٭٭ قسامت ق کے زبر کے ساتھ قسم کے معنی میں ہے یعنی سوگند کھانا۔شرعی اصطلاح میں قسامت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی آبادی و محلہ میں یا اس آبادی و محلہ کے قریب میں کسی شخص کا قتل ہو جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے تو حکومت واقعات کی تحقیق کرے اگر قاتل کا پتہ چل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس آبادی یا محلہ کے باشندوں میں سے پچاس آدمیوں سے قسم لی جائے اس طرح کہ ان میں سے ہر آدمی یہ قسم کھائے کہ خدا کی قسم ! نہ میں نے اس کو قتل کیا ہے اور نہ اس کے قاتل کا مجھے علم ہے یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک ہے جس کی بنیاد یہ مشہور حدیث ہے کہ (البینہ علی المدعی والیمین علی من انکر) چنانچہ اس باب کی تیسری فصل میں حضرت رافع ابن خدیج سے منقول روایت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے۔
حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک قسامت کا مفہوم یہ ہے کہ جس آبادی و محلہ میں یا جس آبادی و محلہ کے قریب میں لاش پائی گئی ہے اگر اس کے باشندوں اور مقتول کے درمیان کوئی عداوت و دشمنی رہی ہو یا کوئی ایسی علامت پائی گئی ہو۔ جس سے یہ ظن غالب ہو کہ اس آبادی و محلہ کے لوگوں نے اس کو قتل کیا ہے جیسے اس آبادی یا محلہ میں لاش کا پایا جانا، تو مقتول کے وارثوں سے قسم لی جائے یعنی ان سے کہا جائے کہ وہ یہ قسم کھائیں کہ خدا کی قسم ! تم نے (یعنی اس آبادی یا محلہ کے لوگوں نے) اس کو قتل کیا ہے اگر مقتول کے وارث یہ قسم کھانے سے انکار کر دیں تو پھر ان لوگوں سے قسم لی جائے جن پر قتل کا شبہ کیا گیا ہے چنانچہ اس باب کی پہلی حدیث جو حضرت رافع سے منقول ہے اسی پر دلالت کرتی ہے۔
قسامت میں قصاص واجب نہیں ہوتا اگرچہ قتل عمد کا دعوی ہو بلکہ اس میں دیت واجب ہوتی ہے خواہ قتل عمد کا دعوی ہو یا قتل خطاء کا۔ لیکن حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر قتل عمد کا دعوی ہو تو پھر قصاص کا حکم نافذ کرنا چاہئے اور حضرت امام شافعی کا قدیم قول بھی یہی ہے،
قسامت کے بارے میں ملحوظ رہنا چاہئے کہ قسامت کا یہ طریقہ زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طریقہ کو باقی رکھا اور اسی کے مطابق انصاریوں میں اس مقتول کا فیصلہ کیا جس کے قتل کا انہوں نے خیبر کے یہودیوں پر دعوی کیا تھا۔
حضرت رافع ابن خدیج اور حضرت سہل ابن حثمہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سہل اور محیصہ ابن مسعود خیبر آئے تو (ایک دن سیر کرتے ہوئے) دونوں کھجور کے درختوں میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے (یعنی ایک کسی سمت کو نکل گیا اور دوسرا کسی اور سمت چلا گیا) چنانچہ عبداللہ ابن سہل کو (اکیلا پا کر) کسی نے قتل کر دیا (اس حادثہ کے بعد) عبد الرحمن ابن سہل (جو مقتول کے حقیقی بھائی تھے) اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ (جو مقتول کے چچا زاد بھائی تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے عزیز مقتول کے بارے میں مقدمہ پیش کیا، جب عبد الرحمن نے گفتگو کی ابتداء کی (جو مقتول کے حقیقی بھائی تھے اور) تینوں میں سب سے چھوٹے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے بڑے کی بڑائی کو ملحوظ رکھو، یعنی تم تینوں میں جو شخص سب سے بڑا ہے اس کو گفتگو کی ابتداء کرنے دو) حضرت یحییٰ ابن سعید (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے کہ اس ارشاد گرامی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ جو شخص سب سے بڑا ہو وہ ذمہ دار ہو، چنانچہ (اس کے بعد) انہوں نے (یعنی ان کے بڑے بھائی نے) گفتگو کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں تو تم اپنے مقتول یا (اپنے مقتول کی بجائے) یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کا خون بہا یا قصاص لینے کے مستحق ہو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو ایسی چیز ہے جس کو ہم نے نہیں دیکھا ہے (یعنی ہم یہ قطعاً نہیں جانتے کہ مقتول کو کس شخص نے قتل کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، پچاس یہودی قسم کھا کر (تمہارے اس شبہ سے) تمہیں پاک کر دیں گے (یعنی وہ قسم کھا لیں گے کہ مقتول کو ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور اس طرح ان پر جو قتل کا شبہ یا الزام ہے اس کو وہ ختم کر دیں گے) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ تو کافر ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (فتنہ دفع کرنے کے لئے) مقتول کے ورثاء کو اپنی طرف سے خون بہا ادا کر دیا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) تم پچاس قسمیں کھاؤ اور اپنے مقتول۔ یا یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہو جاؤ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طرف سے سو اونٹ خون بہا میں ادا کر دئیے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جو شخص سب سے بڑا ہو وہ گفتگو کا ذمہ دار ہو سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص عمر میں سب سے بڑا ہو اس کا اکرام و احترام ضروری ہے اور گفتگو کی ابتداء اسی کی طرف سے ہونی چاہئے۔
یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حدود میں وکالت جائز ہے، نیز اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حاضر کی وکالت بھی جائز ہے کیونکہ مقتول کے خون کے ولی ان کے حقیقی بھائی یعنی عبد الرحمن ابن سہل تھے اور حویصہ اور محیصہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ اس حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قسامت میں پہلے مدعی سے قسم لی جائے جب کہ حنفی مسلک یہ ہے کہ پہلے مدعا علیہ سے قسم لی جائے۔
وہذا الباب خال عن الفصل الثانی۔
حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (یعنی عبداللہ ابن سہل) خیبر میں قتل کر دئیے گئے چنانچہ ان کے ورثاء (یعنی ان کے بیٹے اور چچا زاد بھائی) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان) سے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے مقتول کے بارے میں گواہی دیں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہاں کوئی مسلمان تو موجود نہیں تھا البتہ یہود تھے (جو ظلم کرنے، فتنہ و فساد پھیلانے اور حیلہ گری میں بہت مشہور ہیں) وہ تو اس سے بھی بڑے کام کی جرأت رکھتے ہیں (جیسے انبیاء کو قتل کر دینا، کلام اللہ میں تحریف کرنا اور احکام خداوندی سے صریحاً سرکشی کرنا) آپ نے فرمایا اچھا تو ان میں پچاس آدمیوں کو منتخب کر لو اور ان سے قسمیں لو لیکن مقتول کے ورثاء نے یہودیوں سے قسم لینے سے انکار کر دیا (کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اتنے مکار ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقتول کا خون بہا اپنے پاس سے دے دیا ۔ (ابو داؤد)
تشریح
ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم حنیفہ کے اس مسلک کی واضح دلیل ہے کہ قسامت میں پہلے مدعا علیہ سے قسم لینی چاہئے۔
ملا علی قاری نے اس موقع پر تمام ائمہ کے مسلک کو نقل کرنے کے بعد حنیفہ ملک کے دلائل بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کئے ہیں۔
مرتد اس شخص کو کہتے ہیں جو دین اسلام سے پھر جائے یعنی ایمان واسلام کے نورانی دائرہ سے نکل کر کفر و شرک کے ظلمت کدوں میں چلا جائے۔
جب کوئی مسلمان نعوذ باللہ، اسلام سے پھر جائے تو اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے اگر وہ اسلام کے بارے میں کسی شک و شبہ کا شکار ہو تو اس کا شک و شبہ رفع کیا جائے گا، اگرچہ اسلام کی دعوت دینا اور اس کا شک و شبہ دور کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ اسلام کی دعوت اس کو پہلے ہی پہنچ چکی ہے اب اس کی تجدید دعوت کی احتیاج نہیں ہے۔ نیز مستحب یہ ہے کہ ایسے شخص کو تین دن کے لئے قید میں ڈال دیا جائے اگر وہ ان تین دنوں میں توبہ کر کے دائرہ اسلام میں لوٹ آئے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے کیونکہ اسلام نے مرتد کی سزا قتل مقرر کی ہے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر وہ مہلت طلب کرے تب واجب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (اقتلوا لمشرکین) (مشرکوں کو قتل کر دو) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد حدیث (من بدل دینہ فاقتلوہ) (جس شخص نے اپنا دین اسلام تبدیل کر دیا اس کو قتل کر دو) سے یہی ثابت ہوتا کہ مرتد کو مہلت دینا واجب نہیں ہے۔
حدیث کے دوسرے جزو کا تعلق فساد برپا کرنے والوں سے ہے یوں تو عام طور پر فساد برپا کرنے والے سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو زمین پر فتنہ و فساد اور لوٹ مچاتے ہیں اور قتل و غارت گری کے ذریعہ لوگوں کے امن و سکون کو تباہ و برباد کرتے ہیں لیکن یہاں بطور خاص قطاع الطریق یعنی قزاق مراد ہیں کہ ان کی سزا بھی قتل ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔
آیت (انما جزآء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا)۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے،
آج کل ہماری روز مرہ زندگی بڑی بے اعتدالیوں کی شکار ہے نہ ہمیں اپنی زبان پر قابو رہتا ہے، نہ ہم اپنے اعتقادات و نظریات کے دائرہ میں پوری طرح رہتے ہیں اور نہ ہماری افعال و اعمال پابند احتیاط ہوتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی بہت سی باتیں ہماری زبانوں سے نکلتی رہتی ہیں جنہیں ہم بظاہر بالکل غیر اہم سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ باتیں ہمیں کفر کے دائرہ تک پہنچا دیتی ہیں اسی طرح ایسے بہت سے افعال و اعمال ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں جنہیں ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں لیکن آخر کار وہ ہمارے لئے سخت خسران آخرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ اس موقع پر اس بارے میں تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کیا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری کے ایک باب میں مرتد کے احکام و مسائل بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں اس پورے باب کے علاوہ چند نادر الوجود مسائل کو یہاں نقل کیا جاتا ہے اس میں جو مسائل ہیں ان کا جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے تاکہ مرتد کے بارے میں احکام و مسائل ہونے کے ساتھ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ وہ کون سے الفاظ ہیں جو زبان سے ادا ہونے پر کفر تک پہنچا دیتے ہیں یا وہ کون سے عقائد و اعمال ہیں جن کو اختیار کرنے والا کفر تک پہنچ جاتا ہے۔
مرتد عرف عام میں اس شخص کو کہتے ہیں جو دین اسلام سے پھر جائے۔ وجود ایمان کے بعد کلمہ کفر کا زبان سے ادا ہونا مرتد ہونے کا رکن ہے اور مرتد کا حکم صحیح ہونے کے لئے عقل کا ہونا شرط ہے لہٰذا مجنوں اور بے عقل بچے پر مرتد کا حکم لگانا صحیح نہیں ہے اور جس شخص پر جنون کی کیفیت مستقل طور پر طاری رہتی ہو تو اس پر مرتد کا حکم اس صورت میں لگے گا جب کہ وہ اپنے صحیح الدماغ ہونے کی حالت میں ارتداد کا مرتکب ہوا، اگر وہ اس وقت ارتداد کا مرتکب ہو جب کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری تھی تو اس پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا اسی طرح اس شخص پر بھی مرتد کا حکم لگانا صحیح نہیں ہو گا جو ہر وقت نشے کی حالت میں رہتا ہو اور اس کی عقل ماؤف ہو چکی ہو۔
مرتد کا حکم نافذ ہونے کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جو شخص حالت بلوغ میں ارتداد کا مرتکب ہو اسی کو مرتد قرار دیا جائے جب کہ نابالغ پر بھی مرتد کا حکم لگ سکتا ہے اسی طرح مرد ہونا بھی مرتد کے حکم نافذ ہونے کے لئے شرط نہیں بلکہ اگر عورت ارتداد کی مرتکب ہو گی تو اس پر بھی مرتد کا حکم لگے گا۔
مرتد کا حکم نافذ ہونے کے لئے رضا و رغبت شرط ہے لہٰذا اس شخص پر مرتد ہونے کا حکم نافذ نہیں ہو سکتا جس کو مرتد ہو جانے پر مجبور کیا گیا ہو۔ جس شخص کو سرسام کی بیماری ہو اس کو کوئی ایسی چیز کھلا دی جائے جس سے اس کی عقل جاتی رہی اور ہزیان بکنے لگے، اور پھر اسی حالت میں وہ مرتد ہو جائے تو اس پر مرتد کا حکم نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح جو شخص مجنوں ہو یا وسواسی ہو یا کسی بھی قسم کا مغلوب العقل ہو تو اس پر بھی مرتد کا حکم نہیں لگے گا۔
جیسا کہ ابتداء باب میں بیان کیا گیا،جو شخص مرتد ہو جائے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے اور اگر اس کو کوئی شک و شبہ ہو تو اسے دور کیا جائے۔ اور پھر جب وہ دائرہ اسلام میں آنا چاہئے تو کلمہ شہادت پڑھے اور مذہب اسلام کے سوا اور سب مذاہب سے بیزاری کا اظہار کرے، اور اسی مذہب سے بیزاری کا اظہار کرے جس کے دائرہ میں وہ اسلام کو چھوڑ کر گیا تھا تو یہ بھی کافی ہو گا۔
اور کوئی شخص مرتد ہونے کے بعد پھر اسلام میں لوٹ آئے اور پھر کفر کی طرف لوٹ جائے، اسی طرح تین مرتبہ کرے اور ہر مرتبہ امام وقت سے مہلت چاہے تو امام وقت اس کو تین تین دن کی تینوں مرتبہ تو مہلت دے دے لیکن اگر وہ پھر چوتھی بار کفر کی طرف لوٹے اور مہلت طلب کرے تو اب چوتھی بار امام وقت اس کو مہلت نہ دے بلکہ اگر وہ آخری طور پر دائرہ اسلام میں واپس آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے۔
اگر کوئی صاحب عقل لڑکا مرتد ہو جائے تو اس کا مرتد ہونا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام محمد کے نزدیک معتبر ہو گا لہٰذا اس کو دائرہ اسلام میں آ جانے پر مجبور کیا جائے اور اس کو قتل نہ کیا جائے یہی حکم اس لڑکے کا ہے جو قریب البلوغ ہو۔ صاحب عقل لڑکے سے مراد ایسی عمر کا لڑکا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ اسلام نجات کا ذریعہ ہے اور وہ اچھے اور برے میں اور میٹھے اور کڑوے میں تمیز کر سکتا ہو۔ بعض حضرات کے نزدیک وہ لڑکا مراد ہے جو سات سال کی عمر کو پہنچ گیا ہو۔
اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائے اس کو قید میں ڈالے رکھا جائے اور ہر تیسرے دن اس کو بطور تنبیہ مارا جائے تا کہ وہ اپنے ارتداد سے توبہ کر کے دائر اسلام میں آ جائے لیکن اگر کوئی شخص کسی مرتد عورت کو قتل کر دے تو قاتل پر کچھ واجب نہیں ہو گا۔
کوئی باندی مرتد ہو جائے تو اس کا مالک اس کو اسلام قبول کرنے پر بایں طور مجبور کرے کہ اس کو اپنے گھر میں محبوس کر دے اس سے خدمت لینے کے ساتھ ساتھ سزاءً کچھ دوسرے کام بھی اس کے سپرد کر دے اور وہ مالک اس کے ساتھ صحبت نہ کرے۔
عاقلہ لڑکی کا وہی حکم ہے جو بالغہ کا ہے اسی طرح خنثیٰ مشکل بھی عورت کے حکم میں ہے۔ آزاد عورت جو مرتد ہو جائے اس کو اس وقت تک بطور باندی گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ دار الاسلام میں ہے ہاں اگر وہ دار الحرب میں چلی جائے اور پھر وہاں سے وہ (اسلامی لشکر کے) قیدیوں میں آئے تو اس کو باندی بنایا جا سکتا ہے۔
اور امام ابو حنیفہ کے نوادر میں سے ایک قول یہ ہے کہ مرتدہ کو دار الاسلام میں بھی بطور باندی گرفتار کیا جا سکتا ہے چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر اس قول پر اس عورت کے بارے میں فتویٰ دیا جائے جو خاوند والی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس عورت کا خاوند حکومت وقت سے اس کو باندی بنا لینے کی درخواست کرے یا اگر وہ خاوند اس کا مصرف (یعنی مسلمان) ہو تو حکومت وقت اس عورت کو خاوند کے تئیں ہدیہ کر دے۔ اس صورت میں خاوند اس عورت کو محبوس کرنے اور اسلام کے لئے اس کو سزاءً مارنے کا ذمہ دار ہو گا۔
جب کوئی مرتد اپنے ارتداد سے انکار کر دے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور دین اسلام کی حقانیت کا اقرار کرے تو یہ گویا اس کی طرف سے توبہ کا مظہر ہو گا اور اس صورت میں وہ مسلمان سمجھا جائے گا۔
جب کوئی شخص مرتد ہو جاتا ہے تو اس کے مال سے اس کی ملکیت زائل ہو جاتی ہے لیکن یہ ملکیت کا زائل ہونا موقوف رہتا ہے اگر اس شخص کو توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے اور پھر وہ مسلمان ہو جائے تو اس کی ملکیت بھی واپس آ جاتی ہے اور اگر وہ اسی حالت ارتداد میں مر جائے یا اس کو قتل کر دیا جائے تو اس کے اس مال کے جو اس نے اسلام کی حالت میں کمایا تھا اس کے مسلمان وارث اور حقدار ہوں گے اور ان کو اس مال کا وہی حصہ ملے گا جو اس زمانہ میں اس کے دین کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بچے گا وہ فئی شمار ہو گا۔ یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے، صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک مرتد کی ملکیت زائل نہیں ہوتی۔
مرتد کی میراث پانے والے کے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ کے مختلف اقوال بیان کئے جاتے ہیں، چنانچہ حضرت امام محمد نے حضرت امام اعظم سے نقل کیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے کہ جب مرتد مر جائے یا اس کو قتل کر دیا جائے اور یا وہ دار الحرب بھاگ جائے تو اس کا مسلمان وارث اس کی میراث پائے گا اسی طرح اس کے مر جانے یا قتل کئے جانے یا دار الحرب بھاگ جانے کے بعد اس کی مسلمان بیوی بھی اس کی مال کی وارث ہو گی بشرطیکہ اس (مرتد کی وفات یا قتل یا دار الحرب بھاگ جانے کے) وقت وہ بیوی عدت میں ہو کیونکہ وہ مرتد اپنے ارتداد کے ذریعہ گویا (اپنی بیوی کو اپنی میراث دینے سے) راہ فرار اختیار کرنے والا ہو لہٰذا اس کا ارتداد مرض الموت کی مانند ہوا (کہ جس طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے مرض الموت میں طلاق مغلظہ دے دے تو شریعت اس امر کے پیش نظر کہ اس کے شوہر نے اس کو اپنی میراث سے محروم رکھنے ہی کے لئے مرض الموت میں طلاق دی ہے اس کو اس کے شوہر کی میراث کی حقدار تسلیم کرتی ہے اسی طرح مرتد بھی اپنے ارتداد کے ذریعہ گویا اپنی بیوی کو اپنی میراث سے محروم رکھنا چاہتا ہے اس لئے شریعت اس کے (علی الرغم) اس کی بیوی کو اس کی میراث کا حقدار تسلیم کرتی ہے، اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو (اس کے مرنے کے بعد) اس کا خاوند اس کی میراث کا حقدار نہیں ہوتا، ہاں اگر بیوی بیماری کی حالت میں مرتد ہوئی (پھر مر گئی) تو اس کا شوہر اس کی میراث پائے گا اسی طرح تمام اقرباء اس کے سارے مال کے وارث ہوں گے یہاں تک کہ اس نے حالت ارتداد میں جو مال جمع کیا ہو گا وہ بھی ان وارثوں کو ملے گا۔
اگر کوئی شخص مرتد ہو کر دار الحرب میں چلا گیا یا حاکم نے اس کے دار الحرب میں چلے جانے کا حکم نافذ کر دیا تو اس کا مدبر غلام آزاد ہو جائے گا اور اس کی امہات اولاد بھی آزاد ہو جائیں گی اور اس کے جو دیون مؤجلہ ہوں گے وہ فوری طور پر قابل ادائیگی ہوں گے اور اس نے حالت اسلام میں جو مال پیدا کیا تھا وہ سب اس کے مسلمان ورثاء کی طرف منتقل ہو جائے گا اور اگر کسی مرتد نے اپنے زمانہ اسلام میں کوئی وصیت کی ہو گی تو مبسوط وغیرہ کی ظاہری روایت کے بموجب وہ وصیت مطلقاً باطل ہو گی یعنی اس کی وصیت کا اجراء نہیں ہو گا خواہ وہ اس وصیت کا تعلق کسی قرابت دار سے ہو یا غیر قرابت دار سے۔
مرتد جب تک دار السلام میں گھومتا پھرتا نظر آئے اس کے بارے میں قاضی ان احکام میں سے کوئی بھی حکم نافذ نہ کرے جو ذکر کئے گئے ہیں،
جو شخص مرتد ہو جائے، معاملات و عقودات میں اس کے تصرف کرنے کی چار قسمیں ہیں۔ اول تو وہ تصرف ہے جو سب کے نزدیک پوری طرح جاری و نافذ ہوتا ہے جیسے اگر اس کو کوئی چیز ہبہ کی جائے اور وہ اس ہبہ کو قبول کر لے، یا وہ اپنی لونڈی کو ام ولد بنا دے، یا جب اس کی لونڈی کسی بچے کو جنم دے اور وہ مرتد اس بچے کے نسب کا دعوی کرے (یعنی یہ کہے کہ یہ میرا بچہ ہے) تو اس بچہ کا نسب اس سے ثابت ہو جائے گا اور وہ بچہ اس کے دوسرے وارثوں کے ساتھ اس کی میراث کا حقدار ہو گا اور وہ لونڈی (جس کے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے) اس مرتد کی ام ولد ہو گی نیز مرتد کی طرف سے تسلیم شفعہ کو قبول و نافذ کیا جائے گا، اسی طرح اگر مرتد اپنے ماذون غلام پر حجر نافذ کرے تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔
دوسرا تصرف وہ ہے جو بالاتفاق باطل ہوتا ہے یعنی شریعت کی نظر میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا جیسے نکاح کرنا کہ وہ مطلقاً جائز نہیں مفاوضت کرے تو اس کا حکم موقوف (معلق) رہتا ہے کہ اگر وہ مرتد مسلمان ہو گیا تو وہ شرکت مفاوضت بھی نافذ ہو جائے گی اور اگر وہ ارتداد کی حالت میں مر گیا یا اس کو قتل کر دیا گیا یا وہ دارالحرب چلا گیا اور قاضی و حاکم نے اس کے دار الحرب چلے جانا کا حکم نافذ کر دیا تو اس صورت میں وہ شرکت مفاوضت شروع سے شرکت عنان میں تبدیل ہو جائے گی، یہ صاحبین کا مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک شرکت مفاوضت سرے سے باطل ہی نہیں ہوتی۔
چوتھا تصرف وہ ہے جس کے موقوف رہنے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں جیسے خریدو فروخت کے معاملات اجارہ کرنا، غلام کو آزاد کرنا، مدبر کرنا یا مکاتب کرنا، وصیت کرنا اور قبض دیون وغیرہ، چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ ان سب معاملات میں مرتد کے تصرفات موقوف رہتے ہیں اگر وہ اسلام قبول کرے تو نافذ ہو جاتے ہیں، اور اگر مر جائے، یا قتل کر دیا جائے یا قاضی و حاکم اس کے دار الحرب چلے جانے کا حکم نافذ کر دے تو یہ سارے تصرفات باطل ہو جاتے ہیں۔
ارتداد کے دوران مکاتب کے سارے تصرفات نافذ ہوتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے مرتد غلام یا باندی کو فروخت کرے تو اس کی بیع جائز ہوتی ہے۔
اگر کوئی مرتد اپنے ارتداد سے تائب ہو کر دار الاسلام واپس آ جائے اور یہ واپسی قاضی و حاکم کی طرف سے اس کے دار الحرب چلے جانے کے حکم کے نفاذ سے پہلے ہو تو اس کے مال و اسباب کے بارے میں اس کے مرتد ہو جانے کا حکم باطل ہو جاتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے گویا کہ مسلمان ہی تھا اور نہ اس کی کوئی ام ولد آزاد ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی مدبر آزاد ہوتا ہے اور اگر اس کی واپسی قاضی و حاکم کے حکم کے نفاذ کے بعد ہوتی تو وہ اپنے وارثوں کے پاس جو چیز پائے اس کو لے لے اور جو مال و اسباب اس کے وارثوں نے بیع ہبہ اور عتاق وغیرہ کے ذریعہ اپنی ملکیت سے نکال دیا ہے اس کے مطالبہ کا حق اس کو نہیں پہنچے گا اور اپنے وارثوں سے اس کو ایسے مال کا بدلہ و معاوضہ لینے کا حق حاصل ہو گا۔
جو شخص اپنے ماں باپ کی اتباع میں مسلمان تھا (یعنی وہ بچہ تھا اور اپنے مسلمان ماں باپ کی وجہ سے مسلمان کے حکم میں تھا) اور پھر ارتداد کے ساتھ بالغ ہوا تو اگرچہ قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے مگر اس کے بارے میں از راہ استحسان یہ حکم ہے کہ اس کو قتل نہ کیا جائے (کیونکہ بلوغ سے پہلے وہ مستقل بالذات مسلمان نہیں تھا بلکہ اپنے ماں باپ کی اتباع میں مسلمان کے حکم میں تھا) اسی طرح یہی حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو چھوٹی عمر میں مسلمان ہو گیا تھا مگر جب بالغ ہوا تو مرتد تھا، نیز اگر کسی شخص و زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور پھر وہ اسلام سے پھر گیا تو اس کو بھی از راہ استحسان قتل نہ کیا جائے لیکن ان تمام صورتوں میں حکم یہ ہے کہ اس کو اسلام قبول کر لینے پر مجبور کیا جائے اور اگر اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی نے اس کو مار ڈالا تو مارنے والے پر کچھ واجب نہیں ہو گا۔
لقیط (وہ بچہ جو کہیں پڑا ہوا پایا جائے) اگر دار الاسلام میں ہو تو اس کے مسلمان ہونے کا حکم نافذ کیا جائے اور کفر کی حالت میں بالغ ہو تو اس کو اسلام لانے پر مجبور کیا جائے لیکن اس کو قتل نہ کیا جائے۔
یہاں تک تو مرتد کے بارے میں کچھ احکام و مسائل کا ذکر تھا، اب کچھ ان باتوں کو بیان کر دینا ضروری ہے جن کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے چنانچہ ان میں سے بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق ایمان واسلام سے ہے بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات وغیرہ سے ہے، بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق نماز، روزے اور زکوٰۃ سے ہے، بعض باتیں وہ ہے جن کا تعلق علم اور علماء سے ہے بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق حلال و حرام وغیرہ سے ہے، بعض باتیں وہ جن کا تعلق قیامت وغیرہ سے ہے اور بعض باتیں وہ ہیں جن کا تعلق کفر کی تلقین کرنے سے ہے۔چونکہ یہ ایک طویل سلسلہ ہے اس لئے ان باتوں کو یعنی موجبات کفر کو ترتیب کے ساتھ الگ الگ عنوان کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
ایمان واسلام کے بارے میں وہ باتیں جن کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے، یہ ہیں۔ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ مجھے نہیں معلوم، میرا ایمان ہے یا نہیں ؟ تو یہ خطائے عظیم ہے، ہاں اور اس بات کا مقصد اپنے شک کی نفی کرنا ہو تو خطائے عظیم نہیں ہے۔ جس شخص نے اپنے ایمان میں شک کیا اور یہ کہا کہ میں مؤمن ہوں انشاء اللہ تو وہ کافر ہے ہاں اگر وہ یہ تاویل کرے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس دنیا سے ایمان کے ساتھ اٹھوں گا یا نہیں ؟ تو اس صورت میں وہ کافر نہیں ہو گا جس شخص نے یہ کہا کہ قرآن مخلوق ہے، یا ایمان مخلوق ہے تو وہ کافر ہو گیا۔ جس شخص نے یہ عقیدہ رکھا کہ ایمان و کفر ایک ہیں تو وہ کافر ہے۔ جو شخص ایمان پر راضی و مطمئن نہ ہوا وہ کافر ہے جو شخص اپنے نفس کے کفر پر راضی ہوا وہ کافر ہے، اور جو شخص اپنے غیر کے کفر پر راضی ہوا اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں اور فتویٰ اس قول پر ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غیر کے کفر پر اس لئے راضی ہوا تا کہ وہ (کافر) ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے تو وہ کافر نہیں ہو گا، اور اگر وہ اس کے کفر پر اس لئے راضی ہوا تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق میں اس چیز کا اظہار کرے جو اس کی صفات کے لائق نہیں ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ جس شخص نے یہ کہا کہ اسلام کی صفت نہیں جانتا، تو وہ کافر ہو گیا۔شمس الائمہ حلوائی نے اس مسئلہ کو بڑے سخت انداز میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کہنے والا ایسا شخص ہے جس کے لئے نہ دین ہے، نہ نماز ہے، نہ روزہ، نہ طاعت و عبادت ہے نہ نکاح ہے اور اس کی اولاد زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ہے۔
ایک مسلمان نے کسی عیسائی لڑکی سے نکاح کیا جس کے ماں باپ بھی عیسائی ہیں اور پھر وہ اس حال میں بڑی ہوئی کہ وہ کسی مذہب اور دین کو نہیں جانتی یعنی نہ تو وہ دین کو دل سے پہچانتی ہے اور نہ اس کو زبان سے بیان کر سکتی ہے اور وہ دیوانی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان تفریق ہو جائے گی۔ اسی طرح کسی مسلم بچی سے نکاح کیا، اور پھر جب وہ حالت عقل میں بالغ ہوئی تو نہ وہ اسلام کو دل سے جانتی پہچانتی ہے اور اس کو زبان سے بیان کر سکتی ہے اور وہ دیوانی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اس کے شوہر کے درمیان جدائی ہو جائے گی۔
اگر کسی عورت سے پوچھا گیا کہ توحید کیا ہے اس نے جواب میں کہا میں نہیں جانتی تو اس جواب سے اس امر کی مراد اگر یہ ہو کہ مجھے وہ توحید (یعنی کلمہ توحید) یاد نہیں ہے جو بچے مکتب میں پڑھا کرتے ہیں، تو اس میں اس کا کوئی نقصان نہیں۔ لیکن اگر وہ اس جواب سے یہ مراد رکھتی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو نہیں پہنچانتی تو اس صورت میں وہ مؤمنہ نہیں رہے گی، اور اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔
اگر کوئی شخص اس حالت میں مرا کہ وہ یہ نہیں پہچانتا تھا کہ کوئی میرا خالق ہے، اس کے گھر کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک اور گھر بھی ہے اور یہ کہ ظلم حرام ہے تو وہ مؤمن نہیں تھا۔ ایک شخص گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ (گناہ کے ذریعہ) اپنے اسلام کو ظاہر کرنا چاہئے تو وہ کافر ہے۔ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ میں مسلمان ہوں تو اس نے جواب میں کہا کہ تجھ پر بھی لعنت اور تیری مسلمانی پر بھی لعنت، تو وہ کافر ہو گیا۔ ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا، اس کے بعد اس کا (عیسائی) باپ مر گیا، اس نے کہا کہ کاش میں اس وقت مسلمان نہ ہوتا تو اپنے باپ کا مال پا جاتا، وہ کافر ہو گیا۔ ایک عیسائی کسی مسلمان کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر اسلام قبول کر لوں اس مسلمان نے جواب دیا کہ تم فلاں عالم کے پاس چلے جاؤ تا کہ وہ تمہارے سامنے اسلام پیش کرے۔ اور تم اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرو اس طرح کہنے والے کے بارے علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ ابو جعفر کہتے ہیں کہ اس طرح کہنے والا کافر نہیں ہو گا۔ ایک کافر نے اسلام قبول کیا تو ایک مسلمان نے اس سے کہا کہ تمہیں اپنے دین میں کیا برائی نظر آئی تھی (جو تم نے اسلام قبول کر لیا ؟) یہ کہنے والا کافر ہو جائے گا۔
وہ شخص کافر ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے وصف کی نسبت کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں، یا کسی کو اس کا شریک یا بیٹا اور یا بیوی ٹھہرائے، یا اس کی طرف جہل کی یا عجز کی یا کسی اور خرابی کی نسبت کرے۔ یہ کہنے والا بھی کافر ہے کہ یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا کام کرے جس میں کوئی حکمت نہ ہو جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کفر پر راضی ہوتا ہے تو وہ کافر ہے۔ اور کوئی شخص یوں کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے یہ کام کرنے کا حکم دے تو میں جب بھی یہ کام کروں تو وہ کافر ہو جائے گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو ید اور وجہ کی نسبت کی گئی ہے درآنحالیکہ وہ جارحہ نہیں، تو کیا کسی دوسری زبان میں ان چیزوں کا اطلاق جائز ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں بعض علماء نے فرمایا کہ جائز ہے بشرطیکہ ان چیزوں سے (ان کے حقیقی مفہوم یعنی) اعضاء مردانہ ہوں، اور اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ جائز نہیں اور یہی معتمد علیہ قول ہے۔
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ فلاں شخص میری آنکھ میں ایسا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں یہودی، تو جمہور علماء کے نزدیک وہ شخص کافر ہو جائے گا (کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف آنکھ کے اصل معنی یعنی ایک انسانی عضو کی نسبت کی ہے) لیکن بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس جملہ سے کہنے والے کی مراد اس فلاں شخص کے افعال کی برائی کو ظاہر کرنا مقصود ہو تو کافر نہیں ہو گا۔
ایک انسان کی وفات ہو گئی ایک دوسرے شخص نے کہا کہ خدا کو ایسا نہیں چاہئے تھا۔تو یہ کفر ہے۔
ایک شخص نے اپنے دشمن سے کہا کہ میں خدا کے حکم سے تیرے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہوں دشمن نے جواب میں کہا کہ میں خدا کا حکم نہیں جانتا یا یہ کہا کہ اس جگہ خدا کا حکم نہیں چلتا یا یہ کہا کہ۔ اس جگہ کوئی حکم نہیں۔ یا یہ کہا کہ خدا حکم کرنے کے لائق نہیں ہے یا یہ کہا کہ اس جگہ تو دیود ہی کا حکم چلے گا یہ سب جملے کفر کو لازم کرتے ہیں۔
حاکم عبدالرحمن سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو یہ کہے کہ فلاں کام رواج کے مطابق کر رہا ہوں خدا کے حکم سے نہیں کرتا تو کیا ایسا شخص کافر ہو جائے گا ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر اس جملہ سے اس مراد صرف فساد حق، ترک شریعت، اور اتباع رسم ہے نہ کہ اس کا مقصد خدا کے حکم کو رد کرنا ہے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
اگر کوئی شخص کسی ایسے آدمی کے بارے میں جو کبھی بیمار نہ ہوتا ہو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھول گیا ہے یا یہ کہا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ بھول گیا ہے تو یہ کفر ہے جائے گا کسی شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ تم تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبوب ہو تو وہ کافر ہو جائے گا۔ یہ کہنا کہ فلاں شخص بری تقدیر میں پھنس گیا ہے خطائے عظیم ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لئے مکان کو ثابت کرنا کفر ہے چنانچہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی مکان خالی نہیں ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اگر کسی نے یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے تو دیکھا جائے گا کہ یہ بات اس نے کس مقصد سے کہی ہے، اگر اس کا مقصد اس چیز کی حکایت کرنا ہے جو ظاہری طور پر منقول ہے تو کافر نہیں ہو گا اور اگر اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا ہے تو پھر وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اکثر علماء کے نزدیک اگر اس کی نیت کچھ بھی نہ ہو تو بھی کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ کہنے والا بھی کافر ہو جائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ انصاف کے لئے بیٹھا یا اللہ تعالیٰ انصاف کے لئے کھڑا ہوا کیونکہ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف فوق اور تحت کی نسبت کی گئی ہے۔ یہ کہنا بھی کفر ہے کہ (میرا حامی و مددگار) آسمان پر خدا ہے اور زمین پر فلاں شخص ہے۔
اکثر علماء کے نزدیک یہ کہنا بھی کفر ہے کہ خدا آسمان پر سے نیچے دیکھ رہا ہے یا صرف یہ کہا کہ خدا آسمان پر سے دیکھ رہا ہے۔ یا یہ کہا کہ خدا عرش پر سے دیکھ رہا ہے۔
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم کی نسبت کی وہ کافر ہو گیا۔ اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اے اللہ !یہ ظلم مت پسند کر تو بعض علماء کے نزدیک وہ کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے یوں کہا کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے انصاف کیا تو مجھے تم سے انصاف ملے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ہاں لفظ اگر کی بجائے جس وقت کہا تو وہ کافر نہیں ہو گا۔ اور اگر کسی سے یوں کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن حق اور عدل کے ساتھ حکم کیا تو میں تم سے اپنا حق لے لوں گا کافر ہو جائے گا۔
اگر کسی نے یوں کہا کہ اے اللہ ! جب ایک ظالم ظلم کرتا ہے تو اس کا ظلم قبول مت کر، اگر تو نے اس کا ظلم قبول کیا تو میں قبول نہیں کروں گا یہ کفر ہے کیونکہ اس شخص نے گویا یہ کہا کہ اے اللہ ! اگر تو اس کے ظلم پر راضی ہو گا تو میں راضی نہیں ہوں گا۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ جھوٹ مت کہو اس شخص نے جواب میں کہا کہ جھوٹ کس لئے ہے، کہنے ہی کے لئے تو ہے یہ کفر ہے۔
کسی شخص سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرو اس نے کہا کہ مجھے نہیں چاہئے یا کسی نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کرے، غارت کروں یا کسی سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی مت کرو کیونکہ اگر تم نافرمانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دوزخ میں داخل کرے گا اس نے کہا کہ میں دوزخ سے نہیں ڈرتا یا کسی سے یہ کہا کہ زیادہ مت کھاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست نہیں رکھے گا اس نے کہا کہ میں تو کھاؤں گا چاہے دشمن رکھے چاہے دوست رکھے یہ باتیں کفر کو لازم کرتی ہیں۔ اسی طرح اگر کسی سے یہ کہا گیا کہ زیادہ مت ہنسو۔ یا زیادہ مت سوؤ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میں اتنا کھاؤں گا، اتنا سوؤں گا اور اتنا ہنسوں گا کہ جتنا چاہوں گا یہ کفر ہے۔
ایک شخص سے یہ کہا کہ گناہ مت کرو کیونکہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے اس نے کہا کہ میں عذاب کو ایک ہاتھ پر اٹھا لوں گا یہ کفر ہے۔
اگر کسی شخص سے یہ کہا گیا کہ اپنے ماں باپ کو مت ستاؤ اس نے کہا کہ ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے یہ اگرچہ کفر نہیں ہے لیکن سخت گناہ کی بات ہے۔ ایک شخص نے ابلیس لعین سے کہا کہ اے ابلیس ! تو میرا فلاں کام کر دے تا کہ میں تیرا کہنا مانوں اور اپنے ماں باپ کو ستاؤں اور تو جس چیز سے منع کرے اس سے باز رہوں یہ کفر ہے۔
اگر کسی شخص نے کسی سے یہ کہا کہ اگر خدا یہ دونوں جہاں نہ بناتا تو میں تم سے اپنا حق لے لیتا یہ کفر ہے۔ ایک شخص نے کوئی جھوٹی بات کہیں اور ایک سننے والے نے کہا کہ میرا خدا تمہارے اس جھوٹ کو سچ کر دے۔ یا یہ کہا کہ تمہارے اس جھوٹ کے ساتھ برکت دے۔ تو یہ کفر کے قریب ہے اسی طرح ایک شخص نے جھوٹ بولا اور سننے والے نے کہا کہ خدا تمہارے جھوٹ میں برکت دے تو وہ کافر ہو گیا۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ فلاں شخص تمہارے ساتھ سیدھا نہیں چلتا اس نے جواب میں کہا کہ اس کے ساتھ تو خدا بھی سیدھا نہیں چلے گا تو یہ کہنے والا کافر ہو گیا۔
اگر کسی نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ زر کو محبوب رکھتا ہے اس لئے مجھے زر نہیں دیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ بشرطیکہ اس کے کہنے سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کرنا ہو۔ ہاں صرف اتنا کہنا کفر کو لازم نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ زر کو پسند نہیں کرتا ہے ۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ انشاء اللہ تم یہ فلاں کام کرو اس نے جواب دیا کہ میں ان شاء اللہ کے بغیر یہ کام کروں گا تو یہ کفر ہے۔
ایک مظلوم نے کہا کہ (میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے) تقدیر الٰہی کے مطابق ہے ظالم نے یہ سن کر کہا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں تقدیر الٰہی کے بغیر کر رہا ہوں یہ کفر ہے۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ اے خدا ! مجھ پر رحمت کرنے سے دریغ نہ کیجئے تو یہ کفر یہ الفاظ میں سے ہے۔
میاں بیوی آپس میں گفتگو کر رہے تھے (بیوی کی طرف سے) جب گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو میاں نے کہا کہ خدا سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو بیوی نے جواب میں کہا کہ میں اللہ سے نہیں ڈرتی یہ کہنے سے بیوی مرتد ہو جائے گی۔ اور ان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان جدائی واقع ہو جائے گی۔ بشرطیکہ میاں نے بیوی کو اس کی کسی صریح معصیت پر ٹوکا ہو اور اس کو خدا سے ڈرایا ہو اور اس کے جواب میں بیوی نے مذکورہ جملہ کہا ہو، ہاں اگر میاں نے بیوی کو اس کی کسی اسی بات پر ٹوکا ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا کوئی موقع نہ ہو (یعنی بیوی نے کوئی معصیت نہ کی ہو) تو اس صورت میں وہ کافر نہیں ہو گی۔ البتہ اگر اس صورت میں بھی اس جملہ سے بیوی کا مقصد خوف خدا اور تقویٰ کی اہانت ہو تو دونوں کے درمیان جدائی واقع ہو جائے گی۔
ایک شخص نے کسی کو مارنے کا ارادہ کیا اور اس سے کہا کہ تم خدا سے نہیں ڈرتے اس نے مارنے والے سے کہا کہ نہیں یہ کفر نہیں ہے کیونکہ اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ خدا سے ڈرنے کا سوال تو اس چیز میں پیدا ہوتا ہے جس کو میں کروں۔
ایک شخص کسی گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا کہ کسی نے اس کو ٹوکا اور کہا کہ کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے اس نے جواب دیا کہ نہیں وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح کسی اور شخص سے کہا گیا کہ کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے اور اس نے غصہ کی حالت میں جواب دیا کہ نہیں تو وہ کافر ہو گیا۔
اگر کوئی شخص خدا کے کسی حکم کو یا پیغمبر کی شریعت کو پسند نہ کرے مثلاً زید سے بکر نے کہا کہ خدا نے چار بیویاں حلال کی ہیں اور زید کہے کہ میں اس حکم کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ صرف خدا کا وجود ہونا چاہئے اور کسی چیز کا وجود نہیں ہونا چاہئے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میرے حق میں تمام نیکیاں خدا نے پیدا کی ہیں اور برائی کا خالق میں ہوں تو وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص سے کہا گیا کہ یار تم اپنی بیوی کے بس میں نہیں آئے اس نے جواب دیا کہ عورتوں کے بس میں خدا بھی نہیں آتا میں کیونکر بس میں آ جاؤں گا یہ کفر ہے۔
اگر کسی شخص نے کسی سے یہ کہا کہ خدا کی طرف سے دیکھتا ہوں اور تمہاری طرف سے دیکھتا ہوں (یعنی جو چیز مجھے ملی ہے وہ خدا کی جانب سے ہے اور تمہاری جانب سے ہے) یا یہ کہا کہ میں خدا سے امید رکھتا ہوں اور تم سے امید رکھتا ہوں تو یہ برا ہے ہاں اگر یوں کہے کہ میں خدا کی طرف سے دیکھتا ہوں اور اس کا ظاہری سبب تمہیں سمجھتا ہوں تو یہ ایک اچھی بات ہے۔
ایک شخص نے اپنے کسی مخالف سے کسی بات میں قسم کھلوانی چاہی، اس مخالف نے کہا کہ میں خدا کی قسم کھاتا ہوں لیکن قسم کھلوانے والے نے کہا کہ میں خدا کی قسم نہیں چاہتا بلکہ طلاق یا عتاق کی قسم لینا چاہتا ہوں تو وہ بعض علماء کے نزدیک کافر ہو جائے گا لیکن اکثر علماء کے نزدیک کافر نہیں ہو گا اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔
اگر کسی شخص نے بطور ہنسی مذاق فارسی میں کہ من خدایم یعنی اس کا مطلب یہ کہنا تھا کہ خدا آئیم تو وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہیں ہمسایہ کے حق کی پرواہ نہیں بیوی نے کہا نہیں شوہر نے کہا تمہیں خاوند کے حق کی پرواہ نہیں، بیوی نے کہا نہیں ! پھر شوہر نے کہا تمہیں خدا کے حق کی پرواہ نہیں بیوی نے اس کے جواب میں بھی کہا نہیں تو وہ کافر ہو جائے گی۔
اگر کسی شخص نے اپنی بیماری سے پریشان ہو کر تنگی معاش کے ابتلاء کی وجہ سے کہا کہ نہ معلوم خدا نے مجھے پیدا کیوں کیا ہے جب کہ دنیا کی لذتوں اور راحتوں سے میں محروم ہوں تو اس کے بارے میں بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہو گا لیکن اس کی یہ بات ایک خطائے عظیم ہے۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ تم نے جو برائیاں کی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا اس نے جواب میں کہا کہ کیا خدا تم نے مقرر کر رکھا ہے کہ خدا وہی کرے گا جو تم کہو وہ کافر ہو جائے گا۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ خدا دوزخ بنانے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی بدنما جانور یا بدنما انسان کو دیکھ کر کہا کہ کیا کوئی خدا کا کار پرداز نہیں ہے کہ اس نے اس قسم کا جانور یا انسان پیدا کیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک مفلس نے شدت افلاس میں کہا کہ فلاں شخص بھی اللہ کا بندہ ہے اور اس کو اس قدر نعمتیں حاصل ہیں اور میں بھی اللہ کا بندہ ہوں اور اتنے رنج و آلام میں مبتلا ہوں، کیا یہ انصاف ہے یہ کہنے سے وہ کافر ہو گیا۔ اسی طرح ایک شخص سے کہا گیا کہ خدا سے ڈرو، اس نے جواب دیا کہ خدا کہاں ہے تو وہ کافر ہو گیا۔ نیز اگر کسی نے یہ کہا کہ پیغمبر اپنی قبر میں نہیں ہیں یا یہ کہا کہ خدا کا علم قدیم نہیں ہے یا یہ کہا کہ معدوم کا علم اللہ کو نہیں ہے تو وہ کافر ہو گیا۔
اگر کسی شخص کا نام عبداللہ ہو اور ایک اور شخص اس کو پکارتے وقت لفظ اللہ کے بجائے حرف کاف کا اضافہ کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ بشرطیکہ وہ پکارنے والا عالم ہو۔ اسی طرح اگر کوئی عالم لفظ خالق کی عمداً تصغیر کرے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ تمہارے دل پر رحم کرے میرے دل پر نہیں تو وہ کافر ہو جائے گا۔ بشرطیکہ اس نے یہ بات رحمت الٰہی سے بے نیازی کے پیش نظر کہی ہو۔ اور اگر اس بات سے اس کا مطلب یہ ہو کہ میرا دل ثابت باثبات اللہ ہے مضطرب نہیں ہے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے یوں قسم کھائی کہ خدا کی قسم اور تیری خاک پاک کی قسم تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ہاں اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ خدا کی قسم اور تیرے سر، تیری جان کی قسم، تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔
جو شخص انبیاء میں سے کسی بھی نبی کا اقرار نہیں کرے گا یا رسولوں میں سے کسی بھی رسول کی کسی بھی سنت پر ناراضگی یا عدم اعتقاد و اطمینان کا اظہار کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ابن مقاتل سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو حضرت خضر یا حضرت ذی الکفل کی نبوت کا انکار کرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ کسی ایسے نبی کی نبوت کا انکار کہ جس کی نبوت پر اس کی امت کے لوگ متفق نہ ہوئے ہوں، نقصان دہ نہیں ہے۔
اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر فلاں نبی ہوتا تو میں اس پر ایمان لاتا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور حضرت جعفر سے منقول ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء پر ایمان لایا اور مجھے نہیں معلوم کہ آدم علیہ السلام نبی تھے یا نہیں تو وہ کافر ہو جائے گا۔
حضرت جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو انبیاء کی طرف فواحش کی نسبت کرے جیسے کسی نبی کی طرف عزم زنا کی نسبت کرنا یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہنا جیسا کہ حشویہ (ایک باطل فرقہ) حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں اس قسم کا اظہار کرتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا شخص کافر ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے حق میں بد گوئی ہے اور ان کی اہانت کے مترادف ہے۔
ابو ذر کہتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ ہر نافرمانی کفر ہے اور پھر یہ کہا کہ انبیاء علیہم السلام نے نافرمانی کی تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے انبیاء کے حق میں بد گوئی کی، اور یہ کہا کہ انبیاء علیہم السلام نے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کی نہ حالت نبوت میں اور نہ اس سے پہلے تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے یہ بات کہہ کر گویا نصوص (قرآن کریم کی آیت (عصی ربہ الا) یۃ وغیرہ) کی تردید کی۔
بعض علماء سے یہ منقول ہے کہ جس شخص نے یہ نہیں جانا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں، وہ مسلمان نہیں ہے،جو شخص اپنے قلب میں کسی بھی نبی کے بارے میں بغض رکھے وہ کافر ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر فلاں اللہ کا رسول ہوتا تو میں اس پر ایمان نہ لاتا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ جیسا کہ یہ کہنے والا کافر ہو جاتا ہے۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ بھی مجھے فلاں کام کا حکم دیتا تو میں نہ کرتا ۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا فارسی میں کہا کہ من پیغمبرم اور اس سے اس کی مراد بھی یہ ہے کہ میں اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور جس وقت اس نے یہ بات کہی اور کسی دوسرے شخص نے اس سے معجزہ طلب کرنے والے کا مقصد اس شخص کو ذلیل کرنا اور اسے عاجز کرنا ہے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بال مبارک کو چھوٹا سا بال کہا تو وہ بعض علماء کے نزدیک کافر ہو جائے گا اور بعض علماء کے نزدیک کافر نہیں ہو گا۔ہاں اگر اس نے یہ بات اہانت کے طور پر کہی ہے تو ان کے نزدیک بھی کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ میں نہیں جانتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم انسان تھے یا جن تو وہ کافر ہو جائے گا۔
اگر کسی نے یوں کہا کہ اگر فلاں شخص پیغمبر ہے تو میں اس سے اپنا حق لوں گا وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد دریشک بود (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک چھوٹے فقیر تھے) یا یہ کہا کہ پیغمبر کا کپڑا بدبو دار اور میلا کچیلا تھا۔ یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ناخن بڑھ رہے تھے تو بعض علماء کے نزدیک وہ بلا کسی قید کے کافر ہو جائے گا جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ اس صورت میں کافر ہو گاجب کہ وہ اس صورت میں کافر ہو گا جب کہ وہ یہ بات بطریق امانت کہے۔
اگر کسی نے کسی ایسے شخص کو گالی دی جس کا نام محمد یا احمد تھا یا اس کی کنیت ابو القاسم تھی اور اس کو یوں مخاطب کیا کہ اے زانیہ کی اولاد، تو وہ کافر ہو گیا، بشرطیکہ (اس کا مقصد ہر اس شخص کو یہ گالی دینا ہو جس کا نام محمد یا احمد اور اس کی کنیت ابو القاسم ہو اور اس طرح) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی بھی اس کے پیش نظر ہو۔
یہ کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا کہ ہر گناہ کبیرہ ہے لیکن انبیاء کے گناہ صغیرہ ہیں اور اگر کسی نے یہ کہا کہ ہر برائی کا کام جو قصداً کیا جائے گناہ کبیرہ ہے اس کام کا کرنے والا فاسق ہے اور پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ انبیاء کے معاصی قصداً تھے تو وہ کافر ہو گیا کیونکہ اس نے انبیاء کی شان میں بد گوئی کی۔ ہاں اگر اس نے یہ کہا کہ انبیاء کے معاصی قصداً نہیں تھے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
جو رافضی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی شان میں بدزبانی کرے اور نعوذ باللہ ان پر لعنت بھیجے تو وہ کافر ہے ہاں اگر اس نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر پر فضیلت دی تو وہ کافر نہیں ہو گا لیکن اس کو مبتدع کہا جائے گا، معتزلی بھی مبتدع ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ خدا کا دیدار محال ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگانے والے اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے ہاں اگر کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دوسری ازواج مطہرات پر زنا کی تہمت لگائی تو وہ کافر نہیں ہوتا لیکن مستحق لعنت ہوتا ہے اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نہیں تھے تو وہ کافر نہیں ہو گا لیکن مستحق لعنت ہو گا۔
حضرت ابوبکر کی امامت و خلافت کا انکار کرنے والا بعض علماء کے نزدیک تو کافر ہو جاتا ہے اور بعض علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوتا بلکہ مبتدع ہوتا ہے لیکن صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرنے والا بھی صحیح قول کے مطابق کافر ہو جاتا ہے۔
جو لوگ حضرت عثمان حضرت علی حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ کو نعوذ باللہ کافر کہیں، خود ان کو کافر کہنا لازم ہے، اسی طرح فرقہ زیدیہ کے تمام لوگوں کو بھی کافر کہنا واجب ہے کیونکہ وہ یہ باطل اعتقاد رکھتے ہیں کہ نعوذ باللہ کسی عجمی ملک میں ایک نبی کا ظہور ہو گا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کو منسوخ کرے گا اور ہمارے سردار محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو کالعدم کرے گا۔
ان روافض کو بھی کافر کہنا واجب ہے جو تناسخ ارواح کے قائل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مر جانے والا دوبارہ دنیا میں لوٹ آئے گا اور ائمہ میں اللہ تعالیٰ کی روح حلول کئے ہوئے ہے، امام باطن کا ظہور ہو گا،جب تک اس امام باطن کا ظہور نہ ہو اوامر و نواہی معطل ہیں اور یہ کہ جبرائیل علیہ السلام نے وحی لانے میں غلطی کی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بجائے حضرت علی کے پاس لانی چاہئے تھی : یہ فرقہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے اور جو احکام مرتدوں کے بارے میں ہیں وہی فرقہ کے لوگوں پر نافذ ہوتے ہیں۔
جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں بدزبانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہو اس کی تین صورتیں ہیں۔
(١) اگر وہ یہ اقرار کرے کہ میرے دل میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی برائی کا کوئی خطرہ بھی نہیں گزرا بلکہ میں نے اپنی زبان سے صرف وہی الفاظ ادا کئے جن کو ادا کرنے پر مجھے مجبور کیا گیا تھا درآنحالیکہ ان الفاظ کی ادائیگی بھی مجھ پر سخت شاق تھی، تو وہ کافر نہیں ہو گا اور اس کی مثال اس شخص کی سی ہو گی جس کو اپنی زبان سے کلمہ کفر کی ادائیگی پر مجبور کیا گیا ہوں اور اس نے وہ کلمہ کفر اپنی زبان سے ادا کیا ہو مگر اس کا قلب ایمان پر ثابت و مطمئن رہا ہو۔
(٢) اگر وہ اقرار کرے کہ (جب مجھے محمد کو برا کہنے پر مجبور کیا گیا تو) میرے دل میں اس عیسائی کا خیال آگیا جس کا نام محمد تھا چنانچہ جب میں نے اپنی زبان سے محمد کے بارے میں برے الفاظ کہے تو میری مراد وہی عیسائی تھا، اس صورت میں بھی وہ کافر نہیں ہو گا۔
(٣) اور اگر وہ یہ اقرار کرے کہ (جب محمد کے بارے میں برے الفاظ کہنے پر مجبور کیا گیا تو) میرے دل میں اس عیسائی کا خیال آگیا جس کا نام محمد ہے لیکن میں نے اپنی زبان سے جو برے الفاظ ادا کئے وہ اس عیسائی کے بارے میں نہیں تھے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تھے، اس صورت میں وہ کافر ہو جائے گا قانوناً بھی اور عند اللہ بھی۔
جس شخص نے یہ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم مجنوں تھے، وہ کافر ہے، ہاں یہ کہنے والا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم بیہوش ہو گئے تھے، کافر نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام (جنت میں) گیہوں نہ کھاتے تو ہم اشقیاء نہ ہوتے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
جس شخص نے حدیث متواتر کا انکار کیا وہ کافر ہو گیا،جس شخص نے حدیث مشہور کا انکار کیا وہ بعض علماء کے مطابق تو کافر ہو گیا لیکن بعض علماء کے مطابق گمراہ ہوا کافر نہیں ہوا، اور جس شخص نے خبر واحد کا انکار کیا وہ بھی کافر نہیں ہوتا مگر اس کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی نبی کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کرے کہ وہ نبی نہ ہوتا تو اس کے متعلق علماء کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ اس نبی کا مبعوث ہونا خارج از حکمت نہ ہوتا تو وہ کافر ہو گا اور اگر اس کی مراد اس نبی کی توہین اور اپنے کسی بغض کا اظہار ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فلاں چیز مثلاً کدو کو بہت پسند فرماتے تھے اگر سننے والے نے جواب میں کہا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے، حضرت امام ابو یوسف سے بھی یہی منقول ہے لیکن بعض متاخرین علماء فرماتے ہیں کہ اگر اس نے یہ بات کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا بطور اہانت کہی ہے تو وہ کافر ہو جائے گا ورنہ کافر نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کپڑا بنا تھا اس لئے ہم سب جولاہے زادے ہیں یہ کفر ہے۔ ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب کھانا کھاتے تھے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹ لیتے تھے اگر سننے والے نے یہ کہا یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے تو وہ کافر ہو گیا۔
جس شخص نے یہ کہا کہ گنواروں میں عجیب رواج ہے کہ کھانا کھاتے ہیں اور ہاتھ نہیں دھوتے تو اگر اس نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کی حقارت کے پیش نظر کہی ہے تو وہ کافر ہو گیا اسی طرح جس شخص نے یہ کہا کہ موچھیں پست (ہلکی ) کرنے اور عمامہ (کا سرا یعنی شملہ) گلے کے نیچے تک لٹکانے کا نہ معلوم کیسا رواج ہے ؟ تو اگر اس نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر طنز کے طور پر کہی تو وہ کافر ہو گیا۔
ایک شخص نے کوئی بات کہی اس پر دوسرے نے اس سے کہا کہ جھوٹ کہتا ہے اگرچہ ساری بات پیغمبرانہ ہے اس کہنے سے اس پر کفر لازم ہو جائے گا ایسے ہی اگر یہ کہا کہ میں اس کی بات نہیں مانوں گا اگرچہ اس کی ساری بات پیغمبرانہ ہے تو اس سے بھی کفر لازم آئے گا۔
ایک شخص نے اپنے غلام کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، اس سے دوسرے نے کہا کہ اسے مت مارو، اس نے کہا کہ تم تو تم، اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم بھی کہیں تو بھی نہیں چھوڑ سکتا، یا یہ کہا کہ اگر آسمان سے آواز آئے کہ اس کو مت مارو تو بھی میں نہیں چھوڑ سکتا، ماروں گا۔ یہ کہنے سے اس پر کفر لازم آئے گا۔
کسی نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی حدیث پڑھی جس کو سن کر ایک شخص نے کہا کہ ہمہ روز خلشہا خواند یعنی ہر روز الجھن کی چیز پڑھتا ہے تو اگرچہ اس نے اس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف نہ کی ہو بلکہ پڑھنے والے کی طرف کی ہو لیکن وہ کافر ہو جائے گا بشرطیکہ اس حدیث کا تعلق احکام شریعت میں سے کسی حکم کے ساتھ ہو یا دین کے ساتھ ہو، اور اگر وہ ایسی حدیث تھی کہ جس کا تعلق دین و شریعت سے نہیں تھا تو اس کی تکفیر نہیں ہو گی، اور اس کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اس کا پڑھنا غیر اولی بتا رہا تھا۔
اگر کسی نے کہا بحرمت جوانک عربی اور اس جملہ سے اس کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تھے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کسی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک وقت پیغمبر تھے۔ اور ایک وقت ایسا تھا کہ پیغمبر نہ تھے یا اس طرح کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر میں مؤمن ہیں یا کافر تو یہ کہنے سے کافر ہو جائے گا۔
کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ خلاف بات نہ کہو اس عورت نے کہا کہ پیغمبروں نے خلاف کہا ہے تو اس کا یہ کہنا کفر ہے توبہ کرے اور پھر نکاح کی تجدید کرے ! کسی نے کسی سے کہا کہ مجھے تیرا دیکھنا گویا ملک الموت کا دیکھنا معلوم ہوتا ہے، تو اس کا ایسا کہنا بہت بڑی غلطی ہے اور اس کے کفر میں مشائخ کا اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا کہ کافر ہو جائے گا اور اکثر علماء کہتے ہیں کہ اس کہنے سے وہ کافر نہیں ہو گا۔
اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ بعضوں نے یہ کہا ہے کہ اگر اس نے یہ جملہ ملک الموت سے عداوت کی بنیاد پر کہا تو وہ کافر ہو جائے گا اور اگر موت سے ناگواری کی بنا پر کہا ہے تو کافر نہیں ہو گا، اور اگر یہ کہا کہ فلاں کے منہ کو ملک الموت کی طرح دشمن سمجھتا ہوں تو اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کافر ہو جائے گا، کسی نے کہا کہ میں فلاں کی گواہی نہیں سنتا خواہ جبریل و میکائیل ہو تو اس صورت میں اس کی تکفیر کی جائے گا۔ اگر کسی نے فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو عیب لگایا تو اس کی تکفیر کی جائے گا، اگر کوئی کہے کہ میں فرشتہ ہوں تو اس کہنے سے وہ کافر نہیں ہوتا، اور اگر یہ کہے کہ میں نبی ہوں تو اس کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص نے ایک عورت سے بغیر کسی شخص کی موجودگی کے نکاح کیا اور کہا کہ میں نے خدا اور رسول کو گواہ بنایا، یا یہ کہا کہ خدا اور فرشتہ کو گواہ بنایا تو اس صورت میں وہ کافر ہو جائے گا، اور اگر کہا کہ دائیں اور بائیں والے فرشتوں کو گواہ بنایا تو اس صورت میں کافر نہ ہو گا۔
اگر کسی نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہو جائے گا، اسی طرح اگر کسی نے کسی آیت قرآنی کا انکار کیا یا اس کے ساتھ ٹھٹھا مخول کیا، یا عیب لگایا تو ان صورتوں میں وہ کافر ہو جائے گا۔ کسی نے دف کی تھاپ پر یا بانسری کی لے پر قرآن پڑھا تو اس نے کفر کیا، ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا دوسرے نے سن کر کہا کہ یہ کیا طوفان کی آواز ہے تو اس کا یہ کہنا کفر ہے، اور اگر کسی نے کہا کہ میں نے بہت قرآن پڑھا اور مجھ سے گناہ معاف نہیں کیا گیا تو اس کہنے سے وہ کافر ہو گیا۔
کسی نے کسی سے کہا کہ تو نے آیت (قل ہو اللہ) کی کھال کھینچ لی، یا یہ کہا کہ تو نے آیت (الم نشرح) کا گریبان پکڑ لیا، یا اس شخص سے جو کسی بیمار کے پاس سورۂ یٰسین پڑھ رہا تھا کہا یٰسین مردہ کے منہ میں مت رکھو یا کسی سے کہا اے آیت (انا اعطینک الکوثر) سے بھی زیادہ کوتاہ۔ یا ایک شخص قرآن پڑھ رہا تھا اور اس کو کوئی کلمہ یاد نہیں آ رہا تھا اس سے کہا آیت (والتفت الساق بالساق) یا کسی کے پاس بھرا ہوا پیالہ لایا اور کہا آیت (کاسا دھاقا) یا کسی سے مذاق کے طور پر کہا آیت (فکانت سرابا) یا ناپ تول کے وقت مذاق کے پر کہا آیت (واذا کالوہم اووزنوہم یخسرون) یا کسی سے یہ کہا کہ تو نے (الم نشرح) کی پگڑی باندھ لی ہے اور اس کی مراد یہ تھی کہ تو نے علم کا اظہار کیا ہے یا کسی نے کسی جگہ کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا (فجمعناہم جمیعا) یا یہ کہا آیت (وحشرناہم فلم نغادر منہم احدا) یا کسی سے کہا کہ تو (والنازعات نزعا) کیونکر پڑہتا ہے نون کے پیش کے ساتھ یا اسے زیر دے کر مراد اس کی طنز کرنا تھی، یا کسی گنجے شخص سے میں تو تجھ کو اس لئے بڑا کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (کلا بل ران) یا کسی سے کہا گیا کہ نماز پڑھنے چلو یا جماعت کی نماز میں چلو، اس نے جواب میں کہا کہ میں تنہا پڑھتا ہوں اللہ تعالیٰ کا قول ہے (ان الصلوۃ تنہا) تو ان تمام صورتوں میں کافر ہو گا۔
ایک شخص نے کسی سے کہا کہ تو نے ایسا گھر پاک صاف کیا ہے کہ جیسے (والسماء والطارق) تو بعضوں نے کہا کہ اس کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا، اور امام ابوبکر اسحاق نے کہا کہ یہ کہنے والا اگر جاہل ہے تو کافر نہیں ہو گا، اور اگر وہ عالم ہے تو کافر ہو گا۔ اور اگر کسی نے کہا (قاعا صفا صفا) ہو گیا ہے تو اس جملہ میں بڑا خطرہ ہے کہ وہ کافر ہو جائے، یا دیگ میں کچھ لگا رہ گیا اس وقت کہا (والباقیات الصالحات) تو یہ بھی بڑے خطرے کی چیز ہے۔
اور جب کسی نے یہ کہا کہ قرآن عجمی ہے تو وہ کافر ہو گیا، اور اگر یہ کہا کہ قرآن میں ایک کلمہ عجمی ہے تو اسے کافر کہنے میں عجلت نہ کرنی چاہئے یہ قابل غور ہے، کسی سے کسی نے کہا تو قرآن پاک کیوں نہیں پڑھتا ہے، اس نے جواب میں کہا کہ میں قرآن سے بیزار میں چکا تو اس کی تکفیر کی جائے گی، ایک شخص کو قرآن پاک کی کوئی ایسی سورت یاد ہے جسے وہ بکثرت پڑھتا رہتا ہے،دوسرے نے اس پڑھنے والے سے کہا کہ تو نے اس سورت کو کمزور و زبوں پا لیا ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا، اگر کسی نے قرآن پاک کو مثلاً فارسی میں نظم کیا، تو اس کو قتل کیا جائے گا اس لئے کہ وہ کافر ہو گیا۔
کسی نے کسی بیمار سے کہا کہ تو نماز پڑھ لے اس نے اس کے جواب میں کہا خدا کی قسم میں کبھی نماز نہیں پڑھوں گا اور اس نے پھر کبھی نماز پڑھی بھی نہیں یہاں تک کہ مر گیا تو وہ کافر کہا جائے گا، اور اگر صرف یہ کہا کہ نہیں پڑھوں گا تو اس کے اس کہنے میں چار احتمال ہیں۔
(١) ایک تو یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس لئے کہ پڑھ چکا۔
(٢) دوسرے یہ کہ نماز نہیں پڑھتا یعنی تیرے حکم سے نہیں پڑھتا اس لئے تجھ سے جو بہتر ہے وہ حکم کر چکا ہے۔
(٣) تیسرے یہ کہ نہیں پڑھتا یعنی بے باکی اور فسق کے طور پر کہا، ان تینوں صورتوں میں وہ کافر نہیں ہو گا۔
(٤) چوتھے یہ کہ نماز نہیں پڑھتا اس وجہ سے کہ مجھ پر نماز واجب نہیں ہے اور نہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، اس چوتھی صورت میں وہ کافر ہو جائے گا، اور اگر اس نے جواب میں مطلقاً یہ کہا کہ میں نماز نہیں پڑھتا تو وہ ان وجوہ کی وجہ سے کافر نہیں ہو گا۔ کسی سے کہا گیا کہ نماز پڑھ لے اس نے جواب میں کہا کہ میں پاگل ہوں جو نماز پڑھوں اور اپنے اوپر کام بڑھاؤں یا اس طرح کی مدت گزری کہ میں نے بیگار نہیں کی، یا یہ کہا کہ وہ کام کون آخر تک پورا کر سکتا ہے، یا یہ کہ عقل مند کو ایسے کام میں نہ پڑنا چاہئے جس کو آخر تک نباہ نہ سکے، یا یہ کہا کہ میرے واسطے اور لوگ کر لیتے ہیں یا یہ کہا کہ نماز پڑھنے سے مجھے کوئی سرفرازی نہیں مل جاتی ہے، یا یہ کہ تو نے نماز پڑھ لی تو کیا سر بلندی حاصل کر لی، یا کہا کہ میں نماز کس لئے پڑھوں میرے ماں باپ تو مر چکے ہیں، یا کہا کہ نماز پڑھنی نہ پڑھنی دونوں برابر ہے یا کہا کہ اس قدر نماز پڑھ چکا کہ دل اکتا گیا، یا کہا کہ نماز ایسی چیز نہیں ہے کہ وہ باقی رہے گی تو سڑ جائے گی۔ یہ تمام جوابات کفریہ ہیں۔
اسی طرح ایک شخص نے کسی سے کہا کہ آؤ فلاں کام کے لئے نماز پڑھیں، اس نے کہا میں نے بہت نماز پڑھی میری کوئی حاجت پوری نہیں ہوئی اور جواب میں یہ بات بطور طنز و استخفاف کہی تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا، ایک فاسق نمازیوں کو مخاطب کر کے کہے آؤ مسلمانی دیکھو اور اس کے بعد وہ فسق کی مجلس کی طرف اشارہ کرے تو وہ کافر ہو جائے گا، اور اگر کسی نے کہا کہ بے نماز ہونا کیا ہی بہتر ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا، ایک شخص نے کسی سے کہا کہ نماز پڑھو تا کہ تمہیں بندگی کا مٹھاس حاصل ہو، یا فارسی میں کہے نماز بخوان تا حلاوت نمازیابی۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ تو مکن کہ حلاوت بے نمازی بہ بینی یعنی تم نماز نہ پڑھو تا کہ نماز نہ پڑھنے کی لذت محسوس کر سکو تو اس کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا۔
غلام سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھ اس نے کہا میں نہیں پڑھتا اس لئے کہ اس کا ثواب میرے آقا کو حاصل ہو گا وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا۔ ایک شخص سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھ لے اس نے جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے مال میں نقصان دیا لہٰذا میں اس کے حق میں نقصان کروں گا تو یہ جواب کفر ہے۔
ایک شخص نے صرف رمضان میں نماز پڑھتا ہے پھر بعد میں نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ یہی بہت ہے، یا کہتا ہے یہی بہت زیادہ ہو گی اس لئے کہ رمضان کی ہر نماز ستر نمازوں کے برابر ہے تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا، کوئی جان بوجھ کر قبلہ کے سوا کسی اور طرف منہ کر کے نماز پڑھے مگر اتفاق سے وہ قبلہ نکل گیا تو امام اعظم فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہو گیا اور اسی پر فقیہ ابو اللیث نے عمل کیا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی نماز بغیر وضو پڑھے یا ناپاک کپڑوں میں پڑھے تو کافر ہو جائے گا، اور اگر کوئی جان بوجھ کر اس طرح نماز پڑھا کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے، ایک شخص کو قبلہ کا پتہ نہیں چلا اس نے تحری کی یعنی نماز پڑھی، امام ابو حنیفہ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں اس کے حق میں کفر کا خوف رکھتا ہوں اس لئے کہ اس نے قبلہ سے اعراض کیا اور دوسرے مشائخ کا اس کے کفر میں اختلاف ہے شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ جب اس نے قبلہ چھوڑ کر بطور استہزاء و اہانت دوسری طرف نماز پڑھی تو ظاہر یہ ہے کہ وہ کافر ہو جائے گا۔
اور اگر کوئی ایسی صورت میں کسی وجہ سے مبتلا ہو گیا مثلاً چند لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسے حدث ہو گیا اور شرم کی وجہ سے اس نے سوچا کہ ظاہر نہ ہونے پائے چنانچہ چھپانے کے لئے بغیر وضو نماز پڑھتا رہا یا دشمن کے پاس تھا اور کھڑے ہو کر اس حالت میں نماز پڑھی کہ وہ پاک نہ تھا، بعض مشائخ نے یہ کہا ہے کہ اس صورت میں وہ کافر نہیں ہو گا اس لئے کہ اس نے استہزاء کے طور پر نہیں کیا ہے لیکن اگر کوئی ضرورت یا حیا کی وجہ سے ایسی صورت میں مبتلا ہو جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے اس قیام سے نماز کے قیام کا ارادہ نہ کرے اور نہ کچھ پڑھے اور جب ان کے ساتھ رکوع میں جائے تو وہ رکوع کا قصد نہ کرے اور نہ تسبیح پڑھے تاکہ وہ کسی کے نزدیک کافر نہ ہونے پائے اور ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے سے بعض علماء کہتے ہیں کہ کافر نہیں ہوتا۔
کسی نے کہا کہ نماز فرض ہے لیکن رکوع سجدہ فرض نہیں تو اس کہنے سے کافر نہ ہو گا، اس لئے اس کو تاویل کی گنجائش ہے کہ نماز سے میری مراد جنازہ کی نماز تھی جس میں رکوع سجدے فرض نہیں ہیں۔ اگر کوئی رکوع اور سجدوں کی فرضیت کا بالکلیہ انکار کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا حتی کہ اگر صرف دوسرے سجدے کی فرضیت کا بھی انکار کرے گا تو وہ کافر ہو گا اس لئے کہ اس نے اجماع اور تواتر کا رد کیا۔
کسی نے کہا کہ اگر کعبہ مکرمہ قبلہ نہ ہوتا اور اس کی جگہ بیت المقدس قبلہ ہوتا تو بھی میں کعبہ ہی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نہ پڑھتا، یا اس طرح کہا کہ اگر فلاں قبلہ ہوتا تو اس کی طرف میں منہ نہ کرتا، یا یوں کہا کہ اگر فلاں جانب کعبہ ہوتا تو میں اس طرف منہ نہ کرتا، یا یہ کہا کہ قبلے دو ہیں ایک کعبہ،دوسرا بیت المقدس، تو ان تمام صورتوں میں وہ کافر ہو جائے گا۔
ابراہیم بن یوسف نے کہا ہے کہ اگر کسی نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی تو اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جائے گا۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس سے کافر ہو جاتا ہے اور بعضوں نے کہا کہ اس صورت میں اس پر نہ گناہ ہے اور نہ اس کے لئے ثواب ہی ہے اور وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے نماز نہیں پڑھی۔
ایک شخص کسی کافر کے پاس آیا اور ایک دو وقت کی نماز چھوڑ دی نہیں پڑھی، اگر اس نے ایسا اس کافر کی تعظیم کی وجہ سے کیا ہے تو کافر ہو گا اور اس پر ان نمازوں کی قضا نہیں ہے، اور اگر ایسا فسق و فجور کی وجہ سے کیا ہے تو کافر نہ ہو گا اور اس کو ان نمازوں کی قضاء کرنی ہو گی۔ ایک شخص نے دار السلام میں اسلام قبول کیا ایک ماہ کے بعد اس سے پنچ وقتہ نماز کے متعلق سوال کیا گیا، اس نے جواب میں کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ مجھ پر فرض ہے تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا، ہاں اگر وہ نو مسلموں میں رہتا ہے تو کافر نہ ہو گا۔
اگر کوئی مؤذن سے اذان دیتے وقت کہے کہ تو نے جھوٹ کہا تو وہ کافر ہو جائے گا، اگر کوئی اذان سن کر یہ کہے کہ گھنٹے کی آواز ہے تو وہ کافر ہے ایک شخص سے کہا گیا تم زکوٰۃ ادا کروں، اس نے یہ سن کر کہا کہ میں ادا نہیں کرتا تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا، بعض حضرات علماء نے کہا کہ مطلقاً اس جواب سے کافر ہو جائے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ احوال ظاہرہ میں اس جواب سے کافر ہو گا لیکن احوال باطنہ میں اس جواب سے کافر نہ ہو گا، اور مناسب یہ ہے کہ یہاں بھی نماز کی طرح چار احتمال ہونے چاہئیں اور تین صورتوں میں کافر نہ ہو گا اور ایک صورت میں کافر ہو جائے گا، اگر کوئی کہے کہ کاش رمضان فرض نہ ہوتا تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ کہنے والے کی نیت پر موقوف ہو گا۔ اگر اس نیت سے یہ کہا کہ رمضان کے حقوق اس سے ادا نہیں ہو سکتے تو کافر نہ ہو گا، اگر کوئی رمضان آتے وقت یہ کہے کہ بھاری مہینہ یا بھاری مہمان آیا ہے تو کافر ہو گا،جب رجب کا مہینہ آیا اور کسی نے کہا کہ اس کے بعد خرابی میں مبتلا ہوں گے تو اگر اس نے یہ محترم مہینوں کے لئے حقارت کے طور پر کہا ہے تو کافر ہو گا اور اگر اپنے نفس پر گرانی کو ظاہر کرنے کے لئے کہا ہے تو کافر نہ ہو گا اور اس سے پہلے مسئلہ میں بھی جواب اسی تفصیل کے ساتھ ہونا چاہئے۔
ایک شخص نے کہا کہ رمضان کا روزہ جلد گزر جائے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ کافر نہیں ہو گا، اور اگر کوئی کہے کہ چند ازیں روزہ کہ مرا دل بہ گرفت یعنی اتنے روزے کب تک ؟میرا تو اس سے دل اکتا گیا تو اس کا یہ کہنا کفر ہے، اور اسی طرح کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے طاعات کو فرض نہ کرتا تو ہمارے لئے عذاب بنا دیا ہے اس جملہ کی اگر تاویل کی تو کافر نہ ہو گا، یا اسی طرح یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اگر ان طاعات کو فرض نہ کرتا تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، اگر اس جملہ کی کوئی تاویل کرے تو کافر نہ ہو گا۔
کوئی کہے کہ نماز میرے لائق نہیں ہے یا حلال میرے مناسب نہیں ہے یا یہ کہا کہ کس لئے نماز پڑھوں بیوی بچے تو میں رکھتا ہی نہیں یا اس طرح کہا کہ نماز کو میں نے طاق پر رکھ دیا تو اس ان تمام صورتوں میں کافر ہو جائے گا۔
اگر کوئی بغیر کسی ظاہر سبب کے کسی عالم دین سے بغض رکھے تو اس کے کافر ہو جانے کا بھی خوف ہے، اور اس پر بھی کفر کا خوف ہے جو کسی عالم یا فقیہ کو بغیر سبب برا کہے،اور وہ کافر ہو جاتا ہے جو کسی کو اس طرح کہے کہ ''تیرے علم کے مقعد میں گدھے کا ذکر '' اور اس علم سے اس کی مراد علم دین ہو۔
ایک جاہل نے علم سیکھنے والے کو اس طرح کہا کہ ''یہ جو کچھ سیکھتے ہیں وہ کہانیاں اور داستانیں ہیں '' یا یہ کہا کہ یہ سب فریب ہے یا یہ کہا کہ میں علم حیلہ کا منکر ہوں۔ واضح رہے کہ یہ سب جملے کفریہ ہیں۔
ایک اونچی جگہ پر بیٹھ جائے اور پھر لوگ اس سے بطور مذاق اور استہزاء مسائل پوچھنے لگیں اور اس کے بعد اس کو تکیوں سے مارنے لگیں اور سب ہنسنے لگیں تو وہ سب اس فعل کی وجہ سے کافر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی علم کی مجلس میں واپس آ رہا تھا اس کو کسی نے کہا کہ تو بت خانہ سے آ رہا ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے،یا اسی طرح یہ کہا کہ مجھے علم کی مجلس سے کیا کام،یا یہ کہا کون شخص ان چیزوں کے ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے جو علماء کہتے ہیں تو وہ کافر ہو گا۔
اگر کوئی کہے کہ علم کو کاسہ اور کیسہ میں نہیں رکھ سکتے یعنی یہ علم نہ کھانے کے پیالہ میں رکھنے کے لائق ہے اور نہ روپے کی تھیلی میں اور ضرورت انہی دونوں کی ہے،یا یہ کہا کہ علم کا کیا کروں گا مجھے جیب میں چاندی چاہئے تو اس کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے بال بچوں کی اتنی مصروفیات ہے کہ علم کی مجلس میں نہیں پہنچ سکتا اور اس نے اس سے علم کی اہانت کا ارادہ کیا تو اس جملہ سے بھی کفر کا خطرہ ہے۔
کوئی عالم فقیہ،علم کا تذکرہ کر رہا تھا یا کوئی صحیح حدیث بیان کر رہا تھا کسی نے اسے سن کر کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے اور اسے رد کر دیا یا کہا کہ یہ بات کیا کام آوے گی روپیہ چاہئے، کہ آج اسی کو عظمت حاصل ہے علم کیا کام آتا ہے،تو یہ کفر ہے۔
اگر کسی نے کہا کہ دانشمندی سے بہتر فساد برپا کرنا ہے تو یہ کفر ہے،کوئی عورت جس کا شوہر عالم ہو اگر یوں کہے کہ عالم شوہر کے اوپر لعنت ہو تو وہ کافر ہو جائے گی کسی نے کہا کہ عالموں کا فعل وہی ہے جیسے کافروں کا تو وہ اس کہنے سے اس وقت کافر ہو جائے گا جب تمام افعال میں برابری ظاہر کرے کہ اس طرح حق و باطل میں اس نے برابری کو ظاہری کیا۔
ایک شخص کا کسی فقیہ سے کسی بات میں جھگڑا ہو گیا، اس فقیہ نے اس کو کوئی شرعی وجہ بیان کی، اسے سن کر جھگڑنے والے نے کہا،یہ عالمانہ پن نہ کر،یہاں کچھ نہیں چل سکتی،تو ایسے شخص پر کفر کا خوف ہے،اگر کسی نے فقیہ سے کہا ''اے دانشمندک '' یا علویک '' تو اس سے کافر نہ ہو گا اگر اس کی نیت اہانت دین کی نہیں ہے۔
ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک فقیہ عالم نے اپنی کتاب ایک دوکاندار کی دوکان میں رکھ دی اور کسی کام سے چلا گیا پھر جب وہ دوکان سے گزر تو دوکاندار نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ تم بسولہ بھول گئے،فقیہ نے کہا تیری دوکان میں میری کتاب ہے بسولہ نہیں،دوکاندار نے کہا کہ بڑھئی بسولہ سے لکڑی کاٹتا ہے اور تم کتاب سے لوگوں کی گردن کاٹتے ہو۔ فقیہ نے شیخ امام ابو بکر محمد بن فضل سے اس واقعہ کا شکوہ کیا۔ انہوں نے اس شخص کے قتل کا حکم کیا۔
ایک شخص نے بیوی پر غصہ کیا اور کہا کہ تو خدا کی اطاعت کر،اور ساتھ ہی گناہ سے منع کیا،بیوی نے جواب میں کہا میں اللہ اور علم کیا جانوں میں نے اپنے کو دوزخ میں رکھ چھوڑا ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو گئی،ایک شخص سے کہا گیا کہ علم دین کے طلب کرنے والے فرشتوں کے بازوؤں پر چلتے ہیں،ا س نے کہا یہ جھوٹ ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قیاس صحیح نہیں تو وہ کافر ہو جائے گا ہو جائے گا اس لئے کہ اس نے مطلقاً قیاس کی صحت کا انکار کیا کسی نے کہا کہ ثرید پلاؤ کا پیالہ علم سے بہتر ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور کہا کہ پلاؤ کا پیالہ اللہ سے بہتر ہے تو وہ کافرنہ ہو گا۔یہ اس وجہ سے کہ ''اللہ سے'' کا مطلب ''اللہ کی طرف سے '' ہو سکتا ہے اور علم میں یہ تاویل نہیں ہو سکتی۔
ایک شخص نے اپنے دشمن سے کہا کہ ''میرے ساتھ شریعت کی طرف چلو ''اس نے کہا کہ کوئی سپاہی بلاؤ تو چلوں بے جبر و اکراہ نہیں جا سکتا تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے شریعت کا مقابلہ کیا، اور اگر اس نے یہ کہا کہ میرے ساتھ قاضی کے پاس چل اور اس نے یہی جواب دیا تو کافر نہ ہو گا، اور اگر اس نے یہ کہا کہ میرے ساتھ شریعت اور حیلہ مفید نہیں ہو گا، یا یہ کہا کہ ''یہ پیش نہ جاویں گے۔ یا یہ کہا کہ میرے لئے کھجور کا حلوہ ہے شریعت کیا کرونگا،یہ ساری صورتیں کفر کی ہیں،اور اگر یہ کہا کہ ''جس وقت تو نے چاندی لی تھی اس وقت شریعت اور قاضی کہاں تھا'' اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔ اور علماء متاخرین میں سے بعض نے کہا کہ اگر اس نے قاضی سے شہر کے قاضی کو مراد لیا ہے، تو کافر نہ ہو گا۔
کسی شخص سے کہا گیا کہ ''اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے '' اس نے جواب دیا کہ ''میں رسم پر عمل کرتا ہوں نہ کہ شریعت پر '' تو اس کہنے سے بعض کے نزدیک کافر ہو جائے گا، ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ''تو کیا کہتی ہے شریعت کا کیا حکم ہے '' بیوی نے بلند آواز سے ڈکار لی اور کہا '' اینک شرع را '' تو وہ کافر ہو جائے گی۔ اور اس کا نکاح جاتا رہے گا۔ ایک شخص نے اپنے مخالف کے سامنے ائمہ کا فتویٰ پیش کیا، اس نے اس فتویٰ کو رد کر دیا اور کہا ''یہ فتووں کا انبار تو کیا لے آیا ہے ؟'' بعضوں نے کہا کہ وہ کافر ہو جائے گا اس لئے اس نے شریعت کا حکم رد کر دیا۔ اسی طرح اگر اس فتویٰ کے بارے میں کچھ نہ کہا مگر فتویٰ لے کر زمین پر ڈال دیا اور کہا ''یہ کیا شریعت ہے ؟ '' تو بھی کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص نے ایک عالم سے اپنی بیوی کے متعلق کا مسئلہ دریافت کیا، اس نے جواب دیا کہ تمہاری بیوی پر طلاق واقع ہو گئی پوچھنے والے نے کہا ''میں طلاق ملاق کو کیا جانوں ماں بچے گھر میں ہونے چاہئیں '' تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا۔دو شخصوں میں جھگڑا ہوا، اس میں سے ایک دوسرے کے پاس علماء کا فتویٰ لے کر آیا اس نے کہا '' ایسا نہیں جیسا کہ فتویٰ دیا '' یا یہ کہا کہ میں اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کو تعزیراً (سزا) دی جائے گی۔
جو کوئی حلال کے حرام ہونے کا یا حرام کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ لیکن اگر کوئی حرام وحلال اس لئے بتائے کہ یہ سامان رائج ہو جائے یا ایسا جہالت کی وجہ سے کیا تو وہ کافر نہ ہو گا،لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ وہ حرام حرام لعینہ ہو، اور وہ اس کے حلا ل ہونے کا عقیدہ رکھے تب کافر ہو گا اور اگر حرام،حرام لغیرہ ہو اور اس کو حلال بتائے تو کافر نہ ہو گا،اور اس حرام لعینہ کو حلال سمجھنے میں کافر ہو گا جب اس کی لعینہ حرام کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہو، لیکن اگر حرام لعینہ کی حرمت خبر احاد سے ثابت ہو گی تو اس کے حلال کا عقیدہ رکھنے میں کافر نہ ہو گا۔
ایک شخص سے کہا گیا کہ ایک حلال تم کو زیادہ پسند ہے یا دو حرام، اس نے کہا دونوں میں سے جو جلد پہنچ جائے، تو اس کے بارے میں کفر کا خوف ہے،اسی طرح اس وقت بھی خوف کفر ہے جب کہے کہ ہمیں مال چاہئے خواہ حلال ہو خواہ حرام ہو، اور اگر یہ کہا کہ جب تک میں حرام پاؤں گا حلال کے پاس نہیں پھٹکوں گا تو اس کہنے سے کافر نہ ہو گا۔
اگر کوئی شخص حرام مال کسی فقیر کو ثواب کی نیت سے دے اور ثواب کی امید رکھے تو وہ کافر ہو جاتا ہے، اور اگر فقیر کو یہ معلوم تھا کہ یہ مال حرام ہے اور کے باوجود اس نے وہ مال لے لیا اور دینے والے کو دعا دی اور اس دینے والے نے آمین کہی، تو وہ کافر ہو گا۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ حلال مال کھاؤ اس نے کہا کہ مجھے تو حرام مال بہت پیارا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا کہ اس دنیا میں کسی ایک حلال کھانے والے کو لاؤ تاکہ میں اسے سجدہ کروں تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا، کسی نے ایک شخص سے کہا کہ حلال کھایا کرو جواب میں اس نے کہا کہ مجھے تو حرام چاہئے تو وہ کافر ہو گیا۔
کسی فاسق کے لڑکے نے شراب پی۔ پھر اس کے عزیز و اقارب آ کر اس پر روپے نچھاور کرنے لگے تو وہ سب کافر ہو گئے، اور اگر نچھاور نہیں کیا بلکہ کہا کہ تمہیں مبارک ہو تو بھی کافر ہو جائیں گے۔ اگر کسی نے کہا کہ شراب کی حرمت قرآن سے نہیں ثابت ہوتی تو وہ کافر ہو جائے گا۔
کسی نے شراب پینے والے سے کہا کہ قرآن سے شراب کی حرمت ثابت ہے پھر تو شراب کیوں پیتے ہو توبہ کیوں نہیں کرتے ؟ تو اس کے جواب میں شرابی نے کہا کہ ازشیرمادر شکید یعنی کیا ماں کے دودھ سے صبر ہو سکتا ہے ؟ تو وہ اس کے کہنے سے کافر نہیں ہو گا، اس وجہ سے کہ یا تو یہ استفہام ہے یا شراب اور دودھ میں شغف کے اندر برابری ظاہر کرنا ہے۔
اگر کوئی حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع (صحبت) کو حلال سمجھے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح وہ بھی کافر سمجھا جائے گا جو اپنی بیوی سے اغلام (لواطت) کو جائز جانے اور نوارد میں امام محمد سے روایت ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کافر نہیں ہوتا اور اس حکم کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔
ایک شخص نے شراب پی اور پھر کہا کہ جو شخص ہمارے اس کیف میں ہمارا شریک مسرت ہے اصل مسرت اسی کی ہے اور جو شخص ہمارے اس کیف و مسرت سے ناراض ہے وہ گھاٹے میں ہے تو وہ کافر ہو گیا۔ اسی طرح وہ شراب پینے میں مشغول تھا تو اس نے کہا کہ مسلمان ہونے کو آشکارا کر رہا ہوں یا مسلمان ہونا ظاہر ہو رہا ہے تو اس سے کافر ہو جائے گا۔ اگر بدکار اور شرابی نے یہ کہا کہ اگر شراب کا کوئی قطرہ گر جائے گا۔ تو جبرائیل علیہ السلام اپنے پیروں سے اٹھائیں گے تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک فاسق سے کسی نے کہا کہ تو ہر دن اس طرح صبح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق خدا کو تکلیف دیتا ہے، اس نے کہا خوب کرتا ہوں تو وہ کافر ہو جائے گا۔ گنا ہوں کے متعلق کسی نے کہا کہ یہ بھی ایک مذہب ہے تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔ محیط میں ایسا ہی ہے اور تجنیس ناطقی میں ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ کہنے والا کافر نہیں ہوتا،
اسی طرح وہ بھی کافر ہو گا جو تسبیح و تہلیل کے وقت یہ جملے کہے۔ ایک شخص نے سبحان اللہ کہا،دوسرے نے کہا کہ تو نے سبحان اللہ کی رونق ختم کر دی، یا کہا کہ تو نے اس کی کھال ادھیڑ دی تو وہ کافر ہو جائے گا۔ کسی سے کہا گیا کہ تم لا الٰہ الاّ اللہ نہیں کہتا تو وہ کافر ہو گا اور بعضوں نے کہا کہ مطلقاً کافر ہو جائے گا اور اگر جواب میں یہ کہا کہ تو نے یہ کلمہ پڑھ کر کیا بلندی حاصل کر لی کہ میں کہوں، تو بھی کافر ہو جائے گا، ایک بادشاہ کو چھینک آئی، اس کی چھینک پر کسی نے کہا (یرحمک اللہ)۔ دوسرے نے یرحمک اللہ کہنے والے سے کہا کہ بادشاہ کے لئے اس طرح مت کہو تو یہ کہنے والا کافر ہو جائے گا۔
جو کوئی قیامت یا جنت دوزخ یا میزان وپل صراط اور نامہ اعمال کا انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا، اسی طرح کوئی مرنے کے بعد پھر جی اٹھنے کا انکار کر دے تو وہ بھی کافر ہے۔
کوئی شخص یہ کہے میں یہ نہیں جانتا کہ یہود و نصاریٰ قیامت میں جب اٹھائے جائیں گے تو وہ آگ کے عذاب کے مبتلا کئے جائیں گے یا نہیں تو اس کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح وہ شخص بھی کافر ہو جاتا ہے جو جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کا انکار کر دے۔ یا مرنے کے بعد عذاب قبر کا انکار کرے یا انسان کے حشرونشر کا انکار کر لے، لیکن انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کے حشر کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا اسی طرح وہ بھی کافر نہیں ہوتا جو یہ کہے کہ عذاب اور ثواب کا تعلق صرف روح سے مخصوص ہے۔
ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ گناہ نہ کرو اس لئے کہ ایک دوسری دنیا بھی ہے جہاں حساب و کتاب ہو گا اس نے جواب دیا کہ اس دنیا کی کس کو خبر ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ قرض باقی تھا، اس نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر یہاں تم نہیں دیتے ہو تو قیامت میں تم سے وصول کر لوں گا اس نے جواب میں کہا جی ہاں قیامت قائم ہو گی ؟ تو اگر اس نے قیامت کی توہین کے ارادہ سے ایسا کہا تو کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص نے دوسرے پر ظلم و ستم ڈھایا، اس پر مظلوم نے کہا آخر قیامت کا دن آنے والا ہے اس لئے ڈرو اس نے جواب میں کہا فلاں گدھا قیامت میں ہو گا تو اس سے کافر ہو جائے گا ایک شخص نے اپنے قرضدار سے کہا میرے روپے دنیا میں دیدے قیامت میں روپیہ نہ ہو گا اس نے کہا کہ اچھا دس روپے اور دے دو اس دنیا میں لے لینا یا میں تمہیں وہاں دے دوں گا تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا کسی نے کہا کہ مجھے حشر سے کیا کام ہے، یا یہ کہا کہ میں قیامت سے نہیں ڈرتا تو وہ کافر ہو جائے گا۔
کسی نے اپنے دشمن سے کہا کہ میں اپنا حق تجھ سے قیامت میں وصول کر لوں گا اس نے کہا اس دن اس بھیڑ میں مجھے کہاں پائے گا ؟مشائخ کو اس کے کفر میں اختلاف ہے فقیہ اللیث کہتے ہیں کہ وہ اس کہنے سے کافر نہ ہو گا۔
کسی نے کہا اس دنیا میں سب اچھا رہنا چاہے اس دنیا میں جو ہو گا سو ہو گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ایک شخص سے کہا گیا کہ تم آخرت کے پیش نظر دنیا سے گریز کرو اس نے کہا کہ نقد چھوڑ کر ادھار پر کون بھروسہ کرے ؟ تو وہ کافر ہو جائے گا۔
کسی نے کہا کہ جو اس دنیا میں بے عقل و خرد ہو گا وہ اس دنیا میں اس شخص کی طرح ہو گا جس کی تھیلی پھٹی ہوئی ہے یعنی ناکارہ ہو گا امام ابوبکر محمد بن الفضل نے کہا کہ اگر اس سے اس کا منشا آخرت کے ساتھ تمسخر اور طنز ہے تو یہ باعث تکفیر ہو گا۔ کسی نے کسی سے کہا کہ میں تیرے ساتھ دوزخ میں جاؤں گا لیکن اندر نہیں آ سکتا تو وہ کافر ہو جائے گا۔
اگر کسی نے کہا کہ جب تک تم رضوان جنت کے لئے کچھ نہیں لے جاؤ گے تو وہ جنت کا دروازہ نہیں کھولے گا تو اس کہنے سے کافر ہو جائے گا۔ کسی نے بھلائی کا حکم دینے والوں سے کہا کہ یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہم اگر یہ انکار و رد کے طور پر کہا ہے تو اس کے کافر ہو جانے کا خوف ہے کسی نے ایک شخص سے کہا کہ فلاں کے گھر جا کر بھلی بات کا حکم کرو،جواب میں کہا کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے یا مجھے اس کو اذیت دینے کی کیا وجہ ہے ؟ یا کہا میں الگ تھلگ ہوں اس فضول کام سے کیا واسطہ ؟ تو یہ سب کفریہ الفاظ ہیں۔
کسی نے ایک شخص سے تعزیت کرتے ہوئے کہا جو اس کی جان سے کم ہوا وہ تم پر زیادہ ہو تو اس سے بھی کفر کا خوف ہے۔ یا کہا کہ تم پر زیادہ کیا جائے تو یہ جہالت اور غلطی ہے یہ کہا کہ فلاں کی جان کم ہو کر تیری جان پر آ گیا، تو یہ بھی جہالت ہے اور اگر یہ کہا کہ وہ مر گیا لیکن اپنی جان تیرے سپرد کر گیا تو کافر ہو جائے گا۔ ایک شخص بیمار تھا وہ اچھا ہوا دوسرے نے اس سے کہا فلاں گدھا پھر بھیج دیا تو یہ بھی کفر ہے۔
ایک شخص بیمار ہوا اور اس کی بیماری بہت بڑھ گئی اور اس نے طول کھینچا بیمار نے اکتا کر خدا کو خطاب کر کے کہا کہ خواہ تو حالت اسلام پر موت دے یا حالت کفر پر تو یہ بھی باعث کفر ہے۔
جب کوئی کسی کو کلمہ کفر کی تلقین کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔خواہ یہ کھیل کود اور ہنسی مذاق ہی کے طور پر کیوں نہ ہو اسی طرح وہ بھی کافر ہو جائے گا جو کسی کی بیوی کو حکم دے کہ تو مرتد ہو جا اور اس طرح اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلے، امام اعظم اور امام ابو یوسف سے یہی روایت ہے ایک شخص نے کسی کو حکم دیا کہ تو کافر ہو جا تو حکم دینے والا کافر ہو جائے گا خواہ جس کو حکم دیا گیا ہے وہ کافر ہو یا نہ ہو۔ امام ابو اللیث فرماتے ہیں کہ جس وقت کوئی شخص کسی کو کلمہ کفر کی تعلیم دے گا وہ کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی مرد یا عورت کو مرتد ہونے کا حکم دے گا تو بھی وہ کافر ہو گا۔
امام محمد فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ کفر زبان سے نکالے ورنہ اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے گا یعنی جان یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دی گئی اس نے خوف سے کلمہ کفر زبان سے کہہ دیا تو اس کی چند صورتیں ہو گی اگر اس نے کلمہ کفر اس طرح زبان سے ادا کیا کہ اس کا دل ایمان پر بالکل مطمئن ہے دل میں کفر کا کھٹکا تک بھی نہیں گزرا صرف زبان سے کلمہ کفر سرزد ہوا ہے تو اس صورت میں نہ قضاء اس کی تکفیر کی جائے گی اور نہ وہ عند اللہ کافر ہو گا، اور اگر کلمہ کفر زبان سے کہنے والا کہے کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنے بارے میں زمانہ ماضی میں کفر کی جھوٹی خبر دے کر چھٹکارا حاصل کر لوں میں نے مستقل کفر کا ارادہ نہیں کیا تھا تو اس صورت میں قضا یعنی قانوناً اس کے کفر کا فیصلہ دیا جائے گا اور قاضی اس میں اور اس کی بیوی میں تفریق کر دے گا اور اگر وہ یہ کہے کہ کلمہ کفر کہتے وقت میرے دل میں یہ بات گزری کہ گزرے کہ زمانہ میں کفر کی جھوٹی خبر دے دوں لیکن زمانہ میں جھوٹے کفر کا میں نے ارادہ نہیں کیا بلکہ ایام مستقبل میں ارادہ کیا تو اس صورت میں خدا کے نزدیک بھی کافر ہو جائے گا اور دنیا کے حکم میں بھی۔
ایک شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ صلیب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے چنانچہ اس نے پڑھی تو اس کی تین صورتیں ہوں گی۔
(١) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ زبردستی کی وجہ سے صلیب کی طرف نماز پڑھ لی ہے لیکن دل میں کوئی وہم اس کی عقیدت کا نہیں گزرا ہے تو وہ کافر نہیں ہو گا نہ قضاءً اور نہ فی ما بینہ وبین اللہ۔
(٢) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ بات گزری کہ اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں نہ کہ صلیب کے لئے تو اس صورت میں بھی وہ کافر نہ ہو گا۔
(٣) اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ بات گزری کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھوں لیکن میں اس کو چھوڑ دیا اور صلیب کے لئے نماز پڑھی تو اس صورت میں وہ قضاءً بھی کافر ہو گا اور فی ما بینہ وبین اللہ بھی۔
ایک مسلمان سے کہا گیا کہ تم بادشاہ کو سجدہ کرو ورنہ ہم تمھیں قتل کر ڈالیں گے تو افضل یہ ہے کہ سجدہ نہ کرے ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے جان بوجھ کر نکالا لیکن کفر کا اعتقاد پیدا نہیں ہوا تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہو گا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کافر ہو جائے گا اور یہی صحیح ہے۔ ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے ادا کیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کفر کا کلمہ ہے مگر اس نے یہ اپنے اختیار سے کہا ہے کہ تمام علماء کے نزدیک ہو جائے گا۔ اور جہالت عذر شمار نہ ہو گی اور بعض لوگوں نے کہا کہ کافر نہیں ہو گا مذاق کرنے والا یا ٹھٹھا کرنے والا جب کلمہ کفر استخفاف کے طور پر بالذات آفرینی کے طور پر بکے گا تو وہ تمام کے نزدیک کافر قرار دیا جائے گا اگرچہ اس کا اعتقاد اس کے خلاف ہو۔
ایک شخص کی زبان سے کلمہ کفر غلطی سے جاری ہو گیا اس طرح کہ وہ دوسرا کلمہ بولنا چاہئے تھا لیکن آگیا کفر کا کلمہ تو وہ کافر نہیں ہو گا مجوسیوں کی ٹوپی سر پر رکھنے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے البتہ گرمی یا سردی سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو کافر نہ ہو گا زنار یعنی جنینؤ پہننے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے لیکن اگر لڑائی میں جاسوسی کے لئے ایسا کرے تو کافر نہ ہو گا۔
کسی نے کہا کہ تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے بہتر کفر کرنے والا ہے، اگر اس سے نیت کفر کا اچھا جاننا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور بعض علماء جیسے فقیہ ابو اللیث کہتے ہیں کہ صرف اس جملہ سے آدمی کافر ہو جاتا ہے خواہ اس کی نیت کچھ بھی ہو۔ مجوس نو روز کے دن جو کچھ کرتے ہیں اگر مسلمان اس کی موافقت میں ان کے ساتھ نکلے گا تو کافر ہو جائے گا، کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی چیز خریدنے سے کافر نہیں ہو گا، اس دن اگر کوئی مسلمان مشرکوں کو اس دن کی تعظیم کے اظہار کے لئے کوئی تحفہ بھیجے خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہو جائے گا ہاں اگر ان کے بچوں کی رسم مونڈن میں دعوت قبول کرے تو اس سے کافر نہ ہو گا۔
کفار کی باتوں اور معاملہ کو اچھا جاننے والا کافر ہو جاتا ہے مثلاً یہ کہے کہ کھانے کے وقت مجوس کا یہ مذہب بہتر ہے کہ اس وقت گفتگو نہ کی جائے یا مجوس کی یہاں یہ اچھا ہے کہ حالت حیض میں بیوی کو ساتھ لیٹنے بھی نہ دیا جائے، اس کہنے سے کافر ہو جائے گا کسی نے کسی شخص کی عزت وجاہ کی وجہ سے اس کے جوڑے پہننے کے وقت جانور ذبح کیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور یہ ذبیحہ مردار ہے اس کا کھانا جائز نہیں۔ اسی طرح غیراللہ کی عظمت کے اظہار کے لئے گائے، اونٹ یا کسی جانور کا ذبح کرنا یا غازیوں اور حاجیوں کی واپسی پر اس کی عظمت کے اظہار کے لئے ایسا کرنا باعث کفر ہے۔
جو جانور کسی دیوی دیوتا یا بزرگ کے نام پر چھوڑا گیا اور نامزد کر کے اس کو شہرت دے دی گئی جسے اور بدعقیدہ لوگ کوئی جانور مثلاً بکرا چھوڑا دیتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ یہ بکرا شیخ سدو کے نام پر ہے یا یہ گائے احمد کبیر کی ہے یا یہ مرغا مدار صاحب کا ہے وغیرہ وغیرہ یا کسی غیراللہ کے نام کی عظمت اور تقریب کے لئے کیا گیا تو یہ سب کفر کی باتیں ہیں، اسی طرح بزرگوں کی قبر پر یا دریا کے کنارے جانور ذبح کرنا یا کسی دیوی دیوتا کو بھوگ دینا یہ سب کام ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی کافر ہو جاتا ہے اور ایسا ذبیح مردار کے حکم میں ہے اس کا کھانا درست نہیں اس سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ان مواقع پر جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو دونوں صورتوں میں وہ حرام ہے کیونکہ جب غیراللہ کے نام پر نامزد ہو چکا ہے تو بسم اللہ پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا ایسا ہی الاشباہ النظائر، تنویر الابصار،درمختار، منح الغفار، فتاویٰ عالمگیری اور مطالب المؤمنین وغیرہ کتابوں میں مذکور ہے۔
ان میں سے بعض کتابوں میں یہ بھی صراحت ہے کہ ایسے غیراللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے جانوروں کا ذبح کرنے والا کافر ہے اور یہ ذبیحہ حرام ہے علماء میں ابو حصص کبیر ابو علی دقاق، عبداللہ کاتب، عبد الواحد، اور ابو الحسن نووی وغیرہ مشہور علماء نے یہی لکھا ہے۔ اور اس کو صحیح کہا ہے اور تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ تمام علماء کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ جو مسلمان کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے تقرب و تعظیم کے لئے ذبح کرے وہ مرتد ہے اور اس کے ذبح کئے ہوئے جانور کا وہی حکم ہے جو ایک مرتد کے ذبح کئے ہوئے جانور کا ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص معلون ہے جو غیراللہ کے تقرب و تعظیم کے لئے جانور ذبح کرے جیسا کہ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں ہے اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تفسیر عزیزی میں آیت (وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ) 16۔ النحل:115) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ جانور جو غیراللہ کے نام کے ساتھ شہرت دیا گیا ہے وہ خنزیر سے بدتر اور مردار ہے جن حضرات کو تفصیل مطلوب ہو ان کو چاہیے کہ وہ تفسیر عزیزی کے مطالعہ کریں انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے یہ مسئلہ منقطع ہو کر ان کے ذہن نشین ہو جائے گا۔
ایک عورت نے اپنی کمر پر رسی باندھ کر کہا کہ یہ زنار (جنینؤ) ہے تو وہ کافر ہو گئی ایک شخص نے اس طرح کہا کہ خیانت کرنے سے بہتر کافر ہی ہے تو اکثر علماء کہتے ہیں کہ وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا اس اور اسی پر ابو القاسم صغار کا فتویٰ ہے ایک شخص نے عورت کو مارا اس عورت نے کہا تو مسلمان نہیں ہے تو مرد نے یہ سن کر کہا ہاں میں مسلمان نہیں ہوں تو وہ اس کہنے سے کافر ہو جائے گا ایک شخص نے کہا کیا تو مسلمان نہیں ہے اس نے کہا نہیں تو یہ بھی کافر ہے ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ تمہارے اندر دینی حمیت اور اسلامی غیرت نہیں کہ تم اسے پسند کرتے ہو کہ میں اجنبی مردوں کے ساتھ خلوت کروں ؟ خاوند نے جواب میں کہا ہاں مجھ میں دینی حمیت اور اسلامی غیرت نہیں ہے تو وہ اس سے کافر ہو جائے گا۔
ایک مرد نے کہا اپنی بیوی کو اس طرح مخاطب کیا اے یہودیہ، اے مجوسیہ اے کافرہ ! عورت نے یہ سن کر کہا کہ میں ایسی ہی ہوں یا کہا ایسی ہوں تو مجھے طلاق دے دو یا یہ کہا کہ اگر ایسی ہوتی تو تمہارے ساتھ کیسی رہتی یا نہ رہتی یا یہ کہا کہ اگر ایسی نہ ہوتی تو تمہارے ساتھ صحبت نہ کرتی یا تم مجھے نہ رکھتے تو اس کہنے سے وہ عورت کافر ہو جائے گی، اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا کہ اگر میں ایسی ہوں تو تم مجھے نہ رکھو تو اس سے کافر نہ ہو گی، اور اگر کسی بیوی نے اپنے شوہر کو مخاطب کیا اے کافر اے یہودی، اے مجوسی،! پس شوہر نے اس کے جواب میں کہا اگر ایسا نہ ہوتا تو تم کو نہ رکھتا تو وہ اسی کی وجہ سے کافر ہو گیا، اور اگر کہا کہ اگر میں ایسا ہوں تو تم میرے ساتھ نہ رہو تو اس صورت میں وہ کافر نہ ہو گا۔
اور اگر کسی اجنبی سے کہا اے کافر یہودی ! اس نے کہا کہ میں ایسا ہی ہوں میرے ساتھ تم مت رہو یا کہا اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ نہ رہتا یا اسی طرح کا کوئی جملہ کہا تو وہ کافر ہو جائے گا ایک شخص نے ایک کام کا ارادہ کیا اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ اگر تم یہ کام کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے اس شوہر نے وہ کام کیا اور عورت کی بات پر توجہ نہ دی تو وہ شوہر کافر نہ ہو گا۔ اپنی بیوی کو کسی نے مخاطب کر کے کہا اے کافرہ !بیوی نے کہا میں نہیں تم ہو، کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا اے کافر ! شوہر نے کہا کہ میں نہیں بلکہ تو کافرہ ہو تو اس سے میاں بیوی میں جدائی واقع نہیں ہو گی اور اگر کسی اجنبی مسلمان سے کہا اے کافر یا اجنبی عورت کو کہا اے کافرہ اور مخاطب مرد و عورت نے جواب میں کچھ نہیں کہا یا کسی شوہر نے اپنی بیوی کو کہا اے کافرہ ! اور عورت نے کچھ جواب نہ دیا یا بیوی نے اپنے شوہر کو کافر کے ساتھ خطاب کیا اور شوہر نے کچھ جواب نہ دیا تو اس صورت میں ابوبکر اعمش بلخی کا قول ہے کہ کہنے والا کافر ہے اور بقیہ دوسرے علماء بلخ کہتے ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوتا، اور صحیح جواب یہ ہے کہ اگر کہنے والے کا ارادہ صرف برا بھلا کہنا مقصد ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا اور اگر وہ اعتقاد بھی یہ ہی رکھتا ہے کہ یہ مسلمان کافر ہے اور پھر اس کو کافر سے خطاب کرتا ہے تو البتہ وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔
اگر کوئی عورت اپنے بچے کو کافر بچہ کے ساتھ خطاب کرے تو یہ باعث کفر نہیں ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ یہ کفر ہے اسی طرح کوئی مرد اپنے بچہ کو ان الفاظ سے خطاب کرے تو وہ بھی کافر نہیں ہے اور اگر اپنے جانور کو کہا اے کافر تو اس سے کافر نہ ہو گا اور کسی شخص نے کسی مسلمان کو اے کافر اے یہودی یا اے مجوسی کہہ کر خطاب کیا اور اس مسلمان نے جواب میں لبیک کہا تو وہ کافر ہو گا۔ اگر یوں کہے کہ میں ڈر گیا کہ کہیں کافر نہ ہو جاؤں تو اس سے کافر نہ ہو گا اگر کسی نے کسی سے کہا کہ تو نے مجھے اتنا ستایا کہ میرا جی چاہا کہ کافر ہو جاؤں تو وہ کافر ہو جائے گا۔ کسی نے کہا کہ یہ زمانہ مسلمان رہنے کا نہیں بلکہ یہ زمانہ کافری کا ہے۔ بعضوں نے کہا اس سے کافر ہو جائے گا اور صاحب محیط نے لکھا ہے کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ کافر نہ ہو گا۔
ایک مجوسی اور ایک مسلمان ایک جگہ ساتھ ساتھ تھے ایک شخص نے مجوسی کو پکارا کہ اے مجوسی اب اگر مسلمان نے یہ سمجھ کر جواب دیا کہ مجھے پکار رہا ہے تو وہ کافر نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ دونوں اس پکارنے والے کے کسی ایک کام میں مشغول تھے، اور اگر دونوں کسی ایک کام میں مشغول نہ تھے بلکہ الگ الگ کاموں میں مشغول تھے تو اس پر کفر کا خوف ہے۔ اگر مسلمان کہے کہ میں ملحد ہوں تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اگر وہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس جملہ سے آدمی کافر ہو جاتا ہے تو اسے اس کی وجہ سے معذور قرار نہیں دیا جائے گا ایک شخص نے ایک جملہ زبان سے نکالا جسے لوگوں نے کفریہ کلمہ سمجھا حالانکہ درحقیقت وہ کلمہ کفر نہ تھا مگر اس سے ان لوگوں نے کہا کہ تو کافر ہو گیا اور تیری بیوی کے درمیان جدائی واقع ہو گئی، اس کے جواب میں اس نے کہا کافر شدہ گیر، وزن طلاق شدہ گیر، تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اس کی بیوی اور اس کے درمیان جدائی واقع ہو جائے گی۔
ایک شخص نے کہا کہ میں فرعون ہوں یا کہا کہ میں ابلیس ہوں تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا ایک شخص نے ایک بدکار کو نصیحت کی اور توبہ کی ترغیب دی اس کے جواب میں اس نے کہا از پس ایں ہمہ کلاہ مغاں پرسر نہم تو وہ اس سے کافر ہو جائے گا ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہتا کہ تمہارے ساتھ رہنے سے کافر ہونا بہتر ہے تو وہ کافر ہو جائے گی۔ ایک عورت نے کہا کہ اگر میں ایسا کام کروں تو کافر ہوں ابوبکر محمد بن الفضل کہتے ہیں کہ اس کہنے سے وہ عورت کافر ہو گئی اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا اور قاضی علی السعدی کا کہنا ہے کہ یہ جملہ تعلیق ویمین ہے کفر نہیں ہے ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم اس کے بعد مجھ پر ظلم کرو گے یا یہ کہا کہ اگر تم میرے لئے ایسی چیز نہ خریدو گے تو میں کافر ہو جاؤنگی تو وہ فوراً یہ کہتے ہی کافر ہو گئی۔
ایک شخص نے تمثیل کے طور پر کہا کہ میں مجوسی تھا مگر مسلمان ہو گیا یہ صرف زبان سے بطور حکایت کہا اعتقاداً نہ کہا تو بھی وہ کافر ہو جائے گا اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو سجدہ تحیتہ کرے گا تو وہ اس سے کافر نہ ہو گا ایک شخص نے کسی مسلمان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارا ایمان چھین لے اس نے اس کے جواب میں آمین کہا تو وہ دونوں کافر ہو جائیں گے کسی شخص نے کسی کو تکلیف دی اس نے کہا کہ مجھے مت ستاؤ میں مسلمان ہوں ستانے والے نے جواب دیا چاہے مسلمان رہو چاہے کافر تو وہ ایذاء دینے والا کافر ہو جائے گا یا کہا کہ اگر تو کافر بھی ہو جائے تو میرا کیا نقصان تو اس سے بھی کافر ہو جائے گا۔
ایک کافر نے اسلام قبول کیا لوگوں نے اس کو تحفے ہدئیے دیئے ایک مسلمان نے یہ دیکھ کر کہا کہ کاش میں بھی کافر ہوتا اور پھر مسلمان ہوتا تو لوگ مجھ کو بھی تحفے ہدیئے دیتے یا اس نے یہ بات کہی نہیں لیکن دل میں آرزو کی تو وہ کافر ہو گیا۔ ایک شخص نے آرزو کی کہ اللہ تعالیٰ شراب کو حرام نہ کرتا تو اس سے وہ کافر نہ ہو گا۔ اور اگر کسی نے یہ آرزو کی کہ اللہ تعالیٰ ظلم و زنا کو حرام نہ کرتا یا ناحق قتل و خون ریزی کو حرام نہ کرتا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اس لئے کہ یہ وہ چیزیں ہیں کہ کبھی بھی حلال نہ رہیں گویا پہلی صورت میں ایسی چیز کی آرزو کی جو محال نہیں اور دوسری میں ایسی چیز کی آرزو کی جو محال ہے اسی طرح اگر کوئی آرزو کرے کہ بھائی بہن کے درمیان نکاح حرام نہ ہوتا تو اس سے کافر نہ ہو گا۔ اس لئے کہ یہ شروع میں حلال رہ چکا ہے لہٰذا محال نہیں کہا جائے گا۔ ماحصل یہ ہوا کہ جو چیز کبھی حلال تھی اور بعد میں حرام ہو گئی اس کے حلال ہونے کی تمنا کرنا موجب کفر نہیں ہے۔
ایک مسلمان نے کسی خوبصورت گداز بدن عیسائی عورت کو دیکھ کر آرزو کی کہ کاش میں عیسائی ہوتا کہ اس سے بیاہ کر سکتا، تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ایک شخص نے کسی سے کہا حق بات پر میری مدد کرو اس نے کہا کہ کہیں مدد حق پر کی جاتی ہے میں ناحق پر البتہ تیری مدد کروں گا تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اس درخت کو پیدا کیا ہے تو وہ اس کہنے سے کافر نہیں ہوا اس لئے کہ اس کی مراد درخت لگانا سمجھی جائے گی ہاں اگر کوئی حقیقتاً پیدا کرنا مراد لے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ جب تک میرے یہ بازو موجود ہیں میری روزی کم نہ ہو گی تو بعض مشائخ نے کہا کہ اس کی وجہ سے وہ کافر ہو جائے گا اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس پر کفر کا خوف ہے ! اگر کوئی یہ کہے کہ درویشی یا تصوف بدبختی ہے تو یہ بہت بری بات ہے۔
کسی نے چاند کے گرد کوئی دائرہ دیکھا اور دعوی کیا کہ بارش ہو گی اور اس طرح اس نے غیب کا دعوی کیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ ایک نجومی نے کسی سے کہا کہ تیری بیوی حاملہ ہے اور اس نے اس پر اعتقاد جما لیا تو وہ کافر ہو گیا۔ ایک شخص نے الو کی آواز سنی اور پھر کسی سے کہا کہ بیمار مر جائے گا یا کوئی مصیبت آئے گی یا اسی طرح کوا بولا اور اس کی آواز سن کر کسی نے کہا کہ کوئی سفر سے آ رہا ہے تو ایسے شخص کے کفر میں مشائخ کے اختلافی اقوال ہیں۔ کسی نے کوئی ناجائز بات کہی دوسرے نے اس سے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس کہنے سے تم کافر ہو جاؤ گے! اس نے کہا کہ پھر میں کیا کروں کافر ہوتا ہوں گا تو ہو جاؤں گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔
ایک شخص نے قرات کے دوران حرف ضاد کی جگہ زا پڑھا یا اصحاب الجنۃ کی جگہ اصحاب النار پڑھا تو ایسے شخص کی امامت جائز نہیں ہے اگر کوئی قصداً ایسا پڑھے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔۔ جو شخص کہے قسم ہے تیری زندگانی کی یا میری زندگانی کی یا اسی طرح کی کوئی اور قسم کھائے تو اس پر کفر کا خوف ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ رزق تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر وہ بندے سے حرکت چاہتا ہے تو بعضوں نے کہا یہ شرک ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ثواب و عذاب سے بری ہوں تو کہا گیا کہ اس سے کافر ہو جائے گا۔ اگر کسی نے کہا کہ فلاں شخص جو کچھ بھی کہے گا میں کروں گا اگرچہ وہ کفر ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ میں مسلمان ہونے سے بیزار ہوں تو وہ کافر ہو جائے گا۔
مامون رشید کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ وقت نے ایک فقیہ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جس نے کسی کپڑا بننے والے کو قتل کر دیا تھا کہ اس قاتل پر کیا واجب ہو گا فقیہ نے کہا تعزیر واجب ہے مامون نے حکم دیا کہ فقیہ کو پیٹا جائے چنانچہ اسے پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا، پھر مامون نے کہا کہ میں نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ اس نے شریعت کے ساتھ استہزا کیا اور شریعت کے ساتھ اس طرح کا مذاق کفر ہے ایک فقیر کالی کملی اوڑھے ہوئے تھا کسی نے اس کو دیکھ کر مدثر کہا تو یہ کفر ہے۔
جو ظالم بادشاہ کو عادل کہے وہ کافر ہے اور بعضوں نے کہا کہ وہ کافر نہیں ہوتا ہے اگر کوئی کسی ظالم کو اے خدا سے خطاب کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اگر کہے اے بار خدا تو اکثر مشائخ کہتے ہیں اس سے کافر نہیں ہو گا ایک عالم صغار نامی سے ان خطیبوں کے متعلق سوال کیا گیا جو جمعہ کے دن منبروں پر خطبہ پڑھتے ہیں اور سلطان کو العادل الاعظم یا شہنشاہ الاعظم یا مالک رقاب الامم یا سلطان ارض اللہ یا مالک بلاد اللہ یا معین خلیفۃ اللہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں کیا بادشاہوں کو خطبہ میں ان القاب کے ساتھ یاد کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟ تحقیق اس مسئلہ میں کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان القاب کے بعض الفاظ کفر ہیں اور بعض معصیت اور کذب ہیں۔ اور شہنشاہ کا لفظ بغیر اعظم کی صفت کے اللہ تعالیٰ کے اسماء کے لئے مخصوص ہے اس کے ساتھ بندوں کی صفت بیان کرنا جائز نہیں ہے اور مالک رقاب الامم کا جملہ بادشاہ کے لئے صریح جھوٹ ہے اسی طرح بادشاہ کو سلطان ارض اللہ یا اس طرح کے لقب سے یاد کرنا بھی جھوٹ ہے۔
امام ابو منصور نے کہا کہ اگر کوئی کسی کے آگے زمین بوسی کرے یا اس کے سامنے جھکے، یا اپنا سر جھکائے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ اس کا منشا تعظیم وتکریم ہے عبادت نہیں ہے اور دوسرے مشائخ نے کہا کہ جابروں کے سامنے سجدہ ریز ہونا گناہ کبیرہ ہے اور بعض عالموں نے کہا کہ اس سے وہ مطلقاً کافر ہو جاتا ہے اور بعضوں نے کہ اس میں تفصیل ہے اگر عبادت کا ارادہ کیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور اگر تعظیم کا ارادہ کیا تو کافر نہ ہو گا مگر اس کا یہ فعل حرام ہو گا اور اگر کوئی ارادہ سرے سے پایا ہی نہ جائے تو بھی اکثر کے نزدیک کافر ہو گا زمین چومنا سجدہ کرنے کے برابر ہے ہاں زمین پر پیشانی یا رخسار رکھنے سے ہلکا جرم ہے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خراج، سلطان کی ملکیت ہے تو یہ کفر ہے ! اگر کوئی کسی کے ساتھ برائی سے پیش آئے اور وہ یہ کہے کہ یہ سب تیری لائی ہوئی مصیبت ہے خدا کو اس میں دخل نہیں ہے تو یہ بھی کفر ہے اگر کوئی بادشاہ کے خلعت زبیب تن کرتے وقت اس کی خوشنودی اور مبارکبادی کے لئے قربانی کرے گا تو کافر ہو گا اور یہ قربانی مردار کے حکم میں ہو گی اور اس کا کھانا درست نہ ہو گا۔
کہیں کہیں یہ جو ہندوانہ رواج ہے کہ جب کسی کو چیچک نکلتی ہے تو عورتیں کسی پتھر کا نام چیچک رکھ دیتی ہیں اور اس کی پوجا کر کے بچوں کی چیچک سے شفا چاہتی ہیں اور اعتقاد رکھتی ہیں کہ اس سے بچہ اچھا ہو جائے گا یہ باعث کفر ہے اور وہ عورتیں کافر ہو جاتی ہیں اور اگر ان کے شوہر بھی اسے پسند کریں تو وہ بھی کافر ہیں۔ اسی طرح دریا کے کنارے جا کر پانی کو پوجنا اور وہاں بکری وغیرہ ذبح کرنا بھی خالص مشرکانہ رسم ہے اور باعث تکفیر ہے اور وہ بکری مردار کے حکم میں ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے ایسے ہی گھر میں تصویر بنا کر رکھنا اور اس کی پرستش کرنا جیسا کہ آتش پرست کرتے ہیں۔ یا بچہ پیدا ہونے کے وقت شنگرف سے نقشہ بنانا اور اس میں تیل ڈالنا اور پھر بھوانی بت کے نام سے اس کی پوجا کرنا یا اس طرح اور جو دوسرے کام کئے جاتے ہیں یہ سب مشرکانہ رسم اور کفر کا باعث ہیں چنانچہ جو عورتیں یہ سب کچھ کرتی ہیں وہ کافر ہو جاتی ہیں اور ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آجکل جب تک خیانت نہ کرو اور جھوٹ نہ بولو گزارہ نہیں ہو سکتا ہے کہ جب تک خرید وفروخت میں تم جھوٹ نہ بولو گے روٹی نہیں ملے گی، یا کسی سے کوئی کہے کہ تم کیوں خیانت کرتے ہو، یا کیوں جھوٹ بولتے ہو، وہ جواب دے کہ اس کے علاوہ چارہ نہیں ہے تو ان الفاظ سے وہ کافر ہو جائے گا ! اگر کوئی کسی سے کہے کہ تم جھوٹ نہ بولا کرو اور وہ اس کے جواب میں کہے کہ یہ بات تو کلمہ (لا الہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ) سے زیادہ درست ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اگر کسی کو غصہ آئے اور دوسرا اس کا غصہ دیکھ کر کہے کہ غصہ سے بہتر تو کافر ہی ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اگر کوئی شخص ایک ناجائز بات کہنے لگے دوسرا کہے یہ تم کیا کہہ رہے ہو اس سے تو تم پر کفر لازم آ رہا ہے وہ جواب میں کہے کہ اگر مجھ پر کفر آتا ہے تو تم کیا کرو گے۔تو وہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے گا کسی کے دل میں ایسی چیز کا خطرہ گزرا جو باعث کفر ہے اگر وہ اس کو اس حالت میں زبان پر لایا کہ وہ اسے برا جانتا ہے تو یہ ایمان کی علامت ہے اور اگر کفر کے ارادہ سے اس کو زبان پر لایا تو اسی وقت وہ کافر ہو جائے گا۔ اگرچہ سو برس کے بعد کفر اختیار کرے اگر کوئی شخص بخوشی اپنی زبان پر کلمہ کفر لایا مگر اس کا دل ایمان پر قائم ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اور عند اللہ مؤمن باقی نہ رہے گا اور جو شخص بھول کر ایسے الفاظ زبان پر لائے جو باعث کفر نہیں ہیں تو وہ علی حالہ مؤمن ہے اور اس کو نہ توبہ کا حکم دیا جائے گا اور نہ تجدید نکاح کا اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا عمل کیا جس میں کئی صورتیں کفر کی ہوں اور ایک صورت ایسی ہو کہ کفر لازم نہ آتا ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ اسی عدم کفر کی طرف رجحان رکھے ہاں اگر وہ شخص صراحت کے ساتھ اس صورت کو اختیار کرے جو باعث کفر ہے تو اس وقت کوئی تاویل مفید نہیں ہو گی، لیکن اگر کہنے والے کی نیت میں وہ صورت ہو جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر وہ صورت اختیار کرے جو باعث کفر ہے تو کسی قسم کا فتویٰ اس کے لئے کارآمد نہ ہو گا اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ توبہ کرے اور اس سے رجوع کرے اور اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرے۔
مسلمان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ صبح وشام ذیل کی دعا پڑھتا رہے انشاء اللہ وہ کفر وشرک کی ہر صورت سے محفوظ رہے گا اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی فرمایا ہے وہ دعا یہ ہے (اللہم انی اعوذ بک من ان اشرک بک شیأ وانا اعلم بہ واستغفرک لما لا اعلم بہ) فتاویٰ عالمگیری سے موجبات کفر کی جو بحث نقل کی جا رہی تھی الحمد للہ وہ پوری ہوئی۔
حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ زندیق حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خدمت میں لائے گئے تو انہوں نے ان کو جلا ڈالا پھر جب اس بات کی خبر حضرت ابن عباس کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ممانعت فرمائی ہے کہ کسی شخص کو ایسے عذاب میں مبتلا نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح ہو جیسے کسی کو آگ میں جلانا بلکہ میں ان کو قتل کر دیتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کو قتل کر دو۔ (بخاری)
تشریح
اصل میں زندیق مجوسیوں کی ایک قوم کا نام ہے جو زردشت مجوس کی اختراع کی ہوئی کتاب زند کے پیروکار ہیں لیکن اصطلاح عام میں ہر ملحد فی الدین کو زندیق کہا جاتا ہے، چنانچہ یہاں بھی زندیق سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہو گئے تھے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں جن لوگوں کو زندیق کہا گیا ہے وہ دراصل عبداللہ ابن سبا کی قوم میں سے کچھ لوگ تھے جو حدود اسلام میں فتنہ و فساد برپا کرنے اور امت کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے اور حضرت علی کے بارے میں خدائی کا دعویٰ کرتے تھے، چنانچہ حضرت علی نے ان کے اس عظیم فتنہ کا سر کچلنے کے لئے ان سب کو پکڑوا بلایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ سب توبہ کریں اور یہ فتنہ پھیلانے سے باز رہیں لیکن جب انہوں نے اس سے انکار کر دیا تو حضرت علی نے ایک گڑھا کھدوا کر اس میں آگ جلوائی اور ان سب کو آگ کے اس گڑھے میں ڈلوا دیا۔
منقول ہے کہ جب حضرت ابن عباس کا مذکورہ قول حضرت علی تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ بیشک ابن عباس نے سچ کہا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اس مسئلہ میں اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور اس مصلحت کے پیش نظر ان سب کو جلوا دیا کہ یہی لوگ نہیں بلکہ ان کا عبرتناک انجام دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس قسم کی مفسدہ پردازی سے باز رہیں۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آگ کے عذاب میں تو صرف اللہ تعالیٰ مبتلا کرتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کے کسی جرم کی وجہ سے آگ میں جلانے کی سزا دے۔ (بخاری)
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب اس زمانہ کے آخر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نوجوان ہوں گے ہلکی عقل والے ہوں گے لوگوں کی اچھی باتیں بیان کریں گے لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا ایمان سے مراد نماز ہے یعنی ان کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل بھاگیں جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے لہٰذا تم میں سے جس شخص کی ایسے لوگوں سے مڈبھیڑ ہو جائے وہ انہیں قتل کر دے کیونکہ ان کے قتل کرنے کا اس شخص کو قیامت کے دن انعام ملے گا جو انہیں قتل کرے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
لوگوں کو اچھی باتیں بیان کریں گے اس سے مراد یہ ہے کہ مذکورہ لوگ وہ بہترین اقوال اور اچھی باتیں بیان کریں گے جو عام طور پر خدا کے نیک بندوں کی زبانوں پر رہتی ہیں یعنی قرآن کریم کی آیات لیکن ملحوظ رہے کہ مشکوٰۃ کے نسخوں میں تو (من خیر قول البریۃ) ہے یعنی خیر کا تعلق قول سے ہے چنانچہ یہاں اسی کے مطابق ترجمہ و مطلب بیان کیا گیا ہے جب کہ مصابیح میں (من قول خیر البریہ) ہے یعنی اس میں خیر کا تعلق البریہ سے ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ لوگ بہترین انسان کے اقوال بیان کریں گے اس صورت میں قرآن کریم کی آیات کی بجائے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث مراد ہوں گی۔ لیکن علماء کہتے ہیں کہ جملہ کی زیادہ مناسب اور موزوں ترکیب وہی ہے جو یہاں مشکوٰۃ میں نقل کی گئی ہے کیونکہ احادیث میں خوارج کے بارے میں منقول ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات پڑھیں گے اور ان سے اپنے غلط عقائد ونظریات پر استدلال کریں گے اور ان آیات کی غلط سلط تاویل کریں گے۔
جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور اس شکار میں جلدی پیوست ہو کر فوراً نکل جانے کی وجہ سے وہ تیر شکار کے خون وغیرہ سے آلودہ نہیں ہوتا اسی طرح وہ لوگ بھی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے نکل جائیں گے ! طیبی کہتے ہیں کہ اس تمثیل کی مراد ان لوگوں کا دین کے دائرہ میں داخل ہونے پھر دین کے دائرہ سے نکل جانے اور اس تیر کی مانند کہ جو شکار میں پیوست ہو کر نکل جائے اور آلودہ نہ ہو ان لوگوں پر دین کی کسی بات کے اثر نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے نیز اس کا منشاء ان خوارج کی نشان دہی کرنا ہے جو امام وقت اور اسلامی حکومت کے اطاعت گزار نہیں ہوتے اور لوگوں پر ہتھیار اٹھاتے ہیں چنانچہ ابتداء میں ان خوارج کا ظہور حضرت علی کے عہد خلافت میں ہوا جن میں سے اکثر کو حضرت علی نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
خطابی کہتے ہیں کہ علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خوارج کی جماعت باوجود گمراہی کے مسلمانوں ہی کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے ان کے ہاں نکاح کرنا بھی جائز اور ان کا ذبیحہ کھانا بھی درست ہے نیز ان کی گواہی بھی معتبر ہے چنانچہ منقول ہے کہ حضرت علی سے ان سے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ منافق تو اللہ تعالیٰ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں اس لئے انہیں منافق بھی نہیں کہا جا سکتا پھر پوچھا گیا کہ تو آخر وہ کیا ہیں ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ کے لوگ ہیں فتنہ وگمراہی نے ان کو گھیر لیا ہے چنانچہ وہ اندھے اور بہرے ہو گئے ہیں۔
جیسا کہ بتایا گیا خوارج مسلمانوں کے ایک فرقہ کا نام ہے جو گمراہی میں مبتلا ہے اس فرقہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ بندہ نہ صرف گناہ کبیرہ بلکہ صغیرہ گناہوں کے ارتکاب سے بھی کافر ہو جاتا ہے۔
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ دنوں بعد میری امت دو فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ان دونوں فرقوں میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گی جو حق کی اطاعت سے نکلنے والی ہو گی اس جماعت کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ذمہ داری ان دونوں فرقوں میں سے وہ شخص پورا کرے گا جو حق سے زیادہ قریب ہو گا۔ (مسلم)
تشریح
دو فرقوں سے مراد ایک تو حضرت علی کے حامیوں کی جماعت ہے اور دوسری حضرت امیر معاویہ کے حامیوں کی جماعت ہے ان دونوں کے درمیان سے جو ایک تیسری جماعت پیدا ہوئی اسی کو خوارج کہا گیا ہے خوارج کو فنا کے گھاٹ اتارنے اور ان کے فتنہ و فساد کا دفعیہ کرنے کی طرف حضرت علی متوجہ ہوئے کیونکہ اس وقت انہی کی شخصیت حق سے زیادہ قریب کا سب سے بڑا مصداق تھی۔
اور حضرت جریر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ خبردار میرے بعد کفر کے ذریعہ پیچھے نہ پھر جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ (بخاری)
تشریح
تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے یہ استیناف ہے یعنی ایک جملہ ہے جو اس ممانعت کفر کے ذریعہ پیچھے نہ پھر جانا کی وضاحت اور بیان ہے گویا سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ کفر کے ذریعہ پیچھے پھر جانا ممکن ہے ؟ تو جواب میں فرمایا گیا کہ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنا یعنی یہ ایک ایسا عمل ہے جو کافروں کے عمل کے مشابہ ہے یا یہ عمل کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے۔
٭٭ اور حضرت ابو بکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمانوں کی آپس میں اس طرح مڈبھیڑ ہو کہ ان میں کا ایک اپنے دوسرے (مسلمان) بھائی پر ہتھیار اٹھائے دوزخ میں ڈالے تو وہ دوزخ جائیں کنارے پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو دونوں ایک ساتھ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ایک روایت ابو بکرہ ہی سے یوں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فریا ما اگر دو مسلمانوں کی آپس میں تلوار کے ساتھ مڈبھیڑ ہو اور ان میں کا ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل ومقتول دونوں ہی دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے میں نے عرض کیا کہ قاتل کا دوزخ میں جانا تو ظاہر ہے کہ اس نے چونکہ ظلم کیا ہے اس لئے وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا مگر مقتول کے بارے میں ایسا کیوں ہے ؟ کہ وہ تو مظلوم ہے اس کو دوزخ میں کیوں ڈالا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی تو اپنے ساتھی یعنی حریف کو قتل کرنے پر آمادہ تھا یہ اور بات ہے کہ اس کا وار خالی گیا اور دوسرے کا وار بھر پور پڑا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
دونوں ایک ساتھ دوزخ میں ڈالے جائیں گے کہ بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ ان دونوں میں سے ایک بھی حق پر نہ ہو، ہاں اگر ان میں سے ایک حق پر ہو گا تو دوزخ کی آگ میں اسی کو ڈالا جائے گا جو ناحق پر ہو گا، لیکن یہ بھی اسی صورت میں ہے جب کہ اشتباہ، التباس اور تاویل سے قتل سرزد نہ ہو۔
وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر آمادہ تھا اور ابن ملک کہتے ہیں کہ یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حرام چیز کے ارتکاب کی محض آمادگی پر بھی مواخذہ ہوتا ہے چنانچہ صورت مذکورہ میں یہی نوعیت ہے کہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی جان کے طلبگار ہوتے ہیں ہاں اگر مقتول محض اپنے دفاع کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کی نیت میں دوسرے کے قتل کی خواہش وارادہ کا دخل نہ ہوتا تو اس سے مواخذہ نہ ہوتا کیونکہ شریعت نے دفاعی کاروائی کی اجازت دی ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن ان کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی جس کی وجہ سے وہ اس مرض میں مبتلا ہو گئے کہ ان کے پیٹ پھول گئے اور رنگ زرد ہو گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ شہر سے باہر زکوٰۃ کے اونٹوں کے رہنے کی جگہ چلے چائیں اور وہاں ان اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا کریں، چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور اچھے ہو گئے پھر وہ ایسی گمراہی میں مبتلا ہوئے کہ مرتد ہو گئے اور مستزادیہ کہ ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کرلے گئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے پیچھے چند سواروں کو بھیجا جو ان سب کو پکڑ لائے۔ ان کے اس جرم کی سزاء کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں اور پیروں کو گرم تیل میں داغا نہیں گیا یعنی جیسا کہ قاعدہ ہے کہ ان اعضاء کو کاٹنے کے بعد گرم تیل میں داغ دیا جاتا ہے تاکہ خون بند ہو جائے لیکن ان کے ساتھ یہ بھی نہیں کیا گیا) آخر کار وہ سب مر گئے !
تشریح
ان اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا کریں اس ارشاد گرامی سے حضرت امام محمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب بھی پاک ہے یہی قول امام مالک اور حضرت امام احمد کا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک ان جانوروں کا پیشاب نجس (ناپاک) ہے ان کی طرف سے اس ارشاد گرامی کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے مرض کی نوعیت کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی یہ معلوم ہوا ہو گا کہ ان کے مرض کا علاج صرف اونٹ کا پیشاب ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مخصوص طور پر ان لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ پھر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ جس طرح اونٹ کا پیشاب پینا دوا کے علاوہ حلال نہیں ہے اسی طرح دوا کے طور پر پینا بھی حلال نہیں ہے، کیونکہ اس بات پر کوئی متفق نہیں ہے کہ پیشاب میں کسی مرض کی شفا ہے، لیکن حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک کسی مرض کے علاج کے لئے پینا حلال ہے۔
ابن مالک فرماتے ہیں کہ باوجودیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مثلہ سے منع فرمایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو اس طرح کی سزا دی، اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اونٹوں کے چرواہوں کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور قصاص ان لوگوں کے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ کیا یا یہ وجہ تھی کہ چونکہ ان مفسدوں نے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا تھا یعنی مرتد بھی ہوئے، چرواہوں کو قتل بھی کیا ہے اور قزاقی بھی کی کہ لوٹ مار کر کے سارے اونٹ لے گئے اور امام وقت کو حق پہنچتا ہے کہ اس قسم کے جرم کی صورت میں بطور زجر وتنبیہ اور بمصلحت امن وانتظام مجرم کو مختلف طرح کی سزائیں دے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کے پیش نظر ان لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کیا۔
نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی ومنشاء کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ ان آیات کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے جن میں حدود شرعی سزاؤں اور قزاقوں کی سزا کے بارے میں صریح احکام بیان کئے گئے ہیں اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مثلہ کی جو ممانعت فرمائی ہے وہ بھی اس واقعہ کے بعد کا حکم ہے اس اعتبار سے یہ حدیث منسوخ ہے، لیکن دوسرے بعض حضرات کا قول یہی ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے، بلکہ اسی موقعہ پر وہ آیت نازل ہوئی تھی جس میں قزاقوں کی یہ سزا بیان کی گئی ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے یا سولی دے دی جائے اور ان کا ایک اور پیر کاٹ دیا جائے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو جو سزا دی وہ بطور قصاص تھی کہ انہوں نے اونٹوں کے چرواہوں کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا گیا۔
اب رہی یہ بات کہ آخری وقت میں ان مفسدوں کو پانی کیوں نہیں دیا گیا، تو اس کے بارے میں بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ بھی قصاص کے طور پر تھا کہ ان مفسدوں نے بھی اونٹوں کے چرواہوں کو اسی طرح بغیر پانی کے تڑپا تڑپا کر مار ڈالا تھا چنانچہ ان کے ساتھ بھی یہی کیا گیا کہ جب انہوں نے پانی مانگا تو انہیں پانی نہیں دیا گیا، لیکن بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان کو پانی نہ دینے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں دیا تھا بلکہ لوگوں نے ان مفسدوں کے تئیں انتہائی نفرت اور غصہ کے اظہار کے طور پر از خود ان کو پانی نہیں دیا۔ اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص سزا موت کا مستوجب ہو چکا ہو اور اس کو قتل کرنا واجب ہو وہ اگر پانی مانگے تو پانی دینے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔
حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صدقہ دینے پر ہمیں رغبت دلاتے تھے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے (ابو داؤد،) نسائی نے اس روایت کو حضرت انس سے نقل کیا ہے۔
تشریح
جسم کے کسی عضو جیسے ناک، کان، ستر یا کسی اور حصہ جسم کے کاٹ ڈالنے کو مثلہ سے منع فرمانا بعض حضرات کے نزدیک تو بطور تحریم ہے یعنی یہ مکروہ تحریمی ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بطور تنزیہی ہے یعنی یہ مکروہ تنزیہی ہے لیکن زیادہ صحیح قول تحریم ہی کا ہے جہاں تک اس سے پہلی حدیث میں مذکورہ واقعہ کا تعلق ہے تو یہ بات وہاں بھی بتائی جا چکی ہے کہ آپ کی طرف سے ان مفسدوں کے اعضاء جسم کا کاٹا جانا قصاص کے طور پر تھا۔
اور حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے جب ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک حمرہ کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا، اس کے بعد حمرہ آئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج شروع کیا جبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حمرہ کو اس طرح بیتاب دیکھا تو فرمایا کہ کس نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اس کو مضطرب کر رکھا ہے ؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان چیونٹیوں کے رہنے کی جگہ کو دیکھا جس کو ہم نے جلا دیا تھا اور فرمایا کہ ان چیونٹیوں کو کس نے جلایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پروردگار کے علاوہ کہ جو آگ کا بھی مالک ہے اور کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ کے عذاب میں مبتلا کرے۔ (ابو داؤد)
تشریح
حمرہ ح پر پیش اور میم پر تشدید و زبر ایک پرندے کا نام سے جو سرخ رنگ کا اور چڑیا کی مانند چھوٹا ہوتا ہے، حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے ذریعہ کسی کو عذاب دینا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے شایاں ہے اور چونکہ یہ سب سے بڑا عذاب ہے اس لئے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ میں جلائے۔
چیونٹیوں کے بارے میں مسئلہ یہ ہے اگر چیونٹیاں تکلیف پہنچانے میں ابتداء کریں یعنی از خود کسی کو کاٹنے لگیں تو ان کو مار ڈالنا چاہئے ورنہ ان کو مارنا مناسب نہیں ہے، اسی طرح چیونٹیوں کے بلوں کو آگ سے جلانا بھی ممنوع ہے، نیز چیونٹیوں کو پانی میں ڈالنا مکروہ ہے اگر ایک چیونٹی کاٹے تو صرف اسی کو مارا جائے اس کے ساتھ اور چیونٹیوں کو مار ڈالنے کی ممانعت ہے۔
اور حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس ابن مالک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عنقریب میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہو گا ایک فرقہ جو باتیں تو اچھی کرے گا مگر اس کا عمل برا ہو گا اس فرقہ کے لوگ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن ان کا وہ پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا یعنی قبول نہیں ہو گا اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور وہ دین کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے اور وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں سب سے بدترین ہوں گے۔خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو قتل کر دے یا وہ لوگ اس کو قتل کر دیں۔ یعنی جو شخص ان لوگوں کے فتنہ اور ان کی گمراہی کا سر کچلنے کے لئے ان کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ یا تو وہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے یا وہ ان لوگوں سے حق کے لئے لڑتا ہوا خود قتل ہو جائے تو دونوں صورتوں میں اس کے لئے حق تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی سعادتوں کی خوشخبری ہے کہ پہلی صورت میں تو وہ غازی کا لقب پائے گا اور دوسری صورت میں شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کرے گا وہ بظاہر تو انسانوں کو کتاب اللہ کی دعوت دیں گے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور ان کی احادیث کو ترک کرنے پر اکسائیں گے حالانکہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم کی تفسیر و تشریح ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ناممکن ہے وہ لوگ کسی معاملہ میں ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں یعنی وہ کسی بات میں مسلمان شمار نہیں ہوں گے جو شخص ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارے گا وہ اپنی جماعت میں خدا کے سب سے زیادہ قریب ہو گا صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! ان لوگوں کی پہنچان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا سر منڈانا۔ (ابو داؤد)
تشریح
میری امت میں اختلاف و افتراق پیدا ہو گا کا مطلب یہ ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو آپس میں اختلاف و افتراق کو ہوا دیں گے اور اپنی اغراض کے لئے امت کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ! یہ جملہ : ایک فرقہ باتیں تو اچھی کرے گا ما قبل کے جملہ کی وضاحت اور بیان ہے یعنی امت میں جو لوگ اختلاف و افراق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ان کی ایک خاص علامت یہ ہو گی کہ وہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی کریں گے لیکن ان کا عمل بہت ہی برا ہو گا ان کی زبان سے تو یہ ظاہر ہو گا کہ پوری امت میں یہی لوگ ہیں جو دین کے شیدائی ہے، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے اطاعت گزار ہیں، اور مسلمانوں کے بھی خواہ ہیں لیکن ان کے عمل و کردار کا یہ حال ہو گا کہ وہ اپنی اغراض کے لئے مسلم دشمن طاقتوں کا آلہ کار اپنے نفس کے غلام اپنی خواہشات کے بندے اور مال و جاہ کے حرص میں مبتلا ہوں گے اور ان کا مقصد اتحاد امت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہو گا۔
یہ جملہ (یقرؤون القران) اس فرقہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے یا تو استیناف یعنی ایک الگ جملہ ہے جو ماقبل کی عبارت کی توضیح وبیان ہے یا شاطبی کے مسلک کے مطابق بدل ہے یا پھر اس سے نفس اختلاف کی وضاحت مراد ہے کہ عنقریب میری امت کے لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا ہو جائے گا اور دو فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے ان میں سے ایک فرقہ حق پر ہو گا اور ایک فرقہ باطل پر ہو گا طیبی کہتے ہیں کہ اس تاویل کی تائید آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل ہو چکا ہے کہ حدیث (تکون امتی فرقتین فتخرج من بینہما مارقۃ یلی فتلہم اولاہم بالحق) اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ قوم مابعد کے جملہ کا موصوف ہے اور ایک کی خبر جملہ (یقرؤوں القران) ہے اور اس جملہ کا مقصد ان دونوں فرقوں میں سے ایک فرقہ کی (جو باطل ہے ) نشان دہی کرنا ہے جب کہ دوسرے فرقہ کے ذکر کو اس لئے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود بخود مفہوم ہو جاتا ہے۔
حدیث (لا یجاوز تراقیہم) ان کا پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ بنیادی طور پر گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور محض آلہ کار کے طور پر قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہو گا اور نہ ان کے دوسرے اعضاء حرکت و عمل اثر ان کا مخارج حروف اور ان کی آوازوں سے آگے نہیں جائے گا جس کی وجہ سے قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہو گا اور نہ ان دوسرے اعضاء حرکت و عمل اثر پذیر ہوں گے چنانچہ قرآن کریم کی جن باتوں پر یقین و اعتقاد کرنا لازم ہے ان پر وہ اعتقاد و یقین نہیں رکھیں گے اور قرآن کریم کی جن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے وہ ان پر عمل نہیں کریں گے۔ یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قرات کو اس دنیا سے اوپر نہیں اٹھائے گا یعنی اس کو قبول نہیں کرے گا گویا ان کی قرات ان کے حلقوم سے آگے نہیں بڑھے گی۔
حدیث (حتی یرتد السہم علی فوقہ) جب کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے یہ تعلیق بالمحال ہے یعنی جس طرح تیر کا اپنے سوفار اپنی چٹکی کی جگہ واپس آنا محال ہے اسی طرح ان لوگوں کا دین کی طرف آنا بھی محال ہے گویا یہ جملہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (حتی یلج الجمل فی سم الخیاط) کی مانند ہے اور اس جملے کا منشاء اس بات کو تاکید اور شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے کیونکہ وہ لوگ سخت قسم کی جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور یہ غلط گمان ان کے قلب و دماغ میں بیٹھ چکا ہو گا کہ ہم حق اور ہدایت پر ہیں اس لئے ان کا دین کے دائرہ میں لوٹ آنا ناممکن ہو گا۔
سر منڈانا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات شائد اس لئے فرمائی کہ اس زمانہ میں عرب میں سر منڈانے کا رواج نہیں تھا، بلکہ اکثر لوگ سروں پر بال رکھا کرتے تھے، اس ارشاد کا مقصد سر منڈانے کی برائی یا تحقیر کرنا نہیں ہے کیونکہ سر منڈانا تو خدا کے شعار اور اس کی طاعت میں سے ایک عمل ہے اور ان لوگوں کی عادات میں سے ہے جو خدا کے نیک و صالح بندے ہیں۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تحلیق سے مراد سر منڈانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو حلقہ در حلقہ بٹھانا مراد ہے جو ان لوگوں کی طرف سے محض نمائش اور تکلف کے طور پر ہو گا۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نفس مسلمان کہ جو اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، اس کا خون حلال نہیں ہے ہاں ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہو جانے کی وجہ سے اس کا خون حلال ہو جاتا ہے ایک تو یہ کہ وہ محصن ہونے کے بعد زنا کرے تو اس کو سنگسار کر دیا جائے دوسری صورت یہ کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے نکلے یعنی جو مسلمان قزاقی کرے یا بغاوت کی راہ پر لگ جائے تو اس کو قتل کر دیا جائے یا سولی دے دی جائے اور یا اس کو قید میں ڈال دیا جائے اور تیسری صورت قتل نفس کی ہے کہ جو مسلمان کسی کو عمدا قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اس کو قتل کر دیا جائے۔ (ابو داؤد)
تشریح
محصن ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمان جو آزاد ہو مکلف ہو اور نکاح صحیح کے ساتھ صحبت کر چکا ہو یعنی شادی شدہ ہو اور پھر اس کے بعد زنا کا مرتکب ہو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو سنگسار کر کے ختم کر دیا جائے۔
قزاقی کرنے والے کے بارے میں تین سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
(١) قتل کر دیا جائے۔
(٢) سولی دیا جائے
(٣) قید میں ڈالا جائے ان تینوں میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ قزاق مال تو نہ لوٹ سکا ہو مگر اس نے کسی کو جان سے مار ڈالا ہو تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر اس نے مال بھی لوٹا ہو اور کسی کو قتل بھی کیا ہو تو اس صورت میں اس کو سولی دی جائے گی۔ اب اس کے متعلق حضرت امام مالک تو یہ فرماتے ہیں کہ اس کو زندہ سولی پر لٹکا دیا جائے تا کہ وہ مر جائے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل کر کے اس کی لاش سولی پر لٹکا دی جائے تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کے انجام سے عبرت ہو۔
تیسری سزا قید کی ہے اس کے لئے حدیث میں (ینفیٰ فی الارض) کے الفاظ ہیں اس کے معنی حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ اس کو مسلسل شہر بدر کیا جاتا رہے یعنی اسے کسی ایک شہر میں ٹھہرنے اور رہنے نہ دیا جائے بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نکالا جاتا رہے تاکہ اسے قرار و آرام نہ مل سکے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اس کو قید میں ڈال دیا جائے اور یہ قید کی سزا اس صورت میں ہے جب کہ اس نے نہ تو مال لوٹا ہو اور نہ کسی کو قتل کیا ہو بلکہ راہگیروں کو ڈرایا دھمکایا ہو اس طرح اس نے راستے کے امن و عافیت کی طرف سے لوگوں کو خوف و تشویش میں مبتلا کیا ہو حدیث کا یہ جزء جس میں قزاقوں اور راہزنوں کی مذکورہ بالا سزاؤں کا حکم ہے ؟ دراصل قرآن کریم کی اس آیت سے مستبظ ہے کہ :
آیت (اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَاداً اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْض)۔ 5۔ المائدہ:33)
جو لوگ اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد یعنی بدامنی پھلاتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں، یا ان میں سے ہر ایک کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دیا جائے یا زمین سے نکال کر جیل خانہ میں بھیج دیئے جائیں اس اعتبار سے بظاہر حدیث میں (او ینفیٰ فی الارض) سے پہلے یہ عبارت (او یقطع یدہ ورجلہ) میں خلاف بھی ہونی چاہئے تھی تا کہ یہ حدیث مذکورہ آیت کی پوری مطابق ہو جاتی لیکن یہ قوی احتمال ہے کہ اصل حدیث میں تو یہ عبارت رہی ہو البتہ یہاں حدیث کے راوی کی بھول سے نقل ہونے سے رہ گئی ہو یا راوی نے اختصار کے پیش نظر اس کو قصداً حذف کر دیا ہے۔
حرف او حدیث میں بھی قرآن کی آیت میں بھی اظہار تفصیل کے لئے ہے لیکن بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تخییر کے لئے ہے یعنی یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ امام وقت اور حاکم کو یہ اختیار ہے کہ وہ مذکورہ تفصیل کا لحاظ کئے بغیر ان سزاؤں میں سے جو سزا مناسب جانے قزاق کو دے۔
اور حضرت ابن ابی لیلی (تابعی) کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ وہ کسی موقع پر رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے ان میں سے ایک شخص جب کسی پڑاؤ پر سو گیا تو ان میں کا ایک دوسرا شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا اور سونے والا اس سے ڈر گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس کی یہ حرکت دیکھ لی یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں سنا تو فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے۔ (ابو داؤد)
اور حضرت ابو درداء رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کسی جزیہ والی زمین کو خریدا اس نے اپنی ہجرت کو توڑ دیا اور جس نے کافر کی ذلت کو اس کی گردن سے نکال کر اپنی گردن میں ڈال لیا اس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا۔ (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی سے کوئی خراجی جزیہ والی زمین خریدی تو اس مسلمان پر اس زمین کا وہ جزیہ عائد ہو گا جو اس زمین کے پہلے مالک ذمی پر عائد تھا۔ اور اسی طرح گویا وہ مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے جن حقوق اور جس شرف و عزت کے دائرہ میں تھا اس سے نکل جائے گا اور ایک کافر کی ذلت یعنی جزیہ کی سختی کو اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں ڈالنے والا ہو گا۔
اور جس نے کافر کی ذلت کو اس کی گردن سے نکال کر ......الخ حدیث کا یہ جزء دراصل پہلے جزء کا بیان اور اس کی وضاحت ہے کہ جس مسلمان نے ایک کافر کے جزیہ کو اپنے ذمہ لے لیا اس نے گویا اسلام کی عطا کی ہوئی عزت دے کر کفر کی ذلت و رسوائی مول لے لی اور اس طرح اس نے کفر کو اسلام کا بدل قرار دیا ہے۔
خطابی کہتے ہیں کہ یہاں جزیہ سے مراد خراج ہے یعنی اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے کوئی خراجی زمین خریدے گا تو اس زمین کا خراج ساقط نہیں ہو گا بلکہ اب وہ اس مسلمان پر عائد ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا یہی مسلک ہے۔
اور حضرت جریر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ خثعم کے مقاتلہ پر ایک لشکر بھیجا تو اس قبیلہ کے کچھ لوگ (جو اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ان کا رہن سہن قبیلہ کے کافروں ہی کے ساتھ تھا نماز کی پناہ پکڑنے لگے) یعنی لشکر والوں کو علم ہو جائے کہ یہ مسلمان ہیں اور اس طرح وہ حملہ سے بچ جائیں لیکن ان کے قتل میں عجلت سے کام لیا گیا یعنی لشکر والوں نے ان کے سجدوں کا اعتبار نہ کیا اور یہ گمان کر کے کہ یہ بھی کافر ہیں اور محض قتل سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں ان کو بھی قتل کر دیا جب اس واقعہ کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مسلمان مقتولین کے ورثاء کو آدھی دیت دیئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس مسلمان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کرے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کی بیزاری کا سبب کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دور رہنا چاہئے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (لیکن اگر کوئی مسلمان کافروں میں مخلوط رہا تو گویا اس نے حکم کی پرواہ نہیں کی)۔ (ابو داؤد)
تشریح
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مقتولین کے مسلمان ہونے کا علم ہو جانے کے باوجود ان کے ورثاء کو پوری دیت کا حقدار قرار نہیں دیا بلکہ آدھی دیت دیئے جانے کا حکم فرمایا اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کر کے گویا خود اپنے قتل میں معاونت کی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا اظہار بھی فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے اپنی بیزاری اور برات کا اظہار کرتا ہو جو مشرکین اور کفار کے درمیان اقامت پذیر ہو۔
وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں۔' کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے سے اتنی دور اقامت اختیار کریں کہ اگر دونوں طرف آگ جلائی جائے تو مسلمان کی آگ کافر نہ دیکھ سکیں اور کافروں کی آگ مسلمان نہ دیکھ سکیں۔ جیسا کہ ترجمہ میں وضاحت کی گئی ہے اس جملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس بیزاری کی علت مذکور ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں کے متعلق ظاہر فرمائی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایمان اپنے حامل یعنی مؤمن کو اس بات سے روکتا ہے کہ وہ کسی کو ناگہاں قتل کر دے، لہٰذا کوئی مؤمن ناگہاں قتل نہ کرے۔ (ابو داؤد)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو یہ نہ چاہئے کہ وہ غفلت میں کسی کی جان لے لے اور کسی کو اس کے حال کی تحقیق کے بغیر کہ وہ مسلمان ہے یا کافر، قتل کر دے۔ چونکہ ذمی کافر، اسلامی حکومت کی طرف سے جان و مال کی حفاظت کے عہد و یقین دہانی کے زیر سایہ ہوتا ہے اس لئے اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کو بھی قتل نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی مفسد و غدار ہو کہ وہ مسلمانوں کے در پئے آزار ہو اور فتنہ و فساد اور بدامنی پھیلاتا ہو تو اس کی بات دوسری ہے،جیسا کہ کعب ابن اشرف یہودی یا ابو رافع کو ناگہاں قتل کیا گیا،علاوہ ازیں ان دونوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو قتل کیا وہ خاص بحکم الٰہی تھا۔ نیز بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان دونوں کا قتل، اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
اور حضرت جریر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی غلام،شرک یعنی دار الحرب کی جانب بھاگ جائے تو اس کا خون حلال ہو گا۔ (ابو داؤد)
تشریح
اس کا خون حلال ہو گا۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسے غلام کو کوئی قتل کر دے تو قاتل سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا اور نہ اس پر کچھ واجب ہو گا بایں سبب کہ اس غلام نے مشرکوں کی محافظت اختیار کی اور دار الاسلام کو ترک کیا۔ اور اگر کوئی غلام نہ صرف یہ کہ دار الحرب بھاگ جائے بلکہ مرتد بھی ہو جائے تو اس کا خون بطریق اولی حلال ہو گا۔
اور حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو برا بھلا کہا کرتی تھی اور آپ میں عیب نکال کر طعن کیا کرتی تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں یہ گستاخی ایک شخص برداشت نہ کر سکا اور اس عورت کا گلا گھونٹ ڈالا جس سے وہ مر گئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا خون معاف کر دیا۔ (ابو داؤد)
تشریح
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی ذمی کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرنے لگے تو وہ اس عہد و ذمہ کو توڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے اسلامی حکومت میں اس کو اپنی جان و مال کی حفاظت حاصل تھی، اور وہ مباح الدم حربی وہ کافر جس کا خون مباح ہو اس کی مانند ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے، لیکن حضرت امام اعظم ابو حنفیہ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اس ذمی کا عہد نہیں ٹوٹتا چنانچہ یہ مسلک فقہ کی کتابوں میں کتاب الجزیہ کے آخر میں مذکور ہے اور ھدایہ میں اس کے دلائل بھی لکھے ہوئے ہیں،
اور حضرت جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جادوگر کو حد (شرعی سزا) یہ ہے کہ اس کو تلوار سے قتل کر دیا جائے (ترمذی)
تشریح
علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ جادو کرنا حرام ہے۔ ویسے جادو کے مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، حضرت امام شافعی تو یہ فرماتے ہیں کہ جادوگر کو قتل کر دیا جائے بشرطیکہ اس کا جادو موجب کفر ہو اور وہ توبہ نہ کرے۔ حضرت امام ملک اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ ساحر کافر ہے، سحر کفر ہے، سحر سیکھنا سیکھانا بھی کفر ہے ساحر کو قتل کر دی جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے خواہ اس نے کسی مسلمان پر سحر کیا ہو یا کسی ذمی پر۔
اور حنیفہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ساحر کا یہ عقیدہ ہو کہ کار ساز شیطان کی ذات ہے کہ وہ میرے لئے جو چاہتا ہے کرتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ سحر، مجرد خیال ہے تو وہ کافر نہ ہو گا بلکہ فاسق ہے اور سحر کا سیکھنا حرام ہے۔
درمختار کے حاشیہ طحطاوی میں یہ لکھا ہے کہ سحر کی تین قسمیں ہیں۔
(١) فرض۔ (٢) حرام۔ (٣) جائز اگر کوئی شخص اہل حرب کے ساحر کے توڑ کے لئے سحر سیکھے تو وہ فرض ہے، اگر کوئی شخص اس مقصد کے لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے گا تو حرام ہے، اور اگر اس مقصد کے لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان پیار و محبت پیدا کرے گا تو جائز ہے۔
سحر کے کفر ہونے میں اگرچہ حنبلی علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن تنقیح میں ان کی کتابوں کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ساحر کی توبہ کا اعتبار نہ کیا جائے۔ ساحر اپنے سحر کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان پر سحر کرے اس کو قتل کر دیا جائے۔
سحر کی طرح کہانت، نجوم، رمل اور علم شعبدہ کا سیکھنا اور سیکھانا بھی حرام ہے اور اس کے ذریعہ کمایا ہوا مال بھی حرام ہے۔
٭٭ حضرت اسامہ ابن شریک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص امام وقت کے خلاف خروج کرے اور اس طرح وہ میری امت میں تفرقہ ڈالے تو اس کی گردن اڑا دو (نسائی)
تشریح
امام وقت، امت کے اتحاد و اجتماعیت کا بنیادی محور ہوتا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر مسلمان پر اسی لئے لازم ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اسلام کی تعلیم اجتماعیت کا تقاضہ پورا ہوتا ہے بلکہ مسلمان ایک جھنڈے کے نیچے متفق و متحد رہ کر اسلام دشمن و مسلم مخالف طاقتوں کے مقابلہ پر ایک مضبوط چٹان بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ اسلام کی شان و شوکت کو باقی رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اس اجتماعی دائرہ سے نکلتا ہے تو وہ صرف ایک برائی کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ پوری امت کے اتفاق و اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی اعتراض ہو تو اس کے اس شک و شبہ اور اعتراض کو دور کیا جائے گا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی حرکت سے باز نہ آئے اور اصلاح کی کوئی کوشش اس کو سرکشی و بغاوت کی راہ سے واپس نہ لا سکے تو پھر اس کو مار ڈالا جائے جیسا کہ حضرت علی نے خوارج کے ساتھ کیا۔
اور حضرت شریک ابن شہاب تابعی کہتے ہیں کہ میری ایک یہ بڑی آرزو تھی کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کہ کسی صحابی سے ملاقات کی سعادت حاصل کروں اور ان سے خوارج کے بارے میں پوچھوں کہ آج کل جو خوارج پیدا ہو رہے ہیں کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے متعلق کوئی پیشین گوئی کی تھی ؟ چنانچہ میں ایک صحابی حضرت ابو برزہ سے عید کے دن ان کے دوستوں کی موجودگی میں ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے اپنے کانوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے اور اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ بھی دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کچھ مال لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مال کو حاضرین مجلس میں اس طرح تقسیم فرمایا کہ جو لوگ آپ کی داہنی جانب بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیا اور جو لوگ بائیں جانب بیٹھے تھے ان کو دیا لیکن جو لوگ آپ کے پیچھے تھے ان کو کچھ نہیں دیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ وہ شخص کالے رنگ کا تھا، اس کے سر کے بال منڈے ہوئے تھے اور دو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ (اسکی بات سن کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سخت غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ خدا کی قسم ! تم میرے بعد کسی شخص کو مجھ سے زیادہ انصاف کرنے والا نہیں پاؤ گے اور پھر فرمایا کہ آخر زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گا اور یہ شخص گویا اسی گروہ کا ایک فرد ہے اس گروہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کا پڑھنا ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا اور وہ لوگ امام وقت کے خلاف خروج و سرکشی کے ذریعہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کے سر منڈے ہوئے ہوں گے اس گروہ کے لوگ ہر زمانہ میں پائے جائیں گے اور ہمیشہ خروج کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف خروج کرے گا جب کہ وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہوں گے، لہٰذا جب بھی تمہارا ان سے سامنا ہو جائے ان کو قتل کر ڈالو، وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں بد ترین مخلوق ہیں۔ (نسائی)
اور حضرت ابو غالب (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ (صحابی) نے (ایک دن) دمشق کی شاہراہ پر (خوارج کے) سر پڑے ہوئے دیکھے یا وہ سولی پر لٹکے ہوئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ دوزخ کے کتے ہیں اور آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور بہترین مقتول وہ ہے جس کو انہوں نے قتل کیا ہو۔ اور پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ اس قیامت کے دن کہ بہت سے منہ سفید منور ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ ہوں گے ابو غالب نے حضرت ابو امامہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہے ؟ ابو امامہ نے فرمایا اگر میں نے یہ بات ایک بار دو بار تین بار یہاں تک کہ انہوں نے سات بار گنا نہ سنی ہوتی تو تمہارے سامنے بیان نہ کرتا یعنی اگر میں اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اتنی کثرت سے بار بار نہ سنتا تو میں تمہارے سامنے بیان نہ کرتا۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
تشریح
حضرت ابو امامہ نے جو آیت پڑھی وہ پوری یوں ہے۔
(یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ فاما الذین اسودت وجوہہم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون۔) (ال عمران ٣: ١٠٦)
اس دن کو بہت سے منہ سفید (منور) ہوں گے اور بہت سے منہ کالے ہوں گے پس جن کے منہ کالے ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو گئے تھے ؟ تو تم نے جو کچھ کفر کیا ہے اس کے بدلے میں عذاب چکھو۔
حدیث میں جن لوگوں کے سروں کا ذکر ہے ان کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ مرتد تھے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بدعتی تھے، جب کہ حضرت ابو امامہ سے منقول ہے کہ وہ خوارج تھے۔