی چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کو سنے اور اس کے معانی کی طرف اس کی توجہ ہو اس طرح اس کا سننا اس کے پڑھنے کے حکم میں ہو جائے گا جو اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہو گا۔ یا پھر مردوں سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سورت کو اپنی میت کی مغفرت و بخشش کی زیادہ احتیاج ہوتی ہے۔

سورہ بقرہ قرآن کی رفعت ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ ہر چیز کے لئے رفعت و بلندی ہوتی ہے اور قرآن کی رفعت و بلندی سورۃ بقرہ ہے ہر چیز کا خلاصہ (حاصل مقصد) ہوتا ہے اور قرآن کا خلاصہ مفصل ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

 سورۃ بقرہ قرآن کریم کی رفعت و بلندی اس لئے ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ قرآن کی سورتوں میں سب سے بڑی ہے بلکہ اس سورت میں بہت زیادہ احکام مذکور ہیں۔

 پہلے بھی کئی مقامات پر بتایا جا چکا ہے ، مفصل یا مفصلات سورۃ حجرات سے ختم قرآن یعنی سورۃ ناس تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے ، یہ سورتیں پورے قرآن کا خلاصہ اس طور پر ہیں کہ قرآن کریم کے جو مضامین اختصار اور اجمالی طور پر متفرق سورتوں میں ہیں وہ ان سورتوں میں یکجا اور تفصیلی طور پر بیان فرمائے گئے ہیں اسی لئے ان سورتوں کو مفصل کہنے کی وجہ تسمیہ بھی بہت خوب ہے۔

قرآن کی زینت سورہ رحمٰن

حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر چیز کے لئے زینت ہوتی ہے اور قرآن کریم کی زینت سورۃ رحمٰن ہے۔

 

تشریح

 

 سورۃ رحمٰن کو قرآن کریم کی زینت اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس میں دنیا و آخرت کی نعمتوں کا بیان ہے حوروں کے اوصاف کا بیان ہے جو جنت کی دلہنیں ہیں اور ان حوروں کے زیورات وغیرہ کا بیان ہے۔

سورہ واقعہ کی تاثیر

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص شب میں سورہ واقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی بھی فاقہ کی حالت کو نہیں پہنچتا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہر شب میں یہ سورۃ پڑھا کریں۔ (ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے)۔

 

 

تشریح

 

 فاقہ کے معنی ہیں محتاجگی اور حاجت مندی۔ لہٰذا اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص روزانہ رات میں سورہ واقعہ پڑھتا ہے اس کے لئے محتاجگی، نقصان و پریشانی کا باعث نہیں بنتی اس وجہ سے کہ اسے صبر و قناعت کی دولت فرما دی جاتی ہے یا یہ کہ ایسے شخص کو دل کی محتاجگی نہیں ہوتی یعنی ظاہری محتاجگی کے باوجود اس کا دل مستغنی ہوتا ہے کیونکہ اس کے قلب میں وسعت و فراخی عطا کی جاتی ہے ، معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے اور توکل و اعتماد کا سرمایہ اس کے قلب و روح میں طمانیت پیدا کر دیتا ہے اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اس سورۃ کے معانی و مفہوم سے استفادہ کرتا ہے۔

 بہر کیف اتنی بات جان لینی چاہئے کہ شارع نے بعض ان عبادات و نیکیوں کی طرف رغبت دلائی ہے جو نہ صرف یہ کہ اخروی طور پر باعث فلاح و سعادت ہوتی ہیں بلکہ ان دنیاوی امور میں بھی نافع اور موثر بنتی ہیں جن کا حصول دین کے لئے ممد و معاون ہوتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ بہر صورت کسی نہ کسی طرح عبادت اور نیک کاموں میں مصروف رہیں۔

سورہ اعلیٰ کی فضیلت

حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سورۃ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ (احمد)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ اعلیٰ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو اس لیے بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے کہ اس میں یہ آیت (اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى   1   8  صُحُفِ اِبْرٰہيْمَ وَمُوْسٰى   1     9) 87۔ الاعلی:18۔19) ہے جو قرآن کریم کی حقانیت و صداقت پر شاہد اور مشرکین و اہل کتاب کے خیالات و اعتقادات کی بہت مضبوط تردید ہے۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں تمام مثالیں بیان کی گئی ہیں مثلاً کہا گیا ہے کہ اے مسلط! گرفتار نفس اور فریب خوردہ بادشاہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ تو دنیا جمع کرنے لگے بلکہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے بھیجا تھا کہ تو مظلوموں کی بد دعا سے بچے کیونکہ میں مظلوموں کی بد دعا رد نہیں کرتا خواہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو سلیم الطبع اور عقل مند انسان کے لئے لازم ہے کہ جب تک اس میں عقل ہو وہ اپنے لیے چار اوقات مقرر کرے ایک وقت میں تو وہ اپنے رب سے مناجات کرے ، دوسرے وقت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے ، تیسرے وقت میں خدا کی صفت و قدرت میں غور و فکر کرے اور چوتھے وقت میں اپنی حاجت مثلاً کھانے پینے وغیرہ میں مشغول رہے۔ عقل مند کے لئے لازم ہے کہ وہ صرف تین چیزوں کی طمع کرے (١) معاد (آخرت) کے لئے زاد راہ تیار کرنے کی (٢) یا اپنی معاش کی اصلاح کی (٣) یا غیر حرام سے لذت و نفع حاصل کرنے کی۔ عقلمند کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے زمانہ پر نظر رکھنے والا ہو، اپنے حال کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو (یاد رکھو) جس شخص نے اپنے کلام کا اپنے اعمال سے محاسبہ کیا اس کا کلام زیادہ نہیں ہو گا وہ صرف وہی کلام کرے گا جو ضروری ہو۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں عبرتیں یعنی ڈرانے کی باتیں تھیں مثلاً اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو موت پر یقین رکھتا ہے مگر اس کے باوجود (وہ اپنی دنیاوی زندگی کے عیش و عشرت پر) خوش بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دوزخ کی آگ پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی ہنستا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو تقدیر پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی (طلب معاش کے سلسلہ میں) رنج و غم اٹھاتا ہے مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دنیا اور اس کے انقلابات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اس سے مطمئن رہتا ہے اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو کل (قیامت) کے دن کے حساب پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی عمل نہیں کرتا۔

جامع سورت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پڑھائیے ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کریم کی ان سورتوں میں سے کہ جن کے شروع میں الر ہے پڑھو۔ اس نے عرض کیا میری عمر زیادہ ہو چکی ہے اور دل میرا سخت ہو گیا ہے (یعنی میرے قلب پر حافظہ کی کمی اور نسیان کا غلبہ ہے) نیز میری زبان موٹی ہے (یعنی کلام اللہ خصوصاً بڑی سورتیں میں یاد نہیں کر سکتا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم وہ سورتیں نہیں پڑھ سکتے تو ان سورتوں میں سے تین سورتیں پڑھو جن کے شروع میں حم ہے (کیونکہ یہ سورتیں ان سورتوں کی نسبت چھوٹی ہیں) اس شخص نے پھر وہی کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی جامع سورت پڑھائیے (یعنی کوئی ایسی سورۃ بتائیے جس میں بہت سی باتیں جمع ہوں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے سورہ اذا زلزلت پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (پوری سورت پڑھا کر) اس سے فارغ ہوئے اس شخص نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں (اس سورۃ پر عمل کرنے کے سلسلہ میں) اس پر کبھی بھی زیادتی نہیں کروں گا۔ پھر اس شخص نے پیٹھ پھیری (یعنی جب واپس ہو گیا) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس شخص نے مراد حاصل کر لی یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مرتبہ فرمایا۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 جن سورتوں کی ابتداء لفظ الر سے ہوتی ہے ان کی تعداد پانچ ہے ان سورتوں کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سائل سے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی تین سورتیں پڑھ لیا کرو۔

 سورۃ اذا زلزلت کو سورۃ جامعہ (جامع سورۃ) اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس سورۃ میں یہ ایک آیت (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَّرَہ -  وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَّرَہ ) 99۔ الزلزلہ:7-8) (تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا)۔ اس آیت میں وہ تمام چیزیں آ گئی ہیں جن کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن کے مجموعہ کا نام ہے خیر و بھلائی اور وہ تمام چیزیں بھی اس میں شامل ہیں جن سے بچنے کا حکم دیا ہے جن کے مجموعہ کا نام ہے شر و برائی۔

الہٰکم التکاثر کی فضیلت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ کون شخص اس بات پر قادر ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھتا رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہو سکتا کہ وہ روزانہ الہٰکم التکاثر پڑھ لیا کرے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص روزانہ یہ سورۃ پڑھ لیا کرے تو اسے ایک ہزار آیتوں کا ثواب ملے گا کیونکہ اس سورت میں دنیا سے بے رغبتی دلائی گئی ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔

قل ہو اللہ احد پڑھنے کی تاثیر

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سورۃ قل ہواللہ احد دس بار پڑھے تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے ایک محل بنایا جاتا ہے جو شخص اس کو بیس مرتبہ تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے دو محل بنائے جاتے ہیں اور جو شخص اس کو تیس مرتبہ پڑھے تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے تین محل بنائے جاتے ہیں۔ (لسان ببوت سے یہ بشارت سن کر) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم! اے اللہ کے رسول پھر تو اب ہم (جنت میں) اپنے بہت زیادہ محل بنا لیں گے (یعنی جب اس سورت کو پڑھنے کی یہ برکت اور اس کا یہ ثواب ہے تو پھر ہم اب اس سورت کو بہت زیادہ پڑھیں گے تاکہ اس کی وجہ سے جنت میں ہمارے لئے بہت زیادہ محل بنیں) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بھی بہت زیادہ فراخ ہے۔ (یعنی اس سورت کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت عظیم اور بہت وسیع ہے لہٰذا اس بشارت پر تعجب نہ کرو بلکہ اس کے حصول کی کوشش کرو اور اس کی طرف راغب ہو)۔ (دارمی)

رات میں قرآن پڑھنے کا اثر

حضرت حسن رضی اللہ عنہ بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں قرآن کی سو آیتیں پڑھے تو رات میں قرآن اس سے نہیں جھگڑے گا جو رات میں دو سو آیتیں پڑھے تو اس کے لئے شب بیداری کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو شخص رات میں پانچ سو سے ہزار تک آیتیں پڑھے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لئے قنطار کے بقدر ثواب لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قنطار کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بارہ ہزار (درہم یا دینار)۔ (دارمی)

 

تشریح

 

 قرآن اس سے نہیں جھگڑے گا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن نہیں پڑھتا اور اس سے تعلق نہیں رکھتا تو قرآن اس کا دشمن ہو جاتا ہے اور اس پر لعنت و ملامت کرتا ہے لہٰذا رات میں قرآن کی سو آیتیں پڑھنا اس رات میں قرآن کی دشمنی کے دفعیہ اور اس کے حق کی ادائیگی کے لئے کافی ہے۔

 اس موقع پر اتنی بات بھی جان لینی چاہئے کہ قرآن کا جھگڑنا یعنی قرآن کی لعنت و ملامت دو سبب سے ہے ایک تو قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے دوسرے قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ، پس اگر قرآن کی لعنت و ملامت قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے ہو گی تو وہ پڑھنے سے دفع ہو جائے گی اور اگر قرآن کی لعنت و ملامت قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہو گی تو وہ لعنت و ملامت باقی رہے گی جب تک کہ وہ عمل نہ کرے جب قرآن پر عمل کرے گا تو اس کی لعنت و ملامت بھی ختم ہو جائے گی، حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن پڑھے گا اور اس پر عمل بھی کرے گا تو وہ قرآن کی دشمنی اور اس کی لعنت و ملامت سے کلیۃً محفوظ رہے گا بلکہ قرآن ایسے شخص کے حق میں شفاعت سفارش بھی کرے گا اور اگر ایک بات میں بھی قصور و کوتاہی ہو گی تو قرآن کی دشمنی بھی باقی رہے گی اور لعنت و ملامت بھی ختم نہیں ہو گی۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرأت قرآن ہر شخص پر واجب ہے اگر کوئی شخص قرآن نہیں پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے جھگڑے گا، لہٰذا جھگڑنے کی نسبت قرآن کی طرف مجازی ہے حقیقت میں وہ خدا کا جھگڑنا ہو گا یعنی قرآن نہ پڑھنے والے پر براہ راست خدا کی لعنت ہو گی۔

 قنطار کے بقدر، کا مطلب قنطار کی تعداد کے برابر یا قنطار کے وزن کے برابر، بہرکیف یہاں مراد یہ ہے کہ حدیث میں مذکور تعداد میں قرآن کی آیتیں پڑھنے والا شخص بہت ہی زیادہ ثواب پاتا ہے۔

کچھ سورتوں کے فضائل

گزشتہ صفحات میں جو احادیث گزری ہیں ان میں کچھ سورتوں اور آیتوں کے فضائل بیان کئے جا چکے ہیں یہ باب ختم ہو رہا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اب بعض سورتوں کے فضائل تفصیل کے ساتھ بیان کر دئیے جائیں جنہیں تفسیر عزیزی اور درمنثور نے نقل کیا ہے تاکہ ان فضائل کو پڑھنے کے بعد مسلمانوں کا دل خوش ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ راغب اور سرگرم ہو کر اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اس طرح وہ دنیا کی فلاح و سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں۔

بسم اللہ کی برکت

حضرت مولانا عبدالعزیز رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ مفسرین نے کہا جب طوفان نوح نے اس دنیا کو اپنے خوفناک عذاب کے چنگل میں گھیر لیا اور حضرت نوح علیہ السلام اپنی کشتی میں سوار ہوئے تو وہ بھی خوف غرق سے ہراساں ولرزاں تھے انہوں نے غرق سے نجات پانے اور اس عذاب خداوندی سے محفوظ رہنے کے لئے بسم اللہ مجریہا ومرسہا کہا اس کلمہ کی برکت سے ان کی کشتی غرقابی سے محفوظ و سالم رہی مفسرین کہتے ہیں کہ جب اس آدھے کلمہ کی وجہ سے اتنے ہیبت ناک طوفان سے نجات حاصل ہوئی تو جو شخص اپنی پوری عمر اس پورے کلمہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اپنے ہر کام کی ابتداء کرنے کا التزام کرے وہ نجات سے کیونکر محروم رہ سکتا ہے؟

 علماء لکھتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں انیس حروف ہیں دوزخ کے موکل بھی انیس ہیں لہٰذا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہر حرف کے ذریعہ ان میں سے ہر ایک کی بلا دفع ہو سکتی ہے نیز علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ دن رات کو چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں پانچ گھنٹوں کے لئے تو پانچ وقت کی نمازیں مقرر فرمائی گئیں اور بقیہ انیس گھنٹوں کے لئے یہ انیس حروف عطا فرمائے گئے تاکہ ان انیس گھنٹوں میں ہر نشست و برخاست ہر حرکت و سکون اور ہر کام کے وقت ان انیس حروف کے ذریعہ برکت و عبادت حاصل ہو یعنی ان حروف بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی برکت سے یہ انیس گھنٹے بھی عبادت میں لکھے جائیں۔

 علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ سورۃ برات کو جو قتل کفار کے حکم پر مشتمل ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے خالی رکھا گیا ہے کیونکہ یہ کلمہ رحمت ہے جو موقع کا مقتضی نہیں ہے اسی طرح جانور کو ذبح کرتے وقت بھی صرف بسم اللہ اللہ اکبر کہنا مقرر فرمایا گیا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کیونکہ ذبح کی صورت قہر عذاب کی شکل ہے اور یہ کلمہ رحمت (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) اس کا محل اور اس کا مقتضی نہیں لہٰذا جو شخص اس کلمہ رحمت یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پر ہر وقت اور ہر آن مداومت کرتا ہے جس کا اولیٰ درجہ یہ ہے کہ وہ ہر روز ستر مرتبہ فرض نماز میں یہ کلمہ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے کہ وہ شخص غضب و عذاب سے محفوظ اور ثواب سے محظوظ ہو گا۔

 اس آیت یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے خواص میں سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص بیت الخلاء جائے تو اسے چاہئے کہ وہ بسم اللہ کہہ کر جائے تاکہ اس کی وجہ سے اس کی شرم گاہ اور جنات کے درمیان پردہ واقع ہو جائے کوئی شخص بسم اللہ کہہ کر بیت الخلاء جاتا ہے تو اس کا خاصہ یہ ہے کہ جنات کی نظر اس کی شرمگاہ کی طرف نہیں جاتی، لہٰذا جب اس کی تاثیر یہ ہے کہ یہ آیت انسان اور اس کے دنیاوی دشمن جنات کے درمیان پردہ بن جاتی ہے تو امید ہے کہ یہ ایک مسلمان اور عذاب عقبی کے درمیان بھی یقیناً پردہ بن کر حائل ہو گی۔

سورہ فاتحہ کے فضائل اور اس کی تاثیر

صحاح ستہ میں یہ روایت آتی ہے کہ جب کسی شخص کو بچھو یا سانپ کاٹ لیتا تھا یا کوئی مرگی میں مبتلا ہوتا تھا یا کوئی دیوانہ ہو جاتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس عمل کو پسند فرماتے تھے۔

 دارقطنی اور ابن عساکر حضرت زید بن سائب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ فاتحہ پڑھ کر ان پر دم کیا اور یہ سورہ پڑھنے کے بعد اپنے دہن مبارک کا لعاب ان کے جسم کے اس حصہ پر ملا جہاں درد تھا۔

 بزار نے اپنی مسند میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا پہلو اپنے بچھونے پر رکھا (یعنی سونے کے لئے اپنے بستر پر گیا) اور پھر اس نے سورہ فاتحہ اور قل ہواللہ احد پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا تو وہ ہر آفت و بلاء سے محفوظ ہو گیا الا یہ کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا ہو یعنی موت سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔

 عبد حمید نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ فاتحۃ الکتاب (سورہ فاتحہ) باعتبار ثواب کے دو تہائی قرآن کے برابر ہے ، ابو شیخ طبرانی، ابن مردویہ، دیلمی اور ضیاء مقدسی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے گنج العرش (عرش کے خزانہ) سے چار چیزیں عطا کی گئی ہیں اس خزانہ سے ان چار چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز دوسرے کو نہیں دی گئی ہے اور وہ چار چیزیں ہیں۔ (١) ام الکتاب (سورہ فاتحہ) (٢) آیۃ الکرسی (٣) سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (٤) سورہ کوثر۔

 ابو نعیم اور دیلمی نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورہ فاتحہ اس چیز سے کفایت کرتی ہے کہ قرآن کی اور کوئی سورت و آیت کفایت نہیں کرتی اور اگر سورہ فاتحہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیں اور باقی تمام قرآن کو دوسرے پلڑے میں رکھیں تو یقیناً سورہ فاتحہ سات قرآن کے برابر ہو۔

 حضرت ابو عبید فضائل قرآن میں حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ پڑھی اس نے گویا توریت و انجیل زبور اور قرآن کو پڑھا۔

 تفسیر وکیع، کتاب، المصاحف ابن ابناری، کتاب، العظمہ، ابو الشیخ اور حلیۃ الاولیاء ابو نعیم میں منقول ہے کہ ابلیس ملعون کو نوحہ و آہ و زاری کرنے اور اپنے سر پر خاک ڈالنے کا چار مرتبہ اتفاق ہوا ہے اول تو اس وقت جب کہ اس کو ملعون قرار دیا گیا دوسرے اس وقت جب کہ اسے آسمان و زمین پر ڈالا گیا تیسرے اس وقت جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور چوتھے اس وقت جب کہ سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔

 ابو شیخ نے کتاب الثواب میں لکھا ہے کہ جس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھے اور اس کے بعد اپنی حاجت کے لئے دعا کرے (انشاء اللہ اس کی حاجت پوری ہو گی)

 ثعلبی حضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے درد گردہ کی شکایت کی انہوں نے اس شخص سے کہا کہ تمہیں چاہئے کہ اساس القرآن پڑھ کر درد کی جگہ دم کرو (انشاء اللہ شفا ہو گی) اس شخص نے پوچھا کہ اساس القرآن کیا ہے؟ شعبی نے فرمایا کہ فاتحۃ الکتاب یعنی سورہ فاتحہ۔

مشائخ کے مجرب اعمال میں یہ مذکور ہے کہ سورہ فاتحہ اسم اعظم ہے اس سورۃ کو ہر مطلب و حاجت کے لئے پڑھنا چاہئے اس سلسلے میں اس سورت کو پڑھنے کے دو طریقے منقول ہیں اول یہ کہ اس سورۃ کو فجر کی سنت و فرض نماز کے درمیان چالیس دن تک اکتالیس مرتبہ اس طرح پڑھا جائے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے میم کو الحمد کے لام کے ساتھ ملا یا جائے یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین الآیۃ۔ اس سورت کو مقرر بالا دن تک مذکورہ بالا طریقہ سے پڑھنے کے بعد مطلوب انشاء اللہ حاصل ہو گا اگر کسی مریض یا سحر زدہ کی شفا منظور ہو تو مذکورہ بالا طریقہ سے یہ سورت پڑھ کر پانی پر دم کر کے اس مریض یا سحر زدہ کو پلایا جائے انشاء اللہ شفا حاصل ہو گی۔

 دوم یہ کہ نو چندی اتوار کو فجر کی سنت و فرض نماز کے درمیان میم کو لام کے ساتھ ملانے کی قید کے بغیر ستر مرتبہ یہ سورت پڑھے بعد ازاں ہر روز اسی وقت پڑھے مگر اس طرح کہ ہر روز مذکورہ تعداد میں سے دس مرتبہ کم کر دے یعنی نو چندی اتوار کو ستر مرتبہ، دوسرے روز ساٹھ مرتبہ تیسرے روز پچاس مرتبہ، اس طرح دس دس بار کم کرتا جائے تاآنکہ ہفتہ کے روز ختم ہو جائے اگر پہلے مہینہ میں مطلب حاصل ہو جائے تو فبہا ورنہ دوسرے اور تیسرے مہینہ میں اسی طرح پڑھے۔

 امراض مزمنہ پرانے امراض کی شفاء کے لئے اس سورت کو چینی کے پیالے یا پلیٹ پر گلاب، مشک اور زعفران سے لکھ کر پلانا ایک مجرب عمل ہے اسی طرح دانتوں کے درد، شکم اور دوسرے دردوں میں سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا بھی مجرب ہے۔

فضائل سورہ بقرہ

سورہ بقرہ کی فضیلت بھی بہت زیادہ منقول ہے صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ہم میں سے جو شخص سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھ لیتا تھا تو ہم اس کے مرتبہ باعتبار جاہ و عظمت کے بہت بلند ہو جاتا تھا چنانچہ اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لشکر کو کہیں بھیجنا چاہتے تھے اس لشکر کے امیر کے تعین میں تردد پیدا ہو رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مقررہ لشکر کے ہر فرد کو بلا کر اس سے پوچھتے تھے کہ تم قرآن کی کون سی سورۃ یاد رکھتے ہو؟ اسے جو سورۃ یاد ہوتی وہ بتا دیتا یہاں تک کہ نوبت ایک جوان تک پہنچی جو عمر میں سب سے چھوٹا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے بھی دریافت فرمایا کہ تم قرآن کی کون سی سورت یاد رکھتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سوت اور سورۃ البقرہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم سورہ بقرہ بھی یاد رکھتے ہو۔ اس نوجوان نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اس لشکر کے تم ہی امیر مقرر کئے گئے۔

 بیہقی نے شعب الایمان میں یہ روایت نقل کی ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ کو اس کے حقائق نکات کے ساتھ بارہ برس کے عرصہ میں پڑھا اور جس روز انہوں نے یہ سورت ختم کی اس دن ایک اونٹ ذبح کیا اور بہت زیادہ کھانا لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کو کھلایا۔

 اس سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے آٹھ برس تک اس سورۃ کو پڑھنے میں اپنے آپ کو منہمک رکھا۔ آٹھ برس کے بعد انہوں نے یہ سورت ختم کی غرضیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک اس سورۃ کو جو عظمت و فضیلت حاصل تھی وہ کسی اور سورۃ کو حاصل نہیں تھی۔

 اس سورۃ کے مجرب خواص میں یہ ہے کہ جس موسم میں بچوں کو چیچک نکلتی ہے اس وقت جس بچے کی عافیت منظور ہو تو اس بچہ کو روبرو نہار منہ اس سورۃ کو تجوید کے ساتھ پڑھ کر اس پر دم کیا جائے وہ بچہ بھی نہار منہ ہونا چاہئے انشاء اللہ اس سال اس بچہ کو چیچک نہیں نکلے گی اگر نکلے گی بھی تو انجام بخیر ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ جس وقت اس سورت کو پڑھنا شروع کیا جائے تو اڑھائی پاؤ چاول اور اس پر دہی و کھانڈ ڈال کر اسے اسی مجلس میں کسی مستحق کو کھانے کے لئے دے دیا جائے۔

فضائل آیات سورہ کہف

درمنثور میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا اسی طرح وہ شخص بھی دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا جو اس سورت کی آخری دس آیتیں یاد کرے گا جو شخص سوتے وقت سورہ کہف کی دس آیتیں پڑھ لیا کرے گا وہ فتنہ دجال سے بچایا جائے گا اور جو شخص سوتے وقت اس سورت کا آخری حصہ پڑھے گا تو اس کے لئے قیامت کے دن اس کی قرأت کے نزدیک سے اس کے قدم تک نور ہی نور ہو گا۔

 ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھتا ہے تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (کے صغیرہ گناہوں) کا کفارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک روایت میں یہ ہے کہ جس گھر میں سورہ کہف پڑھی جاتی ہے اس رات کو اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

بعد چار رکعتیں پڑھیں اس طرح کہ پہلے دو رکعتوں میں قل یا ایہا الکافرون اور قل ہواللہ احد پڑھے اور اس کے بعد دو رکعتوں میں تبارک الذی اور الم تنزیل السجدہ تو اس کے لئے چار رکعتوں کا ثواب ایسی چار رکعتوں کے ثواب کے برابر لکھا جاتا ہے جو لیلۃ القدر میں پڑھی جائیں اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے مغرب و عشاء کے درمیان سورہ تبارک الذی اور الم تنزیل السجدہ پڑھی تو گویا اس نے لیلۃ القدر میں شب بیداری کی۔

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

ایک اور روایت میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جس شخص نے رات میں الم تنزیل السجدہ اور تبارک الذی پڑھی اس کے لئے ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، اس کی ستر برائیاں دور کی جاتی ہیں اور اس کے ستر درجات بلند کئے جاتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے رات میں الم تنزیل السجدہ اور تبارک الذی پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے لیے لیلۃ القدر کے ثواب کی مانند ثواب لکھتا ہے۔

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

ابن خریس، ابن مردویہ اور بیہقی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تورات میں سورہ یٰس کا نام معمہ رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی تمام نیکیوں اور بھلائیوں پر مشتمل ہے اپنے پڑھنے والے سے دنیا و آخرت کی مصیبت دفع کرتی ہے اور اس سے آخرت کی ہولناکی دور کرے گی۔ اور اس کا نام رافعہ یا (دافعہ)، خافضہ یا (قاضیہ) بھی رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت مومنین کو بلند مرتبہ بناتی ہے اور کافروں کو پست کرتی ہے نیز اپنے پڑھنے والے سے ہر برائی دفع کرتی ہے اور اس کی ہر حاجت پوری کرتی ہے جو شخص اسے پڑھتا ہے تو وہ اس کے حق میں بیس حج کے برابر ہوتی ہے جو شخص اسے سنتا ہے تو وہ اس کے حق میں ایسے دینار کے برابر ہوتی ہے جسے وہ اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) خرچ کرے اور جو شخص اسے لکھ کر پیتا ہے تو وہ اس کے پیٹ میں ہزار دائیں، ہزار نور، ہزار برکتیں اور ہزار رحمتیں داخل کرتی ہے اور اس میں سے ہر کینہ اور ہر دکھ درد نکال باہر کرتی ہے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں اور دوست رکھتا ہوں کہ سورہ یٰس میری امت کے ہر فرد بشر کے دل میں ہو (یعنی ہر شخص کو یاد ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے ہر رات میں سورہ یٰس پڑھنے پر مداومت کی (یعنی وہ روزانہ رات میں اسے پڑھتا رہے) اور پھر وہ مر جائے تو اسے شہادت کی موت نصیب ہوتی ہے۔ نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے دن کے ابتدائی حصہ میں سورہ یٰس پڑھی اس کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سورہ یٰس صبح کے وقت پڑھتا ہے اسے شام تک اس دن کی آسانیاں عنایت کی جاتی ہیں اور جس شخص نے شب کے ابتدائی حصہ میں اس کو پڑھا اسے صبح تک اس رات کی آسانیاں عطا کی جاتی ہیں۔ بیہقی نے حضرت ابو قلابہ رحمۃ اللہ سے جو جلیل القدر تابعین میں سے ہیں ان کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے سورہ یٰس پڑھی اس کی مغفرت کی جاتی ہے جس شخص نے یہ سورۃ بھوک کی حالت میں پڑھی وہ سیر ہو جاتا ہے جس شخص نے اس حالت میں پڑھی کہ وہ راستہ بھول گیا ہے تو اپنا راستہ پا لیتا ہے جس شخص نے اس حالت میں پڑھی کہ اس کا جانور جاتا رہا تو وہ اپنا جانور پا لیتا ہے جس شخص نے کھانے کے وقت اس حالت میں پڑھی کہ اسے کھانے کی کمی کا خوف ہے تو اس کا کھانا کافی ہو جاتا ہے جس شخص نے اسے میت یا قریب المرگ کے پاس پڑھا تو اس میت یا قریب المرگ پر آسانی ہو جاتی ہے جس شخص نے اسے کسی ایسی عورت پر پڑھا جو ولادت کی شدید تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کے لئے ولادت میں آسانی کر دی جاتی ہے اور جس شخص نے یہ سورت پڑھی اس نے گویا پورا قرآن گیارہ مرتبہ پڑھا اور یاد رکھو ہر چیز کا دل ہوتا ہے قرآن کا دل سورہ یٰس ہے۔

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

مقبری کہتے ہیں کہ اگر کسی قسم کا کوئی خوف ہو حکومت وقت کا کوئی ناقابل برداشت یا غلط مطالبہ ہو کسی دشمن کی طرف سے ایذاء رسانی کا اندیشہ ہو تو سورہ یٰس پڑھو انشاء اللہ اس کی برکت کی وجہ سے تم ہر قسم کے خوف و اندیشہ سے محفوظ رہو گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے جس نے جمعہ کے دن سورہ یٰس اور والصافات پڑھی اور پھر خدا سے کوئی چیز مانگی تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عنایت فرمائے گا۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نماز سے فارغ ہونا اس بات سے پہچانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے بعد یہ آیت (سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ) 37۔ الصافات:180) آخر آیت تک پڑھتے تھے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز کے بعد یہ آیت (سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ) 37۔ الصافات:180) آیت تک تین مرتبہ پڑھی تو بلا شک اس نے پورے پیمانہ کے ساتھ (یعنی بھر پور) ثواب حاصل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ جس شخص کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ قیامت کے روز بھرپور ثواب کا حق دار ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی مجلس کے آخر میں جب کہ وہ اٹھنے کا ارادہ کرے یہ آیت یعنی سبحان ربک الخ پڑھے۔

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے سبع طول(یعنی وہ سات بڑی سورتیں جو ابتداء قرآن میں مذکور ہیں) تورات کی جگہ دی ہیں۔ الرآت سے طواسین تک انجیل کی جگہ دی ہیں طواسین اور حامیمون کے درمیان کی سورتیں زبور کی جگہ دی ہیں اور حامیمون سے وہ مفصل (قرآن کی آخری سورتوں) کے ذریعہ مجھے امتیاز و فضیلت بخشی ہے مجھ سے پہلے کسی نبی نے ان سورتوں کو نہیں پڑھا (یعنی ان سورتوں کے مضامین صرف مجھے ہی عنایت فرمائے گئے ہیں اور کسی نبی کو اس سے سرفراز نہیں کیا گیا ہے)۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا خلاصہ ہوا کرتا ہے قرآن کا خلاصہ حامیمون ہیں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع منقول ہے کہ حامیمون جنت کے باغات میں سے باغ ہیں۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ حامیمون سات ہیں یعنی ایسی سورتوں کی تعداد سات ہے جن کے شروع میں حم ہے اور دوزخ کے دروازے بھی سات ہیں ان میں سے ہر حم قیامت میں دوزخ کے ہر دروازے پر کھڑی رہے گی اور ہر ایک عرض کرے گی کہ اے پروردگار! اس دروازے کے ذریعہ اس شخص کو دوزخ میں داخل نہ کر جو مجھ پر ایمان رکھتا تھا اور مجھ کو پڑھتا تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جس طرح ہر درخت کا پھل ہوتا ہے اسی طرح قرآن کا پھل حامیمون ہیں وہ باغ ہیں ارزانی کرنے والے ، سیر کرنے والے ، تجارت کی جگہ، لہٰذا جس شخص کو یہ بات پسندیدہ اور محبوب ہو کہ وہ جنت کے باغات میں خوشہ چینی کرے تو اسے چاہئے کہ وہ حامیمون پڑھے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تک تبارک الذی اور حم السجدہ نہ پڑھ لیتے تھے سوتے نہیں تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کی شب میں حم الدخان اور یٰس پڑھتا ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے جو شخص جمعہ کی شب میں یا جمعہ کے دن حم الدخان پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے نیز ایک روایت یہ ہے جو شخص جمعہ کی رات میں سورہ دخان پڑھتا ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔ اور اس کا نکاح حور عین سے کیا جائے گا۔ اور جو شخص رات میں سورہ دخان پڑھتا ہے اس کے پہلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے الم تنزیل ، یٰس اقتربت الساعۃ اور تبارک الذی پڑھی یہ سورتیں اس کے لئے نور ہوں گی اور شیطان و شرک سے پناہ بن جائیں گی نیز قیامت کے دن اس کے درجات بلند کئے جائیں گے۔

 ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر رات میں اقتربت الساعۃ پڑھے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کا منہ چودہویں رات کے چاند کی مانند روشن ہو گا۔ نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سورہ اذا وقعت اور رحمن پڑھنے والا زمین و آسمان میں رہنے والوں کے درمیان ساکن الفردوس کے نام سے پکارا جاتا ہے یعنی وہ خوش نصیب جنت الفردوس میں کہ جو سب سے اعلیٰ جنت ہے رہے گا۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورۃ الواقعہ سورۃ الغنی ہے لہٰذا اسے پڑھو اور اپنی اولاد کو سکھاؤ اور ایک روایت میں ہے کہ اسے اپنی بیویوں کو سکھلاؤ۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ عورتوں سے کہا کرتی تھیں کہ تم میں سے کسی کو سورہ واقعہ پڑھنے سے کوئی چیز روک نہ دے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ وہ جب سونے کے لیے اپنے بستر پر جائے تو سورۃ حشر پڑھے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شیطان سے پناہ مانگے اور پھر تین مرتبہ سورہ حشر کا آخری حصہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے بھیجتا ہے جو اس شخص سے جن و انس کے شیاطین کو دور رکھتے ہیں اگر وہ یہ رات میں پڑھتا ہے تو وہ فرشتے ان شیاطین کو شام تک دور رکھتے ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے سورۃ حشر کی آخری آیتیں دن میں یا رات میں پڑھیں اور اس دن میں یا رات میں مر گیا تو اس کے لئے جنت واجب ہو گی۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس بات کو پسندیدہ اور محبوب رکھتا ہوں کہ میری امت کے ہر فرد و بشر کے دل میں تبارک الذی ہو (یعنی ہر شخص کو یہ سورت یاد ہو)

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

اور حضرت عکرمہ بن سیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اسماعیل کے سامنے قرآن پڑھا جب میں سورۃ والضحیٰ پر پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ سورہ والضحیٰ کے بعد آخر تک ہر سورت کے ختم ہونے کے بعد اللہ اکبر کہو اس لئے کہ جب میں نے حضرت عبداللہ بن کثیر کے سامنے قرآن کریم پڑھا اور میں سورہ والضحیٰ پر پہنچا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس سورۃ کے بعد قرآن کریم کے آخر تک ہر سورۃ کے ختم ہونے کے بعد اللہ اکبر کہو، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کا حکم دیا ہے ، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس بات کا حکم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دیا اور حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کا حکم دیا ہے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اذازلزلت آدھے قرآن کے برابر ہے والعادیات بھی آدھے قرآن کے برابر ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں ہزار آیتیں پڑھا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ ہنستا ہو گا عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ہزار آیتیں پڑھنے کی طاقت کون رکھتا ہے آپ نے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر الہکم التکاثر آخر سورۃ تک پڑھے اور پھر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! یہ سورت ہزار آیتوں کے برابر ہے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 ابوالشیخ نے عظمت میں اور ابومحمد سمرقندی نے قل ہواللہ احد کے فضائل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ خیبر کے یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے ابو القاسم! اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور حجاب سے آدم کو حماء مسنون یعنی سڑی ہوئی کیچڑ سے ابلیس کو شعلہ آگ سے آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے پیدا کیا لہٰذا اب آپ اپنے رب کے بارہ میں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ کس چیز سے پیدا ہوا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا، تاکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس یہ سورۃ یعنی قل ہواللہ احد لائے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد آپ ان سے کہہ دیجئے اللہ ایک ہے نہ اس کے اصول ہیں نہ فروع اور نہ اس کا کوئی شریک ہے اللہ الصمد اللہ تعالیٰ بالکل بے پرواہ اور مستغنی ہے نہ تو وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ اسے کسی چیز کی حاجت و ضرورت ہے یہ ساری سورۃ آپ نے پڑھ کر سنا دی، چنانچہ اس سورۃ میں نہ جنت کا ذکر ہے اور نہ دوزخ کا نہ حلال چیزوں کا ذکر ہے اور نہ حرام کا بلکہ اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ لہٰذا یہ سورۃ خاص طور پر اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ یعنی اس سورۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات اور وحدانیت کی حقیقت بتائی ہے اس لیے جس شخص نے اس سورۃ کو تین مرتبہ پڑھا گویا اس نے تمام وحی یعنی پورا قرآن پڑھ لیا، جس شخص نے اس سورت کو تیس مرتبہ پڑھا ہو اس دن میں دنیا میں کوئی شخص اس کی فضیلت کے برابر نہیں ہو گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس سے بھی زیادہ پڑھا ہو جس شخص نے اس سورۃ کو دو بار پڑھا ہو وہ جنت الفردوس میں رہے گا اور جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اسے تین مرتبہ پڑھے تو اس سے فقر و محتاجگی دور رہتے ہیں۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

ایک روایت میں ہے کہ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح گزاری کہ تمام رات صبح تک اس سورۃ کو بار بار پڑھتے تھے۔

 ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے قل ہو اللہ احد پڑھی اس نے گویا تہائی قرآن پڑھا ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے سورۃ اخلاص کو دو سو مرتبہ پڑھا اس کے دو سو برسوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں (یعنی اس کے بہت ہی زیادہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں)

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے قل ہواللہ احد پچاس مرتبہ پڑھی اس کے پچاس برس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ایک روایت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے ہر روز دو مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھی اس کے لئے ڈیڑھ ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس سے پچاس برس کے گناہ دور کئے جاتے ہیں الا یہ کہ اس پر دین کوئی قرض ہو۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

ابن سعید، ابن خریس، ابویعلیٰ اور بیہقی دلائل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ملک شام میں تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! معاویہ ابن معاویہ مزنی رضی اللہ عنہ (صحابی) کا انتقال ہو گیا ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے ہیں کہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں ! چنانچہ حضرت جبرائیل نے اپنا بازو زمین پر مارا جس سے ان کے لئے ہر چیز پست ہو کر زمین کی سطح سے مل گئی یہاں تک کہ معاویہ کا جنازہ بلند ہو کر سامنے نظر آنے لگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی نماز جنازہ فرشتوں کی دو صفوں میں پڑھی اور ہر صف میں چھ لاکھ فرشتے تھے۔ حضرت جبرائیل نے کہا کہ قل ہواللہ احد کے پڑھنے نے وہ اس سورۃ کو ہر وقت کھڑے بیٹھے آتے جاتے اور سوتے (یعنی لیٹے لیٹے) پڑھا کرتے تھے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تبوک میں تھے ایک دن آفتاب طلوع ہوا تو اس میں ایسی روشنی و شعاع اور ایسا نور تھا کہ ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج کی اس روشنی و نور کے بارہ میں اظہار تعجب ہی فرما رہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل تشریف لے آئے ان سے پوچھا کہ سورج کے لئے ایسا کیا سبب پیش آیا کہ میں اس کو ایسی روشنی ونور کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ پہلے کبھی اس طرح طلوع ہوتے نہیں دیکھا؟ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ آج مدینہ میں معاویہ ابن معاویہ لیثی کا انتقال ہو گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ستر ہزار فرشتے بھیجے تاکہ وہ ان نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ اے جبرائیل ! اس فضیلت و کرامت کا سبب کیا ہے حضرت جبرائیل نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قل ہواللہ احد بہت زیادہ پڑھتے تھے کھڑے بیٹھے چلتے اور دن و رات کے دوسرے اوقات میں اس سورۃ کو بہت زیادہ پڑھتے تھے کیونکہ یہ سورۃ آپ کے رب کی نسبت ہے جو شخص اس سورۃ کو پچاس مرتبہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچاس ہزار درجے بلند کرتا ہے اور اس سے پچاس ہزار برائیاں دور کرتا ہے نیز اس کے لئے پچاس ہزار نیکیاں لکھتا ہے اور جو شخص اس سے بھی زیادہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے پھر جبرائیل نے کہا کہ کیا میں آپ کے لئے زمین سمیٹ لوں تاکہ آپ ان کی نماز جنازہ پڑھ سکیں؟ آپ نے کہا ہاں۔ چنانچہ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن کو جو شخص تکمیل ایمان کی خاطر اختیار کرے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چا ہے گا داخل ہو گا اور جس بھی حور عین سے چا ہے گا نکاح کرے گا۔ (١) اپنے قاتل کو معاف کرے (٢) دین خفیہ ادا کرے (٣) ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھے۔ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی اختیار کرے گا تو مذکورہ بالا ثواب سعادت کا حقدار ہو گا۔

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص روزانہ پچاس مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھے تو اسے قیامت کے دن اس کی قبر سے اس طرح بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے مدح کرنے والے جنت میں داخل ہو جا۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہنا بھول جائے تو اسے چاہئے کہ جب وہ کھانے سے فارغ ہو تو قل ہواللہ احد پڑھ لے نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت قل ہواللہ احد پڑھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گھر والوں سے بلکہ ہمسایوں سے بھی فقر و محتاجگی دور ہوتی ہے ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک دن حضرت جبرائیل بڑی اچھی صورت میں شاداں وفرحاں میرے پاس ائے اور کہنے لگے کہ اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہر ذات کے لئے سلسلہ نسب ہوتا ہے میرا نسب قل ہواللہ احد ہے لہٰذا آپ کی امت میں سے جو شخص میرے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس نے کبھی قل ہواللہ احد ہزار بار پڑھی ہو گی تو میں اسے اپنا نشان عطا کروں گا۔ اسے اپنے عرش کے قریب رکھوں گا اور ایسے ستر آدمیوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کروں گا جو مستوجب عذاب ہوں گے اور اگر میں نے اپنے اوپر یہ واجب نہ کر لیا ہوتا کہ آیت (کل نفس ذائقۃ الموت (یعنی میں نے یہ کلیہ نہ بنا دیا ہوتا کہ ہر جاندار موت کا مزہ ضرور چکھے گا) تو میں اس کی روح قبض نہ کرتا۔

 ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص نماز جمعہ کے بعد قل ہواللہ احد، قل اعوذ براب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سات سات مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے دوسرے جمعہ تک برائیوں سے پناہ میں رکھتا ہے۔

 ایک روایت یہ ہے کہ جس شخص نے قل ہواللہ احد ہزار مرتبہ پڑھی تو اس کا یہ پڑھنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے کہ وہ فی سبیل اللہ (یعنی جہاد میں) ایک ہزار گھوڑے مع لگام و زین کے دے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص قل ہواللہ احد پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گوشت کو آگ پر حرام کر دیتا ہے ، نیز کعب احبار رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص روزانہ رات و دن میں دس بار قل ہواللہ احد اور آیۃ الکرسی پڑھنے پر مواظبت کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو وہ عطا فرماتا ہے۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے اس سورت کو ہزار مرتبہ پڑھا اس نے اپنا نفس اللہ تعالیٰ سے خرید لیا یعنی وہ آگ سے محفوظ ہو گیا، اسی طرح ایک روایت میں یوں ہے کہ جو شخص اس سورت کو دو سو مرتبہ پڑھتا ہے تو اسے پانچ سو برس کی عبادت کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ 

 

فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ میں منقول ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگا کر اس میں کلی کی پھر اسے اپنے گھر میں لے گئے اور اس پانی کو ان کے گریبان میں اور ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان چھڑکا نیز قل ہواللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر انہیں خدا کی پناہ میں دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے فجر کی نماز کے بعد کسی سے بات چیت کرنے سے پہلے ستر مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھی تو اس دن اس کی طرف سے پچاس صدیقین کے عمل اوپر پہنچائے جاتے ہیں۔

 

قران مجید پڑھنے کی فضیلت کا بیان

قرآن مجید کیا ہے؟ یہ وہ سب سے مقدس اور سب سے عظیم کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کاروان انسانیت کے سب سے آخری اور سب سے عظیم راہنما رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی جو ظلم و جہل کی تاریکیوں میں منارہ نور، کفر و شرک کے تابوت کی آخری کیل اور پوری انسانی برادری کے لیے خدا کی طرف سے اتارا ہوا سب سے آخری اور سب سے جامع قانون ہے۔ اور جسے حبل متین کہا گیا ہے۔

 قرآن مجید کی عظمت و بزرگی اور اس کی فضیلت و رفعت کے لیے اسی قدر کافی ہے کہ وہ خداوند عالم، مالک ارض و سماء اور خلق لوح و قلم کا کلام ہے تمام عیوب اور تمام نقائص سے بری اور پاک ہے فصاحت و بلاغت کا وہ آخری نقطہ عروج کہ بڑے بڑے عرب فصیح و بلیغ اس کے سامنے طفل مکتب علوم و معارف اور فکر و دانش کا وہ کوہ ہمالہ کہ دنیا کے بڑے بڑے مفکر، فلسفی، دانشور اور ارباب فکر و نظر اس سے سر ٹکرائیں۔

 قرآن مجید کی تلاوت اور پڑھنے پڑھانے کا ثواب محتاج بیان نہیں تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ کوئی ذکر، تلاوت کلام مجید سے زیادہ ثواب نہیں رکھتا، خصوصاً نماز میں اس کی قرأت کا ثواب اور اس کی فضیلت اتنی ہے کہ وہ دائرہ تحریر سے باہر ہے، قرآن کریم کی تلاوت کے وقت اس کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں اور نماز میں اس کی قرأت کے وقت اس کے ہر حرف کے عوض پچیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

 قرآن کا پڑھنا بندہ کو خدا کا قرب بخشتا ہے، قلب کو عرفان الٰہی اور ذکر اللہ کے نور سے روشن کرتا ہے اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کرے گا۔

 تلاوت قرآن کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ وہ تفکر اور تذکر یعنی امور دین کو یاد دلانے اور آخرت کی طرف توجہ کا باعث ہو اور کثرت تلاوت کی وجہ سے احکام الٰہی یاد اور مست حضرت ہوں تاکہ احکام الٰہی پر عمل کیا جائے اور عبرت حاصل کی جائے تلاوت کا یہ مقصد نہیں کہ محض آواز و حروف کو آراستہ کیا جائے اور دل غفلت کے اندھیروں میں پڑا رہے چنانچہ جو شخص قرآن پڑھے مگر اس پر عمل نہ کرے تو قرآن ایسے شخص کا دشمن ہوتا ہے۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو قرآن تو پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے کیونکہ قرآن صرف پڑھنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنا ہے اور جو شخص قرآن پڑھتا تو ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا وہ گویا قرآن کی اہانت کرتا ہے۔ لہٰذا قرآن پڑھنا اور اس پر عمل کرنا اس کے حق میں آخرت کے نقصان و خسران کی دلیل ہو گا۔

 یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ تفکر و تذکر اور فہم معانی اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ آہستگی، وقار، ترتیل اور حضور دل کے ساتھ قرآن پڑھا جائے اسی لیے قرآن کی تجوید لازم ہے اور قرآن کا کم پڑھنا مشروع ہوا ہے چنانچہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ قرآن کے حق کی ادائیگی کے لیے یہ کافی ہے کہ چالیس دن میں ایک قرآن ختم کیا جائے بلکہ ایک سال میں قرآن ختم کرنا بھی کافی ہے، نیز عبادت مثلاً تراویح وغیرہ میں بھی ایک قرآن کم سے کم سات دن میں ختم کرنا چاہئے اور جس قدر اس سے زیادہ عرصہ میں ختم کرے افضل ہے۔

 جو شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے قرآن کے معانی نہ جانتا ہو اس کو بھی چاہئے کہ وہ حضور دل کے ساتھ قرآن کی تلاوت شروع کرے اور اپنے ذہن میں یہ خیال جمائے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کے وہ احکام ہیں جو اس نے دنیا پر نازل فرمائے ہیں نیز وہ اس عاجز اور فروتنی کے ساتھ بیٹھ کر تلاوت کرے گا کہ گویا وہ قرآن نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ احکم الحاکمین کا کلام براہ راست سن رہا ہے۔

 

آداب تلاوت

قرآن کریم اللہ رب العزت کا براہ راست کلام اور بارگاہ الوہیت سے اترے ہوئے الفاظ کا مجموعہ ہے اس کلام کی نسبت جس ذات کی طرف ہے وہ حاکموں کا حاکم، بادشاہوں کا بادشاہ، اور پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ لہٰذا اس کی تلاوت کے وقت وہی آداب ملحوظ ہونے چاہئیں جو کلام اور صاحب کلام کی عظمت شان کے مطابق ہوں اس لئے مناسب ہے کہ اس موقع پر آداب تلاوت کا ذکر وضاحت سے بیان کر دیا جائے۔

 سب سے پہلے مسواک کے ساتھ وضو کیجئے اس کے بعد کسی اچھی جگہ متواضع اور رو بقبلہ بیٹھے اپنے آپ کو کمتر و ذلیل اور عاجز جان کر اور قلب و دماغ کے حضور کے ساتھ بیٹھئے کہ گویا اللہ رب العزت کے سامنے بیٹھ کر عرض و نیاز اور التجا کر رہے ہیں پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر تلاوت کیجئے دل میں یہ تصور جمائیے کہ میں خدا کا کلام بغیر کسی واسطہ کے سن رہا ہوں قرآن کی آیتوں کو آہستہ آہستہ تدبر، تفکر اور ترتیل کے ساتھ پڑھئے۔ جہاں بندوں کے حق میں وعدہ و رحمت کی آیت آئے تو تسبیح کیجئے، جہاد و وعید و عذاب کے متعلق آیت آئے خدا سے پناہ مانگئے۔ جب اللہ رب العزت کی تنزیہ اور تقدیس پر مشتمل آیت آئے تو تسبیح کیجئے، یعنی جس آیت میں اللہ کی پاکی اور اس کی بڑائی و بزرگی کا بیان ہو اسے پڑھ کر سبحان اللہ کہئے، تلاوت کے درمیان الحاح و زاری اختیار کیجئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت بنا لیجئے۔ حاصل یہ کہ تلاوت قرآن گویا بارگاہ الوہیت میں حاضری کا وقت ہے اس لئے اس موقع پر اللہ رب العزت کی عظمت و رفعت کے احساس سے اپنے اوپر مکمل عاجزی، ذلت اور فروتنی طاری کیجئے، اس بات کی کوشش نہ کیجئے کہ قرآن جلد ختم ہو اور اس کی وجہ سے تیز تیز پڑھنا شروع کر دیا جائے کیونکہ غور و فکر کے ساتھ کم پڑھنا آداب تلاوت کا لحاظ کیے بغیر زیادہ پڑھنے سے بہتر ہے۔ پھر یہ کہ زیادہ سے زیادہ پڑھنے سے ختم شماری کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ امر ممنوع ہے لہٰذا آج کل جو یہ رسم چل گئی ہے کہ لوگ پورا قرآن ایک دن میں ختم کرنے یا زیادہ تیز پڑھنے کو فخر یا کمال کی بات سمجھتے ہیں۔ یہ نہایت بری اور غفلت و نادانی کی بات ہے۔

خواجہ پندارد کہ طاعت می کند

بے خبر کز معصیت جان می کند

 بعض بزرگوں سے جو زیادہ سے زیادہ پڑھنا ثابت ہے تو وہ ان کی کرامت ہے اس بارے میں ان کی پیروی نہ کیجئے حاصل یہ کہ تدبر، ذوق، حضور قلب اور آداب تلاوت کی رعایت کے ساتھ جس قدر بھی تلاوت کر پائیں اسی کو غنیمت سمجھئے۔

 جس مجلس میں لوگ کسی دوسرے کام میں مشغول ہوں یا شور و غوغا ہو وہاں تلاوت نہ کیجئے ہاں اگر تلاوت ضروری ہی ہو اور کوئی دوسری جگہ میسر نہ ہو تو تلاوت کیجئے مگر آہستہ آواز کے ساتھ، البتہ اگر لوگ تلاوت سننے کے مشتاق ہوں اور خاموش و پر سکون ہوں تو بآواز بلند تلاوت افضل ہو گی کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تلاوت سننے والا اور تلاوت کرنے والا دونوں اجر و ثواب میں یکساں شریک ہیں۔ اسی طرح مصحف(قرآن) میں دیکھ کر پڑھنا بغیر دیکھے پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ اس طرح آنکھیں اور دوسرے اعصاب بھی عبادت میں شریک ہوتے ہیں اور حضور قلب بھی زیادہ میسر ہوتا ہے۔

 قرآن کریم کو رحل یا کسی دوسری بلند چیز (مثلاً تکیہ) پر رکھئے تاکہ قرآن کی تعظیم و تکریم آشکارا ہو، تلاوت کے دوران دنیوی کلام و گفتگو، کھانے پینے اور دوسرے سب کاموں سے باز رہئے اگر کوئی ضرورت پیش آ جائے تو قرآن کو بند کر کے کلام و گفتگو کیجئے اس کے بعد پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر تلاوت شروع کیجئے، غلط پڑھنے سے احتراز کیجئے۔ ترتیل و تجوید کے ساتھ بے تکلف اور بے ساخت پڑھئے۔ غلط طریقہ سے آواز و لہجہ بنانے کی ضرورت نہیں، تلاوت کے وقت کسی کی تعظیم نہ کیجئے۔ ہاں اگر عالم با عمل، استاد یا والدین کے لئے کھڑے ہو جانا اور ان کی تعظیم جائز ہے جب قرآن ختم ہونے کو ہو تو اپنے عزیز و اقارب اور محبین و متعلقین کو جمع کیجئے ان کی مجلس میں قرآن ختم کیجئے اور ان سب کو دعا میں شامل کیجئے کیونکہ وہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔ قرآن ختم کرنے کے بعد پھر سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ مفلحون تک پڑھ کر قرآن بند کیجئے کیونکہ یہ افضل ہے۔

 تکیہ لگا کر یا لیٹ کر قرآن پڑھنا اگرچہ جائز ہے لیکن افضل یہی ہے کہ مؤدب بیٹھ کر پڑھا جائے اسی طرح راستہ چلتے قرآن پڑھنا جائز ہے اگر جنگل ہو تو بآواز بلند پڑھا جائے ورنہ بصورت دیگر بآواز آہستہ۔ نجس اور مکروہ جگہوں مثلاً حمام اور کمیلے وغیرہ میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے۔

 قرآن کی تقطیع بہت چھوٹی نہ رکھی جائے اور نہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے متفرق کیا جائے تاکہ اس کے احترام و عظمت میں کچھ کمی واقع نہ ہو ہاں ضرورت کے تحت مثلاً بچوں کے پڑھنے کے لیے یا کسی مناسب آسانی و سہولت کے پیش نظر پارہ پارہ یا ہفت سورہ وغیرہ کی شکل میں کرنا جائز ہے۔

 قرآن کو ایسے لشکر میں لے جانا جہاں امن پر اعتماد نہ ہو مناسب نہیں ہے اسی طرح دارالحرب میں بھی قرآن نہ لے جانا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کافروں کے ہاتھ میں پڑ جائے اور وہ اس کی بے حرمتی کریں۔

 قرآن کی اتنی آیتوں کا یاد کرنا کہ جن سے نماز ہو جائے ہر مسلمان پر عین فرض ہے اور پورا قرآن شریف یاد کرنا فرض کفایہ ہے کہ اگر ایک شخص حفظ کرے تو سب کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اور کوئی ایک سورہ یاد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور باقی قرآن کا یاد کرنا اور اس کے احکام کو جاننا اور سیکھنا نفل نماز سے اولیٰ ہے۔

 مصحف کی طرف پاؤں پھیلانے مکروہ نہیں بشرطیکہ وہ پاؤں کے برابر نہ ہو، اسی طرح مصحف اگر کھونٹی پر لٹکا ہوا ہو یا طاق میں رکھا ہوا ہو تو ادھر پاؤں پھیلانا مکروہ نہیں ہے۔

 سفر میں حفاظ کی خاطر مصحف کو خرجی (بیگ زنبیل اور جھولا) میں رکھ کر اس پر سوار ہونا یا تکیہ کے نیچے رکھ کر سونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جس مکان میں یا کمرہ میں مصحف رکھا ہو اس میں جماع کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جب قرآن شروع ہو تو پہلے یہ دعا پڑھئے۔

دعا (اللہم انی اشہد ان ھذا کتابک المنزل من عندک علی رسولک محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین وکلامک الناطق علی لسان نبیک جعلتہ ہادیا منک لخلقک وحبلا متصلا فیما بینک وبین عبادک اللہم فاجعل نظری فیہ عبادۃ وقرائتی فکروفکری فیہ اعتبارا انک انت الرؤف الرحیم رب اعوذبک من ہمزات الشیاطین واعوذبک رب ان یحضرون۔)

 اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیری یہ کتاب تیری طرف سے تیرے رسول پر اتاری گئی ہے جن کا نام نامی محمد بن عبداللہ ہے رحمت ہو اللہ کی ان پر، ان کی اولاد پر، ان کے اصحاب پر اور ان کے تمام تابعداروں پر اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا کلام ناطق ہے تیرے رسول کی زبان پر، اس کلام کو تو نے اپنی مخلوق کی ہدایت کرنے والا بنایا ہے اور اس کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ متصل بنایا ہے۔ لہٰذا اے اللہ! تو میری نظر کو اس میں عبادت گزار میری قرأت کو اس میں با فکر اور میرے با فکر کو اس میں عبرت پذیر بنا، بلا شبہ تیری ذات بڑی مہربان ہے اور تو بڑا رحم کرنے والا ہے اور اے میرے رب میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب! میں اس بات سے تیری پناہ کا طلبگار نہیں کہ میرے پاس شیاطین آئیں۔

اس دعا کے بعد آیت (قل اعوذ برب الناس) پڑھئے اور پھر یہ دعا مانگئے۔

دعا (اللہم بالحق انزلتہ وبالحق نزل اللہم عطم رغبی جہ واجعلہ نورا لیبضری وشفاء لصدری وہ ذھابالھمی وحزنی وبیض بہ وجہی وارزقنی تلاوتہ وفہم معانیہ برحمتک یا ارحم الراحمین۔)

اے اللہ تو نے قرآن کو حق کے ساتھ اتارا اور یہ حق کے ساتھ اترا۔ ۔ اے اللہ قرآن میں میری رغبت بڑی بنا اور اسے میری آنکھوں کو نور میرے سینے کے لیے شفاء اور میرے فکر و غم کے دور ہونے کا سبب بنا اس کے ذریعہ میرے چہرے کو روشن و منور فرما اور اپنی رحمت کے صدقہ اے ارحم الراحمین اس کی تلاوت مجھے نصیب کر اور اس کے معنی کی سمجھ عطا فرما

ہر روز تلاوت کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھئے۔

دعا (اللہم اجعل القرآن لنا فی الدنیا قرینا وفی الآخرۃ شافعا وہ فی القبر مونسا وفی القیامۃ صاحبا وعلی الصراط نورا وفی الجنۃ رفیقا ومن النار سترا۔)

اے اللہ قرآن پاک کو میرے لئے دنیا میں ہم نشین، آخرت میں شافع، قبر میں غم خوار، قیامت میں مونس، پل صراط پر نور، جنت میں رفیق اور آگے سے پردہ دینا۔

 پھر آپ نے دینی اور دنیوی مقاصد و عزائم کے لیے جو بھی دعا چاہیں مانگیں انشاء اللہ آپ کی ہر درخواست مجیب الدعوات کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازی جائے گی۔

 ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قرآن ختم کرتے تو کھڑے ہو کر دعا مانگتے، اسی طرح بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ہی سے نقل کیا کہ رول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قرآن پڑھے اللہ کی حمد و ثنا کرے محمد پر درود بھیجے اور پھر اپنے رب سے اپنی بخشش چاہے تو بلاشبہ اس نے بہترین طریقے سے خیر و بھلائی کی دعا مانگی۔

 بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قرآن ختم فرماتے تو کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد و ثنا کرتے چنانچہ حمد و ثنا اور دعا کے کلمات یہ ہوتے۔

الحمد للہ رب العالیمن الحمد للہ الذی خلق السماوات والرض وجعل الظلمت والنور ثم الذین کفروا بربہم یعدلون۔ لا الہ الا اللہ وکذب العادلون باللہ وضلوا ضللا بعیدا لا الا اللہ وکذب المشرکون باللہ من العرب والمجوس والیہود النصاریٰ والصابئین ومن دعا للہ ولد وصاحبۃ او ندا او شبہا او مثلاً او سمیا او عدلا فانت ربنا اعظم من ان نتخذ فیما خلقت والحمد للہ الذی لم یتخذ صاحبۃ ولا ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لو ولی من الذل وکبری تکبیرا اللہ اکبر کبیراوالحمد للہ کثیرا وسبھان اللہ بکرۃ واصیلا۔ والحمدللہ الذی انزل علی عبدہ الکتٰب ولم یجعل لہ عوفا قیما لتنذر بہ باسا شدیدا من لدنہ وبشر المومنین الذی یعمولن الصالحات ان لھم اجرا حسان ماکثین فیہ ابدا وینذر الذین قالوا اتخذا للہ ولدا مالھم بہ میں علم ولا لاباۂم کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ان یقولون الا کذبا۔ الحمد للہ الذی لہ مافی السموات وما فی الارض ولہ الحمد فی الآخرۃ وہو الحکیم الخبیر۔ یعلم مایلج فی الارض وما یخرج من السماء وما یعرج فیہا وہو الرحیم الغفور۔ الحمدللہ فاطر السماوات والارض جاعل الملئکۃ رسلا اولی اجنحۃ مثنی وثلث ارباع یزید فی الخق مایشاء ان اللہ علی کل شئی قدیر۔ مایفتح اللہ للناس من رحمۃ فلا ممسک ہا وما یمسک فلا مرسل لہ من بعد وہو العزیز الحکم۔ الحمدللہ و سلم علی عبادہ الذین اصطفی آللہ خیر اما یشرکون۔ بل اللہ خیر وابقی واحکم واکرم واعظم ممایشرکون۔ فالحمدللہ بل اکثرھم لایعلمون۔ صدق اللہ وبلغت رسلہ الکرام وانا علی ذالکم من الشاہدین۔ اللہم صل علی جمیع الملائکۃ والمرسلین وارحم عبادک المومنین مب اہل السماوات والارض واختم لنا بخیر وافتح لنا بخیر وبارک لنا فی القرآن العظیم وانفسنا بالآیت والذکر الحکیم ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

 تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو رب ہے تمام عالم کا، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور اندھیرا اور اجالا بنایا پھر بھی یہ کافر اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر کر دیتے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور جھوٹے ہیں وہ لوگ جو برابر کر دیتے ہیں دوسروں کو اللہ کے ساتھ اور گمراہ ہیں وہ لوگ اور بھٹک گئے ہیں وہ صحیح راستہ سے کامل بھٹک جانا، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اہل عرب میں سے ہیں اور آتش پرست، یہود و نصاریٰ اور کوکب پرست وہ دوسروں کو اللہ کا شریک مان رہے ہیں جو شخص ثابت کرتا ہے اللہ کے لیے اولاد کو یا بیوی کو یا ہمسر کو یا مشابہ کو یا مثیل کو اس کے ہمنام کو یا اس کی ذات و صفات میں برابر کو، تو وہ کیا کرے کیونکہ وہ بھی جھوٹا ہے اور آپ تو اے ہمارے پروردگار! اس سے برتر و بلند ہیں کہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنا شریک و ساجھی بنائیں۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں بنایا اور نہ بنایا اپنے لئے بیوی کو اور نہ بیٹے کو اور نہیں ہے کوئی اس کا ساجھ سلطنت میں اور نہ کوئی اس کا مددگار ہے ذلت کے وقت پر اور اس کی بڑآئی بیان کرو بڑا جان کر اللہ سب سے بڑا بہت بڑا اور بے انتہاء، بے شمار تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور تمام چیزیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندہ محمد پر کتاب اتاری جس میں کوئی کجی نہیں رکھی، بالکل ٹھیک ٹھیک اتاری تاکہ خوف دلائے ایک سخت آفت کا اللہ کی طرف سے اور خوشخبری دے ایمان لانے والوں کو جو نیکیاں کرتے ہیں اس بات کی کہ ان کے لیے اچھا بدلہ جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے اور ان کو متنبہ کر دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے لئے اولاد بنائی ہے کچھ خبر نہیں ان کو اس بات کی نہ ان کے باپ دادوں کو، کیا بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، سب کچھ جھوٹ ہے جس کو وہ کہہ رہے ہیں، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس کی مملوک میں وہ تمام چیزیں ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہں اور تمام تعریفیں اس کے لیے ہیں عالم آخرت میں اور وہ بڑی حکمت والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے وہ جانتا ہے ان تمام چیزوں کو جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو آسمانوں سے اترتی ہیں اور اسمانوں پر چڑھتی ہیں وہ بڑا رحم کرنے والا اور بہت زیادہ مغفرت کرنے والا ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو پیدا کرنے والا ہے تمام آسمانوں کو اور زمین کو اور بنانے والا ہے فرشتوں کو اپنا پیغام پہچانے والا جو بازوؤں والے ہیں کسی کے دو بازو ہیں کسی کے تین اور کسی کے چار، اپنی مخلوق میں وہ زیادتی کرتا ہے جتنا چاہتا ہے یقیناً اللہ تمام چیزوں پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے جو کچھ کھول دے، اللہ تعالیٰ لوگوں پر اپنی رحمت میں سے تو کوئی نہیں اس کو روکنے والا اور جو کچھ کہ روک رکھے تو کوئی نہیں اس کو بھیجنے والا اس کے سوا اور وہی ہے زبردست حکمتوں والا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور سلامتی ہو اللہ کی اللہ کے ان بندوں پر جن کو اس نے پسند فرما لیا ہے کیا اللہ سب سے بہتر ہے یا وہ (بت) جن کو وہ (کافر و مشرک) اللہ کا ساجھی ٹھہرا رہے ہیں (یہ بات نہیں ہے) بلکہ اللہ ہی سب سے بہتر اور وہی باقی رہنے والا ہے، وہی مضبوط حکم والا ہے اور وہی عزت والا ہے وہ ان تمام چیزوں سے جن کو یہ کافر شریک ٹھہرا رہے ہیں سب سے عظمت والا ہے، پس تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے، اللہ نے سچ فرمایا ہے اور اس کے کریم رسولوں نے اس کا پیغام (صحیح صحیح) پہنچایا ہے اور میں تمام باتوں پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں، اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما، تمام فرشتوں پر، تمام پیغمبروں پر اور رحم فرما اپنے مومن بندوں پر آسمان کے رہنے والوں اور زمین پر بسنے والوں سے، ہمارا خاتمہ کیجئے خیر کے ساتھ اور کھول دیجئے ہمارے لئے خیر کے دروازہ کو اور برکت دیجئے ہمارے لئے قرآن عظیم کے علوم میں اور نفع دیجئے ہم کو آیات قرآنی سے اور اپنے مستحکم ذکر سے، اے ہمارے رب! ہماری یہ دعا قبول فرما لے یقیناً آپ ہماری دعاؤں کو سننے والے اور ہماری باتوں کو جاننے والے ہیں۔

قرآن سیکھنے اور سکھانے والا سب سے بہتر ہے

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن سیکھے جیسا کہ سیکھنے کا حق ہے اور پھر دوسروں کو سکھائے تو وہ سب سے بہتر ہے کیونکہ جس طرح قرآن اور اس کے علوم دنیا کی تمام کتابوں اور علوم سے افضل اور اعلیٰ و ارفع ہیں اسی طرح قرآنی علوم کو جاننے والا بھی دنیا کے افراد میں سب سے ممتاز اور کسی بھی علم کے جاننے والے سے افضل اور اعلیٰ ہے۔

 سیکھے کا حق، سے مراد یہ ہے کہ قرآنی علوم میں غور و فکر کرے اور اس کے احکام و معنی اور اس کے حقائق و دقائق کو پوری توجہ اور ذہنی و قلبی بیداری کے ساتھ سیکھے۔

قرآن پڑھنے کی فضیلت

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے۔ تو ہم صفہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ تم میں سے کون شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ ہر روز بطحان یا عقیق کی طرف جائے اور وہاں سے دو اونٹنیاں بڑے کوہان والی بغیر کسی گناہ کے اور بغیر انقطاع صلہ رحمی کے لائے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم سب پسند کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر سن لو کہ تم میں سے جو شخص مسجد میں جاتا ہے اور وہاں کتاب اللہ کی دو آیتیں کسی کو سکھاتا ہے یا خود پڑھتا ہے تو وہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے تین آیتیں اس کے لیے تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چار آیتیں اس کے لیے چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ حاصل یہ کہ آیتوں کی تعداد اونٹنیوں کی تعداد سے بہتر ہے (یعنی پانچ آیتیں پانچ اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چھ آیتیں چھ اونٹنیوں سے بہتر ہیں اسی طرح آگے تک قیاس کیا جائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 صفہ وہ سایہ دار چبوترہ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے بنا ہوا تھا اور وہ مہاجرین صحابہ جن کے نہ گھر بار تھا اور نہ بیوی بچے اور عبادت و زہد کے انتہائی بلند مقام پر تھے وہ اسی چبوترہ پر رہا کرتے اور ہمہ وقت ابرگاہ نبوت سے اکتساب فیض کرتے رہتے تھے گویا وہ اسلام کی سب سے پہلی اقامتی اور تربیتی درگاہ تھی جس کے معلم اول خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے اور طلباء کی جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔

 بطحان مدینہ کے قریب ایک نالہ تھا اسی طرح عقیق بھی ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ کے مضافات میں تقریباً چار میل کے فاصلہ پر ہے ان دونوں جگہوں پر اس زمانہ میں بازار لگا کرتے تھے جس میں اونٹوں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ اہل عرب کے ہاں اونٹ ایک متاع گرانمایہ کے درجہ کی چیز تھی خصوصاً بڑے کوہان کے اونٹ کی قدر و قیمت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑے بلیغ اسلوب میں صحابہ سے مذکورہ سوال کر کے اس چیز کی طرف رغبت دلائی جو باقی رہنے والی ہے اور اس چیز سے نفرت دلائی جو دنیاوی اعتبار سے کتنی ہی قدر و قیمت کی کیوں نہ ہو لیکن مآل کار فانی اور ختم ہو جانے والی ہے۔

 لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ آپ نے اونٹ کا ذکر ان کو سمجھانے کے لیے صرف بطریق تمثیل فرمایا ورنہ تو دنیا کی تمام چیزیں بھی ایک آیت کے مقابلہ پر کوئی حقیقت اور قدر و قیمت نہیں رکھتیں۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ جب گھر میں لوٹ جائے تو وہاں تین حاملہ اور فربہ و بڑی اونٹنیاں پائے؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص اپنی نماز میں قرآن کی تین آیتیں پڑھتا ہے تو وہ اس کے لیے تین حاملہ اور بڑی موٹی اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ (مسلم)

ماہر قرآن کی فضیلت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راویہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ماہر قرآن ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو لکھنے والے اور بزرگ و نیکوکار ہیں اور وہ شخص کہ جو قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ثواب ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ماہر قرآن وہ شخص ہے جس کو قرآن خوب یاد ہو، اٹکے بغیر پوری روانی سے پڑھتا ہو اور اس کے لیے قرآن پڑھنا کوئی مشکل اور دشوار امر نہ ہو۔ اسی طرح فرشتوں سے وہ فرشتے مراد ہیں جو لوح محفوظ سے اللہ تعالیٰ کی کتابیں نقل کرتے ہیں یا وہ فرشتے بھی مراد ہو سکتے ہیں جو بندوں کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں۔

 اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ ماہر قرآن ان عظیم فرشتوں کے ساتھ ہے بایں طور کہ وہ دنیا میں ان ہی جیسا عمل کرتا ہے اور آخرت میں اسے جو منازل اور درجات عالیہ حاصل ہوں گے ان میں وہ فرشتوں کا رفیق ہو گا۔

 جس شخص کو قرآن اچھی طرح یاد نہ ہو اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہو تو اسے دو ثواب کی بشارت دی گئی ہے ایک ثواب تو پڑھنے کا اور دوسرا ثواب اس مشقت کا جو اسے قرآن پڑھنے میں ہوتی ہے اس طرح گویا قرآن شریف پڑھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص قرآن اٹک اٹک کر پڑھتا ہے وہ ماہر قرآن سے زیادہ ثواب پاتا ہے! کیونکہ ماہر قرآن کو تو بہت زیادہ ثواب ملتا ہے بایں طور کہ ملائکہ مذکورین کی رفاقت جیسی عظیم سعادت کی بشارت دی گئی ہے بہرحال حاصل یہ کہ افضل تو ماہر قرآن ہے لیکن اٹک اٹک کر پڑھنے والے کے لئے بھی باعتبار مشقت ایک طرح کی فضیلت اور ثواب ثابت ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صرف دو اشخاص کے بارے میں حسد جائز ہے ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطا فرمائی اور وہ شخص بعض اوقات کے علاوہ دن رات کے اکثر حصہ میں اس قرآن میں مشغول رہتا ہے دوسرا وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ اس کو دن و رات کے اکثر حصہ میں خرچ کرتا ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حسد کے معنیٰ ہیں دوسرے سے نعمت کے زوال اور اپنے لئے اس نعمت کے حصول کی تمنا کرنا چنانچہ حضرت میرک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حسد کی دو قسمیں ہیں (١) حقیق۔ (٢) مجازی۔ حقیقی کا مطلب تو یہی ہے کہ کسی شخص سے نعمت کے زائل ہو جانے کی خواہش و تمنا کرنا حسد کی یہ قسم احکام قرآنی اور تعلیمات حدیث کے پیش نظر تمام علماء امت کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے مجازی کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اپنے لئے اس کے حصول کی خواہش و تمنا کرنا بغیر اس آرزو کے کہ وہ دوسرے شخص سے زائل ہو مجازی حسد کی قسم غبطہ کہلاتی ہے جسے رشک بھی کہا جاتا ہے۔ حسد مجازی یعنی غبطہ (رشک) اگر دنیاوی امور کے سلسلہ میں ہو تو مباح ہے اور اگر دینی امور کے سلسلہ میں ہو تو پھر وہ مستحب ہو گا۔ مثلاً کسی شخص کو مسجد بناتا ہوا دیکھ کر یہ آرزو و خواہش کرے کہ کاش اگر میرے پاس بھی روپیہ ہو تو میں بھی ایسی مسجد بناؤں۔ یہ رشک پسندیدہ ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے۔

 بہرکیف یہاں حدیث میں حسد سے مراد غبطہ ہے مگر اس حدیث میں غبطہ کی اجازت صرف انہیں دو چیزوں میں منحصر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی نعمت ان دو نعمتوں سے بڑھ کر نہیں ہے کہ جس کے حاصل ہونے کی خواہش کی جائے چنانچہ اسی لئے مظہر فرماتے ہیں کہ کسی کے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر ویسی ہی نعمت حاصل ہو جانے کی آرزو و خواہش کرے۔ ہاں اگر وہ نعمت ایسی ہو کہ قرب الٰہی کا ذریعہ بنتی ہو جیسے تلاوت قرآن، صدقہ و خیرات اور ان کے علاوہ دوسری نیکیاں و بھلائیاں تو ایسی نعمت کے حصول کی خواہش و آرزو پسندیدہ ہو گی۔

 قرآن کی نعمت عطا فرمائی، سے مراد یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے اور یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائی چنانچہ اس کو قرآن اس طرح یاد ہو جیسا کہ ہونا چاہئے اس طرح قرآن میں مشغول رہنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتا ہو، اس کے مفہوم و معنی کو یاد کرتا ہو اس کے علم و احکام میں غور و فکر کرتا ہو، یا پھر یہ کہ اس کے امر و نواہی پر عمل کرتا ہو یا اس کو نماز میں پڑھتا ہو۔

قرآن پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کی مثال

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ مسلمان جو قرآن کریم پڑھتا ہے اس کی مثال سنگترے کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی بہت لطیف اور اس کا مزہ بھی بہت اچھا اور وہ مسلمان جو قرآن کریم نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس کا مزہ شیریں ہوتا ہے اور وہ منافق جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن کے پھول کی سی ہے جس میں نہ خوشبو ہے اور اس کا مزہ نہایت تلخ ہے۔ (بخاری و مسلم)

ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ وہ مسلمان جو قرآن کریم پڑھتا بھی ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے تو اس کی مثال سنگترے کی سی ہے اور مسلمان جو قرآن پڑھتا تو نہیں مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال کھجور کی سی ہے۔

 

تشریح

 

 قرآن کریم پڑھنے والا مسلمان سنگترے کی مانند یوں ہوا کہ وہ خوش مزہ اور لطیف تو اس وجہ سے ہے کہ اس میں ایمان کی چاشنی جاگزیں ہوتی ہے اور خوشبو صفت اس لئے ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ لوگ اس کی قرأت و تلاوت سن کر ثواب پاتے ہیں بلکہ اس سے قرآن سیکھتے بھی ہیں۔

قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے والے کے درجہ کی بلندی اور پستی

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب یعنی کلام اللہ کے ذریعہ کتنے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ کتنے لوگوں کو پست کرتا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا درجہ بلند کرتا ہے بایں طور کہ دنیا میں تو اسے عزت و وقار کی زندگی عطا فرماتا ہے اور عقبی میں ان لوگوں کے ساتھ رکھتا ہے جن پر اس نے اپنا انعام کیا ہے اس طرح جو شخص نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے اس کا درجہ پست کر دیتا ہے۔

قرآن سننے کے لئے فرشتوں کا اشتیاق و اژدحام

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت کرتے تھے کہ ایک دن جب کہ وہ (یعنی اسید) رات میں سورہ بقرہ پڑھ رہے تھے ان کا گھوڑا جو ان کے قریب ہی بندھا تھا اچانک اچھلنے کودنے لگا چنانچہ انہوں نے پڑھنا بند کر دیا (تاکہ دیکھیں کیوں اچھل کود رہا ہے) گھوڑے نے بھی اچھل کود بند کر دی۔ (اسید نے یہ سوچ کر کہ یونہی اچھل کود رہا ہو گا) پھر پڑھنا شروع کر دیا گھوڑا بھی پھر اچھلنے کودنے لگا وہ پھر رک گئے تو گھوڑا بھی رک گیا، پھر جب انہوں نے پڑھنا شروع کیا تو گھوڑے نے اچھل کود شروع کی (اب انہیں احساس ہوا کہ گھوڑے کی اچھل کود یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کی خاص وجہ ہے) چنانچہ انہوں نے پڑھنا موقوف کر دیا (اتفاق سے) ان کا بچہ جس کا نام یحییٰ تھا گھوڑے کے قریب ہی تھا انہیں خوف ہوا کہ کہیں گھوڑا (اس اچھل کود میں) اس بچہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچا دے اس لیے وہ اٹھ کر گھوڑے کے پاس گئے تاکہ بچہ کو وہاں سے ہٹا دیں جب انہوں نے بچہ کو وہاں سے ہٹایا اور ان کی نظر آسمان کی طرف اٹھی تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ بادل کی مانند کوئی چیز ہے جس میں چراغ سے جل رہے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو اسید نے یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ابن حضیر تم پڑھتے رہتے۔ اسید نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں گھوڑا یحییٰ کو کچل نہ ڈالے کیونکہ یحییٰ گھوڑے کے قریب ہی تھا چنانچہ جب میں یحییٰ کی طرف پھرا اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی چیز بادل کی مانند ہے جس میں چراغ سے جل رہے ہیں پھر میں تحقیق حال کے لئے اپنے گھر سے باہر نکلا مگر وہ چراغاں مجھے پھر نظر نہیں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جانتے ہو وہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! فرمایا وہ فرشتے تھے جو تمہاری قرأت کی آواز سننے کے لئے قریب آ گئے تھے اگر تم اسی طرح پڑھتے رہتے تو اسی طرح صبح ہو جاتی اور لوگ فرشتوں کو دیکھتے اور وہ فرشتے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوتے۔ اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ بخاری کے ہیں۔ مسلم کی روایت میں فخرجت کے بجائے عرجت فی الجو (یعنی وہ چیز جو زمین و آسمان کے درمیان ہوا میں چڑھ گئی) کے الفاظ ہیں۔

 

تشریح

 

 گھوڑے کی اچھل کود کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت اسید قرآن کریم پڑھ رہے تھے تو قرأت سننے کے لئے فرشتے نیچے آئے تھے اور ان کو دیکھ کر گھوڑا بدکتا اور اچھلتا کودتا تھا اسی وجہ سے جب حضرت اسید تلاوت بند کر دیتے تھے اور فرشتے اوپر چلے جاتے تھے تو گھوڑا بھی اچھل کود سے رک جاتا تھا۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی اقرأ یا ابن حضیر (ابن حضیر تم پڑھتے رہتے) میں لفظ اقرأ کے معنی ابن حجر نے یہ لکھے ہیں کہ اس سورہ کو ہمیشہ پڑھتے رہو جو ایسی عجیب و غریب حالت کے پیش آنے کا سبب ہے اگر آئندہ بھی کبھی اس سورہ کو پڑھنے کے دوران ایسی صورت پیش آئے تو چھوڑنا مت بلکہ پڑھتے رہنا۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس لفظ کا مقصد زمانہ ماضی میں طلب زیادتی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کا مقصد گویا یہ تھا کہ تم نے اس وقت پڑھنا کیوں چھوڑ دیا بلکہ پڑھنے میں اور زیادتی کیوں نہ کی تمہیں چاہئے تھا کہ تم اس صورت میں زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہتے! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کے جواب میں حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا (یعنی یا رسول اللہ میں اس بات سے ڈرا الخ) اس سے بھی یہی مفہوم واضح ہوتا ہے چنانچہ یہاں ترجمہ علامہ طیبی کی وضاحت کے تحت ہی کیا گیا ہے۔

 بادل کی مانند کوئی چیز ہے، وجہ تشبیہ ہے کہ ملائکہ قرآن سننے کے لئے اتنا اژدحام کرتے ہیں کہ کوئی اگر انہیں دیکھے تو ایسا محسوس ہو کہ پردہ کی مانند کوئی چیز ہے جو دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان حائل ہو گئی ہے حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے اسی چیز کو باد سے تعبیر کیا اور اس میں جو چراغ سے جل رہے تھے وہ دراصل ان فرشتوں کے منہ تھے جو چراغ کی مانند روشن و منور تھے۔

تلاوت قران، رحمت کے نزول کا باعث

حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا اس کے قریب ہی اس کا گھوڑا دو رسوں سے بندھا تھا کہ اسے ایک ابر کے ٹکڑے نے ڈھانپ لیا وہ قریب سے قریب ہونے لگا یہاں تک کہ گھوڑے نے اچھل کود شروع کی جب صبح ہوئی تو وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پورا ماجرا کہہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ سکینہ تھی جو قرآن پڑھے جانے کی وجہ سے اتری تھی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 سکینہ کہتے ہیں خاطر جمعی تسکین قلب اور رحمت کو جس کے سبب دل پاکیزہ اور نورانی ہوتا ہے، نفس کی ظلمت ختم ہو جاتی ہے اور حضور ذوق پیدا ہوتا ہے سکینہ اگرچہ غیر مشاہد چیز ہے مگر کبھی کبھی ابر وغیرہ کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔

سورہ فاتحہ کی اہمیت و فضیلت

حضرت سعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلایا، اس وقت میں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر (نماز سے فارغ ہو کر) جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ (اس وقت) میں نماز پڑھ رہا تھا (اس لیے میں نے آپ کا جواب نہیں دیا تھا) آپ نے فرمایا کہ (کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کا جواب دو جب کہ رسول اللہ تمہیں بلائے اور ان کے حکم کی اطاعت کرو؟ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبل اس کے ہم اس مسجد سے نکلیں کیا میں تمہیں قرآن کی ایک بہت بڑی یعنی افضل سورت نہ سکھلاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے نکلنے کو ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ کیا میں تمہیں قرآن کی ایک بہت بڑی سورت نہ سکھلاؤں؟ آپ نے فرمایا وہ سورت الحمد للہ رب العالمین ہے وہ سات آیتیں ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا فرمایا گیا ہے۔

 

تشریح

 

 ارشاد گرامی استجیبوا (جواب دو) سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کی حالت میں جواب دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی تھی جیسا کہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب کرنے سے نماز فاسد نہ ہوئی۔

 سورہ فاتحہ کو ایک بہت بڑی سورت اس لئے فرمایا کہ وہ اللہ رب العزت کے نزدیک بڑی قدر رکھتی ہے اور الفاظ کے اختصار کے باوجود اس کے فوائد و معانی بہت زیادہ ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے صرف ایک جزء کے تحت دین و دنیا کے تمام مقاصد آ جاتے ہیں بلکہ بعض عارفین نے تو یہ کہا ہے کہ جو کچھ سابق آسمانی کتابوں میں ہے وہ سب قرآن مجید میں ہے اور جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ سب سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ میں ہے۔

 وہ سات آیتیں ہیں۔ جن سے دراصل قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ آیت (وَلَقَدْ اٰتَینٰكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِی وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیمَ) 15۔ الحجر:87) یعنی اے محمد! ہم نے آپ کو وہ سات آیتیں عطا کی ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں یا یہ کہ ان سات آیتوں کی ثنا عطا کی گئی ہے ساتھ فصاحت اور اعجاز کے اور ان سات آیتوں سے مراد سورہ فاتحہ ہے) اور دیا ہے ہم نے آپ کو قرآن عظیم۔ یہاں قرآن عظیم سے بھی سورہ فاتحہ مراد ہے کیونکہ سورہ فاتحہ باعتبار معانی و فوائد کے قرآن کا جزو اعظم ہے اس لئے مبالغہ فرمایا کہ یہ قرآن عظیم ہے۔

سورہ بقرہ کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے گھروں کو مقبرے نہ بناؤ(یاد رکھو) شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مقبرے نہ بناؤ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مقبرے ذکر اللہ عبادت اور تلاوت قرآن سے خالی ہوتے ہیں اس طرح اپنے گھروں کو ان چیزوں سے خالی نہ رکھو کہ ان میں مردوں کی مانند پڑے رہو اور ذکر اللہ وغیرہ نہ کرو بلکہ اپنے گھروں میں نماز بھی پڑھو اور ذکر اللہ میں بھی مشغول رہو اور تلاوت قرآن بھی کرتے رہو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس چیز کی طرف بھی راہنمائی فرمائی جو ذکر و شغل میں افضل اور گھر و گھر والوں کے لئے بہت فائدہ مند ہے کہ وہ تلاوت قرآن کریم ہے۔ فرمایا شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تلاوت قرآن کریم خصوصاً سورہ بقرہ کی تلاوت نہ صرف یہ کہ گھر میں رحمت و برکت کے دروازے کھلنے کا باعث ہے بلکہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایسا گھر شیطان کی نحوست اور اس کے مکر و فریب کے سایہ سے محفوظ رہتا ہے ویسے تو عمومی طور پر تلاوت قرآن کریم باعث رحمت و برکت ہے، مگر اس موقع پر سورہ بقرہ کو بطور خاص اس لیے ذکر فرمایا کہ اس سورت میں اللہ رب العزت کے اسماء اور احکام بہت مذکور ہیں۔

قیامت کے دن قرآن کریم کی سفارش

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا اور (خاص طور پر) جگمگاتی ہوئی دو سورتیں کہ وہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ہیں پڑھو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح ظاہر ہوں گی گویا کہ وہ ابر کی دو ٹکڑیاں ہیں یا دو سایہ کرنے والی چیزیں ہیں یا پرندوں کی صف باندھے ہوئے دو ٹکڑیاں ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف جھگڑیں گے اور سورہ بقرہ پڑھو کیونکہ اس کے پڑھنے پر مداومت اس کے مفہوم و معانی میں غور و فکر اور اس کے حکم پر عمل کرنا برکت (نفع عظیم ہے اور اس کو ترک کرنا قیامت کے دن حسرت یعنی ندامت کا باعث ہو گا اور یاد رکھو کہ سورہ بقرہ کے طویل ہونے کی وجہ سے اس کے پڑھنے کی طاقت وہی لوگ نہیں رکھتے جو اہل باطل اور کسلمند ہوتے ہیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 قرآن کریم پڑھا کرو، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مفہوم و معانی میں غور و فکر کرنے کو نعمت اور اپنے حق میں باعث سعادت جانو اور اس کے پڑھنے پر مداومت اختیار کرو۔

 سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کو جگمگاتی ہوئی سورتیں فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں سورتیں نور و ہدایت اور ثواب کی زیادتی کی وجہ سے روشن ہیں گویا اللہ رب العزت کے نزدیک ان دونوں سورتوں میں اور بقیہ تمام سورتوں میں چاند اور ستاروں کی نسبت ہے کہ یہ سورتیں تو بمنزلہ چاند کے ہیں بنسبت تمام سورتوں کے وہ بمنزلہ تمام ستاروں کے ہیں۔

 قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے حق میں ان سورتوں کی برکات کو متشکل طور پر ظاہر ہونے کو تین صورتوں میں بیان کیا گیا ہے پہلی صورت تو یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ سورتیں قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے گویا ابر کی دو ٹکڑیاں ہوں گی۔ جو میدان حشر میں کھڑے ہوئے ان پر آفتاب کی تمازت اور گرمی سے بچاؤ کے سایہ کریں گی، دوسری صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ یا وہ سایہ کرنے والی دو چیزیں ہوں گی یعنی خواہ وہ ابر کی صورت میں ہوں یا کسی اور شکل میں مفہوم اس کا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں پر سایہ فگن ہوں گے فرق صرف اتنا ہے کہ اس صورت میں ان سایہ دار چیزوں کا دل پہلی صورت کی بہ نسبت کم ہو گا اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے سر سے بالکل قریب ہوں گی جیسا کہ امراء و سلاطین کے سروں پر چھتری وغیرہ کا سایہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس صورت میں ان کے سروں پر سایہ بھی ہو گا اور روشنی بھی ہو گی۔

 تیسری صورت یہ بتائی گئی ہے کہ یا وہ پرندوں کی صف باندھے ہوئے دو ٹکڑیاں ہو گی جن کا سایہ بھی ہو گا اور جو اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اس بات کی وکالت و سفارش کریں گی کہ انہیں آخرت کی تمام ابدی سعادتوں سے نوازا جائے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ کان ہما غمامتان او غیایتان او فرقان من مطیر صواف میں حرف او تنویع (اظہار اقسام) کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تین صورتیں بیک وقت ہوں گی جن کا تعلق اپنے پڑھنے والوں کے حال کی مناسبت سے ہو گا لہٰذا اول یعنی ابر کی صورت کا تعلق اس شخص سے ہو گا جس نے یہ سورتیں پڑھیں مگر ان کے مفہوم و معانی کو نہ سمجھا دوم یعنی سایہ کی چیز کا تعلق اس شخص سے ہو گا جس نے ان سورتوں کو پڑھا بھی اور ان کے معنی بھی سمجھے اور دوسروں کو ان سورتوں کی تعلیم بھی دی۔

قیامت کے دن قرآن کریم کی سفارش

حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن لایا جائے گا قرآن کو اور ان لوگوں کو جو قرآن پڑھتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے سارے قرآن کے آگے دو سورتیں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ہوں گی، اس طرح گویا کہ وہ ابر کے دو ٹکڑے ہیں یا ابر کے دو سیاہ ٹکڑے ہیں اور ان میں ایک چمک ہے یا گویا دو ٹکڑیاں صف بستہ پرندوں کی ہیں جو پڑھنے والوں کی طرف جھگڑیں گی (یعنی اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کریں گی) (مسلم)

 

تشریح

 

 یوتی بالقرآن (لایا جائے گا قرآن کو) کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن یا تو قرآن ہی کو صورت و شکل دے کر میدان حشر میں لایا جائے گا یا اس کا ثواب لایا جائے گا۔

 کانوا یعملون بہ (اور اس پر عمل کرتے تھے) سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص قرآن تو پڑھتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ اہل قرآن میں سے نہیں ہے اور نہ ہی قرآن کریم ایسے شخص کی شفاعت و سفارش کرے گا بلکہ ایسے شخص کے حق میں قرآن خسران کا باعث ہو گا۔ تقدمہ الخ، کا مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کا ثواب سارے قرآن کے ثواب کے آگے ہو گا بعض حضرات فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میدان حشر میں سارے قرآن کو ظاہر صورت شکل دی جائے گی جسے تمام لوگ دیکھیں گے جیسا کہ میدان میں تولنے کے لئے اور تمام اعمال کو صورت دی جائے گی۔

 ظلتان سوداوان (ابر کے دو سیاہ ٹکڑے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ دل دار اور تہ بتہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹکڑے سیاہ ہوں گے ایسے ابر کا سایہ بہت فرحت بخش اور باعث سکون ہوتا ہے۔

 بینہما شرق (اور ان میں ایک چمک ہے) سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اگرچہ ابر کے وہ ٹکڑے بہت زیادہ دلدار ہوں گے مگر اس کے باوجود وہ روشنی سے مانع نہیں ہوں گے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں شرق کے معنی ہیں درز (یعنی دراڑ) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان جو ابر کی دو ٹکڑیوں کی صورت میں ہوں گی بسملہ کے ذریعہ فرقہ ہو گا تاکہ دونوں سورتوں میں امتیاز رہے۔

آیت الکرسی سب سے عظیم آیت ہے

حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ابو المنذر (یہ حضرت ابی بن کعب کی کنیت ہے) کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے نزدیک کتاب اللہ کی کون سی آیت سب سے عظیم ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی سب سے زیادہ جاننے والے ہیں (کہ وہ کون سی آیت ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر پوچھا کہ ابوالمنذر تم جانتے ہو کہ تمہارے نزدیک کتاب اللہ کی کون سی آیت سب سے عظیم ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ  ۚ اَلْحَی الْقَیوْمُ) 2۔ البقرۃ:255) (یعنی پوری آیت الکرسی) حضرت ابی بن کعب کہتے ہیں کہ (یہ سن کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ ابوالمنذر خدا کرے تمہارا علم خوشگوار ہو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 جب پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کر دیا پھر جب دوسری مرتبہ آپ نے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا اس بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ تو از راہ ادب جواب نہیں دیا دوسری مرتبہ جب آپ نے پھر پوچھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوال کے پیش نظر جواب دیا گویا اس طرح انہوں نے بڑے لطیف انداز میں ادب اور فرمانبرداری دونوں کو جمع کر دیا۔ جیسا کہ اہل کمال کا طریقہ ہے مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو جواب کا علم نہیں تھا مگر دوسری مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر سوال کا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا اس کے سوال کی مدد سے تفویض کی برکت اور حسن ادب کے سبب سوال کا جواب ان پر منکشف کر دیا گیا چنانچہ انہوں نے جواب دیا۔

آیت الکرسی کو سب سے عظیم اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں توحید،تعظیم الہیٰ،اسماء حسنیٰ اور صفات باری تعالیٰ جیسے عظیم و عالی مضامین کا بیان ہے۔

آیۃ الکرسی کو سب سے عظیم اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں توحید، تعظیم الٰہی، اسماء حسنی اور صفات باری تعالیٰ جیسے عظیم و عالی شان مضامین کا بیان ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کی زکوٰۃ (یعنی صدقہ عید الفطر) کی نگہبانی اور جمع کرنے پر مجھے مامور فرمایا تاکہ جمع ہونے کے بعد آپ اسے فقراء میں تقسیم فرما دیں چنانچہ اس دوران میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دامن اور اپنے برتن میں غلہ بھرنا شروع کر دیا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے چلوں گا اور تجھے اس غلط حرکت کی سزا دلواؤں گا اس نے کہا کہ میں ایک محتاج ہوں میرے اوپر میرے اہل و عیال کا نفقہ ہے اور میں سخت حاجتمند ہوں یعنی میرے ذمہ قرض وغیرہ بھی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی یہ خستہ حالت سن کر اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے فرمانے لگے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمہارے گزشتہ رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ (اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس واقعہ کی خبر دے دی تھی) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے اپنی سخت حاجت اور عیال داری کا رونا رونے لگا اس لیے مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خبردار رہنا! اس نے اپنے حالات کے اظہار میں تم سے جھوٹ بولا ہے وہ پھر آئے گا اس لئے آئندہ احتیاط رکھنا میں سمجھ گیا کہ ضرور آئے گا چنانچہ میں اس کا منتظر رہا وہ آیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے غلہ بھرنا شروع کر دیا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب تو میں تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے جاؤں گا اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دیجئے میں ضرورت مند ہوں میرے اوپر کنبہ کا نفقہ ہے اب آئندہ میں نہیں آؤں گا مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور اس مرتبہ میں نے یہ سلوک اس لیے کیا کہ اس نے آئندہ نہ آنے کا وعدہ کیا تھا ورنہ تو اپنی حاجت و ضرورت کے بارے میں اس کا جھوٹ مخبر صادق یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی معلوم ہو ہی چکا تھا۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے پھر فرمایا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمہارے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ میرے سامنے اپنی شدید ضرورت و حاجت اور عیالداری کا دکھڑا رونے لگا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اس کے اس وعدہ پر کہ آئندہ پھر کبھی نہیں آؤں گا اس کو چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہوشیار رہنا! اس نے اس مرتبہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ میں آئندہ نہیں آؤں گا وہ پھر آئے گا چنانچہ میں اس کا منتظر رہا اور وہ پھر آیا جب اس نے غلہ بھرنا شروع کیا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں آج تو تجھے ضرور ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے جاؤں گا یہ آخری تیسرا موقع ہے تو نے تو کہا تھا آئندہ نہیں آؤں گا اسی لئے میں نے تجھے اس مرتبہ چھوڑ دیا تھا مگر تو پھر آ گیا۔ اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے نفع پہنچائے گا (اور وہ یہ کہ) جب تم (سونے کے لیے) اپنے بستر پر جاؤ تو آیت الکرسی کی آخری آیت (یعنی وہوم العلی العظیم) 2۔ البقرۃ:255) پڑھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک نگہبان فرشتہ رہا کرے گا اور صبح تک تمہارے پاس کوئی شیطان خواہ وہ انسان میں سے ہو یا جنات میں سے دنیوی تکلیف و اذیت پہنچانے کے لئے نہیں آئے گا، میں نے یہ سن کر اسے اس مرتبہ بھی چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے پھر فرمایا کہ تمہارے قیدی کا کیا ہوا، میں نے عرض کیا کہ قیدی نے (جب) مجھ سے یہ کہا کہ وہ مجھے کچھ کلمات سکھائے گا جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے گا (تو میں نے اس مرتبہ بھی اس کو چھوڑ دیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگاہ رہو (اگرچہ) اس نے تم سے (ان کلمان کے بارے میں) سچ کہا ہے (مگر) وہ (دوسری باتوں میں) جھوٹا ہے اور تم جانتے ہو کہ تم ان تین راتوں میں کس سے مخاطب تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شیطان تھا (جو اس طرح مکر و فریب سے صدقات کے مال میں کمی کرنے آیا تھا)۔ (بخاری)

سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتوں کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے (یعنی جبرائیل نے) اوپر کی طرف دروازہ کھلنے کی سی آواز سنی چنانچہ انہوں نے اپنا سر اوپر اٹھا لیا اور کہا کہ یہ آسمان کا دروازہ کھولا گیا آج کے علاوہ اور کبھی یہ نہیں کھولا گیا۔ جب ہی اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا حضرت جبرائیل نے کہا کہ یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا ہے۔ پھر اس فرشتے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا اور کہا کہ خوشخبری ہو کہ آپ کو وہ دو نور عطا فرمائے گئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے اور کسی نبی کو نہیں دئیے گئے اور وہ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کا آخری حصہ ہیں ان میں سے آپ کی طرف پڑھے گئے ایک ایک حرف کے عوض آپ کو ثواب ملے گا یا آپ کی دعا قبول کی جائے گی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 فنزل منہ اس دروازہ سے ایک فرشتہ اترا۔ یہ راوی کے الفاظ ہیں نہ کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس طرح سنا۔ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کے آخری حصہ کو دو نور سے تعبیر کیا گیا ہے اور ان کو نور کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورۃ اور آیتیں قیامت کے دن روشنی کی شکل میں ہوں گی جو اپنے پڑھنے والوں کے آگے چلیں گی۔ سورہ بقرہ کا آخری حصہ سے کہاں سے کہاں تک کی آیتیں مراد ہیں تو اس سلسلہ میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ  ۚ اَلْحَی الْقَیوْمُ) 2۔ البقرۃ:284) سے آخر سورہ تک۔ سورہ بقرہ کا آخری حصہ مراد ہے چنانچہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے۔

 ایک ایک حرف میں حرف سے مراد کلمہ (آیت یا آیت کا ٹکڑا) ہے۔ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتوں میں دو قسم کے کلمات ہیں ایک قسم تو وہ جو دعا پر مشتمل ہیں جیسے آیت (اہدنا الصراط المستقیم) یا غفرانک ربنا اور دوسری قسم وہ ہے جو فقط حمد ثناء پر مشتمل ہے لہٰذا جب وہ کلمہ یعنی آیت یا آیت کا ٹکڑا پڑھا جائے گا جو دعائیہ ہے تو پڑھنے والے کو وہ چیز ضرور عطا کی جائے گی جو اس کلمہ میں مذکور ہے اسی طرح جب وہ کلمہ پڑھا جائے گا جو حمد و ثناء پر مشتمل ہے تو اس کو وہی ثواب دیا جائے گا جو قرآن کے حرفوں پر ملتا ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں یعنی (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ  ۣلَا نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیكَ الْمَصِیرُ  ٢٨٥  لَا یكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَهَا  ۭ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیهَا مَا اكْتَسَبَتْ  ۭرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِینَآ اَوْ اَخْطَاْنَا  ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَینَآ اِصْراً كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا  ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَاعْفُ عَنَّا   ۪ وَاغْفِرْ لَنَا   ۪ وَارْحَمْنَا   ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْكٰفِرِینَ   ٢٨٦ۧ)  2۔ البقرۃ:285۔ 286) سے آخر تک پڑھتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کافی ہیں کا مطلب یہ ہے کہ وہ رات میں ان آیتوں کے پڑھنے کی وجہ سے انسان و جنات کے شرارت و ایذاء سے محفوظ رہتا ہے گویا یہ آیتیں اس کے لئے دافع شر و بلا ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ یہ دو آیتیں اس کے حق میں قیام لیل و عبادت و ذکر کے لئے شب بیدار کا قائم مقام بن جاتی ہیں۔

سورہ کہف کی پہلی دس آیتوں کو یاد کر لینے کا اثر

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سورہ کہف کی پہلی دو آیتیں یاد کرے تو وہ دجال کے شر سے بچایا جائے گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 دجال سے مراد یا تو وہ دجال ہے جو آخری زمانہ میں قیامت کے قریب پیدا ہو گا اور لوگوں کو اپنے مکر و فریب میں پھانسے گا یا پھر ہر وہ جھوٹا اور فریبی مراد ہے جو اپنے جھوٹ و فریب سے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔

 ترمذی کی روایت میں جو آگے دوسری فصل میں آئے گی یہ منقول ہے کہ جس شخص نے سورہ کہف کی اول تین آیتیں پڑھیں تو وہ فتنہ دجال سے بچایا جائے گا اگر وہ اس سے ملے گا اور جو شخص تین آیتیں پڑھے گا تو وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا اگر وہ اس سے نہیں ملے گا۔

 حاصل یہ کہ دجال کا فتنہ اس کی ملاقات کی صورت میں زیادہ سخت ہو گا بہ نسبت اس فتنہ کے جو عدم ملاقات کی صورت میں ہو گا لہٰذا جو شخص دس آیتیں یاد کرے گا تو وہ فنتہ ملاقات سے محفوظ ہو گا جو شخص تین آیتیں پڑھے گا تو وہ اس فتنہ سے محفوظ رہے گا جس میں لوگ دجال سے ملے بغیر گرفتار ہوں گے۔

قل ہو اللہ کی فضیلت

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ تہائی قرآن کیسے پڑھا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آیت (قل ھو اللہ احد) تہائی قرآن کے برابر ہے۔ (جس شخص نے رات میں یہ سورۃ پڑھ لی گویا اس نے تہائی قرآن پڑھ لیا) (مسلم) امام بخاری نے اس روایت کو ابوسعید سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 قرآن کریم میں بنیادی طور پر تین قسم کے مضمون مذکور ہیں (١) قصص۔ (٢) احکام (٣) توحید، چونکہ سورہ آیت (قل ھو اللہ احد) میں باری تعالیٰ کی توحید نہایت اونچے اور بلیغ انداز میں بیان ہے یا یوں کہئے کہ پورے قرآن مجید میں توحید کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے سورہ آیت (قل ھواللہ احد) اس کا خلاصہ اور حاصل ہے اس لئے سورہ قل ہواللہ پڑھنا تہائی قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔

 اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ آیت (قل ہو اللہ احد) کا ثواب تہائی قرآن کے اصل ثواب کے بقدر مضاعف کیا جاتا ہے (یعنی بڑھایا جاتا ہے) اس طرح ان دونوں اقوال میں ایک لطیف فرق پیدا ہو گیا ہے پہلے قول اور پہلی وضاحت کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص سورہ قل ھو اللہ تین مرتبہ پڑھے تو یہ لازم نہیں آتا کہ اسے پورے قرآن کا ثواب ملے جب کہ دوسرے قول کے مطابق قل ہواللہ تین مرتبہ پڑھنے سے ایک پورے قرآن کا اصل ثواب حاصل ہو جاتا ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو امیر بنا کر ایک لشکر کے ساتھ بھیجا وہ شخص نماز میں اپنے رفقاء کی امامت کرتا تھا اور (اس کا معمول تھا کہ اپنی قرأت) قل ہواللہ پر ختم کرتا تھا جب وہ لشکر کے لوگ واپس آئے تو انہوں نے اس کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اس شخص سے دریافت کرو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ یہ اس لئے کرتا ہوں کہ اس سورۃ میں رحمن اللہ تعالیٰ کی صفت (وحدانیت) بیان کی گئی ہے اور میں اسے پسند کرتا ہوں کہ (اللہ کی صفت وحدانیت کے اظہار کے پیش نظر) اس سورہ کو ہمیشہ پڑھتا رہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اس شخص کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے (کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو دوست رکھتا ہے) (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 قل ہواللہ پر ختم کرتا تھا، کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر نماز کی آخری رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ قل ہواللہ پڑھا کرتا تھا لیکن علامہ ابن حجر نے اس کی وضاحت یہ کی ہے کہ وہ شخص ہر رکعت میں سورہ فاتحہ یا سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کے بعد قل ہواللہ پڑھتا تھا، اس سلسلہ میں پہلی وضاحت ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں تمام علماء کے نزدیک نماز بلا کراہت ادا ہو جاتی ہے۔

 

 

 

٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا ہے کہ یا رسول اللہ! میں اس سورہ یعنی قل ہواللہ کو دوست رکھتا ہوں (یعنی اسے اکثر پڑھتا رہتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کہ اس سورۃ سے تمہاری دوستی تمہیں جنت میں داخل کرے گی۔ (ترمذی) امام بخاری نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے۔

معوذتین کی فضیلت

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج کی رات ایسی عجیب آیتیں اتاری گئی ہیں کہ (پناہ طلب کرنے کے سلسلہ میں) ان کا کوئی جواب نہیں ہے اور وہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ہیں۔ (مسلم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں قل ہواللہ اور معوذتین پڑھ کر اپنے بدن پر دم کرتے تھے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزانہ رات میں جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو (سونے سے پہلے) اپنے دونوں ہاتھ ملا کر ان پر دم کرتے اور پھر ان پر قل ہواللہ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے اور پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے جسم پر جہاں تک ہو سکتا پھیرتے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھ پھیرنا، اپنے سر، منہ اور بدن کے آگے کے حصہ سے شروع کرتے (اس کے بعد بدن کے دوسرے حصوں پر پھیرتے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ عمل (یعنی پڑھنا، دم کرنا اور بدن پر دونوں ہاتھوں کا پھیرنا) تین مرتبہ کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ہاتھوں پر دم تو پہلے کرتے تھے اور پڑھتے بعد میں تھے، چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ طریقہ اس لیے اختیار فرماتے تھے تاکہ ساحروں کی مخالفت ظاہر ہو کیونکہ وہ پہلے پڑھتے ہیں اور بعد میں دم کرتے ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے دم کرنے کا ارادہ کرتے پھر پڑھتے اور اس کے بعد دم کرتے وسنذکر حدیث ابن مسعود لما اسری برسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فی باب المعراج ان شاء اللہ تعالیٰ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث لما اسری برسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انشاء اللہ تعالیٰ ہم معراج کے باب میں ذکر کریں گے۔

قیامت کے دن عرش کے نیچے تین چیزیں ہوں گی

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن عرش کے نیچے تین چیزیں ہوں گی ایک تو قرآن جو بندوں سے جھگڑے گا اور قرآن کے لئے ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ عرش کے نیچے دوسری چیز امانت ہو گی تیسری چیز جو پکارے گی، خبردار ! جس شخص نے مجھے بلایا (یعنی میرے حق کی رعایت کی بایں طور کہ میرے احکام کی فرمانبرداری کا جو حق اس پر ہے اس کو ادا کیا) تو اللہ تعالیٰ اسے بھی (اپنی رحمت کے ساتھ) ملائے گا اور جس شخص نے مجھے توڑا (یعنی میرے حق کو ادا نہیں کیا) توا للہ تعالیٰ بھی اس شخص کو توڑے گا (یعنی اس پر رحمت خاص متوجہ نہ ہو گی)۔ (شرح السنہ)

 

تشریح

 

 عرش کے نیچے تین چیزیں ہوں گی سے دراصل اس بات کی طرف کنایہ ہے کہ قیامت کے روز ان تین چیزوں کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کمال قرب و اعتبار حاصل ہو گا اور حق سبحانہ و تعالیٰ ان کے حق کو اور ان کے ثواب کو جو ان کے اختیار کرنے والوں کو ملے گا ضائع نہیں کرے گا۔

 بندوں سے جھگڑے گا کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں قرآن کی تعظیم نہ کی ہو گی اور اس پر عمل نہ کیا ہو گا قیامت کے روز قرآن کریم ان سے جھگڑے گا یعنی ان کو سزا دلوائے گا اور جن لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں قرآن کریم کی تعظیم بھی کی ہو گی اور اس پر عمل بھی کیا ہو گا تو قرآن ان کی طرف سے جھگڑے گا یعنی بارگاہ رب العزت میں ان کی طرف سے وکالت اور اس کی شفاعت کرے گا۔

 قرآن کے لئے ظاہر بھی ہے کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم میں احکام وغیرہ بیان کئے گئے ہیں ان کے معنی بالکل ظاہر اور واضح ہیں جن کو اکثر لوگ سمجھتے ہیں ان میں کسی غور و فکر اور تامل کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح باطن کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے کچھ معنی ایسے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے غور و فکر اور تفسیر و تامل کی ضرورت ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ ان معنی کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا بلکہ خواص اور علماء ہی سمجھتے ہیں اس ارشاد گرامی سے گویا اس طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ قرآن پر عمل نہیں کرتے ان سے قیامت کے روز قرآن کے بارے میں ہر شخص کی سمجھ اور اس کے علم کے بقدر ہی مواخذہ ہو گا امانت سے حقوق اللہ اور حقوق العباد مراد ہیں کہ جن کی ادائیگی لازم ہے۔

قرآن کو ترتیل سے پڑھنے کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور (بہشت کے درجوں پر) چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا پس تیری منزل اس آخری آیت پر ہو گی جسے تو پڑھے گا۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 صاحب قرآن سے مراد وہ شخص ہے جو قرآن کریم کی ہمیشہ تلاوت بھی کرتا رہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہو، وہ شخص مراد نہیں ہے جو تلاوت تو کرتا ہے مگر اس پر عمل نہ کرے بلکہ پہلے بتایا بھی جا چکا ہے کہ ایسا شخص کسی جزاء اور انعام کا مستحق تو کیا ہو گا، الٹا قرآن کی لعنت میں گرفتار ہو گا کیونکہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے، مگر اس پر عمل نہیں کرتا قرآن اس پر لعنت کرتا ہے۔

 اس سلسلہ میں ایک یہ روایت پیش نظر رہنی چاہئے کہ جس شخص نے قرآن پر عمل کیا اس نے گویا ہمیشہ قرآن پڑھا اگرچہ حقیقت میں نہ پڑھا ہو اور جس شخص نے قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے گویا قرآن پڑھا ہی نہیں اگرچہ حقیقت میں پڑھا ہو، حاصل یہ کہ قرآن کی محض تلاوت ہی کافی نہیں ہے بلکہ بنیادی چیز قرآن پر عمل کرنا ہے۔

 پڑھتا جا اور چڑھتا جا۔ یعنی قرآن کریم پڑھتا جا اور پڑھی ہوئی آیتوں کے بقدر جنت کے درجات پر چڑھتا جا جتنی آیتیں تو پڑھے گا اتنے ہی درجات تک تیری رسائی ہو گی، ایک روایت میں منقول ہے کہ قرآن کریم کی جتنی آیتیں ہیں جنت کے اتنے ہی درجات ہیں لہٰذا اگر کوئی شخص پورا قرآن پڑھے گا تو وہ جنت کے سب سے اونچے درجات میں سے اس درجہ پر پہنچے گا جس کا وہ اہل اور جو اس کے لائق ہو گا۔

 یہ بات پہلے ہی بتائی جا چکی ہے کہ آداب تلاوت قرآن کریم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور لب و لہجہ کے پورے سکون و وقار کے ساتھ پڑھا جائے۔ چنانچہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو حافظ قرآن کریم ترتیل کے ساتھ پڑھتے ہیں ان کا جنت میں بڑا مرتبہ ہو گا۔

 قرآن کریم کی آیتوں کی تعداد کوفیوں کے اصول کے اعتبار سے جن کا فن قرأت اور اصول ہمارے اطراف میں مروج ہے چھ ہزار دو سو سینتیس ہے اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں مزید تفصیل و وضاحت کے لیے تجوید و قرأت کی کتابوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

قرآن سے خالی دل ویران گھر کی مانند ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا دل قرآن سے خال ہو تو وہ (یا اس کا دل) ویران گھر کی طرح ہے۔ (ترمذی دارمی) امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 گھر کی رونق مکین سے ہے گھر کتنا ہی خوبصورت اور وسیع ہو اگر اس میں کوئی رہنے والا نہ ہو تو اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ گھر کی ویرانی، گھر کی قیمت اور اس کی اہمیت کو عام نظروں سے گرا دیتی ہے، اسی طرح انسان کا معاملہ ہے اگر انسان کا دل ایمان، قرآن کے نور سے خالی ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے چنانچہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن بالکل نہیں جانتا اور نہ اس پر ایمان رکھتا ہے یا قرآن تو جانتا ہو مگر اس پر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ ویران گھر کی طرح ہے اور جو شخص قرآن پڑھنا جانتا ہے اسے پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے نیز اس پر ایمان بھی رکھتا ہے تو اس کا باطن ایمان کے نور سے آباد ہے اب یہ فرق الگ رہا کہ جو شخص تھوڑا جانتا ہو گا اس کا باطن ایمان کی دولت سے تھوڑا آباد ہو گا اور جو شخص بہت جانتا ہو گا اس کا باطن بھی بہت آباد ہو گا۔

مشغولیت قرآن کا اثر

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ جس شخص کو قرآن کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے باز رکھتا ہے تو میں اس کو اس چیز سے بہتر عطا کرتا ہوں جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں اور تمام کلاموں کے مقابلہ میں کلام اللہ کو وہی عظمت و بزرگی حاصل ہے جو اللہ رب العزت کو اس کی تمام مخلوقات پر بزرگی اور برتی حاصل ہے (لہٰذا قرآن کریم میں مشغول رہنے والے کو دوسری چیزوں میں مشغول رہنے والوں پر بھی اسی طرح برتری و بزرگی حاصل ہوتی ہے) (ترمذی دارمی بیہقی) امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

 اللہ رب العزت کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن یاد کرے، اس کے مفہوم و معنی کے سمجھنے اور جاننے اور قرآن کریم میں مذکورہ احکام و ہدایات پر عمل کرنے میں مشغول رہتا ہے اور اس کی یہ مشغولیت اس کو ان اذکار اور دعا سے جو کلام اللہ کے علاوہ باز رکھتی ہیں یعنی وہ قرآن کریم میں مشغولیت کی وجہ سے نہ تو مجھے یاد کرتا ہے اور نہ ہی مجھے سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ دیتا ہوں کیونکہ قرآن کے ساتھ درجہ کی مشغولیت اور انہماک درحقیقت اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ شخص اپنی ہر خواہش اور اپنی ہر طلب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے اس کے کلام پاک ہی سے تعلق قائم کئے ہوئے ہے لہٰذا اس کے اس عظیم جذبہ کے تحت اسے یہ اجر دیا جائے گا۔

 اس موقع پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ حدیث قدسی کے شروع کے الفاظ تو یہ ہیں کہ من شغلہ القراان عن ذکری لہٰذا اس کا تقاضا یہ تھا کہ آخر میں بھی ذکر کرنے اور مانگنے والوں کو بیان کیا جاتا کہ میں اس چیز سے بہتر عطا کرتا ہوں جو ذکر کرنے والوں اور مانگنے والوں کو دیتا ہوں مگر یہاں صرف مانگنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ذکر کرنے والوں کا ذکر نہیں کیا گیا اس کی وجہ یہ کہ ذکر بھی درحقیقت (مانگنا) ہی ہے کیونکہ کریم کی حمد و ثناء اور اس کے ذکر کا مقصود بھی یہی ہوتا ہے کہ مجھے کچھ عطا ہو اس لئے اس ارشاد کے آخر میں بھی مانگنے والوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔

 حدیث کے آخری جملہ و فضل کلام اللہ الخ کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ یہ جملہ قدسی ہی کا تتمہ یعنی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے وہیں یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے اور یہی احتمال زیادہ صحیح ہے۔

قرآن کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا تو اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی ہے جو دس نیکیوں کے برابر ہے (یعنی قرآن کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں) میں یہ نہیں کہتا کہ سارا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے یعنی الم کہنے میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (ترمذی، دارمی اور امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن صحیح غریب ہے)۔

قرآن سرچشمہ ہدایت ہے

حضرت حارث رحمۃ اللہ علیہ جو اعور (یعنی کانی آنکھ والے) تھے راوی ہیں کہ میں ایک دن کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بیکار و لایعنی گفتگو (یعنی قصے کہانیوں) میں مصروف ہیں (اور انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ ترک کی ہوئی ہے) چنانچہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خدمت میں حاضر ہوا ور ان سے اس بارے میں بتایا، انہوں نے فرمایا کیا انہوں نے واقعی ایسا کیا ہے (کہ تلاوت قرآن مجید چھوڑ کر بیکار باتوں میں مصروف ہیں؟) میں نے کہا کہ جی ہاں! انہوں نے فرمایا تو پھر سن لو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خبردار! فتنہ واقع ہو گا (یعنی لوگوں کے دینی افکار و عقائد میں اختلاف ہو گا، اعمال میں سست روی اور گمراہی پیدا ہو گی اور وہ گمراہ لوگ اسلام کے نام پر نت نئے مذاہب و نظریات کی داغ بیل ڈالیں گے) میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم! پھر اس سے نجات پانے کا کیا راستہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کتاب اللہ (یعنی نجات کا راستہ قرآن پر عمل کرنے ہی سے ہاتھ لگے گا) جس میں تم سے پہلے لوگوں (یعنی پچھلی امتوں) کے حالات بھی ہیں اور ان باتوں کی خبر بھی دی گئی ہے جو تمہارے بعد واقع ہونے والی ہیں (یعنی قیامت کی علامات و احوال) اور اس قرآن میں وہ احکام بھی مذکورہ ہیں جو تمہارے درمیان (ضروری) ہیں (یعنی ایمان و کفر، اطاعت و گناہ حلال و حرام اور اسلام کے شرائع نیز آپس کے تمام معاملات وغیرہ کے بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں جو پوری انسانی برادری کے لیے ضروری ہیں) اور (یاد رکھو) وہ قرآن حق و باطل کے درمیان (اپنے احکام کے ذریعہ سے) فرق کرنے والا ہے وہ کوئی بیکار و لایعنی چیز نہیں ہے اور (یہ بھی کان کھول کر سن لو کہ) جس متکبر نے قرآن کو چھوڑ دیا اس کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر ڈالے گا اور جو شخص اس قرآن کے علاوہ (کسی ایسی کتاب و علم سے کہ جو نہ قرآن سے مستنبط ہے اور نہ اسلامی شرائع و نظریات کے مطابق ہے) ہدایت و روشنی چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا وہ قرآن اللہ کی مضبوط سیدھی رسی ہے (یعنی خدا کے قرب اور اس کی معرفت کا سب سے قوی وسیلہ ہے) قرآن با حکمت ذکر اور بیان ہے، قرآن بالکل سیدھا اور صاف راستہ ہے (جس پر چل کر انسان اپنی تخلیق کا حقیقی مقصد پاتا ہے) قرآن وہ سرچشمہ ہدایت ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میں خواہشات انسانی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں اس کی زبان سے اور زبانیں نہیں ملتیں علماء اس سے (کبھی) سیر نہیں ہوتے (یعنی علماء و مفسرین اس کے تمام علوم و معارف پر حاوی نہیں ہوتے) اور قرآن مجید مزاولت (کثرت تلاوت) سے پرانا نہیں ہوتا اور نہ اس کے عجائب تمام ہوتے ہیں قرآن کریم وہ کلام ہے جس کو جنات نے سنا تو وہ ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہہ اٹھے کہ ہم نے قرآن سنا جو ہدایت کی عجیب راہ دکھاتا ہے لہٰذا ہم اس پر ایمان لائے (یاد رکھو) جس شخص نے قرآن کے مطابق کہا اس نے سچ کہا اور جس نے اس پر عمل کیا اسے ثواب دیا جائے گا (یعنی وہی اقوال و نظریات صحیح اور قابل قبول ہیں جو قرآن کے عین مطابق ہیں اسی طرح ہدایت یافتہ بھی وہی شخص ہے جس نے قرآن کو سرچشمہ ہدایت جان کر اس پر عمل کیا) جس شخص نے (لوگوں کے درمیان) قرآن کے مطابق فیصلہ و انصاف کیا اور جس نے (لوگوں کو) اس (پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے) کی طرف بلایا اس کو سیدھی راہ دکھائی گئی ہے (یعنی وہ ہدایت یافتہ ہے)۔ (ترمذی، دارمی اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند مجہول ہے اور اس کے راوی حارث اعور کے بارے میں کلام ہے (یعنی ان کے سچا ہونے میں شبہ کیا جاتا ہے۔

 

 

تشریح

 

 متکبر سے مراد منکر قرآن ہے یعنی وہ شخص جو قرآن پر ایمان نہیں لایا اور نہ اس نے قرآن پر عمل کیا اور ظاہر ہے کہ ایسا بد بخت شخص وہی ہو سکتا ہے جس کے قلب میں غرور تکبر اور تعصب کے جراثیم موجود ہوں۔

 حدیث میں لفظ قصم کے معنی ہیں توڑ ڈالنا اور جدا کر دینا اس لیے اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ جس متکبر نے قرآن چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ اس کی گردن توڑ ڈالے گا لیکن عام طور پر اس کا ترجمہ یہی کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر ڈالے گا۔ کیونکہ مفہوم و حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص قرآن کا انکار کرے گا یا اس پر عمل نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا جس کا مآل کار ہلاکت و تباہی ہے بخلاف اس شخص کے کہ جو قرآن پر ایمان بھی لائے اور اس پر عمل بھی کرے اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے قریب کر دے گا اور اسے اعلیٰ مراتب و درجات عطا فرمائے گا۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے قرآن کی کسی ایسی ایک آیت یا ایک کلمہ پر بھی عمل کرنا چھوڑ دیا جس پر عمل کرنا واجب ہے یا از راہ تکبر اس آیت یا کلمہ کی قرأت نہیں کی تو وہ شخص کافر ہو جاتا ہے ہاں اگر کوئی محض کسل و ضعف یا عجز کی وجہ سے قرآن کی تلاوت چھوڑ دے مگر اس کا قلب قرآن کی عظمت و حرمت کے اعتقاد سے پر ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں البتہ وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔

 خواہشات انسانی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں۔ اس پورے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن کی اتباع کرتا ہے اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر موڑ پر قرآن کی رہنمائی و ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ ہر گمراہی اور ہر ضلالت سے محفوظ رہتا ہے توفیق الٰہی اسے اسی راستہ پر گامزن رکھتی ہے جو حق و ہدایت کی شاہراہ ہوتی ہے۔

 اگر اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہو کہ اہل بدعت اور روافض و خوارج یا موجودہ دور کے دوسرے فرقے وغیرہ بھی تو قرآن ہی سے استدلال کرتے ہیں اور قرآن ہی کی رہنمائی ہی کا دم بھرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ گمراہی سے محفوظ نہیں ہوتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ قرآن سے ان کا استدلال اور قرآن کی رہنمائی کا ان کا دعویٰ حقیقت پر مبنی بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ قرآن سے اس کا استدلال بالکل غلط زاویہ فکر سے ہوتا ہے وہ پہلے تو اپنے خیالات و نظریات کی ایک عمارت بنا لیتے ہیں پھر اس کی مضبوطی و استواری کے لئے قرآن کا سہارا لیتے ہیں اس طرح وہ قرآنی آیات کو ان کے حقیقی مفہوم و معانی سے الگ کر کے اپنے خیالات و نظریات پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اہل حق اپنے خیالات و عقائد کو قرآن کے تابع بناتے ہیں قرآن کی جو واضح ہدایات ہیں ان کی روشنی میں وہ اپنے اعتقادات کو آراستہ کرتے ہیں اس کے برخلاف گمراہ ذہن و فکر کے لوگ قرآن کو اپنے خیالات و نظریات کا تابع بناتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں قرآن سے استدلال کر کے ہی کہتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہوتا ہے۔

 دوسری بات یہ کہ ان لوگوں کی دلیلیں بایں طور بھی کامل نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے ذہن میں یہ گمراہ کن تصور قائم کر ے کہ اصل اور کامل رہنمائی صرف قرآن ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے احادیث اور دیگر ذرائع کو جو قرآن فہمی کے لیے ضروری ہیں بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ قرآن کا حقیقی مفہوم اور اس کا اصل مقصد منشاء احادیث نبوی، اقوال صحابہ اور ارشادات علماء حقانین سے ہی واضح ہو سکتا ہے مگر وہ کرتے یہ ہیں کہ نہ تو ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہیں جس سے کلام اللہ کا مقصد واضح ہوتا ہے اور نہ ان حضرات کے فیوض و اقوال سے استفادہ اور ان کی تقلید کرتے ہیں جو کلام اللہ کے سمجھنے اور اس کے اصل مقصد و منشاء تک پہنچنے میں کامل سمجھے جاتے ہیں مثلاً صحابہ کرام تابعین اور دیگر علماء امت۔

 لہٰذا یہ بات معلوم ہو جانی چاہئے کہ وہ قرآن سے استدلال کرنے اور بزعم خود قرآن کی رہنمائی کرنے کے باوجود گمراہ نہیں ہیں بلکہ ان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ قرآن کی صحیح راہنمائی اختیار نہیں کرتے یا یوں کہئے کہ وہ قرآن کو راہنما اور سرچشمہ ہدایت سمجھ کر نہیں بلکہ اس کو اپنے نظریات و اعتقادات کا تابع بنا کر اختیار کرتے ہیں لہٰذا قرآن کو اختیار کرنے کے باوجود قرآن کی حقیقی منشاء و مقصد اور اس کے اصل مفہوم و معانی تک ان کی رسائی ہی نہیں ہوتی۔

 حاصل یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت اسی وقت کار آمد ہوتی ہے جب کہ ان ذرائع اور وسائل کو پورے قلبی اعتقاد کے ساتھ اختیار کیا جائے جن پر قرآن فہمی موقوف ہے کہ ان کے بغیر نہ تو قرآن کی حقیقی سمجھ میسر آتی ہے اور نہ قرآن کے اصل مفہوم و منشاء تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور وہ احادیث نبوی ہیں اقوال صحابہ ہیں اور ارشادات ائمہ و علماء ہیں اسی لئے حضرت جنید نے کہا ہے کہ  جو شخص قرآن یاد نہ کرے اور احادیث نہ سیکھے اور نہ جانے تو اس کی پیروی نہ کی جائے اور جو شخص ہمارے زمرہ اور ہمارے مسلک میں بغیر علم کے داخل ہوا اور اس نے ہمیشہ اپنے جہل پر قناعت کی تو وہ مسخرہ شیطان ہے کیونکہ ہمارا علم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ساتھ مقید ہے۔

 علامہ طیبی نے حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ہوس یعنی بدعتی اور گمراہ لوگ اس بات پر قادر نہیں ہوتے کہ وہ قرآن کے اصلی معنی و مفہوم میں تغیر و تبدل کر دیں یا اس میں کوئی کجی پیدا کر دیں اس صورت میں لا یزیغ الا ہواء میں بہ کا حرف باء تعدیہ کے لئے ہو گا۔

 اس کی زبان سے اور زبانیں نہیں ملتیں، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم باعتبار الفاظ کے بھی فصاحت بلاغت کا وہ نقطہ عروج ہے کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی فصیح و بلیغ عبارت قرآن کی آیات کا مقابلہ نہیں کر سکتی یا اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت مومنین کی زبانوں پر دشوار و مشکل نہیں ہوتی اگرچہ ان کی زبان عربی نہ بھی ہو کیونکہ قرآن کی تلاوت اور اس کی آیات کی قرأت دلوں پر کیف و انبساط کی وہ فضا طاری کر دیتی ہے کہ زبان عربی سے نآشنا ہونے کے باوجود الفاظ قرآنی ادائیگی میں ذرا بھی ثقل محسوس نہیں کرتی۔ آیت (ولقد یسرنا القرآن للذکر)۔ اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا۔

 علماء اس سے سیر نہیں ہوتے، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علوم و معارف اتنے وسیع اور ہمہ گیر ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے تمام علوم کا احاطہ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے نکات و حقائق کا اس انداز سے ادراک کر سکتا ہے کہ اس کی طلب تحقیق و جستجو کسی مرحلہ پر پہنچ کر رک جائے اور اس کا ادراک سیر ہو جائے جیسا کہ جب کوئی شخص کھانے سے سیر ہو جاتا ہے تو اس کی طلب رک جاتی ہے اور خواہش مزید قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے اس کے برخلاف جب علماء قرآن حقائق و معارف میں سے کسی مفہوم پر مطلع ہو جاتے ہیں تو ان کا اشتیاق اور بڑھ جاتا ہے اور ان کی خواہش تلاش و جستجو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ حاصل شدہ مفہوم سے بھی زیادہ کوئی بات معلوم ہو جائے اسی طرح اس طلب، خواہش اور تلاش و جستجو کی کوئی حد قانع نہیں ہوتی۔

 پرانا نہیں ہوتا، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو بار بار پڑھنے اور کثرت تلاوت کی وجہ سے قرأت قرآن اور اس میں مذکور احوال و احکام سننے کی لذت اور اس کے کیف میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ کوئی شخص جب بھی قرآن پڑھتا ہے یا اس کی قرأت سنتا ہے تو ہر مرتبہ اسے پہلے کے مقابلہ میں زیادہ حلاوت وکیف محسوس ہوتا ہے خواہ اس کے معنی و مفہوم کو سمجھے یا نہ سمجھے۔

قیامت کے دن حافظ و عامل قرآن کے والدین کی تاج پوشی

حضرت معاذ جہنی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قرآن پڑھے اور جو کچھ اس میں مذکور ہے اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی دنیا کے گھروں میں چمکنے والے آفتاب کی روشنی سے اعلیٰ ہو گی اگر بفرض محال تمہارے گھروں میں آفتاب ہو اب تو خود اس شخص کا مرتبہ سمجھ سکتے ہو جس نے قرآن پر عمل کیا۔ (احمد، ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

 من قرأ القرآن کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے خوب اچھی طرح قرآن پڑھا لیکن عطاء طیبی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے قرآن کو یاد کیا۔ گویا ان کے نزدیک یہاں حافظ قرآن مراد ہے۔

 لوکانت فیکم (اگر تمہارے گھروں میں آفتاب ہو) کا مطلب یہ ہے کہ اگر بفرض محال آفتاب آسمان کی بلندیوں سے اتر کر تمہارے گھروں میں آ جائے تو اس کی روشنی بھی قیامت کے دن پہنائے جانے والے تاج کی روشنی کے سامنے ماند ہو گی۔ یہ گویا آفتاب کی روشنی کو بطور مبالغہ فرمایا گیا ہے کہ اگر آفتاب اپنی موجودہ روشنی کے ساتھ تمہارے گھروں کے اندر ہو تو ظاہر ہے کہ اس وقت کی روشنی زیادہ معلوم ہو گی یہ نسب موجودہ صورت کی روشنی کے جب کہ آفتاب گھر سے باہر اور بہت زیادہ بلند ہے۔

 حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن پڑھنے (والے یا حافظ قرآن) اور قرآن پر عمل کرنے والے کے والدین کو عظیم مرتبہ اور نعمت سے نوازا جائے گا تو پھر خود اس شخص کے مرتبہ اور سعادت کا کیا کہنا جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا؟

قرآن کا ایک معجزہ

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر قرآن کو کسی کھال وغیرہ میں رکھ کر اسے بفرض محال آگ میں ڈال دیا جائے تو اس پر آگ اثر انداز نہیں ہو گی۔ (دارمی)

 

 

تشریح

 

 بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں قرآن مجید کا ایک معجزہ تھا کہ اسے اگر کسی کھال وغیرہ میں لپیٹ کر آگ میں ڈالتے تھے تو اس پر آگ اثر انداز نہ ہوتی، یہ ایسا ہے جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام کے زمانہ میں ان کے معجزے ہوا کرتے تھے۔

مگر دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں کھال سے مراد انسان کا قلب اور اس کی کھال و بدن ہے کہ جس شخص کے قلب میں قرآن کی روشنی فروزاں ہو اور وہ قرآن پڑھتا اور اس پر عمل کرتا ہو تو وہ دوزخ کی آگ و عذاب سے محفوظ رہے گا۔

دس عزیزوں کے حق میں حافظ قرآن کی سفارش

حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے قرآن مجید پڑھا پھر اسے یاد کیا اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانا تو اللہ تعالیٰ اسے ابتداء ہی میں جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے ان دس عزیزوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرمائے گا جو مستوجب دوزخ (یعنی فاسق اور مستحق عذاب) ہوں گے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اس کے ایک راوی قوی نہیں ہیں بلکہ روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔

سورہ فاتحہ لا مثال سورہ ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ نماز میں تم کس طرح یعنی کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ایسی سورۃ نہ تو توریت انجیل زبور میں اتاری گئی ہے اور نہ ہی قرآن میں نازل کی گئی ہے سورہ فاتحہ سبع مثانی ہے (یعنی سات آیتیں ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں) اور یہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ ترمذی دارمی نے اس روایت کو ماانزلت سے نقل کیا اور ان کی روایت میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 سبع مثانی اور قرآن عظیم کے بارے میں پہلی فصل کی ایک حدیث کی تشریح میں بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان سے سورہ فاتحہ مراد ہے اس موقع پر ان الفاظ کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے۔

قرآن سیکھنے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا بیان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور پھر اسے پڑھو اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کی مثال جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے ہمیشہ پڑھتا رہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور اس میں مشغولیت یعنی تلاوت وغیرہ کے شب بیداری کرتا ہے اس تھیلی کی سی ہے جو مشک سے بھری ہو جس کی خوشبو تمام مکان میں پھیلتی ہے اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سو رہا یعنی وہ قرآن کی تلاوت قرأت شب بیدار سے غافل رہا یا اس پر عمل نہ کیا اس تھیلی کی سی ہے جسے مشک پر باندھ دیا گیا ہو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

 تعلموا القرآن (قرآن سیکھو) کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنا سیکھو نہ صرف یہ کہ اس کے الفاظ کی ادائیگی سیکھو بلکہ اس کے مفہوم و معانی اور تفسیر کا علم بھی حاصل کرو۔

 حضرت ابومحمد جو نبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا فرض کفایہ ہے نیز مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں فرض قرأت کی بقدر سورتوں یا آیتوں کا سیکھنا ہر مسلمان کے لئے فرض عین ہے۔

 امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ سورہ فاتحہ (یا بقدر قرأت نماز) سے زیادہ قرآن کی آیتوں یا سورتوں کو یاد کرنے میں مشغول ہونا نفل نماز میں مشغولیت سے افضل ہے کیونکہ وہ فرض کفایہ ہے جو نفل نماز سے زیادہ اہم ہے۔ بعض متاخرین علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ حفظ قرآن میں مشغول ہونا ان علوم میں مشغول ہونے سے افضل ہے۔ جو فرض کفایہ ہیں یعنی جن علوم کو حاصل کرنا فرض عین ہے حفظ قرآن میں مشغول ہونا ان کی مشغولیت سے افضل نہیں ہے۔

 مشک سے بھری ہوئی تھیلی کی مثال بایں طور دی گئی ہے کہ قرآن سیکھنے اور پڑھنے والے کا سینہ ایک تھیلی کے مانند ہے جس میں قرآن کریم مشک کی مانند ہے لہٰذا جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس کی برکت اس کے گھر میں پھیلتی اور اس کے سننے والوں کو پہنچتی ہے حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے قرآن سیکھا مگر نہ تو اس نے اسے پڑھا اور نہ اس پر عمل کیا تو قرآن کریم کی برکت نہ اسے پہنچتی ہے نہ دوسروں کو اس لیے وہ مشک کی اس تھیلی کے مانند ہوا کہ جس کا منہ بند کر دیا گیا ہو اور جس کی وجہ سے نہ تو مشک کی خوشبو پھیلتی ہے اور نہ اس سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔

آیت الکرسی اور سورہ مومن کی ابتدائی آیت کی برکت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت حم سے کہ وہ سورہ مومن ہے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی پڑھے تو وہ ان کی برکت شام تک (ظاہری و باطنی آفات و بلاؤں) سے محفوظ رہتا ہے اور جو شخص ان کو شام کے وقت پڑھے تو وہ ان کی برکت سے صبح تک محفوظ رہتا ہے۔ ترمذی، دارمی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 حم سے الیہ المصیر تک سورہ مومن کی یہ ابتدائی آیت یوں ہے۔ آیت (حٰمۗ       ۝ۚ  تَنْزِیلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ      ۝ۙ  غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوْلِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ اِلَیهِ الْمَصِیرُ      ۝) 40۔ غافر:1)۔ اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب و دانا خدا کی طرف سے ہے جو گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا اور سخت عذاب دینے والا ہے اور صاحب کرم ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن لوح محفوظ میں کب لکھا گیا؟

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار برس پہلے کتاب لکھی یعنی لوح محفوظ میں فرشتوں کو لکھنے کا حکم دیا۔ اس کتاب میں سے وہ دونوں آیتیں نازل فرمائیں جن پر سورہ بقرہ کا اختتام ہوتا ہے یعنی آمن الرسول سے آخری سورہ تک یہ آیتیں جس مکان میں تین رات تک پڑھی جاتی ہیں شیطان اس کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا۔ ترمذی، دارمی، امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

سورہ کہف کی ابتدائی تین آیتوں کی برکت

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی تین آیتیں پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 پہلی فصل میں ایک حدیث حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ہی سے نمبر ٧ میں گزری ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا جب کہ یہاں تین آیتوں کو ذکر کیا جا رہا ہے اس حدیث کی تشریح میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے ان دونوں حدیثوں میں ایک مطابقت تو اس موقع پر بیان کی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں ایک دوسری وجہ مطابق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلے تو دس آیتوں کو یاد کرنے پر مذکورہ بالا خاصیت و برکت کی بشارت دی گئی ہو گی پھر بعد میں از راہ وسعت فضل تین آیتوں کے پڑھنے ہی پر یہ بشارت عطا فرمائی گئی۔

قرآن کا دل، سورہ یٰسین

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورہ یٰسین ہے جو شخص یس پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے پڑھنے کی وجہ سے (اس کے نامہ اعمال میں) دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا ثواب لکھتا ہے۔ (ترمذی، دارمی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

تشریح

 

 قرآن کا دل سورہ یٰس ہے یعنی قرآن کے علوم و معارف کا خلاصہ اور اس کا حاصل سورہ یٰس ہے بایں طور کہ اس سورہ میں قیامت کے احوال اور قرآن کے مقاصد اعلیٰ مذکور ہیں۔

سورہ طٰہ اور یٰس کی عظمت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے ہزار برس پہلے سورہ طہ اور سورہ یٰس پڑھی جب فرشتوں نے قرآن (یعنی ان دونوں سورتوں کا پڑھنا) سنا تو کہنے لگے کہ خوش بختی ہو اس امت کے لئے جس پر یہ قرآن (یعنی دونوں سورتیں) اتاری جائیں گی خوش بختی ہو ان دلوں کے لئے جو انہیں قبول کریں گے (یعنی ان کو یاد کریں گے اور ان کی محافظت کریں گے) اور خوش بختی ہو ان زبانوں کے لئے جو انہیں پڑھیں گی۔ (دارمی)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں کو پڑھا کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ان سورتوں کو فرشتوں کے سامنے ظاہر کیا اور ان کے سامنے ان سورتوں کی تلاوت کا ثواب بھی بیان کیا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو یہ سورتیں سکھائیں اور سمجھائیں نیز مذکورہ سورتوں کے معانی و مطالب ان کو الہام کئے۔

 علامہ ابن حجر کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ باقی تمام فرشتوں کے سامنے ان سورتوں اور ان کی فضیلت و عظمت جانیں۔

 فلما سمعت الملائکہ القرآن میں قرآن سے مراد قرأت ہے یعنی ان فرشتوں نے ان سورتوں کا پڑھنا سننا یا کہ قرآن سے مراد بھی سورہ طہ اور سورہ یٰس ہیں کیونکہ جس طرح کلام اللہ کے پورے مجموعہ کا نام قرآن ہے اسی طرح اس کے کسی جزء و حصہ کو بھی قرآن ہی کہا جاتا ہے لہٰذا قرآن جز اور کل دونوں کا نام ہے۔

حم الدخان کی برکت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں حم الدخان (یعنی سورہ دخان) پڑھتا ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ ستر ہزار فرشتے اس کے لئے بخشش کی دعا مانگتے ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس حدیث کے راوی عمر ابن ابی خثعم (روایت حدیث میں) ضعیف شمار کئے جاتے ہیں نیز محمد یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ وہ (عمر بن ابی خثعم) منکر الحدیث ہیں۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کی رات میں حم الدخان پڑھتا ہے اس کی بخشش کی جاتی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور ہشام ابوالمقدام روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔

مسبحات کی فضیلت

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سونے سے پہلے مسبحات پڑھتے تھے کہ ان میں ایک آیت ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے۔ ترمذی، ابوداؤد، نیز دارمی نے اس روایت کو خالد بن معدان سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

 مسبحات ان سورتوں کو کہتے ہیں جن کی ابتداء لفظ سبحان یا سَبَّحَ یا سَبِّحْ یا یُسَبِّحُ سے ہوتی ہے اور وہ سات سورتیں ہیں (١) سبحان الذی اسری بعبدہ الآیہ یعنی سورہ بنی اسرائیل (٢) سورہ حدید (٣) سورہ حشر (٤) سورۃ صف(٥) سورہ جمعہ (٦) سورہ تغابن(٧) سورہ اعلیٰ۔

 ان میں ایک آیت ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے کے بارے میں بعض فرماتے ہیں کہ وہ آیت (لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ) 59۔ الحشر:21) ہے اور دوسرے بعض حضرات کہتے ہیں وہ آیت یہ ہے (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَیءٍ عَلِیمٌ) 57۔ الحدید:3) لیکن حضرت علامہ طیبی کے نزدیک ان سورتوں میں کسی آیت کو متعین کر کے یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ وہ فلاں آیت ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ جس طرح لیلۃ القدر یا ساعت جعمہ (یعنی جمع کے دن ساعت قبولیت) کے بارے میں کوئی تعین نہیں کیا جا سکتا اسی طرح یہ آیت بھی پوشیدہ ہے لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ علامہ طیبی کی بات ہی زیادہ صحیح ہے۔

سورہ ملک کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کریم میں ایک سورۃ ہے جس میں تیس آتیں ہیں اس سورۃ نے ایک شخص کی شفاعت کی یہاں تک کہ اس کی بخشش کی گئی اور وہ سورہ ملک تبارک الذی بیدہ الملک ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

 لفظ شفعت (اس سورۃ نے شفاعت کی) کے معنی میں دو احتمال ہیں ایک تو یہ کہ اس لفظ کے ذریعہ زمانہ ماضی کی خبر دی گئی ہے کہ ایک شخص سورہ تبارک الذی پڑھا کرتا تھا اور اس سورۃ کی بہت زیادہ قدر کیا کرتا تھا چنانچہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس سورۃ نے بارگاہ حق میں اس کی سفارش کی جس کے نتیجہ میں اس شخص کو عذاب سے بچایا گیا۔

 دوسرا احتمال یہ ہے کہ شفعت مستقبل کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ سورۃ پڑھے گا اس کے بارے میں یہ قیامت کے دن شفاعت و سفارش کرے گی اور حق تعالیٰ اس کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔

 

 

٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے ایک شخص نے اپنا خیمہ قبر پر کھڑا کر لیا مگر انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہاں قبر ہے چنانچہ ناگہاں انہوں نے سنا کہ اس (قبر) میں ایک شخص تبارک الذی بیدہ الملک پڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اس نے وہ سورہ ختم کی اس کے بعد خیمہ کھڑا کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ واقعہ بتایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سورۃ ملک منع کرنے والی اور نجات دینے والی ہے یہ سورۃ اپنے پڑھنے والے کو اللہ کے عذاب سے چھٹکارا دلاتی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 جہاں یہ احتمال ہے کہ خیمہ کھڑا کرنے والے نے اس قبر میں مردے کو سورہ ملک پڑھتے ہوئے نیند کی حالت میں سنا ہو وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ جاگنے کی حالت میں سنا ہو بلکہ زیادہ صحیح یہی ہے۔

 سورہ ملک منع کرنے والی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورۃ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے یا گناہوں سے جو کہ عذاب قبر کا باعث بنتے ہیں بچانے والی ہے یا یہ کہ اپنے پڑھنے والے کو اس بات سے محفوظ رکھتی ہے کہ اسے یوم حشر میں کوئی اذیت و رنج نہ پہنچے۔

سونے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول کا وظیفہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم الم تنزیل السجدہ اور تبارک الذی بیدہ الملک پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔ (احمد، ترمذی، دارمی،) امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اسی طرح محی السنۃ نے تو کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن مصابیح میں ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 امام ترمذی کے نزدیک تو یہ حدیث صحیح ہے اسی طرح امام محی السنۃ نے شرح السنۃ میں تو اسے صحیح کہا ہے لیکن مصابیح میں کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے گویا بظاہر ان کے قول میں تضاد نظر آتا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے ان کے قول میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ کسی حدیث کا غریب ہونا اس کے صحیح ہونے کے منافی نہیں ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی حدیث فنی اور اصطلاحی طور پر غریب ہوتی ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ صحیح ہی ہوتی ہے۔

سورہ اذا زلزلت، قل ہواللہ اور قل یا ایہا الکافرون کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورۃ اذا زلزلت آدھے قرآن کے برابر ہے، سورہ قل ہواللہ تہائی قرآن کے برابر ہے اور سورہ قل یا ایہا الکافروں چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 قرآن کریم میں مبدأ اور معاد کو بیان کیا گیا ہے اور چونکہ اذا زلزلت میں معاد کا بہت عمدہ پیرایہ اور موثر انداز میں ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہ سورۃ آدھے قرآن کے برابر ہوئی قل ہواللہ کے تہائی قرآن کے برابر ہونے کی وجہ پہلی فصل کی حدیث نمبر ١٩ کی تشریح میں بیان ہو چکی ہے۔

 قل یا ایہا الکافرون چوتھائی قرآن کے برابر بایں طور ہے کہ قرآن کریم میں توحید، نبوت، احکام اور قصص یہ چار مضمون مذکور ہیں اور قل یا ایہا الکافرون میں توحید کا مضمون بہت اعلیٰ بیان ہے اس لیے یہ سورۃ چوتھائی قرآن کے برابر ہوئی۔

سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کی برکت

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ یہ کہے اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم (میں اللہ تعالیٰ کی جو سننے والا جاننے والا ہے پناہ پکڑتا ہوں مردود شیطان سے) اور پھر سورۃ حشر کی آخری تین آیتیں یعنی (هُوَ اللّٰهُ الَّذِی لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ عٰلِمُ الْغَیبِ وَالشَّهَادَةِ   ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ       22  هُوَ اللّٰهُ الَّذِی لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یشْرِكُوْنَ      23  هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۭ یسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ      24ۧ) 59۔ الحشر:22-23-24) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے متعین کرتا ہے جو اس کے لئے شام تک خیر و بھلائی کی توفیق کی دعا مانگتے ہیں اور اس کے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور اگر وہ شخص اس دن میں مر جاتا ہے تو شہادت کی موت پاتا ہے اور جو شخص اس کو یعنی اعوذ بااللہ الخ اور ان آیتوں کو شام کے وقت پڑھے تو اس صبح تک یہ (مذکورہ بالا سعادت حاصل ہوتی ہے۔ (ترمذی، دارمی) امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

ہر روز دو سو مرتبہ قل ہواللہ پڑھنے کی تاثیر

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر روز دو سو مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھے تو اس (کے نامہ اعمال میں) سے پچاس برس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں الا یہ کہ اس پر دین ہو۔ (ترمذی، دارمی) ایک اور روایت میں (دو سو مرتبہ کی بجائے) پچاس مرتبہ کا ذکر ہے نیز اس روایت میں الا یہ کہ اس پر دین ہو کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔

 

تشریح

 

 الا ان یکون علیہ دین (الا یہ کہ اس پر دین ہو) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہی کہ دین کا گناہ نہیں مٹایا جائے گا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے ذمہ دین کی عدم ادائیگی کا گناہ ہو گا تو اس کے دوسرے گناہ بھی نہیں مٹائے جائیں گے یعنی اس صورت میں اس سورت کی قرأت تاثیر نہیں کرے گی۔ دین سے مراد حقوق العباد (بندوں کے حقوق) ہیں۔

سونے سے پہلے قل ہواللہ احد پڑھنے کی فضیلت

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے بستر پر سونے کا ارادہ کرے اور پھر اپنی داہنی کروٹ پہ لیٹ کر سو مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھے گا تو قیامت کے دن پروردگار اس سے فرمائے گا کہ اے میرے بندے جنت میں اپنی دائیں طرف داخل ہو جا (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے)

 

تشریح

 

 دائیں طرف کروٹ لیٹنا سنت ہے لہٰذا جس شخص نے سوتے وقت دائیں طرف کروٹ پر لیٹ کر قل ہواللہ احد پڑھی تو ایک تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کی دوسرے اس نے ایسی سورت پڑھی جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں اس بناء پر ایسے شخص کو مذکورہ بالا سعادت کی بشارت دی گئی ہے۔

 اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جنت میں جو باغات اور محلات جنت کی دائیں طرف ہیں وہ ان باغات و محلات سے افضل ہوں گے جو جنت کی بائیں طرف ہیں۔

قل ہواللہ احد کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو قل ہواللہ احد پڑھتے سنا تو فرمایا کہ (اس کے لئے) واجب ہو گئی؟ میں نے عرض کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ فرمایا جنت۔ (مالک، ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

 جنت کا واجب ہونا محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے اس وعدے کے سبب ہے جو اس نے اپنے نیک اور اطاعت گزار بندوں کے بارے میں فرمایا ہے۔

قل یا ایہا الکافرون کی فضیلت

حضرت فروہ بن نوفل اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز (یعنی آیت یا سورت) سکھلا دیجئے جسے میں اپنے بستر پر جا کر (یعنی سونے سے پہلے) پڑھ لیا کروں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قل یا ایہا الکافرون پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ سورۃ شرک سے بیزاری ہے (لہذا اسے پڑھ کر سوؤ گے اور مرو گے تو توحید پر مرو گے)۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

قرآن کی خبر گیری کرو

حضرت ابو موسیٰ اشعری راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کی خبر گیری کرو (یعنی قرآن برابر پڑھتے رہو تاکہ بھولو نہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے قرآن سینوں سے اتنی جلدی نکل جاتا ہے کہ اونٹ بھی اتنی جلدی اپنی رسی سے نہیں نکلتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی اگر اونٹ کا نگہبان و مالک اپنے اونٹ کی طرف سے غفلت برتے تو اونٹ رسی سے نکل بھاگتا ہے اسی طرح اگر قرآن کریم برابر نہ پڑھا جاتا رہا تو وہ اونٹ سے بھی جلدی سینہ سے نکل جاتا ہے یعنی جلدی بھول جاتا ہے۔

قرآن کے بارے میں ایک ادب

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ کسی شخص کے لیے یہ بات بری ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں بلکہ وہ اس طرح کہے کہ بھلایا گیا اور قرآن کریم برابر یاد کرتے رہا کرو کیونکہ وہ لوگوں کے دل سے جانوروں سے بھی جلد نکل جاتا ہے (بخاری و مسلم) مسلم کی روایت میں لفظ بعقلہا بھی ہے یعنی ان جانوروں سے بھی جلد جو اپنی رسی جلد اپنی میں بندھے ہوئے ہوں۔

 

تشریح

 

 یہاں ایک ادب سکھایا جا رہا ہے اگر کسی شخص کو قرآن کریم کی کوئی سورت یا آیت یاد نہ رہے تو وہ اس کا اظہار کیونکہ کرے؟ ایسے موقع پر یہ کہنا کہ میں بھول گیا ہوں اس لئے منع ہے کہ اس طرح کہنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے قران پڑھنا چھوڑ دیا اور بے پروائی کے سبب بھول گیا جو ظاہر ہے کہ قرآن کی شان عظمت کے منافی اس طرح کہنا کہ بھلایا گیا ہوں گویا اس سعادت و نعمت کے حصول میں اپنی تقصیر و کوتاہی اور حسرت کا اظہار ہے جو صحیح ہے۔

صاحب قرآن کی مثال

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صاحب قرآن (قرآن پڑھنے والے) کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کے مالک کی سی ہے اگر وہ اس اونٹ کی خبر گیری کرتا ہے تو وہ بندھا اور رکا رہتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ جاتا رہتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم برابر نہ پڑھے اور یاد نہ کرتا رہے تو قرآن اس کے سینہ سے نکل جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

جبت تک دل لگے قرآن پڑھو

حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک کہ تمہارے دل کی خواہش ہو جب آپس میں اختلاف ہو (یعنی زیادہ پڑھنے سے ملال اور دل گرفتگی محسوس ہو) یعنی قرآن پڑھنا موقوف کر دو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ابن ملک کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت و قرأت میں اسی وقت تک مصروف رہنا چاہئے جب تک دل لگے دل نہ لگنے کی صورت میں قرآن کریم نہ پڑھنا بغیر حضور دل کے پڑھنے سے افضل ہے، لیکن یہاں اس حدیث سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ عادی بنے اور اپنے نفس کو ریاضت میں ڈالے تاکہ زیادہ سے زیادہ دیر تک پڑھنے سے طبیعت ملول نہ ہو بلکہ زیادہ خوشی و فرحت محسوس ہو کیونکہ کاہل اور آسودہ دل جو ریاضت کی عادت نہیں ڈالتے جلدی ہی ملول ہو جاتے ہیں چنانچہ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی سپارہ پڑھنے میں اپنی طبیعت پر بار محسوس کرنے لگتے ہیں اور ملول ہو جاتے ہیں جب کہ وہ لوگ جو ریاضت کے عادی ہوتے ہیں ایک سیارہ بلکہ اس سے بھی زیادہ اتنے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھتے ہیں جب کہ نہ تو ان کی طبیعت پر ذرا سا بھی بار ہوتا ہے اور نہ وہ ملول ہوتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی قرأت درازی کے ساتھ ہوتی تھی پھر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ اس طرح بسم اللہ دراز کرتے تھے (یعنی بسم اللہ الہ کے الف کو الف کے مقصود کے بقدر کھینچتے تھے، رحمن کو دراز کرتے تھے (یعنی اس کے الف کو بھی کھینچتے تھے) اور رحیم کو دراز کرتے تھے (یعنی رحیم کی یا کو اصلی یا عرضی مد کرتے تھے۔ (بخاری)

تشریح

 

 آپ کی قرأت درازی کے ساتھ ہوتی تھی۔ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حروف مد اور لین کو بقدر معروف مد کرتے تھے جو ارباب وقوف (یعنی ارباب تجوید) کے قواعد و شرائط کے مطابق ہے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حروف تین ہیں واؤ، الف، یا، چنانچہ اس بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ جب ان کے بقدر ہمزہ ہو تو الف کے بقدر ان کو مد کرنا چاہئے بعض حضرات کہتے ہیں کہ دو الف سے پانچ الف تک کے بقدر مد کرنا چاہئے۔

 بقدر الف سے درازیٕ آواز مراد ہے جب کہ کہا جائے با یا تا۔ اور اگر حروف مد کے تشدید ہو تو بقدر چار الفوں کے مد کرنا چاہئے اتفاقا جیسے دابۃ اور ان کے بعد حرف ساکن ہو تو بقدر دو الفوں کے مد کرنا چاہئے اتفاقا جیسے مار اور یعلمون اور ان کے بعد مذکورہ بالا حروف کے علاوہ حرف ہو تو مد نہیں کرنا چاہئے صرف اسی آواز پر اکتفاء کرنا چاہئے جو اس حرف کے نکلنے کے بقدر ہو جیسے ایاک یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ بسم اللہ میں جو مد ہوتے ہیں وہ سب اسی قبیل سے ہیں۔

خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آواز

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جس طرح پسندیدگی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز کو سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کریم کو خوش گوئی کے ساتھ پڑھتے ہیں اس طرح کوئی اور آواز نہیں سنتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ یوں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز بذات خود ہر بشر کی آواز سے عمدہ اور شیریں ہوتی ہے مگر جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم خوش گوئی یعنی تجوید و ترتیل کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس وقت ان کی آواز کائنات کی ہر آواز سے لطیف و شیریں ہوتی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؟ خدا کا کلام اور خدا کا رسول اسے پڑھ رہا ہو تو ظاہر ہے کہ کائنات کا ایک ایک ذرہ جاندار ہی نہیں غیر جاندار بھی وجد میں آ جاتا ہے اسی بات کو فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ رب العزت اس آواز کو جتنا پسند کرتا ہے اور اسے جس طرح قبول کرتا ہے اس کی یہ پسندیدگی اور مقبولیت کائنات کو کسی بھی ایسی چیز کو حاصل نہیں ہوتی جس میں آواز ہوتی ہے اور جو سنی جاتی ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی بھی چیز کے لئے کان نہیں رکھتا یعنی کسی بھی چیز کی آواز کو قبول نہیں کرتا جیسا کہ وہ قرآن پڑھتے وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوش گوئی کے لئے کان رکھتا ہے یعنی اسے پسند وقبول کرتا ہے جب کہ نبی بآواز بلند قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

قرآن کریم اور خوش گلوئی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص ہمارے کامل طریقہ پر چلنے والا نہیں ہے جو قرآن کریم خوش گوئی کے ساتھ نہ پڑھے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو خوش گوئی اور خوش آوازی کے ساتھ پڑھنا چاہئے بشرطیکہ حروف، حرکات مد، تشدید یا اسی طرح اور کسی چیز میں تغیر پیدا نہ ہو، اسی طرح راگ کے طور پر بھی نہ ہو، بلکہ اس بارے میں تو مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص قصداً قرآن کریم راگ کے انداز میں پڑھے گا وہ فعل حرام کا مرتکب ہو گا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

قرآن کریم کی سماعت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تھے مجھ سے فرمایا کہ میرے سامنے قرآن کریم پڑھو، میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے میں قرآن کریم پڑھوں؟ حالانکہ قرآن کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ پر اتارا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے سے قرآن سنوں! حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا آیت (فَكَیفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِیدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلیٰ هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِیداً) 4۔ النسآء:41) بھلا اس (قیامت کے) دن یہود وغیرہ کا کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ بلائیں گے (یعنی ہر امت کا نبی اس دن اپنی امت کے فعال و احوال کی گواہی دے گا) اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس امت کا گواہ بنا کر بلائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بس اب رک جاؤ(کیونکہ میں اس آیت میں مستغرق ہوتا ہوں) پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مقدار میں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی عرض کہ قرآن آپ پر اتارا گیا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم چونکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا ہے اس لیے قرآن کریم پڑھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا حق ہے اور یہ جس طرح اتارا گیا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے پڑھ سکتے ہیں کسی اور کی کیا مجال کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قرآن کریم پڑھے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی میں اسے پسند کرتا ہوں الخ  کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جب کہ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ میں کسی دوسرے سے قرآن سنوں اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں عارف پر حالت سکون طاری ہوتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے من عرف اللہ کل لسانہ (یعنی جس نے اللہ کو پہچانا اس کی زبان خاموش ہو گئی) اس کے برخلاف عارف کی ایک اور حالت ہوتی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ من عف اللہ طال لسانہ یعنی جس نے اللہ کو پہچانا اس کی زبان کھل جاتی ہے۔

 حاصل یہ ہے کہ بعض وقت تو عارف حالت تحیر و استغراق میں ہوتا ہے کہ سکونت اختیار کرتا ہے اور بعض وقت ہوشیار رہتا ہے کہ اس وقت وہ حقائق و معارف وغیرہ بیان کرتا ہے۔

 دوسرے سے قرآن سننے میں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ قرآنی آیات کے مفہوم و معانی خوب اچھی طرح سمجھ میں آتے ہیں غور و فکر اور محویت کمال درجہ کی حاصل ہوتی ہے۔

 سورہ نساء کی حدیث میں مذکورہ آیت کا مقصد چونکہ قیامت کے دن کو یاد دلانا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن کی ہولناکی اور اپنی امت کے ضعف کا خیال کر کے روئے، یہ اس بات کی بیّن علامت اور دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی امت پر بڑے شفیق و عنایت فرما ہیں۔ صلی اللہ علیہ الف الف صلوۃ کلما ذکرہ الذاکرون وکلما غفل عن ذکر الغافلون۔

حضرت ابی بن کعب کی سعادت

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام آپ کے سامنے لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دونوں جہاں کے پروردگار کے ہاں میرا ذکر کیا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے سورہ لم یکن الذین کفروا پڑھو۔ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں۔ (یہ سنتے ہی حضرت ابی رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں سب سے بڑے قاری تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے اسی امتیاز و شرف کو صحابہ کے سامنے اسی طرح بیان کیا کہ اقرأکم (تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں)

 حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے قول اللہ سمانی لک کا مطلب یہ تھا کہ کیا خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے میرا ہی نام لیا ہے اور انہوں نے یہ بات اپنی عاجزی و انکساری کے اظہار اور اپنی گمنامی کی وجہ سے کہی کہ میں اس لائق کہاں ہوں کہ پروردگار بطور خاص میرا نام لے کر آپ کو حکم دے یا پھر انہوں نے یہ بات از راہ ذوق و لذت کے کہی اور اپنی اس عظیم سعادت و شرف کا اظہار کیا کہ خدا نے مجھے یہ عظیم مرتبہ بخشا۔

 یہ عظیم شرف سن کر حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا خوشی کی وجہ سے تھا ایسی خوشی جو حقیقی عاشق کو محبوب کے وصال اور محبوب کی کرم فرمائی کے وقت حاصل ہوتی ہے ایسی صورت میں قلب کا حزن و ملال سکون پا کر آنکھوں کی راہ سے نکل پڑتا ہے۔

 خاص طور پر سورہ لم یکن ہی کو پڑھنے کا حکم اس لئے ہوا کہ یہ سورہ الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر بھی ہے اور اس میں فوائد بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ اس سورۃ میں دین کے اصول، وعد وعید اور اخلاص وغیرہ کے اعلیٰ مضامین مذکورہ ہیں۔

 اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہر قرآن اور اہل علم وفضل کے سامنے قرآن پڑھنا مستحب ہے اگرچہ قاری سننے والے سے افضل نہ ہو۔

دارالحرب میں قرآن لے جانے کی ممانعت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دشمن ملک یعنی دارالحرب کی طرف قرآن لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ فرمایا قرآن لے کر سفر نہ کرو اس لیے کہ مجھے یہ اطمینان نہیں ہے کہ دشمن اسے چھین لے اور پھر وہ اس کی بے حرمتی کرے۔

 

تشریح

 

 یہاں ایک بڑا لطیف اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں قرآن کریم مصحف میں تو لکھا ہوا تھا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کیسے فرمایا کہ قرآن لے کر سفر نہ کیا جائے؟

 اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اگرچہ پورا قرآن مصحف میں لکھا ہوا نہیں تھا مگر پھر بھی جو کچھ نازل ہوتا تھا اسے لوگ اپنے اپنے صحیفوں میں لکھ لیتے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ قرآن ہی کے حکم میں تھا۔ یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات بطور پیش گوئی فرمائی کہ میرے بعد جب قرآن کریم کو مکمل طور پر یک جا جمع کر کے مصحف کی شکل دے دی جائے تو اسے لوگ لے کر کفار کے ملک میں نہ جائیں کہ مبادا وہ کفار کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس کی بے حرمتی کریں۔

 بعض علماء فرماتے ہیں کہ دارالکفر میں اپنے ساتھ قرآن لے جانا مکروہ ہے نیز مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کافر کو کوئی خط وغیرہ لکھے تو اس میں آیت لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہرقل کو جو مکتوب بھیجا تھا اس میں یہ آیت (تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَینَنَا وَبَینَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیٔاً وَّلَا یتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ  ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ) 3۔ آل عمران:64) لکھی تھی۔

غرباء مہاجرین کو بشارت

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ خدری کہتے ہیں کہ میں ایک دن غرباء مہاجرین (یعنی اصحاب صفہ) کی ایک جماعت کے درمیان بیٹھا تھا ان میں سے کچھ ننگے بدن ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص ہمارے سامنے قرآن پڑھ رہا تھا کہ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو گئے پڑھنے والے نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھڑے ہوئے دیکھا تو وہ چپ ہو گیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم کتاب اللہ سن رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے میری امت میں وہ لوگ پیدا کئے جن کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کے ساتھ بیٹھوں۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان بیٹھ گئے (یعنی کسی خاص شخص کے پہلو میں نہیں بیٹھے) تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس کا تعلق ہم سب کے ساتھ یکساں رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انگلی سے اس طرح اشارہ کیا (کہ حلقہ بنا کر بیٹھ جاؤ) سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور ان سب کے منہ آپ کی طرف ہو گئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے مہاجرین کے مفلس گروہ تمہیں خوش خبری ہو اس بات کی کہ قیامت کے دن تمہیں بھر پور نور حاصل ہو گا اور تم دولت مند طبقے سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہو گئے اور آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہو گا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 وان بعضہم الخ کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنے ساتھی کی بہ نسبت کم کپڑا تھا وہ اپنے اس ساتھی کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا تاکہ کپڑا کم ہونے کی وجہ سے اس کا بند نظر نہ آ  سکے، چنانچہ ننگے بدن سے مراد ستر کے علاوہ جسم کے بقیہ حصہ کا کپڑے سے عاری ہوتا ہے اور ستر کے علاوہ جسم کے بقیہ حصہ کو بھی عام نظروں سے بچانے کی وجہ نہ صرف یہ ہے کہ ان مقدس ہستیوں کا کمال شرم و حیاء کے درجہ پر ہونا تھا بلکہ یہ بات انسانی آداب و معاشرت کے خلاف ہے کہ جسم کے اس حصہ کو عام نظروں میں کھلا رہنے دیا جائے جو عام طور پر کھلا نہیں رہتا۔

 اس صورت حال کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صحابہ کی اس مقدس جماعت کے فقر و افلاس کا اظہار ہے کہ وہ اپنے بدن کو چھپانے کے لئے پورے طور پر کپڑا بھی نہیں رکھتے تھے اسی لئے وہ مجلس میں ایک دوسرے سے مل کر بیٹھتے تھے تاکہ ایک طرح کی پوشیدگی حاصل ہو جائے۔

 اس وقت آپ نے ہمیں سلام کیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص قرآن پڑھ رہا ہو اسے سلام نہ کرنا چاہئے جب وہ خاموش ہو جائے اس وقت سلام کیا جائے جیسا کہ فقہ کا مسئلہ ہے اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن پڑھنے والے کو سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔

 صحابہ کو قرآن کی سماعت میں مشغول دیکھنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے یہ بات کی کہ تم کیا کر رہے ہو۔ جان بوجھ کر اس لئے پوچھی تاکہ ان کا جواب سن کر انہیں یہ عظیم بشارت و خوشخبری سنائیں۔

 امرت ان اصبر نفسی الخ اس آیت کریمہ طرف اشارہ ہے۔ آیت (وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِینَ یدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِی یرِیدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَینٰكَ عَنْهُمْ  ۚ تُرِیدُ زِینَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیا  ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطاً) 18۔ الکہف:28) (اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں مقید کر لیجئے جو صبح و شام یعنی ہمیشہ اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لئے کرتے ہیں اور دنیوی زندگانی کی رونق کے خیال سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھیں (یعنی توجہات) ان سے ہٹنے نہ پائیں اور ایسے شخص کا کہنا نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہے اور اس کا یہ حال حد سے گزر گیا ہے راوی کے یہ الفاظ لیعدل الخ کا مطلب ہے کہ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آپ کو ہمارے درمیان بٹھانے کے معاملہ میں ہم سب کے ساتھ عدل کا معاملہ کریں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قرب سب کے ساتھ یکساں رہے یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی شخص کے پاس بیٹھ جاتے تو بقیہ لوگوں کو اس کی خوش بختی پر رشک آتا اور سب کی خواہش یہی ہوتی کہ آپ میرے پاس ہی بیٹھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی ایک شخص کے پاس بیٹھنے کی بجائے درمیان میں بیٹھے تاکہ قرب کی سعادت سب کو یکساں طور پر حاصل ہو۔

 علامہ طیبی نے اس جملہ کے معنی یہ لکھے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان اس لئے بیٹھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان برابری کریں اور اپنی ذات کو ہم سب سے ممتاز و نمایاں کریں۔

 سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے کا مطلب یہ ہے کہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک کے سامنے حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اسی طرح ان سب کے منہ آپ کی طرف ہو گئے کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس طرح بیٹھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب کا چہرہ دیکھتے ہیں۔

 قیامت کے دن تمہیں بھرپور نور حاصل ہو گا سے اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن سرمایہ دار اور دولت مند طبقہ (دنیا دار) کو بھر پور نور حاصل نہیں ہو گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے آخرت کو درست رکھا اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی دنیا کو دوست رکھا اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا لہٰذا جو چیز فنا ہو جانے والی ہے (یعنی دنیا) اس کے مقابلہ میں اس چیز(یعنی آخرت) کو اختیار کرو جو باقی رہنے والی ہے۔

 اور تم دولت مند طبقہ سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہو گے۔ اس بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہاں فقراء سے وہ فقراء مراد ہیں جو صالح اور صابر ہوں، اسی طرح دولت مند سے وہ دولت مند مراد ہیں جو صالح و شاکر اور اپنے مال کا حق (یعنی صدقات و زکوٰۃ وغیرہ) ادا کرنے والے ہوں انہیں میدان حشر میں کھڑا کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے مال کہاں سے اور کن ذریعوں سے حاصل کیا اور تم نے اس مال کو کہاں کہاں خرچ کیا، وہ اس حساب کتاب میں مصروف ہوں گے کہ فقراء جنت میں داخل بھی ہو جائیں گے۔

 اس سے ایک بات معلوم ہوئی کہ قیامت کے روز خدا کے فضل و کرم سے اور اس کی رحمت میں فقراء کا حصہ دولت مند طبقہ کے حصے سے زیادہ ہو گا کیونکہ دولت مند طبقہ نے تو دنیا میں راحت و نصرت پائی تھی جبکہ فقراء محروم رہے تھے۔

تجوید و ترتیل سے قرآن پڑھنے کا حکم

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کو اپنی آواز کے ذریعہ زینت دو۔ (احمد و ابوداؤد و ابن ماجہ و دارمی)

 

تشریح

 

 زینت دینے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کو تجوید و ترتیل اور آواز کی نرمی و اطاعت کے ساتھ پڑھا جائے یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے اور اب پھر جان لیجئے کہ راگ میں قرآن کو اس طرح پڑھنا کہ حروف یا حرکات میں کمی و زیادتی ہو حرام ہے اس طرح قرآن پڑھنے والا شخص فاسق ہوتا ہے اور سننے والا گنہگار نیز ایسے شخص کو اس طرح قرآن پڑھنے سے منع کرنا واجب ہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی بدعت ہے۔

قرآن بھول جانے پر وعید

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قرآن کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا۔ (ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

 حنفیہ کے ہاں بھول جانے سے مراد یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے جب کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے قرآن حفظ کیا پھر اسے بھول گیا کہ حفظ نہ پڑھ سکے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنا چھوڑ دے خواہ بھولے یا نہ بھولے۔

 حضرت مولانا شاہ محمد اسحٰق فرمایا کرتے تھے کہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استعداد والے کا بھولنا تو یہ ہے کہ یاد کئے ہوئے کو بغیر دیکھے نہ پڑھ سکے اور غیر استعداد والے کو بھولنا یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سیکھنے اور یاد کرنے کے بعد بھولنا بہت گناہ ہے لہٰذا چاہئے کہ قرآن کے بارے میں تغافل و کوتاہی کا راستہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ قرآن کو ہمیشہ اور بہت پڑھتے رہنا چاہئے۔

تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کا مسئلہ

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے تین رات سے کم میں قرآن پڑھا یعنی ختم کیا اس نے قرآن کو اچھی طرح نہیں سمجھا۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہاں یہ مراد ہے کہ جس شخص نے تین دن یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کیا وہ قرآن کے ظاہری معنی تو سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن کے حقائق و معارف اور دقائق و نکات تک اس کو رسائی بھی نہیں ہوتی کیونکہ ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے تین دن تو بہت دور کی چیز ہے بڑی سے بڑی عمریں ناکافی ہوتی ہیں نہ یہ بلکہ اس مختصر سے عرصہ میں تو کسی ایک آیت یا ایک کلمہ کے حقائق و نکات بھی سمجھ میں نہیں آ  سکتے نیز یہاں نفی سے مراد سمجھنے کی نفی ہے نہ کہ ثواب کی نفی یعنی ثواب تو ہر صورت میں ملتا ہے پھر یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں بھی تفاوت وفرق ہے بعض لوگوں کی سمجھ زیادہ پختہ ہوتی ہے وہ کم عرصہ میں بھی قرآنی حقائق و دقائق کو سمجھ لیتے ہیں جب کہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے جن کے لیے طویل عرصہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

 سلف میں سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے چنانچہ ان لوگوں کا معمول یہ تھا کہ وہ ہمیشہ تین ہی دن میں قرآن ختم کرتے تین دن سے کم میں ختم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے جب کہ دوسرے لوگ اس کے برخلاف عمل کرتے تھے چنانچہ بعض لوگ تو ایک رات دن میں ایک بار اور بعض لوگ دو دو بار اور بعض لوگ تین تین بار قرآن ختم کرتے تھے بلکہ بعض لوگوں کے بارے میں تو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔

 ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے یا تو اس حدیث کے بارے میں یہ خیال کیا ہو کہ اس کا تعلق باعتبار اشخاص کے مختلف ہے یعنی اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو کم فہم ہوتے ہیں اور جو اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کریں تو اس کے ظاہر معنی بھی نہ سمجھ سکتے ہوں پھر ان کے نزدیک بات یہ ہو کہ اس حدیث میں فہم کی نفی ہے اور اس صورت میں ظاہر ہے کہ جتنی بھی کم سے کم مدت میں قرآن ختم کیا جائے ثواب ملے گا۔

 بعض لوگ دو مہینے میں ایک قرآن ختم کرتے تھے بعض لوگ ہر مہینے میں بعض لوگ دس دن میں اور بعض لوگ سات دن میں ایک قرآن ختم کر دیتے تھے چنانچہ اکثر صحابہ وغیرہم کا یہی معمول تھا کہ وہ سات دن میں قرآن ختم کرتے تھے۔ بخاری و مسلم کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ قرآن سات میں ختم کر و اور اس پر زیادتی نہ کرو۔

 

ختم الاحزاب کیا ہے

 مشائخ و عارفین کی اصطلاح میں سات دن میں قرآن ختم کرنے کا ختم الاحزاب کہتے ہیں ملا علی قاری رحمۃ اللہ کہتے ہیں ملا علی قاری وضاحت کے پیش نظر ختم الاحزاب کی سب سے صحیح ترتیب  فمی بشوق ہے ملا علی قاری نے فمی بشوق کو ختم الاحزاب کی صحیح ترتیب اس لئے کہا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ختم الاحزاب (سات دن میں قرآن ختم کرنے کا طریقہ) یہ ہے کہ جمعہ کے روز ابتداء قرآن سے سورہ مائدہ کے آخر تک پڑھا جائے شنبہ کے روز سورہ انعام سے سورہ توبہ کے آخر تک، اتوار کو سورہ یونس سے سورہ مریم کے آخر تک، پیر کو سورہ طہ سے سورہ قصص کے آخر تک، منگل کو سورہ عنکبوت سے سورہ ص کے آخر تک بدھ کو سورہ زمر سے سورہ رحمن کے آخر تک اور جمعرات کو سورہ واقعہ سے آخر قرآن تک پڑھا جائے۔ اکثر حاجات کی تکمیل کے لیے مجرب بتایا گیا ہے نیز اس ترتیب کے ساتھ قرآن پڑھنے کے بارے میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ ابتداء جمعہ کے روز سے کی جائے بہر کیف مذکورہ بالا بحث کا حاصل یہ ہوا کہ فمی بشوق کی ترتیب کے ساتھ ختم قرآن اور چیز ہے اور ختم الاحزاب دوسری چیز ہے جب کہ ملا علی قاری کے قول کے مطابق ختم الاحزاب اور فمی بشوق کی ترتیب دونوں ایک ہی چیزیں ہیں۔

 اب یہ سمجھئے کہ فمی بشوق اور اس کی ترتیب کیا ہے؟ فمی بشوق کی ترتیب کے ساتھ قرآن ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی سات منزلیں سات دن میں اس طرح پڑھی جائیں کہ ان کے شروع میں فمی بشوق کے حروف واقع ہوں یعنی ف سے سورہ فاتحہ کی طرف اشارہ ہے میم سے سورہ مائدہ کی طرف، ی سے سورہ یونس کی طرف، ب سے سورہ بنی اسرائیل کی طرف، ش سے سورہ شعراء کی طرف، واؤ سے سورہ والصافات کی طرف اور ق سے سورہ ق کی طرف اشارہ ہے اس طرح ان حروف کے مجموعہ کا نام ہے فمی بشوق، قرآن ختم کرنے کی یہ ترتیب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ وہ اسی ترتیب سے قرآن ختم کرتے تھے۔

 اب پھر حدیث کے مفہوم کی طرف آئیے اس بارے میں نووی کا قول یہ ہے کہ حدیث کا حکم باعتبار اشخاص کے مختلف ہے یعنی وہی بات کہ اس کا تعلق کم فہم اور کم علم لوگوں سے ہے لہٰذا جو لوگ قرآنی علوم و معارف پر نظر رکھتے ہوں اور قرآن کے دقائق و معارف سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو وہ اسی قدر اقتصار کر سکتے ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھیں تو پڑھتے وقت قرآن کی آیات کا کمال فہم بھی انہیں حاصل ہوتا رہے جو شخص علم کی توسیع و اشاعت یا لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے یا اسی قسم کے دوسرے کاموں میں مشغول رہتا ہو تو وہ اتنا ہی پڑھنے پر اکتفاء کرے جس سے اس کے اصل کاموں میں حرج واقع نہ ہوتا ہو، اسی طرح جو شخص تحصیل علم یا اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی فراہم کرنے میں منہمک رہتا ہو، اس کے لئے بھی یہی حکم ہے مذکورہ بالا لوگوں کے علاوہ اشخاص کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ جتنا زیادہ پڑھ سکیں پڑھیں بشرطیکہ زیادہ پڑھنا اکتاہٹ اور الفاظ کی تیز ادائیگی کی حد تک نہ پہنچ جائے۔

قرآن بآواز بلند پڑھنا افضل ہے یا آہستہ

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بآواز بلند قرآن کریم پڑھنے والا شخص ظاہری صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور آہستہ قرآن پڑھنے والا شخص چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔ (ترمذی ابوداؤد، نسائی) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

 چھپا کر صدقہ دینا ظاہری طور پر صدقہ دینے سے افضل ہے لہٰذا حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ اسی طرح قرآن کریم آہستہ پڑھنا بآواز بلند پڑھنے سے افضل ہے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جس طرح آہستہ قرآن پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں احادیث منقول ہیں اسی طرح بآواز بلند قرآن پڑھنے کی فضیلت کے سلسلہ میں احادیث منقول ہیں لہٰذا دونوں طرح کی احادیث میں مطابقت یہ ہے کہ آہستہ آواز سے پڑھنا تو اس شخص کے حق میں افضل ہے جو ریاء سے بچنا چاہتا ہو اور بآواز بلند پڑھنا اس شخص کے حق میں افضل ہے جو ریاء میں مبتلا ہونے کا خوف نہ رکھتا ہو بشرطیکہ اس طرح دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے بایں طور کہ لوگ سنتے ہیں جس سے انہیں ثواب ملتا ہے یا دوسرے لوگ قرآن سن سن کر سیکھتے ہیں یا یہ کہ دوسروں کو پہنچتا ہے بایں طور کہ لوگ سنتے ہیں جس سے انہیں ثواب ملتا ہے کہ بآواز قرآن پڑھنا شعار دین اور اللہ کے کلام کا برملا اظہار ہے پڑھنے والے کے دل کو بیداری حاصل ہوتی ہے اس کا دھیان کسی اور طرف نہیں بٹتا، اس کے دل کی غفلت کو دور کرتا ہے، نیند کا غلبہ کم کرتا ہے اور یہ کہ دوسروں کو عبادت کا شوق دلاتا ہے، بہر کیف ان فوائد میں سے ایک فائدہ بھی پیش نظر ہو تو پھر اس صورت میں بآواز بلند پڑھنا ہی افضل ہو گا۔

قرآن کی کامل پیروی کی تاکید

اور صہیب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص قرآن پر ایمان نہیں لایا جو اس کے حرام کو حلال جانے امام ترمذی نے اس رایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد قوی نہیں ہے۔

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حرام کہا ہے اگر کوئی شخص اسے حلال جانے تو وہ کھلم کھلا کافر ہو گیا جب وہ کافر ہو گیا تو پھر قرآن پر اس کا ایمان کیسا، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص قرآن پر کامل ایمان نہیں لایا جو ان چیز کے حلال کا سا معاملہ کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے یعنی وہ قرآن میں مذکور حرام و ممنوع چیزوں کا ارتکاب کرے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت

حضرت لیث ابن سعد حضرت ابن ابی ملیکہ سے نقل کرتے ہیں اور وہ حضرت یعلیٰ بن مملک کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کے بارے میں پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم کس طرح پڑھتے تھے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کو واضح طور پر اور ایک ایک حرف کر کے بیان کیا۔ (ترمذی، ابو داؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم اس طرح پڑھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کے حروف کو اگر کوئی شمار کرنا چاہتا تو یہ ممکن تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوب ترتیل سے تجوید کے طور پر پڑھتے تھے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول الفاظ دونوں احتمال رکھتے ہیں یا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کی یا یہ کہ انہوں نے قرآن کریم اسی طرح پڑھ کر سنایا جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھا کرتے تھے۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے بغیر ترتیل کے سارے قرآن کو پڑھنے کی بہ نسبت صرف ایک سورت ترتیل کے ساتھ پڑھنا میرے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہے۔

 

 

٭٭ ابن جریج حضرت ابن ملیکہ رحمہما اللہ سے اور وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت علیحدہ علیحدہ ہوتی تھی الحمدللہ رب العالمین پڑھتے اور پھر ٹھہرتے پھر الرحمن الرحیم پڑھتے اور ٹھہرتے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ اس کا اصل سلسلہ سند یہ ہے حضرت ابن ملیکہ نے نقل کیا حضرت یعلی بن مملک سے اور انہوں نے نقل کیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے (جیسا کہ پہلی حدیث کا سلسلہ سند ہے) اور حضرت لیث کی حدیث جو پہلے گزری زیادہ صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں ہے اہل بلاغت اس روایت کو قبول نہیں کرتے کیونکہ از روئے قاعدہ وقف تام مالک یوم الدین پر ہے اسی لئے امام ترمذی نے فرمایا کہ اس بارے میں زیادہ صحیح حدیث حضرت لیث کی ہے۔

 جمہور علماء کے نزدیک اس قسم کی آیتوں میں کہ جو آپس میں ایک دوسرے سے مربوط و متعلق ہیں وصل اولیٰ ہے جب کہ جزری کا قول ہے کہ وقت مستحب ہے ان کی دلیل یہی حدیث ہے دیگر شوافع کا مسلک بھی یہی ہے کہ اس حدیث کے بارے میں جمہور کی طرف سے یہ جواب دیا ہے کہ وقف اسلیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سننے والوں کو یہ بتا دیں کہ ان آیتوں کی ابتداء کہاں سے ہے۔

قرآن محض خوش آوازی کا نام نہیں

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان تشریف لائے جب کہ ہم قرآن کریم پڑھ رہے تھے ہم میں دیہاتی لوگ اور عجمی بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ پڑھو! تم میں سے ہر شخص اچھا پڑھتا ہے یاد رکھو ایک ایسی جماعت پیدا ہونے والی ہے جس کے افراد قرآن کریم کو اس طرح سیدھا کریں گے جس طرح تیر سیدھا کیا جاتا ہے اور اس کا بدلہ جلد ہی دنیا ہی میں حاصل کرنا چاہیں گے۔ آخرت کے لیے کچھ نہ چھوڑیں گے۔ (ابوداؤد، بیہقی)

 

تشریح

 

عجمی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اہل عرب میں سے نہ ہوں چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ جس مجلس کا ذکر کر رہے ہیں اس میں ایسے صحابہ بھی تھے جن کا تعلق عرب سے نہیں تھا بلکہ وہ فارسی و حبشی تھے جیسے حضرت سلمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال وغیرہ رضی اللہ عنہم

 اگرچہ اس مجلس میں موجود دیہاتی لوگوں کی قرأت عجمی لوگوں کی قرأت کی مانند نہیں تھی مگر اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا کہ تم میں سے سب کی قرأت اچھی اور لائق ثواب ہے کیونکہ تم نے دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دی ہے اگر تم نے اپنی زبانوں اور اپنی آوازوں کو آراستہ نہیں کیا ہے تو اس میں تمہارے لئے کوئی ضرر نہیں۔ جب کہ تمہارے بعد ایک ایسی جماعت پیدا ہونے والی ہے جس کے افراد قرآن کو اس طرح سیدھا کریں گے جس طرح تیر سیدھا کیا جاتا ہے یعنی اپنی آوازوں کو اور قرآنی کلمات و الفاظ کو خوب سنواریں گے اور مخارج کی ادائیگی میں بہت زیادہ تکلف سے کام لیں گے اور ان کی یہ تمام سعی کوشش آخرت کے لئے نہیں ہو گی بلکہ اپنی شہرت، اپنی عزت و فخر و غرور اور دنیا کو دکھانے سنانے کے لئے ایسا کریں گے۔

 لہٰذا حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہی ہے کہ ایسے لوگ محض دنیاوی فائدہ کے لئے قرآن پڑھیں گے آخرت کے ثواب سے کچھ غرض نہیں رکھیں گے اس طرح دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں گے، یا یوں کہئے کہ دین کو دنیا کے بدلے میں بیچیں گے۔

 حاصل یہ کہ قرآن پڑھنے کے بارے میں خلوص، غور و فکر اور معانی آیات میں استغراق ہی کو اولیت کا مقام حاصل ہونا چاہئے محض مخارج و الفاظ کی صحیح ادائیگی اور خوش آوازی و خوش گلوئی کے ساتھ پڑھنا ہی کچھ کام نہیں آئے گا۔

 

 

٭٭ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم قرآن کریم اہل عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھو اہل عشق اور اہل کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی ان کا پڑھنا قبول نہیں ہو گا) نیز ان کی قرأت سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ (بیہقی، رزین)

 

تشریح

 

 اہل عرب بلا تکلف اور برجستہ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ ان کی آواز ان کے دل کی امنگ سے ہم آہنگ ہوتی ہے ان کے سامنے موسیقی وغیرہ کی طرح کے قواعد نہیں ہوتے، نہ وہ خواہ مخواہ کا تکلف کر کے اپنی آواز اور اپنا لہجہ بنا کر کوشش کرتے ہیں اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے وہ قرآن کریم اسی خالص لہجہ اور آواز میں پڑھے جو قرآن کی عظمت شان اور حقیقت کے مطابق ہے اور وہ اہل عرب کا لہجہ ہے۔ اس جملہ بلحون العرب واصواتہا میں لفظ اصواتھا عطف تفسیر کے طور پر ہے۔

 اہل عشق اور اہل کتاب کے طریقہ کے مطابق الخ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح عشاق اور شعراء اپنی نظمیں و غزلیں اور اشعار آواز بنا کر اور ترنم و سر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور موسیقی اور راگ کے قواعد کی رعایت کرتے ہیں تم اس طرح قرآن کریم نہ پڑھو چونکہ یہود و نصاریٰ بھی اپنی کتابوں کو اسی طرح غلط طریقوں سے پڑھتے تھے اس لئے ان کی مانند پڑھنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔

 ان کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حب دنیا میں مبتلا ہوں گے اور لوگ چونکہ ان کی آوازوں کو اچھا کہیں گے اس لئے وہ اور زیادہ گمراہی میں پھنسے ہوں گے اسی طرح ان کی آوازوں کو سن کر خوش ہونے والے اور ان کو اچھا کہنے والے بھی ایک غلط بات اور غلط کام کو اچھا سمجھنے کی وجہ سے ضلالت میں مبتلا ہوں گے۔

قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کو اپنی اچھی آواز یعنی ترتیل و خوش آوازی کے ساتھ پڑھ کیونکہ اچھی آواز قرآن کا حسن زیادہ کرتی ہے۔ (دارمی)

حسن قرأت کا معیار

حضرت طاؤس بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ قرآن پڑھنے کے سلسلہ میں از روئے آواز کون شخص سب سے بہتر ہے اور پڑھنے میں بھی (یعنی از روئے ترتیلی و ادائیگی) الفاظ کون شخص سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص کہ جس کو تم پڑھتے ہوئے سنو تو تمہارا گمان ہو کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے۔ حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت طلق میں یہی بات تھی کہ قرآن پڑھتے تو محسوس ہوتا کہ خشیت الٰہی ان پر غالب ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم پڑھ رہا ہو اور اس کے پڑھنے سے تمہارے دل پر اثر ہو رہا ہو یا یہ کہ شخص کے بارے میں یہ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کریم پڑھتے وقت خدا سے ڈر رہا ہے مثلاً اس کے چہرہ کا رنگ خوف الٰہی سے متغیر ہو رہا ہو وہ زیادہ رو رہا ہو تو سمجھو کہ قرآن پڑھنے والوں میں اپنی آواز اور اپنی قرأت کے موثر ہونے کے اعتبار سے سب سے بہتر وہی ہے۔

 حضرت طلق ایک جلیل القدر تابعی ہیں جب وہ قرآن کریم پڑھتے تھے تو خوف الٰہی ان پر طاری رہتا تھا۔ ان کے بارے میں مولف مشکوٰۃ نے لکھا ہے کہ وہ صحابی ہیں (رضی اللہ عنہ)

قرآن کے بارے میں چند احکام

حضرت عبید ملیکی رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی تھے راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن سے تکیہ نہ کرو اور رات و دن میں پڑھتے رہا کرو جیسا کہ اس کو پڑھنے کا حق ہے قرآن کو ظاہر کرو اسے خوش آوازی کے ساتھ پڑھو جو کچھ اس میں مذکور ہے اس میں غور و فکر کرو تاکہ تمہارا مطلوب (آخرت) حاصل ہو اور اس کا ثواب حاصل ہونے میں جلد بازی نہ کرو (یعنی دنیا ہی میں اس کا اجر حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو) کیونکہ آخرت میں اس کا بڑا اجر ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

 قرآن سے تکیہ نہ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنے اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غفلت نہ برتو بلکہ برابر قرآن پڑھتے رہا کرو اور اس کا حق بھی ادا کرو بایں طور کہ اس کے حروف اچھی طرح ادا کرو اور اس کے معانی سمجھو اور اس پر عمل کرو۔

 علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن پر تکیہ لگانا یعنی اس پر سہارا دے کر بیٹھنا یا لیٹنا اس کی طرف پاؤں پھیلانا، اس پر کوئی چیز رکھنا اس کی طرف پیٹھ کرنا، اس کو روندنا اور اس کو پھینکنا یہ سب چیزیں حرام ہیں، قرآن سے فال نکالنا مکروہ ہے بعض مالکیہ کے نزدیک یہ بھی حرام ہے۔

 جیسا کہ اس کو پڑھنے کا حق ہے۔ قرآن کریم پڑھتے وقت چار باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے اول تو یہ کہ الفاظ کو درست اور صحیح ادا کیا جائے دوسری بات یہ کہ مفہوم و معانی سمجھنا چاہئے تیسری بات یہ کہ مفہوم و معانی کا مقصد سمجھنا چاہئے اور چوتھی بات یہ کہ جو کچھ پڑھا جائے اس پر عمل کیا جائے۔

 قرآن کو ظاہر کرو۔ یعنی قرآن کریم بآواز بلند پڑھو تاکہ دوسرے لوگ سنیں اور انہیں قرآن پڑھنے کا شوق ہو، قرآن کریم دوسرے لوگوں کو پڑھاؤ سکھاؤ۔ قرآن کریم پر عمل کرو اور اپنی زندگی اسی کے مطابق سنوارو، قرآن کریم لکھو اور اس کی نشر و اشاعت کا اہتمام کرو اور قرآن کریم کی تعظیم کرو۔ جو کچھ اس میں مذکور ہے اس میں غور و فکر کرو، کا مطلب یہ ہے کہ جو آیتیں تنبیہ، وعید، اور آخرت کی ہولناکی کے بارے میں ہیں ان آیتوں میں خوب غور و فکر کرو تاکہ دنیا سے بے رغبتی ہو اور آخرت کی طرف میلان ہو۔