مشکوٰة شر یف

قربانی کا بیان

قربانی کا وقت

اور حضرت براء رضی اللہ عنہ راوی ہیں سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوم النحر (یعنی بقر عید کے دن) ہمارے سامنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ  اس دن سب سے پہلا کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم (عیدالاضحیٰ کی) نماز پڑھیں پھر گھر واپس جائیں اور قربانی کریں، لہٰذا جس آدمی نے اس طرح عمل کیا (کہ قربانی سے پہلے نماز و خطبے سے فراغت حاصل کر لی) اس نے ہماری سنت کو اختیار کیا اور جس آدمی نے نماز سے پہلے قربانی کر لی وہ قربانی نہیں ہے بلکہ وہ گوشت والی بکری ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی ذبح کر لیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ نماز سے پہلے قربانی کر لینے سے قربانی کا ثواب نہیں ملتا بلکہ اس کا شمار اس گوشت میں ہو جاتا ہے جو عام طور پر گھر والے کھاتے ہیں۔

اس سلسلہ میں مشروع یہ ہے کہ پہلے عید قربان کی نماز پڑھی جائے اس کے بعد خطبہ پڑھا جائے اور سنا جائے پھر قربانی کی جائے چونکہ حدیث بالا میں قربانی کا وقت پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لیے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عید قرباں کے دن طلوع فجر سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ البتہ طلوع فجر کے بعد قربانی کا وقت شروع ہونے کے سلسلے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ جب آفتاب بقدر نیزہ بلند ہو جائے اور اس کے بعد کم از کم دو رکعت نماز اور دو مختصر خطبے کی بقدر وقت گزر جائے تو قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے اس کے بعد قربانی کرنا جائز ہے خواہ بقر عید کی نماز ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اس وقت سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے خواہ قربانی کرنے والا شہر میں رہتا ہو یا دیہات کا رہنا والا ہو، نیز امام شافعی کے نزدیک قربانی کا وقت تیرہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کا وقت شہر والوں کے لیے عید قربان کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور دیہات والوں کے لیے طلوع فجر کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں قربانی کا آخری وقت بارہویں تاریخ کے آخر تک رہتا ہے۔

قربانی واجب ہے یا سنت: حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اگرچہ نصاب نامی نہ ہو۔

 

 

٭٭ اور حضرت جندب ابن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی (قربانی کا جانور) عید قربان کی نماز سے پہلے ذبح کر دے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلے (قربانی کیلئے) دوسرا جانور ذبح کرے اور جو آدمی نماز پڑھنے تک ذبح نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانی کا جانور ذبح کر دے (یہ قربانی درست ہو گی جس کا ثواب اسے ملے گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

قربانی کی فضیلت

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ابن آدم کا نحر (یعنی قربانی کے دن) ایسا کوئی عمل نہیں جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب ہو، اور (قربانی کا) وہ ذبح کیا ہوا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون قبل اس کے کہ زمین پر گرے (یعنی ذبح کرنے کے ارادہ کے وقت ہی) خداوندی میں قبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تم اس کی وجہ سے (یعنی قربانی کر کے) اپنے نفس کو خوش کرو۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 زین العرب فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقر عید کے دن سب سے افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے روز اسی طرح آئے گا جس طرح کے دنیا میں قربانی سے پہلے بغیر کسی عیب کے تھا تاکہ وہ قربانی کرنے والے کے ہر ہر عضو کی طرف سے نعم البدل اور پل صراط پر اس کی سواری ہو۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی قبول کرتا ہے اور اس کے بدلہ میں تمہیں بہت زیادہ ثواب سے نوازتا ہے تو قربانی کرنے کی وجہ سے تمہارے اندر کسی قسم کی کوئی تنگی یا کراہت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس عظیم خوشخبری کی وجہ سے تمہارے نفس کو مطمن اور تمہارے دل کو خوش ہونا چاہیے۔

عشرہ ذی الحجہ کی عبادتوں کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ایسا کوئی دن نہیں ہے کہ جس میں عبادت کرنا عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ افضل ہو اس میں سے ہر دن کے روزے ایک سال کے روزوں کے برابر قرار دئیے جاتے ہیں اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر قرار دی جاتی ہے (جامع ترمذی، ابن ماجہ) امام جامع ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں۔

 

تشریح

 

 طلب یہ ہے کہ خد ا کے نزدیک ان دنوں میں عبادت کرنا دوسرے دنوں میں عبادت کرنے سے زیادہ محبوب ہے خصوصاً قربانی کرنا دوسرے اعمال سے زیادہ افضل اور محبوب ہے۔ اور عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے سلسلہ میں پوری وضاحت پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔

بقر عید کی نماز سے پہلے قربانی درست نہیں

حضرت جندب ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) عید قرباں میں جو نحر یعنی قربانی کا دن ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (عیدگاہ) حاضر ہوا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز اور خطبہ شروع نہیں فرمایا تھا) کہ کیا دیکھتے ہیں کہ قربانی کا گوشت رکھا ہے اور نماز پڑھنے سے پہلے ہی قربانی ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا کہ جس نے قبل اس کے کہ نماز پڑھے، یا یہ فرمایا کہ قبل اس کے کہ ہم نماز پڑھیں (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلہ میں دوسرا جانور) ذبح کرے ایک اور روایت میں ہے کہ  حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بقر عید کے روز نماز اور خطبہ ارشاد فرمایا پھر (قربانی کا جانور) ذبح کیا اور فرمایا کہ جو آدمی قبل اس کے کہ نماز پڑھے، یا فرمایا کہ قبل اس کے کہ ہم نماز پڑھیں ذبح کیا تو اسے چاہیے کہ (نماز کے بعد قربانی کا جانور) اللہ کے نماز کے ساتھ ذبح کر دے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

ایام قربانی

اور حضرت نافع راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  بقر عید کے دن کے بعد قربانی کے دو دن ہیں۔ امام مالک نے یہ روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ  مجھے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ، سے بھی اس قسم کی روایت پہنچی ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم تینوں ائمہ کا عمل اسی حدیث پر ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ قربانی کا آخری وقت ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ آخری وقت تیرہویں تاریخ تک رہتا ہے۔ یہ حدیث تینوں ائمہ کی مستدل اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر حجت ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور (ہر سال قربانی) کرتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 قربانی واجب ہونے کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر مداومت فرمائی اور ہمیشہ قربان کرتے رہتے۔

قربانی حضرت ابراہیم کی سنت ہے

اور حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب نے دریافت کیا کہ  یا رسول اللہ ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی ان کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر اس میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے؟ فرمایا  گائے اور بکری کی قربانی کرنے میں کہ جن کے بال ہوتے ہیں) ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے (انہوں نے عرض کیا کہ  صوف (یعنی دنبہ، بھیڑ اور اونٹ کی اون اور اس کے بدلہ میں کیا ثواب ملتا ہے؟) فرمایا  اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ (احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ)