مشکوٰة شر یف

قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق

قریش میں سے بارہ خلفاء کا ذکر

اور حضرت جابر ابن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا  اسلام کو بارہ خلفاء تک قوت و غلبہ حاصل رہے گا اور سب قریش میں سے ہوں گے  ایک روایت میں یوں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) لوگوں کے (دینی و مذہبی امور میں استقامت ملی و ملکی معاملات میں استحکام اور عام نظم ونسق میں عدل و انصاف اور حق وراستی پر مبنی) نظام کار کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ ان کے حاکم وہ بارہ شخص ہوں گے جن کا تعلق قریش سے ہو گا  اور ایک روایت میں یوں ہے کہ  (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آئے اور لوگوں پر ان بارہ خلیفہ کی حکومت قائم ہو گی جو قریش میں سے ہوں گے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے معنی و مفہوم کے تعین میں مختلف اقوال بھی ہیں اور علماء نے اشکال کا اظہار بھی کیا ہے۔ اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث سے بظاہر جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے بارہ خلفاء ہوں گے جن کے زمانہ خلافت میں دین کا نظام مستحکم و برقرار رہے گا ، ان کے وجود سے اسلام کو شان و شوکت حاصل ہو گی ، اور نہ صرف یہ کہ خود وہ تمام بارہ خلفاء دین و مذہب کے سچے پابند و تابعدار ہوں گے بلکہ انکی خلافت و عدالت سے حق و انصاف کے مطابق احکام و ہدایات کا اجراء و نفاذ ہو گا حالانکہ تاریخی اور واقعاتی طور پر جو کچھ پیش آیا ہے وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتا۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب خلافت و امارت پر فائز ہونے والوں میں بنی مروان میں کہ وہ خلفاء و امراء بھی تھے جو نہ صرف یہ کہ اپنی سیرت اور طور طریقوں کے اعتبار سے دین و مذہب سے مناسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی ظالمانہ اور مفسدانہ کاروائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصانات اور مصائب برداشت کرنا پڑے علاوہ ازیں وہ صحیح حدیث بھی ہے جس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت کا نظام قائم رہے گا اور اس کے بعد ظلم و زیادتی پر مبنی بادشاہت آ جائے گی  چنانچہ تمام علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیس برس کے عرصہ یعنی خلافت راشدہ کے بعد جو نظام حکومت ظاہر ہوا اس کو خلافت نہیں بلکہ بادشاہت و امارت کہنا چاہئے یہ ایک اہم اشکال ہے اور اسی بناء پر علماء کرام نے اس حدیث کی توجیہ و تاویل میں مختلف اقوال پیش کئے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ  بارہ خلیفوں  سے مراد وہ بارہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سریر آرائے خلافت اور حکومت وسلطنت ہوئے اور ان کے زمانہ اور اقتدار و حکومت میں مسلمانوں کے ظاہری حالات و معاملات اور رعایا کے مفاد کے اعتبار سے سلطلنت و حکومت کا نظام مستحکم و متوازن رہا اگرچہ ان میں سے بعض برسر اقتدار لوگ ظلم و بے انصافی کے راستہ پر بھی چلے ، باہمی اختلاف و نزاع اور خرابیوں کا بھیانک ظہور ولید بن یزید بن عبد الملک بن مروان کے عہد اقتدار میں ہوا جو ان میں بارہواں شخص تھا ، اس شخص کی امارت اس وقت قائم ہوئی جب اس کے چچا ہشام ابن عبد الملک کا انتقال ہوا پہلے تو لوگوں نے ولید ابن یزید کی امارت پر اتفاق کیا اور ان کا اتفاق چار برس تک قائم رہا لیکن چار برس کے بعد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو مار ڈالا ، اس دن سے صورت حال میں تغیر پیدا ہو گیا اور فتنہ وفساد پوری طرح پھیل گیا یہ قول قاضی عیاض مالکی کی طرف منسوب ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کی تحسین کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی جتنی توجیہات کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان سب میں یہی قول سب سے زیادہ مناسب اور سب سے زیادہ قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے جو اسی حدیث کے جزء کے طور پر بعض صحیح طرق میں منقول ہیں کہ کلہم یجتمع علیہ امر الناس  اور  جمع  سے مراد ان خلفاء کی بیت پر لوگوں کا اتفاق و اجتماع اور ان کی قیادت وسرداری کو قبول کرنا ہے اگرچہ کراہت کے ساتھ ہو۔ نیز اس حدیث سے ان خلفاء کی جو مدح و توصیف مفہوم ہوتی ہے وہ دین عدالت، اور حقانیت کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ سیاسی و انتظامی معاملات میں استحکام واستواری اور حکومت و امارت کے تئیں اتفاق و اتحاد کے اعتبار سے ہے رہی اس صحیح حدیث کی بات جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خلافت کو تیس سال میں منحصر بیان فرمایا ہے تو وہاں خلافت سے مراد خلافت کبریٰ ہے جو اصل میں خلافت نبوت ہے جب کہ اس حدیث میں خلافت امارت  مراد ہے چنانچہ خلفائے راشدین کے بعد جو امراء (سربراہان حکومت) گذرے ان کو بھی خلیفہ ہی کہا جاتا ہے ، اگرچہ ان کو خلیفہ کہنا مجازی معنی کے اعتبارسے ہے مذکورہ بالا پہلے قول کو اگرچہ علامہ ابن حجر نے اولیٰ و ارجح قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ لایزال الاسلام عزیزا اور لایزال الدین قائما کے ساتھ یہ قول کھلی ہوئی عدم مناسبت کا حامل ہے کیونکہ یہ الفاظ ان بارہ خلفاء کی اس مدح و تعریف کا صریح مظہر ہیں کہ ان کے زمانہ خلافت و امارت میں دین کو استحکام حاصل رہے گا حق کا بول بالا ہو گا اور ان کے عدل و انصاف کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہو گا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ  خلفاء سے مراد عادل و انصاف پرور خلفاء اور نیک طینت و پاکباز امراء ہیں جو اپنے ذاتی اوصاف حمیدہ کی بناء پر  خلافت  کا صحیح مصداق اور منصب امارت کے اہل ہوں، اس صورت میں حدیث کا لازمی مطلب یہ بیان کرنا نہیں ہو گا کہ یہ بارہ خلفاء آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے منصب خلافت و امارت پر متمکن ہوں گے جب کہ ہو سکتا ہے کہ اصل مقصد اس طرح کے خلفاء و امراء کی محض تعداد بیان کرنا ہو خواہ ان کا ظہور کسی بھی عہد و زمانہ میں ہو اور بارہ کا عدد قیامت تک کسی وقت جا کر پورا ہو  تو رپشتی کے مطابق اس حدیث اور اس بارہ میں منقول دوسری احادیث کے مفہوم و معنی کے تعین میں یہی قول زیادہ بہتر ومناسب اور قابل ترجیح ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں اس طرح کے ان بارہ خلفاء و امراء کا ذکر مراد ہے جو حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانہ کے بعد منصب خلافت و امارت پر فائز ہوں گے گویا مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش خبری فرمائی کہ آخر زمانہ میں قریش سے نسبی تعلق رکھنے والے ایسے بارہ افراد مسلمانوں کی ملی وملکی اور حکومتی قیادت کے امین بنیں گے جن کے زمانہ اقتدار و امارت میں دین و مذہب کو عروج حاصل ہو گا اور اسلام کی شان و شوکت دوبالا ہو گی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب مہدی کا انتقال ہو گا تو قیادت و اقتدار کے مالک ، یکے بعد دیگرے جو پانچ آدمی ہوں گے وہ سبط اکبر یعنی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہوں گے ، ان کے بعد قیادت و اقتدار کی باگ ڈور یکے بعد دیگرے ان پانچ آدمیوں کے ہاتھ میں آئے گئی جو سبط اصغر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان میں آخری شخص اپنا ولی عہد ایسے شخص کو بنائے گا جو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں ہو گا اور مملکت و ملت کی امامت وسربراہی کے سلسلہ کا گیارہواں فرد ہو گا پھر جب یہ گیارہواں شخص اپنا زمانہ اقتدار پورا کر کے انتقال کرے گا تو اس کا جانشین اس کا بیٹا ہو گا اور مسند اقتدار کا مالک بنے گا ، اس طرح بارہ کا عدد پورا ہو جائے گا اور ان بارہ میں کا ہر شخص امام عادل اور ہادی مہدی ہو گا جس کی عدالت انصاف پسندی ،دینداری اور رعایا سے اسلام اور مسلمانوں کوزبردست شان و شوکت اور سربلندی و ہردلعزیزی حاصل ہو گی اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر مذکورہ بالا دوسرے قول کو ایک معقول اور بہترین توجیہ قرار دیا جا سکتا ہے ویسے ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی کے اوصاف ومحاسن بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (امام مہدی) کے وجود سے ہر رنج و فکر کو دور کر دے گا اور ان کے عدل و فتنہ کا سد باب ہو جائے گا ان کے زمانہ کے بعد پھر قیادت و اقتدار کی باگ ڈور ان بارہ آدمیوں کے ہاتھ میں آ جائے گی جو یکے بعد دیگرے ڈیڑھ سوسال تک مملکت کی زمام کار سنبھالے رہیں گے۔

اور چوتھا قول یہ ہے کہ اصل مراد ایک ہی زمانہ میں بارہ خلفاء کا پایا جانا ہے جو اپنی اپنی جگہ خود مختار حیثیت کا دعوی کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کی اطاعت کرنے والے لوگوں کا الگ الگ گروہ ہو گا اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ (ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا) وہ وقت آنے والا ہے جب میرے بعد خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے  اس ارشاد گرامی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اصل مقصد یہ خبر دینا تھا کہ میرے بعد نت نئے فتنوں کا ظہور ہو گا اور طرح طرح کے اختلافی و نزاعی معاملات اٹھ کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ایک زمانہ میں بارہ خلفاء اپنی الگ الگ خلافت کا دعویٰ کریں گے اس آخری قول کے مطابق حدیث کی مراد گویا یہ ہو گی کہ بیک وقت بارہ خلفاء کے وجود کے زمانہ سے پہلے کے زمانہ تک تو مسلمانوں کی موثر اجتماعی و تنظیمی حیثیت برقرار رہے گی دین کا نظام مستحکم واستوار رہے گا اور اسلام کی عزت و شوکت بڑھتی رہے گی لیکن اس زمانہ میں (جب کہ بیک وقت بارہ خلفاء ہوں گے) اختلاف ونزاع کا فتنہ پھوٹ پڑے گا اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی منتشر ہونے لگے گی۔ لیکن پہلے اقوال کے مطابق حدیث کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بارہ خلفاء کے زمانہ تک اسلام اور مسلمانوں کا نظام ملک و ملت مستحکم واستوار رہے گا اس نظام میں جو خلل و اضطراب پیدا ہو گا وہ اس زمانہ کے بعد ہو گا۔

شیعوں نے اس حدیث میں بارہ خلفاء کے ذکر کو اس پر محمول و منطبق کیا ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہوں گے خواہ وہ منصب خلافت پر حقیقۃً فائز ہوں خواہ خلافت کا استحقاق رکھنے کے باوجود منصب خلافت پر فائز نہ ہو سکیں ان شیعوں کے مطابق سب سے پہلے خلیفہ حضرت علی ہیں ، پھر حضرت حسن ، پھر حضرت حسین، پھر حضرت زین العابدین، پھر حضرت محمد باقر، پھر حضرت جعفر صادق، پھر حضرت موسیٰ کا ظم، پھر حضرت علی رضا، پھر حضرت محمد تقی ، پھر حضرت حسین عسکری ، پھر حضرت محمد مہدی۔

چند عرب قبائل کا ذکر

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (قبیلہ) غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے (قبیلہ) اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور (قبیلہ) عصیہ (تو وہ قبیلہ) جو اللہ اور اللہ کے رسول کی معصیت میں مبتلا ہوا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 غفار  عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے ، ممتاز صحابی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ قبیلہ حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا اور اپنی اس برائی کے سبب عام قبائل میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قبیلہ کے حق میں دعا فرمائی کہ اس قبیلہ کے دامن پر جو پہلا داغ لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مٹائے اور قبیلہ والوں کو مغفرت و بخشش سے نوازے کیونکہ اب اسی قبیلہ کے لوگ خوشی خوشی اسلام میں داخل ہو گئے ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی دعائیہ جملہ کے بجائے جملہ خبریہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ کے ذریعہ خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کی جاہلی زندگی کے واقعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب اہل قبیلہ کو ان کے ایمان واسلام کی بدولت مغفرت و بخشش سے نواز دیا ہے۔

 اسلم  بھی ایک قبیلہ کا نام ہے اس قبیلہ کے لوگوں نے چونکہ لڑائی کے بغیر اسلام قبول کر لیا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو سلامت رکھے اس قبیلہ کے بارے میں مذکورہ جملہ بھی جملہ خبریہ کا احتمال رکھتا ہے یعنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جملہ کے ذریعہ یہ خبر دی ہو کہ یہ وہ قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو پسند نہیں کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کے لوگوں کو قتل و تباہی سے سلامت و محفوظ رکھا۔

 عصیہ  اس بدنصیب قبیلہ کا نام ہے جس نے مسلمان قاریوں کو بیر معونہ پر مکر و فریب کے ذریعہ بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر بڑا رنج ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم قنوت میں اس قبیلہ کے لوگوں پر لعنت اور بددعا فرمایا کرتے تھے۔ اس قبیلہ کے حق میں مذکورہ حدیث کے الفاظ صرف جملہ خبریہ کے طور پر ہیں ، ان میں جملہ دعائیہ کا کوئی احتمال نہیں ہے تاہم ان الفاظ میں اس قبیلہ کا ذکر جس طرح شکوہ کو ظاہر کرتا ہے وہ بجائے خود بددعا کو مستلزم ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں کہ اہل قبیلہ گناہ و معصیت میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوں بلکہ اس مفہوم میں کہ قبیلے والوں نے جس عظیم معصیت اور سرکشی کا ارتکاب کیا اس پر ان کو دنیا و آخرت میں ذلت و خواری نصیب ہو۔

چند قبائل کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما یا : قریش (کے مسلمان یعنی اہل مکہ وغیرہ) انصار (یعنی اہل مدینہ) قبیلہ جہینہ (کے مسلمان) قبیلہ غفار (کے مسلمان) اور قبیلہ اشجع (کے مسلمان) میرے دوست اور مددگار ہیں ان کا مدد گار اور دوست اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا کوئی نہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

لفظ موالی متکلم کی طرف مضاف ہے اور مولیٰ کی جمع ہے اور ایک روایت میں یہی لفظ (یہ متکل کے بغیر) موالٍ منقول ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ (ان قبائل کے مسلمان) آپس میں ایک دوسرے کے معین اور مدد گار اور دوست ہیں۔

دو حلیف قبیلوں کا ذکر

اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسلم غفار مزینہ اور جہنینہ یہ سب قبیلے بنوتمیم سے ، اور دونوں حلیف قبیلوں یعنی بنواسد اور غطفان سے بہتر ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

دونوں حلیف قبیلے بنواسد اور غطفان بھی دو قبیلوں کے نام ہیں یہ دونوں قبیلے آپس میں ایک دوسرے کے حلیف تھے اور جیسا کہ اس زمانہ میں عرب کا عام دستور تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے قسم کھا کر عہد و پیمان کر رکھا تھا کہ باہم ایک دوسرے کے مدد گار و معین رہیں گے۔ حدیث میں مذکورہ قبیلوں کو اس لئے بہتر فرمایا کہ ان قبائل کے لوگوں نے قبول اسلام میں سبقت کا شرف حاصل کی اور اپنے اچھے احوال و معاملات کا قابل تحسین مظاہرہ کیا۔

بنو تمیم کی تعریف

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بنو تمیم کو اس وقت سے ہمیشہ عزیز اور دوست رکھتا ہوں جب سے میں نے ان کی تین خاص خوبیوں کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے (چنانچہ ان کی پہلی خوبی کے بارے میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے بنو تمیم ہی وہ لوگ ہوں گے جو دجال کے مقابلے پرسخت سے زیادہ سخت اور بھاری ثابت ہوں گے  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (ان کی دوسری خوبی کے بارے میں یہ) بیان کیا کہ (ایک مرتبہ بنی تمیم کی طرف سے) صدقات (یعنی زکوٰۃ کے اموال و مویشی وغیرہ) آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی طرف سے آئے ہوئے صدقات ہیں  اور (ان کی تیسری خوبی اس طرح ظاہر ہوئی کہ) بنی تمیم سے تعلق رکھنے والی ایک لونڈی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھی، اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اس لونڈی کو آزاد کر دو کیونکہ یہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

سب سے زیادہ سخت اور بھاری ثابت ہوں گے یعنی جب دجال لعین کا ظہور ہو گا تو بنی تمیم ہی کے لوگ سب سے زیادہ اس کا مقابلہ کریں گے اس کے توڑ میں سب سے زیادہ سعی و کوشش کریں گے اور اس کی تردید و تغلیط میں سب سے آگے رہیں گے اس طرح ان الفاظ میں بنو تمیم کی خصوصیت و فضیلت کا تو ذکر ہم ہی لیکن اس کے ساتھ یہ پیشین گوئی بھی ہے کہ بنو تمیم کی نسل کے لوگ اسی کثرت کے ساتھ ظہور دجال کے زمانہ میں بھی ہوں گے۔

 یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو تمیم کو اس طرح شرف و فضیلت سے نوازا کہ ان کو اپنی طرف منسوب کر کے ان کی قوم کو اپنی قوم فرمایا۔

 یہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے  کا مطلب یہ تھا کہ یہ لونڈی بنو تمیم میں سے ہونے کی بناء پر عربی النسل ہے اور عرب چونکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں اس لئے یہ لونڈی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوئی اگرچہ یہ نسلی وصف تمام عرب کا مشترک وصف ہے ، صرف بنو تمیم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو تمیم کو ایک طرح سے فضل و شرف عطا فرمانے کے لئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

قریش کو ذلیل نہ کرو

اور حضرت سعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس شخص نے قریش کی ذلت و خواری چاہی ، اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و خوار کرے گا۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ قریش کی عزت اور ان کا احترام ہر صورت میں لازم ہے ان کی عزت کے درپے ہونا اور ان کی ذلت و رسوائی چاہنا اللہ کی ناراضگی کو مول لینا ہے ، خواہ وہ امامت کبریٰ یعنی منصب خلافت پر فائز ہوں یا فائز نہ ہوں۔ ان کے خلیفہ و امیر ہونے کی صورت میں ان کی اہانت و بے عزتی کرنے کی ممانعت اور تہدید کی وجہ تو ظاہر ہے ، رہی وہ صورت جب کہ وہ خلافت و امارت کے منصب فائز نہ ہوں تو اس صورت میں بھی ان کی اہانت و بے عزتی کرنے کی ممانعت اس اعتبار سے سمجھی جائے گی کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت حاصل ہے اور ان کا یہ خصوصی فضل وشرف اسی بات کا متقاضی ہے۔

قریش کے حق میں دعا

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی : اے اللہ ! تو نے قریش کو ابتداء میں (غزوۂ  بدر اور غزوۂ  احزاب کے موقع پر شکست و تباہی کا) عذاب چکھایا (جب کہ انہوں نے دین حق کی مخالفت اور تیرے رسول کا راستہ اختیار کر رکھا تھا) پس اب (جب کہ انہوں نے اسلام قبول کر کے اور تیرے رسول کی اطاعت اختیار کر کے دین اور مسلمانوں کو تقویت و مدد پہنچائی ہے تو) آخر میں ان کو عطاء و بخشش سے نواز دے۔ (ترمذی)

دو یمنی قبیلوں کی خوبیاں اور ان کی تعریف

اور حضرت ابوعامر اشعری (جو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے چچا ہیں) بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اسد اور اشعریب ہت اچھے قبیلے ہیں ، یہ دونوں نہ کفار کے مقابلہ پرجنگ سے بھاگتے ہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

اسد یمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور و متعارف ہوا ، اسی قبیلہ کو  ازد  اور  ازد شنوہ  بھی کہا جاتا ہے تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے اشعر دراصل عمرو ابن حارثہ اسدی کا لقب تھا جو اپنے زمانہ میں یمن کا ایک ممتاز اور سربر آوردہ شخص تھا یہ بھی اپنے قبیلہ کا مورث اعلی تھا اور اس کے لقب کی نسبت سے اس کا قبیلہ  اشعری  کہلاتا تھا اس قبیلہ کے لوگوں کو  اشعریون  اور اشعرون  بھی کہا جاتا ہے ، مشہور صحابی حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

وہ مجھ سے ہیں  کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری اتباع کرنے والے اور میری سنت اور میرے اسوہ پر چلنے والے لوگ ہیں ، یا یہ کہ ان قبیلوں کے لوگ میرے دوستوں اور مدد گاروں میں سے ہیں اسی طرح  میں ان کا ہوں  کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی ان کا دوست اور ان کا مدد گار ہوں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اس طرح اشارہ کیا گیا کہ ان قبیلوں کے مؤمن و مسلمان تقویٰ و پرہیز گاری کے مقام پر ہیں اور یہ بات قرآن کریم کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ

                             وان اولیاؤہ الا المتقون۔

 اور ان کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے) جو بھی دوست و رفیق ہیں سب متقی و پرہیز گار ہیں۔

ازد، ازد اللہ ہیں

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قبیلہ ازد کے لوگ ، روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقیناً لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ان کو ازداللہ کہنا یا تو ان کو اس لقب کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون و مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ، ان کے فضل و شرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسداللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت و دلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔

  کاش میرا باپ ازدی ہوتا  مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے با عزت و سربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے۔

 

ازد، ازد اللہ ہیں

٭٭حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون و مددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت و بلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقیناً لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ان کو ازداللہ کہنا یا تو ان کو لقب کے ساتھ کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی ، اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازداللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت و دلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔

کاش میرا باپ ازدی ہوتا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے با عزت و سربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ کاش ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے 

تین قبیلوں کے بارے میں اظہار ناپسندیدگی

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تین قبیلوں ،ثقیف ، بنو حنیفہ ، اور بنو امیہ ، سے ناخوش اس دنیا سے تشریف لے گئے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 مذکورہ بالا تینوں قبیلوں میں ایسے افراد پیدا ہوئے جن سے اسلام کے مخالفین کو فائدہ پہنچا اور مسلمانوں کو شدید رنج و الم اور مصائب سے دوچار ہونا پڑا ، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کر دیا تھا کہ آگے چل ان قبائل سے کیسے کیسے فتنے اور کیسے کیسے ظالم لوگ پیدا ہوں گے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان تینوں قبیلوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ، چنانچہ ثقیف تو وہ قبیلہ ہے جس میں حجاج ابن یوسف جیسا مشہور شخص پیدا ہوا ، بنو حنیفہ وہ قبیلہ ہے جس میں مسیلمہ کذاب جیسے فتنہ ساز کو جنم دیا اور بنو امیہ وہ قبیلہ ہے جس میں عبیداللہ ابن زیاد پیدا ہوا ، یہ وہی عبید اللہ ابن زیاد ہے جو یزید ابن معاویہ کی طرف سے کوفہ و بصرہ کا گورنر تھا اور جس نے محض دربار امارت میں خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی ماتحت فوج سے حضرت سید الشہداء امام حسین کو شہید کرایا ،عبید ابن زیاد انتہائی بدبخت اور کمینہ شخص تھا ، منقول ہے کہ جب اس کی فوج کے لوگ میدان کربلا سے حضرت سید الشہداء حضرت حسین کا سر مبارک لے کر اس کے پاس آئے تو اس نے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھوایا اور ایک چھڑی کے ذریعہ اس پر ضربیں لگاتا جاتا اور جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخانہ کلمات بکتا جاتا ، لیکن اس بدنصیب کا انجام بھی بہت برا ہوا ، نہایت بے دردی کے ساتھ ایک جنگ میں مارا گیا ، اور ترمذی نے اپنی جامع میں عمارہ ابن عمیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ ،جب عبید اللہ ابن زیاد میدان جنگ میں مارا گیا تو (اس کی دشمن فوج نے اس کی بے سر لاش کو نذر آتش کر دیا پھر) اس کے فوجی اس کا سرلے کر شہر میں آئے اور مسجد کے چبوترے پر رکھ دیا جہاں اس کے دوسرے ساتھی اور حوالی موالی بیٹھے ہوئے تھے ،عمارہ ابن عمیر کہتے ہیں کہ اس موقع پر میں بھی وہاں پہنچ گیا ، پھر میں نے دیکھا کہ اس کے ساتھیوں نے چلانا شروع کیا وہ آیا وہ آیا (میں نے حیرت کے ساتھ دیکھا تو) اچانک ایک سانپ آتا ہوا دکھائی دیا ، اور پھر وہ سانپ (بڑی تیزی کے ساتھ عبید اللہ ابن زیاد کے سر کی طرف بڑھا اور) اس کی ناک میں گھس گیا ، تھوڑی سی دیر اندر رہا اور پھر باہر نکل کر چلتا بنا یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہو گیا (یہ ششدر کن منظر دیکھ کر ابھی لوگوں پر حیرانی و سراسیمگی طاری ہی تھی کہ) اچانک انہوں نے پھر شور کیا ، وہ آیا دیکھو وہ سانپ پھر آ رہا ہے اتنے میں وہ سانپ سر کے پاس پہنچ کر پھر نتھنے میں گھس کر اندر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد باہر نکل کر چلتا بنا اسی طرح دویا تین بار ہوا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حدیث کی وضاحت میں  بنو امیہ  کے تحت صرف عبید اللہ ابن زیاد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے حالانکہ یزید ابن معاویہ بھی بنو امیہ میں سا تھا اور اس اعتبار سے اس کا ذکر کرنا زیادہ ضروری تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد اسی کا مقرر کردہ گورنر اور اس کا ماتحت تھا ، اور عبید اللہ ابن زیاد نے جو کچھ کیا یزید کے حکم اور اس کی رضامندی سے کیا ، لیکن اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے بنو امیہ کے باقی لوگوں نے اپنی بد ذاتیوں میں کونسی کسر اٹھا رکھی تھی ،دولت و اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو کر انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی حرکت جو جو حرکتیں کیں وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں ایک یزید ابن معاویہ یا عبید اللہ ابن زیاد ہی کو کیا کہا جائے ، مقصد بنو امیہ کی برائی بیان کرنا تھا ،علامتی طور پر عبید اللہ ابن زیاد کا ذکر کر دیا گیا اب اور سب کو اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ کچھ بندر مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھیل تماشہ دکھا رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خواب کی تعبیر میں بنو امیہ کا ذکر کیا 

بنو ثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قبیلہ ثقیف میں انتہا درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہو گا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد و ہلاکو  حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے  جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدو ہلاکو سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم) ہے۔ اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک و مہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی و بزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ و معرکہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ : حجاج ابن یوسف نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کو شہید کر دیا تو حضرت اسماء نے (جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں) کہا ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا ہے کر دیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہو گا اور ایک بڑا مفسد و ہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد و ہلاکو کی بات ، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد و ہلاکو تو ہی ہم یہ پوری حدیث فصل میں آ رہی ہے۔

 

تشریح

 

 حجاج  لغوی طور پر تو  حاج  کا اسم مبالغہ ہے جس کے معنی ہیں : بحث کرنے والا حجت یعنی دلیل و ثبوت لانے والا حجاج ابن یوسف تاریخ اسلام کا مشہور ظالم شخص ہے جس نے ہزار ہا ہزار اچھے اور نیک لوگوں کو جن میں صحابہ و تابعین بھی شامل ہیں ، ناحق موت کے گھاٹ اتار ،عبد اللہ ابن زبیر کو شہید کیا اور ہزاروں بے خطا انسانوں کو قید و بند میں ڈالے رکھا کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو اس نے کسی معرکہ آرائی اور جنگ و جدل کے بغیر یوں ہی پکڑ پکڑ کر جیل خانہ میں ڈالا اور پھر ان کو قتل کرا دیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے جو لوگ جنگوں اور جھگڑوں میں مارے گئے ان کی تعداد علیحدہ ہے ، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے قید خانہ سے پچاس ہزار آدمیوں کی ایک بڑی تعداد تو ایک ہی وقت میں نکلی تھی ، اور اس شخص کی سنگدلی کا اندازہ لگانے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس نے قید خانہ بنوا رکھا تھا اس میں چھت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اس کے تمام قیدی کھلے آسمان کے نیچے گرمی و سردی اور دھوپ و بارش کی صعوبتیں جھیلتے تھے ، حجاج ابن یوسف ثقفی دراصل اموی امیر عبد الملک ابن مروان کا زبردست معتمد و بہی خواہ تھا اور امارت و سلطنت کے معاملات میں بڑا اثر و رسوخ رکھتا تھا عبد الملک ابن مروان نے اس کو عراق و خراسان کا حاکم اعلی (گورنر) بنا رکھا تھا اور عبداللہ ابن زبیر کی شہادت کے بعد حجاز کا والی بھی بنا ،عبد الملک ابن مروان کے بعد ولید عبد الملک کے زمانہ امارت میں بھی عراق و خراسان پر اس کا اقتدار برقرار رہا ، اس کے ظلم و ستم کے واقعات اور وحشیانہ کاروائیوں سے تاریخ کے اور اق بھرے پڑے ہیں ، وسط شوال ٩٥ھ میں بعمر ٥٤ سال اس کا انتقال ہوا۔

مختار ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی کا بیٹا تھا مختار کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت و روایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا ، ابتدا میں یہ شخص علم و فضل اور نیکی و تقویٰ کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم و تقویٰ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر و عقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہو گیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا ، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے ، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکر و فریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کرامت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہو گئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے و خیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کر لینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہو گیا ، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور پھر ١٤ رمضان ٢٧ھ کو مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب و مبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہا درجہ کس مفسد و ہلاکو کو پیدا ہو گا) کا مصداق و محمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے۔

قبیلہ ثقیف کے حق میں بددعا کے بجائے دعاء ہدایت

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) کچھ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ ثقیف کے تیروں نے ہم کو بھون ڈالا ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بددعا کیجئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے اللہ !ثقیف کو (قبول اسلام اور اطاعت احکام کی) ہدایت و توفیق عطا فرما۔ (ترمذی)

قبیلہ حمیر کے لئے دعا

اور حضرت عبد الرزاق ابن ہمام (جو جلیل القدر عالم و فقیہہ اور کثیر التصانیف بزرگ ہیں) اپنے والد مکرم (حضرت ہمام ابن نخعی تابعی) سے اور وہ حضرت مینا سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی حضرت ابوہریرہ نے) بیان کیا : (ایک دن) ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس مبارک میں حاضر تھے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا ، جس کے بارے میں میرا گمان ہے کہ وہ قبیلہ قیس سے تعلق رکھتا تھا ، اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے یعنی ان کے حق میں بددعا فرمائے کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور رکھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سنا تو) اس شخص کی طرف سے منہ پھیر لیا وہ شخص پھر دوسری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ادھر سے بھی منہ پھیر لیا پھر وہ شخص دوسری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرف سے بھی منہ پھیر لیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی طرح بھی اس کی طرف متوجہ ہونے اور اس کی بات ماننے پر تیار نہیں ہوئے) اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حمیر پر اپنی رحمت نازل فرمائے ان کے منہ سلام ہیں ، ان کے ہاتھ طعام ہیں اور وہ اہل امن بھی ہیں اور اہل ایمان بھی  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم عبد الرزاق ابن ہمام کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور مینا سے نقل کی جانے والی روایتیں منکر ہیں (مطلب یہ کہ اگرچہ عبدالرزاق ابن ہمام مسلمہ فقیہہ و محدث اور قوی ثقہ راوی ہیں مگر مینا ایک ضعیف راوی ہیں)

 

تشریح

 

 ان کے منہ سلام ہیں اور ان کے ہاتھ طعام ہیں  کے ذریعہ حمیر کی دو بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ کیا فرمایا ایک تو یہ کہ ان کے ہاں سلام کا بہت چرچا ہے ،جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں ان کے منہ سے سلام علیک ضرور نکلتا ہے اور دوسری خوبی یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا خوب کھلاتے اور خوب تقسیم کرتے ہیں اس اعتبار سے یہ لوگ انکساری اور سخاوت جیسی دونوں عظیم صفتوں کے جامع ہیں اور جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کو فضیلت و بزرگی کا مقام اور حقوق العباد کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہے۔

 وہ اہل امن بھی ہیں اور اہل ایمان بھی  یعنی یہ لوگ کامل و پختہ ایمان کے حامل بھی ہیں اور ہر قسم کی آفات و بلیات اور مضرات سے محفوظ و مامون بھی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ اور ان کا قبیلہ دوس

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے پوچھا تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا (یمن کے مشہور قبیلہ ازدکی ایک شاخ) دوس سے تعلق رکھتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حیرت ظاہر کرتے ہوئے) فرمایا : مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ قبیلہ دوس میں کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جس میں نیکی و بھلائی ہو (ترمذی)

 

 

تشریح

 

اس حدیث میں حضرت ابوہریرہ کی تعریف و تحسین ہے اور ان کے قبیلہ دوس کی مذمت ، کہ اگر ابوہریرہ نہ ہوتے تو اس قبیلہ میں کوئی بھی خوبی و بھلائی نہ ہوتی۔

اہل عرب سے دشمنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی رکھنا ہے

اور حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے فرمانے لگے ، مجھ سے دشمنی نہ رکھنا ورنہ تم اپنے دین سے جدا ہو جاؤ گے میں نے (یہ سنا تو حیرت سے) عرض کیا : بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی تو دشمنی ،دشمنی کا تصور بھی رکھوں!درانحالیکہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے حبیب ہیں اپنی پوری امت کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں (اسلام کا اور اچھے کاموں کا) سیدھا راستہ دکھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم عرب سے دشمنی رکھو گے تو گویا مجھ سے دشمنی رکھو گے  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم عام طور پر تمام اہل عرب سے بغض و عداوت اور دشمنی رکھو گے تو چونکہ میں بھی عرب میں شامل ہوں اس لئے مجھ سے بھی تمہارا دشمنی رکھنا لازم ہو گا پس ایسی سے میں نے کہا کہ تم مجھ سے دشمنی نہ رکھنا، اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب سے بغض و عداوت رکھنے سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے تاکہ اتنی بڑی خرابی میں پڑنے کی نوبت نہ آئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان چونکہ عجمی اور فارسی النسل تھے اس لئے اس پرانی اور اصل وطنی نسبت کے تحت ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جایا کرتی ہو گی یا ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جاتی ہو گی جس سے تمام عرب یا کچھ عرب کے تئیں حقارت یا بے ادبی کا اظہار ہوتا ہو گا ، ورنہ جہاں تک حقیقی بغض و عداوت رکھنے کا تعلق ہے تو حضرت سلمان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عرب کے تئیں اس طرح کے جذبات رکھتے ہوں گے تاہم ان کی اس طرح کی بات یا حرکت چونکہ صورۃ ًبغض و عداوت ہی کی مظہر ہوتی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو متنبہ فرمایا کہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور اپنی زبان یا اپنے عمل سے کسی ایسی بات کا ارتکاب نہ کریں جس سے حقیقتہً نہ سہی صورۃً ہی عرب دشمنی کا اظہار ہوتا ہو کیونکہ اگر اس کا سلسلہ حققۃ بغض و عداوت رکھنے تک پہنچ گیا تو یہ چیز مجھ سے بغض و عداوت رکھنے کے مترادف ہو جائے گی۔

اہل عرب سے فریب و دغا بازی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت خاص سے محرومی کا باعث ہے

اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اہل عرب سے فریب و دغا بازی کرے گا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہو گا اور نہ اس کو میری دوستی کی سعادت حاصل ہو گی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم حصین ابن عمر کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور محدثین کے نزدیک وہ (حصین ابن عمر) اس درجہ کے قوی نہیں ہیں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 غش (فریب و دغا بازی) کا مطلب ہے ،دھوکا دینا ،دل میں تو کچھ ہو مگر زبان سے کچھ اور کہنا خیرخواہی نہ کرنا ، کینہ رکھنا اور کسی کو اس بات پر ابھارنا جو اس کے مفاد و مصلحت کے خلاف ہو شفاعت  سے شفاعت صغریٰ یعنی  خصوصی شفاعت  مراد ہے نہ کہ شفاعت کبریٰ جو بہر حال ہر ایک امتی کے لئے ہو گی۔ دوستی کی سعادت حاصل نہ ہونے سے یا تو یہ مراد تھی کہ اس شخص کو کبھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہو سکتا کہ میں اس کو اپنا دوست رکھوں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ: اس شخص کو کبھی یہ سعادت حاصل نہیں ہو سکتی کہ وہ مجھے اپنا دوست و محبوب رکھے بہرحال دونوں صورتوں میں مراد نفی کمال ہے۔

 اور وہ اس درجہ کے قوی نہیں ہیں  امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہوا کہ عمران ابن حصین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چونکہ روایت حدیث میں  قوی  نہیں سمجھے جاتے اس لئے ان کی روایت کردہ یہ حدیث  ضعیف  کہلائے گی ، لیکن اول تو یہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث بھی معتبر مانی جاتی ہے دوسرے یہ کہ اس روایت کی تائید ان بہت سی حدیثوں سے ہوتی ہے جو تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں ، مثلاً حاکم نے حضرت انس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ۔

حب العرب ایمان و بغضہم نفاق۔

اہل عرب کی دوستی ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے

طبرانی نے اوسط میں حضرت انس سے یہ روایت نقل کی ہے

حب قریش ایمان وبغضم کفر وحب العرب ایمان وبغضم کفرفمن احب العرب فقد احبنی ومن ابغض العرب فقدابغضنی۔

 قریش سے دوستی رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے نیز عرب سے محبت رکھنا ایمان ہے ،عرب سے بغض رکھنا کفر ہے پس جس نے عرب سے محبت رکھی اس نے درحقیقت مجھ سے محبت رکھی اور جس نے عرب سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔۔

علامہ طبرانی نے کبیر میں حضرت سہل ابن سعد سے یہ حدیث نقل کیا ہے

احبوا قریشافانہ من احبہم احبہ اللہ۔

 قریش کو دوست رکھو کیونکہ جس نے قریش کو دوست رکھا اس کو اللہ دوست رکھے گا۔

حاکم مستدرک میں حضرت ابوہریرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ

احبوالفقراء وجالسوہم واحبواالعرب من قلبک ویسرک من الناس ماتعلم من نفسک۔

فقراء و مساکین سے محبت رکھو اور ان میں بیٹھا کرو اور اہل عرب سے دلی محبت رکھو اور چاہئے کہ وہ عیوب کہ جو تم خود اپنے میں پاتے ہو تمہیں دوسروں کی گیری سے باز رکھیں۔

ایک پیشین گوئی

اور حضرت ام حریر رحمہا اللہ تعالیٰ علیہ (تابعیہ) جو ایک صحابی حضرت طلحہ ابن مالک کی آزاد کردہ باندی ہیں کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آقا (حضرت طلحہ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے  قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت اہل عرب کا ہلاک ہو جانا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

اہل عرب  سے مراد یا تو مسلمان عرب ہیں یا جنس عرب (یعنی تمام عرب خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) بہرحال مطلب یہ ہے کہ جب اہل عرب اس دنیا سے اٹھ جائیں تو سمجھو کہ قیامت آیا چاہتی ہے ، اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عرب کو قیادت و سیاست کا مقام حاصل ہے ، تمام غیر عرب ان کے تابع ہیں واضح رہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت صرف بدکار (برے لوگ ہی) اس دنیا میں ہوں گے کوئی بھی کلمہ گو (توحید و رسالت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والا) موجود نہیں ہو گا۔

خلافت و امارت قریش کو سزاوار ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خلافت و بادشاہی قریش میں ہے ، قضاء انصار میں اذان حبشیوں میں ہے ، امانت ازد (یعنی شنود) میں ہے (جو یمن کا ایک قبیلہ ہے یا یہ کہ) ازد سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد تمام اہل یمن تھے ایک روایت میں ہے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موقوف حدیث کے طور پر منقول ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو اس روایت کو کے عاقل ہیں کہا ہے کہ یہی بات زیادہ صحیح ہے (یعنی سند کے اعتبار سے وہ روایت زیادہ صحیح ہے جو حدیث موقوف کے طور پر نقل ہوئی ہے)۔

 

 

تشریح

 

 قضا  سے مراد  نقابت  ہے نقابت کے معنی ہیں نقیب بننا، یعنی نگران حال، خبر رکھنے والا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لیلۃ العقبہ میں انصار کی ہر شاخ و قبیلہ کا ایک نقیب مقرر کر دیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے قبیلہ میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرے لوگوں کو سمجھا بجھا کر اسلام کی طرف مائل کرے اور جو لوگ مسلمان ہو جائیں ان کے حالات و معاملات کا نگران رہے چنانچہ ان نقیبوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی ہوشیاری اور پوری تندہی کے ساتھ انجام دیا اور دربار رسالت سے تعریف و تحسین کے مستحق قرار پائے۔

اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں قضاء کا لفظ اپنے معروف معنی ہی میں استعمال ہوا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ کو جو جلیل القدر صحابی ہیں ، یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا ، یہ قول زیادہ واضح اور زیادہ قرین قیاس ہے۔

 اذان حبشیوں میں ہے کا مطلب یہ تھا کہ اذان دینے کی خدمت حبشی لوگ زیادہ عمدگی اور زیادہ موزونیت کے ساتھ انجام دیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سامنے رکھ فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مؤذنوں کے سردار تھے اور وہ حبشی تھے۔

 امانت ازد میں ہے  میں ازد  کے لفظ سے کیا مراد ہے اس بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے یمن کا وہی مشہور قبیلہ مراد ہے جس  ازد شنوہ کہا جا تا ہے اور ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ امانت کی ذمہ داری نہایت اطمینان بخش طور پر قبیلہ ازد شنوہ کے یمنی لوگ انجام دیتے ہیں اور دوسرا قول اس راوی کا ہے کہ جنہوں نے روایت میں یعنی الیمن کے الفاظ کا اضافہ کر کے یہ بتایا ہے کہ  ازد سے یمن کا صرف ایک قبیلہ  ازد شنوہ   مراد نہیں ہے بلکہ بالعموم تمام اہل یمن مراد ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اہل یمن کے بارہ عمومی طور پر فرمایا گیا ہے کہ وہ رقیق القلب ہیں اہل امن اور اہل ایمان ہیں۔

بہرحال حدیث کا مجموعہ حاصل یہ ہے کہ ان مناصب یعنی قضایا نقابت ، مؤذنی اور امانت کے لئے افراد کا انتخاب کرتے وقت مذکورہ قبائل کے لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ان قبائل کے لوگوں میں ان مناصب کی ذمہ داری و خدمت انجام دینے کی مخصوص صلاحیت اور اس سلسلہ میں ان کو ایک خاص نسبت حاصل ہے۔

قریش کے بارے میں ایک پیش گوئی

حضرت عبداللہ ابن مطیع تابعی (جو سادات قریش میں سے ہیں) اپنے والد (حضرت مطیع صحابی) جن کا اصل نام عاصی یا عاص تھا اور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نام تبدیل کر کے مطیع رکھ دیا تھا) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فتح مکہ کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  (فتح مکہ کے دن) کے بعد سے قیامت کے دن تک کسی قرشی کو حبس و قید کر کے نہیں مارا جائے گا (یہ اور بات ہے کہ دشمن کے مقابلہ پر جنگ و جدل میں مارے جائیں)۔ (مسلم)

 

تشریح

 

حبس وقید کر کے نہیں مارا جائے گا  سے کیا مراد ہے ، اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ملا علی قاری نے طیبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں نفی سے نہی مراد ہے مطلب یہ کہ اس ارشاد گرامی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد مختلف اعتراض کر کے اس کو بگاڑ دیا ہے اور پھر حمیدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض محدثین نے اس ارشاد گرامی کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے معنی یہ ہے کہ آج فتح مکہ کے دن کے بعد سے قیامت کے دن تک ایسی نوبت کبھی نہیں آئے گی کہ کوئی قریشی شخص اسلام سے مرتد ہو جائے اور پھر اسلامی قانون کے مطابق اس کو حبس و قید میں ڈال دیا جائے اور وہ ارتداد (یعنی کفر) پر ثابت و قائم رہے یہاں تک کہ اس کو قتل کر دیا جائے اس تاویل کی بنیاد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بعد کی ایسی مثالیں تو موجود ہیں جب کسی قریشی شخص کو اس بناء پر قید و بند میں ڈال کر موت کے گھاٹ اتارا گیا کہ وہ اسلام سے کفر و  انکار اور اسلام دشمنی پر قائم تھا لیکن کوئی ایسی مثال نہیں پائی جاتی جب کوئی قریشی مسلمان مرتد ہو گیا ہو اور اس بنا پر اس کو قید و بند میں ڈال کر قتل کر دیا گیا ہو کہ وہ اپنے ارتداد سے باز نہیں آیا اور کفر پر قائم و ثابت رہا ، لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ قریش کے دلوں میں دین و ایمان اس طرح راسخ کر دے گا اور ان کو اسلام کے راستہ پر اس مضبوطی سے لگا دے گا کہ کبھی بھی ان میں کا کوئی شخص مرتد نہیں ہو گا ،جس کے سبب اس کو قید و بند میں ڈال کر قتل کر دینے کی نوبت آئے اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ : ان الشیطان قد ایس من جزیرۃ العرب (حقیقت یہ ہے کہ شیطان جزیرۃ العرب سے مایوس ہو گیا ہے)۔

حجاج کے سامنے حضرت اسماء کی حق گوئی

حضرت ابو نوفل معاویہ ابن مسلم تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی نعش) کو مدینہ (کے راستہ پر واقع مکہ) کی گھاٹی میں (ایک سولی پر لٹکے ہوئے) دیکھا ابونوفل کہتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے اس نعش کے پاس آنا جانا شروع کیا اور دوسرے لوگ بھی آتے جاتے رہے یہاں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں آئے اور نعش کے سامنے کھڑے ہو کر یوں گویا ہوئے السلام علیک اے ابو خبیب ! السلام علیک اے ابوخبیب السلام علیک ابوخبیب! اگاہ ہو، خدا کی قسم میں تم کو منع نہیں کرتا تھا آگاہ ہو خدا کی قسم ، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا ، میں تم کو اس کام سے منع کرتا تھا ، (تین مرتبہ یہ الفاظ کہنے کے بعد پھر انہوں نے کہا) آگاہ ہو خدا کی قسم ، بلاشبہ تم وہ شخص تھے جس کو میں جانتا تھا کہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے بہت زیادہ شب بیدار و شب خیز اور اہل قرابت سے بہت زیادہ احسان و سلوک کرنے والے ہو ، آگاہ ہو خدا کی قسم وہ گروہ جس کی نظر میں تم برے ہو یقیناً ایک برا اور بد تر گروہ ہے اور ایک روایت میں لامۃ سوئکے بجائے لامۃ خیر کے الفاظ ہیں اس کے بعد حضرت ابن عمر وہاں سے چلے گئے ، پھر جب یہ خبر حجاج کے پاس پہنچی کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے پاس) کھڑے ہو کر ایسا ویسا کہا ہے تو اس نے (فوراً) ایک آدمی بھیجا اور نعش کو اس لکڑی (یعنی سولی) پر سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوا دیا پھر حجاج نے ابن زبیر کی والدہ حضرت اسماء (دختر حضرت ابوبکر صدیق) کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور ان کو طلب کیا) حضرت اسماء نے اس کے ہاں آنے سے انکار کر دیا ، حجاج نے دوبارہ آدمی بھیجا اور کہلایا کہ یا تو فوراً چلی جاؤ ورنہ پھر ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو تمہاری چوٹی پکڑ کر کھنچتا ہوا یہاں لائے گا ، ابونوفل کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے پھر انکار کر دیا اور حجاج کو کہلا بھیجا کہ خدا کی قسم میں تیرے پاس ہرگز نہیں آؤں گا اب تو تو کسی ایسے آدمی کو بھیج کر دیکھ لے جو میری چوٹیاں پکڑ کر مجھے کھینچتا ہوا لے جائے ، راوی کہتے ہیں کہ حجاج (نے یہ سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور بڑے غضب ناک انداز میں): لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو ، پھر اس نے اپنی جوتیاں پیروں میں ڈالیں اور اکڑتا اتراتا ہوا تیز تیز چل کر حضرت اسماء کے ہاں پہنچا اور (زہریلے لہجہ میں) ان سے بولا کہ (ذرا بتانا) تم نے اس دشمن خدا (یعنی اپنے بیٹے ابن زبیر) کے ساتھ سلوک کرنے میں مجھے کیسا پایا !حضرت اسماء بولیں میں نے تو ایسا پایا کہ تو نے اس کی دنیا تباہ کر دی اور اس نے تیری عاقبت کا ستیاناس کر دیا (یعنی اس ظالمانہ قتل نے تجھے عذاب دوزخ کا مستوجب بنا دیا ہے اور ہاں مجھے معلوم ہے کہ تو میرے بیٹے ابن زبیر کو (اس کی زندگی میں یا اس کی شہادت کے بعد) دو کمر بند والی عورت  کا بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا تھا؟ (تو سن لے) خدا کی قسم میں بلاشبہ دو کمربند والی عورت ہوں ، ایسے دو کمر بند کہ جن میں ایک کمربند تو وہ تھا جس کے ذریعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر کھانا جانوروں سے محفوظ رکھتی تھی اور دوسرا کمر بند عورت کا وہ کمربند تھا جس سے کوئی عورت بے پرواہ نہیں ہو سکتی اور یاد رکھ ہم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ قبیلہ ثقیف میں ایک نہایت درجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہو گا اور ایک درجہ کا مفسد و ہلاکو، تو تیرے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ مفسد و ہلاکو، جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دی تھی تو ہی ہے ، راوی ابو نوفل کا بیان ہے کہ (یہ الفاظ سن کر) حجاج حضرت اسماء کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا (مسلم)

 

تشریح

 

مدینہ کی گھاٹی  سے مراد مکہ شہر کا بالائی سرا ہے جو مشرقی سمت واقع ہے ، مدینہ کا راستہ چونکہ اسی جگہ سے گزرتا ہے اور مدینہ سے آنے والے یہیں سے مکہ شہر میں داخل ہوتے تھے اس مناسبت سے اس کو  مدینہ کی گھاٹی  سے تعبیر کیا گیا جب ظالم حجاج ابن یوسف نے اپنے لشکر جرار کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کو مسجد حرام میں محصور کر کے نہایت بے دردی سے شہید کیا تو بعد میں اس نے نعش مبارک کو مذکورہ جگہ ایک سولی پر لٹکا دیا تھا اور پھر اسی جگہ کے قریب حجون یعنی جنت المعلاۃ میں ان کی تدفین عمل میں آئی لیکن اب تو ان کی قبر کا کوئی نشان باقی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ان کی قبر کس جگہ تھی ، اسی طرح جنت المعلی میں اور جو صحابہ کرام مدفون ہوئے ان کی قبریں بھی متعین و معلوم نہیں ہیں حضرت خدیجہ الکبری کی قبر بھی اسی جنت المعلاۃ میں ہے مگر ان کی قبر بھی اسی طرح غیر معلوم تھی ، ایک زمانہ میں کسی بزرگ نے خواب کی بنیاد پر ان کی قبر کا تعین کیا تھا اور اس قبر پر قبہ بھی بنایا گیا تھا اب وہ بھی بے نشان ہے۔

 میں نے تم کو اس کام سے منع کیا تھا  میں  کام  سے مراد یزید ابن معاویہ سے خروج اور اپنی خلافت و امارت کا دعویٰ ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر نے کیا تھا اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت خلافت و امارت پر بیٹھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے ان کی اطاعت و بیعت سے انکار کر دیا اور مکہ مکرمہ کے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خلافت کا اعلان کر دیا۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر نے چونکہ جلیل القدر صحابی اور بلند و بالا نسبتوں کے اعتبار سے بہت زیادہ عزت و منزلت رکھتے تھے اس لئے جلد ہی ان کی خلافت کو قبول کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا اور مختلف علاقوں اور خطوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا بلکہ جیسا کہ مؤرخین لکھتے ہیں شام کے علاوہ تقریباً تمام ہی عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کر لئے گئے۔ یزید کے بعد پھر مروان ابن حکم اور اس کے بعد عبد الملک ابن مروان کی امارت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور بدستور اپنی خلافت کے دعوے اور اقتدار پر قائم رہے لیکن عبد الملک ابن مروان نے ان کے خلاف زبردست فوجی کاروائی کی اور حجاج ابن یوسف ثقفی کو لشکر جرار کے ساتھ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا ، حضرت عبداللہ ابن زبیر نے اپنے قلیل ترین ساتھیوں کے ساتھ حجاج کی زبردست فوج کا جس بہادری و پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ شجاعت و بہادری اور عزیمت و جرأت کی تاریخ کا نادر المثال کارنامہ ہے آخر کار جام شہادت نوش کیا ، بدبخت حجاج نے ان کا سر تن سے جدا کر کے مدینہ منورہ روانہ کیا اور باقی جسم سولی پر لٹکا دیا ، اس سے پہلے یہی لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا ، اس وقت یزید زندہ تھا (اس لشکر نے مدینہ منورہ کو جس طرح تباہ و برباد کیا اور وہاں کے لوگوں کا جس طرح قتل عام کیا وہ  واقعہ حرہ  کے نام سے اپنی لرزہ خیز تفصیل کے ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ پس حضرت عبداللہ ابن عمر نے سولی پر لٹکی ہوئی حضرت زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر انہی دلدوز واقعات اور ظالم و فاسد لوگوں کے اس گروہ کی وحشیانہ کاروائیوں پر تاسف و تحسر کا اظہار کرتے ہوئے حضرت ابن زبیر کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا کرتا تھا کہ تم ان ظالموں اور بد کرداروں کے مقابلے نہ آؤ اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے یکسو ہو جاؤ مگر تم نہ مانے حق کی حکمرانی قائم کرنے کے تمہارے اس پاک جذبے نے تمہیں خلافت کے دعوے پر مجبور رکھا اور تم نتائج سے بے پرواہ ہو کر ان دنیا دار اور مفسد حکمرانوں کے خلاف ڈٹے رہے آخر کار تمہیں اس لرزہ خیز انجام سے دوچار ہونا پڑا۔

 تم بہت زیادہ روزے رکھنے والے  بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر بہت ہی زیادہ روزے رکھا کرتے تھے ایسا بھی ہوتا تھا کہ پندرہ پندرہ دن تک مسلسل روزے سے رہا کرتے تھے جس کو طے روزے کہا جاتا ہے اور پوری پوری رات نوافل ، تلاوت اور ذکر اللہ میں گزارا کرتے تھے قرابتداروں سے حسن سلوک کے معاملہ میں امتیازی شہرت رکھتے تھے حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس موقع پر حضرت ابن زبیر کے ان اوصاف کا ذکر اس لئے کیا کہ حجاج ان کو عدو اللہ (اللہ کا دشمن) اور ظالم کہا کرتا تھا اور نہ معلوم کیا کیا واہی تباہی بکا کرتا تھا لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر نے ضروری سمجھا کہ حضرت ابن زبیر کی وہ خوبیاں اور نیکیاں بیان کریں جن سے حجاج کو لغو و بے ہودہ باتوں کی تردید ہو اور عام لوگوں پر واضح ہو جائے کہ ابن زبیر کس پایہ کے عابد و زاہد اور بلند مرتبہ مسلمان تھے۔

اور ایک روایت لامۃ خیر  کے الفاظ ہیں ، یعنی اصل روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حجاج ابن یوسف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں میں واضح الفاظ کے ذریعہ اپنا یہ تاثر بیان کیا کہ جو گروہ عبداللہ ابن زبیر کو برا اور حق سے ہٹا ہوا سمجھتا ہے۔ دراصل خود وہی گروہ اپنی بد اعتقادی اور اپنے خیال فاسد کی بناء پر ایک برا اور بدتر گروہ ہے کہ تم جیسے شخص کو شریر اور فسادی لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ایک روایت میں یہاں  ایک برا اور بدتر گروہ ہے  کے بجائے یہ ہے کہ  وہ کیا ہی اچھا گروہ ہے  ان الفاظ میں بھی اسی تاثر کا اظہار مقصود ہے جو اصل روایت سے ظاہر ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دوسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر نے گویا طنز و تعریض اور استہزاء کا اسلوب اختیار کیا جیسا کہ عام طور پر کسی برے اور فسادی شخص کی شرارت اور بد طینتی  پر چوٹ کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ واہ میاں تم بھی کیا خوب ہو آپس میں تفرقہ ڈلواتے ہو ، تاہم زیادہ موزوں اور قریب الفہم وہی الفاظ ہیں جو اصل روایت میں مذکور ہیں۔

 یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوا دیا  یعنی مکہ میں رہنے والے یہودی یا باہر سے آئے ہوئے اتفاقاً مکہ میں مر جانے والے یہودی جس جگہ دفن کئے جاتے ہیں وہاں حجاج نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش ڈلوا دی تھی۔ لیکن یہ بات اس کے منافی نہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر کی تدفین جنت المعلاۃ میں عمل میں آئی تھی ، کیونکہ یہ صورت حال ابتداء پیش آئی تھی کہ ان کی نعش یہودیوں کے قبرستان میں ڈلوا دی گئی تھی ، لیکن پھر بعد میں ان کی نعش مبارک کو وہاں سے اٹھا کر جنت المعلاۃ میں دفن کیا گیا تھا ، واضح رہے کہ اب تو بہت زمانہ سے وہ جگہ متعارف نہیں ہے جہاں یہودیوں کا قبرستان یا ان کی قبریں تھیں لیکن اس زمانہ میں ایسی کوئی جگہ ضرور تھی جو یہودیوں کی قبروں کے لئے مخصوص تھی اور اسی لئے حجاج نے حکم دیا تھا کہ عبداللہ ابن زبیر کی نعش کو سولی سے اتار کر یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا جائے۔

 لاؤ میری جوتیاں میرے سامنے رکھو  یہ ارونی سبتی کا مطلب ترجمہ ہے۔سبتی دراصل ی متکلم کے ساتھ سبتیۃ کا تثنیہ ہے اور سبتیۃ اس پاپوش کو کہتے تھے جو دباغت دئیے ہوئے اور بال وغیرہ سے بالکل صاف نرم چمڑے کا بنا ہوتا تھا ، اس زمانہ میں امراء و سلاطین اور عیش پسند لوگ اسی طرح کے جوتے پہنا کرتے تھے۔

 دو کمر بند والی عورت  ذات النطاقین کا ترجمہ ہے ، اور یہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کا لقب تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خاص واقعہ کی بناء پر مرحمت فرمایا تھا۔ہوا یہ تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ ان کے مکان سے روانہ ہو رہے تھے تو حضرت اسماء نے ان دونوں کے لئے کچھ توشہ تیار کیا تھا۔توشہ دان باندھنے کے لئے انہیں کوئی تسمہ وغیرہ نہیں ملا تو انہوں نے اپنا کمر بند پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کئے ، ایک ٹکڑے سے توشہ دان باندھا اور دوسرے ٹکڑے کو اپنی کمر پر لپیٹ لیا۔ دراصل نطاق کا ترجمہ کمربند کے بجائے کمر پٹہ کرنا زیادہ موزوں ہے ، اس زمانہ میں جب کہ عرب عورتوں میں پاجامہ و شلوار جیسی چیز کا زیادہ رواج نہیں تھا ، وہ اپنے تہ بند کے اوپر کمر پٹہ استعمال کیا کرتی تھیں تاکہ کام کاج کرتے وقت تہ بند کے کھلنے کا امکان نہ رہے ، بہرحال اس موقع پر حضرت اسماء نے جس بے ساختگی کے ساتھ اپنا کمر پٹہ کھول کر اس کے دو حصے کر کے گویا دو نطاق بنائے اس کی مناسبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ذوالنطاقین کے لقب سے نوازا۔ اس اعتبار سے یہ لقب خود ان کے لئے تو فخر کا موجب تھا کہ اپنی کوئی چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے استعمال و کام میں آ جائے اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے لیکن نادان حجاج ان کے اس لقب کو ان کی حقارت پر محمول کرتا تھا کہ ان کو ایک چیز کے ذریعہ ملقب کیا گیا جو عام طور پر گھروں کا کام کاج کرنے والی عورتوں اور باہر نکلنے والی خادماؤں کی علامت ہے۔

 ہاں ، خدا کی قسم میں دو کمربند والی عورت ہوں  ذوالنطاقین کا لقب حجاج کے خیال فاسد کے برخلاف حضرت اسماء کے لئے چونکہ تفاخر دارین کا موجب تھا اس لئے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس لقب کو فخر کے ساتھ قبول و تسلیم کیا اور حجاج کے سامنے اس کا برملا اظہار و اعتراف بھی کیا بلکہ اس کے بعد وہ وجہ بیان کی جس نے ان کو اس اعزاز تک پہنچایا۔چنانچہ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے اپنے ایک کمر بند کے جو دو کمر بند کر لئے تھے ان میں ایک کے ذریعہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر کا کھانا دسترخوان میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ لٹکا دیتی تھی ، تاکہ جانوروں یعنی چوہے اور چیونٹی وغیرہ سے محفوظ رہے اور دوسرا کمر بند اس کام کے لئے تھا جس سے کوئی عورت بے پرواہ نہیں ہو سکتی ، بے پرواہ نہیں ہو سکتی  کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ کسی بھی عورت کی تعریف و تحسین اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کا کام کاج پوری لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتی ہو ، نطاق یعنی کمر بند یا کمر پٹہ کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ عورت اس اپنے تہبند پر باندھ لے تاکہ اس کو تہ بند کھل جانے کا خوف نہ ہو اور وہ اپنے گھر کا کام کاج پورے اطمینان سے کر سکے پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جو عورت اپنے گھر سے اور اپنے گھر کے کام کاج سے دلچسپی رکھتی ہو وہ نفاق سے بے نیاز نہیں ہو سکتی ،دوسرا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں نطاق کا ایک استعمال اس مقصد کے لئے بھی ہوتا تھا کہ پیٹ بڑھنے نہ پائے۔ جیسا کہ ایک زمانے میں عورتوں میں اس کا رواج تھا کہ وہ اپنے پیٹ کی ہئیت درست رکھنے کے لئے چمڑے کا کمر پٹہ استعمال کرتی تھیں بلکہ مالدار عورتیں تو سونے چاندی کے کام کا کمر پٹہ باندھتی تھیں ، پس حضرت اسماء نے اس طرف اشارہ کیا کہ دوسرا نطاق میں اس مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی اور یہ ایک ایسا مقصد تھا جس سے کوئی عورت بے پرواہ نہیں ہو سکتی تھی۔

 اور ان کو کوئی جواب نہیں دیا  یہ بہادر خاتون حضرت اسماء کی جرأت و بے باکی اور حق گوئی کا اثر تھا کہ ظالم حجاج جیسا شخص ان کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا اور ان کا جواب دینے کی جرات نہ کر سکا ، منقول ہے کہ حضرت اسماء اپنے بیٹے عبداللہ ابن زبیر کے سانحہ شہادت کے بیس دن بعد انتقال کر گئیں اس وقت ان کی عمر سو سال تھی اور ان کا ایک بھی دانت نہیں ٹوٹا تھا۔

علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی نعش کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو جو سلام کیا اس سے معلوم ہوا کہ میت کو سلام کرنا اور ایک سے زائد مرتبہ کرنا  مستحب ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے سامنے ان خوبیوں اور اوصاف کو بیان کرنا جن کے ذریعہ وہ مشہور تھا جائز ہے۔ اس حدیث سے حضرت عبداللہ ابن عمر کی بھی زبردست فضیلت و خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ وہ حق بات کہنے سے باز نہ رہے باوجودیکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں میں جو کچھ کہوں گا اس کا ایک ایک لفظ حجاج تک پہنچے گا۔

خلافت کا دعویٰ کرنے سے حضرت عبداللہ بن عمر کا انکار

اور حضرت نافع (جو حضرت عبداللہ ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر سے متعلق ہنگامہ آرائی کے زمانہ میں (ان کی شہادت سے پہلے) دو شخص حضرت عبداللہ ابن عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں نے (خلافت و امارت کے بارے میں اختلاف و نزاع اور ہنگامہ آرائی کی صورت میں) جو کچھ کیا ہے وہ آپ نے دیکھ ہی لیا آپ حضرت عمر فاروق کے بیٹے ہیں (جو خلیفہ تھے) نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی بھی ہیں (اس اعتبار عبد الملک ابن مروان کے مقابلہ پر آپ کہیں زیادہ مستحق ہیں کہ خلافت کا دعویٰ کریں جس کی نااہلیت کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ اس کے امراء اور گورنروں میں حجاج ابن یوسف جیسا ظالم شخص ہے) پھر آخر کیا چیز مانع ہے کہ آپ (خلافت و امارت کے دعوے اور ظالموں سے بدلہ لینے کے اعلان کے ذریعہ) خروج نہیں کر رہے ہیں!حضرت عبداللہ ابن عمر نے (یہ سن کر) فرمایا ! جو چیز میرے لئے مانع ہے ، وہ میرا یہ علم ہے کہ مسلمان بھائی کا خون بہانا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے ، ان دونوں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وقاتلوہم حتی لاتکون فتنۃ (یعنی لڑو تم لوگوں سے یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے) !حضرت عبداللہ ابن عمر نے فرمایا : ہم (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء راشدین کے ساتھ) ان لوگوں سے یقیناً لڑے یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر و شرک کا خاتمہ ہو گیا اور صرف اللہ کا دین اسلام رہ گیا اور (اب) تم یہ چاہتے ہو کہ تم جنگ و جدال کرو یہاں تک ان (مسلمانوں) میں فتنہ پھیل جائے اور غیر اللہ کا دین قائم ہو جائے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرام قرار دیا ہے  اس جملہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ ابن عمر کا مقصد اس بات کو اہمیت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ خون ریزی سے اجتناب اور مسلمانوں کے درمیان باہمی جنگ و جدل سے گریز ہیں اپنے لئے ہر حالت میں ضروری سمجھتا ہوں اور خاص طور پر اس صورت میں جب کہ مسئلہ خلافت و امارت کی طلب و خواہش کا ہو پس اس جملہ میں علی (میرے لئے) کا لفظ اس مقصد کے تحت استعمال ہوا ہے ورنہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مسلمان بھائی کا خون بہانا تو ہر شخص کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔

 اور غیر اللہ کا دین قائم ہو جائے  دراصل ان دونوں شخصوں کا خیال یہ تھا کہ اول تو حضرت عبداللہ ابن عمر اپنی خلافت کا دعویٰ کریں لیکن اگر وہ اس پر تیار نہ ہوں تو پھر ان کو کم سے کم یہ چاہئے کہ ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائیں جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی خلافت تسلیم نہیں کرتے اور ان کے مقابلہ پر ظالموں اور نااہلوں کی امارت کے وفادار ہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عمر کا خیال یہ تھا کہ عام مسلمانوں کو باہمی اختلاف و نزاع اور جنگ و جدل سے بچانے کے لئے ایسا کوئی اقدام مناسب نہیں ہے کیونکہ مسلمان کا مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا اور وہ بھی اقتدار و امارت کے سلسلہ میں آخر کار باہمی افتراق و انتشار کی ایک صورت حال کے پیدا ہونے کا موجب بن سکتا ہے جو اسلام کے نظام دین و شریعت کے نزول اور مسلمانوں کی ملی زندگی کو کمزور بنا دے ، یہاں تک کہ اسلام دشمن طاقتوں کو اپنا غلبہ و تسلط جما لینے کا موقع مل جائے ، اسی احساس کے تحت حضرت عبداللہ ابن عمر ، حضرت ابن زبیر کے حق میں یہی بہتر سمجھتے تھے کہ وہ خلافت کے مسئلہ میں قتل و قتال کو ترک کر دیں اور یکسوئی اختیار کر کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

قبیلہ دوس کے حق میں دعا

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں طفیل ابن دوسی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) مجھے یقین ہے کہ قبیلہ دوس ہلاک ہو گیا (یعنی اس قبیلہ کے لوگوں نے قبول اسلام اور اطاعت دین سے انکار کر کے خود کو ہلاکت و تباہی کا مستوجب بنا لیا ہے) لہٰذا آپ سے قبیلہ کے لئے بددعا کیجئے (کہ اللہ تعالیٰ اس پر عذاب مسلط کرے) لوگوں نے (تو یہ سن کر) خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس قبیلہ کے لئے بددعا کریں گے لیکن (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو رحمۃ  اللعلمین ہیں اور لوگوں کو راہ راست دکھا کر فلاح و نجات سے ہمکنار کرنے کے لئے اس دنیا میں مبعوث ہوئے نہ کہ بددعا کر کے تباہ و برباد کرنے کے لئے ، اس لئے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی : الہٰی قبیلہ دوس کو راہ راست دکھا اور اس قبیلہ کے لوگوں کو (مدینہ کی جانب) لایعنی ان کو قبول اسلام کے بعد ہجرت کی بھی توفیق عطا فرمایا یہ کہ ان کو اہل اسلام کے طور طریقوں کی طرف مائل فرما اور ان کے دلوں کو قبول اسلام کی طرف پھیر دے۔(بخاری)

 

تشریح

 

حضرت طفیل ابن عمر دوسی جلیل القدر صحابی ہیں ، قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور اہل حجاز میں شمار ہوتے تھے ، مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور پھر اپنے قبیلہ میں واپس چلے گئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو بعد میں انہوں نے بھی اپنا قبیلہ اور وطن چھوڑ کر ہجرت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں موقع پر حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر میں تھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رحلت فرمانے تک مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہے ان کو ذو النور  کا لقب حاصل تھا اور یہ لقب اس بناء پر مشہور ہوا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کے قبیلہ کی طرف روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دیجئے جس کو دیکھ کر لوگ میری تصدیق کریں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی ، الہٰی اس کو نور عطا فرما! اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور جگمگا اٹھا۔ اب انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے خوف ہے کہ لوگ اس نور کو میری بد ہیئتی پر محمول کرنے لگیں گے اس کے بعد وہ نور اس جگہ سے ان کی کوڑی پر منتقل ہو گیا۔ اندھیری رات میں ان کے سینہ کا یہ حصہ اس طرح جگمگا تا جیسے ان کے سینہ پر مشعل روشن ہو حضرت طفیل اپنے قبیلہ میں پہنچ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کام میں منہمک ہو گئے ان کے باپ تو ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے لیکن ان کی ماں کو ایمان کی ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔

عربوں سے محبت کرنے کی وجوہ

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :  تین اسباب کی بناء پر تمہیں عرب سے محبت رکھنی چاہئے ایک تو اس وجہ سے کہ میں عرب میں سے ہوں (اور ظاہر ہے کہ جو چیز حبیب کی طرف سے منسوب ہوتی ہے اس کو محبوب ہونا چاہئے) دوسرے اس وجہ سے کہ قرآن عربی زبان میں ہے (یعنی قرآن کریم اس زبان میں اترا ہے جو عرب کی زبان ہے اور ان کی زبان و لغت ہی کے ذریعہ اس کی فصاحت و بلاغت جانی جاتی ہے) اور تیسرے اس وجہ سے کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

جنتیوں کی زبان عربی ہے  سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ دوزخیوں کی زبان عربی نہیں ہو گی ، بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عرب اور اہل عرب کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فضیلت و برتری حاصل ہے نیز اس حدیث میں محبت کرنے کے صرف وہ تین اسباب بیان کئے گئے ہیں جو اس بارے میں نہایت اعلی ہیں ورنہ ان کے علاوہ اور بھی اسباب و وجوہ ہیں جن کے بناء پر عرب اور اہل عرب سے محبت کرنا یا محبت ہونا لازمی چیز ہے مثلاً  یہ کہ اہل عرب ہی نے شارع علیہ السلام سے براہ راست دین و شریعت کا علم حاصل کیا اور پھر اس علم کو ہم تک پہنچا یا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال ، افعال ،عادات ، اور معجزات کو منضبط و محفوظ کیا اور اس سرمایہ کو ہم تک منتقل کیا ،عرب اور اہل عرب دراصل اسلام کے مدد گار اور ہماری ملی زندگی کی جوہری توانائی ہیں انہوں نے اسلام کی خاطر دنیا بھر سے لوہا لیا بڑی بڑی طاقتوں سے جنگیں کیں،جان و مال کی قربانیاں دے کر بڑے بڑے علاقے فتح کئے شہر شہر ، قریہ قریہ ، اسلام پھیلایا ، اطراف عالم میں دین کا جھنڈا بلند کیا ، اور مسلمانوں کو جو عزت ، برتری اور شان و شوکت حاصل ہوئی وہ انہی کی جدو جہد اور کوششوں کا نتیجہ ہے ہماری ملی تاریخ کی تمام تر عظمت و سربلندی انہی کی مرہون منت ہے ، اہل عرب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں ، ان کی نسلی و انسانی خصوصیات اور خوبیوں کے امین ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کی زبان اہل جنت کی زبان ہو گی ، بلکہ قبر میں منکر نکیر کا سوال بھی انہی کی زبان میں ہو گا ، اور انہی اسباب کی بناء پر کہا گیا ہے۔

من اسلم فہوعربی۔

 جو بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا وہ عربی۔