حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ أَبُو مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ، أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْمُثَنَّى اسْمُهُ: سُلَيْمَانُ بْنُ يَزِيدَ، وَرَوَى عَنْهُ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " فِي الْأُضْحِيَّةِ لِصَاحِبِهَا بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ "، وَيُرْوَى بِقُرُونِهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہشام بن عروہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں عمران بن حصین اور زید بن ارقم رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- راوی ابومثنی کا نام سلیمان بن یزید ہے، ان سے ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے، ۴- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی"، ۵- یہ بھی مروی ہے کہ جانور کی سینگ کے عوض نیکی ملے گی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۳ (۳۱۲۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۳۴۳) (ضعیف جداً) (سند میں ’’ ابو المثنی سلیمان بن یزید ‘‘ سخت ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ، وَسَمَّى، وَكَبَّرَ، وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي بَكْرَةَ أَيْضًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور (ذبح کرتے وقت) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عائشہ، ابوہریرہ، ابوایوب، جابر، ابو الدرداء، ابورافع، ابن عمر اور ابوبکرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأضاحي ۷ (۵۵۵۴) ، و ۹ (۵۵۵۸) ، و ۱۳ (۵۵۶۴) ، و ۱۴ (۵۵۶۵) ، والتوحید ۱۳ (۷۳۹۹) ، صحیح مسلم/الأضاحي ۳ (۱۹۶۶) ، سنن ابی داود/ الأضاحي ۴ (۲۷۹۴) ، سنن النسائی/الأضاحي ۱۴، (۴۳۹۱، ۴۳۹۲) ، و ۲۸ (۴۴۲۰) ، و ۲۹ (۴۴۲۱) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي (۳۱۲۰) (تحفة الأشراف : ۱۴۲۷) ، و مسند احمد (۳/۹۹، ۱۱۵، ۱۷۰، ۱۷۸، ۱۸۹، ۲۱۱، ۲۱۴، ۲۲۲، ۲۵۵، ۲۵۸، ۲۷۲، ۲۷۹، ۲۸۱) ، سنن الدارمی/الأضاحي۱ (۱۹۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے یہ مسائل ثابت ہوتے ہیں : (۱)قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیئے ، گو نیابت بھی جائز ہے ، (۲)ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیئے (۳)ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانور کے گردن پر رکھنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عَلِيٍّ " أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ "، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي: النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنِ الْمَيِّتِ، وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: " أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ، وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ، وَإِنْ ضَحَّى، فَلَا يَأْكُلُ مِنْهَا شَيْئًا، وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا "، قَالَ مُحَمَّدٌ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ، قُلْتُ لَهُ: أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ، فَلَمْ يَعْرِفْهُ، قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ: الْحَسَنُ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے، ۳- بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأضاحي ۲ (۲۷۹۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۰۸۲) (ضعیف) (سند میں ’’ شریک ‘‘ حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسنائ ‘‘ مجہول، نیز ’’ حنش ‘‘ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)
وضاحت: ۱؎ : اس ضعیف حدیث ، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا : «اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے ، پھر اختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ ؟ حنابلہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی افضل ہے ، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم و صلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے ، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے ، علی رضی الله عنہ کی حدیث سخت ضعیف ہے ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے وقت کی دعا سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعا سے غیر اللہ کو پکارنے پر استدلال کرنا ، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں «عمن لم يضح أمتي» (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کر سکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ " میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کر سکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما " ، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ «واللہ اعلم بالصواب»
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، فَحِيلٍ يَأْكُلُ فِي سَوَادٍ، وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے ایک نر مینڈھے کی قربانی کی، وہ سیاہی میں کھاتا تھا، سیاہی میں چلتا تھا اور سیاہی میں دیکھتا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ہم اس کو صرف حفص بن غیاث ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأضاحي ۴ (۲۷۹۶) ، سنن النسائی/الضحایا ۱۴ (۴۳۹۵) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحی ۴ (۱۳۲۸) ، (تحفة الأشراف : ۴۲۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کا منہ ، اس کے پیر اور اس کی آنکھیں سب کالی تھیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، رَفَعَهُ، قَالَ: " لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا، وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي "، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَاشُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ الْبَرَاءِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کا لنگڑا پن واضح ہو، نہ ایسے اندھے جانور کی جس کا اندھا پن واضح ہو، نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری واضح ہو، اور نہ ایسے لاغر و کمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو" ۱؎۔ اس سند سے بھی براء بن عازب رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ہم صرف عبید بن فیروز کی حدیث سے جانتے ہیں انہوں نے براء سے روایت کی ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأضاحي ۶ (۲۸۰۲) ، سنن النسائی/الضحایا ۵ (۴۳۷۴) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۸ (۳۱۴۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۹۰) ، وط/الضحایا ۱ (۱) و مسند احمد (۴/۲۸۴، ۲۸۹، ۳۰۰، ۳۰۱) ، سنن الدارمی/الأضاحي (۱۹۹۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ بالا چاروں قسم کے جانور قربانی کے لائق نہیں ، عیب کے واضح اور ظاہر ہونے کی قید سے معلوم ہوا کہ معمولی نوعیت کا کوئی نقص وعیب قابل گرفت نہیں بلکہ معاف ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ وَهُوَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ، وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا شَرْقَاءَ، وَلَا خَرْقَاءَ "، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وَزَادَ، قَالَ: " الْمُقَابَلَةُ: مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا، وَالْمُدَابَرَةُ: مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ، وَالشَّرْقَاءُ: الْمَشْقُوقَةُ، وَالْخَرْقَاءُ: الْمَثْقُوبَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى، وَشُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ، وَشُرَيْحُ بْنُ هَانِئٍ كُوفِيٌّ وَلِوَالِدِهِ صُحْبَةٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ، وَشُرَيْحُ بْنُ الْحَارِثِ الْكِنْدِيُّ أَبُو أُمَيَّةَ الْقَاضِي، قَدْ رَوَى عَنْ عَلِيٍّ، وَكُلُّهُمْ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ، قَوْلُهُ أَنْ نَسْتَشْرِفَ: أَيْ أَنْ نَنْظُرَ صَحِيحًا.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، یا جس کا کان چیرا ہوا ہو (یعنی لمبائی میں کٹا ہوا ہو)، یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔ اس سند سے بھی علی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ «مقابلة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (آگے سے) کٹا ہو، «مدابرة»وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹا ہو، «شرقاء» جس کا کان (لمبائی میں) چیرا ہوا ہو، اور «خرقاء» جس کے کان میں (گول) سوراخ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شریح بن نعمان صائدی، کوفہ کے رہنے والے ہیں اور علی رضی الله عنہ کے ساتھیوں میں سے ہیں، ۳- شریح بن ہانی کوفہ کے رہنے والے ہیں اور ان کے والد کو شرف صحبت حاصل ہے اور علی رضی الله عنہ کے ساتھی ہیں، اور شریح بن حارث کندی ابوامیہ قاضی ہیں، انہوں نے علی رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، یہ تینوں شریح (جن کی تفصیل اوپر گزری) علی رضی الله عنہ کے ساتھی اور ہم عصر ہیں، ۳- «نستشرف» سے مراد«ننظر صحيحا» ہے یعنی قربانی کے جانور کو ہم اچھی طرح دیکھ لیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأضاحي ۶ (۲۸۰۴) ، سنن النسائی/الضحایا ۱۰ (۴۳۷۹) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۸ (۳۱۴۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۱۲۵) ، و مسند احمد (۱/۸۰، ۱۰۸، ۱۲۸، ۱۴۹) ، سنن الدارمی/الأضاحي ۳ (۱۹۹۵) (ضعیف) (سند میں ’’ ابواسحاق سبیعی ‘‘ مختلط اور مدلس ہیں، نیز ’’ شریح ‘‘ سے ان کا سماع نہیں، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر ناک کان دیکھ لینے کا مطلق حکم ثابت ہے)
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ كِدَامِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي كِبَاشٍ، قَالَ: جَلَبْتُ غَنَمًا جُذْعَانًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَكَسَدَتْ عَلَيَّ، فَلَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " نِعْمَ " أَوْ: " نِعْمَتِ الْأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ "، قَالَ: فَانْتَهَبَهُ النَّاسُ قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ بِلَالِ ابْنَةِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِيهَا، وَجَابِرٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَعُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ هُوَ: ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْجَذَعَ مِنَ الضَّأْنِ يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ.
ابوکباش کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تجارت کے لیے جذع یعنی دنبہ کے چھوٹے بچے لایا اور بازار مندا ہو گیا ۱؎، لہٰذا میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ملاقات کی، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "بھیڑ کے جذع کی قربانی خوب ہے!" ابوکباش کہتے ہیں (یہ سنتے ہی) لوگ اس کی خریداری پر ٹوٹ پڑے۔ اس باب میں ابن عباس، ام بلال بنت ہلال کی ان کے والد سے اور جابر، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم اور ایک آدمی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے، ۳- عثمان بن واقدیہ ابن محمد بن زیاد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ہیں، ۴- صحابہ کرام میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ بھیڑ کا جذع قربانی کے لیے کفایت کر جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۴۵۶) وانظر مسند احمد (۲/۴۴۵) (ضعیف) (سند میں ’’ عثمان بن واقد ‘‘ حافظہ کے کمزور اور ’’ کدام ‘‘ و ’’ ابوکباش ‘‘ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یعنی بازار مندہ پڑ گیا دوسری جانب جذع کی قربانی درست نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ انہیں خرید نہیں رہے تھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ ضَحَايَا، فَبَقِيَ عَتُودٌ، أَوْ جَدْيٌ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ أَنْتَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ وَكِيعٌ، الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ: يَكُونُ ابْنَ سَنَةٍ أَوْ سَبْعَةِ أَشْهُرٍ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا، فَبَقِيَ جَذَعَةٌ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " ضَحِّ بِهَا أَنْتَ "،
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک«عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: "تم اس کی قربانی خود کر لو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- وکیع کہتے ہیں: بھیڑ کا جذع، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔ ۳- عقبہ بن عامر سے دوسری سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور تقسیم کیے، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:"تم اس کی قربانی خود کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوکالة ۱ (۲۳۰۰) ، والشرکة ۱۲ (۲۵۰۰) ، والأضاحي ۲ (۵۵۴۷) ، و ۷ (۵۵۵۵) ، صحیح مسلم/الأضاحي ۲ (۱۹۶۵) ، سنن النسائی/الضحایا ۱۳ (۴۳۸۴- ۴۳۸۶) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۷ (۳۱۳۸) ، (تحفة الأشراف : ۹۹۵۵) ، و مسند احمد (۴/۱۴۴، ۱۴۹، ۱۵۲، ۱۵۶) ، سنن الدارمی/الأضاحي ۴ (۱۹۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : راوی کو شک ہو گیا ہے کہ «عتود» کہا یا «جدی»۔
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُو دَاوُدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ بَعْجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے مذکورہ حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۹۹۱۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْبَعِيرِ عَشَرَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي الْأَسَدِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَأَبِي أَيُّوبَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں «ابوالأ سد سلمی عن أبیہ عن جدہ» اور ابوایوب سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۹۰۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سات افراد کی طرف سے گائے اور دس افراد کی طرف سے اونٹ ذبح کرنے کا یہ ضابطہٰ و اصول قربانی کے جانوروں کے لیے ہے ، جب کہ ہدی کے جانور اونٹ ہوں یا گائے سب میں سات سات افراد شریک ہوں گے ، آگے جابر رضی الله عنہ کی روایت سے یہی ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ إِسْحَاق: يُجْزِئُ أَيْضًا الْبَعِيرُ عَنْ عَشَرَةٍ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر (ذبح)کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام میں سے اہل علم اور ان کے علاوہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اونٹ دس آدمی کی طرف سے بھی کفایت کر جائے گا، انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۹۰۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کے لیے دیکھئیے حدیث رقم (۱۵۰۱)۔ ان کی حدیث کا تعلق قربانی سے ہے ، جب کہ جابر کی حدیث کا تعلق حج و عمرہ کے ہدی سے ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ، قُلْتُ: فَإِنْ وَلَدَتْ، قَالَ: اذْبَحْ وَلَدَهَا مَعَهَا، قُلْتُ: فَالْعَرْجَاءُ، قَالَ: إِذَا بَلَغَتِ الْمَنْسِكَ، قُلْتُ: فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ، قَالَ: لَا بَأْسَ، أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ، وَالْأُذُنَيْنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ.
حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جائے گی، حجیہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: اگر وہ بچہ جنے؟ انہوں نے کہا: اسی کے ساتھ اس کو بھی ذبح کر دو ۱؎، میں نے کہا اگر وہ لنگڑی ہو؟ انہوں نے کہا: جب قربان گاہ تک پہنچ جائے تو اسے ذبح کر دو، میں نے کہا: اگر اس کے سینگ ٹوٹے ہوں؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ۲؎، ہمیں حکم دیا گیا ہے، یا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم ان کی آنکھوں اور کانوں کو خوب دیکھ بھال لیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو سفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الضحایا ۱۱ (۴۳۸۱) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۸ (۳۱۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۰۶۲) ، و مسند احمد (۱/۹۵، ۱۰۵، ۱۲۵، ۱۳۲، ۱۵۲) ، وسنن الدارمی/الأضاحي ۳ (۱۹۹۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی قربانی کے لیے گائے خریدی پھر اس نے بچہ جنا تو بچہ کو گائے کے ساتھ ذبح کر دے۔ ۲؎ : ظاہری مفہوم سے معلوم ہوا کہ ایسے جانور کی قربانی علی رضی الله عنہ کے نزدیک جائز ہے ، لیکن آگے آنے والی علی رضی الله عنہ کی مرفوع روایت ان کے اس قول کے مخالف ہے (لیکن وہ ضعیف ہے)۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ، وَالْأُذُنِ "، قَالَ قَتَادَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: الْعَضْبُ: مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: «عضب» (سینگ ٹوٹنے) سے مراد یہ ہے کہ سینگ آدھی یا اس سے زیادہ ٹوٹی ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الضحایا ۶ (۲۸۰۵) ، سنن النسائی/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۲) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۸ (۳۱۴۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۰۳۱) ، و مسند احمد (۱/۸۳، ۱۰۱، ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۲۹، ۱۵۰) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ جری ‘‘ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ: " كَانَالرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: مَدَنِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق: " وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍ، فَقَالَ: هَذَا عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي "، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا تُجْزِي الشَّاةُ إِلَّا عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو دیکھ رہے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا: "یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے"، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی، عبداللہ بن مبارک اور دوسرے اہل علم کا یہی قول ہے (لیکن راجح پہلا قول ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأضاحی ۱۰ (۳۱۴۷) ، (تحفة الأشراف : ۳۴۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی لوگ قربانی کرنے میں فخر و مباہات سے کام لینے لگے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ ؟ فَقَالَ " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ "، فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَتَعْقِلُ، ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: " أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ، وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُعْمَلَ بِهَا "، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ.
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے، سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۲ (۳۱۲۴، ۳۱۲۴/م) (تحفة الأشراف : ۶۶۷۱) (ضعیف) (سند میں ’’ حجاج بن ارطاة ‘‘ ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواة سے ضعیف ہے، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاة کوفی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : بعض نے «من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا» جس کے ہاں مالی استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے ، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا قول ہے ، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے ، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے ، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صریح نہیں ہیں ، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ (ہر سال) قربانی کرتے رہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۶۴۵) (ضعیف) (سند میں ’’ حجاج بن ارطاة ‘‘ مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ نَحْرٍ، فَقَالَ: " لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ "، قَالَ: فَقَامَ خَالِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ، وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي، وَأَهْلَ دَارِي، أَوْ جِيرَانِي، قَالَ: " فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ، وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَجُنْدَبٍ، وَأَنَسٍ، وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُضَحَّى بِالْمِصْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَهْلِ الْقُرَى فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنَ الْمَعْزِ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: "جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے"۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: "پھر دوسری قربانی کرو"، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا میں اس کو ذبح کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ (بچے) کی قربانی کافی نہ ہو گی" ۲؎۔ اس باب میں جابر، جندب، انس، عویمر بن اشقر، ابن عمر اور ابوزید انصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک امام نماز عید نہ ادا کر لے شہر میں قربانی نہ کی جائے، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجر طلوع ہو جائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، ۴- اہل علم کا اجماع ہے کہ بکری کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العیدین ۳ (۹۵۱) ، و ۵ (۹۵۵) ، و ۸ (۹۵۷) ، و ۱۰ (۹۶۸) ، و ۱۷ (۹۷۶) ، و ۲۳ (۹۸۳) ، والأضاحي ۱ (۵۵۴۵) ، و ۸ (۵۵۵۶-۵۵۵۷) و ۱۱ (۵۵۶۰) و ۱۲ (۵۵۶۳) ، والأیمان والندور ۱۵ (۶۶۷۳) ، صحیح مسلم/الأضاحي ۱ (۱۹۶۱) ، سنن ابی داود/ الأضاحي ۵ (۲۸۰۰) ، سنن النسائی/العیدین ۸ (۱۵۶۴) ، والضحایا ۱۷ (۴۴۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۶۹) ، و مسند احمد (۴/۲۸۰، ۲۹۷، ۳۰۲، ۳۰۳) وسنن الدارمی/الأضاحي ۷ (۲۰۰۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔ ۲؎ : یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیونکہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں «مسنہ» (دانتا یعنی دو دانت والا) ہی جائز ہے ، بکری کا «جذعہ» وہ ہے جو سال پورا کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہو اس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ رضی الله عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے ، اگر کسی نے نماز عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی ، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیئے۔ ۳؎ : بھیڑ کے «جذعہ» (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے ، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی الله عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَأْكُلُ أَحَدُكُمْ مِنْ لَحْمِ أُضْحِيَّتِهِ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا كَانَ النَّهْيُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَدِّمًا، ثُمَّ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ کھائے" ۱؎۔ اس باب میں عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ ممانعت پہلے تھی، اس کے بعد آپ نے اجازت دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الأضاحي ۵ (۱۹۷۰) ، (تحفة الأشراف : ۸۲۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ فرمان خاص وقت کے لیے تھا جو اگلی حدیث سے منسوخ ہو گیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُنْتُنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ لِيَتَّسِعَ ذُو الطَّوْلِ عَلَى مَنْ لَا طَوْلَ لَهُ، فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَنُبَيْشَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ مالدار لوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کر دیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے، سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور (گوشت) جمع کر کے رکھو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، ۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، نبیشہ، ابوسعید، قتادہ بن نعمان، انس اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۶ (۹۷۷/۱۰۶) ، والأضاحي ۵ (۹۷۷/۳۷) ، سنن ابی داود/ الأشربة ۷ (۳۶۹۸) ، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۰ (۲۰۳۴) ، سنن ابی داود/ الأضاحي ۳۶ (۴۴۳۴، ۴۴۳۵) ، والأشربة ۴۰ (۵۶۵۴- ۵۶۵۶) (تحفة الأشراف : ۱۹۳۲) ، و مسند احمد (۵/۳۵۰، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ اب اللہ نے عام مسلمانوں کے لیے بھی کشادگی پیدا کر دی ہے اور اب اکثر کو قربانی میسر ہو گئی ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: " قُلْتُ لِأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ ؟ قَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ قَلَّ مَنْ كَانَ يُضَحِّي مِنَ النَّاسِ فَأَحَبَّ أَنْ يَطْعَمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ يُضَحِّي، وَلَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ هِيَ: عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهَا هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرماتے تھے؟ وہ بولیں: نہیں، لیکن اس وقت بہت کم لوگ قربانی کرتے تھے، اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جو لوگ قربانی نہیں کر سکے ہیں انہیں کھلایا جائے، ہم لوگ قربانی کے جانور کے پائے رکھ دیتے پھر ان کو دس دن بعد کھاتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ام المؤمنین (جن سے حدیث مذکور مروی ہے) وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی الله عنہا ہیں، ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأطعمة ۲۷ (۵۴۲۳) ، و ۳۷ (۵۴۳۸) ، والأضاحي ۱۶ (۵۵۷۰) ، سنن النسائی/الضحایا ۳۷ (۴۴۳۷) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا۱۶ (۱۵۱۱) ، والأطعمة ۳۰ (۳۱۵۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۶۵) ، و مسند احمد (۶/۱۰۲، ۲۰۹) (صحیح) (وعند صحیح مسلم/الأضاحي ۵ (۱۹۷۱) ، و سنن ابی داود/ الضحایا ۱۰ (۲۸۱۲) ، و موطا امام مالک/الضحایا ۴ (۷) و مسند احمد (۶/۵۱) ، سنن الدارمی/الأضاحي ۶ () نحوہ)
وضاحت: ۱؎ : مقصود یہ ہے کہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کر کے رکھتے اور قربانی کے بعد اسے کئی دنوں تک کھاتے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ، وَالْفَرَعُ: أَوَّلُ النِّتَاجِ كَانَ يُنْتَجُ لَهُمْ فَيَذْبَحُونَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ نُبَيْشَةَ، وَمِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ، وَأَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَتِيرَةُ: ذَبِيحَةٌ كَانُوا يَذْبَحُونَهَا فِي رَجَبٍ، يُعَظِّمُونَ شَهْرَ رَجَبٍ لِأَنَّهُ أَوَّلُ شَهْرٍ مِنْ أَشْهُرِ الْحُرُمِ، وَأَشْهُرِ الْحُرُمِ: رَجَبٌ، وَذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَأَشْهُرُ الْحَجِّ: شَوَّالٌ، وَذُو الْقَعْدَةِ، وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، كَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(اسلام میں) نہ «فرع» ہے نہ «عتيرة» ، «فرع» جانور کا وہ پہلا بچہ ہے جو کافروں کے یہاں پیدا ہوتا تو وہ اسے (بتوں کے نام پر) ذبح کر دیتے تھے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں نبیشہ، مخنف بن سلیم اور ابوالعشراء سے بھی احادیث آئی ہیں، ابوالعشراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، ۳- «عتيرة» وہ ذبیحہ ہے جسے اہل مکہ رجب کے مہینہ میں اس ماہ کی تعظیم کے لیے ذبح کرتے تھے اس لیے کہ حرمت کے مہینوں میں رجب پہلا مہینہ ہے، اور حرمت کے مہینے رجب ذی قعدہ، ذی الحجہ، اور محرم ہیں، اور حج کے مہینے شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دن ہیں۔ حج کے مہینوں کے سلسلہ میں بعض صحابہ اور دوسرے لوگوں سے اسی طرح مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العقیقة ۳ (۵۴۷۳) ، و ۴ (۵۴۷۴) ، صحیح مسلم/الأضاحي ۶ (۱۹۷۶) ، سنن ابی داود/ الضحایا ۲۰ (۲۸۳۱) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة۱ (۴۲۲۷) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۲ (۲۸۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۲۶۹) ، و مسند احمد (۲/۲۲۹، ۲۳۹، ۲۷۹، ۴۹۰) ، سنن الدارمی/الأضاحي ۸ (۲۰۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أبو سلمة يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْيُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَسَأَلُوهَا عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَأَخْبَرَتْهُمْ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأُمِّ كُرْزٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَنَسٍ، وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَفْصَةُ هِيَ: بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
یوسف بن ماہک سے روایت ہے کہ لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ (ان کی پھوپھی) ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حفصہ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی ہیں، ۳- اس باب میں علی، ام کرز، بریدہ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱ (۳۱۶۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۱۳) ، و مسند احمد (۶/۳۱، ۱۵۸، ۲۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں ، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں ، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ «عق» سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں ، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہا گیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیئے ، «شاة» کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں ، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے ، عقیقہ کے جانور کا دو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ، البتہ «شاة» کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ «شاة» کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں ، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف «شاة» کا تذکرہ نہ فرماتے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ فِي الْعَقِيقَةِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ، وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا: أَنَّهُ عَقَّ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِشَاةٍ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۱۶ (۵۱۰۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۰۲۰) و مسند احمد (۶/۹، ۳۹۱، ۳۹۲) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں، اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے۔دیکھیے الضعیفة رقم ۳۲۱ و ۶۱۲۱)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْالرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى "، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلمان بن عامر ضبی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ لازم ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو"۔ اس سند سے بھی سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العقیقة ۲ (۵۳۷۱) ، سنن ابی داود/ الضحایا ۲۱ (۲۸۳۹) ، سنن النسائی/العقیقة ۲ (۴۲۱۹) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱ (۳۱۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۴۴۸۵) ، و مسند احمد (۴/۱۷، ۱۸، ۲۱۴) سنن الدارمی/الأضاحي ۹ (۲۰۱۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَقَالَ: " عَنْالْغُلَامِ شَاتَانِ، وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ، وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام کرز رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الضحایا ۲۱ (۲۸۸۳۴-۲۸۳۵) ، سنن النسائی/العقیقة ۲ (۴۲۲۰) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱ (۳۱۶۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۳۵۱) ، و مسند احمد (۶/۳۸۱، ۴۲۲) سنن الدارمی/الأضاحي ۹ (۲۰۰۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ الْأُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ، وَخَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قربانی کے جانوروں میں سب سے بہتر مینڈھا ہے اور سب سے بہتر کفن «حلة» (تہبند اور چادر) ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- عفیر بن معدان حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۴ (۳۱۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۴۸۶۶) (ضعیف) (سند میں ’’ عفیر بن معدان ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَمْلَةَ، عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: كُنَّا وُقُوفًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةٌ وَعَتِيرَةٌ، هَلْ تَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ ؟ هِيَ الَّتِي تُسَمُّونَهَا الرَّجَبِيَّةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ.
مخنف بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے آپ کو فرماتے سنا: لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال ایک قربانی اور «عتيرة» ہے، تم لوگ جانتے ہو «عتيرة» کیا ہے؟ «عتيرة» وہ ہے جسے تم لوگ «رجبية» کہتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو ابن عون ہی کی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأضاحي ۱ (۲۷۸۸) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ۱ (۴۲۲۹) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۲ (۳۱۲۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۲۴۴) ، و مسند احمد (۴/۲۱۵) و (۵/۷۶) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : جو بعد میں منسوخ ہو گیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ، وَقَالَ: يَا فَاطِمَةُ، احْلِقِي رَأْسَهُ، وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً، قَالَ: فَوَزَنَتْهُ، فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا: "فاطمہ! اس کا سر مونڈ دو اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو"، فاطمہ رضی الله عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس کی سند متصل نہیں ہے، اور راوی ابوجعفر الصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۲۶۱) (حسن) (سند مںل ’’ محمد بن علی ابو جعفرالصادق ‘‘ اور ’’ علی رضی الله عنہ ‘‘ کے درمیان انقطاع ہے، مگر حاکم کی روایت (۴/۲۳۷) متصل ہے، نیز اس کے شواہد بھی ہیں جسے تقویت پا کر حدیث حسن لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ نومولود کے سر کا بال وزن کر کے اسی کے برابر چاندی صدقہ کیا جائے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَطَبَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِكَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر (منبر سے) اترے پھر آپ نے دو مینڈھے منگائے اور ان کو ذبح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (یہ عید الاضحی کی نماز کے بعد کیا تھا، دیکھئیے اگلی حدیث)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ۹ (۱۶۷۹) ، سنن النسائی/الضحایا ۱۴ (۴۳۹۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۶۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَضْحَى بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِهِ، فَأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ إِذَا ذَبَحَ، بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، يُقَالُ: إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی کے دن عید گاہ گیا، جب آپ خطبہ ختم کر چکے تو منبر سے نیچے اترے، پھر ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، اور (ذبح کرتے وقت) یہ کلمات کہے: «بسم الله والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اہل علم صحابہ اور دیگر لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت آدمی یہ کہے «بسم الله والله أكبر» ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، کہا جاتا ہے، ۳- راوی مطلب بن عبداللہ بن حنطب کا سماع جابر سے ثابت نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الضحایا۸ (۲۸۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۱ (۳۱۲۱) ، (تحفة الأشراف : ۳۰۹۹) ، و مسند احمد (۳/۳۵۶، ۳۶۲) ، وسنن الدارمی/الأضاحي۱ (۱۹۸۹) (صحیح) (’’ مطلب ‘‘ کے ’’ جابر ‘‘ رضی الله عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، الإرواء ۱۱۳۸، وتراجع الألبانی ۵۸۰)
وضاحت: ۱؎ : میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ سب سے بڑا ہے ، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے ، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔ (یہ آخری جملہ اس بابت واضح اور صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ان افراد کی طرف سے قربانی کی جو زندہ تھے اور مجبوری کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکے تھے ، اس میں مردہ کو شامل کرنا زبردستی ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْغُلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ، يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُسَمَّى وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ ".
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بچہ عقیقہ کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے ۱؎، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے سر کے بال منڈائے جائیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العقیقة ۲ (۵۴۷۲) ، (اشارة بعد حدیث سلمان الضبي) سنن ابی داود/ الضحایا ۲۱ (۲۸۳۷) ، سنن النسائی/العقیقة ۵ (۴۲۲۵) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱ (۳۱۶۵) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۸۱) ، و مسند احمد (۵/۷، ۸، ۱۲، ۱۷، ۱۸، ۲۲) وسنن الدارمی/الأضاحي ۹ (۲۰۱۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «مرتهن» کے مفہوم میں اختلاف ہے : سب سے عمدہ بات وہ ہے جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمائی ہے کہ یہ شفاعت کے متعلق ہے ، یعنی جب بچہ مر جائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو قیامت کے دن وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت نہیں کر سکے گا ، ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں ، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بالوں کی گندگی و ناپاکی میں مرہون ہے ، اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ اس سے گندگی کو دور کرو۔ ۲؎ : اس سلسلہ میں صحیح حدیث تو درکنار کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں ملتی جس سے اس شرط کے قائلین کی تائید ہوتی ہو۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُذْبَحَ عَنِ الْغُلَامِ الْعَقِيقَةُ يَوْمَ السَّابِعِ، فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ يَوْمَ السَّابِعِ، فَيَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ، فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عُقَّ عَنْهُ يَوْمَ حَادٍ وَعِشْرِينَ، وَقَالُوا: لَا يُجْزِئُ فِي الْعَقِيقَةِ مِنَ الشَّاةِ، إِلَّا مَا يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ.
اس سند سے بھی سمرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ بچے کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب سمجھتے ہیں، اگر ساتویں دن نہ کر سکے تو چودہویں دن، اگر پھر بھی نہ کر سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے، یہ لوگ کہتے ہیں: اسی بکری کا عقیقہ درست ہو گا جس کی قربانی درست ہو گی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: *تخريج: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۴۵۷۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرٍو أَوْ عُمَرَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالصَّحِيحُ هُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ، قَدْ رَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ نَحْوَ هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ كَانَ يَقُولُ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَإِلَى هَذَا الْحَدِيثِ ذَهَبَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ، فَقَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْعَثُ بِالْهَدْيِ مِنْ الْمَدِينَةِ، فَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ مِنْهُ الْمُحْرِمُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کر لے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- (عمرو اور عمر میں کے بارے میں) صحیح عمرو بن مسلم ہے، ان سے محمد بن عمرو بن علقمہ اور کئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے، دوسری سند سے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے، سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۳- بعض اہل علم کا یہی قول ہے، سعید بن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے، ۴- بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے، وہ لوگ کہتے ہیں: بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شافعی کا یہی قول ہے، وہ عائشہ رضی الله عنہا کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور مدینہ روانہ کرتے تھے اور محرم جن چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الأضاحي ۷ (۱۹۷۷) ، سنن ابی داود/ الضحایا ۳ (۲۷۹۱) ، سنن النسائی/الضحایا ۱ (۴۳۶۷) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۱۱ (۳۱۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۱۵۲) ، و مسند احمد (۶/۲۸۹، ۳۰۱) ، ۳۱۱) ، سنن الدارمی/الأضاحي ۲ (۱۹۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عائشہ رضی الله عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ «واللہ اعلم»