صحیح مسلم

قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1837

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً، كُنْتُ أَسْقَطْتُهَا مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا ".

سیده عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کا قرآن پڑھنا مسجد میں سنتے تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحمت کرے، مجھے اس نے فلاں آیت یاد دلادی جس کو میں فلاں سورۃ سے چھوڑ دیتا تھا۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1838

وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي آيَةً كُنْتُ أُنْسِيتُهَا ".

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کا قرآن پڑھنا مسجد میں سنتے تھے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحمت کرے مجھے اس نے ایک آیت یاد دلا دی جو میں بھلا دیا گیا تھا۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1839

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ الإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ "،

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن یاد کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے اس اونٹ کی جس کا ایک پیر بندھا ہو کہ اگر اس کے مالک نے اس کا خیال رکھا تو رہا اور اگر چھوڑ دیا تو چل دیا۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1840

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كُلُّهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ جَمِيعًا، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ: وَإِذَا قَامَ صَاحِبُ الْقُرْآنِ فَقَرَأَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ذَكَرَهُ، وَإِذَا لَمْ يَقُمْ بِهِ نَسِيَهُ.

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مثل حدیث مالک کے روایت کی اور اس میں موسیٰ بن عقبہ کی روایت سے یہ زیادہ کیا ہے کہ ”قرآن یاد کرنے والا جب اٹھ کر رات کو اور دن کو پڑھتا رہتا ہے تو یاد رکھتا ہے اور اگر نہ پڑھتا رہا تو بھول گیا۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1841

وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإسحاق بن إبراهيم ، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرَانِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ يَقُولُ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ، اسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ، فَلَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا، مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ، مِنَ النَّعَمِ بِعُقُلِهَا ".

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بہت برا ہے ان میں سے وہ جو یہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بھلا دیا گیا اور قرآن کا خیال اور یاداشت رکھو کہ وہ لوگوں کے سینوں سے ان چارپایوں سے زیادہ بھاگنے والا ہے جن کی ایک ٹانگ بندھی ہو۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1842

حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي  وَأَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : تَعَاهَدُوا هَذِهِ الْمَصَاحِفَ، وَرُبَّمَا قَالَ: الْقُرْآنَ، فَلَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ، مِنَ النَّعَمِ، مِنْ عُقُلِهِ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ ".

شقیق نے کہا کہ عبداللہ نے کہا کہ قرآن کا خیال رکھو اس لئے کہ سینوں سے ان چارپایوں سے جلد بھاگنے والا ہے، جن کا ایک زانو بندھا ہو۔ اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی تم میں سے یہ نہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں کہے بھلا دیا گیا۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1843

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بِئْسَمَا لِلرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ سُورَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، أَوْ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ ".

شقیق نے کہا: میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”آدمی کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بہت برا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ میں بھلا دیا گیا۔“

قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 1844

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَعَاهَدُوا هَذَا الْقُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنَ الإِبِلِ فِي عُقُلِهَا "، وَلَفْظُ الْحَدِيثِ لِابْنِ بَرَّادٍ.

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیال کرو قرآن کا اس لئے کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ وہ (قرآن) اونٹ سے زیادہ بھاگنے والا ہے اپنے بندھن سے۔“

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1845

حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسے پیار اور محبت سے کسی چیز کو نہیں سنتا جیسے نبی علیہ السلام سے خوش آواز کو جو خوش آواز سے قرآن کو پڑھے۔“

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1846

وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو كِلَاهُمَا، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: كَمَا يَأْذَنُ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ.

اس سند سے بھی مذکورہ روایت آئی ہے فرمایا: ”جس طرح اجازت دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ وہ قرآن کو خوبصورتی کے ساتھ پڑھیں۔“

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1847

حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ، يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ، يَجْهَرُ بِهِ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ اس طرح کسی چیز کو نہیں سنتا جس طرح کہ اس نبی سے خوش آواز سنتا ہے جو قرآن پڑھے اونچی آواز میں۔“

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1848

وحَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مَالِكٍ ، وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ سَوَاءً وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَمْ يَقُلْ: سَمِعَ.

ابن الھاد اسی مفہوم کی حدیث بیان کرتے ہیں لیکن اس میں «سَمِعَ» کا لفظ نہیں ہے۔

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1849

وحَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا هِقْلٌ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، كَأَذَنِهِ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ، يَجْهَرُ بِهِ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نبی کے خوش الحانی سے بلند آواز سے قرآن پڑھنے سے زیادہ کسی چیز پر اجر نہیں دیتے۔“

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1850

وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، غَيْرَ أَنَّ ابْنَ أَيُّوبَ، قَالَ فِي رِوَايَتِهِ: كَإِذْنِهِ.

مسلم رحمہ اللہ نے کہا: اور روایت کی ہم سے یحییٰ بن ایوب اور قتیبہ بن سعید نے اور ابن حجر نے، سب نے کہا کہ روایت کی ہم سے اسماعیل نے، ان سے محمد بن عمرو نے، ان سے ابی سلمہ نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت کے مثل مگر یحییٰ نے اپنی روایت میں «كَإِذْنِهِ» کہا۔

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1851

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَهُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ أَوِ الأَشْعَرِيَّ، أُعْطِيَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ ".

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس یا فرمایا اشعری کو ایک آواز دی گئی ہے آل داؤد علیہ السلام کی آوازوں میں سے۔“

خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1852

وحَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي مُوسَى: " لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ ".

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اگر تم مجھے دیکھتے جب میں کل رات تمہاری قرأت سن رہا تھا (تو بہت خوش ہوتے) بیشک تم کو ایک آواز دی گئی ہے آل داؤد علیہ السلام کی آوازوں میں سے۔“

فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۃ الفتح پڑھنا

حد یث نمبر - 1853

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيَّ ، يَقُولُ: " قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فِي مَسِيرٍ لَهُ سُورَةَ الْفَتْحِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَرَجَّعَ فِي قِرَاءَتِهِ "، قَالَ مُعَاوِيَةُ: لَوْلَا أَنِّي أَخَافُ أَنْ يَجْتَمِعَ عَلَيَّ النَّاسُ، لَحَكَيْتُ لَكُمْ قِرَاءَتَهُ.

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال مکہ فتح ہوا اپنی راہ میں سورۂ فتح پڑھی یعنی «اِنَّا فَتَحْنَا» اپنی سوری پر آواز دوہراتے گئے اپنی قرأت میں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے گھیر لیں گے تو میں صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت تم کو سناتا۔

فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۃ الفتح پڑھنا

حد یث نمبر - 1854

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ عَلَى نَاقَتِهِ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْفَتْحِ "، قَالَ: فَقَرَأَ ابْنُ مُغَفَّلٍ، وَرَجَّعَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَوْلَا النَّاسُ، لَأَخَذْتُ لَكُمْ بِذَلِكَ الَّذِي ذَكَرَهُ ابْنُ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ فتح پڑھتے تھے اور سیدنا ابن مغفل رضی اللہ عنہ نے پڑھا اور آواز کو دہرایا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر لوگ نہ ہوتے تو میں بھی ویسی ہی قرأت شروع کرتا جیسے ابن مغفل نے ذکر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۃ الفتح پڑھنا

حد یث نمبر - 1855

وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَفِي حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: عَلَى رَاحِلَةٍ يَسِيرُ، وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفَتْحِ.

شعبہ اس سند سے گزشتہ روایت کی طرح بیان کرتے ہیں اور اس حدیث میں ہے کہ آپ سواری پر چلے جا رہے تھے اور سورۂ فتح پڑھ رہے تھے۔

قرأت قرآن کی برکت سے تسکین کا اترنا

حد یث نمبر - 1856

وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ: " كَانَ رَجُلٌ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْكَهْفِ وَعِنْدَهُ فَرَسٌ مَرْبُوطٌ بِشَطَنَيْنِ، فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدُورُ وَتَدْنُو، وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ مِنْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: تِلْكَ السَّكِينَةُ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ ".

سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص سورۂ کہف پڑھتا تھا اور اس کے پاس ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا دو لمبی رسیوں میں۔ سو اس پر ایک بدلی آنے لگی اور وہ گھومنے لگی اور قریب آنے لگی اور اس کا گھوڑا اس کو دیکھ کر بھاگنے لگا۔ پھر جب صبح ہوئی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تسکین ہے کہ اترتی ہے قرآن کی برکت سے۔“

قرأت قرآن کی برکت سے تسکین کا اترنا

حد یث نمبر - 1857

وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، يَقُولُ: " قَرَأَ رَجُلٌ الْكَهْفَ، وَفِي الدَّارِ دَابَّةٌ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ، فَنَظَرَ، فَإِذَا ضَبَابَةٌ أَوْ سَحَابَةٌ قَدْ غَشِيَتْهُ، قَالَ: فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اقْرَأْ فُلَانُ، فَإِنَّهَا السَّكِينَةُ تَنَزَّلَتْ عِنْدَ الْقُرْآنِ أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ ".

سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سورۂ کہف پڑھی اور گھر میں ایک جانور بندھا تھا سو وہ بھاگنے لگا۔ جب اس نے نظر کی دیکھا ایک بدلی ہے کہ اس نے اس کو ڈھانک لیا ہے پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں! پڑھے جا اس لئے کہ تسکین ہے جو اترتی ہے قرآن کی قرأت کے وقت۔“

قرأت قرآن کی برکت سے تسکین کا اترنا

حد یث نمبر - 1858

وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، وَأَبُو دَاوُدَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، يَقُولُ: فَذَكَرَا نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُمَا قَالَا: تَنْقُزُ.

اس سند سے براء رضی اللہ عنہ نے اسی طرح روایت کی۔

قرأت قرآن کی برکت سے تسکین کا اترنا

حد یث نمبر - 1859

وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْهَادِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ خَبَّابٍ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ حُضَيْرٍ بَيْنَمَا هُوَ لَيْلَةً يَقْرَأُ فِي مِرْبَدِهِ إِذْ جَالَتْ فَرَسُهُ فَقَرَأَ، ثُمَّ جَالَتْ أُخْرَى فَقَرَأَ، ثُمَّ جَالَتْ أَيْضًا، قَالَ أُسَيْدٌ: فَخَشِيتُ أَنْ تَطَأَ يَحْيَى، فَقُمْتُ إِلَيْهَا، فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فَوْقَ رَأْسِي، فِيهَا أَمْثَالُ السُّرُجِ عَرَجَتْ فِي الْجَوِّ حَتَّى مَا أَرَاهَا، قَالَ: فَغَدَوْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَيْنَمَا أَنَا الْبَارِحَةَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ أَقْرَأُ فِي مِرْبَدِي، إِذْ جَالَتْ فَرَسِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ ابْنَ حُضَيْرٍ، قَالَ: فَقَرَأْتُ، ثُمَّ جَالَتْ أَيْضًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ ابْنَ حُضَيْرٍ، قَالَ: فَقَرَأْتُ، ثُمَّ جَالَتْ أَيْضًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ ابْنَ حُضَيْرٍ، قَالَ: فَانْصَرَفْتُ، وَكَانَ يَحْيَى قَرِيبًا مِنْهَا، خَشِيتُ أَنْ تَطَأَهُ، فَرَأَيْتُ مِثْلَ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ السُّرُجِ، عَرَجَتْ فِي الْجَوِّ حَتَّى مَا أَرَاهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ كَانَتْ تَسْتَمِعُ لَكَ، وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَرَاهَا النَّاسُ مَا تَسْتَتِرُ مِنْهُمْ ".

سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اپنی کھجور کے کھلیان میں ایک شب قرآن پڑھتے تھے کہ ان کا گھوڑا کودنے لگا اور وہ پڑھتے جاتے تھے اور پھر وہ کودتا تھا پھر وہ پڑھنے لگے پھر وہ کودنے لگا تو انہوں نے کہا کہ میں ڈرا کہ کہیں یحییٰ کو کچل نہ ڈالے۔ سو میں اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اور دیکھتا ہوں کہ ایک سائبان سا میرے سر پر ہے کہ اس میں چراغ سے روشن ہیں اور وہ اوپر کو چڑھ گیا یہاں تک کہ میں نے اس کو پھر نہ دیکھا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح کو حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں شب کو اپنے کھلیان میں قرآن پڑھتا تھا کہ یک بارگی میرا گھوڑا کودنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑھے جا، اے ابن حضیر!“ انہوں نے عرض کیا کہ میں پڑھے گیا پھر وہ کودنے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑھے جا، اے ابن حضیر!“ انہوں نے کہا کہ میں پڑھے گیا۔ پھر وہ ایسا ہی کودنے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھے جا، اے ابن حضیر!“ انہوں نے کہا: جب میں فارغ ہوا اور یحییٰ گھوڑے کے پاس تھا تو مجھے خوف ہوا کہ کہیں یحییٰ کو کچل نہ ڈالے اور میں نے دیکھا ایک سائبان سا کہ اس میں چراغ سے روشن تھے اور وہ اوپر کو چڑھ گیا یہاں تک کہ میں اسے نہ دیکھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ فرشتے تھے کہ تمہاری قرأت سنتے تھے۔ اور اگر تم پڑھتے جاتے تو صبح کرتے اس طرح کہ لوگ ان (فرشتوں) کو دیکھتے اور وہ ان کی نظر سے پوشیدہ نہ رہتے۔“

حافظ قرآن کی فضیلت

حد یث نمبر - 1860

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ التَّمْرَةِ، لَا رِيحَ لَهَا، وَطَعْمُهَا حُلْوٌ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الرَّيْحَانَةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ، لَيْسَ لَهَا رِيحٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ ".

سیدنا ابوموسیٰ اشعریٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مثال اس مؤمن کی جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی سی ہے کہ خوشبو اس کی عمدہ اور مزا اس کا اچھا ہے اور مثال اس مؤمن کی جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے کہ اس میں بو نہیں مگر میٹھا ہے۔ اور مثال اس منافق کی جو قرآن پڑھتا ہے اس پھول کے مانند ہے کہ بو اس کی اچھی ہے اور مزا اس کا کڑوا ہے، اور مثال اس منافق کی جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا کڑوا ہے۔“

حافظ قرآن کی فضیلت

حد یث نمبر - 1861

وحَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ قَتَادَةَ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ هَمَّامٍ: بَدَلَ الْمُنَافِقِ، الْفَاجِرِ.

قتادہ سے بھی یہی روایت اسی اسناد سے مروی ہے مگر ہمام کی روایت میں منافق کے بدلے فاجر ہے۔

قرآن کے ماہر اور اس کو اٹک اٹک کر پڑھنے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1862

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ ".

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کا مشاق (اس سے حافظ مراد ہو سکتا ہے) ان بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہے جو لوح محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور اس کو مشقت ہوتی ہے اس کو دوگنا ثواب ہے۔“

قرآن کے ماہر اور اس کو اٹک اٹک کر پڑھنے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1863

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ كِلَاهُمَا، عَنْ قَتَادَةَ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وقَالَ فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ وَالَّذِي يَقْرَأُ وَهُوَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ، لَهُ أَجْرَانِ.

قتادہ اس سند سے بیان کرتے ہیں اور وکیع کی سند سے جو حدیث ہے اس میں یہ لفظ ہیں کہ اور وہ جو اس کو پڑھتا ہے اور اس پر مشکل ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔

افضل کا اپنے سے کم کے آگے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1864

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأُبَيٍّ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ، قَالَ: آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ، قَالَ: اللَّهُ سَمَّاكَ لِي، قَالَ: فَجَعَلَ أُبَيٌّ يَبْكِي ".

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (یہ سب قاریوں کے سردار ہیں) سے فرمایا: کہ ”اللہ عزت والے، بزرگی والے نے مجھے حکم کیا کہ میں تمہارے آگے قرآن پڑھوں۔“ انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے میرا نام لیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام میرے آگے لیا۔“ تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رونے لگے۔

افضل کا اپنے سے کم کے آگے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1865

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا، قَالَ: وَسَمَّانِي لَكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبَكَى ".

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا مگر اس میں «لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا» سنانے کا ذکر ہے۔

افضل کا اپنے سے کم کے آگے قرآن پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1866

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيٍّ، بِمِثْلِهِ.

سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سنا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کو مذکورہ کے مثل۔

قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرأت رونے اور غور کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1867

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا ، عَنْ حَفْصٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقْرَأُ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41 رَفَعْتُ رَأْسِي، أَوْ غَمَزَنِي رَجُلٌ إِلَى جَنْبِي، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ دُمُوعَهُ تَسِيلُ ".

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم میرے آگے قرآن پڑھو۔“ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں آپ کے آگے پڑھوں اور آپ ہی پر اترا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا جی چاہتا ہے کہ میں کسی اور سے سنوں۔“ پھر میں نے سورۂ نساء پڑھی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا «فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا» تو میں نے سر اٹھایا یا مجھے کسی نے چٹکی لی تو میں نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہہ رہے ہیں۔

قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرأت رونے اور غور کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1868

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، وَمِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ جميعا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ ، وَزَادَ هَنَّادٌ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: اقْرَأْ عَلَيَّ.

اعمش سے یہی روایت اس اسناد سے مروی ہے مگر اس میں اتنی بات زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا کہ ”میرے آگے قرآن پڑھو۔“اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے۔

قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرأت رونے اور غور کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1869

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي مِسْعَرٌ ، وَقَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ : " اقْرَأْ عَلَيَّ، قَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، قَالَ: فَقَرَأَ عَلَيْهِ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ النِّسَاءِ إِلَى قَوْلِهِ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41 فَبَكَى "، قَالَ مِسْعَرٌ : فَحَدَّثَنِي مَعْنٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مَا دُمْتُ فِيهِمْ، أَوْ مَا كُنْتُ فِيهِمْ شَكَّ مِسْعَرٌ.

ابراہیم نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم میرے آگے قرآن پڑھو۔“ انہوں نے عرض کیا کہ میں آپ کے آگے پڑھوں اور آپ پر اترا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”میں چاہتا ہوں کہ اس کو دوسرے سے سنوں۔“ غرض سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سورۂ نساء کے شروع سے پڑھا اس آیت تک «فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا» اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روئے۔ مسعر نے کہا: روایت کی مجھ سے معن نے، ان سے جعفر نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں امت کے حال سے واقف تھا جب تک ان میں تھا۔“ (یعنی زندہ تھا) مسعر کو شک ہے کہ«كُنْتُ» کہا یا «دُمْتُ» کہا معنی دونوں کے ایک ہیں۔

قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرأت رونے اور غور کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1870

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّه ، قَالَ: كُنْتُ بِحِمْصَ، فَقَالَ لِي بَعْضُ الْقَوْمِ " اقْرَأْ عَلَيْنَا، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمْ سُورَةَ يُوسُفَ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَاللَّهِ مَا هَكَذَا أُنْزِلَتْ، قَالَ: قُلْتُ: وَيْحَكَ وَاللَّهِ، لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: أَحْسَنْتَ فَبَيْنَمَا أَنَا أُكَلِّمُهُ إِذْ وَجَدْتُ مِنْهُ رِيحَ الْخَمْرِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: أَتَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَتُكَذِّبُ بِالْكِتَابِ، لَا تَبْرَحُ حَتَّى أَجْلِدَكَ، قَالَ: فَجَلَدْتُهُ الْحَدَّ ".

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں حمص میں تھا مجھ سے لوگوں نے کہا: ہم کو قرآن سناؤ۔ میں نے سورۂ یوسف پڑھی۔ سو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا نہیں اترا۔ میں نے کہا: تیری خرابی ہو۔ اللہ کی قسم! میں نے تو یہ سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پڑھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوب پڑھا۔“ عرض میں اس سے بات کر ہی رہا تھا کہ شراب کی بو اس کی طرف سے آئی تو میں نے کہا: تو شراب پیتا ہے اور اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے تو جانے نہ پائے گا جب تک میں تجھے حد نہ مارلوں گا پھر میں نے اس کو کوڑے مارے۔

قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرأت رونے اور غور کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1871

وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ جَمِيعًا، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، فَقَالَ لِي: أَحْسَنْتَ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث آئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں «أَحْسَنْتَ» کا لفظ نہیں ہے۔

نماز میں قرآن پڑھنے اور اس کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 1872

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی تم میں سے چاہتا ہے کہ جب گھر لوٹ کر آئے تو تین حاملہ اونٹنیاں پائے جو نہایت فربہ ہوں بڑی بڑی۔“ ہم نے کہا: بے شک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس تین آیتیں کہ ان کو آدمی نماز میں پڑھتا ہے بہتر ہے اس کیلئے تین اونٹنیوں سے جو بڑی اور موٹی ہوں۔“

نماز میں قرآن پڑھنے اور اس کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 1873

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ، أَوْ إِلَى الْعَقِيقِ فَيَأْتِيَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ، فِي غَيْرِ إِثْمٍ، وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ؟ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُحِبُّ ذَلِكَ، قَالَ: " أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ، أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الإِبِلِ؟ ".

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم لوگ دیوان خانہ میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے؟ (یہ دونوں بازار تھے مدینہ میں) اور وہاں سے دو اوٹنیاں بڑے بڑے کوہان کی لائے بغیر کسی گناہ کے اور بغیر اس کے کہ کسی ناتہ دار کی حق تلفی کرے۔“ تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم سب اس کو چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پھر کیوں نہیں جاتا تم میں سے ہر ایک شخص مسجد کو اور کیوں نہیں سکھاتا یا نہیں پڑھتا دو آیتیں اللہ کی کتاب کی جو بہتر ہوں اس کے لئے دو اونٹنیوں سے اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیں ہوں اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔“

قرأت قرآن اور سورۂ بقرہ کی فضیلت

حد یث نمبر - 1874

حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ وَهُوَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ ، عَنْ زَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا، اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ "، قَالَ مُعَاوِيَةُ: بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ.

سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قرآن پڑھو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا۔ اور دو سورتیں چمکتی پڑھو سورۂ البقرہ اور سورۂ ال عمران اس لئے کہ وہ میدان قیامت میں آئیں گی گویا دو بادل ہیں یا وہ سائبان یا دو ٹکڑیاں ہیں اڑتے جانور کی اور حجت کرتی ہوئی آئیں گی اپنے لوگوں کی طرف اور سورۃ بقرہ پڑھو کہ لینا اس کا برکت ہے اور چھوڑنا اس کا حسرت ہے اور جادوگر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔“

قرأت قرآن اور سورۂ بقرہ کی فضیلت

حد یث نمبر - 1875

وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: وَكَأَنَّهُمَا فِي كِلَيْهِمَا، وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ مُعَاوِيَةَ: بَلَغَنِي.

چند الفاظ کے فرق کے ساتھ مذکورہ بالاحدیث اس سند سے بھی آئی ہے۔

قرأت قرآن اور سورۂ بقرہ کی فضیلت

حد یث نمبر - 1876

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُهَاجِرٍ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ، تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ، قَالَ: كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ، أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا ".

سیدنا نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرمایا: ”قرآن کو قیامت کے دن لائیں گے اور ان کو بھی جو اس پر عمل کرتے تھے اور سورۂ بقرہ اور آل عمران آگے آگے ہوں گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تین مثالیں دیں کہ میں ان کو آج تک نہیں بھولا۔ اول یہ کہ وہ ایسی ہیں جیسے دو بادل کے ٹکڑے یا ایسی ہیں جیسے دو کالے کالے سائبان کہ ان میں روشنی چمکتی ہو یا ایسی ہیں جیسی قطار باندگی ہوئی چڑیوں کی دوٹکڑیاں اور وہ دونوں اپنے صاحب کی طرف حجت کرتی ہوں گی۔“

سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب

حد یث نمبر - 1877

حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَوَّاسٍ الْحَنْفِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ، فُتِحَ الْيَوْمَ، لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الأَرْضِ، لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: " أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ، فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ ".

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلام نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آواز بڑے زور کی سنی دروازہ کھلنے کی اور اپنا سر اٹھایا۔ اور جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ ایک دروازہ ہے آسمان کا کہ آج کھلا ہے اور کھبی نہیں کھلا تھا مگر آج کے دن پھر اس سے ایک فرشتہ اترا۔ اور جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے کبھی نہیں اترا سوائے آج کے۔ اور اس نے سلام کیا اور کہا خوشخبری ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو نوروں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت ہوئے ہیں اور نبیوں میں سے کسی نبی کو نہیں ملے، سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے، ایک سورۂ فاتحہ ہے اور دوسرے سورۂ بقرہ کا خاتمہ۔ کوئی حرف اس میں سے تم نہ پڑھو گے کہ اس کی مانگی ہوئی چیز تمہیں نہ ملے۔

سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب

حد یث نمبر - 1878

وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا مَسْعُودٍ عِنْدَ الْبَيْتِ، فَقُلْتُ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ فِي الآيَتَيْنِ فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مَنْ قَرَأَهُمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ ".

عبدالرحمن نے کہا: میں سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے کعبہ شریف کے پاس ملا اور میں کہا: مجھے ایک حدیث تمہاری زبانی پہنچی ہے سورۃ بقرہ کی فضیلت میں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:”سورۂ بقرۂ کی آخری دو آیتیں جو رات کو پڑھے اس کو کافی ہیں۔“

سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب

حد یث نمبر - 1879

وحَدَّثَنَاه إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كِلَاهُمَا، عَنْ مَنْصُورٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ.

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب

حد یث نمبر - 1880

وحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَرَأَ هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ "، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَلَقِيتُ أَبَا مَسْعُودٍ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جو سورۃ بقرہ کی آخر کی دو آیتیں پڑھے اس کو رات بھر کفایت کریں گی۔“ عبدالرحمن نے کہا کہ پھر میں سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے ملا اور وہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ سو میں نے ان سے پوچھا اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہی بیان کیا۔

سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب

حد یث نمبر - 1881

وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ جَمِيعًا، عَنِالأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.

سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔

سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت اور ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کی ترغیب

حد یث نمبر - 1882

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.

سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔

سورۃ کہف اور آیت الکرسی کی فضیلت

حد یث نمبر - 1883

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْف عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ ".

سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو یاد کرے سورۂ کہف کی اول کی دس آیتیں وہ دجال کے فتنہ سے بچے گا۔“

سورۃ کہف اور آیت الکرسی کی فضیلت

حد یث نمبر - 1884

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ جَمِيعًا، عَنْ قَتَادَةَ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، قَالَ شُعْبَةُ: مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ، وقَالَ هَمَّامٌ: مِنْ أَوَّلِ الْكَهْف، كَمَا قَالَ هِشَامٌ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث آئی ہے۔ شعبہ نے کہا کہ سورۂ کہف کی آخری آیات اور ہمام نے شروع کی آیات کہی ہیں۔

سورۃ کہف اور آیت الکرسی کی فضیلت

حد یث نمبر - 1885

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: " يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَعَكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، " أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَعَكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255 "، قَالَ: فَضَرَبَ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: وَاللَّهِ لِيَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ.

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوالمنذر! اللہ کی کتاب میں سے تمہارے پاس کون سی آیت سب سے بڑی ہے؟۔“ انہوں نے عرض کیا: میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوالمنذر! کون سی آیت اللہ کی کتاب میں سے تمہارے پاس سب سے بڑی ہے۔“ انہوں نے عرض کیا «اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَىُّ الْقَيُّومُ» یعنی آیت الکرسی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ مارا (یعنی شاباشی کا) میرے سینہ پر اور فرمایا: ”اے ابو المنذر! تجھے علم مبارک ہو۔“

«قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کی فضیلت

حد یث نمبر - 1886

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟ قَالُوا: وَكَيْفَ يَقْرَأْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ".

سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تھک جاتا ہے کوئی تم میں کا اس سے کہ ہر رات تہائی قرآن پڑھے لے؟۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ تہائی قرآن کیوں کر پڑھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» تہائی قرآن کے برابر ہے۔“

«قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کی فضیلت

حد یث نمبر - 1887

وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ جَمِيعًا، عَنْ قَتَادَةَ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ وَفِي حَدِيثِهِمَا، مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ جَزَّأَ الْقُرْآنَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَجَعَلَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ جُزْءًا مِنْ أَجْزَاءِ الْقُرْآنِ ".

سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے اسی اسناد سے یہ روایت مذکور ہوئی اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مروی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے قرآن کے تین ٹکڑے کئے (یعنی قصص اور احکام اور صفات الٰہی) اور «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کو قرآن کا ایک ٹکڑا کیا۔“ (یعنی باری تعالیٰ کی عمدہ صفات سے بھری ہے)۔

«قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کی فضیلت

حد یث نمبر - 1888

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْشُدُوا، فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ، فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ، ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُمَّ دَخَلَ، فَقَالَ: بَعْضُنَا لِبَعْضٍ، إِنِّي أُرَى هَذَا خَبَرٌ جَاءَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَذَاكَ الَّذِي أَدْخَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي قُلْتُ لَكُمْ: " سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ، أَلَا إِنَّهَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم لوگ جمع ہو جاؤ کہ میں تمہارے آگے تہائی قرآن پڑھوں۔“ غرض کہ جمع ہو گئے جن کو جمع ہونا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» پڑھی اور اندر چلے گئے تو ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شاید آسمان سے کوئی خبر آئی ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے آگے تہائی کلام اللہ پڑھوں سو یہ سورت تہائی کلام اللہ کے برابر ہے۔“

«قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کی فضیلت

حد یث نمبر - 1889

وحَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيل ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟ فَقَرَأَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ { 1 } اللَّهُ الصَّمَدُ { 2 } سورة الإخلاص آية 1-2 حَتَّى خَتَمَهَا ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ”میں تمہاری آگے تہائی قرآن پڑھتا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَد» پڑھی۔ یہاں تک کہ اس سورت کو ختم کیا۔

«قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کی فضیلت

حد یث نمبر - 1890

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، أَنَّ أَبَا الرِّجَالِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَكَانَتْ فِي حَجْرِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " بَعَثَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ، وَكَانَ يَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَلَاتِهِمْ فَيَخْتِمُ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَلَمَّا رَجَعُوا، ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سَلُوهُ، لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ؟ فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: " لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ "، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار کر کے بھیجا اور وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قرأت «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» پر ختم کرتے پھر جب فوج لوٹ کر آئی۔ لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان سے پوچھو وہ کیوں ایسا کرتے ہیں۔“ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ رحمٰن کی صفت ہے اور میں اس کو دوست رکھتا ہوں کہ اس کو پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھتا ہے۔“

معوذتین کی فضیلت

حد یث نمبر - 1891

وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَمْ تَرَ آيَاتٍ أُنْزِلَتِ اللَّيْلَةَ، لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قَطُّ؟ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ".

عامر کے بیٹے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم نہیں دیکھتے کہ آج کی رات ایسی آیتییں اتری ہیں کہ ان کے مثل کبھی نہیں دیکھیں اور وہ «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ»ہیں۔“

معوذتین کی فضیلت

حد یث نمبر - 1892

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُنْزِلَ، أَوْ " أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آيَاتٌ، لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قَطُّ، الْمُعَوِّذَتَيْنِ ".

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھ پر ایسی آیات اتاری گئی ہیں ان جیسی کبھی نہیں دیکھی گئیں وہ معوذتین ہیں۔“

معوذتین کی فضیلت

حد یث نمبر - 1893

وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ كِلَاهُمَا ، عَنْ إِسْمَاعِيل ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَه، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ وَكَانَ مِنْ رُفَعَاءِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

مذکورہ بالاحدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

قرآن پر عمل کرنے والے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1894

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ كلهم، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ، فَهُوَ يَقُومُ بِهِ، آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَهُوَ يُنْفِقُهُ، آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ ".

سالم اپنے باپ سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشک کسی اور پر نہیں مگر دو شخصوں پر ایک وہ جس کو اللہ تعالٰی نے قرآن عنایت کیا ہو اور وہ اس کو رات کو پڑھتا ہو اور دن کو بھی اور اس پر عمل کرتا ہو۔ دوسرے وہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مال دیا ہو کہ وہ رات کو بھی خرچ کرتا ہو اور دن کو بھی۔“

قرآن پر عمل کرنے والے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1895

حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَى اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ هَذَا الْكِتَابَ فَقَامَ بِهِ، آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَتَصَدَّقَ بِهِ، آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ ".

سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشک سوائے دو بندوں کے کسی پر جائز نہیں ایک جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب دی ہو اور اس پر دن رات عمل کرے اور ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالٰی نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرے۔“

قرآن پر عمل کرنے والے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1896

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيل ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا ".

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ” حسد روا نہیں ہے مگر دو شخصوں پر، ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس کے خرچ کرنے پر راہ حق کی توفیق دے۔ دوسرے وہ کہ اسے حکمت دی کہ اس کے موافق حکم کرتا ہے اور سکھلاتا ہے“ (حکمت سے مراد علم حدیث ہے)۔

قرآن پر عمل کرنے والے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1897

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ، لَقِيَ عُمَرَ بِعُسْفَانَ وَكَانَ عُمَرُ يَسْتَعْمِلُهُ عَلَى مَكَّةَ، فَقَالَ: مَنِ اسْتَعْمَلْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ فَقَالَ: ابْنَ أَبْزَى، قَالَ: وَمَنْ ابْنُ أَبْزَى؟ قَالَ: مَوْلًى مِنْ مَوَالِينَا، قَالَ: فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى، قَالَ: إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّهُ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، قَالَ عُمَرُ : أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ ".

عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ نافع بن عبدالحارث نے ملاقات کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عسفان میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ پر تحصیل دار بنا دیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم نے جنگل والوں پر کس کو تحصیل دار بنایا؟ انہوں نے کہا: ابن ابزی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن ابزی کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک آزاد کردہ غلام ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے غلام کو ان پر تحصیل دار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کتاب اللہ کے قاری ہیں اور ترکہ کو خوب بانٹنا جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سنو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالٰی اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔“

قرآن پر عمل کرنے والے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت

حد یث نمبر - 1898

وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق ، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ اللَّيْثِيُّ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ الْخُزَاعِيَّ، لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.

اس سند سے بھی مزکورہ بالا حدیث اسی طرح مروی ہے۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1899

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، فَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا، " يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْسِلْهُ اقْرَأْ، فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ لِي: اقْرَأْ، فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ".

عبدالرحمٰن (فرزند عبدالقاری کے) نے کہا سنا میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہ کہتے تھے: میں نے ایک دن سیدنا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا کہ اور لوگوں کے خلاف پڑھتے تھے اور یہ سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو پڑھا چکے تھے سو میں قریب تھا ان کو جلد پکڑ لوں مگر میں نے انہیں مہلت دی یہاں تک کہ پڑھ چکے پھر میں نے ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لایا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے ان سے سورۂ فرقان سنی۔ خلاف اس کے جیسے کہ آپ نے مجھے پڑھائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھا ان کو چھوڑ دو اور ان سے کہا پڑھو۔“ پھر انہوں نے ویسا ہی پڑھا جیسا میں نے ان سے پہلے سنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی ہی اتری ہے۔“ پھر مجھ سے کہا: ”پڑھو۔“ میں نے بھی پڑھی (یعنی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھائی تھی) تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”ایسی ہی اتری ہے۔“ اور فرمایا: ”بات یہ ہے کہ قرآن سات حرفوں میں اترا ہے اس میں سے جو تم کو آسان ہو اس طرح پڑھو۔“

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1900

وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخَرَمَةَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدٍ الْقَارِيَّ أَخْبَرَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، وَزَادَ، فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَصَبَّرْتُ حَتَّى سَلَّمَ.

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے تھے: میں نے سنا سیدنا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ سے کہ وہ سورۂ فرقان پڑھتے تھے۔ پھر حدیث بیان کی اول کے مثل۔ اور اس میں یہ زیادہ کیا کہ قریب تھا کہ میں ان کو قید کر لوں نماز میں مگر میں نے صبر کیا یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیرا۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1901

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، كَرِوَايَةِ يُونُسَ بِإِسْنَادِهِ.

مسلم رحمہ اللہ نے کہا: روایت کی ہم سے یہی حدیث اسحاق بن ابراھیم نے اور عبد بن حمید نے دونوں نے کہا: روایت کی ہم سے عبدالرزاق نے، ان سے معمر نے، ان سے زہری نے مانند روایت یونس کی اسناد کے۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1902

وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَقْرَأَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى حَرْفٍ فَرَاجَعْتُهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِيدُهُ فَيَزِيدُنِي، حَتَّى انْتَهَى إِلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : بَلَغَنِي أَنَّ تِلْكَ السَّبْعَةَ الأَحْرُفَ، إِنَّمَا هِيَ فِي الأَمْرِ الَّذِي يَكُونُ وَاحِدًا لَا يَخْتَلِفُ فِي حَلَالٍ وَلَا حَرَامٍ.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عبیداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرئیل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن پڑھایا اور میں ان سے زیادہ کی درخواست کرتا رہا اور وہ زیادہ کرتا رہا یہاں تک کہ سات حرف تک نوبت پہنچی۔“ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہہ وہ سات حرف کا مال اور مطلب ایک ہی ہوتا ہے کہ کسی حلال و حرام میں ان سے اختلاف نہیں پڑتا۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1903

وحَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ.

مسلم رحمہ اللہ نے کہا: اور یہی روایت بیان کی ہم سے عبد بن حمید نے، ان سے عبدالرزاق نے، ان سے زہری نے اسی اسناد سے۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1904

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ يُصَلِّي فَقَرَأَ قِرَاءَةً، أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قَرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلَاةَ، دَخَلْنَا جَمِيعًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَةً، أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، وَدَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَءَا فَحَسَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَأْنَهُمَا، فَسَقَطَ فِي نَفْسِي مِنَ التَّكْذِيبِ وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ غَشِيَنِي، ضَرَبَ فِي صَدْرِي، فَفِضْتُ عَرَقًا وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَرَقًا، فَقَالَ لِي: يَا أُبَيُّ، " أُرْسِلَ إِلَيَّ أَنِ اقْرإِ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِيَةَ اقْرَأْهُ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَةَ اقْرَأْهُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَلَكَ بِكُلِّ رَدَّةٍ رَدَدْتُكَهَا مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيهَا، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ حَتَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلامُ ".

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں مسجد میں تھا اور ایک شخص آیا اور نماز پڑھنے لگا اور ایک قرأت ایسی پڑھی کہ میں اسے نہ جانتا تھا۔ پھر دوسرا آیا اور اس نے اور ایک قرأت پڑھی اس کے سوا۔ پھر جب ہم لوگ نماز پڑھ چکے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے عرض کیا کہ اس شخص نے ایک ایسی قرأت پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا۔ اور دوسرا آیا تو اس نے اور ایک قرأت پڑھی سوائے اس کے۔ پھر حکم کیا ان دونوں کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اور انہوں نے پڑھا۔ اور روا رکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے ان دونوں مختلف قرأتوں کو اور میرے دل میں تکذیب آ گئی نہ ایسی جیسی جاہلیت میں تھی۔ پھر خیال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بلا کو جس نے مجھے ڈھانپ لیا تھا تو میرے سینہ پر ایک ہاتھ مارا کہ میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور مجھے گویا اللہ پاک نظر آنے لگا خوف کے مارے تب مجھ سے فرمایا: ”اے ابی! پہلے مجھے حکم بھیجا گیا کہ میں قرآن ایک حرف میں پڑھوں۔ سو میں نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرما، پھر دوبارہ مجھے حکم ہوا کہ دو حرفوں پر پڑھوں۔ پھر میں نے دوسری بار عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرما۔ پھر تیسری بار مجھے حکم ہوا کہ سات حرفوں پر پڑھوں اور ارشاد ہوا کہ تم نے جتنی بار امت پر آسانی کے لئے عرض کیا ہر بار کے عوض ایک دعا مقبول ہے تم ہم سے مانگ لو۔ میں نے عرض کیا یا اللہ! میری امت کو بخش دے۔ یا اللہ! میری امت کو بخش دے (یہ دو ہوئیں) اور تیسری میں نے اس دن کے لئے اٹھا رکھی ہے جس دن تمام خلق میری طرف رغبت کرے گی یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی۔“

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1905

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَقَرَأَ قِرَاءَةً، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ.

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ خبر دی مجھے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہ وہ مسجد کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور ایک قرأت پڑھی۔ باقی سارا قصہ ذکر کیا جیسے ابن نمیر کی روایت سے اوپر گزرا۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1906

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عِنْدَ أَضَاةِ بَنِي غِفَارٍ، قَالَ: " فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ، أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللَّهَ، مُعَافَاتَهُ، وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ، أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللَّهَ، مُعَافَاتَهُ، وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، ثُمَّ جَاءَهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ، أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَحْرُفٍ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللَّهَ، مُعَافَاتَهُ، وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، ثُمَّ جَاءَهُ الرَّابِعَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ، أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَأَيُّمَا حَرْفٍ قَرَءُوا عَلَيْهِ، فَقَدْ أَصَابُوا ".

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی غفار کے تالاب پر تھے۔ ان کے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم کرتا ہے کہ اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ سے اس کی معافی اور بخشش چاہتا ہوں اور میری امت اس کی طاقت نہ رکھے گی۔“ پھر دوبارہ ان کے پاس آئے اور کہا: بے شک اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو دو حرفوں پر قرآن پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا: ”میں اللہ تعالیٰ سے اس کی عفو اور بخشش چاہتا ہوں اور میری امت سے یہ نہ ہو سکے گا۔“ پھر تیسری بار آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ اپنی امت کو تین حرفوں میں قرآن پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا: ”کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس کا عفو اور اس کی بخشش چاہتا ہوں اور میری امت سے یہ نہ ہو سکے گا۔“ پھر وہ چوتھی بار آئے اور کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ اپنی امت کو قرآن سات حرفوں پر پڑھائیں اور ان حرفوں میں سے جس حرف پر پڑھیں گے وہ ٹھیک ہو گا۔

قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان

حد یث نمبر - 1907

وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ.

مسلم رحمہ اللہ نے کہا اور بیان کی ہم سے یہ روایت عبیداللہ بن معاذ نے ان سے ان کے باپ نے، ان سے شعبہ نے اسی اسناد سے مثل اس روایت کے۔

قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1908

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ جميعا، عَنْ وَكِيعٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَيْفَ تَقْرَأُ هَذَا الْحَرْفَ، أَلِفًا تَجِدُهُ، أَمْ يَاءً مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ، أَوْ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ يَاسِنٍ؟ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَكُلَّ الْقُرْآنِ قَدْ أَحْصَيْتَ غَيْرَ هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي لَأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّ أَقْوَامًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَلَكِنْ إِذَا وَقَعَ فِي الْقَلْبِ فَرَسَخَ فِيهِ، نَفَعَ إِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ، الرُّكُوعُ، وَالسُّجُودُ، إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، سُورَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، ثُمَّ قَامَ عَبْدُ اللَّهِ، فَدَخَلَ عَلْقَمَةُ فِي إِثْرِهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْبَرَنِي بِهَا، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، وَلَمْ يَقُلْ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ.

ابووائل نے کہا: ایک آدمی آیا جس کو نہیک بن سنان کہتے تھے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس اور کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! آپ اس حرف کو الف پڑھتے ہیں یا «مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ أَوْ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ يَاسِنٍ» سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے سارے قرآن مجید کو یاد کیا ہے سوائے اس حرف کے؟ اس نے پھر کہا کہ میں مفصل کی تمام سورتیں ایک رکعت میں پڑھتا ہوں، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ایسا ہانکتا ہے جیسے شعریں جلدی جلدی ہانکی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ قرآن ایسا پڑھتے ہیں کہ ان کی ہنسلی سے نیچے نہیں اترتا۔ مگر قرآن کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دل میں اترتا ہے اور جمتا ہے تب نفع دیتا ہے۔ نماز میں افضل رکن رکوع اور سجدہ ہے اور میں ان ایک سے دو سورتوں کو پہچانتا ہوں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں دو دو ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور علقمہ ان کے پیچھے داخل ہوئے اور کہا کہ مجھے خبر دی اس کی، ابن نمیر نے اپنی روایت میں کہا کہ ایک مرد قبیلہ بنی بجیلہ کا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور نہیک بن سنان نام نہیں لیا۔

قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1909

وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ، بِمِثْلِ حَدِيثِ وَكِيعٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَجَاءَ عَلْقَمَةُ لِيَدْخُلَ عَلَيْهِ، فَقُلْنَا لَهُ: سَلْهُ عَنِ النَّظَائِرِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: عِشْرُونَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ فِي تَأْلِيفِ عَبْدِ اللَّهِ .

ابووائل نے کہا کہ ایک مرد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس نہیک بن سنان نام کا آیا۔ پھر حدیث بیان کی وکیع کی روایت کے مثل (یعنی جیسے اوپر گزری) مگر اتنا فرق ہے۔ پھر علقمہ آئے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ہم نے اس سے کہا کہ آپ ان سورتوں کو پوچھ لو جو ایک رکعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو، دو پڑھتے تھے سو وہ گئے اور ان سے پوچھا اور پھر ہمارے پاس آ کر کہا وہ بیس سورتیں ہیں کہ دس رکعات میں پڑھی جاتی تھیں مفصل میں سے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جمع کئے ہوئے مصحف میں۔

قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1910

وحَدَّثَنَاه إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، فِي هَذَا الإِسْنَادِ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمَا، وَقَالَ: إِنِّي لَأَعْرِفُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ يَقْرَأُ بِهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " اثْنَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ، عِشْرِينَ سُورَةً فِي عَشْرِ رَكَعَاتٍ ".

اعمش نے اسی اسناد سے مثل روایت ان دونوں راویوں کے (یعنی جن کی روایتیں اوپر گزریں) اس میں یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان نظائر کو پہچانتا ہوں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو ملا کر ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بیس سورتیں ہیں کہ دس رکعتوں میں پڑھتے تھے۔

قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1911

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الأَحْدَبُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاة، فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَنَا، قَالَ: فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً، قَالَ: فَخَرَجَتِ الْجَارِيَةُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَدْخُلُونَ؟ فَدَخَلْنَا فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَقَدْ أُذِنَ لَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ، قَالَ: ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ يُسَبِّحُ، حَتَّى ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ، انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ قَالَ: فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ لَمْ تَطْلُعْ، فَأَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، قَالَ: يَا جَارِيَةُ، انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَقَالَنَا يَوْمَنَا هَذَا، فَقَالَ: مَهْدِيٌّ وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: وَلَمْ يُهْلِكْنَا بِذُنُوبِنَا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ الْبَارِحَةَ كُلَّهُ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّا لَقَدْ سَمِعْنَا الْقَرَائِنَ، وَإِنِّي لَأَحْفَظُ الْقَرَائِنَ الَّتِي كَانَ يَقْرَؤُهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِنَ الْمُفَصَّلِ، وَسُورَتَيْنِ مِنْ آلِ، حم ".

ابووائل نے کہا کہ ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دروازہ پر ہم نے سلام کیا۔ انہوں نے اجازت دی مگر ہم دروازہ پر ذرا ٹھہر گئے تب ایک لونڈی نکلی اور اس نے کہا: تم آتے نہیں؟ غرض ہم اندر گئے اور ان کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے تسبیح کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: جب تم کو اجازت دی گئی تو تم کیوں نہیں آئے؟ ہم نے کہا: کچھ اور سبب نہ تھا صرف یہ خیال ہوا کہ گھر والوں میں سے کوئی سوتا ہو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ام عبد (یہ ان کی والدہ کا نام ہے) کے بیٹے کے گھر والوں کے ساتھ غفلت کا گمان کیا، (سبحان اللہ! یہ گمان کرنا ان کو برا معلوم ہوا اور یہاں ہزاروں کا حال یہ ہے کہ پہروں چڑھے تک خواب خرگوش میں ہیں)غرض وہ پھر تسبیح کرنے لگے یہاں تک کہ گمان ہوا کہ آفتاب نکل آیا تب انہوں نے لونڈی سے فرمایا کہ دیکھو تو سہی کیا سورج نکل آیا؟ اس نے دیکھ کر کہا کہ ابھی نہیں۔ پھر وہ تسبیح کرنے لگے (اس سے معلوم ہوا کہ خبر ایک شخص کی قبول ہے اور خبر عورت کی بھی مقبول ہے اور گمان پر عمل کرنا روا ہے اگرچہ حصول یقین کا ممکن ہو اس لئے کہ عبداللہ نے اس کے قول پر عمل کیا اگرچہ ممکن تھا کہ خود اٹھ کر سورج کو دیکھ لیں) یہاں تک کہ پھر گمان ہوا کہ سورج نکل آیا، پھر کہا: اے چھوکری! دیکھ سورج نکلا، پھر اس نے دیکھا تو نکل چکا تھا۔ تب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے واسطے کہ جس نے ہم کو آج کے دن معاف کر دیا اور مہدی (جو راوی ہیں) اس نے کہا: میں خیال کرتا ہوں کہ شاید یہ بھی کہا: اور ہلاک نہ کیا اللہ تعالیٰ نے ہم کو بسبب ہمارے گناہوں کے۔ ہم لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ میں نے ساری مفصل کی سورتیں پڑھیں آج شب کو۔ اس پر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے پڑھا ایسا جیسا کوئی شعروں کو پڑھتا ہے۔ ہم نے بے شک قرآن سنا ہے اور ہم کو یاد ہیں وہ جوڑیں لگی ہوئی سورتیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے اور وہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی اور دو سورتیں ہیں جن کے سرے پر «حٰم» کا لفظ ہے۔

قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1912

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنِّي أَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، لَقَدْ عَلِمْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَقْرَأُ بِهِنَّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ ".

شفیق نے کہا کہ ایک شخص بنی بجبلہ کا جسے نہیک بن سنان کہتے ہیں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں سب مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتا ہوں پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ایسا پڑھتا ہے جیسے کوئی شعروں کو پرھتا ہے۔ میں جانتا ہوں ان سورتوں کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دو دو کو ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔

قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1913

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ: إِنِّي قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ اللَّيْلَةَ كُلَّهُ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّا الشِّعْرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ عَرَفْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، قَالَ: فَذَكَرَ، " عِشْرِينَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ، سُورَتَيْنِ، سُورَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ".

ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آیا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس اور کہنے لگا کہ میں نے آج رات ایک رکعت میں ساری مفصل سورتیں پڑھی ہیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تو نے شعر کی طرح پڑھا ہو گا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان شمائل سورتوں کو جانتا ہوں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھتے تھے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے بیس سورتیں مفصلات میں ذکر کیں ایک ایک رکعت میں دو دو سورتیں۔

قرأت کا بیان

حد یث نمبر - 1914

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَجُلًا سَأَلَ الأَسْوَدَ بْنَ يَزِيدَ وَهُوَ يُعَلِّمُ الْقُرْآنَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: كَيْفَ تَقْرَأُ هَذِهِ الآيَةَ، فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15 أَدَالًا، أَمْ ذَالًا؟ قَالَ: بَلْ دَالًا، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مُدَّكِرٍ دَالًا ".

ابی اسحاق نے کہا میں نے دیکھا ایک شخص کو کہ اس نے اسود بن یزید سے پوچھا اور وہ مسجد میں قرآن پڑھاتے تھے کہ تم «مُدَّكِرٍ» میں دال پڑھتے ہو یا ذال۔ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے دال سنی ہے اور وہ «مُدَّكِرٍ» کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دال سنی ہے (یعنی جس میں نقطہ نہیں)۔

قرأت کا بیان

حد یث نمبر - 1915

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ هَذَا الْحَرْف: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ".

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ» پڑھتے تھے (یعنی دال کے ساتھ)۔

قرأت کا بیان

حد یث نمبر - 1916

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: قَدِمْنَا الشَّامَ، فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا، قَالَ: " فَكَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الآيَةَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى 0، قَالَ: وَأَنَا وَاللَّهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا، وَلَكِنْ هَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ أَقْرَأَ، وَمَا خَلَقَ فَلَا أُتَابِعُهُمْ ".

سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم شام کو گئے تو سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا تم میں کوئی عبداللہ کی قرأت پڑھنے والا ہے؟ میں نے کہا: ہاں میں ہی ہوں۔ انہوں نے کہا: کیونکر سنا تم نے اس آیت کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پڑھتے ہوئے؟ «وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى» میں نے کہا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے «وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى» انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یونہی پڑھے سنا ہے اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں پڑھوں «وَمَا خَلَقَ وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى» تو میں ان کی نہیں مانتا۔

قرأت کا بیان

حد یث نمبر - 1917

وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: أَتَى عَلْقَمَةُ الشَّامَ، فَدَخَلَ مَسْجِدًا فَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ قَامَ إِلَى حَلْقَةٍ فَجَلَسَ فِيهَا، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ، فَعَرَفْتُ فِيهِ تَحَوُّشَ الْقَوْمِ وَهَيْئَتَهُمْ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي، ثُمَّ قَالَ: أَتَحْفَظُ كَمَا كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ، فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ.

ابراھیم روایت کرتے ہیں کہ علقمہ شام آئے اور مسجد میں داخل ہوئے اور وہاں نماز پڑھی پھر ایک گروہ کی طرف آئے اور ان میں بیٹھ گئے پھر ایک آدمی آیا تو میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں سے ناراض ہے وہ میرے پہلو میں بیٹھ گیا اور پوچھا کہ کیا تمہیں یاد ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کس طرح پڑھتے تھے؟ آگے وہی ہے جو اوپر گزرا۔

قرأت کا بیان

حد یث نمبر - 1918

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَ لِي: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: مِنْ أَيِّهِمْ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَ: هَلْ تَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاقْرَأْ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1، قَالَ: فَقَرَأْتُ 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى 0، قَالَ: فَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا ".

سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے کہا: تم کہاں کے ہو؟ میں نے کہا: عراق کا۔ انہوں نے کہا: کس شہر کے؟ میں نے کہا: کوفہ کا۔ انہوں نے کہا: تم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: والیل تو پڑھو۔ میں نے «وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى» پڑھا تو ہنس دیئے اور کہا: میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

قرأت کا بیان

حد یث نمبر - 1919

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ، فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ.

مسلم رحمہ اللہ نے کہا اور روایت کی ہم سے محد بن مثنیٰ نے، ان سے عبدالاعلیٰ نے، ان سے داؤد نے، ان سے عامر نے، ان سے سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہ آیا میں شام کو اور ملا سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے اور ذکر کی حدیث مثل حدیث ابن علیہ کے۔

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1920

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ، حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا جب تک سورج نہ ڈوبے اور اسی طرح صبح کی نماز کے بعد جب تک آفتاب نہ نکلے۔

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1921

وحَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، وإِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ ، جميعا، عَنْ هُشَيْمٍ ، قَالَ دَاوُدُ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ غَيْر وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَكَانَ أَحَبَّهُمْ إِلَيَّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ".

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سنا میں نے کئی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ان میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور وہ سب سے زیادہ میرے پیارے ہیں کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے نماز سے بعد نماز فجر کے جب تک سورج نہ نکلے اور بعد نماز عصر کے جب تک آفتاب نہ ڈوبے۔

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1922

وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، كُلُّهُمْ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ سَعِيدٍ، وهِشَامٍ " بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ ".

روایت ہے قتادہ سے اسی اسناد سے مگر اتنا فرق ہے کہ سعید اور ہشام نے یوں روایت کیا «بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ» یعنی صبح کے بعد حتیّٰ کہ آفتاب چمک جائے۔

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1923

وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ".

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے۔“

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1924

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَتَحَرَّى أَحَدُكُمْ فَيُصَلِّيَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَلَا عِنْدَ غُرُوبِهَا ".

نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی ایسا نہ کرے کہ اور وقت چھوڑ کر طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھے اور نہ غروب کے وقت۔“

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1925

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، ومُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَحَرَّوْا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ، وَلَا غُرُوبَهَا فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بِقَرْنَيْ شَيْطَانٍ ".

ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اتنا زیادہ ہے اس لیے کہ ”آفتاب شیطان کے سینگوں کے بیچ میں نکلتا ہے۔“

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1926

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وابْنُ بِشْرٍ ، قَالُوا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَبْرُزَ، وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغِيبَ ".

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نکل آئے کنارہ سورج کا تو نماز میں تاخیر کرو یہاں تک کی خوب صاف ہو جائے اور جب غائب ہو جائے کنارہ آفتاب کا نماز میں دیر کرو یہاں تک کہ پورا آفتاب غائب ہو جائے۔“

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1927

وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ خَيْرِ بْنِ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ ابْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالْمُخَمَّصِ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ عُرِضَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَضَيَّعُوهَا، فَمَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَهَا حَتَّى يَطْلُعَ الشَّاهِدُ "، وَالشَّاهِدُ النَّجْمُ.

سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ عصر کی نماز پڑھی مخمص میں (کہ نام ہے ایک مقام کا) اور فرمایا: ”یہ نماز تم سے اگلوں کے سامنے پیش کی گئی اور انہوں نے اس کو ضائع کیا۔ پھر جو اس کی حفاظت کرے اس کو دوگنا ثواب ہو گا اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ شاہد نہ نکلے۔“ اور شاہد سے مراد ستارہ ہے۔

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1928

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إسحاق ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ خَيْرِ بْنِ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ السَّبَائِيِّ ، وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِمِثْلِهِ.

سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور بیان کی روایت مثل روایت بالا کے۔

جن وقتوں میں نماز ممنوع ہے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1929

وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ ، يَقُولُ: " ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ ".

موسیٰ بن علی نے کہا: روایت کی مجھ سے میرے باپ نے، کہا: سنا میں نے: عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے کہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین گھڑیوں (وقتوں) میں ہم کو نماز سے روکتے تھے اور مردوں کے دفن سے۔ ایک تو جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے۔ دوسرے جس وقت کہ ٹھیک دوپہر ہو جب تک کہ زوال نہ ہو جائے۔ تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے لگے جب تک کہ پورا نہ ڈوب جائے۔

عمرو بن عبسہ کا اسلام قبول کرنا

حد یث نمبر - 1930

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَمَّارٍ ، ويَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ عِكْرِمَةُ : وَلَقِيَ شَدَّادٌ، أَبَا أُمَامَةَ، ووَاثِلَةَ، وَصَحِبَ أَنَسًا إِلَى الشَّامِ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَضْلًا وَخَيْرًا، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ : كُنْتُ وَأَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَأَنَّهُمْ لَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ يُخْبِرُ أَخْبَارًا، فَقَعَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفِيًا جُرَآءُ عَلَيْهِ قَوْمُهُ، فَتَلَطَّفْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنْتَ، قَالَ: " أَنَا نَبِيٌّ "، فَقُلْتُ: وَمَا نَبِيٌّ؟ قَالَ: " أَرْسَلَنِي اللَّهُ "، فَقُلْتُ: وَبِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: " أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ، وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ "، قُلْتُ لَهُ: فَمَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ "، قَالَ: " وَمَعَهُ يَوْمَئِذٍ أَبُو بَكْرٍ، وَبِلَالٌ مِمَّنْ آمَنَ بِهِ "، فَقُلْتُ: إِنِّي مُتَّبِعُكَ، قَالَ: " إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا، أَلَا تَرَى حَالِي وَحَالَ النَّاسِ، وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ، فَأْتِنِي "، قَالَ: فَذَهَبْتُ إِلَى أَهْلِي، وَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَكُنْتُ فِي أَهْلِي، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ، وَأَسْأَلُ النَّاسَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيَّ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ يَثْرِبَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةَ، فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي قَدِمَ الْمَدِينَةَ؟ فَقَالُوا: النَّاسُ إِلَيْهِ سِرَاعٌ، وَقَدْ أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ، فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: " نَعَمْ أَنْتَ الَّذِي لَقِيتَنِي بِمَكَّةَ "، قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُهُ، أَخْبِرْنِي، عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ: " صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَالْوُضُوءَ حَدِّثْنِي عَنْهُ، قَالَ: " مَا مِنْكُمْ رَجُلٌ يُقَرِّبُ وَضُوءَهُ، فَيَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ فَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ وَفِيهِ وَخَيَاشِيمِهِ، ثُمَّ إِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رِجْلَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ، فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَمَجَّدَهُ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ، وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ إِلَّا انْصَرَفَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". فَحَدَّثَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، أَبَا أُمَامَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ انْظُرْ مَا تَقُولُ فِي مَقَامٍ وَاحِدٍ يُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ، فَقَالَ عَمْرٌو: يَا أَبَا أُمَامَةَ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي، وَمَا بِي حَاجَةٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَلَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ مَا حَدَّثْتُ بِهِ أَبَدًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.

عکرمہ بن عمار نے روایت کی شداد بن عبداللہ ابوعمار اور یحییٰ بن ابی کثیر سے یہ دونوں راوی ہیں ابی امامہ سے کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے جو قبیلہ بنی سلم سے ہیں انہوں نے کہا کہ میں جاہلیت میں یقین کرتا تھا کہ لوگ گمراہی میں ہیں اور کسی راہ پر نہیں۔ اور وہ لوگ سب بتوں کو پوجتے تھے (یعنی چبوتروں کو یا مقاموں کو جیسے یہاں امام وغیرہ کے امام باڑہ چبوترے مشرک بنا لیتے ہیں) غرض انہوں نے کہا کہ میں نے خبر سنی ایک شخص کی کہ مکہ میں ہے اور وہ بہت سی خبریں دیتا ہے اور میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں چھپے ہوئے تھے اور ان کی قوم ان کے اوپر غالب اور مسلط تھی۔ پھر میں نے نرمی کی (یعنی حیلہ وغیرہ) اور میں مکہ میں داخل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا: ”میں نبی ہوں۔“ میں نے عرض کیا نبی کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ نے پیغام دے کر بھیجا ہے۔“ میں نے کہا: آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”مجھے پیغام دیا ہے، ناتے داروں سے نیکی کرنے کا اور بتوں کے توڑنے کا اور اکیلے اللہ کی عبادت کرنے کا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کا۔“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر عرض کیا کہ آپ کے ساتھ کون اس دین پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آزاد اور غلام۔“ راوی نے کہا اور ان دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ پھر میں نے عرض کیا: میں آپ کا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں تم سے نہ ہو سکے گا۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے مگر تم اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ پھر جب سننا کہ میں غالب ہو گیا تو میرے پاس آنا۔“ انہوں نے کہا: میں اپنے گھر چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے اور میں نے پوچھا کہ کیوں جی ان صاحب نے کیا کیا جو مدینہ میں آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں اور ان کی قوم نے ان کو مار ڈالنا چاہا مگر کچھ نہ کر سکے۔ پھر میں مدینہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تم وہی ہو جو مجھ سے مکہ میں ملے تھے۔“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! مجھے بتائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں نہیں جانتا اور مجھے نماز سے خبر دیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح کی نماز پڑھو، پھر نماز سے بچو یہاں تک کہ آفتاب نکل کر بلند ہو جائے، اس لئے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اس کو سجدہ کرتے ہیں (پھر اگر تم بھی نماز پڑھو گے تو ان سے مشابہت ہو گی) پھر جب آفتاب بلند ہو جائے نماز پڑھو کہ اس وقت کی نماز کی کراماً کاتبین گواہی دیں گے اور فرشتے حاضر ہوں گے (یعنی مقبول ہو گی) یہاں تک کہ پھر سایہ نیزہ کا اس کے سر پر آ جائے (یعنی ٹھیک دوپہر ہو) تو پھر نماز نہ پڑھو اس لئے کہ اس وقت جہنم جھونکی جاتی ہے۔ پھر جب سایہ آ جائے (یعنی سورج ڈھلے) پھر نماز پڑھو اس لئے کہ اس نماز میں فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر ہوں گے یہاں تک کہ پڑھو تم عصر کو۔ پھر رکے رہو نماز سے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو جائے اس لئے کہ وہ ڈوبتا ہے شیطان کے دونوں سینگوں کے بیچ میں۔ اور اس وقت کافر بھی اسے سجدہ کرتے ہیں۔“ پھر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! اب وضو (کے بارے میں) بھی فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی تم میں سے ایسا نہیں ہے کہ وضو کا پانی لے کر کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور ناک جھاڑے مگر گر جاتے ہیں اس سے چہرہ اور منہ اور نتھنوں کے سب گناہ۔ پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جیسا اللہ نے حکم کیا ہے تو گر جاتے ہیں اس کے چہرہ کے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں سے پانی کے ساتھ۔ پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے کہنیوں تک تو گر جاتے ہیں دونوں ہاتھوں کے گناہ اس کی انگلیوں کے پوروں سے پانی کے ساتھ۔ پھر سر کا مسح کرتا ہے تو گر جاتے ہیں اس کے سر کے گناہ اس کے بالوں کی نوکوں سے پانی کے ساتھ۔ پھر اپنے دونوں پیر دھوتا ہے ٹخنوں تک تو گر جاتے ہیں دونوں پیروں کے گناہ انگلیوں کے پوروں سے پانی کے ساتھ۔ پھر اگر وہ کھڑا ہوا اور اس نے نماز پڑھی اور اللہ کی تعریف کی اور خوبیاں بیان کیں اور بڑائی کی جیسی کہ اس کی شان کو لائق ہے اور اپنے دل کو خاص اسی کے لیے اس کے غیر سے خالی کیا تو وہ بے شک اپنے گناہوں سے ایسا صاف ہو گیا گویا اس کی ماں نے آج ہی جنا ہے۔“ پھر یہ حدیث عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، تو سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عمرو بن عبسہ! دیکھو تم کیا کہتے ہو کہیں ایک جگہ میں آدمی کو اتنا ثواب مل سکتا ہے؟ (یعنی تمہارے بیان میں کچھ فرق ہے) تب سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوامامہ! میں بوڑھا ہوں اور میری ہڈیاں گل گئی اور موت کے کنارے ہو چکا، پھر مجھے کیا ضرورت جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمپر جھوٹ باندھوں۔ اگر میں اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین بار، سات بار تک سنتا تو بھی کبھی بیان نہ کرتا مگر میں نے اس سے بھی زیادہ بار سنا ہے (جب یہ بیان کیا۔ غرض یہ ہے کہ خوب تحقیق رکھتا ہوں نہ یہ کہ سات بار سے کم اگر سنے تو روایت روا نہیں)۔

سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز میں جلدی نہ کرو

حد یث نمبر - 1931

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: وَهِمَ عُمَرُ، إِنَّمَا " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَحَرَّى طُلُوعُ الشَّمْسِ وَغُرُوبُهَا ".

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو وہم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس سے منع کیا ہے کہ کوئی طلوع اور مغرب کے وقت نماز پڑھے۔

سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز میں جلدی نہ کرو

حد یث نمبر - 1932

وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: لَمْ يَدَعْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، قَالَ: فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَتَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا، فَتُصَلُّوا عِنْدَ ذَلِكَ ".

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑیں دو رکعتیں بعد عصر کے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خاص کر اپنی نمازوں کو طلوع اور غروب آفتاب کے وقت پڑھنے کی عادت مت کرو کہ ہمیشہ اسی وقت ادا کیا کرو۔“

عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1933

حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، والْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا، وَسَلْهَا، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُمَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكُنْتُ أَصْرِفُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ النَّاسَ عَنْهَا، قَالَ كُرَيْبٌ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا وَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَصَلَّاهُمَا فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ فَقُولِي لَهُ: تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُكَ تَنْهَى، عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا، فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَ: فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: " يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ سَأَلْتِ، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَشَغَلُونِي، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ ".

کریب جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کرہ غلام ہیں وہ راوی ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عبدالرحمٰن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم ان سب نے مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہماری طرف سے ان کی خدمت میں سلام عرض کرو اور ان دو رکعتوں کا حال پوچھو جو بعد عصر کے پڑھی جاتی ہیں اور یہ عرض کرو کہ ہم کو خبر پہنچی ہے کہ آپ پڑھتی ہیں اور یہ بھی خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کو اس کے پڑھنے سے باز رکھتا تھا (اس سے معلوم ہوا کہ حاکم کو ضروری ہے کہ رعیت کو خلاف شرع باتوں اور بدعتوں سے روکے اور باز رکھے) کریب نے کہا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور وہ بات پوچھی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو (اس سے معلوم ہوا کہ مفتی کو اگر معلوم ہو کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو سائل کو اس کے پاس بھیج دے اور اس ہے حسد نہ کرے) پھر میں ان لوگوں کے پاس آیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب کی ان کو خبر دی۔ (اس سے پیغام لے جانے والے کا ادب معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی رائے سے تصرف نہیں کیا کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں بلکہ جنہوں نے بھیجا تھا ان کو اطلاع دے دی) پھر ان لوگوں نے مجھے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس روانہ کیا وہی پیغام دے کر جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گیا تھا۔ تب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: سنا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کرتے تھے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے دیکھا۔ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھ چکے تھے اور میرے گھر میں آئے اور میرے پاس قبیلہ بنی حرام انصار کی چند عورتیں بیٹھی تھیں تو میں نے ایک لڑکی کو بھیجا اور اس سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو کھڑی رہنا اور ان سے عرض کرنا کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا گزارش کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول! میں سنتی تھی کہ آپ ان رکعتوں سے منع فرماتے تھے اور پھر آپ کو پڑھتے دیکھتی ہوں (اس سے معلوم ہوا کہ جب اپنے پیشوا سے کوئی خلاف دیکھے تو سوال کرے ادب سے۔ اگر وہ بھول گیا ہو گا تو اس سے باز آئے گا ورنہ اس کی حکمت بیان کرے گا) پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرف اشارہ کریں ہاتھ سے تو پیچھے کھڑی رہنا (معلوم ہوا کہ اشارہ کرنے سے نماز نہیں جاتی) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر اس لڑکی نے ایسا ہی کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے بیٹی ابو امیہ کی! تم نے ان رکعتوں کا حکم پوچھا جو عصر کے بعد میں نے پڑھیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ اسلام لائے تھے اور اپنی قوم کا پیغام تو میں ان میں مشغول رہا اور ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا وہ یہی تھیں۔“

عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1934

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وقُتَيْبَةُ  وعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، " أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ، عَنِ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ "، فَقَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ الْعَصْرِ، ثُمَّ إِنَّهُ شُغِلَ عَنْهُمَا أَوْ نَسِيَهُمَا فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، ثُمَّ أَثْبَتَهُمَا وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا ". قَالَ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ: قَالَ إِسْمَاعِيلُ: " تَعْنِي دَاوَمَ عَلَيْهَا ".

سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ان دو رکعتوں کے بارے میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کام ہو گیا یا بھول گئے تو عصر کے بعد پڑھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے تو ہمیشہ پڑھا کرتے پھر اس کو بھی ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔

عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1935

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ ".

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں میرے ہاں کبھی نہیں چھوڑی تھیں۔

عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1936

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو إسحاق الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " صَلَاتَانِ مَا تَرَكَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي قَطُّ سِرًّا وَلَا عَلَانِيَةً: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ ".

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دو نمازیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں کبھی ترک نہیں کیں نہ چھپے، نہ کھلے دو رکعتیں فجر سے پہلے اور دو عصر کے بعد۔

عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان

حد یث نمبر - 1937

وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إسحاق ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، ومَسْرُوقٍ ، قَالَا: نَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا كَانَ يَوْمُهُ الَّذِي كَانَ يَكُونُ عِنْدِي، إِلَّا صَلَّاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ ".

ابواسحاق نے اسود اور مسروق سے روایت کی، کہ دونوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری جس دن میرے گھر میں ہوتی اس دن ضرور دو رکعت پڑھتے یعنی عصر کے بعد کی۔

نماز مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1938

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وأَبُو كُرَيْبٍ ، جميعا، عَنْ ابْنِ فُضَيْلٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، عَنِ التَّطَوُّعِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: " كَانَ عُمَرُ يَضْرِبُ الْأَيْدِي عَلَى صَلَاةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَكُنَّا نُصَلِّي عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ "، فَقُلْتُ لَهُ: " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّاهُمَا؟ " قَالَ: " كَانَ يَرَانَا نُصَلِّيهِمَا فَلَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَنَا ".

مختار بن فلفل نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان نفلوں کے بارے میں پوچھا جو عصر کے بعد پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہاتھ مارتے تھے نماز پر جو لوگ بعد عصر کے پڑھتے تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو رکعت پڑھتے تھے بعد غروب آفتاب کے نماز مغرب سے پہلے، سو میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو پڑھتے ہوئے دیکھا کرتے تھے اور نہ اس کا حکم کرتے (یعنی بطریق وجوب کے) اور نہ اس سے منع فرماتے تھے۔

نماز مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1939

وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ ابْتَدَرُوا السَّوَارِيَ، فَيَرْكَعُونَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ الْغَرِيبَ لَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ، فَيَحْسِبُ أَنَّ الصَّلَاةَ قَدْ صُلِّيَتْ مِنْ كَثْرَةِ مَنْ يُصَلِّيهِمَا ".

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مدینہ میں ہم لوگوں کی عادت تھی کہ جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تھا سب لوگ ستونوں کی آڑ میں دوڑ کر دو رکعت پڑھتے تھے یہاں تک کی نیا آدمی اگر مسجد میں آتا تھا جانتا تھا کہ نماز ہو چکی (غرض اس کثرت سے لوگ ان رکعتوں کو پڑھتے تھے)۔

اذان اور اقامت کے درمیان نوافل کا بیان

حد یث نمبر - 1940

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ووَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، قَالَهَا ثَلَاثًا، قَالَ فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَ ".

مغفل کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اذان اور تکبیر کے درمیان دو رکعت نماز ہے۔ تین بار۔ یہی فرمایا اور تیسری بار فرمایا: ”جس کا جی چاہے پڑھے“ (یعنی مؤکدہ نہیں)۔

اذان اور اقامت کے درمیان نوافل کا بیان

حد یث نمبر - 1941

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " فِي الرَّابِعَةِ لِمَنْ شَاءَ ".

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مثل اس کے مگر انہوں نے تیسری بار کی جگہ چوتھی بار روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا جی چاہے۔“

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1942

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفُوا وَقَامُوا فِي مَقَامِ أَصْحَابِهِمْ مُقْبِلِينَ عَلَى الْعَدُوِّ، وَجَاءَ أُولَئِكَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَضَى هَؤُلَاءِ رَكْعَةً وَهَؤُلَاءِ رَكْعَةً ".

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کے وقت ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے تھا پھر یہ گروہ چلا گیا اور دشمن کے آگے گروہ اول کی جگہ کھڑا ہوا اور گروہ اول آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکعت ادا کی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہر گروہ نے ایک ایک رکعت اپنی الگ الگ ادا کر لی۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1943

وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَوْفِ، وَيَقُولُ: " صَلَّيْتُهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْمَعْنَى ".

سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے راوی ہیں وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز خوف کا فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے جیسے اوپر گزرا۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1944

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ، فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ وَطَائِفَةٌ بِإِزَاءِ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ذَهَبُوا وَجَاءَ الْآخَرُونَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ قَضَتِ الطَّائِفَتَانِ رَكْعَةً رَكْعَةً "، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: " فَإِذَا كَانَ خَوْفٌ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَصَلِّ رَاكِبًا أَوْ قَائِمًا، تُومِئُ إِيمَاءً ".

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھی بعض دن اس طرح کہ ایک گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوا اور ایک غنیم کے آگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھی پھر وہ لوگ غنیم کی طرف گئے اور دوسرے آئے اور ان کے ساتھ بھی ایک رکعت پڑھی۔ پھر دونوں گروہوں نے اپنی اپنی دوسری رکعت ادا کر لی۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب خوف اس بھی زیادہ ہو تو سواری پر یا کھڑے کھڑے اشارہ سے پڑھو۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1945

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَصَفَّنَا صَفَّيْنِ صَفٌّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَدُوُّ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَكَعَ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، وَقَامَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّجُودَ، وَقَامَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ انْحَدَرَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بِالسُّجُودِ وَقَامُوا، ثُمَّ تَقَدَّمَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ وَتَأَخَّرَ الصَّفُّ الْمُقَدَّمُ، ثُمَّ رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ الَّذِي كَانَ مُؤَخَّرًا فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، وَقَامَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ فِي نُحُورِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّجُودَ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، انْحَدَرَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بِالسُّجُودِ فَسَجَدُوا، ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمْنَا جَمِيعًا ". قَالَ جَابِرٌ: " كَمَا يَصْنَعُ حَرَسُكُمْ هَؤُلَاءِ بِأُمَرَائِهِمْ ".

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حاضر تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز خوف میں۔ پھر ہم سب نے دو صفیں کیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور اس وقت دشمن ہمارے اور قبلہ کے بیچ میں تھا اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر اولیٰ کہی اور ہم سب نے بھی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور ہم سب نے بھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم نے رکوع سے سر اٹھایا پھر سجدے کو جھکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور وہ صف بھی جو آپ کے قریب تھی اور دوسری صف دشمن کے آگے کھڑی رہی۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر چکے اور وہ صف بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھی کھڑی ہو گئی پیچھے کی صف والے سجدہ میں گئے اور جب کھڑی ہو گئی پیچھے کی صف آگے ہو گئی اور آگے کی پیچھے ہو گئی اور رکوع کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ رکوع کیا (یعنی دونوں صفوں نے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم سب نے سر اٹھایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے اور اس صف کے لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ وہ پہلی رکعت میں پیچھے تھے، سب سجدہ میں گئے اور پچھلی صف دشمن کے روبرو کھڑی رہی (یعنی جو پہلی رکعت میں آگے تھی) پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر چکے اور وہ صف جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، تب پچھلی صف سجدہ میں جھکی اور انہوں نے سجدہ کیا پھر سلام پھیر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم سب نے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جیسے آج کل تمہارے چوکیدار تمہارے سرداروں کے ساتھ کرتے ہیں۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1946

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا مِنْ جُهَيْنَةَ، فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِيدًا، فَلَمَّا صَلَّيْنَا الظُّهْرَ، قَالَ الْمُشْرِكُونَ: لَوْ مِلْنَا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً لَاقْتَطَعْنَاهُمْ، فَأَخْبَرَ جِبْرِيلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَقَالُوا إِنَّهُ سَتَأْتِيهِمْ صَلَاةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنَ الْأَوْلَادِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ، قَالَ: صَفَّنَا صَفَّيْنِ وَالْمُشْرِكُونَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، قَالَ: فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرْنَا، وَرَكَعَ فَرَكَعْنَا، ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ، فَلَمَّا قَامُوا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي، ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الْأَوَّلُ وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الثَّانِي، فَقَامُوا مَقَامَ الْأَوَّلِ فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرْنَا، وَرَكَعَ فَرَكَعْنَا، ثُمَّ سَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ وَقَامَ الثَّانِي، فَلَمَّا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي ثُمَّ جَلَسُوا جَمِيعًا سَلَّمَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: ثُمَّ خَصَّ جَابِرٌ أَنْ قَالَ: كَمَا يُصَلِّي أُمَرَاؤُكُمْ هَؤُلَاءِ.

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جہاد کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی رفاقت میں ایک قوم سے قبیلہ بنی جہینہ کی اور وہ بہت لڑے، پھر جب ہم ظہر پڑھ چکے مشرکوں نے کہا کاش کہ ہم ان پر ایک بارگی حملہ کرتے تو ان کو کاٹ ڈالتے۔ اور جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ذکر کیا اور مشرکوں نے کہا کہ ان کی اور ایک نماز آتی ہے کہ وہ ان کو اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ پھر جب عصر کا وقت آیا ہم نے دو صفیں باندھ لیں (یعنی آگے پیچھے) اور مشرک قبلہ کی طرف تھے اور تکبیر اولیٰ کہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم سب نے اور رکوع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم سب نے (یعنی دونوں صفیں رکوع تک شریک رہیں) اور سجدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پہلی صف نے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلی صف کھڑی ہو گئی دوسری صف نے سجدہ کیا اور اگلی صف پیچھے اور پچھلی آگے ہو گئی۔ اور اللہ اکبر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم نے۔ اور رکوع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اور ہم سب نے بھی۔ اور سجدہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف اول نے اور دوسری صف ویسی ہی کھڑی رہی، پھر جب دوسرے بھی سجدہ کر چکے تو سب بیٹھ گئے اور سب کو سلام دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ابوالزبیر نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ایک بات اور بھی کہی کہ جیسے آج کل یہ تمہارے حاکم کرتے ہیں۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1947

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَّى بِأَصْحَابِهِ فِي الْخَوْفِ، فَصَفَّهُمْ خَلْفَهُ صَفَّيْنِ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ يَلُونَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ خَلْفَهُمْ رَكْعَةً، ثُمَّ تَقَدَّمُوا وَتَأَخَّرَ الَّذِينَ كَانُوا قُدَّامَهُمْ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ قَعَدَ حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ تَخَلَّفُوا رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ ".

سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز خوف یوں ادا کی کہ اپنے پیچھے دو صفیں کیں اور اگلی صف جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تھی، ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور پھر کھڑے رہے یہاں تک کہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے انہوں نے ایک رکعت اپنی باقی ادا کرلی پھر وہ پیچھے ہو گئے اور پیچھے والے آگے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور بیٹھ گئے یہاں تک کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے انہوں نے ایک رکعت باقی ادا کر لی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1948

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ ، عَمَّنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاةَ الْخَوْفِ، " أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ وَطَائِفَةٌ وِجَاهَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَصَفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى، فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ ".

سیدنا صالح بن خوات رضی اللہ عنہ نے ایسے کسی شخص سے روایت کی جس نے نماز خوف پڑھی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذات الرقاع کے دن (ایک غزوہ کا نام ہے اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے پیروں کو چتھڑے باندھے تھے) ایک گروہ نے صف باندھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور ایک گروہ غنیم کے آگے رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ کی صف کے ساتھ ایک رکعت پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے اور اس صف والوں نے اپنی نماز پوری کر لی۔ پھر وہ چلے گئے اور دشمن کے آگے پرا باندھ لیا اور دوسرا گروہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت باقی ادا کی۔ پھر اپ صلی اللہ علیہ وسلمبیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنی نماز پوری کر لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ان سب پر سلام کیا۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1949

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ، قَالَ: كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَسَيْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلَّقٌ بِشَجَرَةٍ، فَأَخَذَ سَيْفَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرَطَهُ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَخَافُنِي؟ قَالَ: " لَا "، قَالَ: فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: " اللَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْكَ "، قَالَ: فَتَهَدَّدَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَغْمَدَ السَّيْفَ وَعَلَّقَهُ، قَالَ: فَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَأَخَّرُوا وَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الْأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ، قَالَ: فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ.

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم ذات الرقاع تک پہنچے (رقاع ایک پہاڑی کا نام ہے) تو ہماری یہ چال تھی کہ ہم کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تو اس کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑ دیتے پھر ایک دن ایک مشرک آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ایک درخت میں لٹکی ہوئی تھی اس نے تلوار لے کر میان سے نکال لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیوں تم مجھ سے ڈرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے کہا: کون تمہیں میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ مجھے بچا سکتا ہے تیرے ہاتھ سے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو دھمکایا اور اس نے تلوار میان میں کر لی۔ اتنے میں اذان ہوئی نماز کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کے ساتھ دو رکعت پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت ہوئی اور سب کی دو دو رکعت۔

نماز خوف کا بیان

حد یث نمبر - 1950

وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ سَلَّامٍ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ جَابِرًا أَخْبَرَهُ " أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى بِالطَّائِفَةِ الْأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَصَلَّى بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ ".

ابی سلمہ عبدالرحمٰن نے روایت کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف کی۔ اور پڑھی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کے ساتھ دو رکعت اور پھر دوسرے گروہ کے ساتھ دو رکعت، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار پڑھیں ہر گروہ کے ساتھ دو رکعت۔