أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَاأَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا وَعُقِلَتِ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ، قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا ؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی، وہ بولا: میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ (اس میں سے سامان گرنے سے) اونٹ نہ بدکے، چنانچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے رسی دی، جب انہوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا، اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کے لیے کوئی رسی نہیں ہے، اس نے کہا: اس کی رسی کہاں گئی؟ وہ بولا: میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا: مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے، میں نے اسے رسی دے دی، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری، اسی میں اس کی موت تھی (یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی) اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا، اس نے کہا: کیا تم حج کو جا رہے ہو؟ اس نے کہا: جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں، اس نے کہا: کیا تم (اس موقع سے) کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دو گے؟ اس نے کہا: ہاں، کہا: جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا: اے قریش کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو پکارنا! اے ہاشم کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو ابوطالب کے بارے میں پوچھنا پھر انہیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور (یہ کہہ کر) نوکر مر گیا، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابوطالب گئے اور بولے: ہمارے آدمی کا کیا ہوا؟ وہ بولا: وہ بیمار ہو گیا، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مر گیا، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کر دیا۔ ابوطالب بولے: تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حقدار تھا، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے۔ اس نے کہا: اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ قریش ہیں، اس نے کہا: اے بنی ہاشم کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ بنی ہاشم ہیں، اس نے کہا: ابوطالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: ابوطالب یہ ہیں۔ وہ بولا: مجھ سے فلاں نے کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں نے اسے ایک رسی کی وجہ سے مار ڈالا، چنانچہ ابوطالب اس کے پاس آئے اور بولے: تم تین میں سے کوئی ایک کام کرو، اگر تم چاہو تو سو اونٹ دے دو، اس لیے کہ تم نے ہمارے آدمی کو غلطی سے مار ڈالا ہے ۱؎ اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تم نے اسے نہیں مارا، اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کے بدلے قتل کریں گے، وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہم قسم کھائیں گے، پھر بنی ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی زوجیت میں تھی، اس شخص سے اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بولی: ابوطالب! میں چاہتی ہوں کہ آپ ان پچاس میں سے میرے اس بیٹے کو بخش دیں اور اس سے قسم نہ لیں، ابوطالب نے ایسا ہی کیا، پھر ان کے پاس ان میں کا ایک شخص آیا اور بولا: ابوطالب! آپ سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم لینا چاہتے ہو؟ ہر شخص کے حصے میں دو اونٹ پڑیں گے، تو لیجئیے دو اونٹ اور مجھ سے قسم مت لیجئیے جیسا کہ آپ اوروں سے قسم لیں گے، ابوطالب نے دونوں اونٹ قبول کر لیے، پھر اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک بھی آنکھ جھپکنے والی نہیں رہی (یعنی سب مر گئے) ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار ۲۷ (المناقب ۸۷) (۳۸۴۵)، (تحفة الأشراف: ۶۲۸۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔ ۲؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سب کے مر جانے کی خبر قسم کھا کر دی باوجود یہ کہ یہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں کہی جاتی ہیں: یہ خبر ان تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہو گی، کسی ثقہ شخص کے ذریعہ پہنچی ہو گی، یہ بھی احتمال ہے کہ اس واقعہ کی خبر انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہو گی۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ: "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ الْقَسَامَةَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ".
ایک انصاری صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسامہ کو اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۱ (الحدود ۱) (۱۶۷۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۸۷، ۱۸۷۴۷)، مسند احمد (۴/۶۲، و۵/۳۷۵، ۴۳۲، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۱۲، ۴۷۱۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ الْقَسَامَةَ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَضَى بِهَا بَيْنَ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي قَتِيلٍ ادَّعَوْهُ عَلَى يَهُودِ خَيْبَرَ". خَالَفَهُمَا مَعْمَرٌ.
کچھ صحابہ سے روایت ہے کہ قسامہ جاہلیت میں جاری تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا، اور انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے سلسلے میں اسی کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ اس کا خون خیبر کے یہودیوں پر ہے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) معمر نے ان دونوں (یونس اور اوزاعی) کے برخلاف یہ حدیث (مرسلاً) روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: "كَانَتِ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْصَارِيِّ الَّذِي وُجِدَ مَقْتُولًا فِي جُبِّ الْيَهُودِ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: الْيَهُودُ قَتَلُوا صَاحِبَنَا".
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ قسامہ جاہلیت میں رائج تھا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کے سلسلے میں باقی رکھا جو یہودیوں کے کنویں میں مرا ہوا پایا گیا تو انصار نے کہا: ہمارے آدمیوں کا قتل یہودیوں نے کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۱ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر مرفوع متصل ہے)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمَا، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ، فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَخُوهُ أَكْبَرُ مِنْهُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَبِّرْ كَبِّرْ"، وَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ، فَكَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ"، فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: "تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ: "فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ"، قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما (رزق کی) تنگی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے تو محیصہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا ہے، اور انہیں ایک کنویں میں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، یہ سن کر وہ (محیصہ) یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم ہی نے انہیں قتل کیا ہے۔ وہ بولے: اللہ کی قسم! انہیں ہم نے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، حویصہ (ان کے بڑے بھائی) اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہما ساتھ آئے تو محیصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنا چاہی (وہی خیبر میں ان کے ساتھ تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو"، اور حویصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی پھر محیصہ رضی اللہ عنہ نے کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سلسلے میں) فرمایا: "یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں یا، پھر ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے"، اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھ بھیجی، تو انہوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا: "تمہیں قسم کھانا ہو گی ۲؎ اور پھر تمہیں اپنے آدمی کے خون کا حق ہو گا"، وہ بولے: نہیں، آپ نے فرمایا: "تو پھر یہودی قسم کھائیں گے"، وہ بولے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس (یعنی بیت المال) سے ان کی دیت ادا کی اور ان کے پاس سو اونٹ بھیجے یہاں تک کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہو گئے، سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح ۷ (۲۷۰۲)، الجزیة ۱۲ (۳۱۷۳)، الأدب ۸۹ (۶۱۴۳)، الدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، الأحکام ۳۸ (۷۱۹۲)، صحیح مسلم/القسامة ۱ (الحدود ۱) (۱۶۶۹)، سنن ابی داود/الدیات ۸ (۲۵۲۰، ۲۵۲۱)، ۹ (۲۵۲۳)، سنن الترمذی/الدیات ۲۳ (۱۴۴۲)، سنن ابن ماجہ/الدیات۲۸(۲۶۷۷)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۴)، مسند احمد (۴/۲، ۳)، سنن الدارمی/الدیات ۲ (۲۳۹۸)، انظرالأرقام التالیة ۴۷۱۵-۴۷۲۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: قسامہ میں پہلے مقتول کے ورثاء سے کہا جائے گا کہ تم لوگ قسم کھا لو تو تم کو قتل کی دیت دے دی جائے گی، اور جب ورثاء قسم سے انکار کر دیں گے تب مدعا علیہم سے قسم کھانے کو کہا جائے گا اب اگر وہ بھی قسم کھا لیں گے تو دیت بیت المال سے دلائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں کیا تھا۔ ۲؎: اسی جملہ کی باب سے مناسبت ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، وَرِجَالٌ كُبَرَاءُ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ فَأَخْبَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، وَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَذَكَرَ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ: "كَبِّرْ كَبِّرْ"، يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ"، فَكَتَبُوا: إِنَّا، وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: "أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ: "فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ"، قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان سے ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہ تنگ حالی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ مارے گئے، انہیں ایک کنویں یا چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، پھر وہ اپنے قبیلے کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا۔ پھر وہ، ان کے بھائی حویصہ (حویصہ ان سے بڑے تھے) اور عبدالرحمٰن بن سہل چلے۔ (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو محیصہ نے بات کرنی چاہی (وہی خیبر میں گئے) تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: "بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو"۔ آپ کی مراد عمر میں بڑے ہونے سے تھی، چنانچہ حویصہ نے گفتگو کی پھر محیصہ نے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا تو وہ تمہارے آدمی کی دیت دیں یا پھر ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بارے میں لکھ بھیجا تو ان لوگوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہم) سے کہا: "کیا تم قسم کھاؤ گے اور اپنے آدمی کے خون کے حقدار بنو گے؟" وہ بولے: نہیں، آپ نے فرمایا: "تو پھر یہودی قسم کھائیں گے"۔ وہ بولے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی اور سو اونٹنیاں ان کے پاس بھیجیں یہاں تک کہ وہ ان کے گھروں میں داخل ہو گئیں۔ سہل کہتے ہیں: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وَحَسِبْتُ، قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا، قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا بِمُحَيِّصَةَ يَجِدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَبِّرِ الْكُبْرَ فِي السِّنِّ"، فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ: "أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا، وَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ، أَوْ قَاتِلَكُمْ ؟"، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ ؟ قَالَ: "فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ عَقْلَهُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہو گئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن ان میں سب سے چھوٹے تھے، پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمٰن بولنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "عمر میں جو بڑا ہے اس کا لحاظ کرو" تو وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھی گفتگو کرنے لگے، پھر عبدالرحمٰن نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی، چنانچہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا، تو آپ نے ان سے فرمایا: "کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی کے خون کے حقدار بنو گے" (یا کہا: اپنے قاتل کے) انہوں نے کہا: ہم کیوں کر قسم کھائیں گے جب کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے، آپ نے فرمایا: "تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے"، انہوں نے کہا: ان کی قسمیں ہم کیوں کر قبول کر سکتے ہیں وہ تو کافر لوگ ہیں، جب یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی تو آپ نے ان کی دیت خود سے انہیں دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ: أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، أَتَيَا خَيْبَرَ فِي حَاجَةٍ لَهُمَا، فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا عَمِّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكُبْرَ لِيَبْدَأْ الْأَكْبَرُ"، فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا: "يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ ؟ قَالَ: "فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ، فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ.
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہما اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر خیبر آئے، پھر وہ باغ میں الگ الگ ہو گئے، عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا، تو ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور چچا زاد بھائی حویصہ اور محیصہ (رضی اللہ عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن نے اپنے بھائی کے معاملے میں گفتگو کی حالانکہ وہ ان میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو، سب سے بڑا پہلے بات شروع کرے"، چنانچہ ان دونوں نے اپنے آدمی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ نے ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یوں تھا: "تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں گے"، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک ایسا معاملہ جہاں ہم موجود نہ تھے، اس کے بارے میں کیوں کر قسم کھائیں؟ آپ نے فرمایا: "تو پھر یہودی اپنے پچاس لوگوں کو قسم کھلا کر تمہارے شک کو دور کریں گے"، وہ بولے: اللہ کے رسول! وہ تو کافر لوگ ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ان کی دیت ادا کی۔ سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب میں ان کے «مربد» (باڑھ) میں داخل ہوا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا خَيْبَرَ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ فَتَفَرَّقَا لِحَوَائِجِهِمَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ سِنًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَبِّرِ الْكُبْرَ"، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ فَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ ؟"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ ؟ قَالَ: "تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل، محیصہ بن مسعود بن زید خیبر رضی اللہ عنہما گئے، ان دنوں صلح چل رہی تھی، وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے، پھر محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے (دیکھا کہ) وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ رہے تھے، تو انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، پھر عبدالرحمٰن بن سہل، حویصہ اور محیصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو عبدالرحمٰن نے بات کی وہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑے کا لحاظ کرو"، چنانچہ وہ خاموش ہو گئے، پھر ان دونوں نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ اپنے آدمی (کے خون بہا) یا اپنے قاتل (خون) کے حقدار بنو؟" انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیوں کر قسم کھائیں گے حالانکہ نہ ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہی ہم نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا: "یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے"، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ، فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا، فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَبِّرِ الْكُبْرَ"، وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ ؟"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ ؟ فَقَالَ: "أَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف چلے، اس وقت صلح چل رہی تھی، محیصہ اپنے کام کے لیے جدا ہو گئے، پھر وہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے اور وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے، انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ (رضی اللہ عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو"، وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، تو وہ چپ ہو گئے، پھر انہوں(حویصہ اور محیصہ) نے بات کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ تم اپنے قاتل (کے خون)، یا اپنے آدمی کے خون (بہا) کے حقدار بنو"، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم قسم کیوں کر کھائیں گے، نہ تو ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہم نے انہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: "تو کیا پچاس یہودیوں کی قسموں سے تمہارا شک دور ہو جائے گا؟" وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي حَاجَتِهِمَا، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَجَاءَ مُحَيِّصَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ أَخُو الْمَقْتُولِ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، فَتَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، وَحُوَيِّصَةُ، فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ ؟"، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَحْضُرْ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بُشَيْرٌ: قَالَ لِي سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي فَرِيضَةٌ مِنْ تِلْكَ الْفَرَائِضِ فِي مِرْبَدٍ لَنَا.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف نکلے پھر اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ کا قتل ہو گیا۔ چنانچہ محیصہ، مقتول کے بھائی عبدالرحمٰن اور حویصہ بن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن بات کرنے لگے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو"۔ پھر محیصہ اور حویصہ رضی اللہ عنہما نے گفتگو کی اور عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا معاملہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی، پھر تم اپنے قاتل کے (خون کے) حقدار بنو گے"، وہ بولے: ہم قسم کیوں کر کھائیں، نہ ہم موجود تھے اور نہ ہم نے دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارے شک کو دور کریں گے"۔ وہ بولے: ہم کافروں کی قسمیں کیسے قبول کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت ادا کی۔ بشیر کہتے ہیں: مجھ سے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دیت میں دی گئی ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے ہمارے «مربد» (باڑھ) میں مجھے لات ماری۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وُجِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ قَتِيلًا، فَجَاءَ أَخُوهُ وَعَمَّاهُ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ وَهُمَا عَمَّا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، قَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فِي قَلِيبٍ مِنْ بَعْضِ قُلُبِ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَتَّهِمُونَ ؟"، قَالُوا: نَتَّهِمُ الْيَهُودَ، قَالَ: "أَفَتُقْسِمُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ ؟"، قَالُوا: وَكَيْفَ نُقْسِمُ عَلَى مَا لَمْ نَرَ ؟ قَالَ: "فَتُبَرِّئُكُمْ الْيَهُودُ بِخَمْسِينَ أَنَّهُمْ لَمْ يَقْتُلُوهُ"، قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْضَى بِأَيْمَانِهِمْ وَهُمْ مُشْرِكُونَ ؟ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ. أَرْسَلَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو"، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: "تمہارا شک کس پر ہے؟" انہوں نے کہا: ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا: "کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے؟"، انہوں نے کہا: جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں؟ آپ نے فرمایا: "تو پھر یہودیوں کی پچاس قسمیں کہ انہوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی؟" وہ بولے: ہم ان کی قسموں پر کیسے رضامند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ مالک بن انس نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے (یعنی سہل بن ابی حثمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ، فَأَتَى هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَبِّرْ كَبِّرْ"، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ، فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ ؟"، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى: فَزَعَمَ بُشَيْرٌ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ، خَالَفَهُمْ سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ.
بشیر بن یسار بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف نکلے، پھر وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا قتل ہو گیا، محیصہ رضی اللہ عنہ آئے تو وہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ مقتول کے بھائی ہونے کی وجہ سے بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو"، چنانچہ حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہما نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ اپنے آدمی یا اپنے قاتل کے خون کے حقدار بنو؟"۔ مالک کہتے ہیں: یحییٰ نے کہا: بشیر نے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ سعید بن طائی نے ان راویوں کے برعکس بیان کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: سعید بن طائی کی روایت میں مقتول کے اولیاء سے قسم کھانے کے بجائے گواہ پیش کرنے، پھر مدعی علیہم سے قسم کھلانے کا ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے،:(دیات ۲۲ ) بقول امام ابن حجر: بعض رواۃ نے گواہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور بعض نے کیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گواہی طلب کی اور گواہی نہ ہونے پر قسم کی بات کہی، اور جب مدعی یہ بھی نہیں پیش کر سکے تو مدعا علیہم سے قسم کی بات کی، اس بات کی تائید عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ زَعَمَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا، قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلًا، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، فَقَالَ لَهُمْ: "تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ ؟"، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ: "فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ"، قَالُوا: لَا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ.
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہو گئے، تو انہیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انہوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا: ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا: نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو" ۱؎، پھر آپ نے ان سے فرمایا: "تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہو گا"، وہ بولے: ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو وہ قسم کھائیں گے"، وہ بولے: ہمیں یہودیوں کی قسمیں منظور نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گراں گزرا کہ ان کا خون بیکار جائے، تو آپ نے انہیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) عمرو بن شعیب نے ان (یعنی اوپر مذکور رواۃ) کی مخالفت کی ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی :(عبدالرحمٰن مقتول کے بھائی ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہیئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیئے۔ ملاحظہ ہو: سابقہ احادیث۔ ۲؎: عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الْأَصْغَرَ أَصْبَحَ قَتِيلًا عَلَى أَبْوَابِ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَقِمْ شَاهِدَيْنِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ أَدْفَعْهُ إِلَيْكُمْ بِرُمَّتِهِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِنْ أَيْنَ أُصِيبُ شَاهِدَيْنِ وَإِنَّمَا أَصْبَحَ قَتِيلًا عَلَى أَبْوَابِهِمْ ؟ قَالَ: "فَتَحْلِفُ خَمْسِينَ قَسَامَةً ؟"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ أَحْلِفُ عَلَى مَا لَا أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَنَسْتَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسِينَ قَسَامَةً"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَسْتَحْلِفُهُمْ وَهُمْ الْيَهُودُ ؟ فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ عَلَيْهِمْ، وَأَعَانَهُمْ بِنِصْفِهَا.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ کے چھوٹے بیٹے کا خیبر کے دروازوں کے پاس قتل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دو گواہ لاؤ کہ کس نے قتل کیا ہے، میں اسے اس کی رسی سمیت تمہارے حوالے کروں گا"، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمیں گواہ کہاں سے ملیں گے؟ وہ تو انہیں کے دروازے پر قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: "تو پھر تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی"، وہ بولے: اللہ کے رسول! جسے میں نہیں جانتا اس پر قسم کیوں کر کھاؤں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو تم ان سے پچاس قسمیں لے لو"، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم ان سے قسمیں کیسے لے سکتے ہیں وہ تو یہودی ہیں، تو آپ نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت دے کر ان کی مدد کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۷۵۹) (شاذ)
وضاحت: ۱؎: امام نسائی نے اس روایت پر نقد یہ کہہ کر کیا کہ عمرو بن شعیب نے ان رواة کی مخالفت کی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوپر گزری روایتوں سے اس روایت میں تین جگہ مخالفت ہے: اس میں مقتول کا نام عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ ہے، اور مدعی سے قسم سے پہلے گواہ پیش کرنے کی بات ہے،، نیز اس میں یہ ہے کہ آدھی دیت یہودیوں پر مقرر کی، دوسری شق کی تائید کہیں نہ کہیں سے ہو جاتی ہے لیکن بقیہ دو باتیں بالکل شاذ ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبید اللہ بن اخنس، بقول ابن حبان: روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُرَّةَ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ دِينَهُ الْمُفَارِقُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کا خون بہانا جائز تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے: جان کے بدلے جان ۱؎، جس کا نکاح ہو چکا ہو وہ زنا کرے، جو دین چھوڑ دے اور اس سے پھر جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۲۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اسی لفظ سے " قصاص " کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جان ناحق لی گئی ہو۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ: "أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ"، فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتل کر دیا گیا، قاتل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اسے مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا ۱؎، قاتل نے کہا: اللہ کے رسول! میرا ارادہ قتل کا نہ تھا، آپ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: "سنو! اگر وہ سچ کہہ رہا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا تو تم بھی جہنم میں جاؤ گے"، تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ شخص رسی سے بندھا ہوا تھا، وہ اپنی رسی گھسیٹتا ہوا نکلا تو اس کا نام ذوالنسعۃ (رسی والا) پڑ گیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۳ (۴۴۹۸)، سنن الترمذی/الدیات ۱۳ (۱۴۰۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۳۴ (۲۶۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۰۷) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: اس لیے حوالہ کر دیا کہ وہ اس کو قصاص میں قتل کر دیں، اسی سے قصاص کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق، عَنْ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جِيءَ بِالْقَاتِلِ الَّذِي قَتَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِهِ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَعْفُو ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَتَقْتُلُ ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "اذْهَبْ"، فَلَمَّا ذَهَبَ دَعَاهُ، قَالَ: "أَتَعْفُو ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَتَقْتُلُ ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "اذْهَبْ"، فَلَمَّا ذَهَبَ، قَالَ: "أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ"، فَعَفَا عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.
وائل حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم معاف کرو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا قتل کرو گے؟" اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "جاؤ (قتل کرو)"، جب وہ(قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: "کیا تم معاف کرو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا دیت لو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "تو کیا قتل کرو گے؟" اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "جاؤ (قتل کرو)"، جب وہ (قتل کرنے) چلا، تو آپ نے فرمایا: "اگر تم اسے معاف کر دو تو تمہارا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ اسی پر ہو گا" ۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹتا جا رہا تھا ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۱۰ (الحدود۱۰) (۱۶۸۰)، سنن ابی داود/الدیات ۳ (۴۴۹۹، ۴۵۰۰، ۴۵۰۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۹)، سنن الدارمی/الدیات ۸ (۲۴۰۴) وأعادہ المؤلف في القضاء ۲۶ (برقم۵۴۱۷)، وانظرالأرقام التالیة: ۴۷۲۸-۴۷۳۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ بلا کچھ لیے دئیے ولی کے معاف کر دینے کی صورت میں ولی اور مقتول دونوں کے گناہ کا حامل قاتل ہو گا، لیکن اس میں اشکال ہے کہ ولی کے گناہ کا حامل کیونکر ہو گا، اس لیے حدیث کے اس ظاہری مفہوم کی توجیہ کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ولی کے معاف کر دینے کے سبب رب العالمین ولی اور مقتول دونوں کو مغفرت سے نوازے گا اور قاتل اس حال میں لوٹے گا کہ مغفرت کے سبب ان دونوں کے گناہ زائل ہو چکے ہوں گے۔ ۲؎: یہ وہی آدمی ہے جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں گزرا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ وَائِلٍ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جِيءَ بِالْقَاتِلِ يَقُودُهُ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ فِي نِسْعَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ: "أَتَعْفُو ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَتَقْتُلُهُ ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "اذْهَبْ بِهِ"، فَلَمَّا ذَهَبَ بِهِ، فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ: "أَتَعْفُو ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَتَقْتُلُهُ ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "اذْهَبْ بِهِ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: "أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ"، فَعَفَا عَنْهُ وَتَرَكَهُ، فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: "کیا تم معاف کرو گے؟" وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا دیت لو گے؟" وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: "تو کیا تم قتل کرو گے؟" اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "لے جاؤ اسے"، چنانچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھیرا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: "کیا تم معاف کرو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا دیت لو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "تو قتل ہی کرو گے؟" اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "لے جاؤ اسے"، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: "سنو! اگر اسے معاف کرتے ہو تو وہ اپنا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ سمیٹ لے گا" ۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا، اور اسے چھوڑ دیا، پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ قتل سے پہلے جو گناہ اس کے سر تھا اور قتل کے بعد جس گناہ کا وہ مرتکب ہوا ہے ان دونوں کو وہ سمیٹ لے گا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ الْحَبَطِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، قَالَ يَحْيَى: وَهُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ.
اس سند سے بھی وائل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں۔ یحییٰ ۱؎ کہتے ہیں: یہ اس سے بہتر ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: "یحییٰ" یعنی القطان :(جو راوی بھی ہیں، اور امام جرح و تعدیل بھی، وہ ) فرماتے ہیں: اس حدیث کی یہ سند پچھلی سند سے بہتر ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَهُوَ الْحَوْضِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ رَجُلٌ فِي عُنُقِهِ نِسْعَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا، فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ: "اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ أُرَاهُ، قَالَ: فَضَرَبَ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ: "اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى، قَالَ: "اذْهَبْ، إِنْ قَتَلْتَهُ كُنْتَ مِثْلَهُ"، فَخَرَجَ بِهِ حَتَّى جَاوَزَ، فَنَادَيْنَاهُ أَمَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَرَجَعَ، فَقَالَ: إِنْ قَتَلْتُهُ كُنْتُ مِثْلَهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَعْفُ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَةٌ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا.
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس کی گردن میں رسی پڑی تھی، اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اتنے میں اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی یعنی میرے بھائی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے معاف کر دو"، اس نے انکار کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، پھر اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا، آپ نے فرمایا: "اسے معاف کر دو"، تو اس نے انکار کیا، پھر وہ کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے معاف کر دو"، اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا: "جاؤ، اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہو گے" ۱؎، وہ اسے لے کر نکل گیا، جب دور نکل گیا تو ہم نے اسے پکارا، کیا تم نہیں سن رہے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا: "اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہو گے"، اس نے کہا: ہاں، میں اسے معاف کرتا ہوں، چنانچہ وہ نکلا، وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا یہاں تک کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: کسی جان کو مارنے میں تم اور وہ ایک ہی طرح ہو گے، تمہاری اس پر کوئی فضیلت باقی نہیں رہ جائے گی، اور اگر معاف کر دو گے تو فضل و احسان میں تم کو اس پر فضیلت حاصل ہو جائے گی، خاص طور پر جب اس نے یہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ سِمَاكٍ، ذَكَرَ أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَتَلَ هَذَا أَخِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَقَتَلْتَهُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ لَمْ يَعْتَرِفْ أَقَمْتُ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ، قَالَ: نَعَمْ قَتَلْتُهُ، قَالَ: "كَيْفَ قَتَلْتَهُ ؟"، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَحْتَطِبُ مِنْ شَجَرَةٍ فَسَبَّنِي فَأَغْضَبَنِي فَضَرَبْتُ بِالْفَأْسِ عَلَى قَرْنِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ تُؤَدِّيهِ عَنْ نَفْسِكَ ؟"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي إِلَّا فَأْسِي وَكِسَائِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتُرَى قَوْمَكَ يَشْتَرُونَكَ ؟"، قَالَ: أَنَا أَهْوَنُ عَلَى قَوْمِي مِنْ ذَاكَ فَرَمَى بِالنِّسْعَةِ إِلَى الرَّجُلِ، فَقَالَ: دُونَكَ صَاحِبَكَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ"، فَأَدْرَكُوا الرَّجُلَ، فَقَالُوا: وَيْلَكَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ"، فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ: "إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ"، وَهَلْ أَخَذْتُهُ إِلَّا بِأَمْرِ، فَقَالَ: "مَا تُرِيدُ أَنْ يَبُوءَ بِإِثْمِكَ، وَإِثْمِ صَاحِبِكَ"، قَالَ: بَلَى، قَالَ: "فَإِنْ ذَاكَ"، قَالَ: ذَلِكَ كَذَلِكَ.
وائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص دوسرے کو ایک رسی میں گھسیٹتا ہوا آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے، آپ نے فرمایا: "کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟"، اس نے (لانے والے نے) کہا: اللہ کے رسول! اگر یہ اقبال جرم نہیں کرتا تو میں گواہ لاتا ہوں، اس (قاتل) نے کہا: ہاں، اسے میں نے قتل کیا ہے، آپ نے فرمایا: "اسے تم نے کیسے قتل کیا؟" اس نے کہا: میں اور وہ ایک درخت سے ایندھن جمع کر رہے تھے، اتنے میں اس نے مجھے گالی دی، مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے سر پر کلہاڑی مار دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے جس سے اپنی جان کے بدلے تم اس کی دیت دے سکو"، اس نے کہا: میرے پاس سوائے اس کلہاڑی اور کمبل کے کچھ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا قبیلہ تمہیں خرید لے گا (یعنی تمہاری دیت دیدے گا) وہ بولا: میری اہمیت میرے قبیلہ میں اس(مال) سے بھی کمتر ہے، پھر آپ نے رسی اس شخص (ولی) کے سامنے پھینک دی اور فرمایا: "تمہارا آدمی تمہارے سامنے ہے"، جب وہ پلٹ کر چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اسی جیسا ہو گا"، لوگوں نے اس شخص کو پکڑ کر کہا: تمہارا برا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اسی جیسا ہو گا"، یہ سن کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اسی جیسا ہو گا"، میں نے تو آپ ہی کے حکم سے اسے پکڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: "کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ تمہارا گناہ اور تمہارے آدمی کا گناہ سمیٹ لے؟"، اس نے کہا: کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: "تو یہی ہو گا"، اس نے کہا: تو ایسا ہی سہی (میں اسے چھوڑ دیتا ہوں)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: إِنِّي لَقَاعِدٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ، نَحْوَهُ.
وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص دوسرے کو گھسیٹتا ہوا آیا، پھر (آگے حدیث) اسی طرح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ يَقْتُلُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجُلَسَائِهِ: "الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ"، قَالَ: فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ، فَلَمَّا أَخْبَرَهُ تَرَكَهُ، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ حِينَ تَرَكَهُ يَذْهَبُ. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ، قَالَ: وَذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الرَّجُلَ بِالْعَفْوِ.
وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا، اس نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، چنانچہ آپ نے اسے قتل کرنے کے لیے مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا، پھر آپ نے اپنے ساتھ بیٹھنے والوں سے فرمایا: "قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے" ۱؎، ایک شخص اس وارث کے پیچھے گیا اور اسے خبر دی، جب اسے یہ معلوم ہوا تو اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، جب اس نے قاتل کو چھوڑ دیا تاکہ وہ چلا جائے تو میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا ہے۔ میں نے اس کا ذکر حبیب سے کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے سعید بن اشوع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ بات آپ نے خاص ان دونوں کے بارے میں نہیں کہی تھی، کیونکہ اس میں نہ تو مذکورہ مقتول کا کوئی قصور تھا، نہ ہی اس کے ولی کا جو اس کو بدلے میں قتل کرتا بلکہ آپ نے ولی کو معافی پر ابھارنے کے لیے یہ جملہ فرمایا تھا۔
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى بِقَاتِلِ وَلِيِّهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اعْفُ عَنْهُ"، فَأَبَى، فَقَالَ: "خُذْ الدِّيَةَ"، فَأَبَى، قَالَ: "اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ، فَإِنَّكَ مِثْلُهُ"، فَذَهَبَ فَلُحِقَ الرَّجُلُ، فَقِيلَ لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ"، فَخَلَّى سَبِيلَهُ فَمَرَّ بِي الرَّجُلُ وَهُوَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنے آدمی کے قاتل کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اس سے فرمایا: "اسے معاف کر دو"، اس نے انکار کیا، تو آپ نے فرمایا: "دیت لے لو"، اس نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا: "جاؤ، اسے قتل کر دو، تم بھی اسی جیسے ہو جاؤ گے (گناہ میں)"، جب وہ قتل کرنے چلا تو کوئی اس شخص سے ملا اور اس سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، "(اگر) اسے قتل کر دو، تم بھی اسی طرح ہو جاؤ گے"، چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا، تو وہ شخص (یعنی قاتل جسے معاف کیا گیا) میرے پاس سے اپنی رسی گھسیٹتے ہوئے گزرا۔
تخریج دارالدعوہ: قش/الدیات ۳۴ (۲۶۹۱)، (تحفة الأشراف: ۴۵۱) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاق الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ بَشِيرِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَتَلَ أَخِي، قَالَ: "اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ كَمَا قَتَلَ أَخَاكَ"، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: اتَّقِ اللَّهَ وَاعْفُ عَنِّي فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِأَجْرِكَ وَخَيْرٌ لَكَ وَلِأَخِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَخَلَّى عَنْهُ، قَالَ: فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ لَهُ: قَالَ: "فَأَعْنَفَهُ، أَمَا إِنَّهُ كَانَ خَيْرًا مِمَّا هُوَ صَانِعٌ بِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: يَا رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي".
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ اس شخص نے میرے بھائی کو مار ڈالا، آپ نے فرمایا: "جاؤ اسے بھی مار ڈالو جیسا کہ اس نے تمہارے بھائی کو مارا ہے"، اس شخص نے اس سے کہا: اللہ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو، اس میں تمہیں زیادہ ثواب ملے گا اور یہ قیامت کے دن تمہارے لیے اور تمہارے بھائی کے لیے بہتر ہو گا، یہ سن کر اس نے اسے چھوڑ دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے جو کہا تھا، آپ سے بیان کیا، آپ نے اس سے زور سے فرمایا: "سنو! یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جو وہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ معاملہ کرتا، وہ کہے گا(قیامت کے دن) اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۹۵۱) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ’’ بشیر ‘‘ لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ مذکورہ واقعہ کے علاوہ ہے۔
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيٌّ وَهُوَ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرُ وَكَانَ النَّضِيرُ أَشْرَفَ مِنْ قُرَيْظَةَ، وَكَانَ إِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْظَةَ رَجُلًا مِنْ النَّضِيرِ قُتِلَ بِهِ، وَإِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ النَّضِيرِ رَجُلًا مِنْ قُرَيْظَةَ أَدَّى مِائَةَ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ، فَلَمَّا بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ النَّضِيرِ رَجُلًا مِنْ قُرَيْظَةَ، فَقَالُوا: ادْفَعُوهُ إِلَيْنَا نَقْتُلْهُ، فَقَالُوا: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَوْهُ، فَنَزَلَتْ: وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ سورة المائدة آية 42، وَالْقِسْطُ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، ثُمَّ نَزَلَتْ: أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ سورة المائدة آية 50".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قریظہ اور نضیر یہودیوں کے دو قبیلے تھے، بنو نضیر بنو قریظہ سے بڑھ کر تھے، جب بنو قریظہ کا کوئی شخص بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دیتا تو وہ اس کے بدلے قتل کر دیا جاتا، اور جب بنو نضیر کا کوئی شخص بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کرتا تو وہ سو وسق کھجور ادا کر دیتا، لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بنا کر بھیجے گئے تو بنو نضیر کے ایک شخص نے بنو قریظہ کے ایک شخص کو قتل کر دیا تو ان لوگوں نے کہا: اسے (قاتل کو) ہمارے حوالے کرو ہم اسے قتل کریں گے، انہوں (بنو نضیر) نے کہا: ہمارے اور تمہارے درمیان ثالث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے، چنانچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو یہ آیت: «وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط» "اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو" (المائدہ: ۴۰) نازل ہوئی، «قسط» یعنی انصاف کا مطلب ہے جان کے بدلے جان لی جائے، پھر یہ آیت «أفحكم الجاهلية يبغون» "کیا یہ لوگ جاہلیت کا انصاف پسند کرتے ہیں" (المائدہ: ۵۰) نازل ہوئی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱ (۴۴۹۴)، (تحفة الأشراف: ۶۱۰۹) (صحیح) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے، مگر اگلی سند میں سماک کے متابع ’’ داود بن حسین ‘‘ ہیں، اس کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: "أَنَّ الْآيَاتِ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ الَّتِي قَالَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ إِلَى الْمُقْسِطِينَ سورة المائدة آية 42 إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي الدِّيَةِ بَيْنَ النَّضِيرِ، وَبَيْنَ قُرَيْظَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ قَتْلَى النَّضِيرِ كَانَ لَهُمْ شَرَفٌ يُودَوْنَ الدِّيَةَ كَامِلَةً، وَأَنَّ بَنِي قُرَيْظَةَ كَانُوا يُودَوْنَ نِصْفَ الدِّيَةِ، فَتَحَاكَمُوا فِي ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَلِكَ فِيهِمْ، فَحَمَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحَقِّ فِي ذَلِكَ، فَجَعَلَ الدِّيَةَ سَوَاءً".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مائدہ کی وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فاحكم بينهم أو أعرض عنهم» سے «المقسطين»، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے درمیان ایک دیت کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں، وجہ یہ تھی کہ بنو نضیر کے مقتولین کو برتری حاصل ہونے کی وجہ سے ان کی پوری دیت دے دی جاتی تھی اور بنو قریظہ کو آدھی دیت دی جاتی تھی، اس سلسلے میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان کے سلسلے میں نازل فرمایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سلسلہ میں حق کی ترغیب دلائی اور دیت برابر کر دی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأقضیة ۱۰ (۳۵۹۱)، (تحفة الأشراف: ۶۰۷۴)، مسند احمد (۱/۳۶۳) (حسن، صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَالْأَشْتَرُ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْنَا: هَلْ عَهِدَ إِلَيْكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا مَا كَانَ فِي كِتَابِي هَذَا، فَأَخْرَجَ كِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَيْفِهِ، فَإِذَا فِيهِ: "الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ بِعَهْدِهِ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلَى نَفْسِهِ، أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں اور اشتر علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو ہم نے کہا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی ایسی خاص بات بتائی جو عام لوگوں کو نہیں بتائی؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جو میری اس کتاب میں موجود ہے ۱؎ پھر انہوں نے اپنی تلوار کی نیام سے ایک تحریر نکالی، اس میں لکھا تھا:"سب مسلمانوں کا خون برابر ہے ۲؎، اور وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں) گویا ایک ہاتھ ہیں، اور ان میں کا ایک ادنیٰ آدمی بھی ان سب کی طرف سے عہد و امان کی ذمہ داری لے سکتا ہے ۳؎ آگاہ رہو! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا، اور جو شخص کوئی نئی بات نکالے گا تو اس کی ذمہ داری اسی کے اوپر ہو گی، اور جو نئی بات نکالے گا یا نئی بات نکالنے والے کسی شخص کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۱ (۴۵۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۵۷)، مسند احمد (۱/۱۲۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر میرے لیے کوئی خاص بات ہوتی تو میری اس کتاب میں ضرور ہوتی، جب کہ اس کتاب میں جو کچھ ہے وہ میرے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے، یہ اور بات ہے کہ اوروں کو چھوڑ کر مجھے اسے لکھنے کا حکم دیا گیا۔ ۲؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آزاد آدمی اور غلام کے درمیان بھی قصاص کا حکم جاری ہو گا۔۳؎: یعنی کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دیدے تو کوئی مسلمان اسے توڑ نہیں سکتا۔
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَوَارِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَامِرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سارے مسلمانوں کا خون برابر ہے وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں)گویا ایک ہاتھ ہیں اور ان میں کا ایک ادنیٰ آدمی بھی سب کی طرف سے عہد و امان کی ذمہ داری لے سکتا ہے، کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی ذمی کو جب تک وہ ذمہ میں رہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۲۷۹)، مسند احمد (۱/۸۱، ۱۱۹)، ویأتي برقم: ۴۷۴۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ هُوَ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَهُ جَدَعْنَاهُ، وَمَنْ أَخْصَاهُ أَخْصَيْنَاهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے گا تو ہم اسے قتل کریں گے اور جو کوئی اس کا عضو کاٹے گا تو ہم اس کا عضو کاٹیں گے اور جو کوئی اپنے غلام کو خصی کرے گا، ہم اسے خصی کریں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۷ (۴۵۱۵)، سنن الترمذی/الدیات ۱۸(۱۴۱۴)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۳ (۲۶۶۳)، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۶)، مسند احمد (۵/۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۸، ۱۹)، سنن الدارمی/الدیات ۷ (۲۴۰۳)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۵۱۶، ۴۵۱۷، ۴۷۴۱، ۴۷۴۲، ۴۷۵۷، ۴۷۵۸) (ضعیف) (اس کے رواة ’’ قتادہ ‘‘ اور ’’ حسن بصری ‘‘ دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز سمرہ رضی الله عنہ سے حسن بصری کے سماع میں اختلاف ہے )
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنے غلام کو قتل کر دے گا ہم اسے قتل کریں گے اور جو اپنے غلام کا عضو کاٹے گا ہم اس کا عضو کاٹیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے گا تو ہم اسے قتل کریں گے اور جو کوئی اس کا عضو کاٹے گا، ہم اس کا عضو کاٹیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۴۰ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَطَاوُسًا يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ نَشَدَ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَقَامَ حَمَلُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ: "كُنْتُ بَيْنَ حُجْرَتَيِ امْرَأَتَيْنِ، فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِمِسْطَحٍ، فَقَتَلَتْهَا وَجَنِينَهَا، فَقَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِهَا بِغُرَّةٍ وَأَنْ تُقْتَلَ بِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی تلاش تھی، تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: میں دو عورتوں کے کمروں کے درمیان میں رہتا تھا، ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا اور اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو مار ڈالا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے بدلے ایک غلام یا لونڈی دینے اور اس (عورت) کے بدلے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۱ (۴۵۷۲، ۴۵۷۳، ۴۵۷۴)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۱ (۲۶۴۱)، (تحفة الأشراف: ۳۴۴۴) مسند احمد (۱/۳۶۴)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۸۲۰ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "أَنَّ يَهُودِيًّا قَتَلَ جَارِيَةً عَلَى أَوْضَاحٍ لَهَا، فَأَقَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَا".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے زیور کی خاطر ایک لڑکی کو قتل کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (لڑکی) کے قصاص میں اسے مار ڈالنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدیات ۱۳ (۶۸۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۸)، مسند احمد (۳/۱۷۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ يَهُودِيًّا أَخَذَ أَوْضَاحًا مِنْ جَارِيَةٍ، ثُمَّ رَضَخَ رَأْسَهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَأَدْرَكُوهَا وَبِهَا رَمَقٌ، فَجَعَلُوا يَتَّبِعُونَ بِهَا النَّاسَ، هُوَ هَذَا، هُوَ هَذَا، قَالَتْ: نَعَمْ، "فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا زیور لے لیا، اور پھر اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا، لوگوں نے اس عورت کو اس حال میں پایا کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، وہ اسے لے کر لوگوں کے پاس پہنچے، یہ پوچھتے ہوئے: کیا اس نے مارا ہے، کیا اس نے مارا ہے، وہ بولی: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، پھر اس کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۴۰)، مسند احمد (۳/۲۶۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ، فَأَخَذَهَا يَهُودِيٌّ فَرَضَخَ رَأْسَهَا، وَأَخَذَ مَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ، فَأُدْرِكَتْ وَبِهَا رَمَقٌ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَنْ قَتَلَكِ فُلَانٌ ؟"، قَالَتْ بِرَأْسِهَا: لَا، قَالَ: "فُلَانٌ ؟"، قَالَ: حَتَّى سَمَّى الْيَهُودِيَّ، قَالَتْ بِرَأْسِهَا: نَعَمْ، فَأُخِذَ فَاعْتَرَفَ، "فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی نکلی وہ زیور ہار پہنے ہوئے تھی، ایک یہودی نے اسے پکڑا اور اس کا سر کچل دیا اور جو زیور وہ پہنے ہوئے تھی اسے لے لیا، پھر وہ پائی گئی، اس کی سانس چل رہی تھی، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے پوچھا: "تمہیں کس نے قتل کیا؟" کیا فلاں نے؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا فلاں نے؟" یہاں تک کہ اس یہودی کا نام آیا، اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، تو اسے گرفتار کیا گیا، اس نے اقبال جرم کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور دو پتھروں کے درمیان اس کا سر کچل دیا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۵ (۲۷۴۶)، الدیات ۴ (۶۸۷۶)، ۱۲ (۶۸۸۴)، صحیح مسلم/الحدود ۳ (۱۶۷۲)، سنن ابی داود/الدیات ۱۰ (۴۵۲۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۴ (۲۶۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۹۱)، مسند احمد (۳/۱۸۳، ۲۰۳، ۲۶۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "لَا يَحِلُّ قَتْلُ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مُحْصَنٌ فَيُرْجَمُ، وَرَجُلٌ يَقْتُلُ مُسْلِمًا مُتَعَمِّدًا، وَرَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ فَيُحَارِبُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصَلَّبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے مگر جب تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہو ۱؎: شادی شدہ ہو کر زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا، کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے، کوئی اسلام سے نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ جنگ بناتا پھرے، تو اسے قتل کیا جائے گا، یا سولی پر چڑھایا جائے گا، یا پھر جلا وطن کیا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۵۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور ان تین صورتوں میں " کافر کے بدلے مسلم کو قتل کرنے کی بات نہیں ہے " اسی سے مؤلف کا باب پر استدلال ہے، جو بہرحال مبہم ہے، لیکن اگلی حدیث اس باب میں بالکل واضح ہے۔ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی، یہی جمہور علماء امت کا قول ہے۔ البتہ ذمی کے قتل کا گناہ بہت ہی زیادہ ہے، دیکھئیے اگلی حدیث۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، قَالَ: قَالَعَلِيٌّ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ إِلَّا فِي صَحِيفَةٍ فِي قِرَابِ سَيْفِي، فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَخْرَجَ الصَّحِيفَةَ، فَإِذَا فِيهَا: "الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ پوچھا، ہم نے کہا: کیا آپ کے پاس قرآن کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کو جو قرآن کی سمجھ دیدے، یا جو اس صحیفہ میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں دیت کے احکام ہیں، قیدیوں کو چھوڑنے کا بیان ہے، اور یہ حکم ہے کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۳۹ (۱۱۱)، الجہاد ۱۷۱ (۳۰۴۷)، الدیات ۲۴ (۶۹۰۳)، ۳۱ (۶۹۱۵)، سنن الترمذی/الدیات ۱۶ (۱۴۱۲)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۱ (۲۶۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۱۱)، مسند احمد (۱/۷۹)، سنن الدارمی/الدیات ۵ ۲۴۰۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، قَالَ: قَالَعَلِيٌّ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ إِلَّا فِي صَحِيفَةٍ فِي قِرَابِ سَيْفِي، فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَخْرَجَ الصَّحِيفَةَ، فَإِذَا فِيهَا: "الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی بات نہیں بتائی سوائے اس کے جو میری تلوار کی نیام میں رکھے اس صحیفہ میں ہے، لوگوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے وہ صحیفہ نکالا، اس میں لکھا تھا: "سب مسلمانوں کے خون برابر ہیں، ان کا ادنیٰ اور معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے، اور وہ اپنے دشمن کے خلاف ایک ہاتھ کی طرح (متحد) ہیں، کسی کافر کے بدلے کوئی مومن نہیں مارا جائے گا، اور نہ کوئی ذمی جب تک وہ ذمہ میں رہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۳۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ الْأَشْتَرِ، أَنَّهُ قَالَ لِعَلِيٍّ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ تَفَشَّغَ بِهِمْ مَا يَسْمَعُونَ، فَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيْكَ عَهْدًا فَحَدِّثْنَا بِهِ، قَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ، غَيْرَ أَنَّ فِي قِرَابِ سَيْفِي صَحِيفَةً، فَإِذَا فِيهَا: "الْمُؤْمِنُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ"، مُخْتَصَرٌ.
اشتر کہتے ہیں کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں میں مشہور ہو رہی ہیں جو وہ سن رہے ہیں، لہٰذا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کوئی بات کہی ہو تو اسے بیان کر دیجئیے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی بات ایسی نہیں بتائی جو لوگوں کو نہ بتائی ہو، سوائے اس کے جو ایک صحیفہ میری تلوار کی نیام میں ہے، اس میں لکھا ہے: "مومنوں کا خون برابر ہے، ان کا معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے، کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی ذمی جب تک وہ عہد پر قائم رہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۲۵۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عُيَيْنَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی ذمی کو بلا وجہ قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت حرام کر دی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ۱۶۵ (۲۷۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۹۴)، مسند احمد (۵/۳۶، ۳۸) سنن الدارمی/السیر ۶۱ (۲۵۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے «دخول اولیں» نصیب نہیں ہو گا۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ ثُرْمُلَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدَةً بِغَيْرِ حِلِّهَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ أَنْ يَشُمَّ رِيحَهَا".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی ذمی کی جان لی جب کہ اس کا خون جائز نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کی خوشبو حرام کر دی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا".
ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کا قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت کی دوری سے آتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۶۵۹)، مسند احمد (۴/۲۳۷، ۵/۳۶۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ دُحَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ وَهُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْجُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۶۱۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجزیة ۵ (۳۱۶۶)، الدیات ۲۰ (۶۹۱۴)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۳۲ (۲۶۸۶)، مسند احمد (۲/۱۸۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: "أَنَّ غُلَامًا لِأُنَاسٍ فُقَرَاءَ قَطَعَ أُذُنَ غُلَامٍ لِأُنَاسٍ أَغْنِيَاءَ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهُمْ شَيْئًا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غریب لوگوں کے ایک غلام نے امیر لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے انہیں کچھ نہ دلایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۷ (۴۵۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۶۳)، مسند احمد (۴/۴۳۸)، سنن الدارمی/الدیات ۱۴ (۲۴۱۳) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مؤلف کا یہ اپنا استدلال ہے، جب کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس پر جو باب باندھا ہے وہ اس حدیث کے مفہوم کی صحیح ترجمان ہے ان کے الفاظ ہیں " فقراء کے غلام کی جنایت کا باب " تب حدیث کا مطلب ہو گا " مجرم غلام اگر غریب لوگوں کا ہو گا تو اس سے ساقط ہو جائے گا۔ لیکن مؤلف کا یہ استنباط بہرحال باقی ہے کہ جب یہ جنایت قتل سے کم تر ہو، ورنہ قتل کے بدلے اگر قصاص کا فیصلہ ہو تو بہرحال غلام سے بھی قصاص لیا جائے گا۔ اور دیت کے فیصلے کی صورت میں اگر مالک غریب ہے تو بیت المال سے دیت دی جائے گی اور امام خطابی کے بقول یہاں " غلام " بمعنی " لڑکا ہے نہ کہ غلام بمعنی " عبد " یعنی اگر غریبوں کے کسی لڑکے نے قتل سے کم تر جنایت کا ارتکاب کیا تو اس کے غریب سرپرستوں سے دیت ساقط ہو جائے گی۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْقِصَاصِ فِي السِّنِّ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت میں قصاص کا فیصلہ فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۸۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر البقرة ۲۳ (۴۴۹۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے غلام کو قتل کیا، اسے ہم قتل کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹا تو اس کا عضو ہم کاٹیں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۴۰ (ضعیف)
وضاحت: ۱؎: اس آخری جملہ کی باب سے مطابقت ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، پچھلی اور اگلی حدیثوں میں ہمارے لیے اس موضوع پر کافی مواد موجود ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ خَصَى عَبْدَهُ خَصَيْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ". وَاللَّفْظُ لِابْنِ بَشَّارٍ.
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے غلام کو خصی کیا اسے ہم خصی کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا عضو کاٹا ہم اس کا عضو کاٹیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۴۰ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ أُخْتَ الرُّبَيِّعِ أُمَّ حَارِثَةَ جَرَحَتْ إِنْسَانًا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْقِصَاصَ الْقِصَاصَ"، فَقَالَتْ أُمُّ الرَّبِيعِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُقْتَصُّ مِنْ فُلَانَةَ، لَا وَاللَّهِ لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا أَبَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أُمَّ الرَّبِيعِ، الْقِصَاصُ كِتَابُ اللَّهِ"، قَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا أَبَدًا فَمَا زَالَتْ حَتَّى قَبِلُوا الدِّيَةَ، قَالَ: "إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ربیع کی بہن ام حارثہ رضی اللہ عنہا ۱؎ نے ایک شخص کو زخمی کر دیا، وہ لوگ مقدمہ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قصاص ہو گا قصاص"، ام ربیع رضی اللہ عنہا بولیں: اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہ لیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی ذات پاک ہے، ام ربیع! قصاص تو اللہ کی کتاب کا حکم ہے"، وہ بولیں: نہیں، اس سے ہرگز قصاص نہ لیا جائے گا، وہ کہتی رہیں، یہاں تک کہ انہوں نے دیت قبول کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے بندوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کو (قسم میں) سچا کر دیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۵ (۱۶۷۵)، (تحفة الأشراف: ۳۳۲)، مسند احمد (۳/ ۲۸۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں زخمی کرنے والی کا نام ربیع بنت نضر کی بہن " ام حارثہ " ہے اور اعتراض کرنے والی ربیع ہیں، جب کہ اگلی روایت میں زخمی کرنے کی نسبت خود ربیع بنت نضر کی طرف کی گئی ہے، اور اعتراض کرنے کی نسبت ان کے بھائی انس بن نضر کی طرف کی گئی ہے، حافظ ابن حزم وغیرہ علماء کی تحقیق کے مطابق یہ الگ الگ دو واقعات ہیں، حافظ ابن حجر کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے،:(دیکھئیے کتاب الدیات باب ۱۹ )۔
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: ذَكَرَ أَنَسٌ: أَنَّ عَمَّتَهُ كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَقَضَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَخُوهَا أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ فُلَانَةَ، لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّةُ فُلَانَةَ، قَالَ: وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ سَأَلُوا أَهْلَهَا الْعَفْوَ وَالْأَرْشَ، فَلَمَّا حَلَفَ أَخُوهَا وَهُوَ عَمُّ أَنَسٍ وَهُوَ الشَّهِيدُ يَوْمَ أُحُدٍ رَضِيَ الْقَوْمُ بِالْعَفْوِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
انس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ ان کی پھوپھی نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ کیا، ان کے بھائی انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا فلاں کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، فلاں کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، اور وہ لوگ اس سے پہلے اس کے گھر والوں سے معافی اور دیت کی بات کر چکے تھے، پھر جب ان کے بھائی نے قسم کھائی (وہ انس رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، جو احد کے دن شہید ہوئے) تو وہ لوگ معاف کرنے پر راضی ہو گئے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ انہیں سچا کر دکھاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۰۵) صحیح البخاری/ الصلح ۸ (۲۷۰۳)، وتفسیر البقرة ۲۳ (۴۵۰۰)، المائدة ۶ (۴۶۱۱)، الدیات ۱۹ (۶۸۹۴)، صحیح مسلم/القسامة ۵ (۱۶۷۵)، سنن ابی داود/ الدیات ۳۲ (۴۵۹۵)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۶ (۴۶۶۹)، مسند احمد ۳/۱۲۸، وانظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَسَرَتْ الرُّبَيِّعُ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهِمُ الْعَفْوَ فَأَبَوْا، فَعُرِضَ عَلَيْهِمُ الْأَرْشُ فَأَبَوْا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِالْقِصَاصِ، قَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ، قَالَ: "يَا أَنَسُ، كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ"، فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَعَفَوْا، فَقَالَ: "إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے، چنانچہ انہوں نے معاف کر دینے کی درخواست کی تو ان لوگوں نے انکار کیا، پھر ان کے سامنے دیت کی پیش کش کی گئی، تو انہوں نے اس کا بھی انکار کیا، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے انہیں قصاص کا حکم دیا، انس بن نضر رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کے رسول! کیا ربیع کے دانت توڑے جائیں گے؟ نہیں، قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ نہیں توڑے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انس! اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم ہے"، پھر وہ لوگ راضی ہو گئے اور انہیں معاف کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سچا کر دکھاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۶ (۲۶۴۹)، (تحفة الأشراف: ۶۳۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ أَبُو الْجَوْزَاءِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ فَسَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ، أَوْ قَالَ: ثَنَايَاهُ فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا تَأْمُرُنِي ؟ تَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَهُ أَنْ يَدَعَ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ، إِنْ شِئْتَ فَادْفَعْ إِلَيْهِ يَدَكَ حَتَّى يَقْضَمَهَا، ثُمَّ انْتَزِعْهَا إِنْ شِئْتَ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ لیا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا، تو اس کا ایک دانت ٹوٹ کر گر گیا (یا دو دانت) اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "تم مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہو؟ کیا یہ کہ میں اسے حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دئیے رہے تاکہ تم اسے جانور کی طرح چبا ڈالو، اگر تم چاہو تو اپنا ہاتھ اسے دو تاکہ وہ اسے چبائے پھر اگر چاہو تو اسے کھینچ لینا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۴ (الحدود ۴) (۱۶۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۴۰) مسند احمد (۴/۲۳۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی کا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹنے لگے اور وہ اپنا ہاتھ زور سے کھینچ لے جس کی وجہ سے اس کے دانت ٹوٹ جائیں تو ان دانتوں کا قصاص :(یا دیت ) ہاتھ کھینچنے والے سے نہیں لیا جائے گا، یہ بات صرف دانت کھینچنے میں ہی نہیں اس جیسے دیگر معاملات میں بھی ہو گی۔ دیکھئیے اسی حدیث پر مولف کا باب باندھنا «الرجل یدفع عن نفسہ» :(حدیث نمبر:۴۷۶۷ )۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ رَجُلًا عَضَّ آخَرَ عَلَى ذِرَاعِهِ فَاجْتَذَبَهَا، فَانْتَزَعَتْ ثَنِيَّتَهُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبْطَلَهَا، وَقَالَ: "أَرَدْتَ أَنْ تَقْضَمَ لَحْمَ أَخِيكَ كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا، پہلے نے اسے کھینچا تو دوسرے کا دانت نکل پڑا، معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے کچھ نہ دلایا اور فرمایا: "کیا چاہتے ہو کہ تم اونٹ کی طرح اپنے بھائی کا گوشت چباؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدیات ۱۸ (۶۸۹۲)، صحیح مسلم/القسامة ۴ (۱۶۷۳)، سنن الترمذی/الدیات ۲۰ (۱۴۱۶)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۰ (۲۶۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۲۳)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۶۴-۴۷۶۶)، مسند احمد (۴/۴۲۷، ۴۲۸، ۴۳۵، سنن الدارمی/الدیات ۱۴ (۲۴۱۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَاتَلَ يَعْلَى رَجُلًا، فَعَضَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ فِيهِ فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ، فَاخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ لَا دِيَةَ لَهُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یعلیٰ رضی اللہ عنہ کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا ۱؎، ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا، پھر ایک نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دوسرے کا دانت نکل پڑا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ نے فرمایا: "تم میں سے ایک آدمی اونٹ کی طرح اپنے بھائی کے ہاتھ کو کاٹتا ہے (پھر دیت مانگتا ہے) اسے دیت نہیں ملے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں صراحت ہے کہ دانت کاٹنے والے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے اور جس کو دانت کاٹا تھا وہ ان کا مزدور تھا، چونکہ معاملہ خود یعلیٰ رضی اللہ عنہ کا تھا اس لیے اپنی روایتوں میں :(جو آگے آ رہی ہیں ) انہوں نے دانت کاٹنے والے کا نام مبہم کر دیا ہے۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ يَعْلَى، قَالَ: فِي الَّذِي عَضَّ فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ: إِنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا دِيَةَ لَكَ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے دانت کاٹ کھایا، تو اس کا دانت اکھڑ گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے دیت نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَازُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ رَجُلًا عَضَّ ذِرَاعَ رَجُلٍ، فَانْتَزَعَ ثَنِيَّتَهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: "أَرَدْتَ أَنْ تَقْضَمَ ذِرَاعَ أَخِيكَ كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ"، فَأَبْطَلَهَا.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک آدمی کے ہاتھ میں دانت کاٹا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: "تم چاہتے تھے کہ تم اپنے بھائی کا ہاتھ اونٹ کی طرح چبا ڈالو" پھر آپ نے اس کی دیت نہیں دلوائی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ الْخَلِيلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ، أَنَّهُ قَاتَلَ رَجُلًا، فَعَضَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ فِيهِ فَقَلَعَ ثَنِيَّتَهُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْبَكْرُ"فَأَبْطَلَهَا.
یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص سے ان کا جھگڑا ہو گیا ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا، پہلے نے اپنا ہاتھ دوسرے کے منہ سے چھڑایا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک لایا گیا، تو آپ نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جوان اونٹ کی طرح کاٹتا ہے" پھر آپ نے اسے تاوان نہیں دلایا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۸۴۷) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَدِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ قَاتَلَ رَجُلًا، فَعَضَّ يَدَهُ فَانْتَزَعَهَا، فَأَلْقَى ثَنِيَّتَهُ، فَاخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْبَكْرُ"فَأَطَلَّهَا، أَيْ: أَبْطَلَهَا.
یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی تمیم کے ایک آدمی کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، تو پہلے نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ کھایا، اس نے اسے کھینچا تو اس کا دانت نکل پڑا، وہ دونوں جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جوان اونٹ کی طرح دانت کاٹتا ہے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت نہیں دلوائی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمَّيْهِ سَلَمَةَ، وَيَعْلَى ابْنَيْ أُمَيَّةَ، قَالَا: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَمَعَنَا صَاحِبٌ لَنَا، فَقَاتَلَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَهُ، فَجَذَبَهَا مِنْ فِيهِ فَطَرَحَ ثَنِيَّتَهُ، فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَمِسُ الْعَقْلَ، فَقَالَ: "يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيَعَضُّهُ كَعَضِيضِ الْفَحْلِ، ثُمَّ يَأْتِي يَطْلُبُ الْعَقْلَ، لَا عَقْلَ لَهَا، فَأَبْطَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سلمہ بن امیہ اور یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں نکلے، ہمارے ساتھ ایک اور ساتھی تھے وہ کسی مسلمان سے لڑ پڑے، اس نے ان کے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، انہوں نے ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دیت کا مطالبہ کرنے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کے پاس جا کر اونٹ کی طرح اسے دانت کاٹتا ہے، پھر دیت مانگنے آتا ہے، ایسے دانت کی کوئی دیت نہیں"، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیت نہیں دلوائی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۰ (۲۶۵۶)، (تحفة الأشراف: ۴۵۵۴، ۱۱۸۳۵)، مسند احمد (۴/۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَانْتُزِعَتْ ثَنِيَّتُهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَأَهْدَرَهَا".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا تو پہلے شخص کا دانت اکھڑ گیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو قرار دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإجارة ۵ (۲۲۶۵)، الجہاد ۲۰ (۲۹۷۳)، المغازي ۷۸ (۴۴۱۷)، الدیات ۱۸ (۶۸۹۳)، صحیح مسلم/الحدود ۴ (۱۶۷۴)، سنن ابی داود/الدیات ۲۴ (۴۵۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۳۷)، مسند احمد (۴/۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۷۱- ۴۷۷۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی دیت نہیں دلوائی۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ مَرَّةً أُخْرَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى. وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى أَنَّهُ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا، فَقَاتَلَ رَجُلًا، فَعَضَّ يَدَهُ فَانْتُزِعَتْ ثَنِيَّتُهُ، فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَيَدَعُهَا يَقْضَمُهَا كَقَضْمِ الْفَحْلِ".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو نوکر رکھا، اس کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی، تو اس نے اس کا ہاتھ کاٹ کھایا، چنانچہ اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ اس کے ساتھ جھگڑتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: "کیا وہ اپنا ہاتھ چھوڑ دیتا کہ وہ اسے اونٹ کی طرح چبا جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۷۰ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَاسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا، فَقَاتَلَ أَجِيرِي رَجُلًا، فَعَضَّ الْآخَرُ فَسَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأَهْدَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا، میں نے ایک شخص کو نوکر رکھا، پھر میرے نوکر کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی، تو دوسرے نے اسے دانت کاٹ لیا، چنانچہ اس کا دانت اکھڑ گیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لغو قرار دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر رقم ۴۷۷۰ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ وَكَانَ أَوْثَقَ عَمَلٍ لِي فِي نَفْسِي، وَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا إِصْبَعَ صَاحِبِهِ فَانْتَزَعَ إِصْبَعَهُ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَسَقَطَتْ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، وَقَالَ: "أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا".
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش العسرۃ ۱؎ (غزوہ تبوک) میں جہاد کیا، میرے خیال میں یہ میرا بہت اہم کام تھا، میرا ایک نوکر تھا، ایک شخص سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کی انگلی کاٹ کھائی، پھر پہلے نے اپنی انگلی کھینچی تو دوسرے آدمی کا دانت نکل کر گر پڑا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے اس کے دانت کی دیت نہیں دلوائی، اور فرمایا: "کیا وہ اپنے ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑ دیتا کہ تو اسے چباتا رہے؟"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۷۰ (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: یہ اس آیت کریمہ: «الذين اتبعوه في ساعة العسرة» سے ماخوذ ہے اور یہ غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے، اس جنگ میں زاد سفر کی بے انتہا قلت تھی اسی لیے اسے ساعۃ العسرۃ کہا گیا۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهبِمِثْلِ الَّذِي عَضَّ، فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا دِيَةَ لَكَ".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے اس جیسے شخص جس نے دانت کاٹا ہو اور اس کا دانت اکھڑ گیا ہو کے بارے میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے دیت نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۹ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْعَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ: أَنَّ أَجِيرًا لِيَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ عَضَّ آخَرُ ذِرَاعَهُ فَانْتَزَعَهَا مِنْ فِيهِ، فَرَفَعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ سَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ، فَأَبْطَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: "أَيَدَعُهَا فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَقَضْمِ الْفَحْلِ".
صفوان بن یعلیٰ بن منیہ (امیہ) سے روایت ہے کہ یعلیٰ بن منیہ (امیہ) رضی اللہ عنہ کے ایک نوکر کو ایک دوسرے شخص نے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، اس (نوکر)نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا، یہ معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا اور حال یہ تھا کہ اس آدمی کا دانت اکھڑ کر گر گیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لغو قرار دیا، اور فرمایا: "کیا وہ تمہارے منہ میں اسے چھوڑ دیتا تاکہ تم اسے اونٹ کی طرح چبا جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۷۰ (صحیح) (سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى: أَنَّ أَبَاهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَاسْتَأْجَرَ أَجِيرًا، فَقَاتَلَ رَجُلًا، فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَهُ، فَلَمَّا أَوْجَعَهُ نَتَرَهَا فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَعَضُّ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ"فَأَبْطَلَ ثَنِيَّتَهُ.
صفوان بن یعلیٰ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، انہوں نے ایک نوکر رکھ لیا تھا، اس کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا تو اس آدمی نے اس (نوکر) کے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، جب اسے تکلیف ہوئی تو اس نے اسے زور سے کھینچا، تو اس (آدمی) کا دانت نکل پڑا، یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو آپ نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی کو چبائے جیسے اونٹ چباتا ہے؟" چنانچہ آپ نے دانت کی دیت نہیں دلوائی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْعَبِيدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ شَيْئًا أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعَالَ، فَاسْتَقِدْ"، قَالَ: بَلْ قَدْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران اچانک ایک شخص آپ کے اوپر گر پڑا تو آپ نے اسے ایک لکڑی جو آپ کے ساتھ تھی چبھا دی، وہ شخص نکل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ اور بدلہ لے لو" اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے تو معاف کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۵ (۴۵۳۶)، (تحفة الأشراف: ۴۱۴۷)، مسند احمد (۳/۲۸) (ضعیف) (اس کے راوی ’’عبیدہ‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، أَنْبَأَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى يُحَدِّثُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ شَيْئًا إِذْ أَكَبَّ عَلَيْهِ رَجُلٌ، فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ، فَصَاحَ الرَّجُلُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعَالَ، فَاسْتَقِدْ"، قَالَ: بَلْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ اسی دوران اچانک ایک شخص آپ پر گر پڑا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی چبھا دی، وہ شخص چیخ پڑا تو آپ نے اس سے فرمایا: "آؤ، بدلہ لے لو" اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے تو معاف کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا وَقَعَ فِي أَبٍ كَانَ لَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَطَمَهُ الْعَبَّاسُ، فَجَاءَ قَوْمُهُ، فَقَالُوا: لَيَلْطِمَنَّهُ كَمَا لَطَمَهُ، فَلَبِسُوا السِّلَاحَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: "أَيُّهَا النَّاسُ، أَيُّ أَهْلِ الْأَرْضِ تَعْلَمُونَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، فَقَالُوا: أَنْتَ، فَقَالَ: "إِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا، فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا"، فَجَاءَ الْقَوْمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِكَ اسْتَغْفِرْ لَنَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کے جاہلیت کے کسی باپ دادا کو برا بھلا کہا تو عباس رضی اللہ عنہ نے اسے تھپڑ مار دیا، اس کے آدمیوں نے آ کر کہا: وہ لوگ بھی انہیں تھپڑ ماریں گے جیسا کہ انہوں نے مارا ہے اور ہتھیار اٹھا لیے۔ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا: "لوگو! تم جانتے ہو کہ زمین والوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت کون ہے؟" انہوں نے کہا: آپ، آپ نے فرمایا: "تو عباس میرے ہیں اور میں عباس کا ہوں، تم لوگ ہمارے مردوں کو برا بھلا نہ کہو جس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہو"، ان لوگوں نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۵۴۵)، مسند احمد (۱/۳۰۰) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ عبدالاعلی ثعلبی ‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں، لیکن اس کا جملہ ’’لاتسبوا۔۔۔ ‘‘ شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هِلَالٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا نَقْعُدُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا، فَقَامَ يَوْمًا وَقُمْنَا مَعَهُ حَتَّى لَمَّا بَلَغَ وَسَطَ الْمَسْجِدِ، أَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَجَبَذَ بِرِدَائِهِ مِنْ وَرَائِهِ وَكَانَ رِدَاؤُهُ خَشِنًا، فَحَمَّرَ رَقَبَتَهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ احْمِلْ لِي عَلَى بَعِيرَيَّ هَذَيْنِ، فَإِنَّكَ لَا تَحْمِلُ مِنْ مَالِكَ، وَلَا مِنْ مَالِ أَبِيكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، لَا أَحْمِلُ لَكَ حَتَّى تُقِيدَنِي مِمَّا جَبَذْتَ بِرَقَبَتِي"، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: لَا، وَاللَّهِ لَا أُقِيدُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ، يَقُولُ: لَا وَاللَّهِ لَا أُقِيدُكَ، فَلَمَّا سَمِعْنَا قَوْلَ الْأَعْرَابِيِّ أَقْبَلْنَا إِلَيْهِ سِرَاعًا، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "عَزَمْتُ عَلَى مَنْ سَمِعَ كَلَامِي أَنْ لَا يَبْرَحَ مَقَامَهُ حَتَّى آذَنَ لَهُ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ: "يَا فُلَانُ، احْمِلْ لَهُ عَلَى بَعِيرٍ شَعِيرًا، وَعَلَى بَعِيرٍ تَمْرًا"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْصَرِفُوا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھا کرتے تھے، جب آپ کھڑے ہوتے، ہم کھڑے ہو جاتے، ایک دن آپ کھڑے ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ جب آپ مسجد کے بیچوں بیچ پہنچے تو ایک شخص نے آپ کو پکڑا اور پیچھے سے آپ کی چادر پکڑ کر کھینچے لگا، وہ چادر بہت کھردری تھی، آپ کی گردن سرخ ہو گئی، وہ بولا: "اے محمد! میرے لیے میرے ان دو اونٹوں کو لاد دیجئیے، آپ کوئی اپنے مال سے تو کسی کو دیتے نہیں اور نہ اپنے باپ کے مال سے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، میں تجھے نہیں دوں گا جب تک تو میری اس گردن کھینچنے کا بدلہ نہیں دے گا"، اعرابی نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، میں بدلہ نہیں دوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا، ہر مرتبہ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں بدلہ نہیں دوں گا، جب ہم نے اعرابی کی بات سنی تو ہم دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "میں قسم دیتا ہوں، تم میں سے جو میری بات سنے اپنی جگہ سے نہ ہٹے، یہاں تک کہ میں اسے اجازت دے دوں"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کے ایک آدمی سے کہا: "اے فلاں! اس کے ایک اونٹ پر جَو لاد دو اور ایک اونٹ پر کھجور"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ جا سکتے ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأدب ۱(۴۷۷۵)، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۰۱)، مسند احمد (۲/۲۸۸) (ضعیف) (اس کے راوی ہلال بن ابی ہلال لین الحدیث ہیں، لیکن اعرابی کے آپ کو پکڑ کر کھینچنے کا قصہ صحیح بخاری (لباس ۱۸) میں انس رضی الله عنہ سے مروی ہے)
أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْأَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ: أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی ذات سے بدلا دلاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۵ (۴۵۳۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۶۴)، مسند احمد ۱/۴۱ (ضعیف) (اس کے راوی ’’ ابو فراس ‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلَاحَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الْقَوَدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: "لَكُمْ كَذَا وَكَذَا"، فَلَمْ يَرْضَوْا بِهِ، فَقَالَ: "لَكُمْ كَذَا وَكَذَا"، فَرَضُوا بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنَّ هَؤُلَاءِ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا، فَرَضُوا"، قَالُوا: لَا، فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا، فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ، قَالَ: "أَرَضِيتُمْ ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: "فَإِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ قَالَ: "أَرَضِيتُمْ ؟"، قَالُوا: نَعَمْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تو ایک شخص اپنے صدقے کے سلسلے میں ان سے لڑ گیا، تو ابوجہم نے اسے مار دیا، ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: "اتنا اتنا مال لے لو"، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، تو آپ نے فرمایا: "(اچھا) اتنا اتنا مال لے لو"، تو وہ اس پر راضی ہو گئے، پھر آپ نے فرمایا: "میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی اطلاع دوں گا"، ان لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا: "یہ لوگ میرے پاس قصاص مانگنے آئے تھے تو میں نے ان پر اتنے اتنے مال کی پیش کش کی ہے اور وہ اس پر راضی ہیں"، لیکن وہ لوگ بولے: نہیں، تو مہاجرین نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹھہر جانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ لوگ باز رہے، پھر آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا: "کیا تم رضامند ہو؟" وہ بولے: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور تمہاری رضا مندی کی انہیں اطلاع دوں گا"، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ آپ نے لوگوں سے خطاب کیا پھر (ان سے) فرمایا:"کیا تم اس پر راضی ہو؟" وہ بولے: جی ہاں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۳ (۴۵۳۴)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۰ (۲۶۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۶۳۶)، مسند احمد (۶/۲۳۲) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے «العامل یصاب علی یدہ خطأ» یعنی " عامل کے ذریعہ کسی کو غلطی سے زخم لگ جائے " اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری عامل ہونے کی وجہ سے قصاص معاف نہیں ہو گا، ہاں دیت پر راضی ہو جانے کی صورت میں سرکاری بیت المال سے دیت دلوائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ يَهُودِيًّا رَأَى عَلَى جَارِيَةٍ أَوْضَاحًا، فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ، فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ: "أَقَتَلَكِ فُلَانٌ ؟"، فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا: أَنْ لَا، فَقَالَ: "أَقَتَلَكِ فُلَانٌ ؟"، فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا: أَنْ لَا، قَالَ: "أَقْتَلَكِ فُلَانٌ ؟"، فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا: أَنْ نَعَمْ، فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَتَلَهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور پہنے دیکھا تو اسے پتھر سے مار ڈالا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ نے فرمایا: "کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟" (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟" (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: "کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟" (پھر شعبہ نے سر کے اشارے سے کہا کہ) اس نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور دو پتھروں کے درمیان کچل کر اسے مار ڈالا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۲۴ (۵۲۹۵ تعلیقًا)، الدیات ۴ (۶۸۷۷)، ۵ (۶۸۷۹)، صحیح مسلم/الحدود ۳ (۱۶۷۲)، سنن ابی داود/الدیات ۱۰ (۴۵۲۹)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۴ (۲۶۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۱)، مسند احمد (۳/۱۷۱، ۲۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے تلوار کی بجائے پتھروں سے اس کا سر کچل کر قصاص لیا، اس سے ثابت ہوا کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ضروری نہیں ہے :(جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے ) بلکہ یہ تو ارشاد ربانی کے مطابق ہے «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به» :(سورة النحل: 126 ) «فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم» :(سورة البقرة: 194 ) حنفیہ حدیث «لا قود إلا بالسیف» یعنی: " قصاص صرف تلوار ہی سے ہے " سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث ہر طریقے سے ضعیف ہے، بلکہ بقول امام ابوحاتم "منکر" ہے :(کذا فی نیل الا ٔوطار والإرواء رقم ۲۲۲۹ )۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى قَوْمٍ مِنْ خَثْعَمَ فَاسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ، فَقُتِلُوا، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ: "إِنِّي بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِكٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا".
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کی طرف (فوج کی) ایک ٹکڑی بھیجی، تو انہوں نے سجدہ کر کے اپنے کو بچانا چاہا، پھر بھی وہ سب قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آدھی دیت ادا کی ۱؎ اور فرمایا: "میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہے" ۲؎، پھر آپ نے فرمایا: سنو! (مسلمان اور کافر اس حد تک دور رہیں کہ) ان دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ۱۰۵ (۲۶۴۵)، سنن الترمذی/السیر ۴۳ (۱۶۰۴، ۱۶۰۵)، (تحفة الأشراف: ۳۲۲۷، ۱۹۲۳۳) (صحیح مرسلاً وموصولاً) (یہ حدیث ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، لیکن قیس کے شاگردوں کی ایک جماعت نے قیس کے بعد جریر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ مرسلا ہی روایت کی ہے، امام بخاری نے بھی مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے، مگر موصول کی بھی صحیح متابعات موجود ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: الإروائ: ۱۲۰۷)
وضاحت: ۱؎: آدھی دیت کا حکم دیا اور باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں آدھی دیت ساقط ہو گئی۔ ۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علاحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمان کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل و صورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ۳؎: اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں، ممکن ہے اس سے پہلے والے باب کی حدیث ہو اور نساخ کے تصرف سے اس باب کے تحت آ گئی ہو، اور اس حدیث کا مصداق ساری دنیا کے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ ہر ملک میں کافروں سے الگ سکونت اختیار کریں، اس زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اس کا مصداق ایسے علاقے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو، اور سارے حالات و اختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وغیرہ کے عہدوں میں تھا، اور آج سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہے، بعض مسلم ممالک کے اندر بھی موجودہ حالات میں الگ تھلگ رہائش مشکل ہے، «لايكلف الله نفسا إلا وسعها» :(سورة البقرة:۲۸۶)۔
قَالَ قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ: قِرَاءَةً عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ، وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى إِلَى قَوْلِهِ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 178، فَالْعَفْوُ: أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ، وَاتِّبَاعٌ بِمَعْرُوفٍ: يَقُولُ: يَتَّبِعُ هَذَا بِالْمَعْرُوفِ، وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ: وَيُؤَدِّي هَذَا بِإِحْسَانٍ، ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ سورة البقرة آية 178 مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ إِنَّمَا هُوَ الْقِصَاصُ لَيْسَ الدِّيَةَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا، ان میں دیت دینے کا حکم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے «كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر والعبد بالعبد والأنثى بالأنثى» "تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت" سے «فمن عفي له من أخيه شىء فاتباع بالمعروف وأداء إليه بإحسان» "جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے۔ (تمہارے رب کی طرف سے) یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے گا، اسے درد ناک عذاب ہو گا" (البقرہ: ۱۷۸) تک نازل فرمایا، تو عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کر لے اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے، اور «وأداء إليه بإحسان» یہ ہے کہ وہ اسے اچھی طرح ادا کرے، «ذلك تخفيف من ربكم ورحمة»"یہ تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے" اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر صرف قصاص فرض تھا، دیت کا حکم نہیں تھا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة ۲۳ (۴۴۹۸)، والدیات ۸ (۶۸۸۱)، (تحفة الأشراف: ۶۴۱۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ سورة البقرة آية 178 قَالَ: "كَانَ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَيْهِمُ الْقِصَاصُ، وَلَيْسَ عَلَيْهِمُ الدِّيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمُ الدِّيَةَ فَجَعَلَهَا عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ تَخْفِيفًا عَلَى مَا كَانَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ".
مجاہد اس آیت کریمہ «كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر» "تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد"کے سلسلہ میں کہتے ہیں: بنی اسرائیل پر صرف قصاص فرض تھا، ان پر دیت نہیں تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے دیت کا حکم نازل فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بالمقابل اس امت محمدیہ پر تخفیف کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح) (سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْعَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَاصٍ فَأَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قصاص کا ایک معاملہ آیا تو آپ نے اسے معاف کر دینے کا حکم دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۳ (۴۴۹۷)، سنن ابن ماجہ/البیوع ۳۵ (۲۶۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۵)، مسند احمد (۳/۲۱۳، ۲۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: سفارش کی تاکہ قصاص نہ لے کر دیت پر راضی ہو جائے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَبَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، وَعَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ الْمُزَنِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "مَا أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ فِيهِ قِصَاصٌ إِلَّا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کوئی ایسا معاملہ آیا جس میں قصاص ہو تو آپ نے اسے معاف کر دینے کا حکم دیا۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: سفارش کی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَشْعَثَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُقَادَ، وَإِمَّا أَنْ يُفْدَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا کوئی آدمی قتل ہو گیا ہو تو اسے اختیار ہے، چاہے تو قصاص لے، چاہے تو دیت لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۳۹ (۱۱۲)، اللقطة ۷ (۲۴۳۴)، الدیات ۸ (۶۸۸۰)، صحیح مسلم/الحج ۸۲ (۱۳۵۵)، سنن ابی داود/الدیات ۴ (۴۵۰۵)، سنن الترمذی/الدیات ۱۳ (۱۴۰۵)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۳ (۲۶۲۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۸۳، ۱۹۵۸۸)، مسند احمد (۲/۲۳۸)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۹۰، ۴۷۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: قتل عمد میں مقتول کے وارثین کے لیے قصاص یا دیت دونوں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے :(اس میں قاتل کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ) اگر قصاص معاف کر دیتے ہیں تو دیت واجب ہو گی۔
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُقَادَ، وَإِمَّا أَنْ يُفْدَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا کوئی آدمی قتل ہو گیا ہو تو اسے دو باتوں کا اختیار ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت لے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَائِذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ". مُرْسَلٌ.
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا کوئی شخص قتل کر دیا گیا" (یعنی وہ چاہے تو قصاص لے، اور چاہے تو دیت لے) (یہ روایت مرسل ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر رقم ۴۷۸۹ (صحیح) (یہ حدیث مرسل ہے، جیسا کہ مؤلف نے ذکر فرمایا اس لیے کہ اس روایت میں ابو سلمہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن سابقہ حدیث میں واسطہ کا ذکر ہے یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حِصْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ. ح وَأَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حِصْنٌ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَيُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "وَعَلَى الْمُقْتَتِلِينَ أَنْ يَنْحَجِزُوا الْأَوَّلَ، فَالْأَوَّلَ وَإِنْ كَانَتِ امْرَأَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑنے والوں پر لازم ہے کہ وہ قصاص لینے سے باز رہیں، پہلے جو (مقتول کے وارثین میں) سب سے قریبی ہو وہ معاف کرے، پھر اس کے بعد والے، خواہ عورت ہی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۶ (۴۵۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۰۶) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ حصن ‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّا أَوْ رِمِّيَّا تَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحَجَرٍ، أَوْ سَوْطٍ، أَوْ بِعَصًا فَعَقْلُهُ عَقْلُ خَطَإٍ، وَمَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَقَوَدُ يَدِهِ فَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی ہنگامے، یا بلوے اور فساد میں (جہاں قاتل معلوم نہ ہو سکے) کسی پتھر یا کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہو گی جو قتل خطا کی ہے اور جس نے قصداً مارا تو اس پر قصاص ہو گا، جو کوئی قصاص اور قاتل کے درمیان حائل ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا نہ نفل"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۷ (۴۵۳۹، ۴۵۴۰)، ۲۸ (۴۵۹۱)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۸ (۲۶۳۵)، (تحفة الأشراف: ۵۷۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: قتل تلوار سے ہو یا ایسے ہتھیار سے جس سے قتل کیا جاتا ہے: اگر قتل کی نیت سے ہو تو قتل عمد :(مقصد و ارادہ اور جان بوجھ کر قتل ) ہے، اس میں قصاص ہے یا معاف کر دینے کی صورت میں دیت ہے، اور اگر قتل غلطی سے ہو خواہ کسی چیز سے بھی ہو تو اس میں دیت ہے، یہی حکم بندوق یا بم کا بھی ہو گا، فساد اور ہنگامے میں قتل خواہ کسی چیز سے ہو وہ " غلطی سے قتل " مانا جائے گا اور اس میں دیت ہو گی۔ جس کی تفصیل اس حدیث میں ہے اور یہی دیت مغلظہ ہے۔ اور فی زمانہ موجودہ سرکار مذکورہ دیت کی قیمت موجودہ بھاؤ سے لگا کر دیت مقرر کرے گی جیسا کہ سعودی عربیہ میں ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْطَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُهُ، قَالَ: "مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّةٍ أَوْ رِمِّيَّةٍ بِحَجَرٍ أَوْ سَوْطٍ أَوْ عَصًا فَعَقْلُهُ عَقْلُ الْخَطَإِ، وَمَنْ قُتِلَ عَمْدًا فَهُوَ قَوَدٌ، وَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی ہنگامے یا بلوے میں کسی پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہے جو قتل خطا کی ہے، اور جس نے جان بوجھ کر مارا تو اس میں قصاص ہے اور جو کوئی اس کے اور اس کے (قصاص اور قاتل) کے درمیان حائل ہو گا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ کوئی نفل"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "قَتِيلُ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ أَوِ الْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، أَرْبَعُونَ مِنْهَا فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خطا یعنی شبہ عمد کے طور پر جو شخص کوڑے یا ڈنڈے سے مر جائے تو اس کی دیت سو اونٹ ہے، چالیس ان میں سے حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۵ (۲۶۲۷)، (تحفة الأشراف: ۸۹۱۱)، ۸۹۱۱، ۱۹۱۹۴)، مسند احمد (۱/۱۶۴، ۱۶۶)، سنن الدارمی/الدیات ۲۲ ۲۴۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شبہ عمد: ایسے آلات سے قتل کرنے کو کہتے ہیں جن سے عام طور سے قتل نہیں کیا جاتا، جیسے لاٹھی، کوڑا، اور موٹی سوئی وغیرہ :(گرچہ نیت قتل کی ہو ) اس میں جس دیت کا بیان ہے وہی " دیت مغلظہ " ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ: "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ". مُرْسَلٌ.
قاسم بن ربیعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز خطبہ دیا۔ یہ روایت مرسل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، جیسا کہ مؤلف نے ذکر کیا اس لیے قاسم بن ربیعہ اور نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے درمیان صحابی کا ذکر نہیں ہے لیکن پچھلی سند سے متصل مرفوع ہے)
أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ يَعْنِي الْحَذَّاءَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَلَا وَإِنَّ قَتِيلَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! جو شخص قتل خطا میں یعنی شبہ عمد کے طور پر کوڑے، یا ڈنڈے سے مر جائے تو اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۹ (۴۵۴۷، ۴۵۴۸)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۵ (۲۶۲۷)، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۹، ۱۹۱۰۰)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۹۸-۴۸۰۲، ۴۸۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَقَالَ: "أَلَا وَإِنَّ قَتِيلَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ، بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا وَالْحَجَرِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ فِيهَا أَرْبَعُونَ ثَنِيَّةً إِلَى بَازِلِ عَامِهَا كُلُّهُنَّ خَلِفَةٌ".
ایک صحابی سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور فرمایا: "سنو! قتل خطا میں یعنی شبہ عمد کے طور پر کوڑے، ڈنڈے اور پتھر سے مرنے والے کی دیت سو اونٹ ہے، ان میں چالیس «ثنی» سے لے کر «بازلت» ہوں (یعنی چھ برس سے نو برس تک کی ہوں) اور سب بوجھ لادنے کے لائق ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَلَا إِنَّ قَتِيلَ الْخَطَإِ قَتِيلَ السَّوْطِ، وَالْعَصَا فِيهِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مُغَلَّظَةٌ أَرْبَعُونَ مِنْهَا فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
عقبہ بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! جو قتل خطا میں یعنی شبہ عمد کے طور پر کوڑے یا ڈنڈے سے مر جائے تو اس کی دیت مغلظہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۴۹۷ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ اس میں صحابی کا ذکر نہیں ہے، مگر دوسری سند سے متصل مرفوع ہے)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، قَالَ: "أَلَا وَإِنَّ كُلَّ قَتِيلِ خَطَإِ الْعَمْدِ أَوْ شِبْهِ الْعَمْدِ قَتِيلِ السَّوْطِ وَالْعَصَا مِنْهَا، أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
ایک صحابی رسول (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو فرمایا: "سنو! ہر مقتول خواہ غلطی سے مارا گیا ہو یا شبہ عمد کے طور پر ہو، وہ کوڑے یا ڈنڈے سے قتل کیے گئے شخص کی طرح ہے (یعنی اس کی دیت بھی وہی ہے جو اس کی ہے) اس میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۴۹۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَوْسٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، قَالَ: "أَلَا وَإِنَّ قَتِيلَ الْخَطَإِ الْعَمْدِ قَتِيلَ السَّوْطِ وَالْعَصَا مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
ایک صحابی رسول (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب مکہ آئے تو فرمایا: "سنو! خطا سے مقتول ہونے والا کوڑے اور ڈنڈے سے مر جانے والے کی طرح ہے (یعنی اس کی دیت بھی وہی ہے) ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۴۹۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَوْسٍ، أَنَّرَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، قَالَ: "أَلَا وَإِنَّ قَتِيلَ الْخَطَإِ الْعَمْدِ قَتِيلَ السَّوْطِ وَالْعَصَا مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
ایک صحابی رسول (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے سال مکہ میں داخل ہوئے تو فرمایا: "خطا سے مقتول ہونے والا، کوڑے اور ڈنڈے سے مقتول ہونے والے کی طرح ہے، ان میں چالیس ایسی اونٹنیاں ہوں جو حاملہ ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۴۹۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُدْعَانَ سَمِعَهُ مِن الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَة، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، عَلَى دَرَجَةِ الْكَعْبَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، أَلَا إِنَّ قَتِيلَ الْعَمْدِ الْخَطَإِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا شِبْهِ الْعَمْدِ فِيهِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مُغَلَّظَةٌ مِنْهَا أَرْبَعُونَ خَلِفَةً فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کی سیڑھی پر کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: "شکر ہے اس اللہ کا جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، جماعتوں کو اکیلے ہی شکست دی، سنو! کوڑے اور ڈنڈے سے غلطی سے مر جانے والا شبہ عمد کی طرح ہے، اس میں بھی دیت مغلظہ سو اونٹ ہے، ان میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۹ (۴۵۴۹)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۵ (۲۶۲۸)، (تحفة الأشراف: ۷۳۷۲) (صحیح) (اس کے راوی ’’ علی بن زید بن جدعان ‘‘ ضعیف ہیں، لیکن پچھلی سن دوں سے یہ روایت بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْخَطَأُ شِبْهُ الْعَمْدِ يَعْنِي بِالْعَصَا، وَالسَّوْطِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
قاسم بن ربیعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ڈنڈے یا کوڑے سے غلطی سے قتل ہو جانا شبہ عمد کی طرح ہے، اس میں سو اونٹ کی دیت ہو گی جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۷۹۷ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، مگر پچھلی روایتیں متصل مرفوع ہیں)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، ثَلَاثُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَعَشَرَةُ بَنِي لَبُونٍ ذُكُورٍ"، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُهَا عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ، وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَهْلِ الْإِبِلِ إِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَانَتْ نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا عَلَى نَحْوِ الزَّمَانِ مَا كَانَ، فَبَلَغَ قِيمَتُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الْأَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عِدْلِهَا مِنَ الْوَرِقِ، قَالَ: وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ مَنْ كَانَ عَقْلُهُ فِي الْبَقَرِ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَمَنْ كَانَ عَقْلُهُ فِي الشَّاةِ أَلْفَيْ شَاةٍ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى فَرَائِضِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ يَعْقِلَ عَلَى الْمَرْأَةِ عَصَبَتُهَا مَنْ كَانُوا، وَلَا يَرِثُونَ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا، وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص خطا (غلطی) سے مارا جائے اس کی دیت سو اونٹ ہے: تیس اونٹنیاں ہیں جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں لگ گئی ہوں اور تیس اونٹنیاں جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ گئی ہوں اور تیس اونٹنیاں وہ جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں لگ گئی ہوں اور دو دو سال کے دس اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہو گئے ہوں، اور آپ نے گاؤں والوں پر دیت کی قیمت چار سو دینار لگائی یا اتنی ہی قیمت کی چاندی، یہ قیمت وقت کے حساب سے بدلتی رہتی، اونٹ مہنگے ہوتے تو دیت (کی مالیت) بھی زیادہ ہوتی اور جب سستے ہوتے تو دیت بھی کم ہو جاتی، چنانچہ آپ کے زمانے میں دیت کی قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک پہنچ گئی یا اسی کے برابر چاندی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فیصلہ فرمایا: گائے والوں سے دو سو گائیں اور بکری والوں سے دو ہزار بکریاں (دیت میں) لی جائیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: دیت مقتول کے ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق ترکہ ہے، پھر جو بچ رہے وہ عصبہ کے اوپر ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کی طرف سے اس کی دیت اس کے عصبہ ادا کریں گے جو بھی ہوں، لیکن وہ (ملنے والی) دیت میں کسی چیز کے وارث نہیں ہوں گے سوائے اس کے جو بچ رہے، اور اگر عورت مقتول ہو تو اس کی دیت اس کے ورثاء میں تقسیم ہو گی اور وہ اس کے قاتل کو قتل کریں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۸ (۴۵۴۱)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۳۰)، (تحفة الأشراف: ۸۷۰۹، ۸۷۱۰)، مسند احمد (۲/۱۸۳، ۲۱۷، ۲۲۴) (حسن)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْخِشْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ الْخَطَإِ عِشْرِينَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَعِشْرِينَ ابْنَ مَخَاضٍ ذُكُورًا، وَعِشْرِينَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَعِشْرِينَ جَذَعَةً، وَعِشْرِينَ حِقَّةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل خطا کی دیت میں بیس اونٹنیاں ایک ایک سال کی جو دوسرے میں لگی ہوں، بیس اونٹ جو ایک ایک سال کے ہوں اور دوسرے میں لگے ہوں، بیس اونٹنیاں دو دو سال کی جو تیسرے میں لگی ہوں، بیس اونٹنیاں چار چار سال کی جو پانچویں میں لگی ہوں اور بیس اونٹنیاں تین تین سال کی جو چوتھے میں لگی ہوں دینے کا حکم کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۸ (۴۵۴۵)، سنن الترمذی/الدیات ۱ (۱۳۸۶)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۳۱)، (تحفة الأشراف: ۹۱۹۸)، مسند احمد (۱/۴۵۰) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ حجاج بن ارطاة ‘‘ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کیے ہوئے ہیں، نیز ’’ خشف ‘‘ کی ثقاہت میں بھی کلام ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے اس لیے پچھلی حدیث پر عمل ہو گا جو صحیح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے مقتول :(جس کا ذکر قسامہ کے شروع میں گزرا ) کی دیت میں سو اونٹ ادا کئے تھے جن میں کوئی بھی ابن مخاض نہیں تھا جس کا ذکر اس ضعیف حدیث میں ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ. ح وأَخْبَرَنَاأَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "قَتَلَ رَجُلٌ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا وَذَكَرَ قَوْلَهُ إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فِي أَخْذِهِمُ الدِّيَةَ"، وَاللَّفْظُ لِأَبِي دَاوُدَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے ایک شخص کو قتل کر دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی، اور دیت لینے سے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا «إلا أن أغناهم اللہ ورسوله من فضله» "مگر یہ کہ اب اللہ اور اس کے رسول نے ان کو مالدار کر دیا ہے" (المائدہ: ۵۰)، الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۱۸ (۴۵۴۶)، سنن الترمذی/الدیات ۲ (۱۳۸۸، ۱۳۸۹)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۲۹)، (تحفة الأشراف: ۶۱۶۵) (ضعیف) (اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے جیسا کہ امام ابوداود نے صراحت کی ہے، اس کو عمرو بن دینار سے سفیان بن عیینہ (جو محمد بن مسلم طائفی کے بالمقابل اوثق ہیں) نے بھی روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ سَمِعْنَاهُ مَرَّةً، يَقُولُ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"قَضَى بِاثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا يَعْنِي فِي الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ہزار درہم کا فیصلہ کیا یعنی دیت میں۔
تخریج دارالدعوہ: انظرما قبلہ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَقْلُ الْمَرْأَةِ مِثْلُ عَقْلِ الرَّجُلِ، حَتَّى يَبْلُغَ الثُّلُثَ مِنْ دِيَتِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت کی دیت ایک تہائی دیت تک مرد کی دیت کی طرح ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۷۴۹) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ اسماعیل بن عیاش ‘‘ حجازیوں سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز ’’ ابن جریج ‘‘ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کیے ہوئے ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اصول حدیث کے حساب سے ضعیف ہے، مگر جمہور علماء کا یہی قول ہے، بلکہ بعض لوگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، اور یہ کہ ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی مکمل دیت سو اونٹ ہے اور عورت کے قتل عمد و شبہ عمد و خطا میں آدھی دیت پچاس اونٹ واجب الاداء ہوں گے، لیکن اگر اعضاء کے تلف کرنے کی دیت ہو تو جیسے ایک انگلی کی دیت دس اونٹ ہیں، مان لیا کہ کسی نے کسی عورت کی چار انگلیاں توڑ دیں تو ان کی دیت چالیس اونٹ ہوئے جو سو کے ثلث :(۳۳ ) سے زیادہ ہو گئے تو اب انگلیاں توڑنے والے پر صرف بیس :(۲۰ ) اونٹ واجب ہوں گے،:(علی ھذا القیاس )۔
أَخْبَرَنَا عُمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَقْلُ أَهْلِ الذِّمَّةِ، نِصْفُ عَقْلِ الْمُسْلِمِينَ، وَهُمْ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کی آدھی ہے، اور ذمیوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۷۱۴) مسند احمد (۲/۱۸۳، ۲۲۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث صحیح ہے، اور اسی پر جمہور کا عمل ہے، حنفیہ کا قول ہے کہ مسلم کافر ذمی سب کی دیت :(خون بہا ) برابر ہے، ان کا استدلال «دیۃ المعاہد دیۃ الحر المسلم» سے ہے جو مرسل اور ضعیف ہے، جب کہ باب کی یہ حدیث صحیح ہے، اور اس کی حکمت یہ ہے کہ مسلم کو کافر پر برتری حاصل ہے جس کے اظہار کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "عَقْلُ الْكَافِرِ نِصْفُ عَقْلِ الْمُؤْمِنِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کافر کی دیت مومن کی دیت کی آدھی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۱۷ (۱۴۱۳)، (تحفة الأشراف: ۸۶۵۸) (حسن)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُكَاتَبِ يُقْتَلُ بِدِيَةِ الْحُرِّ عَلَى قَدْرِ مَا أَدَّى".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکاتب کے بارے میں حکم کیا کہ مکاتب غلام اگر قتل ہو جائے تو اس کی دیت اتنے حصے میں جو وہ بدل کتابت کے طور پر ادا کر چکا ہے آزاد کی دیت کے مثل ہو گی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۲ (۴۵۸۱)، (تحفة الأشراف: ۶۲۴۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع ۳۵ (۱۲۵۹)، مسند احمد (۱/۲۲۲، ۲۲۶، ۲۶۰، ۲۹۲، ۳۶۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَضَى فِي الْمُكَاتَبِ أَنْ يُودَى بِقَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْهُ دِيَةَ الْحُرِّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکاتب غلام کے بارے میں فیصلہ فرمایا: "اس کی اتنے حصے کی دیت جس قدر وہ آزاد ہو چکا ہو آزاد کی دیت کے مثل ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، عَنْ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُكَاتَبِ يُودَى بِقَدْرِ مَا أَدَّى مِنْ مُكَاتَبَتِهِ دِيَةَ الْحُرِّ وَمَا بَقِيَ دِيَةَ الْعَبْدِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکاتب غلام کے بارے میں فیصلہ کیا کہ جس قدر اس نے مکاتبت کا بدل ادا کر دیا ہو، اتنے کی دیت آزاد کی دیت کے مثل ہو گی، اور جس کی ادائیگی باقی ہو اس کی دیت غلام کی دیت کے مثل ہو گی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۱۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ النَّقَّاشِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلَاسٍ، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمُكَاتَبُ يَعْتِقُ بِقَدْرِ مَا أَدَّى، وَيُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ بِقَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْهُ، وَيَرِثُ بِقَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مکاتب اسی قدر آزاد ہو گا جتنا اس نے بدلِ مکاتبت ادا کر دیا ہو اور اس پر حد بھی اسی قدر نافذ ہو گی جس قدر وہ آزاد ہو چکا ہو، اور وہ وارث بھی اسی قدر ہو گا جس قدر آزاد ہو چکا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۰۸۶)، وحدیث أیوب عن عکرمة، قد أخرجہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۲ (۴۵۸۲)، سنن الترمذی/البیوع ۳۵ (۱۲۵۹)، (تحفة الأشراف: ۵۹۹۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، وَعَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ مُكَاتَبًا قُتِلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "فَأَمَرَ أَنْ يُودَى مَا أَدَّى دِيَةَ الْحُرِّ، وَمَالًا دِيَةَ الْمَمْلُوكِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مکاتب کا قتل ہو گیا تو آپ نے حکم دیا کہ جتنا وہ بدل مکاتبت ادا کر چکا ہے اسی قدر اس کی دیت آزاد کی دیت کے مثل ہو گی، اور جس قدر آزاد نہیں ہوا ہے اسی کے مطابق اس کی دیت غلام کی دیت کے مثل ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۱۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ امْرَأَةً خَذَفَتِ امْرَأَةً، فَأَسْقَطَتْ،"فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَلَدِهَا خَمْسِينَ شَاةً، وَنَهَى يَوْمَئِذٍ عَنِ الْخَذْفِ"أَرْسَلَهُ أَبُو نَعِيمٍ.
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک عورت کو پتھر پھینک کر مارا جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے کی (دیت) پچاس بکریاں ۱؎ طے کیں اور اس دن سے آپ نے پتھر پھینکنے سے منع فرما دیا۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) اسے ابونعیم نے مرسلاً روایت کیا ہے۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۱ (۴۵۷۸)، (تحفة الأشراف: ۲۰۰۶، ۱۸۸۸۴) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: سنن ابوداؤد میں اسی سند سے اس حدیث کے الفاظ ہیں " پانچ سو بکریاں " جیسا کہ اگلی روایت میں ہے " پانچ سو " کی طرح یہ لفظ بھی کسی راوی کا وہم معلوم ہوتا ہے، واضح رہے کہ مؤلف کی اگلی روایت کی طرح ابوداؤد کی روایت مرسل نہیں بلکہ مرفوع متصل ہے،:(واللہ اعلم بالصواب )۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَعِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ: أَنَّ امْرَأَةً خَذَفَتِ امْرَأَةً، فَأَسْقَطَتِ الْمَخْذُوفَةُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "فَجَعَلَ عَقْلَ وَلَدِهَا خَمْسَ مِائَةٍ مِنَ الْغُرِّ، وَنَهَى يَوْمَئِذٍ عَنِ الْخَذْفِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا وَهْمٌ، وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ أَرَادَ مِائَةً مِنَ الْغُرِّ، وَقَدْ رُوِيَ النَّهْيُ عَنِ الْخَذْفِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ.
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک عورت کو پتھر پھینک کر مارا، پتھر لگی عورت کا حمل گر گیا، چنانچہ مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، تو آپ نے اس بچے کی دیت پانچ سو بکریاں ۱؎ مقرر کیں، اور اس دن سے آپ نے پتھر پھینکنے سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ وہم ہے، صحیح سو بکریاں ہیں، (پانچ سو نہیں) اور پتھر پھینکنے کی ممانعت سے متعلق حدیث عبداللہ بن بریدہ ہی کے واسطہ سے: عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (جو آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف الإسناد) (یہ مرسل ہے، لیکن سابقہ روایت سے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اگلی روایات :(رقم ۴۸۲۰ و ۴۸۲۱ ) میں " ایک غرہ " یعنی ایک غلام یا باندی کا ذکر ہے، ہو سکتا ہے اس وقت ایک غلام یا باندی کی قیمت سو بکریوں کے مساوی ہوتی ہو۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍأَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَخْذِفُ، فَقَالَ: لَا تَخْذِفْ، فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَنْهَى عَنِ الْخَذْفِ، أَوْ يَكْرَهُ الْخَذْفَ". شَكَّ كَهْمَسٌ.
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو پتھر پھینکتے دیکھا تو کہا: مت پھینکو، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پتھر پھینکنے سے منع فرماتے تھے، یا پتھر پھینکنا آپ کو پسند نہ تھا، یہ کہمس کا شک ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیرسورة الفتح ۵ (۴۸۴۱)، الذبائح ۵ (۵۴۷۹)، الأدب۱۲۲(۶۲۲۰)، صحیح مسلم/الذبائح ۱۰ (۱۹۵۴)، (تحفة الأشراف: ۹۶۵۹)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۱ (۳۲۲۶)، مسند احمد ۴/۸۶ و۵/ ۵۶، ۵۷، سنن الدارمی/المقدمة ۴۰ (۴۵۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ عُمَرَ اسْتَشَارَ النَّاسَ فِي الْجَنِينِ، فَقَالَ حَمَلُ بْنُ مَالِكٍ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ غُرَّةً"، قَالَ طَاوُسٌ: إِنَّ الْفَرَسَ غُرَّةٌ.
طاؤس سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے جنین (پیٹ میں موجود بچہ کی دیت) کے سلسلے میں مشورہ طلب کیا، تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ میں موجود بچہ) میں ایک غرہ (ایک لونڈی یا ایک غلام) کا فیصلہ کیا۔ طاؤس کہتے ہیں: گھوڑا بھی «غرہ» ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۱ (۴۵۷۲)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۱ (۲۶۴۱)، (تحفة الأشراف: ۳۴۴۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةِ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَزَوْجِهَا، وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی عورت کے جنین (پیٹ میں موجود بچہ) کے بارے میں جو مرا ہوا ساقط ہو گیا تھا ایک«غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ کیا، پھر وہ عورت جس پر ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی کا حکم ہوا، مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی میراث اس کے بیٹوں اور اس کے شوہر کے لیے ہے اور دیت اس کے عصبہ پر ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطب ۴۶ (۵۷۵۸)، الفرائض ۱۱ (۶۷۴۰)، الدیات ۲۵ (۶۹۰۹)، صحیح مسلم/القسامة (الحدود۱۱) (۱۶۸۱)، سنن ابی داود/الدیات ۲۱ (۴۵۷۶، ۴۵۷۷)، سنن الترمذی/الدیات ۱۵ (۱۴۱۰)، الفرائض ۱۹ (۲۱۱۱)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۱ (۲۶۳۹)، (تحفة الأشراف: موطا امام مالک/العقول ۷ (۵)، مسند احمد (۲/ ۵۳۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ، وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا فَقَتَلَتْهَا، وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ، أَوْ وَلِيدَةٌ وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ"، فَقَالَ: حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أُغَرَّمُ مَنْ لَا شَرِبَ، وَلَا أَكَلْ، وَلَا نَطَقَ، وَلَا اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں جھگڑ پڑیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک مارا، اور کوئی ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ عورت مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی، چنانچہ وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: اس کے جنین(پیٹ کے بچہ) کی دیت ایک غرہ ہے یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی۔ اور (قاتل) عورت کی دیت اس کے کنبے کو لوگوں (عصبہ) سے دلائی اور اس عورت کا وارث اس کے بیٹوں اور دوسرے ورثاء کو قرار دیا، تو حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا تاوان کیسے ادا کروں جس نے نہ پیا نہ کھایا، جو نہ بولا نہ چلایا، ایسا خون تو لغو ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کاہنوں کا بھائی ہے" (یہ بات آپ نے اس کی اس قافیہ دار بات چیت کی وجہ سے جو اس نے کی)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدیات ۲۶ (۶۹۱۰)، صحیح مسلم/القسامة ۱۱ (۱۶۸۱)، سنن ابی داود/الدیات ۲۱ (۴۵۷۶)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۲۰، ۱۵۳۰۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى، فَطَرَحَتْ جَنِينَهَا، "فَقَضَى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ وَلِيدَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا۔ جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا فیصلہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطب ۴۶ (۵۷۵۹)، الدیات (۶۹۰۴)، صحیح مسلم/القسامة ۱۱ (۱۶۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۴۵، ۱۸۷۲۷) (صحیح)
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"قَضَى فِي الْجَنِينِ يُقْتَلُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ وَلِيدَةٍ"، فَقَالَ الَّذِي قَضَى عَلَيْهِ: كَيْفَ أُغَرَّمُ مَنْ لَا شَرِبَ، وَلَا أَكَلْ، وَلَا اسْتَهَلَّ، وَلَا نَطَقَ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا هَذَا مِنَ الْكُهَّانِ".
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی دیت «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا فیصلہ کیا جو ماں کے پیٹ میں ہی قتل کر دیا جائے، تو وہ شخص جس کے خلاف آپ نے فیصلہ کیا تھا بولا: میں اس کی دیت کیوں کر ادا کروں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، جو نہ چیخا اور نہ بولا۔ ایسا خون تو لغو ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تو کاہنوں میں سے (لگتا) ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۳ (صحیح) (یہ روایت سعید بن مسیب کی مرسل ہے، لیکن پچھلی روایت مرفوع متصل ہے)
وضاحت: ۱؎: اس کے بارے میں آپ نے ایسا اس لیے فرمایا کہ اس نے کاہنوں کی طرح مقفع مسجع جملے استعمال کیے، نہ کہ آپ نے خود اس کو کاہن قرار دیا۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفٌ وَهُوَ ابْنُ تَمِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: أَنَّ امْرَأَةً ضَرَبَتْ ضَرَّتَهَا بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ فَقَتَلَتْهَا وَهِيَ حُبْلَى، فَأُتِيَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ، بِالدِّيَةِ وَفِي الْجَنِينِ غُرَّةً"، فَقَالَ عَصَبَتُهَا: أَدِي مَنْ لَا طَعِمَ، وَلَا شَرِبَ، وَلَا صَاحَ، فَاسْتَهَلَّ فَمِثْلُ هَذَا يُطَلَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ ؟".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی (کھونٹی) سے مارا، جس سے وہ مر گئی، وہ حمل سے تھی، چنانچہ معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے مارنے والی عورت کے عصبہ پر دیت کا اور جنین (پیٹ کے بچہ) کے بدلے ایک «غرہ» (غلام یا ایک لونڈی) دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے خاندان والے بولے: کیا اس کی بھی دیت ادا کی جائے گی، جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ چیخا اور نہ چلایا۔ ایسا خون تو لغو ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اعراب (دیہاتیوں) کی طرح مسجع کلام کرتے ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ۱۱ (۱۶۸۲)، سنن ابی داود/الدیات ۲۱ (۴۵۶۸)، سنن الترمذی/الدیات ۱۵ (۱۴۱۱)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۷ (۲۶۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۱۰، ۱۸۴۱۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الدیات ۲۵ (۶۹۱۰)، الاعتصام ۱۳ (۷۳۱۷)، مسند احمد (۴/۲۲۴، ۲۴۵، ۲۴۶، ۲۴۹)، سنن الدارمی/الدیات ۲۰ (۲۴۲۵)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۸۲۶-۴۸۳۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: ضَرَبَتِ امْرَأَةٌ ضَرَّتَهَا بِعَمُودِ الْفُسْطَاطِ، وَهِيَ حُبْلَى، فَقَتَلَتْهَا، "فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ، وَغُرَّةً لِمَا فِي بَطْنِهَا". فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ: أَنَغْرَمُ دِيَةَ مَنْ لَا أَكَلْ وَلَا شَرِبَ وَلَا اسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ ؟"فَجَعَلَ عَلَيْهِمُ الدِّيَةَ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی کھونٹی سے مارا وہ حمل سے تھی، اور مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول عورت کی دیت اور پیٹ کے بچے کے بدلے ایک «غرہ» (ایک غلام یا لونڈی) قاتل عورت کے خاندان والوں پر مقرر فرمایا۔ تو قاتل عورت کے خاندان کا ایک شخص بولا: کیا ہم اس کی بھی دیت ادا کریں گے جس نے نہ کھایا نہ پیا اور نہ چیخا، ایسا خون تو معاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اعراب(دیہاتیوں) کی طرح سجع کرتا ہے، پھر ان پر دیت لازم ٹھہرائی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں " باب " سے مناسبت اس طرح ہے کہ " خیمے کی لکڑی " سے عموماً آدمی کا قتل عمل نہیں آتا اس لیے جب اس کی مار سے وہ عورت مر گئی تو اس قتل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل خطا یا قتل شبہ عمد :(غلطی سے قتل ) قرار دے کر اس کی دیت مقرر کی، نیز اس میں باب کے دوسرے جزء سے مناسبت اس طرح ہے کہ مقتول عورت اور جنین :(ساقط حمل ) کی دیت دونوں قاتلہ عورت کے خاندان کے ذمہ لگائی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّ ضَرَّتَيْنِ ضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ فَقَتَلَتْهَا، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بِالدِّيَةِ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ، وَقَضَى لِمَا فِي بَطْنِهَا بِغُرَّةٍ"، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: تُغَرِّمُنِي مَنْ لَا أَكَلْ، وَلَا شَرِبَ، وَلَا صَاحَ فَاسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ ؟ فَقَالَ: "سَجْعٌ كَسَجْعِ الْجَاهِلِيَّةِ"، وَقَضَى لِمَا فِي بَطْنِهَا بِغُرَّةٍ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو سوکنوں میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا، تو وہ مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلہ کے خاندان والوں کی جانب سے دیت ادا کیے جانے کا فیصلہ کیا اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا: آپ مجھ سے ایسی جان کی دیت ادا کروا رہے ہیں جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ چیخا، نہ چلایا۔ ایسا خون تو لغو ہے۔ آپ نے فرمایا: "یہ تو جاہلیت کی سجع کی طرح ہے"، اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: "ضَرَبَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ ضَرَّتَهَا بِعَمُودِ الْفُسْطَاطِ فَقَتَلَتْهَا، وَكَانَ بِالْمَقْتُولَةِ حَمْلٌ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ بِالدِّيَةِ وَلِمَا فِي بَطْنِهَا بِغُرَّةٍ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی لحیان کی ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی سے مارا، جس سے وہ مر گئی، مقتولہ حمل سے تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل عورت کے خاندان والوں پر دیت اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنْالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ فَأَسْقَطَتْ، فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: كَيْفَ نَدِي مَنْ لَا صَاحَ وَلَا اسْتَهَلَّ وَلَا شَرِبَ وَلَا أَكَلْ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ"، فَقَضَى: "بِالْغُرَّةِ عَلَى عَاقِلَةِ الْمَرْأَةِ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں ہذیل کے ایک شخص کے نکاح میں تھیں۔ ایک نے دوسری کو خیمے کا ڈنڈا پھینک کر مارا جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا، فریقین جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، لوگوں نے کہا: ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ چیخا، نہ چلایا، نہ پیا، نہ کھایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا دیہاتیوں کی طرح سجع کرتا ہے؟" اور آپ نے عورت کے کنبے والوں پر «غرہ» یعنی ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ هُذَيْلٍ كَانَ لَهُ امْرَأَتَانِ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِعَمُودِ الْفُسْطَاطِ فَأَسْقَطَتْ، فَقِيلَ: أَرَأَيْتَ مَنْ لَا أَكَلْ وَلَا شَرِبَ وَلَا صَاحَ فَاسْتَهَلَّ ؟ فَقَالَ: "أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ ؟"، فَقَضَى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، وَجُعِلَتْ عَلَى عَاقِلَةِ الْمَرْأَةِ". أَرْسَلَهُ الْأَعْمَشُ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا، جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا، عرض کیا گیا: جس نے نہ کھایا، نہ پیا، جو نہ چیخا نہ چلایا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: "یہ تو دیہاتیوں کی سی سجع ہے؟" پھر آپ نے اس میں ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا فیصلہ کیا، اور اس کی ذمہ داری (قاتل) عورت کے کنبے والوں پر ٹھہرائی۔ اعمش نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔(ان کی روایت آگے آ رہی ہے)
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُصْعَبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَتِ امْرَأَةٌ ضَرَّتَهَا بِحَجَرٍ وَهِيَ حُبْلَى، فَقَتَلَتْهَا، "فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فِي بَطْنِهَا غُرَّةً، وَجَعَلَ عَقْلَهَا عَلَى عَصَبَتِهَا"، فَقَالُوا: نُغَرَّمُ مَنْ لَا شَرِبَ، وَلَا أَكَلْ، وَلَا اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ ؟ فَقَالَ: "أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ ؟، هُوَ مَا أَقُولُ لَكُمْ".
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو جو حمل سے تھی پتھر مارا، اور وہ مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک«غرہ» (یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی) ٹھہرائی اور اس کی دیت اس کے کنبے والوں کے ذمے ڈالی، وہ بولے: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا نہ کھایا اور نہ چلایا اس جیسا خون تو لغو ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: "یہ دیہاتیوں کی سی سجع ہے، حکم وہی ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۵ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ ابراہیم نخعی اور نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے درمیان صحابی کا ذکر نہیں ہے لیکن پچھلی روایات مرفوع متصل ہیں)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ أَسْبَاطَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتِ امْرَأَتَانِ جَارَتَانِ كَانَ بَيْنَهُمَا صَخَبٌ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَأَسْقَطَتْ غُلَامًا قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ مَيْتًا، وَمَاتَتِ الْمَرْأَةُ، "فَقَضَى عَلَى الْعَاقِلَةِ الدِّيَةَ"، فَقَالَ عَمُّهَا: إِنَّهَا قَدْ أَسْقَطَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ غُلَامًا قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ، فَقَالَ أَبُو الْقَاتِلَةِ: إِنَّهُ كَاذِبٌ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا اسْتَهَلَّ وَلَا شَرِبَ وَلَا أَكَلْ فَمِثْلُهُ يُطَلَّ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْجَاهِلِيَّةِ ؟، وَكِهَانَتِهَا إِنَّ فِي الصَّبِيِّ غُرَّةً"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَتْ إِحْدَاهُمَا مُلَيْكَةَ، وَالْأُخْرَى أُمَّ غَطِيفٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دو سوکن عورتیں تھیں، ان کے درمیان جھگڑا ہو گیا، ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا، تو اس کے پیٹ کا بچہ مرا ہوا گر پڑا جس کے سر کے بال اگ آئے تھے اور عورت بھی مر گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنبے والوں پر دیت ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس (مقتولہ) کے چچا نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا ایک بچہ بھی ساقط ہوا ہے جس کے بال اگ آئے تھے۔ قاتل عورت کے باپ نے کہا: یہ جھوٹا ہے، اللہ کی قسم، نہ تو وہ چیخا، نہ اس نے پیا اور نہ کھایا، ایسا خون تو لغو ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاہلیت کی سجع اور کہانت سی سجع ہے۔ بچے میں ایک «غرہ» (یعنی ایک غلام یا لونڈی) دینا ہو گا"۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ان میں سے ایک کا نام ملیکہ اور دوسری کا ام غطیف تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۱۲۴) (ضعیف الإسناد) (سماک کی روایت عکرمہ سے میں سخت اضطراب ہے، نیز سماک مختلط بھی تھے، مگر پچھلی روایات سے یہ حدیث صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَجَابِرًا، يَقُولُ: كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى كُلِّ بَطْنٍ عُقُولَةً وَلَا يَحِلُّ لِمَوْلًى أَنْ يَتَوَلَّى مُسْلِمًا بِغَيْرِ إِذْنِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا: ہر قوم پر اس کی دیت ہے۔ اور کسی غلام کے لیے نہیں کہ وہ اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی مسلمان کو اپنا ولاء دے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/العتق ۴ (۱۵۰۷)، (تحفة الأشراف: ۲۸۲۳)، مسند احمد (۳/۳۲۱، ۳۴۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے اپنا مالک کہے اور اپنے کو اس کی طرف منسوب کرے، اور مرنے کے بعد اپنی ولاء کی وراثت اسی کے نام کر دے۔
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ قَبْلَ ذَلِكَ فَهُوَ ضَامِنٌ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو علاج معالجہ کرے، اور اس سے پہلے اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ طبیب ہے، تو (کسی گڑبڑی کے وقت) وہ ضامن ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۵ (۴۵۸۶)، سنن ابن ماجہ/الطب ۱۶ (۳۴۶۶)، (تحفة الأشراف: ۸۷۴۶) (حسن)
أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَن جَدِّه مِثْلَهُ سَوَاءً.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبْجَرَ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي، فَقَالَ: "مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟"، قَالَ: ابْنِي، أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: "أَمَا إِنَّكَ لَا تَجْنِي عَلَيْهِ وَلَا يَجْنِي عَلَيْكَ".
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: "یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟" اس نے کہا: یہ میرا بیٹا ہے، میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا قصور اس پر نہیں اور اس کا قصور تم پر نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات۲(۴۲۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۳۷)، مسند احمد (۴/۱۶۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی تم دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے جرم میں ماخوذ نہیں کیا جائے گا۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْثَعْلَبَةَ بْنِ زَهْدَمٍ الْيَرْبُوعِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فِي أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ قَتَلُوا فُلَانًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَتَفَ بِصَوْتِهِ: "أَلَا لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى الْأُخْرَى".
ثعلبہ بن زہدم یربوعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے کچھ لوگوں کو خطاب کر رہے تھے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بنی ثعلبہ بن یربوع کے بیٹے ہیں، انہوں نے فلاں کو جاہلیت میں قتل کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور آپ کی آواز بہت بلند تھی: سنو! کسی جان کا قصور کسی دوسری جان پر نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۰۷۲)، مسند احمد (۴/۶۴-۶۵ و۵/۳۷۷)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۸۳۷-۴۸۴۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ زَهْدَمٍ، قَالَ: انْتَهَى قَوْمٌ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ قَتَلُوا فُلَانًا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى".
ثعلبہ بن زہدم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی ثعلبہ کے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ خطبہ دے رہے تھے، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! یہ ثعلبہ بن یربوع کے بیٹے ہیں، انہوں نے صحابہ رسول میں سے فلاں کو جاہلیت میں قتل کیا تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی نفس کا قصور کسی دوسرے پر نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ هِلَالٍ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ: أَنَّ نَاسًا مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ قَتَلُوا فُلَانًا، رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى".
بنی ثعلبہ بن یربوع کے ایک شخص سے روایت ہے کہ بنی ثعلبہ کے کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بنی ثعلبہ بن یربوع ہیں، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے فلاں کو قتل کیا تھا، آپ نے فرمایا: "کسی نفس کا قصور کسی دوسرے نفس پر نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۳۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ: أَنَّ نَاسًا مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ أَصَابُوا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ قَتَلَتْ فُلَانًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى"، قَالَ شُعْبَةُ: أَيْ لَا يُؤْخَذُ أَحَدٌ بِأَحَدٍ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
اسود بن ہلال (انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد پایا تھا) بنی ثعلبہ بن یربوع کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ بنو ثعلبہ کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ تو ایک صحابی رسول نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بنی ثعلبہ ہیں، جنہوں نے فلاں کو قتل کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی نفس کا قصور کسی دوسرے پر نہیں ہو گا"۔ شعبہ کہتے ہیں: یعنی کسی کے بدلے کسی اور سے مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۳۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ الَّذِينَ أَصَابُوا فُلَانًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَعْنِي لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى نَفْسٍ".
بنی ثعلبہ بن یربوع کے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ گفتگو فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بنی ثعلبہ بن یربوع ہیں جنہوں نے فلاں کو قتل کیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، یعنی کسی کا قصور کسی پر نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۳۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَقَامَ إِلَيْهِ نَاسٌ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو فُلَانٍ الَّذِينَ قَتَلُوا فُلَانًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى".
بنی یربوع کے ایک شخص کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے، کچھ لوگوں نے آپ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! یہ بنی فلاں ہیں جنہوں نے فلاں کو قتل کیا تھا، تو آپ نے فرمایا: "کسی نفس پر کسی کا قصور نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۳۷ (صحیح)
أخبرنا يوسف بن عيسى قال أنبأنا الفضل بن موسى قال أنبأنا يزيد وهو بن زياد بن أبي الجعد عن جامع بن شداد عن طارق المحاربي أن رجلا قال: يا رسول الله هؤلاء بنو ثعلبة الذين قتلوا فلانا في الجاهلية فخذ لنا بثأرنا فرفع يديه حتى رأيت بياض إبطيه وهو يقول لا تجني أم على ولد مرتين
طارق محاربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بنو ثعلبہ ہیں جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں فلاں کو قتل کیا تھا، لہٰذا آپ ہمارا بدلہ دلائیے، تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی، آپ فرما رہے تھے: "کسی ماں کا قصور کسی بیٹے پر نہیں ہو گا" ایسا آپ نے دو مرتبہ کہا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۴۹۸۹)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۶ (۲۶۷۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَائِذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَضَى فِي الْعَيْنِ الْعَوْرَاءِ السَّادَّةِ لِمَكَانِهَا إِذَا طُمِسَتْ بِثُلُثِ دِيَتِهَا، وَفِي الْيَدِ الشَّلَّاءِ إِذَا قُطِعَتْ بِثُلُثِ دِيَتِهَا، وَفِي السِّنِّ السَّوْدَاءِ إِذَا نُزِعَتْ بِثُلُثِ دِيَتِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنکھ کے بارے میں جس سے نظر نہ آتا ہو اور وہ اپنی جگہ پر ہو پھر اگر کوئی اسے پھوڑ دے یا نکال دے تو صحیح سالم آنکھ کی تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا، اور شل ہاتھ جب کاٹ دیا جائے تو اس میں صحیح سالم ہاتھ کی دیت کے تہائی کا، اور کالے دانت میں جب وہ اکھاڑ دیا جائے تو صحیح سالم دانت کی تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۰ (۴۵۶۷)، (تحفة الأشراف: ۸۷۷۰) (حسن)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي الْأَسْنَانِ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دانتوں میں ہر ایک کی دیت پانچ اونٹ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۰ (۴۵۶۳)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۵) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْأَسْنَانُ سَوَاءٌ خَمْسًا خَمْسًا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمام دانت برابر ہیں، ہر ایک میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۸۰۵)، مسند احمد (۲/۲۱۵)، سنن الدارمی/الدیات ۱۶ (۲۴۱۷) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انگلیوں میں دیت دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۰ (۴۵۵۶، ۴۵۵۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۸ (۲۶۵۴)، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۰)، مسند احمد (۴/۳۹۷، ۳۹۸)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۸۴۸، ۴۸۴۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ عَشْرًا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انگلیاں برابر برابر ہیں، ہر ایک میں دیت دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَلْخِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ، عَنْحُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ الْأَصَابِعَ سَوَاءٌ عَشْرًا عَشْرًا مِنَ الْإِبِلِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: "انگلیاں سب برابر برابر ہیں، ہر ایک میں دیت دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ لَمَّا وُجِدَ الْكِتَابُ الَّذِي عِنْدَ آلِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ الَّذِي ذَكَرُوا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ لَهُمْ، وَجَدُوا فِيهِ: "وَفِيمَا هُنَالِكَ مِنْ الْأَصَابِعِ عَشْرًا عَشْرًا".
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہیں جب وہ کتاب ملی جو عمرو بن حزم کی اولاد کے پاس تھی، جس کے بارے میں ان لوگوں نے بتایا کہ وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی تو انہوں نے اس میں لکھا ہوا پایا کہ "انگلیوں میں دیت دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۷۲۶)، وانظرأرقام: ۴۸۵۷-۴۸۶۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ، يَعْنِي الْخِنْصَرَ، وَالْإِبْهَامَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ اور یہ دیت میں برابر برابر ہیں"، یعنی انگوٹھا اور چھنگلی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدیات ۲۰ (۶۸۹۵)، سنن ابی داود/الدیات ۲۰ (۴۵۵۸)، سنن الترمذی/الدیات ۴ (۱۳۹۲)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۸ (۲۶۵۲)، (تحفة الأشراف: ۶۱۸۷)، مسند احمد (۱/۳۳۹، ۳۴۵)، سنن الدارمی/الدیات ۱۵ (۲۴۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: انگوٹھا اور چھنگلی دونوں کی دیت برابر :(دس اونٹ ) ہے ان میں بڑائی چھوٹائی کا لحاظ نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: "فَهَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ: الْإِبْهَامُ، وَالْخِنْصَرُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہ اور یہ دیت میں برابر برابر ہیں یعنی انگوٹھا اور چھنگلی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "الْأَصَابِعُ عَشْرٌ عَشْرٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: انگلیاں یعنی ان کی دیت دس دس اونٹ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۲۰۲) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّأَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: "وَفِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا: "انگلیوں میں دیت دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۰ (۴۵۶۲)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۴)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۸ (۲۶۵۳)، مسند احمد (۲/۲۰۷) (حسن، صحیح)
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ، وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ: "الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا اور آپ اپنی پیٹھ کعبے سے ٹیکے ہوئے تھے: "انگلیاں دیت میں برابر برابر ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۶۹۳) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّأَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: "وَفِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کیا تو خطبے میں فرمایا: "ہر اس زخم میں جس میں ہڈی کھل جائے، دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ۲۰ (۴۵۶۶)، سنن الترمذی/الدیات ۳ (۱۳۹۰)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۰)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۹ (۲۶۵۵)، مسند احمد (۲/۱۷۹، ۱۸۹، ۲۰۷، ۲۱۲)، سنن الدارمی/الدیات ۱۶ (۲۴۱۷) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: بشرطیکہ یہ زخم چہرہ اور سر پر ہو، اگر ان کے علاوہ کسی اور جگہ میں ہے تو اس کا حکم دوسرا ہے، اور وہ یہ ہے کہ قاضی یا پنچ اپنی صوابدید سے جو فیصلہ کریں۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ كِتَابًا فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ، وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقُرِئَتْ عَلَى أَهْلِ الْيَمَنِ هَذِهِ نُسْخَتُهَا: "مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، قَيْلِ ذِيِ رُعَيْنٍ وَمَعَافِرَ، وَهَمْدَانَ أَمَّا بَعْدُ، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: "أَنَّ مَنِ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَيِّنَةٍ، فَإِنَّهُ قَوَدٌ إِلَّا أَنْ يَرْضَى أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ، وَأَنَّ فِي النَّفْسِ الدِّيَةَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْأَنْفِ إِذَا أُوعِبَ جَدْعُهُ الدِّيَةُ، وَفِي اللِّسَانِ الدِّيَةُ، وَفِي الشَّفَتَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الْبَيْضَتَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الذَّكَرِ الدِّيَةُ، وَفِي الصُّلْبِ الدِّيَةُ، وَفِي الْعَيْنَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الرِّجْلِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْجَائِفَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمُنَقِّلَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي كُلِّ أُصْبُعٍ مِنْ أَصَابِعِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي السِّنِّ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْمُوضِحَةِ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَأَنَّ الرَّجُلَ يُقْتَلُ بِالْمَرْأَةِ وَعَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفُ دِينَارٍ". خَالَفَهُ مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ.
عمرو بن حزم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے ایک کتاب لکھی، اس میں فرائض و سنن اور دیتوں کا ذکر کیا، وہ کتاب عمرو بن حزم کے ساتھ بھیجی، چنانچہ وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنائی گئی، اس کا مضمون یہ تھا: نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرحبیل بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال اور حارث بن عبد کلال کے نام جو رعین، معافر اور ہمدان کے والی تھے۔ امابعد، اس کتاب میں لکھا تھا: جو بلا وجہ کسی مومن کو مار ڈالے اور اس کا ثبوت ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مقتول کے اولیاء معاف کر دیں، اور ایک جان کی دیت سو اونٹ ہے۔ ناک پوری کٹ جائے تو پوری دیت ہے، اور زبان میں دیت ہے، دونوں ہونٹوں میں دیت ہے، دونوں فوطوں میں دیت ہے، عضو تناسل میں دیت ہے، پیٹھ میں دیت ہے، آنکھوں میں دیت ہے، ایک پاؤں کی دیت آدھی ہے، جو زخم دماغ تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے۔ جو زخم پیٹ تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے، اور جس زخم سے ہڈی سرک جائے اس میں دیت پندرہ اونٹ ہیں۔ اور ہاتھ پاؤں کی ہر انگلی میں دیت دس اونٹ ہیں۔ دانت میں دیت پانچ اونٹ ہیں، اس زخم میں جس سے ہڈی کھل جائے دیت پانچ اونٹ ہیں، اور مرد عورت کے بدلے قتل کیا جائے اور سونا والے لوگوں پر ہزار دینار ہیں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) محم بن بکار بن بلال نے اس سے اختلاف کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۵۰ (ضعیف) (اس کے راوی ’’ سلیمان‘‘ (جو حقیقت میں ’’ابن داود‘‘ نہیں بلکہ ’’ابن ارقم‘‘ ہیں، متروک الحدیث ہیں، صحیح سن دوں سے یہ حدیث زہری سے مرسلاً ہی مروی ہے، بہر حال اس کے اکثر مشمولات کے صحیح شواہد موجود ہیں)
وضاحت: ۱؎: محمد بن بکار نے حکم بن موسیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے یحییٰ سے انہوں نے سلیمان بن ارقم سے روایت کی ہے، اور یہی صحیح ہے۔
أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ مَرْوَانَ بْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ عِمْرَانَ الْعَنْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ، قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ بِكِتَابٍ فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ، وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقُرِئَ عَلَى أَهْلِ الْيَمَنِ هَذِهِ نُسْخَتُهُ فَذَكَرَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: "وَفِي الْعَيْنِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الْيَدِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الرِّجْلِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَهَذَا أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ مُرْسَلًا.
عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھی جس میں فرائض، سنن اور دیات کا ذکر تھا۔ اسے عمرو بن حزم کے ساتھ بھیجا، چنانچہ وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنائی گئی۔ جس کا مضمون یہ تھا۔ پھر انہوں نے اسی طرح بیان کیا، سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا: ایک آنکھ میں دیت آدھی ہے۔ ایک ہاتھ میں آدھی دیت ہے اور ایک پاؤں میں دیت آدھی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ روایت زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ اعلم۔ اور سلیمان بن ارقم متروک الحدیث ہیں، اس حدیث کو یونس نے زہری سے مرسلاً روایت کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۸۵۰ (ضعیف) (سلیمان بن ارقم متروک الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: اور یہی زیادہ صحیح ہے، ان کی روایت آگے آ رہی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَرَأْتُ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَتَبَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حِينَ بَعَثَهُ عَلَى نَجْرَانَ، وَكَانَ الْكِتَابُ عِنْدَ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا بَيَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ وَكَتَبَ الْآيَاتِ مِنْهَا حَتَّى بَلَغَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ سورة المائدة آية 1 - 4"، ثُمَّ كَتَبَ: "هَذَا كِتَابُ الْجِرَاحِ، فِي النَّفْسِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ"، نَحْوَهُ.
محمد بن شہاب زہری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کتاب پڑھی جو آپ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی جب انہیں نجران کا والی بنا کر بھیجا، کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا تھا: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیان ہے: «يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود» "اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو" (المائدہ: ۱) اور اس کے بعد کی آیات لکھیں یہاں تک کہ آپ «إن اللہ سريع الحساب» "اللہ جلد حساب لینے والا ہے" (المائدہ: ۴) تک پہنچے۔ پھر لکھا تھا: یہ زخموں کی کتاب ہے، ایک جان کی دیت سو اونٹ ہیں، پھر آگے اسی طرح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۵۰ (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: جَاءَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَزْمٍ بِكِتَابٍ فِي رُقْعَةٍ مِنْ أَدَمٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا بَيَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ سورة المائدة آية 1"، فَتَلَا مِنْهَا آيَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: "فِي النَّفْسِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْعَيْنِ خَمْسُونَ، وَفِي الْيَدِ خَمْسُونَ، وَفِي الرِّجْلِ خَمْسُونَ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْجَائِفَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمُنَقِّلَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ فَرِيضَةً، وَفِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِي الْأَسْنَانِ خَمْسٌ خَمْسٌ، وَفِي الْمُوضِحَةِ خَمْسٌ".
زہری کہتے ہیں کہ ابوبکر بن حزم میرے پاس ایک تحریر لے آئے جو چمڑے کے ایک ٹکڑے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھی ہوئی تھی: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیان ہے: اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو، پھر انہوں نے اس میں سے بعض آیات تلاوت کیں، پھر کہا: جان میں دیت سو اونٹ ہیں، آنکھ میں پچاس، ہاتھ میں پچاس، پیر میں پچاس، مغز تک پہنچنے والے زخم میں تہائی دیت، پیٹ کے اندر تک پہنچی چوٹ میں تہائی دیت اور ہڈی سرک جانے میں پندرہ اونٹنیاں ہیں۔ انگلیوں میں دس دس، دانتوں میں پانچ پانچ اور اس زخم میں جس میں ہڈی نظر آئے پانچ پانچ اونٹ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۵۰ (ضعیف) (مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے)
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: الْكِتَابُ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فِي الْعُقُولِ: "إِنَّ فِي النَّفْسِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْأَنْفِ إِذَا أُوعِيَ جَدْعًا مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ النَّفْسِ، وَفِي الْجَائِفَةِ مِثْلُهَا، وَفِي الْيَدِ خَمْسُونَ، وَفِي الْعَيْنِ خَمْسُونَ، وَفِي الرِّجْلِ خَمْسُونَ، وَفِي كُلِّ إِصْبَعٍ مِمَّا هُنَالِكَ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي السِّنِّ خَمْسٌ، وَفِي الْمُوضِحَةِ خَمْسٌ".
محمد بن عمرو بن حزم کہتے ہیں کہ وہ تحریر جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے دیتوں کے سلسلے میں لکھی، یہ تھی: جان میں سو اونٹ ہیں، ناک میں جب وہ جڑ سے کاٹ لی گئی ہو، سو اونٹ ہیں، مغز (گودے) تک پہنچنے والے زخم میں جان کی دیت کے اونٹوں کے تہائی ہیں۔ اسی قدر اس زخم میں ہیں جو پیٹ کے اندر تک پہنچ جائے، ہاتھ میں پچاس اونٹ ہیں۔ آنکھ میں پچاس اونٹ ہیں، پیر میں پچاس اونٹ ہیں، اور ہر ایک انگلی میں دس دس اونٹ ہیں۔ دانت میں پانچ اونٹ ہیں، اس زخم میں جس میں ہڈی کھل جائے پانچ اونٹ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۸۵۰ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى بَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقَمَ عَيْنَهُ خُصَاصَةَ الْبَابِ، فَبَصُرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَوَخَّاهُ بِحَدِيدَةٍ أَوْ عُودٍ لِيَفْقَأَ عَيْنَهُ، فَلَمَّا أَنْ بَصُرَ انْقَمَعَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَا إِنَّكَ لَوْ ثَبَتَّ لَفَقَأْتُ عَيْنَكَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آیا تو دراز میں آنکھ لگا کر جھانکنے لگا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو لوہا یا لکڑی لے کر اس کی آنکھ پھوڑنے کا ارادہ کیا، جب اس کی نظر پڑی تو اس نے اپنی آنکھ ہٹا لی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:"اگر تم اپنی آنکھ یہیں رکھتے تو میں تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۲۲)، مسند احمد (۳/۱۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے گھر کے اندر اس طرح جھانکنے والے کی آنکھ اگر گھر والا پھوڑ دے تو اس پر آنکھ پھوڑنے کی دیت واجب نہیں ہو گی۔ نیز دیکھئیے اگلی حدیث۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ مِنْ جُحْرٍ فِي بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِدْرَى يَحُكُّ بِهَا رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَنْظُرُنِي لَطَعَنْتُ بِهِ فِي عَيْنِكَ، إِنَّمَا جُعِلَ الْإِذْنُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک سوراخ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے میں جھانکا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی تھی جس سے اپنا سر کھجا رہے تھے، جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا: "اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے تو میں تیری آنکھ میں یہ لکڑی گھونپ دیتا، نگاہ ہی کے سبب اجازت کا حکم دیا گیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۷۵ (۵۹۲۴)، الاستئذان ۱۱ (۶۲۴۱)، الدیات ۲۳ (۶۹۰۱)، صحیح مسلم/الأدب ۹ (۲۱۵۶)، سنن الترمذی/الاستئذان ۱۷ (۲۷۰۹)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۶)، مسند احمد (۵/۳۳۰، ۳۳۴، ۳۳۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَفَقَئُوا عَيْنَهُ، فَلَا دِيَةَ لَهُ وَلَا قِصَاصَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اجازت کے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے، پھر وہ اس کی آنکھ پھوڑ دے، تو جھانکنے والا نہ دیت لے سکے گا نہ بدلہ"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۲۲۱۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الأدب ۹ (۲۵۶۳)، سنن ابی داود/الأدب ۱۳۶ (۵۱۷۲)، مسند احمد (۲/۲۶۶، ۴۱۴، ۵۲۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَيْكَ بِغَيْرِ إِذْنٍ فَخَذَفْتَهُ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ حَرَجٌ"، وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى: "جُنَاحٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر کوئی بلا اجازت تمہارے یہاں جھانکے پھر تم اسے پتھر پھینک کر مارو اور اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی حرج نہیں ہو گا"۔ اور ایک بار آپ نے فرمایا: "کوئی گناہ نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدیات ۱۵ (۶۹۰۲)، صحیح مسلم/الأدب ۹ (۲۱۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۷۶)، مسند احمد (۲/۲۴۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فَإِذَا بِابْنٍ لِمَرْوَانَ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَدَرَأَهُ فَلَمْ يَرْجِعْ، فَضَرَبَهُ فَخَرَجَ الْغُلَامُ يَبْكِي حَتَّى أَتَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: مَرْوَانُ لِأَبِي سَعِيدٍ: لِمَ ضَرَبْتَ ابْنَ أَخِيكَ ؟. قَالَ: مَا ضَرَبْتُهُ إِنَّمَا ضَرَبْتُ الشَّيْطَانَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ، فَأَرَادَ إِنْسَانٌ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَدْرَؤُهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک مروان کا بیٹا ان کے آگے سے گزر رہا تھا، آپ نے اسے روکا، وہ نہیں لوٹا تو آپ نے اسے مارا، بچہ روتا ہوا نکلا اور مروان کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی، مروان نے ابو سعید خدری سے کہا: آپ نے اپنے بھتیجے کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا: میں نے اسے نہیں، بلکہ شیطان کو مارا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "تم میں سے جب کوئی نماز میں ہو اور کوئی انسان سامنے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے طاقت بھر روکے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لیے کہ وہ شیطان ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۴۱۸۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۰۰ (۵۰۹)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۷۴)، صحیح مسلم/الصلاة۴۸(۵۰۵)، سنن ابی داود/الصلاة۱۰۸(۷۰۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة۳۹(۹۵۴)، موطا امام مالک/السفر ۱۰ (۳۳)، مسند احمد (۳/۳۴)، ۴۳-۴۴، ۴۹، ۶۳ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَفْظًا، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: "لَمْ يَنْسَخْهَا شَيْءٌ"، وَعَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68، قَالَ: "نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے مجھے حکم دیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان دو آیتوں «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» "جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے" (النساء: ۹۳) «والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق» "جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے اور اللہ کی حرام کردہ جانوں کو ناحق قتل نہیں کرتے" (الفرقان: ۶۷)کے متعلق سوال کروں، میں نے اس کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا، اور دوسری آیت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ۱؎
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۰۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس رائے سے متعلق دیکھیں حاشیہ حدیث رقم :(۴۰۰۴ )۔
أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النَّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "اخْتَلَفَ أَهْلُ الْكُوفَةِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93، فَرَحَلْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: "نَزَلَتْ فِي آخِرِ مَا أُنْزِلَتْ، وَمَا نَسَخَهَا شَيْءٌ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اہل کوفہ میں اس آیت: «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» کے بارے میں اختلاف ہو گیا، میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ آیت تو آخر میں اتری ہے، اور یہ کسی (بھی آیت) سے منسوخ نہیں ہوئی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَلْ لِمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا مِنْ تَوْبَةٍ ؟ قَالَ: لَا، وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68، قَال: "هَذِهِ آيَةٌ مَكِّيَّةٌ نَسَخَتْهَا آيَةٌ مَدَنِيَّةٌ: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لیے توبہ ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں انہیں سورۃ الفرقان کی یہ آیت «والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق» پڑھ کر سنائی تو انہوں نے کہا: یہ آیت مکی ہے۔ اسے مدینے کی آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» نے منسوخ کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۰۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَمَّنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا، ثُمَّ تَابَ، وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا، ثُمَّ اهْتَدَى ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "يَجِيءُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا يَقُولُ: سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي ؟"، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا وَمَا نَسَخَهَا.
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا پھر توبہ کی، ایمان لایا، عمل صالح کیا اور ہدایت پائی؟ تو انہوں نے کہا: اس کی توبہ کہاں قبول ہو گی؟ میں نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "مقتول (قیامت کے روز)قاتل کو پکڑ کر لائے گا، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ کہے گا: اے اللہ! اس سے پوچھ، اس نے کس جرم میں مجھے قتل کیا تھا"، پھر ابن عباس نے کہا: یہ حکم اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور اسے منسوخ نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۰۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْكَبَائِرُ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَقَوْلُ الزُّورِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹ بولنا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۱۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا فِرَاسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۰۱۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا، وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بندہ مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرتا، نہ مومن رہتے ہوئے شراب پیتا ہے، نہ مومن رہتے ہوئے چوری کرتا ہے، اور نہ ہی مومن رہتے ہوئے قتل کرتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۶ (۶۷۸۲)، ۲۰ (۶۸۰۹)، (تحفة الأشراف: ۶۱۸۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ اور اس طرح کی احادیث سے ان برے کاموں کی شناعت کا پتہ چلتا ہے، اور یہ وعید والی احادیث ہیں، جس میں اس طرح کے اعمال سے دور رہنے کی دعوت دی گئی ہے، اور یہ کہ اس طرح کا کام کرنے والا ایمانی کیفیت سے دور رہتا ہے، جس کی بنا پر اس طرح کے برے کام میں ملوث ہو جاتا ہے، گویا حدیث میں مومن سے اس طرح کے کاموں میں ملوث ہونے کے حالت میں ایمان چھین لیا جاتا ہے، اور وہ مومن کامل نہیں رہ پاتا، یا یہاں پر ایمان سے مراد شرم و حیاء ہے کہ اس صفت سے نکل جانے کے بعد آدمی یہ برے کام کرتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ حیاء ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مومن سے مراد وہ مومن ہے جو عذاب سے کلی طور پر مامون ہو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن سے اس حالت میں ایمان کی نفی کا معنی نہی اور ممانعت ہے، یعنی کسی شخص کا حالت ایمان میں زنا کرنا مناسب نہیں ہے۔