مؤطا امام مالک

فی رمضان

رمضان میں تراویح پڑھنے کا بیان

ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی مسجد میں ایک رات تو نماز پڑھی پیچھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لوگوں نے پھر دوسری رات میں اسی طرح پڑھی تو لوگ بہت آئے پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات جمع ہوئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم ( تراویح ) کے لئے نہیں نکلے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے دیکھا جو تم نے کیا لیکن مجھے کسی چیز نے نکلنے سے نہیں روکا سوائے اس خوف سے کہ کہیں یہ ( تراویح ) تم پر فرض نہ ہو جائے اور یہ قصہ رمضان میں تھا۔

رمضان میں تراویح پڑھنے کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رغبت دلاتے تھے لوگوں کو تراویح پڑھنے کی راتوں کو اور نہ حکم کرتے تھے بطور واجب کے تو فرماتے تھے آپ جس نے تراویح پڑھی رمضان میں اس کو حق سمجھ کر خاص خدا کے لئے بخشے جائیں گے اگلے گناہ اس کے کہا ابن شہاب نے پس وفات ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور ایسا ہی حال رہا پھر ایسا ہی حال رہا حضرت ابوبکر کی خلافت میں اور شروع شروع حضرت عمر کی خلافت میں

رمضان میں تراویح پڑھنے کا بیان

عبدالر حمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں نکلا عمر بن خطاب کے ساتھ رمضان میں مسجد کو تو دیکھا کہ لوگ جدا جدا متفرق پڑھ رہے ہیں کسی شخص کے ساتھ آٹھ دس آدمی پڑھ رہے ہیں تو کہا عمر نے قسم خدا کی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان سب کو ایک قاری کے پیچھے کر دوں تو اچھا ہو پھر ان سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کر دیا کہا عبدالرحمن نے پھر جب دوسری رات کو میں ان کے ساتھ آیا تو دیکھا کہ سب لوگ ابی بن کعب کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تب کہا حضرت عمر نے اچھی ہے یہ بدعت اور جس وقت تم سوتے ہو وہ بہتر ہے اس وقت سے جب نماز پڑھتے ہو یعنی اول رات اور لوگ کھڑے ہوتے تھے اول رات میں۔

ما جاء فی قیام رمضان

سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حکم کیا حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا کہا سائب بن یزید نے کہا امام پڑھتا تھا سو سو آیتیں ایک رکعت میں یہاں تک کہ ہم سہارا لگاتے تھے لکڑی پر اور نہیں فارغ ہوتے تھے ہم مگر قریب فجر کے۔

ما جاء فی قیام رمضان

یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ پڑھتے تھے حضرت عمر کے زمانے میں تیئس رکعتیں۔

ما جاء فی قیام رمضان

داؤد بن حصین نے سنا عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے کہتے تھے میں نے پایا لوگوں کو لعنت کرتے تھے کافروں پر رمضان میں اور امام پڑھتا تھا سورۃ بقرہ آٹھ رکعتوں میں جب بارہ رکعتوں میں پڑھتا تھا تو لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ تخفیف کی۔

ما جاء فی قیام رمضان

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہتے تھے سنا میں نے اپنے باپ سے کہتے تھے جب فراغت پاتے تھے تراویح سے رمضان میں تو جلدی مانگتے تھے نوکروں سے کھانے کو فجر ہونے کے ڈر سے۔

ما جاء فی قیام رمضان

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ذکوان جو غلام تھے حضرت عائشہ کے اور ان کو حضرت عائشہ نے آزاد کر دیا تھا اپنے بعد کھڑے ہوتے تھے اور پڑھاتے تھے نماز ان کی رمضان میں۔

تہجد کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو نماز پڑھے ہمیشہ رات کو پھر غالب آ جائے اس پر نیند مگر یہ کہ اللہ جل جلالہ لکھے گا اس کے لئے ثواب نماز کا اور سونا اس کو صدقہ ہو گا۔

تہجد کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ میں سوتی تھی سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور پاؤں میرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تھے پس جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کرتے تھے آپ دبا  دیتے تھے مجھ کو سو سمیٹ لیتی تھی میں پاؤں اپنے کہا حضرت عائشہ نے اور گھروں میں ان دنوں چراغ نہ تھے۔

تہجد کا بیان

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اونگھنے لگے کوئی تم میں سے نماز میں تو سو رہے یہاں تک کہ نیند بھر جائے کیونکہ اگر نماز پڑھے گا اونگھتے ہوئے تو شاید وہ استغفار کرنا چاہے اور اپنے تئیں برا بولنے لگے۔

تہجد کا بیان

اسمعیل بن ابی حکیم کو پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ آپ نے سنا ذکر ایک عورت کا جو نماز پڑھا کرتی تھی رات بھر تو پوچھا کہ کون ہے یہ عورت کہا لوگوں نے یہ حولاء ہے بیٹی تویت کی نہیں سوتی ہے رات کو تو برا معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ امر یہاں تک کہ معلوم ہوئی ناراضگی آپ کے چہرے سے پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خداوند کریم نہیں بیزار ہوتا تمہاری بیزاری تک اتنا عمل کر جس کی طاقت رکھو۔

تہجد کا بیان

اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رات کو نماز پڑھتے جتنا اللہ کو منظور ہوتا پھر جب اخیر رات ہوتی تو اپنے گھر والوں کو جگاتے نماز کے لئے اور کہتے ان سے نماز نماز، پھر پڑھتے اس آیت کو اور حکم کر اپنے گھر والوں کو نماز کا اور صبر کر اس کے لئے ہم نہیں مانگتے تجھ سے روٹی بلکہ ہم کھلاتے ہیں تجھ کو اور عاقبت کی بہتری پرہیزگاری سے ہے۔

تہجد کا بیان

سعید بن مسیب کہتے تھے مکروہ ہے سونا عشاء کی نماز سے پہلے اور باتیں کرنا بعد عشاء کے۔

تہجد کا بیان

امام مالک کو پہنچا حضرت عمر بن خطاب سے فرماتے تھے نفل نماز رات اور دن کی دو دو رکعتیں ہیں سلام پھیرے ہر دو رکعتوں کے بعد۔

باب وتر کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے ایک رکعت ان میں سے وتر کی ہوتی جب فارغ ہوتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لیٹ جاتے داہنی کروٹ پر۔

باب وتر کا بیان

ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت کہ انہوں نے پوچھا حضرت عائشہ سے کیونکہ تھی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رمضان میں تو کہا حضرت عائشہ نے نہیں زیادہ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے چار رکعتیں تو مت پوچھ ان کی خوبی اور طول کا حال پھر پڑھتے تھے چار رکعتیں تو مت پوچھ ان کی خوبی اور طول کا حال پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے پوچھا حضرت عائشہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو جاتے ہیں وتر پڑھنے سے پہلے فرمایا اے عائشہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔

باب وتر کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے رات کو تیرہ رکعتیں پھر جب اذان سنتے صبح کی تو پڑھ لیتے دو رکعتیں ہلکی پھلکی۔

باب وتر کا بیان

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ وہ ایک رات رہے اپنی خالہ میمونہ کے پاس جو بی بی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کہا ابن عباس نے لیٹا میں بستر کے عرض کی طرف اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بی بی لیٹیں بستر کے طرل میں پس سو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی یا کچھ پہلے یا کچھ بعد اس کے جاگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور ملنے لگے آنکھیں اپنے ہاتھ سے پھر پڑھیں دس آیتیں اخیر کی سورہ آل عمران سے یعنی (اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیلِ وَالنَّھَارِ لَایٰٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ) 3۔ ال عمران:190) سے اخیر سورۃ تک پھر گئے آپ ایک مشک کی پاس جو لٹک رہی تھی اور وضو کیا اس سے اچھی طرح پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے ابن عباس نے کہا میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور جیسا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ویسا ہی میں نے بھی کیا تو جب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر ملنے لگے پھر پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر وتر پڑھے پھر لیٹے رہے جب موذن آیا تو دو رکعتیں ہلکی پڑھیں پھر باہر نکلے اور نماز پڑھی صبح کی۔

باب وتر کا بیان

زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ضرور دیکھوں گا نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رات کو کہا زید نے کہ تکیہ لگایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان کی چوکھٹ پر یا گھر جو بالوں سے ڈھپا ہوا تھا پھر کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سو پڑھیں دو رکعتیں بہت لمبی بہت لمبی بہت لمبی پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر ایک رکعت وتر کی پڑھی سب تیرہ رکعتیں پڑھیں۔

باب وتر کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے رات کی نماز کا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کی نماز دو رکعتیں ہیں اور جب ڈر ہو صبح ہونے کا پڑھ لے ایک رکعت جو طاق کر دے اس کی نماز کو۔

باب وتر کا بیان

عبد اللہ بن محیریز سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی کنانہ سے جس کو مخدجی کہتے تھے سنا ایک شخص سے شام میں جن کی کنیت ابو محمد ہے کہتے تھے وتر واجب ہے مخدجی نے کہا کہ میں عبادہ بن صامت کے پاس گیا اور ابو محمد کے قول کو نقل کیا عبادہ نے کہا کہ جھوٹ کہا ابو محمد نے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے پانچ نمازیں ہیں جو فرض کیں اللہ نے اپنے بندوں پر جو شخص ان کو پڑھے گا اور ہلکا جان کر ان کو نہ چھوڑے گا تو اللہ جل جلالہ نے اس کے لئے عہد کر رکھا ہے کہ جنت میں اس کو لے جائے گا اور جو شخص ان کو چھوڑ دے گا اللہ کے پاس اس کا کچھ عہد نہیں ہے چاہے اس کو عذاب کر دیں چاہے جنت میں پہنچا دے۔

باب وتر کا بیان

سعید بن یسار سے روایت ہے کہ رات کو سفر میں ساتھ عبداللہ بن عمر کے راہ میں مکہ کی کہا سعید نے جب مجھے ڈر ہو اصبح کا تو میں اونٹ پر سے اترا وتر پڑھے پھر ان کو آگے بڑھ کر پالیا تو عبداللہ بن عمر نے مجھ سے پوچھا کہ تو کہاں تھا میں نے کہا مجھے صبح ہونے کا اندیشہ ہوا اس لئے میں نے اتر کر وتر پڑھے تو عبداللہ نے کہا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی نہیں کرتا میں نے کہا واہ کیوں نہیں کہا عبداللہ نے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو وتر پڑھتے تھے اونٹ پر۔

باب وتر کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابوبکر جب سونے کو آتے اپنے بستر پر وتر پڑھ لیتے اور عمر بن خطاب آخر رات میں وتر پڑھتے تھے بعد تہجد کے اور سعید بن مسیب نے کہا کہ میں جب اپنے بچھونے پر سونے کو آتا ہوں تو وتر پڑھ لیتا ہوں۔

 

باب وتر کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے کیا وتر واجب ہے تو کہا عبداللہ بن عمر نے وتر ادا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے۔

باب وتر کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ بی بی عائشہ فرماتی تھیں جس شخص کو خوف ہو کہ اس کی آنکھ نہ کھلے گی صبح تک تو وہ وتر پڑھ لے سونے سے پیشتر اور جو امید رکھے جاگنے کی آخر شب میں تو وہ دیر کرے وتر میں۔

باب وتر کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ تھا میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ مکہ کے راستہ میں اور آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا تو ڈرے عبداللہ بن عمر صبح ہو جانے سے پس پڑھی ایک رکعت وتر کی پھر کھل گیا ابر تو دیکھا ابھی رات باقی ہے پس دوگانہ کیا اس رکعت کو ایک رکعت اور پڑھ کر پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں پھر جب خوف ہوا صبح کا تو ایک رکعت وتر پڑھی۔

باب وتر کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سلام پھیر تے تھے دو رکعت وتر کی پڑھ کر اور کچھ کام ہوتا تو اس کو کہہ دیتے پھر ایک رکعت پڑھتے تھے۔

باب وتر کا بیان

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص وتر پڑھتے تھے بعد عشاء کے ایک رکعت۔

وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سو رہے پھر جاگے تو کہا آپ نے خادم سے دیکھو لوگ کیا کر رہے ہیں اور ان دنوں میں عبداللہ بن عباس کی بصارت جاتی رہی تھی سو گیا خادم پھر آیا اور کہا کہ لوگ پڑھ چکے صبح کی نماز تو کھڑے ہوئے عبداللہ بن عباس اور وتر پڑھے پھر نماز پڑھی صبح کی۔

وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس اور عبادہ بن الصامت اور قاسم بن محمد اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے وتر پڑھے بعد فجر ہو جانے کے۔

وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ مجھے کچھ ڈر نہیں ہے اگر میں وتر پڑھتا ہوں اور تکبیر ہو جائے صبح کی نماز کی۔

وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت امامت کرتے تھے ایک قوم کی تو نکلے ایک روز صبح کی نماز کے لئے اور موذن نے تکبیر کہی پس خاموش کیا عبادہ نے موذن کو یہاں تک کہ وتر پڑھا پھر نماز پڑھائی صبح کی۔

وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

عبدالرحمن بن قاسم سے روایت ہے کہ سنا انہوں نے عبداللہ بن عامر سے وہ کہتے تھے میں وتر پڑھتا ہوں اور سنا کرتا ہوں تکبیر صبح کی یا وتر پڑھتا ہوں بعد فجر کے شک ہے عبدالرحمن کو کس طرح کہا انہوں نے۔

وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

عبدالرحمن بن قاسم نے سنا اپنے باپ سے وہ کہتے تھے میں وتر پڑھتا ہوں بعد فجر ہو جانے کے۔

صبح کی سنتوں کا بیان

حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ جب اذان ہو چکتی صبح کی تو پڑھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعتیں ہلکی، جماعت کھڑی ہونے سے پیشتر۔

صبح کی سنتوں کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جلد پڑھتے فجر کی سنتوں کو یہاں تک کہ میں کہتی تھی سورہ فاتحہ بھی پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا نہیں۔

صبح کی سنتوں کا بیان

عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو پڑھا کرتے کلام اللہ کو بیٹھے بیٹھے جب تیس یا چالیس آیتیں باقی رہتیں تو کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے پھر رکوع اور سجدہ کر تے اور دوسری رکعت میں اسی طرح کرتے۔

صبح کی سنتوں کا بیان

امام مالک کو پہنچا عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب سے کہ وہ نفل نماز پڑھتے بیٹھ کر دونوں پاؤں کو کھڑا کر کے اور سرین زمین سے لگا کر۔

نماز وسطیٰ کا بیان

ابو یونس سے روایت ہے کہ حکم کیا مجھ کو ام المومنین حضرت عائشہ نے کلام کے لکھنے کا اور کہا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ:238) تو مجھ کو خبر کر دینا پس جب پہنچا میں اس آیت کو تو خبر دے دی میں نے ان کو، کہا انہوں نے یوں لکھو حافظو علی الصلوت والصلوٰۃ الوسطی والصلوٰۃ العصر یعنی محافظت کرو نمازوں پر اور وسطی نماز پر اور عصر کی نماز پر کہا عائشہ سے کہ میں نے سنا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔

نماز وسطیٰ کا بیان

عمرو بن رافع سے روایت ہے کہ کلام اللہ لکھتا تھا حضرت ام المومنین حفصہ کے واسطے تو کہا انہوں نے جب تم اس آیت پر پہنچو (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃ الْوُسْطیٰ) 2۔ البقرۃ:238)  تو مجھے اطلاع کرنا پس جب پہنچا اس آیت پر خبر کی میں نے ان کو تو لکھوایا انہوں نے اس طرح حافظوا علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطی وصلوۃ العصر وقومو اللہ قانتین یعنی محافظت کرو نمازوں پر اور بیچ والی نماز پر اور عصر کی نماز پر اور کھڑے رہو اللہ کے سامنے چپ اور خاموش۔

نماز وسطیٰ کا بیان

عبدالرحمن بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا زید بن ثابت سے کہتے تھے صلوۃ الوسطیٰ ظہر کی نماز ہے۔

نماز وسطیٰ کا بیان

امام مالک کو پہنچا حضرت علی بن ابی طالب اور عبد اللہ بن عباس سے وہ دونوں صاحب فرماتے تھے کہ صلوۃ وسطیٰ صبح کی نماز ہے۔

ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے ایک کپڑے میں لپیٹتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اور دونوں کنارے اس کے دونوں کندھوں پر تھے حضرت ام سلمہ کے گھر میں

ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ نماز درست ہے ایک کپڑے میں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا تم میں سے ہر کسی کو دو کپڑے ملتے ہیں۔

ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ پوچھے گئے ابوہریرہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے سے کہا درست ہے پس کہا گیا ان سے کیا تم بھی ایسا کرتے ہو جواب دیا ہاں میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتا ہوں باوجود اس بات کے کہ میرے کپڑے تپائی پر رکھے ہوتے ہیں۔

ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ جابر بن عبداللہ انصاری نماز پڑھتے تھے ایک کپڑے میں۔

ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

ربیعہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ محمد بن عمرو بن حزم نماز پڑھتے تھے صرف کرتہ پہن کر۔

ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص نہ پائے تو نماز پڑھے ایک کپڑا لپیٹ کر اگر کپڑا چھوٹا ہو تو اس کی تہ بند کر لے۔

عورت کی نماز فقط کرتے اور سر بندھن میں ہو جانے کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ نماز پڑھتی تھیں کرتہ اور سر بندھن میں

عورت کی نماز فقط کرتے اور سر بندھن میں ہو جانے کا بیان

ام حرام سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا حضرت ام سلمہ سے کہ عورت کس قدر کپڑوں میں نماز پڑھ سکتی ہے تو جواب دیا کہ خمار اور کرتہ میں ایسا لمبا ہو کہ اس سے پاؤں ڈھپ جائیں۔

عورت کی نماز فقط کرتے اور سر بندھن میں ہو جانے کا بیان

عبید اللہ خولانی جو لے پالک تھے حضرت میمونہ ام المومنین کے ان سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ نماز پڑھتی تھیں کرتہ اور خمار یعنی سر بندھن میں اور ازار نہیں پہنے ہوتی تھیں۔

عورت کی نماز فقط کرتے اور سر بندھن میں ہو جانے کا بیان

عروہ بن زبیر سے ایک عورت نے پوچھا کہ ازار باندھنا دشوار ہوتا ہے مجھ کو کیا نماز پڑھ لوں کرتہ اور سر بندھن میں جواب دیا عروہ نے کہ ہاں جب کرتہ خوب بڑا ہو۔