یہاں مذکورہ بالا عنوان قائم کر کے وہ احادیث و آثار نقل کیے جا رہے ہیں جن سے قبروں پر جانے کی فضائل و آداب اور اس سے متعلق احکام مسائل معلوم ہوں نیز یہ بتایا جائے کہ قبروں پر جانے کا مقصد کیا ہے اور وہاں جانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پہلے تو میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کر دیا تھے مگر اب تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو، اسی طرح میں قربانی کا گوشت تین سے زیادہ رکھ کر کھانے سے منع کیا تھا اور اب تم جب چاہو اسے کھاؤ نیز میں نے نیند کو سوائے مشک کے دوسرے برتنوں میں رکھ کر پینے سے منع کیا تھا اب تم جن برتنوں میں چاہو سب میں پی لیا کرو لیکن نشہ کی کوئی چیز کبھی نہ پینا (مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابتداء اسلام میں قبروں پر جانے سے منع فرما دیا تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت قریب تھا اس لیے یہ اندیشہ ہوا کہ شاید لوگ قبروں پر جا کر کفر و شرک کی باتیں نہ کرنے لگیں جب آپ نے دیکھ لیا کہ اسلام نے دلوں میں رسوخ حاصل کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زیارت قبور کی اجازت دیدی لہٰذا تمام علماء کے نزدیک قبروں کی زیارت مستحب ہے کیونکہ قبروں پر جانے سے دل میں نرمی آتی ہے موت یاد آتی ہے اور دل و دماغ اس عقیدہ پر پختہ ہوتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اس کے علاوہ اور بہت سے فائدے ہیں پھر سب سے بہتر فائدہ یہ بھی ہے کہ قبروں پر جانے سے مردوں کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کا موقع ملتا ہے جو سنت ہے، چنانچہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بقیع تشریف لے جاتے اور وہاں کے مردوں پر سلام پیش فرماتے نیز ان کے لیے دعائے مغفرت فرماتے۔
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ ابتداء اسلام میں زیارت قبور کے بارے میں جو ممانعت فرمائی گئی تھی وہ عورتوں کے حق میں اب بھی باقی ہے یا مردوں کی طرح ان کو یعنی قبروں پر جانے کی اجازت دی گئی ہے بعض حضرات کی رائے ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی قبروں پر جانا درست ہے مگر دوسرے حضرات کی رائے یہ ہے کہ عورتوں کے لیے درست نہیں ہے لہٰذا اس سلسلہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں کے لیے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزہ مطہرہ کی زیارت تو جائز ہے لیکن اس کے علاوہ دوسری قبروں پر جانا ان کے لیے درست نہیں ہے چنانچہ باب الصلوۃ کی حدیث لعن رسول اللہ زائرات القبور الخ کی تشریح کے ضمن میں تفصیلی طور یہ مسئلہ مع فقہی روایتوں کے بیان کیا جا چکا ہے۔
مقصد کے اعتبار سے قبروں پر جانے کی کئی قسمیں ہیں۔ (١) محض موت کو یاد کرنے اور آخرت کی طرف توجہ کے لیے اس مقصد کے تحت صرف قبروں کو دیکھ لینا ہی کافی ہے خواہ قبر کسی کی بھی ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ صاحب قبر کے بارے میں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون تھا اور کیسا تھا؟ (٢) دعاء مغفرت اور ایصال ثواب وغیرہ کے لیے یہ ہر مسلمان کے لیے مسنون ہے (٣) حصول برکت و سعادت کی خاطر اس مقصد کے تحت اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جاتی ہے کیونکہ برزخ میں بزرگان دین اولیاء اللہ کے تصرفات اور ان کی برکتیں بے شمار ہیں۔ (٤) عزیز دوست کے ادائے حق کے لیے۔ یعنی کسی اپنے عزیز مثلاً والدین یا دوست کی قبر پر اس مقصد کے تحت جانا کہ وہاں پہنچ کر ان کے لیے دعاء مغفرت و ایصال ثواب کرنا اپنے اوپر ان کا حق ہے چنانچہ حدیث ابو نعیم میں منقول ہے کہ جو شخص پانے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک قبر کی زیارت جمعہ کے روز کرے تو اس کا یہ فعل حج کے برابر ہوتا ہے۔ (٥) دینی اخوت و محبت اور انس مہربانی کے تحت جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی بھی مومن بھائی کی قبر پر گزرتا ہے اور وہاں سلام و دعاء مغفرت وغیرہ پیش کرتا ہے تو مردہ اس شخص کو پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔
قبروں پر جانے کے کچھ آداب و احکام میں جو شریعت نے بتائے ہیں مثلاً (١) جب کوئی شخص دعاء مغفرت و ایصال ثواب کی خاطر کسی کی قبر پر جائے تو وہاں صاحب قبر کے منہ کے سامنے اس طرح کھڑا ہو کہ منہ تو قبر کی طرف پشت قبلہ کی طرف ہو۔ (٢) قبر پر پہنچ کر صاحب قبر کو سلام پیش کرے (٣) قبر کو ہاتھ نہ لگائے (٤) قبر کو چومے نہیں (٥) قبر کے سامنے تعظیماً نہ جھکے اور نہ قبر کو سجدہ کرے (٦) قبر کی مٹی منہ پر نہ ملے کہ نصاریٰ کی عادت ہے۔
ان احکام و آداب کے علاوہ ایسی چیزیں اختیار کرنا جن کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے انتہائی گمراہی اور ضلالت کی بات ہے۔
قبر کے پاس قرآن کریم کی تلاوت مکروہ نہیں ہے نیز یہ مستحب ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو وہاں صورت اخلاص سات مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب صاحب قبر کو بخش دے دوسرے دنوں کی بنسبت جمعہ کے روز خصوصاً دن کے ابتدائی حصہ میں قبر پر جانا افضل ہے چنانچہ حرمین شریف میں یہی معمول رہا ہے کہ لوگ جمعہ کے دن کے ابتدائی حصہ میں معلیٰ اور بقیع میں زیارت قبور کے لیے جایا کرتے تھے نیز منقول ہے کہ کہ دوسرے دنوں کی بنسبت جمعہ کے روز میت کو زیادہ علم اور ادراک دیا جاتا ہے اور وہ جمعہ کے روز اپنی قبر پر آنے والوں کو دوسرے دنوں کی بہ نسبت زیادہ پہچانتا ہے جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ قبروں کو بغیر ضرورت روندنا یعنی انہیں پامال کرنا اور ان پر چلنا مکروہ ہے یہ مستحب ہے کہ مرنے کے بعد سات دن تک میت کی طرف سے خدا کے نام پر کچھ خرچ کیا جاتا ہے۔
ونہیتکم عن لحوم الاضاحی کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں مسلمانوں کے پاس مال و دولت اور اسباب معیشت کی فراخی نہیں تھی اکثر لوگ چونکہ تنگ دست تھے اس لیے ہر شخص قربانی نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کرنے والوں سے فرما دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھ کر نہ کھایا کریں بلکہ تنگدست اور غریب لوگوں میں تقسیم کر دیا کریں مگر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مال و دولت اور اسباب معیشت کی وسعت بخشی اور ان کی تنگدستی اور مفلسی کا دور ختم ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں دوسروں کے قربانی کے گوشت کی ضرورت و حاجت نہ رہی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت دے دی کہ قربانی کا گوشت جتنے دن بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں۔
نبیذ ایک مخصوص قسم کا شراب ہوتا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کھجور یا انگور پانی میں ڈال لیتے ہیں اور انہیں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ایک شراب سا بن جاتا ہے، یہ نبیذ اس وقت تک حلال ہے جب تک کہ اس میں نشہ پیدا ہو جائے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابتداء اسلام میں مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ نبیذ مشک میں رکھی جایا کرے کیونکہ مشک پتلی ہوتی ہے اس میں رکھی ہوئی نبیذ جلد ہی گرم ہو کر نشہ آور نہیں ہوتی۔ دوسرے برتنوں میں نبیذ رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرما دیا مثلاً لاکھ کیے ہوئے برتنوں وغیرہ میں نبیذ نہ رکھی جائے کیونکہ اس قسم کے برتنوں میں رکھی ہوئی نبیذ جلد ہی گرم ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے اس میں نشہ پیدا ہو جاتا تھا اور چونکہ اس وقت کچھ عرصہ پہلے ہی شراب حرام ہوئی تھی اور لوگ ہنوز شراب کی لذت نہیں بھولے تھے اس لیے خدشہ تھا کہ کہیں لوگ اس طرح آہستہ آہستہ پھر شراب کی طرف متوجہ نہ ہونے لگیں اس کے بعد جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح لوگوں کے دل میں بیٹھ گیا اور شراب سے کلیہ اجتناب لازم ہو گیا نیز اس بات کا کوئی احتمال باقی نہیں رہا کہ اب لوگوں کی خواہشات پھر شراب کی طرف کسی بھی حیثیت سے مبذول ہو سکتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت دے دی کہ کسی بھی برتن میں نبیذ پی جا سکتی ہے تاہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر بھی تاکید فرما دی کہ نبیذ اس وقت پینی جائز ہو گی جب تک کہ اس میں نشہ کا شائبہ بھی نہ پایا جائے جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ ولا تشربوا مسکرا سے یہ بات واضح ہو رہی ہے اور جس کا حاصل یہی ہے کہ ممانعت کا تعلق نشہ سے ہے برتن سے نہیں ہے برتن سے ممانعت تو اس صرف احتیاط کے پیش نظر کی گئی تھی اصل مقصد اس وقت بھی یہی تھا کہ لوگوں کا رجحان نشہ کی طرف دوبارہ مائل نہ ہونے پائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روئے اور ان لوگوں کو بھی رلایا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے پروردگار سے اس بات کی اجازت چاہی تھی کہ اپنی والدہ کے لیے بخشش چاہوں مگر مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی پھر میں نے اپنے پروردگار سے اس بات کی اجازت مانگی کہ اپنی والدہ کی قبر پر حاضری دوں تو مجھے اس کی اجازت فرمائی گئی لہٰذا تم قبروں پر جایا کرو کیونکہ قبروں پر جانا موت کو یاد دلاتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر صرف چھ سال کی تھی تو حضرت آمنہ آپ کو لے کر اپنے نانہال کے لوگوں سے ملاقات کرنے مدینہ منورہ تشریف لے گئیں جب وہ مدینہ سے مکہ واپس آنے لگیں اور ابواء پہنچیں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے تو وہیں ان کا انتقال ہو گیا اور اسی جگہ انہیں دفن کر دیا گیا، چنانچہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی قبر پر تشریف لے گئے تو اپنی والدہ کی جدائی کے غم میں اس قدر روئے کہ آپ کو روتا دیکھ کر وہ لوگ بھی ضبط نہ کر سکے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنسوؤں نے انہیں اتنا متاثر کر دیا کہ وہ سب لوگ بھی رونے لگے۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدہ کا انتقال حالت کفر میں ہوا تھا چنانچہ پہلے زمانہ کے علماء کا یہی خیال ہے لیکن بعد کے علماء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدین کا اسلام ثابت کیا ہے پھر اس کی بھی تین صورتیں بیان کی ہیں کہ یا تو وہ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم تھے یا انہیں اسلام کی دعوت ہی نہیں پہنچی اور وہ ایام فترت میں تھے اور اسی میں زمانہ نبوت سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا اور یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے (معجزہ کے طور پر) اتنی دیر کے لیے زندہ کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اسلام لے آئے اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں جو حدیث منقول ہے وہ بذاتہٖ ضعیف ہے لیکن تعدد طرق کے ذریعہ اس کی تصحیح و تحسین کی گئی ہے۔ یہ بات گویا پہلے زمانہ کے علماء سے چھپی ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے بعد کے علماء پر اسے ظاہر کر دیا چنانچہ شیخ جلال الدین سیوطی نے اس بارے میں رسالے تصنیف کیے ہیں اور اس مسئلہ کو دلائل سے ثابت کر کے مخالفین کے شبہات کے جواب دیئے ہیں
بہرحال ! یہ مسئلہ چونکہ بہت زیادہ نازک ہے اس لیے علماء کا فیصلہ یہ ہے کہ اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے یہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے وہی بہتر جانتا ہے۔
حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کو سکھایا کرتے تھے کہ وہ جب قبرستان جائیں تو وہاں یہ کہیں دعا (السلام علیکم اہل الدیار من المومنین والمسلمین وانا ان شاء اللہ للاحقون نسأل اللہ لنا ولکم العافیۃ) سلامتی ہو تم پر اے گھر والے مومنین و مسلمین سے! یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم سے ضرور ملیں گے ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے عافیت یعنی مکروہات سے نجات مانگے ہیں۔ (مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کو گھر اس لیے فرمایا ہے کہ جس طرح زندہ انسان اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں اسی طرح مردے اپنی اپنی قبروں میں رہتے ہیں۔
اہل الدیار من المومنین والمسلمین من المومنین اہل الدیار کا بیان اور اس کی وضاحت ہے اسی طرح و المسلمین من المومنین کی تاکید کے لیے استعمال فرمایا گیا ہے۔
٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ کے قبرستان سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبروں کی طرف روئے مبارک کر کے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ دعا (السلام علیکم یا اہل القبور یغفر اللہ لنا ولکم انتم سلفنا ونحن بالاثر)۔ اے قبر والو! تمہاری خدمت میں سلام پیش ہے اور اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے تم ہم میں سے پہلے پہنچے ہوئے ہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
حدیث کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبروں کی طرف اپنا روئے مبارک کر کے متوجہ ہوئے، میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی شخص اہل قبور پر سلام پیش کرے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ اس وقت اس کا منہ میت کے منہ کے سامنے ہو، اسی طرح جب دعاء مغفرت و فاتحہ خوانی وغیرہ کے لیے قبر پر کھڑا ہو تو اپنا منہ میت کے سامنے رکھے چنانچہ علماء و مجتہدین کا یہی مسلک ہے اور اسی کے مطابق تمام مسلمانوں کا عمل ہے صرف علامہ ابن حجر اس کے خلاف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مستحب ہے کہ قبر پر حاضر ہونے والا دعائے مغفرت و فاتحہ خوانی کے وقت اپنا منہ قبلہ کی طرف رکھے۔
مظہر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی میت کی زیارت اس کی زندگی کی ملاقات کی طرح ہے لہٰذا جس طرح کسی شخص کی زندگی میں اس سے ملاقات کے وقت اپنا منہ اس کے منہ کی طرف متوجہ رکھا جاتا ہے اس طرح اس کے مرنے کے بعد اس کی میت یا اس کی قبر کی زیارت کے وقت بھی اپنا منہ اس کے منہ کے سامنے رکھا جائے پھر یہ کہ کسی بھی میت کے سامنے وہی طریقہ و آداب ملحوظ رہنے چاہئیں جو اس کی زندگی میں نشست و برخاست کے وقت ملحوظ ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کی ملاقات کے وقت جو اپنے کمالات و فضائل کی بنا پر عظیم المرتبت و رفیع القدر تھا ادب و احترام کے پیش نظر اس کے بالکل قریب نہیں بیٹھتا تھا بلکہ اس سے کچھ فاصلہ پر بیٹھتا تھا تو اب اس کی میت یا اس کی قبر کی زیارت کے وقت بھی وہ فاصلہ سے کھڑا رہے یا بیٹھے اور اگر اس کی زندگی میں بوقت ملاقات اس کے قریب بیٹھتا تھا کہ جب اس کی میت یا قبر کی زیارت کرے تو اس کے قریب ہی کھڑا ہو یا بیٹھے۔
جب کسی قبر کی زیارت کی جائے تو اس وقت سورۃ فاتحہ اور قل ہواللہ احد تین مرتبہ پڑھے اور اس کا ثواب میت کو بخش کر اس کے لیے دعائے مغفرت کرے لیکن اتنی بات بہر صورت ملحوظ رہے کہ زیارت قبر کے وقت نہ تو قبر کو ہاتھ لگائے اور نہ بوسہ دے کیونکہ یہ نصاریٰ کی عادت ہے اس طرح قبر کو سجدہ کرنا قبر کے سامنے رکوع کرنا اور قبر کا طواف کرنا بھی انتہائی سخت گناہ ہے اور دعویٰ ایمان اسلام کے خلاف ہے ان باتوں سے اجتناب ضروری ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باری میرے یہاں ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری شب میں اٹھ کر مدینہ کے قبرستان بقیع میں تشریف لے جاتے اور وہاں فرماتے دعا (السلام علیکم دار قوم مومنین واتاکم ما توعدون غدا موجلون وانا ان شاء اللہ بکم لاحقون اللہم اغفر لاہل بقیع الغرقد)، سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب و عذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔ (رواہ مسلم)
تشریح
مدینہ کی ایک جگہ کا نام بقیع ہے اس میں مدینہ والوں کی قبریں ہیں اسی قبرستان کو جنت البقیع بھی کہا جاتا ہے اس جگہ غرقد کے درخت بہت تھے۔ اس لیے اس کو دعائے مغفرت میں بقیع غرقد فرمایا گیا۔
قبرستان میں پہنچ کر کیا کہا جائے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کس طرح کہوں؟ یعنی زیارت قبور کے وقت کیا کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کہا کرو۔ دعا (السلام علی اہل الدیار من المومنین والمسلمین ویرحم اللہ المستقدمین منا والمستاخرین وانا ان شاء اللہ بکم للاحقون) سلامتی ہو مومنین و مسلمین میں سے گھر والوں پر اللہ ان پر رحم کرے جو ہم میں سے پہلے تھے اور ان پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کرے جو ہم میں سے بعد میں آنے والے ہیں یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں (مسلم)
تشریح
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسے مومن بھائی کی قبر پر پہنچے جسے وہ دنیا میں جانتا پہچانتا تھا پھر اس پر سلام پیش کرے تو صاحب قبر اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔
حضرت محمد بن نعمان یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر جمعہ کے روز یا ہفتہ میں کسی بھی دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر جائے اور وہاں ان کے لیے دعائے مغفرت و ایصال ثواب کرے تو اس کی مغفرت کی جاتی ہے اور اسے نامہ اعمال میں اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا لکھا جاتا ہے۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے پہلے تمہیں قبروں پر جانے سے منع کیا تھا مگر اب تم قبروں پر جایا کرو کیونکہ قبروں پر جانا دنیا سے بے رغبتی پید اکرتا ہے اور آخرت کی یاد دلاتا ہے (ابن ماجہ)
تشریح
حدیث میں گویا قبروں پر جانے کی علت بیان فرمائی جا رہی ہے کہ قبروں پر کیوں جانا چاہئے؟ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ قبروں پر جانا درحقیقت انسان کے دل دماغ میں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بے رغبتی کا احساس پیدا کرتا ہے کہ جب انجام کار یہی ہے تو دنیا میں دل لگانا اور اپنی زندگی پر گھمنڈ کرنا بے کار ہے چنانچہ بڑے بڑے انسان اس دنیا میں پیدا ہوئے کسی نے اپنی سلطنت و حکومت کا سہارا لے کر خدائی کا دعویٰ کیا کسی نے طاقت و دولت کے نشہ میں اپنی برتری و سطوت کا مظاہر کیا، کسی نے سائنس و ایجادات کے فریب میں قدرت سے مقابلہ کی ٹھانی اور کسی نے جاہ اقتدار کے بل بوتہ پر امن و سکون کے لالہ زاروں کو دہکتی ہوئی جہنم اور بہتے ہوئے خون کے دریا میں تبدیل کر دیا مگر انجام کیا ہوا کہ جب انہیں مٹی کے تودوں میں دبایا گیا تو کوئی نام لیوا نہ رہا جب ان کی لاشوں کو دریا کی آغوش میں ڈال دیا گیا تو موجوں کے ایک ہی تھپیڑے نے غرور نخوت کے مجسمہ کو دریائی جانوروں کے منہ میں پہنچا دیا اور جب ان کے جسم کو آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا گیا تو بے چارگی و بے مائیگی بے اختیار مسکرا اٹھی۔
قبروں پر جانے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ آخرت کی یاد دلاتا ہے یعنی قبروں پر پہنچ کر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اس عالم کے علاوہ ایک عالم اور ہے جہاں جانا ہے اور وہاں جا کر اس عالم کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبرستان پہنچ کر قبروں کو عبرت کی نظروں سے دیکھا جائے اور موت کو یاد کیا جائے کہ موت کی یاد ہی درحقیقت دنیاوی لذتوں کے فریب کا پردہ چاک کرنے والی اور گناہوں و معصیت کی ہر کدورت کو صاف کرنے والی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں پر زیادہ جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) اور حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز انہوں نے فرمایا کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ یہ (یعنی قبروں پر جانے والی عورتوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا لعنت فرمانا) اس وقت تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں پر جانے کی اجازت عطا فرما دی تو اس اجازت میں مرد و عورت دونوں شامل ہو گئے۔ اس کے برخلاف بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں میں صبر و تحمل کے مادہ کی کمی اور جزع و فزع یعنی رونے دھونے کی زیادتی کی وجہ سے ان کے قبروں پر جانے کو ناپسند فرمایا ہے۔ (لہٰذا عورتوں کے لیے یہ ممانعت اب بھی باقی ہے) ترمذی کی بات پوری ہوئی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں اس حجرہ مبارک میں جایا کرتی تھی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) مدفون تھے تو میں (اپنے بدن سے) کپڑا (یعنی چادر) اتار کر رکھ دیتی تھی اور (دل میں) کہا کرتی تھی کہ یہاں میرے خاوند (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور میرے باپ (حضرت ابوبکر صدیق) مدفون ہیں اور یہ دونوں میرے لئے اجنبی نہیں ہیں تو پھر حجاب کیسا؟ مگر جب (اس حجرہ میں) ان کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں اس حجرہ میں جب بھی داخل ہوتی تھی، حضرت عمر سے حیا کی وجہ سے (کہ وہ اجنبی تھے) اپنے بدن پر کپڑے لپیٹے رکھتی۔ (احمد)
تشریح
یہ حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل پیش کر رہی ہے کہ زیارت میت و قبور کے وقت وہی لحاظ ہونا چاہئے جو اس کی زندگی میں ہوتا تھا چنانچہ اس بارے میں ایک صحابی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: اگر میں آگ پر چلوں یا تلوار کی تیز دھار پر اپنا پیر رکھ دوں جس کے نتیجہ میں میرا پیر (جل) کٹ جائے تو میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ میں کسی شخص کی قبر پر چلوں، اور میرے نزدیک قبروں پر پیشاب کرنے اور بھرے بازار میں لوگوں کی نظروں کے سامنے پیشاب کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے
اسی طرح حضرت ابن ابی الدنیا نے حضرت سلیم بن غفیر کے بارے میں یہ نقل کیا ہے :
ایک مرتبہ وہ کسی قبرستان سے گزر رہے تھے کہ انہیں پیشاب کی شدید حاجت ہوئی (ان کی کیفیت دیکھ کر) لوگوں نے کہا کہ سواری سے اتر کر یہیں پیشاب کیوں نہیں کر لیتے! انہوں نے فرمایا کہ سبحان اللہ! (کیسی غلط بات کہہ رہے ہو) خدا کی قسم میں مردوں سے اسی طرح حیا کرتا ہوں جس طرح زندوں سے حیا کرتا ہوں۔