وَسُمِّيَتْ أُمَّ الْكِتَابِ أَنَّهُ يُبْدَأُ بِكِتَابَتِهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَيُبْدَأُ بِقِرَاءَتِهَا فِي الصَّلَاةِ، وَالدِّينُ الْجَزَاءُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَمَا تَدِينُ تُدَانُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِالدِّينِ بِالْحِسَابِ مَدِينِينَ مُحَاسَبِينَ.
«أم» ، ماں کو کہتے ہیں۔ «أم الكتاب» اس سورۃ کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اسی سے کتابت کی ابتداء ہوتی ہے۔ (اسی لیے اسے «فاتحة الكتاب» بھی کہا گیا ہے) اور نماز میں بھی قرآت اسی سے شروع کی جاتی ہے اور «الدين» بدلہ کے معنی میں ہے۔ خواہ اچھائی میں ہو یا برائی میں جیسا کہ (بولتے ہیں) «كما تدين تدان.» (جیسا کرو گے ویسا بھرو گے)۔ مجاہد نے کہا کہ «الدين» حساب کے معنیٰ میں ہے جبکہ «مدينين» بمعنیٰ «محاسبين» ہے یعنی حساب کئے گئے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ: "أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، ثُمَّ قَالَ لِي: "لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ"، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، قُلْتُ لَهُ: أَلَمْ تَقُلْ لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ ؟ قَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا (پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کر) عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم» اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الحمد لله رب العالمين» یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا قَالَ الْإِمَامُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، فَمَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم «آمين.» کہو کیونکہ جس کا یہ کہنا ملائکہ کے کہنے کے ساتھ ہو جائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو النَّاسِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ ذَنْبَهُ، فَيَسْتَحِي ائْتُوا نُوحًا، فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ سُؤَالَهُ رَبَّهُ مَا لَيْسَ لَهُ بِهِ عِلْمٌ فَيَسْتَحِي، فَيَقُولُ: ائْتُوا خَلِيلَ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمُ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا كَلَّمَهُ اللَّهُ، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ قَتْلَ النَّفْسِ بِغَيْرِ نَفْسٍ فَيَسْتَحِي مِنْ رَبِّهِ، فَيَقُولُ: ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ، وَكَلِمَةَ اللَّهِ وَرُوحَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمُ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَأْتُونِي، فَأَنْطَلِقُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنَ لِي، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي مِثْلَهُ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ، فَأَقُولُ: مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ يَعْنِي قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى خَالِدِينَ فِيهَا سورة البقرة آية 162.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومنین قیامت کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے، بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے «خالدين فيها» کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: إِلَى شَيَاطِينِهِمْ: أَصْحَابِهِمْ مِنَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُشْرِكِينَ، مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ، اللَّهُ جَامِعُهُمْ عَلَى الْخَاشِعِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَقًّا، قَالَ مُجَاهِدٌ: بِقُوَّةٍ يَعْمَلُ بِمَا فِيهِ، وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: مَرَضٌ شَكٌّ وَمَا خَلْفَهَا عِبْرَةٌ لِمَنْ بَقِيَ لَا شِيَةَ لَا بَيَاضَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَسُومُونَكُمْ يُولُونَكُمُ الْوَلَايَةُ مَفْتُوحَةٌ مَصْدَرُ الْوَلَاءِ وَهِيَ الرُّبُوبِيَّةُ إِذَا كُسِرَتِ الْوَاوُ فَهِيَ الْإِمَارَةُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْحُبُوبُ الَّتِي تُؤْكَلُ كُلُّهَا فُومٌ، وَقَالَ قَتَادَةُ: فَبَاءُوا فَانْقَلَبُوا، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَسْتَفْتِحُونَ يَسْتَنْصِرُونَ شَرَوْا بَاعُوا رَاعِنَا مِنَ الرُّعُونَةِ إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُحَمِّقُوا إِنْسَانًا، قَالُوا رَاعِنًا لَا يَجْزِي لَا يُغْنِي خُطُوَاتِ مِنَ الْخَطْوِ وَالْمَعْنَى آثَارَهُ ابْتَلَى اخْتَبَرَ.
مجاہد نے کہا «إلى شياطينهم» سے ان کے دوست منافق اور مشرک مراد ہیں۔ «محيط بالكافرين» کے معنی اللہ کافروں کو اکٹھا کرنے والا ہے۔ «على الخاشعين» میں «خاشعين» سے مراد پکے ایماندار ہیں۔ «بقوة» یعنی اس پر عمل کر کے قوت سے یہی مراد ہے۔ ابوالعالیہ نے کہا «مرض» سے «شك» مراد ہے۔ «صبغة» سے دین مراد ہے۔ «وما خلفها» یعنی پچھلے لوگوں کے لیے عبرت جو باقی رہی۔ «وما خلفها» کا معنی اس میں سفیدی نہیں اور ابوالعالیہ کے سوا نے کہا «يسومونكم» کا معنی تم پر اٹھاتے تھے یا تم کو ہمیشہ تکلیف پہنچاتے تھے۔ اور (سورۃ الکہف میں) «الولاية» بفتح واؤ ہے جس کے معنی «ربوبية» یعنی خدائی کے ہیں۔ اور «ولاية» بکسر واؤ اس کے معنی سرداری کے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا جن جن اناجوں کو لوگ کھاتے ہیں ان کو «فوم.» کہتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو ثوم پڑھا ہے یعنی لہسن کے معنی میں لیا ہے۔ «فادارأتم» کا معنی تم نے آپس میں جھگڑا کیا۔ قتادہ نے کہا «فباءوا»یعنی لوٹ گئے اور قتادہ کے سوا دوسرے شخص (ابو عبیدہ) نے کہا «يستفتحون» کا معنی مدد مانگتے تھے۔ «شروا» کے معنی بیجا۔ لفظ«راعنا» «رعونة» سے نکلا ہے۔ عرب لوگ جب کسی کو احمق بناتے تو اس کو لفظ «راعنا» سے پکارتے۔ «لا يجزي» کچھ کام نہ آئے گی۔ «ابتلي» کے معنی آزمایا جانچا۔ «خطوات» لفظ «خطو» بمعنی قدم کی جمع ہے۔
حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ"، قُلْتُ: إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِيمٌ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ ؟ قَالَ: "وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ"، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ ؟ قَالَ: "أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرحبیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْمَنُّ: صَمْغَةٌ، وَالسَّلْوَى: الطَّيْرُ.
آیت مذکورہ کی تفسیر میں مجاہد نے کہا کہ «من» ایک درخت کا گوند تھا اور «سلوىا» پرندے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «كمأة» (یعنی کھنبی) بھی «من» کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔
رَغَدًا: وَاسِعٌ كَثِيرٌ.
لفظ «رغدا» کے معنی «واسع كثير» کے ہیں یعنی بہت فراخ۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ سورة البقرة آية 58، فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ فَبَدَّلُوا، وَقَالُوا حِطَّةٌ حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھکتے ہوئے داخل ہوں اور «حطة» کہتے ہوئے (یعنی) اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے۔ لیکن وہ الٹے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ «حطة» کو بھی بدل دیا اور کہا کہ «حبة في شعرة» یعنی دل لگی کے طور پر کہنے لگے کہ دانہ بال کے اندر ہونا چاہیے۔
وَقَالَ عِكْرِمَةُ: جَبْرَ وَمِيكَ وَسَرَافِ عَبْدٌ إِيلِ اللَّهُ.
عکرمہ نے کہا کہ الفاظ «جبر، وميك» اور «سراف» تینوں کے معنی بندہ کے ہیں اور لفظ «إيل» عبرانی زبان میں «الله» کے معنی میں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، بِقُدُوم رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْوَ فِي أَرْضٍ يَخْتَرِفُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ وَمَا يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ ؟ قَالَ: "أَخْبَرَنِي بِهِنَّ جِبْرِيلُ آنِفًا"، قَالَ: جِبْرِيلُ ؟ قَالَ: "نَعَمْ"، قَالَ: "ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ سورة البقرة آية 97 أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ، فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ نَزَعَتْ"، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، وَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ يَبْهَتُونِي، فَجَاءَتْ الْيَهُودُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ فِيكُمْ ؟"قَالُوا: خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا، وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا، قَالَ: "أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ؟"فَقَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَانْتَقَصُوهُ، قَالَ: فَهَذَا الَّذِي كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، اس نے کہا کہ مجھ سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (جو یہود کے بڑے عالم تھے) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (مدینہ) تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے۔ وہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بتلائیے! قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ اہل جنت کی دعوت کے لیے سب سے پہلے کیا چیز پیش کی جائے گی؟ بچہ کب اپنے باپ کی صورت میں ہو گا اور کب اپنی ماں کی صورت پر؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ابھی جبرائیل نے آ کر ان کے متعلق بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام بولے جبرائیل علیہ السلام نے! فرمایا: ہاں، عبداللہ بن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «من كان عدوا لجبريل فإنه نزله على قلبك» اور ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا، قیامت کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہو گی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔ اہل جنت کی دعوت میں جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہو گا اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غلبہ کر جاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کر جاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے «أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أنك رسول الله.» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (پھر عرض کیا) یا رسول اللہ! یہودی بڑی بہتان باز قوم ہے، اگر اس سے پہلے کہ آپ میرے متعلق ان سے کچھ پوچھیں، انہیں میرے اسلام کا پتہ چل گیا تو مجھ پر بہتان تراشیاں شروع کر دیں گے۔ بعد میں جب یہودی آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عبداللہ تمہارے یہاں کیسے آدمی سمجھے جاتے ہیں؟ وہ کہنے لگے، ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے! ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟ کہنے لگے، اللہ تعالیٰ اس سے انہیں پناہ میں رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ظاہر ہو کر کہا «أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله.» کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہی یہودی ان کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر ہے اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی توہین شروع کر دی۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! یہی وہ چیز تھی جس سے میں ڈرتا تھا۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا، يَقُولُ: لَا أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا سورة البقرة آية 106.
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے حبیب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم میں سب سے بہتر قاری قرآن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں اور ہم میں سب سے زیادہ علی رضی اللہ عنہ میں قضاء یعنی فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے باوجود ہم ابی رضی اللہ عنہ کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے جو ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن آیات کی بھی تلاوت سنی ہے، میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے «ما ننسخ من آية أو ننسأها» الخ کہ ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قالَ: "قَالَ اللَّهُ: كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَزَعَمَ أَنِّي لَا أَقْدِرُ أَنْ أُعِيدَهُ كَمَا كَانَ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ لِي وَلَدٌ فَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، ان سے ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میرے لیے اولاد بتاتا ہے، میری ذات اس سے پاک ہے کہ میں اپنے لیے بیوی یا اولاد بناؤں۔
مَثَابَةً يَثُوبُونَ يَرْجِعُونَ.
«مثابه» سے «يثوبون» جس کے معنی لوٹنے کے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ اللَّهَ فِي ثَلَاثٍ أَوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اتَّخَذْتَ مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ نِسَائِهِ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ، قُلْتُ: إِنِ انْتَهَيْتُنَّ أَوْ لَيُبَدِّلَنَّ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا مِنْكُنَّ حَتَّى أَتَيْتُ إِحْدَى نِسَائِهِ، قَالَتْ: يَا عُمَرُ، أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَعِظَهُنَّ أَنْتَ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ سورة التحريم آية 5 الْآيَةَ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعْتُ أَنَسًا، عَنْ عُمَرَ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! کیا اچھا ہوتا کہ آپ مقام ابراہیم کو طواف کے بعد نماز پڑھنے کی جگہ بناتے تو بعد میں یہی آیت نازل ہوئی۔ اور میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ کے گھر میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آپ امہات المؤمنین کو پردہ کا حکم دے دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب (پردہ کی آیت) نازل فرمائی اور انہوں نے بیان کیا اور مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی خبر ملی۔ میں نے ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدل دے گا۔ بعد میں ازواج مطہرات میں سے ایک کے ہاں گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی ازواج کو اتنی نصیحتیں نہیں کرتے جتنی تم انہیں کرتے رہتے ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن مسلمات» کوئی تعجب نہ ہونا چاہئیے اگر اس نبی کا رب تمہیں طلاق دلا دے اور دوسری مسلمان بیویاں تم سے بہتر بدل دے۔ آخر آیت تک۔ اور ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید نے بیان کیا اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا۔
الْقَوَاعِدُ أَسَاسُهُ وَاحِدَتُهَا قَاعِدَةٌ، وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ وَاحِدُهَا قَاعِدٌ.
«قواعد» کا واحد «قاعدة» آتا ہے اور عورتوں کے بارے میں جب لفظ «قواعد» بولتے ہیں تو اس کا واحد «قاعد.» آتا ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلَمْ تَرَيْ أَنْ قَوْمَكِ بَنَوْا الْكَعْبَةَ وَاقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ ؟ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھتی نہیں ہو کہ جب تمہاری قوم (قریش) نے کعبہ کی تعمیر کی تو ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے اسے کم کر دیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں کے مطابق پھر سے کعبہ کی تعمیر کیوں نہیں کروا دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری قوم ابھی نئی نئی کفر سے نکلی نہ ہوتی (تو میں ایسا ہی کرتا)۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا، جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکنوں کا جو حطیم کے قریب ہیں (طواف کے وقت) چھونا اسی لیے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کے مطابق مکمل نہیں تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ، وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا: آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا سورة البقرة آية 136"الْآيَةَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے کہ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب (یہودی) توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو «آمنا بالله وما أنزل إلينا» یعنی ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، سَمِعَ زُهَيْرًا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَأَنَّهُ صَلَّى أَوْ صَلَّاهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ صَلَّى مَعَهُ، فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَهُمْ رَاكِعُونَ، قَالَ: أَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ مَكَّةَ فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَكَانَ الَّذِي مَاتَ عَلَى الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ قِبَلَ الْبَيْتِ رِجَالٌ قُتِلُوا لَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ سورة البقرة آية 143.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا میں نے زہیر سے سنا، انہوں نے ابواسحاق سے اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ) ہو جائے (آخر ایک دن اللہ کے حکم سے) آپ نے عصر کی نماز (بیت اللہ کی طرف رخ کر کے) پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جو لوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں۔ (ان کی نمازیں قبول ہوئیں یا نہیں؟) اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كان الله ليضيع إيمانكم إن الله بالناس لرءوف رحيم» اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ وَاللَّفْظُ لِجَرِيرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُدْعَى نُوحٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: هَلْ بَلَّغْتَ ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَالُ: لِأُمَّتِهِ هَلْ بَلَّغَكُمْ، فَيَقُولُونَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ، فَيَقُولُ: مَنْ يَشْهَدُ لَكَ، فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، فَتَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143 فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143، وَالْوَسَطُ: الْعَدْلُ.
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر اور ابواسامہ نے بیان کیا۔ (حدیث کے الفاظ جریر کی روایت کے مطابق ہیں) ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ابواسامہ نے بیان کیا (یعنی اعمش کے واسطہ سے کہ) ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے، «لبيك وسعديك» : یا رب! اللہ رب العزت فرمائے گا، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا (نوح علیہ السلام سے) کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی امت میری گواہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے (کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے) یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد سے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا» کہ اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہی دو اور رسول تمہارے لیے گواہی دیں۔ آیت میں لفظ «وسط» کے معنی عادل، منصف، بہتر کے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: بَيْنَا النَّاسُ يُصَلُّونَ الصُّبْحَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ إِذْ جَاءَ جَاءٍ، فَقَالَ: "أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرْآنًا أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا فَتَوَجَّهُوا إِلَى الْكَعْبَةِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، لہٰذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ سب نمازی اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمْ يَبْقَ مِمَّنْ صَلَّى الْقِبْلَتَيْنِ غَيْرِي".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے سوا ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی اور کوئی اب زندہ نہیں رہا۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: بَيْنَمَا النَّاسُ فِي الصُّبْحِ بِقُبَاءٍ جَاءَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَأُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ، أَلَا فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَ وَجْهُ النَّاسِ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا بِوُجُوهِهِمْ إِلَى الْكَعْبَةِ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب وہاں آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف منہ کریں، پس آپ لوگ بھی اب کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ راوی نے بیان کیا کہ لوگوں کا منہ اس وقت شام (بیت المقدس) کی طرف تھا، اسی وقت لوگ کعبہ کی طرف پھر گئے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ، فَقَالَ: "إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ، فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ".
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب (مدینہ سے) آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم ہوا ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کر لیں۔ اس لیے آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف پھر جائیں۔ اس وقت ان کا منہ شام کی طرف تھا۔ چنانچہ سب نمازی کعبہ کی طرف پھر گئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ صَرَفَهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا۔
شَطْرُهُ: تِلْقَاؤُهُ.
لفظ «شطره» کے معنی قبلہ کی طرف کے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: "بَيْنَا النَّاسُ فِي الصُّبْحِ بِقُبَاءٍ إِذْ جَاءَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ: "أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، فَأُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَاسْتَدَارُوا كَهَيْئَتِهِمْ فَتَوَجَّهُوا إِلَى الْكَعْبَةِ، وَكَانَ وَجْهُ النَّاس إِلَى الشَّأْمِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف منہ کر لینے کا حکم ہوا ہے۔ اس لیے آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف منہ کر لیں اور جس حالت میں ہیں، اسی طرح اس کی طرف متوجہ ہو جائیں (یہ سنتے ہی) تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس وقت لوگوں کا منہ شام کی طرف تھا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ بِقُبَاءٍ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ، فَقَالَ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْقِبْلَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کر لیں۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔
شَعَائِرُ: عَلَامَاتٌ وَاحِدَتُهَا شَعِيرَةٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الصَّفْوَانُ الْحَجَرُ، وَيُقَالُ: الْحِجَارَةُ الْمُلْسُ الَّتِي لَا تُنْبِتُ شَيْئًا وَالْوَاحِدَةُ، صَفْوَانَةٌ بِمَعْنَى: الصَّفَا، وَالصَّفَا لِلْجَمِيعِ.
«شعائر» کے معنی علامات کے ہیں۔ اس کا واحد «شعيرة» ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «صفوان» ایسے پتھر کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو۔ واحد «صفوانة» ہے۔ «صفاهى» کے معنی میں اور «صفا» جمع کے لیے آتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ: "أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158، فَمَا أُرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: "كَلَّا، لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، كَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الْأَنْصَارِ كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا (ان دنوں میں نوعمر تھا) کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت (یعنی سعی) کرے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی (اسلام سے پہلے) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، سو جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان (سعی) کرے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سَفيانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: "سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ،فَقَالَ: "كُنَّا نَرَى أَنَّهُمَا مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة» سے ارشاد «أن يطوف بهما» تک۔ یعنی بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ پس ان کی سعی کرنے میں حج اور عمرہ کے دوران کوئی گناہ نہیں ہے۔
يَعْنِي أَضْدَادًا وَاحِدُهَا نِدٌّ.
لفظ «ندادا» بمعنی «أضدادا» جس کا واحد «ند» ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً، وَقُلْتُ أُخْرَى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ"، وَقُلْتُ: أَنَا مَنْ مَاتَ وَهْوَ لَا يَدْعُو لِلَّهِ نِدًّا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور میں نے ایک اور بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے اور میں نے یوں کہا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا تو وہ جنت میں جاتا ہے۔
عُفِيَ تُرِكَ.
اور «عفي» بمعنی «ترك» ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِهَذِهِ الْأُمَّةِ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ سورة البقرة آية 178 فَالْعَفْوُ أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 178 يَتَّبِعُ بِالْمَعْرُوفِ وَيُؤَدِّي بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ سورة البقرة آية 178 مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة البقرة آية 178 قَتَلَ بَعْدَ قَبُولِ الدِّيَةِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے کہا کہ تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کیا گیا، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے۔ تو معافی سے مراد یہی دیت قبول کرنا ہے۔ سو مطالبہ معقول اور نرم طریقہ سے ہو اور مطالبہ کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچایا جائے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ یعنی اس کے مقابلہ میں جو تم سے پہلی امتوں پر فرض تھا۔ سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہو گا۔ (زیادتی سے مراد یہ ہے کہ) دیت بھی لے لی اور پھر اس کے بعد قتل بھی کر دیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ".
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ السَّهْمِيَّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ الرُّبَيِّعَ عَمَّتَهُ، كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهَا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا فَعَرَضُوا الْأَرْشَ، فَأَبَوْا فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَوْا إِلَّا الْقِصَاصَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أَنَسُ،كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ"، فَرَضِيَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن بکر سہمی سے سنا، ان سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔ پھر لڑکی والے راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ عَاشُورَاءُ يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ، قَالَ: "مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہیں نافع نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن جاہلیت میں ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَ عَاشُورَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ، قَالَ: "مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْهِ الْأَشْعَثُ وَهْوَ يَطْعَمُ، فَقَالَ: الْيَوْمُ عَاشُورَاءُ، فَقَالَ: "كَانَ يُصَامُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ تُرِكَ فَادْنُ فَكُلْ".
مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ نے خبر دی، انہیں اسرائیل نے، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں علقمہ نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اشعث ان کے یہاں آئے، وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، اشعث نے کہا کہ آج تو عاشوراء کا دن ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دنوں میں عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے نازل ہونے سے پہلے رکھا جاتا تھا لیکن جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ چھوڑ دیا گیا۔ آؤ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ الْفَرِيضَةَ وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَكَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ (کی فرضیت) باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
وَقَالَ عَطَاءٌ: يُفْطِرُ مِنَ الْمَرَضِ كُلِّهِ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى، وَقَالَ الْحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ، فِي الْمُرْضِعِ أَوِ الْحَامِلِ: إِذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا أَوْ وَلَدِهِمَا تُفْطِرَانِ، ثُمَّ تَقْضِيَانِ، وَأَمَّا الشَّيْخُ الْكَبِيرُ: إِذَا لَمْ يُطِقْ الصِّيَامَ فَقَدْ أَطْعَمَ أَنَسٌ بَعْدَ مَا كَبِرَ عَامًا أَوْ عَامَيْنِ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأَفْطَرَ قِرَاءَةُ الْعَامَّةِ يُطِيقُونَهُ وَهْوَ أَكْثَرُ.
عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ہر بیماری میں روزہ نہ رکھنا درست ہے۔ جیسا کہ عام طور پر اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔ اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ دودھ پلانے والی یا حامل کو اگر اپنی یا اپنے بیٹے کی جان کا خوف ہو تو وہ افطار کر لیں اور پھر اس کی قضاء کر لیں لیکن بوڑھا ضعیف شخص جب روزہ نہ رکھ سکے تو وہ فدیہ دے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی جب بوڑھے ہو گئے تھے تو وہ ایک سال یا دو سال رمضان میں روزانہ ایک مسکین کو روٹی اور گوشت دیا کرتے تھے اور روزہ چھوڑ دیا تھا۔ اکثر لوگوں نے اس آیت میں «يطيقونه» پڑھا ہے (جو «اطاق يطيق» سے ہے)۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍيَقْرَأُ: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لَا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا، فلَيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا.
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ یوں قرآت کر رہے تھے«وعلى الذين يطوقونه فدية طَعام مسكين» (تفعیل سے) «فدية طَعام مسكين» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہئیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: "أَنَّهُ قَرَأَ: 0 فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ 0، قَالَ: هِيَ مَنْسُوخَةٌ".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انھوں نے یوں قرآت کی «فدية» بغیر تنوین «طَعام مساكين» بتلایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184 كَانَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: مَاتَ بُكَيْرٌ، قَبْلَ يَزِيدَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے بکر بن مضر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے بکیر بن عبداللہ نے، ان سے سلمہ بن اکوع کے مولیٰ یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔«وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين» تو جس کا جی چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ بکیر کا انتقال یزید سے پہلے ہو گیا تھا۔ بکیر جو یزید کے شاگرد تھے یزید سے پہلے 120 ھ میں مر گئے تھے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "لَمَّا نَزَلَ صَوْمُ رَمَضَانَ كَانُوا لَا يَقْرَبُونَ النِّسَاءَ رَمَضَانَ كُلَّهُ، وَكَانَ رِجَالٌ يَخُونُونَ أَنْفُسَهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ سورة البقرة آية 187".
ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے(دوسری سند) اور ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، ان سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو مسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے اور کچھ لوگوں نے اپنے کو خیانت میں مبتلا کر لیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم» اللہ نے جان لیا کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔ پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کر دیا۔
الْعَاكِفُ: الْمُقِيمُ.
«العاكف المقيم» ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيٍّ، قَالَ: أَخَذَ عَدِيٌّ، عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ حَتَّى كَانَ بَعْضُ اللَّيْلِ نَظَرَ، فَلَمْ يَسْتَبِينَا فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَعَلْتُ تَحْتَ وِسَادِي عِقَالَيْنِ، قَالَ: "إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عامر شعبی نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ انھوں نے ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا (اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا)۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو انہوں نے اسے دیکھا، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اپنے تکئے کے نیچے (سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بطور مذاق کے فرمایا کہ پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو گا کہ صبح کا سفیدی خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آ گیا تھا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ أَهُمَا الْخَيْطَانِ ؟ قَالَ: "إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ، ثُمَّ قَالَ"لَا، بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے مطرف نے بیان کیا، ان سے شعبی نے بیان کیا اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (آیت میں) «الخيط الأبيض» اور «الخيط الأسود» سے کیا مراد ہے؟ کیا ان سے مراد دو دھاگے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کھوپڑی پھر تو بڑی لمبی چوڑی ہو گی۔ اگر تم نے رات کو دو دھاگے دیکھے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی سفیدی ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: وَأُنْزِلَتْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187 وَلَمْ يُنْزَلْ مِنَ الْفَجْرِ، وَكَانَ رِجَالٌ إِذَا أَرَادُوا الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الْأَبْيَضَ وَالْخَيْطَ الْأَسْوَدَ وَلَا يَزَالُ يَأْكُلُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رُؤْيَتُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187 فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ «وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود» اور «من الفجر» کے الفاظ ابھی نازل نہیں ہوئے تھے تو کئی لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور پھر جب تک وہ دونوں دھاگے صاف دکھائی دینے نہ لگ جاتے برابر کھاتے پیتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے «من الفجر» کے الفاظ اتارے تب ان کو معلوم ہوا کہ کالے دھاگے سے رات اور سفید دھاگے سے دن مراد ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: "كَانُوا إِذَا أَحْرَمُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَتَوْا الْبَيْتَ مِنْ ظَهْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا سورة البقرة آية 189".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها ولكن البر من اتقى وأتوا البيوت من أبوابها» کہ اور یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَتَاهُ رَجُلَانِ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَا: إِنَّ النَّاسَ صَنَعُوا وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَخْرُجَ، فَقَالَ: "يَمْنَعُنِي أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ دَمَ أَخِي"، فَقَالَا: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193 ؟ فَقَالَ: "قَاتَلْنَا حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ وَكَانَ الدِّينُ لِلَّهِ، وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِغَيْرِ اللَّهِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ان کے پاس ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنے کے زمانہ میں (جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کیا) دو آدمی (علاء بن عرار اور حبان سلمی) آئے اور کہا کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں پھر آپ کیوں خاموش ہیں؟ اس فساد کو رفع کیوں نہیں کرتے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میری خاموشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کسی بھی بھائی مسلمان کا خون مجھ پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة» کہ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم (قرآن کے حکم کے مطابق) لڑے ہیں، یہاں تک کہ فتنہ یعنی شرک و کفر باقی نہیں رہا اور دین خالص اللہ کے لیے ہو گیا، لیکن تم لوگ چاہتے ہو کہ تم اس لیے لڑو کہ فتنہ اور فساد پیدا ہو اور دین اسلام ضعیف ہو، کافروں کو جیت ہو اور اللہ کے برخلاف دوسروں کا حکم سنا جائے۔
وَزَادَ عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي فُلَانٌ، وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، أَنَّبُكَيْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلًا، أَتَى ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ تَحُجَّ عَامًا، وَتَعْتَمِرَ عَامًا، وَتَتْرُكَ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ عَلِمْتَ مَا رَغَّبَ اللَّهُ فِيهِ ؟ قَالَ: "يَا ابْنَ أَخِي بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ إِيمَانٍ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَالصَّلَاةِ الْخَمْسِ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ، وَأَدَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ"، قَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ سورة الحجرات آية 9 وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193، قَالَ: "فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا، فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا قَتَلُوهُ وَإِمَّا يُعَذِّبُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ، فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ".
اور عثمان بن صالح نے زیادہ بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں فلاں شخص عبداللہ بن ربیعہ اور حیوہ بن شریح نے خبر دی، انہیں بکر بن عمرو معافری نے، ان سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ایک شخص (حکیم) ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک سال حج کرتے ہو اور ایک سال عمرہ اور اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد میں شریک نہیں ہوتے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکٰوۃ دینا اور حج کرنا۔ انہوں نے کہا: اے ابا عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کیا آپ کو وہ معلوم نہیں ہے «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما» کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إلى أمر الله» تک (اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ان سے جنگ کرو) یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم یہ فرض انجام دے چکے ہیں اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے، کافروں کا ہجوم تھا تو کافر لوگ مسلمانوں کا دین خراب کرتے تھے، کہیں مسلمانوں کو مار ڈالتے، کہیں تکلیف دیتے یہاں تک کہ مسلمان بہت ہو گئے فتنہ جاتا رہا۔
قَالَ: فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ، قَالَ: "أَمَّا عُثْمَانُ، فَكَأَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا أَنْتُمْ فَكَرِهْتُمْ أَنْ تَعْفُوا عَنْهُ، وَأَمَّا عَلِيٌّ، فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَتَنُهُ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: "هَذَا بَيْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ".
پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو کہو کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔ انہوں نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کا قصور اللہ نے معاف کر دیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔ اب رہے علی رضی اللہ عنہ تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہے۔
التَّهْلُكَةُ، وَالْهَلَاكُ وَاحِدٌ.
«تهلكة» اور «هلاك» کے ایک ہی معنی ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195، قَالَ: "نَزَلَتْ فِي النَّفَقَةِ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر نے خبر دی، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے ابووائل سے سنا اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْقِلٍ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي مَسْجِدَ الْكُوفَةِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ فِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ، فَقَالَ: حُمِلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: "مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ الْجَهْدَ قَدْ بَلَغَ بِكَ هَذَا أَمَا تَجِدُ شَاةً ؟"قُلْتُ: لَا، قَالَ: "صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ وَاحْلِقْ رَأْسَكَ"، فَنَزَلَتْ فِيَّ خَاصَّةً وَهْيَ لَكُمْ عَامَّةً.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن اصبہانی نے، کہا میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس مسجد میں حاضر ہوا، ان کی مراد کوفہ کی مسجد سے تھی اور ان سے روزے کے فدیہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے احرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ لے گئے اور جوئیں (سر سے) میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خیال یہ نہیں تھا کہ تم اس حد تک تکلیف میں مبتلا ہو گئے ہو تم کوئی بکری نہیں مہیا کر سکتے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا، پھر تین دن کے روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو، ہر مسکین کو آدھا صاع کھانا کھلانا اور اپنا سر منڈوا لو۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تو یہ آیت خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اس کا حکم تم سب کے لیے عام ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عِمْرَانَ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمُتْعَةِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُنْزَلْ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهُ وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا حَتَّى مَاتَ"، قَالَ رَجُلٌ: بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عمران ابی بکر نے، ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (حج میں) تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کے ساتھ (حج) کیا، پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی (لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے) یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "كَانَتْ عُكَاظُ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو الْمَجَازِ أَسْوَاقًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَأَثَّمُوا أَنْ يَتَّجِرُوا فِي الْمَوَاسِمِ، فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ سورة البقرة آية 198 فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ".
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار (میلے) تھے، اس لیے (اسلام کے بعد) موسم حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم» کہ تمہیں اس بارے میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے یہاں سے تلاش معاش کرو۔ یعنی موسم حج میں تجارت کے لیے مذکورہ منڈیوں میں جاؤ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ، ثُمَّ يَقِفَ بِهَا، ثُمَّ يُفِيضَ مِنْهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ قریش اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب (حج کے لیے)مزدلفہ میں ہی وقوف کیا کرتے تھے، اس کا نام انہوں الحمس رکھا تھا اور باقی عرب عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ عرفات میں آئیں اور وہیں وقوف کریں اور پھر وہاں سے مزدلفہ آئیں۔ آیت «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» سے یہی مراد ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "يَطَّوَّفُ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ مَا كَانَ حَلَالًا حَتَّى يُهِلَّ بِالْحَجِّ، فَإِذَا رَكِبَ إِلَى عَرَفَةَ، فَمَنْ تَيَسَّرَ لَهُ هَدِيَّةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ مَا تَيَسَّرَ لَهُ مِنْ ذَلِكَ، أَيَّ ذَلِكَ شَاءَ غَيْرَ أَنَّهُ إِنْ لَمْ يَتَيَسَّرْ لَهُ فَعَلَيْهِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ، وَذَلِكَ قَبْلَ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَإِنْ كَانَ آخِرُ يَوْمٍ مِنَ الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيَنْطَلِقْ حَتَّى يَقِفَ بِعَرَفَاتٍ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ يَكُونَ الظَّلَامُ، ثُمَّ لِيَدْفَعُوا مِنْ عَرَفَاتٍ إِذَا أَفَاضُوا مِنْهَا حَتَّى يَبْلُغُوا جَمْعًا الَّذِي يَبِيتُونَ بِهِ، ثُمَّ لِيَذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَأَكْثِرُوا التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا، ثُمَّ أَفِيضُوا، فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يُفِيضُونَ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة البقرة آية 199 حَتَّى تَرْمُوا الْجَمْرَةَ".
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو کریب نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ (جو کوئی تمتع کرے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے وہ) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہو سکے وہ کرے، اونٹ ہو یا گائے یا بکری۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاد، تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک۔ صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس واستغفروا الله إن الله غفور رحيم» یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اور تکبیر و تہلیل کرتے رہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے «اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے پروردگار! ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔
وَقَالَ عَطَاءٌ: النَّسْلُ الْحَيَوَانُ.
عطاء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ويهلك الحرث والنسل» میں «نسل» سے مراد جانور ہے۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ تَرْفَعُهُ، قَالَ: أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو اور عبداللہ (عبداللہ بن ولید عدنی) نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (وہی حدیث جو اوپر گزری)۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 خَفِيفَةً ذَهَبَ بِهَا هُنَاكَ وَتَلَا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ سورة البقرة آية 214 فَلَقِيتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ .
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ یوسف کی آیت «حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا» (میں «كذبوا» کو ذال کی)تخفیف کے ساتھ قرآت کیا کرتے تھے۔ آیت کا جو مفہوم وہ مراد لے سکتے تھے لیا، اس کے بعد یوں تلاوت کرتے «حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله ألا إن نصر الله قريب» پھر میری ملاقات عروہ بن زبیر سے ہوئی، تو میں نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا ذکر کیا۔
فَقَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَعَاذَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا وَعَدَ اللَّهُ رَسُولَهُ مِنْ شَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا عَلِمَ أَنَّهُ كَائِنٌ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ، وَلَكِنْ لَمْ يَزَلِ الْبَلَاءُ بِالرُّسُلِ حَتَّى خَافُوا أَنْ يَكُونَ مَنْ مَعَهُمْ يُكَذِّبُونَهُمْ، فَكَانَتْ تَقْرَؤُهَا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 مُثَقَّلَةً".
انھوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو کہتی تھیں اللہ کی پناہ! پیغمبر، تو جو وعدہ اللہ نے ان سے کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہو گا۔ بات یہ کہ ہے پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ (مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی) کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی امت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت سورۃ یوسف) کو یوں پڑھتی تھیں «وظنوا أنهم قد كذبوا» (ذال کی تشدید کے ساتھ)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ لَمْ يَتَكَلَّمْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ، فَأَخَذْتُ عَلَيْهِ يَوْمًا فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَكَانٍ، قَالَ: "تَدْرِي فِيمَ أُنْزِلَتْ ؟"قُلْتُ: لَا، قَالَ: "أُنْزِلَتْ فِي كَذَا وَكَذَا"، ثُمَّ مَضَى.
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر بن شمیل نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ ابن عون نے خبر دی، ان سے نافع نے بیان کیا کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہو جاتے۔ ایک دن میں (قرآن مجید لے کر) ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت «نساؤكم حرث لكم»الخ پر پہنچے تو فرمایا، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز (یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔
وَعَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223، قَالَ: "يَأْتِيهَا فِي"،رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
اور عبدالصمد بن عبدالوارث سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ آیت «فأتوا حرثكم أنى شئتم» سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ(پیچھے سے بھی) آ سکتا ہے۔ اور اس حدیث کو محمد بن یحییٰ بن سعید بن قطان نے بھی اپنے والد سے، انہوں نے عبیداللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كَانَتْ الْيَهُودُ، تَقُولُ: إِذَا جَامَعَهَا مِنْ وَرَائِهَا جَاءَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، فَنَزَلَتْ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ یہودی کہتے تھے کہ اگر عورت سے ہمبستری کے لیے کوئی پیچھے سے آئے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ، قَالَ: كَانَتْ لِي أُخْتٌ تُخْطَبُ إِلَيَّ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، حَدَّثَنِي مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ. ح حَدَّثَنَاأَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ: أَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، طَلَّقَهَا زَوْجُهَا، فَتَرَكَهَا حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، فَخَطَبَهَا فَأَبَى مَعْقِلٌ، فَنَزَلَتْ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ سورة البقرة آية 232".
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میری ایک بہن تھیں۔ ان کو ان کے اگلے خاوند نے نکاح کا پیغام دیا۔ (دوسری سند) اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ (تیسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا اور ان سے امام حسن بصری نے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی لیکن جب عدت گزر گئی اور طلاق بائن ہو گئی تو انہوں نے پھر ان کے لیے پیغام نکاح بھیجا۔ معقل رضی اللہ عنہ نے اس پر انکار کیا، مگر عورت چاہتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی «فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن» کہ تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کریں۔
يَعْفُونَ: يَهَبْنَ.
«يعفون» بمعنی «يهبن» یعنی ہبہ کر دیں، بخش دیں۔
حَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234، قَالَ: "قَدْ نَسَخَتْهَا الْآيَةُ الْأُخْرَى، فَلِمَ تَكْتُبُهَا أَوْ تَدَعُهَا، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ".
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے، ان سے حبیب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس لیے آپ اسے (مصحف میں) نہ لکھیں یا (یہ کہا کہ) نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں (قرآن کا)کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234، قَالَ: "كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ: جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، وَصِيَّةً إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ سورة البقرة آية 240، فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا"زَعَمَ ذَلِكَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَقَالَ عَطَاءٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ عَطَاءٌ: "إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ سورة البقرة آية 234، قَالَ عَطَاءٌ: ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ، فَنَسَخَ السُّكْنَى، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَلَا سُكْنَى لَهَا"، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ،حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا، وَعَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْعَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240 نَحْوَهُ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبل بن عباد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور انہوں نے مجاہد سے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے بارے میں (زمانہ جاہلیت کی طرح) کہا کہ عدت (یعنی چار مہینے دس دن کی) تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف» اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت (کر جائیں) کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں، لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لیے کوئی کام کریں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لیے وصیت کے مطابق (شوہر کے گھر میں ہی)ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے (یعنی چار مہینے دس دن)۔ شبل نے کہا ابن ابی نجیح نے مجاہد سے ایسا ہی نقل کیا ہے اور عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کر دیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول «غير إخراج» کا یہی مطلب ہے۔ عطا نے کہا، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فلا جناح عليكم فيما فعلن» اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہو گا۔ عطاء نے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساء میں ہے اور اس نے (عورت کے لیے) گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں اور محمد بن یوسف نے روایت کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے، یہی قول بیان کیا اور فرزندان ابن ابی نجیح سے نقل کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج» وغیرہ سے ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا حِبَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى مَجْلِسٍ فِيهِ عُظْمٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَفِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، فَذَكَرْتُ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، فِي شَأْنِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: وَلَكِنَّ عَمَّهُ كَانَ لَا يَقُولُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: "إِنِّي لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى رَجُلٍ فِي جَانِبِ الْكُوفَةِ وَرَفَعَ صَوْتَهُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ، فَلَقِيتُ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ أَوْ مَالِكَ بْنَ عَوْفٍ، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ، فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَهْيَ حَامِلٌ ؟"فَقَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: "أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ لَهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى"، وَقَالَ أَيُّوبُ: عَنْ مُحَمَّدٍ، لَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ.
ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے، کہا ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر ہوا۔ بڑے بڑے انصاری وہاں موجود تھے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث کے باب سے متعلق عبداللہ بن عتبہ کی حدیث کا ذکر کیا۔ عبدالرحمٰن نے کہا لیکن عبداللہ بن عتبہ کے چچا (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) ایسا نہیں کہتے تھے۔ (محمد بن سیرین نے کہا) کہ میں نے کہا کہ پھر تو میں نے ایک ایسے بزرگ عبداللہ بن عتبہ کے متعلق جھوٹ بولنے میں دلیری کی ہے کہ جو کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ ابن سیرین نے کہا کہ پھر جب میں باہر نکلا تو راستے میں مالک بن عامر یا مالک بن عوف سے ملاقات ہو گئی۔ (راوی کو شک ہے کہ یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے رفیقوں میں سے تھے) میں نے ان سے پوچھا کہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی عدت کے متعلق کیا فتویٰ دیتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ تم لوگ اس حاملہ پر سختی کے متعلق کیوں سوچتے ہو اس پر آسانی نہیں کرتے (اس کو لمبی) عدت کا حکم دیتے ہو۔ سورۃ نساء چھوٹی (سورۃ الطلاق)لمبی سورۃ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْعَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ أَوْ أَجْوَافَهُمْ شَكَّ يَحْيَى نَارًا".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبیدہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن بشیر بن حکم نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، کہا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبیدہ بن عمرو نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا تھا، ان کفار نے ہمیں درمیانی نماز نہیں پڑھنے دی، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو یا ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔ قبروں اور گھروں یا پیٹوں کے لفظوں میں شک یحییٰ بن سعید راوی کی طرف سے ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: "كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا أَخَاهُ فِي حَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238، فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے حارث بن شبل نے، ان سے ابوعمرو شیبانی نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو۔ اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔
وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: كُرْسِيُّهُ: عِلْمُهُ يُقَالُ بَسْطَةً زِيَادَةً وَفَضْلًا أَفْرِغْ أَنْزِلْ، وَلَا يَئُودُهُ: لَا يُثْقِلُهُ آدَنِي أَثْقَلَنِي وَالْآدُ وَالْأَيْدُ الْقُوَّةُ السِّنَةُ نُعَاسٌ يَتَسَنَّهْ يَتَغَيَّرْ، فَبُهِتَ: ذَهَبَتْ حُجَّتُهُ، خَاوِيَةٌ: لَا أَنِيسَ فِيهَا، عُرُوشُهَا: أَبْنِيَتُهَا نُنْشِرُهَا نُخْرِجُهَا، إِعْصَارٌ: رِيحٌ عَاصِفٌ تَهُبُّ مِنَ الْأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ كَعَمُودٍ فِيهِ نَارٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صَلْدًا: لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَابِلٌ: مَطَرٌ شَدِيدٌ الطَّلُّ النَّدَى وَهَذَا مَثَلُ عَمَلِ الْمُؤْمِنِ يَتَسَنَّهْ يَتَغَيَّرْ.
سعید بن جبیر نے کہا «وسع كرسيه» میں «كرسي» سے مراد پروردگار کا علم ہے۔ (یہ تاویلی مفہوم ہے احتیاط اسی میں ہے کہ ظاہر معنوں میں تسلیم کر کے حقیقت کو علم الٰہی کے حوالہ کر دیا جائے)۔ «بسطة» سے مراد زیادتی اور فضیلت ہے۔ «أفرغ» کا مطلب انزل ہے یعنی ہم پر صبر نازل فرما۔ لفظ «ولا يئوده» کا مطلب یہ کہ اس پر بار نہیں ہے۔ اسی سے لفظ «آدني» ہے یعنی مجھ کو اس نے بوجھل بنا دیا اور لفظ «آد» اور «لأيد» قوت کو کہتے ہیں۔ لفظ «السنة» اونگھ کے معنی میں ہے۔ «لم يتسنه» کا معنی نہیں بگڑا۔ لفظ «فبهت» کا معنی دلیل سے ہارے گا۔ لفظ «خاوية» یعنی خالی جہاں کوئی رفیق نہ ہو۔ لفظ «عروشها» سے مراد اس کی عمارتیں ہیں۔ «ننشرها» کے معنی ہم نکالتے ہیں۔ لفظ «إعصار» کے معنی تند ہوا جو زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف ایک ستون کی طرح ہو جاتی ہے۔ اس میں آگ ہوتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لفظ «صلدا» یعنی چکنا صاف جس پر کچھ بھی نہ رہے اور عکرمہ نے کہا لفظ «وابل» زور کے مینہ پر بولا جاتا ہے اور لفظ «طل» کے معنی شبنم اوس کے ہیں۔ یہ مومن کے نیک عمل کی مثال ہے کہ وہ ضائع نہیں جاتا۔«يتسنه» کے معنی بدل جائے، بگڑ جائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ، قَالَ: "يَتَقَدَّمُ الْإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُصَلِّي بِهِمُ الْإِمَامُ رَكْعَةً وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ لَمْ يُصَلُّوا، فَإِذَا صَلَّى الَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً اسْتَأْخَرُوا مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَلَا يُسَلِّمُونَ وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الْإِمَامُ وَقَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَيَقُومُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، فَيُصَلُّونَ لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً بَعْدَ أَنْ يَنْصَرِفَ الْإِمَامُ، فَيَكُونُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ قَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالًا قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَا"، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ نَافِعٌ: لَا أُرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ذَكَرَ ذَلِكَ إِلَّا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں، پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں۔ اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا۔ پھر دونوں جماعتیں (جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی) اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی۔ لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے، پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ مجھ کو یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی بیان کی ہیں۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، قُلْتُ: لِعُثْمَانَ هَذِهِ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا إِلَى قَوْلِهِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 234 - 240 قَدْ نَسَخَتْهَا الْأُخْرَى فَلِمَ تَكْتُبُهَا، قَالَ: "تَدَعُهَا يَا ابْنَ أَخِي لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ"، قَالَ حُمَيْدٌ: أَوْ نَحْوَ هَذَا.
مجھ سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید بن اسود اور یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن شہید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ سورۃ البقرہ کی آیت«والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» یعنی جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «غير إخراج» تک کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا، چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے والا نہیں۔ یہ حمید نے کہا یا کچھ ایسا ہی جواب دیا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَسَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260.
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوسلمہ اور سعید نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شک کرنے کا ہمیں ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، کیا تجھ کو یقین نہیں ہے؟ عرض کی یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لیے کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو جائے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ أَخَاهُ أَبَا بَكْرِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَوْمًا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِيمَ تَرَوْنَ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ سورة البقرة آية 266 ؟"قَالُوا: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَغَضِبَ عُمَرُ، فَقَالَ: قُولُوا: "نَعْلَمُ أَوْ لَا نَعْلَمُ"، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي نَفْسِي مِنْهَا شَيْءٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ عُمَرُ: "يَا ابْنَ أَخِي قُلْ وَلَا تَحْقِرْ نَفْسَكَ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ضُرِبَتْ مَثَلًا لِعَمَلٍ، قَالَ عُمَرُ: "أَيُّ عَمَلٍ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِعَمَلٍ، قَالَ عُمَرُ: لِرَجُلٍ غَنِيٍّ يَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ لَهُ الشَّيْطَانَ، فَعَمِلَ بِالْمَعَاصِي حَتَّى أَغْرَقَ أَعْمَالَهُ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابوبکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے «أيود أحدكم أن تكون له جنة» کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیسے عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔
يُقَالُ أَلْحَفَ عَلَيَّ وَأَلَحَّ عَلَيَّ وَأَحْفَانِي بِالْمَسْأَلَةِ فَيُحْفِكُمْ: يُجْهِدْكُمْ.
عرب لوگ «ألحف» اور «ألح» اور «أحفاني بالمسألة» جب کہتے ہیں کہ کوئی گڑگڑا کر پیچھے لگ کر سوال کرے۔ «فيحفكم» کے معنی تمہیں مشقت میں ڈال دے، نہ تھکا دے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَا: سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَا اللُّقْمَةُ وَلَا اللُّقْمَتَانِ، إِنَّمَا الْمِسْكِينُ الَّذِي يَتَعَفَّفُ، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ"، يَعْنِي قَوْلَهُ لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا سورة البقرة آية 273.
ہم سے سعید ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شریک بن ابی نمر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار اور عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری نے بیان کیا اور انہوں نے کہا ہم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجور، ایک یا دو لقمے در بدر لیے پھریں، بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور اگر تم دلیل چاہو تو (قرآن سے) اس آیت کو پڑھ لو «لا يسألون الناس إلحافا» کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "لَمَّا نَزَلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا قَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، سَمِعْتُ أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "لَمَّا أُنْزِلَتِ الْآيَاتُ الْأَوَاخِرُ مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاهُنَّ فِي الْمَسْجِدِ، فَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالضحیٰ سے سنا، وہ مسروق سے روایت کرتے تھے کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسجد میں انہیں پڑھ کر سنایا اس کے بعد شراب کی تجارت حرام ہو گئی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "لَمَّا أُنْزِلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ قَرَأَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فِي الْمَسْجِدِ وَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں پڑھ کر سنایا اور شراب کی تجارت حرام قرار دی گئی۔
وقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "لَمَّا أُنْزِلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَيْنَا، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
اور ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے منصور اور اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکھڑے ہوئے اور ہمیں پڑھ کر سنایا پھر شراب کی تجارت حرام کر دی۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "آخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آيَةُ الرِّبَا".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے، ان سے شعبی نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخری آیت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ سود کی آیت تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْوَ ابْنُ عُمَرَ،"أَنَّهَا قَدْ نُسِخَتْ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ سورة البقرة آية 284 الْآيَةَ".
ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن محمد نفیلی نے بیان کیا، کہا ہم سے مسکین بن بکیر حران نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے خالد حذاء نے، ان سے مروان اصفر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ آیت «وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه» اور جو کچھ تمہارے نفسوں کے اندر ہے اگر تم ان کو ظاہر کر ویا چھپائے رکھو۔ آخر تک منسوخ ہو گی تھی۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِصْرًا عَهْدًا، وَيُقَالُ غُفْرَانَكَ مَغْفِرَتَكَ فَاغْفِرْ لَنَا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «إصرا» عہد وعدہ کے معنی میں ہے اور بولتے ہیں «غفرانك» یعنی ہم تیری مغفرت مانگتے ہیں، تو ہمیں معاف فرما دے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَحْسِبُهُ ابْنَ عُمَرَ،"وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ سورة البقرة آية 284، قَالَ: نَسَخَتْهَا الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا".
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے، انہیں مروان اصفر نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے، کہا کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ انہوں نے آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه» کے متعلق بتلایا کہ اس آیت کو اس کے بعد کی آیت ( «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها») نے منسوخ کر دیا ہے۔
تُقَاةٌ وَتَقِيَّةٌ وَاحِدَةٌ صِرٌّ بَرْدٌ شَفَا حُفْرَةٍ: مِثْلُ شَفَا الرَّكِيَّةِ وَهْوَ حَرْفُهَا، تُبَوِّئُ: تَتَّخِذُ مُعَسْكَرًا الْمُسَوَّمُ الَّذِي لَهُ سِيمَاءٌ بِعَلَامَةٍ أَوْ بِصُوفَةٍ أَوْ بِمَا كَانَ، رِبِّيُّونَ: الْجَمِيعُ وَالْوَاحِدُ رِبِّيٌّ، تَحُسُّونَهُمْ: تَسْتَأْصِلُونَهُمْ قَتْلًا، غُزًّا: وَاحِدُهَا غَازٍ، نَكْتُبُ: سَنَحْفَظُ، نُزُلًا: ثَوَابًا وَيَجُوزُ وَمُنْزَلٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ كَقَوْلِكَ أَنْزَلْتُهُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَالْخَيْلُ الْمُسَوَّمَةُ الْمُطَهَّمَةُ الْحِسَانُ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى: الرَّاعِيَةُ الْمُسَوَّمَةُ، وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: وَحَصُورًا: لَا يَأْتِي النِّسَاءَ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: مِنْ فَوْرِهِمْ: مِنْ غَضَبِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ مِنَ النُّطْفَةِ تَخْرُجُ مَيِّتَةً وَيُخْرِجُ مِنْهَا الْحَيَّ الْإِبْكَارُ أَوَّلُ الْفَجْرِ وَالْعَشِيُّ مَيْلُ الشَّمْسِ أُرَاهُ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ.
الفاظ «تقاة» «وتقية» دونوں کا معنی ایک ہے یعنی بچاؤ کرنا۔ «صر» کا معنی «برد» یعنی سرد ٹھنڈک۔ «شفا حفرة» کا معنی گڑھے کا کنارہ، جیسے کچے کنویں کا کنارہ ہوتا ہے۔ «تبوئ» یعنی تو لشکر کے مقامات، پڑاؤ تجویز کرتا تھا، مورچے بنانا مراد ہیں۔ «مسومين» «مسوم»اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی نشانی ہو، مثلاً پشم یا اور کوئی نشانی۔ «ربيون» جمع ہے اس کا واحد «ربي» ہے یعنی اللہ والا۔ «تحسونهم» ان کو قتل کر کے جڑ پیڑ سے اکھاڑتے ہو۔ «غزا» لفظ «غازى» کی جمع ہے یعنی جہاد کرنے والا۔ «سنكتب» کا معنی ہم کو یاد رہے گا۔«نزلا» کا معنی ثواب کے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لفظ «نزلا» اسم مفعول کے معنی میں ہو یعنی اللہ کی طرف سے اتارا گیا جیسے کہتے ہیں «أنزلته» میں نے اس کو اتارا۔ مجاہد نے کہا «والخيل المسومة» کا معنی موٹے موٹے اچھے اچھے گھوڑے اور سعید بن جبیر نے کہا«حصورا» اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف مطلق مائل نہ ہو۔ عکرمہ نے کہا «من فورهم» کا معنی بدر کے دن غصے اور جوش سے۔ مجاہد نے کہا «يخرج الحى» یعنی نطفہ بے جان ہوتا ہے اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے۔ «إبكار» صبح سویرے۔ «عشي» کے معنی سورج ڈھلے سے ڈوبنے تک جو وقت ہوتا ہے اسے «عشي» کہتے ہیں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، كَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ سورة البقرة آية 26 وَكَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ سورة يونس آية 100 وَكَقَوْلِهِ: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ سورة محمد آية 17 زَيْغٌ: شَكٌّ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ الْمُشْتَبِهَاتِ، وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ سورة آل عمران آية 7 يَعْلَمُونَ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 7.
مجاہد نے کہا «محكمات» سے حلال و حرام کی آیتیں مراد ہیں۔ «وأخر متشابهات» کا مطلب یہ ہے کہ دوسری آیتیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ ایک کی ایک تصدیق کرتی ہے، جیسی یہ آیات ہیں «وما يضل به إلا الفاسقين» اور «ويجعل الرجس على الذين لا يعقلون» اور «والذين اهتدوا زادهم هدى» ان تینوں آیتوں میں کسی حلال و حرام کا بیان نہیں ہے تو متشابہ ٹھہریں۔ «زيغ» کا معنی شک۔ «ابتغاء الفتنة» میں فتنہ سے مراد متشابہات کی پیروی کرنا، ان کے مطلب کا کھوج کرنا ہے۔ «والراسخون» یعنی جو لوگ پختہ علم والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 7، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَإِذَا رَأَيْتِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكِ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ہم سے یزید بن ابراہیم تستری نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله» یعنی وہ وہی اللہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری ہے، اس میں محکم آیتیں ہیں اور وہی کتاب کا اصل دارومدار ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں چڑ پن ہے۔ وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں، فتنے کی تلاش میں اور اس کی غلط تاویل کی تلاش میں۔ آخر آیت «أولو الألباب» تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے(آیت بالا میں) ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے ان سے بچتے رہو۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا"، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ سورة آل عمران آية 36.
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔
أَلِيمٌ مُؤْلِمٌ مُوجِعٌ مِنَ الْأَلَمِ وَهْوَ فِي مَوْضِعِ مُفْعِلٍ.
«أليم» کے معنی دکھ دینے والا جیسے «مؤلم» ہے۔ «أليم» بروزن «فعيل» بمعنی «مفعل» ہے (جو کلام عرب میں کم آیا ہے۔)
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ حَلَفَ يَمِينَ صَبْرٍ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لا خَلاقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: فَدَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟ قُلْنَا: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَيِّنَتُكَ أَوْ يَمِينُهُ"، فَقُلْتُ: إِذًا يَحْلِفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانٌ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لیے قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال(جھوٹ بول کر وہ) مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ حَلَفَ يَمِينَ صَبْرٍ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لا خَلاقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: فَدَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟ قُلْنَا: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَيِّنَتُكَ أَوْ يَمِينُهُ"، فَقُلْتُ: إِذًا يَحْلِفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانٌ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لیے قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال(جھوٹ بول کر وہ) مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ أَبِي هَاشِمٍ، سَمِعَ هُشَيْمًا، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: "أَنَّ رَجُلًا أَقَامَ سِلْعَةً فِي السُّوقِ فَحَلَفَ فِيهَا، لَقَدْ أَعْطَى بِهَا مَا لَمْ يُعْطِهِ لِيُوقِعَ فِيهَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَنَزَلَتْ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا، انہوں نے ہشیم سے سنا، انہوں نے کہا ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا، حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» کہ بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ: أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا تَخْرِزَانِ فِي بَيْتٍ أَوْ فِي الْحُجْرَةِ، فَخَرَجَتْ إِحْدَاهُمَا وَقَدْ أُنْفِذَ بِإِشْفَى فِي كَفِّهَا فَادَّعَتْ عَلَى الْأُخْرَى، فَرُفِعَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ، لذَهَبَ دِمَاءُ قَوْمٍ وَأَمْوَالُهُمْ ذَكِّرُوهَا بِاللَّهِ، وَاقْرَءُوا عَلَيْهَا إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ سورة آل عمران آية 77فَذَكَّرُوهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ".
ہم سے نصر بن علی بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہدو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا۔ جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو «إن الذين يشترون بعهد الله» چنانچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔
سَوَاءٌ قَصْدٌ.
«سواء» کے معنی ایسی بات ہے جسے ہم اور تم دونوں تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ، عن معمر. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَامَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ: فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ فَقَالَ: أَبُو سُفْيَانَ، فَقُلْتُ: أَنَا، فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَنِي، فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ ؟ قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا، يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ ؟ قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ ؟ فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يُزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ، فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا، يَنَالُ مِنْكُمْ، وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ، قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالصِّلَةِ، وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا، فَإِنَّهُ نَبِيٌّ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ، لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ"بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ، إِلَى قَوْلِهِ: اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ، ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ، وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَاءَ الرُّومِ، فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الْأَبَدِ ؟ وَأَنْ يَثْبُتَ لَكُمْ مُلْكُكُمْ ؟ قَالَ: فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَقَالَ: عَلَيَّ بِهِمْ فَدَعَا بِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكُمُ الَّذِي أَحْبَبْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے امام زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے منہ در منہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی، میں (سفر تجارت پر شام میں) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «اشهدوا بأنا مسلمون» تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے (اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ نَخْلًا، وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَخْ، ذَلِكَ مَالٌ رَايِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَايِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ"، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ، وَفِي بَنِي عَمِّهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ: ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ مَالٌ رَايِحٌ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے۔ نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوب یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز و اقرباء کو اسے دے دو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہٰ والوں میں بانٹ دیا۔ عبداللہ بن یوسف اور روح بن عبادہ نے «ذلك مال رايح» ( «ربح» سے) بیان کیا ہے۔ یعنی یہ مال بہت نفع دینے والا ہے۔ مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے «مال رايح» ( «رواح» سے) پڑھا تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَجَعَلَهَا لِحَسَّانَ لِي مِنْهَا شَيْئًا.
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ نے وہ باغ حسان اور ابی رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا۔ میں ان دونوں سے ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن مجھے نہیں دیا۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ: "كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟"قَالُوا: نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا، فَقَالَ: "لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟"فَقَالُوا: لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبْتُمْ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ، قَالُوا: هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ.
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کر کے اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔ (جب توریت لائی گئی) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا، آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے، رجم کر دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سورة آل عمران آية 110، قَالَ: "خَيْرَ النَّاسِ لِلنَّاسِ، تَأْتُونَ بِهِمْ فِي السَّلَاسِلِ فِي أَعْنَاقِهِمْ حَتَّى يَدْخُلُوا فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ان سے سفیان نے، ان سے میسرہ نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت «كنتم خير أمة أخرجت للناس» تم لوگ لوگوں کے لیے سب لوگوں سے بہتر ہو اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر (لڑائی میں گرفتار کر کے) لاتے ہو پھر وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: "فِينَا نَزَلَتْ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122، قَالَ: نَحْنُ الطَّائِفَتَانِ: بَنُو حَارِثَةَ، وَبَنُو سَلِمَةَ، وَمَا نُحِبُّ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: "وَمَا يَسُرُّنِي أَنَّهَا لَمْ تُنْزَلْ لِقَوْلِ اللَّهِ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا عمرو بن دینار نے کہا، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، جب ہم سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں، درآں حالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ ہم دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھے۔ حالانکہ اس آیت میں ہمارے بودے پن کا ذکر ہے، مگر ہم کو یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نہ اترتی کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ اللہ ان دونوں گروہوں کا مددگار (سر پرست) ہے۔
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِنَ الْفَجْرِ، يَقُولُ: "اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا"، بَعْدَ مَا يَقُولُ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ إِلَى قَوْلِهِ: فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128. رَوَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے سالم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپ نے «سمع الله لمن حمده» اور «ربنا ولك الحمد» کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ليس لك من الأمر شىء» آپ کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ آخر آیت «فإنهم ظالمون» تک۔ اس روایت کو اسحاق بن راشد نے زہری سے نقل کیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ عَلَى أَحَدٍ، أَوْ يَدْعُوَ لِأَحَدٍ، قَنَتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَرُبَّمَا قَالَ إِذَا قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ"يَجْهَرُ بِذَلِكَ، وَكَانَ يَقُولُ فِي بَعْضِ صَلَاتِهِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ: "اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا لِأَحْيَاءٍ مِنْ الْعَرَبِ"، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ سورة آل عمران آية 128 الْآيَةَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد کرتے «سمع الله لمن حمده، اللهم ربنا لك الحمد» کے بعد۔ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی کی اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی لا، جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے یہ دعا کرتے اور آپ نماز فجر کی بعض رکعت میں یہ دعا کرتے۔ اے اللہ، فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ عرب کے چند خاص قبائل کے حق میں آپ (یہ بددعا کرتے تھے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «ليس لك من الأمر شىء» کہ آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں۔
وَهْوَ تَأْنِيثُ آخِرِكُمْ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ: فَتْحًا، أَوْ شَهَادَةً.
«اخراكم» «آخركم» کی «تأنيث» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دو سعادتوں میں سے ایک سعادت فتح اور دوسری شہادت ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، وَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا۔ ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو افسر مقرر کیا تھا، پھر بہت سے مسلمانوں نے پیٹھ پھیر لی، آیت «فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم» اور رسول تم کو پکار رہے تھے تمہارے پیچھے سے۔ میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابیوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَاأَنَسٌ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ،قَالَ: "غَشِيَنَا النُّعَاسُ وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي، وَآخُذُهُ وَيَسْقُطُ وَآخُذُهُ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن ابو یعقوب بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین بن محمد نے بیان کیا، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، احد کی لڑائی میں جب ہم صف باندھے کھڑے تھے تو ہم پر غنودگی طاری ہو گئی تھی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ نیند سے میری تلوار ہاتھ سے باربار گرتی اور میں اسے اٹھاتا۔
الْقَرْحُ: الْجِرَاحُ، اسْتَجَابُوا: أَجَابُوا، يَسْتَجِيبُ: يُجِيبُ.
«القرح» یعنی «الجراح» زخم۔ «استجابوا» یعنی «اجابوا» انہوں نے قبول کیا۔ «يستجيب اى يجيب» وہ قبول کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، أُرَاهُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: "حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، قَالَهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَقَالَهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ، قَالُوا: إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ سورة آل عمران آية 173".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ کہا کہ ہم سے ابوبکر شعبہ بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین عثمان بن عاصم نے اور ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ کلمہ «حسبنا الله ونعم الوكيل» ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ لوگوں (یعنی قریش) نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا (جوش) ایمان اور بڑھا دیا اور یہ مسلمان بولے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ آخِرَ قَوْلِ إِبْرَاهِيمَ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ، حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا «حسبي الله ونعم الوكيل.» تھا یعنی میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔
سَيُطَوَّقُونَ: كَقَوْلِكَ طَوَّقْتُهُ بِطَوْقٍ
اس آیت میں جو «سيطوقون» کا لفظ ہے «طوقته» «بطوق» سے ہے یعنی طوق پہنائے جائیں گے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ"يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ، يَقُولُ: "أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ سورة آل عمران آية 180إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر ہاشم بن قاسم سے سنا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکٰوۃ نہیں ادا کی تو (آخرت میں) اس کا مال نہایت زہریلے سانپ بن کر جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے۔ اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنا دیا جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا کہ میں ہی تیرا مال ہوں، میں ہی تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله» کی اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں بہتر ہے۔ آخر تک۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَى قَطِيفَةٍ فَدَكِيَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَرَاءَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، قَالَ: حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمُشْرِكِينَ، عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ، وَالْمُسْلِمِينَ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ، فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ، إِنَّهُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا فَلَا تُؤذْيِنَا بِهِ فِي مَجْلِسِنَا، ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاغْشَنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَنُوا، ثُمَّ رَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ، فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ ؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا"، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اعْفُ عَنْهُ، وَاصْفَحْ عَنْهُ، فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ، لَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا أَبَى اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنِ الْمُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الْكِتَابِ كَمَا أَمَرَهُمُ اللَّهُ، وَيَصْبِرُونَ عَلَى الْأَذَى، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا سورة آل عمران آية 186 الْآيَةَ، وَقَالَ اللَّهُ: وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ سورة البقرة آية 109 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَوَّلُ الْعَفْوَ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ، حَتَّى أَذِنَ اللَّهُ فِيهِمْ، فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا فَقَتَلَ اللَّهُ بِهِ صَنَادِيدَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ ابْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَعَبَدَةِ الْأَوْثَانِ: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ، فَبَايَعُوا الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَسْلَمُوا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) بھی موجود تھا، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سواری کی (ٹاپوں سے گرد اڑی اور) مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، اپنے گھر بیٹھیں، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ضرور یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمان، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کر دیا اور آخر سب لوگ خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکر کیا کہ سعد! تم نے نہیں سنا، ابوحباب، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کر دیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے۔ اس شہر (مدینہ) کے لوگ (پہلے) اس پر متفق ہو چکے تھے کہ اس (عبداللہ بن ابی) کو تاج پہنا دیں اور (شاہی) عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ نے اسے معاف کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور یقیناً تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ آخر آیت تک۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کفار کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپ نے غزوہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہو گئے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ، تَخَلَّفُوا عَنْهُ، وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ، وَحَلَفُوا، وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا، فَنَزَلَتْ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا سورة آل عمران آية 188 الْآيَةَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت «لا يحسبن الذين يفرحون» آخر آیت تک اتاری۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ، قَالَ لِبَوَّابِهِ: "اذْهَبْ يَا رَافِعُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ: لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ، وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ مُعَذَّبًا، لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "وَمَا لَكُمْ وَلِهَذِهِ، إِنَّمَا دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودَ فَسَأَلَهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ، وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ، فَأَرَوْهُ أَنْ قَدِ اسْتَحْمَدُوا إِلَيْهِ بِمَا أَخْبَرُوهُ عَنْهُ فِيمَا سَأَلَهُمْ، وَفَرِحُوا بِمَا أُوتُوا مِنْ كِتْمَانِهِمْ"، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كَذَلِكَ حَتَّى قَوْلِهِ: : يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا سورة آل عمران آية 187 - 188. تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ. ح حَدَّثَنَاابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ مَرْوَانَ بِهَذَا.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں علقمہ بن وقاص نے خبر دی کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت «لا يحسبن الذين يفرحون» کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیئے کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابورافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر پوچھا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تم مسلمانوں سے اس آیت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت «وإذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب» کی اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب کو پوری ظاہر کر دینا لوگوں پر، آیت «يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا» جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام نہیں کئے ہیں، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔ تک۔ ہشام بن یوسف کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی ابن جریج سے روایت کیا۔ ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہوں نے ابن جریج سے کہا مجھ کو ابن ابی ملیکہ نے خبر دی، ان کو حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا، پھر یہی حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَتَحَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً، ثُمَّ رَقَدَ، فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: "إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 190"، ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ، وَاسْتَنَّ فَصَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے خبر دی، انہیں کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ایک رات اپنی خالہ (ام المؤمنین) میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گیا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی «إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب» بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن و رات کے مختلف ہونے میں عقلمندوں کے لیے (بڑی) نشانیاں ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں تہجد اور وتر پڑھیں۔ جب بلال رضی اللہ عنہ نے (فجر کی) اذان دی تو آپ نے دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطُرِحَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِسَادَةٌ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طُولِهَا فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْآيَاتِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ آلِ عِمْرَانَ حَتَّى خَتَمَ، ثُمَّ أَتَى شَنًّا مُعَلَّقًا فَأَخَذَهُ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، ثُمَّ أَخَذَ بِأُذُنِي فَجَعَلَ يَفْتِلُهَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے امام مالک بن انس نے، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سو گیا، ارادہ یہ تھا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھوں گا۔ میری خالہ نے آپ کے لیے گدا بچھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے طول میں لیٹ گئے پھر (جب آخری رات میں بیدار ہوئے تو) چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار دور کئے۔ پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں، اس کے بعد آپ ایک مشکیزے کے پاس آئے اور اس سے پانی لے کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں بھی کھڑا ہو گیا اور جو کچھ آپ نے کیا تھا وہی سب کچھ میں نے بھی کیا اور آپ کے پاس آ کر آپ کے بازو میں میں بھی کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور میرے کان کو (شفقت سے) پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر وتر کی نماز پڑھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ: "أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْيَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي بِيَدِهِ الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ایک رات وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہ گئے جو ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں آپ بیدار ہوئے اور چہرہ پر ہاتھ پھیر کر نیند کو دور کیا۔ پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت کی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر مشکیزے کے قریب گئے جو لٹکا ہوا تھا۔ اس کے پانی سے آپ نے وضو بہت ہی اچھی طرح سے پورے آداب کے ساتھ کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی آپ ہی کی طرح (وضو وغیرہ) کیا اور نماز کے لیے آپ کے بازو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور اسی ہاتھ سے (بطور شفقت) میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں وتر کی نماز پڑھی۔ اس سے فارغ ہو کر آپ لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی (فجر کی سنت) رکعتیں پڑھیں اور نماز فرض کے لیے باہر تشریف (مسجد میں) لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ: "أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْيَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گئے۔ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا تھوڑی دیر بعد آپ جاگے اور بیٹھ کر چہرہ پر نیند کے آثار دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیرنے لگے اور سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں۔ اس کے بعد آپ مشکیزہ کے پاس گئے جو لٹکا ہوا تھا، اس سے تمام آداب کے ساتھ آپ نے وضو کیا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو وغیرہ کیا اور جا کر آپ کے بازو میں کھڑا ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور (شفقت سے) میرے داہنے کان کو پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں انہیں وتر بنایا، پھر آپ لیٹ گئے اور جب مؤذن آپ کے پاس آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر مسجد میں تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَسْتَنْكِفُ: يَسْتَكْبِرُ قِوَامًا قِوَامُكُمْ مِنْ مَعَايِشِكُمْ، لَهُنَّ سَبِيلًا: يَعْنِي الرَّجْمَ لِلثَّيِّبِ، وَالْجَلْدَ لِلْبِكْرِ"، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَثْنَى وَثُلَاثَ: يَعْنِي اثْنَتَيْنِ، وَثَلَاثًا، وَأَرْبَعًا، وَلَا تُجَاوِزُ الْعَرَبُ رُبَاعَ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (قرآن مجید کی آیت) «يستنكف» ، «يستكبر» کے معنی میں ہے۔ «قواما» ( «قياما») یعنی جس پر تمہارے گزران کی بنیاد قائم ہے۔ «لهن سبيلا» یعنی شادی شدہ کے لیے رجم اور کنوارے کے لیے کوڑے کی سزا ہے (جب وہ زنا کریں) اور دوسرے لوگوں نے کہا (آیت میں) «مثنى وثلاث ورباع» سے مراد دو دو تین تین اور چار چار ہیں۔ اہل عرب «رباع» سے آگے اس وزن سے تجاوز نہیں کرتے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: "أَنَّ رَجُلًا كَانَتْ لَهُ يَتِيمَةٌ فَنَكَحَهَا، وَكَانَ لَهَا عَذْقٌ، وَكَانَ يُمْسِكُهَا عَلَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا مِنْ نَفْسِهِ شَيْءٌ، فَنَزَلَتْ فِيهِ: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، أَحْسِبُهُ قَالَ: كَانَتْ شَرِيكَتَهُ فِي ذَلِكَ الْعَذْقِ وَفِي مَالِهِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے کہا، کہا مجھ کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کر لیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت اتری «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے۔ ہشام بن یوسف نے کہا میں سمجھتا ہوں، ابن جریج نے یوں کہا یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِيعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، فَقَالَتْ: "يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذِهِ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا، تَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ وَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا عَنْ أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ، وَيَبْلُغُوا لَهُنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ فِي الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: "وَإِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ سورة النساء آية 127، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى فِي آيَةٍ أُخْرَى: وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، قَالَتْ: "فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا عَنْ مَنْ رَغِبُوا فِي مَالِهِ وَجَمَالِهِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ إِذَا كُنَّ قَلِيلَاتِ الْمَالِ وَالْجَمَالِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کا مطلب پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے بھانجے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کی جائیداد کی حصہ دار ہو (ترکے کی رو سے اس کا حصہ ہو) اب اس ولی کو اس کی مالداری خوبصورتی پسند آئے۔ اس سے نکاح کرنا چاہے پر انصاف کے ساتھ پورا مہر جتنا مہر اس کو دوسرے لوگ دیں، نہ دینا چاہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں کے ساتھ جب تک ان کا پورا مہر انصاف کے ساتھ نہ دیں، نکاح کرنے سے منع فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تم دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کر لو۔ (یتیم لڑکی کا نقصان نہ کرو) عروہ نے کہا عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، اس آیت کے اترنے کے بعد لوگوں نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا، اس وقت اللہ نے یہ آیت «ويستفتونك في النساء» اتاری۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا دوسری آیت میں یہ جو فرمایا «وترغبون أن تنكحوهن» یعنی وہ یتیم لڑکیاں جن کا مال و جمال کم ہو اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ان یتیم لڑکیوں سے جن کا مال و جمال کم ہو نکاح کرنا نہیں چاہتے تو مال اور جمال والی یتیم لڑکیوں سے بھی جن سے تم کو نکاح کرنے کی رغبت ہے نکاح نہ کرو، مگر جب انصاف کے ساتھ ان کا مہر پورا ادا کرو۔
وَبِدَارًا: مُبَادَرَةً، أَعْتَدْنَا: أَعْدَدْنَا، أَفْعَلْنَا مِنَ الْعَتَادِ.
«بدارا» بمعنی «مبادرة» جلدی کرنا۔ «أعتدنا» بمعنی «أعددنا» ، «عتاد» سے۔ «أفعلنا» کے وزن پر جس کے معنی ہم نے تیار کیا۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: "وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ إِذَا كَانَ فَقِيرًا، أَنَّهُ يَأْكُلُ مِنْهُ مَكَانَ قِيَامِهِ عَلَيْهِ بِمَعْرُوفٍ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف» بلکہ جو شخص خوشحال ہو وہ اپنے کو بالکل روکے رکھے۔ البتہ جو شخص نادار ہو وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر (یتیم کے مال میں سے کچھ) کھا سکتا ہے (بشرطیکہ نیت میں فساد نہ ہو)۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ سورة النساء آية 8، قَالَ: "هِيَ مُحْكَمَةٌ وَلَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ". تَابَعَهُ سَعِيدٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
ہم سے احمد بن حمید نے بیان کیا، ہم کو عبیداللہ اشجعی نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ابواسحاق شیبانی نے، انہیں عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساكين» اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعید بن جبیر نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "عَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي بَنِي سَلِمَةَ مَاشِيَيْنِ، فَوَجَدَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا أَعْقِلُ شَيْئًا، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهُ، ثُمَّ رَشَّ عَلَيَّ فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: مَا تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي مَالِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَنَزَلَتْ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ سورة النساء آية 11".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی، بیان کیا کہ مجھے ابن منکدر نے خبر دی اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو سلمہ تک پیدل چل کر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہے، اس لیے آپ نے پانی منگوایا اور وضو کر کے اس کا پانی مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا کیا حکم ہے، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يوصيكم الله في أولادكم» کہ اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ وَالثُّلُثَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَللزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمر یشکری نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لیے وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں نسخ کر دیا۔ چنانچہ اب مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور میت کے والدین یعنی ان دونوں میں ہر ایک کے لیے اس مال کا چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے کوئی اولاد ہو، لیکن اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو، بلکہ اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا اور بیوی کا آٹھواں حصہ ہو گا، جبکہ اولاد ہو، لیکن اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی ہو گا اور شوہر کا آدھا حصہ ہو گا، جبکہ اولاد نہ ہو لیکن اگر اولاد ہو تو چوتھائی ہو گا۔
وَيُذْكَرُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: لَا تَعْضُلُوهُنَّ: لَا تَقْهَرُوهُنَّ، حُوبًا: إِثْمًا، تَعُولُوا: تَمِيلُوا، نِحْلَةً: النِّحْلَةُ الْمَهْرُ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (آیت میں) «لا تعضلوهن» کے معنی یہ ہیں کہ ان پر جبر و قہر نہ کرو، «حوبا» یعنی گناہ۔«تعولوا» یعنی «تميلوا» جھکو تم۔ لفظ «نحلة» مہر کے لیے آیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ الشَّيْبَانِيُّ: وَذَكَرَهُ أَبُو الْحَسَنِ السُّوَائِيُّ، وَلَا أَظُنُّهُ ذَكَرَهُ إِلَّا، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ سورة النساء آية 19، قَالَ: "كَانُوا إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ، كَانَ أَوْلِيَاؤُهُ أَحَقَّ بِامْرَأَتِهِ إِنْ شَاءَ بَعْضُهُمْ تَزَوَّجَهَا، وَإِنْ شَاءُوا زَوَّجُوهَا، وَإِنْ شَاءُوا لَمْ يُزَوِّجُوهَا، فَهُمْ أَحَقُّ بِهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسباط بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور شیبانی نے کہا کہ یہ حدیث ابوالحسن عطا سوائی نے بھی بیان کی ہے اور جہاں تک مجھے یقین ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے بیان کیا ہے کہ آیت «يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن» اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک ہو جاؤ اور نہ انہیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اس کا کچھ حصہ وصول کر لو، انہوں نے بیان کیا کہ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے رشتہ دار اس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے۔ اگر انہیں میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا پھر وہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرتے اور چاہتے تو نہ بھی کرتے، اس طرح عورت کے گھر والوں کے مقابلہ میں بھی شوہر کے رشتہ دار اس کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے، اسی پر یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها» نازل ہوئی۔
وَقَالَ مَعْمَرٌ: أَوْلِيَاءُ مَوَالِي وَأَوْلِيَاء، وَرَثَةٌ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ هُوَ مَوْلَى الْيَمِينِ، وَهْوَ الْحَلِيفُ وَالْمَوْلَى أَيْضًا، ابْنُ الْعَمِّ، وَالْمَوْلَى الْمُنْعِمُ الْمُعْتِقُ، وَالْمَوْلَى الْمُعْتَقُ، وَالْمَوْلَى الْمَلِيكُ، وَالْمَوْلَى مَوْلًى فِي الدِّينِ.
معمر نے کہا کہ «موالي» سے مراد اس کے اولیاء اور وارث ہیں۔ «والذين عقدت ايمانكم» سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو قسم کھا کر اپنا وارث بناتے تھے یعنی حلیف۔ اور «مولى» کے کئی معانی آئے ہیں، چچا کا بیٹا، غلام، لونڈی کا مالک، جو اس پر احسان کرے، اس کو آزاد کرے، خود غلام، جو آزاد کیا جائے، مالک، دین کا پیشوا۔
حَدَّثَنِي الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: "وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33، قَالَ: وَرَثَةً، وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33 كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرِيُّ الْأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33، نُسِخَتْ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33 مِنَ النَّصْرِ، وَالرِّفَادَةِ، وَالنَّصِيحَةِ، وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ"، سَمِعَ أَبُو أُسَامَةَ إِدْرِيسَ، وَسَمِعَ إِدْرِيسُ طَلْحَةَ.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (آیت میں) «ولكل جعلنا موالي» سے مراد وارث ہیں اور «والذين عاقدت أيمانكم» کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ «ولكل جعلنا موالي» تو پہلا طریقہ منسوخ ہو گیا پھر بیان کیا کہ «والذين عاقدت أيمانكم» سے وہ لوگ مراد ہیں، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے۔ لیکن اب ان کے لیے میراث کا حکم منسوخ ہو گیا مگر وصیت کا حکم رہ گیا۔ اس اسناد میں ابواسامہ نے ادریس سے اور ادریس نے طلحہ بن مصرف سے سنا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَعَمْ، هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ، ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ ؟"قَالُوا: لَا، قَالَ: "وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ ؟"قَالُوا: لَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ، تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ مِنَ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ بَرٌّ أَوْ فَاجِرٌ، وَغُبَّرَاتُ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَيُدْعَى الْيَهُودُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَمَاذَا تَبْغُونَ ؟ فَقَالُوا: عَطِشْنَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا، فَيُشَارُ أَلَا تَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَاذَا تَبْغُونَ ؟ فَكَذَلِكَ مِثْلَ الْأَوَّلِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا، فَيُقَالُ: مَاذَا تَنْتَظِرُونَ ؟ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، قَالُوا: فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا عَلَى أَفْقَرِ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ رَبَّنَا الَّذِي كُنَّا نَعْبُدُ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
مجھ سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر امت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہو جائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ، تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم (اللہ کے سوا) کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چنانچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی، بعض بعض کے ٹکڑے کئے دے رہی ہو گی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہو گا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے، ملتی جلتی ہو گی (یہ وہ صورت نہ ہو گی) اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر امت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں جب لوگوں سے (جنہوں نے کفر کیا تھا) جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے سچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔
الْمُخْتَالُ وَالْخَتَّالُ وَاحِدٌ نَطْمِسَ وُجُوهًا نُسَوِّيَهَا حَتَّى تَعُودَ كَأَقْفَائِهِمْ طَمَسَ الْكِتَابَ مَحَاهُ جَهَنَّمَ سَعِيرًا وُقُودًا.
«المختال» اور «ختال» کا معنی ایک ہے یعنی غرور کرنے اور اکڑنے والا۔ «نطمس وجوههم» کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے چہروں کو میٹ کر گدھے کی طرح سپاٹ کر دیں گے، یہ «طمس الكتاب» سے نکلا ہے یعنی لکھا ہوا میٹ دیا۔ لفظ «سعيرا» بمعنی ایندھن کے ہے۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى: بَعْضُ الْحَدِيثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْرَأْ عَلَيَّ"، قُلْتُ: أَأَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ، قَالَ: "فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي"، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، قَالَ: "أَمْسِكْ"، فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ.
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں سلیمان نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عبیدہ نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، یحییٰ نے بیان کیا کہ حدیث کا کچھ حصہ عمرو بن مرہ سے ہے (بواسطہ ابراہیم) کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں پڑھ کے سناؤں؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے آپ کو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
صَعِيدًا: وَجْهَ الْأَرْضِ وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَتِ الطَّوَاغِيتُ الَّتِي يَتَحَاكَمُونَ إِلَيْهَا فِي جُهَيْنَةَ وَاحِدٌ، وَفِي أَسْلَمَ وَاحِدٌ وَفِي كُلِّ حَيٍّ وَاحِدٌ كُهَّانٌ، يَنْزِلُ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ، وَقَالَ عُمَرُ: الْجِبْت السِّحْر، وَالطَّاغُوتُ الشَّيْطَانُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: الْجِبْتُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ شَيْطَانٌ، وَالطَّاغُوتُ الْكَاهِنُ.
«صعيدا» زمین کی ظاہری سطح کو کہتے ہیں۔ جابر نے کہا کہ طاغوت بڑے ظالم مشرک قسم کے سردار لوگ جن کے یہاں جاہلیت میں لوگ مقدمات لے جاتے تھے۔ ایک ایسا سردار قبیلہ جہینہ میں تھا، ایک قبیلہ اسلم میں تھا اور ہر قبیلہ میں ہی ایک ایسا طاغوت ہوتا تھا۔ یہ وہی کاہن تھے جن کے پاس شیطان (غیب کی خبریں لے کر) آیا کرتے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ «الجبت» سے مراد جادو ہے اور «الطاغوت» سے مراد شیطان ہے اور عکرمہ نے کہا کہ «الجبت» حبشی زبان میں شیطان کو کہتے ہیں اور «الطاغوت»بمعنی کاہن کے آتا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "هَلَكَتْ قِلَادَةٌ لِأَسْمَاءَ، فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهَا رِجَالًا، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ، وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً، فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ"يَعْنِي آيَةَ التَّيَمُّمِ.
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (مجھ سے) اسماء رضی اللہ عنہا کا ایک ہار گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا، نہ لوگ وضو سے تھے اور نہ پانی موجود تھا۔ اس لیے وضو کے بغیر نماز پڑھی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ سورة النساء آية 59، قَالَ: "نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ، إِذْ بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں یعلیٰ بن مسلم نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم» اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور اپنے میں سے حاکموں کی۔ عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: خَاصَمَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فِي شَرِيجٍ مِنْ الْحَرَّةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ"، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: "اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ"، وَاسْتَوْعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ حِينَ أَحْفَظَهُ الْأَنْصَارِيُّ، كَانَ أَشَارَ عَلَيْهِمَا بِأَمْرٍ لَهُمَا فِيهِ سَعَةٌ، قَالَ الزُّبَيْرُ: فَمَا أَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَاتِ إِلَّا نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو جلد پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! اس لیے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑو۔ (پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے ساتھ اپنے فیصلے میں رعایت رکھی تھی) لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی۔ جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لیے رعایت رکھی تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم» تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهم بالرفيق الاعلي» کہہ کر آخرت کو پسند فرمایا)۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں اور میری والدہ «مستضعفين» (کمزوروں) میں سے تھے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ تَلَا: إِلا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ سورة النساء آية 98، قَالَ: "كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ". وَيُذْكَرُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: حَصِرَتْ: ضَاقَتْ، تَلْوُوا: أَلْسِنَتَكُمْ بِالشَّهَادَةِ، وَقَالَ غَيْرُه: "الْمُرَاغَمُ الْمُهَاجَرُ رَاغَمْتُ هَاجَرْتُ قَوْمِي مَوْقُوتًا: مُوَقَّتًا وَقْتَهُ عَلَيْهِمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «لا المستضعفين من الرجال والنساء والولدان» کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا تھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «حصرت» معنی میں «ضاقت» کے ہے۔ «تلووا» یعنی تمہاری زبانوں سے گواہی ادا ہو گی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا دوسرے شخص (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) نے کہا «مراغم» کا معنی ہجرت کا مقام۔ عرب لوگ کہتے ہیں «راغمت قومي.» یعنی میں نے اپنی قوم والوں کو جمع کر دیا۔ «موقوتا» کے معنی ایک وقت مقررہ پر یعنی جو وقت ان کے لیے مقرر ہو۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَدَّدَهُمْ فِئَةٌ جَمَاعَةٌ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ «اركسهم» بمعنی «بددهم» ہے۔ «فئة» یعنی جماعت۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أُحُدٍ وَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فِرْقَتَيْنِ، فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ، وَفَرِيقٌ يَقُولُ: لَا، فَنَزَلَتْ: فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، وَقَالَ: "إِنَّهَا طَيْبَةُ، تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر اور عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی نے، ان سے عبداللہ بن یزید نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آیت «فما لكم في المنافقين فئتين» اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہو گئے ہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگ منافقین جو (اوپر سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ تھے، جنگ احد میں (آپ چھوڑ کر) واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو گئیں۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ (یا رسول اللہ!) ان (منافقین) سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے۔ اس پر یہ آیت اتری«فما لكم في المنافقين فئتين» کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مدینہ «طيبة» ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔
أَيْ أَفْشَوْهُ يَسْتَنْبِطُونَهُ يَسْتَخْرِجُونَهُ حَسِيبًا كَافِيًا، إِلَّا إِنَاثًا يَعْنِي الْمَوَاتَ حَجَرًا أَوْ مَدَرًا وَمَا أَشْبَهَهُ مَرِيدًا مُتَمَرِّدًا، فَلَيُبَتِّكُنَّ بَتَّكَهُ قَطَّعَهُ قِيلًا وَقَوْلًا وَاحِدٌ طَبَعَ خَتَمَ.
«يستنبطونه» کا معنی نکال لیتے ہیں۔ «حسيبا» کا معنی کافی ہے۔ «إلا إناثا» سے بے جان چیزیں مراد ہیں پتھر مٹی وغیرہ۔ «مريدا» کا معنی شریر۔ «فليبتكن» ، «بتكه» سے نکلا ہے یعنی اس کو کاٹ ڈالو۔ «قيلا» اور «قولا» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ «طبع» کا معنی مہر کر دی۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: "آيَةٌ اخْتَلَفَ فِيهَا أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَرَحَلْتُ فِيهَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93 هِيَ آخِرُ مَا نَزَلَ وَمَا نَسَخَهَا شَيْءٌ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، کہا میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ علماء کوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں اس کے لیے سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے۔ نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔
السِّلْمُ وَالسَّلَمُ وَالسَّلَامُ وَاحِدٌ.
«السلم» اور «السلم» اور «السلام» سب کا ایک ہی معنی ہے۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا سورة النساء آية 94، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "كَانَ رَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ لَهُ فَلَحِقَهُ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَتَلُوهُ، وَأَخَذُوا غُنَيْمَتَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ إِلَى قَوْلِهِ: تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة النساء آية 94 تِلْكَ الْغُنَيْمَةُ، قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ السَّلَامَ".
مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا» اور جو تمہیں سلام کرتا ہو اسے یہ مت کہہ دیا کرو کہ تو تو مومن ہی نہیں ہے۔ کے بارے میں فرمایا کہ ایک صاحب (مرداس نامی) اپنی بکریاں چرا رہے تھے، ایک مہم پر جاتے ہوئے کچھ مسلمان انہیں ملے تو انہوں نے کہا السلام علیکم لیکن مسلمانوں نے بہانہ خور جان کر انہیں قتل کر دیا اور ان کی بکریوں پر قبضہ کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی آخر آیت «عرض الحياة الدنيا» اس سے اشارہ انہیں بکریوں کی طرف تھا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «السلام» قرآت کی ہے، مشہور قرآت بھی یہی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ: أَنَّهُ رَأَى مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّزَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَى عَلَيْهِ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95 وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95، فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهْوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ، وَكَانَ أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ عَلَيَّ، حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِي، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے مروان بن حکم بن عاص کو مسجد میں دیکھا (بیان کیا کہ) پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ گیا، انہوں نے مجھے خبر دی اور انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ آیت لکھوائی «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» مسلمانوں میں سے (گھر) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ ابھی آپ یہ آیت لکھوا ہی رہے تھے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اگر میں جہاد میں شرکت کر سکتا تو یقیناً جہاد کرتا۔ وہ اندھے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری۔ آپ کی ران میری ران پر تھی (شدت وحی کی وجہ سے) اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو گیا۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے «غير أولي الضرر» کے الفاظ اور نازل کئے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا فَكَتَبَهَا، فَجَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَشَكَا ضَرَارَتَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے وہ آیت لکھ دی۔ پھر عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا، تو اللہ تعالیٰ نے «غير أولي الضرر» کے الفاظ اور نازل کئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ادْعُوا فُلَانًا"، فَجَاءَهُ وَمَعَهُ الدَّوَاةُ وَاللَّوْحُ أَوِ الْكَتِفُ، فَقَالَ: "اكْتُبْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95 وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95"، وَخَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا ضَرِيرٌ، فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں (یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ۔ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» ۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے موجود تھے، عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نابینا ہوں۔ چنانچہ وہیں اس طرح آیت نازل ہوئی «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر والمجاهدون في سبيل الله» ۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ. ح وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَاابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، أَنَّ مِقْسَمًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، "لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، عَنْ بَدْرٍ، وَالْخَارِجُونَ إِلَى بَدْرٍ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا ہم کو عبدالکریم جرزی نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن حارث کے غلام مقسم نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» سے اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو بدر میں شریک تھے اور جنہوں نے بلا کسی عذر کے بدر کی لڑائی میں شرکت نہیں کی تھی، وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ وَغَيْرُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو الْأَسْوَدِ، قَالَ: قُطِعَ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَعْثٌ، فَاكْتُتِبْتُ فِيهِ، فَلَقِيتُ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرْتُهُ، فَنَهَانِي عَنْ ذَلِكَ أَشَدَّ النَّهْيِ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا مَعَ الْمُشْرِكِينَ، يُكَثِّرُونَ سَوَادَ الْمُشْرِكِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْتِي السَّهْمُ فَيُرْمَى بِهِ، فَيُصِيبُ أَحَدَهُمْ، فَيَقْتُلُهُ أَوْ يُضْرَبُ فَيُقْتَلُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ سورة النساء آية 97 الْآيَةَ. رَوَاهُ اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ.
ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا، کہا ہم سے حیوہ بن شریح وغیرہ (ابن لہیعہ) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسود نے بیان کیا، کہا کہ اہل مدینہ کو (جب مکہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا دور تھا) شام والوں کے خلاف ایک فوج نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس فوج میں میرا نام بھی لکھا گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ سے میں ملا اور انہیں اس صورت حال کی اطلاع کی۔ انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس سے منع کیا اور فرمایا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی تھی کہ کچھ مسلمان مشرکین کے ساتھ رہتے تھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی زیادتی کا سبب بنتے، پھر تیر آتا اور وہ سامنے پڑ جاتے تو انہیں لگ جاتا اور اس طرح ان کی جان جاتی یا تلوار سے (غلطی میں) انہیں قتل کر دیا جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم» بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے (جب) فرشتے قبض کرتے ہیں۔ آخر آیت تک۔ اس روایت کو لیث بن سعد نے بھی ابوالاسود سے نقل کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِلا الْمُسْتَضْعَفِينَ سورة النساء آية 98، قَالَ: "كَانَتْ أُمِّي مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «إلا المستضعفين» کے متعلق فرمایا کہ میری ماں بھی ان ہی لوگوں میں تھیں جنہیں اللہ نے معذور رکھا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، إِذْ قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"، ثُمَّ قَالَ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ: "اللَّهُمَّ نَجِّ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ نَجِّ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ نَجِّ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ نَجِّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں (رکوع سے اٹھتے ہوئے) «سمع الله لمن حمده".» کہا اور پھر سجدہ میں جانے سے پہلے یہ دعا کی اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ کمزور مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ! کفار مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى سورة النساء آية 102، قَالَ: "عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَكَانَ جَرِيحًا".
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حجاج بن محمد اعور نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «إن كان بكم أذى من مطر أو كنتم مرضى» کے سلسلے میں بتلایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے ان سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ إِلَى قَوْلِهِ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ عَائِشَةُ: "هُوَ الرَّجُلُ تَكُونُ عِنْدَهُ الْيَتِيمَةُ هُوَ وَلِيُّهَا وَوَارِثُهَا، فَأَشْرَكَتْهُ فِي مَالِهِ حَتَّى فِي الْعَذْقِ، فَيَرْغَبُ أَنْ يَنْكِحَهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ يُزَوِّجَهَا رَجُلًا، فَيَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ بِمَا شَرِكَتْهُ، فَيَعْضُلُهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن» لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں (وہی) فتویٰ دیتا ہے آیت «وترغبون أن تنكحوهن»تک۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ اگر اس کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور وہ اس کا ولی اور وارث بھی ہو اور لڑکی اس کے مال میں بھی حصہ دار ہو۔ یہاں تک کہ کھجور کے درخت میں بھی۔ اب وہ شخص خود اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہے، کیونکہ اسے یہ پسند نہیں کہ کسی دوسرے سے اس کا نکاح کر دے کہ وہ اس کے اس مال میں حصہ دار بن جائے، جس میں لڑکی حصہ دار تھی، اس وجہ سے اس لڑکی کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہونے دے تو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شِقَاقٌ: تَفَاسُدٌ، وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ: هَوَاهُ فِي الشَّيْءِ يَحْرِصُ عَلَيْهِ كَالْمُعَلَّقَةِ، لَا هِيَ أَيِّمٌ، وَلَا ذَاتُ زَوْجٍ نُشُوزًا بُغْضًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (آیت میں) «شقاق» کے معنی فساد اور جھگڑا ہے۔ «وأحضرت الأنفس الشح» ہر نفس کو اپنے فائدے کا لالچ ہوتا ہے۔ «كالمعلقة» یعنی نہ تو وہ بیوہ رہے اور نہ شوہر والی ہو۔ «نشوزا» بمعنی «بغضا» عداوت کے معنی میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا سورة النساء آية 128، قَالَتْ: "الرَّجُلُ تَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ لَيْسَ بِمُسْتَكْثِرٍ مِنْهَا، يُرِيدُ أَنْ يُفَارِقَهَا، فَتَقُولُ: أَجْعَلُكَ مِنْ شَأْنِي فِي حِلٍّ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا.» اور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا (نان نفقہ) معاف کر دیتی ہوں (تم مجھے طلاق نہ دو) تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَسْفَلَ النَّارِ نَفَقًا سَرَبًا.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الدرك أسفل» سے مراد جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے اور سورۃ الانعام میں «نفقا» بمعنی«سربا» یعنی سرنگ مراد ہے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: كُنَّا فِي حَلْقَةِ عَبْدِ اللَّهِ، فَجَاءَ حُذَيْفَةُ، حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: "لَقَدْ أُنْزِلَ النِّفَاقُ عَلَى قَوْمٍ خَيْرٍ مِنْكُمْ"، قَالَ الْأَسْوَدُ: "سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ سورة النساء آية 145، فَتَبَسَّمَ عَبْدُ اللَّهِ، وَجَلَسَ حُذَيْفَةُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ، فَتَفَرَّقَ أَصْحَابُهُ فَرَمَانِي بِالْحَصَا، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: "عَجِبْتُ مِنْ ضَحِكِهِ، وَقَدْ عَرَفَ مَا قُلْتُ، لَقَدْ أُنْزِلَ النِّفَاقُ عَلَى قَوْمٍ كَانُوا خَيْرًا مِنْكُمْ، ثُمَّ تَابُوا فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اسود نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا۔ پھر کہا نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہو گئی جو تم سے بہتر تھی۔ اس پر اسود بولے، سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے «إن المنافقين في الدرك الأسفل من النار» کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی اِدھر اُدھر چلے گئے۔ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ پر کنکری پھینکی (یعنی مجھ کو بلایا) میں حاضر ہو گیا تو کہا کہ مجھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے۔ یقیناً نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی، اس لیے کہ پھر انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کر لی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر کہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا۔
وَالْكَلَالَةُ: مَنْ لَمْ يَرِثْهُ أَبٌ أَوِ ابْنٌ وَهُوَ مَصْدَرٌ مِنْ تَكَلَّلَهُ النَّسَبُ.
والكلالة من لم يرثه أب أو ابن وهو مصدر من تكلله النسب.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَةَ، وَآخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سب سے آخر میں جو سورت نازل ہوئی وہ سورۃ برات ہے اور (احکام میراث کے سلسلے میں) سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی وہ «يستفتونك قل الله یفتیکم فى الکلالة» ہے۔
حُرُمٌ: وَاحِدُهَا حَرَامٌ، فَبِمَا نَقْضِهِمْ: بِنَقْضِهِمْ، الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ: جَعَلَ اللَّهُ، تَبُوءُ تَحْمِلُ دَائِرَةٌ: دَوْلَةٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْإِغْرَاءُ التَّسْلِيطُ، أُجُورَهُنَّ سورة المائدة آية 5: مُهُورَهُنَّ.
«حرم» ، «حرام» کی جمع ہے (یعنی احرام باندھے ہوئے ہو)۔ «فبما نقضهم» ، «ميثاقهم» سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے جو حکم ان کو دیا تھا کہ بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ وہ نہیں بجا لائے۔ «تبوء باثمى» یعنی تو میرا گناہ اٹھا لے گا۔ «دائرة» کے معنی زمانہ کی گردش۔ اور دوسرے لوگوں نے کہا «إغراء» کا معنی مسلط کرنا، ڈال دینا۔ «أجورهن» یعنی ان کے مہر۔ «المهيمن» کا معنی امانتدار (نگہبان) قرآن گویا اگلی آسمانی کتابوں کا محافظ ہے۔ سفیان ثوری نے کہا سارے قرآن میں اس سے زیادہ کوئی آیت مجھ پر سخت نہیں ہے وہ آیت یہ ہے«لستم على شيء حتى تقيموا التوراة، والإنجيل» الخ (کیونکہ اس آیت میں یہ ہے کہ جب تک کوئی اللہ کی کتاب کے موافق سب حکموں پر مضبوطی سے عمل نہ کرے، اس وقت تک اس کا دین و ایمان لائق اعتبار نہیں ہے)۔ «مخمصة» کے معنی بھوک۔ «من أحياها» یعنی جس نے ناحق آدمی کا خون کرنا حرام سمجھا گویا سب آدمی اس کی وجہ سے زندہ رہے۔ «شرعة ومنهاجا» سے راستہ اور طریقہ مراد ہے۔
وقال ابن عباس: مخمصة مجاعة.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «مخمصة» سے بھوک مراد ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَتْ الْيَهُودُ لِعُمَرَ: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ نَزَلَتْ فِينَا لَاتَّخَذْنَاهَا عِيدًا، فَقَالَ عُمَرُ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَإِنَّا وَاللَّهِ بِعَرَفَةَ"، قَالَ سُفْيَانُ: "وَأَشُكُّ كَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمْ لَا، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ سورة المائدة آية 3.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن اسلم نے اور ان سے طارق بن شہاب نے کہ یہودیوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں کہ اگر ہمارے یہاں وہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم (جس دن وہ نازل ہوئی ہوتی) اس دن عید منایا کرتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیت «اليوم أكملت لكم دينكم» کہاں اور کب نازل ہوئی تھی اور جب عرفات کے دن نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔ سفیان ثوری نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا اور کوئی دوسرا دن۔
تَيَمَّمُوا تَعَمَّدُوا آمِّينَ عَامِدِينَ أَمَّمْتُ وَتَيَمَّمْتُ وَاحِدٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمَسْتُمْ وَتَمَسُّوهُنَّ وَاللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ وَالْإِفْضَاءُ النِّكَاحُ.
«تيمموا» یعنی «تعمدوا» اسی لیے آتا ہے یعنی قصد کرو۔ «آمين» یعنی «عامدين» قصد کرنے والے۔ «أممت» اور «وتيممت» ایک ہی معنی میں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «لمستم وتمسوهن واللاتي دخلتم بهن» اور «الإفضاء» سب کے معنی عورت سے ہمبستری کرنے کے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَقَالُوا: أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ ؟ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي، وَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا سورة المائدة آية 6، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْر، قَالَتْ: فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا الْعِقْدُ تَحْتَهُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کروانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ قیام کیا۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا۔ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور ہمیں بھی، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ (میرے یہاں) آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسر مبارک میری ران پر رکھ کر سو گئے تھے اور کہنے لگے تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا، سنا اور ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور صبح تک کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو اسید بن حضیر نے کہا کہ آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: "سَقَطَتْ قِلَادَةٌ لِي بِالْبَيْدَاءِ، وَنَحْنُ دَاخِلُونَ الْمَدِينَةَ، فَأَنَاخَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَزَلَ، فَثَنَى رَأْسَهُ فِي حَجْرِي رَاقِدًا، أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَكَزَنِي لَكْزَةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ فِي قِلَادَةٍ، فَبِي الْمَوْتُ لِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَوْجَعَنِي، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ، وَحَضَرَتِ الصُّبْحُ، فَالْتُمِسَ الْمَاءُ فَلَمْ يُوجَدْ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ سورة المائدة آية 6 الْآيَةَ، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: لَقَدْ بَارَكَ اللَّهُ لِلنَّاسِ فِيكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَرَكَةٌ لَهُمْ.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میرا ہار مقام بیداء میں گم ہو گیا تھا۔ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنی سواری روک دی اور اتر گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسر مبارک میری گود میں رکھ کر سو رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آ گئے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ مار کر فرمایا کہ ایک ہار کے لیے تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے خیال سے میں بےحس و حرکت بیٹھی رہی حالانکہ مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور صبح کا وقت ہوا اور پانی کی تلاش ہوئی لیکن کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی وقت یہ آیت اتری «يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة» الخ۔ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے آل ابی بکر! تمہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے باعث برکت بنایا ہے۔ یقیناً تم لوگوں کے لیے باعث برکت ہو۔ تمہارا ہار گم ہوا اللہ نے اس کی وجہ سے تیمم کی آیت نازل فرما دی جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے آسانی اور برکت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: شَهِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ. ح وحَدَّثَنِي حَمْدَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْطَارِقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ الْمِقْدَادُ: "يَوْمَ بَدْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَا نَقُولُ لَكَ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى، فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ سورة المائدة آية 24، وَلَكِنْ امْضِ وَنَحْنُ مَعَكَ، فَكَأَنَّهُ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْ طَارِقٍ، أَنَّ الْمِقْدَادَ قَالَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے مخارق نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے قریب موجود تھا (دوسری سند) اور مجھ سے حمدان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر (ہاشم بن قاسم) نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عبدالرحمٰن اشجعی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے مخارق بن عبداللہ نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے موقع پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: یا رسول اللہ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی «فاذهب أنت وربك فقاتلا إنا ها هنا قاعدون» کہ آپ خود اور آپ کے خدا چلے جائیں اور آپ دونوں لڑ بھڑ لیں۔ ہم تو یہاں سے ٹلنے کے نہیں۔ نہیں! آپ چلئے، ہم آپ کے ساتھ جان دینے کو حاضر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس بات سے خوشی ہوئی۔ اس حدیث کو وکیع نے بھی سفیان ثوری سے، انہوں نے مخارق سے، انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے کہ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا (جو اوپر بیان ہوا)۔
الْمُحَارَبَةُ لِلَّهِ الْكُفْرُ بِهِ.
«يحاربون» سے کفر کرنا مراد ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ أَبُو رَجَاءٍمَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ: أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَذَكَرُوا، وَذَكَرُوا، فَقَالُوا: وَقَالُوا: قَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ وَهْوَ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ ؟ أَوْ قَالَ: مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ ؟ قُلْتُ: مَا عَلِمْتُ نَفْسًا حَلَّ قَتْلُهَا فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ بِكَذَا، وَكَذَا، قُلْتُ: إِيَّايَ حَدَّثَ أَنَسٌ، قَالَ: قَدِمَ قَوْمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمُوهُ، فَقَالُوا: قَدِ اسْتَوْخَمْنَا هَذِهِ الْأَرْضَ، فَقَالَ: "هَذِهِ نَعَمٌ لَنَا تَخْرُجُ فَاخْرُجُوا فِيهَا فَاشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا، وَأَبْوَالِهَا"، فَخَرَجُوا فِيهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا، وَأَلْبَانِهَا، وَاسْتَصَحُّوا وَمَالُوا عَلَى الرَّاعِي، فَقَتَلُوهُ، وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ، فَمَا يُسْتَبْطَأُ مِنْ هَؤُلَاءِ، قَتَلُوا النَّفْسَ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَخَوَّفُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: تَتَّهِمُنِي، قَالَ: حَدَّثَنَا بِهَذَا أَنَسٌ، قَالَ: وَقَالَ: "يَا أَهْلَ كَذَا، إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا أُبْقِيَ هَذَا فِيكُمْ، أَوْ مِثْلُ هَذَا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلمان ابورجاء، ابوقلابہ کے غلام نے بیان کیا اور ان سے ابوقلابہ نے کہ وہ (امیرالمؤمنین) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے (مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا) لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا: عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا (پھر) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو (مرتد ہو گیا ہو)۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو (کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا) چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے) کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ (نہیں) یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَسَرَتْ الرُّبَيِّعُ، وَهْيَ عَمَّةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَطَلَبَ الْقَوْمُ الْقِصَاصَ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَمُّأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: لَا وَاللَّهِ لَا تُكْسَرُ سِنُّهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أَنَسُ، كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ"، فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الْأَرْشَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ربیع نے جو انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں، انصار کی ایک لڑکی کے آگے کے دانت توڑ دیئے۔ لڑکی والوں نے قصاص چاہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصاص کا حکم دیا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! ان کا دانت نہ توڑ ا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! لیکن کتاب اللہ کا حکم قصاص ہی کا ہے۔ پھر لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور دیت لینا منظور کر لیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم سچی کر دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَدْ كَذَبَ، وَاللَّهُ يَقُولُ: يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67 الْآيَةَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے شعبی نے، ان سے مسروق نے کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، جو شخص بھی تم سے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپا لیا تھا، تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك» کہ اے پیغمبر! جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ (سب) آپ (لوگوں تک) پہنچا دیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: "أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ سورة المائدة آية 89 فِي قَوْلِ الرَّجُلِ: لَا وَاللَّهِ، وَبَلَى وَاللَّهِ".
ہم سے علی بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ آیت «لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم» اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ کسی کے اس طرح قسم کھانے کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ نہیں، اللہ کی قسم، ہاں اللہ کی قسم!۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ أَبَاهَا كَانَ لَا يَحْنَثُ فِي يَمِينٍ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: "لَا أَرَى يَمِينًا أُرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا قَبِلْتُ رُخْصَةَ اللَّهِ وَفَعَلْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ان کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی قسم کے خلاف کبھی نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کا حکم نازل کر دیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب اگر اس کے (یعنی جس کے لیے قسم کھا رکھی تھی) سوا دوسری چیز مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتا ہوں اور وہی کام کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ مَعَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: أَلَا نَخْتَصِي، فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ، فَرَخَّصَ لَنَا بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ نَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ، ثُمَّ قَرَأَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ سورة المائدة آية 87".
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے (یا کسی بھی چیز) کے بدلے میں نکاح کر سکتے ہیں۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم» اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہیں۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْأَزْلَامُ: الْقِدَاحُ، يَقْتَسِمُونَ بِهَا فِي الْأُمُورِ، وَالنُّصُبُ: أَنْصَابٌ يَذْبَحُونَ عَلَيْهَا، وَقَالَ غَيْرُهُ، الزَّلَمُ الْقِدْحُ، لَا رِيشَ لَهُ وَهُوَ وَاحِدُ، الْأَزْلَامِ وَالِاسْتِقْسَامُ، أَنْ يُجِيلَ الْقِدَاحَ فَإِنْ نَهَتْهُ انْتَهَى، وَإِنْ أَمَرَتْهُ فَعَلَ مَا تَأْمُرُهُ بِهِ، يُجِيلُ يُدِيرُ، وَقَدْ أَعْلَمُوا الْقِدَاحَ أَعْلَامًا بِضُرُوبٍ يَسْتَقْسِمُونَ بِهَا، وَفَعَلْتُ مِنْهُ قَسَمْتُ وَالْقُسُومُ الْمَصْدَرُ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الأزلام» سے مراد وہ تیر ہیں جن سے وہ اپنے کاموں میں فال نکالتے تھے۔ کافر ان سے اپنی قسمت کا حال دریافت کیا کرتے تھے۔ «نصب» (بیت اللہ کے چاروں طرف بت 360 کی تعداد میں کھڑے کئے ہوئے تھے جن پر وہ قربانی کیا کرتے تھے۔) دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ لفظ «زلم» وہ تیر جن کے پر نہیں ہوا کرتے، «الأزلام» کا واحد ہے۔ «استقسام» یعنی پانسا پھینکنا کہ اس میں نہیں آ جائے تو رک جائیں اور اگر حکم آ جائے تو حکم کے مطابق عمل کریں۔ تیروں پر انہوں نے مختلف قسم کے نشانات بنا رکھے تھے اور ان سے قسمت کا حال نکالا کرتے تھے۔ «استقسام» سے (لازم) «فعلت» کے وزن پر «قسمت» ہے اور«لقسوم» ، «مصدر» ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، وَإِنَّ فِي الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ لَخَمْسَةَ أَشْرِبَةٍ، مَا فِيهَا شَرَابُ الْعِنَبِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن بشر نے خبر دی، ان سے عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ میں اس وقت پانچ قسم کی شراب استعمال ہوتی تھی۔ لیکن انگوری شراب کا استعمال نہیں ہوتا تھا (بہرحال وہ بھی حرام قرار پائی)۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "مَا كَانَ لَنَا خَمْرٌ غَيْرُ فَضِيخِكُمْ، هَذَا الَّذِي تُسَمُّونَهُ الْفَضِيخَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ أَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: وَهَلْ بَلَغَكُمُ الْخَبَرُ ؟ فَقَالُوا: وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ: حُرِّمَتِ الْخَمْرُ، قَالُوا: أَهْرِقْ هَذِهِ الْقِلَالَ يَا أَنَسُ، قَالَ: فَمَا سَأَلُوا عَنْهَا وَلَا رَاجَعُوهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم لوگ تمہاری «فضيخ» (کھجور سے بنائی ہوئی شراب) کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے «فضيخ» رکھ رکھا ہے۔ میں کھڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا: تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہا: انس رضی اللہ عنہ اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "صَبَّحَ أُنَاسٌ غَدَاةَ أُحُدٍ الْخَمْرَ، فَقُتِلُوا مِنْ يَوْمِهِمْ جَمِيعًا شُهَدَاءَ، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِهَا".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے صبح صبح شراب پی تھی اور اسی دن وہ سب شہید کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت شراب حرام نہیں ہوئی تھی (اس لیے وہ گنہگار نہیں ٹھہرے)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، وَابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، وَهْيَ مِنْ خَمْسَةٍ: مِنَ الْعِنَبِ، وَالتَّمْرِ، وَالْعَسَلِ، وَالْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عیسیٰ اور ابن ادریس نے خبر دی، انہیں ابوحیان نے، انہیں شعبی نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے فرما رہے تھے۔ امابعد! اے لوگو! جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ چیزوں سے تیار کی جاتی تھی۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جَو سے اور شراب ہر وہ پینے کی چیز ہے جو عقل کو زائل کر دے۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ الْخَمْرَ الَّتِي أُهْرِيقَتِ الْفَضِيخُ، وَزَادَنِي مُحَمَّدٌ الْبِيكَنْدِيُّ، عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ، قَالَ: كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، فَنَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: اخْرُجْ، فَانْظُرْ مَا هَذَا الصَّوْتُ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَقُلْتُ: هَذَا مُنَادٍ يُنَادِي، أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، فَقَالَ لِي: اذْهَبْ فَأَهْرِقْهَا، قَالَ: فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: وَكَانَتْ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: قُتِلَ قَوْمٌ وَهْيَ فِي بُطُونِهِمْ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا سورة المائدة آية 93".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے، ان سے انس بن مالک نے کہ (حرمت نازل ہونے کے بعد) جو شراب بہائی گئی تھی وہ «فضيخ.» کی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد نے ابوالنعمان سے اس زیادتی کے ساتھ بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں صحابہ کی ایک جماعت کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: باہر جا کے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ بیان کیا کہ میں باہر آیا اور کہا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ خبردار ہو جاؤ، شراب حرام ہو گئی ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ کو کہا کہ جاؤ اور شراب بہا دو۔ راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دنوں «فضيخ.» شراب استعمال ہوتی تھی۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شراب سے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا» جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھا لیا۔
حَدَّثَنَا مُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَارُودِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَةً مَا سَمِعْتُ مِثْلَهَا قَطُّ، قَالَ: "لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا"، قَالَ: فَغَطَّى أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُجُوهَهُمْ لَهُمْ خَنِينٌ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي ؟ قَالَ: فُلَانٌ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101. رَوَاهُ النَّضْرُ، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے منذر بن ولید بن عبدالرحمٰن جارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن انس نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لیے، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ اس کی روایت نضر اور روح بن عبادہ نے شعبہ سے کی ہے۔
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "كَانَ قَوْمٌ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِهْزَاءً، فَيَقُولُ الرَّجُل: مَنْ أَبِي ؟ وَيَقُولُ الرَّجُلُ: تَضِلُّ نَاقَتُهُ، أَيْنَ نَاقَتِي ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمْ هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101 حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ كُلِّهَا".
ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوخیثمہ نے بیان کیا، ان سے ابوجویریہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہو جاتی تو وہ یہ پوچھتے کہ میری اونٹنی کہاں ہو گی؟ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» کہ اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزرے۔ یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ وَإِذْ هَا هُنَا صِلَةٌ الْمَائِدَةُ أَصْلُهَا مَفْعُولَةٌ كَعِيشَةٍ رَاضِيَةٍ وَتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ وَالْمَعْنَى مِيدَ بِهَا صَاحِبُهَا مِنْ خَيْرٍ يُقَالُ مَادَنِي يَمِيدُنِي. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مُتَوَفِّيكَ: مُمِيتُكَ.
«وإذ قال الله» (میں «قال») معنی میں «يقول» کے ہے اور «إذ» یہاں زائد ہے۔ «المائدة» اصل میں «مفعولة» ( «ميمودة») کے معنی میں ہے گو صیغہ فاعل کا ہے، جیسے «عيشة» ، «راضية» اور «تطليقة» ، «بائنة» میں ہے۔ تو «مائدة» کا معنی «مميده» یعنی خیر اور بھلائی جو کسی کو دی گئی ہے۔ اسی سے «مادني يميدني» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: «متوفيك» کے معنی میں تجھ کو وفات دینے والا ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں اپنے وقت مقررہ پر موت آئے گی وہ مراد ہو سکتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: الْبَحِيرَةُ الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ فَلَا يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، وَالسَّائِبَةُ: كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِآلِهَتِهِمْ لَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَيْءٌ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ"، كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ، وَالْوَصِيلَةُ: النَّاقَةُ الْبِكْرُ، تُبَكِّرُ فِي أَوَّلِ نِتَاجِ الْإِبِلِ، ثُمَّ تُثَنِّي بَعْدُ بِأُنْثَى، وَكَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِطَوَاغِيتِهِمْ إِنْ وَصَلَتْ إِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى لَيْسَ بَيْنَهُمَا ذَكَرٌ، وَالْحَامِ: فَحْلُ الْإِبِلِ، يَضْرِبُ الضِّرَابَ الْمَعْدُودَ، فَإِذَا قَضَى ضِرَابَهُ وَدَعُوهُ لِلطَّوَاغِيتِ وَأَعْفَوْهُ مِنَ الْحَمْلِ، فَلَمْ يُحْمَلْ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَسَمَّوْهُ الْحَامِيَ. وقَالَ لِي أَبُو الْيَمَانِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،سَمِعْتُ سَعِيدًا، قَالَ: يُخْبِرُهُ بِهَذَا، قَالَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَرَوَاهُ ابْنُ الْهَادِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ «بحيرة» اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک دیا جاتا اور کوئی شخص اس کے دودھ کو دوہنے کا مجاز نہ سمجھا جاتا اور «سائبة» اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے وہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے باربرداری و سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔ سعید راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ اور «وصيلة» اس جوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ ہی جنتی، اسے بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے لیکن اسی صورت میں جبکہ وہ برابر دو مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور اس درمیان میں کوئی نر بچہ نہ ہوتا۔ اور«حام» وہ نر اونٹ جو مادہ پر شمار سے کئی دفعہ چڑھتا (اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے) جب وہ اتنی صحبتیں کر چکتا تو اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور بوجھ لادنے سے معاف کر دیتے (نہ سواری کرتے) اس کا نام «حام» رکھتے اور ابوالیمان (حکم بن نافع) نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے سنا، کہا میں نے سعید بن مسیب سے یہی حدیث سنی جو اوپر گزری۔ سعید نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا (وہی عمرو بن عامر خزاعی کا قصہ جو اوپر گزرا) اور یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بھی اس حدیث کو ابن شہاب سے روایت کیا۔ انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْكَرْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَرَأَيْتُ عَمْرًا يَجُرُّ قُصْبَهُ، وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ".
مجھ سے محمد بن ابی یعقوب ابوعبداللہ کرمانی نے بیان کیا، کہا ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کو کھائے جا رہے ہیں اور میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں اس میں گھسیٹا پھر رہا تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، ثُمَّ قَالَ: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، أَلَا وَإِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُصحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سورة المائدة آية 117، فَيُقَالُ: "إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو مغیرہ بن نعمان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے، ننگے پاؤں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی تھی، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، ہمارے ذمہ وعدہ ہے، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے۔ آخر آیت تک۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا، میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں؟ مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم» کہ میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگراں ہے۔ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ، وَإِنَّ نَاسًا يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ إِلَى قَوْلِهِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 117 - 118".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قیامت کے دن جمع کیا جائے گا اور کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو نیک بندے نے کہا ہو گا «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم» میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا آخر آیت «العزيز الحكيم» تک۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ: مَعْذِرَتُه، مَعْرُوشَاتٍ: مَا يُعْرَشُ مِنَ الْكَرْمِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، حَمُولَةً: مَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا، وَلَلَبَسْنَا: لَشَبَّهْنَا لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ أَهْلَ مَكَّةَ، يَنْأَوْنَ: يَتَبَاعَدُونَ تُبْسَلُ تُفْضَحُ، أُبْسِلُوا: أُفْضِحُوا، بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ: الْبَسْطُ الضَّرْبُ، وَقَوْلُهُ اسْتَكْثَرْتُمْ: مِنَ الْإِنْسِ أَضْلَلْتُمْ كَثِيرًا مِمَّا، ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ: جَعَلُوا لِلَّهِ مِنْ ثَمَرَاتِهِمْ وَمَالِهِمْ نَصِيبًا وَلِلشَّيْطَانِ وَالْأَوْثَانِ نَصِيبًا أَكِنَّةً وَاحِدُهَا كِنَانٌ، أَمَّا اشْتَمَلَتْ: يَعْنِي هَلْ تَشْتَمِلُ إِلَّا عَلَى ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، فَلِمَ تُحَرِّمُونَ بَعْضًا وَتُحِلُّونَ بَعْضًا، مَسْفُوحًا: مُهْرَاقًا، صَدَفَ: أَعْرَضَ، أُبْلِسُوا: أُويِسُوا، وَأُبْسِلُوا: أُسْلِمُوا، سَرْمَدًا: دَائِمًا، اسْتَهْوَتْهُ: أَضَلَّتْهُ، تَمْتَرُونَ: تَشُكُّونَ، وَقْرٌ: صَمَمٌ وَأَمَّا الْوِقْرُ فَإِنَّهُ الْحِمْلُ، أَسَاطِيرُ: وَاحِدُهَا أُسْطُورَةٌ وَإِسْطَارَةٌ وَهْيَ التُّرَّهَاتُ الْبَأْسَاءُ مِنَ الْبَأْسِ وَيَكُونُ مِنَ الْبُؤْسِ، جَهْرَةً: مُعَايَنَةً الصُّوَرُ جَمَاعَةُ صُورَةٍ كَقَوْلِهِ سُورَةٌ وَسُوَرٌ مَلَكُوتٌ مُلْكٌ مِثْلُ رَهَبُوتٍ خَيْرٌ مِنْ رَحَمُوتٍ، وَيَقُولُ تُرْهَبُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُرْحَمَ وَإِنْ تَعْدِلْ تُقْسِطْ لَا يُقْبَلْ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، جَنَّ: أَظْلَمَ تَعَالَى عَلَا يُقَالُ عَلَى اللَّهِ حُسْبَانُهُ أَيْ حِسَابُهُ، وَيُقَالُ حُسْبَانًا مَرَامِيَ وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ مُسْتَقِرٌّ فِي الصُّلْبِ وَمُسْتَوْدَعٌ: فِي الرَّحِمِ الْقِنْوُ الْعِذْقُ وَالِاثْنَانِ قِنْوَانِ وَالْجَمَاعَةُ أَيْضًا قِنْوَانٌ مِثْلُ صِنْوٍ وَصِنْوَانٍ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثم لم تكن فتنتهم» کا معنی پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا۔ «معروشات» کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ (جن کی بیل ہوتی ہے)۔ «حمولة» کا معنی «لدو» یعنی بوجھ لادنے کے جانور۔ «وللبسنا» کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔ «ينأون» کا معنی دور ہو جاتے ہیں۔ «تبسل» کا معنی رسوا کیا جائے۔ «أبسلوا» رسوا کئے گئے۔ «باسطو أيديهم» میں «بسط» کے معنی مارنا۔ «استكثرتم» یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ «وجعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا» یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔ «اكنة» ، «كنان» کی جمع ہے یعنی پردہ۔ «أما اشتملت» یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔ اور «وما مسفوحا» یعنی بہایا گیا خون۔ «صدف» کا معنی منہ پھیرا۔ «أبلسوا» کا معنی ناامید ہوئے۔ «فاذاهم مبلسون» میں اور «أبسلوا بما كسبوا» میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لیے سپرد کئے گئے۔ «سرمدا» کا معنی ہمیشہ۔ «استهوته» کا معنی گمراہ کیا۔ «يمترون» کا معنی شک کرتے ہو۔ «وقر» کا معنی بوجھ (جس سے کان بہرا ہو)۔ اور «وقر» بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔ «أساطير» ، «أسطورة» اور «إسطارة» کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔ «البأساء» ، «بأس» سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز «بؤس.» سے بھی آتا ہے اور محتاج۔ «جهرة» کھلم کھلا۔ «صور» ( «يوم ينقخ فى الصور») میں «صورت» کی جمع جیسے «سور» ، «سورة» کی جمع۔ «ملكوت» سے «ملك» یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے «رهبوت» اور «رحموت» مثل ہے «رهبوت» یعنی ڈر۔ «رحموت» (مہربانی) سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔ «جن عليه اليل» رات کی اندھیری اس پر چھا گئی۔ «حسبان» کا معنی «حساب» ۔ کہتے ہیں اللہ پر اس کا«حسبان» یعنی «حساب» ہے اور بعضوں نے کہا «حسبان» سے مراد تیر اور شیطان پر پھینکنے کے حربے۔ «مستقر» باپ کی پشت۔«مستودع» ماں کا پیٹ۔ «قنو» (خوشہ) گچھہ اس کا تثنیہ «قنوان» اور جمع بھی «قنوان» جیسے «صنو» اور «صنوان.» (یعنی جڑ ملے ہوئے درخت)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ، وَيُنْزِلُ الْغَيْثَ، وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کے خزانے پانچ ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ بیشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی علم والا ہے، خبر رکھنے والا ہے۔
يَلْبِسَكُمْ: يَخْلِطَكُمْ مِنَ الِالْتِبَاسِ، يَلْبِسُوا: يَخْلِطُوا، شِيَعًا: فِرَقًا.
«يلبسكم» کا معنی ملا دے خلط ملط کر دے۔ یہ «الالتباس» سے نکلا ہے۔ «شيعا» یعنی «فرقا» گروہ گروہ فرقے فرقے۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ سورة الأنعام آية 65، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، قَالَ: أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ، قَالَ: أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ سورة الأنعام آية 65، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا أَهْوَنُ أَوْ هَذَا أَيْسَرُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا «أو من تحت أرجلكم» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض» اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پہلے عذابوں سے ہلکا یا آسان ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا نَزَلَتْ وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، قَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ، فَنَزَلَتْ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب آیت «ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا، ہم میں کون ہو گا جس کا دامن ظلم سے پاک ہو۔ اس یہ آیت اتری «إن الشرك لظلم عظيم» بیشک شرک ظلم عظیم ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ مجھ سے تمہارے نبی کے چچا زاد بھائی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر بتائے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سعد بن ابراہیم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر بتائے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ الْأَحْوَلُ، أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَفِي ص سَجْدَةٌ ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ تَلَا وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ إِلَى قَوْلِهِ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ سورة الأنعام آية 84 - 90، ثُمَّ قَالَ: هُوَ مِنْهُمْ، زَادَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْعَوَّامِ، عَنْمُجَاهِدٍ، قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: فَقَالَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مِمَّنْ أُمِرَ أَنْ يَقْتَدِيَ بِهِمْ".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے سلیمان احول نے خبر دی، انہیں مجاہد نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا، ہاں۔ پھر آپ نے آیت «ووهبنا» سے ( «فبهداهم اقتده») تک پڑھی اور کہا کہ داؤد علیہ السلام بھی ان انبیاء میں شامل ہیں(جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے)۔ یزید بن ہارون، محمد بن عبید اور سہل بن یوسف نے عوام بن حوشب سے، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، تو انہوں نے کہا تمہارے نبی بھی ان میں سے ہیں جنہیں اگلے انبیاء کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُلَّ ذِي ظُفُرٍ: الْبَعِيرُ وَالنَّعَامَةُ، الْحَوَايَا: الْمَبْعَرُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: هَادُوا: صَارُوا يَهُودًا، وَأَمَّا قَوْلُهُ: هُدْنَا: تُبْنَا هَائِدٌ تَائِبٌ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «كل ذي ظفر» سے مراد اونٹ اور شتر مرغ ہیں۔ لفظ «الحوايا» بمعنی اوجھڑی کے ہے اور ان کے سوا ایک اور نے کہا کہ «هادوا» کے معنی میں کہ وہ یہودی ہو گئے۔ لیکن سورۃ الاعراف میں لفظ «هدنا» کا معنی یہ ہے کہ ہم نے توبہ کی اسی سے لفظ «هائد» کہتے ہیں توبہ کرنے والے کو۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، قَالَ عَطَاءٌ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، لَمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوهَا"، وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، كَتَبَ إِلَيَّ عَطَاءٌ، سَمِعْتُ جَابِرًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.s
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے کہ عطاء نے بیان کیا کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ یہودیوں کو غارت کرے، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مردہ جانوروں کی چربی حرام کر دی تو اس کا تیل نکال کر اسے بیچنے اور کھانے لگے۔ اور ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے یزید نے بیان کیا، انہیں عطاء نے لکھا تھا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ، وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَيْءَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ، وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ"، قُلْتُ: سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَفَعَهُ، قَالَ: نَعَمْ.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خود مدح کی ہے۔ (عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ) میں نے پوچھا آپ نے یہ حدیث خود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنی تھی انہوں نے بیان کیا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے حدیث بیان کی تھی؟ کہا کہ ہاں۔
وَكِيلٌ حَفِيظٌ وَمُحِيطٌ بِهِ. قُبُلًا: جَمْعُ قَبِيلٍ، وَالْمَعْنَى أَنَّهُ ضُرُوبٌ لِلْعَذَابِ كُلُّ ضَرْبٍ مِنْهَا قَبِيلٌ، زُخْرُفَ الْقَوْلِ: كُلُّ شَيْءٍ حَسَّنْتَهُ وَوَشَّيْتَهُ وَهُوَ بَاطِلٌ فَهُوَ زُخْرُفٌ، وَحَرْثٌ حِجْرٌ: حَرَامٌ وَكُلُّ مَمْنُوعٍ فَهْوَ حِجْرٌ مَحْجُورٌ، وَالْحِجْرُ كُلُّ بِنَاءٍ بَنَيْتَهُ، وَيُقَالُ لِلْأُنْثَى مِنَ الْخَيْلِ: حِجْرٌ، وَيُقَالُ لِلْعَقْلِ: حِجْرٌ، وَحِجًى، وَأَمَّا الْحِجْرُ: فَمَوْضِعُ ثَمُودَ وَمَا حَجَّرْتَ عَلَيْهِ مِنَ الْأَرْضِ فَهُوَ حِجْرٌ، وَمِنْهُ سُمِّيَ حَطِيمُ الْبَيْتِ حِجْرًا، كَأَنَّه مُشْتَقٌّ مِنْ مَحْطُومٍ، مِثْلُ قَتِيلٍ مِنْ مَقْتُولٍ، وَأَمَّا حَجْرُ الْيَمَامَةِ: فَهْوَ مَنْزِلٌ".
وکیل سے مراد حفیظ اور اس پر نگران یا اس کو گھیرنے والا۔ «قبلا» ، «قبيل» کی جمع ہے یعنی عذاب کی قسمیں۔ «قبيل» ایک ایک قسم۔«زخرف» لغو اور بیکار چیز (یا بات) جس کو ظاہر میں آراستہ پیراستہ کریں۔ ( «زخرف القول» چکنی چپڑی باتیں)۔ «حرث حجر» یعنی روکی گئی۔ «حجر» کہتے ہیں حرام اور ممنوع کو۔ اسی سے ہے «حجر محجور» اور «حجر» عمارت کو بھی کہتے ہیں اور مادہ گھوڑیوں کو بھی اور عقل کو بھی «حجر» اور «حجى.» کہتے ہیں اور «اصحاب الحجر» میں ثمود کی بستی والے مراد ہیں اور جس زمین کو تو روک دے اس میں کوئی آنے اور جانور چرانے نہ پائے اس کو بھی «حجر» کہتے ہیں۔ اسی سے خانہ کعبہ کے «حطيم» کو «حجر» کہتے ہیں۔«حطيم» ، «محطوم» کے معنوں میں ہے جیسے «قتيل» ، «مقتول» کے معنی میں اب رہا یمامہ کا «حجر» تو وہ ایک مقام کا نام ہے۔
لُغَةُ أَهْلِ الْحِجَازِ هَلُمَّ لِلْوَاحِدِ، وَالِاثْنَيْنِ، وَالْجَمِيعِ.
«هلم» اہل حجاز کی بولی میں واحد تثنیہ اور جمع سب کے لیے بولا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا، فَذَاكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا، لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کوئی نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ رکھتا ہو۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ، آمَنُوا أَجْمَعُونَ، وَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا"، ثُمَّ قَرَأَ الْآيَةَ.
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو لے۔ جب مغرب سے سورج طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لائیں گے لیکن یہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَرِيَاشًا الْمَالُ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ، الْمُعْتَدِينَ: فِي الدُّعَاءِ وَفِي غَيْرِهِ، عَفَوْا: كَثُرُوا وَكَثُرَتْ أَمْوَالُهُمْ، الْفَتَّاحُ: الْقَاضِي، افْتَحْ بَيْنَنَا: اقْضِ بَيْنَنَا، نَتَقْنَا: الْجَبَلَ رَفَعْنَا، انْبَجَسَتْ: انْفَجَرَتْ، مُتَبَّرٌ: خُسْرَانٌ، آسَى: أَحْزَنُ، تَأْسَ: تَحْزَنْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَسْجُدَ: يَقُولُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ، يَخْصِفَانِ: أَخَذَا الْخِصَافَ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ، يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ يَخْصِفَانِ الْوَرَقَ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ، سَوْآتِهِمَا: كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجَيْهِمَا، وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ: هُوَ هَا هُنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَالَا يُحْصَى عَدَدُهُ الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ، قَبِيلُهُ: جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ، ادَّارَكُوا: اجْتَمَعُوا وَمَشَاقُّ الْإِنْسَانِ وَالدَّابَّةِ كُلُّهَا يُسَمَّى سُمُومًا، وَاحِدُهَا سَمٌّ، وَهِيَ عَيْنَاهُ وَمَنْخِرَاهُ وَفَمُهُ وَأُذُنَاهُ وَدُبُرُهُ وَإِحْلِيلُهُ، غَوَاشٍ: مَا غُشُّوا بِهِ، نُشُرًا: مُتَفَرِّقَةً، نَكِدًا: قَلِيلًا، يَغْنَوْا: يَعِيشُوا، حَقِيقٌ: حَقٌّ، اسْتَرْهَبُوهُمْ: مِنَ الرَّهْبَةِ، تَلَقَّفُ: تَلْقَمُ، طَائِرُهُمْ: حَظُّهُمْ طُوفَانٌ مِنَ السَّيْلِ، وَيُقَالُ: لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ الطُّوفَانُ الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ، سُقِطَ: كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ الْأَسْبَاطُ، قَبَائِلُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ: يَتَعَدَّوْنَ لَهُ يُجَاوِزُونَ تَجَاوُزٌ بَعْدَ تَجَاوُزٍ، تَعْدُ تُجَاوِزْ، شُرَّعًا: شَوَارِعَ، بَئِيسٍ: شَدِيدٍ، أَخْلَدَ: إِلَى الْأَرْضِ قَعَدَ وَتَقَاعَسَ، سَنَسْتَدْرِجُهُمْ: أَيْ نَأْتِيهِمْ مِنْ مَأْمَنِهِمْ كَقَوْلِهِ تَعَالَى، فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا مِنْ جِنَّةٍ: مِنْ جُنُونٍ أَيَّانَ مُرْسَاهَا مَتَى خُرُوجُهَا، فَمَرَّتْ بِهِ: اسْتَمَرَّ بِهَا الْحَمْلُ فَأَتَمَّتْهُ، يَنْزَغَنَّكَ: يَسْتَخِفَّنَّكَ طَيْفٌ مُلِمٌّ بِهِ لَمَمٌ وَيُقَالُ، طَائِفٌ: وَهُوَ وَاحِدٌ، يَمُدُّونَهُمْ: يُزَيِّنُونَ، وَخِيفَةً: خَوْفًا وَخُفْيَةً مِنَ الْإِخْفَاءِ وَالْآصَالُ وَاحِدُهَا أَصِيلٌ وَهُوَ مَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ كَقَوْلِهِ: بُكْرَةً وَأَصِيلًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يوارى» ، «سواتكم» ، «ورياشا» میں «رياشا» سے مال اسباب مراد ہے۔ «لا يحب المعتدين» میں«معتدي» سے دعا میں حد سے بڑھ جانے والے مراد ہیں۔ «عفوا» کا معنی بہت ہو گئے ان کے مال زیادہ ہوئے۔ «فتاح» کہتے ہیں فیصلہ کرنے والے کو۔ «افتح بيننا» ہمارا فیصلہ کر۔ «نتقنا» اٹھایا۔ «انبجست» پھوٹ نکلے۔ «متبر» تباہی نقصان۔ «آسى» غم کھاؤں۔«فلا تأس» غم نہ کھا۔ اوروں نے کہا «ما منعك أن لا تسجد» میں «لا» زائد ہے۔ یعنی تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا«يخصفان من ورق الجنة» انہوں نے بہشت کے پتوں کا «دونا» بنا لیا یعنی بہشت کے پتے اپنے اوپر جوڑ لیے (تاکہ ستر نظر نہ آئے)۔«سوآتهما» سے شرمگاہ مراد ہے۔ «ومتاع إلى حين» میں «حين» سے قیامت مراد ہے۔ عرب کے محاورے میں «حين» ایک ساعت سے لے کے بے انتہا مدت کو کہہ سکتے ہیں۔ «رياشا» اور «ريش» کے معنی ایک ہیں یعنی ظاہری لباس۔ «قبيله» اس کی ذات والے شیطان جن میں سے وہ خود بھی ہے۔ «اداركوا» اکٹھا ہو جائیں گے آدمی اور جانور سب کے سوراخ (یا مساموں) کو «سموم» کہتے ہیں اس کا مفرد «سم» یعنی آنکھ کے سوراخ، نتھنے، منہ، کان، پاخانہ کا مقام، پیشاب کا مقام۔ «غواش» غلاف جس سے ڈھانپے جائیں گے۔ «نشرا»متفرق «نكدا» تھوڑا۔ «يغنوا» جیے یا بسے۔ «حقيق» حق واجب۔ «استرهبوهم» ، «رهبة» سے نکلا ہے یعنی ڈرایا۔ «تلقف» لقمہ کرنے لگا (نگلنے لگا)۔ «طائرهم» ان کا نصیبہ حصہ طوفان سیلاب، کبھی موت کی کثرت کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ «قمل» چچڑیاں چھوٹی جوؤں کی طرح۔ «عروش» اور «عريش» عمارت، «سقط» جب کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں «سقط في يده.» ۔ «الأسباط» بنی اسرائیل کے خاندان قبیلے «يعدون في السبت» ہفتہ کے دن حد سے بڑھ جاتے تھے اسی سے ہے «تعد» یعنی حد سے بڑھ جائے۔«شرعا» پانی کے اوپر تیرتے ہوئے۔ «بئيس» سخت۔ «أخلد» بیٹھ رہا، پیچھے ہٹ گیا۔ «سنستدرجهم» یعنی جہاں سے ان کو ڈر نہ ہو گا ادھر سے ہم آئیں گے جیسے اس آیت میں ہے «فأتاهم الله من حيث لم يحتسبوا» یعنی اللہ کا عذاب ادھر سے آ پہنچا جدھر سے گمان نہ تھا۔ «من جنة» یعنی جنون دیوانگی «فمرت به» برابر پیٹ رہا، اس نے پیٹ کی مدت پوری کی «ينزغنك» گدگدائے پھسلائے۔«طيف» اور «طائف» شیطان کی طرف سے جو اترے یعنی وسوسہ آئے۔ دونوں کا معنی ایک ہے «يمدونهم» ان کو اچھا کر دکھلاتے ہیں«خفية» کا معنی خوف، ڈر «خيفة» ، «الإخفاء» سے ہے یعنی چپکے چپکے «الآصال» ، «أصيل» کی جمع ہے وہ وقت جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے «بكرة وأصيلا» ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَرَفَعَهُ، قَالَ: "لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ، فَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ فَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ) میں نے (ابووائل سے) پوچھا، کیا تم نے یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے بےحیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ اور اللہ سے زیادہ اپنی مدح کو پسند کرنے والا اور کوئی نہیں، اسی لیے اس نے اپنے نفس کی خود تعریف کی ہے۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَرِنِي: أَعْطِنِي.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أرني» ، «أعطني» کے معنی میں ہے کہ دے تو مجھ کو، یعنی اپنا دیدار عطا کر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ لُطِمَ وَجْهُهُ، وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ مِنْ الْأَنْصَارِ لَطَمَ فِي وَجْهِي، قَالَ: "ادْعُوهُ"، فَدَعَوْهُ، قَالَ: "لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ ؟"قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِالْيَهُودِ، فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، فَقُلْتُ: وَعَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَخَذَتْنِي غَضْبَةٌ، فَلَطَمْتُهُ، قَالَ: "لَا تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ"، الْمَنَّ وَالسَّلْوَى.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ مازنی نے، ان سے ان کے والد یحییٰ مازنی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا۔ اس نے کہا: اے محمد! آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ لوگوں نے انہیں بلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہودیوں کی طرف سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔ میں نے کہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت کے دن تمام لوگ بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا طور کی بے ہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ".
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہما کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھنبی «من» میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُوسَى بْنُ هَارُونَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ: كَانَتْ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ مُحَاوَرَةٌ، فَأَغْضَبَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ، فَانْصَرَفَ عَنْهُ عُمَرُ مُغْضَبًا، فَاتَّبَعَهُ أَبُو بَكْرٍ يَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَهُ، فَلَمْ يَفْعَلْ، حَتَّى أَغْلَقَ بَابَهُ فِي وَجْهِهِ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَّا صَاحِبُكُمْ هَذَا فَقَدْ غَامَرَ"، قَالَ: وَنَدِمَ عُمَرُ عَلَى مَا كَانَ مِنْهُ، فَأَقْبَلَ حَتَّى سَلَّمَ وَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَصَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرَ، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: وَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ، يَقُولُ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي ؟ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي ؟"إِنِّي قُلْتُ: "يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا سورة الأعراف آية 158، فَقُلْتُمْ: كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقْتَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ غَامَرَ: سَبَقَ بِالْخَيْرِ.
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور موسیٰ بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ بحث سی ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر غصہ ہو گئے اور ان کے پاس سے آنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو گئے، معافی مانگتے ہوئے۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف نہیں کیا اور (گھر پہنچ کر) اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہ صاحب (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) لڑ آئے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے طرز عمل پر نادم ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور سلام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ بہت ناراض ہوئے۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار یہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! واقعی میری ہی زیادتی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے میرے ساتھی سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگ میرے ساتھی کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ جب میں نے کہا تھا کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف، تو تم لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، اس وقت ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں۔ ابوعبداللہ نے کہا «غامر» کے معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھلائی میں سبقت کی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ سورة البقرة آية 58 فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ دروازے میں (عاجزی سے) جھکتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ کہ توبہ ہے، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے، لیکن انہوں نے حکم بدل ڈالا۔ چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہا کہ «حبة في شعرة» یعنی ہم کو بالیوں میں دانہ چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ، فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسٍ، وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ، وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ، وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ: يَا ابْنَ أَخِي، هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ فَاسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ ؟ قَالَ: سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ: هِي يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ، وَلَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ، فَغَضِبَ عُمَرُ، حَتَّى هَمَّ أَنْ يُوقِعَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ سورة الأعراف آية 199، وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ، وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آ کر قیام کیا۔ حر، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہت قریب رکھتے تھے جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لیے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لیے بھی اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے بھی اجازت مانگی اور عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سامنے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ سورة الأعراف آية 199، قَالَ: "مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَّا فِي أَخْلَاقِ النَّاسِ".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «خذ العفو وأمر بالعرف» معافی اختیار کیجئے اور نیک کام کا حکم دیتے رہئیے۔ لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلَاقِ النَّاسِ أَوْ كَمَا قَالَ.
اور عبداللہ بن براد نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لیے درگزر اختیار کریں یا کچھ ایسا ہی کہا۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْأَنْفَالُ: الْمَغَانِمُ، قَالَ قَتَادَةُ: رِيحُكُمُ الْحَرْبُ يُقَالُ نَافِلَةٌ عَطِيَّةٌ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الأنفال» کے معنی غنیمتیں ہیں۔ قتادہ نے کہا کہ لفظ «ريحكم» سے لڑائی مراد ہے (یعنی اگر تم آپس میں نزاع کرو گے تو لڑائی میں تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی)۔ لفظ «نافلة» عطیہ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سُورَةُ الْأَنْفَالِ، قَالَ: نَزَلَتْ فِي بَدْرٍ الشَّوْكَةُ الْحَدُّ". مُرْدَفِينَ: فَوْجًا بَعْدَ فَوْجٍ رَدِفَنِي وَأَرْدَفَنِي جَاءَ بَعْدِي، ذُوقُوا: بَاشِرُوا وَجَرِّبُوا وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَوْقِ الْفَمِ، فَيَرْكُمَهُ: يَجْمَعَهُ، شَرِّدْ: فَرِّقْ، وَإِنْ جَنَحُوا: طَلَبُوا السِّلْمُ، وَالسَّلْمُ، وَالسَّلَامُ، وَاحِدٌ، يُثْخِنَ: يَغْلِبَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُكَاءً: إِدْخَالُ أَصَابِعِهِمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ، وَتَصْدِيَةً: الصَّفِيرُ، لِيُثْبِتُوكَ: لِيَحْبِسُوكَ.
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشیم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ غزوہ بدر میں نازل ہوئی تھی۔ «الشوكة» کا معنی دھار نوک۔ «مردفين» کے معنی فوج در فوج۔ کہتے ہیں«ردفني وأردفني» یعنی میرے بعد آیا۔ «ذلكم فذوقوه ذوقوا» کا معنی یہ ہے کہ یہ عذاب اٹھاؤ اس کا تجربہ کرو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔ «فيركمه» کا معنی اس کا جمع کرے۔ «شرد» کا معنی جدا کر دے (یا سخت سزا دے)۔ «جنحوا» کے معنی طلب کریں۔«يثخن» کا معنی غالب ہوا اور مجاہد نے کہا «مكاء» کا معنی انگلیاں منہ پر رکھنا۔ «تصدية» سیٹی بجانا۔ «يثبتوك» تاکہ تجھ کو قید کر لیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ سورة الأنفال آية 22، قَالَ: "هُمْ نَفَرٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ آیت «إن شر الدواب عند الله الصم البكم الذين لا يعقلون» بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔ بنو عبدالدار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری تھی۔
اسْتَجِيبُوا: أَجِيبُوا، لِمَا يُحْيِيكُمْ: يُصْلِحُكُمْ.
«استجيبوا» ، «أجيبوا» یعنی قبول کرو، جواب دو۔ «لما يحييكم» ، «لما يصلحكم» یعنی اس چیز کے لیے جو تمہاری اصلاح کرتی ہے تم کو درست کرتی ہے۔ جس کے ذریعہ تم کو دائمی زندگی ملے گی۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِي، فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: "مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ، أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ سورة الأنفال آية 24 ؟"ثُمَّ قَالَ: "لَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ"، فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ، فَذَكَرْتُ لَهُ، وَقَالَ مُعَاذٌ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ حَفْصًا، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍرَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا، وَقَالَ: هِيَ"الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 السَّبْعُ الْمَثَانِي".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے حفص بن عاصم سے سنا اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم» کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جبکہ وہ (یعنی رسول) تم کو بلائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورۃ سکھاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ اور معاذ بن معاذ عنبری نے اس حدیث کو یوں روایت کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب نے، انہوں نے حفص سے سنا اور انہوں نے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے، سنا اور انہوں نے بیان کیا وہ (سورۃ فاتحه) «الحمد لله رب العالمين» ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں۔
قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: مَا سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى مَطَرًا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا عَذَابًا وَتُسَمِّيهِ الْعَرَبُ الْغَيْثَ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا.
ابن عیینہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ «مطرا» (بارش) کا استعمال قرآن میں عذاب ہی کے لیے کیا ہے، عرب اسے «غيث» کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان «ينزل الغيث من بعد ما قنطوا» میں ہے۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ كُرْدِيدٍ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، قال: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: "اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ 33 وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 32-33الْآيَةَ.
مجھ سے احمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے جو کردید کے صاحبزادے تھے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ! تو اس پر آیت «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام» حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کے لیے کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب (ہی سرے سے) نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: "اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ 33 وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 32-33.
ہم سے محمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب لے آ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام» حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا۔ اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کو اللہ کیوں نہ عذاب کرے جن کا حال یہ ہے کہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَجُلًا جَاءَهُ فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا سورة الحجرات آية 9 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ لَا تُقَاتِلَ كَمَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَغْتَرُّ بِهَذِهِ الْآيَةِ وَلَا أُقَاتِلُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَغْتَرَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93 إِلَى آخِرِهَا، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ، يَقُولُ: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ كَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا، فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ، إِمَّا يَقْتُلُونَهُ، وَإِمَّا يُوثِقُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ، فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ، فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُ لَا يُوَافِقُهُ فِيمَا يُرِيدُ، قَالَ: فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ ؟ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: "مَا قَوْلِي فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ، أَمَّا عُثْمَانُ، فَكَانَ اللَّهُ قَدْ عَفَا عَنْهُ، فَكَرِهْتُمْ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ، وَأَمَّا عَلِيٌّ، فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُهُ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ، وَهَذِهِ ابْنَتُهُ أَوْ بِنْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ".
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے، انہوں نے بکر بن عمرو سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص (حبان یا علاء بن عرار نامی) نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا» کہ جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں الخ، اس آیت کے بموجب تم (علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے) کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا «فقاتلوا التي تبغيإ» ۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة» کہ ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا (واہ، واہ) یہ لڑائی تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو (کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے) تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں (جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو) اور علی رضی اللہ عنہ تو (سبحان اللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ، أَنَّ وَبَرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا أَوْ إِلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ: كَيْفَ تَرَى فِي قِتَالِ الْفِتْنَةِ ؟ فَقَالَ: "وَهَلْ تَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ ؟ كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ الدُّخُولُ عَلَيْهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ كَقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے بیان نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا، کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، تو ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ (مسلمانوں کے باہمی) فتنہ اور جنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تمہیں معلوم بھی ہے فتنہ کیا چیز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جنگ کرتے تھے اور ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَمَّا نَزَلَتْ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ سورة الأنفال آية 65، فَكُتِبَ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَقَالَ سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ: أَنْ لَا يَفِرَّ عِشْرُونَ مِنْ مِائَتَيْنِ، ثُمَّ نَزَلَتْ الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ سورة الأنفال آية 66 الْآيَةَ، فَكَتَبَ أَنْ لَا يَفِرَّ مِائَةٌ مِنْ مِائَتَيْنِ، وَزَادَ سُفْيَانُ مَرَّةً نَزَلَتْ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ سورة الأنفال آية 65، قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: وَأُرَى الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ، مِثْلَ هَذَا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں کے لیے فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے اور کئی مرتبہ سفیان ثوری نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «الآن خفف الله عنكم» اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی۔ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ سفیان ثوری نے ایک مرتبہ اس زیادتی کے ساتھ روایت بیان کی کہ آیت نازل ہوئی «حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون» کہ اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔ سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن شبرمہ (کوفہ کے قاضی) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ سورة الأنفال آية 65 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حِينَ فُرِضَ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَجَاءَ التَّخْفِيفُ، فَقَالَ: الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ سورة الأنفال آية 66، قَالَ: فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ، نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خُفِّفَ عَنْهُمْ".
ہم سے یحییٰ بن عبداللہ سلمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن حازم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زبیر ابن خریت نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت اتری «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں پر سخت گزرا کیونکہ اس آیت میں ان پر یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ اس لیے اس کے بعد تخفیف کی گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين» کہ اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں جوش کی کمی ہے۔ سو اب اگر تم میں صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تعداد کی اس کمی سے اتنی ہی مسلمانوں کے صبر میں کمی ہو گئی۔
وَلِيجَةً: كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ، الشُّقَّةُ: السَّفَرُ الْخَبَالُ الْفَسَادُ وَالْخَبَالُ الْمَوْتُ، وَلَا تَفْتِنِّي: لَا تُوَبِّخْنِي، كَرْهًا: وَكُرْهًا وَاحِدٌ، مُدَّخَلًا: يُدْخَلُونَ فِيهِ، يَجْمَحُونَ: يُسْرِعُونَ، وَالْمُؤْتَفِكَاتِ: ائْتَفَكَتِ انْقَلَبَتْ بِهَا الْأَرْضُ، أَهْوَى: أَلْقَاهُ فِي هُوَّةٍ، عَدْنٍ: خُلْدٍ عَدَنْتُ بِأَرْضٍ، أَيْ أَقَمْتُ وَمِنْهُ مَعْدِنٌ، وَيُقَالُ فِي مَعْدِنِ صِدْقٍ فِي مَنْبَتِ صِدْقٍ، الْخَوَالِفُ: الْخَالِفُ الَّذِي خَلَفَنِي فَقَعَدَ بَعْدِي، وَمِنْهُ يَخْلُفُهُ فِي الْغَابِرِينَ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ النِّسَاءُ مِنَ الْخَالِفَةِ، وَإِنْ كَانَ جَمْعَ الذُّكُورِ فَإِنَّهُ لَمْ يُوجَدْ عَلَى تَقْدِيرِ جَمْعِهِ، إِلَّا حَرْفَانِ فَارِسٌ وَفَوَارِسُ وَهَالِكٌ وَهَوَالِكُ الْخَيْرَاتُ، وَاحِدُهَا خَيْرَةٌ وَهِيَ الْفَوَاضِلُ، مُرْجَئُونَ مُؤَخَّرُونَ الشَّفَا شَفِيرٌ وَهُوَ حَدُّهُ، وَالْجُرُفُ مَا تَجَرَّفَ مِنَ السُّيُولِ وَالْأَوْدِيَةِ، هَارٍ هَائِرٍ يُقَالُ تَهَوَّرَتِ الْبِئْرُ إِذَا انْهَدَمَتْ وَانْهَارَ مِثْلُهُ لَأَوَّاهٌ شَفَقًا وَفَرَقًا، وَقَالَ الشَّاعِرُ: إِذَا قُمْتُ أَرْحَلُهَا بِلَيْلٍ تَأَوَّهُ آهَةَ الرَّجُلِ الْحَزِينِ
«وليجة» وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے (یہاں مراد بھیدی ہے)۔ «الشقة» سفر یا دور دراز راستہ۔ «خبال» کے معنی فساد اور «خبال» موت کو بھی کہتے ہیں۔ «ولا تفتني» یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔ «كَرها» اور «كُرها» دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔ «مدخلا» گھس بیٹھنے کا مقام (مثلا سرنگ وغیرہ)۔ «يجمحون» دوڑتے جائیں۔ «مؤتفكات» یہ«ائتفكت انقلبت بها الأرض.» سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔ «أهوى» یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔ «عدن»کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں «عدنت بأرض» یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے «معدن» کا لفظ نکلا ہے۔(جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں)۔ «معدن صدق.» یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔«الخوالف» ، «خالف» کی جمع ہے۔ «خالف» وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث «يخلفه في الغابرين» یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن (یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو)۔ اور «الخوالف» سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ «يخلفه» کی جمع ہو گی (جیسے «فاعلة» کی جمع «فواعل» آتی ہے)۔ اگر «خالف» مذکر کی جمع ہو تو یہ «شاذ» ہو گی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی «جمعه» آتی ہیں جیسے «فارس» اور «فوارس» اور «هالك» اور «هوالك» ۔ «الخيرات» ، «خيرة»کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔ «مرجئون» ڈھیل میں دیئے گئے۔ «الشفا» کہتے ہیں «شفير» کو یعنی کنارہ۔ «الجرف» وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔ «هار» گرنے والی اسی سے ہے «تهورت البئر» یعنی کنواں گر گیا۔ «لأواه» یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ و زاری کرنے والا جیسے شاعر ( «مشقب عبدى») کہتا ہے۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُذُنٌ: يُصَدِّقُ، تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا: وَنَحْوُهَا كَثِيرٌ وَالزَّكَاةُ الطَّاعَةُ وَالْإِخْلَاصُ، لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ: لَا يَشْهَدُونَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُضَاهُونَ: يُشَبِّهُونَ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «أذن» اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر بات سن لے اس پر یقین کر لے «تطهرهم» اور «تزكيهم بها»کے ایک معنی ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مترادف الفاظ بہت ہیں۔ «الزكاة» کے معنی بندگی اور اخلاص کے ہیں۔ «لا يؤتون الزكاة» کے معنی یہ کہ کلمہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہیں دیتے۔ «يضاهون» ای «يشبهون» یعنی اگلے کافروں کی سی بات کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: "آخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176، وَآخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَةٌ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» اور سب سے آخر میں سورۃ برات نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَأَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ، فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي مُؤَذِّنِينَ، بَعَثَهُمْ يَوْمَ النَّحْرِ يُؤَذِّنُونَ بِمِنًى، أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: ثُمَّ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ يَوْمَ النَّحْرِ فِي أَهْلِ مِنًى بِبَرَاءَةَ، وَأَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے(کہا) اور مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر (جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھا) مجھے بھی اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر میں اس لیے بھیجا تھا کہ اعلان کر دیں کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر نہ کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں سورۃ برات کے احکام کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چنانچہ ہمارے ساتھ علی رضی اللہ عنہ نے بھی یوم نحر ہی میں سورۃ برات کا اعلان کیا اور اس کا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگے ہو کر طواف کرے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: "بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي الْمُؤَذِّنِينَ، بَعَثَهُمْ يَوْمَ النَّحْرِ يُؤَذِّنُونَ بِمِنًى، أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ"، قَالَ حُمَيْدٌ: ثُمَّ أَرْدَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: "فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْلِ مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ بِبَرَاءَةَ، وَأَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر(جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھا) مجھ کو ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں آپ نے یوم نحر میں بھیجا تھا۔ منیٰ میں یہ اعلان کرنے کے لیے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔ حمید نے کہا کہ پھر پیچھے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ سورۃ برات کا اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ منیٰ کے میدان میں دسویں تاریخ میں سورۃ برات کا اعلان کیا اور یہ کہ کوئی مشرک آئندہ سال سے حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِأَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعَثَهُ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فِي رَهْطٍ، يُؤَذِّنُونَ فِي النَّاسِ،أَنْ لَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، فَكَانَ حُمَيْدٌ، يَقُولُ: "يَوْمُ النَّحْرِ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، مِنْ أَجْلِ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد (ابراہیم بن سعد) نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنایا تھا۔ حجۃ الوداع سے (ایک سال) پہلے 9 ھ میں انہیں بھی ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں لوگوں میں آپ نے یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔ حمید نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم نحر بڑے حج کا دن ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ، فَقَالَ: "مَا بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ هَذِهِ الْآيَةِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ، وَلَا مِنَ الْمُنَافِقِينَ إِلَّا أَرْبَعَةٌ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: إِنَّكُمْ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُخْبِرُونَا فَلَا نَدْرِي، فَمَا بَالُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَبْقُرُونَ بُيُوتَنَا، وَيَسْرِقُونَ أَعْلَاقَنَا، قَالَ أُولَئِكَ الْفُسَّاقُ، أَجَلْ لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا أَرْبَعَةٌ، أَحَدُهُمْ شَيْخٌ كَبِيرٌ، لَوْ شَرِبَ الْمَاءَ الْبَارِدَ لَمَا وَجَدَ بَرْدَهُ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ ہم حذیفہ بن یمان کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا یہ آیت جن لوگوں کے بارے میں اتری ان میں سے اب صرف تین شخص باقی ہیں، اسی طرح منافقوں میں سے بھی اب چار شخص باقی ہیں۔ اتنے میں ایک دیہاتی کہنے لگا آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، ہمیں ان لوگوں کے متعلق بتائیے کہ ان کا کیا حشر ہو گا جو ہمارے گھروں میں چھید کر کے اچھی چیزیں چرا کر لے جاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ فاسق بدکار ہیں۔ ہاں ان منافقوں میں چار کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا ہے اور ایک تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اس کی ٹھنڈ کا بھی اسے پتہ نہیں چلتا۔
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجَ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "يَكُونُ كَنْزُ أَحَدِكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ".
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن اعرج نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمہارا خزانہ جس میں زکوٰۃ نہ دی گئی ہو قیامت کے دن گنجے ناگ کی شکل اختیار کرے گا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: مَرَرْتُ عَلَى أَبِي ذَرٍّ، بِالرَّبَذَةِ، فَقُلْتُ"مَا أَنْزَلَكَ بِهَذِهِ الْأَرْضِ ؟"قَالَ: كُنَّا بِالشَّأْمِ، فَقَرَأْتُ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ سورة التوبة آية 34"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا هَذِهِ فِينَا، مَا هَذِهِ إِلَّا فِي أَهْلِ الْكِتَابِ، قَالَ: قُلْتُ: "إِنَّهَا لَفِينَا وَفِيهِمْ".
ہم سے قتیبہ بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ میں مقام ربذہ میں ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس جنگل میں آپ نے کیوں قیام کو پسند کیا؟ فرمایا کہ ہم شام میں تھے۔ (مجھ میں اور وہاں کے حاکم معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو گیا) میں نے یہ آیت پڑھی «والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله فبشرهم بعذاب أليم» کہ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں، آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ تو معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے (جب وہ زکوٰۃ دیتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ فرمایا کہ میں نے اس پر کہا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طُهْرًا لِلْأَمْوَالِ.
احمد بن شبیب بن سعید نے کہا کہ ہم سے میرے والد (شبیب بن سعید) نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے خالد بن اسلم نے کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نکلے تو انہوں نے کہا کہ یہ (مذکورہ بالا آیت) زکوٰۃ کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ کا حکم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ سے مالوں کو پاک کر دیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ: اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ، مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ".
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے، ان سے ان کے والد ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(حجۃ الوداع کے خطبے میں) فرمایا کہ دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔
أَيْ نَاصِرُنَا السَّكِينَةُ، فَعِيلَةٌ مِنَ السُّكُونِ.
«معنا» یعنی ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔ «سكينة» ، «فعيلة» کے وزن پر «سكون» سے نکلا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ، فَرَأَيْتُ آثَارَ الْمُشْرِكِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ رَفَعَ قَدَمَهُ رَآنَا، قَالَ: "مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان بن ہلال باہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: انہوں نے کہا کہ میں غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور بولے: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو (کوئی نقصان پہنچا سکے گا) جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: "حِينَ وَقَعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قُلْتُ: أَبُوهُ الزُّبَيْرُ، وَأُمُّهُ أَسْمَاءُ، وَخَالَتُهُ عَائِشَةُ، وَجَدُّهُ أَبُو بَكْرٍ، وَجَدَّتُهُ صَفِيَّةُ، فَقُلْتُ: لِسُفْيَانَ إِسْنَادُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا فَشَغَلَهُ إِنْسَانٌ، وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ جُرَيْجٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب میرا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اختلاف ہو گیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا تھیں، ان کی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی دادی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی) صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ (عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہ) میں نے سفیان (ابن عیینہ) سے پوچھا کہ اس روایت کی سند کیا ہے؟ تو انہوں نے کہنا شروع کیا «حدثنا» ہم سے حدیث بیان کی لیکن ابھی اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ انہیں ایک دوسرے شخص نے دوسری باتوں میں لگا دیا اور (راوی کا نام) ابن جریج وہ نہ بیان کر سکے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: وَكَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، فَغَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَتُحِلَّ حَرَمَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَبَنِي أُمَيَّةَ مُحِلِّينَ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُحِلُّهُ أَبَدًا، قَالَ: قَالَ النَّاسُ: بَايِعْ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقُلْتُ: وَأَيْنَ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْهُ أَمَّا أَبُوهُ فَحَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الزُّبَيْرَ، وَأَمَّا جَدُّهُ فَصَاحِبُ الْغَارِ يُرِيدُ أَبَا بَكْرٍ، وَأُمُّهُ فَذَاتُ النِّطَاقِ يُرِيدُ أَسْمَاءَ، وَأَمَّا خَالَتُهُ فَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُ عَائِشَةَ، وَأَمَّا عَمَّتُهُ فَزَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ خَدِيجَةَ، وَأَمَّا عَمَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَدَّتُهُ يُرِيدُ صَفِيَّةَ، ثُمَّ عَفِيفٌ فِي الْإِسْلَامِ قَارِئٌ لِلْقُرْآنِ، وَاللَّهِ إِنْ وَصَلُونِي وَصَلُونِي مِنْ قَرِيبٍ، وَإِنْ رَبُّونِي رَبُّونِي أَكْفَاءٌ كِرَامٌ، فَآثَرَ التُّوَيْتَاتِ وَالْأُسَامَاتِ وَالْحُمَيْدَاتِ، يُرِيدُ أَبْطُنًا مِنْ بَنِي أَسَدٍ، بَنِي تُوَيْتٍ، وَبَنِي أُسَامَةَ، وَبَنِي أَسَدٍ، إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَاصِ بَرَزَ يَمْشِي الْقُدَمِيَّةَ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ، وَإِنَّهُ لَوَّى ذَنَبَهُ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہو گی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کر لو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہئے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: دَخَلْنَا عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ،فَقَالَ: "أَلَا تَعْجَبُونَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، قَامَ فِي أَمْرِهِ هَذَا"، فَقُلْتُ: لَأُحَاسِبَنَّ نَفْسِي لَهُ مَا حَاسَبْتُهَا لِأَبِي بَكْرٍ وَلَا لِعُمَرَ، وَلَهُمَا كَانَا أَوْلَى بِكُلِّ خَيْرٍ مِنْهُ، وَقُلْتُ: ابْنُ عَمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنُ أَخِي خَدِيجَةَ، وَابْنُ أُخْتِ عَائِشَةَ، فَإِذَا هُوَ يَتَعَلَّى عَنِّي، وَلَا يُرِيدُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَعْرِضُ هَذَا مِنْ نَفْسِي فَيَدَعُهُ، وَمَا أُرَاهُ يُرِيدُ خَيْرًا، وَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ لَأَنْ يَرُبَّنِي بَنُو عَمِّي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَرُبَّنِي غَيْرُهُمْ".
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی کہہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لیے محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لیے بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں (اپنے دل میں کہا) مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: يَتَأَلَّفُهُمْ بِالْعَطِيَّةِ.
مجاہد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان نو مسلم لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بُعِثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ، فَقَسَمَهُ بَيْنَ أَرْبَعَةٍ، وَقَالَ: "أَتَأَلَّفُهُمْ"، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا عَدَلْتَ، فَقَالَ: "يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمٌ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔(جو نو مسلم تھے) اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر (بنو تمیم کا) ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔
يَلْمِزُونَ: يَعِيبُونَ وَجُهْدَهُمْ، وَجَهْدَهُمْ طَاقَتَهُمْ.
«يلمزون» کا معنی عیب لگاتے ہیں، طعنہ مارتے ہیں۔ «جهدهم» (جیم کے ضمہ) اور «جهدهم» جیم کے نصب کے ساتھ دونوں قرآت ہیں۔ یعنی محنت مزدوری کر کے مقدور کے موافق دیتے ہیں۔
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: "لَمَّا أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ كُنَّا نَتَحَامَلُ فَجَاءَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الْآخَرُ، إِلَّا رِئَاءً، فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79، الْآيَةَ".
مجھ سے ابو محمد بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں خیرات کرنے کا حکم ہوا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھاتے (اور اس کی مزدوری صدقہ میں دے دیتے) چنانچہ ابوعقیل اسی مزدوری سے آدھا صاع خیرات لے کر آئے اور ایک دوسرے صحابی عبدالرحمٰن بن عوف اس سے زیادہ لائے۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اللہ کو اس (یعنی عقیل) کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اس دوسرے(عبدالرحمٰن بن عوف) نے تو محض دکھاوے کے لیے اتنا بہت سا صدقہ دیا ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم» کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں پر جنہیں بجز ان کی محنت مزدوری کے کچھ نہیں ملتا۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ: أَحَدَّثَكُمْ زَائِدَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِالصَّدَقَةِ، فَيَحْتَالُ أَحَدُنَا حَتَّى يَجِيءَ بِالْمُدِّ، وَإِنَّ لِأَحَدِهِمُ الْيَوْمَ مِائَةَ أَلْفٍ، كَأَنَّهُ يُعَرِّضُ بِنَفْسِهِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسامہ (حماد بن اسامہ) سے پوچھا، آپ حضرات سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا تھا کہ ان سے سلیمان نے، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ مزدوری کر کے لاتے اور (بڑی مشکل سے) ایک مد کا صدقہ کر سکتے لیکن آج انہیں میں بعض ایسے ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ غالباً ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا (حماد نے کہا ہاں سچ ہے)۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ رَبُّكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً سورة التوبة آية 80، وَسَأَزِيدُهُ عَلَى السَّبْعِينَ"، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ بن عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)۔ اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» کہ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوئیے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ غَيْرُهُ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ، وَقَدْ قَالَ: يَوْمَ كَذَا، كَذَا، وَكَذَا، قَالَ: أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَخِّرْ: عَنِّي يَا عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: "إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرْ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا"، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا إِلَى قَوْلِهِ وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84، قَالَ: فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان کے علاوہ (ابوصالح عبداللہ بن صالح)نے بیان کیا، کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے جب عبداللہ بن ابی ابن سلول کی موت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے خدمت نبوی میں پہنچا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ابن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کی باتیں (اسلام کے خلاف) کی تھیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے پیش کرنے لگا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کر کے فرمایا کہ عمر! میرے پاس سے ہٹ جاؤ (اور صف میں جا کے کھڑے ہو جاؤ)۔ میں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے میں نے (اس کے لیے استغفار کرنے اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے ہی کو) پسند کیا، اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور واپس تشریف لائے، تھوڑی دیر ابھی ہوئی تھی کہ سورۃ برات کی دو آیتیں نازل ہوئیں «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا» کہ ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے۔ آخر آیت «وهم فاسقون» تک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بعد میں مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اس درجہ جرات پر خود بھی حیرت ہوئی اور اللہ اور اس کے رسول بہتر جاننے والے ہیں۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّنَهُ فِيهِ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي عَلَيْهِ، فَأَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِثَوْبِهِ، فَقَال: تُصَلِّي عَلَيْهِ وَهُوَ مُنَافِقٌ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَ: "إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، أَوْ أَخْبَرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80، فَقَالَ: سَأَزِيدُهُ عَلَى سَبْعِينَ"، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84.
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا کرتہ عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کرتے سے اسے کفن دیا جائے پھر آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے تیار ہو گئے حالانکہ یہ منافق ہے، اللہ تعالیٰ بھی آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع کر چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ یا راوی نے «خيرني» کی جگہ لفظ «أخبرني» نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون» کہ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے، آپ اس پر کبھی بھی جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوكَ: "وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ بَعْدَ إِذْ هَدَانِي، أَعْظَمَ مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ، كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أُنْزِلَ الْوَحْيُ، سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ إِلَى قَوْلِهِ الْفَاسِقِينَ سورة التوبة آية 95 - 96".
ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتلایا، اللہ کی قسم! ہدایت کے بعد اللہ نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولنے کے بعد ظاہر ہوا تھا کہ اس نے مجھے جھوٹ بولنے سے بچایا، ورنہ میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے لوگ جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے ہلاک ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وحی نازل کی تھی «سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم» کہ عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ اللہ کی قسم کھا جائیں گے۔ آخر آیت «الفاسقين» تک۔
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ هُوَ ابْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا: "أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ، فَابْتَعَثَانِي، فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ، وَلَبِنِ فِضَّةٍ، فَتَلَقَّانَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، قَالَا لَهُمْ: اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهْرِ، فَوَقَعُوا فِيهِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا، قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ، فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، قَالَا لِي: هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ، قَالَا: أَمَّا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرٌ مِنْهُمْ حَسَنٌ، وَشَطْرٌ مِنْهُمْ قَبِيحٌ، فَإِنَّهُمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا، وَآخَرَ سَيِّئًا، تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُمْ".
ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابورجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے سمرہ بن جندب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ رات (خواب میں) میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن نہایت خوبصورت، اتنا کہ کسی دیکھنے والے نے ایسا حسن نہ دیکھا ہو گا اور بدن کا دوسرا آدھا حصہ نہایت بدصورت تھا، اتنا کہ کسی نے بھی ایسی بدصورتی نہیں دیکھی ہو گی۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا جاؤ اور اس نہر میں غوطہٰ لگاؤ۔ وہ گئے اور نہر میں غوطہٰ لگا آئے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور اب وہ نہایت خوبصورت نظر آتے تھے پھر فرشتوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے۔ جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا کہ جسم کا آدھا حصہ خوبصورت تھا اور آدھا بدصورت، تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور برے سب کام کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا تھا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيْ عَمِّ، قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ"، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ سورة التوبة آية 113".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد مسیب بن حزن نے کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ(آپ ایک بار زبان سے کلمہ) لا الہٰ الا اللہ کہہ دیجئیے میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر) اللہ کی بارگاہ میں پیش کر لوں گا۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم» کہ نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ (یقیناً) اہل دوزخ سے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ. ح قَالَ أَحْمَدُ: وَحَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فِي حَدِيثِهِ،وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118، قَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي، أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی (دوسری سند) احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن کعب نے خبر دی کہ (ان کے والد) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت «وعلى الثلاثة الذين خلفوا» نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ، أَنَّ الزُّهْرِيَّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ: أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ: غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ، وَغَزْوَةِ بَدْرٍ، قَالَ: فَأَجْمَعْتُ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى، وَكَانَ قَلَّمَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ سَافَرَهُ إِلَّا ضُحًى، وَكَانَ يَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِي، وَكَلَامِ صَاحِبَيَّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْ كَلَامِ أَحَدٍ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ غَيْرِنَا، فَاجْتَنَبَ النَّاسُ كَلَامَنَا، فَلَبِثْتُ كَذَلِكَ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ الْأَمْرُ، وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فَلَا يُصَلِّي عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ يَمُوتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكُونَ مِنَ النَّاسِ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ، فَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ وَلَا يُصَلِّي وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَوْبَتَنَا عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَقِيَ الثُّلُثُ الْآخِرُ مِنَ اللَّيْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مُحْسِنَةً فِي شَأْنِي، مَعْنِيَّةً فِي أَمْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أُمَّ سَلَمَةَ، تِيبَ عَلَى كَعْبٍ"، قَالَتْ: أَفَلَا أُرْسِلُ إِلَيْهِ فَأُبَشِّرَهُ ؟ قَالَ: "إِذًا يَحْطِمَكُمُ النَّاسُ فَيَمْنَعُونَكُمُ النَّوْمَ سَائِرَ اللَّيْلَةِ"، حَتَّى إِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، آذَنَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا، وَكَانَ إِذَا اسْتَبْشَرَ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةٌ مِنَ الْقَمَرِ، وَكُنَّا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ خُلِّفُوا عَنِ الْأَمْرِ الَّذِي قُبِلَ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ اعْتَذَرُوا، حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ لَنَا التَّوْبَةَ، فَلَمَّا ذُكِرَ الَّذِينَ كَذَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ وَاعْتَذَرُوا بِالْبَاطِلِ، ذُكِرُوا بِشَرِّ مَا ذُكِرَ بِهِ أَحَدٌ، قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ سورة التوبة آية 94 الْآيَةَ.
مجھ سے محمد بن نصر نیشاپوری نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن ابی شعیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن اعین نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ سے واپس تشریف لائے) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہرحال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا«يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبأنا الله من أخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله»کہ یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ: فَوَاللَّهِ، مَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي، مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ إِلَى قَوْلِهِ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 117 - 119.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے اور ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے، وہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ (جب وہ نابینا ہو گئے تھے) عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ غزوہ تبوک میں اپنی غیر حاضری کا قصہ بیان کر رہے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! سچ بولنے کا جتنا عمدہ پھل اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا، کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں نے اس بارے میں سچی بات کہی تھی، اس وقت سے آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی تھی «لقد تاب الله على النبي والمهاجرين» کہ بیشک اللہ نے نبی پر اور مہاجرین و انصار پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی۔ آخر آیت «وكونوا مع الصادقين» تک۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الْوَحْيَ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِالنَّاسِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ، إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ الْقُرْآنَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لَا يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، وَلَا نَتَّهِمُكَ، كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، فَاجْمَعْهُ، فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ، فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ، وَالْأَكْتَافِ، وَالْعُسُبِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ، لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ سورة التوبة آية 128 إِلَى آخِرِهِمَا، وَكَانَتِ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا الْقُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ. تَابَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَوَاللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ: مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ، وَقَالَ مُوسَى، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ، وَتَابَعَهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْأَبِيهِ، وَقَالَ أَبُو ثَابِتٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، وَقَالَ: مَعَ خُزَيْمَةَ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے عبیداللہ بن سباق نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے جو کاتب وحی تھے، بیان کیا کہ جب (11 ھ) میں یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ مارے گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ (کفار کے ساتھ) لڑائیوں میں یونہی قرآن کے علماء اور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو محض ایک نیک کام ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جوان اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا بھی کرتے تھے، اس لیے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو۔ اللہ کی قسم! کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لیے کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک نیک کام ہے۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا۔ جس طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے (جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا، اس دور کے رواج کے مطابق) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے (جو قرآن کے حافظ تھے) حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے ملیں۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی۔ (وہ آیتیں یہ تھیں) «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم» آخر تک۔ پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی (ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا)۔ شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عثمان بن عمر اور لیث بن سعد نے بھی یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا، اور لیث نے کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا اس میں خزیمہ کے بدلے ابوخزیمہ انصاری ہے اور موسیٰ نے ابراہیم سے روایت کی، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، اس روایت میں بھی ابوخزیمہ ہے۔ موسیٰ بن اسماعیل کے ساتھ اس حدیث کو یعقوب بن ابراہیم نے بھی اپنے والد ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اور ابوثابت محمد بن عبیداللہ مدنی نے، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا اس روایت میں شک کے ساتھ خزیمہ یا ابوخزیمہ مذکور ہے۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَاخْتَلَطَ فَنَبَتَ بِالْمَاءِ مِنْ كُلِّ لَوْنٍ. وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مُجَاهِدٌ خَيْرٌ. يُقَالُ: تِلْكَ آيَاتُ يَعْنِي هَذِهِ أَعْلاَمُ الْقُرْآنِ وَمِثْلُهُ. حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ الْمَعْنَى بِكُمْ. دَعْوَاهُمْ دُعَاؤُهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَنَوْا مِنَ الْهَلَكَةِ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَاتَّبَعَهُمْ وَأَتْبَعَهُمْ وَاحِدٌ. عَدْوًا مِنَ الْعُدْوَانِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ قَوْلُ الإِنْسَانِ لِوَلَدِهِ وَمَالِهِ إِذَا غَضِبَ اللَّهُمَّ لاَ تُبَارِكْ فِيهِ وَالْعَنْهُ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ لأُهْلِكُ مَنْ دُعِيَ عَلَيْهِ وَلأَمَاتَهُ. لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى مِثْلُهَا حُسْنَى وَزِيَادَةٌ مَغْفِرَةٌ. الْكِبْرِيَاءُ الْمُلْكُ.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «فاختلط» کا معنی یہ ہے کہ پانی برسنے کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا۔ یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، وہ بےنیاز ہے اور زید بن اسلم نے کہا کہ «أن لهم قدم صدق» سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ اس سے بھلائی مراد ہے۔ «تلك آيات» میں «تلك» جو حاضر کے لیے ہے مراد اس سے غائب ہے۔ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں ہیں، اسی طرح اس آیت۔ «حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم» میں «بهم» سے «بكم.» مراد ہے یعنی غائب سے حاضر مراد ہے۔ «دعواهم» ای «دعاؤهم» ان کی دعا «أحيط بهم» یعنی ہلاکت و بربادی کے قریب آ گئے، جیسے«أحاطت به خطيئته» یعنی گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا۔ «فاتبعهم» اور «وأتبعهم» کے ایک معنی ہیں۔ «عدوا» ،«عدوان.» سے نکلا ہے۔ آیت «يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير» کے متعلق مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد غصہ کے وقت آدمی کا اپنی اولاد اور اپنے مال کے متعلق یہ کہنا کہ اے اللہ! اس میں برکت نہ فرما اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو (بعض اوقات ان کی یہ دعا نہیں لگتی) کیونکہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے اور (بعض اوقات) جس پر بددعا کی جاتی ہے، وہ ہلاک و برباد ہو جاتے ہیں۔ «للذين أحسنوا الحسنى» میں مجاہد نے کہا «زيادة» سے مغفرت اور اللہ کی رضا مندی مراد ہے دوسرے لوگوں نے کہا «وزيادة» سے اللہ کا دیدار مراد ہے۔ «الكبرياء» سے سلطنت اور بادشاہی مراد ہے۔
نُنَجِّيكَ: نُلْقِيكَ عَلَى نَجْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ وَهُوَ النَّشَزُ الْمَكَانُ الْمُرْتَفِعُ.
«ننجيك» بمعنی «نلقيك» ۔ «على نجوة من الأرض» میں «نجوة» بمعنی «وهو النشز المكان المرتفع» یعنی ہم تیری لاش کو «نجوة»(اونچی جگہ) پر ڈال دیں گے جس کو سب دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَالْيَهُودُ تَصُومُ عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ ظَهَرَ فِيهِ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: "أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْهُمْ، فَصُومُوا".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر فتح ملی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہم ان سے بھی زیادہ مستحق ہیں اس لیے تم بھی روزہ رکھو۔
وَقَالَ أَبُو مَيْسَرَةَ الْأَوَّاهُ الرَّحِيمُ: بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَادِئَ الرَّأْيِ: مَا ظَهَرَ لَنَا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْجُودِيُّ: جَبَلٌ بِالْجَزِيرَةِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ، يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَقْلِعِي: أَمْسِكِي، عَصِيبٌ: شَدِيدٌ، لَا جَرَمَ: بَلَى، وَفَارَ التَّنُّورُ: نَبَعَ الْمَاءُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَجْهُ الْأَرْضِ.
ابومیسرہ (عمرو بن شرحبیل) نے کہا «الأواه» حبشی زبان میں مہربان، رحم دل کو کہتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا «بادئ الرأي» کا معنی جو ہم کو ظاہر ہوا۔ اور مجاہد نے کہا «جودي» ایک پہاڑ ہے اس جزیرے میں جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں موصل کے قریب ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا۔ «إنك لأنت الحليم» یہ کافروں نے شعیب کو ٹھٹھے کی راہ سے کہا تھا۔ اور ابن عباس نے کہا «أقلعي» کے معنی تھم جا۔ «عصيب» کے معنی سخت۔ «لا جرم» کا معنی کیوں نہیں (یعنی ضروری ہے)۔ «وفار التنور» کا معنی پانی پھوٹ نکلا۔ عکرمہ نے کہا «تنور» سطح زمین کو کہتے ہیں۔
وَقَالَ غَيْرُهُ: وَحَاقَ نَزَلَ، يَحِيقُ يَنْزِلُ. يَئُوسٌ فَعُولٌ مِنْ يَئِسْتُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَبْتَئِسْ تَحْزَنْ. يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ شَكٌّ وَامْتِرَاءٌ فِي الْحَقِّ. لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ مِنَ اللَّهِ إِنِ اسْتَطَاعُوا.
عکرمہ کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ «حاق» کا معنی اتر پڑا اسی سے ہے «يحيق ينزل» اترتا ہے۔ «انه ليوس كفور» میں «يوس» کا معنی ناامید ہونا۔ جو بروزن «فعول» ہے۔ یہ «يئست» سے نکلا ہے اور مجاہد نے کہا «لا تبتئس» کا معنی غم نہ کھا «يثنون صدورهم» کا مطلب یہ ہے کہ حق بات میں شک و شبہ کرتے ہیں۔ «ليستخفوا منه» یعنی اگر ہو سکے تو اللہ سے چھپا لیں۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ: 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0، قَالَ: "سَأَلْتُهُ عَنْهَا"، فَقَالَ: "أُنَاسٌ كَانُوا يَسْتَحْيُونَ أَنْ يَتَخَلَّوْا، فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ وَأَنْ يُجَامِعُوا نِسَاءَهُمْ، فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ فَنَزَلَ ذَلِكَ فِيهِمْ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ آیت کی قرآت اس طرح کرتے تھے «ألا إنهم تثنوني صدورهم» میں نے ان سے آیت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَرَأَ: 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0، قُلْتُ: "يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، مَا تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ ؟ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُجَامِعُ امْرَأَتَهُ فَيَسْتَحِي، أَوْ يَتَخَلَّى، فَيَسْتَحِي، فَنَزَلَتْ 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح قرآت کرتے تھے «ألا إنهم تثنوني صدورهم» محمد بن عباد نے پوچھا: اے ابو العباس! «تثنوني صدورهم» کا کیا مطلب ہے؟ بتلایا کہ کچھ لوگ اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے میں حیاء کرتے اور خلاء کے لیے بیٹھتے ہوئے بھی حیاء کرتے تھے۔ انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ «ألا إنهم تثنوني صدورهم» آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ سورة هود آية 5. وَقَالَ غَيْرُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: يَسْتَغْشُونَ يُغَطُّونَ رُءُوسَهُمْ سِيءَ بِهِمْ سَاءَ ظَنُّهُ بِقَوْمِهِ. وَضَاقَ بِهِمْ بِأَضْيَافِهِ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ بِسَوَادٍ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أُنِيبُ أَرْجِعُ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کی قرآت اس طرح کی تھی «ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ألا حين يستغشون ثيابهم» اور عمرو بن دینار کے علاوہ اوروں نے بیان کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «يستغشون» یعنی اپنے سر چھپا لیتے ہیں۔ «سيء بهم» یعنی اپنی قوم سے وہ بدگمان ہوا۔ «وضاق بهم» یعنی اپنے مہمانوں کو دیکھ کر وہ بدگمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں بھی پریشان کرے گی۔ «بقطع من الليل» یعنی رات کی سیاہی میں اور مجاہد نے کہا «أنيب» کے معنی میں رجوع کرتا ہوں (متوجہ ہوتا ہوں)۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: "أَنْفِقْ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَقَالَ: يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، يَخْفِضُ، وَيَرْفَعُ". اعْتَرَاكَ افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ أَيْ أَصَبْتُهُ، وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا أَيْ فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ. عَنِيدٌ وَعَنُودٌ وَعَانِدٌ وَاحِدٌ، هُوَ تَأْكِيدُ التَّجَبُّرِ، اسْتَعْمَرَكُمْ جَعَلَكُمْ عُمَّارًا، أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهْيَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ. نَكِرَهُمْ وَأَنْكَرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ وَاحِدٌ حَمِيدٌ مَجِيدٌ كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ. مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. سِجِّيلٌ الشَّدِيدُ الْكَبِيرُ. سِجِّيلٌ وَسِجِّينٌ وَاللاَّمُ وَالنُّونُ أُخْتَانِ، وَقَالَ تَمِيمُ بْنُ مُقْبِلٍ: وَرَجْلَةٍ يَضْرِبُونَ الْبَيْضَ ضَاحِيَةً ** ضَرْبًا تَوَاصَى بِهِ الأَبْطَالُ سِجِّينَا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ «اعتراك» باب «افتعال» سے ہے «عروته» سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا اسی سے ہے۔ «يعروه» مضارع کا صیغہ اور «اعتراني آخذ بناصيتها» یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں۔ «عنيد» ، «عنود» اور «عاند» سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سرکش مخالف اور یہ «جبار» کی تاکید ہے۔ «استعمركم» تم کو بسایا، آباد کیا۔ عرب لوگ کہتے ہیں «أعمرته الدار فهى عمرى» یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لیے دے ڈالا۔ «نكرهم» ،«أنكرهم» اور «استنكرهم» سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ان کو پردیسی سمجھا۔ «حميد» ، «فعيل» کے وزن پر ہے بہ معنی«محمود» میں سراہا گیا اور «مجيد» ، «ماجد.» کے معنی میں ہے (یعنی کرم کرنے والا)۔ «سجيل» اور «سجين» دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں۔ «لام» اور «نون» بہنیں ہیں (ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں)۔ تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے۔ بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لیے بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں کو وصیت کیا کرتے ہیں۔
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ، وَمِثْلُهُ: وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ وَاسْأَلِ الْعِيرَ يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ وَأَصْحَابَ الْعِيرِ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا يَقُولُ لَمْ تَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ، وَيُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ بِحَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا، وَالظِّهْرِيُّ هَاهُنَا أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ. أَرَاذِلُنَا سُقَاطُنَا. إِجْرَامِي هُوَ مَصْدَرٌ مِنْ أَجْرَمْتُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ جَرَمْتُ. الْفُلْكُ وَالْفَلَكُ وَاحِدٌ وَهْيَ السَّفِينَةُ وَالسُّفُنُ. مُجْرَاهَا مَدْفَعُهَا وَهْوَ مَصْدَرُ أَجْرَيْتُ، وَأَرْسَيْتُ حَبَسْتُ وَيُقْرَأُ: مَرْسَاهَا مِنْ رَسَتْ هِيَ، وَمَجْرَاهَا مِنْ جَرَتْ هِيَ وَمُجْرِيهَا وَمُرْسِيهَا مِنْ فُعِلَ بِهَا، الرَّاسِيَاتُ ثَابِتَاتٌ.
«وإلى مدين» یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا «واسأل القرية» یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ «واسأل العير» یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔ «وراءكم ظهريا» یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں «ظهرت بحاجتي» اور «جعلتني ظهريا» اس جگہ «ظهري» کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لیے ساتھ رکھے۔ «أراذلنا» ہمارے میں سے کمینے لوگ۔ «إجرام» ، «أجرمت» کا مصدر ہے یا «جرمت ثلاثى»مجرد۔ «فلك» اور «فلك» جمع اور مفرد دونوں کے لیے آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔ «مجراها» کشتی کا چلنا یہ«أجريت» کا مصدر ہے۔ اسی طرح «مرساها» ، «أرسيت» کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی (لنگر کر دیا) بعضوں نے «مرساها»بفتح میم پڑھا ہے «رست» سے۔ اسی طرح «مجراها» بھی «جرت» سے ہے۔ بعضوں نے «مجريها» ، «مرسيها» یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔ «راسيات» کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔
وَاحِدُ الأَشْهَادِ شَاهِدٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَأَصْحَابٍ.
«لأشهاد» ، «شاهد» کی جمع ہے جیسے «صاحب» کی جمع «أصحاب» ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَهِشَامٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، قَالَ: بَيْنَا ابْنُ عُمَرَ يَطُوفُ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَوْ قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّجْوَى، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ"، وَقَالَ هِشَامٌ: يَدْنُو الْمُؤْمِنُ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، تَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، يَقُولُ: أَعْرِفُ، يَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، مَرَّتَيْنِ، فَيَقُولُ: سَتَرْتُهَا فِي الدُّنْيَا، وَأَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، ثُمَّ تُطْوَى صَحِيفَةُ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُونَ أَوِ الْكُفَّارُ، فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ، هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ سورة هود آية 18، وَقَالَ شَيْبَانُ: عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے صفوان بن محرز نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نام نامعلوم آپ کے سامنے آیا اور پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! یا یہ کہا کہ اے ابن عمر! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے متعلق کچھ سنا ہے (جو اللہ تعالیٰ مؤمنین سے قیامت کے دن کرے گا)۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ مومن اپنے رب کے قریب لایا جائے گا۔ اور ہشام نے «يدنو المؤمن»(بجائے «يدنى المؤمن» کہا) مطلب ایک ہی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا ایک جانب اس پر رکھے گا اور اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ فلاں گناہ تجھے یاد ہے؟ بندہ عرض کرے گا، یاد ہے، میرے رب! مجھے یاد ہے، دو مرتبہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمہارے گناہوں کو چھپائے رکھا اور آج بھی تمہاری مغفرت کروں گا۔ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے لوگ یا (یہ کہا کہ) کفار تو ان کے متعلق محشر میں اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ اور شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ ہم سے صفوان نے بیان کیا۔
الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ: الْعَوْنُ الْمُعِينُ رَفَدْتُهُ أَعَنْتُهُ، تَرْكَنُوا: تَمِيلُوا، فَلَوْلَا كَانَ: فَهَلَّا كَانَ، أُتْرِفُوا: أُهْلِكُوا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ: شَدِيدٌ وَصَوْتٌ ضَعِيفٌ.
«الرفد المرفود» مدد جو دی جائے (انعام جو مرحمت ہو)۔ عرب لوگ کہتے ہیں «رفدته» یعنی میں نے اس کی مدد کی۔ «تركنوا» کا معنی جھکو، مائل ہو۔ «فلولا كان» یعنی کیوں نہ ہوئے۔ «أترفوا» ہلاک کئے گئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «زفير» زور کی آواز کو اور«شهيق» پست آواز کو کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ، قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ سورة هود آية 102".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے برید بن ابی بردہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهى ظالمة إن أخذه أليم شديد» اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے، جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے۔ جو(اپنے اوپر) ظلم کرتے رہتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی تکلیف دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے۔
وَزُلَفًا: سَاعَاتٍ بَعْدَ سَاعَاتٍ وَمِنْهُ سُمِّيَتِ الْمُزْدَلِفَةُ الزُّلَفُ، مَنْزِلَةٌ بَعْدَ مَنْزِلَةٍ، وَأَمَّا زُلْفَى، فَمَصْدَرٌ مِنَ الْقُرْبَى ازْدَلَفُوا اجْتَمَعُوا، أَزْلَفْنَا: جَمَعْنَا.
«زلفا» یعنی گھڑی گھڑی اسی سے «مزدلفة» ہے۔ کیونکہ لوگ وہاں وقفہ وقفہ سے آتے رہتے ہیں اور «زلف» منزلوں کو بھی کہتے ہیں۔«زلفى» کا لفظ جو سورۃ ص میں ہے جیسے «قربى» یعنی نزدیکی۔ «ازدلفوا» کا معنی جمع ہو گئے۔ «أزلفنا» متعدی ہے۔ یعنی ہم نے جمع کیا۔ ایک شخص کسی غیر عورت کو ہاتھ سے چھونے یا صرف بوسہ دے دینے کا مرتکب ہو گیا تھا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114 قَالَ الرَّجُلُ: أَلِيَ هَذِهِ ؟ قَالَ: "لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کو بوسہ دے دیا اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اپنا گناہ بیان کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وأقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» اور تم نماز کی پابندی کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ ان صاحب نے عرض کیا یہ آیت صرف میرے ہی لیے ہے (کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ہر انسان کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے۔
وَقَالَ فُضَيْلٌ: عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، مُتَّكَأً: الْأُتْرُجُّ، قَالَ فُضَيْلٌ: الْأُتْرُجُّ بِالْحَبَشِيَّةِ مُتْكًا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ رَجُلٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، مُتْكًا، قَالَ: كُلُّ شَيْءٍ قُطِعَ بِالسِّكِّينِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: لَذُو عِلْمٍ: لِمَا عَلَّمْنَاهُ عَامِلٌ بِمَا عَلِمَ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، صُوَاعَ الْمَلِكِ مَكُّوكُ الْفَارِسِيِّ: الَّذِي يَلْتَقِي طَرَفَاهُ كَانَتْ تَشْرَبُ بِهِ الْأَعَاجِمُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُفَنِّدُونِ: تُجَهِّلُونِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: غَيَابَةٌ كُلُّ شَيْءٍ غَيَّبَ عَنْكَ شَيْئًا فَهُوَ غَيَابَةٌ، وَالْجُبُّ الرَّكِيَّةُ الَّتِي لَمْ تُطْوَ، بِمُؤْمِنٍ لَنَا: بِمُصَدِّقٍ، أَشُدَّهُ: قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَ فِي النُّقْصَانِ، يُقَالُ: بَلَغَ أَشُدَّهُ، وَبَلَغُوا أَشُدَّهُمْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَاحِدُهَا شَدٌّ، وَالْمُتَّكَأُ مَا اتَّكَأْتَ عَلَيْهِ لِشَرَابٍ، أَوْ لِحَدِيثٍ، أَوْ لِطَعَامٍ، وَأَبْطَلَ الَّذِي، قَالَ: الْأُتْرُجُّ وَلَيْسَ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الْأُتْرُجُّ، فَلَمَّا احْتُجَّ عَلَيْهِمْ بِأَنَّهُ الْمُتَّكَأُ مِنْ نَمَارِقَ فَرُّوا إِلَى شَرٍّ مِنْهُ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هُوَ الْمُتْكُ سَاكِنَةَ التَّاءِ، وَإِنَّمَا الْمُتْكُ طَرَفُ الْبَظْرِ، وَمِنْ ذَلِكَ قِيلَ لَهَا: مَتْكَاءُ وَابْنُ الْمَتْكَاءِ، فَإِنْ كَانَ ثَمَّ أُتْرُجٌّ، فَإِنَّهُ بَعْدَ الْمُتَّكَإِ، شَغَفَهَا، يُقَالُ: بَلَغَ شِغَافَهَا، وَهُوَ غِلَافُ قَلْبِهَا، وَأَمَّا شَعَفَهَا فَمِنَ الْمَشْعُوفِ، أَصْبُ: أَمِيلُ صَبَا مَالَ، أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ: مَا لَا تَأْوِيلَ لَهُ، وَالضِّغْثُ مِلْءُ الْيَدِ مِنْ حَشِيشٍ وَمَا أَشْبَهَهُ وَمِنْهُ، وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا لَا مِنْ قَوْلِهِ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَاحِدُهَا ضِغْثٌ، نَمِيرُ: مِنَ الْمِيرَةِ، وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ: مَا يَحْمِلُ بَعِيرٌ، أَوَى إِلَيْهِ: ضَمَّ إِلَيْهِ السِّقَايَةُ مِكْيَالٌ، تَفْتَأُ: لَا تَزَالُ، حَرَضًا: مُحْرَضًا يُذِيبُكَ الْهَمُّ، تَحَسَّسُوا: تَخَبَّرُوا، مُزْجَاةٍ: قَلِيلَةٍ، غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ: عَامَّةٌ مُجَلِّلَةٌ.
اور فضیل بن عیاض (زاہد مشہور) نے حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے کہا «متكأ» کا معنی «لأترج»اور خود فضیل نے بھی کہا کہ «متكأ» حبشی زبان میں «لأترج» کو کہتے ہیں۔ اور سفیان بن عیینہ نے ایک شخص (نام نامعلوم) سے روایت کی اس نے مجاہد سے انہوں نے کہا۔ «متكأ» وہ چیز جو چھری سے کاٹی جائے (میوہ ہو یا ترکاری)۔ اور قتادہ نے کہا «ذو علم» کا معنی اپنے علم پر عمل کرنے والا۔ اور سعید بن جبیر نے کہا «صواع» ایک ماپ ہے جس کو «مكوك الفارسي» بھی کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح کا ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں۔ عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا «لو لا ان تفندون» اگر تم مجھ کو جاہل نہ کہو۔ دوسرے لوگوں نے کہا «غيابة» وہ چیز جو دوسری چیز کو چھپاوے غائب کر دے اور جب کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو۔ «وما انت بمؤمن لنا» یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں۔ «أشده» وہ عمر جو زمانہ انحطاط سے پہلے ہو (تیس سے چالیس برس تک) عرب بولا کرتے ہیں۔ «بلغ أشده وبلغوا أشدهم» یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے۔ بعضوں نے کہا«اشد» ، «شد» کی جمع ہے۔ «متكأ» مسند، تکیہ جس پر تو پینے کھانے یا باتیں کرنے کے لیے ٹیکا دے۔ اور جس نے یہ کہا کہ «متكأ»، «لأترج» کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا۔ عربی زبان میں «متكأ» کے معنی «لأترج» کے بالکل نہیں آئے ہیں جب اس شخص سے جو«متكأ» کے معنی «لأترج» کہتا ہے اصل بیان کی گئی کہ «متكأ» مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو وہ اس سے بھی بدتر ایک بات کہنے لگا کہ یہ لفظ «المتك ساكنة التاء» ہے۔ حالانکہ «متك» عربی زبان میں عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں۔ جہاں عورت کو ختنہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی زبان میں «متكأ» ( «متك» والی) کہتے ہیں اور آدمی کو «متكأ» کا پیٹ کہتے ہیں۔ اگر بالفرض زلیخا نے«لأترج» بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہو گا تو مسند تکیہ کے بعد دیا ہو گا۔ «شعفها» یعنی اس کے دل کے «شغاف» (غلاف) میں اس کی محبت سما گئی ہے۔ بعضوں نے «شعفها» عین مہملہ سے پڑھا ہے وہ «مشعوف» سے نکلا ہے۔ «أصب» کا معنی مائل ہو جاؤں گا جھک پڑوں گا۔ «أضغاث أحلام» پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جا سکے۔ اصل میں «أضغاث» ، «ضغث» کی جمع ہے یعنی ایک مٹھی بھر گھاس تنکے وغیرہ اس سے ہے (سورۃ ص میں) «خذ بيدك ضغثا» یعنی اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے۔ اور «أضغاث أحلام» میں «ضغث» کے یہ معنی مراد نہیں ہیں۔ بلکہ پریشان خواب مراد ہے۔ «نمير» ، «ميرة» سے نکلا ہے اس کے معنی کھانے کے ہیں۔ «ونزداد كيل بعير» یعنی ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے۔ «أوى إليه» اپنے سے ملا لیا۔ اپنے پاس بیٹھا لیا۔ «سقاية» ایک ماپ تھا (جس سے غلہ ماپتے تھے)۔ «تفتأ» ہمیشہ رہو گے۔ «فلما استياسوا» جب ناامید ہو گئے۔ «ولا تياسوا من روح الله» اللہ سے امید رکھو اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ «خلصوا نجيا» الگ جا کر مشورہ کرنے لگے۔ «نجي» کا معنی مشورہ کرنے والا۔ اس کی جمع«انجية» بھی آئی ہے اس سے بنا ہے «يتنا جون» یعنی مشورہ کر رہے ہیں۔ «نجي» مفرد کا صیغہ ہے اور تثنیہ اور جمع میں «نجي» اور«انجية» دونوں مستعمل ہیں۔ «حرضا» یعنی رنج و غم تجھ کو گلا ڈالے گا۔ «تحسسوا» یعنی خبر لو، لو لگاؤ، تلاش کرو۔ «مزجاة» تھوڑی پونجی۔ «غاشية من عذاب الله» اللہ کا عام عذاب جو سب کو گھیر لے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْكَرِيمُ ابْنُ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ، يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے۔(علیہم الصلٰوۃ والسلام)۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ ؟ قَالَ: "أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ: "فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ، ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ: "فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي ؟"قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: "فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا". تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ انسانوں میں کون سب سے زیادہ شریف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف یوسف علیہ السلام ہیں «نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله» ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا یہ بھی مقصد نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، عرب کے خاندانوں کے متعلق تم معلوم کرنا چاہتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں، جبکہ دین کی سمجھ بھی انہیں حاصل ہو جائے۔ اس روایت کی متابعت ابواسامہ نے عبیداللہ سے کی ہے۔
سَوَّلَتْ: زَيَّنَتْ.
«سولت» کا معنی تمہارے دلوں نے ایک من گھڑت بات کو اپنے لیے اچھا سمجھ لیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: . ح، وحَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ، كُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً، فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ، فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ"، قُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَجِدُ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ، فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، وَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11، الْعَشْرَ الْآيَاتِ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا کہا کہ میں زہری سے سنا، انہوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کے متعلق سنا جس میں تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکی نازل کی۔ ان تمام لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کچھ کچھ ٹکڑا بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا کہ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکی نازل کر دے گا لیکن اگر تو آلودہ ہو گئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور میں توبہ کر (عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر کہا: اللہ کی قسم! میری اور آپ کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے (اور انہیں کی کہی ہوئی بات میں بھی دہراتی ہوں کہ) «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» سو صبر کرنا (ہی) اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکی میں سورۃ النور کی «إن الذين جاءوا بالإفك» سے آخر تک دس آیات اتاریں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَهْيَ أُمُّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا وَعَائِشَةُ أَخَذَتْهَا الْحُمَّى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَعَلَّ فِي حَدِيثٍ تُحُدِّثَ"، قَالَتْ: نَعَمْ، وَقَعَدَتْ عَائِشَةُ، قَالَتْ: مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَيَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابووائل شقیق بن سلمہ نے، کہا کہ مجھ سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخار چڑھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً یہ ان باتوں کی وجہ ہوا ہو گا جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھ گئیں اور کہا کہ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی ہے اور آپ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔
وَقَالَ عِكْرِمَةُ: هَيْتَ لَكَ بِالْحَوْرَانِيَّةِ هَلُمَّ، وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: تَعَالَهْ.
اور عکرمہ نے کہا «هيت لك» حورانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آ جاہے۔ سعید بن جبیر نے بھی یہی کہا ہے۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: هَيْتَ لَكَ سورة يوسف آية 23، قَالَ: وَإِنَّمَا نَقْرَؤُهَا كَمَا عُلِّمْنَاهَا مَثْوَاهُ سورة يوسف آية 21، مُقَامُهُ وَأَلْفَيَا سورة يوسف آية 25: وَجَدَا، أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ سورة الصافات آية 69: أَلْفَيْنَا، وَعَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ سورة الصافات آية 12.
مجھ سے احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے «هيت لك» پڑھا اور کہا کہ جس طرح ہمیں یہ لفظ سکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم پڑھتے ہیں۔«مثواه» یعنی اس کا ٹھکانا، درجہ۔ «ألفيا» یعنی پایا اسی سے ہے۔ «ألفوا آباءهم» اور «ألفينا» (دوسری آیتوں میں) اور ابن مسعود سے(سورۃ الصافات) میں «بل عجبت ويسخرون» منقول ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْإِسْلَامِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا مِثْلَ الدُّخَانِ، قَالَ اللَّهُ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ اللَّهُ: إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَمَضَتِ الْبَطْشَةُ ؟.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين» تو آپ انتظار کیجئے اس روز کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ اور فرمایا «إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون» بیشک ہم اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی (اپنی پہلی حالت پر) لوٹ آؤ گے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔
وَحَاشَ وَحَاشَى تَنْزِيهٌ وَاسْتِثْنَاءٌ حَصْحَصَ وَضَحَ
«حاش وحاشا» (الف کے ساتھ) اس کا معنی پاکی بیان کرنا اور استثناء کرنا۔ «حصحص» کا معنی کھل گیا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ، لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ، وَنَحْنُ أَحَقُّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ، إِذْ قَالَ لَهُ: أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260.
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے بکر بن مضر نے، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لیے کہا تھا اور اگر میں قید خانے میں اتنے دنوں تک رہ چکا ہوتا جتنے دن یوسف علیہ السلام رہے تھے تو بلانے والے کی بات رد نہ کرتا اور ہم کو تو ابراہیم علیہ السلام کے بہ نسبت شک ہونا زیادہ سزاوار ہے۔ جب اللہ پاک نے ان سے فرمایا «أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي» کہ کیا تجھ کو یقین نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یقین تو ہے پر میں چاہتا ہوں کہ اور اطمینان ہو جائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ لَهُ وَهُوَ يَسْأَلُهَا عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ سورة يوسف آية 110، قَالَ: قُلْتُ: أَكُذِبُوا أَمْ كُذِّبُوا ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: كُذِّبُوا، قُلْتُ: فَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، فَمَا هُوَ بِالظَّنِّ ؟ قَالَتْ: أَجَلْ، لَعَمْرِي لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، فَقُلْتُ لَهَا: وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنْ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الْآيَةُ ؟ قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنَّتِ الرُّسُلُ أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ قَدْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ عِنْدَ ذَلِكَ .
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا عروہ نے ان سے آیت «حتى إذا استيأس الرسل» کے متعلق پوچھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا تھا (آیت میں) «كذبوا» (تخفیف کے ساتھ) یا «كذبوا»(تشدیدکے ساتھ) اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ «كذبوا» (تشدید کے ساتھ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر «ظنوا» سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا اپنی زندگی کی قسم بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ میں نے کہا «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ پڑھیں تو کیا قباحت ہے۔ انہوں نے کہا معاذاللہ! کہیں پیغمبر اپنے پروردگار کی نسبت ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا ان کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہو گئے جنہوں نے ان کو جھٹلایا تھا اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کوجھوٹا سمجھنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، فَقُلْتُ: لَعَلَّهَا، كُذِبُوا، مُخَفَّفَةً، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، نَحْوَهُ.
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ہو سکتا ہے یہ «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ ہو تو انہوں نے فرمایا، معاذاللہ! پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ: مَثَلُ الْمُشْرِكِ الَّذِي عَبَدَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ غَيْرَهُ، كَمَثَلِ الْعَطْشَانِ الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى ظِلِّ خَيَالِهِ فِي الْمَاءِ مِنْ بَعِيدٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَتَنَاوَلَهُ وَلَا يَقْدِرُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَخَّرَ: ذَلَّلَ، مُتَجَاوِرَاتٌ مُتَدَانِيَاتٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْمَثُلَاتُ: وَاحِدُهَا مَثُلَةٌ وَهِيَ الْأَشْبَاهُ وَالْأَمْثَالُ، وَقَالَ: إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا، بِمِقْدَارٍ: بِقَدَرٍ، يُقَالُ: مُعَقِّبَاتٌ: مَلَائِكَةٌ حَفَظَةٌ تُعَقِّبُ الْأُولَى مِنْهَا الْأُخْرَى، وَمِنْهُ قِيلَ: الْعَقِيبُ، أَيْ عَقَّبْتُ فِي إِثْرِهِ الْمِحَالِ الْعُقُوبَةُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ: لِيَقْبِضَ عَلَى الْمَاءِ، رَابِيًا: مِنْ رَبَا يَرْبُو، أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ: مِثْلُهُ الْمَتَاعُ مَا تَمَتَّعْتَ بِهِ، جُفَاءً، يُقَالُ: أَجْفَأَتِ الْقِدْرُ إِذَا غَلَتْ فَعَلَاهَا الزَّبَدُ ثُمَّ تَسْكُنُ فَيَذْهَبُ الزَّبَدُ بِلَا مَنْفَعَةٍ فَكَذَلِكَ يُمَيِّزُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ الْمِهَادُ: الْفِرَاشُ، يَدْرَءُونَ: يَدْفَعُونَ دَرَأْتُهُ عَنِّي دَفَعْتُهُ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ: أَيْ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، وَإِلَيْهِ مَتَابِ: تَوْبَتِي، أَفَلَمْ يَيْئَسْ: أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ، قَارِعَةٌ: دَاهِيَةٌ، فَأَمْلَيْتُ: أَطَلْتُ مِنَ الْمَلِيِّ وَالْمِلَاوَةِ وَمِنْهُ مَلِيًّا، وَيُقَالُ لِلْوَاسِعِ الطَّوِيلِ مِنَ الْأَرْضِ مَلًى مِنَ الْأَرْضِ، أَشَقُّ: أَشَدُّ مِنَ الْمَشَقَّةِ، مُعَقِّبَ: مُغَيِّرٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُتَجَاوِرَاتٌ: طَيِّبُهَا وَخَبِيثُهَا السِّبَاخُ، صِنْوَانٌ: النَّخْلَتَانِ أَوْ أَكْثَرُ فِي أَصْلٍ وَاحِدٍ، وَغَيْرُ صِنْوَانٍ: وَحْدَهَا، بِمَاءٍ وَاحِدٍ: كَصَالِحِ بَنِي آدَمَ وَخَبِيثِهِمْ، أَبُوهُمْ وَاحِدٌ، السَّحَابُ الثِّقَالُ الَّذِي فِيهِ الْمَاءُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ، يَدْعُو الْمَاءَ بِلِسَانِهِ، وَيُشِيرُ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَلَا يَأْتِيهِ أَبَدًا، فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا: تَمْلَأُ بَطْنَ كُلِّ وَادٍ، زَبَدًا رَابِيًا: الزَّبَدُ زَبَدُ السَّيْلِ، زَبَدٌ مِثْلُهُ خَبَثُ الْحَدِيدِ وَالْحِلْيَةِ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كباسط كفيه» یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتا ہے جیسے پیاسا آدمی پانی کا تصور کر کے دور سے پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اس کو نہ لے سکے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «سخرا» کے معنی تابعدار کیا، مسخر کیا۔«متجاورات» ایک دوسرے سے ملے ہوئے، قریب قریب۔ «المثلات» ، «مثلة» کی جمع ہے یعنی جوڑا اور مشابہ۔ اور دوسری آیت میں ہے «إلا مثل أيام الذين خلوا» مگر مشابہ دنوں ان لوگوں کے جو پہلے گزر گئے «بمقدار» یعنی اندازے سے، جوڑ سے۔ «معقبات»نگہبان فرشتے جو ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں، اسی سے «عقيب.» کا لفظ نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «عقبت في إثره» یعنی میں اس کے نشان قدم پر پیچھے پیچھے گیا۔ «المحال» عذاب۔ «كباسط كفيه إلى الماء» جو دونوں ہاتھ بڑھا کر پانی لینا چاہے۔«رابيا» ، «ربا» ، «يربو.» سے نکلا ہے یعنی بڑھنے والا یا اوپر تیرنے والا۔ «المتاع» جس چیز سے تو فائدہ اٹھائے اس کو کام میں لائے۔«جفاء» ، «أجفأت القدر» سے نکلا ہے یعنی ہانڈی نے جوش مارا جھاگ اوپر آ گیا پھر جب ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے تو پھین جھاگ بیکار سوکھ کر فنا ہو جاتاہے۔ حق باطل سے اسی طرح جدا ہو جاتا ہے۔ «المهاد» بچھونا۔ «يدرءون» دھکیلتے ہیں، دفع کرتے ہیں یہ «درأته» سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کو دور کیا، دفع کر دیا۔ «سلام عليكم» یعنی فرشتے مسلمانوں کو کہتے جائیں گے تم سلامت رہو۔ «وإليه متاب» میں اسی کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ «أفلم ييأس» کیا انہوں نے نہیں جانا۔ «قارعة» آفت، مصیبت۔ «فأمليت» میں نے ڈھیلا چھوڑا، مہلت دی یہ لفظ «ملي» اور «ملاوة» سے نکلا ہے۔ اسی سے نکلا ہے جو جبرائیل کی حدیث میں ہے۔ «فلبثت مليا» (یا قرآن میں ہے) «واهجرنى مليا» اور کشادہ لمبی زمین کو «ملا» کہتے ہیں۔ «أشق» ، «افعل التفصيل» کا صیغہ ہے مشقت سے یعنی بہت سخت۔ «معقب لا معقب لحكمه» میں یعنی نہیں بدلنے والا اور مجاہد نے کہا «متجاورات» کا معنی یہ ہے کہ بعضے قطعے عمدہ قابل زراعت ہیں بعض خراب شور کھارے ہیں۔ «صنوان» وہ کھجور کے درخت جن کی جڑ ملی ہوئی ہو (ایک ہی جڑ پر کھڑے ہوں)۔ «غير صنوان» الگ الگ جڑ پر سب ہی ایک پانی سے اگتے ہیں (ایک ہی ہوا سے ایک ہی زمین میں) آدمیوں کی بھی یہی مثال ہے کوئی اچھا کوئی برا حالانکہ سب ایک باپ آدم کی اولاد ہیں۔ «السحاب الثقال» وہ بادل جن میں پانی بھرا ہوا ہو اور وہ پانی کے بوجھ سے بھاری بھر کم ہوں۔ «كباسط كفيه» یعنی اس شخص کی طرح جو دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی کو زبان سے بلائے، ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے اس صورت میں پانی کبھی اس کی طرف نہیں آئے گا۔ «سالت أودية بقدرها» یعنی نالے اپنے انداز سے بہتے ہیں یعنی پانی بھر کر«زبدا» ، «رابيا» سے مراد بہتے پانی کا پھین جھاگ «زبد مثله» سے لو ہے، زیورات وغیرہ کا پھین جھاگ مراد ہے۔ لفظ «معقبات»سے مراد یہ ہے کہ رات کے فرشتے الگ اور دن کے الگ ہیں۔
غِيضَ: نُقِصَ.
«غيض» ای «نقص» کم کیا گیا۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ: لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ".
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی، کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں ہو گی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَادٍ: دَاعٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَدِيدٌ قَيْحٌ وَدَمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ: أَيَادِيَ اللَّهِ عِنْدَكُمْ وَأَيَّامَهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ: رَغِبْتُمْ إِلَيْهِ فِيهِ، يَبْغُونَهَا عِوَجًا: يَلْتَمِسُونَ لَهَا عِوَجًا، وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ، أَعْلَمَكُمْ آذَنَكُمْ: رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ، هَذَا مَثَلٌ كَفُّوا عَمَّا أُمِرُوا بِهِ، مَقَامِي: حَيْثُ يُقِيمُهُ اللَّهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، مِنْ وَرَائِهِ: قُدَّامَهُ جَهَنَّمُ، لَكُمْ تَبَعًا: وَاحِدُهَا تَابِعٌ مِثْلُ غَيَبٍ وَغَائِبٍ، بِمُصْرِخِكُمْ: اسْتَصْرَخَنِي اسْتَغَاثَنِي يَسْتَصْرِخُهُ مِنَ الصُّرَاخِ، وَلَا خِلَالَ: مَصْدَرُ خَالَلْتُهُ خِلَالًا وَيَجُوزُ أَيْضًا جَمْعُ خُلَّةٍ وَخِلَالٍ، اجْتُثَّتْ: اسْتُؤْصِلَتْ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هاد» کا معنی بلانے والا، ہدایت کرنے والا (نبی و رسول مراد ہیں)۔ اور مجاہد نے کہا «صديد» کا معنی پیپ اور لہو۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہ «اذكروا نعمة الله عليكم» کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں ان کو یاد کرو اور جو جو اگلے واقعات اس کی قدرت کے ہوئے ہیں اور مجاہد نے کہا «من كل ما سألتموه» کا معنی یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی تم نے رغبت کی «يبغونها عوجا» اس میں کجی پیدا کرنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ «وإذ تأذن ربكم» جب تمہارے مالک نے تم کو خبردار کر دیا جتلا دیا۔ «ردوا أيديهم في أفواههم» یہ عرب کی زبان میں ایک مثل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا اس سے باز رہے، بجا نہ لائے۔ «مقامي» وہ جگہ جہاں اللہ پاک اس کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ «من ورائه» سامنے سے۔ «لكم تبعا» ، «تبع» ، «تابع» کی جمع ہے جیسے «غيب» ، «غائب» کی۔ «بمصرخكم» عرب لوگ کہتے ہیں «استصرخني» یعنی اس نے میری فریاد سن لی۔ «يستصرخه» اس کی فریاد سنتا ہے دونوں «صراخ» سے نکلے ہیں ( «صراخ» کا معنی فریاد)۔ «ولا خلال» ،«خاللته» کا مصدر ہے اور «خلة» کی جمع بھی ہو سکتا ہے (یعنی اس دن دوستی نہ ہو گی یا دوستیاں نہ ہوں گی) «اجتثت» جڑ سے اکھاڑ لیا گیا۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ تُشْبِهُ، أَوْ كَالرَّجُلِ الْمُسْلِمِ، لَا يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا، وَلَا، وَلَا، وَلَا تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ لَا يَتَكَلَّمَانِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَلَمَّا لَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هِيَ النَّخْلَةُ"، فَلَمَّا قُمْنَا قُلْتُ لِعُمَرَ: يَا أَبَتَاهُ، وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ وَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَكَلَّمَ، قَالَ: لَمْ أَرَكُمْ تَكَلَّمُونَ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، أَوْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ عُمَرُ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا، وَكَذَا.
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: بابا جان! اللہ کی قسم! میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا۔ میں نے کہا آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا۔ انہوں نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے(لال لال اونٹ کا) مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْمُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے علقمہ بن مرثد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعد بن عبیدہ سے سنا اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان سے جب قبر میں سوال ہو گا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد«يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» اللہ ایمان والوں کی اس پکی بات (کی برکت) سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی) کا یہی مطلب ہے۔
أَلَمْ تَرَ: أَلَمْ تَعْلَمْ كَقَوْلِهِ، أَلَمْ تَرَ كَيْفَ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا: الْبَوَارُ الْهَلَاكُ بَارَ يَبُورُ، قَوْمًا بُورًا: هَالِكِينَ.
«ألم تر» کا معنی «ألم تعلم» یعنی کیا تو نے نہیں جانا۔ «ألم تر كيف» ، «ألم تر إلى الذين خرجوا» میں ہے۔ «البوار» ای «الهلاك» ۔«بورا» کا معنی ہلاکت ہے جو «بار يبور» کا مصدر ہے۔ «قوما بورا» کے معنی ہلاک ہونے والی قوم کے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا سورة إبراهيم آية 28، قَالَ: "هُمْ كُفَّارُ أَهْلِ مَكَّةَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آیت «ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفرا» میں کفار سے اہل مکہ مراد ہیں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ: الْحَقُّ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ، وَعَلَيْهِ طَرِيقُهُ لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ عَلَى الطَّرِيقِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَعَمْرُكَ: لَعَيْشُكَ، قَوْمٌ مُنْكَرُونَ: أَنْكَرَهُمْ لُوطٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: كِتَابٌ مَعْلُومٌ: أَجَلٌ، لَوْ مَا تَأْتِينَا: هَلَّا تَأْتِينَا شِيَعٌ أُمَمٌ وَلِلْأَوْلِيَاءِ أَيْضًا شِيَعٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُهْرَعُونَ: مُسْرِعِينَ، لِلْمُتَوَسِّمِينَ: لِلنَّاظِرِينَ، سُكِّرَتْ: غُشِّيَتْ، بُرُوجًا: مَنَازِلَ لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، لَوَاقِحَ: مَلَاقِحَ مُلْقَحَةً، حَمَإٍ، جَمَاعَةُ حَمْأَةٍ وَهُوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ وَالْمَسْنُونُ الْمَصْبُوبُ تَوْجَلْ تَخَفْ، دَابِرَ: آخِرَ، لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ: الْإِمَامُ كُلُّ مَا ائْتَمَمْتَ وَاهْتَدَيْتَ بِهِ، الصَّيْحَةُ: الْهَلَكَةُ
مجاہد نے کہا «صراط على مستقيم» کا معنی سچا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ کی طرف جاتا ہے «لبإمام مبين» یعنی کھلے راستے پر۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لعمرك» کا معنی یعنی تیری زندگی کی قسم۔ «قوم منكرون» لوط نے ان کو اجنبی پردیسی سمجھا۔ دوسرے لوگوں نے کہا «كتاب معلوم» کا معنی معین میعاد۔ «لوما تاتينا» کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا۔ «شيع» امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی«شيع» کہتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يهرعون» کا معنی دوڑتے، جلدی کرتے۔ «للمتوسمين» دیکھنے والوں کے لیے۔«سكرت» ڈھانکی گئیں۔ «بروجا» ، «برج» یعنی سورج چاند کی منزلیں۔ «لواقح» ، «ملاقح» کے معنی میں ہے جو «ملفحة» کی جمع یعنی حاملہ کرنے والی۔ «حما» ، «حماة» کی جمع ہے بدبودار کیچڑ۔ «مسنون» قالب میں ڈھالی گئی۔ «لا توجل» مت ڈر۔ «دابر اخر»(دم)۔ «لبامام مبين» امام، وہ شخص جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے۔ «الصيحة» ہلاکت کے معنی میں ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا، لِقَوْلِهِ: كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ"، قَالَ عَلِيٌّ: وَقَالَ غَيْرُهُ: صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ؟ قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ، وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ الْيُمْنَى نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَيُحْرِقَهُ، وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الْأَرْضِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْأَرْضِ، فَتُلْقَى عَلَى فَمْ السَّاحِرِ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُصَدَّقُ، فَيَقُولُونَ: أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا، وَكَذَا يَكُونُ كَذَا، وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملائکہ عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے(مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے «صفوان» کے بعد«ينفذهم ذلك» (جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے) کے الفاظ کہے ہیں۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں (ایک پر ایک) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے۔ (کبھی سفیان نے یوں کہا) پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہو گا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ وَزَادَ وَالْكَاهِنِ، وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، فَقَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ، وَقَالَ: عَلَى فَمْ السَّاحِرِ، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: آنْتَ سَمِعْتَ عَمْرًا ؟ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: إِنَّ إِنْسَانًا رَوَى عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَيَرْفَعُهُ، أَنَّهُ قَرَأَ فُرِّغَ، قَالَ سُفْيَانُ: هَكَذَا قَرَأَ عَمْرٌو، فَلَا أَدْرِي سَمِعَهُ هَكَذَا أَمْ لَا، قَالَ سُفْيَانُ: وَهِيَ قِرَاءَتُنَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی اس میں یوں ہے جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور «ساحر» کے بعد اس روایت میں «كاهن.» کا لفظ زیادہ کیا۔ علی نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور اس روایت میں «على فم الساحر.» کا لفظ ہے۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ تم نے عمرو بن دینار سے خود سنا، وہ کہتے تھے میں نے عکرمہ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا ہاں۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا۔ ایک آدمی (نام نامعلوم) نے تو تم سے یوں روایت کی تم نے عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «فزع» پڑھا۔ سفیان نے کہا میں نے عمرو کو اس طرح پڑھتے سنا اب میں نہیں جانتا انہوں نے عکرمہ سے سنا یا نہیں سنا۔ سفیان نے کہا ہماری بھی قرآت یہی ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَصْحَابِ الْحِجْرِ: "لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا تھا کہ اس قوم کی بستی سے جب گزرنا ہی پڑ گیا ہے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر اس میں نہ جاؤ۔ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آئے جو ان پر آیا تھا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ: "مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي ؟"فَقُلْتُ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ: "أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، ثُمَّ قَالَ: "أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ"، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ، الَّذِي أُوتِيتُهُ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فوراً ہی کیوں نہ آئے؟ عرض کیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا ہے کہ اے ایمان والو! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو لبیک کہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاؤں۔ پھر آپ (بتانے سے پہلے) مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ «الحمد لله رب العالمين» یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔
الْمُقْتَسِمِينَ الَّذِينَ حَلَفُوا وَمِنْهُ لَا أُقْسِمُ: أَيْ أُقْسِمُ وَتُقْرَأُ لَأُقْسِمُ، وَ قَاسَمَهُمَا: حَلَفَ لَهُمَا وَلَمْ يَحْلِفَا لَهُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَقَاسَمُوا: تَحَالَفُوا.
«المقتسمين» سے وہ کافر مراد ہیں جنہوں نے رات کو جا کر قسم کھائی تھی کہ صالح پیغمبر کی اونٹنی کو مار ڈالیں گے۔ اسی سے «لا أقسم»نکلا ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ بعضوں نے اسے «لأقسم.» پڑھا ہے ( «لام» تاکید سے) اسی سے ہے۔ «قاسمهما» یعنی ابلیس نے آدم و حواء علیہما السلام کے سامنے قسم کھائی لیکن آدم و حواء نے قسم نہیں کھائی تھی۔ مجاہد نے کہا کہ «تقاسموا بالله لنبيتنه» میں«تقاسموا» کا معنی یہ ہے کہ صالح پیغمبر کو رات کو جا کر مار ڈالنے کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْءَانَ عِضِينَ سورة الحجر آية 91، قَالَ: "هُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، جَزَّءُوهُ أَجْزَاءً فَآمَنُوا بِبَعْضِهِ، وَكَفَرُوا بِبَعْضِهِ".
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں ابوبشر نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا آیت «الذين جعلوا القرآن عضين» جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کر رکھے ہیں کے متعلق کہا کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ انہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ سورة الحجر آية 90، قَالَ: "آمَنُوا بِبَعْضٍ، وَكَفَرُوا بِبَعْضٍ، الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى".
مجھ سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوظبیان حصین بن جندب نے بیان کیا، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «كما أنزلنا على المقتسمين» میں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں کچھ قرآن انہوں نے مانا کچھ نہ مانا۔
قَالَ سَالِمٌ: الْيَقِينُ: الْمَوْتُ.
سالم نے کہا کہ ( «امر اليقين» سے مراد) موت ہے۔
رُوحُ الْقُدُسِ، جِبْرِيلُ، نَزَلَ بِهِ، الرُّوحُ الْأَمِينُ، فِي ضَيْقٍ يُقَالُ: أَمْرٌ ضَيْقٌ وَضَيِّقٌ مِثْلُ هَيْنٍ وَهَيِّنٍ، وَلَيْنٍ وَلَيِّنٍ، وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ تَتَهَيَّأُ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا، لَا يَتَوَعَّرُ عَلَيْهَا مَكَانٌ سَلَكَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي تَقَلُّبِهِمْ: اخْتِلَافِهِمْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَمِيدُ تَكَفَّأُ، مُفْرَطُونَ: مَنْسِيُّونَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ: هَذَا مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ، وَذَلِكَ أَنَّ الِاسْتِعَاذَةَ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَمَعْنَاهَا الِاعْتِصَامُ بِاللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُسِيمُونَ: تَرْعَوْنَ، شَاكِلَتِهِ: نَاحِيَتِهِ، قَصْدُ السَّبِيلِ: الْبَيَانُ الدِّفْءُ مَا اسْتَدْفَأْتَ، تُرِيحُونَ: بِالْعَشِيِّ وَتَسْرَحُونَ بِالْغَدَاةِ، بِشِقِّ: يَعْنِي الْمَشَقَّةَ، عَلَى تَخَوُّفٍ: تَنَقُّصٍ، الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً: وَهِيَ تُؤَنَّثُ وَتُذَكَّرُ، وَكَذَلِكَ النَّعَمُ الْأَنْعَامُ جَمَاعَةُ النَّعَمِ، أَكْنَانٌ: وَاحِدُهَا كِنٌّ مِثْلُ حِمْلٍ وَأَحْمَالٍ، سَرَابِيلَ: قُمُصٌ، تَقِيكُمُ الْحَرَّ: وَأَمَّا سَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ، فَإِنَّهَا الدُّرُوعُ، دَخَلًا بَيْنَكُمْ: كُلُّ شَيْءٍ لَمْ يَصِحَّ فَهُوَ دَخَلٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَفَدَةً: مَنْ وَلَدَ الرَّجُلُ السَّكَرُ مَا حُرِّمَ مِنْ ثَمَرَتِهَا وَالرِّزْقُ الْحَسَنُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ صَدَقَةَ، أَنْكَاثًا: هِيَ خَرْقَاءُ كَانَتْ إِذَا أَبْرَمَتْ غَزْلَهَا نَقَضَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْأُمَّةُ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ، وَالْقَانِتُ الْمُطِيعُ
«نزل به الروح الأمين» میں «روح الأمين» سے «روح القدس» جبرائیل مراد ہیں۔ «في ضيق» عرب لوگ کہتے ہیں «أمر ضيق»اور «ضيق» جیسے «هين» اور «وهين» اور «لين» اور «ولين» اور «ميت» اور «وميت.» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «في تقلبهم»کا معنی ان کے اختلاف میں۔ اور مجاہد نے کہا «تميد» کا معنی جھک جائے، الٹ جائے۔ «مفرطون» کا معنی بھلائے گئے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله» اس آیت میں عبارت آگے پیچھے ہو گئی ہے۔ کیونکہ «اعوذ بالله» قرآت سے پہلے پڑھنا چاہئے۔ «لاستعاذة» کے معنی اللہ سے پناہ مانگنا۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «تسيمون» کا معنی چراتے ہو۔ «شاكلة»اپنے اپنے طریق پر۔ «قصد السبيل» سچے راستے کا بیان کرنا۔ «الدفء» ہر وہ چیز جس سے گرمی حاصل کی جائے، سردی دفع ہو۔«تريحون» شام کو لاتے ہو۔ «تسرحون» صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ «بشق» تکلیف اٹھا کر محنت مشقت سے۔ «على تخوف» نقصان کر کے۔ «وان لكم في الأنعام لعبرة» میں «الأنعام» ، «نعم» کی جمع ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کو «الأنعام» اور «نعم» کہتے ہیں۔«سرابيل تقيكم الحر» میں «سرابيل» سے کرتے اور «سرابيل تقيكم بأسكم» میں «سرابيل» سے زرہیں مراد ہیں۔ «دخلا بينكم» جو ناجائز بات ہو اس کو «دخل.» کہتے ہیں۔ جیسے ( «دخل.» یعنی خیانت)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حفدة» آدمی کی اولاد۔ «السكر» نشے آور مشروب جو حرام ہے۔ «رزق الحسنا» جس کو اللہ نے حلال کیا۔ اور سفیان بن عیینہ نے «صدقة» ابوالہذیل سے نقل کیا۔ «أنكاثا» ٹکڑے ٹکڑے یہ ایک عورت کا ذکر ہے اس کا نام «خرقاء» تھا (جو مکہ میں رہتی تھی) وہ دن بھر سوت کاتتی پھر توڑ توڑ کر پھینک دیتی۔ ابن مسعود نے کہا «لأمة» کا معنی لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والا اور «قانت» کے معنی «مطيع» اور فرمانبردار کے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَعْوَرُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو: "أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْكَسَلِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہارون بن موسیٰ ابوعبداللہ اعور نے بیان کیا، ان سے شعیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے «أعوذ بك من البخل والكسل، وأرذل العمر، وعذاب القبر، وفتنة الدجال، وفتنة المحيا والممات ".» کہ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، سستی سے، ارذل عمر سے (نکمی اور خراب عمر 80 یا 90 سال کے بعد) عذاب قبر سے، دجال کے فتنے سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَالْكَهْفِ، وَمَرْيَمَ: "إِنَّهُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ، وَهُنَّ مِنْ تِلَادِي، فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "يَهُزُّونَ"، وَقَالَ غَيْرُهُ: نَغَضَتْ سِنُّكَ، أَيْ تَحَرَّكَتْ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق عمرو بن عبیداللہ سبیعی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ الکہف اور سورۃ مریم کے متعلق کہا کہ یہ اول درجہ کی عمدہ نہایت فصیح و بلیغ سورتیں ہیں اور میری پرانی یاد کی ہوئی (آیت) «فسينغضون» کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اپنے سر ہلائیں گے اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ یہ «نغضت سنك» سے نکلا ہے یعنی تیرا دانت ہل گیا۔
أَخْبَرْنَاهُمْ أَنَّهُمْ سَيُفْسِدُونَ، وَالْقَضَاءُ عَلَى وُجُوهٍ، وَقَضَى رَبُّكَ: أَمَرَ رَبُّكَ وَمِنْهُ الْحُكْمُ، إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ، وَمِنْهُ الْخَلْقُ، فَقَضَاهُنَّ: سَبْعَ سَمَوَاتٍ خَلَقَهُنَّ، نَفِيرًا: مَنْ يَنْفِرُ مَعَهُ، وَلِيُتَبِّرُوا: يُدَمِّرُوا، مَا عَلَوْا، حَصِيرًا: مَحْبِسًا مَحْصَرًا، حَقَّ: وَجَبَ، مَيْسُورًا: لَيِّنًا، خِطْئًا: إِثْمًا وَهُوَ اسْمٌ مِنْ خَطِئْتَ وَالْخَطَأُ مَفْتُوحٌ مَصْدَرُهُ مِنَ الْإِثْمِ خَطِئْتُ بِمَعْنَى أَخْطَأْتُ، تَخْرِقَ: تَقْطَعَ، وَإِذْ هُمْ نَجْوَى: مَصْدَرٌ مِنْ نَاجَيْتُ فَوَصَفَهُمْ بِهَا وَالْمَعْنَى يَتَنَاجَوْنَ، رُفَاتًا: حُطَامًا، وَاسْتَفْزِزْ: اسْتَخِفَّ، بِخَيْلِكَ: الْفُرْسَانِ وَالرَّجْلُ وَالرِّجَالُ الرَّجَّالَةُ وَاحِدُهَا رَاجِلٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ، حَاصِبًا: الرِّيحُ الْعَاصِفُ وَالْحَاصِبُ أَيْضًا مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ وَمِنْهُ، حَصَبُ جَهَنَّمَ: يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ وَهُوَ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ حَصَبَ فِي الْأَرْضِ ذَهَبَ وَالْحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنَ الْحَصْبَاءِ وَالْحِجَارَةِ، تَارَةً: مَرَّةً وَجَمَاعَتُهُ تِيَرَةٌ وَتَارَاتٌ، لَأَحْتَنِكَنَّ: ، يُقَالُ: احْتَنَكَ فُلَانٌ مَا عِنْدَ فُلَانٍ مِنْ عِلْمٍ اسْتَقْصَاهُ، طَائِرَهُ: حَظَّهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُلُّ سُلْطَانٍ فِي الْقُرْآنِ فَهُوَ حُجَّةٌ، وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ: لَمْ يُحَالِفْ أَحَدًا.
اور «قضاء» کے کئی معانی آئے ہیں۔ جیسے آیت «وقضى ربك ان لا تعبدوا» میں یہ معنی ہے کہ اللہ نے حکم دیا اور فیصلہ کرنے کے بھی معنی ہیں جیسے آیت «إن ربك يقضي بينهم» میں ہے اور پیدا کرنے کے بھی معنی میں ہے جیسے «فقضاهن سبع سموات» میں ہے۔ «نفيرا» وہ لوگ جو آدمی کے ساتھ لڑنے کو نکلیں۔ «وليتبروا ما علوا» یعنی جن شہروں سے غالب ہوں ان کو تباہ کریں۔«حصيرا» قید خانہ، جیل حق واجب ہوا۔ «ميسورا» نرم، ملائم۔ «خطئا» گناہ یہ اسم ہے «خطئت» سے اور «خطئا» بالفتح مصدر ہے یعنی گناہ کرنا۔ «خطئت» بکسر طاء اور «اخطات» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی میں نے قصور کیا غلطی کی۔ «لن تخرق» تو زمین کو طے نہیں کر سکے گا۔ (کیونکہ زمین بہت بڑی ہے) «نجوى» مصدر ہے۔ «ناجيت» سے یہ ان لوگوں کی صفت بیان کی ہے۔ یعنی آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ «رفاتا» ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ۔ «واستفزز» دیوانہ کر دے گمراہ کر دے۔ «بخيلك» اپنے سواروں سے۔ «رجل»پیادے اس کا مفرد «راجل» ہے جیسے «صاحب» کی جمع «صحب» اور «تاجر» کی جمع «تجر.» ہے۔ «حاصبا» آندھی۔ «حاصب» اس کو بھی کہتے ہیں جو آندھی اڑا کر لائے (ریت کنکر وغیرہ) اسی سے ہے «حصب جهنم» یعنی جو جہنم میں ڈالا جائے گا وہی جہنم کا«حصب» ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حصب في الأرض» زمین میں گھس گیا یہ «حصب» ، «حصباء» سے نکلا ہے۔ «حصباء»پتھروں سنگریزوں کو کہتے ہیں۔ «تارة» ایک بار۔ اس کی جمع «تيرة» اور «تارات» آتی ہے۔ «لأحتنكن» ان کو تباہ کر دوں گا، جڑ سے کھود ڈالوں گا۔ عرب لوگ کہتے ہیں «احتنك فلان ما عند فلان» یعنی اس کو جتنی باتیں معلوم تھیں وہ سب اس نے معلوم کر لیں کوئی بات باقی نہ رہی۔ «طائره» اس کا نصیبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جہاں جہاں «سلطان» کا لفظ آیا ہے اس کا معنی دلیل اور حجت ہے۔ «ولي من الذل» یعنی اس نے کسی سے اس لیے دوستی نہیں کی ہے کہ وہ اس کو ذلت سے بچائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: "أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلِيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَأَخَذَ اللَّبَنَ، قَالَ جِبْرِيلُ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس بن یزید نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معراج کی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَّى اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ. زَادَ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ: لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ حِينَ أُسْرِيَ بِي إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ نَحْوَهُ، قَاصِفًا: رِيحٌ تَقْصِفُ كُلَّ شَيْءٍ.
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھ کو واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں (کعبہ کے) مقام حجر میں کھڑا ہوا تھا اور میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا تھا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ یعقوب بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا کہ ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا ابن شہاب سے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جب مجھے قریش نے بیت المقدس کے معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا، پھر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔ «قاصفا» وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔
كَرَّمْنَا: وَأَكْرَمْنَا وَاحِدٌ، ضِعْفَ الْحَيَاةِ، عَذَابَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ عَذَابَ الْمَمَاتِ خِلَافَكَ، وَخَلْفَكَ سَوَاءٌ وَنَأَى، تَبَاعَدَ شَاكِلَتِهِ، نَاحِيَتِهِ، وَهِيَ مِنْ شَكْلِهِ صَرَّفْنَا، وَجَّهْنَا قَبِيلًا، مُعَايَنَةً وَمُقَابَلَةً، وَقِيلَ الْقَابِلَةُ لِأَنَّهَا مُقَابِلَتُهَا، وَتَقْبَلُ وَلَدَهَا خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ، أَنْفَقَ الرَّجُلُ أَمْلَقَ وَنَفِقَ الشَّيْءُ ذَهَبَ قَتُورًا، مُقَتِّرًا لِلْأَذْقَانِ، مُجْتَمَعُ اللَّحْيَيْنِ وَالْوَاحِدُ ذَقَنٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ مَوْفُورًا، وَافِرًا تَبِيعًا، ثَائِرًا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَصِيرًا خَبَتْ، طَفِئَتْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا تُبَذِّرْ، لَا تُنْفِقْ فِي الْبَاطِلِ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ، رِزْقٍ مَثْبُورًا، مَلْعُونًا لَا تَقْفُ، لَا تَقُلْ فَجَاسُوا، تَيَمَّمُوا يُزْجِي الْفُلْكَ يُجْرِي الْفُلْكَ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ، لِلْوُجُوهِ.
«كرمنا» اور «أكرمنا» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ «ضعف الحياة» زندگی کا عذاب۔ «ضعف الممات» موت کا عذاب۔ «خلافك»اور «خلفك» (دونوں قرآتیں ہیں) دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی تمہارے بعد۔ «نأى» کے معنی دور ہوا۔ «شاكلته» اپنے راستے پر (یا اپنی زینت پر) یہ «شكل» سے نکلا ہے یعنی جوڑ اور شبیہ۔ «صرفنا» سامنے لائے بیان کئے۔ «قبيلا» آنکھوں کے سامنے روبرو بعضوں نے کہا یہ «قابلة» سے نکلا ہے جس کے معنی دائی، جنانے والی کے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی جناتے وقت عورت کے مقابل ہوتی ہے اس کا بچہ قبول کرتی ہے یعنی سنبھالتی ہے۔ «الإنفاق» کے معنی مفلس ہو جانا۔ کہتے ہیں «أنفق الرجل» جب وہ مفلس ہو جائے اور «نفق الشىء»جب کوئی چیز تمام ہو جائے۔ «قتورا» کے معنی بخیل۔ «أذقان» ، «ذقن» کی جمع ہے جہاں دونوں جبڑے ملتے ہیں یعنی ٹھڈی۔ مجاہد نے کہا «موفورا وافرا» کے معنی میں ہے (یعنی پورا) «تبيعا» بدلہ لینے والا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لا تبذر» کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں اپنا پیسہ مت خرچ کر «ابتغاء رحمة» روزی کی تلاش میں «مثبورا» کے معنی ملعون کے ہیں۔ «لا تقف» مت کہہ«فجاسوا» قصد کیا۔ «يزجي الفلك» کے معنی چلاتا ہے۔ «يخرون للأذقان» کے معنی منہ کے بل گر پڑتے ہیں (سجدہ کرتے ہیں)۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "كُنَّا نَقُولُ لِلْحَيِّ إِذَا كَثُرُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَمِرَ بَنُو فُلَانٍ". حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَقَالَ: أَمَرَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابووائل نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ «أمر بنو فلان.»(یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا)۔ ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور اس روایت میں انہوں نے بھی لفظ «أمر.» کا ذکر کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً، ثُمَّ قَالَ: "أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان (یحییٰ بن سعید) تیمی نے خبر دی۔ انہیں ابوزرعہ (ہرم) بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے شکر گزار بندہ (عبد شکور) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ الْقِرَاءَةُ، فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَابَّتِهِ لِتُسْرَجَ، فَكَانَ يَقْرَأُ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ"يَعْنِي الْقُرْآنَ.
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا اور ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام پر زبور کی تلاوت آسان کر دی گئی تھی۔ آپ گھوڑے پر زین کسنے کا حکم دیتے اور اس سے پہلے کہ زین کسی جا چکے، تلاوت سے فارغ ہو جاتے تھے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57، قَالَ: "كَانَ نَاسٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعْبُدُونَ نَاسًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ الْجِنُّ، وَتَمَسَّكَ هَؤُلَاءِ بِدِينِهِمْ". زَادَ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ سورة الإسراء آية 56.
مجھ سے عمرو بن علی بن فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا ہم سے سفیان نے، کہا مجھ سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبداللہ بن معمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (آیت) «إلى ربهم الوسيلة» کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، لیکن وہ جِن بعد میں مسلمان ہو گئے اور یہ مشرک (کم بخت)ان ہی کی پرستش کرتے جاہلی شریعت پر قائم رہے۔ عبیداللہ اشجعی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا اور ان سے اعمش نے بیان کیا، اس میں یوں ہے کہ اس آیت «قل ادعوا الذين زعمتم» کا شان نزول یہ ہے آخر تک۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فِي هَذِهِ الْآيَةِ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57، قَالَ: "كَانَ نَاسٌ مِنَ الْجِنِّ يُعْبَدُونَ فَأَسْلَمُوا".
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں ابومعمر نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت «الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة» کی تفسیر میں کہا کہ کچھ جِن ایسے تھے جن کی آدمی پرستش کیا کرتے تھے پھر وہ جِن مسلمان ہو گئے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: "هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ سورة الإسراء آية 60، شَجَرَةُ الزَّقُّومِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» میں «رؤيا» سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے (بیداری میں نہ کہ خواب میں) یعنی وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں دکھایا گیا اور «شجرة الملعونة»سے تھوہڑ کا درخت مراد ہے۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: صَلَاةَ الْفَجْرِ.
مجاہد نے کہا کہ (قرآن فجر سے مراد) فجر کی نماز ہے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فَضْلُ صَلَاةِ الْجَمِيعِ عَلَى صَلَاةِ الْوَاحِدِ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ دَرَجَةً، وَتَجْتَمِعُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ". يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَقُرْءَانَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْءَانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا سورة الإسراء آية 78.
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف اور سعید بن مسیب اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات کے اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا» یعنی فجر میں قرآت قرآن زیادہ کیا کرو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: "إِنَّ النَّاسَ يَصِيرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا كُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَّهَا، يَقُولُونَ: يَا فُلَانُ، اشْفَعْ يَا فُلَانُ، اشْفَعْ حَتَّى تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ".
مجھ سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے آدم بن علی نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ قیامت کے دن امتیں گروہ در گروہ چلیں گی۔ ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور (انبیاء سے) کہے گی کہ اے فلاں! ہماری شفاعت کرو (مگر وہ سب ہی انکار کر دیں گے) آخر شفاعت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ". رَوَاهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة".» اے اللہ! اس کامل پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کیجؤ۔ جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت ضروری ہو گی۔ اس حدیث کو حمزہ بن عبداللہ نے بھی اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَحَوْلَ الْبَيْتِ سِتُّونَ وَثَلَاثُ مِائَةِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ، وَيَقُولُ: "جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں (فتح کے بعد) داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ایک کو ٹکراتے جاتے اور پڑھتے جاتے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا» ، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد» حق آیا اور جھوٹ نابود ہوا بیشک جھوٹ نابود ہونے والا ہی تھا۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، إِذْ مَرَّ الْيَهُودُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ ؟ فَقَالَ: مَا رَأْيُكُمْ إِلَيْهِ ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا سَلُوهُ ؟ فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ مَقَامِي، فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو؟ دوسرا یہودی بولا۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں، جو تم کو ناپسند ہو۔ رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے۔ اس لیے میں وہیں کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا» کہ اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: "نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَإِذَا سَمِعَهُ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ، وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلَا تُسْمِعُهُمْ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها» اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھئے اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں(کافروں کے ڈر سے) چھپے رہتے تو اس زمانہ میں جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے، مشرکین سنتے تو قرآن کو بھی گالی دیتے اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ نماز نہ تو بہت پکار کر پڑھیں (یعنی قرآت خوب جہر کے ساتھ نہ کریں) کہ مشرکین سن کر گالیاں دیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں، بلکہ درمیانی آواز میں پڑھا کریں۔
حَدَّثَنِي طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "أُنْزِلَ ذَلِكَ فِي الدُّعَاءِ".
مجھ سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ آیت دعا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَقْرِضُهُمْ: تَتْرُكُهُمْ، وَكَانَ لَهُ ثُمُرٌ: ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَمَاعَةُ الثَّمَرِ، بَاخِعٌ، مُهْلِكٌ، أَسَفًا: نَدَمًا الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ، وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنَ الرَّقْمِ، رَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ: أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا، لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا شَطَطًا: إِفْرَاطًا الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ جَمْعُهُ، وَصَائِدُ وَوُصُدٌ، وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ، مُؤْصَدَةٌ: مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ، وَأَوْصَدَ، بَعَثْنَاهُمْ: أَحْيَيْنَاهُمْ، أَزْكَى: أَكْثَرُ، وَيُقَالُ: أَحَلُّ، وَيُقَالُ: أَكْثَرُ رَيْعًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُكْلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ: لَمْ تَنْقُصْ، وَقَالَ سَعِيدٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: الرَّقِيمُ اللَّوْحُ مِنْ رَصَاصٍ كَتَبَ عَامِلُهُمْ أَسْمَاءَهُمْ، ثُمَّ طَرَحَهُ فِي خِزَانَتِهِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَلَتْ تَئِلُ تَنْجُو، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَوْئِلًا: مَحْرِزًا، لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا: لَا يَعْقِلُونَ.
مجاہد نے کہا «تقرضهم» کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔ «وكان له ثمر» میں «ثمر» سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا«ثمر» یعنی پھل کی جمع ہے۔ «باخع» کا معنی ہلاک کرنے والا۔ «أسفا» ندامت اور رنج سے۔ «كهف» پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ «الرقيم» کے معنی لکھا ہوا بمعنی «مرقوم» یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے «رقم» سے۔ «ربطنا على قلوبهم» ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورۃ قصص میں ہے۔ «لولا أن ربطنا على قلبها» (وہاں بھی صبر کے معنی ہیں)۔ «شططا» حد سے بڑھ جانا۔ «مرفقا» جس چیز پر تکیہ لگائے۔ «تزاور» زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے «ازور» ہے بہت جھکنے والا۔ «فجوة» کشادہ جگہ اس کی جمع «فجوات» اور«فجاء» آتی ہے جیسے «زكوة» کی جمع «زكاء» ہے۔ اور «وصيدا» آنگن، صحن اس کی جمع «وصائد» اور «وصد» ہے۔ بعضوں نے کہا«وصيد» کے معنی دروازہ۔ «مؤصدة» کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں «آصد الباب» یعنی اس نے دروازہ بند کر دیا۔«بعثناهم» ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کر دیا۔ «أزكى طعاما» اور «أوصد الباب» یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ «أكلها» اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔ «ولم تظلم» میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا۔ «رقيم» وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔ «فضرب الله على آذانهم» اللہ نے ان کے کان بند کر دیئے۔ (ان پر پردہ ڈال دیا) وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔ «موئلا» وال «يئل» سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا «موئل» محفوظ مقام۔ «لا يستطيعون سمعا» کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِيعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ، قَالَ: "أَلَا تُصَلِّيَانِ ؟". رَجْمًا بِالْغَيْبِ: لَمْ يَسْتَبِنْ، فُرُطًا: يُقَالُ نَدَمًا، سُرَادِقُهَا: مِثْلُ السُّرَادِقِ وَالْحُجْرَةِ الَّتِي تُطِيفُ بِالْفَسَاطِيطِ يُحَاوِرُهُ مِنَ الْمُحَاوَرَةِ، لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي: أَيْ لَكِنْ أَنَا هُوَ اللَّهُ رَبِّي، ثُمَّ حَذَفَ الْأَلِفَ وَأَدْغَمَ إِحْدَى النُّونَيْنِ فِي الْأُخْرَى، وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا، يَقُولُ: بَيْنَهُمَا، زَلَقًا: لَا يَثْبُتُ فِيهِ قَدَمٌ، هُنَالِكَ الْوِلَايَةُ: مَصْدَرُ الْوَلِيِّ، عُقُبًا: عَاقِبَةً، وَعُقْبَى وَعُقْبَةً وَاحِدٌ وَهِيَ الْآخِرَةُ قِبَلًا، وَقُبُلًا وَقَبَلًا اسْتِئْنَافًا، لِيُدْحِضُوا: لِيُزِيلُوا الدَّحْضُ الزَّلَقُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھے علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں علی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے (آخر حدیث تک)۔ «رجما بالغيب» یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں۔ «فرطا» ندامت، شرمندگی۔ «سرادقها» یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ «يحاوره» ، «محاورة» سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا، تکرار کرنا۔ «لكنا هو الله ربي» اصل میں «لكن أنا هو الله ربي» تھا «أنا» کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا «لكنا» ہو گیا۔ «خلالهما نهرا» یعنی «بينهما» ان کے بیچ میں۔ «زلقا» چکنا، صاف جس پر پاؤں پھسلے (جمے نہیں)۔«هنالك الولاية» ، «ولايت» ، «ولي» کا مصدر ہے۔ «عقبا» ، «عاقبت» اسی طرح «عقبى» اور «عقبة» سب کا ایک ہی معنی ہے یعنی آخرت۔ «قبلا» اور «قبلا» اور «قبلا» (تینوں طرح پڑھا ہے) یعنی سامنے آنا۔ «ليدحضوا» ، «دحض» سے نکلا ہے یعنی پھسلانا(مطلب یہ ہے کہ حق بات کو ناحق کریں)۔
زَمَانًا وَجَمْعُهُ أَحْقَابٌ.
لفظ «حقباء» کے معنی زمانہ، اس کی جمع «أحقاب» آتی ہے (بعضوں نے کہا کہ ایک «حقب» ستر یا اسی سال کا ہوتا ہے)۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ: أَنَا، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ مُوسَى: يَا رَبِّ، فَكَيْفَ لِي بِهِ ؟ قَالَ: تَأْخُذُ مَعَكَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ، ثَمَّ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَنَامَا، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، فَخَرَجَ مِنْهُ، فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ، فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَا الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، قَالَ: فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا، فَقَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، قَالَ: رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى ثَوْبًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَقَالَ الْخَضِرُ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، فَقَالَ مُوسَى: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ، فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحَمَلُوهُمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ لَمْ يَفْجَأْ إِلَّا وَالْخَضِرُ قَدْ قَلَعَ لَوْحًا مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ بِالْقَدُومِ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ، فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا ؟ قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا"، قَالَ: وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ، ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ، فَبَيْنَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ إِذْ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ، فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا ؟ قَالَ: "وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى"، قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، قَالَ: مَائِلٌ، فَقَامَ الْخَضِرُ، فَأَقَامَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ مُوسَى: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا، وَلَمْ يُضَيِّفُونَا، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ إِلَى قَوْلِهِ ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا سورة الكهف آية 78 - 82، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا"، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا، وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ.
ہم سے عبدااللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا نوف بکالی کہتا ہے (جو کعب احبار کا رہیب تھا) کہ جن موسیٰ کی خضر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے (رسول) موسیٰ کے علاوہ دوسرے ہیں۔ (یعنی موسیٰ بن میثا بن افراثیم بن یوسف بن یعقوب) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دشمن خدا نے غلط کہا۔ مجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ سنانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم کسے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر غصہ کیا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتایا کہ دو دریاؤں (فارس اور روم) کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے رب! میں ان تک کیسے پہنچ پاؤں گا؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لو، وہ جہاں گم ہو جائے (زندہ ہو کر دریا میں کود جائے) بس میرا وہ بندہ وہیں ملے گا چنانچہ آپ نے مچھلی لی اور زنبیل میں رکھ کر روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے خادم یوشع بن نون بھی تھے۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو سر رکھ کر سو گئے، ادھر مچھلی زنبیل میں تڑپی اور اس سے نکل گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ پا لیا۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کی روانی کو روک دیا اور پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا (یہ حال یوشع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے) پھر جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع ان کو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گئے۔ اس لیے دن اور رات کا جو حصہ باقی تھا اس میں چلتے رہے، دوسرے دن موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب کھانا لاؤ، ہم کو سفر نے بہت تھکا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اس وقت تک نہیں تھکے جب تک وہ اس مقام سے نہ گزر چکے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ اب ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس تھے تو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گیا تھا اور صرف شیطانوں نے یاد رہنے نہیں دیا۔ اس نے تو عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مچھلی نے تو دریا میں اپنا راستہ لیا اور موسیٰ اور ان کے خادم کو (مچھلی کا جو نشان پانی میں اب تک موجود تھا) دیکھ کر تعجب ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ وہی جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم تھے، چنانچہ دونوں حضرات پیچھے اسی راستہ سے لوٹے۔ بیان کیا کہ دونوں حضرات پیچھے اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب (خضر علیہ السلام) کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں بیٹھے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا۔ خضر علیہ السلام نے کہا (تم کون ہو) تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آ گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم آپ کو حاصل ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جسے آپ نہیں جانتے، اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے وہ میں نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ان شاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو کسی چیز کے متعلق سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ کو اس کے متعلق بتا دوں گا۔ اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کسی کرایہ کے بغیر انہیں سوار کر لیا۔ جب یہ دونوں کشتی پر بیٹھ گئے تو خضر علیہ السلام نے کلہاڑے سے کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا تو خضر علیہ السلام سے کہا کہ ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے انہیں کی کشتی چیر ڈالی تاکہ سارے مسافر ڈوب جائیں۔ بلاشبہ آپ نے یہ بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جو بات میں بھول گیا تھا اس پر مجھے معاف کر دیں اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کریں۔ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ پہلی مرتبہ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی سے کم کیا ہے۔ پھر یہ دونوں کشتی سے اتر گئے، ابھی وہ سمندر کے کنارے چل ہی رہے تھے کہ خضر علیہ السلام نے ایک بچہ کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ نے اس بچے کا سر اپنے ہاتھ میں دبایا اور اسے (گردن سے) اکھاڑ دیا اور اس کی جان لے لی۔ موسیٰ علیہ السلام اس پر بولے، آپ نے ایک بےگناہ کی جان بغیر کسی جان کے بدلے کے لے لی، یہ آپ نے بڑا ناپسند کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ سفیان بن عیینہ (راوی حدیث) نے کہا اور یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آخر اس مرتبہ بھی معذرت کی کہ اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میرا باربار عذر سن چکے ہیں (اس کے بعد میرے لیے بھی عذر کا کوئی موقع نہ رہے گا) پھر دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا کہ ہمیں اپنا مہمان بنا لو، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کیا، پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ بیان کیا کہ دیوار جھک رہی تھی۔ خضر علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور دیوار اپنے ہاتھ سے سیدھی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں کے یہاں ہم آئے اور ان سے کھانے کے لیے کہا، لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا، اگر آپ چاہتے تو دیوار کے اس سیدھا کرنے کے کام پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ذلك تأويل ما لم تسطع عليه صبرا» تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ نے صبر کیا ہوتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تلاوت کرتے تھے (جس میں خضر علیہ السلام نے اپنے کاموں کی وجہ بیان کی ہے کہ) کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو چھین لیا کرتا تھا اور اس کی بھی آپ تلاوت کرتے تھے کہ اور وہ غلام(جس کی گردن خضر علیہ السلام نے توڑ دی تھی) تو وہ (اللہ کے علم میں) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔
سَرَبًا مَذْهَبًا يَسْرُبُ يَسْلُكُ وَمِنْهُ، وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ.
«سربا» راستہ «يسرب» ( «به فتحتين») یعنی مذہب طریق، اسی سے ہے «سارب بالنهار» یعنی دن میں راستہ چلنے والا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ، إِذْ قَالَ: سَلُونِي ؟ قُلْتُ: أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، أَمَّا عَمْرٌو، فَقَالَ لِي: قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَى، فَقَالَ لِي: قَالَابْنُ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتِ الْعُيُونُ، وَرَقَّتِ الْقُلُوبُ وَلَّى، فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ ؟ قَالَ: لَا، فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ، قِيلَ: بَلَى، قَالَ: أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ ؟ قَالَ: بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ، قَالَ: أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ، فَقَالَ لِي عَمْرٌو: قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، وَقَالَ لِي يَعْلَى: قَالَ: خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، فَقَالَ لِفَتَاهُ: لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، قَالَ: مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ سورة الكهف آية 60 يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ، فَقَالَ فَتَاهُ: لَا أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ، وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، قَالَ لِي عَمْرٌو: هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ، وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ، فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا، قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ، وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا شَأْنُكَ ؟ قَالَ: جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا، قَالَ: أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ، وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ يَا مُوسَى، إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ، وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ، فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ، فَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ، قَالَ: قُلْنَا لِسَعِيدٍ: خَضِرٌ ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ، فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا، قَالَ مُوسَى: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ مُجَاهِدٌ: مُنْكَرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا ؟ كَانَتِ الْأُولَى نِسْيَانًا، وَالْوُسْطَى شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا، فَقَتَلَهُ، قَالَ يَعْلَى: قَالَ سَعِيدٌ: وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا ظَرِيفًا، فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ، قَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلَامًا زَكِيًّا، فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، قَالَ سَعِيدٌ: بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ، فَاسْتَقَامَ، قَالَ يَعْلَى: حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا، قَالَ: فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ، فَاسْتَقَامَ، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ سَعِيدٌ: أَجْرًا نَأْكُلُهُ، وَكَانَ وَرَاءَهُمْ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ، قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا، فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا، فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا، فَانْتَفَعُوا بِهَا، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: بِالْقَارِ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ، وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ، فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً، لِقَوْلِهِ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ، وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً، وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ، فَقَالَ: عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ".
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریر نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے، دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیادہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ ایک اور صاحب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کر بیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو۔ میں نے عرض کیا: اے ابوعباس! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی (نوف بکالی) ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ، خضر علیہ السلام سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں (ابن جریج نے بیان کیا کہ) عمرو بن دینار نے تو روایت اس طرح بیان کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھوٹی بات کہتا ہے اور یعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میں اس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لیے مڑے۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر عتاب نازل کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی۔ (ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے)۔ ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے پروردگار! وہ کہاں ہے۔ اللہ نے فرمایا جہاں (فارس اور روم کے) دو دریا ملے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! میرے لیے ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں۔ اب عمرو بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے (وہیں وہ ملیں گے) اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے (وہیں وہ ملیں گے) موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمایا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإذ قال موسى لفتاه» میں وہ «فتي»(رفیق سفر) یوشع ابن نون تھے۔ سعید بن جبیر (راوی حدیث) نے اپنی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی۔ موسیٰ علیہ السلام سو رہے تھے اس لیے یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہئے۔ لیکن جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا اور دونوں انگوٹھوں اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر ایک حلقہ کی طرح اس کو بتایا۔ بیدار ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔ آخر کہنے لگے۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔ ان کے خادم نے عرض کیا۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کر دیا ہے (اور مچھلی زندہ ہو گئی ہے)۔ ابن جریج نے بیان کیا کہ یہ ٹکڑا سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی (ابن جریج نے کہا) مجھ سے عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیا کہ خضر علیہ السلام دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ اور سعید بن جبیر نے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا۔ آپ کون ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا، موسیٰ بنی اسرائیل؟ فرمایا کہ ہاں! پوچھا، آپ کیوں آئے ہیں؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ اس پر خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ موسیٰ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لیے مناسب نہیں۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔ کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے۔ لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں شگاف کر دیئے اور اس میں (تختوں کی جگہ) کیلیں گاڑ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے اس لیے اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں۔ بلاشبہ آپ نے ایک بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ مجاہد نے آیت میں «إمرا» کا ترجمہ«منكرا» کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا۔ یعلیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ خضر علیہ السلام کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بےگناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا، قتل کر ڈالا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت میں «زكية» کی جگہ «زاكية» پڑھا کرتے تھے۔ بمعنی«مسلمة» جیسے «غلاما زكيا» میں ہے۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اسے ٹھیک کر دیا۔ سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح۔ یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے۔ آیت «وكان وراءهم» کی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآت «وكان أمامهم» کی یعنی کشتی جہاں جا رہی تھی اس ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ سعید کے سوا دوسرے راوی سے اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہر (نئی)کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ لگا کر جوڑا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تار کول سے جوڑا تھا (اور جس بچہ کو قتل کر دیا تھا) تو اس کے والدین مومن تھے اور وہ بچہ (اللہ کی تقدیر میں) کافر تھا۔ اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں (بڑا ہو کر) وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے۔ «وأقرب رحما» یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن ابی عاصم رحمہ اللہ کئی راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔
صُنْعًا: عَمَلًا، حِوَلًا: تَحَوُّلًا، قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، إِمْرًا، وَنُكْرًا: دَاهِيَةً، يَنْقَضَّ: يَنْقَاضُ كَمَا تَنْقَاضُ السِّنُّ لَتَخِذْتَ وَاتَّخَذْتَ وَاحِدٌ، رُحْمًا: مِنَ الرُّحْمِ وَهِيَ أَشَدُّ مُبَالَغَةً مِنَ الرَّحْمَةِ وَنَظُنُّ أَنَّهُ مِنَ الرَّحِيمِ وَتُدْعَى مَكَّةُ أُمَّ رُحْمٍ أَيِ الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ بِهَا.
لفظ «صنعا» عمل کے معنی میں ہے۔ «حولا» بمعنی پھر جانا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہی تو وہ چیز تھی جو ہم چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ «إمرا» کا معنی عجیب بات۔ «نكرا» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ينقض» اور «ينقاض» دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے کہتے ہیں «تنقاض السن» یعنی دانت گر رہا ہے۔ «لتخذت» اور «واتخذت» (دونوں روایتیں ہیں) دونوں کا معنی ایک ہیں۔«رحما» ، «رحم» سے نکلا ہے جس کے معنی بہت رحمت تو یہ مبالغہ ہے رحمت کا اور ہم سمجھتے ہیں (یا لوگ سمجھتے ہیں) کہ یہ «رحم» سے نکلا ہے۔ اسی لیے مکہ کو «أم رحم» کہتے ہیں کیونکہ وہاں پروردگار کی رحمت اترتی ہے۔
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّيَ زْعُمُ أَنَّ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى الْخَضِرِ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقِيلَ لَهُ: أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ قَالَ: أَنَا، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، وَأَوْحَى إِلَيْهِ، بَلَى عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ ؟ قَالَ: تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَنَزَلَا عِنْدَهَا، قَالَ: فَوَضَعَ مُوسَى رَأْسَهُ فَنَامَ، قَالَ سُفْيَانُ: وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو، قَالَ: وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لَا يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَيْءٌ إِلَّا حَيِيَ، فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَاءِ تِلْكَ الْعَيْنِ، قَالَ: فَتَحَرَّكَ وَانْسَلَّ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَدَخَلَ الْبَحْرَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَى، قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا سورة الكهف آية 62 الْآيَةَ، قَالَ: وَلَمْ يَجِدِ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ، قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ سورة الكهف آية 63 الْآيَةَ، قَالَ: فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا، فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ كَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ، فَكَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا وَلِلْحُوتِ سَرَبًا، قَالَ: فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، قَالَ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ؟ قَالَ لَهُ الْخَضِرُ: يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ، قَالَ: بَلْ أَتَّبِعُكَ، قَالَ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، فَمَرَّتْ بِهِمْ سَفِينَةٌ، فَعُرِفَ الْخَضِرُ، فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ، يَقُولُ: بِغَيْرِ أَجْرٍ، فَرَكِبَا السَّفِينَةَ، قَالَ: وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى: مَا عِلْمُكَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلَائِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ، قَالَ: فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى قَدُومٍ، فَخَرَقَ السَّفِينَةَ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ سورة الكهف آية 71 الْآيَةَ، فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا إِلَى قَوْلِهِ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75 - 77، فَقَالَ بِيَدِهِ: هَكَذَا، فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ 0 وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا 0".
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ساتھ تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے حیات کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا «قال لفتاه آتنا غداءنا» کہ ہمارا ناشتہ لاؤ الآیۃ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا «أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت» آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا الآیۃ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں! موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ خضر علیہ السلام نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو خضر علیہ السلام کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھا لیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر یکدم جب خضر علیہ السلام نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بڑی بری بات ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کاش موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما «وكان وراءهم ملك» کی بجائے «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» قرآت کرتے تھے اور بچہ (جسے قتل کیا تھا) اس کے والدین مومن تھے۔ اور یہ بچہ(مشیت الٰہی میں) کافر تھا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: "سَأَلْتُ أَبِي قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالأَخْسَرِينَ أَعْمَالا سورة الكهف آية 103 هُمْ الْحَرُورِيَّةُ ؟ قَالَ: لَا، هُمْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، أَمَّا الْيَهُودُ فَكَذَّبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا النَّصَارَى فَكَفَرُوا بِالْجَنَّةِ، وَقَالُوا: لَا طَعَامَ فِيهَا وَلَا شَرَابَ، وَالْحَرُورِيَّةُ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ سورة البقرة آية 27، وَكَانَ سَعْدٌ يُسَمِّيهِمُ الْفَاسِقِينَ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے آیت «قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا» کے متعلق سوال کیا کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا ان سے خوارج مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہود نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور نصاریٰ نے جنت کا انکار کیا اور کہا کہ اس میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملے گی اور خوارج وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے عہد و میثاق کو توڑا سعد رضی اللہ عنہ انہیں فاسق کہا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنِالْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَقَالَ: اقْرَءُوا فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا سورة الكهف آية 105"، وَعَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، مِثْلَهُ.
ہم سے محمد بن عبداللہ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھر کم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اور فرمایا کہ پڑھو «فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا» قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے۔ اس حدیث کو محمد بن عبداللہ نے یحییٰ بن بکیر سے، انہوں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے ابوالزناد سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرِ اللَّهُ يَقُولُهُ وَهُمُ الْيَوْمَ لَا يَسْمَعُونَ وَلَا يُبْصِرُونَ، فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ، يَعْنِي قَوْلَهُ: أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ: الْكُفَّارُ يَوْمَئِذٍ أَسْمَعُ شَيْءٍ وَأَبْصَرُهُ، لَأَرْجُمَنَّكَ: لَأَشْتِمَنَّكَ، وَرِئْيًا: مَنْظَرًا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: تَؤُزُّهُمْ أَزًّا: تُزْعِجُهُمْ إِلَى الْمَعَاصِي إِزْعَاجًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: إِدًّا: عِوَجًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وِرْدًا: عِطَاشًا، أَثَاثًا: مَالًا، إِدًّا: قَوْلًا عَظِيمًا، رِكْزًا: صَوْتًا، غَيًّا: خُسْرَانًا، بُكِيًّا: جَمَاعَةُ بَاكٍ، صِلِيًّا: صَلِيَ يَصْلَى، نَدِيًّا: وَالنَّادِي مَجْلِسًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أبصر بهم وأسمع» یہ اللہ فرماتا ہے آج کے دن (یعنی دنیا میں) نہ تو کافر سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں بلکہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ «أسمع بهم وأبصر» یعنی کافر قیامت کے دن خوب سنتے اور خوب دیکھتے ہوں گے (مگر اس وقت کا سننا دیکھنا کچھ فائدہ نہ دے گا)۔ «لأرجمنك» میں تجھ پر گالیوں کا پتھراؤ کروں گا۔ لفظ «رئيا» کے معنی منظر، دکھاوا اور ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا مریم علیہا السلام جانتی تھیں کہ جو پرہیزگار ہوتا ہے وہ صاحب عقل ہوتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہا «تؤزهم أزا» کا معنی یہ ہے کہ شیطان کافروں کو گناہوں کی طرف گھسیٹتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «إدا» کے معنی کج اور ٹیڑھی، غلط بات (یا کج اور ٹیڑھی باتیں)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وردا» کے معنی پیاسے کے ہیں اور «أثاثا» کے معنی مال اسباب۔ «إدا» بڑی بات۔ «ركزا» ہلکی، پست آواز۔ «غيا» نقصان، ٹوٹا۔ «بكيا» ، «باكى»کی جمع ہے یعنی رونے والے۔ «صليا» مصدر ہے۔ «صلي» ، «يصلى» باب «سمع» ، «يسمع» سے یعنی جلنا۔ «ندي» اور «لنادي»دونوں کے معنی مجلس کے ہیں۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ، فَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنَادِي: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، فَيُذْبَحُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ: خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ سورة مريم آية 39 وَهَؤُلَاءِ فِي غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا وَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ سورة مريم آية 39".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، ہم سے اعمش نے، ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے اور ان سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہو گا۔ پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا اور آواز دینے والا جنتیوں سے کہے گا کہ اب تمہارے لیے ہمیشگی ہے، موت تم پر کبھی نہ آئے گی اور اے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے، تم پر بھی موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی«وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضي الأمر وهم في غفلة» الخ اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو۔ جبکہ اخیر فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں (یعنی دنیادار لوگ) اور ایمان نہیں لاتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ: "مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا، فَنَزَلَتْ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا سورة مريم آية 64".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن ذر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا جیسا کہ اب آپ ہماری ملاقات کو آیا کرتے ہیں، اس سے زیادہ آپ ہم سے ملنے کے لیے کیوں نہیں آیا کرتے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما نتنزل إلا بأمر ربك له ما بين أيدينا وما خلفنا» الخ یعنی ہم (فرشتے) نازل نہیں ہوتے بجز آپ کے پروردگار کے حکم کے، اسی کی ملک ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَمِعْتُ خَبَّابًا، قَالَ: "جِئْتُ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ السَّهْمِيَّ أَتَقَاضَاهُ حَقًّا لِي عِنْدَهُ، فَقَالَ: لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: لَا، حَتَّى تَمُوتَ، ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: وَإِنِّي لَمَيِّتٌ، ثُمَّ مَبْعُوثٌ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ لِي هُنَاكَ مَالًا وَوَلَدًا، فَأَقْضِيكَهُ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا سورة مريم آية 77".رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَحَفْصٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ (مسلم بن صبیح)نے، ان سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا کہ میں نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنا حق مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر نہیں کرو گے میں تمہیں مزدوری نہیں دوں گا۔ میں نے اس پر کہا کہ یہ کبھی نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ تم مرنے کے بعد پھر زندہ کئے جاؤ۔ اس پر وہ بولا، کیا مرنے کے بعد پھر مجھے زندہ کیا جائے گا؟ میں نے کہا ہاں، ضرور، کہنے لگا کہ پھر وہاں بھی میرے پاس مال اولاد ہو گی اور میں وہیں تمہاری مزدوری بھی دے دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا» کہ بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری نشانیوں سے کفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال اور اولاد مل کر رہیں گے۔ اس حدیث کو سفیان ثوری اور شعبہ اور حفص اور ابومعاویہ اور وکیع نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: "كُنْتُ قَيْنًا بِمَكَّةَ، فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِيِّ سَيْفًا، فَجِئْتُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قُلْتُ: لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُمِيتَكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُحْيِيَكَ، قَالَ: إِذَا أَمَاتَنِي اللَّهُ، ثُمَّ بَعَثَنِي وَلِي مَالٌ وَوَلَدٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا 77 أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا 78 سورة مريم آية 77-78"، قَالَ: مَوْثِقًا، لَمْ يَقُلْ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ سَيْفًا، وَلَا مَوْثِقًا.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے اور ان سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مکہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل سہمی کے لیے میں نے ایک تلوار بنائی تھی۔ میری مزدوری باقی تھی اس لیے ایک دن میں اس کو مانگنے آیا تو کہنے لگا کہ اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر نہیں جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز نہیں پھروں گا یہاں تک کہ اللہ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے اور وہ کہنے لگا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا تو میرے پاس اس وقت بھی مال و اولاد ہو گی۔ اور اسی وقت تم اپنی مزدوری مجھ سے لے لینا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا * أطلع الغيب أم اتخذ عند الرحمن عهدا» کہ بھلا تو نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال و اولاد مل کر ہی رہیں گے تو کیا یہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے۔ «عهد» کا معنی مضبوط اقرار۔ عبیداللہ اشجعی نے بھی اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کیا ہے لیکن اس میں تلوار بنانے کا ذکر نہیں ہے نہ عہد کی تفسیر مذکور ہے۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: "كُنْتُ قَيْنًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ لِي دَيْنٌ عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ، قَالَ: فَأَتَاهُ يَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَكْفُرُ حَتَّى يُمِيتَكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَبْعَثَكَ، قَالَ: فَذَرْنِي حَتَّى أَمُوتَ، ثُمَّ أُبْعَثَ، فَسَوْفَ أُوتَى مَالًا وَوَلَدًا، فَأَقْضِيكَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا سورة مريم آية 77".
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان اعمش نے، انہوں نے ابوالضحیٰ سے سنا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل پر میرا کچھ قرض تھا۔ بیان کیا کہ میں اس کے پاس اپنا قرض مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرتے، تمہاری مزدوری نہیں مل سکتی۔ میں نے اس پر جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں ہرگز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے مار دے اور پھر تجھے دوبارہ زندہ کر دے۔ عاص کہنے لگا کہ پھر مرنے تک مجھ سے قرض نہ مانگو۔ مرنے کے بعد جب میں زندہ رہوں گا تو مجھے مال و اولاد بھی ملیں گے اور اس وقت تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا» لخ۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْجِبَالُ هَدًّا: هَدْمًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آیت میں لفظ «الجبال هدا» کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں گے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: "كُنْتُ رَجُلًا قَيْنًا، وَكَانَ لِي عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ لِي: لَا أَقْضِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قَالَ: قُلْتُ: لَنْ أَكْفُرَ بِهِ حَتَّى تَمُوتَ، ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: وَإِنِّي لَمَبْعُوثٌ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ، فَسَوْفَ أَقْضِيكَ إِذَا رَجَعْتُ إِلَى مَالٍ وَوَلَدٍ، قَالَ: فَنَزَلَتْ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا 77 أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا 78 كَلَّا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا 79 وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا 80 سورة مريم آية 77-80".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے خباب بن ارت نے بیان کیا کہ میں پہلے لوہار تھا اور عاص بن وائل پر میرا قرض چاہئے تھا۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے گیا تو کہنے لگا کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پھر جاؤ گے تمہارا قرض نہیں دوں گا، میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے ہرگز نہیں پھروں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے۔ اس نے کہا کیا موت کے بعد میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا پھر تو مجھے مال و اولاد بھی مل جائیں گے اور اسی وقت تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے متعلق آیت نازل ہوئی «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا * أطلع الغيب أم اتخذ عند الرحمن عهدا * كلا سنكتب ما يقول ونمد له من العذاب مدا * ونرثه ما يقول ويأتينا فردا» کہ بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال اور اولاد مل کر رہیں گے، تو کیا یہ غیب پر آگاہ ہو گیا ہے۔ یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد کر لیا ہے؟ ہرگز نہیں، البتہ ہم اس کا کہا ہوا بھی لکھ لیتے ہیں اور اس کے لیے عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے اور اس کی کہی ہوئی کے ہم ہی مالک ہوں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا۔
قَالَ عِكْرِمَةُ، وَالضَّحَّاكُ بِالنَّبَطِيَّةِ، طَهْ: يَا رَجُلُ يُقَالُ كُلُّ مَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَلْقَى صَنَعَ، أَزْرِي: ظَهْرِي، فَيَسْحَتَكُمْ: يُهْلِكَكُمْ، الْمُثْلَى: تَأْنِيثُ الْأَمْثَلِ، يَقُولُ بِدِينِكُمْ يُقَالُ خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا، يُقَالُ: هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ، فَأَوْجَسَ: فِي نَفْسِهِ خَوْفًا، فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً لِكَسْرَةِ الْخَاءِ، فِي جُذُوعِ: أَيْ عَلَى جُذُوعِ النَّخْلِ، خَطْبُكَ: بَالُكَ، مِسَاسَ: مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا، لَنَنْسِفَنَّهُ: لَنَذْرِيَنَّهُ، قَاعًا: يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَوْزَارًا أَثْقَالًا، مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ: وَهِيَ الْحُلِيُّ الَّتِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ وَهِيَ الْأَثْقَالُ، فَقَذَفْتُهَا، فَأَلْقَيْتُهَا، أَلْقَى: صَنَعَ، فَنَسِيَ: مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ أَخْطَأَ الرَّبَّ، لَا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا: الْعِجْلُ، هَمْسًا: حِسُّ الْأَقْدَامِ، حَشَرْتَنِي أَعْمَى: عَنْ حُجَّتِي، وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا: فِي الدُّنْيَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِقَبَسٍ ضَلُّوا الطَّرِيقَ وَكَانُوا شَاتِينَ، فَقَالَ: إِنْ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهَا مَنْ يَهْدِي الطَّرِيقَ آتِكُمْ بِنَارٍ تُوقِدُونَ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: أَمْثَلُهُمْ: أَعْدَلُهُمْ طَرِيقَةً، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَضْمًا: لَا يُظْلَمُ، فَيُهْضَمُ مِنْ حَسَنَاتِهِ، عِوَجًا: وَادِيًا، وَلَا، أَمْتًا: رَابِيَةً، سِيرَتَهَا: حَالَتَهَا الْأُولَى، النُّهَى: التُّقَى، ضَنْكًا: الشَّقَاءُ، هَوَى: شَقِيَ بِالْوَادِي، الْمُقَدَّسِ: الْمُبَارَكِ، طُوًى: اسْمُ الْوَادِي يَفْرُطُ عُقُوبَةً، بِمِلْكِنَا: بِأَمْرِنَا، مَكَانًا سِوًى: مَنْصَفٌ بَيْنَهُمْ، يَبَسًا: يَابِسًا، عَلَى قَدَرٍ: مَوْعِدٍ، لَا تَنِيَا: تَضْعُفَا.
سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم نے کہا حبشی زبان میں لفظ «طه» کے معنی اے مرد کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے یا رک رک کر نکلے تو اس کی زبان میں «عقدة.» گرہ ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام کی دعا «واحلل عقدة من لساني» میں یہی اشارہ ہے) «أزري» کے معنی میری پیٹھ۔ «فيسحتكم» کے معنی تم کو ہلاک کر دے۔ لفظ «المثلى» ، «الأمثل» کا مؤنث ہے یعنی تمہارا دین۔ عرب لوگ کہتے ہیں «مثلى» اچھی بات کرے۔ «خذ الأمثل.» یعنی بہتر بات لے۔ «ثم ائتوا صفا» عرب لوگ کہتے ہیں کیا آج تو صف میں گیا تھا؟ یعنی نماز کے مقام میں جہاں جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں (جیسے عیدگاہ وغیرہ)۔ «فأوجس» دل میں سہم گیا۔«خيفة» اصل میں «خوفة» تھا واؤ بہ سبب کسرہ «ما قبل» یاء ہو گیا۔ «في جذوع النخل» کھجور کی شاخوں پر «في علي» کے معنی میں ہے۔ «خطبك» یعنی تیرا کیا حال ہے، تو نے یہ کام کیوں کیا۔ «مساس» مصدر ہے۔ «ماسه» ، «مساسا.» سے یعنی چھونا۔ «لننسفنه»بکھیر ڈالیں گے یعنی جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیں گے۔ «قاعا» وہ زمین جس کے اوپر پانی چڑھ آئے (یعنی صاف ہموار میدان)۔«صفصفا» ہموار زمین۔ اور مجاہد نے کہا «من زينة القوم.» سے وہ زیور مراد ہے جو بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے مانگ کر لیا تھا۔«فقذفتها» میں نے اس کو ڈال دیا۔ «وكذالك ألقى السامري» یعنی سامری نے بھی اور بنی اسرائیل کی طرح اپنا زیور ڈالا۔ «فنسي موسى» یعنی سامری اور اس کے تابعدار لوگ کہنے لگے موسیٰ چوک گیا کہ اپنے پروردگار بچھڑے کو یہاں چھوڑ کر کوہ طور پر چلا گیا۔ «لا يرجع إليهم قولا» یعنی یہ نہیں دیکھتے کہ بچھڑا ان کی بات کو جواب تک نہیں دے سکتا۔ «همسا» پاؤں کی آہٹ۔ «حشرتني أعمى»یعنی مجھ کو دنیا میں دلیل اور حجت معلوم ہوتی تھی یہاں تو نے بالکل مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔ اور ابن عباس نے کہا «لعلي اتيكم منها بقبس» کے بیان میں کہ موسیٰ اور ان کے ساتھی راستہ بھول گئے تھے ادھر سردی میں مبتلا تھے کہنے لگے اگر وہاں کوئی راستہ بتانے والا ملا تو بہتر ورنہ میں تھوڑی سی آگ تمہارے تاپنے کے لیے لے آؤں گا۔ سفیان بن عیینہ نے (اپنی تفسیر میں) کہا«أمثلهم» یعنی ان میں کا افضل اور سمجھدار آدمی۔ اور ابن عباس نے کہا «هضما» یعنی اس پر ظلم نہ ہو گا اور اس کی نیکیوں کا ثواب کم نہ کیا جاوے گا۔ «عوجا» نالا کھڈا۔ «أمتا» ٹیلہ بلندی۔ «سيرتها الأولى» یعنی اگلی حالت پر۔ «النهى» پرہیزگاری یا عقل۔ «ضنكا»بدبختی۔ «هوى» بدبخت ہوا۔ «المقدس» برکت والی۔ «طوى» اس وادی کا نام تھا۔ «بملكنا» (بہ کسرئہ میم مشہور قرآت بہ ضمہ میم ہے بعضوں نے بہ ضم میم پڑھا ہے) یعنی اپنے اختیار اپنے حکم سے۔ «سوى» یعنی ہم میں اور تم میں برابر کے فاصلہ پر۔ «يبسا» خشک علی قدر اپنے معین وقت پر جو اللہ پاک نے لکھ دیا تھا۔ «لا تنيا» ضعیف مت بنو، یا سستی نہ کرو۔
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْتَقَى آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى لِآدَمَ: آنْتَ الَّذِي أَشْقَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَاصْطَفَاكَ لِنَفْسِهِ، وَأَنْزَلَ عَلَيْكَ التَّوْرَاةَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَجَدْتَهَا كُتِبَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي، قَالَ: نَعَمْ، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (عالم مثال میں) آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے پسند کیا اور خود اپنے لیے پسند کیا اور آپ پر توریت نازل کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جی ہاں۔ اس پر آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ «اليم» کے معنی دریا کے ہیں۔
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَالْيَهُودُ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي ظَهَرَ فِيهِ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ فَصُومُوهُ".
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں موسیٰ کے زیادہ حقدار ہیں۔ مسلمانو! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملانے کا حکم صادر فرمایا جو اب بھی مسنون ہے۔)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ النَّجَّارِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "حَاجَّ مُوسَى آدَمَ، فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ الَّذِي أَخْرَجْتَ النَّاسَ مِنَ الْجَنَّةِ بِذَنْبِكَ وَأَشْقَيْتَهُمْ، قَالَ: قَالَ آدَمُ: يَا مُوسَى، أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي أَوْ قَدَّرَهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب بن نجار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی بکر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی اور ان سے کہا کہ آپ ہی نے اپنی غلطی کے نتیجہ میں انسانوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا۔ آدم علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! آپ کو اللہ نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا۔ کیا آپ ایک ایسی بات پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقرر کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر بحث میں غالب آ گئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَالْكَهْفُ، وَمَرْيَمُ، وَطه، وَالْأَنْبِيَاءُ، هُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ، وَهُنَّ مِنْ تِلَادِي". وَقَالَ قَتَادَةُ: جُذَاذًا: قَطَّعَهُنَّ، وَقَالَ الْحَسَنُ: فِي فَلَكٍ: مِثْلِ فَلْكَةِ الْمِغْزَلِ، يَسْبَحُونَ: يَدُورُونَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَفَشَتْ: رَعَتْ لَيْلًا، يُصْحَبُونَ: يُمْنَعُونَ، أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً، قَالَ: دِينُكُمْ دِينٌ وَاحِدٌ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: حَصَبُ: حَطَبُ بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَحَسُّوا: تَوَقَّعُوا مِنْ أَحْسَسْتُ، خَامِدِينَ: هَامِدِينَ، وَالْحَصِيدُ مُسْتَأْصَلٌ يَقَعُ عَلَى الْوَاحِدِ وَالِاثْنَيْنِ وَالْجَمِيعِ، لَا يَسْتَحْسِرُونَ: لَا يُعْيُونَ وَمِنْهُ حَسِيرٌ وَحَسَرْتُ بَعِيرِي عَمِيقٌ بَعِيدٌ، نُكِّسُوا: رُدُّوا، صَنْعَةَ لَبُوسٍ: الدُّرُوعُ، تَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ: اخْتَلَفُوا الْحَسِيسُ، وَالْحِسُّ، وَالْجَرْسُ، وَالْهَمْسُ وَاحِدٌ، وَهُوَ مِنَ الصَّوْتِ الْخَفِيِّ، آذَنَّاكَ: أَعْلَمْنَاكَ، آذَنْتُكُمْ: إِذَا أَعْلَمْتَهُ فَأَنْتَ وَهُوَ عَلَى سَوَاءٍ لَمْ تَغْدِرْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ: تُفْهَمُونَ، ارْتَضَى: رَضِيَ، التَّمَاثِيلُ: الْأَصْنَامُ السِّجِلُّ الصَّحِيفَةُ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے ابواسحاق سے سنا، کہا میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے وہ کہتے تھے کہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف اور سورۃ مریم اور سورۃ طہٰ اور سورۃ انبیاء اگلی بہت فصیح سورتوں میں سے ہیں (جو مکہ میں اتری تھیں) اور میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔ قتادہ نے کہا «جذاذا» کا معنی ٹکڑے ٹکڑے۔ اور حسن بصری نے کہا «كل في فلك» یعنی ہر ایک تارہ ایک ایک آسمان میں گول گھومتا ہے، جیسے سوت کاتنے کا چرخہ۔«يسبحون» یعنی گول گھومتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «نفشت» کے معنی چر گئیں۔ «يصحبون» کے معنی روکے جائیں گے۔ بچائے جائیں گے۔ «أمتكم أمة واحدة» یعنی تمہارا دین اور مذہب ایک ہی دین اور مذہب ہے۔ اور عکرمہ نے کہا «حصب» حبشی زبان میں جلانے کی لکڑیوں ایندھن کو کہتے ہیں۔ اور لوگوں نے کہا لفظ «أحسوا» کے معنی توقع پائی یہ «أحسست» سے نکلا ہے یعنی آہٹ پائی۔ «خامدين» کے معنی بجھے ہوئے (یعنی مرے ہوئے)۔ «حصيد» کے معنی جڑ سے اکھاڑا گیا، واحد اور تثنیہ اور جمع سب پر یہی لفظ بولا جاتا ہے۔ «لا يستحسرون» کے معنی نہیں تھکے اسی سے ہے لفظ «حسير» تھکا ہوا۔ اور «حسرت بعيري.» کے معنی میں نے اپنے اونٹ کو تھکا دیا۔ «عميق» کے معنی دور دراز۔ «نكسوا» یہ کفر کی طرف پھیرے گئے۔ «صنعة لبوس» زرہیں بنانا۔«تقطعوا أمرهم» یعنی اختلاف کیا، جدا جدا طریقہ اختیار کیا۔ «لا يسمعون حسيسها» کے معنی اور لفظ «حس» اور «جرس» اور«همس» کے معانی ایک ہی ہیں یعنی پست آواز۔ «آذناك» ہم نے تجھ کو آگاہ کیا عرب لوگ کہتے ہیں۔ «آذنتكم» یعنی میں نے تم کو خبر دی تم ہم برابر ہو گئے میں نے کوئی دغا نہیں کی جب آپ مخاطب کو کسی بات کی خبر دے چکے تو آپ اور وہ دونوں برابر ہو گئے اور آپ نے اس سے کوئی دغا نہیں کی۔ اور مجاہد نے کہا «لعلكم تسألون» کے معنی یہ ہیں شاید تم سمجھو۔ «ارتضى» کے معنی پسند کیا راضی ہوا۔ «التماثيل» کے معنی مورتیں بت۔ «السجل» معنی کے خطوں کا مجموعہ دفتر۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ شَيْخٌ مِنْ النَّخَعِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104، ثُمَّ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ أَلَا إِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ إِلَى قَوْلِهِ شَهِيدٌ سورة المائدة آية 117، فَيُقَالُ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن نعمان نے جو قبیلہ نخعی کا ایک بوڑھا تھا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا۔ فرمایا تم قیامت کے دن اللہ کے سامنے ننگے پاؤں ننگے بدن بےختنہ حشر کئے جاؤ گے جیسا کہ ارشاد باری ہے «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» پھر سب سے پہلے قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والے دوزخیوں میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا پروردگار! یہ تو میرے ساتھ والے ہیں۔ ارشاد ہو گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہاری وفات کے بعد کیا کیا کرتوت کئے ہیں۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا آخر آیت تک۔ ارشاد ہو گا یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھر گئے جب تو ان سے جدا ہوا۔
وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: الْمُخْبِتِينَ: الْمُطْمَئِنِّينَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ، فِي أُمْنِيَّتِهِ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حَدِيثِهِ، فَيُبْطِلُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ، وَيُحْكِمُ آيَاتِهِ، وَيُقَالُ أُمْنِيَّتُهُ قِرَاءَتُهُ، إِلَّا أَمَانِيَّ: يَقْرَءُونَ، وَلَا يَكْتُبُونَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَشِيدٌ بِالْقَصَّةِ جِصٌّ، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَسْطُونَ: يَفْرُطُونَ مِنَ السَّطْوَةِ، وَيُقَالُ: يَسْطُونَ يَبْطِشُونَ، وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ: أُلْهِمُوا، وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ: إِلَى الْقُرْآنِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ الْإِسْلَامِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِسَبَبٍ: بِحَبْلٍ إِلَى سَقْفِ الْبَيْتِ ثَانِيَ عِطْفِهِ مُسْتَكْبِرٌ، تَذْهَلُ: تُشْغَلُ"
سفیان بن عیینہ نے کہا «المخبتين» کا معنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے (یا، اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «في أمنيته» کی تفسیر میں کہا جب پیغمبر کلام کرتا ہے (اللہ کے حکم سناتا ہے) تو شیطان اس کی بات میں اپنی طرف سے(پیغمبر کی آواز بنا کر) کچھ ملا دیتا ہے۔ پھر اللہ پاک شیطان کا ملایا ہوا مٹا دیتا ہے اور اپنی سچی آیتوں کو قائم رکھتا ہے۔ بعضوں نے کہا«أمنيته» سے پیغمبر کی قرآت مراد ہے۔ «إلا أماني» جو سورۃ البقرہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مگر آرزوئیں۔ اور مجاہد نے کہا(طبری نے اس کو وصل کیا)۔ «مشيد» کے معنی چونہ گچ کئے گئے۔ اوروں نے کہا «يسطون» کا معنی یہ ہے زیادتی کرتے ہیں یہ لفظ«سطوة» سے نکلا ہے۔ بعضوں نے کہا «يسطون» کا معنی سخت پکڑتے ہیں۔ «وهدوا إلى الطيب من القول» یعنی اچھی بات کا ان کو الہام کیا گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بسبب» کا معنی رسی جو چھت تک لگی ہو۔ «تذهل» کا معنی غافل ہو جائے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: "يَا آدَمُ، يَقُولُ: لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ، فَيُنَادَى بِصَوْتٍ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: يَا رَبِّ، وَمَا بَعْثُ النَّارِ ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ أُرَاهُ، قَالَ: تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، فَحِينَئِذٍ تَضَعُ الْحَامِلُ حَمْلَهَا، وَيَشِيبُ الْوَلِيدُ، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ سورة الحج آية 2، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ حَتَّى تَغَيَّرَتْ وُجُوهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَمِنْكُمْ وَاحِدٌ، ثُمَّ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَبْيَضِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرْنَا". قَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ: وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى سورة الحج آية 2، وَقَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَقَالَ جَرِيرٌ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ،وَأَبُو مُعَاوِيَةَ 0 سَكْرَى وَمَا هُمْ بِسَكْرَى 0.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا۔ اے آدم! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب! تیری فرمانبرداری کے لیے۔ پروردگار آواز سے پکارے گا(یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گا) اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اور تو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا(یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج (جو کافر ہیں) کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی)۔ یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی)ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور ابواسامہ نے اعمش سے یوں روایت کیا «ترى الناس سكارى وما هم بسكارى» جیسے مشہور قرآت ہے اور کہا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکالو (تو ان کی روایت حفص بن غیاث کے موافق ہے) اور جریر بن عبدالحمید اور عیسیٰ بن یونس اور ابومعاویہ نے یوں نقل کیا «سكرى وما هم بسكرى» (حمزہ اور کسائی کی بھی یہی قرآت ہے)۔
أَتْرَفْنَاهُمْ، وَسَّعْنَاهُمْ.
«أترفناهم» کے معنی ہم نے ان کی روزی کشادہ کر دی۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ سورة الحج آية 11، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْمَدِينَةَ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُهُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَيْلُهُ، قَالَ: "هَذَا دِينٌ صَالِحٌ، وَإِنْ لَمْ تَلِدِ امْرَأَتُهُ، وَلَمْ تُنْتَجْ خَيْلُهُ، قَالَ: هَذَا دِينُ سُوءٍ".
مجھ سے ابراہیم بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «ومن الناس من يعبد الله على حرف» اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر) کرتا ہے۔ کے متعلق فرمایا کہ بعض لوگ مدینہ آتے (اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے)اس کے بعد اگر اس کی بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی بچہ دیتی تو وہ کہتے کہ یہ دین (اسلام) بڑا اچھا دین ہے، لیکن اگر ان کے یہاں لڑکا نہ پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی تو کہتے کہ یہ تو برا دین ہے اس پر مذکور بالا آیت نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ يُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ هَذِهِ الْآيَةَ: هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19، نَزَلَتْ فِي حَمْزَةَ وَصَاحِبَيْهِ، وَعُتْبَةَ وَصَاحِبَيْهِ يَوْمَ بَرَزُوا فِي يَوْمِ بَدْرٍ". رَوَاهُ سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، وَقَالَ عُثْمَانُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، قَوْلَهُ.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوہاشم نے خبر دی، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہیں ابوذر رضی اللہ عنہ نے وہ قسم کھا کر بیان کرتے تھے کہ یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم» یہ دو فریق ہیں، جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا۔ حمزہ اور آپ کے دونوں ساتھیوں (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے) اور (مشرکین کی طرف سے) عتبہ اور اس کے دونوں ساتھیوں (شیبہ اور ولید بن عتبہ) کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے بدر کی لڑائی میں میدان میں آ کر مقابلہ کی دعوت دی تھی۔ اس روایت کو سفیان نے ابوہاشم سے اور عثمان نے جریر سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے ابوہاشم سے اور انہوں نے ابومجلز سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ قَيْسٌ: وَفِيهِمْ نَزَلَتْ: هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19، قَالَ: هُمُ الَّذِينَ بَارَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ عَلِيٌّ، وَحَمْزَةُ، وَعُبَيْدَةُ، وَشَيْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَعُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سلیمان سے سنا، انہوں نے ابومجلز سے سن کر کہا کہ یہ خود ان (ابومجلز) کا قول ہے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں پہلا شخص ہوں گا۔ جو رحمن کے حضور میں قیامت کے دن اپنا دعویٰ پیش کرنے کے لیے چہار زانو بیٹھوں گا۔ قیس نے کہا کہ آپ ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «هذان خصمان اختصموا في ربهم» کہ یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا بیان کیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدر کی لڑائی میں دعوت مقابلہ دی تھی۔ یعنی (مسلمانوں کی طرف سے) علی، حمزہ اور عبیدہ رضی اللہ عنہم نے اور (کفار کی طرف سے) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نے۔
قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: سَبْعَ طَرَائِقَ: سَبْعَ سَمَوَاتٍ، لَهَا سَابِقُونَ: سَبَقَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ، قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ: خَائِفِينَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ: بَعِيدٌ بَعِيدٌ، فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ: الْمَلَائِكَةَ، لَنَاكِبُونَ: لَعَادِلُونَ، كَالِحُونَ: عَابِسُونَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مِنْ سُلَالَةٍ: الْوَلَدُ، وَالنُّطْفَةُ السُّلَالَةُ، وَالْجِنَّةُ، وَالْجُنُونُ وَاحِدٌ، وَالْغُثَاءُ الزَّبَدُ، وَمَا ارْتَفَعَ عَنِ الْمَاءِ، وَمَا لَا يُنْتَفَعُ بِهِ يَجْأَرُونَ يَرْفَعُونَ أَصْوَاتَهُمْ كَمَا تَجْأَرُ الْبَقَرَةُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ رَجَعَ عَلَى عَقِبَيْهِ سَامِرًا مِنَ السَّمَرِ وَالْجَمِيعُ السُّمَّارُ وَالسَّامِرُ هَا هُنَا فِي مَوْضِعِ الْجَمْعِ تُسْحَرُونَ تَعْمَوْنَ مِنَ السِّحْرِ.
سفیان بن عیینہ نے کہا «سبع طرائق» سے ساتوں آسمان مراد ہیں۔ «لها سابقون» یعنی ان کی قسمت میں (روز ازل سے) سعادت اور نیک بختی لکھ دی گئی۔ «وجلة» ڈرنے والے۔ ابن عباس نے کہا «هيهات هيهات» کا معنی دور ہے دور ہے۔ «فاسأل العادين» یعنی گننے والے فرشتوں سے (جو اعمال کا حساب کرتے ہیں) پوچھ لو۔ «لناكبون» سیدھی راہ سے مڑ جانے والے۔ «كالحون» ترش رو، بدشکل منہ بنانے والے۔ اوروں نے کہا «سلالة» سے مراد بچہ اور نطفہ ہے۔ «جنة» اور «جنون» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی دیوانگی، باؤلاپن۔ «غثاء» پھین اور ایسی چیز جو پانی پر تیر آئے اور کام نہ آئے (بلکہ پھینک دیا جائے)۔ «يجأرون» آواز بلند کریں گے جیسے گائے تکلیف کے وقت نکالتی ہے۔ «على أعقابكم» عرب لوگ بولتے ہیں «رجع على عقبيه» یعنی پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ «سامرا» ، «سمر» سے نکلا ہے اس کی جمع «سمار» ہے، یہاں «سامر» جمع کے معنوں میں ہے (یعنی رات کو گپ شپ کرنے والے)۔ «تسحرون» جادو سے اندھے ہو رہے ہیں۔
مِنْ خِلَالِهِ: مِنْ بَيْنِ أَضْعَافِ السَّحَابِ، سَنَا بَرْقِهِ: وَهُوَ الضِّيَاءُ، مُذْعِنِينَ: يُقَالُ لِلْمُسْتَخْذِي مُذْعِنٌ أَشْتَاتًا وَشَتَّى وَشَتَاتٌ وَشَتٌّ وَاحِدٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا: بَيَّنَّاهَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: سُمِّيَ الْقُرْآنُ لِجَمَاعَةِ السُّوَرِ، وَسُمِّيَتِ السُّورَةُ لِأَنَّهَا مَقْطُوعَةٌ مِنَ الْأُخْرَى فَلَمَّا قُرِنَ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ سُمِّيَ قُرْآنًا، وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عِيَاضٍ الثُّمَالِيُّ: الْمِشْكَاةُ الْكُوَّةُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ: تَأْلِيفَ بَعْضِهِ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ: فَإِذَا جَمَعْنَاهُ وَأَلَّفْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ أَيْ مَا جُمِعَ فِيهِ فَاعْمَلْ بِمَا أَمَرَكَ وَانْتَهِ عَمَّا نَهَاكَ اللَّهُ، وَيُقَالُ: لَيْسَ لِشِعْرِهِ قُرْآنٌ أَيْ تَأْلِيفٌ وَسُمِّيَ الْفُرْقَانَ لِأَنَّهُ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَيُقَالُ لِلْمَرْأَةِ: مَا قَرَأَتْ بِسَلًا قَطُّ أَيْ لَمْ تَجْمَعْ فِي بَطْنِهَا وَلَدًا وَيُقَالُ فِي، فَرَّضْنَاهَا: أَنْزَلْنَا فِيهَا فَرَائِضَ مُخْتَلِفَةً، وَمَنْ قَرَأَ، فَرَضْنَاهَا: يَقُولُ فَرَضْنَا عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ بَعْدَكُمْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا: لَمْ يَدْرُوا لِمَا بِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: أُولِي الْإِرْبَةِ مَنْ لَيْسَ لَهُ أَرَبٌ، وَقَالَ طَاوُسٌ: هُوَ الْأَحْمَقُ الَّذِي لَا حَاجَةَ لَهُ فِي النِّسَاءِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَا يُهِمُّهُ إِلَّا بَطْنُهُ، وَلَا يَخَافُ عَلَى النِّسَاءِ.
«من خلاله» کا معنی بادل کے پردوں کے بیچ میں سے۔ «سنا برقه» اس کی بجلی کی روشنی۔ «مذعنين» ، «مذعن» کی جمع ہے یعنی عاجزی کرنے والا۔ «أشتاتا» اور «شتى» اور «شتات» اور «شت» سب کے ایک ہی معنی ہیں (یعنی الگ الگ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «سورة أنزلناها» کا معنی ہم نے اس کو کھول کر بیان کیا کہ سورتوں کے مجموعہ کی وجہ سے قرآن کا نام پڑا اور سورۃ کو سورۃ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ دوسری سورۃ سے علیحدہ ہوتی ہے پھر جب ایک سورۃ دوسری کے قریب کر دی گئی تو مجموعہ کو قرآن کہنے لگے، (تو یہ «قرن» سے نکلا ہے) اور سعد بن عیاض ثمالی نے کہا (اس کو ابن شاہین نے وصل کیا)۔ «مشكاة» کہتے ہیں طاق کو یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ اور یہ جو سورۃ قیامت میں فرمایا ہم پر اس کا جمع کرنا اور «قرآن» کرنا ہے تو «قرآن» سے اس کا جوڑنا اور ایک ٹکڑے سے دوسرا ٹکڑا ملانا مراد ہے۔ پھر فرمایا «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» یعنی جب ہم اس کو جوڑ دیں اور مرتب کر دیں تو اس مجموعہ کی پیروی کر یعنی اس میں جس بات کا حکم ہے اس کو بجا لا اور جس کی اللہ نے ممانعت کی ہے اس سے باز رہ اور عرب لوگ کہتے ہیں اس کے شعروں کا قرآن نہیں ہے۔ یعنی کوئی مجموعہ نہیں ہے اور «قرآن» کو «فرقان» بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور باطل کو جدا کرتا ہے اور عورت کے حق میں کہتے ہیں «ما قرأت بسلا قط» یعنی اس نے اپنے پیٹ میں بچہ کبھی نہیں رکھا اور کہا «فرضناها» تشدید سے تو معنی یہ ہو گا ہم نے اس میں مختلف فرائض نازل کئیے اور جس نے «فرضناها» تخفیف سے پڑھا ہے تو معنی یہ ہو گا ہم نے تم پر اور جو لوگ قیامت تک تمہارے بعد آئیں گے ان پر فرض کیا۔ مجاہد نے کہا «أو الطفل الذين لم يظهروا» سے وہ کم سن بچے مراد ہیں جو کم سنی کی وجہ سے عورتوں کی شرمگاہ یا جماع سے واقف نہیں ہیں اور شعبی نے کہا «غير أولي الإربة» سے وہ مرد مراد ہیں جن کو عورتوں کی احتیاج نہ ہو۔ اور طاؤس نے کہا (اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا) وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں کا خیال نہ ہو اور مجاہد نے کہا (اس کو طبری نے وصل کیا) جن کو اپنے پیٹ کی دھن لگی ہو ان سے یہ ڈر نہ ہو کہ عورتوں کو ہاتھ لگائیں گے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عُوَيْمِرًا أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلَانَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَقُولُونَ فِي رَجُلٍ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ ؟ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَتَى عَاصِمٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ، فَسَأَلَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُلَاعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، فَلَاعَنَهَا"، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا، فَطَلَّقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا"فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ، فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے، کہا ہم سے امام اوزاعی نے، کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا۔ ان سے سہل بن سعد نے بیان کیا کہ عویمر بن حارث بن زید بن جد بن عجلان عاصم بن عدی کے پاس آئے۔ عاصم بنی عجلان کے سردار تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لوگوں کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پا لیتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دو گے! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتائیے۔ چنانچہ عاصم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! (صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل (میں سوال و جواب) کو ناپسند فرمایا۔ جب عویمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔ عویمر نے ان سے کہا کہ واللہ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پوچھوں گا۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت اتاری ہے۔ پھر آپ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لیے عویمر نے اسے طلاق دے دی۔ اس کے لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی کا طریقہ جاری ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ دیکھتے رہو اگر اس عورت کے کالا، بہت کالی پتلیوں والا، بھاری سرین اور بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے الزام غلط نہیں لگایا ہے۔ لیکن اگر سرخ سرخ گر گٹ جیسا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے غلط الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد ان عورت کے جو بچہ پیدا ہوا وہ انہیں صفات کے مطابق تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں اور جس سے عویمر کی تصدیق ہوتی تھی۔ چنانچہ اس لڑکے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا۔
حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمَا مَا ذُكِرَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ التَّلَاعُنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ قُضِيَ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ"، قَالَ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاهِدٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَارَقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَكَانَتْ حَامِلًا، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا، وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا.
مجھ سے ابوالربیع سلیمان بن داؤد نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے، ان سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد نے کہ ایک صاحب (یعنی عویمر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسے شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھا ہو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں قاتل کو قتل کر دیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہئے؟ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو آیات نازل کیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ پھر آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور دو لعان کرنے والوں میں اس کے بعد یہی طریقہ قائم ہو گیا کہ ان میں جدائی کرا دی جائے۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں، لیکن انہوں نے اس کا بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو اسے ماں ہی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ میراث کا یہ طریقہ ہوا کہ بیٹا ماں کا وارث ہوتا ہے اور ماں اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصہ کے مطابق بیٹے کی وارث ہوتی ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا عَلَى امْرَأَتِهِ رَجُلًا يَنْطَلِقُ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ، فَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ، وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6 - 9، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَجَاءَ هِلَالٌ، فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ"، ثُمَّ قَامَتْ، فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ وَقَّفُوهَا، وَقَالُوا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ، وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا تَرْجِعُ، ثُمَّ قَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ"، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ہلال بن امیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر کو مبتلا دیکھتا ہے تو کیا وہ ایسی حالت میں گواہ تلاش کرنے جائے گا؟ لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی۔ اس پر ہلال نے عرض کیا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی ایسی آیت نازل فرمائے گا۔ جس کے ذریعہ میرے اوپر سے حد دور ہو جائے گی۔ اتنے میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی «والذين يرمون أزواجهم» سے «إن كان من الصادقين»۔ (جس میں ایسی صورت میں لعان کا حکم ہے) جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال کو آدمی بھیج کر بلوایا وہ آئے اور آیت کے مطابق چار مرتبہ قسم کھائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئیں اور انہوں نے بھی قسم کھائی، جب وہ پانچویں پر پہنچیں (اور چار مرتبہ اپنی برات کی قسم کھانے کے بعد، کہنے لگیں کہ اگر میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو) تو لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ (اگر تم جھوٹی ہو تو) اس سے تم پر اللہ کا عذاب ضرور نازل ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر وہ ہچکچائیں ہم نے سمجھا کہ اب وہ اپنا بیان واپس لے لیں گی۔ لیکن یہ کہتے ہوئے کہ زندگی بھر کے لیے میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی۔ پانچویں بار قسم کھائی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھنا اگر بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا، بھاری سرین اور بھری بھری پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء ہی کا ہو گا۔ چنانچہ جب پیدا ہوا تو وہ اسی شکل و صورت کا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا حکم نہ آ چکا ہوتا تو میں اسے رجمی سزا دیتا۔
حَدَّثَنَا مُقَدَّمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمِّي الْقَاسِمُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَجُلًا رَمَى امْرَأَتَهُ، فَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَلَاعَنَا كَمَا قَالَ اللَّهُ، ثُمَّ قَضَى بِالْوَلَدِ لِلْمَرْأَةِ، وَفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ".
ہم سے مقدم بن محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے چچا قاسم بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، قاسم نے عبیداللہ سے سنا تھا اور عبیداللہ نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غیر مرد کے ساتھ تہمت لگائی اور کہا کہ عورت کا حمل میرا نہیں ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دونوں میاں بیوی نے اللہ کے فرمان کے مطابق لعان کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وہ عورت ہی کا ہو گا اور لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی میں جدائی کروا دی۔
أَفَّاكٌ كَذَّابٌ.
«أفاك» کے معنی جھوٹا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ سورة النور آية 11، قَالَتْ: "عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا «والذي تولى كبره» یعنی اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اور مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ، قَالَ لَهَا: "أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا، وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ الَّذِي حَدَّثَنِي عُرْوَةُ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، فَخَرَجَ سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا نَزَلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي، وَأُنْزَلُ فِيهِ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ، وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ، فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، وَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ، وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي، فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ رَكِبْتُ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُثْقِلْهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا تَأْكُلُ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا، فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَمَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ، وَلَا مُجِيبٌ، فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي، فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي، فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ، ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَأَدْلَجَ، فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي، فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي، فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي، فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي، وَوَاللَّهِ مَا كَلَّمَنِي كَلِمَةً، وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، فَوَطِئَ عَلَى يَدَيْهَا، فَرَكِبْتُهَا، فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَمَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى الْإِفْكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الْإِفْكِ لَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّطَفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي، إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُولُ: "كَيْفَ تِيكُمْ ؟"ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَذَاكَ الَّذِي يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَمَا نَقَهْتُ، فَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا، وَكُنَّا لَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا، وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّبَرُّزِ قِبَلَ الْغَائِطِ، فَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي، وَقَدْ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا، فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا شَهِدَ بَدْرًا، قَالَتْ: أَيْ هَنْتَاهْ أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: وَمَا قَالَ، فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ، فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي سَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: "كَيْفَ تِيكُمْ ؟"فَقُلْتُ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ ؟ قَالَتْ: وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، قَالَتْ: فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ أَبَوَيَّ، فَقُلْتُ لِأُمِّي: يَا أُمَّتَاهْ، مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ ؟ قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ، هَوِّنِي عَلَيْكِ، فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ حَتَّى أَصْبَحْتُ أَبْكِي، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، قَالَتْ: فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ، وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ مِنَ الْوُدِّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهْلَكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، قَالَتْ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ، فَقَالَ: "أَيْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ ؟"قَالَتْ بَرِيرَةُ: لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، فَتَأْكُلُهُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَعْذَرَ يَوْمَئِذٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: "يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي"، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ إِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْتُ عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ، قَالَتْ: فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَكِنْ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ، فَقَالَ لِسَعْدٍ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ، فَتَثَاوَرَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ، وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، قَالَتْ: فَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي، وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا لَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، وَلَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ، فَالِقٌ كَبِدِي، قَالَتْ: فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَأَذِنْتُ لَهَا، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسَ، قَالَتْ: وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي، قَالَتْ: فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: "أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ إِلَى اللَّهِ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ"، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، فَقُلْتُ لِأَبِي: أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا، قَالَ: قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقُلْتُ لِأُمِّي: أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ، لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ، وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي، وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لَكُمْ مَثَلًا إِلَّا، قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، قَالَتْ: ثُمَّ تَحَوَّلْتُ، فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، قَالَتْ: وَأَنَا حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى، وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ، وَهُوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي يُنْزَلُ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُرِّيَ عَنْهُ، وَهُوَ يَضْحَكُ، فَكَانَتْ أَوَّلُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا: "يَا عَائِشَةُ، أَمَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَكِ"، فَقَالَتْ أُمِّي: قُومِي إِلَيْهِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلَا، أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لا تَحْسَبُوهُ سورة النور آية 11 الْعَشْرَ الْآيَاتِ كُلَّهَا، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ، وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي، قَالَ لِعَائِشَةَ: مَا قَالَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي ؟ فَقَالَ: "يَا زَيْنَبُ، مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ ؟"فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي، وَبَصَرِي، مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا، قَالَتْ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْإِفْكِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ، یاد تھی۔ مجھ سے یہ حدیث عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں (قضائے حاجت کے لیے) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آ گئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لیے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔ مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہو جائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لیے یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ثم ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے (تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھا) رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ انہوں نے (دور سے) ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو «إنا لله» پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہو گئی وہ (خود پیدل) اونٹ کو آگے سے کھینچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکر سے اس وقت ملے جب وہ بھری دوپہر میں (دھوپ سے بچنے کے لیے) پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔ مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑ گئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ ایک دن جب (بیماری سے کچھ افاقہ تھا) کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح رضی اللہ عنہا بھی تھیں ہم مناصع کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لیے ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لیے ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب بتی الخلاء نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جا کر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بدبو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ ابورہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ (رانطہٰ نامی) صخر بن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضائے حاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی؟ میں نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا ہے؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آ گئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین و جمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کر دیا؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہو گئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لیے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو گئی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ (یعنی خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) اس تہمت سے بَری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی (بریرہ)سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا: بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مسلمانو! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔ اس پر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی (عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق) ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب (دوسری) صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، امابعد! اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برات خود کر دے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہو گیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد (ابوبکر) سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیا عرض کروں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا (میں نے کہا کہ) اللہ کی قسم! میں تو یہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بَری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کر لوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس آپ لوگوں کے لیے کوئی مثال نہیں ہے سوا یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برات ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں (قرآن مجید کی آیت) نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری برات کر دے گا۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینے پسینے ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرما رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ عائشہ! اللہ نے تمہیں بَری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (آپ کا شکر ادا کرنے کے لیے) کھڑی ہو جاؤ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی «إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم لا تحسبوه» کہ بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے مکمل دس آیتوں تک۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برات میں نازل کر دیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ اللہ کی قسم! اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم والسعة أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں بلکہ چاہئے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے، ہاں اللہ کی قسم! میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بن جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے کان اور میری آنکھ کو اللہ سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لیے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہو گئی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَلَقَّوْنَهُ: يَرْوِيهِ بَعْضُكُمْ عَنْ بَعْضٍ، تُفِيضُونَ: تَقُولُونَ.
مجاہد نے کہا کہ «تلقونه» کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے سے منہ در منہ اس بات کو نقل کرنے لگے۔ لفظ «تفيضون» (جو سورۃ یونس میں ہے) بمعنی «تقولون» کے ہے، اس کا معنی تم کہتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ أُمِّ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "لَمَّا رُمِيَتْ عَائِشَةُ خَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن کثیر نے خبر دی، انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابووائل نے، انہیں مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب عائشہ نے تہمت کی خبر سنی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی تھی۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَتَقْرَأُ: "0 إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ 0 4".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ مذکورہ بالا آیت «إذ تلقونه بألسنتكم» (جب تم اپنی زبانوں سے اسے منہ در منہ نقل کر رہے تھے) پڑھ رہی تھیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: "أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ"، فَقِيلَ ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمِنْ وُجُوهِ الْمُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ، وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لیے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ نِسْيًا مَنْسِيًّا.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ «نسيا منسيا.» کا ذکر نہیں کیا۔
4385 4385 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "جَاءَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا، قُلْتُ: أَتَأْذَنِينَ لِهَذَا ؟ قَالَتْ: أَوَلَيْسَ قَدْ أَصَابَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ، قَالَ سُفْيَانُ: تَعْنِي ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قَالَتْ: لَكِنْ أَنْتَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرنے کی حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ انہیں بھی اجازت دیتی ہیں (حالانکہ انہوں نے بھی آپ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تھا) اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ کیا انہیں اس کی ایک بڑی سزا نہیں ملی ہے۔ سفیان نے کہا کہ ان کا اشارہ ان کے نابینا ہو جانے کی طرف تھا۔ پھر حسان نے یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ غافل اور پاکدامن عورتوں کا گوشت کھانے سے اکمل پرہیز کرتی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، لیکن تو نے ایسا نہیں کیا۔
حدثنا محمد بن بشار، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: "دَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى عَائِشَةَ، فَشَبَّبَ، وَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ، قَالَتْ: لَسْتَ كَذَاكَ، قُلْتُ: تَدَعِينَ مِثْلَ هَذَا يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ سورة النور آية 11، فَقَالَتْ: وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى، وَقَالَتْ: وَقَدْ كَانَ يَرُدُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا، کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ لیکن اے حسان! تو ایسا نہیں ہے۔ بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کر چکا ہے «والذي تولى كبره منهم» کہ اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا۔ الخ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نابینا ہو جانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہو گا، پھر انہوں نے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے (کیا یہ شرف ان کے لیے کم ہے)۔
وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: "أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا يَدْخُلُ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ نَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، وَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: أَيْ أُمِّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ، وَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعَسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمِّ أَتَسُبِّينَ ابْنَكِ، فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعَسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَأْنِي، قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، فَقُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا ؟ قَالَتْ: ، نَعَمْ وَاللَّهِ، فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي كَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا وَوُعِكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي، فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ، فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ، وَأَبَا بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ ؟ فَأَخْبَرْتُهَا، وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مِثْلَ مَا بَلَغَ مِنِّي، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ، خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا، وَقِيلَ فِيهَا وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْبَرْتُ، وَبَكَيْتُ، فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا ؟ قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، قَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكِ أَيْ بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ، فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ، فَتَأْكُلَ خَمِيرَهَا أَوْ عَجِينَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، وَبَلَغَ الْأَمْرُ إِلَى ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي، فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ، وَقَدِ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ، إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ مِنْ عِبَادِهِ"، قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِ مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، فَقُلْتُ لَهُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي، فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ، فَقَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا ؟ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَاهُ تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ، وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَّا بَعْدُ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ، قُلْتُ لَكُمْ: إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ بِهِ وَأُشْرِبَتْهُ قُلُوبُكُمْ، وَإِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ، لَتَقُولُنَّ قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ، قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ، فَسَكَتْنَا، فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ، وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَيَقُولُ: "أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ"، قَالَتْ: وَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلَا أَحْمَدُهُ، وَلَا أَحْمَدُكُمَا، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ، فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ، وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا، فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ، قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ سورة النور آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ سورة النور آية 22 يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22 حَتَّى، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى، وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا، إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ"
اور ابواسامہ حماد بن اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممیرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد و ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بدنام کیا ہے اور اللہ کی قسم! کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص (صفوان بن معطل) کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم! ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوا تو میری موجودگی ہی میں داخل ہوا اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتا اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس کے بعد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں حکم فرمایئے کہ ہم ایسے مردود لوگوں کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک صاحب (سعد بن عبادہ) کھڑے ہوئے، حسان بن ثابت کی والدہ اسی قبیلہ خزرج سے تھیں، انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ تم جھوٹے ہو، اگر وہ لوگ (تہمت لگانے والے) قبیلہ اوس کے ہوتے تو تم کبھی انہیں قتل کرنا پسند نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد ہی میں اوس و خزرج کے قبائل میں باہم فساد کا خطرہ ہو گیا، اس فساد کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی، اسی دن کی رات میں، میں قضائے حاجت کے لیے باہر نکلی، میرے ساتھ ام مسطح بھی تھیں۔ وہ (راستے میں) پھسل گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے کہا، آپ اپنے بیٹے کو کوستی ہیں، اس پر وہ خاموش ہو گئیں، پھر دوبارہ وہ پھسلیں اور ان کی زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے پھر کہا کہ اپنے بیٹے کو کوستی ہو، پھر وہ تیسری مرتبہ پھسلیں تو میں نے پھر انہیں ٹوکا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ کی قسم! میں تو تیری ہی وجہ سے اسے کوستی ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے کس معاملہ میں انہیں آپ کوس رہی ہیں؟ بیان کیا۔ کہ اب انہوں نے طوفان کا سارا قصہ بیان کیا میں نے پوچھا، کیا واقعی یہ سب کچھ کہا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! پھر میں اپنے گھر گئی۔ لیکن (ان واقعات کو سن کر غم کا یہ حال تھا کہ) مجھے کچھ خبر نہیں کہ کس کام کے لیے میں باہر گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں، ذرہ برابر بھی مجھے اس کا احساس نہیں رہا۔ اس کے بعد مجھے بخار چڑھ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے ذرا میرے والد کے گھر پہنچوا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک بچہ کو کر دیا۔ میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ام رومان نیچے کے حصہ میں ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاخانے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ والدہ نے پوچھا بیٹی اس وقت کیسے آ گئیں۔ میں نے وجہ بتائی اور واقعہ کی تفصیلات سنائیں ان باتوں سے جتنا غم مجھ کو تھا ایسا معلوم ہوا کہ ان کو اتنا غم نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا، بیٹی اتنا فکر کیوں کرتی ہو کم ہی ایسی کوئی خوبصورت عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور وہ اس سے حسد نہ کریں اور اس میں سو عیب نہ نکالیں۔ اس تہمت سے وہ اس درجہ بالکل بھی متاثر نہیں معلوم ہوتی تھیں جتنا میں متاثر تھی۔ میں نے پوچھا والد کے علم میں بھی یہ باتیں آ گئیں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی علم میں سب کچھ ہے۔ میں یہ سن کر رونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی میری آواز سن لی، وہ گھر کے بالائی حصہ میں قرآن پڑھ رہے تھے، اتر کر نیچے آئے اور والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تمام باتیں اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہیں۔ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا: بیٹی! تمہیں قسم دیتا ہوں، اپنے گھر واپس چلی جاؤ چنانچہ میں واپس چلی آئی۔ (جب میں اپنے والدین کے گھر آ گئی تھی تو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی، البتہ ایسا ہو جایا کرتا تھا (کم عمری کی غفلت کی وجہ سے) کہ (آٹا گوندھتے ہوئے) سو جایا کرتیں اور بکری آ کر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کو معلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اللہ کی قسم! کہ میں نے آج تک کسی (غیر) عورت کا کپڑا نہیں کھولا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آ گئے اور میرے پاس ہی رہے۔ آخر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ میرے والدین مجھے دائیں اور بائیں طرف سے پکڑے ہوئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: امابعد! اے عائشہ! اگر تم نے واقعی کوئی برا کام کیا ہے اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ کرو، کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک انصاری خاتون بھی آ گئی تھیں اور دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے عرض کی، آپ ان خاتون کا لحاظ نہیں فرماتے کہیں یہ (اپنی سمجھ کے مطابق کوئی الٹی سیدھی) بات باہر کہہ دیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی، اس کے بعد میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہی جواب دیجئیے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا کہوں جب کسی نے میری طرف سے کچھ نہیں کہا تو میں نے شہادت کے بعد اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد و ثنا کی اور کہا: امابعد! اللہ کی قسم! اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی اور اللہ عزوجل گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچی ہوں، تو آپ لوگوں کے خیال کو بدلنے میں میری یہ بات مجھے کوئی نفع نہیں پہنچائے گی، کیونکہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں رچ بس گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے واقعتاً یہ کام کیا ہے حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے، تو آپ لوگ کہیں گے کہ اس نے تو جرم کا اقرار کر لیا ہے۔ اللہ کی قسم! میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» پس صبر ہی اچھا ہے اور تم لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ یعقوب علیہ السلام کا نام یاد آ جائے لیکن نہیں یاد آیا۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور ہم سب خاموش ہو گئے۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پسینہ سے) اپنی پیشانی صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکی نازل کر دی ہے۔ بیان کیا کہ اس وقت مجھے بڑا غصہ آ رہا تھا۔ میرے والدین نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی نہ آپ کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی، میں تو صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی جس نے میری برات نازل کی ہے۔ آپ لوگوں نے تو یہ افواہ سنی اور اس کا انکار بھی نہ کر سکے، اس کے ختم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دینداری کی وجہ سے اس تہمت میں پڑنے سے بچا لیا۔ میری بابت انہوں نے خیر کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ اس طوفان کو پھیلانے میں مسطح اور حسان اور منافق عبداللہ بن ابی نے حصہ لیا تھا۔ عبداللہ بن ابی منافق ہی تو کھود کھود کر اس کو پوچھتا اور اس پر حاشیہ چڑھاتا، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا۔ «وهو الذي تولى كبره» سے وہ اور حمنہ مراد ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ مسطح کو کوئی فائدہ آئندہ کبھی وہ نہیں پہنچائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم» اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں الخ، اس سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ قرابت والوں اور مسکینوں کو اس سے مراد مسطح ہیں۔ (دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں) اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے تک۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم تو اسی کے خواہشمند ہیں کہ تو ہماری مغفرت فرما۔ پھر وہ پہلے کی طرح مسطح کو جو دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ سورة النور آية 31 شَقَّقْنَ مُرُوطَهُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِهَا"
اور احمد بن شبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد شبیب بن سعید نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔ (تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے) نازل کی، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان کے دوپٹے بنا لیے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَتْ، تَقُولُ: لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ سورة النور آية 31 أَخَذْنَ أُزْرَهُنَّ، فَشَقَّقْنَهَا مِنْ قِبَلِ الْحَوَاشِي فَاخْتَمَرْنَ بِهَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے، ان سے صفیہ بنت شیبہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» کہ اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں تو (انصار کی عورتوں نے) اپنے تہبندوں کو دونوں کنارے سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنا لیں۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَبَاءً مَنْثُورًا: مَا تَسْفِي بِهِ الرِّيحُ، مَدَّ الظِّلَّ: مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، سَاكِنًا: دَائِمًا، عَلَيْهِ دَلِيلًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ، خِلْفَةً: مَنْ فَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ عَمَلٌ أَدْرَكَهُ بِالنَّهَارِ، أَوْ فَاتَهُ بِالنَّهَارِ أَدْرَكَهُ بِاللَّيْلِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا: وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَمَا شَيْءٌ أَقَرَّ لِعَيْنِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ يَرَى حَبِيبَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُبُورًا: وَيْلًا، وَقَالَ غَيْرُهُ: السَّعِيرُ مُذَكَّرٌ وَالتَّسَعُّرُ وَالْاضْطِرَامُ التَّوَقُّدُ الشَّدِيدُ، تُمْلَى عَلَيْهِ: تُقْرَأُ عَلَيْهِ مِنْ أَمْلَيْتُ وَأَمْلَلْتُ الرَّسُّ الْمَعْدِنُ جَمْعُهُ رِسَاسٌ، مَا يَعْبَأُ، يُقَالُ: مَا عَبَأْتُ بِهِ شَيْئًا لَا يُعْتَدُّ بِهِ، غَرَامًا: هَلَاكًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَعَتَوْا: طَغَوْا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَاتِيَةٍ: عَتَتْ عَنِ الْخَزَّانِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هباء منثورا» کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے (گرد و غبار وغیرہ)۔ «مد الظل» سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔ «ساكنا» کا معنی ہمیشہ۔ «عليه دليلا» میں «دليل» سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔«خلفة» سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کر سکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کر سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا «قرة اعین» کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بن دے۔ مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثبورا» کے معنی ہلاکت خرابی۔ اوروں نے کہا «سعير» کا لفظ مذکر ہے، یہ «تسعر» سے نکلا ہے، «تسعر» اور «اضطرام»آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔ «تملى عليه» اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ «أمليت» اور «أمللت» سے نکلا ہے۔ «الرس» ،«كان» کو کہتے ہیں اس کی جمع «رساس» آتی ہے۔ «كان» بمعنی «معدن ما يعبأ» عرب لوگ کہتے ہیں «ما عبأت به شيئا» یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ «غراما» کے معنی ہلاکت اور مجاہد نے کہا «عتوا» کا معنی شرارت کے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے کہا«عاتية» کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، يُحْشَرُ الْكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: "أَلَيْسَ الَّذِي أَمْشَاهُ عَلَى الرِّجْلَيْنِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ قَتَادَةُ: بَلَى، وَعِزَّةِ رَبِّنَا.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے پوچھا، اے اللہ کے نبی! کافر کو قیامت کے دن اس کے چہرے کے بل کس طرح چلایا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس نے اسے اس دنیا میں دو پاؤں پر چلایا ہے اس پر قادر ہے کہ قیامت کے دن اس کو اس کے چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ نے کہا یقیناً ہمارے رب کی عزت کی قسم! یونہی ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، وَسُلَيْمَانُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنِي وَاصِلٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللَّهِ أَكْبَرُ ؟ قَالَ: "أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ"، قُلْتُ، ثُمَّ أَيٌّ، قَالَ: "ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ"، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ، قَالَ: "أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ"، قَالَ: وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية 68".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ مجھ سے منصور اور سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے، ان سے ابومیسرہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (سفیان ثوری نے کہا کہ) اور مجھ سے واصل نے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا، یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہاری روزی میں شریک ہو گی۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» کہ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق پر اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ: "أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، هَلْ لِمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68، فَقَالَ سَعِيدٌ: قَرَأْتُهَا عَلَىابْنِ عَبَّاسٍ كَمَا قَرَأْتَهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: هَذِهِ مَكِّيَّةٌ نَسَخَتْهَا آيَةٌ مَدَنِيَّةٌ الَّتِي فِي سُورَةِ النِّسَاءِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے قاسم بن ابی بزہ نے خبر دی، انہوں نے سعید بن جبیر سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو کیا اس کی اس گناہ سے توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ (ابن ابی بزہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر یہ آیت پڑھی «ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» کہ اور جس جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہ کرتے، مگر ہاں حق کے ساتھ۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ میں نے بھی یہ آیت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے پڑھی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ مکی آیت اور مدنی آیت جو اس سلسلہ میں سورۃ نساء میں ہے اس سے اس کا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: اخْتَلَفَ أَهْلُ الْكُوفَةِ فِي قَتْلِ الْمُؤْمِنِ، فَرَحَلْتُ فِيهِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: "نَزَلَتْ فِي آخِرِ مَا نَزَلَ وَلَمْ يَنْسَخْهَا شَيْءٌ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن نعمان نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ اہل کوفہ کا مومن کے قتل کے مسئلے میں اختلاف ہوا (کہ اس کے قاتل کی توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں) تو میں سفر کر کے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے کہا کہ (سورۃ نساء کی آیت جس میں یہ ذکر ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کی جہنم ہے۔) اس سلسلہ میں سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے اور کسی دوسری سے منسوخ نہیں ہوئی۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، قَالَ: لَا تَوْبَةَ لَهُ، وَعَنْ قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ سورة الفرقان آية 68، قَالَ: كَانَتْ هَذِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے «فجزاؤه جهنم» کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا يدعون مع الله إلها آخر» کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے متعلق ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں قتل کیا ہو۔
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ أَبْزَى، سَلْ ابْنَ عَبَّاسٍ، عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: "وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا سورة النساء آية 93، وَقَوْلِهِ: وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68 حَتَّى بَلَغَ إِلا مَنْ تَابَ سورة الفرقان آية 68 - 69، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ، قَالَ أَهْلُ مَكَّةَ: فَقَدْ عَدَلْنَا بِاللَّهِ، وَقَدْ قَتَلْنَا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَتَيْنَا الْفَوَاحِشَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا إِلَى قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا سورة الفرقان آية 70".
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ان سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» اور جو کوئی کسی مومن کو جان کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے۔ اور سورۃ الفرقان کی آیت «لا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» اور جس انسان کی جان مارنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق کے ساتھ «إلا من تاب» تک، میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اہل مکہ نے کہا کہ پھر تو ہم نے اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرایا ہے اور ناحق ایسے قتل بھی کئے ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا تھا اور ہم نے بدکاریوں کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إلا من تاب وآمن وعمل عملا صالحا» کہ مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرتا رہے، اللہ بہت بخشنے والا بڑا ہی مہربان ہے تک۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى، أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَمْ يَنْسَخْهَا شَيْءٌ وَعَنْ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ سورة الفرقان آية 68، قَالَ: نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہمجھے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے حکم دیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو آیتوں کے بارے میں پوچھوں یعنی «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» اور جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا الخ۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت کسی چیز سے بھی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ (اور دوسری آیت جس کے) بارے میں مجھے انہوں نے پوچھنے کا حکم دیا وہ یہ تھی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر» اور جو لوگ کسی معبود کو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ الدُّخَانُ، وَالْقَمَرُ، وَالرُّومُ، وَالْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ، فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا (قیامت کی) پانچ نشانیاں گزر چکی ہیں۔ دھواں (اس کا ذکر آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين» میں ہے)۔ چاند کا پھٹنا (اس کا ذکر آیت «اقتربت الساعة وانشق القمر» میں ہے)۔ روم کا مغلوب ہونا (اس کا ذکر سورۃ «غلبت الروم» میں ہے)۔ «لبطشة» یعنی اللہ کی پکڑ جو بدر میں ہوئی (اس کا ذکر «یوم نبطش البطشة الکبرى» میں ہے)۔ اور وبال جو قریش پر بدر کے دن آیا (اس کا ذکر آیت «فسوف یکون لزاما» میں ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَعْبَثُونَ: تَبْنُونَ، هَضِيمٌ: يَتَفَتَّتُ إِذَا مُسَّ مُسَحَّرِينَ الْمَسْحُورِينَ لَيْكَةُ، وَالْأَيْكَةُ جَمْعُ أَيْكَةٍ وَهِيَ جَمْعُ شَجَرٍ، يَوْمِ الظُّلَّةِ: إِظْلَالُ الْعَذَابِ إِيَّاهُمْ، مَوْزُونٍ: مَعْلُومٍ، كَالطَّوْدِ: كَالْجَبَلِ، وَقَالَ غَيْرُهُ لَشِرْذِمَةٌ: الشِّرْذِمَةُ طَائِفَةٌ قَلِيلَةٌ، فِي السَّاجِدِينَ: الْمُصَلِّينَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ: كَأَنَّكُمُ الرِّيعُ الْأَيْفَاعُ مِنَ الْأَرْضِ، وَجَمْعُهُ رِيَعَةٌ وَأَرْيَاعٌ وَاحِدُهُ رِيعَةٌ، مَصَانِعَ: كُلُّ بِنَاءٍ فَهُوَ مَصْنَعَةٌ، فَرِهِينَ: مَرِحِينَ فَارِهِينَ بِمَعْنَاهُ، وَيُقَالُ: فَارِهِينَ حَاذِقِينَ، تَعْثَوْا: هُوَ أَشَدُّ الْفَسَادِ عَاثَ يَعِيثُ عَيْثًا الْجِبِلَّةَ الْخَلْقُ جُبِلَ خُلِقَ، وَمِنْهُ جُبُلًا وَجِبِلًا وَجُبْلًا يَعْنِي الْخَلْقَ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ.
مجاہد نے کہا لفظ «تعبثون» کا معنی بناتے ہو۔ «هضيم» وہ چیز جو چھونے سے ریزہ ریزہ ہو جائے۔ «مسحرين» کا معنی جادو کئے گئے۔«ليكة» اور «لأيكة» جمع ہے «أيكة» کی اور لفظ «أيكة» صحیح ہے۔ «شجر» یعنی درخت۔ «يوم الظلة» یعنی وہ دن جس میں عذاب نے ان پر سایہ کیا تھا۔ «موزون» کا معنی معلوم۔ «كالطود» یعنی پہاڑ کی طرح۔ «الشرذمة» یعنی چھوٹا گروہ۔ «في الساجدين» یعنی نمازیوں میں۔ ابن عباس نے کہا «لعلكم تخلدون» کا معنی یہ ہے کہ جیسے ہمیشہ دنیا میں رہو گے۔ «ريع» بلند زمین جیسے ٹیلہ «ريع»مفرد ہے اس کی جمع «ريعة» اور «أرياع» آتی ہے۔ «مصانع» ہر عمارت کو کہتے ہیں (یا اونچے اونچے محلوں کو)۔ «فرهين» کا معنی اتراتے ہوئے خوش و خرم۔ «فاتحه» فارھین کا بھی یہی معنی ہے۔ بعضوں نے کہا «فارهين» کا معنی کاریگر ہوشیار تجربہ کار۔ «تعثوا» جیسے«عاث» ، «يعيث» ، «عيثا» ، «عيث» کہتے ہیں سخت فساد کرنے کو (دھند مچانا)۔ «تعثوا» کا وہی معنی ہے یعنی سخت فساد نہ کرو۔«خلقت جبل» یعنی پیدا کیا گیا ہے۔ اسی سے «جبلا» اور «جبلا» اور «جبلا» نکلا ہے یعنی «خلقت» ۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ: عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ يَرَى أَبَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ الْغَبَرَةُ، وَالْقَتَرَةُ الْغَبَرَةُ هِيَ الْقَتَرَةُ".
اور ہم سے ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد (آذر)کو قیامت کے دن گرد آلود کالا کلوٹا دیکھیں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا «غبرة» اور «قترة.» ہم معنی ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَخِي، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لَا تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید) نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ذئب نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد سے (قیامت کے دن) جب ملیں گے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے اس دن رسوا نہیں کرے گا جب سب اٹھائے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام قرار دے دیا ہے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "لَمَّا نَزَلَتْ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّفَا، فَجَعَلَ يُنَادِي يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ، لِبُطُونِ قُرَيْشٍ حَتَّى اجْتَمَعُوا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَخْرُجَ، أَرْسَلَ رَسُولًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ، فَجَاءَ أَبُو لَهَبٍ وَقُرَيْشٌ، فَقَالَ: "أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا، فَنَزَلَتْ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ 1 مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ 2 سورة المسد آية 1-2".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين» اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہئیے نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے۔ اے بنی فہر! اور اے بنی عدی! اور قریش کے دوسرے خاندان والو! اس آواز پر سب جمع ہو گئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آ سکا تو اس نے اپنا کوئی چودھری بھیج دیا، تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے۔ ابولہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطاب کر کے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں (پہاڑی کے پیچھے) ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟ سب نے کہا کہ ہاں، ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سنو، میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو بالکل سامنے ہے۔ اس پر ابولہب بولا، تجھ پر سارے دن تباہی نازل ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی «تبت يدا أبي لهب وتب * ما أغنى عنه ماله وما كسب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا، نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ہی اس کے آڑے آئی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أن أبا هريرة، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: "يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ، بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا". تَابَعَهُ أَصْبَغُ،عَنْابْنِ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين» اور اپنے خاندان کے قرابت داروں کو ڈرا نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر) آواز دی کہ اے جماعت قریش! یا اسی طرح کا اور کوئی کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ (اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو) اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنی عبد مناف! اللہ کے ہاں میں تمہارے لیے بالکل کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اس روایت کی متابعت اصبغ نے ابن وہب سے، انہوں نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے کی ہے۔
وَالْخَبْءُ مَا خَبَأْتَ، لَا قِبَلَ: لَا طَاقَةَ الصَّرْحُ كُلُّ مِلَاطٍ اتُّخِذَ مِنَ الْقَوَارِيرِ، وَالصَّرْحُ الْقَصْرُ، وَجَمَاعَتُهُ صُرُوحٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَهَا عَرْشٌ: سَرِيرٌ، كَرِيمٌ: حُسْنُ الصَّنْعَةِ، وَغَلَاءُ الثَّمَنِ يَأْتُونِي، مُسْلِمِينَ: طَائِعِينَ، رَدِفَ: اقْتَرَبَ، جَامِدَةً: قَائِمَةً، أَوْزِعْنِي: اجْعَلْنِي، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: نَكِّرُوا: غَيِّرُوا، وَأُوتِينَا الْعِلْمَ، يَقُولُهُ سُلَيْمَانُ: الصَّرْحُ بِرْكَةُ مَاءٍ ضَرَبَ عَلَيْهَا سُلَيْمَانُ قَوَارِيرَ أَلْبَسَهَا إِيَّاهُ.
«الخبء» پوشیدہ، چھپی چیز۔ «لا قبل» طاقت نہیں۔ «الصرح» کے معنی کانچ کا گارا اور «صرح» محل کو بھی کہتے ہیں اس کی جمع«صروح.» ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولها عرش» کا یہ معنی ہے کہ اس کا تخت نہایت عمدہ، اچھی کاریگری کا ہے، جو بیش قیمت ہے۔ «مسلمين» یعنی تابعدار ہو کر۔ «ردف» نزدیک آ پہنچا۔ «جامدة» اپنی جگہ پر قائم۔ «أوزعني» مجھ کو کر دے۔ اور مجاہد نے کہا «نكروا» کا معنی اس کا روپ بدل ڈالو۔ «وأوتينا العلم» یہ سلیمان علیہ السلام کا مقولہ ہے۔ «صرح» پانی کا ایک حوض تھا سلیمان علیہ السلام نے اسے شیشوں سے ڈھانک دیا تھا دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پانی بھرا ہوا ہے۔
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ: إِلَّا مُلْكَهُ، وَيُقَالُ: إِلَّا مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنْبَاءُ: الْحُجَجُ.
«كل شىء هالك إلا وجهه» یعنی ہر شے فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے ( «إلا وجهه» سے مراد ہے) بجز اس کی سلطنت کے بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کئے گئے ہوں۔ (ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے) مجاہد نے کہا کہ «الأنباء» سے دلیلیں مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَقَالَ: "أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ"، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيُعِيدَانِهِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتَّى، قَالَ أَبُو طَالِبٍ: آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى أَنْ، يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سورة التوبة آية 113 وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سورة القصص آية 56 قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُولِي الْقُوَّةِ: لَا يَرْفَعُهَا الْعُصْبَةُ مِنَ الرِّجَالِ، لَتَنُوءُ: لَتُثْقِلُ، فَارِغًا: إِلَّا مِنْ ذِكْرِ مُوسَى، الْفَرِحِينَ: الْمَرِحِينَ، قُصِّيهِ: اتَّبِعِي أَثَرَهُ، وَقَدْ يَكُونُ أَنْ يَقُصَّ الْكَلَامَ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ، عَنْ جُنُبٍ: عَنْ بُعْدٍ، عَنْ جَنَابَةٍ وَاحِدٌ، وَعَنِ اجْتِنَابٍ أَيْضًا يَبْطِشُ وَيَبْطُشُ، يَأْتَمِرُونَ: يَتَشَاوَرُونَ الْعُدْوَانُ وَالْعَدَاءُ وَالتَّعَدِّي، وَاحِدٌ، آنَسَ: أَبْصَرَ الْجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنَ الْخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ وَالشِّهَابُ فِيهِ لَهَبٌ، وَالْحَيَّاتُ أَجْنَاسٌ الْجَانُّ وَالْأَفَاعِي وَالْأَسَاوِدُ، رِدْءًا: مُعِينًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُصَدِّقُنِي، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَنَشُدُّ: سَنُعِينُكَ كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا مَقْبُوحِينَ مُهْلَكِينَ، وَصَّلْنَا: بَيَّنَّاهُ وَأَتْمَمْنَاهُ، يُجْبَى: يُجْلَبُ، بَطِرَتْ: أَشِرَتْ، فِي أُمِّهَا رَسُولًا: أُمُّ الْقُرَى مَكَّةُ وَمَا حَوْلَهَا، تُكِنُّ: تُخْفِي أَكْنَنْتُ الشَّيْءَ أَخْفَيْتُهُ وَكَنَنْتُهُ أَخْفَيْتُهُ وَأَظْهَرْتُهُ، وَيْكَأَنَّ اللَّهَ: مِثْلُ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ، يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ: يُوَسِّعُ عَلَيْهِ وَيُضَيِّقُ عَلَيْهِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا۔ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ان کے والد (مسیب بن حزن) نے بیان کیا کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا! آپ صرف کلمہ«لا إله إلا الله» پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار ان سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف ایک کلمہ پڑھ لیں)اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے باربار دہراتے رہے (کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟) آخر ابوطالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» پڑھنے سے انکار کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين» نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اور خاص ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا «إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء» کہ جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أولي القوة» سے یہ مراد ہے کہ کئی زور دار آدمی مل کر بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھا سکتے تھے۔ «لتنوء» کا مطلب ڈھوئی جاتی تھیں۔ «فارغا» کا معنی یہ ہے کہ موسیٰ کی ماں کے دل میں موسیٰ کے سوا اور کوئی خاص نہیں رہا تھا۔ «الفرحين» کا معنی خوشی سے اتراتے ہوئے۔ «قصيه» یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔ «قصص» کے معنی بیان کرنے کے ہوتے ہیں جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا «نحن نقص عليك» ، «عن جنب» یعنی دور سے «عن جنابة» کا بھی یہی معنی ہے اور «عن اجتناب» کا بھی یہی ہے۔ «يبطش» بہ کسرہ طاء اور «يبطش.» بہ ضمہ طاء دونوں قرآت ہیں۔ «يأتمرون» مشورہ کر رہے ہیں۔ «عدوان» اور «عدو» اور «تعدي» سب کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی حد سے بڑھ جانا ظلم کرنا۔ «آنس» کا معنی دیکھنا۔ «جذوة» لکڑی کا موٹا ٹکڑا جس کے سر ے پر آگ لگی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور «شهاب» جو آیت«اواتیکم بشهاب قبس» میں ہے اس سے مراد ایسی جلتی ہوئی لکڑی جس میں شعلہ ہو۔ «حيات» یعنی سانپوں کی مختلف قسمیں (جیسے)جان، افعی، اسود وغیرہ «ردءا» یعنی مددگار، پشت پناہ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے «يصدقني» بہ ضمہ قاف پڑھا ہے۔ اوروں نے کہا«سنشد» کا معنی یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے عرب لوگ کا محاورہ ہے جب کسی کو قوت دیتے ہیں تو کہتے ہیں «جعلت له عضدا.»۔ «مقبوحين» کا معنی ہلاک کئے گئے۔ «وصلنا» ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا۔ «يجبى» کچھے آتے ہیں۔ «بطرت» شرارت کی۔«في أمها رسولا» ، «أم القرى» مکہ اور اس کے اطراف کو کہتے ہیں۔ «تكن» کا معنی چھپاتی ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «أكننت» یعنی میں نے اس کو چھپا لیا۔ «كننته» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ويكأن الله» کا معنی «ألم تر أن الله» کے یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا۔«يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر» یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے فراغت سے روزی دیتا ہے جسے چاہتا ہے تنگی سے دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْعُصْفُرِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ سورة القصص آية 85، قَالَ: "إِلَى مَكَّةَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو یعلیٰ بن عبید نے خبر دی، کہا ہم سے سفیان بن دینار عصفری نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ (آیت مذکورہ بالا میں) «لرادك إلى معاد» سے مراد ہے کہ اللہ پھر آپ کو مکہ پہنچا کر رہے گا۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ: ضَلَلَةً، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْحَيَوَانُ وَالْحَيُّ وَاحِدٌ، فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ: عَلِمَ اللَّهُ ذَلِكَ إِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ، فَلِيَمِيزَ اللَّهُ كَقَوْلِهِ: لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ: مِنَ الطَّيِّبِ، أَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ: أَوْزَارًا مَعَ أَوْزَارِهِمْ.
مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ «وكانوا مستبصرين» کا یہ معنی ہے کہ وہ گمراہ تھے (اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے تھے) اوروں نے کہا کہ حیوان مراد ہے اور اس کی واحد «حيي» ہے۔ «فليعلمن الله» میں علم سے تمیز یعنی کھول کر بتا دینا مراد ہے جیسے «ليميز الله الخبيث» میں ہے۔ «أثقالا مع أثقالهم» کا مطلب یعنی اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔
فَلاَ يَرْبُو مَنْ أَعْطَى يَبْتَغِي أَفْضَلَ فَلاَ أَجْرَ لَهُ فِيهَا. قَالَ مُجَاهِدٌ: يُحْبَرُونَ: يُنَعَّمُونَ، يَمْهَدُونَ: يُسَوُّونَ الْمَضَاجِعَ الْوَدْقُ الْمَطَرُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ لَكُمْ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ: فِي الْآلِهَةِ وَفِيهِ، تَخَافُونَهُمْ: أَنْ يَرِثُوكُمْ كَمَا يَرِثُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، يَصَّدَّعُونَ: يَتَفَرَّقُونَ، فَاصْدَعْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: ضُعْفٌ وَضَعْفٌ لُغَتَانِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: السُّوأَى: الْإِسَاءَةُ جَزَاءُ الْمُسِيئِينَ.
«فلا يربو» یعنی جو سود پر قرض دے اس کو کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ مجاہد نے کہا «يحبرون» کا معنی نعمتیں دیئے جائیں گے۔ «فلا نفسهم يمهدون» یعنی اپنے لیے بسترے، بچھونے بچھاتے ہیں (قبر میں یا بہشت میں)۔ «الودق» مینہ کو کہتے ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ یہ آیت «هل لكم مما ملكت أيمانكم» اللہ پاک اور بتوں کی مثال میں اتری ہے۔ «تخافونهم» یعنی تم کیا اپنے لونڈی غلاموں سے یہ خوف کرتے ہو کہ وہ تمہارے وارث بن جائیں گے جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہو۔ «يصدعون» کے معنی جدا جدا ہو جائیں گے۔ «فاصدع» کا معنی حق بات کھول کر بیان کر دے اور بعض نے کہا «ضعف» اور «ضعف» ضاد کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں قرآت ہیں۔ مجاہد نے کہا «السوأى» کا معنی برائی یعنی برائی کرنے والوں کا بدلہ برا ملے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ، فَقَالَ: يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ، وَأَبْصَارِهِمْ يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَفَزِعْنَا، فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَغَضِبَ فَجَلَسَ، فَقَالَ: مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ لَا أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الْإِسْلَامِ، فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ، وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ، فَقَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الْآخِرَةِ إِذَا جَاءَ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ وَلِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ، الم غُلِبَتِ الرُّومُ إِلَى سَيَغْلِبُونَ سورة الروم آية 1 - 3 وَالرُّومُ قَدْ مَضَى.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں وعظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جس سے منافقوں کے آنکھ کان بالکل بیکار ہو جائیں گے لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔ پھر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی) وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اسے سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہئے لیکن اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہئے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کر لے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» آپ کہہ دیجئیے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرتا ہوں۔ اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش کسی طرح اسلام نہیں لاتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط بھیج کر میری مدد کر پھر ایسا قحط پڑا کہ لوگ تباہ ہو گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے کوئی اگر فضا میں دیکھتا (تو فاقہ کی وجہ سے) اسے دھویں جیسا نظر آتا۔ پھر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کیجئے (کہ ان کی یہ مصیبت دور ہو)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين» سے «عائدون» تک۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قحط کا یہ عذاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں ختم ہو گیا تھا لیکن کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا؟ چنانچہ قحط ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے، اس کی طرف اشارہ «يوم نبطش البطشة الكبرى» میں ہے، یہ بطش کفار پر غزوہ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی (کہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دیئے گئے) اور «لزاما» (قید) سے اشارہ بھی معرکہ بدر ہی کی طرف ہے «الم * غلبت الروم» سے«سيغلبون» تک کا واقعہ گزر چکا ہے کہ (کہ روم والوں نے فارس والوں پر فتح پالی تھی)۔
خَلْقُ الأَوَّلِينَ دِينُ الأَوَّلِينَ. وَالْفِطْرَةُ الإِسْلاَمُ.
«خلق الله» سے اللہ کا دین مراد ہے۔ آیت «ان هذا الا خلق الاولین» میں «خلق» سے دین مراد ہے اور «فطرت» سے اسلام مراد ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ، ثُمَّ يَقُولُ: فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ سورة الروم آية 30 ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسی جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کیا تم نے انہیں ناک کان کٹا ہوا کوئی بچہ دیکھا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم» اللہ کی اس فطرت کی اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَلْبِسْ إِيمَانَهُ بِظُلْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُ لَيْسَ بِذَاكَ، أَلَا تَسْمَعُ إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ: إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی۔ نازل ہوئی تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم میں کون ایسا ہو گا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے۔ تم نے لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی «إن الشرك لظلم عظيم» کہ بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ يَمْشِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِيمَانُ ؟ قَالَ: "الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ ؟ قَالَ: "الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِحْسَانُ ؟ قَالَ: "الْإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ: "مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الْمَرْأَةُ رَبَّتَهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ سورة لقمان آية 34، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَقَالَ: رُدُّوا عَلَيَّ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوا، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ".
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے ابوحیان نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک نیا آدمی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! احسان کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازماً رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہو گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے خود وہ سائل سے زیادہ اس کے واقع ہونے کے متعلق نہیں جانتا۔ البتہ میں تمہیں اس کی چند نشانیاں بتاتا ہوں۔ جب عورت ایسی اولاد جنے جو اس کے آقا بن جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے، جب ننگے پاؤں، ننگے جسم والے لوگ لوگوں پر حاکم ہو جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت بھی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جسے اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے(لڑکا یا لڑکی) پھر وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں میرے پاس واپس بلا لاؤ۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ لائیں لیکن ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صاحب جبرائیل تھے (انسانی صورت میں) لوگوں کو دین کی باتیں سکھانے آئے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَبَاهُحَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ: ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ سورة لقمان آية 34".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن عبداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «إن الله عنده علم الساعة» بیشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ مادہ کے رحم میں نر ہے یا مادہ اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَهِينٍ: ضَعِيفٍ نُطْفَةُ الرَّجُلِ، ضَلَلْنَا: هَلَكْنَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْجُرُزُ الَّتِي لَا تُمْطَرُ إِلَّا مَطَرًا لَا يُغْنِي عَنْهَا شَيْئًا، يَهْدِ: يُبَيِّنْ.
مجاہد نے کہا کہ «مهين» کا معنی ناتواں کمزور (یا حقیر) مراد مرد کا نطفہ ہے۔ «ضللنا» کے معنی ہم تباہ ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «جرز» وہ زمین جہاں بالکل کم بارش ہوتی ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا (یا سخت اور خشک زمیں) «يهد» کے معنی ہم بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: "أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ سورة السجدة آية 17، وَحَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ مِثْلَهُ، قِيلَ لِسُفْيَانَ رِوَايَةً، قَالَ: فَأَيُّ شَيْءٍ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے صالح اور نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے گمان و خیال میں وہ آئی ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين» کہ سو کسی کو نہیں معلوم جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا ان کے لیے جنت میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، پہلی حدیث کی طرح۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ یہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر رہے ہیں یا اپنے اجتہاد سے فرما رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ (اگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے) تو پھر اور کیا ہے؟ ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے اور ان سے صالح نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (آیت مذکورہ میں) قرآت (صیغہ جمع کے ساتھ) پڑھا ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: "أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا بَلْهَ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَرَأَ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَرَأَ أَبُو هُرَيْرَةَ قُرَّاتِ أَعْيُنٍ.
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، کہا ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیکوکار بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ دیکھا اور کسی کان نے نہ سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی گمان و خیال پیدا ہوا۔ اللہ کی ان نعمتوں سے واقفیت اور آگاہی تو الگ رہی (ان کا کسی کو گمان و خیال بھی پیدا نہیں ہوا)۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون» کہ سو کسی نفس مومن کو معلوم نہیں جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا (جنت میں) ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے، یہ بدلہ ہے ان کے نیک عملوں کا جو دنیا میں کرتے رہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَيَاصِيهِمْ: قُصُورِهِمْ.
مجاہد نے کہا کہ «صياصيهم» بمعنی «قصورهم» ہے جس سے ان کے قلعے محل گڑھیاں مراد ہیں۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ سورة الأحزاب آية 6 فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ تَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا، فَإِنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے، کہا مجھ سے میرے والد نے، ان سے ہلال بن علی نے اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں کہ میں خود اس کے نفس سے بھی زیادہ اس سے اور آخرت میں تعلق نہ رکھتا ہوں، اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم» کہ نبی مؤمنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہے۔ پس جو مومن بھی (مرنے کے بعد) ترکہ مال و اسباب چھوڑے اور کوئی ان کا ولی وارث نہیں ہے اس کے عزیز و اقارب جو بھی ہوں، اس کے مال کے وارث ہوں گے، لیکن اگر کسی مومن نے کوئی قرض چھوڑا ہے یا اولاد چھوڑی ہے تو وہ میرے پاس آ جائیں ان کا ذمہ دار میں ہوں۔
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: "أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله»کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔
نَحْبَهُ: عَهْدَهُ، أَقْطَارِهَا: جَوَانِبُهَا، الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا: لَأَعْطَوْهَا.
«نحبه» کے معنی اپنا عہد اور اقرار۔ «أقطارها» کے معنی کناروں سے۔ «لآتوها» کے معنی قبول کر لیں شریک ہو جائیں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "نُرَى هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي أَنَسِ بْنِ النَّضْرِ: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 23".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارے خیال میں یہ آیت انس بن نضر کے بارے میں نازل ہوئی تھی «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه» کہ اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، قَالَ: "لَمَّا نَسَخْنَا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ فَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ إِلَّا مَعَ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ الَّذِي جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 23".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہم قرآن مجید کو مصحف کی صورت میں جمع کر رہے تھے تو مجھے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت (کہیں لکھی ہوئی) نہیں مل رہی تھی۔ میں وہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکا تھا۔ آخر وہ مجھے خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مومن مردوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه» اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔
وَقَالَ مَعْمَرٌ: التَّبَرُّجُ أَنْ تُخْرِجَ مَحَاسِنَهَا: سُنَّةَ اللَّهِ: اسْتَنَّهَا جَعَلَهَا.
معمر نے کہا کہ «تبرج» یہ ہے کہ عورت اپنے حسن کا مرد کے سامنے اظہار کرے۔ «سنة الله» سے مراد وہ طریقہ ہے جو اللہ نے اپنے لیے مقرر کر رکھا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهَا حِينَ أَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُخَيِّرَ أَزْوَاجَهُ، فَبَدَأَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَسْتَعْجِلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ"، قَالَتْ: ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ سورة الأحزاب آية 28 إِلَى تَمَامِ الْآيَتَيْنِ"، فَقُلْتُ لَهُ: فَفِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ازواج کو (آپ کے سامنے رہنے یا آپ سے علیحدگی کا) اختیار دیں تو آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں ضروری نہیں کہ تم اس میں جلد بازی سے کام لو، اپنے والدین سے بھی مشورہ کر سکتی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے ہی تھے کہ میرے والد کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «يا أيها النبي قل لأزواجك» کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے آخر آیت تک۔ میں نے عرض کیا، لیکن کس چیز کے لیے مجھے اپنے والدین سے مشورہ کی ضرورت ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ میں اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ: الْقُرْآنِ وَالْحِكْمَةُ السُّنَّةُ.
قتادہ نے کہا کہ آیت «واذكرن ما يتلى في بيوتكن من آيات الله والحكمة» اور تم آیات اللہ اور اس حکمت کو یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائے جاتے رہتے ہیں۔ (آیات اللہ سے مراد) قرآن مجید اور (حکمت سے مراد) سنت نبوی ہے۔
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: "إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ"، قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا إِلَى أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29، قَالَتْ: فَقُلْتُ: فَفِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَتْ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ. تَابَعَهُ مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُو سُفْيَانَ الْمَعْمَرِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنی ازواج کو اختیار دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں، ضروری نہیں کہ تم جلدی کرو، اپنے والدین سے بھی مشورہ لے سکتی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو معلوم ہی تھا کہ میرے والدین آپ سے جدائی کا کبھی مشورہ نہیں دے سکتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہ آیت جس میں یہ حکم تھا) پڑھی کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو سے «أجرا عظيما» تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا لیکن اپنے والدین سے مشورہ کی کس بات کے لیے ضرورت ہے، ظاہر ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔ بیان کیا کہ پھر دوسری ازواج مطہرات نے بھی وہی کہا جو میں کہہ چکی تھی۔ اس کی متابعت موسیٰ بن اعین نے معمر سے کی ہے کہ ان سے زہری نے بیان کیا کہ انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور عبدالرزاق اور ابوسفیان معمری نے معمر سے بیان کیا، ان سے زہری نے، اور ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ: وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ سورة الأحزاب آية 37 نَزَلَتْ فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معلی بن منصور نے بیان کیا، اسے حماد بن زید نے کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه» اور آپ اپنے دل میں وہ چھپاتے رہے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے معاملہ میں نازل ہوئی تھی۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُرْجِئُ: تُؤَخِّرُ أَرْجِئْهُ أَخِّرْهُ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ترجئ» کا معنی پیچھے ڈال دے۔ اسی سے سورۃ الاعراف کا یہ لفظ ہے «أرجئه» یعنی اس کو ڈھیل میں رکھو۔
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: هِشَامٌ حَدَّثَنَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كُنْتُ أَغَارُ عَلَى اللَّاتِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقُولُ: أَتَهَبُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكَ سورة الأحزاب آية 51، قُلْتُ: مَا أُرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ فِي هَوَاكَ".
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے اپنے والد سے سن کر بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جو عورتیں اپنے نفس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرنے آتی تھیں مجھے ان پر بڑی غیرت آتی تھی۔ میں کہتی کہ کیا عورت خود ہی اپنے کو کسی مرد کے لیے پیش کر سکتی ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی«ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك» کہ ان میں سے جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا اس میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مراد بلا تاخیر پوری کر دینا چاہتا ہے۔
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ يَسْتَأْذِنُ فِي يَوْمِ الْمَرْأَةِ مِنَّا بَعْدَ أَنْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكَ سورة الأحزاب آية 51، فَقُلْتُ لَهَا: مَا كُنْتِ تَقُولِينَ ؟، قَالَتْ: كُنْتُ، أَقُولُ لَهُ: "إِنْ كَانَ ذَاكَ إِلَيَّ فَإِنِّي لَا أُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أُوثِرَ عَلَيْكَ أَحَدًا". تَابَعَهُ عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، سَمِعَعَاصِمًا.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم احول نے خبر دی، انہیں معاذہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی «ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك» کہ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر (ازواج مطہرات) میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جن کی باری ہوتی ان سے اجازت لیتے تھے (معاذہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ایسی صورت میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہ عرض کر دیتی تھی کہ یا رسول اللہ! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں تو اپنی باری کا کسی دوسرے پر ایثار نہیں کر سکتی۔ اس روایت کی متابعت عباد بن عباد نے کی، انہوں نے عاصم سے سنا۔
يُقَالُ: إِنَاهُ: إِدْرَاكُهُ أَنَى يَأْنِي أَنَاةً فَهُوَ آنٍ، لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا: إِذَا وَصَفْتَ صِفَةَ الْمُؤَنَّثِ قُلْتَ قَرِيبَةً وَإِذَا جَعَلْتَهُ ظَرْفًا وَبَدَلًا وَلَمْ تُرِدِ الصِّفَةَ نَزَعْتَ الْهَاءَ مِنَ الْمُؤَنَّثِ، وَكَذَلِكَ لَفْظُهَا فِي الْوَاحِدِ وَالِاثْنَيْنِ وَالْجَمِيعِ لِلذَّكَرِ وَالْأُنْثَى.
«إناه» کا معنی کھانا تیار ہونا پکنا یہ «أنى يأني أناة» سے نکلا ہے۔ «لعل الساعة تكون قريبا» قیاس تو یہ تھا کہ «قريبة» کہتے مگر«قريب» کا لفظ جب مؤنث کی صفت ہو تو اسے «قريبة» کہتے ہیں اور جب وہ ظرف یا اسم ہوتا ہے اور صفت مراد نہیں ہوتی تو ہائے تانیث نکال ڈالتے ہیں «قريب» کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں واحد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث سب برابر ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُلْتُ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم اتارا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ دَعَا الْقَوْمَ، فَطَعِمُوا، ثُمَّ جَلَسُوا يَتَحَدَّثُونَ، وَإِذَا هُوَ كَأَنَّهُ يَتَهَيَّأُ لِلْقِيَامِ، فَلَمْ يَقُومُوا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ، فَلَمَّا قَامَ قَامَ مَنْ قَامَ وَقَعَدَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَدْخُلَ، فَإِذَا الْقَوْمُ جُلُوسٌ، ثُمَّ إِنَّهُمْ قَامُوا، فَانْطَلَقْتُ، فَجِئْتُ فَأَخْبَرْتُ، النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدِ انْطَلَقُوا، فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ، فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ، فَأَلْقَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 53 الْآيَةَ".
ہم سے محمد بن عبداللہ رقاشی نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا ہم سے ابومجلز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو قوم کو آپ نے دعوت ولیمہ دی، کھانا کھانے کے بعد لوگ (گھر کے اندر ہی) بیٹھے (دیر تک) باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا گویا آپ اٹھنا چاہتے ہیں (تاکہ لوگ سمجھ جائیں اور اٹھ جائیں) لیکن کوئی بھی نہیں اٹھا، جب آپ نے دیکھا کہ کوئی نہیں اٹھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو گئے، لیکن تین آدمی اب بھی بیٹھے رہ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے اندر جانے کے لیے آئے تو دیکھا کہ کچھ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ بھی اٹھ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر خبر دی کہ وہ لوگ بھی چلے گئے ہیں تو آپ اندر تشریف لائے۔ میں نے بھی چاہا کہ اندر جاؤں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے بیچ میں دروازہ کا پردہ گرا لیا، اس کے بعد آیت (مذکورہ بالا) نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي» کہ اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: "أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الْآيَةِ آيَةِ الْحِجَابِ لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ مَعَهُ فِي الْبَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا، وَدَعَا الْقَوْمَ فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ، ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ إِلَى قَوْلِهِ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الأحزاب آية 53، فَضُرِبَ الْحِجَابُ، وَقَامَ الْقَوْمُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس آیت یعنی آیت پردہ (کے شان نزول) کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں، جب زینب رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور وہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر ہی میں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تیار کروایا اور قوم کو بلایا (کھانے سے فارغ ہونے کے بعد) لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر جاتے اور پھر اندر آتے (تاکہ لوگ اٹھ جائیں) لیکن لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه» کہ اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں (کھانے کے لیے) آنے کی اجازت دی جائے۔ ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «من وراء حجاب» تک اس کے بعد پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ کھڑے ہو گئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بُنِيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ بِخُبْزٍ وَلَحْمٍ، فَأُرْسِلْتُ عَلَى الطَّعَامِ دَاعِيًا، فَيَجِيءُ قَوْمٌ، فَيَأْكُلُونَ وَيَخْرُجُونَ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ فَيَأْكُلُونَ وَيَخْرُجُونَ، فَدَعَوْتُ حَتَّى مَا أَجِدُ أَحَدًا أَدْعُو، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا أَجِدُ أَحَدًا أَدْعُوهُ، قَالَ: "ارْفَعُوا طَعَامَكُمْ"، وَبَقِيَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ يَتَحَدَّثُونَ فِي الْبَيْتِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَقَالَ: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ"، فَقَالَتْ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، فَتَقَرَّى حُجَرَ نِسَائِهِ كُلِّهِنَّ، يَقُولُ لَهُنَّ كَمَا يَقُولُ لِعَائِشَةَ، وَيَقُلْنَ لَهُ كَمَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا ثَلَاثَةٌ مِنْ رَهْطٍ فِي الْبَيْتِ يَتَحَدَّثُونَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَدِيدَ الْحَيَاءِ، فَخَرَجَ مُنْطَلِقًا نَحْوَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَمَا أَدْرِي أَخْبَرْتُهُ أَوْ أُخْبِرَ أَنَّ الْقَوْمَ خَرَجُوا، فَرَجَعَ حَتَّى إِذَا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي أُسْكُفَّةِ الْبَابِ دَاخِلَةً وَأُخْرَى خَارِجَةً أَرْخَى السِّتْرَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ وَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد (بطور ولیمہ) گوشت اور روٹی تیار کروائی اور مجھے کھانے پر لوگوں کو بلانے کے لیے بھیجا، پھر کچھ لوگ آئے اور کھا کر واپس چلے گئے۔ پھر دوسرے لوگ آئے اور کھا کر واپس چلے، میں بلاتا رہا۔ آخر جب کوئی باقی نہیں رہا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اب تو کوئی باقی نہیں رہا جس کو میں دعوت دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب دستر خوان اٹھا لو لیکن تین اشخاص گھر میں باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے سامنے جا کر فرمایا السلام علیکم اہل البیت ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، اپنی اہل کو آپ نے کیسا پایا؟ اللہ برکت عطا فرمائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح تمام ازواج مطہرات کے حجروں کے سامنے گئے اور جس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا اس طرح سب سے فرمایا اور انہوں نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح جواب دیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو وہ تین آدمی اب بھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمبہت زیادہ حیاء دار تھے، آپ (یہ دیکھ کر کہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف پھر چلے گئے، مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد میں نے یا کسی اور نے آپ کو جا کر خبر کی کہ اب وہ تینوں آدمی روانہ ہو چکے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب واپس تشریف لائے اور پاؤں چوکھٹ پر رکھا۔ ابھی آپ کا ایک پاؤں اندر تھا اور ایک پاؤں باہر کہ آپ نے پردہ گرا لیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "أَوْلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَنَى بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَأَشْبَعَ النَّاسَ خُبْزًا وَلَحْمًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى حُجَرِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ صَبِيحَةَ بِنَائِهِ، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِنَّ، وَيُسَلِّمْنَ عَلَيْهِ، وَيَدْعُو لَهُنَّ، وَيَدْعُونَ لَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ رَأَى رَجُلَيْنِ جَرَى بِهِمَا الْحَدِيثُ، فَلَمَّا رَآهُمَا رَجَعَ عَنْ بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَأَى الرَّجُلَانِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ عَنْ بَيْتِهِ، وَثَبَا مُسْرِعَيْنِ، فَمَا أَدْرِي أَنَا أَخْبَرْتُهُ بِخُرُوجِهِمَا أَمْ أُخْبِرَ، فَرَجَعَ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ وَأَرْخَى السِّتْرَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ. وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعَ أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن بکر سہمی نے خبر دی، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح پر دعوت ولیمہ کی اور گوشت اور روٹی لوگوں کو کھلائی۔ پھر امہات المؤمنین کے حجروں کی طرف گئے، جیسا کہ آپ کا معمول تھا کہ نکاح کی صبح کو آپ جایا کرتے تھے، آپ انہیں سلام کرتے اور ان کے حق میں دعا کرتے اور امہات المؤمنین بھی آپ کو سلام کرتیں اور آپ کے لیے دعا کرتیں۔ امہات المؤمنین کے حجروں سے جب آپ اپنے حجرہ میں واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ جب آپ نے انہیں بیٹھے ہوئے دیکھا تو پھر آپ حجرہ سے نکل گئے۔ ان دونوں نے جب دیکھا کہ اللہ کے نبی اپنے حجرہ سے واپس چلے گئے ہیں تو بڑی جلدی جلدی وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے چلے جانے کی اطلاع دی یا کسی اور نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور گھر میں آتے ہی دروازہ کا پردہ گرا لیا اور آیت حجاب نازل ہوئی۔ اور سعید ابن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم کو یحی ٰبن کثیر نے خبر دی، کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا۔
حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "خَرَجَتْ سَوْدَةُ بَعْدَ مَا ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً جَسِيمَةً لَا تَخْفَى عَلَى مَنْ يَعْرِفُهَا، فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا سَوْدَةُ، أَمَا وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا، فَانْظُرِي كَيْفَ تَخْرُجِينَ ؟ قَالَتْ: فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَإِنَّهُ لَيَتَعَشَّى، وَفِي يَدِهِ عَرْقٌ، فَدَخَلَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَقَالَ لِي عُمَرُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَتْ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ، ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَإِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ، فَقَالَ: "إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ".
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لیے نکلیں وہ بہت بھاری بھر کم تھیں جو انہیں جانتا تھا اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ راستے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور کہا کہ اے سودہ! ہاں اللہ کی قسم! آپ ہم سے اپنے آپ کو نہیں چھپا سکتیں دیکھئیے تو آپ کس طرح باہر نکلی ہیں۔ بیان کیا کہ سودہ رضی اللہ عنہا الٹے پاؤں وہاں سے واپس آ گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرہ میں تشریف رکھتے تھے اور رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہ رضی اللہ عنہا نے داخل ہوتے ہی کہا: یا رسول اللہ! میں قضائے حاجت کے لیے نکلی تھی تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے مجھ سے باتیں کیں، بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی، ہڈی اب بھی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اسے رکھا نہیں تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں (اللہ کی طرف سے) قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ أَفْلَحُ أَخُوأَبِي الْقُعَيْسِ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَقُلْتُ: لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ فِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ أَخَاهُ أَبَا الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَمَا مَنَعَكِ أَنْ تَأْذَنِي عَمُّكِ ؟"قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ، فَقَالَ: "ائْذَنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّكِ تَرِبَتْ يَمِينُكِ"، قَالَ عُرْوَةُ: فَلِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: حَرِّمُوا مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا تُحَرِّمُونَ مِنَ النَّسَبِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل نہ لے لوں، ان سے نہیں مل سکتی۔ میں نے سوچا کہ ان کے بھائی ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ابوالقعیس کی بیوی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمتشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے یہ کہلوا دیا کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے چچا سے ملنے سے تم نے کیوں انکار کر دیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ان کی بیوی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں۔ عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی وہ چیز یں (مثلاً نکاح وغیرہ)حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں۔
قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: صَلَاةُ اللَّهِ ثَنَاؤُهُ عَلَيْهِ عِنْدَ الْمَلَائِكَةِ وَصَلَاةُ الْمَلَائِكَةِ الدُّعَاءُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُصَلُّونَ: يُبَرِّكُونَ، لَنُغْرِيَنَّكَ: لَنُسَلِّطَنَّكَ.
ابو العالیہ نے کہا لفظ «صلاة» کی نسبت اگر اللہ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نبی کی فرشتوں کے سامنے ثناء و تعریف کرتا ہے اور اگر ملائکہ کی طرف ہو تو دعا رحمت اس سے مراد لی جاتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (آیت میں) «يصلون»بمعنی برکت کی دعا کرنے کے ہے۔ «لنغرينك» ای «لنسلطنك» ۔ یعنی ہم تجھ کو ضرور ان پر مسلط کر دیں گے۔
حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ ؟ قَالَ: "قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
مجھ سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے اور ان سے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے، لیکن آپ پر «صلاة» کا کیا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو «اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد".» ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا التَّسْلِيمُ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ: "قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ". قَالَ أَبُو صَالِحٍ: عَنْ اللَّيْثِ: عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن الہاد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے۔ لیکن «صلاة» (درود) بھیجنے کا کیا طریقہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو «اللهم صل على محمد عبدك ورسولك، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم» ۔ ابوصالح نے بیان کیا کہ اور ان سے لیث بن سعد نے (ان الفاظ کے ساتھ) «على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم» کے الفاظ روایت کئے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ، وَقَالَ: كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَآلِ إِبْرَاهِيمَ.
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، اور ان سے یزید نے اور انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ «كما صليت على إبراهيم، وبارك على محمد وآل محمد كما باركت على إبراهيم وآل إبراهيم» اس روایت میں ذرا لفظوں میں کمی بیشی ہے اور ان الفاظ میں بھی یہ درود پڑھنا جائز ہے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا، وَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے باحیاء تھے، انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها» کہ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایذا پہنچائی تھی، سو اللہ نے انہیں بَری ثابت کر دیا اور اللہ کے نزدیک وہ بڑے عزت والے تھے۔
يُقَالُ: مُعَاجِزِينَ: مُسَابِقِينَ، بِمُعْجِزِينَ: بِفَائِتِينَ، مُعَاجِزِيَّ: مُسَابِقِيَّ، سَبَقُوا: فَاتُوا، لَا يُعْجِزُونَ: لَا يَفُوتُونَ، يَسْبِقُونَا: يُعْجِزُونَا، وَقَوْلُهُ: بِمُعْجِزِينَ سورة الأنعام آية 134: بِفَائِتِينَ وَمَعْنَى، مُعَاجِزِينَ: مُغَالِبِينَ يُرِيدُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنْ يُظْهِرَ عَجْزَ صَاحِبِهِ مِعْشَارٌ عُشْرٌ، يُقَالُ: الْأُكُلُ الثَّمَرُ، بَاعِدْ: وَبَعِّدْ وَاحِدٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لا يَعْزُبُ سورة سبأ آية 3: لَا يَغِيبُ سَيْلَ الْعَرِمِ السُّدُّ مَاءٌ أَحْمَرُ أَرْسَلَهُ اللَّهُ فِي السُّدِّ فَشَقَّهُ وَهَدَمَهُ وَحَفَرَ، الْوَادِيَ، فَارْتَفَعَتَا عَنِ الْجَنْبَيْنِ، وَغَابَ عَنْهُمَا الْمَاءُ فَيَبِسَتَا، وَلَمْ يَكُنِ الْمَاءُ الْأَحْمَرُ مِنَ السُّدِّ، وَلَكِنْ كَانَ عَذَابًا أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَيْثُ شَاءَ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ: الْعَرِمُ الْمُسَنَّاةُ بِلَحْنِ أَهْلِ الْيَمَنِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْعَرِمُ الْوَادِي السَّابِغَاتُ الدُّرُوعُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يُجَازَى يُعَاقَبُ، أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ: بِطَاعَةِ اللَّهِ، مَثْنَى وَفُرَادَى: وَاحِدٌ وَاثْنَيْنِ، التَّنَاوُشُ: الرَّدُّ مِنَ الْآخِرَةِ إِلَى الدُّنْيَا، وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ: مِنْ مَالٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ زَهْرَةٍ، بِأَشْيَاعِهِمْ: بِأَمْثَالِهِمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَالْجَوَابِ: كَالْجَوْبَةِ مِنَ الْأَرْضِ الْخَمْطُ الْأَرَاكُ وَالْأَثَلُ الطَّرْفَاءُ الْعَرِمُ الشَّدِيدُ.
«معاجزين» کے معنی آگے بڑھنے والے۔ «بمعجزين» ہمارے ہاتھ سے نکل جانے والے۔ «سبقوا» کے معنی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ «لا يعجزون» ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے۔ «يسبقونا» ہم کو عاجز کر سکیں گے۔ «بمعجزين» عاجز کرنے والے (جیسے مشہور قرآت ہے) اور «معاجزين» (جو دوسری قرآت ہے) اس کا معنی ایک دوسرے پر غلبہ ڈھونڈنے والے ایک دوسرے کا عجز ظاہر کرنے والے۔ «معشار» کا معنی دسواں حصہ۔ «لأكل» پھل۔ «باعد» (جیسے مشہور قرآت ہے) اور «بعد» جو ابن کثیر کی قرآت ہے دونوں کا معنی ایک ہے اور مجاہد نے کہا «لا يعزب» کا معنی اس سے غائب نہیں ہوتا۔ «العرم» وہ بند یا ایک لال پانی تھا جس کو اللہ پاک نے بند پر بھیجا وہ پھٹ کر گر گیا اور میدان میں گڑھا پڑ گیا۔ باغ دونوں طرف سے اونچے ہو گئے پھر پانی غائب ہو گیا۔ دونوں باغ سوکھ گئے اور یہ لال پانی بند میں سے بہہ کر نہیں آیا تھا بلکہ اللہ کا عذاب تھا جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا اور عمرو بن شرحبیل نے کہا «عرم» کہتے ہیں بند کو یمن والوں کی زبان میں۔ دوسروں نے کہا کہ «عرم» کے معنی نالے کے ہیں۔ «السابغات» کے معنی زرہیں۔ مجاہد نے کہا۔«يجازى» کے معنی عذاب دیئے جاتے ہیں۔ «أعظكم بواحدة» یعنی میں تم کو اللہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ «مثنى» دو دو کو۔ «فرادى» ایک ایک کو کہتے ہیں۔ «التناوش» آخرت سے پھر دنیا میں آنا (جو ممکن نہیں ہے)۔ «ما يشتهون» ان کی خواہشات مال و اولاد دنیا کی زیب و زینت۔ «بأشياعهم» ان کی جوڑ والے دوسرے کافر۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كالجواب» جیسے پانی بھرنے کے گڑھے جیسے «جوبته» کہتے ہیں حوض کو۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ «جواب» اور «جوبة» کا مادہ ایک ہے کیونکہ «جوابى» ، «جابية» کا جمع ہے۔ اس کا عین کلمہ ب اور «جوبة» کا عین کلمہ واؤ ہے۔ «خمط» پیلو کا درخت۔ «لأثل» جھاؤ کا درخت۔ «العرم» سخت زور کی (بارش)۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: "إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا ؟ قَالَ: رَبُّكُمْ، قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ، فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ، فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سن بھاگتے ہیں، شیطان آسمان کے نیچے یوں نیچے اوپر ہوتے ہیں، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیطان ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ ساحر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آ ڈبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے (ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نہیں کہا تھا، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ: "يَا صَبَاحَاهْ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، قَالُوا: مَا لَكَ ؟ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ يُصَبِّحُكُمْ أَوْ يُمَسِّيكُمْ أَمَا كُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا: یا صباحاہ! (لوگو دوڑو) اس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخ) سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب (مردود) بولا تو ہلاک ہو جا، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔ اس پر اللہ پاک نے آیت «تبت يدا أبي لهب» نازل فرمائی۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: الْقِطْمِيرُ لِفَافَةُ النَّوَاةِ، مُثْقَلَةٌ: مُثَقَّلَةٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْحَرُورُ بِالنَّهَارِ مَعَ الشَّمْسِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْحَرُورُ بِاللَّيْلِ وَالسَّمُومُ بِالنَّهَارِ، وَغَرَابِيبُ: أَشَدُّ سَوَادٍ الْغِرْبِيبُ الشَّدِيدُ السَّوَادِ.
مجاہد نے کہا «قطمير» گیملی کا چھاح (گٹھلی کا چھلکا یا پردہ)۔ «مثقلة» بھاری بوجھ، لدا ہوا۔ اوروں نے کہا «حرور» دن کی گرمی جب سورج نکلا ہو اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حرور» رات کی گرمی اور «سموم» دن کی گرمی۔ «غرابيب» ، «غربيب» کی جمع ہے بہت کالے کالے بالکل سیاہ۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: فَعَزَّزْنَا: شَدَّدْنَا، يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ: كَانَ حَسْرَةً عَلَيْهِمُ اسْتِهْزَاؤُهُمْ بِالرُّسُلِ، أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ: لَا يَسْتُرُ ضَوْءُ أَحَدِهِمَا ضَوْءَ الْآخَرِ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُمَا ذَلِكَ، سَابِقُ النَّهَارِ: يَتَطَالَبَانِ حَثِيثَيْنِ، نَسْلَخُ: نُخْرِجُ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، وَيَجْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مِنْ مِثْلِهِ: مِنَ الْأَنْعَامِ، فَكِهُونَ: مُعْجَبُونَ، جُنْدٌ مُحْضَرُونَ: عِنْدَ الْحِسَابِ، وَيُذْكَرُ عَنْ عِكْرِمَةَ: الْمَشْحُونِ: الْمُوقَرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: طَائِرُكُمْ: مَصَائِبُكُمْ، يَنْسِلُونَ: يَخْرُجُونَ، مَرْقَدِنَا: مَخْرَجِنَا، أَحْصَيْنَاهُ: حَفِظْنَاهُ مَكَانَتُهُمْ وَمَكَانُهُمْ وَاحِدٌ.
اور مجاہد نے کہا کہ «فعززنا» ای «شددنا» یعنی ہم نے زور دیا۔ «يا حسرة على العباد» یعنی قیامت کے دن کافر اس پر افسوس کریں گے (یا فرشتے افسوس کریں گے) کہ انہوں نے دنیا میں پیغمبروں پر ٹھٹھا مارا۔ «أن تدرك القمر» کا یہ مطلب ہے کہ سورج چاند کی روشنی نہیں چھپاتا اور نہ چاند سورج کی۔ «سابق النهار» کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے پیچھے رواں دواں ہیں۔ «نسلخ» ہم رات میں سے دن نکال لیتے ہیں اور دونوں چل رہے ہیں۔ «وخلقنالهم من مثله» سے مراد چوپائے ہیں۔ «فكهون» خوش و خرم (یا دل لگی کر رہے ہوں گے) «جند محضرون» یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے۔ اور عکرمہ سے منقول ہے «مشحون» کا معنی بوجھل، لدی ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «طائركم» یعنی تمہاری مصیبتیں (یا تمہارا نصیبہ)۔ «ينسلون» کا معنی نکل پڑیں گے۔«مرقدنا» نکلنے کی جگہ سے (خوابگاہ یعنی قبر سے)۔ «أحصيناه» ہم نے اس کو محفوظ کر لیا ہے۔ «مكانتهم» اور «مكانهم» دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی اپنے ٹھکانوں میں، گھروں میں۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَقَالَ: "يَا أَبَا ذَرٍّ، أَتَدْرِي أَيْنَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ سورة يس آية 38".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آفتاب غروب ہونے کے وقت میں مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر! تمہیں معلوم ہے یہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کہ اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ زبردست علم والے کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38، قَالَ: "مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان «والشمس تجري لمستقر لها» اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے۔ کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ: مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ: يُرْمَوْنَ، وَاصِبٌ: دَائِمٌ لَازِبٌ لَازِمٌ، تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ: يَعْنِي الْحَقَّ الْكُفَّارُ تَقُولُهُ لِلشَّيْطَانِ، غَوْلٌ: وَجَعُ بَطْنٍ، يُنْزَفُونَ: لَا تَذْهَبُ عُقُولُهُمْ، قَرِينٌ: شَيْطَانٌ، يُهْرَعُونَ: كَهَيْئَةِ الْهَرْوَلَةِ، يَزِفُّونَ: النَّسَلَانُ فِي الْمَشْيِ، وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا: قَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ الْمَلَائِكَةُ بَنَاتُ اللَّهِ، وَأُمَّهَاتُهُمْ بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ: سَتُحْضَرُ لِلْحِسَابِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَنَحْنُ الصَّافُّونَ: الْمَلَائِكَةُ، صِرَاطِ الْجَحِيمِ: سَوَاءِ الْجَحِيمِ وَوَسَطِ الْجَحِيمِ، لَشَوْبًا: يُخْلَطُ طَعَامُهُمْ وَيُسَاطُ بِالْحَمِيمِ، مَدْحُورًا: مَطْرُودًا، بَيْضٌ مَكْنُونٌ: اللُّؤْلُؤُ الْمَكْنُونُ، وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ: يُذْكَرُ بِخَيْرٍ، وَيُقَالُ: يَسْتَسْخِرُونَ: يَسْخَرُونَ، بَعْلًا: رَبًّا.
مجاہد نے کہا (سورۃ سبا میں جو ہے) «ويقذفون بالغيب من مكان بعيد» اس کا مطلب یہ ہے کہ دور ہی سے غیب کے گولے پھینکتے رہتے ہیں۔ اور «يقذفون من كل جانب» کا مطلب یہ ہے کہ شیطانوں پر ہر طرف سے مار پڑتی ہے۔ «ولهم عذاب واصب» یعنی ہمیشہ کا عذاب (یا سخت عذاب)۔ «تأتوننا عن اليمين» کا مطلب یہ ہے کہ کافر شیطانوں سے کہیں گے تم حق بات کی طرف سے ہمارے پاس آتے تھے۔ «غول» کا معنی پیٹ کا درد (یا سر کا درد)۔ «ولا هم ينزفون» اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ «قرين» شیطان۔«يهرعون» دوڑائے جاتے ہیں۔ «يزفون» نزدیک نزدیک پاؤں رکھ کر دوڑ رہے ہیں۔ «وبين الجنة نسبا» قریش کے کافر فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیوں (پریوں) کو قرار دیتے تھے۔ «ولقد علمت الجنة إنهم لمحضرون» یعنی جنوں کو معلوم ہے کہ ان کو قیامت کے دن حساب کے لیے حاضر ہونا پڑے گا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لنحن الصافون» یہ فرشتوں کا قول ہے۔ «صراط الجحيم» ، «سواء الجحيم» دونوں کے معنی «وسط الجحيم» کے ہیں یعنی جہنم کے بیچوں بیچ۔ «لشوبا من حمیم»یعنی ان کے کھانے میں گرم کھولتے ہوئے پانی کی ملونی کی جائے گی۔ «مدحورا» دھتکارا ہوا۔ «بيض مكنون» بندھے ہوئے موتی۔«وتركنا عليه في الآخرين» اس کا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں باقی رکھا۔ «يستسخرون» ٹھٹھا کرتے ہیں۔ «بعلا» کے معنی رب، معبود(یمن والوں کی لغت میں)۔ «اسباب» سے آسمان مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَكُونَ خَيْرًا مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، عَنْعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ".
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے بنی عامر بن لوی کے ہلال بن علی نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْعَوَّامِ، قَالَ: "سَأَلْتُ مُجَاهِدًا عَنِ السَّجْدَةِ فِي ص ؟ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ سورة الأنعام آية 90، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْجُدُ فِيهَا.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عوام بن حوشب نے کہ میں نے مجاہد سے سورۃ ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سوال ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی کیا گیا تھا تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی «أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده» یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تھی پس آپ بھی انہی کی ہدایت کی اتباع کریں۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، عَنْ الْعَوَّامِ، قَالَ: "سَأَلْتُ مُجَاهِدًا عَنْ سَجْدَةٍ فِي ص ؟ فَقَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ أَيْنَ سَجَدْتَ ؟ فَقَالَ: أَوَ مَا تَقْرَأُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ سورة الأنعام آية 90، فَكَانَ دَاوُدُ مِمَّنْ أُمِرَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْتَدِيَ بِهِ، فَسَجَدَهَا دَاوُدُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَسَجَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے محمد بن عبداللہ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبید طنافسی نے، ان سے عوام بن حوشب نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سورۃ ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ اس سورت میں آیت سجدہ کے لیے دلیل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کیا تم (سورت انعام) میں یہ نہیں پڑھتے «ومن ذريته داود وسليمان» کہ اور ان کی نسل سے داؤد اور سلیمان ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے یہ ہدایت دی تھی، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی اتباع کریں۔ داؤد علیہ السلام بھی ان میں سے تھے جن کی اتباع کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا (چونکہ داؤد علیہ السلام کے سجدہ کا اس میں ذکر ہے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر سجدہ کیا)۔ «عجاب» کا معنی عجیب۔ «القط» کہتے ہیں کاغذ کے ٹکڑے (پرچے) کو یہاں نیکیوں کا پرچہ مراد ہے (یا حساب کا پرچہ)۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے کہا «في عزة» کا معنی یہ ہے کہ وہ شرارت و سرکشی کرنے والے ہیں۔«الملة الآخرة» سے مراد قریش کا دین ہے۔ «اختلاق» سے مراد جھوٹ۔ «الأسباب» آسمان کے راستے، دروازے مراد ہیں۔ «جند ما هنالك مهزوم» الایۃ سے قریش کے لوگ مراد ہیں۔ «أولئك الأحزاب» سے اگلی امتیں مراد ہیں۔ جن پر اللہ کا عذاب اترا۔ «فواق» کا معنی پھرنا، لوٹنا۔ «عجل لنا قطنا» میں «قط» سے عذاب مراد ہے۔ «اتخذناهم سخريا» ہم نے ان کو ٹھٹھے میں گھیر لیا تھا۔ «أتراب»جوڑ والے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أيد» کا معنی عبادت کی قوت۔ «الأبصار» اللہ کے کاموں کو غور سے دیکھنے والے۔«حب الخير عن ذكر ربي» میں «عن من» کے معنی میں ہے۔ «طفق مسحا» گھوڑوں کے پاؤں اور ایال پر محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ یا بقول بعض تلوار سے ان کو کاٹنے لگے۔ «الأصفاد» کے معنی زنجیریں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلَاةَ، فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ وَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي سورة ص آية 35، قَالَ رَوْحٌ: فَرَدَّهُ خَاسِئًا.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ اور محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جِن اچانک میرے پاس آیا، یا اسی طرح کا کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تاکہ میری نماز خراب کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے سوچا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب لوگ بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی «رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي» کہ اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ روح نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جِن کو ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ الدُّخَانِ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا قُرَيْشًا إِلَى الْإِسْلَامِ، فَأَبْطَئُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، فَحَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْجُلُودَ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ دُخَانًا مِنَ الْجُوعِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ 10 يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ 11 سورة الدخان آية 10-11، قَالَ فَدَعَوْا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ 12 أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ 13 ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ 14 إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ 15 سورة الدخان آية 12-15، أَفَيُكْشَفُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ قَالَ: فَكُشِفَ، ثُمَّ عَادُوا فِي كُفْرِهِمْ، فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا: اے لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہو تو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» کہ آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیں چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں۔ اور میں «دخان» (دھوئیں) کے بارے میں بتاؤں گا (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی «اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف» اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کے ذریعہ میری مدد کر۔ چنانچہ قحط پڑا اور اتنا زبردست کہ ہر چیز ختم ہو گئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم» کہ پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے۔ بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون * أنى لهم الذكرى وقد جاءهم رسول مبين * ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون * إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون» کہ اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آ چکا اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جا رہا ہے، یہ مجنون ہے، بیشک ہم تھوڑے دنوں کے لیے ان سے عذاب ہٹا لیں گے یقیناً تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤ گے کیا قیامت میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کر دیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہو گئے تو جنگ بدر میں اللہ نے انہیں پکڑا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون» کہ جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے، بلاشبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ: يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا: يَوْمَ الْقِيَامَةِ غَيْرَ، ذِي عِوَجٍ: لَبْسٍ، وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ: مَثَلٌ لِآلِهَتِهِمُ الْبَاطِلِ وَالْإِلَهِ الْحَقِّ، وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ: بِالْأَوْثَانِ خَوَّلْنَا أَعْطَيْنَا، وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ: الْقُرْآنُ، وَصَدَّقَ بِهِ: الْمُؤْمِنُ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: هَذَا الَّذِي أَعْطَيْتَنِي عَمِلْتُ بِمَا فِيهِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُتَشَاكِسُونَ: الرَّجُلُ الشَّكِسُ الْعَسِرُ لَا يَرْضَى بِالْإِنْصَافِ وَرَجُلًا سِلْمًا، وَيُقَالُ: سَالِمًا صَالِحًا، اشْمَأَزَّتْ: نَفَرَتْ، بِمَفَازَتِهِمْ: مِنَ الْفَوْزِ، حَافِّينَ: أَطَافُوا بِهِ مُطِيفِينَ بِحِفَافَيْهِ بِجَوَانِبِهِ، مُتَشَابِهًا: لَيْسَ مِنَ الْاشْتِبَاهِ وَلَكِنْ يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا فِي التَّصْدِيقِ.
مجاہد نے کہا «يتقي بوجهه» سے یہ مراد ہے کہ منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹا جائے گا جیسے اس آیت میں فرمایا «أفمن يلقى في النار خير أم من يأتي آمنا» الایۃ۔ «ذي عوج» کے معنی شبہ والا۔ «ورجلا سلما لرجل» یہ ایک مثال ہے مشرکین کے معبودان باطلہ کی اور معبود برحق کی۔ «ويخوفونك بالذين من دونه» میں «من دونه» سے مراد بت ہیں (یعنی مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے تجھ کو ڈراتے ہیں)۔ «خولنا» کے معنی ہم نے دیا۔ «والذي جاء بالصدق» سے قرآن مراد ہے اور «صدق» سے مسلمان مراد ہے جو قیامت کے دن پروردگار کے سامنے آ کر عرض کرے گا یہی قرآن ہے جو تو نے دنیا میں مجھ کو عنایت فرمایا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔«متشاكسون» ، «شكس» سے نکلا ہے «شكس» بدمزاج تکراری آدمی کو کہتے ہیں جو انصاف کی بات پسند نہ کرے۔ «سلما» اور«سالما» اچھے پورے آدمی کو کہتے ہیں۔ «اشمأزت» کے معنی نفرت کرتے ہیں، چڑتے ہیں۔ «بمفازتهم» ، «فوز.» سے نکلا ہے مراد کامیابی ہے۔ «حافين» کے معنی گردا گرد اس کے چاروں طرف۔ «متشابها» ، «اشتباه» سے نہیں بلکہ «تشابه» سے نکلا ہے یعنی اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ، قَالَ يَعْلَى: إِنَّ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ كَانُوا قَدْ قَتَلُوا، وَأَكْثَرُوا، وَزَنَوْا، وَأَكْثَرُوا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّ الَّذِي تَقُولُ وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَنَزَلَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية 68، وَنَزَلَ: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ سورة الزمر آية 53".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا، انہیں سعید بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری بھی کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں (یعنی اسلام) یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون» اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ اور یہ آیت نازل ہوئی «قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله» آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا مُحَمَّدُ، إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلَائِقِ عَلَى إِصْبَعٍ، فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ سورة الزمر آية 67".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون» اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے، وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابوسلمہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ قیامت کے دن اللہ ساری زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا «أنا الملك، أين ملوك الأرض» آج حکومت صرف میری ہے، دنیا کے بادشاہ آج کہاں ہیں؟
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنِّي أَوَّلُ مَنْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ بَعْدَ النَّفْخَةِ الْآخِرَةِ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى مُتَعَلِّقٌ بِالْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَذَلِكَ كَانَ أَمْ بَعْدَ النَّفْخَةِ".
مجھ سے حسن نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرحیم نے خبر دی، انہیں زکریا بن ابی زائدہ نے، انہیں عامر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری مرتبہ صور پھونکے جانے کے بعد سب سے پہلے اپنا سر اٹھانے والا میں ہوں گا لیکن اس وقت میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ عرش کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ پہلے ہی سے اسی طرح تھے یا دوسرے صور کے بعد (مجھ سے پہلے) اٹھ کر عرش الٰہی کو تھام لیں گے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ"، قَالُوا: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَرْبَعُونَ يَوْمًا ؟ قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ شَهْرًا، قَالَ: أَبَيْتُ، وَيَبْلَى كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا عَجْبَ ذَنَبِهِ فِيهِ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابوصالح سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا: کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا: چالیس سال؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: چالیس مہینے؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی، سوا ریڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: مَجَازُهَا مَجَازُ أَوَائِلِ السُّوَرِ. وَيُقَالُ بَلْ هُوَ اسْمٌ لِقَوْلِ شُرَيْحِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْعَبْسِيِّ يُذَكِّرُنِي: حَامِيمَ وَالرُّمْحُ شَاجِرٌ ** فَهَلاَّ تَلاَ حَامِيمَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ الطَّوْلُ التَّفَضُّلُ دَاخِرِينَ خَاضِعِينَ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: إِلَى النَّجَاةِ الإِيمَانِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ يَعْنِي الْوَثَنَ يُسْجَرُونَ تُوقَدُ بِهِمِ النَّارُ. تَمْرَحُونَ تَبْطَرُونَ. وَكَانَ الْعَلاَءُ بْنُ زِيَادٍ يُذَكِّرُ النَّارَ، فَقَالَ رَجُلٌ لِمَ تُقَنِّطُ النَّاسَ قَالَ وَأَنَا أَقْدِرُ أَنْ أُقَنِّطَ النَّاسَ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ وَيَقُولُ: وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ وَلَكِنَّكُمْ تُحِبُّونَ أَنْ تُبَشَّرُوا بِالْجَنَّةِ عَلَى مَسَاوِئِ أَعْمَالِكُمْ، وَإِنَّمَا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبَشِّرًا بِالْجَنَّةِ لِمَنْ أَطَاعَهُ، وَمُنْذِرًا بِالنَّارِ مَنْ عَصَاهُ.
مجاہد نے کہا «حم» کا معنی اللہ کو معلوم ہے جیسے دوسری سورتوں میں جو حروف مقطعات شروع میں آئے ہیں ان کے متعلق حقیقی معانی صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ بعضوں نے کہا «حم» قرآن یا سورت کا نام ہے جیسے شریح ابن ابی اوفی عبسی اس شعر میں کہتا ہے جبکہ نیزہ جنگ میں چلنے لگا۔ پڑھتا ہے «حم» پہلے پڑھنا تھا۔ «الطول» کے معنی احسان اور فضل کرنا۔ «داخرين» کے معنی ذلیل و خوار ہو کر۔ مجاہد نے کہا «ادعوکم الی النجاة» سے ایمان مراد ہے۔ «ليس له دعوة» یعنی بت کسی کی دعا قبول نہیں کر سکتا۔ «يسجرون» کے معنی وہ دوزخ کے ایندھن بنیں گے۔ «تمرحون» کے معنی تم اتراتے تھے۔ اور علاء بن زیاد مشہور تابعی و مشہور زاہد لوگوں کو دوزخ سے ڈرا رہے تھے، ایک شخص کہنے لگا لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا میں لوگوں کو اللہ کی رحمت سے ناامید کیسے کر سکتا ہوں میری کیا طاقت ہے۔ اللہ پاک تو فرماتا ہے «يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله» اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (گناہ کئے) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ اس کے ساتھ اللہ یوں بھی فرماتا ہے «وأن المسرفين هم أصحاب النار» کہ گنہگار دوزخی ہیں مگر میں سمجھ گیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ برے کام کرتے رہو اور جنت کی خوشخبری تم کو ملتی جائے۔ اللہ نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکیوں پر خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کے لیے دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوَى ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ، فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ، وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، آپ نے بیان کیا کہمیں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔
وَقَالَ طَاوُسٌ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ائْتِيَا طَوْعًا، أَوْ كَرْهًا أَعْطِيَا، قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ: أَعْطَيْنَا، وَقَالَ الْمِنْهَالُ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي أَجِدُ فِي الْقُرْآنِ أَشْيَاءَ تَخْتَلِفُ عَلَيَّ، قَالَ: فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ، وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ، وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا، وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ، فَقَدْ كَتَمُوا فِي هَذِهِ الْآيَةِ: وَقَالَ أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا إِلَى قَوْلِهِ دَحَاهَا سورة النازعات آية 27 - 30، فَذَكَرَ خَلْقَ السَّمَاءِ قَبْلَ خَلْقِ الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ إِلَى قَوْلِهِ طَائِعِينَ سورة فصلت آية 9 - 11، فَذَكَرَ فِي هَذِهِ خَلْقَ الْأَرْضِ قَبْلَ خَلْقِ السَّمَاءِ، وَقَالَ: وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا، عَزِيزًا حَكِيمًا سَمِيعًا بَصِيرًا فَكَأَنَّهُ كَانَ، ثُمَّ مَضَى، فَقَالَ: فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ، فِي النَّفْخَةِ الْأُولَى، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ، وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ، ثُمَّ فِي النَّفْخَةِ الْآخِرَةِ أَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ وَأَمَّا قَوْلُهُ مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ، وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ: حَدِيثًا فَإِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ لِأَهْلِ الْإِخْلَاصِ ذُنُوبَهُمْ، وَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: تَعَالَوْا نَقُولُ لَمْ نَكُنْ مُشْرِكِينَ فَخُتِمَ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ فَتَنْطِقُ أَيْدِيهِمْ فَعِنْدَ ذَلِكَ عُرِفَ أَنَّ اللَّهَ لَا يُكْتَمُ حَدِيثًا وَعِنْدَهُ، يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا الْآيَةَ: وَخَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَاءَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ فِي يَوْمَيْنِ آخَرَيْنِ ثُمَّ دَحَا: الْأَرْضَ وَدَحْوُهَا أَنْ أَخْرَجَ مِنْهَا الْمَاءَ وَالْمَرْعَى وَخَلَقَ الْجِبَالَ وَالْجِمَالَ وَالْآكَامَ، وَمَا بَيْنَهُمَا فِي يَوْمَيْنِ آخَرَيْنِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ دَحَاهَا وَقَوْلُهُ: خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ: فَجُعِلَتِ الْأَرْضُ وَمَا فِيهَا مِنْ شَيْءٍ فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ وَخُلِقَتِ السَّمَوَاتُ فِي يَوْمَيْنِ، وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا: سَمَّى نَفْسَهُ ذَلِكَ وَذَلِكَ قَوْلُهُ أَيْ لَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُرِدْ شَيْئًا إِلَّا أَصَابَ بِهِ الَّذِي أَرَادَ فَلَا يَخْتَلِفْ عَلَيْكَ الْقُرْآنُ، فَإِنَّ كُلًّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ الْمِنْهَالِ بِهَذَا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ: مَحْسُوبٍ، أَقْوَاتَهَا: أَرْزَاقَهَا، فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا: مِمَّا أَمَرَ بِهِ، نَحِسَاتٍ: مَشَائِيمَ، وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ: قَرَنَّاهُمْ بِهِمْ، تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ: عِنْدَ الْمَوْتِ، اهْتَزَّتْ: بِالنَّبَاتِ، وَرَبَتْ: ارْتَفَعَتْ، مِنْ أَكْمَامِهَا: حِينَ تَطْلُعُ، لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي أَيْ بِعَمَلِي أَنَا مَحْقُوقٌ بِهَذَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ: قَدَّرَهَا سَوَاءً، فَهَدَيْنَاهُمْ: دَلَلْنَاهُمْ عَلَى الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَقَوْلِهِ: وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ، وَكَقَوْلِهِ: هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ، وَالْهُدَى الَّذِي هُوَ الْإِرْشَادُ بِمَنْزِلَةِ أَصْعَدْنَاهُ وَمِنْ ذَلِكَ قَوْلُهُ: أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ، يُوزَعُونَ: يُكَفُّونَ، مِنْ أَكْمَامِهَا: قِشْرُ الْكُفُرَّى هِيَ الْكُمُّ، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَيُقَالُ لِلْعِنَبِ إِذَا خَرَجَ أَيْضًا كَافُورٌ وَكُفُرَّى، وَلِيٌّ حَمِيمٌ، الْقَرِيبُ، مِنْ مَحِيصٍ: حَاصَ عَنْهُ أَيْ حَادَ، مِرْيَةٍ: وَمُرْيَةٌ وَاحِدٌ أَيِ امْتِرَاءٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: اعْمَلُوا مَا: شِئْتُمْ هِيَ وَعِيدٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ: الصَّبْرُ عِنْدَ الْغَضَبِ وَالْعَفْوُ عِنْدَ الْإِسَاءَةِ فَإِذَا فَعَلُوهُ عَصَمَهُمُ اللَّهُ وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ.
طاؤس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا «ائتيا طوعا» کا معنی خوشی سے اطاعت قبول کرو۔ «قالتا أتينا طائعين» ہم نے خوشی خوشی اطاعت قبول کی۔ «أعطينا» ہم نے خوشی سے دیا۔ اور منہال بن عمرو اسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگا میں تو قرآن میں ایک کے ایک خلاف چند باتیں پاتا ہوں۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) بیان کر۔ وہ کہنے لگا ایک آیت میں تو یوں ہے «فلا أنساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون» قیامت کے دن ان کے درمیان کوئی رشتہ ناطہٰ باقی نہیں رہے گا اور نہ وہ باہم ایک دوسرے سے کچھ پوچھیں گے۔ دوسری آیت میں یوں ہے «وأقبل بعضهم على بعض يتساءلون» اور قیامت کے دن ان میں بعض بعض کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ (اس طرح دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک آیت میں یوں ہے «ولا يكتمون الله حديثا» وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے دوسری آیت میں ہے قیامت کے دن مشرکین کہیں گے «ربنا ما كنا مشركين» ہم اپنے رب اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مشرک ہونا چھپائیں گے (اس طرح ان دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک جگہ فرمایا«انتم اشد خلقا أم السماء بناها» آخر تک۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوا۔ پھر سورۃ حم سجدہ میں فرمایا«أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين» اس سے نکلتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے (اس طرح دونوں میں اختلاف ہے) اور فرمایا «وكان الله غفورا رحيما» اللہ بخشنے والا مہربان تھا «عزيزا حكيما» ، «سميعا بصيرا» ان کے معانی سے نکلتا ہے کہ اللہ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا، اب نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں کہا کہ یہ جو فرمایا «فلا أنساب بينهم» اس دن کوئی ناطہٰ رشتہ باقی نہ رہے گا یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بیہوش ہو جائیں گے اس وقت رشتہ ناطہٰ کچھ باقی نہ رہے گا، نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے (دہشت کے مارے سب نفسی نفسی پکاریں گے) پھر یہ جو دوسری آیت میں ہے «أقبل بعضهم على بعض» ایک دوسرے کے سامنے آ کر پوچھ تاچھ کریں گے، یہ دوسری دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد کا حال ہے (جب میدان محشر میں سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور کسی قدر ہوش ٹھکانے آئے گا) اور یہ جو مشرکین کا قول نقل کیا ہے «ربنا ما كنا مشركين» ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے اور دوسری جگہ فرمایا «ولا يكتمون الله حديثا» اللہ سے وہ کوئی بات نہ چھپا سکیں گے تو بات یہ ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن خالص توحید والوں کے گناہ بخش دے گا اور مشرکین آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے کہ چلو ہم بھی چل کر دربار الٰہی میں کہیں کہ ہم مشرک نہ تھے۔ پھر اللہ پاک ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں بولنا شروع کر دیں گے۔ اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپ نہیں سکتی اور اسی وقت کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں مسلمان ہوتے (اس طرح یہ دونوں آیتیں مختلف نہیں ہیں) اور یہ جو فرمایا«وخلق الأرض في يومين» کہ زمین کو دو دن میں پیدا کیا اس کا مطلب یہ کہ اسے پھیلایا نہیں (صرف اس کا مادہ پیدا کیا) پھر آسمان کو پیدا کیا اور دو دن میں اس کو برابر کیا (ان کے طبقات مرتب کئے) اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور اس کا پھیلانا یہ ہے کہ اس میں سے پانی نکالا، گھاس چارہ پیدا کیا، پہاڑ، جانور، اونٹ وغیرہ ٹیلے جو جو ان کے بیچ میں ہیں وہ سب پیدا کئے۔ یہ سب دو دن میں کیا۔«دحاها» کا مطلب یہ ہے کہ زمین دو دن میں پیدا ہوئی جیسے فرمایا «خلق الأرض في يومين» تو زمین مع اپنی سب چیزوں کے چار دن میں بنی اور آسمان دو دن میں بنے (اس طرح یہ اعتراض رفع ہوا) اب رہا یہ فرمانا کہ «وكان الله غفورا رحيما» میں «كان» کا مطلب ہے کہ اللہ پاک میں یہ صفات ازل سے ہیں اور یہ اس کے نام ہیں (غفور، رحیم، عزیز، حکیم، سمیع، بصیر وغیرہ) کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ حاصل کر لیتا ہے (حاصل یہ ہے کہ صفات سب قدیم ہیں گو ان کے تعلقات حادث ہوں جیسے «سمع الله» کا قدیم سے تھا مگر تعلق «سمع» کا اس وقت سے ہوا جب سے آوازیں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح اور صفات میں بھی کہیں گے) اب تو قرآن میں کوئی اختلاف نہیں رہا، اختلاف کیسے ہو گا۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے یوسف بن عدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمرو نے، انہوں نے زید بن ابی انیسہ سے، انہوں نے منہال سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (یہی روایت جو ادھر گزری ہے)۔ مجاہد نے کہا «ممنون» کا معنی حساب ہے۔ «أقواتها» یعنی بارش کا اندازہ مقرر کیا کہ ہر ملک میں کتنی بارش مناسب ہے۔ «فی کل سمآء امرها» یعنی جو حکم (اور انتظام کرنا تھا) وہ ہر آسمان سے متعلق (فرشتوں کو) بتلا دیا۔ «نحسات» منحوس، نامبارک۔ «وقيضنا لهم قرناء» کا معنی ہم نے کافروں کے ساتھ شیطان کو لگا دیا۔ «تتنزل عليهم الملائكة» یعنی موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہیں۔ «اهتزت» یعنی سبزی سے لہلہانے لگتی ہے۔ «وربت» پھول جاتی ہے، ابھر آتی ہے۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «من أكمامها» یعنی جب پھل گابھوں سے نکلتے ہیں۔«ليقولن هذا لي» یعنی یہ میرا حق ہے، میرے نیک کاموں کا بدلہ ہے۔ «سواء للسائلين» سب مانگنے والوں کے لیے اس کو یکساں رکھا۔ «فهديناهم» سے یہ مراد ہے کہ ہم نے ان کو اچھا برا دکھلایا، بتلا دیا جیسے دوسری جگہ فرمایا «وهديناه النجدين» (سورۃ البلد میں اور سورۃ الدہر میں) فرمایا «هديناه السبيل» لیکن ہدایت کا وہ معنی سیدھے اور سچے راستے پر لگا دینا، وہ «واصعاد» (یا «اسعاد») کے معنی میں ہے (سورۃ الانعام) «أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده» میں یہی معنی مراد ہیں۔ «يوزعون» روکے جائیں گے۔ «من أكمامها» میں «كم» کہتے ہیں گابھا کے چھلکے کو (یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے) اوروں نے کہا انگور جب نکلتے ہیں تو اس کو بھی «فور» اور «كفرى» کہتے ہیں۔ «ولي حميم» قریبی دوست۔ «من محيص» ، «حاص» سے نکلا ہے «حاص» کے معنی نکل بھاگا، الگ ہو گیا۔ «مرية» بکسر میم اور «مرية» بضم میم (دونوں قراتیں ہیں) دونوں کا ایک ہی معنی شک و شبہ کے ہیں اور مجاہد نے کہا«عملوا ما شئتم» میں وعید ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ادفع التي هي أحسن» سے یہ مراد ہے کہ غصے کے وقت صبر کر لو اور برائی کو معاف کر دو جب لوگ ایسے اخلاق اختیار کریں گے تو اللہ ان کو ہر آفت سے بچائے رکھے گا اور ان کے دشمن بھی عاجز ہو کر ان کے دلی دوست بن جائیں گے۔
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ، قَالَ: "كَانَ رَجُلَانِ مِنْ قُرَيْشٍ وَخَتَنٌ لَهُمَا مِنْ ثَقِيفَ أَوْ رَجُلَانِ مِنْ ثَقِيفَ وَخَتَنٌ لَهُمَا مِنْ قُرَيْشٍ فِي بَيْتٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَتُرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ حَدِيثَنَا، قَالَ بَعْضُهُمْ: يَسْمَعُ بَعْضَهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَئِنْ كَانَ يَسْمَعُ بَعْضَهُ لَقَدْ يَسْمَعُ كُلَّهُ، فَأُنْزِلَتْ: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح بن قاسم نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت «وما كنتم تستترون أن يشهد، عليكم سمعكم» اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان گواہی دیں گے۔ الخ کے متعلق کہا کہ قریش کے دو آدمی اور بیوی کی طرف سے ان کے قبیلہ ثقیب کا کوئی رشتہ دار یا ثقیف کے دو افراد تھے اور بیوی کی طرف قریش کا کوئی رشتہ دار، یہ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہو گا ایک نے کہا کہ بعض باتیں سنتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ اگر بعض باتیں سن سکتا ہے تو سب سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم» اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں گواہی دیں گی۔ آخر آیت «وذلكم ظنكم» تک۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ كَثِيرَةٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ قَلِيلَةٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتُرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ، قَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا، وَلَا يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا، فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ"، وَكَانَ سُفْيَانُ يُحَدِّثُنَا بِهَذَا، فَيَقُولُ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، أَوْ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، أَوْ حُمَيْدٌأَحَدُهُمْ، أَوِ اثْنَانِ مِنْهُمْ، ثُمَّ ثَبَتَ عَلَى مَنْصُورٍ، وَتَرَكَ ذَلِكَ مِرَارًا غَيْرَ مَرَّةٍ وَاحِدَةٍ،
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا، تمہارا کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت اتری «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم ولا جلودكم» کہ اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے گواہی دیں گے۔ آخر آیت تک۔ سفیان ہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے اور کہا کہ ہم سے منصور نے یا ابن نجیح نے یا حمید نے ان میں سے کسی ایک نے یا کسی دو نے یہ حدیث بیان کی، پھر آپ منصور ہی کا ذکر کرتے تھے اور دوسروں کا ذکر ایک سے زیادہ مرتبہ نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بِنَحْوِهِ.
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔
وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: عَقِيمًا لاَ تَلِدُ. رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا الْقُرْآنُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ نَسْلٌ بَعْدَ نَسْلٍ لاَ حُجَّةَ بَيْنَنَا لاَ خُصُومَةَ. طَرْفٍ خَفِيٍّ ذَلِيلٍ. وَقَالَ غَيْرُهُ: فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ يَتَحَرَّكْنَ وَلاَ يَجْرِينَ فِي الْبَحْرِ. شَرَعُوا ابْتَدَعُوا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے «عقيما» کے معنی بانجھ منقول ہیں۔ «روحا من أمرنا» میں «روح» سے قرآن مجید مراد ہے۔ اور مجاہد نے کہا «يذرؤكم فيه» کا مطلب یہ ہے ایک نسل کے بعد دوسری نسل پھیلاتا رہے گا۔ «لا حجة بيننا» یعنی اب ہم میں اور تم میں کوئی جھگڑا نہیں رہا۔ «طرف خفي» کمزور کی نگاہ سے، دزدیدہ نظر سے۔ اوروں نے کہا «فيظللن رواكد على ظهره» کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقام پر موجوں کے تھپیڑوں سے ہلتی رہیں نہ آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔ «شرعوا» نیا دین نکالا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ: إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى سورة الشورى آية 23، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: قُرْبَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "عَجِلْتَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا كَانَ لَهُ فِيهِمْ قَرَابَةٌ، فَقَالَ: "إِلَّا أَنْ تَصِلُوا مَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنَ الْقَرَابَةِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا کہ میں نے طاؤس سے سنا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إلا المودة في القربى» سوا رشتہ داری کی محبت کے متعلق پوچھا گیا تو سعید بن جبیر نے فرمایا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابتداری مراد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر کہا کہ تم نے جلد بازی کی۔ قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان میں موجود ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَلَى أُمَّةٍ: عَلَى إِمَامٍ، وَقِيلَهُ يَا رَبِّ: تَفْسِيرُهُ أَيَحْسِبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَلَا نَسْمَعُ قِيلَهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً: لَوْلَا أَنْ جَعَلَ النَّاسَ كُلَّهُمْ كُفَّارًا لَجَعَلْتُ لِبُيُوتِ الْكُفَّارِ سَقْفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ مِنْ فِضَّةٍ وَهِيَ دَرَجٌ وَسُرُرَ فِضَّةٍ، مُقْرِنِينَ: مُطِيقِينَ، آسَفُونَا: أَسْخَطُونَا، يَعْشُ: يَعْمَى، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ: أَيْ تُكَذِّبُونَ بِالْقُرْآنِ، ثُمَّ لَا تُعَاقَبُونَ عَلَيْهِ، وَمَضَى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ: سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ وَمَا كُنَّا لَهُ، مُقْرِنِينَ: يَعْنِي الْإِبِلَ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ، يَنْشَأُ فِي الْحِلْيَةِ: الْجَوَارِي جَعَلْتُمُوهُنَّ لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا فَكَيْفَ تَحْكُمُونَ، لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ: يَعْنُونَ الْأَوْثَانَ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ: أَيِ الْأَوْثَانُ إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ، فِي عَقِبِهِ: وَلَدِهِ، مُقْتَرِنِينَ: يَمْشُونَ مَعًا، سَلَفًا: قَوْمُ فِرْعَوْنَ، سَلَفًا: لِكُفَّارِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَثَلًا: عِبْرَةً، يَصِدُّونَ: يَضِجُّونَ، مُبْرِمُونَ: مُجْمِعُونَ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ: الْعَرَبُ تَقُولُ نَحْنُ مِنْكَ الْبَرَاءُ وَالْخَلَاءُ وَالْوَاحِدُ وَالِاثْنَانِ وَالْجَمِيعُ مِنَ الْمُذَكَّرِ وَالْمُؤَنَّثِ يُقَالُ فِيهِ بَرَاءٌ لِأَنَّهُ مَصْدَرٌ، وَلَوْ قَالَ بَرِيءٌ لَقِيلَ: فِي الِاثْنَيْنِ بَرِيئَانِ وَفِي الْجَمِيعِ بَرِيئُونَ، وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّنِي بَرِيءٌ بِالْيَاءِ وَالزُّخْرُفُ الذَّهَبُ مَلَائِكَةً يَخْلُفُونَ يَخْلُفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.
مجاہد نے کہا کہ «على أمة» کے معنی ایک امام پر یا ایک ملت پر یا ایک دین پر۔ «وقيله يا رب» کا معنی ہے کیا کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ باتیں اور ان کی کانا پھوسی اور ان کی گفتگو نہیں سنتے (یہ تفسیر اس قرآت پر ہے جب «وقیله» بہ نصب لام پڑھا جائے۔ اس حالت میں «وسرهم ونجواهم» پر عطف ہو گا اور مشہور قرآت «وقیله» بہ کسر لام ہے۔ اس صورت میں یہ «الساعة» پر عطف ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ ان کی گفتگو بھی جانتا ہے اور سنتا ہے)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولولا أن يكون الناس أمة واحدة»کا مطلب یہ ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگوں کو کافر ہی بنا ڈالتا تو میں کافروں کے گھروں میں چاندی کی چھتیں اور چاندی کی سیڑھیاں کر دیتا۔ «معارج» کے معنی سیڑھیاں، تخت وغیرہ۔ «مقرنين» زور والے۔ «آسفونا» ہم کو غصہ دلایا۔ «يعش» اندھا بن جائے۔ مجاہد نے کہا «أفنضرب عنكم الذكر» کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو گے اور ہم تم پر عذاب نہیں اتاریں گے (تم کو ضرور عذاب ہو گا)۔ «ومضى مثل الأولين» اگلوں کے قصے کہانیاں چل پڑیں۔ «وما کنا له مقرنين»یعنی اونٹ گھوڑے، خچر اور گدھوں پر ہمارا زور اور قابو نہ چل سکتا تھا۔ «ينشأ في الحلية» سے بیٹیاں مراد ہیں، یعنی تم نے بیٹی ذات کو اللہ کی اولاد ٹھہرایا، واہ واہ کیا اچھا حکم لگاتے ہو۔ «لو شاء الرحمن ما عبدناهم» میں «هم» کی ضمیر بتوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ آگے فرمایا «ما لهم بذلك من علم» یعنی بتوں کو جن کو یہ پوجتے ہیں کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو بالکل بے جان ہیں «في عقبه» اس کی اولاد میں۔ «مقترنين» ساتھ ساتھ چلتے ہوئے۔ «سلفا» سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کافر ہیں ان کے پیشوا یعنی اگلے لوگ تھے۔ «ومثلا للاخرین» یعنی پچھلوں کی عبرت اور مثال۔ «يصدون» چلانے لگے، شور و غل کرنے لگے۔ «مبرمون» ٹھاننے والے، قرار دینے والے۔ «أول العابدين» سب سے پہلے ایمان لانے والا۔ «إنني براء مما تعبدون»عرب لوگ کہتے ہیں ہم تم سے «براء» ہیں ہم تم سے «خلاء» ہیں یعنی بیزار ہیں، الگ ہیں، کچھ غرض واسطہ تم سے نہیں رکھتے۔ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر و مؤنث سب میں «براء» کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ «براء» مصدر ہے۔ اور اگر «بريء» پڑھا جائے جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت ہے تب تو تثنیہ میں «بريئان» اور جمع میں «بريئون» کہنا چاہئے۔ «الزخرف» کے معنی سونا۔ «ملائكة يخلفون»یعنی فرشتے جو ایک کے پیچھے ایک آتے رہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ سورة الزخرف آية 77، وَقَالَ قَتَادَةُ: مَثَلًا لِلْآخِرِينَ عِظَةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُقْرِنِينَ: ضَابِطِينَ، يُقَالُ فُلَانٌ مُقْرِنٌ لِفُلَانٍ ضَابِطٌ لَهُ وَالْأَكْوَابُ الْأَبَارِيقُ الَّتِي لَا خَرَاطِيمَ لَهَا، أَوَّلُ الْعَابِدِينَ: أَيْ مَا كَانَ فَأَنَا أَوَّلُ الْآنِفِينَ وَهُمَا لُغَتَانِ رَجُلٌ عَابِدٌ وَعَبِدٌ وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ، وَيُقَالُ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ الْجَاحِدِينَ مِنْ عَبِدَ يَعْبَدُ، وَقَالَ قَتَادَةُ: فِي أُمِّ الْكِتَابِ جُمْلَةِ الْكِتَابِ أَصْلِ الْكِتَابِ.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك» اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ اور قتادہ نے کہا «مثلا للآخرين» یعنی پچھلوں کے لیے نصیحت۔ دوسرے نے کہا «مقرنين» کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا «مقرن» ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے (اس کو قابو میں لایا ہے)۔ «أكواب» وہ کوزے جن میں ٹونٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پئے۔ «ان کان للرحمن ولد» کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (اس صورت میں «ان نافيه» ہے) «عابدين» سے«آنفين» مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے «عار» کرتا ہوں۔ اس میں دو لغت ہیں «عابد وعبد» اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو «وقال الرسول يا رب» پڑھا ہے۔ «أول العابدين» کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں۔ اس صورت میں «عابدين» باب «عبد يعبد.» سے آئے گا اور قتادہ نے کہا «في أم الكتاب» کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ میں)۔
أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ سورة الزخرف آية 5 مُشْرِكِينَ وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ رُفِعَ حَيْثُ رَدَّهُ أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهَلَكُوا. فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الأَوَّلِينَ عُقُوبَةُ الأَوَّلِينَ جُزْءًا عِدْلاً.
«مسرفين» سے مراد مشرکین ہیں۔ واللہ اگر یہ قرآن اٹھا لیا جاتا جب کہ ابتداء میں قریش نے اسے رد کر دیا تھا تو سب ہلاک ہو جاتے۔ «فأهلكنا أشد منهم بطشا ومضى مثل الأولين» میں «مثل» سے عذاب مراد ہے۔ «جزءا» بمعنی «عدلا» یعنی شریک۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رَهْوًا: طَرِيقًا يَابِسًا، وَيُقَالُ: رَهْوًا سَاكِنًا، عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ: عَلَى مَنْ بَيْنَ ظَهْرَيْهِ، وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ: عِينٍ أَنْكَحْنَاهُمْ حُورًا عِينًا يَحَارُ فِيهَا الطَّرْفُ، فَاعْتُلُوهُ: ادْفَعُوهُ وَيُقَالُ أَنْ، تَرْجُمُونِ: الْقَتْلُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَالْمُهْلِ: أَسْوَدُ كَمُهْلِ الزَّيْتِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تُبَّعٍ: مُلُوكُ الْيَمَنِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ يُسَمَّى تُبَّعًا لِأَنَّهُ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ وَالظِّلُّ يُسَمَّى تُبَّعًا لِأَنَّهُ يَتْبَعُ الشَّمْسَ.
مجاہد نے کہا «رهوا» کا معنی راستہ۔ «على العالمين» سے مراد ان کے زمانے کے لوگ ہیں۔ «فاعتلوه» کے معنی ان کو ڈھکیل دو۔«وزوجناهم بحور» کا مطلب ہم نے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا جوڑا ملا دیا جن کا جمال دیکھنے سے آنکھوں کو حیرت ہوتی ہے۔ «ترجمون» مجھ کو قتل کرو۔ «رهوا» تھما ہوا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كالمهل» یعنی کالا تلچھٹ کی طرح۔ اوروں نے کہا«تبع» سے یمن کے بادشاہ مراد ہیں۔ ان کو «تبع» اس لیے کہا جاتا تھا کہ ایک کے بعد ایک بادشاہ ہوتا اور سایہ کو بھی «تبع» کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کے ساتھ رہتا ہے۔
قَالَ قَتَادَةُ: فَارْتَقِبْ: فَانْتَظِرْ.
قتادہ نے فرمایا کہ «فارتقب» ای «فانتظر» یعنی انتظار کیجئے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "مَضَى خَمْسٌ الدُّخَانُ، وَالرُّومُ، وَالْقَمَرُ، وَالْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ (قیامت کی) پانچ علامتیں گزر چکی ہیں «الدخان» دھواں، «الروم» غلبہ روم، «القمر» چاند کا ٹکڑے ہونا،«والبطشة» پکڑ اور «واللزام» ہلاکت اور قید۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ، وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ 10 يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ 11 سورة الدخان آية 10-11، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ، قَالَ لِمُضَرَ: "إِنَّكَ لَجَرِيءٌ"، فَاسْتَسْقَى لَهُمْ، فَسُقُوا، فَنَزَلَتْ: إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ (قحط) اس لیے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم» تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مضر کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت«إنكم عائدون» نازل ہوئی (یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے (اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون» جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّ اللَّهَ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْع يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ، وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ، قَالُوا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، فَقِيلَ لَهُ: إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا فَدَعَا رَبَّهُ، فَكَشَفَ عَنْهُمْ فَعَادُوا فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 10 - 16.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين» آخر تک میں بیان ہوا ہے۔
الذِّكْرُ وَالذِّكْرَى وَاحِدٌ.
«الذكر» ، «الذكرى» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَىعَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا قُرَيْشًا كَذَّبُوهُ، وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ يَعْنِي كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى كَانُوا يَأْكُلُونَ الْمَيْتَةَ، فَكَانَ يَقُومُ أَحَدُهُمْ، فَكَانَ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ، ثُمَّ قَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ حَتَّى بَلَغَ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: وَالْبَطْشَةُ الْكُبْرَى يَوْمَ بَدْرٍ.
سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم» تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف سے نظر آنے والا ایک دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیشک ہم چندے اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا قیامت کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے؟ فرمایا کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَعَبْدُ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمُ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ، وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ: فَقَالَ: أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ، فَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: "تَعُودُونَ بَعْدَ هَذَا فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ"، ثُمَّ قَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15 أَنَكْشِفُ عَذَابَ الْآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَالْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ، وَقَالَ أَحَدُهُمْ: الْقَمَرُ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَالرُّومُ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اور منصور نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» کہ کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (پھر) قحط پڑا اور پر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے (سلیمان اور منصور) راویان حدیث میں سے ایک نے بیان کیا کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين» تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ «عائدون» تک۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا؟ دھواں اور سخت پکڑ اور ہلاکت گزر چکے۔ بعض نے چاند اور بعض نے غلبہ روم کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی گزر چکا ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ اللِّزَامُ، وَالرُّومُ، وَالْبَطْشَةُ، وَالْقَمَرُ، وَالدُّخَانُ".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پانچ (قرآن مجید کی پیشیں گوئیاں) گزر چکی ہیں۔ «اللزام» (بدر کی لڑائی کی ہلاکت)، «الروم» (غلبہ روم)«البطشة» (سخت پکڑ)، «القمر» (چاند کے ٹکڑے ہونا) اور «والدخان» دھواں، شدت فاقہ کی وجہ سے۔
جَاثِيَةً: مُسْتَوْفِزِينَ عَلَى الرُّكَبِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: نَسْتَنْسِخُ: نَكْتُبُ، نَنْسَاكُمْ: نَتْرُكُكُمْ.
«جاثية» یعنی خوف کی وجہ سے اہل محشر دو زانو ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ «نستنسخ» بمعنی «نكتب» ہے یعنی ہم لکھ لیتے ہیں۔«ننساكم» ای «نترككم» ہم تم کو بھلا دیں گے یعنی چھوڑ دیں گے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تُفِيضُونَ، تَقُولُونَ: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَثَرَةٍ، وَأُثْرَةٍ، وَأَثَارَةٍ بَقِيَّةٌ مِنْ عِلْمٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ لَسْتُ بِأَوَّلِ الرُّسُلِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَرَأَيْتُمْ هَذِهِ الْأَلِفُ إِنَّمَا هِيَ تَوَعُّدٌ إِنْ صَحَّ مَا تَدَّعُونَ لَا يَسْتَحِقُّ أَنْ يُعْبَدَ وَلَيْسَ قَوْلُهُ أَرَأَيْتُمْ بِرُؤْيَةِ الْعَيْنِ إِنَّمَا هُوَ أَتَعْلَمُونَ أَبَلَغَكُمْ أَنَّ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ خَلَقُوا شَيْئًا.
مجاہد نے کہا «تفيضون» کا معنی جو تم زبان سے نکالتے ہو، کہتے ہو۔ بعضوں نے کہا «أثرة» اور «أثرة» (بضم ھمزہ) اور «أثارة» (تینوں قرآت ہیں) ان کا معنی باقی ماندہ علم ہے۔ (حدیث پر اسی سے «أثر» کا لفظ بولا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باقی ماندہ علم ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بدعا من الرسل» کا یہ معنی ہے کہ میں ہی کچھ پہلا پیغمبر دنیا میں نہیں آیا۔ اوروں نے کہا«أرأيتم» (الاحقاف: 4) میں ہمزہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ یعنی اگر تمہارا دعویٰ صحیح ہو تو یہ چیزیں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بتاؤ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟ «احقاف» قوم عاد کی زمین کا نام تھا جہاں ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ «احقاف» ، «حقف» کی جمع ہے۔ «مطلق» ریت کے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس قوم پر بادل کے ساتھ تیز ہوا کا عذاب آیا تھا جس سے سب ہلاک ہو گئے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ، فَخَطَبَ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ لِكَيْ يُبَايَعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ: خُذُوهُ، فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ، فَلَمْ يَقْدِرُوا، فَقَالَ مَرْوَانُ: إِنَّ هَذَا الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي سورة الأحقاف آية 17، فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ: "مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِي".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہمروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني» کہ اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے)بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَارِضٌ: السَّحَابُ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «عارض» بمعنی بادل ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ.
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آ جائے بلکہ آپ تبسم فرمایا کرتے تھے، بیان کیا کہ جب بھی آپ بادل یا ہوا دیکھتے تو (گھبراہٹ اور اللہ کا خوف) آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیا جاتا۔
قَالَتْ: وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ، فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤْمِنِّي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب لوگ بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اس سے بارش برسے گی لیکن اس کے برخلاف آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھتے ہیں تو ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم (عاد) پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ انہوں نے جب عذاب دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔
أَوْزَارَهَا آثَامَهَا حَتَّى لاَ يَبْقَى إِلاَّ مُسْلِمٌ. عَرَّفَهَا بَيَّنَهَا. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَلِيُّهُمْ. عَزَمَ الأَمْرُ جَدَّ الأَمْرُ. فَلاَ تَهِنُوا لاَ تَضْعُفُوا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَضْغَانَهُمْ حَسَدَهُمْ. آسِنٍ مُتَغَيِّرٍ.
«أوزارها» اپنے گناہ دھر دیئے یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کوئی باقی نہ رہے (اکثر لوگوں نے «أوزارها» کے معنی ہتھیاروں کے کئے ہیں)۔ «عرفها» اس کو بیان کر دے گا، بتلا دے گا۔ (ہر ایک بہشتی اپنا گھر پہچان لے گا)۔ مجاہد نے کہا «مولى الذين آمنوا» اس«مولى» سے ولی یعنی کارساز مراد ہے۔ «عزم الأمر» جب لڑائی کا ارادہ پکا ہو جائے۔ «فلا تهنوا» سستی نہ کرو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أضغانهم» کے معنی ان کا حسد کینہ۔ «آسن» سڑا ہوا پانی جس کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جائے۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي مُزَرِّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ، فَأَخَذَتْ بِحَقْوِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَهُ: مَهْ، قَالَتْ: هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ، قَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ ؟ قَالَتْ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَذَاكِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ سورة محمد آية 22.
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معاویہ بن ابی مزرد نے بیان کیا، ان سے سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا، ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ایسا ہی ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامكم» اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ دین میں فساد مچا دو گے اور آپس میں قطع تعلق کر لو گے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي أَبُو الْحُبَابِ سَعِيدُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَبِهَذَا، ثُمّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَهَلْ عَسَيْتُمْ سورة محمد آية 22.
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو حاتم نے بیان کیا، ان سے معاویہ نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا ابوالحباب سعید بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سابقہ حدیث کی طرح۔ پھر (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو آیت «فهل عسيتم» اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي الْمُزَرَّدِ بِهَذَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَهَلْ عَسَيْتُمْ سورة محمد آية 22".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، ان کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں معاویہ بن مزرد نے خبر دی، سابقہ حدیث کی طرح (اور یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تمہارا جی چاہے تو آیت اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بُورًا هَالِكِينَ، سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ: السَّحْنَةُ، وَقَالَ مَنْصُورٌ: عَنْ مُجَاهِدٍ، التَّوَاضُعُ، شَطْأَهُ: فِرَاخَهُ، فَاسْتَغْلَظَ: غَلُظَ، سُوقِهِ: السَّاقُ حَامِلَةُ الشَّجَرَةِ وَيُقَالُ، دَائِرَةُ السَّوْءِ: كَقَوْلِكَ رَجُلُ السَّوْءِ وَدَائِرَةُ السُّوءِ الْعَذَابُ، تُعَزِّرُوهُ: تَنْصُرُوهُ، شَطْأَهُ: شَطْءُ السُّنْبُلِ تُنْبِتُ الْحَبَّةُ عَشْرًا أَوْ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا فَيَقْوَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فَذَاكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَآزَرَهُ: قَوَّاهُ وَلَوْ كَانَتْ وَاحِدَةً لَمْ تَقُمْ عَلَى سَاقٍ وَهُوَ مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللَّهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ خَرَجَ وَحْدَهُ، ثُمَّ قَوَّاهُ بِأَصْحَابِهِ كَمَا قَوَّى الْحَبَّةَ بِمَا يُنْبِتُ مِنْهَا.
مجاہد نے کہا «بورا» کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ «سيماهم في وجوههم» کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا «سيما» سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔ «اخرج شطأه» اس نے اپنا خوشہ نکالا۔ «فاستغلظ» پس وہ موٹا ہو گیا۔ «سوق» درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔«دائرة السوء» جیسے کہتے ہیں «رجل السوء.» ۔ «دائرة السوء» سے مراد عذاب ہے۔ «تعزروه» اس کی مدد کریں۔ «شطأه» سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔ «فآزره» سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا، فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْءٍ، فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ثَكِلَتْ أُمُّ عُمَرَ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلَّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُكَ، قَالَ عُمَرُ: فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ النَّاسِ وَخَشِيتُ أَنْ يُنْزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي، فَقُلْتُ: لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: "لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہو جائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الفتح کی تلاوت فرمائی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1، قَالَ: الْحُدَيْبِيَةُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے سنا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سورۃ الفتح صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: "قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ سُورَةَ الْفَتْحِ، فَرَجَّعَ فِيهَا"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَحْكِيَ لَكُمْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَفَعَلْتُ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن سورۃ الفتح خوب خوش الحانی سے پڑھی۔ معاویہ بن قرہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس موقع پر طرز قرآت کی نقل کروں تو کر سکتا ہوں۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادٌ هُوَ ابْنُ عِلَاقَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ الْمُغِيرَةَ، يَقُولُ: "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَهُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: "أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے خبر دی، ان سے زیاد نے بیان کیا اور انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، سَمِعَ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: "أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا"، فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جَالِسًا، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ.
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے بیان کیا، انہیں حیوہ نے خبر دی، انہیں ابوالاسود نے، انہوں نے عروہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔ عمر کے آخری حصہ میں (جب طویل قیام دشوار ہو گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے (اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں اور پڑھتے) پھر رکوع کرتے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْقُرْآنِ"يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا سورة الأحزاب آية 45، قَالَ فِي التَّوْرَاةِ: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَةَ بِالسَّيِّئَةِ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ، وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا".
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی ہلال نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو بن عاص نے کہ یہ آیت جو قرآن میں ہے «يا أيها النبي إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا» اے نبی! بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی اللہ تعالیٰ نے توریت میں بھی فرمایا تھا اے نبی! بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ان پڑھوں (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے ہیں اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا، آپ نہ بدخو ہیں اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیں گے اور اللہ ان کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک کہ وہ کج قوم (عربی) کو سیدھا نہ کر لیں یعنی جب تک وہ ان سے «لا إله إلا الله» کا اقرار نہ کرا لیں پس اس کلمہ توحید کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دیں گے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ وَفَرَسٌ لَهُ مَرْبُوطٌ فِي الدَّارِ، فَجَعَلَ يَنْفِرُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ، فَنَظَرَ، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، وَجَعَلَ يَنْفِرُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "السَّكِينَةُ تَنَزَّلَتْ بِالْقُرْآنِ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی (اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات میں سورۃ الکہف) پڑھ رہے تھے۔ ان کا ایک گھوڑا جو گھر میں بندھا ہوا تھا بدکنے لگا تو وہ صحابی نکلے انہوں نے کوئی خاص چیز نہیں دیکھی وہ گھوڑا پھر بھی بدک رہا تھا۔ صبح کے وقت وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ چیز (جس سے گھوڑا بدکا تھا)سکینت تھی جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر لشکر میں ہم (مسلمان) ایک ہزار چار سو تھے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ صُهْبَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ، إِنِّي مِمَّنْ شَهِدَ الشَّجَرَةَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَذْفِ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے عقبہ بن صہبان سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ میں درخت کے نیچے بیعت میں موجود تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری لے کر پھینکنے سے منع فرمایا۔
وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيَّ فِي الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ يَأْخُذُ مِنْهُ الْوَسْوَاسُ.
اور عقبہ بن صہبان نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے غسل خانہ میں پیشاب کرنے کے متعلق سنا۔ یعنی یہ کہ آپ نے اس سے منع فرمایا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ.
مجھ سے محمد بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک نے اور وہ (صلح حدیبیہ کے دن) درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: أَتَيْتُأَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ، فَقَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ: نَعَمْ، فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ: اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ، وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا، فَقَالَ: "يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا"، فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ ؟ قَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا، فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ.
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعلیٰ نے، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ثابت نے، کہ میں ابووائل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے (خوارج کے متعلق) گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے (جہاں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جنگ ہوئی تھی) ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ (لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر و ثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر نے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورۃ الفتح نازل ہوئی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَا تُقَدِّمُوا: لَا تَفْتَاتُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَلَى لِسَانِهِ، امْتَحَنَ: أَخْلَصَ، وَلَا تَنَابَزُوا: يُدْعَى بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، يَلِتْكُمْ: يَنْقُصْكُمْ أَلَتْنَا نَقَصْنَا.
مجاہد نے کہا «لا تقدموا» کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بڑھ کر باتیں نہ کرو۔ (بلکہ ادب سے «قال الله وقال الرسول» سنا کرو) یہاں تک کہ جو حکم اللہ کو دینا ہے وہ اپنے رسول کی زبان سے تم کو پہنچائے۔ «امتحن» کا معنی صاف کیا، پرکھ لیا۔ «لا تنابزوا بالالقاب» کا معنی یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد پھر اس کو کافر، یہودی یا عیسائی کہہ کر نہ پکارو۔ «لا يلتكم»تمہارا ثواب کچھ کم نہیں کرے گا سورۃ الطور میں «وما ألتنا» اس لیے ہے کہ ہم نے ان کے عمل کا ثواب کچھ کم نہیں کیا۔
تَشْعُرُونَ: تَعْلَمُونَ وَمِنْهُ الشَّاعِرُ.
«تشعرون» کا معنی جانتے ہو اس سے لفظ «شاعر» نکلا ہے یعنی جاننے والا۔
حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا رَفَعَا أَصْوَاتَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَدِمَ عَلَيْهِ رَكْبُ بَنِي تَمِيمٍ، فَأَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ، وَأَشَارَ الْآخَرُ بِرَجُلٍ آخَرَ، قَالَ نَافِعٌ: لَا أَحْفَظُ اسْمَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي، قَالَ: مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فِي ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ سورة الحجرات آية 2 الْآيَةَ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: فَمَا كَانَ عُمَرُ يُسْمِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ.
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ وہ سب سے بہتر افراد تباہ ہو جائیں یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کر دی تھی۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنی تمیم کے سوار آئے تھے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے درخواست کی کہ ہمارا کوئی امیر بنا دیں) ان میں سے ایک (عمر رضی اللہ عنہ) نے مجاشع کے اقرع بن حابس کے انتخاب کے لیے کہا تھا اور دوسرے(ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایک دوسرے کا نام پیش کیا تھا۔ نافع نے کہا کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا ارادہ مجھ سے اختلاف کرنا ہی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم» اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو الخ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ، فَأَتَاهُ، فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ ؟ فَقَالَ: شَرٌّ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى: فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، فَقَالَ: "اذْهَبْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَلَكِنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِأَخْبَرَهُمْ، أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ، وَقَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَوْ إِلَّا خِلَافِي، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ سورة الحجرات آية 1، حَتَّى انْقَضَتِ الْآيَةُ.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کا امیر آپ قعقاع بن معبد کو بنا دیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ مقصد تو صرف میری مخالفت ہی کرنا ہے۔ عمر نے کہا کہ میں نے آپ کے خلاف کرنے کی غرض سے یہ نہیں کہا ہے۔ اس پر دونوں میں بحث چلی گئی اور آواز بھی بلند ہو گئی۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدى الله ورسوله» کہ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے کسی کام میں جلدی مت کیا کرو۔ آخر آیت تک۔
(نوٹ: اس باب میں حدیث نہیں ہے)
رَجْعٌ بَعِيدٌ: رَدٌّ، فُرُوجٍ: فُتُوقٍ وَاحِدُهَا فَرْجٌ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ وَرِيدَاهُ فِي حَلْقِهِ، وَالْحَبْلُ حَبْلُ الْعَاتِقِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ: مِنْ عِظَامِهِمْ، تَبْصِرَةً: بَصِيرَةً، حَبَّ الْحَصِيدِ: الْحِنْطَةُ، بَاسِقَاتٍ: الطِّوَالُ، أَفَعَيِينَا: أَفَأَعْيَا عَلَيْنَا حِينَ أَنْشَأَكُمْ وَأَنْشَأَ خَلْقَكُمْ، وَقَالَ قَرِينُهُ: الشَّيْطَانُ الَّذِي قُيِّضَ لَهُ، فَنَقَّبُوا: ضَرَبُوا، أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ، لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ بِغَيْرِهِ: رَقِيبٌ عَتِيدٌ، رَصَدٌ: سَائِقٌ وَشَهِيدٌ، الْمَلَكَانِ كَاتِبٌ وَشَهِيدٌ، شَهِيدٌ: شَاهِدٌ بِالْغَيْبِ مِنْ لُغُوبٍ: النَّصَبُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: نَضِيدٌ: الْكُفُرَّى مَا دَامَ فِي أَكْمَامِهِ وَمَعْنَاهُ مَنْضُودٌ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ، فَإِذَا خَرَجَ مِنْ أَكْمَامِهِ، فَلَيْسَ بِنَضِيدٍ، وَإِدْبَارِ النُّجُومِ، وَأَدْبَارِ السُّجُودِ، كَانَ عَاصِمٌ يَفْتَحُ الَّتِي فِي ق وَيَكْسِرُ الَّتِي فِي الطُّورِ وَيُكْسَرَانِ جَمِيعًا وَيُنْصَبَانِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمَ الْخُرُوجِ يَوْمَ يَخْرُجُونَ إِلَى الْبَعْثِ مِنَ الْقُبُورِ.
«رجع بعيد» یعنی دنیا کی طرف پھر جانا دور از قیاس ہے۔ «فروج» کے معنی سوراخ روزن، «فرج» کی جمع ہے۔ «وريد» حلق کی رگ۔ اور «جمل» مونڈھے کی رگ۔ مجاہد نے کہا «ما تنقص الأرض» سے ان کی ہڈیاں مراد ہیں جن کو زمین کھا جاتی ہے۔ «تبصرة»کے معنی راہ دکھانا۔ «حب الحصيد» گیہوں کے دانے۔ «باسقات» لمبی لمبی بال۔ «أفعيينا» کیا ہم اس سے عاجز ہو گئے ہیں۔ «قال قرينه» میں «قرين» سے شیطان (ہمزاد) مراد ہے جو ہر آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ «فنقبوا فى البلاد» یعنی شہروں میں پھرے، دورہ کیا۔ «أو ألقى السمع» کا یہ مطلب ہے کہ دل میں دوسرا کچھ خیال نہ کرے، کان لگا کر سنے۔ «افعيينا بالخلق الاول» یعنی جب تم کو شروع میں پیدا کیا تو کیا اس کے بعد ہم عاجز بن گئے اب دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے؟ «سائق» اور «شهيد» دو فرشتے ہیں ایک لکھنے والا دوسرا گواہ۔ «شهيد» سے مراد یہ ہے کہ دل لگا کر سنے۔ «لغوب» تھکن۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «نضيد» وہ گابھا ہے، جب تک وہ پتوں کے غلاف میں چھپا رہے۔ «نضيد» اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ تہ بہ تہ ہوتا ہے جب درخت کا گابھا غلاف سے نکل آئے تو پھر اس کو «نضيد» نہیں کہیں گے۔ «أدبار النجوم» (جو سورۃ الطور میں ہے) اور «أدبار السجود» جو اس سورت میں ہے۔ تو عاصم سورۃ ق میں ( «أدبار» کو) برفتحہ الف اور سورۃ الطور میں بہ کسرہ الف پڑھتے ہیں۔ بعضوں نے دونوں جگہ بہ کسرہ الف پڑھا ہے بعضوں نے دونوں جگہ برفتحہ الف پڑھا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يوم الخروج» سے وہ دن مراد ہے جس دن قبروں سے نکلیں گے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يُلْقَى فِي النَّارِ، وَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ ؟ حَتَّى يَضَعَ قَدَمَهُ، فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ".
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم میں دوزخیوں کو ڈالا جائے گا اور وہ کہے گی «هل من مزيد.» کہ کچھ اور بھی ہے؟ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر رکھے گا اور وہ کہے گی کہ بس بس۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ الْحِمْيَرِيُّ سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ وَأَكْثَرُ مَا كَانَ يُوقِفُهُ أَبُو سُفْيَانَ: "يُقَالُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ ؟، وَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ ؟، فَيَضَعُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدَمَهُ عَلَيْهَا، فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ".
ہم سے محمد بن موسیٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوسفیان حمیری سعید بن یحییٰ بن مہدی نے بیان کیا، ان سے عوف نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ابوسفیان حمیری اکثر اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موقوفاً ذکر کرتے تھے کہ جہنم سے پوچھا جائے گا تو بھر بھی گئی؟ وہ کہے گی «هل من مزيد.» کہ کچھ اور بھی ہے؟ پھر اللہ تبارک تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھے گا اور کہے گی کہ بس بس۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَحَاجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: مَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِي، أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَقَالَ لِلنَّارِ: إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي، أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا، فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ، فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ، فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا، وَأَمَّا الْجَنَّةُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں حمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے بحث کی، دوزخ نے کہا میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس بس! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا لَيْلَةً مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، فَقَالَ: "إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا، ثُمَّ قَرَأَ: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ سورة ق آية 39".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے اسمٰعیل نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے چودہویں رات تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا کہ یقیناً تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کی رؤیت میں تم دھکم پیل نہیں کرو گے (بلکہ بڑے اطمینان سے ایک دوسرے کو دھکا دیئے بغیر دیکھو گے) اس لیے اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔ پھر آپ نے آیت «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے آفتاب نکلنے سے پہلے اور چھپنے سے پہلے۔ کی تلاوت کی۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "أَمَرَهُ أَنْ يُسَبِّحَ فِي أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، يَعْنِي قَوْلَهُ: وَأَدْبَارَ السُّجُودِ سورة ق آية 40.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ورقہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے بیان کیا، کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں تمام نمازوں کے بعد تسبیح پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ آپ کا مقصد اللہ تعالیٰ کا ارشاد «وأدبار السجود» کی تشریح کرنا تھا۔
قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام: الذَّارِيَاتُ: الرِّيَاحُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَذْرُوهُ تُفَرِّقُهُ، وَفِي أَنْفُسِكُمْ: أَفَلَا تُبْصِرُونَ تَأْكُلُ وَتَشْرَبُ فِي مَدْخَلٍ وَاحِدٍ وَيَخْرُجُ مِنْ مَوْضِعَيْنِ، فَرَاغَ: فَرَجَعَ، فَصَكَّتْ: فَجَمَعَتْ أَصَابِعَهَا، فَضَرَبَتْ بِهِ جَبْهَتَهَا وَالرَّمِيمُ نَبَاتُ الْأَرْضِ إِذَا يَبِسَ وَدِيسَ، لَمُوسِعُونَ: أَيْ لَذُو سَعَةٍ وَكَذَلِكَ عَلَى، الْمُوسِعِ قَدَرَهُ: يَعْنِي الْقَوِيَّ خَلَقْنَا، زَوْجَيْنِ: الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى وَاخْتِلَافُ الْأَلْوَانِ حُلْوٌ وَحَامِضٌ، فَهُمَا زَوْجَانِ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ: مَعْنَاهُ مِنَ اللَّهِ إِلَيْهِ، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ: مَا خَلَقْتُ أَهْلَ السَّعَادَةِ مِنْ أَهْلِ الْفَرِيقَيْنِ إِلَّا لِيُوَحِّدُونِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: خَلَقَهُمْ لِيَفْعَلُوا، فَفَعَلَ بَعْضٌ وَتَرَكَ بَعْضٌ، وَلَيْسَ فِيهِ حُجَّةٌ لِأَهْلِ الْقَدَرِ وَالذَّنُوبُ الدَّلْوُ الْعَظِيمُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَرَّةٍ: صَيْحَةٍ، ذَنُوبًا: سَبِيلًا الْعَقِيمُ الَّتِي لَا تَلِدُ وَلَا تُلْقِحُ شَيْئًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالْحُبُكُ اسْتِوَاؤُهَا وَحُسْنُهَا، فِي غَمْرَةٍ: فِي ضَلَالَتِهِمْ يَتَمَادَوْنَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَوَاصَوْا تَوَاطَئُوا، وَقَالَ: مُسَوَّمَةً: مُعَلَّمَةً مِنَ السِّيمَا قُتِلَ الْإِنْسَانُ لُعِنَ.
علی علیہ السلام نے کہا کہ «الذاريات» سے مراد ہوائیں ہیں۔ ان سے غیر نے کہا کہ «تذروه» کا معنی یہ ہے کہ اس کو بکھیر دے (یہ لفظ سورۃ الکہف میں ہے) «الرياح» کی مناسبت سے یہاں لایا گیا۔ «وفي أنفسكم افلا تبصرون» یعنی خود تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ کھانا پینا ایک راستے منہ سے ہوتا ہے لیکن وہ فضلہ بن کر دوسرے راستوں سے نکلتا ہے۔ «فراغ» لوٹ آیا (یا چپکے سے) چلا آیا۔ «فصكت» یعنی مٹھی باندھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ کو مارا۔ «الرميم» زمین کی گھاس جب خشک ہو جائے اور روند دی جائے۔ «لموسعون» کے معنی ہم نے اس کو کشادہ اور وسیع کیا ہے۔ (اور سورۃ البقرہ میں جو ہے) «على الموسع قدره» یہاں «موسع»کے معنی زور طاقت والا ہے۔ «زوجين» یعنی نر و مادہ یا الگ الگ رنگ یا الگ الگ مزے کی جیسے میٹھی کھٹی یہ دو قسمیں ہیں۔ «ففروا إلى الله» یعنی اللہ کی معصیت سے اس کی اطاعت کی طرف بھاگ کر آؤ۔ «إلا ليعبدون» یعنی جِن و انس میں جتنی بھی نیک روحیں ہیں انہیں میں نے صرف اپنی توحید کے لیے پیدا کیا۔ بعضوں نے کہا جِنوں اور آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو اسی مقصد سے کیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید کو مانیں لیکن کچھ نے مانا اور کچھ نے نہیں مانا۔ معتزلہ کے لیے اس آیت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ «الذنوب» کے معنی بڑے ڈول کے ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ «ذنوبا» بمعنی راستہ ہے۔ مجاہد نے کہا کہ «صرة» کے معنی چیخنا۔ «ذنوبا» کے معنی راستہ اور طریق کے ہیں۔ «العقيم» کے معنی جس کو بچہ نہ پیدا ہو بانجھ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الحبك» سے آسمان کا خوبصورت برابر ہونا مراد ہے۔ «في غمرة» یعنی اپنی گمراہی میں پڑے اوقات گزارتے ہیں۔ اوروں نے کہا «تواصوا» کا معنی یہ ہے کہ یہ بھی ان کے موافق کہنے لگے۔ «مسومة» نشان کئے گئے۔ یہ «سيما.» سے نکلا ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں۔ «قتل الخراصون» یعنی جھوٹے لعنت کئے گئے۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: مَسْطُورٍ: مَكْتُوبٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الطُّورُ الْجَبَلُ بِالسُّرْيَانِيَّةِ، رَقٍّ مَنْشُورٍ: صَحِيفَةٍ، وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ: سَمَاءٌ، الْمَسْجُورِ: الْمُوقَدِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: تُسْجَرُ حَتَّى يَذْهَبَ مَاؤُهَا، فَلَا يَبْقَى فِيهَا قَطْرَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَلَتْنَاهُمْ: نَقَصْنَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَمُورُ تَدُورُ، أَحْلَامُهُمْ: الْعُقُولُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْبَرُّ: اللَّطِيفُ كِسْفًا قِطْعًا الْمَنُونُ الْمَوْتُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَتَنَازَعُونَ: يَتَعَاطَوْنَ.
قتادہ نے کہا «مسطور» بمعنی «مكتوب» یعنی لکھی ہوئی ہے۔ مجاہد نے کہا «الطور» سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں «رق منشور»یعنی صحیفہ کھلا ہوا ورق۔ «لسقف المرفوع» یعنی آسمان۔ «المسجور» یعنی گرم کیا گیا۔ حسن بصری نے کہا «مسجور» سے مراد یہ ہے کہ سمندر میں ایک دن طغیانی آ کر اس کا سارا پانی سوکھ جائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔ مجاہد نے کہا کہ «ألتناهم»کے معنی گھٹایا، کم کیا۔ مجاہد کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ «تمور» گھومے گا۔ «أحلامهم» کے معنی ان کی عقلیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «البر» کے معنی مہربان۔ «كسفا» کے معنی ٹکڑے۔ «المنون» کے معنی موت۔ اوروں نے کہا «يتنازعون» کا معنی ایک دوسرے سے جھپٹ لیں انہیں مذاق سے یا لڑائی سے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي، فَقَالَ: "طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ"، فَطُفْتُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ يَقْرَأُ بِالطُّورِ، وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (حج کے موقع پر) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرے چنانچہ میں نے طواف کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھتے ہوئے سورۃ والطور و کتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثُونِي عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الْآيَةَ أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ 35 أَمْ خَلَقُوا السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لا يُوقِنُونَ 36 أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُسَيْطِرُونَ 37 سورة الطور آية 35-37، قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ، قَالَ سُفْيَانُ: فَأَمَّا أَنَا، فَإِنَّمَا سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ"، وَلَمْ أَسْمَعْهُ زَادَ الَّذِي قَالُوا لِي.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے اصحاب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۃ والطور پڑھ رہے تھے۔ جب آپ سورۃ والطور اس آیت پر پہنچے «أم خلقوا من غير شىء أم هم الخالقون * أم خلقوا السموات والأرض بل لا يوقنون * أم عندهم خزائن ربك أم هم المسيطرون» کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا کئے پیدا ہو گئے یا یہ خود (اپنے) خالق ہیں؟ یا انہوں نے آسمان اور زمین کو پیدا کر لیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان میں یقین ہی نہیں۔ کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ لوگ حاکم ہیں۔ تو میرا دل اڑنے لگا۔ سفیان نے بیان کیا لیکن میں نے زہری سے سنا ہے وہ محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کرتے تھے، ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں سورۃ والطور پڑھتے سنا (سفیان نے کہا کہ) میرے ساتھیوں نے اس کے بعد جو اضافہ کیا ہے وہ میں نے زہری سے نہیں سنا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذُو مِرَّةٍ: ذُو قُوَّةٍ، قَابَ قَوْسَيْنِ: حَيْثُ الْوَتَرُ مِنَ الْقَوْسِ، ضِيزَى: عَوْجَاءُ، وَأَكْدَى: قَطَعَ عَطَاءَهُ، رَبُّ الشِّعْرَى: هُوَ مِرْزَمُ الْجَوْزَاءِ، الَّذِي وَفَّى: وَفَّى مَا فُرِضَ عَلَيْهِ، أَزِفَتِ الْآزِفَةُ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ، سَامِدُونَ: الْبَرْطَمَةُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: يَتَغَنَّوْنَ بِالْحِمْيَرِيَّةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: أَفَتُمَارُونَهُ: أَفَتُجَادِلُونَهُ وَمَنْ قَرَأَ أَفَتَمْرُونَهُ يَعْنِي أَفَتَجْحَدُونَهُ، وَقَالَ: مَا زَاغَ الْبَصَرُ: بَصَرُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَغَى: وَمَا جَاوَزَ مَا رَأَى، فَتَمَارَوْا: كَذَّبُوا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا هَوَى: غَابَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَغْنَى وَأَقْنَى: أَعْطَى فَأَرْضَى.
مجاہد نے کہا کہ «ذو مرة» کے معنی زور دار، زبردست (یعنی جبرائیل علیہ السلام)۔ «قاب قوسين» یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔ «ضيزى» کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔ «وأكدى» اور دینا موقوف کر دیا۔ «الشعرى» وہ ستارہ ہے جسے «مرزم الجوزاء» بھی کہتے ہیں۔ «الذي وفى» یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔ «أزفت الآزفة» قیامت قریب آ گئی۔ «سامدون»کے معنی کھیل کرتے ہو۔ «برطمة.» ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا «حميري» زبان میں گانے کے معنی میں ہے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ «أفتمارونه» کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے «أفتمرونه» یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔ «ما زاغ البصر» سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔ «وما طغى» یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا (اس سے زیادہ نہیں بڑھے)۔ «فتماروا» سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔ (امام حسن بصری نے کہا «إذا هوى» یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أغنى وأقنى» کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا أُمَّتَاهْ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا سورة لقمان آية 34، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67 الْآيَةَ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» سے لے کر «من وراء حجاب» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا» یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ زِرًّا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى 9 فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى 10 سورة النجم آية 9-10، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ: "أَنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالوحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زر بن حبیش سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیت «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى» یعنی صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو کچھ بھی نازل کیا کے متعلق بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔
حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرًّا عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى 9 فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى 10 سورة النجم آية 9-10، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ: أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ".
ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، ان سے زائدہ بن قدامہ کوفی نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا کہ میں نے زر بن حبیش سے اس آیت کے بارے میں پوچھا «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى» الخ یعنی سو دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندے پر وحی کی جو کچھ بھی نازل کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا جن کے چھ سو پر تھے۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى سورة النجم آية 18، قَالَ: "رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت «لقد رأى من آيات ربه الكبرى» یعنی آپ نے اپنے رب کی عظیم نشانیاں دیکھیں کے متعلق بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «رفرف» (سبز فرش) کو دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ: اللَّاتَ وَالْعُزَّى سورة النجم آية 19 كَانَ اللَّاتُ رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الْحَاجِّ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالجوزاء نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ حَلَفَ فَقَالَ فِي حَلِفِهِ وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعَالَ أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قسم کھائے اور کہے کہ قسم ہے لات اور عزیٰ کی تو اسے تجدید ایمان کے لیے کہنا چاہئے «لا إله إلا الله» اور جو شخص اپنے ساتھی سے یہ کہے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ دینا چاہئے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: "إِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ بِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُون، قَالَ سُفْيَانُ: مَنَاةُ بِالْمُشَلَّلِ مِنْ قُدَيْدٍ. وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: نَزَلَتْ فِي الْأَنْصَارِ كَانُوا هُمْ وَغَسَّانُ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ مِثْلَهُ. وَقَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: "كَانَ رِجَالٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ لِمَنَاةَ وَمَنَاةُ صَنَمٌ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كُنَّا لَا نَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَعْظِيمًا لِمَنَاةَ نَحْوَهُ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ منات بت کے نام پر احرام باندھتے جو مقام مشلل میں تھا، وہ صفا اور مروہ کے درمیان (حج و عمرہ میں) سعی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «إن الصفا والمروة من شعائر الله» بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔ سفیان نے کہا کہ مناۃ مقام قدید پر مشلل میں تھا اور عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا کہ ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اسلام سے پہلے انصار اور غسان کے لوگ منات کے نام پر احرام باندھتے تھے، پہلی حدیث کی طرح۔ اور معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کے نام کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا (اسلام لانے کے بعد) ان لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم منات کی تعظیم کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّجْمِ، وَسَجَدَ مَعَهُ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ، وَالْجِنُّ، وَالْإِنْسُ". تَابَعَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ عُلَيَّةَ ابْنَ عَبَّاسٍ.
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے اور تمام مشرکوں اور جنات و انسانوں نے بھی سجدہ کیا۔ عبدالوارث کے ساتھ اس حدیث کو ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سے روایت کیا اور اسمٰعیل بن علیہ نے اپنی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَوَّلُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ فِيهَا سَجْدَةٌ وَالنَّجْمِ، قَالَ: "فَسَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَجَدَ مَنْ خَلْفَهُ إِلَّا رَجُلًا رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ، فَسَجَدَ عَلَيْهِ، فَرَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا وَهُوَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ".
ہم سے نصر بن علی نے بیان کیا، کہا ہم کو ابواحمد زبیری نے خبر دی، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سجدہ والی سورت سورۃ النجم ہے۔ بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی تلاوت کے بعد) سجدہ کیا اور جتنے لوگ آپ کے پیچھے تھے سب ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، سوا ایک شخص کے، میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ہتھیلی میں مٹی اٹھائی اور اسی پر سجدہ کر لیا۔ بعد میں (بدر کی لڑائی میں) میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا ہوا پڑا ہے۔ وہ شخص امیہ بن خلف تھا۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: مُسْتَمِرٌّ: ذَاهِبٌ، مُزْدَجَرٌ: مُتَنَاهٍ وَازْدُجِرَ فَاسْتُطِيرَ جُنُونًا، دُسُرٍ: أَضْلَاعُ السَّفِينَةِ، لِمَنْ كَانَ كُفِرَ، يَقُولُ: كُفِرَ لَهُ جَزَاءً مِنَ اللَّهِ، مُحْتَضَرٌ: يَحْضُرُونَ الْمَاءَ، وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: مُهْطِعِينَ: النَّسَلَانُ الْخَبَبُ السِّرَاعُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: فَتَعَاطَى: فَعَاطَهَا بِيَدِهِ فَعَقَرَهَا، الْمُحْتَظِرِ: كَحِظَارٍ مِنَ الشَّجَرِ مُحْتَرِقٍ، ازْدُجِرَ: افْتُعِلَ مِنْ زَجَرْتُ، كُفِرَ: فَعَلْنَا بِهِ وَبِهِمْ مَا فَعَلْنَا جَزَاءً لِمَا صُنِعَ بِنُوحٍ وَأَصْحَابِهِ، مُسْتَقِرٌّ: عَذَابٌ حَقٌّ يُقَالُ الْأَشَرُ الْمَرَحُ وَالتَّجَبُّرُ.
مجاہد نے کہا «مستمر» کا معنی جانے والا، باطل ہونے والا۔ «مزدجر» بے انتہا جھڑکنے والے، تنبیہ کرنے والے۔ «وازدجر» دیوانہ بنایا گیا (یا جھڑکا گیا)۔ «دسر» کشتی کے تختے یا کیلیں یا رسیاں۔ «لمن كان كفر» یعنی یہ عذاب اللہ کی طرف سے بدلہ تھا اس شخص کا جس کی انہوں نے ناقدری کی تھی یعنی نوح کی۔ «كل شرب مختضر» یعنی ہر فریق اپنی باری پر پانی پینے کو آئے۔ «مهطعين الى الداع» سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی ڈرتے ہوئے عربی زبان میں دوڑنے کو «لنسلان» ، «خبب» ، «سراع.» کہتے ہیں۔ اوروں نے کہا کہ«فتعاطى» یعنی ہاتھ چلایا اس کو زخمی کیا۔ «كهشيم المحتظر» کا معنی جیسے ٹوٹی جلی ہوئی باڑ۔ «ازدجر» ماضی مجہول کا صیغہ ہے باب«افتعل» سے اس کا مجرد «زجرت» ہے۔ «جزاء لمن كان كفر» یعنی ہم نے نوح اور ان کی قوم والوں کے ساتھ جو سلوک کیا یہ اس کا بدلہ تھا جو نوح اور ان کے ایماندار ساتھ والوں کے ساتھ کافروں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ «مستقر» جما رہنے والا۔ «عذاب اشر» کا معنی ہے اترانا، غرور کرنا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، وَسُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ، فِرْقَةً فَوْقَ الْجَبَلِ، وَفِرْقَةً دُونَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اشْهَدُوا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ اور سفیان نے اور ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے پیچھے چلا گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر ہم سے فرمایا تھا کہ گواہ رہنا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَارَ فِرْقَتَيْنِ، فَقَالَ لَنَا: "اشْهَدُوا اشْهَدُوا".
ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ چاند پھٹ گیا تھا اور اس وقت ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ چنانچہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ لوگو گواہ رہنا، گواہ رہنا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَكْرٌ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "انْشَقَّ الْقَمَرُ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بکر نے بیان کیا، ان سے جعفر نے، ان سے عراک بن مالک نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند پھٹ گیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "سَأَلَ أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ دکھانے کو کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چاند کے پھٹ جانے کا معجزہ دکھایا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "انْشَقَّ الْقَمَرُ فِرْقَتَيْنِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا تھا۔
قَالَ قَتَادَةُ: أَبْقَى اللَّهُ سَفِينَةَ نُوحٍ حَتَّى أَدْرَكَهَا أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ.
قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو باقی رکھا اور اس امت کے بعض پہلے بزرگوں نے اسے جودی پہاڑ پر دیکھ لیا۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر» پڑھا کرتے تھے۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: يَسَّرْنَا هَوَّنَّا قِرَاءَتَهُ.
مجاہد نے کہا کہ «يسرنا» کے معنی یہ کہ ہم نے اس کی قرآت (اور اس کی فہم) آسان کر دی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّه كَانَ يَقْرَأُ: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 17".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر» (سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟) پڑھا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا سَأَلَ الْأَسْوَدَ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ، أَوْ مُذَّكِرٍ، فَقَالَ: "سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَؤُهَا فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 22، قَالَ: وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 22 دَالًا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے انہوں نے ایک شخص کو اسود سے پوچھتے سنا کہ سورۃ القمر میں آیت «فهل من مدكر» ہے یا «فهل من مذكر» ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ «فهل من مدكر» پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی «فهل من مدكر» پڑھتے سنا ہے (دال مہملہ سے)۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 32".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ہمارے والد عثمان نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابی اسحاق نے، انہیں اسود نے اور انہیں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «فهل من مدكر» الآیۃ (دال مہملہ سے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَرَأَ: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 40".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «فهل من مدكر» (دال مہملہ سے) پڑھا تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 0 فَهَلْ مِنْ مُذَّكِرٍ 0، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 51".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے «فهل من مذكر» پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «فهل من مدكر» (یعنی دال مہملہ سے پڑھو)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. ح وحَدَّثَنِيمُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ وُهَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ يَوْمَ بَدْرٍ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ"، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ يَثِبُ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ: "سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ سورة القمر آية 45".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے وہیب نے کہا ہم سے خالد حذاء نے ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے دن ایک خیمے میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! تیری مرضی ہے اگر تو چاہے (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو بھی ہلاک کر دے) پھر آج کے بعد تیری عبادت باقی نہیں رہے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس یا رسول اللہ! آپ نے اپنے رب سے بہت ہی الحاح و زاری سے دعا کر لی ہے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے اور آپ خیمہ سے نکلے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر» سو عنقریب (کافروں کی) جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
يَعْنِي مِنَ الْمَرَارَةِ.
«أمر» ، «مرارة» سے ہے۔ جس کے معنی تلخی کے ہیں یعنی قیامت کا دن بہت تلخ ہو گا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكٍ، قَالَ: إِنِّي عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: "لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ سورة القمر آية 46".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یوسف بن ماہک نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جس وقت آیت «بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر» لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ چیز ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں نازل ہوئی تو میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ: "أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ أَبَدًا"، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، وَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ: "سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ 45 بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ 46 سورة القمر آية 45-46".
مجھ سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے، کہا ان سے خالد بن مہران حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے موقع پر میدان میں ایک خیمے میں یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے کہ (مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا: بس یا رسول اللہ! آپ اپنے رب سے خوب الحاح و زاری کے ساتھ دعا کر چکے ہیں۔ نبی کریم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر» یعنی عنقریب کافروں کی یہ جماعت ہار جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت ہی کڑوی چیز ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِحُسْبَانٍ كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ: يُرِيدُ لِسَانَ الْمِيزَانِ وَالْعَصْفُ بَقْلُ الزَّرْعِ إِذَا قُطِعَ مِنْهُ شَيْءٌ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ، فَذَلِكَ الْعَصْفُ، وَالرَّيْحَانُ: رِزْقُهُ، وَالْحَبُّ: الَّذِي يُؤْكَلُ مِنْهُ وَالرَّيْحَانُ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الرِّزْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَالْعَصْفُ يُرِيدُ الْمَأْكُولَ مِنَ الْحَبِّ وَالرَّيْحَانُ النَّضِيجُ الَّذِي لَمْ يُؤْكَلْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَقَالَ الضَّحَّاكُ: الْعَصْفُ التِّبْنُ، وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ: الْعَصْفُ أَوَّلُ مَا يَنْبُتُ تُسَمِّيهِ النَّبَطُ هَبُورًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَالرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَالْمَارِجُ اللَّهَبُ الْأَصْفَرُ وَالْأَخْضَرُ الَّذِي يَعْلُو النَّارَ إِذَا أُوقِدَتْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ مُجَاهِدٍ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ: لِلشَّمْسِ فِي الشِّتَاءِ مَشْرِقٌ وَمَشْرِقٌ فِي الصَّيْفِ، وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ: مَغْرِبُهَا فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ، لَا يَبْغِيَانِ: لَا يَخْتَلِطَانِ، الْمُنْشَآتُ: مَا رُفِعَ قِلْعُهُ مِنَ السُّفُنِ فَأَمَّا مَا لَمْ يُرْفَعْ قَلْعُهُ فَلَيْسَ بِمُنْشَأَةٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كَالْفَخَّارِ: كَمَا يُصْنَعُ الْفَخَّارُ الشُّوَاظُ لَهَبٌ مِنْ نَارٍ، وَنُحَاسٌ: النُّحَاسُ الصُّفْرُ يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَيُعَذَّبُونَ بِهِ، خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ: يَهُمُّ بِالْمَعْصِيَةِ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَتْرُكُهَا، مُدْهَامَّتَانِ: سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ، صَلْصَالٍ: طِينٌ خُلِطَ بِرَمْلٍ فَصَلْصَلَ كَمَا يُصَلْصِلُ الْفَخَّارُ، وَيُقَالُ: مُنْتِنٌ يُرِيدُونَ بِهِ صَلَّ، يُقَالُ: صَلْصَالٌ كَمَا، يُقَالُ: صَرَّ الْبَابُ عِنْدَ الْإِغْلَاقِ وَصَرْصَرَ مِثْلُ كَبْكَبْتُهُ يَعْنِي كَبَبْتُهُ، فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ الرُّمَّانُ وَالنَّخْلُ بِالْفَاكِهَةِ، وَأَمَّا الْعَرَبُ فَإِنَّهَا تَعُدُّهَا فَاكِهَةً كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، فَأَمَرَهُمْ بِالْمُحَافَظَةِ عَلَى كُلِّ الصَّلَوَاتِ، ثُمَّ أَعَادَ الْعَصْرَ تَشْدِيدًا لَهَا كَمَا أُعِيدَ النَّخْلُ وَالرُّمَّانُ وَمِثْلُهَا، أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ، وَقَدْ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَوَّلِ قَوْلِهِ: مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَفْنَانٍ: أَغْصَانٍ، وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ: مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ، وَقَالَ الْحَسَنُ: فَبِأَيِّ آلَاءِ: نِعَمِهِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ يَعْنِي الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ: يَغْفِرُ ذَنْبًا وَيَكْشِفُ كَرْبًا وَيَرْفَعُ قَوْمًا وَيَضَعُ آخَرِينَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَرْزَخٌ: حَاجِزٌ الْأَنَامُ الْخَلْقُ، نَضَّاخَتَانِ: فَيَّاضَتَانِ، ذُو الْجَلَالِ: ذُو الْعَظَمَةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَارِجٌ خَالِصٌ مِنَ النَّارِ، يُقَالُ: مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَيُقَالُ: مَرَجَ أَمْرُ النَّاسِ، مَرِيجٍ: مُلْتَبِسٌ، مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ: اخْتَلَطَ الْبَحْرَانِ مِنْ مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا، سَنَفْرُغُ لَكُمْ: سَنُحَاسِبُكُمْ لَا يَشْغَلُهُ شَيْءٌ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ مَعْرُوفٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ، يُقَالُ: لَأَتَفَرَّغَنَّ لَكَ وَمَا بِهِ شُغْلٌ، يَقُولُ: لَآخُذَنَّكَ عَلَى غِرَّتِكَ.
مجاہد نے کہا «بحسبان» یعنی چکی کی طرح گھوم رہے ہیں۔ اوروں نے کہا «وأقيموا الوزن» کا معنی یہ ہے کہ ترازو کی زبان سیدھی رکھو(یعنی برابر تولو)۔ «عصف.» کہتے ہیں کھیتی کی اس پیداوار (سبزے) کو جس کو پکنے سے پہلے کاٹ لیں یہ تو «عصف.» کے معنی ہوئے اور یہاں «ريحان» سے کھیتی کے پتے اور دانے جن کو کھاتے ہیں مراد ہیں۔ اور «ريحان» عربوں کی زبان میں روزی کو کہتے ہیں بعضوں نے کہا خوشبودار سبزے کو بعضوں نے کہا «عصف.» وہ دانہ جن کو کھاتے ہیں اور «ريحان» وہ پکا غلہ جس کو کچا نہیں کھاتے۔ اوروں نے کہا«عصف.» گیہوں کے پتے ہیں۔ ضحاک نے کہا «عصف.» بھوسا جو جانور کھاتے ہیں۔ ابو مالک غفاری (تابعی) نے کہا «عصف.» کھیتی کا وہ سبزہ جو پہلے پہل اگتا ہے کسان لوگ اس کو «هبور» کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «عصف.» گیہوں کا پتا اور «ريحان» روزی کا۔ «المارج»آگ کی لپٹ (کو) زرد یا سبز جو آگ روشن کرنے پر اوپر چڑھتی ہے بعضوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ «رب المشرقين ورب المغربين» میں «مشرقين» سے جاڑے اور گرمی کی مشرق اور «مغربين» سے جاڑے گرمی کی مغرب مراد ہے۔ «لا يبغيان»مل نہیں جاتے۔ «المنشآت» وہ کشتیاں جن کا بادبان اوپر اٹھایا گیا ہو (وہی دور سے پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی ہیں) اور جن کشتیوں کا بادبان نہ چڑھایا جائے ان کو «المنشآت» نہیں کہیں گے۔ مجاہد نے کہا «كالفخار» یعنی جیسا ٹھیکرا بنایا جاتا ہے۔ «الشواز» آگ کا شعلہ جس میں دھواں ہو۔ «فنحاس» پیتل جو گلا کر دوزخیوں کے سر پر ڈالا جائے گا ان کو اسی سے عذاب دیا جائے گا۔ «خاف مقام ربه»کا یہ مطلب ہے کہ کوئی آدمی گناہ کرنے کا قصد کرے پھر اپنے پروردگار کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔ «مدهامتان» بہت شادابی کی وجہ سے کالے یا سبز ہو رہے ہوں گے۔ «صلصال» وہ گارا کیچڑ جس میں ریت ملائی جائے وہ ٹھیکری کی طرح کھنکھنانے لگے۔ بعضوں نے کہا کہ «صلصال» بدبودار کیچڑ، جیسے کہتے ہیں «صل اللحم» یعنی گوشت بدبودار ہو گیا، سڑ گیا جیسے «صر الباب» دروازے بند کرتے وقت آواز دی اور «صرصر الباب» اور «كببته» کو «كبكبته» کہتے ہیں۔ «فاكهة ونخل ورمان» یعنی وہاں میوہ ہو گا اور کھجور اور انار اس آیت سے بعضوں نے (امام حنیفہ نے) یہ نکالا ہے کہ کھجور اور انار میوہ نہیں ہیں۔ عرب لوگ تو ان دونوں کو میوؤں میں شمار کرتے ہیں اب رہا «نخل» اور «ورمان» کا «عطف فاكهة» پر تو ایسا ہے جیسے دوسری آیت میں فرمایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» تو پہلے سب نمازوں کی محافظت کا حکم دیا «صلاة الوسطى» بھی ان میں آ گئی پھر «صلاة الوسطى» کو عطف کر کے دوبارہ بیان کر دینا اس سے غرض یہ ہے کہ اس کا اور زیادہ خیال رکھ، ایسے ہی یہاں بھی «نخل ورمان» ، «فاكهة» میں آ گئے تھے مگر ان کی عمدگی کی وجہ سے دوبارہ ان کا ذکر کیا جیسے اس آیت میں فرمایا «ألم تر أن الله يسجد له من في السموات ومن في الأرض» پھر اس کے بعد فرمایا «وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب» حالانکہ یہ دونوں «من في السموات ومن في الأرض» میں آ گئے اوروں نے (مجاہد یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا) کہا «أفنان» کا معنی شاخیں ڈالیاں ہیں۔ «وجنى الجنتين دان» یعنی دونوں باغوں کا میوہ قریب ہو گا اور حسن بصری نے کہا «فبأى آلاء» یعنی اس کی کون کون سی نعمتوں کو اور قتادہ نے کہا «ربكما» میں جِن اور انسان کی طرف خطاب ہے اور ابودرداء نے کہا «كل يوم هو في شأن» کا یہ مطلب ہے کسی کا گناہ بخشتا ہے، کسی کی تکلیف دور کرتا ہے، کسی قوم کو بڑھاتا ہے کسی قوم کو گھٹاتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «برزخ» سے آڑ مراد ہے۔ «لأنام الخلق نضاختان» خیر اور برکت سے یہاں رہتے ہیں۔ «ذو الجلال» بزرگی والا اوروں نے کہا۔ «مارج» خالص انگارا (جس میں دھواں نہ ہو) عرب لوگ کہتے ہیں «مرج الأمير رعيته» یعنی حاکم نے اپنی رعیت کا خیال چھوڑ دیا یا ایک کو دوسرے ستا رہا ہے۔ لفظ «مريج» جو سورۃ ق میں ہے۔ اس کا معنی گڈ مڈ ملا ہوا۔ «مرج البحراين» یعنی دونوں دریا مل گئے ہیں یہ «مرجت دابتك» سے نکلا ہے یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا اس طرح رہ کر ہم عنقریب تمہارا خاتمہ کریں گے یہاں فراغت کا معنی نہیں کیونکہ اللہ پاک کو کوئی چیز دوسری چیز کی طرف خیال کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے جو سب لوگوں میں مشہور ہے کوئی شخص بیکار ہوتا ہے اس کو فرصت ہوتی ہے لیکن ڈرانے کے لیے دوسرے سے کہتا ہے، اچھا میں تیرے لیے فراغت کروں گا یعنی وہ خوف جب ٹل جائے گا تو تجھ کو سزا دوں گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ،عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبدالصمد العمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران الجونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جنت میں) دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کے ہوں گے اور جنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدار میں کوئی چیز سوائے کبریائی کی چادر کے جو اس کے منہ پر ہو گی، حائل نہ ہو گی۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْحُورُ: السُّودُ الْحَدَقِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَقْصُورَاتٌ: مَحْبُوسَاتٌ قُصِرَ طَرْفُهُنَّ وَأَنْفُسُهُنَّ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ قَاصِرَاتٌ لَا يَبْغِينَ غَيْرَ أَزْوَاجِهِنَّ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حور» کے معنی کالی آنکھوں والی اور مجاہد نے کہا «مقصورات» کے معنی ان کی نگاہ اور جان اپنے شوہروں پر رکی ہوئی ہو گی (وہ اپنے خاوندوں کے سوا اور کسی پر آنکھ نہیں ڈالیں گی)۔ «قاصرات» کے معنی اپنے خاوند کے سوا اور کسی کی خواہشمند نہ ہو گی۔ «فى الخيام» کے معنی خیموں میں محفوظ ہوں گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ خَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّونَ مِيلًا، فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الْآخَرِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمُ الْمُؤْمِنُونَ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران جونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی چوڑائی ساٹھ میل ہو گی اور اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہو گی ایک کنارے والی دوسرے کنارے والی کو نہ دیکھ سکے گی۔
وَجَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ كَذَا آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
اور مومن ان کے پاس باری باری جائیں گے اور دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور ایسے بھی دو باغ ہوں گے جب کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کی ہوں گی۔ جنت عدن والوں کو اللہ پاک کے دیدار میں صرف ایک جلال کی چادر حائل ہو گی جو اس کے (مبارک) منہ پر پڑی ہو گی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رُجَّتْ: زُلْزِلَتْ، بُسَّتْ: فُتَّتْ لُتَّتْ كَمَا يُلَتُّ السَّوِيقُ الْمَخْضُودُ الْمُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ أَيْضًا: لَا شَوْكَ لَهُ، مَنْضُودٍ: الْمَوْزُ وَالْعُرُبُ الْمُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، ثُلَّةٌ: أُمَّةٌ، يَحْمُوم: دُخَانٌ أَسْوَدُ، يُصِرُّونَ: يُدِيمُونَ الْهِيمُ الْإِبِلُ الظِّمَاءُ، لَمُغْرَمُونَ: لَمَلُومُونَ مَدِينِينَ مُحَاسَبِينَ، رَوْحٌ: جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ، وَرَيْحَانٌ: الرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَنُنْشِئَكُمْ: فِيمَا لَا تَعْلَمُونَ فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَفَكَّهُونَ: تَعْجَبُونَ، عُرُبًا: مُثَقَّلَةً وَاحِدُهَا عَرُوبٌ مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةَ الْعَرِبَةَ، وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ الْغَنِجَةَ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ الشَّكِلَةَ، وَقَالَ: فِي خَافِضَةٌ لِقَوْمٍ إِلَى النَّارِ، وَرَافِعَةٌ: إِلَى الْجَنَّةِ، مَوْضُونَةٍ: مَنْسُوجَةٍ وَمِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ وَالْكُوبُ لَا آذَانَ لَهُ وَلَا عُرْوَةَ، وَالْأَبَارِيقُ ذَوَاتُ الْآذَانِ، وَالْعُرَى، مَسْكُوبٍ: جَارٍ، وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ: بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ، مُتْرَفِينَ: مُمَتَّعِينَ، مَا تُمْنُونَ: مِنَ النُّطَفِ يَعْنِي هِيَ النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ، لِلْمُقْوِينَ: لِلْمُسَافِرِينَ وَالْقِيُّ الْقَفْرُ، بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ: بِمُحْكَمِ الْقُرْآنِ، وَيُقَالُ: بِمَسْقِطِ النُّجُومِ إِذَا سَقَطْنَ وَمَوَاقِعُ وَمَوْقِعٌ وَاحِدٌ، مُدْهِنُونَ: مُكَذِّبُونَ مِثْلُ، لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ فَسَلَامٌ لَكَ: أَيْ مُسَلَّمٌ لَكَ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ، وَأُلْغِيَتْ إِنَّ وَهُوَ مَعْنَاهَا كَمَا، تَقُولُ: أَنْتَ مُصَدَّقٌ مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ إِذَا كَانَ قَدْ، قَالَ: إِنِّي مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ وَقَدْ يَكُونُ كَالدُّعَاءِ لَهُ كَقَوْلِكَ فَسَقْيًا مِنَ الرِّجَالِ إِنْ رَفَعْتَ السَّلَامَ، فَهُوَ مِنَ الدُّعَاءِ، تُورُونَ: تَسْتَخْرِجُونَ أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ، لَغْوًا: بَاطِلًا تَأْثِيمًا: كَذِبًا.
مجاہد نے کہا «رجت» کا معنی ہلائی جائے۔ «بست» چور چور کئے جائیں گے اور ستو کی طرح لت پت کر دیئے جائیں گے۔ «المخضود»بوجھ لدے ہوئے یا جن میں کانٹا نہ ہو۔ «منضود» ، «موز» (کیلا)۔ «عربا» اپنے خاوند کی پیاری بیوی۔ «ثلة» امت گروہ۔ «حموم» کالا دھواں۔ «يصرون» ہٹ دھرمی کرتے، ہمیشہ کرتے تھے۔ «الهيم» پیاسے اونٹ۔ «لمغرمون» ٹوٹے میں آ گئے، ڈنڈ ہوا۔ «روح» بہشت، آرام، راحت۔ «ريحان» رزق، روزی۔ «وننشأكم فيما لا تعلمون» یعنی جس صورت میں ہم چاہیں تم کو پیدا کریں۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «تفكهون» کا معنی «تعجبون» تعجب کرتے جائیں۔ «عربا مثقلة» (یعنی ضمہ کے ساتھ) «عروب» کی جمع جیسے«صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے ( «عروب» خوبصورت پیاری عورت) مکہ والے ایسی عورت کو «عربة» کہتے ہیں۔ اور مدینہ والے«غنجة» اور عراق والے «الشكلة» کہتے ہیں۔ «خافضة» ایک قوم کو نیچا دکھانے والی یعنی دوزخ میں لے جانے والی۔ «رافعة» ایک قوم کو بلند کرنے والے یعنی بہشت میں لے جانے والی۔ «موضونة» سونے سے بنے ہوئے، اسی سے نکلا ہے «وضين الناقة» یعنی اونٹنی کا زیر بند (تنگ)۔ «كوب» آبخورہ جس میں ٹونٹی اور کنڈا نہ ہو۔ ( «اكوب» جمع ہے) «ابريق» وہ کوزہ جس میں ٹونٹی کنڈہ ہو۔«اباريق» اس کی جمع ہے۔ «مسكوب» بہتا ہوا، جاری۔ «وفرش مرفوعة» اونچے بچھونے یعنی ایک کے اوپر ایک تلے اوپر بچھائے گئے۔«مترفين» کا معنی آسودہ، آرام پروردہ تھے۔ «ما تمنون» نطفہ جو عورتوں کے رحموں میں ڈالتے ہو۔ «للمقوين» مسافروں کے فائدے کے لیے یہ «قي» سے نکلا ہے «قي» کہتے ہیں بےآب و گیاہ میدان کو۔ «بمواقع النجوم» سے قرآن کی محکم آیتیں مراد ہیں بعضوں نے کہا تارے ڈوبنے کے مقامات۔ «واقع» جمع ہے، اس کا واحد «موقع» دونوں کا (جب «مضاف» ہوں) ایک ہی معنی ہے۔ «مدهنون»جھٹلانے والے جیسے اس آیت میں ہے «لو تدهن فيدهنون فسلام لك من أصحاب اليمين» کا یہ معنی ہے۔ «مسلم لك إنك من أصحاب اليمين» یعنی یہ بات مان لی گئی ہے چاہے کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے تو ان کا لفظ گرا دیا گیا مگر اس کا معنی قائم رکھا گیا اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے میں اب تھوڑی دیر میں سفر کرنے والا ہوں اور تو اس سے کہے «أنت مصدق مسافر عن قليل» یہاں بھی «أن» محذوف ہے یعنی «أنت مصدق أنك مسافر عن قليل» کبھی سلام کا لفظ بطور دعا کے مستعمل ہوتا ہے اگر مرفوع ہو جیسے «فسقيا» نصب کے ساتھ دعا کے معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تجھ کو سیراب کرے۔ «تورون» سلگاتے ہو آگ نکالتے ہو«أوريت» سے یعنی میں نے سلگایا، لغو، باطل، جھوٹ۔ «تأثيما» جھوٹ، غلط۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ، لَا يَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ سورة الواقعة آية 30".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت طویل ہو گا (اتنا بڑا کہ) سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا اور پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا اگر تمہارا جی چاہے تو اس آیت «وظل ممدود» کی قرآت کر لو۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ: مُعَمَّرِينَ فِيهِ، مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، مِنَ الضَّلَالَةِ إِلَى الْهُدَى: فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ، وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ: جُنَّةٌ وَسِلَاحٌ، مَوْلَاكُمْ أَوْلَى بِكُمْ لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ، لِيَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ، يُقَالُ: الظَّاهِرُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا، وَالْبَاطِنُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا، أَنْظِرُونَا: انْتَظِرُونَا.
مجاہد نے کہا «جعلكم مستخلفين فيه» یعنی جس نے زمین میں تم کو بسایا، جانشین کیا، آباد کیا۔ «من الظلمات إلى النور» یعنی گمراہی سے ہدایت کی طرف۔ «ومنافع للناس» یعنی تم لوہے سے ڈھال اور ہتھیار وغیرہ بناتے ہو۔ «مولاكم» یعنی آگ تمہارے لیے زیادہ سزاوار ہے۔ «لئلا يعلم أهل الكتاب» تاکہ اہل کتاب جان لیں ( «الا» زائد ہے)۔ «الظاهر» علم کی رو سے۔ «الباطن» علم کی رو سے۔ «أنظرونا» (بفتح ہمزہ و کسرہ ظاء ایک قرآت ہے) یعنی ہمارا انتظار کرو۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يُحَادُّونَ: يُشَاقُّونَ اللَّهَ، كُبِتُوا: أُخْزُوا مِنَ الْخِزْيِ، اسْتَحْوَذَ: غَلَبَ.
مجاہد نے کہا «يحادون الله» کا معنی اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ «كبتوا» ذلیل کئے گئے۔ «استحوذ» غالب ہو گیا۔
الْجَلاَءَ: الإِخْرَاجُ مِنْ أَرْضٍ إِلَى أَرْضٍ.
لفظ «الجلاء» کے معنی ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف نکال دینا جسے جلا وطنی کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: "سُورَةُ التَّوْبَةِ، قَالَ: التَّوْبَةُ هِيَ الْفَاضِحَةُ مَا زَالَتْ تَنْزِلُ وَمِنْهُمْ وَمِنْهُمْ حَتَّى ظَنُّوا أَنَّهَا لَنْ تُبْقِيَ أَحَدًا مِنْهُمْ إِلَّا ذُكِرَ فِيهَا، قَالَ: قُلْتُ: سُورَةُ الْأَنْفَالِ، قَالَ: نَزَلَتْ فِي بَدْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: سُورَةُ الْحَشْرِ، قَالَ: نَزَلَتْ فِي بَنِي النَّضِيرِ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر جعفر نے خبر دی، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ التوبہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ سورۃ التوبہ کی ہے یا فضیحت کرنے والی ہے اس سورت میں برابر یہی اترتا رہا بعض لوگ ایسے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہوا یہ سورت کسی کا کچھ بھی نہیں چھوڑے گی بلکہ سب کے بھید کھول دے گی۔ بیان کیا کہ میں نے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ جنگ بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ بیان کیا کہ میں نے سورۃ الحشر کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سُورَةُ الْحَشْرِ، قَالَ: قُلْ سُورَةُ النَّضِيرِ.
ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہیں ابوبشر (جعفر بن ابی)نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الحشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا بلکہ اسے سورۃ النضیر کہا۔
نَخْلَةٍ مَا لَمْ تَكُنْ عَجْوَةً أَوْ بَرْنِيَّةً.
آیت میں «لينة» بمعنی «نخلة» ہے جس کا معنی کھجور ہے جب کہ وہ عجوہ یا برنی نہ ہو یعنی کھجور مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلا دیئے تھے اور انہیں کاٹ ڈالا تھا۔ یہ درخت مقام بویرہ میں تھے پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» کہ جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا سو یہ دونوں اللہ ہی کے حکم کے موافق ہیں اور تاکہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کئی مرتبہ عمرو بن دینار سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنی نضیر کے اموال کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر لڑائی کے دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا تھا اس سے سامان جنگ اور گھوڑوں کے لیے خرچ کرتے تھے تاکہ اللہ رب العزت کے راستہ میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ، وَالْمُوتَشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ، فَقَالَ: "وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ"، فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ، قَالَ: "لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهُ، قَالَتْ: فَإِنِّي أَرَى أَهْلَكَ يَفْعَلُونَهُ، قَالَ: فَاذْهَبِي فَانْظُرِي، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَ: "لَوْ كَانَتْ كَذَلِكَ مَا جَامَعْتُهَا".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔ اس نے کہا کہ پڑھی ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے روکا ہے۔ اس پر عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: ذَكَرْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ حَدِيثَ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ"، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ مِنَ امْرَأَةٍ، يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، مِثْلَ حَدِيثِ مَنْصُورٍ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن عابس سے منصور بن معتمر کی حدیث کا ذکر کیا جو وہ ابراہیم سے بیان کرتے تھے کہ ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے قدرتی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت بھیجی تھی۔ عبدالرحمٰن بن عابس نے کہا کہ میں نے بھی ام یعقوب نامی ایک عورت سے سنا تھا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ منصور کی حدیث کے مثل بیان کرتی تھی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ، وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ".
ہم سے احمد بن یونس بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد انتقال سے پہلے) فرمایا تھا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کا حق پہچانے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو دارالسلام اور ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرار پکڑے ہوئے ہیں یہ کہ ان میں جو نیکوکار ہیں ان کی عزت کرے اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرے۔
الْخَصَاصَةُ الْفَاقَةُ الْمُفْلِحُونَ الْفَائِزُونَ بِالْخُلُودِ وَالْفَلَاحُ الْبَقَاءُ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ عَجِّلْ، وَقَالَ الْحَسَنُ: حَاجَةً حَسَدًا.
«الخصاصة» کے معنی فاقہ کے ہیں۔ «المفلحون» ہمیشہ کامیاب رہنے والے۔ «الفلاح» باقی رہنا۔ «حي على الفلاح» بقا کی طرف جلد آؤ یعنی اس کام کی طرف جس سے حیات ابدی حاصل ہو اور امام حسن بصری نے کہا «لا يجيدون في صدورهم» ، «حاجة» میں«حاجت» سے «حسد» مراد ہے۔
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَنِي الْجَهْدُ، فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: ضَيْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ، قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ، فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ، وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ، فَفَعَلَتْ، ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَقَدْ عَجِبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ سورة الحشر آية 9".
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم اشجعی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً: لَا تُعَذِّبْنَا بِأَيْدِيهِمْ، فَيَقُولُونَ: لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ عَلَى الْحَقِّ مَا أَصَابَهُمْ هَذَا، بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ: أُمِرَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِ نِسَائِهِمْ كُنَّ كَوَافِرَ بِمَكَّةَ.
مجاہد نے کہا «لا تجعلنا فتنة للذين كفروا» کا معنی یہ ہے کہ کافروں کے ہاتھوں سے ہم کو تکلیف نہ پہنچا، وہ یوں کہنے لگیں اگر ان مسلمانوں کا دین سچا ہوتا تو یہ ہمارے ہاتھ سے مغلوب کیوں ہوتے ایسی تکلیفیں کیوں اٹھاتے۔ «بعصم الكوافر» سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو یہ حکم ہوا کہ ان کافر عورتوں کو چھوڑ دیں جو مکہ میں بحالت کفر رہ گئیں ہیں۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبَ عَلِيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: "انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا، فَذَهَبْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا هَذَا يَا حَاطِبُ ؟"قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِنْ قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَصْطَنِعَ إِلَيْهِمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ"فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ: "إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: "اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ"، قَالَ عَمْرٌو: وَنَزَلَتْ فِيهِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1، قَالَ: لَا أَدْرِي الْآيَةَ فِي الْحَدِيثِ، أَوْ قَوْلُ عَمْرٍو. حَدَّثَنَاعَلِيٌّ، قَالَ: قِيلَ لِسُفْيَانَ فِي هَذَا، فَنَزَلَتْ لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1 الْآيَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا فِي حَدِيثِ النَّاسِ حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو مَا تَرَكْتُ مِنْهُ حَرْفًا وَمَا أُرَى أَحَدًا حَفِظَهُ غَيْرِي.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی نے بیان کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا) تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہو گا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرا سارا کپڑا اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کا ذکر لکھا تھا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی فوج لے کر آتے ہیں تم اپنا بچاؤ کر لو)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف (زمانہ قیام مکہ میں) رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم» کہ الایۃ۔ اے ایمان والو! تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث میں داخل ہے یا نہیں یہ عمرو بن دینار کا قول ہے۔ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آیت «لا تتخذوا عدوي» انہیں کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ سفیان نے کہا کہ لوگوں کی روایت میں تو یونہی ہے لیکن میں نے عمرو سے حدیث یاد کی اس میں سے ایک حرف بھی میں نے نہیں چھوڑا اور میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا اور کسی نے اس حدیث کو عمرو سے خوب یاد رکھا ہو۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الْآيَةِ بِقَوْلِ اللَّهِ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الممتحنة آية 12، قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ، قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ بَايَعْتُكِ"، كَلَامًا وَلَا وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ مَا يُبَايِعُهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ قَدْ بَايَعْتُكِ عَلَى ذَلِكِ". تَابَعَهُ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا محمد بن مسلم سے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان مومن عورتوں کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» کہ اے نبی! جب آپ سے مسلمان عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں ارشاد «غفور رحيم» تک۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا چنانچہ جو عورت اس شرط (آیت میں مذکور یعنی ایمان وغیرہ) کا اقرار کر لیتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زبانی طور پر فرماتے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی اور ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کبھی نہیں چھوا صرف آپ ان سے زبانی بیعت لیتے تھے کہ آیت میں مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر اور عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے کی اور اسحاق بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ عَلَيْنَا: أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12، وَنَهَانَا عَنِ النِّيَاحَةِ، فَقَبَضَتِ امْرَأَةٌ يَدَهَا، فَقَالَتْ: أَسْعَدَتْنِي فُلَانَةُ أُرِيدُ أَنْ أَجْزِيَهَا، فَمَا قَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَانْطَلَقَتْ، وَرَجَعَتْ، فَبَايَعَهَا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت کی «أن لا يشركن بالله شيئا» کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور ہمیں نوحہ (یعنی میت پر زور زور سے رونا پیٹنا) کرنے سے منع فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت پر ایک عورت (خود ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ فلاں عورت نے نوحہ میں میری مدد کی تھی، میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ وہ گئیں اور پھر دوبارہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّبَيْرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ سورة الممتحنة آية 12، قَالَ: "إِنَّمَا هُوَ شَرْطٌ شَرَطَهُ اللَّهُ لِلنِّسَاءِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے زبیر سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا يعصينك في معروف» یعنی اور بھلی باتوں (اور اچھے کاموں میں) آپ کی نافرمانی نہ کریں گی۔ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک شرط تھی جسے اللہ تعالیٰ نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے وقت) عورتوں کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: حَدَّثَنَاهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ، سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَتُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَقَرَأَ آيَةَ النِّسَاءِ وَأَكْثَرُ لَفْظِ سُفْيَانَ قَرَأَ الْآيَةَ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْهَا شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَسَتَرَهُ اللَّهُ، فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ". تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، فِي الْآيَةِ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوادریس نے بیان کیا اور انہوں نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ زنا کرو گے اور نہ چوری کرو گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النساء کی آیتیں پڑھیں۔ سفیان نے اس حدیث میں اکثر یوں کہا کہ آپ نے یہ آیت پڑھی۔ پھر تم میں سے جو شخص اس شرط کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کر بیٹھا اور اس پر اسے سزا بھی مل گئی تو سزا اس کے لیے کفارہ بن جائے گی لیکن کسی نے اپنے کسی عہد کے خلاف کیا اور اللہ نے اسے چھپا لیا تو وہ اللہ کے حوالے ہے اللہ چاہے تو اسے اس پر عذاب دے اور اگر چاہے معاف کر دے، سفیان کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی معمر سے روایت کیا انہوں نے زہری سے اور یوں ہی کہا آیت پڑھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّالْحَسَنَ بْنَ مُسْلِمٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "شَهِدْتُ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْفِطْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ، فَكُلُّهُمْ يُصَلِّيهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ يَخْطُبُ بَعْدُ، فَنَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حِينَ يُجَلِّسُ الرِّجَالَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَشُقُّهُمْ حَتَّى أَتَى النِّسَاءَ مَعَ بِلَالٍ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ سورة الممتحنة آية 12 حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ كُلِّهَا، ثُمَّ قَالَ حِينَ فَرَغَ أَنْتُنَّ عَلَى ذَلِكَ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ لَمْ يُجِبْهُ غَيْرُهَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا يَدْرِي الْحَسَنُ مَنْ هِيَ، قَالَ: فَتَصَدَّقْنَ وَبَسَطَ بِلَالٌ ثَوْبَهُ، فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِيمَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون بن معروف نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، انہیں حسن بن مسلم نے خبر دی، انہیں طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھی ہے۔ ان تمام بزرگوں نے نماز خطبہ سے پہلے پڑھی تھی اور خطبہ بعد میں دیا تھا (ایک مرتبہ خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اترے گویا اب بھی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، جب آپ لوگوں کو اپنے ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے پھر آپ صف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور عورتوں کے پاس تشریف لائے۔ بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك على أن لا يشركن بالله شيئا ولا يسرقن ولا يزنين ولا يقتلن أولادهن ولا يأتين ببهتان يفترينه بين أيديهن وأرجلهن» یعنی اے نبی! جب مومن عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ نہ کسی کو شریک کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان لگائیں گی جسے اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیں آپ نے پوری آیت آخر تک پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھ چکے تو فرمایا تم ان شرائط پر قائم رہنے کا وعدہ کرتی ہو؟ ان میں سے ایک عورت نے جواب دیا جی ہاں یا رسول اللہ! ان کے سوا اور کسی عورت نے(شرم کی وجہ سے) کوئی بات نہیں کہی۔ حسن کو اس عورت کا نام معلوم نہیں تھا بیان کیا کہ پھر عورتوں نے صدقہ دینا شروع کیا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا لیا۔ عورتیں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں چھلے اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ: مَنْ يَتَّبِعُنِي إِلَى اللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَرْصُوصٌ: مُلْصَقٌ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ، وَقَالَ يَحْيَى: بِالرَّصَاصِ.
مجاہد نے کہا «من أنصاري إلى الله» کا معنی یہ ہے کہ میرے ساتھ ہو کر کون اللہ کی طرف جاتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «مرصوص» خوب مضبوطی سے ملا ہوا، جڑا ہوا، اوروں نے کہا سیسہ ملا کر جڑا ہوا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی اور ان سے زہری نے بیان کیا کہا ہم کو محمد بن جبیر بن مطعم نے خبر دی اور ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمفرما رہے تھے کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو حشر میں میرے بعد جمع کرے گا اور میں عاقب ہوں۔ یعنی سب پیغمبروں کے بعد دنیا میں آنے والا ہوں۔
وَقَرَأَ عُمَرُ فَامْضُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ.
عمر رضی اللہ عنہ نے «فامضوا إلى ذكر الله» پڑھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف چلو۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا، وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ: "لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ".
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ثور نے، ان سے ابوالغیث سالم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ الجمعہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم» الایۃ اور دوسروں کے لیے بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہادی اور معلم ہیں) بیان کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تب بھی ان لوگوں (یعنی فارس والوں) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، أَخْبَرَنِي ثَوْرٌ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، انہیں ثور نے اور ان سے ابوالغیث نے، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ اسے پا لیں گے۔
حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، وَعَنْ أبي سفيان عنجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "أَقْبَلَت غِيرٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ النَّاسُ إِلَّا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا سورة الجمعة آية 11".
مجھ سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ابوسفیان نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے بیان کیا کہ جمعہ کے دن سامان تجارت لیے ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر سوائے بارہ آدمی کے سب لوگ ادھر ہی دوڑ پڑے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها» الایۃ یعنی اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشے کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑے ہوئے پھیل گئے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ فِي غَزَاةٍ، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ وَلَئِنْ رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِهِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي أَوْ لِعُمَرَ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ، فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ لِي عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، فَبَعَثَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ، فَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ".
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، ان سے اسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھا اور میں نے (منافقوں کے سردار) عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ(مہاجرین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا (سعد بن عبادہ انصاری) سے کیا یا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ (راوی کو شک تھا) انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھا لی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی «إذا جاءك المنافقون» جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کر دیا ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كُنْتُ مَعَ عَمِّي، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا، وَقَالَ أَيْضًا: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَ عَمِّي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَصَدَّقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَنِي، فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي بَيْتِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ إِلَى قَوْلِهِ هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 1 - 8، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهَا عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اپنے چچا (سعد بن عبادہ یا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما) کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ یہ بھی کہا کہ اگر اب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اس کی یہ بات چچا سے آ کر کہی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا انہوں نے قسم کھا لی کہ ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو سچا جانا اور مجھ کو جھوٹا سمجھا۔ مجھے اس اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہو گا پھر میں گھر کے اندر بیٹھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی «إذا جاءك المنافقون» سے «هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله» اور آیت «ليخرجن الأعز منها الأذل» تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور میرے سامنے اس سورت کی تلاوت کی پھر فرمایا کہ اللہ نے تمہارے بیان کو سچا کر دیا ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، وَقَالَ أَيْضًا: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ أَخْبَرْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَامَنِي الْأَنْصَارُ، وَحَلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ مَا قَالَ ذَلِكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى الْمَنْزِلِ، فَنِمْتُ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ وَنَزَلَهُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا سورة المنافقون آية 7"الْآيَةَ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے محمد بن کعب قرظی سے سنا، کہا کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہ بھی کہا کہ اب اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا تو میں نے یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی۔ اس پر کفار نے مجھے ملامت کی اور عبداللہ بن ابی نے قسم کھا لی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی پھر میں گھر واپس آ گیا اور سو گیا۔ اس کے بعد مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طلب فرمایا اور میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق میں آیت نازل کر دی ہے اور یہ آیت اتری ہے «هم الذين يقولون لا تنفقوا» الخ آخر تک۔ اور ابن ابی زائدہ نے اعمش سے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح نقل کیا۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ: "لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ، وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَسَأَلَهُ، فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ، قَالُوا: كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوا شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقِي فِي إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، فَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، فَلَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَقَوْلُهُ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ سورة المنافقون آية 4، قَالَ: "كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر (غزوہ تبوک یا بنی مصطلق) میں تھے جس میں لوگوں پر بڑے تنگ اوقات آئے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی اس گفتگو کی اطلاع دی تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا کر پوچھا۔ اس نے بڑی قسمیں کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لوگوں نے کہا کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے میں بڑا رنجیدہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی «إذا جاءك المنافقون» الخ یعنی جب آپ کے پاس منافق آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تاکہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لیے۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «خشب مسندة» گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھمبے ہیں (ان کے متعلق اس لیے کہا گیا کہ) وہ بڑے خوبصورت اور ڈیل ڈول معقول مگر دل میں منافق تھے۔
حَرَّكُوا اسْتَهْزَءُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُقْرَأُ بِالتَّخْفِيفِ مِنْ لَوَيْتُ.
«لودا» کا معنی یہ ہے کہ اپنے سر ہنسی، ٹھٹھے کی راہ سے ہلانے لگے۔ بعضوں نے «لودا» پر تخفیف واؤ «لويت» سے پڑھا ہے یعنی سر پھیر لیا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: "كُنْتُ مَعَ عَمِّي، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا، وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَ عَمِّي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، وَكَذَّبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُمْ، فَأَصَابَنِي غُمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي بَيْتِي، وَقَالَ عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالُوا: نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ، وَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهَا، وَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے اپنے چچا کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں اور اگر اب ہم مدینہ واپس لوٹیں گے تو ہم میں سے جو عزت والے ہیں ان ذلیلوں کو نکال باہر کر دیں گے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی تصدیق کر دی تو مجھے اس کا اتنا افسوس ہوا کہ پہلے کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا کہ تمہارا کیا ایسا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھٹلایا اور تم پر خفا ہوئے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إذا جاءك المنافقون قالوا نشهد إنك لرسول الله» جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق نازل کر دی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا فِي غَزَاةٍ، قَالَ سُفْيَانُ: مَرَّةً فِي جَيْشٍ، فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا لَلْأَنْصَارِ، وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَا لَلْمُهَاجِرِينَ، فَسَمِعَ ذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: "دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ"، فَسَمِعَ بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَقَالَ: فَعَلُوهَا أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ"، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ أَكْثَرَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، ثُمَّ إِنَّ الْمُهَاجِرِينَ كَثُرُوا بَعْدُ، قَالَ سُفْيَانُ: فَحَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرًا كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھے۔ سفیان نے ایک مرتبہ (بجائے غزوہ کے) جیش (لشکر) کا لفظ کہا۔ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی۔ انصاری نے کہا کہ اے انصاریو! دوڑو اور مہاجر نے کہا اے مہاجرین! دوڑو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے سنا اور فرمایا کیا قصہ ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات سے مار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔ عبداللہ بن ابی نے بھی یہ بات سنی تو کہا اچھا اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ خدا کی قسم! جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔ جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو انصار کی تعداد سے ان کی تعداد کم تھی۔ لیکن بعد میں ان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی، عمرو نے بیان کیا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ تھے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِيعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: حَزِنْتُ عَلَى مَنْ أُصِيبَ بِالْحَرَّةِ، فَكَتَبَ إِلَيَّ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَوَبَلَغَهُ شِدَّةُ حُزْنِي، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ"، وَشَكَّ ابْنُ الْفَضْلِ فِي أَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، فَسَأَلَ أَنَسًا بَعْضُ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ، فَقَالَ: هُوَ الَّذِي يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا الَّذِي أَوْفَى اللَّهُ لَهُ بِأُذُنِهِ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کا بیان نقل کیا کہ مقام حرہ میں جو لوگ شہید کر دیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔ عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: كُنَّا فِي غَزَاةٍ، فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا لَلْأَنْصَارِ، وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَا لَلْمُهَاجِرِينَ، فَسَمَّعَهَا اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا هَذَا ؟"فَقَالُوا: كَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا لَلْأَنْصَارِ، وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَا لَلْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ"، قَالَ جَابِرٌ: وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ حِينَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ، ثُمَّ كَثُرَ الْمُهَاجِرُونَ بَعْدُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: أَوَقَدْ فَعَلُوا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، اچانک مہاجرین کے ایک آدمی نے انصاری کے ایک آدمی کو مار دیا۔ انصار نے کہا: اے انصاریو! دوڑو اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! دوڑو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مار دیا ہے۔ اس پر انصاری نے کہا کہ اے انصاریو! دوڑو اور مہاجر نے کہا کہ اے مہاجرین! دوڑو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح پکارنا چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شروع میں انصار کی تعداد زیادہ تھی لیکن بعد میں مہاجرین زیادہ ہو گئے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم! مدینہ واپس ہو کر عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت ہو تو اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ورنہ لوگ یوں کہیں گے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرانے لگے ہیں۔
وَقَالَ عَلْقَمَةُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ سورة التغابن آية 11 هُوَ الَّذِي إِذَا أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ رَضِيَ وَعَرَفَ أَنَّهَا مِنَ اللَّهِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: التَّغَابُنُ غَبْنُ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَهْلَ النَّارِ. وقال مجاهد: إن ارتبتم إن لم تعلموا أتحيض أم لا تحيض فاللائي قعدن عن المحيض واللائي لم يحضن بعد فعدتهن ثلاثة أشهر.
علقمہ نے عبداللہ سے یہ نقل کیا کہ آیت «ومن يؤمن بالله يهد قلبه» اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو نور ہدایت سے روشن کر دیتا ہے سے مراد وہ شخص ہے کہ اگر اس پر کوئی مصیبت آ پڑے تو اس پر بھی وہ راضی رہتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَبَالَ أَمْرِهَا جَزَاءَ أَمْرِهَا.
مجاہد نے کہا کہ «وبال أمرها» ای «جزاء أمرها» یعنی اس کے گناہ کا وبال جو سزا کی شکل میں ہے اسے بھگتنا ہو گا، وہ مراد ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: "لِيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا، فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ كَمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بیوی آمنہ بنت غفار کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ اس پر بہت غصہ ہوئے اور فرمایا کہ وہ ان سے (اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اپنے نکاح میں رکھیں یہاں تک کہ وہ ماہواری سے پاک ہو جائے پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے طلاق دے سکتے ہیں بس یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے (مردوں کو) حکم دیا ہے کہ اس میں یعنی حالت طہر میں طلاق دیں۔
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ وَاحِدُهَا ذَاتُ حَمْلٍ.
اور «أولات الأحمال» سے مراد «ذات حمل» ہے جس کے معنی حمل والی عورت ہے۔
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: أَفْتِنِي فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ بَعْدَ زَوْجِهَا بِأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، قُلْتُ: أَنَا وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ غُلَامَهُ كُرَيْبًا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ: قُتِلَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ وَهِيَ حُبْلَى، فَوَضَعَتْ بَعْدَ مَوْتِهِ بِأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَخُطِبَتْ، فَأَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فِيمَنْ خَطَبَهَا،
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق مسئلہ بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چار مہینے بعد بچہ جنا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کا خاوند فوت ہو وہ عدت کی دو مدتوں میں جو مدت لمبی ہو اس کی رعایت کرے۔ (ابوسلمہ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا کہ (قرآن مجید میں تو ان کی عدت کا یہ حکم ہے) حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس مسئلہ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں۔ ان کی مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے تھی آخر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے۔ ام المؤمنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہما) شہید کر دیئے گئے تھے وہ اس وقت حاملہ تھیں شوہر کی موت کے چالیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام پہنچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کر دیا۔ ابوالسنابل بھی ان کے پاس پیغام نکاح بھیجنے والوں میں سے تھے۔
وَقَالَ: سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، وَكَانَ أَصْحَابُهُ يُعَظِّمُونَهُ، فَذَكَرُوا لَهُ، فَذَكَرَ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، فَحَدَّثْتُ بِحَدِيثِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: فَضَمَّزَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَفَطِنْتُ لَهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ فَاسْتَحْيَا، وَقَالَ: لَكِنْ عَمُّهُ لَمْ يَقُلْ ذَاكَ، فَلَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَذَهَبَ يُحَدِّثُنِي حَدِيثَ سُبَيْعَةَ، فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِيهَا شَيْئًا ؟ فَقَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ عَلَيْهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4.
اور سلیمان بن حرب اور النعمان نے بیان کیا، کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے اور ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں ایک مجلس میں جس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے موجود تھا۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت الحارث کا عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے بیان کیا کہ اس پر ان کے شاگرد نے زبان اور آنکھوں کے اشارے سے ہونٹ کاٹ کر مجھے تنبیہ کی۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ اگر میں ان کی طرف بھی جھوٹ نسبت کرتا ہوں تو بڑی جرات کی بات ہو گی مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب اس پر شرمندہ ہو گئے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا لیکن ان کے چچا تو یہ بات نہیں کرتے تھے۔ (ابن سیرین نے بیان کیا کہ) پھر میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا وہ بھی سبیعہ والی حدیث بیان کرنے لگے لیکن میں نے ان سے کہا آپ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے کہا کیا تم اس پر (جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور وہ حاملہ ہو۔ عدت کی مدت کو طول دے کر) سختی کرنا چاہتے ہو اور رخصت و سہولت دینے کے لیے تیار نہیں، بات یہ ہے کہ چھوٹی سورۃ نساء یعنی (سورۃ الطلاق) بڑی سورۃ النساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور کہا«وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» الایۃ اور حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ ابْنِ حَكِيمٍ هُوَ يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ الثَّقَفِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "فِي الْحَرَامِ يُكَفَّرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: 0 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ 0".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے ابن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے اوپر کوئی حلال چیز حرام کر لی تو اس کا کفارہ دینا ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لقد كان لكم في رسول الله إسوة حسنة» یعنی بیشک تمہارے لیے تمہارے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَيَمْكُثُ عِنْدَهَا، فَوَاطَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ عَلَى أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا، فَلْتَقُلْ لَهُ: أَكَلْتَ مَغَافِيرَ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ ؟ قَالَ: "لَا، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَشْرَبُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَلَنْ أَعُودَ لَهُ، وَقَدْ حَلَفْتُ لَا تُخْبِرِي بِذَلِكَ أَحَدًا".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں عطاء نے، انہیں عبید بن عمیر اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے گھر میں شہد پیتے اور وہاں ٹھہرتے تھے پھر میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (زینب کے یہاں سے شہد پی کر آنے کے بعد) داخل ہوں تو وہ کہے کہ کیا آپ نے پیاز کھائی ہے۔ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو منصوبہ بندی کے تحت یہی کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدبو کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے مغافیر نہیں کھائی ہے البتہ زینب بنت جحش کے یہاں سے شہد پیا تھا لیکن اب اسے بھی ہرگز نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم کھا لی ہے لیکن تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، أَنَّهُ قَالَ: "مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ، حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعْنَا وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، قَالَ: فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ ؟ فَقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي، فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: مَا لَكَ وَلِمَا هَا هُنَا وَفِيمَ تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ، فَقَالَتْ لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَقَالَ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ، فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ، فَأَخَذَتْنِي وَاللَّهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ، وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ، فَقَالَ: افْتَحْ افْتَحْ، فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ، فَقَالَ: بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ، فَقُلْتُ: رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ، فَأَخَذْتُ ثَوْبِي، فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَذِنَ لِي، قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ، فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: "مَا يُبْكِيكَ ؟"فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: "أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو؟ میری بیوی نے اس پر کہا: خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (حفصہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ بھی کر دیا تھا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا (ناراضگی) سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آ جانا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو! کھولو! کھولو! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام (رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔
فِيهِ عَائِشَةُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: أَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا أَتْمَمْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ: "عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، کہا میں نے عبید بن حنین سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بات پوچھنے کا ارادہ کیا اور عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستانے کے لیے منصوبہ بنایا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ انہوں نے کہا وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔
صَغَوْتُ وَأَصْغَيْتُ مِلْتُ لِتَصْغَى: لِتَمِيلَ، وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ سورة التحريم آية 4، عَوْنٌ تَظَاهَرُونَ تَعَاوَنُونَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ: أَوْصُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَأَدِّبُوهُمْ.
عرب لوگ کہتے ہیں «صغوت» ای «صغوت» یعنی میں جھک پڑا ( «لتصغى») جو سورۃ الانعام میں ہے جس کا معنی جھک جائیں۔ «وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه وجبريل وصالح المؤمنين والملائكة بعد ذلك ظهير» یعنی اگر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مقابلہ میں تم روز نیا حملہ کرتی رہیں تو اس کا مددگار تو اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔ «ظهير» کا معنی مددگار۔ «تظاهرون» ایک کی ایک مدد کرتے ہو۔ مجاہد نے کہا آیت «قوا أنفسكم وأهليكم» کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کا ڈر اختیار کرنے کی نصیحت کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَكَثْتُ سَنَةً، فَلَمْ أَجِدْ لَهُ مَوْضِعًا حَتَّى خَرَجْتُ مَعَهُ حَاجًّا، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرَانَ ذَهَبَ عُمَرُ لِحَاجَتِهِ، فَقَالَ: أَدْرِكْنِي بِالْوَضُوءِ فَأَدْرَكْتُهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَجَعَلْتُ أَسْكُبُ عَلَيْهِ الْمَاءَ، وَرَأَيْتُ مَوْضِعًا، فَقُلْتُ: "يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا أَتْمَمْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ: "عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن انصاری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبید بن حنین سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان عورتوں کے متعلق سوال کرنا چاہا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر زور کیا تھا۔ ایک سال اسی فکر میں رہا اور مجھے کوئی موقع نہیں ملتا تھا آخر ان کے ساتھ حج کے لیے نکلا (واپسی میں) جب ہم مقام ظہران میں تھے تو عمر رضی اللہ عنہ رفع حاجت کے لیے گئے۔ پھر کہا کہ میرے لیے وضو کا پانی لاؤ، میں ایک برتن میں پانی لایا اور ان کو وضو کرانے لگا اس وقت مجھ کو موقع ملا۔ میں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ایسا کیا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری نہ کی تھی انہوں نے کہا کہ وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ".
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرت دلانے کے لیے جمع ہو گئیں تو میں نے ان سے کہا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار تمہارے بدلے میں انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «عسى ربه إن طلقكن» آخر تک۔
التَّفَاوُتُ الِاخْتِلَافُ وَالتَّفَاوُتُ وَالتَّفَوُّتُ وَاحِدٌ تَمَيَّزُ تَقَطَّعُ: مَنَاكِبِهَا، جَوَانِبِهَا: تَدَّعُونَ، وَتَدْعُونَ وَاحِدٌ مِثْلُ تَذَّكَّرُونَ وَتَذْكُرُونَ، وَيَقْبِضْنَ يَضْرِبْنَ بِأَجْنِحَتِهِنَّ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَافَّاتٍ: بَسْطُ أَجْنِحَتِهِنَّ وَنُفُورٌ الْكُفُورُ.
«التفاوت» کا معنی اختلاف، فرق «تفاوت» اور «تفوت» دونوں کا ایک معنی ہے۔ «تميز» ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ «مناكبها» اس کے کناروں میں۔ «تدعون» (دال کی تشدید) اور «تدعون» (دال کے جزم کے ساتھ) دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے «تذكرون.» اور«تذكرون» (ذال کے جزم کے ساتھ) کا ایک ہی معنی ہے۔ «يقبضن» اپنے پنکھ مارتے ہیں (یا سمیٹ لیتے ہیں)۔ مجاہد نے کہا «صافات»کے معنی اپنے بازو کھولے ہوئے۔ «نفور» سے کفر اور شرارت مراد ہے۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: حَرْدٍ: جِدٍّ فِي أَنْفُسِهِمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَتَخَافَتُونَ يَنْتَجُونَ السِّرَارَ وَالْكَلَامَ الْخَفِيَّ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَضَالُّونَ: أَضْلَلْنَا مَكَانَ جَنَّتِنَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: كَالصَّرِيمِ: كَالصُّبْحِ انْصَرَمَ مِنَ اللَّيْلِ وَاللَّيْلِ انْصَرَمَ مِنَ النَّهَارِ وَهُوَ أَيْضًا كُلُّ رَمْلَةٍ انْصَرَمَتْ مِنْ مُعْظَمِ الرَّمْلِ، وَالصَّرِيمُ أَيْضًا الْمَصْرُومُ مِثْلُ قَتِيلٍ وَمَقْتُولٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يتخافتون» چپکے چپکے، کانا پھوسی کرتے ہوئے۔ قتادہ نے کہا «حرد» کے معنی دل سے کوشش کرنا یا بخیلی یا غصہ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لضالون» کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے باغ کی جگہ بھول گئے، بھٹک گئے اور آگے بڑھ گئے۔ اوروں نے کہا «صريم» کے معنی صبح جو رات سے کٹ کر الگ ہو جاتی ہے یا رات جو دن سے کٹ کر الگ ہو جاتی ہے۔«صريم» اس ریتی کو بھی کہتے ہیں جو ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں سے کٹ کر الگ ہو جائے۔ «صريم» ، «مصروم» کے معنی میں ہے جیسے «قتيل» ، «مقتول» کے معنوں میں ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ سورة القلم آية 13، قَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: لَهُ زَنَمَةٌ مِثْلُ زَنَمَةِ الشَّاةِ.
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابوحصین نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «عتل بعد ذلك زنيم» یعنی وہ ظالم سخت مزاج ہے اس کے علاوہ حرامی بھی ہے۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت قریش کے ایک شخص کے بارے میں ہوئی تھی اس کی گردن میں نشانی تھی جیسے بکری میں نشانی ہوتی ہے کہ بعض ان میں کا کوئی عضو بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ الْخُزَاعِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ ؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے عبد بن خالد سے بیان کیا، کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے (لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں ہر بدخو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطا بن یسار اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ہمارا رب قیامت کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدہ کے لیے نہ مڑ سکیں گے۔
قَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ: يُرِيدُ فِيهَا الرِّضَا، الْقَاضِيَةَ: الْمَوْتَةَ الْأُولَى الَّتِي مُتُّهَا لَمْ أُحْيَ بَعْدَهَا، مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ: أَحَدٌ يَكُونُ لِلْجَمْعِ وَلِلْوَاحِدِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْوَتِينَ: نِيَاطُ الْقَلْبِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: طَغَى: كَثُرَ، وَيُقَالُ: بِالطَّاغِيَةِ: بِطُغْيَانِهِمْ، وَيُقَالُ: طَغَتْ عَلَى الْخَزَّانِ كَمَا طَغَى الْمَاءُ عَلَى قَوْمِ نُوحٍ.
«عيشة راضية مرضية» ، «مرضية» کے معنی میں ہے یعنی پسندیدہ عیش۔ «القاضية» پہلی موت یعنی کاش پہلی موت جو آئی تھی اس کے بعد میں مرا ہی رہتا پھر زندہ نہ ہوتا۔ «من أحد عنه حاجزين أحد» کا اطلاق مفرد اور جمع دونوں پر آتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وتين» سے مراد جان کی رگ جس کے کٹنے سے آدمی مر جاتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «طغى الماء» یعنی پانی بہت چڑھ گیا۔ «بالطاغية» اپنی شرارت کی وجہ سے بعضوں نے کہا «طاغيه» سے آندھی مراد ہے اس نے اتنا زور کیا کہ فرشتوں کے اختیار سے باہر ہو گئی جیسے پانی نے نوح علیہ السلام کی قوم پر زور کیا تھا۔
الْفَصِيلَةُ أَصْغَرُ آبَائِهِ الْقُرْبَى إِلَيْهِ يَنْتَمِي مَنِ انْتَمَى، لِلشَّوَى: الْيَدَانِ وَالرِّجْلَانِ وَالْأَطْرَافُ وَجِلْدَةُ الرَّأْسِ، يُقَالُ: لَهَا شَوَاةٌ وَمَا كَانَ غَيْرَ مَقْتَلٍ فَهُوَ شَوًى عِزِينَ وَالْعِزُونَ الْحِلَقُ وَالْجَمَاعَاتُ وَوَاحِدُهَا عِزَةٌ.
«فصيلة» نزدیک کا دادا جس کی طرف آدمی کو نسبت دی جاتی ہے۔ «شوى» دونوں ہاتھ پاؤں، بدن کے کنارے، سر کی کھال اس کو«شواة» کہتے ہیں اور جس عضو کے کاٹنے سے آدمی مرتا نہیں ہے وہ «شوى» ہے۔ «عزون» گروہ گروہ کا مفرد «عزة.» ہے۔
إِنَّا أَرْسَلْنَا أَطْوَارًا طَوْرًا: كَذَا وَطَوْرًا كَذَا، يُقَالُ: عَدَا طَوْرَهُ أَيْ قَدْرَهُ وَالْكُبَّارُ أَشَدُّ مِنَ الْكِبَارِ، وَكَذَلِكَ جُمَّالٌ وَجَمِيلٌ لِأَنَّهَا أَشَدُّ مُبَالَغَةً، وَكُبَّارٌ الْكَبِيرُ وَكُبَارًا أَيْضًا بِالتَّخْفِيفِ وَالْعَرَبُ، تَقُولُ رَجُلٌ حُسَّانٌ وَجُمَّالٌ وَحُسَانٌ مُخَفَّفٌ وَجُمَالٌ مُخَفَّفٌ، دَيَّارًا: مِنْ دَوْرٍ، وَلَكِنَّهُ فَيْعَالٌ مِنَ الدَّوَرَانِ كَمَا قَرَأَ عُمَرُ الْحَيُّ الْقَيَّامُ وَهِيَ مِنْ قُمْتُ وَقَالَ غَيْرُهُ: دَيَّارًا أَحَدًا تَبَارًا هَلَاكًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مِدْرَارًا يَتْبَعُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَقَارًا عَظَمَةً.
«أطوارا» کبھی کچھ کبھی کچھ مثلاً منی پھر گوشت کا لوتھڑا عرب لوگ کہتے ہیں «عدا طوره.» اپنے انداز سے بڑھ گیا۔ «كبار» (بہ تشدید باء) میں «كبار» سے زیادہ مبالغہ ہے یعنی بہت ہی بڑا، جیسے جمیل خوبصورت، جمال بہت ہی خوبصورت غرض «كبار» کا معنی بڑا کبھی اس کو «كبار» تخفیف باء سے بھی پڑھا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حسان» اور «جمال» (تشدید سے) اور «حسان» اور «جمال» (تخفیف سے)۔ «ديارا» ، «دور» سے نکلا ہے۔ اس کا وزن «فيعال» ہے (اصل میں دیوار تھا) جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے «الحى القيوم.» کو«الحى القيام.» پڑھا ہے۔ یہ قیامت «قمت» سے نکلا ہے (تو اصل میں «قيوام» تھا)۔ اوروں نے کہا «ديارا» کے معنی کسی کو «تبارا»ہلاکت۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «مدرارا» ایک کے پیچھے دوسرا یعنی لگاتار بارش۔ «وقارا» عظمت بڑائی مراد ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَقَالَ عَطَاءٌ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، صَارَتِ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي الْعَرَبِ بَعْدُ أَمَّا وَدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَيْلٍ، وَأَمَّا يَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ، ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالْجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ، وَأَمَّا يَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِي الْكَلَاعِ، أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ، فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ، وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے اور عطاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو بت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِبَدًا: أَعْوَانًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لبدا» کے معنی مددگار کے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ، فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ ؟ فَقَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، قَالَ: مَا حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا مَا حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الْأَمْرُ الَّذِي حَدَثَ، فَانْطَلَقُوا، فَضَرَبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا يَنْظُرُونَ مَا هَذَا الْأَمْرُ الَّذِي حَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَخْلَةَ وَهُوَ عَامِدٌ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ تَسَمَّعُوا لَهُ، فَقَالُوا: هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَهُنَالِكَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ، وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ سورة الجن آية 1 وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ سوق عکاظ (مکہ اور طائف کے درمیان ایک میدان جہاں عربوں کا مشہور میلہ لگتا تھا) کا قصد کیا اس زمانہ میں شیاطین تک آسمان کی خبروں کے چرا لینے میں رکاوٹ پیدا کر دی گئی تھی اور ان پر آسمان سے آگ کے انگارے چھوڑے جاتے تھے جب وہ جِن اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئے تو ان کی قوم نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ آسمان کی خبروں میں اور ہمارے درمیان رکاوٹ کر دی گئی ہے اور ہم پر آسمان سے آگ کے انگارے برسائے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ آسمان کی خبروں اور تمہارے درمیان رکاوٹ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی خاص بات پیش آئی ہے۔ اس لیے ساری زمین پر مشرق و مغرب میں پھیل جاؤ اور تلاش کرو کہ کون سی بات پیش آ گئی ہے۔ چنانچہ شیاطین مشرق و مغرب میں پھیل گئے تاکہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ آسمان کی خبروں کی ان تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے وہ کس بڑے واقعہ کی وجہ سے ہے۔ بیان کیا کہ جو شیاطین اس کھوج میں نکلے تھے ان کا ایک گروہ وادی تہامہ کی طرف بھی آ نکلا (یہ جگہ مکہ معظمہ سے ایک دن کے سفر کی راہ پر ہے) جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منڈی عکاظ کی طرف جاتے ہوئے کھجور کے ایک باغ کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب شیاطین نے قرآن مجید سنا تو یہ اس کو سننے لگ گئے پھر انہوں نے کہا کہ یہی چیز ہے وہ جس کی وجہ سے تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ آئے اور ان سے کہا کہ «إنا سمعنا قرآنا عجبا» الایۃ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی راہ دکھلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور ہم اب اپنے پروردگار کو کسی کا ساجھی نہ بنائیں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی «قل أوحي إلى أنه استمع نفر من الجن» الایۃ۔ آپ کہئے کہ میرے پاس وحی آئی ہے اس بات کی کہ جِنوں کی ایک جماعت نے قرآن مجید سنا یہی جِنوں کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَتَبَتَّلْ: أَخْلِصْ، وَقَالَ الْحَسَنُ: أَنْكَالًا: قُيُودًا، مُنْفَطِرٌ بِهِ: مُثْقَلَةٌ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَثِيبًا مَهِيلًا: الرَّمْلُ السَّائِلُ، وَبِيلًا: شَدِيدًا.
مجاہد نے کہا کہ «تبتل» کے معنی خالص اسی کا ہو جا اور امام حسن بصری نے فرمایا «أنكالا» کا معنی بیڑیاں ہیں۔ «منفطر به» اس کے سبب سے بھاری ہو جائے گا، بھاری ہو کر پھٹ جائے گا۔ ابن عباس نے کہا «كثيبا مهيلا» پھسلتی بہتی ریت۔ «وبيلا» کے معنی سخت کے ہیں۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَسِيرٌ: شَدِيدٌ، قَسْوَرَةٌ: رِكْزُ النَّاسِ وَأَصْوَاتُهُمْ وَكُلُّ شَدِيدٍ قَسْوَرَةٌ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: الْقَسْوَرَةُ قَسْوَرٌ الْأَسَدُ الرِّكْزُ الصَّوْتُ، مُسْتَنْفِرَةٌ: نَافِرَةٌ مَذْعُورَةٌ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «عسير» کا معنی سخت۔ «قسورة» کا معنی لوگوں کا شور و غل۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا «قسورة»شیر کو کہتے ہیں اور ہر سخت اور زور دار چیز کو «قسورة» کہتے ہیں۔ «مستنفرة» بھڑکنے والی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ، فَقَالَ جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَنُودِيتُ، فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ 1 قُمْ فَأَنْذِرْ 2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ 3 سورة المدثر آية 1-3".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق» سب سے پہلے نازل ہوئی۔ ابوسلمہ نے اس پر کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی وہی میں نے بھی ان سے کہی تھی لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں غار حرا میں ایک مدت کے لیے خلوت نشیں تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی، میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا لیکن کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پھر بائیں طرف دیکھا ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہیں دی، سامنے دیکھا ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا اور ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ اب میں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک چیز دکھائی دی۔ پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو۔ فرمایا کہ پھر انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور ٹھنڈا پانی مجھ پر بہایا۔ فرمایا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر» یعنی اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَغَيْرُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ"، مِثْلَ حَدِيثِعُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور ان کے غیر (ابوداؤد طیالسی) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حرب بن شداد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں تنہائی اختیار کئے ہوئے تھا۔ یہ روایت بھی عثمان بن عمر کی حدیث کی طرح ہے جو انہوں نے علی بن مبارک سے بیان کی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ: لَا أُخْبِرُكَ إِلَّا بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "جَاوَرْتُ فِي حِرَاءٍ فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَاسْتَبْطَنْتُ الْوَادِيَ، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ 1 قُمْ فَأَنْذِرْ 2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ 3 سورة المدثر آية 1-3.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے حرب نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ فرمایا کہ «يا أيها المدثر» میں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق» سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ «يا أيها المدثر» اے کپڑے میں لپٹنے والے! میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ «اقرأ باسم ربك» سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے غار حرا میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کر چکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ پھر میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر» اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی کیجئے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: "فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ إِلَى وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5 قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ وَهِيَ الْأَوْثَانُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کا سلسلہ رک جانے کا حال بیان فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رو رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا پھر میں گھر واپس آیا اور خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها المدثر» سے «والرجز فاهجر» تک نازل کی۔ یہ سورت نماز فرض کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی تھی «الرجز» سے مراد بت ہے۔
يُقَالُ: الرِّجْزُ وَالرِّجْسُ الْعَذَابُ.
کہا گیا ہے کہ «الرجز» اور «الرجس» عذاب کے معنی میں ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ: "فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ، فَجِئْتُ أَهْلِي، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزَ: الْأَوْثَانَ، ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کے سلسلے کے رک جانے سے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ کرسی پر آسمان اور زمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو! مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها المدثر»سے «والرجز فاهجر» تک ابوسلمہ نے بیان کیا کہ «الرجز» بت کے معنی میں ہے۔ پھر وحی گرم ہو گئی اور سلسلہ نہیں ٹوٹا۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سُدًي: هَمَلًا، لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ: سَوْفَ أَتُوبُ سَوْفَ أَعْمَلُ، لَا وَزَرَ: لَا حِصْنَ سُدًى هَمَلًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «سدى» یعنی بےقید، آزاد جو چاہے وہ کرے۔ «ليفجر أمامه» یعنی انسان ہمیشہ گناہ کرتا رہتا اور یہی کہتا رہتا ہے کہ جلدی توبہ کر لوں گا، جلدی اچھے عمل کروں گا۔ «لا وزر» ای «لا حصن» یعنی پناہ کے لیے کوئی قلعہ نہیں ملے گا۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ حَرَّكَ بِهِ لِسَانَهُ"، وَوَصَفَ سُفْيَانُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا اور موسیٰ ثقہ تھے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنی زبان ہلایا کرتے تھے۔ سفیان نے کہا کہ اس ہلانے سے آپ کا مقصد وحی کو یاد کرنا ہوتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «لا تحرك به لسانك لتعجل به» آپ جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں، اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوا دینا، یہ ہر دو کام تو ہمارے ذمہ ہیں۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: "لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16 يَخْشَى أَنْ يَنْفَلِتَ مِنْهُ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17 أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ أَنْ تَقْرَأَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ سورة القيامة آية 18، يَقُولُ: أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18 ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19 أَنْ نُبَيِّنَهُ عَلَى لِسَانِكَ".
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے کہ انہوں نے سعید بن جبیر سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا تحرك به لسانك» الایۃ یعنی آپ قرآن کو لینے کے لیے زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹ ہلایا کرتے تھے اس لیے آپ سے کہا گیا «لا تحرك به لسانك» الخ یعنی وحی پر اپنی زبان نہ ہلایا کریں، اس کا تمہارے دل میں جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ جب ہم اس کو پڑھ چکیں یعنی جبرائیل تجھ کو سنا چکیں تو جیسا جبرائیل نے پڑھ کر سنایا تو بھی اس طرح پڑھ۔ پھر یہ بھی ہمارا ہی کام ہے کہ ہم تیری زبان سے اس کو پڑھوا دیں گے۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَرَأْنَاهُ: بَيَّنَّاهُ، فَاتَّبِعْ: اعْمَلْ بِهِ.
یعنی پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے تابع ہو جایا کریں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «قرأناه» کے معنی یہ ہیں ہم نے اسے بیان کیا اور «فاتبع» کا معنی یہ کہ تم اس پر عمل کرو۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ، فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ سورة القيامة آية 1 لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16 إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17، قَالَ: عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19 عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، قَالَ: فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى تَوَعُّدٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا تحرك به لسانك لتعجل به» الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة» میں ہے یعنی «لا تحرك به لسانك» الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔ بیان کیا کہ چنانچہ اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ آیت «أولى لك فأولى» میں «تهديد» یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔
يُقَالُ: مَعْنَاهُ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ وَهَلْ تَكُونُ جَحْدًا وَتَكُونُ خَبَرًا، وَهَذَا مِنَ الْخَبَرِ، يَقُولُ: كَانَ شَيْئًا فَلَمْ يَكُنْ مَذْكُورًا، وَذَلِكَ مِنْ حِينِ خَلَقَهُ مِنْ طِينٍ إِلَى أَنْ يُنْفَخَ فِيهِ الرُّوحُ، أَمْشَاجٍ: الْأَخْلَاطُ مَاءُ الْمَرْأَةِ وَمَاءُ الرَّجُلِ الدَّمُ وَالْعَلَقَةُ، وَيُقَالُ: إِذَا خُلِطَ مَشِيجٌ كَقَوْلِكَ خَلِيطٌ وَمَمْشُوجٌ مِثْلُ مَخْلُوطٍ، وَيُقَالُ: سَلَاسِلًا وَأَغْلَالًا: وَلَمْ يُجْرِ بَعْضُهُمْ، مُسْتَطِيرًا: مُمْتَدًّا الْبَلَاءُ وَالْقَمْطَرِيرُ الشَّدِيدُ يُقَالُ يَوْمٌ قَمْطَرِيرٌ وَيَوْمٌ قُمَاطِرٌ وَالْعَبُوسُ وَالْقَمْطَرِيرُ وَالْقُمَاطِرُ وَالْعَصِيبُ أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنَ الْأَيَّامِ فِي الْبَلَاءِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: النُّضْرَةُ فِي الْوَجْهِ وَالسُّرُورُ فِي الْقَلْبِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْأَرَائِكِ السُّرُرُ، وَقَالَ الْبَرَاءُ: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا، وَقَالَ مَعْمَرٌ: أَسْرَهُمْ: شِدَّةُ الْخَلْقِ وَكُلُّ شَيْءٍ شَدَدْتَهُ مِنْ قَتَبٍ وَغَبِيطٍ فَهُوَ مَأْسُورٌ.
لفظ «هل أتى» کا معنی آ چکا۔ «هل» کا لفظ کبھی تو انکار کے لیے آتا ہے، کبھی تحقیق کے لیے ( «قد» کے معنی میں) یہاں «قد» ہی کے معنی میں ہے۔ یعنی ایک زمانہ انسان پر ایسا آ چکا ہے کہ وہ ذکر کرنے کے قابل چیز نہ تھا، یہ وہ زمانہ ہے جب مٹی سے اس کا پتلا بنایا گیا تھا۔ اس وقت تک جب روح اس میں پھونکی گئی۔ «أمشاج» ملی ہوئی چیزیں یعنی مرد اور عورت دونوں کی منی اور خون اور پھٹکی اور جب کوئی چیز دوسری چیز سے ملا دی جائے تو کہتے ہیں «مشيج» جیسے «خليط.» یعنی «ممشوج» اور «مخلوط» بعضوں نے یوں پڑھا ہے«سلاسلا وأغلالا» (بعضوں نے «سلاسلا وأغلالا» بغیر تنوین کے پڑھا ہے) انہوں نے «سلاسلا» کی تنوین جائز نہیں رکھی۔«مستطير» اس کی برائی پھیلی ہوئی۔ «قمطرير» سخت۔ عرب لوگ کہتے ہیں «يوم قمطرير ويوم قماطر» یعنی سخت مصیبت کا دن۔«عبوس» اور «قمطرير» اور «قماطر» اور «قصيب» ان چاروں کا معنی وہ دن جس پہ سخت مصیبت آئے اور معمر بن عبیدہ نے کہا«شددنا أسرهم» معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کی خلقت خوب مضبوط کی ہے۔ عرب لوگ جس کو تو مضبوط باندھے جیسے پالان، ہودج وغیرہ اس کو «مأسور» کہتے ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں) اکثر پہلی رکعت میں سورۃ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۃ «هل أتى على الإنسان» کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: جِمَالَاتٌ: حِبَالٌ، ارْكَعُوا: صَلُّوا لَا يَرْكَعُونَ لَا يُصَلُّونَ وَسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَا يَنْطِقُونَ، وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ، الْيَوْمَ نَخْتِمُ: عَلَى أَفْوَاهِهِمْ، فَقَالَ إِنَّهُ ذُو أَلْوَانٍ مَرَّةً يَنْطِقُونَ وَمَرَّةً يُخْتَمُ عَلَيْهِمْ.
اور مجاہد نے کہا «جمالات» جہاز کی موٹی رسیاں۔ «اركعوا» نماز پڑھو۔ «لا يركعون» نماز نہیں پڑھتے۔ کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا یہ قرآن مجید میں اختلاف کیا ہے ایک جگہ تو فرمایا کہ کافر بات نہ کریں گے۔ دوسری جگہ یوں ہے کہ کافر قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم (دنیا میں) مشرک نہ تھے۔ تیسری جگہ یوں ہے کہ ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے۔ انہوں نے کہا قیامت کے دن کافروں کے مختلف حالات ہوں گے۔ کبھی وہ بات کریں گے، کبھی ان کے منہ پر مہر کر دی جائے گی۔
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَإِنَّا لَنَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ، فَخَرَجَتْ حَيَّةٌ فَابْتَدَرْنَاهَا، فَسَبَقَتْنَا، فَدَخَلَتْ جُحْرَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وُقِيَتْ شَرَّكُمْ كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا".
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی تھی اور ہم اس کو آپ کے منہ سے سیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک سانپ نکل آیا۔ ہم لوگ اس کے مارنے کو بڑھے لیکن وہ بچ نکلا اور اپنے سوراخ میں گھس گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے شر سے بچ گیا اور تم اس کے شر سے بچ گئے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ بِهَذَا، وَعَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِثْلَهُ، وَتَابَعَهُ أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، وَقَالَ حَفْصٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ: أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْإِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
ہم سے عبدہ بن عبداللہ خزاعی نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی، انہیں اسرائیل نے، انہیں منصور نے یہی حدیث اور اسرائیل نے اس حدیث کو اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے اور یحییٰ بن آدم کے ساتھ اس حدیث کو اسود بن عامر نے اسرائیل سے روایت کی اور حفص بن غیاث اور ابومعاویہ اور سلیمان بن قرم نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے روایت کیا اور یحییٰ بن حماد (شیخ بخاری) نے کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہوں نے مغیرہ بن مقسم سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے اور محمد بن اسحاق نے اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن اسود سے روایت کیا، انہوں نے اپنے والد اسود سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے بیان کیا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ، إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ وَالْمُرْسَلَاتِ فَتَلَقَّيْنَاهَا مِنْ فِيهِ وَإِنَّ فَاهُ لَرَطْبٌ بِهَا، إِذْ خَرَجَتْ حَيَّةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَيْكُمُ اقْتُلُوهَا"، قَالَ: فَابْتَدَرْنَاهَا فَسَبَقَتْنَا، قَالَ: فَقَالَ: "وُقِيَتْ شَرَّكُمْ كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ آپ پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی۔ ہم نے اسے آپ کے منہ سے یاد کر لیا۔ اس وحی سے آپ کے دہن مبارک کی تازگی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اتنے میں ایک سانپ نکل پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے زندہ نہ چھوڑو۔ بیان کیا کہ ہم اس کی طرف بڑھے لیکن وہ نکل گیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کے شر سے بچ گئے اور وہ تمہارے شر سے بچ گیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصَرِ، قَالَ: "كُنَّا نَرْفَعُ الْخَشَبَ بِقَصَرٍ ثَلَاثَةَ أَذْرُعِ، أَوْ أَقَلَّ، فَنَرْفَعُهُ لِلشِّتَاءِ، فَنُسَمِّيهِ الْقَصَرَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت «إنها ترمي بشرر كالقصر» یعنی وہ انگارے برسائے گی جیسے بڑے محل کے متعلق پوچھا اور انہوں نے کہا کہ ہم تین تین ہاتھ کی لکڑیاں اٹھا کر رکھتے تھے۔ ایسا ہم جاڑوں کے لیے کرتے تھے (تاکہ وہ جلانے کے کام آئیں) اور ان کا نام «قصر.» رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصَرِ، قَالَ: "كُنَّا نَعْمِدُ إِلَى الْخَشَبَةِ ثَلَاثَةَ أَذْرُعٍ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ، فَنَرْفَعُهُ لِلشِّتَاءِ، فَنُسَمِّيهِ الْقَصَرَ، كَأَنَّهُ جِمَالَاتٌ صُفْرٌ حِبَالُ السُّفُنِ، تُجْمَعُ حَتَّى تَكُونَ كَأَوْسَاطِ الرِّجَالِ".
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آیت «ترمي بشرر كالقصر» کے متعلق۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تین ہاتھ یا اس سے بھی لمبی لکڑیاں اٹھا کر جاڑوں کے لیے رکھ لیتے تھے۔ ایسی لکڑیوں کو ہم «قصر.» کہتے تھے، «كأنه جمالات صفر» سے مراد کشتی کی رسیاں ہیں جو جوڑ کر رکھی جائیں، وہ آدمی کی کمر برابر موٹی ہو جائیں۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ، إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ وَالْمُرْسَلَاتِ، فَإِنَّهُ لَيَتْلُوهَا وَإِنِّي لَأَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ، وَإِنَّ فَاهُ لَرَطْبٌ بِهَا، إِذْ وَثَبَتْ عَلَيْنَا حَيَّةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْتُلُوهَا"، فَابْتَدَرْنَاهَا، فَذَهَبَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وُقِيَتْ شَرَّكُمْ كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا"، قَالَ عُمَرُ: حَفِظْتُهُ مِنْ أَبِي فِي غَارٍ بِمِنًى.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاوت کی اور میں نے اسے آپ ہی کے منہ سے یاد کر لیا۔ وحی سے آپ کی منہ کی تازگی اس وقت بھی باقی تھی کہ اتنے میں غار کی طرف ایک سانپ لپکا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مار ڈالو۔ ہم اس کی طرف بڑھے لیکن وہ بھاگ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ وہ بھی تمہارے شر سے اس طرح بچ نکلا جیسا کہ تم اس کے شر سے بچ گئے۔ عمر بن حفص نے کہا مجھے یہ حدیث یاد ہے، میں نے اپنے والد سے سنی تھی، انہوں نے اتنا اور بڑھایا تھا کہ وہ غار منیٰ میں تھا۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: لَا يَرْجُونَ حِسَابًا: لَا يَخَافُونَهُ، لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا: لَا يُكَلِّمُونَهُ إِلَّا أنْ يَأْذَنَ لَهُمْ صَوَابًا حَقًّا فِي الدُّنْيَا وَعَمِلَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَهَّاجًا: مُضِيئًا، وَقَالَ غَيْرُهُ: غَسَّاقًا غَسَقَتْ عَيْنُهُ، وَيَغْسِقُ الْجُرْحُ يَسِيلُ كَأَنَّ الْغَسَاقَ وَالْغَسِيقَ وَاحِدٌ، عَطَاءً حِسَابًا: جَزَاءً كَافِيًا أَعْطَانِي مَا أَحْسَبَنِي أَيْ كَفَانِي.
مجاہد نے کہا «لا يرجون حسابا» کا معنی یہ ہے کہ وہ اعمال کے (حساب کتاب) سے نہیں ڈرتے۔ «لا يملكون منه خطابا» یعنی ڈر کے مارے اس سے بات نہ کر سکیں گے مگر جب ان کو بات کرنے کی اجازت ملے گی۔ «صوابا» یعنی جس نے دنیا میں سچی بات کہی تھی اس پر عمل کیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وهاجا» روشن، چمکتا ہوا۔ اوروں نے کہا «غساقا» ، «غسقت» ، «عيينه»سے نکلا ہے یعنی اس کی آنکھ تاریک ہو گئی، اسی سے ہے۔ «يغسق لجراح» یعنی زخم بہ رہا ہے «غساق» اور «غسيق» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی دوزخیوں کا خون پیپ۔ «عطاء حسابا» پورا بدلہ عرب لوگ کہتے ہیں «أعطاني ما أحسبني.» یعنی مجھ کو اتنا دیا جو کافی ہو گیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ، قَالَ: أَرْبَعُونَ يَوْمًا، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ شَهْرًا، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً، فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ، لَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانِ شَيْءٌ إِلَّا يَبْلَى إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس فاصلہ ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس سال مراد ہیں؟ کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ جس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں۔ اس وقت انسان کا ہر حصہ گل چکا ہو گا۔ سوا ریڑھ کی ہڈی کے اور اس سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْآيَةَ الْكُبْرَى: عَصَاهُ وَيَدُهُ، يُقَالُ: النَّاخِرَةُ وَالنَّخِرَةُ سَوَاءٌ مِثْلُ الطَّامِعِ وَالطَّمِعِ وَالْبَاخِلِ وَالْبَخِيلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: النَّخِرَةُ الْبَالِيَةُ وَالنَّاخِرَةُ الْعَظْمُ الْمُجَوَّفُ الَّذِي تَمُرُّ فِيهِ الرِّيحُ فَيَنْخَرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْحَافِرَةِ: الَّتِي أَمْرُنَا الْأَوَّلُ إِلَى الْحَيَاةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَيَّانَ مُرْسَاهَا: مَتَى مُنْتَهَاهَا وَمُرْسَى السَّفِينَةِ حَيْثُ تَنْتَهِي.
مجاہد نے کہا «الآية الكبرى» سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی عصا اور ان کا ہاتھ ہے۔ «عظاما ناخرة» اور «ناخرة» دونوں طرح سے پڑھا ہے جیسے «طامع» اور «طمع» اور «باخل» اور «بخيل» اور بعضوں نے کہا «نخرة» اور «ناخرة» میں فرق ہے۔ «نخرة» کہتے ہیں گلی ہوئی ہڈی کو اور «ناخرة» کھوکھلی ہڈی جس کے اندر ہوا جائے تو آواز نکلے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حافرة» ہماری وہ حالت جو دنیا کی (زندگی) میں ہے۔ اوروں نے کہا «أيان مرساها» یعنی اس کی انتہا کہاں ہے یہ لفظ «مرسى السفينة» سے نکلا ہے۔ یعنی جہاں کشتی آخر میں جا کر ٹھہرتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بِإِصْبَعَيْهِ هَكَذَا بِالْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ: «بُعِثْتُ وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ».
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔
عَبَسَ وَتَوَلَّى: كَلَحَ وَأَعْرَضَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُطَهَّرَةٍ: لَا يَمَسُّهَا إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ وَهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَهَذَا مِثْلُ قَوْلِهِ: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا: جَعَلَ الْمَلَائِكَةَ وَالصُّحُفَ مُطَهَّرَةً لِأَنَّ الصُّحُفَ يَقَعُ عَلَيْهَا التَّطْهِيرُ، فَجُعِلَ التَّطْهِيرُ لِمَنْ حَمَلَهَا أَيْضًا سَفَرَةٍ: الْمَلَائِكَةُ وَاحِدُهُمْ سَافِرٌ سَفَرْتُ أَصْلَحْتُ بَيْنَهُمْ وَجُعِلَتِ الْمَلَائِكَةُ إِذَا نَزَلَتْ بِوَحْيِ اللَّهِ وَتَأْدِيَتِهِ كَالسَّفِيرِ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ الْقَوْمِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَصَدَّى: تَغَافَلَ عَنْهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَمَّا يَقْضِ لَا يَقْضِي أَحَدٌ مَا أُمِرَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَرْهَقُهَا: تَغْشَاهَا شِدَّةٌ، مُسْفِرَةٌ: مُشْرِقَةٌ، بِأَيْدِي سَفَرَةٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَتَبَةٍ أَسْفَارًا: كُتُبًا، تَلَهَّى: تَشَاغَلَ يُقَالُ وَاحِدُ الْأَسْفَارِ سِفْرٌ.
«عبس» منہ بنایا۔ «تولى» منہ پھیر لیا۔ اوروں نے کہا «مطهرة» دوسری جگہ فرمایا «لا يمسها إلا المطهرون» ان کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں یعنی فرشتے تو محمول کی صفت حامل کی کر دی جیسے «فالمدبرات أمرا» ، «فالمدبرات» سے مراد سوار ہیں (جو محمول ہیں)«مجازا» ان کے حاملوں یعنی گھوڑوں کو «مدبرات» کہہ دیا۔ «والصحف مطهرة» یہاں اصل میں «تطهير» کتابوں کی صفت ہے ان کے اٹھانے والوں یعنی فرشتوں کو بھی «مطهر» فرمایا۔ «سفرة» فرشتے یہ «سافر» کی جمع ہے عرب لوگ کہتے ہیں «سفرت بين القوم» یعنی اس نے قوم کے لوگوں میں صلح کرا دی، جو فرشتے اللہ کی وحی لے کر پیغمبروں کو پہنچاتے ہیں ان کو بھی «سفير» قرار دیا جو لوگوں میں ملاپ کراتا ہے۔ بعضوں نے کہا «سفرة» کے معنی لکھنے والے اوروں نے کہا «تصدى» کے معنی غافل ہو جانا ہے۔ مجاہد نے کہا «لما يقض ما امره» کا معنی یہ ہے کہ آدمی کو جس بات کا حکم دیا گیا تھا وہ اس نے پورا پورا ادا نہیں کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا«ترهقها قترة» کا معنی یہ ہے کہ اس پر سختی برس رہی ہو گی۔ «مسفرة» چمکتے ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «سفرة» کے معنی لکھنے والے سورۃ الجمعہ میں لفظ «أسفارا» اسی سے ہے یعنی کتابیں۔ «تلهى» غافل ہوتا ہے کہتے ہیں «الأسفار» جو کتابوں کے معنی میں ہے۔ «سفر.» بکسر سین کی جمع ہے۔
حدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى، يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ القرآن وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زرارہ بن اوفی سے سنا، وہ سعد بن ہشام سے بیان کرتے تھے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔
انْكَدَرَتْ: انْتَثَرَتْ، وَقَالَ الْحَسَنُ: سُجِّرَتْ: ذَهَبَ مَاؤُهَا فَلَا يَبْقَى قَطْرَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْمَسْجُورُ الْمَمْلُوءُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: سُجِرَتْ أَفْضَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، فَصَارَتْ بَحْرًا وَاحِدًا وَالْخُنَّسُ تَخْنِسُ فِي مُجْرَاهَا تَرْجِعُ وَتَكْنِسُ تَسْتَتِرُ كَمَا تَكْنِسُ الظِّبَاءُ، تَنَفَّسَ: ارْتَفَعَ النَّهَارُ وَالظَّنِينُ الْمُتَّهَمُ وَالضَّنِينُ يَضَنُّ بِهِ، وَقَالَ عُمَرُ: النُّفُوسُ زُوِّجَتْ: يُزَوَّجُ نَظِيرَهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، ثُمَّ قَرَأَ: احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ، عَسْعَسَ: أَدْبَرَ.
امام حسن بصری نے کہا «سجرت» کا معنی یہ ہے کہ سمندر سوکھ جائیں گے، ان میں پانی کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔ مجاہد نے کہا«مسجور» کا معنی (جو سورۃ الطور میں ہے) بھرا ہو اوروں نے کہا «سجرت» کا معنی یہ ہے کہ سمندر پھوٹ کر ایک دوسرے سے مل کر ایک سمندر بن جائیں گے۔ «خنس» چلنے کے مقام میں، پھر لوٹ کر آنے والے۔ «كنس» ، «تكنس» سے نکلا ہے یعنی ہرن کی طرح چھپ چھپ جاتے ہیں۔ «تنفس» دن چڑھ جائے۔ «ظنين» (ظاء معجمہ سے یہ بھی ایک قرآت ہے) یعنی تہمت لگاتا ہے اور«ضنين» اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں بخیل نہیں ہے اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا «النفوس زوجت» یعنی ہر آدمی کا جوڑ لگا دیا جائے گا خواہ جنتی ہو یا دوزخی پھر یہ آیت پڑھی «احشروا الذين ظلموا وأزواجهم» ، «عسعس» جب رات پیٹھ پھیر لے یا جب رات کا اندھیرا آ پڑے۔
وَقَالَ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ: فُجِّرَتْ: فَاضَتْ وَقَرَأَ الْأَعْمَشُ وَعَاصِمٌ، فَعَدَلَكَ: بِالتَّخْفِيفِ وَقَرَأَهُ أَهْلُ الْحِجَازِ بِالتَّشْدِيدِ وَأَرَادَ مُعْتَدِلَ الْخَلْقِ وَمَنْ خَفَّفَ يَعْنِي فِي أَيِّ صُورَةٍ شَاءَ إِمَّا حَسَنٌ، وَإِمَّا قَبِيحٌ أَوْ طَوِيلٌ أَوْ قَصِيرٌ.
ربیع بن خثیم نے کہا «فجرت» کے معنی بہ نکلیں اور اعمش اور عاصم نے «فعدلك» کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ حجاز والوں نے«فعدلك» تشدید دال کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب تشدید کے ساتھ ہو تو معنی یہ ہو گا کہ بڑی خلقت مناسب اور معتدل رکھی اور تخفیف کے ساتھ پڑھو تو معنی یہ ہو گا جس صورت میں چاہا تجھے بنا دیا خوبصورت یا بدصورت لمبا یا ٹھگنا چھوٹے قد والا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بَلْ رَانَ: ثَبْتُ الْخَطَايَا، ثُوِّبَ: جُوزِيَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْمُطَفِّفُ لَا يُوَفِّي غَيْرَهُ.
اور مجاہد نے کہا کہ «بل ران» کا معنی یہ ہے کہ گناہ ان کے دل پر جم گیا۔ «ثوب» بدلہ دیئے گئے۔ اوروں نے کہا «مطفف» وہ ہے جو پورا ماپ تول نہ دے (دغا بازی کرے)۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، حَتَّى يَغِيبَ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن لوگ دونوں جہان کے پالنے والے کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑے ہوں گے تو کانوں کی لو تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ: يَأْخُذُ كِتَابَهُ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ، وَسَقَ: جَمَعَ مِنْ دَابَّةٍ، ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ: لَا يَرْجِعَ إِلَيْنَا.
مجاہد نے کہا کہ «كتابه بشماله» کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا نامہ اعمال اپنی پیٹھ پیچھے سے لے گا۔ «وما وسق» جانور وغیرہ جن جن چیزوں پر رات آتی ہے۔ «أن لن يحور» یہ کہ نہیں لوٹے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «يوعون» سے مراد ہے وہ چھپاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے بیان کیا، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ النَّضْرِ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ جَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ سورة الانشقاق آية 19، حَالًا بَعْدَ حَالٍ، قَالَ: هَذَا نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے سعید بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشیم نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوبشر جعفر بن ایاس نے خبر دی، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لتركبن طبقا عن طبق» یعنی تم کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسرے حالت پر پہنچنا ہے۔ بیان کیا کہ یہاں مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کو کامیابی رفتہ رفتہ حاصل ہو گی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْأُخْدُودِ: شَقٌّ فِي الْأَرْضِ، فَتَنُوا: عَذَّبُوا.
مجاہد نے کہا «الأخدود» زمین میں جو نالی کھودی جائے۔ «فتنوا» یعنی تکلیف دی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذَاتِ الرَّجْعِ: سَحَابٌ يَرْجِعُ بِالْمَطَرِ، ذَاتِ الصَّدْعِ: تَتَصَدَّعُ بِالنَّبَاتِ.
مجاہد نے کہا «ذات الرجع» ، «ابر» کی صفت ہے (تو «سماء» سے «ابر» مراد ہے) یعنی باربار برسنے والا۔ «ذات الصدع» باربار اگانے والی، پھوٹنے والی، یہ زمین کی صفت ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَجَعَلَا يُقْرِئَانِنَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَسَعْدٌ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَرِحُوا بِشَيْءٍ فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْوَلَائِدَ وَالصِّبْيَانَ، يَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ، فَمَا جَاءَ حَتَّى قَرَأْتُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1 فِي سُوَرٍ مِثْلِهَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مہاجر) صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما تھے۔ مدینہ پہنچ کر ان بزرگوں نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم آئے۔ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا، جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی «سبح اسم ربك الأعلى» اور اس جیسی اور سورتیں پڑھ لی تھیں۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ: النَّصَارَى، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَيْنٍ آنِيَةٍ: بَلَغَ إِنَاهَا وَحَانَ شُرْبُهَا، حَمِيمٍ آنٍ: بَلَغَ إِنَاهُ، لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً: شَتْمًا وَيُقَالُ الضَّرِيعُ نَبْتٌ يُقَالُ لَهُ الشِّبْرِقُ يُسَمِّيهِ أَهْلُ الْحِجَازِ الضَّرِيعَ إِذَا يَبِسَ وَهُوَ سُمٌّ، بِمُسَيْطِرٍ: بِمُسَلَّطٍ وَيُقْرَأُ بِالصَّادِ وَالسِّينِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِيَابَهُمْ: مَرْجِعَهُمْ.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «عاملة ناصبة» سے نصاریٰ مراد ہیں۔ مجاہد نے کہ «عين آنية» یعنی گرمی کی حد کو پہنچ گیا اس کے پینے کا وقت آن پہنچا (سورۃ الرحمن میں) «حميم آن» کا بھی یہی معنی ہے یعنی گرمی کی حد کو پہنچ گیا۔ «لا تسمع فيها لاغية» وہاں گالی گلوچ نہیں سنائی دے گی۔ «الضريع» ایک بھاجی ہے جسے «شبرق» کہتے ہیں حجاز والے اس کو «ضريع» کہتے ہیں جب وہ سوکھ جاتی ہے یہ زہر ہے۔ «بمسيطر» (سین سے) مطلقاً کڑوی بعضوں نے صاد سے پڑھا ہے «بمصيطر» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا«إيابهم» ان کا لوٹنا۔ «عاملة ناصبه» سے اہل بیعت مراد ہیں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْوَتْرُ اللَّهُ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ: يَعْنِي الْقَدِيمَةَ وَالْعِمَادُ أَهْلُ عَمُودٍ لَا يُقِيمُونَ، سَوْطَ عَذَابٍ: الَّذِي عُذِّبُوا بِهِ، أَكْلًا لَمًّا: السَّفُّ، وَجَمًّا: الْكَثِيرُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ فَهُوَ شَفْعٌ السَّمَاءُ شَفْعٌ وَالْوَتْرُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَوْطَ عَذَابٍ: كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ لِكُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْعَذَابِ يَدْخُلُ فِيهِ السَّوْطُ، لَبِالْمِرْصَادِ: إِلَيْهِ الْمَصِيرُ، تَحَاضُّونَ: تُحَافِظُونَ وَتَحُضُّونَ تَأْمُرُونَ بِإِطْعَامِهِ، الْمُطْمَئِنَّةُ: الْمُصَدِّقَةُ بِالثَّوَابِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَبْضَهَا اطْمَأَنَّتْ إِلَى اللَّهِ وَاطْمَأَنَّ اللَّهُ إِلَيْهَا وَرَضِيَتْ عَنِ اللَّهِ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَمَرَ بِقَبْضِ رُوحِهَا وَأَدْخَلَهَا اللَّهُ الْجَنَّةَ وَجَعَلَهُ مِنْ عِبَادِهِ الصَّالِحِينَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَابُوا: نَقَبُوا مِنْ جِيبَ الْقَمِيصُ قُطِعَ لَهُ جَيْبٌ يَجُوبُ الْفَلَاةَ يَقْطَعُهَا، لَمًّا: لَمَمْتُهُ أَجْمَعَ أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهِ.
مجاہد نے کہا «وتر» سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ «إرم ذات العماد» سے پرانی قوم عاد مراد ہے۔ «عماد» کے معنی خیمہ کے ہیں، یہ لوگ خانہ بدوش تھے۔ جہاں پانی چارہ پاتے وہیں خیمہ لگا کر رہ جاتے۔ «سوط عذاب» کا معنی یہ کہ ان کو عذاب دیا گیا۔ «أكلا لما» سب چیز سمیٹ کر کھا جانا۔ «حبا جما» بہت محبت رکھنا۔ مجاہد نے کہا اللہ نے جس چیز کو پیدا کیا وہ ( «شفع») جوڑا ہے آسمان بھی زمین کا جوڑا ہے اور «وتر» صرف اللہ پاک ہی ہے۔ اوروں نے کہا «سوط عذاب» یہ عرب کا ایک محاورہ ہے جو ہر ایک قسم کے عذاب کو کہتے ہیں من جملہ ان کے ایک کوڑے کا بھی عذاب ہے۔ «لبالمرصاد» یعنی اللہ کی طرف سب کو پھر جانا ہے۔ «لا تحاضون» (الف کے ساتھ جیسے مشہور قرآت ہے) محافظت نہیں کرتے ہو بعضوں نے «متحضون» پڑھا ہے یعنی حکم نہیں دیتے ہو، «المطمئنة» وہ نفس جو اللہ کے ثواب پر یقین رکھنے والا ہو، مومن، کامل الایمان۔ امام حسن بصری نے کہا «نفس المطمئنة» وہ نفس کہ جب اللہ اس کو بلانا چاہے(موت آئے) تو اللہ کے پاس چین نصیب ہو، اللہ اس سے خوش ہو، وہ اللہ سے خوش ہو۔ پھر اللہ اس کی روح قبض کرنے کا حکم دے اور اس کو بہشت میں لے جائے، اپنے نیک بندوں میں شامل فرما دے۔ اوروں نے کہا «جابوا» کا معنی کریدکرید کر مکان بنانا یہ «جيب»سے نکلا ہے جب اس میں «جيب» لگائی جائے، اسی طرح عرب لوگ کہتے ہیں «فلان يجوب الفلاة» وہ جنگل قطع کرتا ہے «لما» عرب لوگ کہتے ہیں «لممته» جمع میں اس کے اخیر تک پہنچ گیا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ: بِمَكَّةَ لَيْسَ عَلَيْكَ مَا عَلَى النَّاسِ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ، وَوَالِدٍ: آدَمَ، وَمَا وَلَدَ، لُبَدًا: كَثِيرًا، وَالنَّجْدَيْنِ: الْخَيْرُ وَالشَّرُّ، مَسْغَبَةٍ، مَجَاعَةٍ: مَتْرَبَةٍ، السَّاقِطُ فِي التُّرَابِ يُقَالُ: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ، فَلَمْ يَقْتَحِمْ الْعَقَبَةَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ فَسَّرَ الْعَقَبَةَ، فَقَالَ: وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ، فَكُّ رَقَبَةٍ، أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ.
مجاہد نے کہا «بهذا البلد» سے مکہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خاص تیرے لیے یہ شہر حلال ہوا اوروں کو وہاں لڑنا گناہ ہے۔ «والد»سے آدم، «وما ولد» سے ان کی اولاد مراد ہے۔ «لبدا» بہت سارا۔ «النجدين» دو رستے بھلے اور برے۔ «مسغبة» بھوک۔ «متربة»مٹی میں پڑا رہنا مراد ہے۔ «فلا اقتحم العقبة» یعنی اس نے دنیا میں گھاٹی نہیں پھاندی پھر گھاٹی پھاندنے کو آگے بیان کیا۔ «برده» غلام آزاد کرنا بھوک اور تکلیف کے دن بھوکوں کو کھانا کھلانا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِطَغْوَاهَا: بِمَعَاصِيهَا، وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا: عُقْبَى أَحَدٍ.
مجاہد نے کہا کہ «بطغواها» اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ «ولا يخاف عقباها» یعنی اللہ کو کسی کا ڈر نہیں کہ کوئی اس سے بدلہ لے سکے گا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَذَكَرَ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12"انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَزِيزٌ عَارِمٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ، وَذَكَرَ النِّسَاءَ، فَقَالَ: "يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، فَلَعَلَّهُ يُضَاجِعُهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ، ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، وَقَالَ: لِمَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ"، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ عَمِّ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر فرمایا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «إذ انبعث أشقاها» یعنی اس اونٹنی کو مار ڈالنے کے لیے ایک مفسد بدبخت (قدار نامی) کو اپنی قوم میں ابوزمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا اٹھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے انہیں ریاح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ایک کام جو تم میں ہر شخص کرتا ہے اسی پر تم دوسروں پر کس طرح ہنستے ہو۔ ابومعاویہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ بن زبیر نے، ان سے عبداللہ بن زمعہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس حدیث میں)یوں فرمایا ابوزمعہ کی طرح جو زبیر بن عوام کا چچا تھا۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى: بِالْخَلَفِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَرَدَّى: مَاتَ، وَتَلَظَّى: تَوَهَّجُ وَقَرَأَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ تَتَلَظَّى.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وكذب بالحسنى» سے یہ مراد ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا اس کا بدلہ اللہ اس کو دے گا اور مجاہد نے کہا «اذا تردى» جب مر جائے۔ «تلظى» وہ دوزخ کی آگ بھڑکتی شعلہ مارتی ہے۔ اور عبید بن عمیر نے «تتلظى» دو (تاء) کے ساتھ پڑھا ہے۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ الشَّأْمَ، فَسَمِعَ بِنَا أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَأَتَانَا، فَقَالَ: أَفِيكُمْ مَنْ يَقْرَأُ ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيُّكُمْ أَقْرَأُ ؟ فَأَشَارُوا إِلَيَّ، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقَرَأْتُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى 1 وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى 2 سورة الليل آية 1-2 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَهَا مِنْ فِي صَاحِبِكَ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا سَمِعْتُهَا مِنْ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَؤُلَاءِ يَأْبَوْنَ عَلَيْنَا".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے ساتھ میں ملک شام پہنچا ہمارے متعلق ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سنا تو ہم سے ملنے خود تشریف لائے اور دریافت فرمایا تم میں کوئی قرآن مجید کا قاری بھی ہے؟ ہم سے کہا جی ہاں ہے۔ دریافت فرمایا کہ سب سے اچھا قاری کون ہے؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر کوئی آیت تلاوت کرو۔ میں نے «والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى» کی تلاوت کی۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تم نے خود یہ آیت اپنے استاد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی اسی طرح سنی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے، لیکن یہ شام والے ہم پر انکار کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَدِمَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَطَلَبَهُمْ، فَوَجَدَهُمْ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ ؟ قَالَ: كُلُّنَا، قَالَ: فَأَيُّكُمْ أَحْفَظُ ؟ فَأَشَارُوا إِلَى عَلْقَمَةَ، قَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَهُ يَقْرَأُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1؟ قَالَ عَلْقَمَةُ: 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0، قَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ هَكَذَا، وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونِي عَلَى أَنْ أَقْرَأَ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى سورة الليل آية 3 وَاللَّهِ لَا أُتَابِعُهُمْ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا کہعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کچھ شاگرد ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) آئے انہوں نے انہیں تلاش کیا اور پا لیا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت کے مطابق قرآت کر سکتا ہے؟ شاگروں نے کہا کہ ہم سب کر سکتے ہیں۔ پھر پوچھا کسے ان کی قرآت زیادہ محفوظ ہے؟ سب نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا انہیں سورۃ «والليل إذا يغشى» کی قرآت کرتے کس طرح سنا ہے؟ علقمہ نے کہا کہ «والذكر والأنثى» (بغیر خلق کے) کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح قرآت کرتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن یہ لوگ (یعنی شام والے) چاہتے ہیں کہ «وما خلق الذكر والأنثى» پڑھوں۔ اللہ کی قسم میں ان کی پیروی نہیں کروں گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ فِي جَنَازَةٍ، فَقَالَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ ؟ فَقَالَ: "اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى إِلَى قَوْلِهِ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بقیع الغرقد (مدینہ منورہ کے قبرستان)میں ایک جنازہ میں تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا ٹھکانا جنت یا جہنم میں لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کر لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ملتی رہتی ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى» آخر تک پڑھی۔ یعنی ہم اس کے لیے نیک کام آسان کر دیں گے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ نَحْوَهُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر راوی نے یہی حدیث بیان کی (جو پیچھے گزری)۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ كَانَ فِي جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ عُودًا يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ، فَقَالَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ ؟ قَالَ: "اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى 5 وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى 6 سورة الليل آية 5-6 الْآيَةَ، قَالَ شُعْبَةُ: وَحَدَّثَنِي بِهِ مَنْصُورٌ، فَلَمْ أُنْكِرْهُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں تھے، آپ نے ایک لکڑی اٹھائی اور اس سے زمین کریدتے ہوئے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کا جنت یا دوزخ کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا پھر ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو توفیق دی گئی ہے (انہیں اعمال کی جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے) «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى» سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا آخر آیت تک۔ شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے یہ حدیث منصور بن معتمر نے بھی بیان کی اور انہوں نے بھی سلیمان اعمش سے اسی کے موافق بیان کی، اس میں کوئی خلاف نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ"، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ ؟ قَالَ: "لَا، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى إِلَى قَوْلِهِ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا اور جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر ہم اسی پر بھروسہ کیوں نہ کر لیں؟ فرمایا نہیں عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کو آسانی دی گئی ہے اور اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى * فسنيسره لليسرى» یعنی سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا اس کے لیے راحت کی چیز آسان کر دیں گے۔ تا «فسنيسره للعسرى» ۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَنَكَّسَ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ وَمَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ، إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً"، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، قَالَ: "أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاءِ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى 5 وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى 6 سورة الليل آية 5-6 الْآيَةَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے بیان کیا، اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع الغرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ نے سر جھکا لیا پھر چھڑی سے زمین کو کریدنے لگے۔ پھر فرمایا کہ تم میں کوئی شخص ایسا نہیں، کوئی پیدا ہونے والی جان ایسی نہیں جس کا جنت اور جہنم کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ یہ لکھا جا چکا ہے کہ کون نیک ہے اور کون برا ہے۔ ایک صاحب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر کیا حرج ہے اگر ہم اپنی اسی تقدیر پر بھروسہ کر لیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں جو ہم میں نیک ہو گا، وہ نیکیوں کے ساتھ جا ملے گا اور جو برا ہو گا اس سے بروں کے سے اعمال ہو جائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ نیک ہوتے ہیں انہیں نیکوں ہی کے عمل کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو برے ہوتے ہیں انہیں بروں ہی جیسے عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى» یعنی سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا سو ہم اس کے لیے نیک کاموں کو آسان کر دیں گے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ شَيْئًا فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ الْأَرْضَ، فَقَالَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ ؟ قَالَ: "اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى 5 وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى 6 سورة الليل آية 5-6 الْآيَةَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی بیان کرتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز لی اور اس سے زمین کریدنے لگے اور فرمایا، تم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا یا جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! تو پھر ہم کیوں اپنی تقدیر پر بھروسہ نہ کر لیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک عمل کرو، ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے جو شخص نیک ہو گا اسے نیکوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بدبخت ہوتا ہے اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى» آخر تک پڑھی یعنی سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا، سو ہم اس کے لیے نیک عملوں کو آسان کر دیں گے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: إِذَا سَجَى: اسْتَوَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَجَى: أَظْلَمَ وَسَكَنَ، عَائِلًا: ذُو عِيَالٍ.
مجاہد نے کہا «إذا سجى» جب برابر ہو جائے۔ اوروں نے کہا جب اندھیری ہو جائے یا تھم جائے۔ «عائلا» بال بچے والا، محتاج۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبَ بْنَ سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَالضُّحَى 1 وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى 2 مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى 3 سورة الضحى آية 1-3، قَوْلُهُ: مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى سورة الضحى آية 3:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے بیان کیا کہ میں نے جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑ گئے اور دو یا تین راتوں کو (تہجد کے لیے) نہیں اٹھ سکے۔ پھر ایک عورت (ابولہب کی عورت عوراء) آئی اور کہنے لگی۔ اے محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ دو یا تین راتوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے پاس وہ نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى» آخر تک یعنی قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بیزار ہوا ہے۔
تُقْرَأُ بِالتَّشْدِيدِ وَالتَّخْفِيفِ بِمَعْنًى وَاحِدٍ مَا تَرَكَكَ رَبُّكَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا تَرَكَكَ وَمَا أَبْغَضَكَ".
یعنی «ما ودعك ربك وما قلى» تشدید اور تخفیف دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور معنی ایک ہی رہیں گے، یعنی اللہ نے تجھ کو چھوڑا نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مفہوم یہ ہے «ما تركك وما أبغضك» یعنی اللہ نے تجھ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ تیرا دشمن بنا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبًا الْبَجَلِيَّ، قَالَتْ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أُرَى صَاحِبَكَ إِلَّا أَبْطَأَكَ، فَنَزَلَتْ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى سورة الضحى آية 3.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر غندر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے اسود بن قیس نے بیان کیا کہ میں نے جندب بجلی رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک عورت ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ کے دوست (جبرائیل علیہ السلام) آپ کے پاس آنے میں دیر کرتے ہیں۔ اس پر آیت نازل ہوئی «ما ودعك ربك وما قلى» یعنی آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے وہ بیزار ہوا ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وِزْرَكَ: فِي الْجَاهِلِيَّةِ، أَنْقَضَ: أَثْقَلَ مَعَ، الْعُسْرِ يُسْرًا، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: أَيْ مَعَ ذَلِكَ الْعُسْرِ يُسْرًا آخَرَ كَقَوْلِهِ: هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ: وَلَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنِ، وَقَال مُجَاهِدٌ: فَانْصَبْ: فِي حَاجَتِكَ إِلَى رَبِّكَ وَيُذْكَرُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ سورة الشرح آية 1شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ.
مجاہد نے کہا «وزرك» سے وہ باتیں مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہلیت کے زمانہ میں صادر ہوئیں (ترک اولیٰ وغیرہ)۔«أنقض» کے معنی بھاری کیا۔ «مع العسر يسرا» سفیان بن عیینہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مصیبت کے ساتھ دو نعمتیں ملتی ہیں جیسے آیت «هل تربصون بنا إلا إحدى الحسنيين» میں مسلمانوں کے لیے دو نیکیاں مراد ہیں اور حدیث میں ہے ایک مصیبت دو نیکیوں پر غالب نہیں آ سکتی اور مجاہد نے کہا «فانصب» یعنی اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محنت اٹھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے انہوں نے کہا «ألم نشرح لك صدرك» سے مراد ہے کہ ہم نے تیرا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: هُوَ التِّينُ وَالزَّيْتُونُ: الَّذِي يَأْكُلُ النَّاسُ، يُقَالُ: فَمَا يُكَذِّبُكَ: فَمَا الَّذِي يُكَذِّبُكَ بِأَنَّ النَّاسَ يُدَانُونَ بِأَعْمَالِهِمْ كَأَنَّهُ، قَالَ: وَمَنْ يَقْدِرُ عَلَى تَكْذِيبِكَ بِالثَّوَابِ وَالْعِقَابِ.
مجاہد نے کہا کہ آیت میں وہی تین (انجیر) اور زیتون مشہور میوے ذکر ہوئے ہیں جنہیں لوگ کھاتے ہیں۔ «فما يكذبك» یعنی کیا وجہ ہے جو تو اس بات کو جھٹلائے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ گویا یوں کہا کون کہہ سکتا ہے کہ تو عذاب اور ثواب کو جھٹلانے لگے۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَدِيٌّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ، فَقَرَأَ فِي الْعِشَاءِ فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ بِ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ سورة التين آية 1 تَقْوِيمٍ سورة التين آية 4: الْخَلْقِ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے اور عشاء کی ایک رکعت میں آپ نے سورۃ والتین کی تلاوت فرمائی تھی۔ «تقويم» کے معنی پیدائش، بناوٹ کے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: اكْتُبْ فِي الْمُصْحَفِ فِي أَوَّلِ الْإِمَامِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَاجْعَلْ بَيْنَ السُّورَتَيْنِ خَطًّا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: نَادِيَهُ عَشِيرَتَهُ الزَّبَانِيَةَ الْمَلَائِكَةَ، وَقَالَ مَعْمَرٌ الرُّجْعَى الْمَرْجِعُ: لَنَسْفَعَنْ، قَالَ: لَنَأْخُذَنْ وَلَنَسْفَعَنْ بِالنُّونِ وَهِيَ الْخَفِيفَةُ سفعت بيده أخذت.
اور قتیبہ نے بیان کیا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عتیق نے کہ امام حسن بصری نے کہا کہ مصحف میں سورۃ فاتحہ کے شروع میں «بسم الله الرحمن الرحيم» لکھو اور دو سورتوں کے درمیان ایک خط کھینچ لیا کرو جس سے معلوم ہو کہ نئی سورت شروع ہوئی۔ مجاہد نے کہا کہ «ناديه» یعنی اپنے کنبے والوں کو۔ «الزبانية» دوزخ کے فرشتے اور معمر نے کہا «الرجعى» لوٹ جانے کا مقام۔ «لنسفعن» البتہ ہم پکڑیں گے۔ اس میں نون خفیفہ ہے (گویا یہ الف سے لکھا جاتا ہے یہ «سفعت بيده» سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
باب حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِيابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "كَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ، فَكَانَ يَلْحَقُ بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ، قَالَ: وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ بِمِثْلِهَا، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَنَا بِقَارِئٍ"، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: "مَا أَنَا بِقَارِئٍ"، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: "مَا أَنَا بِقَارِئٍ"، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ 1 خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 2 اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ 3 الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ 4 الْآيَاتِ إِلَى قَوْلِهِ عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ سورة العلق آية 1 - 5، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، قَالَ لِخَدِيجَةَ: "أَيْ خَدِيجَةُ، مَا لِي لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي"، فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ، قَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، فَوَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ، وَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، قَالَ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى ؟ فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى، فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا ذَكَرَ حَرْفًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ؟"قَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا أُوذِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ حَيًّا أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا، ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے سعید بن مروان نے بیان کیا اور ان سے محمد بن عبدالعزیز بن ابی رزمہ نے، انہیں ابوصالح سلمویہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چنانچہ اس دور میں آپ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا۔ پھر آپ کو تنہائی بھلی لگنے لگی۔ اس دور میں آپ غار حرا تنہا تشریف لے جاتے اور آپ وہاں «تحنث» کیا کرتے تھے۔ عروہ نے کہا کہ «تحنث» سے عبادت مراد ہے۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں جاگتے، گھر میں نہ آتے اور اس کے لیے اپنے گھر سے توشہ لے جایا کرتے تھے۔ پھر جب توشہ ختم ہو جاتا پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہاں لوٹ کر تشریف لاتے اور اتنا ہی توشہ پھر لے جاتے۔ اسی حال میں آپ غار حرا میں تھے کہ دفعتاً آپ پر وحی نازل ہوئی چنانچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا پڑھئیے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ مجھے فرشتہ نے پکڑ لیا اور اتنا بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئیے! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے پھر دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر اس طرح بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا اور چھوڑنے کے بعد کہا کہ پڑھئیے! میں نے اس مرتبہ بھی یہی کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اسی طرح مجھے پکڑ کر بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا اور کہا کہ پڑھئیے! پڑھئیے! «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم * الذي علم بالقلم» اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے، آپ پڑھئیے اور آپ کا رب کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے سے آیت«علم الإنسان ما لم يعلم» تک۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک (حرکت کر) رہا تھا۔ آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو! مجھے چادر اڑھا دو! چنانچہ انہوں نے آپ کو چادر اڑھا دی۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا اب کیا ہو گا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا اور آپ کے والد کے بھائی تھے وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے جس طرح اللہ نے چاہا انہوں نے انجیل بھی عربی میں لکھی تھی۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا چچا اپنے بھتیجے کا حال سنئیے۔ ورقہ نے کہا بیٹے! تم نے کیا دیکھا ہے؟ آپ نے سارا حال سنایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس (جبرائیل علیہ السلام) ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے تھے۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقتور ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا، پھر ورقہ نے کچھ اور کہا کہ جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا واقعی یہ لوگ مجھے مکہ سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں اسے جو بھی لے کر آیا تو اس سے عداوت ضرور کی گئی۔ اگر میں آپ کی نبوت کے زمانہ میں زندہ رہ گیا تو میں ضرور بھرپور طریقہ پر آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور کچھ دنوں کے لیے وحی کا آنا بھی بند ہو گیا۔ آپ وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے غمگین رہنے لگے۔
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، قَالَ فِي حَدِيثِهِ: "بَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَفَرِقْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَدَثَّرُوهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ 1 قُمْ فَأَنْذِرْ 2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ 3 وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ 4 وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ 5 سورة المدثر آية 1-5"، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَهِيَ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَعْبُدُونَ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ.
محمد بن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے کچھ دنوں کے لیے رک جانے کا ذکر فرما رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ میں ان سے بہت ڈرا اور گھر واپس آ کر میں نے کہا کہ مجھے چادر اڑھا دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے چادر اڑھا دی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر * وثيابك فطهر * والرجز فاهجر» اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیئے۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ «الرجز» جاہلیت کے بت تھے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وحی برابر آنے لگی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ 1 خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 2 اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ 3 سورة العلق آية 1-3".
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب دکھائے جانے لگے۔ پھر آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم» کہ آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے (سب کو پیدا کیا ہے) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَمُحَمَّدٌ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ، جَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ 1 خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 2 اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ 3 الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ 4 سورة العلق آية 1-4".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور اللیث نے بیان کیا کہ ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے محمد نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتداء سچے خوابوں سے کی گئی اور کہا «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم * الذي علم بالقلم» کہ آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کی مدد سے جس نے سب کو پیدا کیا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کو ذریعہ تعلیم بنایا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا اور ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے عروہ سے سنا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس تشریف لائے اور فرمایا «زملوني زملوني» کہ مجھے چادر اڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ پھر آپ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: لَئِنْ رَأَيْتُ مُحَمَّدًا يُصَلِّي عِنْدَ الْكَعْبَةِ لَأَطَأَنَّ عَلَى عُنُقِهِ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَوْ فَعَلَهُ لَأَخَذَتْهُ الْمَلَائِكَةُ". تَابَعَهُ عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے عبدالکریم جزری نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ابوجہل نے کہا تھا کہ اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن میں کچل دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو اسے فرشتے پکڑ لیتے۔ عبدالرزاق کے ساتھ اس حدیث کو عمرو بن خالد نے روایت کیا ہے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے عبدالکریم نے بیان کیا۔
يُقَالُ: الْمَطْلَعُ هُوَ الطُّلُوعُ وَالْمَطْلِعُ الْمَوْضِعُ الَّذِي يُطْلَعُ مِنْهُ، أَنْزَلْنَاهُ: الْهَاءُ كِنَايَةٌ، عَنِ الْقُرْآنِ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ خَرَجَ مَخْرَجَ الْجَمِيعِ، وَالْمُنْزِلُ هُوَ اللَّهُ، وَالْعَرَبُ تُوَكِّدُ فِعْلَ الْوَاحِدِ، فَتَجْعَلُهُ بِلَفْظِ الْجَمِيعِ لِيَكُونَ أَثْبَتَ وَأَوْكَدَ.
«مطلع» بہ فتحہ (مصدر ہے) طلوع کے معنوں میں اور «مطلع» بہ کسر لام (جیسے کسائی نے پڑھا ہے) وہ مقام جہاں سے سورج نکلے۔«انا أنزلناه» میں ضمیر قرآن کی طرف پھرتی ہے (گو کہ قرآن کا ذکر اوپر نہیں آیا ہے مگر اس کی شان بڑھانے کے لیے اضمار قبل الذکر کیا) «أنزلناه» صیغہ جمع متکلم کا ہے حالانکہ اتارنے والا ایک ہی ہے یعنی اللہ پاک مگر عربی میں واحد کو «جميع» اور اثبات کے لیے بہ صیغہ جمع لاتے ہیں۔
مُنْفَكِّينَ: زَائِلِينَ قَيِّمَةٌ الْقَائِمَةُ دِينُ الْقَيِّمَةِ أَضَافَ الدِّينَ إِلَى الْمُؤَنَّثِ.
«منفكين» کے معنی چھوڑنے والے۔ «قيمة» قائم اور مضبوط حالانکہ دین مذکر ہے مگر اس کو مؤنث یعنی «قيمة» کی طرف مضاف کیا، دین کو ملت کے معنی میں لیا جو مؤنث ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيٍّ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة البينة آية 1، قَالَ: وَسَمَّانِي، قَالَ: نَعَمْ، فَبَكَى".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، میں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورۃ «لم يكن الذين كفروا» پڑھ کر سناؤں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اس پر وہ رونے لگے۔
حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيٍّ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ"، قَالَ أُبَيٌّ: آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ، قَالَ: "اللَّهُ سَمَّاكَ لِي"، فَجَعَلَ أُبَيٌّ يَبْكِي، قَالَ قَتَادَةُ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَيْهِ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ سورة البينة آية 1.
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن (سورۃ لم یکن) پڑھ کر سناؤں۔ ابی بن کعب نے عرض کیا: کیا آپ سے اللہ تعالیٰ میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام بھی مجھ سے لیا ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ «لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب» پڑھ کر سنائی تھی۔
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْمُنَادِي، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُقْرِئَكَ الْقُرْآنَ"، قَالَ: آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَقَدْ ذُكِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ.
ہم سے احمد بن ابی داؤد ابو جعفر منادی نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن کی (سورۃ لم یکن) پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا کیا اللہ نے آپ سے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے تمام جہانوں کے پالنے والے کے ہاں میرا ذکر ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
يُقَالُ: أَوْحَى لَهَا أَوْحَى إِلَيْهَا وَوَحَى لَهَا وَوَحَى إِلَيْهَا وَاحِدٌ.
«أوحى لها أوحى إليها» اور «وحى لها» اور «وحى إليها» سب کا ایک ہی معنی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ: لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ فِي الْمَرْجِ وَالرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٍ، وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ، وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، فَهِيَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِئَاءً وَنِوَاءً، فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ، قَالَ: "مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةَ الْجَامِعَةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 7 وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ 8 سورة الزلزلة آية 7-8".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تین طرح کے لوگ تین قسم کے پالتے ہیں۔ ایک شخص کے لیے وہ اجر ہوتا ہے دوسرے کے لیے وہ معافی ہے، تیسرے کے لیے عذاب ہے۔ جس کے لیے وہ اجر و ثواب ہے وہ شخص ہے جو اسے اللہ کے راستہ میں جہاد کی نیت سے پالتا ہے۔ چراگاہ یا اس کے بجائے راوی نے یہ کہا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے اور وہ گھوڑا چراگاہ یا باغ میں اپنی رسی تڑا لے اور ایک دو کوڑے (پھینکنے کی دوری) تک اپنی حد سے آگے بڑھ گیا تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے اور اگر کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں مالک کے ارادہ کے بغیر خود ہی اس نے پانی پی لیا تو یہ بھی مالک کے لیے باعث ثواب بن جاتا ہے۔ دوسرا شخص جس کے لیے اس کا گھوڑا باعث معافی، پردہ بنتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں سے بےپرواہ رہنے اور لوگوں (کے سامنے سوال کرنے سے) بچنے کے لیے اسے پالا اور اس گھوڑے کی گردن پر جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کی پیٹھ کو جو حق ہے اسے بھی وہ ادا کرتا رہتا ہے۔ تو گھوڑا اس کے لیے باعث معافی، پردہ بن جاتا ہے اور جو شخص گھوڑا اپنے دروازے پر فخر اور دکھاوے اور اسلام دشمنی کی غرض سے باندھتا ہے، وہ اس کے لیے وبال ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر خاص آیت سوا اس اکیلی عام اور جامع آیت کے نازل نہیں کی «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره» الخ یعنی جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے بھی لے گا دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ، فَقَالَ: "لَمْ يُنْزَلْ عَلَيَّ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 7 وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ 8 سورة الزلزلة آية 7-8".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اکیلی عام آیت کے سوا مجھ پر اس کے بارے میں اور کوئی خاص حکم نازل نہیں ہوا ہے «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره» یعنی سو جو کوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْكَنُودُ الْكَفُورُ، يُقَالُ: فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا: رَفَعْنَا بِهِ غُبَارًا، لِحُبِّ الْخَيْرِ: مِنْ أَجْلِ حُبِّ الْخَيْرِ: لَشَدِيدٌ: لَبَخِيلٌ، وَيُقَالُ: لِلْبَخِيلِ شَدِيدٌ، حُصِّلَ: مُيِّزَ.
مجاہد نے کہا «كنود» کا معنی ناشکرا ہے۔ «فأثرن به نقعا» یعنی صبح کے وقت دھول اڑاتے ہیں، گرد اٹھاتے ہیں۔ «لحب الخير» یعنی مال کی قلت کی وجہ سے۔ «لشديد» بخیل ہے بخیل کو «لشديد» کہتے ہیں۔ «حصل» کے معنی جدا کیا جائے یا جمع کیا جائے۔
كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ سورة القارعة آية 4: كَغَوْغَاءِ الْجَرَادِ يَرْكَبُ بَعْضُهُ بَعْضًا كَذَلِكَ النَّاسُ يَجُولُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ، كَالْعِهْنِ: كَأَلْوَانِ الْعِهْنِ وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ كَالصُّوفِ.
«كالفراش المبثوث» یعنی پریشان ٹڈیوں کی طرح کی جیسے وہ ایسی حالت میں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں یہی حال (حشر کے دن)انسانوں کا ہو گا کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہوں گے «كالعهن» اون کی طرح رنگ برنگ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں پڑھا ہے «الصوف. المنفوش» یعنی دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھریں گے۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: التَّكَاثُرُ: مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «التكاثر» سے مال و اولاد کا بہت ہونا مراد ہے۔
وَقَالَ يَحْيَى: الْعَصْرُ: الدَّهْرُ أَقْسَمَ بِهِ.
یحییٰ بن زیاد فرا نے کہا کہ «العصر» سے مراد زمانہ ہے اسی کی قسم کھائی گئی ہے۔
الْحُطَمَةُ: اسْمُ النَّارِ مِثْلُ سَقَرَ وَلَظَى.
«الحطمة» دوزخ کا ایک نام ہے جیسے «سقر» اور «لظى» بھی اس کے ناموں میں سے ہیں۔
أَلَمْ تَرَ أَلَمْ تَعْلَمْ قَالَ مُجَاهِدٌ: أَبَابِيلَ: مُتَتَابِعَةً مُجْتَمِعَةً، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مِنْ سِجِّيلٍ هِيَ سَنْكِ وَكِلْ.
مجاہد نے کہا «أبابيل» یعنی پے در پے آنے والے جھنڈ کے جھنڈ پرندے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «من سجيل» (یہ لفظ فارسی کا «معرب» ہے) یعنی سنگ پتھر اور گل مٹی مراد ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لِإِيلَافِ: أَلِفُوا ذَلِكَ فَلَا يَشُقُّ عَلَيْهِمْ فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ، وَآمَنَهُمْ: مِنْ كُلِّ عَدُوِّهِمْ فِي حَرَمِهِمْ، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: لِإِيلَافِ لِنِعْمَتِي عَلَى قُرَيْشٍ.
مجاہد نے کہا «لإيلاف قريش.» کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے لوگوں کا دل سفر میں لگا دیا تھا، گرمی جاڑے کسی بھی موسم میں ان پر سفر کرنا دشوار نہ تھا اور ان کو حرم میں جگہ دے کر دشمنوں سے بےفکر کر دیا تھا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ «لإيلاف قريش.» کا معنی یہ ہے قریش پر میرے احسان کی وجہ سے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يَدُعُّ: يَدْفَعُ عَنْ حَقِّهِ، يُقَالُ: هُوَ مِنْ دَعَعْتُ يُدَعُّونَ يُدْفَعُونَ، سَاهُونَ: لَاهُونَ، وَالْمَاعُونَ: الْمَعْرُوفَ كُلُّهُ، وَقَالَ بَعْضُ الْعَرَبِ: الْمَاعُونُ الْمَاءُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: أَعْلَاهَا الزَّكَاةُ الْمَفْرُوضَةُ، وَأَدْنَاهَا عَارِيَّةُ الْمَتَاعِ.
مجاہد نے کہا «يدع» کا معنی دفع کرتا ہے یعنی یتیم کو اس کا حق نہیں لینے دیتا، کہتے ہیں یہ «دعوت» سے نکلا ہے۔ اسی سے سورۃ الطور میں لفظ «يوم يدعون» ہے (یعنی جس دن دوزخ کی طرف اٹھائے جائیں گے، ڈھکیلے جائیں گے۔ «ساهون» بھولنے والے، غافل۔«ماعون» کہتے ہیں مروت کے ہر اچھے کام کو۔ بعض عرب «ماعون» پانی کو کہتے ہیں۔ عکرمہ نے کہا «ماعون» کا اعلیٰ درجہ زکوٰۃ دینا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کچھ سامان مانگے تو اسے وہ دیدے، اس کا انکار نہ کرے۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شَانِئَكَ: عَدُوَّكَ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «شانئك» تیرا دشمن۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ: "أَتَيْتُ عَلَى نَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا، فَقُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟"قَالَ: "هَذَا الْكَوْثَرُ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے (جو اللہ نے آپ کو دیا ہے)۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْكَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ: "سَأَلْتُهَا عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سورة الكوثر آية 1، قَالَتْ: "نَهَرٌ أُعْطِيَهُ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاطِئَاهُ عَلَيْهِ دُرٌّ مُجَوَّفٌ آنِيَتُهُ كَعَدَدِ النُّجُومِ".رَوَاهُ زَكَرِيَّاءُ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ، وَمُطَرِّفٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
ہم سے خالد بن یزید کاہلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے ابوعبیدہ نے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إنا أعطيناك الكوثر» یعنی ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ یہ (کوثر) ایک نہر ہے جو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشی گئی ہے، اس کے دو کنارے ہیں جن پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں۔ اس کے آبخورے ستاروں کی طرح ان گنت ہیں۔ اس حدیث کی روایت زکریا اور ابوالاحوص اور مطرف نے ابواسحاق سے کی ہے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: "فِي الْكَوْثَرِ هُوَ الْخَيْرُ الَّذِي أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ، قَالَ أَبُو بِشْرٍ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: فَإِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ نَهَرٌ فِي الْجَنَّةِ، فَقَالَ سَعِيدٌ: النَّهَرُ الَّذِي فِي الْجَنَّةِ مِنَ الْخَيْرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ان سے ابوالبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کوثر کے متعلق کہ وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ ابوبشر نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے عرض کی، لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے جنت کی ایک نہر مراد ہے؟ سعید نے کہا کہ جنت کی نہر بھی اس خیر کثیر میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔
يُقَالُ: لَكُمْ دِينُكُمْ: الْكُفْرُ وَلِيَ دِينِ الْإِسْلَامُ، وَلَمْ يَقُلْ دِينِي لِأَنَّ الْآيَاتِ بِالنُّونِ، فَحُذِفَتِ الْيَاءُ كَمَا قَالَ يَهْدِينِ وَيَشْفِينِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ: الْآنَ وَلَا أُجِيبُكُمْ فِيمَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِي، وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ: وَهُمُ الَّذِينَ، قَالَ: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا.
کہا گیا ہے کہ «لكم دينكم» سے مراد کفر ہے اور «ولي دين» سے مراد اسلام ہے «ديني» نہیں کہا کیونکہ آیات کا ختم نون پر ہوا ہے۔ اس لیے یہاں بھی یاء کو حذف کر دیا، جیسے بولتے ہیں «يهدين ويشفين.» ۔ اوروں نے کہا کہ اب نہ تو میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا یعنی جن معبودوں کی تم اس وقت عبادت کرتے ہو اور نہ میں تمہارا یہ دین اپنی باقی زندگی میں قبول کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے۔ اس سے مراد کفار ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے «وليزيدن كثيرا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا» الایۃ یعنی اور جو وحی آپ کے رب کی طرف سے ہے آپ پر نازل کی جاتی ہے۔ ان میں بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں وہ زیادہ کر دیتی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "مَا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 إِلَّا يَقُولُ فِيهَا: "سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي".
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت «إذا جاء نصر الله والفتح» یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی جب سے نازل ہوئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ یہ دعا نہ کرتے ہوں «سبحانك ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي".» یعنی پاک ہے تیری ذات، اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اے اللہ میری مغفرت فرما دے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: "سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سورۃ الفتح نازل ہونے کے بعد) اپنے رکوع اور سجدوں میں بکثرت یہ دعا پڑھتے تھے «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي» یعنی پاک ہے تیری ذات، اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے، اے اللہ! میری مغفرت فرما دے۔ قرآن مجید کے حکم مذکور پر اس طرح آپ عمل کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عنه سألهم عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1، قَالُوا: فَتْحُ الْمَدَائِنِ وَالْقُصُورِ، قَالَ: مَا تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ ؟ قَالَ: أَجَلٌ أَوْ مَثَلٌ ضُرِبَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُعِيَتْ لَهُ نَفْسُهُ.
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے بدری صحابہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إذا جاء نصر الله والفتح» یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے اشارہ بہت سے شہروں اور ملکوں کے فتح ہونے کی طرف ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن عباس تمہارا کیا خیال ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ اس میں آپ کی وفات کی خبر یا ایک مثال ہے گویا آپ کی موت کی آپ کو خبر دی گئی ہے۔
عَلَى الْعِبَادِ وَالتَّوَّابُ مِنَ النَّاسِ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ.
«تواب» کے معنی بندوں کی توبہ قبول کرنے والا۔ آدمیوں میں «تواب» اسے کہیں گے جو گناہ سے توبہ کرے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ، فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ، قَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا، وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، فَقَالَ لِي: أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ ؟ فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: فَمَا تَقُولُ، قُلْتُ: هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ، قَالَ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض(عبدالرحمٰن بن عوف) کو اس پر اعتراض ہوا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لیے بلایا ہے، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے «إذا جاء نصر الله والفتح» الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا «إذا جاء نصر الله والفتح» کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ اس لیے آپ اپنے پروردگار کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔
تَبَابٌ خُسْرَانٌ تَتْبِيبٌ تَدْمِيرٌ.
«تباب» کے معنی تباہی ٹوٹا۔ «تتبيب» کے معنی تباہ کرنا۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ، فَقَالُوا: مَنْ هَذَا ؟ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ: "أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟"قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا، قَالَ: "فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، قَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا، ثُمَّ قَامَ، فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ سورة المسد آية 1، وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الْأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ.
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی «تبت يدا أبي لهب وتب» الخ یعنی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔ اعمش نے یوں پڑھا «وقد تب» جس دن یہ حدیث روایت کی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ، فَصَعِدَ إِلَى الْجَبَلِ، فَنَادَى يَا صَبَاحَاهْ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، فَقَالَ: "أَرَأَيْتُمْ إِنْ حَدَّثْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُصَبِّحُكُمْ أَوْ مُمَسِّيكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: "فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1 إِلَى آخِرِهَا.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یعنی وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا۔ یا صباحاہ! قریش اس آواز پر آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور آپ کی تصدیق کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ ابولہب بولا تم تباہ ہو جاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «تبت يدا أبي لهب» آخر تک۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا، فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1 إِلَى آخِرِهَا".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابولہب نے کہا تھا کہ تو تباہ ہو۔ کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر یہ آیت «تبت يدا أبي لهب» نازل ہوئی۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: حَمَّالَةُ الْحَطَبِ: تَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ، يُقَالُ مِنْ مَسَدٍ لِيفِ الْمُقْلِ وَهِيَ السِّلْسِلَةُ الَّتِي فِي النَّارِ.
مجاہد نے کہا «حمالة الحطب» چغل خور۔ «في جيدها حبل من مسد» کہتے ہیں «مسد» سے مراد گوگل کے درخت کی چھال ہے بعضوں نے کہا دوزخ کی رسی مراد ہے۔
يُقَالُ لَا يُنَوَّنُ أَحَدٌ أَيْ وَاحِدٌ.
کہا گیا ہے کہ «أحد» پر تنوین نہیں پڑھی جاتی بلکہ دال کو ساکن ہی پڑھنا چاہئے۔ «أحد» کے معنی وہ ایک ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ: كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدَأَنِي، وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ أَلِدْ، وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفْئًا أَحَدٌ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ابن آدم نے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ نہیں پیدا کروں گا حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں نہ میرے لیے کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرے برابر ہے۔
وَالْعَرَبُ تُسَمِّي أَشْرَافَهَا الصَّمَدَ، قَالَ أَبُو وَائِلٍ: هُوَ السَّيِّدُ الَّذِي انْتَهَى سُودَدُهُ.
معنی اللہ بےنیاز ہے۔ عرب لوگ سردار اور شریف کو «صمد.» کہتے ہیں۔ ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا حد درجے سب سے بڑا سردار جو ہو اسے «صمد.» کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَالَ اللَّهُ: كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، أَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ أَنْ يَقُولَ إِنِّي لَنْ أُعِيدَهُ كَمَا بَدَأْتُهُ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ أَنْ يَقُولَ اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ، وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفُؤًا أَحَدٌ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ 3 وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ 4 سورة الإخلاص آية 3-4"، كُفُؤًا وَكَفِيئًا وَكِفَاءً وَاحِدٌ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ) ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ (ابن آدم)کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا جیسا کہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ اس کا گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں بےپرواہ ہوں، میرے ہاں نہ کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے۔ «كفؤا» اور«كفيئا» اور «كفاء» ہم معنی ہیں۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْفَلَقُ: الصُّبْحُ، وَغَاسِقٍ: اللَّيْلُ إِذَا وَقَبَ غُرُوبُ الشَّمْسِ، يُقَالُ: أَبْيَنُ مِنْ فَرَقِ، وَفَلَقِ الصُّبْحِ وَقَبَ إِذَا دَخَلَ فِي كُلِّ شَيْءٍ وَأَظْلَمَ.
مجاہد نے کہا کہ «غاسق» سے رات مراد ہے۔ «إذا وقب» سے سورج کا ڈوب جانا مراد ہے۔ «فرق» اور «فلق» کے ایک ہی معنی ہیں کہتے ہیں یہ بات «فرق» صبح یا «فلق» صبح سے زیادہ روشن ہے۔ عرب لوگ «وقب» اس وقت کہتے ہیں جب کوئی چیز بالکل کسی چیز میں گھس جائے اور اندھیرا ہو جائے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، وَعَبْدَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، عَنْ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "قِيلَ لِي"، فَقُلْتُ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عاصم اور عبدہ نے، ان سے زر بن حبیش نے بیان کیا کہانہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ یہ مسئلہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے (جبرائیل علیہ السلام) کی زبانی کہا گیا ہے کہ یوں کہئیے کہ«اعوذ برب الفلق» الخ میں نے اسی طرح کہا چنانچہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔
وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: الْوَسْوَاسِ إِذَا وُلِدَ خَنَسَهُ الشَّيْطَانُ، فَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَهَبَ، وَإِذَا لَمْ يُذْكَرِ اللَّهُ ثَبَتَ عَلَى قَلْبِهِ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «وسواس» کے متعلق بتلایا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو چونکا لگاتا ہے۔ اگر وہاں اللہ کا نام لیا گیا تو وہ بھاگ جاتا ہے ورنہ بچے کے دل پر جم جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، وحَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، قال: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، قُلْتُ: يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، فقال أبي: سألت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: "قِيلَ لِي"، فَقَلْتُ: قَالَ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا، ان سے زر بن حبیش نے(سفیان نے کہا) اور ہم سے عاصم نے بھی بیان کیا، ان سے زر نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یا اباالمنذر! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ (جبرائیل علیہ السلام کی زبانی) مجھ سے یوں کہا گیا کہ ایسا کہئیے اور میں نے کہا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔