حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا، وَقُولُوا حِطَّةٌ يُغْفَرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ، فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا الْبَابَ يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل سے کہا: گیا تھا تم بیت المقدس کے دروازہ میں رکوع کرتے ہوئے جاؤ اور کہو «حِطَّةٌ» یعنی بخشش گناہوں کی، ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے۔ لیکن بنی اسرائیل نے حکم کے خلاف کیا دروازہ میں گھسے سرین کے بل گھسٹتے ہوۓ اور «ِحِطَّةٌ» کے بدلے کہنے لگے «حَبَّةٌ فِى شَعَرَةٍ» یعنی دانہ بالی میں۔“ (ایک روایت میں ہے «حِطَّةٌ فِى شَعَرَةٍ» کہنے لگے)۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنُونَ ابْنَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ " أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَابَعَ الْوَحْيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ وَفَاتِهِ حَتَّى تُوُفِّيَ، وَأَكْثَرُ مَا كَانَ الْوَحْيُ يَوْمَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ جل جلالہ نے پے در پے وحی بھیجی اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وفات سے پہلے یہاں تک کہ وفات ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی، اور جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس دن بہت وحی آئی۔
حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَهُوَ ابْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ الْيَهُودَ، قَالُوا لِعُمَرَ " إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ أُنْزِلَتْ فِينَا لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ وَأَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، أُنْزِلَتْ بِعَرَفَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: أَشُكُّ كَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ أَمْ لَا يَعْنِي الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي سورة المائدة آية 3 ".
طارق بن شہاب سے روایت ہے، یہود نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم ایک آیت پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم لوگوں میں اترتی تو ہم اس دن کو عید کر لیتے(خوشی سے) وہ آیت یہ ہے «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى»سورۂ مائدہ میں یعنی ”آج میں نے تمہارا دین پورا کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کی اور اسلام کا دین تمہارے لیے پسند کیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں یہ آیت جہاں اتری اور کس دن اتری اور جس وقت اتری اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے۔ یہ آیت عرفات میں اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے ہوئے تھے عرفات میں (تو عرفہ کا روز عید ہے مسلمانوں کی، دوسری روایت میں ہے کہ اس دن جمعہ تھا، جمعہ بھی عید ہے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَتْ الْيَهُودُ لِعُمَرَ " لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ يَهُودَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3 نَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي أُنْزِلَتْ فِيهِ، لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ : فَقَدْ عَلِمْتُ الْيَوْمَ الَّذِي أُنْزِلَتْ فِيهِ، وَالسَّاعَةَ وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ نَزَلَتْ، نَزَلَتْ لَيْلَةَ جَمْعٍ، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ یہ آیات مزدلفہ کی رات کو اتریں یعنی نویں تاریخ شام کو گویا دسویں شب کا وقت آ گیا (کیونکہ مزدلفہ کی رات دسویں رات ہے) اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے عرفات میں۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ " آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا لَوْ عَلَيْنَا نَزَلَتْ مَعْشَرَ الْيَهُودِ لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: وَأَيُّ آيَةٍ؟، قَالَ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي لَأَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ، وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ، نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ ".
طارق بن شہاب سے روایت ہے، ایک یہودی شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین ایک آیت ہے تمہاری کتاب میں جس کو تم پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم اس دن کو عید کر لیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کون سی آیت؟ وہ یہودی بولا: «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي» (۵-المائدہ: ۳) آخر تک۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں اس دن کو جس دن یہ آیت اتری اور اس جگہ کو جہاں اتری۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عرفات میں اتری جمعہ کے دن (اور وہ دن عید ہے مسلمانوں کی)۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: حَدَّثَنَا، وقَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ سورة النساء آية 3، قَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا تُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ فِيهِنَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَى الَّتِي، قَالَ اللَّهُ فِيهَا: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الْآيَةِ الْأُخْرَى وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 رَغْبَةَ أَحَدِكُمْ عَنِ الْيَتِيمَةِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ حِينَ تَكُونُ، قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ "،
عروہ بن الزبیر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کا مطلب پوچھا:(سورۂ نساء کے شروع میں) «وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ» (۴-النساء: ۳) اخیر تک۔ یعنی ”اگر تم ڈرو کہ انصاف نہ کر سکو گے یتیم لڑکیوں میں تو نکاح کرو ان عورتوں سے جو پسند آئیں تم کو دو دو، تین تین، چار چار۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں: مراد اس آیت سے اے میرے بھانجے! یہ ہے کہ یتیم لڑکی اپنے ولی کی گود میں ہو (یعنی پرورش میں جیسے چچا کی لڑکی بھتیجے کے پاس ہو) اور شریک ہو اس کے مال میں (مثلاً چچا کے مال میں) پھر اس ولی کو اس کا حسن اور جمال پسند آئے، وہ اس سے نکاح کرنا چاہے لیکن اس کے مہر میں انصاف نہ کرے اور اتنا مہر نہ دے جو اور لوگ دینے کو مستعد ہوں تو منع کیا اللہ نے ایسی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مگر اس صورت میں جب انصاف کریں اور پورا مہر دینے پر راضی ہوں اور حکم کیا ان کو نکاح کر لیں اور عورتوں سے جو پسند آئے ان کو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگوں نے یہ آیت اترنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لڑکیوں کے باب میں پوچھا: تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ»(۴-النساء: ۱۲۷) آخر تک (اسی سورۂ نساء میں) یعنی ”پوچھتے ہیں تجھ سے عورتوں کے باب میں تو کہہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے ان کے باب میں جن کا تم مقرر مہر نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنا نہیں چاہتے ہو۔“ تو کتاب پڑھے جانے سے مراد پہلی آیت ہے اور یہ آیت اس یتیم لڑکی کے باب میں ہے جو حسن اور مال میں کم ہو تو منع ہوا ان کو اس یتیم لڑکی سے نکاح کرنا جس کے مال اور جمال میں رغبت کریں مگر اس صورت میں کہ جب انصاف کریں۔
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ وَزَادَ فِي آخِرِهِ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ إِذَا كُنَّ قَلِيلَاتِ الْمَالِ وَالْجَمَالِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْله " وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي الرَّجُلِ تَكُونُ لَهُ الْيَتِيمَةُ، وَهُوَ وَلِيُّهَا وَوَارِثُهَا، وَلَهَا مَالٌ وَلَيْسَ لَهَا أَحَدٌ يُخَاصِمُ دُونَهَا، فَلَا يُنْكِحُهَا لِمَالِهَا، فَيَضُرُّ بِهَا وَيُسِيءُ صُحْبَتَهَا، فَقَالَ: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، يَقُولُ: مَا أَحْلَلْتُ لَكُمْ وَدَعْ هَذِهِ الَّتِي تَضُرُّ بِهَا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِى الْيَتَامَى» ”اگر تم ڈرو یتیم لڑکیوں کے باب میں انصاف کرنے سے“، یہ آیت اس شخص کے باب میں اتری جس کے پاس ایک یتیم لڑکی ہو وہی اس کا ولی اور وارث ہو اور اس کا مال بھی ہو اور کوئی اس کی طرف سے جھگڑنے والا سوائے اس کی ذات کے نہ ہو پھر وہ مال کے خیال سے اس سے نکاح نہ کرے (کہ مہر دینا پڑے گا) اور اس کو تکلیف دے اور بری طرح اس سے صحبت رکھے تو فرمایا: ”اگر ڈرو یتیم لڑکیوں میں انصاف کرنے سے تو نکاح کر لو اور عورتوں سے جو پسند آئیں تم کو۔“ مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں حلال کیں میں نے تمہارے لیے اور چھوڑ دو اس لڑکی کو جس کو تم تکلیف دیتے ہو (وہ اپنا نکاح کسی اور سے کر لے گی اس کا مال دے دو)۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْله " وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي الْيَتِيمَةِ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ، فَتَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ، فَيَرْغَبُ عَنْهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا وَيَكْرَهُ أَنْ يُزَوِّجَهَا غَيْرَهُ، فَيَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ، فَيَعْضِلُهَا فَلَا يَتَزَوَّجُهَا وَلَا يُزَوِّجُهَا غَيْرَهُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:«وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِى الْكِتَابِ فِى يَتَامَى النِّسَاءِ اللاَّتِى لاَ تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ» ”جو تم پر پڑھا جاتا ہے اللہ کی کتاب میں۔“ یہ آیت اتری اس یتیم لڑکی کے باب میں جو کسی شخص کے پاس ہو اور اس کے مال میں شریک ہو (ترکہ کی رو سے) پھر وہ نفرت کرے اس سے نکاح کرنے سے اور دوسرے سے بھی اس کا نکاح پسند نہ کرے اس خیال سے کہ وہ مال میں حصہ لے گی۔ آخر اس لڑکی کو یونہی چھوڑ رکھے، نہ آپ نکاح کرے اور نہ کسی اور سے کرنے دے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْله " وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ سورة النساء آية 127 الْآيَةَ، قَالَتْ: هِيَ الْيَتِيمَةُ الَّتِي تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لَعَلَّهَا أَنْ تَكُونَ قَدْ شَرِكَتْهُ فِي مَالِهِ حَتَّى فِي الْعَذْقِ، فَيَرْغَبُ يَعْنِي أَنْ يَنْكِحَهَا وَيَكْرَهُ أَنْ يُنْكِحَهَا رَجُلًا، فَيَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ فَيَعْضِلُهَا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، «يَسْتَفْتُونَكَ فِى النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ» آخر تک یہ آیت اس یتیم لڑکی کے باب میں ہے جو ایک شخص کے پاس ہو اور شریک ہو اس کے مال میں یہاں تک کہ کھجور کے درختوں میں بھی۔ پھر وہ اس سے نکاح کرنا نہ چاہے اور نہ یہ چاہے کہ اس کا نکاح دوسرے سے کر دے کہ وہ اس کے مال میں شریک ہو پھر اس کو یونہی ڈال رکھے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْله " وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي وَالِي مَالِ الْيَتِيمِ الَّذِي يَقُومُ عَلَيْهِ وَيُصْلِحُهُ إِذَا كَانَ مُحْتَاجًا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یہ آیت «وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ» (۴-النساء: ۶) (سورۂ نساء کے شروع میں) یعنی ”جو شخص مالدار ہو وہ بچا رہے اور جو محتاج ہو وہ اپنی محنت کے موافق کھائے۔“، اتری ہے اس شخص کے باب میں جو یتیم کے مال کا متولی ہو اس کو درست کرے اور اس کو سنوارے، وہ اگر محتاج ہو تو دستور کے موافق کھائے (اور جو مالدار ہو تو کچھ نہ کھائے)۔
(حديث موقوف) وَحَدَّثَنَا وَحَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْله تَعَالَى " وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي وَلِيِّ الْيَتِيمِ أَنْ يُصِيبَ مِنْ مَالِهِ إِذَا كَانَ مُحْتَاجًا بِقَدْرِ مَالِهِ بِالْمَعْرُوفِ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ روایت ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلّ " إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ سورة الأحزاب آية 10، قَالَتْ: " كَانَ ذَلِكَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:«إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ» (۳۳-الأحزاب: ۱۰) ”جب وہ آئے تم پر اوپر سے اور نیچے سے تمہارے اور جب پھر گئیں آنکھیں اور دل حلق تک آ گئے۔“ آخر تک۔ خندق کے دن اتری (اس دن مسلمانوں پر نہایت سختی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ ہم نے اس دن ایک لشکر بھیجا اور ہوا کافروں پر جن کو تم نے نہیں دیکھا)۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ " وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا سورة النساء آية 128 الْآيَةَ، قَالَتْ: أُنْزِلَتْ فِي الْمَرْأَةِ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ، فَتَطُولُ صُحْبَتُهَا، فَيُرِيدُ طَلَاقَهَا، فَتَقُولُ: لَا تُطَلِّقْنِي وَأَمْسِكْنِي، وَأَنْتَ فِي حِلٍّ مِنِّي فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یہ آیت (سورۂ نساء میں)«وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا» (۴-النساء: ۱۲۸) آخر تک۔ یعنی”اگر کوئی عورت ڈرے اپنے خاوند سے شرارت سے یا اس کی بے پروائی سے تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر اگر وہ صلح کر لیں آپس میں۔“ اس عورت کے باب میں اتری جو ایک شخص کے پاس ہو، پھر وہ مدت تک اس کے پاس رہے، اب خاوند اس کو طلاق دینا چاہے (اس سے بیزار ہو کر) وہ عورت یہ کہے: مجھ کو طلاق نہ دے اور رہنے دے اور میں نے تجھ کو اجازت دی (دوسری عورت کے پاس رہنے کی اور میرے پاس نہ رہنے کی) تب یہ آیت اتری۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلّ " وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا سورة النساء آية 128، قَالَتْ: نَزَلَتْ فِي الْمَرْأَةِ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ، فَلَعَلَّهُ أَنْ لَا يَسْتَكْثِرَ مِنْهَا وَتَكُونُ لَهَا صُحْبَةٌ وَوَلَدٌ، فَتَكْرَهُ أَنْ يُفَارِقَهَا، فَتَقُولُ لَهُ: أَنْتَ فِي حِلٍّ مِنْ شَأْنِي ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی آیت کے باب میں «وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا» (۴-النساء: ۱۲۸) آخر تک کہا: یہ آیت اس عورت کے باب میں اتری جو ایک شخص کے پاس ہو اب وہ زیادہ اس کے پاس نہ رہنا چاہیے لیکن اس عورت کی اولاد ہو اور صحبت ہو اپنے خاوند سے وہ اپنے خاوند کو چھوڑنا برا جانے تو اجازت دے اس کو اپنے باب میں۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ يَا ابْنَ أُخْتِي " أُمِرُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبُّوهُمْ "،
عروہ سے روایت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا: اے بھانجے میرے! حکم ہوا تھا لوگوں کو کہ بخشش مانگیں صحابہ کے لیے، انہوں نے ان کو برا کہا: (وہ بخشش مانگنے کا حکم اس آیت میں ہے «رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ» (۵۹-الحشر: ۱۰) مراد اہل مصر ہیں جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہتے تھے یا اہل شام جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہتے تھے اور حروریہ خارجی جو دونوں کو برا کہتے تھے)۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: اخْتَلَفَ أَهْلُ الْكُوفَةِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ " وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، فَرَحَلْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ: لَقَدْ أُنْزِلَتْ آخِرَ مَا أُنْزِلَ ثُمَّ مَا نَسَخَهَا شَيْءٌ "،
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کوفہ والوں نے اختلاف کیا اس آیت میں «وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ» (۴-النساء: ۹۳) ”جو کوئی قتل کرے مؤمن کو قصداً اس کا بدلہ جہنم ہے۔“ آخر تک (یہ آیت سورۂ نساء میں ہے)۔ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا ان سے پوچھا: انہوں نے کہا: یہ آیت آخر میں اتری اور اس کو منسوخ نہیں کیا کسی آیت نے۔ (اوپر گزر چکا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب یہ ہے کہ جو کوئی مؤمن کو قتل کرے قصداً، اس کی توبہ قبول نہ ہو گی اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا جمہور علماء اس کے خلاف میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں آیت سے یہ نکلتا ہے کہ بدلہ اس کا یہ ہے کہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا پر یہ ضروری نہیں کہ یہ بدلہ خواہ مخوہ دیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ معاف کر سکتا ہے)۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي حَدِيثِ ابْنِ جَعْفَرٍ نَزَلَتْ فِي آخِرِ مَا أُنْزِلَ، وَفِي حَدِيثِ النَّضْرِ إِنَّهَا لَمِنْ آخِرِ مَا أُنْزِلَتْ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: " أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى، أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، عَنْ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا سورة النساء آية 93، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَمْ يَنْسَخْهَا شَيْءٌ، وَعَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68، قَالَ: نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ ".
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھو ان دونوں آیتوں کے متعلق «وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا» آخر تک۔۔ میں نے پوچھا: انہوں نے کہا: یہ آیت منسوح نہیں ہے اور «وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ» (۲۵-الفرقان: ۶۸) یعنی ”جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کسی کو معبود نہیں پکارتے، اور جو جان اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہے اس کو نہیں مارتے مگر حق سے۔“ اس کے بعد یہ ہے «إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا» (۲۵-الفرقان: ۶۹) یعنی ”جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے۔“ یہ آیت سورۂ فرقان میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ مقبول ہے تو بظاہر پہلی آیت کے مخالف ٹھہری)۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ آیت مشرکوں کے حق میں اتری ہے (اور پہلی مومنوں کے حق میں ہے تو مومن جب مومن کو قصداً مارے اس کی توبہ قبول نہ ہو گی البتہ اگر مشرک حالت شرک میں مارے پھر ایمان لائے اور توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو گی۔ اس صورت میں دونوں آیتوں میں مخالفت نہ رہی)۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ اللَّيْثِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي شَيْبَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ بِمَكَّةَ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ إِلَى قَوْله مُهَانًا سورة الفرقان آية 68 - 69، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: وَمَا يُغْنِي عَنَّا الْإِسْلَامُ، وَقَدْ عَدَلْنَا بِاللَّهِ، وَقَدْ قَتَلْنَا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، وَأَتَيْنَا الْفَوَاحِشَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا سورة الفرقان آية 70 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: فَأَمَّا مَنْ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ وَعَقَلَهُ، ثُمَّ قَتَلَ فَلَا تَوْبَةَ لَهُ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ آیت «وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ» سے «مُهَانًا» تک مکہ میں اتری۔ مشرکوں نے کہا: پھر ہم کو مسلمان ہونے سے کیا فائدہ؟ ہم نے تو اللہ کے ساتھ دوسرے کو برابر کیا اور ناحق خون بھی کیا اور برے کام بھی کیے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا» (۲۵-الفرقان: ۷۰) آخر تک یعنی ”جو ایمان لائے گا اور توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی برائیاں نیکیوں سے بدل دے گا۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو کوئی مسلمان ہو جائے اور اسلام کے احکام کو سمجھ لے پھر ناحق خون کرے تو اس کی توبہ قبول نہ ہو گی۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ " أَلِمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا مِنْ تَوْبَةٍ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَتَلَوْتُ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: هَذِهِ آيَةٌ مَكِّيَّةٌ نَسَخَتْهَا آيَةٌ مَدَنِيَّةٌ، وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا سورة النساء آية 93. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ هَاشِمٍ، فَتَلَوْتُ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ إِلا مَنْ تَابَ سورة الفرقان آية 70 ".
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: جو کوئی مومن کو قصداً قتل کرے اس کی توبہ ہو سکتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں۔ میں نے ان کو یہ آیت سنائی جو سورۂ فرقان میں ہے «وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ» آخر تک جس کے بعد یہ ہے «إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ» کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ ناحق خون کے بعد توبہ کر سکتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آیت مکی ہے اور اس کو منسوخ کر دیا ہے اس آیت نے جو مدینہ میں اتری «وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا» آخر تک جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عمداً قتل کرے اس کا بدلہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : تَعْلَمُ، وَقَالَ هَارُونُ: تَدْرِي آخِرَ سُورَةٍ نَزَلَتْ مِنَ الْقُرْآنِ نَزَلَتْ جَمِيعًا؟، قُلْتُ: نَعَمْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1، قَالَ: صَدَقْتَ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ تَعْلَمُ أَيُّ سُورَةٍ، وَلَمْ يَقُلْ آخِرَ،
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تو جانتا ہے کہ آخر سورت قرآن کی جو ایک ہی بار اتری وہ کون سی ہے۔ میں نے کہا: ہاں «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ» ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تو نے سچ کہا:۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَاأَبُو عُمَيْسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: آخِرَ سُورَةٍ، وَقَالَ عَبْدِ الْمَجِيدِ وَلَمْ يَقُلْ ابْنِ سُهَيْلٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَقِيَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَجُلًا فِي غُنَيْمَةٍ لَهُ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَأَخَذُوهُ فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا تِلْكَ الْغُنَيْمَةَ، فَنَزَلَتْ 0 وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا 0 وَقَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ السَّلَامَ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، مسلمانوں کے کچھ لوگوں نے ایک شخص کو دیکھا تھوڑی بکریوں میں۔ وہ بولا: السلام علیکم مسلمانوں نے اس کو پکڑا اور قتل کیا اور وہ بکریاں لے لیں۔ تب یہ آیت اتری «وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا» ”مت کہو اس کو جو سلام کرے تم کو یہ کہہ کر کہ تو مسلمان نہیں ہے۔“ (اپنی جان بچانے کے لیے سلام کرتا ہے)۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت میں «سلام» پڑھا ہے اور بعضوں نے «سلم» پڑھا ہے (تو معنی یہ ہوں گے جو تم سے صلح سے پیش آئے)۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، يَقُولَ: " كَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا حَجُّوا، فَرَجَعُوا لَمْ يَدْخُلُوا الْبُيُوتَ إِلَّا مِنْ ظُهُورِهَا، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَدَخَلَ مِنْ بَابِهِ فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا سورة البقرة آية 189 ".
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انصار جب حج کر کے لوٹ کر آتے تو گھر میں (دروازے سے) نہ گھستے بلکہ پیچھے سے (دیوار پر چڑھ کر) آتے۔ ایک انصاری آیا اور دروازہ سے گھسا۔ لوگوں نے اس باب میں اس سے گفتگو کی تب یہ آیت اتری: «لَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا» (البقرة: ١٨٩)”یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں پیچھے سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ پرہیزگاری کرو اور گھروں میں دروازہ سے آؤ۔“ اخیر تک۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: " مَا كَانَ بَيْنَ إِسْلَامِنَا وَبَيْنَ أَنْ عَاتَبَنَا اللَّهُ بِهَذِهِ الْآيَةِ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ سورة الحديد آية 16 إِلَّا أَرْبَعُ سِنِينَ ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب سے ہم مسلمان ہوئے اس وقت سے لے کر اس آیت کے اترنے کے وقت تک «أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّـهِ» (۵۷-الحدید: ۱۶) آخر تک یعنی ”کیا وہ وقت نہیں آیا جب مسلمانوں کے دل لرز جائیں اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہی۔“ جس میں اللہ تعالیٰ نے عتاب کیا ہم پر، چار برس کا عرصہ گزرا (یہ آیت سورۂ حدید میں ہے اور وہ مدنی ہے)۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَهِيَ عُرْيَانَةٌ، فَتَقُولُ: مَنْ يُعِيرُنِي تِطْوَافًا تَجْعَلُهُ عَلَى فَرْجِهَا، وَتَقُولُ:. الْيَوْمَ يَبْدُو بَعْضُهُ أَوْ كُلُّهُ فَمَا بَدَا مِنْهُ فَلَا أُحِلُّهُ " " فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ سورة الأعراف آية 31.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، عورت (جاہلیت کے زمانہ میں)خانہ کعبہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی اور کہتی: کون دیتا ہے مجھ کو ایک کپڑا ڈالتی اس کو اپنی شرمگاہ پر اور کہتی: آج کھل جائے گا سب یا بعض، پھر جو کھل جائے گا اس کو کبھی حلال نہ کروں گی (یعنی وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو گیا۔ یہ واہی رسم اسلام نے موقوف کر دی) تب یہ آیت اتری «خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ» (۷-الأعراف: ۳۱) یعنی ”ہر مسجد کے پاس اپنے کپڑے پہن کر جاؤ۔“
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، يَقُولُ لِجَارِيَةٍ لَهُ " اذْهَبِي فَابْغِينَا شَيْئًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ سورة النور آية 33 لَهُنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 33 ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، عبداللہ بن ابی بن سلول (منافقوں کا سردار) اپنی لونڈی سے کہتا: جا اور خرچی کما کر لا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ» سے «غَفُورٌ رَحِيمٌ» تک (۲۴-النور: ۳۳)، یعنی ”مت جبر کرو اپنی لونڈیوں پر زنا کے لیے اگر وہ بچنا چاہیں زنا سے، اس لیے کہ دنیا کا مال کماؤ اور جو کوئی لونڈیوں پر زبردستی کرے(حرام کاری کے لیے) تو اللہ تعالیٰ زبردستی کے بعد لونڈیوں کے گناہ کا بخشنے والا مہربان ہے۔“ (یعنی جب مالک اپنی لونڈی سے جبراً حرام کاری کروائے تو گناہ مالک پر ہو گا اور لونڈی اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا)۔
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، " أَنَّ جَارِيَةً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ يُقَالُ لَهَا مُسَيْكَةُ، وَأُخْرَى يُقَالُ لَهَا أُمَيْمَةُ، فَكَانَ يُكْرِهُهُمَا عَلَى الزِّنَا، فَشَكَتَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 33 ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، عبداللہ بن ابی کی دو لونڈیاں تھیں: ایک کا نام مسیکہ دوسری کا نام امیمہ۔ وہ دونوں سے جبراً زنا کرواتا۔ انہوں نے اس کی شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تب یہ آیت اتری «وَلاَ تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ» ۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ " فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ سورة الإسراء آية 57، قَالَ: كَانَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ أَسْلَمُوا، وَكَانُوا يُعْبَدُونَ فَبَقِيَ الَّذِينَ كَانُوا يَعْبُدُونَ عَلَى عِبَادَتِهِمْ وَقَدْ أَسْلَمَ النَّفَرُ مِنَ الْجِنِّ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، (کہ یہ آیت سورہ بنی اسرائیل کی) «أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ» (۱۷-الإسراء: ۵۷) ”جن کی یہ پوجا کرتے ہیں وہ تو اپنے رب کے پاس وسیلہ طلب کرتے ہیں۔“ (عبداللہ نے) کہا: جنوں کی ایک جماعت جن کی پوجا کی جاتی تھی مسلمان ہو گئی اور پوجا کرنے والے ویسے ہی اس کی پوجا کرتے رہے اور وہ جماعت مسلمان ہو گئی (یعنی یہ آیت ان کے حق میں اتری)۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ " أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57، قَالَ: كَانَ نَفَرٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعْبُدُونَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ النَّفَرُ مِنَ الْجِنِّ وَاسْتَمْسَكَ الْإِنْسُ بِعِبَادَتِهِمْ، فَنَزَلَتْ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57 "،
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، (یہ آیت «أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ» جو سورہ بنی اسرائیل میں ہے) ”وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں اپنے مالک کے پاس وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔“ اس وقت اتری کہ بعض آدمی چند جنوں کی پرستش کرتے تھے وہ جن مسلمان ہو گئے اور ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ ہوئی وہ لوگ ان کو پوجتے رہے تب یہ آیت اتری «أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ» آخر تک۔
وحَدَّثَنِيهِ بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
سلیمان سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ " أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57، قَالَ: نَزَلَتْ فِي نَفَرٍ مِنَ الْعَرَبِ كَانُوا يَعْبُدُونَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ الْجِنِّيُّونَ وَالْإِنْسُ الَّذِينَ كَانُوا يَعْبُدُونَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ، فَنَزَلَتْ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57 ".
وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ: لِابْنِ عَبَّاسٍ " سُورَةُ التَّوْبَةِ، قَالَ: آلتَّوْبَةِ، قَالَ: بَلْ هِيَ الْفَاضِحَةُ مَا زَالَتْ تَنْزِلُ وَمِنْهُمْ وَمِنْهُمْ حَتَّى ظَنُّوا أَنْ لَا يَبْقَى مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا ذُكِرَ فِيهَا، قَالَ: قُلْتُ: سُورَةُ الْأَنْفَالِ، قَالَ: تِلْكَ سُورَةُ بَدْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: فَالْحَشْرُ قَالَ: نَزَلَتْ فِي بَنِي النَّضِيرِ ".
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: سورہ توبہ۔ انہوں نے کہا: توبہ وہ سورت تو ذلیل کرنے والی ہے اور فضیحت کرنے والی (کافروں اور منافقوں کی) اس سورت میں برابر اتر رہا «وَمِنْهُمْ» «وَمِنْهُمْ» یعنی لوگوں کے احوال کچھ ایسے کچھ ایسے ہیں، یہاں تک لوگ سمجھے کہ کوئی باقی نہ رہے گا جس کا ذکر نہ کیا جائے گا اس سورت میں۔ میں نے کہا: سورہ انفال۔ انہوں نے کہا: وہ سورت تو بدر کی لڑائی کے باب میں ہے (اس میں لوٹ اور غنیمت کے احکام مذکور ہیں)۔ میں نے کہا: سورہ حشر، انہوں نے کہا: وہ بنی نضیر کے باب میں اتری۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ أَلَا وَإِنَّ الْخَمْرَ نَزَلَ تَحْرِيمُهَا يَوْمَ نَزَلَ، وَهِيَ مِنْ خَمْسَةِ أَشْيَاءَ مِنَ الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ، وَالزَّبِيبِ، وَالْعَسَلِ، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ، وَثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ وَدِدْتُ أَيُّهَا النَّاسُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَهِدَ إِلَيْنَا فِيهَا الْجَدُّ، وَالْكَلَالَةُ، وَأَبْوَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر خطبہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور ثناء کی پھر فرمایا: بعد حمد و ثناء کے: جان رکھو کہ شراب جب حرام ہوئی تھی تو پانچ چیزوں سے بنا کرتی تھی گیہوں، جو، کھجور، انگور اور شہد سے۔ اور شراب وہ جو عقل میں فتور ڈالے (خواہ کسی چیز کی ہو۔ اس سے رد ہو گیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کا کہ شراب خاص ہے انگور سے کیونکہ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے قبول کیا کسی نے اعتراض نہیں کیا تو گویا اجماع ہو گیا) اور میں چاہتا ہوں: اے لوگو! کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے (مفصل) بیان فرماتے دادا کا(یعنی اس کے ترکہ کا) اور کلالہ کا اور سود کے چند ابواب کا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّهُ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَهِيَ مِنْ خَمْسَةٍ، مِنَ الْعِنَبِ، وَالتَّمْرِ، وَالْعَسَلِ، وَالْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ، وَثَلَاثٌ أَيُّهَا النَّاسُ وَدِدْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَهِدَ إِلَيْنَا فِيهِنَّ عَهْدًا نَنْتَهِي إِلَيْهِ، الْجَدُّ، وَالْكَلَالَةُ، وَأَبْوَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي حَيَّانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا، غَيْرَ أَنَّ ابْنَ عُلَيَّةَ فِي حَدِيثِهِ الْعِنَبِ كَمَا، قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ وَفِي حَدِيثِ عِيسَى الزَّبِيبِ كَمَا قَالَ ابْنُ مُسْهِرٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ " هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 إِنَّهَا نَزَلَتْ فِي الَّذِينَ بَرَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَةُ، وَعَلِيٌّ، وَعُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ "،
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ قسم کھاتے تھے (یہ آیت سورہ حج میں) «هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ» (۲۲-الحج: ۱۹) یعنی ”یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں جو لڑتے ہیں اپنے اپنے رب کے لیے۔“ اتری ہے ان لوگوں کے حق میں جو بدر کے دن (صف سے) باہر نکلے تھے لڑنے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے سیدالشہداء سیدنا حمزہ اور حیدر کرار اسداللہ سیدنا علی مرتضیٰ اور سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم اور کافروں کی طرف سے عتبہ اور شیبہ دونوں ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُقْسِمُ لنَزَلَتْ هذَانِ خَصْمَانِ بِمِثْلِ حدِيثِ هُشَيْمِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔