أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قال: "قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَصَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَمَرَّ رَجُلٌ قَدْ كَانَ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَانْحَرَفُوا إِلَى الْكَعْبَةِ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی، پھر آپ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیئے گئے، ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا ہے، وہ لوگ (یہ سنتے ہی نماز کی حالت میں) کعبہ کی طرف پھر گئے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۹۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ فِي السَّفَرِ حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ". قَالَ مَالِكٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے خواہ وہ کسی بھی طرف متوجہ ہو جاتی۔ مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار کا کہنا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۹۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهُ بِهِ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نماز پڑھتے خواہ وہ کسی بھی طرف آپ کو لے کر متوجہ ہوتی، وتر بھی اسی پر پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۹۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: بَيْنَمَا النَّاسُ بِقُبَاءَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، جَاءَهُمْ آتٍ، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ"أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ، فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّامِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلہ (کعبہ) کی طرف رخ کریں، تو ان لوگوں نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا، اور حال یہ تھا کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف (جنوب کی طرف) گھوم گئے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم:۴۹۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ تحری اور اجتہاد کے بعد آدمی نماز شروع کرے پھر نماز کے دوران ہی اسے غلط سمت میں نماز پڑھنے کا علم ہو جائے تو اپنا رخ پھیر کر صحیح سمت کی طرف کر لے، اور لاعلمی میں جو حصہ پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالت: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ عَنْ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي، فَقَالَ: "مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ تبوک میں نمازی کے سترہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "یہ کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کی بھی کوئی چیز ہو سکتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۷ (۵۰۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۹۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قال: أَنْبَأَنَا نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَ"يَرْكُزُ الْحَرْبَةَ ثُمَّ يُصَلِّي إِلَيْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے سامنے) نیزہ گاڑتے تھے، پھر اس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۹۲ (۴۹۸)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: ۸۱۷۲)، مسند احمد ۲/۱۳، ۱۸، ۱۴۲، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۴ (۱۴۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کھلا میدان ہو یا بند مکان، حتیٰ کہ مسجد میں بھی امام اور منفرد سب کے لیے سترہ فرض ہے، مساجد میں دیوار، کھمبا یا کسی آدمی ہی کو سہی سترہ بنا لے، تو وہ آدمی اس کی نماز ختم ہونے تک اس کے سامنے بیٹھا رہے۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ، فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعَ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ".
سہل بن ابو حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی سترہ کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھے، تو اس سے قریب رہے کہ شیطان اس کی نماز باطل نہ کر سکے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۱۰۷ (۶۹۵)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۸)، مسند احمد ۴/۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً، عَلَيْهُ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْنَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ هُوَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَسَأَلْتُ بِلَالًا حِينَ خَرَجَ: "مَاذَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ وَعَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ وَثَلَاثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، وَكَانَ الْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ، ثُمَّ صَلَّى وَجَعَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ نَحْوًا مِنْ ثَلَاثَةِ أَذْرُعٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہم چاروں خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ بند کر لیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب وہ لوگ نکلے تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کعبہ کے اندر) کیا کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھمبا (ستون) اپنے بائیں طرف کیا، دو کھمبے اپنے دائیں طرف، اور تین کھمبے اپنے پیچھے، (ان دنوں خانہ کعبہ چھ ستونوں پر تھا) پھر آپ نے نماز پڑھی، اور اپنے اور دیوار کے درمیان تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ رکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۶۹۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی نمازی اپنے اور سترہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ رکھے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ، قال: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْأَبِي ذَرٍّ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ قَائِمًا يُصَلِّي فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ". قُلْتُ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَصْفَرِ مِنَ الْأَحْمَرِ ؟ فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: "الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز ہو تو وہ اس کے لیے سترہ ہو جائے گی، اور اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہو تو عورت، گدھا اور کالا کتا اس کی نماز باطل کر دے گا"۔ عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پیلے اور لال رنگ کے مقابلہ میں کالے (کتے) کی کیا خصوصیت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: جس طرح آپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کالا کتا شیطان ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۵۰ (۵۰۱)، سنن ابی داود/فیہ ۱۱۰ (۷۰۲)، سنن الترمذی/فیہ ۱۳۷ (۳۳۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۳۸ (۹۵۲) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۳۹)، مسند احمد ۵/۱۴۹، ۱۵۱، ۱۵۵، ۱۵۸، ۱۶۰، ۱۶۱، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۸ (۱۴۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اور کہا ہے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے واقعی نماز باطل ہو جائے گی، لیکن جمہور نے اس کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ باطل ہونے سے مراد نماز میں نقص ہے کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے دل نماز کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو سکے گا اور نماز کے خشوع و خضوع میں فرق آ جائے گا، اور کچھ لوگوں نے اس روایت ہی کو منسوخ مانا ہے۔ ۲؎: بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ وہ دوسرے کتوں کے بالمقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے :(واللہ اعلم )۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، وَهِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قال: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ: مَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ ؟ قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: "الْمَرْأَةُ الْحَائِضُ وَالْكَلْبُ". قَالَ يَحْيَى: رَفَعَهُ شُعْبَةُ.
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا: کون سی چیز نماز کو باطل کر دیتی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے تھے: حائضہ عورت اور کتا۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۱۱۰ (۷۰۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۳۸ (۹۴۹)، مسند احمد ۱/۴۳۷، (تحفة الأشراف: ۵۳۷۹)، (من طریق شعبة مرفوعاً) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قال: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: "جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ عَلَى أَتَانٍ لَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِعَرَفَةَ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، فَمَرَرْنَا عَلَى بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْنَا وَتَرَكْنَاهَا تَرْتَعُ، فَلَمْ يَقُلْ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا:) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۱۸ (۷۶)، الصلاة ۹۰ (۴۹۳)، الأذان ۱۶۱ (۸۶۱)، جزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۷)، المغازي ۷۷ (۴۴۱۲)، صحیح مسلم/الصلاة ۴۷ (۵۰۴)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۱۳ (۷۱۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۳۶ (۳۳۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۳۸ (۹۴۷)، (تحفة الأشراف: ۵۸۳۴)، موطا امام مالک/السفر ۱۱ (۳۸)، مسند احمد ۱/۲۱۹، ۲۶۴، ۲۶۵، ۳۳۷، ۳۴۲، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۹ (۱۴۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کوئی سرزنش نہیں کی، کیونکہ امام مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے، اور وہ دونوں صف کے کچھ ہی حصہ سے گزرے تھے، امام کو عبور نہیں کیا تھا۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قال: قال ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، قال: "زَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبَّاسًا فِي بَادِيَةٍ لَنَا وَلَنَا كُلَيْبَةٌ وَحِمَارَةٌ تَرْعَى، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ وَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمْ يُزْجَرَا وَلَمْ يُؤَخَّرَا".
فضل بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ایک بادیہ میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے، وہاں ہماری ایک کتیا موجود تھی، اور ہماری ایک گدھی چر رہی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی، اور وہ دونوں آپ کے آگے موجود تھیں، تو انہیں نہ ہانکا گیا اور نہ ہٹا کر پیچھے کیا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: (اس کے راوی ’’محمد بن عمر‘‘ لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت ثقات کی روایات کے خلاف ہے) (منکر) سنن ابی داود/الصلاة ۱۱۴ (۷۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۴۵)، مسند احمد ۱/۲۱۱، ۲۱۲
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَنَّ الْحَكَمَ أَخْبَرَهُ، قال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ يُحَدِّثُ، عَنْ صُهَيْبٍ، قال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ"مَرَّ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى حِمَارٍ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَنَزَلُوا وَدَخَلُوا مَعَهُ فَصَلَّوْا وَلَمْ يَنْصَرِفْ، فَجَاءَتْ جَارِيَتَانِ تَسْعَيَانِ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَأَخَذَتَا بِرُكْبَتَيْهِ فَفَرَعَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَنْصَرِفْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ وہ اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک گدھے پر سوار ہو کر گزرے، آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو وہ دونوں اترے اور آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے، پھر ان لوگوں نے نماز پڑھی اور آپ نے نماز نہیں توڑی، اور ابھی آپ نماز ہی میں تھے کہ اتنے میں بنی عبدالمطلب کی دو بچیاں دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ کے گھٹنوں سے لپٹ گئیں، آپ نے ان دونوں کو جدا کیا، اور نماز نہیں توڑی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۱۱۳ (۷۱۶، ۷۱۷)، (تحفة الأشراف: ۵۶۸۷)، مسند احمد ۱/۲۳۵، ۳۴۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ گدھے کے گزرنے سے لوگوں نے نماز میں کوئی حرج نہیں سمجھا، اسی لیے بعض علماء نے گدھے کو نماز باطل کرنے والی چیزوں میں سے مستثنیٰ کر دیا ہے، لیکن ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث :(رقم:۷۵۱ ) اس باب میں واضح اور قاطع ہے، نیز یہ قطعی نہیں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا گدھا چھوڑ دینے کے بعد امام کے آگے سے گزرا بھی ہو، بلکہ حدیث :(رقم:۷۵۳ ) سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صف کے کچھ ہی حصہ تک گدھا بھی محدود رہا، اور دونوں بچیاں چونکہ ابھی بالغ نہیں ہوئی تھیں اس لیے ان کے گزرنے سے کوئی حرج نہیں سمجھا گیا۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالت: "كُنْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ كَرِهْتُ أَنْ أَقُومَ فَأَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ انْسَلَلْتُ انْسِلَالًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یہ بات ناگوار لگی کہ میں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گزروں تو میں دھیرے سے سرک گئی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۹۹ (۵۰۸)، ۱۰۲ (۵۱۱)، ۱۰۵ (۵۱۴)، الاستئذان ۳۷ (۶۲۷۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۵۱ (۵۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۸۷)، مسند احمد ۶/۱۷۴، ۲۶۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک تو عائشہ رضی اللہ عنہا چارپائی پر سوئی ہوئی تھیں :(جس کو آپ نے سترہ بنایا ہوا تھا ) دوسرے وہ آپ کے آگے گزری نہیں بلکہ سرک گئی تھیں، «مرور» کہتے ہیں ایک جانب سے دوسری جانب تک یعنی ادھر سے ادھر تک گزرنا، اور «السلال» کہتے ہیں کہ ایک ہی جانب سے سرک جانا۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ".
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہتے سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن، مہینہ یا سال) تک کھڑا رہنے کو بہتر اس بات سے جانتا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۰۱ (۵۱۰)، صحیح مسلم/الصلاة ۴۸ (۵۰۷)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۰۹ (۷۰۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۳۵ (۳۳۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۳۷ (۹۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۸۴)، موطا امام مالک/السفر ۱۰ (۳۴)، مسند احمد ۴/۱۶۹، سنن الدارمی/الصلاة ۱۳۰ (۱۴۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَلَا يَدَعْ أَحَدًا أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، اگر وہ نہ مانے تو اسے سختی سے دفع کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۸ (۵۰۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۰۸ (۶۹۷، ۶۹۸) مطولاً، سنن ابن ماجہ/إقامة ۳۹ (۹۵۴) مطولاً، (تحفة الأشراف: ۴۱۱۷)، موطا امام مالک/السفر ۱۰ (۳۳)، مسند احمد ۳/۳۴، ۴۳، ۴۹، ۵۷، ۹۳، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۵ (۱۴۵۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْكَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قال: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ بِحِذَائِهِ فِي حَاشِيَةِ الْمَقَامِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ".
مطلب بن ابی وداعۃ سہمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے خانہ کعبہ کا سات چکر لگایا، پھر مقام ابراہیم کے حاشیہ میں اپنے جوتوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی (سترہ) نہ تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحج ۸۹ (۲۰۱۶)، سنن ابن ماجہ/الحج ۳۳ (۲۹۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۸۵)، مسند احمد ۶/۳۹۹، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۹۶۲ (ضعیف) (اس کے راوی ’’ کثیر بن المطلب‘‘ لین الحدیث ہیں، اسی لیے ان کے بیٹے کثیر بن کثیر ان کا نام حذف کر کے کبھی ’’عن بعض أھلہ‘‘ اور کبھی ’’عمن سمع جدہ‘‘ کہا کرتے تھے)
وضاحت: ۱؎: اولاً: تو یہ حدیث ہی ضعیف ہے، اس سے استدلال درست نہیں، ثانیاً: مقام ابراہیم ہی بطور سترہ کافی تھا، اس اعتبار سے یہ روایت ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مکہ میں سترہ کی ضرورت نہیں۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ وَأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے اور قبلہ کے بیچ آپ کے بستر پر چوڑان میں سوئی رہتی تھی، تو جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے جگاتے، تو میں (بھی) وتر پڑھتی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۳ ۱۰ (۵۱۲)، الوتر ۳ (۹۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۱۲)، مسند احمد ۶/۵۰، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۲۲ (۳۸۳)، ۱۰۴ (۵۱۳)، ۱۰۷ (۵۱۸)، العمل في الصلاة ۱۰ (۱۲۰۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۵۱ (۵۱۲)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۱۲ (۷۱۲)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۱ (۲)، مسند احمد ۶/۵۰، ۱۹۲، ۲۰۵، ۲۳۱، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۷ (۱۴۵۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ ابْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا".
ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ تم قبروں کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۳ (۹۷۲)، سنن ابی داود/الجنائز ۷۷ (۳۲۲۹)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۷ (۱۰۵۰، ۱۰۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۶۹)، مسند احمد ۴/۱۳۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، قال: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ فِي بَيْتِي ثَوْبٌ فِيهِ تَصَاوِيرُ فَجَعَلْتُهُ إِلَى سَهْوَةٍ فِي الْبَيْتِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "يَا عَائِشَةُ أَخِّرِيهِ عَنِّي"، فَنَزَعْتُهُ فَجَعَلْتُهُ وَسَائِدَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے گھر ایک کپڑا تھا جس میں تصویریں تھیں، میں نے اسے گھر کے ایک روشندان پر لٹکا دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرح (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ! اسے میرے پاس سے ہٹا دو"، تو میں نے اسے اتار لیا، اور اس کے تکیے بنا ڈالے۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۹۴)، مسند احمد ۶/۱۷۲، سنن الدارمی/الاستئذان ۳۳ (۲۷۰۴)، ویأتی عند المؤلف في الزینة فی المجتبی ۱۱۱ (برقم: ۵۳۵۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصِيرَةٌ يَبْسُطُهَا بِالنَّهَارِ وَيَحْتَجِرُهَا بِاللَّيْلِ فَيُصَلِّي فِيهَا، فَفَطَنَ لَهُ النَّاسُ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَهُمُ الْحَصِيرَةُ، فَقَالَ: "اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ"، ثُمَّ تَرَكَ مُصَلَّاهُ ذَلِكَ فَمَا عَادَ لَهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَكَانَ إِذَا عَمِلَ عَمَلًا أَثْبَتَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۱ (۷۳۰) مختصراً، اللباس ۴۳ (۵۸۶۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۳۰ (۷۸۲)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۷ (۱۳۶۸) (من قولہ: اکلفوا من العمل الخ)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۳۶ (۹۴۲) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۲۰)، مسند احمد ۶/۴۰، ۶۱، ۲۴۱، (ولیس قولہ: ’’ ثم ترک م صلاة۔۔۔حتی قبضہ اللہ‘‘ عند أحد سوی المؤلف (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ سَائِلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، فَقَالَ: "أَوَلِكُلِّكُمْ ثَوْبَانِ ؟".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں؟"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۴ (۳۵۸)، ۹ (۳۶۵)، صحیح مسلم/الصلاة ۵۲ (۵۱۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۷۸ (۶۲۵)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: ۱۳۲۳۱)، موطا امام مالک/الجماعة ۹ (۳۰)، مسند احمد ۶/۲۳۰، ۲۳۹، ۲۸۵، ۳۴۵، ۴۹۵، ۴۹۸، ۴۹۹، ۵۰۱، سنن الدارمی/الصلاة ۹۹ (۱۴۱۰، ۱۴۱۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ وَاضِعًا طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقَيْهِ".
عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۴ (۳۵۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۵۲ (۵۱۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۳۸ (۳۳۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۶۹ (۱۰۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۸۴)، موطا امام مالک/الجماعة ۹ (۲۹)، مسند احمد ۴/۲۶، ۲۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ، عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قال: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَأَكُونُ فِي الصَّيْدِ وَلَيْسَ عَلَيَّ إِلَّا الْقَمِيصُ، أَفَأُصَلِّي فِيهِ ؟ قَالَ: "وَزُرَّهُ عَلَيْكَ وَلَوْ بِشَوْكَةٍ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار پر جاتا ہوں اور میرے جسم پر سوائے قمیص کے کچھ نہیں ہوتا، تو کیا میں اس میں نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(ہاں پڑھ لو) اور اس میں ایک تکمہ لگا لو گرچہ کانٹے ہی کا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۸۱ (۶۳۲)، (تحفة الأشراف: ۴۵۳۳)، مسند احمد ۴/۴۹، ۵۴ (حسن)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قال: كَانَ رِجَالٌ يُصَلُّونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاقِدِينَ أُزْرَهُمْ كَهَيْئَةِ الصِّبْيَانِ، فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ: "لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنا تہبند باندھے نماز پڑھ رہے تھے، تو عورتوں سے (جو مردوں کے پیچھے پڑھ رہی تھیں) کہا گیا کہ "جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اپنے سروں کو نہ اٹھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۶ (۳۶۲)، الأذان ۱۳۶ (۸۱۴)، العمل في الصلاة ۱۴ (۱۲۱۵)، صحیح مسلم/الصلاة ۲۹ (۴۴۱)، سنن ابی داود/الصلاة ۷۹ (۶۳۰)، (تحفة الأشراف: ۴۶۸۱)، مسند احمد ۳/۴۳۳، ۵/۳۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قال: أَنْبَأَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قال: لَمَّا رَجَعَ قَوْمِي مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: إِنَّهُ قَالَ: "لِيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قِرَاءَةً لِلْقُرْآنِ". قَالَ: فَدَعَوْنِي فَعَلَّمُونِي الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ فَكُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ مَفْتُوقَةٌ فَكَانُوا يَقُولُونَ لِأَبِي: أَلَا تُغَطِّي عَنَّا اسْتَ ابْنِكَ ؟.
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میرے قبیلہ کے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "تم میں جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرائے"، تو ان لوگوں نے مجھے بلا بھیجا، اور مجھے رکوع اور سجدہ کرنا سکھایا تو میں ان لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا، میرے جسم پر ایک پھٹی چادر ہوتی، تو وہ لوگ میرے والد سے کہتے تھے کہ تم ہم سے اپنے بیٹے کی سرین کیوں نہیں ڈھانپ دیتے؟۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۶۳۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْعَائِشَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي بِاللَّيْلِ وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ وَأَنَا حَائِضٌ وَعَلَيَّ مِرْطٌ بَعْضُهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میں حائضہ ہوتی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (بھی) ہوتا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۵۱ (۵۱۴)، سنن ابی داود/الطھارة ۱۳۵ (۳۷۰)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۱۳۱ (۶۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۰۸)، مسند احمد ۶/۶۷، ۹۹، ۱۳۷، ۱۹۹، ۲۰۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقِهِ مِنْهُ شَيْءٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس کا کوئی حصہ اس کے کندھے پر نہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۵۲ (۵۱۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۷۸ (۶۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۷۸)، مسند احمد ۲/۲۴۳، ۴۶۴، سنن الدارمی/الصلاة ۹۹ (۱۴۱۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، وَعِيسَى بْنُ حَمَّادٍ زُغْبَةُ، عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قال: أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُّوجُ حَرِيرٍ فَلَبِسَهُ ثُمَّ صَلَّى فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَزَعَهُ نَزْعًا شَدِيدًا كَالْكَارِهِ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: "لَا يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی قباء ہدیے میں دی گئی، تو آپ نے اسے پہنا، پھر اس میں نماز پڑھی، پھر جب آپ نماز پڑھ چکے تو اسے زور سے اتار پھینکا جیسے آپ اسے ناپسند کر رہے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اہل تقویٰ کے لیے یہ مناسب نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۶ (۳۷۵)، اللباس ۱۲ (۵۸۰۱)، صحیح مسلم/الصلاة ۲ (۲۰۷۵)، (تحفة الأشراف: ۹۹۵۹)، مسند احمد ۴/۱۴۳، ۱۴۹، ۱۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْعَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، ثُمَّ قَالَ: "شَغَلَتْنِي أَعْلَامُ هَذِهِ، اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيِّهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان بیل بوٹوں نے مجھے مشغول کر دیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ، اور اس کے عوض کوئی سادی چادر لے آؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۴ (۳۷۳)، الأذان ۹۳ (۷۵۲)، اللباس ۱۹ (۵۸۱۷)، صحیح مسلم/المساجد ۱۵ (۵۵۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۶۷ (۹۱۴)، اللباس ۱۱ (۴۰۵۳)، سنن ابن ماجہ/الصلاة ۱ (۳۵۵۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۳۴)، موطا امام مالک/الصلاة ۱۸ (۶۸) مرسلاً، مسند احمد ۶/۳۷، ۴۶، ۱۷۷، ۱۹۹، ۲۰۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ فَرَكَزَ عَنَزَةً فَصَلَّى إِلَيْهَا يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا الْكَلْبُ وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ".
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۷ (۳۷۶)، الأذان ۱۸ (۶۳۳)، المناقب ۲۳ (۳۵۵۳)، اللباس ۳ (۵۷۸۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۴۷ (۵۰۳)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۴ (۵۲۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۳۰ (۱۹۷)، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۰۸)، مسند احمد ۴/۳۰۷، ۳۰۸، ۳۰۹ (بعضھم لم یذکر الحلة) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ صُبْحٍ، قال: سَمِعْتُ خِلَاسَ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ"كُنْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو الْقَاسِمِ فِي الشِّعَارِ الْوَاحِدِ وَأَنَا حَائِضٌ طَامِثٌ فَإِنْ أَصَابَهُ مِنِّي شَيْءٌ غَسَلَ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَعْدُهُ إِلَى غَيْرِهِ وَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ يَعُودُ مَعِي فَإِنْ أَصَابَهُ مِنِّي شَيْءٌ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ لَمْ يَعْدُهُ إِلَى غَيْرِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اکرم ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جسم سے لگے ایک ہی کپڑے میں سوتے اور میں حائضہ ہوتی، اگر مجھ سے آپ کو کچھ (خون) لگ جاتا تو آپ جتنی جگہ میں لگتا اسی کو دھو لیتے اور اس سے آگے تجاوز نہ فرماتے، اور اسی میں نماز پڑھتے، پھر واپس آ کر میرے ساتھ لیٹتے، اگر پھر مجھ سے کچھ (خون) لگ جاتا تو آپ پھر ویسے ہی کرتے، اور اس سے آگے تجاوز نہ فرماتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۸۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «شعار»: اس کپڑے کو کہتے ہیں جو آدمی کے جسم سے ملا ہوا ہوتا ہے، جیسے کرتے کے نیچے بنیان، یا بغیر بنیان کے کرتا اور چادر وغیرہ، یہاں چادر ہی مراد ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، قال: رَأَيْتُ جَرِيرًا"بَالَ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، فَقال: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا".
ہمام کہتے ہیں کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پیشاب کیا پھر پانی منگایا، اور وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۱۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، وَغَسَّانَ بْنِ مُضَرَ، قالا: حَدَّثَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ وَاسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ، قال: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ"أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي النَّعْلَيْنِ، قال: "نَعَمْ".
ابوسلمہ (ان کا نام سعید بن یزید بصریٰ ہے اور وہ ثقہ ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں (پڑھتے تھے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۲۴ (۳۸۶)، اللباس ۳۷ (۵۸۵۰)، صحیح مسلم/المساجد ۱۴ (۵۵۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۷ (۴۰۰)، مسند احمد ۳/۱۰۰، ۱۶۶، ۱۸۹، سنن الدارمی/الصلاة ۱۰۳ (۱۴۱۷)، (تحفة الأشراف: ۸۶۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَشُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى يَوْمَ الْفَتْحِ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عَنْ يَسَارِهِ".
عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن نماز پڑھی، تو آپ نے اپنے جوتوں کو اپنے بائیں جانب رکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۸۹ (۶۴۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۲۰۵ (۱۴۳۱)، (تحفة الأشراف: ۵۳۱۴)، مسند احمد ۳/۴۱۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے، آپ کے بائیں جانب کوئی نہیں تھا اس لیے آپ نے اپنے جوتوں کو اپنے بائیں رکھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بائیں جانب ہو تو بائیں بھی جوتا نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ تمہارا بایاں دوسرے شخص کا دایاں ہو گا۔