قریب المرگ سے مراہ وہ مریض ہے جس پر علامات موت ظاہر ہونے لگیں اور علماء نے لکھا ہے کہ علامات موت یہ ہے کہ مریض کے پاؤں سست ہو جاتے ہیں کہ اگر انہیں کھڑا کیا جائے تو کھڑے نہ ہو سکیں، ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے کنپٹیاں بیٹھ جاتی ہیں اور بیضتین کا پوست لٹک جاتا ہے۔ اور قریب المرگ کے پاس پڑھی جانے والی چیز سے مراد ہے کلمہ طیبہ یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تلقین، سورہ یسین کی تلاوت، انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا اور دعائے مغفرت وغیرہ۔
حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو لوگ قریب المرگ ہوں انہیں (کلمہ) لاالہ الا اللہ کی تلقین کرو (مسلم)
تشریح
تلقین کے معنی پڑھنا ہیں تلقین سے مراد قریب المرگ کے رو برو کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھنا، تاکہ وہ بھی سن کر پڑھے مگر قریب المرگ سے نہ کہا جائے یہ تم بھی پڑھو مبادا کہ شدت مرض یا بدحواسی کے سبب اس کے منہ سے انکار نکل جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ تلقین مستحب ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم کسی مریض کے پاس یا قریب المرگ کے پاس جاؤ تو منہ سے خیر و بھلائی کے کلمات نکالو کیونکہ تمہاری زبان سے جو کچھ نکلتا ہے (خواہ دعائے خیر و بھلائی ہو یا دعاء شر و بد) فرشتے آمین کہتے ہیں (مسلم)
تشریح
حدیث کے لفظ میت سے میت حکمی یعنی قریب المرگ بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور میت حقیقی یعنی وہ مردہ بھی مراد ہو سکتا ہے لہٰذا اگر میت حکمی مراد ہو گا تو لفظ او راوی کے شک کے اظہار کے لیے ہو گا اور اگر میت حقیقی مراد لیا جائے تو لفظ او تنویع کے لیے ہو گا۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مریض و قریب المرگ کے سامنے اپنی زبان سے خیر و بھلائی کے کلمات ادا کرو بایں طور کہ اپنے لیے تو خیر کی، مریض کے لیے شفا کی اور میت کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی مسلمان کسی (چھوٹی یا بڑی) مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ الفاظ کہتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ہم خدا ہی کے ہیں اور اسی طرف ہم کو واپس جانا ہے۔ دعا (اللہم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منہا) اے اللہ ! میری مصیبت پر مجھے ثواب دے (اور اس مصیبت میں) جو چیز میرے ہاتھ سے گئی ہے اس کا نعم البدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس چیز کا بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ (یعنی میرے پہلے شوہر) کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ ابو سلمہ سے بہتر کون مسلمان ہو گا وہ ابو سلمہ جنہوں نے سب سے پہلے مع اہل و عیال کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف ہجرت کی اور پھر میں نے مذکورہ بالا کلمات کہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ کے بدلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمایا یعنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح میں آئی)۔ (مسلم)
تشریح
انا للہ وانا الیہ راجعون کا مطلب یہ ہے کہ ہم اور جو چیزیں کہ ہماری کہلاتی ہیں سب خدا ہی کی ملکیت اور اس کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ہم لوٹ کر اسی طرف جانے والے ہیں گویا اس آیت میں یہ تسلیم و اقرار ہے کہ خود ہماری جان اور ہماری ذات اور وہ چیزیں جن کا ہم اپنے کو مالک سمجھتے ہیں اور وہ ہمارے اختیار میں ہیں اور ہماری طرف ان کی نسبت کی جاتی ہے وہ سب کی سب حقیقت میں خدا ہی کی ملکیت میں ہے ہمارے پاس تو وہ صرف عاریتاً ہیں۔ خدا ہی کی طرف سے ہماری ابتداء ہوئی اور اس کی طرف ہماری انتہا بھی ہے۔
لہٰذا جو شخص اس مضمون کو اپنے قلب و دماغ میں راسخ کرے اور جس مصیبت میں وہ مبتلا ہو اس مصیبت پر صبر و رضا کے دامن کو پکڑے رہے تو اس کے لیے وہی مصیبت کی ہر مصیبت آسان و سہل ہو جاتی ہے لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ مصیبت و بلاء پر جزع و فزع کے ساتھ اس آیت کو محض زبان سے ادا کرنا چنداں مفید نہیں ہے۔
اگر کسی شخص کو یہ اشکال پیدا ہو کہ مذکورہ بالا آیت و کلمات کے پڑھنے کا حکم بیان نہیں فرمایا تو پھر ارشاد گرامی کے اس جزء، فیقول ما امرہ اللہ بہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ کہے) کا کیا مطلب ہے؟ تو اس کا جواب مختصر طور پر یہ ہو گا کہ جب اس آیت اور مذکورہ بالا کلمات کے پڑھنے والے کی فضیلت بیان فرما دی تو گویا یہ حکم ہی فرمایا گیا ہے۔
لفظ اجرنی ہمزہ (الف) کے جزم اور جیم کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اور ہمزہ کے زبر اور جیم کے زیر کے ساتھ بھی منقول ہے مگر دونوں کا معنی و مراد ایک ہی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد فلما مات ابو سلمہ (جب ابو سلمہ کا انتقال ہوا الخ) کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث مبارکہ پہلے سے سن رکھی تھی، چنانچہ جب میرے خاوند ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے وفات پائی تو آپ کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اور فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے میں نے چاہا کہ یہی کلمات پڑھو مگر میرے دل میں یہ خیال ہوا کہ حضرت ابو سلمہ سے بہتر اور کون شخص ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ابو سلمہ کے بدلہ میں مجھے بطور خاوند عطا فرمائے گا۔ چنانچہ ام سلمہ حضرت ابو سلمہ کی فضیلت بیان کرتی ہیں کہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ گئے تھے۔ ان میں حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ہی وہ سب سے پہلے مرد حق آگاہ تھے جنہوں نے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ پھر یہ کہ حضرت ابو سلمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی بھی تھے اس کے بعد حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ باوجود اس خلجان کے میں نے مذکورہ کلمات پڑھے جس کے سبب سے مجھے دنیا و آخرت کی سب سے عطیم سعادت و فضیلت حاصل ہوئی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح میں آئی جو افضل البشر ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (میرے پہلے شوہر) حضرت ابو سلمہ کے پاس اس وقت تشریف لائے جب کہ ان کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی آنکھوں کو بند کیا اور فرمایا کہ جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ بینائی بھی چلی جاتی ہے۔ ابو سلمہ کے اہل بیت (یہ سن کر) سمجھ گئے کہ ابو سلمہ کا انتقال ہو گیا چنانچہ وہ سب رونے، چلانے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے نفسوں کے بارے میں خیر و بھلائی ہی کی دعا کرو (یعنی واویلا اور بد دعا نہ کرو) کیونکہ تم (بری یا بھلی) جس دعا کے بھی الفاظ اپنے منہ سے نکالتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ دعا ارشاد فرمائی۔ (اللہم اغفر لابی سلمہ وارفع درجتہ فی المہدیین واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین وغفرلنا ولہ یا رب العالمین وافسح لہ فی قبرہ ونور لہ فیہ)۔ اے اللہ، ابو سلمہ کو بخش دے اور اس کا مرتبہ بلند فرما ان لوگوں میں جو سیدھی راہ دکھائے گئے ہیں اور اس کے پسماندگان کا جو باقی رہے ہوئے لوگوں میں ہیں کارساز بن جا اور اے دونوں جہاں کے پروردگار! ہمیں اور اس کو بخش دے اور اس کی قبر میں کشادگی کر اور اس کے لیے قبر کو منور فرما دے۔ آمین۔ (مسلم)
تشریح
ارشاد گرامی کے الفاظ ان الروح اذا قبض الخ کے ذریعہ گویا آپ اغماض یعنی آنکھیں بند کرنے کی علت بیان فرما رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آنکھوں کو اس لیے بند کر دیا کہ جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ بینائی بھی چلی جاتی ہے لہٰذا آنکھیں کھلی رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص کا آخری کلام الا الہ الا اللہ ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ (ابوداؤد)
تشریح
مراد یہ ہے کہ جو شخص آخری وقت میں پورا کلمہ طیب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اب یہ احتمال ہے کہ چاہے تو یہ دخول جنت عذاب سے پہلے دخول خاص ہے یا اپنے گناہوں کے بقدر عذاب دیئے جانے کے بعد ہو۔ لیکن پہلا ہی احتمال صحیح معلوم ہوتا ہے تاکہ ان مومنین میں جو کلمہ طیب پڑھتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کریں اور ان مومنین میں کہ جن کا آخری کلام کلمہ طیب نہ ہو امتیاز پیدا ہو جائے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے مردوں کے سامنے سورۃ یٰسین پڑھو (احمد ابو داؤد، ابن ماجہ)
تشریح
مردوں سے مراد قریب المرگ ہیں۔ اس صورت میں سورہ یٰسین پڑھنے کی حکمت بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ قریب المرگ اس سورۃ میں مذکورہ مضامین مثلاً ذکر اللہ، احوال قیامت، بعث اور اسی قسم کے دوسرے عجیب و بدیع مضامین سے لطف اندوز ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حدیث میں لفظ مردوں سے مراد قریب المرگ نہ ہوں بلکہ حقیقی مردے مراد ہوں اس صورت میں اس کلمہ کا مطلب یہ ہو گا کہ سورہ یٰسین مردہ کے پاس اس کے گھر میں دفن سے پہلے دفن کے بعد اس کی قبر کے سرہانے پڑھی جائے۔
ابن مردویہ رحمۃ اللہ وغیرہ نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس میت (یعنی قریب المرگ یا حقیقی میت) کے سر کے پاس سورۃ یٰسین پڑھی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر آسانی فرماتا ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ وغیرہ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص اپنے والدین کی یا ان میں سے کسی ایک کی (یعنی صرف ماں کی یا صرف باپ کی) قبر پر ہر جمعہ کو جاتا ہے اور پھر وہاں سورہ یٰسین پڑھتا ہے تو صاحب قبر کے لیے سورہ یٰسین کے تمام حروف کی تعداد کے بقدر مغفرت عطا کی جاتی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جمعہ سے مراد حسب ظاہر خاص طور پر یوم جمعہ بھی ہو سکتا ہے اور پورا ہفتہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عثمان بن مظعون کی وفات کے بعد ان کو بوسہ دیا اور ان کی مٹی پر روئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنسو حضرت عثمان کے چہرے پر (ٹپک کر) بہہ نکلے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
مہاجرین میں سے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہی کا سب سے پہلے انتقال مدینہ میں ہوا ہے چنانچہ سب سے پہلے یہی بقیع میں دفن کیے گئے جس کے بعد بقیع کو قبرستان کی حیثیت دی گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے پتھر اٹھا کر ان کی قبر پر بطور نشان کے رکھا۔ رضی اللہ عنہ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان میت کو دفن کرنے سے پہلے بوسہ دینا اور مسلمان میت پر آنسوؤں کے ساتھ رونا جائز ہے۔
٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسد اطہر پر بوسہ دیا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت حصین ابن وحوح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور (ان کے اہل بیت سے) فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ طلحہ کی موت آ گئی ہے (یعنی ان پر علامات موت ظاہر ہونے لگی ہیں) لہٰذا جب ان کا انتقال ہو جائے تو مجھے (فورا) خبر دینا۔ (تاکہ میں ان کی نماز پڑھنے کے لیے آ سکوں) اور تم تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کرنا کیونکہ مسلمان میت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے لوگوں کے درمیان روکے رکھا جائے (ابوداؤد)
تشریح
اگر میت کی تکفین و تدفین میں تاخیر ہو تو لاش کے سڑ جانے کا خوف ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ لاش کے سڑ جانے سے لوگ اس سے بے اعتنائی اور نفرت کا معاملہ کرتے ہیں اس صورت میں میت کی حقارت اور توہین ہوتی ہے مومن کو چونکہ اللہ تعالیٰ معظم و مکرم پیدا فرماتا ہے اس لیے فرمایا کہ اس کی تکفین و تدفین میں جلدی کرو تاکہ مذکورہ بالا صورت پیدا نہ ہو سکے۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ قریب المرگ کو اس کلمہ کی تلقین کرو، دعا (لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب العرش العظیم الحمدللہ رب العالمین)۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بردبار و بزرگ ہے پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کی ہیں جو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! تندرستوں کو یہ کلمہ سکھانا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہتر اور بہت بہتر۔ (ابن ماجہ)
تشریح
ابن عساکر رحمۃ اللہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند کلمات سنے ہیں کہ جو شخص انہیں اپنے انتقال کے وقت پڑھ لے تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور وہ کلمات یہ ہیں۔ لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم تین مرتبہ الحمدللہ رب العالمین تین مرتبہ اور اس کے بعد آیت (تبارک الذی بیدہ المک یحیی ویمیت وھو علی کل شئی قدیر)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک و صالح ہوتا ہے تو (اس کی روح سے رحمت کے) فرشتے کہتے ہیں کہ اے پاک جان جو پاک بدن میں تھی! اس حال میں (جسم سے) نکل کہ (خدا اور مخلوق کے نزدیک) تیری تعریف کی گئی ہے اور تجھے خوشخبری ہو دائمی راحت و سکون کی، جنت کے پاک رزق کی اور خدا سے ملاقات کی جو (تجھ پر) غضبناک نہیں ہے۔ قریب المرگ کے سامنے فرشتے برابر یہی بات کہتے ہیں یہاں تک کہ روح (خوشی خوشی) باہر نکل آتی ہے اور پھر فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں، آسمان کا دروازہ اس کے لیے (فرشتوں کے کہنے سے یا پہلے ہی سے) کھول دیا جاتا ہے (آسمان کے دربان) پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے؟ اسے لے جانے والے فرشتے (اس کا نام و نسب بتا کر) کہتے ہیں کہ یہ فلاں شخص (کی روح) ہے۔ پس کہا جاتا ہے کہ آفرین ہو اس جان پاک کو جو پاک بدن میں تھی اور (اے پاک جان آسمان میں) داخل ہو اس حال میں کہ تیری تعریف کی گئی اور خوشخبری ہو تجھے راحت کی، پاک رزق کی اور پروردگار سے ملاقات کی جو غضبناک نہیں ہے۔ اس روح سے برابر یہی بات کہی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس آسمان پر (یعنی عرش پر) پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اللہ رب العزت کی رحمت خاص جلوہ فرما ہے!۔ اور اگر وہ برا (یعنی کافر) ہوتا ہے تو ملک الموت کہتے ہیں کہ اے خبیث جان جو پلید بدن میں اس حال میں (جسم سے) باہر نکل کہ تیری برائی کی گئی ہے اور یہ بری خبر سن لے کہ گرم پانی، پیپ اور ان کے علاوہ دوسری طرح کے عذاب تیرے منتظر ہیں۔ اس بدبخت قریب المرگ کے سامنے بار بار یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح (بادل نخواستہ) باہر نکل آتی ہے پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے (تاکہ اس کی ذلت و خواری اس پر ظاہر کر دی جائے) جب اس کے لیے آسمان کے دروازے کھلوائے جاتے ہیں تو دربانوں کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون شخص ہے؟ جواب دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص! پس کہا جاتا ہے کہ نفریں ہو اس خبیث جان پر جو پلید جسم میں تھی اور (اے خبیث جان) واپس چلی جا اس حال میں کہ تیری برائی کی گئی ہے اور تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ چنانچہ اسے آسمان سے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ قبر کی طرف آ جاتی ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قریب المرگ کے پاس اس کی روح قبض کرنے کے لیے رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آتے ہیں، اگر قریب المرگ نیک و صالح ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے اپنا کام کرتے ہیں اور قریب المرگ بدکار ہوتا ہے تو پھر عذاب کے فرشتے اپنا کام کرتے ہیں۔
نیک و صالح سے یا عمومی طور پر مومن مراد ہے یا پھر وہ نیک بخت مراد ہے جو حقوق اللہ حقوق العباد دونوں ادا کرتا ہے اور اس کی زندگی اطاعت و فرمانبردار کی راہ پر گزری ہو۔
حدیث میں نیک و صالح اور کافر کی روح قبض کرنے کے بارے میں تو تفصیل بتائی گئی ہے لیکن فاسق کے بارے میں بالکل سکوت اختیار کیا گیا کیونکہ فاسق کے بارے میں کتاب و سنت کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ خوف و رجاء کے درمیان رہے۔
مومن اور کافر کی روح کے درمیان اس امتیاز اور فرق کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کافر کی روح تو آسمان سے دھتکار دی جاتی ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے اسفل السافلین میں قید کر دیا جاتا ہے بخلاف مومن صالح کی روح کے کہ اسے آزادی حاصل ہوتی ہے اور آسمان و زمین میں جہاں چاہتی ہے سیر کرتی ہے، جنت میں میوے کھاتی ہے، عرش کے نیچے قندیلوں کی طرف اپنی جگہ اختیار کرتی ہے۔ پھر یہ کہ اسے قبر اپنے جسم کے ساتھ بھی تعلق رہتا ہے بایں طور کہ مردہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے سکوت و راحت سے لطف اندوز ہوتا ہے، دولھا کی نیند سوتا ہے اور اپنے اپنے حسب مراتب و درجات جنت میں اپنا مسکن دیکھتا رہتا ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ روح کا معاملہ اور برزخ کے احوال اگرچہ خوارق عادات میں سے ہیں کہ ہماری دنیاوی زندگی ان سے مانوس و متعارف نہیں لیکن اس امور کے وقوع کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ علیہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور روح سے کہتے ہیں کہ تو (جسد سے) نکل اس حال میں کہ تو اللہ تعالیٰ سے راضی ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی، بہترین رزق اور پروردگار کی طرف کہ جو تجھ پر غضبناک نہیں ہے چل، چنانچہ روح مشک کی بہترین خوشبو کی طرح (جسم سے) نکلتی ہے اور فرشتے اس کو (از راہ تعظیم و تکریم) ہاتھوں ہاتھ لے چلتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان کے دروازوں تک آتے ہیں، وہاں فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ کیا خوب ہے یہ خوشبو جو تمہارے پاس زمین سے آ رہی ہے۔ پھر اسے ارواح مومنین کے پاس علیین میں یا جنت میں یا جنت کے دروازہ پر اور یا عرش کے نیچے کہ جہاں مومنین کی روحیں اپنے اپنے حسب مراتب و درجات رہتی ہیں۔ چانچہ وہ روحیں اس روح کے آنے سے اسی طرح خوش ہوتی ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص اس وقت خوش ہوتا ہے جب کہ اس کے پاس اس کا غائب آتا ہے یعنی تم میں سے کوئی شخص جب سفر سے واپس آتا ہے تو جس طرح اس کے اہل و عیال اس کی واپسی پر خوش ہوتے ہیں اس طرح آسمان میں مومنین کی روحیں اس وقت بہت زیادہ خوش ہوتی ہیں جب کہ کسی مومن کی روح زمین سے ان کے پاس آتی ہے، پھر تمام روحیں اس روح سے پوچھتیں ہیں کہ فلاں کیا کرتا ہے اور فلاں کیا کرتا ہے؟ یعنی روحیں ان متعارفین کے بارے میں جنہیں وہ دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں نام بنام پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کا کیا حال ہے مگر پھر روحیں (خود) آپ میں کہتی ہیں کہ اس روح کو چھوڑ دو (ابھی کچھ نہ پوچھو کیونکہ) یہ دنیا کے غم و آلام میں تھی (جب اسے ذرہ سکون مل جائے تو پوچھنا) چنانچہ روح (جب سکون پالیتی ہے تو خود کہتی ہے) کہ فلاں شخص (جو بدکار تھا ور جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو) مر گیا، کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا؟ چنانچہ وہ روحیں اسے بتاتی ہیں کہ وہ تو دوزخ کی آگ کی طرف لیے گئے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے پاس ٹاٹ کا فرش لے کر آتے ہیں اور اس کی روح سے کہتے ہیں کہ اے روح (کافر کے جسم سے) مردار کی بدبو کی طرح نکلتی ہے پھر فرشتے اسے آسمان کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں وہاں فرشتے کہتے ہیں کہ کتنی بری ہے یہ بدبو! پھر اس کے بعد اسے کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ (احمد نسائی)
تشریح
مومن کی موت کے وقت رحمت کے فرشتے ریشم کا ٹکڑا غالباً اس لیے لاتے ہیں تاکہ اس کی روح کو اس میں لپیٹ کر لے جائیں۔ ماذا فعل فلان(فلاں کیا کرتا ہے) یعنی مومنین کی ارواح آنے والی روح مومن سے ان لوگوں کے بارے میں کہ جنہیں وہ دنیا میں جانتی تھیں اور دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کس حال میں ہیں؟ اور اس دریافت حال سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی زندگی خدا اور خدا کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزر رہی ہے تو خوش ہوں اور راہ حق پر ان کی استقامت کے لیے دعا کریں اور اگر کسی کے بارے میں انہیں یہ معلوم ہو کہ اس کی زندگی گناہ و معصیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے تو رنج و غم کریں اور خدا سے ان کی ہدایت اور ان کی مغفرت و تحسین کی دعا مانگیں۔
حتی یأتون بہ الی باب الارض (پھر فرشتے اسے زمین کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں) کے بارے میں علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ زمین کے دروازوں سے مراد آسمان زمین(یعنی پہلے آسمان) کے دروازے ہیں جیسا کہ گزشتہ حدیث نمبر١٢ کے الفاظ ثم یعرج بہا الی السماء دلالت کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ زمین کے دروازوں سے مراد زمین ہو۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہے ہو گا کہ کافر کی روح اسفل السافلین کی طرف پھینک دی جاتی ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک بھی دوسری صورت بہتر اور صحیح معلوم ہوتی ہے۔
کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کافروں کی ارواح کے پاس کہ جن کا مسکن سجین ہے پہنچا دیا جاتا ہے۔ سجین جہنم کی گہرائیوں میں ایک جگہ کا نام ہے۔
٭٭ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ہم) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک انصاری شخص کے جنازہ کے ساتھ چلے ہم قبر پر پہنچے (قبر تیار نہ ہونے کی وجہ سے) ابھی جنازہ سپرد خاک نہیں ہوا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جگہ تشریف فرما ہو گئے ہم بھی آپ کے گردا گرد (اس طرح) بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں (یعنی ہم بالکل خاموش سر جھکائے بیٹھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ جس سے آپ زمین کرید رہے تھے (جس طرح کہ کوئی شخص انتہائی تفکر و استغراق کے عالم میں ہوتا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور (ہمیں مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو یا تین بار فرمایا۔ اور پھر فرمایا جب بندہ مومن دنیا سے اپنا تعلق ختم کرنے کو ہوتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے (یعنی مرنے کے قریب ہوتا ہے) تو اس کے پاس آسمان سے نہایت روشن چہرے والے فرشتے اترتے ہیں (جن کے چہرہ کی چمک دمک ایسی ہوتی ہے) گویا کہ ان کے چہرے آفتاب ہیں، ان کے ہمراہ جنت کا (یعنی ریشمی کپڑے کا) کفن اور جنت کی خوشبو (یعنی مشک و عنبر وغیرہ کی خوشبو) ہوتی ہے اور وہ (بسبب کمال ادب اور روح نکلنے کے انتظار میں) اس کے سامنے اتنی دور کہ جہاں تک کہ اس کی نگاہ پہنچ سکے، بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت علیہ السلام آتے ہیں اور اس کے سر کے قریب بیٹھ کر کہتے ہیں کہ اے پاک جان! اللہ بزرگ و برتر کی طرف سے مغفرت و بخشش اور اس کی خوشنودی کی طرف پہنچنے کے لیے جسم سے نکل! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) بندہ مومن کی جان (اس کے جسم سے) اس طرح (یعنی آسانی اور سہولت سے) نکل آتی ہے جس طرح کہ مشک سے پانی کا قطرہ بہ نکلتا ہے۔ چنانچہ ملک الموت اس کو لے لیتے ہیں، جب ملک الموت اسے لے لیتے ہیں تو دوسرے فرشتے اس جان کو ملک الموت کے ہاتھ میں پلک جھپکنے کے بقدر بھی نہیں چھوڑتے یعنی غایت اشتیاق کی بنا پر فوراً اس جان کو ملک الموت کے ہاتھوں سے (اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اس کو اس کفن میں اور اس خوشبو میں کہ جسے وہ اپنے ہاتھ میں لائے تھے رکھ لیتے ہیں، اور اس جان سے بہترین وہ خوشبو نکلتی ہے جو روئے زمین پر (زمین کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی فنا تک) پائی جانے والی مشک کی بہترین خوشبوؤں کے مانند ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ پھر وہ فرشتے اس جان کو لے کر آسمان کی طرف چلتے ہیں، چنانچہ جب وہ فرشتے اس جان کو لے کر آسمان کی طرف چلتے ہیں تو (زمین و آسمان کے درمیان موجود) فرشتوں کی کسی بھی جماعت کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہ جماعت پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کون ہے؟وہ فرشتے جو اس روح کو لے جا رہے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا (یعنی اس کی روح) ہے اور وہ فرشتے اس کو بہترین نام و لقب (اور اس کے اوصاف) بتاتے ہیں جن کے ذریعہ اہل دنیا اس کا ذکر کرتے ہیں اسی طرح سوال و جواب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ فرشتے اس کو لے کر آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان تک) پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں جو ان کے لیے کھول دیا جاتا ہے (اسی طرح ہر آسمان کا دروازہ اس کے لیے کھولا جاتا ہے) اور ہر آسمان کے مقرب فرشتے دوسرے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ساتوں آسمانوں تک (اسی اعزاز و اکرام کے ساتھ) پہنچا دیا جاتا ہے۔ پس اللہ عز و جل (فرشتوں سے) فرماتا ہے کہ اس بندہ کا نامہ اعمال علیین میں رکھو اور اس جان کو زمین کی طرف یعنی اس کے بدن میں جو زمین میں مدفون ہے واپس لے جاؤ(تاکہ یہ اپنے بدن میں پہنچ کر قبر کے سوال و جواب کے لیے تیار رہے) کیونکہ بے شک میں زمین ہی سے جسموں کو پیدا کیا ہے اور زمین ہی میں ان کو (یعنی اجسام و ارواح کو) واپس بھیجتا ہوں اور پھر زمین ہی سے ان کو دوبارہ نکالوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے بعد وہ جان اپنے جسم میں پہنچا دی جاتی ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے (یعنی منکر نکیر) آتے ہیں جو اسے بٹھلاتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ بندہ مومن جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے پھر وہ پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے پھر وہ پوچھتے ہیں کہ یہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کون ہیں؟ جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے وہ جواب دیتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ تم نے کیسے جانا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں نے خدا کی کتاب کو پڑھا، اس پر ایمان لایا۔ اور دل سے اسے سچ جانا (جس کی وجہ سے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رسول ہونا معلوم ہوا پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے (یعنی خدا کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ) میرا بندہ سچا ہے اس کے لیے جنت کا بستر بچھاؤ اسے جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: چنانچہ اس کی طرف جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس سے اسے جنت کی ہوا اور خوشبو آتی رہتی ہے۔ پھر اس کی قبر کو حد نظر تک کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے بعد اس کے پاس ایک خوبصورت شخص اچھے کپڑے پہنے اور خوشبو لگائے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خوشخبری ہو تجھے اس چیز کی جو تجھے خوش کرنے والی ہے۔ یعنی تیرے لیے وہ نعمتیں تیار ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا آج وہ دن ہے جس کا (دنیا میں) تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ بندہ مومن اس سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ تمہارا چہرہ حسن و جمال میں کامل ہے اور تم بھلائی کو لائے ہو اور اس کی خوشخبری سناتے ہو وہ شخص جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں (جو اس شکل و صورت میں آیا ہوں) آج وہ دن ہے جس کا (دنیا میں) تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا بندہ مومن (یہ سن کر) کہتا ہے اے میرے پروردگار قیامت قائم کر دے! قیامت قائم کر دے قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل و عیال کی طرف جاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور جب بندہ کافر دنیا سے اپنا تعلق ختم کرنے اور آخرت کی طرف جانے کو ہوتا ہے (یعنی اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے) تو اس کے پاس سے آسمان سے (عذاب کے) کالے چہرے والے فرشتے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اور وہ اتنی دور کہ جہاں تک نگاہ پہنچ سکے بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سر کے قریب بیٹھ کر کہتا ہے کہ اے خبیث جان! خدا کی طرف سے عذاب (مبتلا کیے جانے کے لیے جسم سے باہر) نکل! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (کافر کی روح یہ سن کر) اس کے جسم میں پھیل جاتی ہے (یعنی روح کافر جب عذاب خداوندی کے آثار دیکھتی ہے تو اس کے خوف سے اپنے جسم سے نکلنے کے لیے تیار نہیں بلکہ پورے جسم میں چھپی چھپی پھرتی ہے بخلاف مومن کی روح کے کہ وہ انوار الٰہی اور پروردگار کے کرم کے آثار دیکھ کر جسم سے خوشی خوشی نکل آتی ہے) چنانچہ ملک الموت اس روح کو سختی اور زور سے باہر نکالتا ہے جیسا کہ تر صوف سے آنکڑا کھینچا جاتا ہے (یعنی جس طرح تر صوف سے آنکڑا بڑی سختی اور مشکل سے کھینچا جاتا ہے اور اس سختی سے کھینچنے کی وجہ سے صوف کے کچھ اجزاء اس آنکڑا سے لگے ہوئے باہر آ جاتے ہیں تو یہ حال ہوتا ہے کہ جیسے کہ روح کے ساتھ رگوں کے کچھ اجزاء لگے ہوئے باہر آ گئے ہیں) جب ملک الموت اس روح کو پکڑ لیتا ہے دوسرے فرشتے اس روح کو ملک الموت کے ہاتھ پلک جھپکنے کے بقدر بھی نہیں چھوڑتے بلکہ اسے لے کر ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں، اس روح میں سے ایسے (سڑے ہوئے) مردار کی بدبو نکلتی ہے جو روئے زمین پر پایا جائے۔ وہ فرشتے اس روح کو لے کر آسمان کی طرف چلتے ہیں چنانچہ جب وہ فرشتوں کی کسی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ جماعت پوچھتی ہے کہ یہ کون ناپاک روح ہے؟ وہ فرشتے جو اسے لے جا رہے ہوتے ہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا ہے (یعنی فلاں شخص کی روح ہے) اور اس کے برے نام برے اوصاف کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں کہ جن نام و اوصاف سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب اسے آسمان سے دنیا تک پہچنا دیا جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے تو اس کے واسطے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے استدلال کے طور پر یہ آیت پڑھی: (لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا یدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّیٰ یلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیاطِ) 7۔ الاعراف:40)۔ ان کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس روح کا اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو سب سے نیچے کی زمین ہے۔ چنانچہ کافر کی روح (نیچے) پھینک دی جاتی ہے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (استدلال کے طور پر) یہ آیت تلاوت فرمائی (وَمَنْ یشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیرُ اَوْ تَهْوِی بِهِ الرِّیحُ فِی مَكَانٍ سَحِیقٍ) 22۔ الحج:31)۔ جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ ایسا ہے جیسے آسمان سے (یعنی ایمان و توحید کی بلندی سے کفر و شرک کی بستی میں) گر پڑا۔ چنانچہ اسے پرندے اچک لیتے ہیں (یعنی وہ ہلاک ہو جاتا ہے) یا ہوا اسے (اڑا کر) دور پھینک دیتی ہے (یعنی رحمت خداوندی سے دور ہو جاتا ہے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اسے شیطان نے گمراہی میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ مقام قرب سے دور جا پڑا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) اس کی روح اس کے جسم میں آ جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہاہ ہاہ! میں نہیں جانتا۔ پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہاہ ہاہ! میں نہیں جانتا پھر وہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ یہ شخص (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے کون ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہاہ ہاہ! میں نہیں جانتا! (اس سوال و جواب کے بعد) پکارنے والا آسمان کی طرف سے پکار کر کہتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے لہٰذا اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور اس کے لیے دوزخ کی طرف دروازہ کھول دو!۔ چنانچہ (اس کے لیے دوزخ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے) جس سے اس کے پاس دوزخ کی گرمی اور اس کی گرم ہوا آتی رہتی ہے اور اس کے لیے اس کی قبر اس پر اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ (دونوں کنارے مل جانے سے) اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر نکل جاتی ہیں۔ پھر اس کے پاس ایک بدصورت شخص آتا ہے جو برے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا ہے اور اس سے بدبو آتی رہتی ہے اور وہ اس سے کہتا ہے کہ تو وہ بری خبر سن، جو تجھے رنج و غم میں مبتلا کر دے، آج وہ دن ہے جس کا تجھ سے (دنیا میں وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے؟ تیرا چہرہ انتہائی برا ہے جو برائی لیے ہوئے آیا ہے۔ وہ شخص کہتا ہے کہ تیرا برا عمل ہوں (یہ سن کر) مردہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار قیامت قائم نہ کیجیے۔
ایک اور روایت میں اسی طرح منقول ہے مگر اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب مومن کی روح (اس کے جسم سے) نکلتی ہے تو ہر وہ فرشتہ جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اور ہر وہ فرشتہ جو آسمان میں ہے اس پر رحمت بھیجتا ہے۔ اس لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور (ہر آسمان کا) ہر دروازے والا (فرشتہ) اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتا ہے کہ اس مومن کی روح اس کی طرف سے آسمان پر لے جائی جائے (تاکہ وہ اس مومن کی روح کے ساتھ چلنے کا شرف حاصل ہو سکے) اور کافر کی روح رگوں کے ساتھ نکالی جاتی ہے چنانچہ زمین و آسمان کے درمیان تمام فرشتے اور وہ فرشتے جو (پہلے آسمان کے) ہیں اس پر لعنت بھیجتے ہیں اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پہلے آسمان کے تمام دروازے والے اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ (اس کافر) بکی روح ان کی طرف سے نہ چڑھائی جائے (احمد)
تشریح
حدیث کے الفاظ فتخرج تسیل کما تسیل القطرۃ من السقاء سے تو یہ معلوم ہوا کہ بندہ کی جان بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ نکلتی ہے جب کہ ایک اور روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جان نکلنے کے معاملہ میں مومون بھی بڑی سختی اور کرب میں مبتلا ہوتا ہے لہٰذا ان دونوں روایتوں میں تطبیق پیدا کی جاتی ہے کہ مومن کی روح تو جسم سے نکلنے سے پہلے سختی میں مبتلا ہوتی ہے اور جسم سے نکلنے کے وقت آسانی و سہولت سے باہر آ جاتی ہے مگر بخلاف کافر کی روح کے کہ اس کی روح جسم سے نکلتے وقت بھی بڑی سختی اور کرب میں مبتلا ہوتی ہے۔
اس حدیث میں بتایا ہے کہ مومن کی روح ساتویں آسمان تک پہنچائی جاتی ہے جب کہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ روح مومن عرش تک پہنچائی جاتی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بعض روحیں ساتویں آسمان تک پہنچائی جاتی ہوں اور بعض روحوں کو عرش تک لے جایا جاتا ہو۔
علیین ایک جگہ کا نام ہے جو ساتویں آسمان پر واقع ہے اور جس میں نیک لوگوں کے اعمال نامے رہتے ہیں۔
حدیث میں منکر نکیر کا تیسرا سوال اس طرح نقل کیا گیا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے کون ہیں؟ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں سے تو اسی طرح سوال کیا جاتا ہو اور بعض لوگوں سے اس طرح پوچھا جاتا ہو کہ تمہارا نبی کون ہے؟ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں منقول ہے۔
حتی ارجع الی اھلی ومالی (تاکہ میں اپنے اہل و عیال کی طرف جاؤں) میں اہل سے مراد حوریں اور خدام ہیں اور مال سے محل جنت کے باغ اور وہاں کی از قسم مال دوسری چیزیں مراد ہیں یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اہل سے مراد مومن کے اہل قرابت اور مال سے مراد حور و قصور وغیرہ ہیں۔ واللہ اعلم۔
سجین ساتویں زمین کے نیچے دوزخ کی گہرائیوں کا ایک جگہ کا نام ہے جہاں دوزخیوں کے نامہ اعمال رکھے جاتے ہیں چنانچہ حدیث کے الفاظ اکتبوا کتابہ فی سجین فی الارض السفلی میں اس طرف اشارہ ہے کہ دوزخ ساتویں زمین کے نیچے ہے۔
خدا کے باغی اور سرکش لوگوں کو اپنی آغوش میں قبر کس دردناک طریقہ سے بھینچتی ہے؟ یہ تو آپ کو اس حدیث سے معلوم ہوا لیکن بعض مومنین بلکہ اکابر موحدین یعنی اولیاء اللہ کے لیے بھی ضغط یعنی قبر کا بھینچنا ثابت ہے مگر اس کی کیفیت یہ نہیں ہوتی بلکہ مومن کے لیے قبر اپنے دونوں کنارے اس طرح ملاتی ہے جیسے کوئی ماں انتہائی اشتیاق و محبت کے عالم میں اپنے بچے کو گلے سے لگاتی ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ کافر کی روح رگوں کے ساتھ نکالی جاتی ہے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کافر کی روح اپنا جسم بہت مشکل اور بڑی سختی سے چھوڑتی ہے۔ چونکہ اسے اپنے جسم سے کمال تعلق ہوتا ہے اور وہ جسم سے نکلنا نہیں چاہتی اس لیے موت کا فرشتہ اسے کھینچ کر باہر نکالتا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن کعب اپنے والد مکرم (حضرت کعب رضی اللہ عنہ) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آیا تو حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام بشر رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ اے ابوعبدالرحمن! (یہ حضرت کعب کی کنیت ہے) اگر آپ مرنے کے بعد عالم برزخ میں فلاں شخص سے ملیں تو ان سے میرا سلام کہئے گا! حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ام بشر! اللہ تجھے بخشے وہاں ہماری مشغولیت اس سے زیادہ ہو گی! ام بشر نے کہا کہ ابو عبدالرحمن! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ کہ (عالم برزخ میں) مومنین کی روحیں سبز جانوروں کے قالب میں ہوں گی اور جنت کے درختوں سے میوے کھاتی ہوں گی۔ حضرت کعب نے کہا کہ ہاں! (میں نے یہ ارشاد گرامی سنا ہے) ام بشر نے فرمایا یہی وہ) فضل و کرامت) ہے جس سے تمہارے نوازے جانے کی امید ہے) (ابن ماجہ بیہقی)
تشریح
حضرت عبدالرحمن اجل تابعین میں سے ہیں اور ان کے والد مکرم حضرت کعب کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے اسی طرح حضرت براء بن معرور بھی صحابی ہیں اور انصار میں سے ہیں حضرت ام بشر ان کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ جب دار آخرت کے سفر کی تیاری میں تھے اور ان کی اجل قریب تھی تو ام بشر نے اس بات کی درخواست کی کہ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں پہنچیں تو اگر فلاں شخص سے ملاقات ہو تو انہیں میرا سلام کہہ دیں۔
بظاہر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص راوی کے الفاظ ہیں۔ ام بشر نے اس موقع پر حضرت براء یا حضرت بشر کا نام لیا ہو گا۔ حضرت کعب نے ام بشر سے کہا کہ اللہ تجھے بخشے۔ یہ الفاظ اس موقع پر بولے جاتے ہیں جب کہ متکلم اپنے مخاطب سے کوئی ایسی بات سنتا ہے جو اسے کہنی نہیں چاہئے تھی۔ گویا حضرت کعب کا مطلب یہ تھا کہ تم یہ کیا کہہ رہی ہو! وہاں تو ہماری مشغولیت اس سے کہیں زیادہ ہو گی کہ کو وہاں پہنچ کر کسی کو پہچانیں اور ان تک کسی کا سلام پہنچائیں۔ یعنی وہاں پہنچ کر میں اپنے ہی حال میں گرفتار ہوں گا کہ اپنی بھی خبر نہ ہو گی چہ جائیکہ دوسروں کی خبر، اسی طرح وہاں سب ہی اپنے اپنے حال میں گرفتار ہوں گے حاصل یہ کہ وہاں کون اپنے آپ میں ہو گا اور کسے اپنے حال سے فرصت ملے گی کہ کسی کو کوئی سلام و پیام پہنچائے۔
ام بشر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کی روشنی میں ان کے اسی عذر کا یہ جواب دیا کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے کہ جو گرفتار وحشت ہوں بلکہ آپ تو ان مومنین میں سے ہوں گے جن کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ عظیم خوشخبری دی ہے گویا آپ بھی وہاں خوش حال و مطمئن ہوں گے اور اللہ رب العزت کے بے پایاں رحم و کرم سے بہرہ ور ہوں گے۔
ایک اور روایت میں عالم برزخ میں ارواح مومنین کا حال کچھ تفصیل سے اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ مومنین کی ارواح سبز جانوروں کے قالب میں ہوں گی۔ جو جنت میں چرتی ہوں گی وہاں کے میوے کھاتی ہوں گی وہاں کا پانی پیتی ہوں گی اور عرش کے نیچے سونے کے قندیلوں میں اپنا مسکن بنائے ہوئے ہوں گے۔
٭٭ حضرت عبدالرحمن اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ وہ (یعنی عبدالرحمن کے والد حضرت کعب) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کرتے تھے کہ عالم برزخ میں مومن کی روح پرندہ کے قالب میں جنت کے درختوں سے میوے کھاتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اسے اٹھائے گا (یعنی قیامت کے دن) اسے اس کے بدن میں واپس بھیج دے گا ۔ (مالک، نسائی، بیہقی)
تشریح
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ جب انسان کی روح کو جانور کا بدن ملا تو اس کا مرتبہ گھٹ گیا کیونکہ اس صورت میں وہ انسان سے جانور ہو گیا اور قلب حقیقت لازم آیا؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ روح مومن کو پرندہ کے جسم کے ساتھ ایسا تعلق نہیں ہوتا جیسا کہ اپنے حقیقی جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہوتا ہے اور اس پر اپنا تصرف کرتی ہے بلکہ یہ تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی قیمتی چیز مثلاً لعل یا جواہر کو اس کی حفاظت اور احتیاط کی خاطر صندوق میں رکھ دیا جائے۔ لہٰذا روح مومن کو پرندہ کے قالب میں کر دینے سے نہ تو اس کے رتبہ میں کمی ہوتی ہے اور نہ قلب حقیقت لازم آتا ہے بلکہ اس طرح اس کی تعظیم و تکریم ہی ہوتی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں روح مومن کے بارے میں جو کیفیت بیان فرمائی گئی ہے اس کا تعلق شہداء کے ساتھ ہے جب کہ دوسرے بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس کا تعلق عام مومنین سے ہے جیسا کہ حدیث کے ظاہری مفہوم سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
٭٭ حضرت محمد بن منکدر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ (عالم برزخ میں پہنچ کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میرا سلام عرض کر دیں۔ (ابن ماجہ)