قسم کی تین قسمیں ہیں۔ ١ غموس۔ ٢ لغو۔ ٣ منعقدہ۔
غموس اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر جھوٹی قسم کھائی جائے، مثلاً یوں کہا جائے خدا کی قسم میں نے یہ کام کیا تھا حالانکہ واقعتاً وہ کام نہیں کیا تھا یا یوں کہا جائے خدا کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا تھا حالانکہ واقعتاً وہ کام کیا گیا تھا ! اسی طرح مثلاً زید نے یہ کہا کہ خدا کی قسم ! خالد کے ذمہ میرے ہزار روپے ہیں۔ یاخدا کی قسم ! میرے ذمہ خالد کے ہزار روپے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں خالد کے ذمہ اس کے ہزار روپے نہیں ہیں یا اس کے ذمہ خالد کے ہزار روپے ہیں۔
غموس کا حکم یہ ہے کہ اس طرح جھوٹی قسم کھانے والا شخص گنہگار ہوتا ہے۔ لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہوتا البتہ توبہ و استغفار ضروری ہوتا ہے
لغو اس قسم کو کہتے ہیں کہ جو کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر کھائی جائے اور قسم کھانے والے کو یہ گمان ہو کہ وہ اسی طرح ہے جس طرح میں کہہ رہا ہوں لیکن واقعہ کے اعتبار سے وہ بات اس طرح نہ ہو جس طرح وہ کہہ رہا ہے۔ مثلاًکوئی شخص یوں کہے کہ واللہ ! یہ کام میں نے نہیں کیا تھا حالا نکہ اس شخص نے یہ کام کیا تھا مگر اس کو یہی گمان ہے کہ میں نے کام نہیں کیا ہے ! یا اس شخص نے دور سے کسی شخص کو دیکھا اور کہا کہ خدا کی قسم ! یہ زید ہے حالانکہ وہ زید نہیں تھا۔ بلکہ خالد تھا لیکن ! یہ قسم اس شخص نے یہی گمان کر کے کھائی تھی کہ وہ زید ہے۔ قسم کی اس نوعیت کا حکم یہ ہے کہ اس طرح کھانے والے کے بارے میں امید یہی ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہو گا۔
منعقدہ اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی آئندہ کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم کھائی جائے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم کے خلاف کیا جائے گا تو کفارہ واجب ہو گا۔ مثلاً زید نے یوں کہا کہ ! خدا کی قسم، میں آنے والی کل میں خالد کو سو روپے دوں گا۔ اب اگر اس نے آنے والی کل میں خالد کو سو روپے نہیں دیئے تو اس پر قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہو گا۔ منعقدہ قسم کی بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے فرائض کے کرنے یا گناہ کو ترک کرنے کی قسم کھائی جائے، مثلاً یوں کہا جائے کہ خدا کی قسم ! میں ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ یا۔ خدا کی قسم ! میں زنا کرنا چھوڑ دوں گا ان صورتوں میں قسم کو پورا کرنا واجب ہے۔
بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کو پورا نہ کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے کوئی نادان کسی گناہ کو کر لے یا کسی واجب پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائے تو اس قسم کو توڑنا ہی واجب ہے۔ اسی طرح منعقدہ قسم کی بعض صورتوں میں قسم کو توڑنا واجب تو نہیں ہوتا مگر بہتر ہوتا ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ خدا کی قسم ! میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا تو اس قسم کو پورا نہ کرنا بہتر ہے ان کے علاوہ اور صورتوں میں محافظت قسم کے پیش نظر قسم کو پورا کرنا افضل ہے۔
وجوب کفارہ کے سلسلے میں یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ منعقدہ قسم توڑنے پر بہر صورت کفارہ واجب ہوتا ہے۔ قسم خواہ قصداً کھائی گئی ہو اور خواہ قسم کھانے والے کو قسم کھانے پر یا قسم توڑنے پر زبردستی مجبور کیا گیا ہو۔
قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ بردہ کو آزاد کیا جائے، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں ان شرائط واحکام کو سامنے رکھا جائے جو کفارہ ظہار میں بردہ کو آزاد کرنے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں منقول ہیں اور یا دس مسکینوں کو پہننے کا کپڑا دیا جائے اور ان میں سے ہر ایک کو ایسا کپڑا دیا جائے جس سے بدن کا اکثر حصہ چھپ جائے، لہٰذا اگر صرف پاجامہ دیا جائے گا تو یہ کافی نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی شخص ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت پر بھی قادر نہ ہو یعنی نہ تو بردہ آزاد کر سکتا ہو، نہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو، اور نہ دس مسکینوں کو لباس دے سکتا ہو تو پھر وہ تین روزے پے درپے رکھے۔
قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دے دینا جائز ہے، کافر کی قسم میں کفارہ واجب نہیں ہوتا اگرچہ وہ حالت اسلام میں اس قسم کو توڑے۔ اسی طرح چونکہ بچے، سوئے ہوئے شخص اور دیوانے کی قسم، سرے سے صحیح ہی نہیں ہوتی اس لئے ان پر قسم توڑنے کا کفارہ بھی واجب نہیں ہوتا۔
عربی میں قسم کے لئے تین حروف ہیں۔ ١ و۔ ٢ب ٣ت مثلاً یوں کہا جائے واللہ یا باللہ یا تاللہ ان تینوں کا مفہوم یہ ہے۔
میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، عربی زبان و اسلوب کے مطابق بسا اوقات یہ حروف مقدر ہو تے ہیں یعنی لفظوں میں تو ان کا ذکر نہیں ہوتا لیکن حقیقت میں ان کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ جیسے یوں کہا جائے اللہ افعلہ۔ یہ معنی مفہوم کے اعتبار سے واللہ افعلہ ہے۔
قسم باری تعالیٰ کی اسم ذات اللہ کے ساتھ یا اس کے دوسرے ناموں میں سے کسی اور نام مثلاً۔ رحمٰن، رحیم اور حق وغیرہ کے ساتھ کھائی جاتی ہے اور ان ناموں میں سے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اگر ایسے ناموں کے ساتھ قسم کھائی جائے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی ذات کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے علیم و حکیم وغیرہ تو ان میں نیت کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان صفات کے ساتھ قسم کھانا بھی صحیح ہے جن کے ساتھ عام طور پر قسم کھانے کا رواج ہو جیسے اللہ کی عزت و جلال کی قسم ! اللہ کی بڑائی و بزرگی کی قسم اور اللہ کی عظمت و قدرت کی قسم ! ہاں ان صفات کے ساتھ قسم کھانا صحیح نہیں ہوتا۔ جن کے ساتھ قسم کھانے کا عام طور پر رواج نہ ہو، جیسے رحمت، علم، رضا، غضب اور عذاب۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے جیسے باپ اور دادا کی قسم، قرآن کی قسم، انبیاء کی قسم، ملائکہ کی قسم کعبہ کی قسم، نماز روزہ کی قسم، مسجد حرام اور زم زم کی قسم اور دیگر تمام شعائر کی قسم یا اسی طرح بعض لوگ اس طرح قسم کھاتے ہیں اپنی جوانی کی قسم، اپنے سر کی قسم، تمہاری جان کی قسم، تمہاری قسم اپنے اولاد کی قسم، یہ سب ناجائز ہے، لیکن اگر اس طرح کی کوئی قسم کھائی جائے اور پھر اس کے خلاف کیا جائے تو قسم توڑنے کا کفارہ دینا پڑے گا۔
عربی میں لعمر اللہ قسم ہے، اسی طرح سوگند خدا یا خدا کی سوگند کھاتا ہوں بھی قسم ہے، نیز عبداللہ میثاق اللہ قسم کھاتا ہوں، حلف کرتا ہوں اور اشہد (اگرچہ اس کے ساتھ لفظ اللہ ذکر نہ کیا جائے) یہ سب بھی قسمیں ہیں۔
اسی طرح کہنا مجھ پر نذر ہے یا مجھ پر یمین ہے یا مجھ پر عہد ہے (اگرچہ اس کی اضافت اللہ کی طرف نہ کرے) بھی قسم ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہو جاؤں یا یہودی ہو جاؤں یا عیسائی ہو جاؤں یا یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو میں اللہ تعالیٰ سے بری ہوں تو اس طرح کہنے سے بھی قسم ہو جاتی ہے، اس کے خلاف کرنے سے قسم توڑنے کا حکم ثابت ہو جاتا ہے لیکن اپنے کہنے کے مطابق وہ کافر یا یہودی یا عیسائی نہیں ہو جاتا۔ خواہ اس فلاں کام کا تعلق گزشتہ زمانہ سے ہو یا آئندہ زمانہ سے، بشرطیکہ اسے یہ علم ہو کہ اس طرح کہنا قسم ہے، ہاں اگر اس طرح کہتے وقت اس کے ذہن میں قسم کا تصور نہ ہو بلکہ واقعتاً کفر ہی کا تصور رکھتا ہو پھر اس صورت میں اس وجہ سے کہ اس نے خود کفر کو اختیار کیا ہے وہ کافر ہو جائے گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو اس پر اللہ کا غضب ٹوٹے یا اس پر اللہ کی لعنت ہو یا یوں کہے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو وہ زانی ہے، یا چور ہے، یا شرابی ہے، یا سود خور ہے، تو اس کو قسم نہیں کہیں گے، اسی طرح یہ کہنا حقاً یا وحق اللہ بھی قسم نہیں ہے، لیکن اس میں حضرت امام ابو یوسف کا اختلافی قول ہے۔
اسی طرح کہنا کہ میں خدا کی سوگند کھاؤں یا۔ بیوی پر طلاق کی سوگند کھاؤں بھی قسم نہیں ہے، اگر کوئی شخص اپنی کسی مملوکہ چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو وہ چیز اس پر حرام نہیں ہو جاتی۔ لیکن اس کو استعمال کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے اپنے اوپر روٹی کو حرام کر لیا ہے، اس طرح کہنے سے روٹی اس پر حرام نہیں ہو جاتی، لیکن اگر وہ اس کے بعد روٹی کھائے گا تو قسم کا کفارہ دینا لازم ہے۔
اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو اس کا اطلاق کھانے پینے کی تمام چیزوں پر ہو گا یعنی اگر وہ کوئی حلال چیز کھائے گا تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہو جائے گا، نیز اس پر فتویٰ ہے کہ اس طرح کہنے سے بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ اس نے اس کی نیت نہ کی ہو، اسی طرح یوں کہنا کہ حلال چیز مجھ پر حرام ہے یا یہ کہنا کہ اپنے دائیں ہاتھ میں جو چیز بھی لوں وہ مجھ پر حرام ہے۔ کا بھی یہی حکم ہے۔
اگر کوئی شخص قسم کے ساتھ لفظ انشاء اللہ بھی ادا کرے تو وہ حانث نہیں ہو گا یعنی چونکہ وہ سرے سے قسم ہی نہیں ہو گی اس لئے اس کے خلاف کرنے سے کفارہ بھی واجب نہیں ہو گا۔
یہ تو قسموں کے بارے میں کچھ تفصیل تھی، اب باب کے دوسرے جزو نذر کے متعلق بھی چند باتیں ذہن نشین کر لیجئے۔
نذر منت کو کہتے ہیں یعنی کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینا جو واجب نہیں تھی مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ اے اللہ ! اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں پانچ روزے رکھوں گا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ نذر ماننا صحیح ہے اور اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے بشرطیکہ وہ نذر کوئی گناہ کی چیز نہ ہو اور اس نذر کا تعلق کسی گناہ کی چیز سے ہو تو حضرت امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک وہ نذر صحیح نہیں ہو گی، اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ نذر صحیح نہیں ہو گی بلکہ ایسی نذر ماننے والے پر قسم کا کفارہ واجب ہو گا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے :
حدیث (لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین)
معصیت کی نذر کا کوئی اعتبار نہیں لیکن اس پر قسم کا کفارہ واجب ہو گا۔
ملتقی میں لکھا ہے کہ جس شخص نے نذر مانی یعنی اس نذر کو کسی شرط کے ساتھ معلق نہیں کیا مثلاً یوں کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھوں گا ۔ یا ایسی نذر مانی جو کسی شرط کے ساتھ متعلق ہو اور وہ شرط بھی ایسی ہو جس کے پورے ہونے کی وہ خواہش و ارادہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں صحت یاب ہو جاؤں تو روزے رکھوں گا۔ اور پھر وہ شرط پوری ہو جائے۔ یعنی وہ صحت یاب ہو جائے تو ان دونوں ہی صورتوں میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری ہو گا، اور اگر اس نے اپنی نذر کو کسی ایسی شرط کے ساتھ متعلق کیا جس کے پورا ہونے کی وہ خواہش نہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں زنا کروں تو مجھ پر غلام آزاد کرنا واجب ہو گا ۔ تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ چاہے تو قسم کا کفارہ دے اور چاہے اس نذر کو پورا کرے یعنی غلام آزاد کرے۔
نذر کے سلسلے میں دیگر مسائل و احکام تفصیل کے ساتھ فقہ کی کتابوں اور فتاویٰ عالمگیری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ان میں دیکھے جا سکتے ہیں البتہ اس موقع پر نذر کے سلسلہ میں بڑی اور اہم فائدے کی بات ذکر کر دینا یقیناً ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی نذر ماننا جائز نہیں ہے، نہ نبی کی، نہ فرشتے کی، نہ اولیاء اللہ کی نہ کسی اور کی۔ مثلاً یوں کہنا کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو مولود پڑھاؤں گا۔ یا۔ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھاؤں گا۔ یا اگر فلاں کام ہو گیا تو مولی مشکل کشا کا روزہ رکھوں گا۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذر ماننا بڑے گناہ کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق نے اپنی کتاب ماتہ مسائل، معتبر و مستند کتابوں کے حوالہ سے جو مفید اور کار آمد باتیں لکھی ہیں ان سب کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
مولانا لکھتے ہیں کہ اس طرح نذر ماننی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نذر ماننے میں چند ایسی شرائط ہیں جو پائی جائیں تو نذر صحیح ہوتی ہے اور اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو پھر نذر صحیح نہیں ہوتی۔ ایک شرط تو یہ ہے کہ جو چیز اپنی طرف سے نذر مانی جائے وہ ایسی ہونی چاہئے جس کی جنس شرعی طور پر واجب ہو (جیسے نماز روزہ وغیرہ) چنانچہ اسی لئے اگر کوئی شخص مریض کی عیادت کرنے کی نذر مانے (یعنی یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں فلاں مریض کی عیادت کروں گا) تو اس کی نذر صحیح نہیں ہو گی کیونکہ مریض کی عیادت ایسی جنس سے ہے جو شرعاً واجب نہیں ہے۔
تیسری شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ فی الحال یا ثانی الحال اس پر واجب نہ ہو جیسے نماز پنجگانہ۔
اور چوتھی شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ خود کوئی گناہ کی چیز نہ ہو۔ ان شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح نذر ماننا کہ فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا، صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی مزار پر روپے یا کھانا پہنچانا کوئی عبادت نہیں ہے، ہاں اگر اس طرح نذر مانی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں فلاں بزرگ کے مزار کے خدام و فقراء کو کھانا کھلاؤں گا تو یہ نذر صحیح ہو گی اور اس کو پورا کرنا لازم ہو گا، لیکن نذر کو پورا کرنے کے لئے اس مزار کے خدام و فقراء کے درمیان تخصیص کرنا ضروری نہیں ہو گا بلکہ جس خادم و فقیر کو بھی کھانا کھلا دے گا تو نذر پوری ہو جائے گی اور اگر یوں کہے کہ اگر میری فلاں حاجت برآئے گی تو میں فلاں بزرگ کے نام پر یا فلاں بزرگ کے واسطے اتنے روپے یا اتنا کھانا دوں گا ناجائز ہے، اس طرح کی نذر نہ صرف یہ کہ باطل ولغو ہے، بلکہ اس نذر کا روپیہ یا کھانا استعمال کرنا حرام بھی ہے اس مسئلہ کو بحر الرائق میں تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے۔
اور جہاں تک نذر کا سوال ہے تو جیسا کہ مشاہدہ ہے، عام طور پر (جاہل) لوگ اس طرح نذر مانتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا (کوئی عزیز) غائب ہو جاتا ہے، یا بیمار ہو جاتا ہے اور یا اس کی ضروری مراد ہوتی ہے تو وہ کسی بزرگ کے مزار پر آتا ہے اور اس کا پردہ اپنے سر پر ڈال کر (یا قبر کی) چادر پکڑ کر یوں کہتا ہے کہ اے میرے فلاں سردار ! اگر میرا وہ عزیز جو غائب ہو گیا ہے واپس ہو گیا، یا اس کو مرض سے صحت یابی ہو گئی اور یا میری فلاں مراد پوری ہو گئی تو میں آپ کے مزار پر اس قدر سونا چڑھاؤں گا یا اس قدر چاندی چڑھاؤں گا، یا اس قدر کھانا چڑھاؤں گا، یا اس قدر پانی چڑھاؤں گا، یا اس قدر شمع یا زیت (یعنی تیل (چڑھاؤں گا تو اس طرح نذر ماننا تمام علماء کے نزدیک باطل ہے اور اس کے باطل ہونے کے کئی سبب ہیں، اول تو یہ مخلوق (یعنی غیر اللہ) کی نذر ہے اور غیراللہ کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر (دراصل عبادت ہے) اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے، دوم یہ کہ جس کے نام کی (یعنی صاحب مزار) کی نذر مانی گئی ہے وہ ایک بے جان ہے اور بے جان مالک نہیں ہوتا۔ سوم یہ کہ اگر (اسطرح نذر ماننے کے وقت) یہ گمان کیا تھا کہ اللہ کے علاوہ یہ میت (یعنی صاحب مزار) بھی بندوں کے معاملات میں تصرف کرتا ہے تو ایسا اعتقاد کرنا کفر ہے۔ لہٰذا اے اللہ (اس بات کی ہدایت دے کہ) اس طرح نذر ماننے کی بجائے یوں نذر مانی جائے کہ اے خدا میں تیری نذر مانتا ہوں کہ اگر تو میرے بیمار کو شفاء بخشے گا۔ یا میرے غائب عزیز کو واپس کرا دے گا، یا میری مراد کو پوری کرے گا تو میں (مثلاً) ان فقراء وخدام کو کھانا کھلاؤں گا، جو بی بی نفیسہ کے دروازے (یعنی مزار) پر ہیں، یا ان فقراء وخدام کو کھانا کھلاؤں گا جو حضرت امام شافعی یا حضرت امام ابو اللیث کے دروازے (یعنی مزار) پر ہیں یا میں ان کی مسجدوں کے لئے بوریے یا ان کی مسجدوں کی روشنی کے لئے تیل خریدوں گا، یا میں ان لوگوں کو روپے دوں گا، جو ان بزرگوں کی مسجدوں کے شعائر قائم رکھتے ہیں (یعنی موذن اور ائمہ (یا ان کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز کا ذکر کرے جس میں فقراء ومساکین کا نفع ہو۔ لہٰذا اس طرح نذر ماننے میں نذر تو دراصل اللہ عزوجل کے لئے ہو گی اور بزرگ کا ذکر کرنا محض نذر کے مصرف کو بیان کرنے کے پیش نظر ہو گا اور وہ مصرف نذر کے وہ مستحقین ہیں جو ان بزرگ کی خانقاہ یا ان کی مسجد اور یا ان کی جامع مسجد میں رہتے ہیں پس اس طرح نذر ماننی درست ہے، کیونکہ نذر کے مصرف فقراء ہی ہیں اور وہ مصرف یہاں پایا گیا، نیز نذر کی ہوئی چیز کو مستطیع (غیر محتاج) پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ کسی شریف النسب پر خرچ کرنا جائز ہے کیونکہ جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو اس کے لئے نذر کی ہوئی چیز کا لینا درست نہیں ہے، اور نہ کسی منصب والے پر خرچ کرنا جائز ہے اس کے منصب کی وجہ سے جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو، اور نہ کسی اہل علم پر خرچ کرنا جائز ہے، اس کے علم کی وجہ سے جب تک کہ وہ مستحق نہ ہو۔ اور شریعت میں نذر کی ہوئی چیز کا مستطیع لوگوں پر خرچ کر نے کا جواز ثابت نہیں ہے، نیز اس بات پر علماء امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مخلوق کی نذر ماننا حرام ہے، اور اگر کوئی شخص کسی مخلوق (یعنی بزرگ) کی نذر مانے تو وہ نذر صحیح نہیں ہوتی اور نہ اس نذر کو پورا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے اور وہ نذر نہ صرف حرام بلکہ رشوت کے حکم میں ہے لہٰذا اس بزرگ کے خادم اور مجاور کے لئے اس نذر کا لینا اس کا کھانا اور اس میں کسی طرح کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کوئی خادم یا مجاور محتاج ہو اور اپنے ان نادار بچوں کا کفیل ہو جو کمانے سے معذور ہوں اور وہ حالت اضطرار میں ہوں تو ان کو اس نذر کا مال ابتدائی صدقہ کے طور پر لینا جائز ہے لیکن اس صورت میں بھی اس مال کو اس وقت تک لینا مکروہ ہو گا جب کہ نذر کرنے والے کی نیت اس بزرگ کی نذر سے قطع نظر تقرب الی اللہ اور فقراء پر خرچ کرنے کی نہ ہو ! پس جب کہ تمہیں یہ تفصیل معلوم ہو گئی تو (جان لو) کہ اولیاء اللہ کے تقرب کی نیت سے جو روپے پیسے اور موم بتی وتیل وغیرہ ان کی قبروں پر چڑھایا جاتا ہے وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے جب تک کہ نذر کرنے والا اس کو فقیروں پر خرچ کرنے کی نیت نہ کرے۔ (النہر الفائق)۔ اور الدر مختار میں بھی اسی طرح منقول ہے۔
حضرت مولانا محمد اسحاق کے مذکورہ منقولات کے علاوہ اس سلسلہ میں مولانا رشید الدین خان مرحوم نے ایک سوال کا جو جواب لکھا ہے۔ وہ بھی اس قابل ہے کہ اس کو مع سوال کہ یہاں نقل کر دیا جائے۔
سوال : جو کھانا بزرگوں کی نذر ونیاز کے طور پر مانا جاتا ہے اس کو کھانا اور اس طرح (یعنی بزرگوں کی نذر ماننا اور ان کی نیاز کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو کس طرح ؟ نیز بعض نذر بشرط حاجت براری مانی جاتی ہے اور بعض نذر بلاشرط مانی جاتی ہے ان دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں ؟
جواب : شریعت میں نذر کا مفہوم ہے اپنے اوپر کسی غیر واجب کو واجب کر لینا، چنانچہ جامع الرموز میں لکھا ہے کہ :
(النذر ایجاب علی النفس ما لیس علیھا بالقبول۔)
کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینے کو نذر کہتے ہیں جس پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں تھا۔
اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت کریمہ (او نذرتم من نذر) کی تفسیر کے تحت فرمایا ہے کہ :
(النذر ما الزمہ الانسان علی نفسہ)۔
نذر وہ ہے جس کو انسان اپنے اوپر لازم کرے۔
نذر کی مختصر توضیح تو یہ ہے اور اس کی تفصیل فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
نیاز فارسی کا لفظ ہے جس کے کتنے ہی معنی ہیں ان میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں تحفہ درویشاں و کذا فی البرہان القاطع ان دونوں لفظوں یعنی نذر ونیاز کے ان لغوی اور اصطلاحی معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا شرعی حکم ماننا چاہئے کے نذر خدا کے علاوہ اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص غیراللہ کی نذر مانے تو وہ صحیح نہیں ہو گی، نیز ایسی نذر کی چیز کو لینا یا کھانا صحیح ومستند فقہی روایات کے بموجب قطعاً ناروا ہے یہ تو نذر کا حکم ہے اب رہا نیاز کا معاملہ تو جیسا کہ معلوم ہوا لفظ نیاز کے معنی ہیں، تحفہ درویشاں اور وہ بر و صلہ ہے (یعنی بخشش و ہدیہ ہے) لہٰذا اگر کوئی شخص کسی زندہ بزرگ کی خدمت میں کوئی چیز بطریق نیاز یعنی عطاء و ھدیہ اور تحفہ کے طور پر پیش کرے تو وہ نیاز جائز ہے اور اس بزرگ کو وہ چیز کھانا یا استعمال کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی مرحوم بزرگ کی نیاز یعنی فاتحہ وایصال ثواب کی جائے تو یہ نیاز بھی جائز ہے لیکن اس نیاز کی چیز کو کھانے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگر نیاز دینے والے نے وفات پائے ہوئے بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کو کھانا صرف فقراء کے لئے جائز ہے مستطیع لوگوں کے لئے جائز نہیں ہے، اگر نیاز دینے والے نے مسلمانوں کے حق میں اباحت ماکولی کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس صورت میں اس چیز کو کھانا ہر بھوکے کے لئے جائز ہے خواہ وہ فقیر ہو یا مستطیع ہو۔ حاصل یہ ہے کہ کسی بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے یا حاجت براری کی شرط کے ساتھ اس بزرگ کی جو نذر مانی جاتی ہے وہ منقولات بالا کی روشنی میں ناجائز ہے اور اس نذر کی چیز کو کھانا یا استعمال کرنا ناروا ہے۔ ہاں جس نذر کا تعلق نہ تو بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے اور نہ وہ کسی حاجت براری کے ساتھ مشروط ہوتی ہے بلکہ پہلے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ کی جاتی ہے اور پھر اس بزرگ کو پہنچایا جاتا ہے تو اس چیز کو کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے تو جائز نہیں ہے بشرطیکہ نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو اور اگر نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو اباحت ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کا کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے بھی جائز ہے اور فقراء کے لئے بھی جائز ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسی طرح نیاز کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ بزرگوں کی نیاز اگر محض ایصال ثواب کے طور پر ہو تو جائز ہے اور ان کا تقرب یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کسی چیز کو ان کے نام پر اپنے اوپر واجب کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ اس چیز کو اپنے اوپر واجب کرنا کسی حاجت براری کے ساتھ معلق ہو اور خواہ اسکے بغیر ہو، کیونکہ یہ نذر ہے اور نذر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا واضح ہو کہ خواہ حاجت براری کے ساتھ معلق کر کے اور خواہ اس کے بغیر کسی چیز کو اپنے اوپر خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر واجب کرنا دونوں ہی صورتوں میں ناجائز ہے۔ ہاں بزرگوں کی نیاز اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے کسی بزرگ کا تقرب یا حاجت براری کی نیت نہ ہو بلکہ اس کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور اس کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانا ہو اور نیاز کی ہوئی چیز کو مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں کھانا اور استعمال کرنا جائز ہے۔
دلیل الضالین میں لکھا ہے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے اور کسی کے لئے نہیں ہوتی، لہٰذا اگر کسی شخص نے انبیاء میں سے کسی نبی یا اولیاء میں سے کسی ولی کی نذر مانی تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا یعنی اس نذر کو پورا کرنا اس شخص پر لازم نہیں ہوتا، نیز اگر وہ شخص اس نذر کی چیز کو اپنی اسی نیت کے ساتھ کسی آدمی کو دے دے تو اس آدمی کو وہ چیز لینا جائز ہے اگر وہ کھانے کی کوئی چیز ہو تو اس کو کھانا حلال نہیں ہے اور اگر وہ چیز کوئی ذبح کیا ہوا جانور ہو تو وہ مردار کے حکم میں ہے بلکہ اگر لوگ اس کو بسم اللہ کر کے کھائیں تو سب کافر ہو جائیں گے، ہاں اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانے اور پھر نذر کی ہوئی چیز کو لوگ کھائیں اور اس کا ثواب کسی میت کا بخشیں تو یہ جائز ہے۔
٭٭ اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اس طرح قسم کھایا کرتے تھے قسم ہے دلوں کو پھیرنے والے کی۔ (بخاری)
تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھانا جائز ہے۔
اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم کھاؤ ! جس شخص کو قسم کھانا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ (کے نام یا اس کی صفات) کی قسم کھائے یا چپ رہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
باپ کی قسم کھانے سے منع کرنا مثال کے طور پر ہے، اصل مقصد تو یہ ہدایت دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم نہ کھایا کرو۔ بطور خاص باپ کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ باپ کی قسم بہت کھاتے ہیں !نیز عبداللہ کی قسم کھانے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال عظمت و جلالت کے سبب چونکہ قسم اسی ذات کے ساتھ مختص ہے، اس لئے کسی غیر اللہ کو اللہ کے مشابہ نہ قرار دیا جائے، چنانچہ حضرت ابن عباس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کر تے تھے کہ میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاؤں اور پھر اس کو توڑ ڈالوں، اس کو اس سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کسی غیر اللہ کی قسم کھاؤں اور اس کو پورا کروں۔ ہاں جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا سوال ہے تو اس کو سزاوار ہے کہ وہ اپنی عظمت و جلالت کے اظہار کے لئے اپنی مخلوقات میں سے جس کی چاہے قسم کھائے۔
اس حدیث کے ضمن میں ایک اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یوں منقول ہوا ہے (افلح وابیہ) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باپ کی قسم کھائی جب کہ یہ حدیث اس کے سراسر خلاف ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا باپ کی قسم کھانا اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہو گا۔ اس صورت میں دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا، یا پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ باپ کی قسم قصداً نہ کھائی ہو گی بلکہ قسم کہ یہ الفاظ قدیم عادت کی بناء پر اضطراراً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے نکل گئے ہوں گے۔
٭٭ اور حضرت عبد الرحمٰن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ بتوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ۔ (مسلم)
تشریح
ایام جاہلیت میں عام طور پر لوگ بتوں اور باپوں کی قسم کھایا کرتے تھے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو قبولیت اسلام کے بعد اس سے منع فرمایا تاکہ وہ اس بارے میں احتیاط رکھیں اور قدیم عادت کی بنا پر اس طرح کی قسمیں ان کی زبان پر نہ چڑھیں۔
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص قسم کھائے اور اپنی قسم میں یہ الفاظ ادا کرے میں لات و عزیٰ کی قسم کھاتا ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ لاالہ الااللہ کہے۔ اور جو شخص اپنے کسی دوست سے یہ کہے کہ آؤ ہم دونوں جوا کھیلیں تو اس کو چاہئے کہ وہ صدقہ و خیرات کرے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
وہ لا الہ الاّ اللہ کہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے۔ اس حکم کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر لات و عزیٰ کے نام کسی نو مسلم کی زبان سے سہواً نکل جائیں تو اس کے کفارہ کے طور پر کلمہ پڑھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
آیت (فان الحسنات یذھبن السیاٰت۔)
بلا شبہ نیکیاں، برائیوں کو دور کر دیتیں ہیں۔
پس اس صورت میں غفلت و سہو سے توبہ ہو جائے گی۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کی زبان سے لات و عزیٰ کے نام ان بتوں کی تعظیم کے قصد سے نکلے ہوں گے تو یہ صراحتاً ارتداد اور کفر ہے لہٰذا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ تجدید ایمان کے لئے کلمہ پڑھے اس صورت میں معصیت سے توبہ ہو گی۔
صدقہ و خیرات کرے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دوست کو جوا کھیلنے کی دعوت دے کر چونکہ ایک بڑی برائی کی ترغیب دی ہے، لہٰذا اس کے کفارہ کے طور پر وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس نے جس مال کے ذریعہ جوا کھیلنے کا ارادہ کیا تھا اسی مال کو صدقہ و خیرات کر دے ! اس سے معلوم ہوا کہ جب محض جوا کھیلنے کی دعوت دینے کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کرنے چاہیے تو یہ شخص واقعتاً کھیلے گا تو اس کا کیا حشر ہو گا۔
اور حضرت ثابت ابن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اسلام کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا کہ اس نے کہا، اور کسی انسان پر اس چیز کی نذر پوری کرنا واجب نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو اور جس شخص نے (دنیا میں) اپنے آپ کو کسی چیز (مثلاًچھری وغیرہ) سے ہلاک کر لیا تو وہ قیامت کے دن اسی چیز کے عذاب میں مبتلاء کیا جائے گا (یعنی اگر کسی شخص نے چھری گھونپ کر خود کشی کر لی تو قیامت میں اس کے ہاتھ میں وہی چھری دی جائے گی جس کو وہ اپنے جسم میں گھونپتا رہے گا اور جب تک کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نجات کا حکم نہ ہو گا وہ مسلسل اسی عذاب میں مبتلا رہے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو وہ (اصل گناہ کے اعتبار سے) ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا ہو، اور اسی طرح جس شخص نے کسی مسلمان پر کفر کی تہمت لگائی تو گویا اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا (کیو نکہ کفر کی تہمت لگانا اسباب قتل سے ہے لہٰذا کفر کی تہمت قتل کر دینے کی مانند ہے) اور جھوٹا دعوی کرے تا کہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال و دولت میں کمی کر دے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے مثلاً یوں قسم کھائی کہ اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی یا نصرانی ہوں، یا دین اسلام سے یا پیغمبر اسلام سے اور یا قرآن سے بیزار ہوں۔ اور پھر اس نے اس کے برخلاف کیا یعنی قسم کو جھوٹی کر دیا، بایں طور کہ اس نے وہ کام کر لیا جس کے نہ کرنے کی اس نے قسم کھائی تھی تو وہ ایسا ہی یہودی ونصرانی ہو گیا یا دین اسلام یا پیغمبر اسلام یا قرآن سے بیزار ہو گیا کیونکہ قسم دراصل اس کام کو روکنے کے واسطے ہوتی ہے جس کے لئے وہ قسم کھائی گئی ہے۔ لہٰذا قسم کا سچ ہونا تو یہ ہے کہ قسم کھانے والا وہ کام نہ کرے اور اگر وہ اس کام کو کرے گا تو اپنی قسم میں جھوٹا ہو گا تو لا محالہ ویسا ہی ہو گا جیسا کہ اس نے کہا ہے۔
حدیث کے اس ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی قسم کھانے والا محض قسم کھانے کی وجہ سے اس قسم کو توڑنے کے بعد کافر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس طرح کی قسم کھا کر ایک صریح حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس قسم کو جھوٹی کر کے گویا کفر کو برضا ورغبت اختیار کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بتانا ہو کہ اس طرح کی قسم کھانے والا واقعۃً یہودی وغیرہ ہو جاتا ہے بلکہ اس کی مراد بطور تہدید و تنبیہ یہ ظاہر کرنا ہو کہ وہ شخص یہودیوں وغیرہ کی مانند عذاب کا مستوجب ہوتا ہے، چنانچہ اس کی نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (من ترک الصلوۃ فقد کفر) (یعنی جس شخص نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا) اس ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافروں کے عذاب سے مستوجب ہوتا ہے۔ اب ہی یہ بات کہ اس طرح قسم کھانا اگرچہ حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح قسم کھا ہی لے تو کیا شرعی طور پر اس کو قسم کہیں گے اور کیا اس قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہو گا یا نہیں ؟ تو اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور بعض علماء کا قول تو یہ ہے کہ یہ قسم ہے اور اگر اس قسم کو توڑا جائے گا تو اس شخص پر کفارہ واجب ہو گا، ان کو دلیل ہدایہ وغیرہ میں منقول ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس طرح کہنے پر قسم کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی شرعی طور پر اس کو قسم نہیں کہیں گے اور جب یہ قسم ہی نہیں ہے تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہو گا، ہاں اس طرح کہنے والا سخت گناہگار ہو گا خواہ وہ اپنی بات کو پورا کرے یا توڑ ڈالے۔
درمختار میں لکھا ہے کہ (مذکورہ بالا مسئلہ میں) زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کی قسم کھانے والا (اس قسم کے برخلاف عمل کرنے کی صورت میں کافر نہیں ہو جاتا خواہ وہ اس طرح کا تعلق گزرے ہوئے زمانہ سے ہو یا آنے والے زمانہ سے ہو بشرطیکہ وہ اس طرح کہنے کے بارے میں قسم ہی کا اعتقاد رکھتا ہو لیکن اگر وہ اس قسم کے ہونے سے لا علم ہو اور اس اعتقاد کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرے کہ اس طرح کہنے والا اپنی بات کو جھوٹا ہونے کی صورت میں کافر ہو جاتا ہے تو خواہ وہ اس بات کا تعلق گزرے ہوئے زمانہ سے ہو یا آنے والے زمانہ میں کسی شرط کے پورا ہونے کے ساتھ وہ دونوں ہی صورتوں میں کفر کو خود برضا ورغبت اختیار کر نے کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔
اور کسی انسان پر اس چیز کی نذر پوری کرنا واجب نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص یوں کہے اگر میرا فلاں عزیز صحت یاب ہو جائے تو میں فلاں غلام آزاد کر دوں گا جب کہ ہو فلاں غلام درحقیقت اس کی ملکیت میں نہ ہو، تو اس صورت میں اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے، اگر اس کے بعد وہ غلام اس کی ملکیت ہی میں کیوں نہ آ جائے ہاں اگر اس نے آزادی کو ملکیت کے ساتھ مشروط کر دیا یعنی یوں کہا کہ اگر میرا فلاں عزیز صحت یاب ہو گیا اور فلاں غلام میری ملکیت میں آگیا یا فلاں غلام کو میں نے خرید لیا تو میں اس کو آزاد کر دوں گا تو اس صورت میں وہ غلام ملکیت میں آنے کے بعد یا خریداری کے بعد اس نذر کے مطابق آزاد ہو جائے گا۔
تاکہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو یہ اکثر کے اعتبار سے دعویٰ کی علت و سبب کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر لوگ محض اپنے مال و دولت میں اضافہ کی خاطر جھوٹے وعدے کر تے ہیں مذکورہ ثمرہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مال میں کمی کر دیا جانا) مرتب ہو گا۔ جھوٹے وعدے کا مذکورہ ثمرہ محض مال و دولت ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہی ثمرہ ان لوگوں کے حق میں بھی مرتب ہوتا ہے جو اپنے احوال و فضائل اور کمالات کے بارے میں محض اس مقصد سے جھوٹا دعویٰ کر تے ہیں کہ عام انسانوں کی نظروں میں ان کا جاہ و مرتبہ زیادہ سے زیادہ بڑھے جیسا کہ نام نہاد اور بناوٹی صوفیوں اور پیروں کا شیوہ ہے۔
اور حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خدا کی قسم اگر میں کسی چیز پر قسم کھاؤں اور پھر اس قسم کے خلاف کرنے ہی کو بہتر سمجھوں تو میں اپنی قسم توڑ دوں گا اور اس کا کفارہ ادا کر دوں گا اس طرح اس چیز کو اختیار کروں گا جو بہتر ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کام کے بارے میں قسم کھاؤں کہ وہ کام نہ کروں گا مگر پھر سمجھوں کہ اس کام کو کرنا ہی بہتر ہے تو میں قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کروں گا اور اس کام کو کر لوں گا، اس مسئلہ کی مثالیں آگے آنے والی حدیث کی تشریح میں بیان ہونگی۔
٭٭ اور حضرت عبد الرحمٰن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک دن مجھ سے) فرمایا کہ عبد الرحمٰن ! سرداری کی خواہش نہ کرو (یعنی اس بات کی طلب نہ کرو کہ مجھے فلاں جگہ کا حاکم و سردار بنا دیا جائے) کیونکہ اگر تمہاری طلب پر تمہیں سرداری دی جائے گی تو تم اس سرداری کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور اگر بغیر طلب کے کہیں سرداری ملے گی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی، نیز اگر تم کسی بات پر قسم کھاؤ اور پھر دیکھو کہ اس قسم کا خلاف کرنا ہی اس قسم کو پوری کرنے سے بہتر ہے، تو تم اس قسم کا کفارہ دے دو اور وہی کام کرو جو بہتر ہے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس چیز کو عمل میں لاؤ جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
سرداری کی خواہش نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ سرداری وسیاست کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ ایک بہت ہی دشوار اور سخت ذمہ داری کی چیز ہے اس کے فرائض اور حقوق کی ادائیگی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ صرف چند ہی لوگ اس کا بار اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا نفس کی حرص میں مبتلا ہو کر سرداری وسیاست کی خواہش نہ کرو کیونکہ اگر تم اپنی طلب پر سرداری وسیاست پاؤ گے تو پھر تمہیں اسی کے سپرد کر دیا جائے گا بایں معنی کہ اس کے فرائض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر چہار طرف شر و فساد برپا ہوں گے اور تم مخلوق خدا کی نظروں میں بڑی بے آبروئی کے ساتھ اس منصب کے نا اہل قرار دے دیئے جاؤ گے، ہاں اگر بلا طلب تمہیں سرداری وسیاست کے مرتبہ سے نوازا جائے گا تو اس صورت میں حق تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے معاملات انتظام و انصرام درست ہوں گے اور مخلوق خدا کی نظروں میں تمہاری بہت زیادہ عزت و وقعت ہو گی۔
اور وہی کام کرو گے جو بہتر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی گناہ کی بات پر قسم کھاؤ مثلاً یوں کہو کہ خدا کی قسم ! میں نماز نہیں پڑھوں گا۔ یا۔ خدا کی قسم میں فلاں شخص کو جان سے مار ڈالوں گا۔ یا۔ خدا کی قسم میں اپنے باپ سے کلام نہیں کروں گا۔ تو اس صورت میں اس قسم کو توڑ ڈالنا ہی واجب ہو گا اور اس قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہو گا۔ اور اگر کسی ایسی بات پر قسم کھائی جائے جس کے خلاف کرنا، اس سے بہتر ہو مثلاً یوں کہا جائے کہ خدا کی قسم ! میں اپنی بیوی سے ایک مہینہ تک صحبت نہیں کروں گا یا اسی طرح کی کسی اور بات پر قسم کھائی جائے تو اس صورت میں اس قسم کو توڑ دینا محض اولیٰ ہو گا۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل ابتداء باب میں گزر چکی ہے۔
یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت سے تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کر دینا چاہئے۔ جب کہ دوسری روایت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کفارہ قسم توڑنے کے بعد ادا کرنے چاہئے، چنانچہ اس مسئلہ پر تینوں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کر دینا جائز ہے لیکن حضرت امام شافعی کے ہاں یہ جواز اس تفصیل کے ساتھ ہے کہ اگر کفارہ کی ادائیگی روزہ کی صورت میں ہو تو قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہو گا اور اگر کفارہ کی ادائیگی غلام آزاد کرنے، یا مستحقین کو کھانا کھلانے اور یا کپڑا پہنانے کی صورت میں ہو تو پھر قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی جائز ہو گی، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی کسی صورت میں جائز نہیں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جن احادیث سے تقدیم کفارہ مفہوم ہوتا ہے ان میں حرف واو محض جمع کے لئے ہے اس سے تقدیم و تاخیر کا مفہوم مراد نہیں ہے اور نہ حقیقتا وہ احادیث تقدیم و تاخیر پر دلالت کرتی ہیں۔
٭٭ اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھائے اور پھر وہ یہ سمجھے کہ (اس کے خلاف کرنا ہی) قسم پوری کرنے سے بہتر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کفارہ ادا کر دے اور اس کام کو کر لے (یعنی قسم توڑ دے)۔ (مسلم)
٭٭ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خدا کی قسم ! تم میں سے کسی شخص کا اپنی قسم پر اصرار کرنا (یعنی اس قسم کو پوری کرنے ہی کی ضد کرنا) جو اپنے اہل و عیال سے متعلق ہو، اللہ تعالیٰ کے نزیک اس کو زیادہ گناہگار بناتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے جو اس پر فرض کر دیا گیا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر قسم توڑنے میں بظاہر حق تعالیٰ کے نام کی عزت و حرمت کی ہتک ہے اور قسم کھانے والا بھی اس کو اپنے خیال کے مطابق گناہ ہی سمجھتا ہے لیکن اس قسم کو پوری کرنے ہی پر اصرار کرنا جو اہل و عیال کی کسی حق تلفی کا باعث ہوتی ہے زیادہ گناہ کی بات ہے !گویا اس حدیث کا مقصد بھی یہ واضح کرنا ہی کہ قسم کے برخلاف عمل کی بھلائی ظاہر ہونے کی صورت میں قسم کو توڑ دینا اور اس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہاری قسم اس وقت صحیح ہوتی ہے جب تمہارا ساتھی (یعنی قسم دینے والا) تمہیں سچا سمجھے۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ قسم سچی ثابت ہونے کے سلسلے میں اس شخص کی نیت وارادہ کا اعتبار ہو گا جس نے تمہیں قسم دی ہے اس میں قسم کھانے والے کی نہ تو نیت کا اعتبار ہو گا اور نہ اس کے توریہ وتاویل کا اعتبار کیا جائے گا لیکن اس حکم کا تعلق کسی تنازعہ کی اس صورت سے ہے جب کہ، قسم دینے والے کا کوئی حق ومطالبہ قسم کھانے والے پر ہو اور قسم کھانے والے کے توریہ وتاویل سے اس کا حق ساقط ہوتا ہو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں اگر قاضی و حاکم مدعا علیہ کو قسم دلائے تو اس میں قاضی و حاکم کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، ہاں اگر کسی کی حق تلفی کا کوئی معاملہ نہ ہو یا کوئی قسم دینے والا نہ ہو تو پھر توریہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بطور خاص جب کہ اس توریہ کی وجہ سے کسی کا فائدہ ہوتا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ یہ میری دینی بہن ہیں۔
٭٭ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم کا اعتبار، قسم دینے والے کی نیت پر ہوتا ہے۔ (مسلم)
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ یہ آیت (لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ) 2۔ البقرۃ:225) یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرتا۔ اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جو لا واللہ اور بلی واللہ کہتا ہے۔ (بخاری) شرح السنۃ میں یہ روایت بلفظ مصابیح نقل کی گئی ہے، نیز شرح السنۃ میں کہا گیا ہے کہ بعض راویوں نے یہ حدیث حضرت عائشہ سے مرفوعاً نقل کی ہے (یعنی ان راویوں کے مطابق یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے)۔
تشریح
اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ آپس میں گفتگو کرتے وقت بات بات پر یہ کہا کرتے تھے کہ لا واللہ (خدا کی قسم ہم نے یہ کام نہیں کیا) یا اور بلی واللہ (خدا کی قسم ہم نے یہ کام کیا ہے) ان الفاظ سے ان کا مقصود قسم کھانا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنی بات پر زور پیدا کرنے کے لئے یا بطور تکیہ کلام وہ ان الفاظ کو بیان کر تے تھے، چنانچہ اس صورت میں قسم واقع نہیں ہوتی اور اس کو لغو قسم کہتے ہیں۔ حضرت امام شافعی نے اس بات پر عمل کیا ہے، ان کے نزدیک لغو قسم اس قسم کو کہتے ہیں جو بلا قصد زمانہ ماضی یا زمانہ مستقبل، زبان سے صادر ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک لغو قسم اس قسم کو کہتے ہیں جو کسی ایسی بات پر کھائی جائے جس کے بارے میں قسم کھانے والے کا گمان یا تو یہ ہو کہ وہ صحیح ہے لیکن واقعتاً وہ صحیح نہ ہو، چنانچہ اس کی تفصیل ابتداء باب میں گزر چکی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نہ تو اپنے باپوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنی ماؤں کی اور نہ بتوں کی اور خدا کی قسم بھی تم اس صورت میں کھاؤ جب کہ تم سچے ہو (یعنی جھوٹی قسم نہ کھاؤ خواہ اس کا تعلق گذشتہ زمانہ سے ہو یا آئندہ زمانہ سے)۔ (ابوداؤد، نسائی)
٭٭ ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ کے غیر کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے غیراللہ کی قسم اس کی تعظیم کے اعتقاد کے ساتھ کھائی اس نے شرک جلی یا شرک خفی کا ارتکاب کیا، کیونکہ اس طرح اس نے اس تعظیم میں غیر اللہ کو شریک کیا جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔
عام طور پر لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے کسی عزیز یا تعلق والے کی انتہائی محبت میں اس کی قسم کھاتے ہیں جیسے یوں کہتے ہیں کہ بیٹے کی قسم، یا اس کے سر کی یا اس کی جان کی قسم تو یہ بھی گناہ سے خالی نہیں اگرچہ اس پر شرک کا حکم عائد نہ ہوتا ہو ہاں اگر قدیم عادت کی بنا پر کسی کی زبان سے بلا قصد مثلاً یوں نکل گیا کہ اپنے باپ کی قسم، یا اپنے بیٹے کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا ہے تو اس پر گناہ اور شرک کا اطلاق نہیں ہو گا۔
٭٭ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ابوداؤد و نسائی) حضرت امام اعظم ابو حنیفہ چونکہ اس کو تسلیم کرتے ہیں بایں وجہ کہ امین اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہونے کی بنا پر امانت اس کی صفات میں سے ہے اس لئے ان کے نزدیک اس میں کفارہ واجب ہوتا ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امانت اللہ سے مراد کلمہ تو حید ہے۔
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص یوں کہے کہ (اگر میں نے ایسا کیا ہو یا ایسا نہ کیا ہو تو) میں اسلام سے بری ہوں، لہٰذا اگر وہ اپنی بات میں جھوٹا ہے، یعنی واقعتاً اس نے وہ کام کیا ہے تو وہ اسلام سے بیزار ہو گیا۔ گویا یہ ارشاد تو اس طرح قسم کھانے کی شدید ممانعت کو ظاہر کرنے کے لئے بطور مبالغہ فرمایا گیا ہے۔ اگر وہ شخص اپنی بات میں سچا ہے یعنی واقعتاً اس نے وہ کام نہیں کیا ہے تو اس صورت میں بھی اس کا اس طرح کہنا گناہ سے خالی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی قسم کھانے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اس روایت میں مذکورہ قسم کو منعقدہ قسم پر محمول کیا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت ثابت کی روایت نمبر پانچ) میں مذکور قسم کو بھی منعقدہ قسم پر محمول کیا ہے چنانچہ اس کی وضاحت حضرت ثابت کی روایت کی تشریح میں گزر چکی ہے، لیکن ملا علی قاری نے اس کو غموس قسم پر محمول کیا ہے، اس کتاب کے مؤلف کے نزدیک یہ دونوں قسمیں منعقدہ پر بھی محمول ہو سکتی ہیں اور غموس پر بھی۔
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب (بعض مواقع پر) اپنی قسم میں زور پیدا کرنا چاہتے تو اس طرح قسم کھاتے تھے نہیں ! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے (یہ بات نہیں بلکہ یہ بات ہے)۔ (ابوداؤد)
تشریح
ابو القاسم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت مبارک تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قسم کے ان الفاظ میں زور بیان اور شدت و تاکید بایں معنی ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے کمال و قدرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عبودیت کامل نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نفس مبارک کے مسخر و مطیع ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
٭٭ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب قسم کھاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قسم اس طرح ہوتی تھی۔ لا واستغفر اللہ۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
ان الفاظ کو قسم کہنا بایں وجہ ہے کہ یہ الفاظ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے قسم ہی کہ مشابہ ہیں، کیونکہ ان الفاظ کے معنی ہیں اگر یہ بات اس کے برخلاف ہو تو میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں اور ظاہر ہے کہ اس طرح کہنا اپنی بات اور اپنے مطلب کو مضبوط و مؤکد کرنا ہے لہٰذا یہ قسم ہی کہ حکم میں ہوا۔
اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کسی بات پر قسم کھائے اور قسم کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو اس پر حنث (کا اطلاق) نہیں ہو گا۔ (ترمذی) ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) نیز امام ترمذی نے کچھ محدثین کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے (یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ روایت حضرت ابن عمر کا ارشاد ہے)۔
تشریح
حنث کے معنی ہیں گناہ اور قسم توڑنا چنانچہ قسم توڑنے والے کو حانث کہا جاتا ہے، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس قسم کے الفاظ کے ساتھ لفظ انشاء اللہ کہہ دیا جائے وہ قسم منعقد نہیں ہو گی اور جب وہ قسم منعقد ہی نہیں ہو گی تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہو گا، اسی طرح تمام عقد و معاملات کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر الفاظ عقد کے ساتھ لفظ انشاء اللہ متصل ہو تو وہ عقد والا معاملہ منعقد نہیں ہو گا، چنانچہ اکثر علماء اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت ابن عباس کا قول یہ تھا کہ اگر لفظ انشاء اللہ متصل ہو تو بھی یہی حکم ہے۔
اس بارے میں متصل اور منفصل کی حد یہ ہے کہ قسم کے الفاظ کے بعد کسی اور بات میں مشغول ہوئے بغیر فوراً انشاء اللہ کہا گیا تو یہ متصل ہے اور اگر اس قسم کے الفاظ کے بعد کسی دوسری بات میں مشغول ہو تو پھر انشاء اللہ کہا تو منفصل ہے ! بعض علماء نے متصل کی حد کچھ اور بھی بیان کی ہے جس کی تفصیل مرقات میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اور ابو احوص عوف ابن مالک اپنے والد (حضرت مالک) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ میرے چچا کے بیٹے کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں کہ جب میں (اپنی کسی ضرورت کے موقع پر) اس سے (کچھ مال و اسباب) مانگتا ہوں تو وہ مجھ کو (کچھ) نہیں دیتا اور میرے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا ہے۔ لیکن جب خود اس کو مجھ سے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے مانگتا ہے مگر میں نے (اس کو اس کے عمل کی سزا دینے کے لئے کے خود تو مجھ کو کچھ دیتا نہیں، لیکن مجھ سے مانگنے کے لئے آ جاتا ہے) اس بات پر قسم کھا لی ہے کہ میں نہ تو اس کو کچھ دوں گا اور نہ اس سے حسن سلوک کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) مجھے حکم فرمایا کہ میں وہ کام کروں جو بہتر ہے (یعنی اس کی ضرورت پوری کروں اور اس کے ساتھ حسن سلوک کروں) اور قسم توڑنے کا کفارہ دوں۔ (نسائی، ابن ماجہ) اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ملک نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے چچا کا بیٹا میرے پاس (کچھ مانگنے) آتا ہے تو میں قسم کھا لیتا ہوں کہ نہ تو میں اس کو کچھ دوں گا اور نہ اس کے ساتھ حسن سلوک کروں گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا تم اپنی قسم (توڑ دو اور اس) کا کفارہ دو۔
حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عمر دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر تقدیر کی کسی چیز کو دور نہیں کرتی البتہ نذر کے ذریعہ بخیل کا (کچھ مال ضرور) خرچ ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کے ذریعہ خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں سخی و بخیل کے درمیان ایک بڑا لطیف فرق بتایا گیا ہے کہ سخی کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاواسطہ نذر، از خود خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے لیکن بخیل کو اس کی توفیق نہیں ہوتی، اگر اسے کچھ مال خرچ کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے نذر کو واسطہ بناتا ہے اور یہ کہتے ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں خدا کے نام پر اتنا مال خرچ کروں گا، اس طرح سخی تو ایثار کا وصف اختیار کرتا ہے اور بخیل غرض کی راہ اختیار کرتا ہے۔
اس حدیث کی بنا پر بعض علماء نے نذر کے ماننے کو بالکل مکروہ قرار دیا ہے، لیکن قاضی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہے کہ وہ نذر (یعنی خدا کی راہ میں اپنا کچھ مال خرچ کرنے) کو کسی فائدہ کے حصول اور کسی ضرورت و حاجت کے پوری ہونے پر معلق کر دیتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کیونکہ یہ بخیلوں کا کام ہے، سخی تو جب اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں عجلت کرتا ہے اور فوراً ہی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے، لیکن اس کے برخلاف بخیل کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا دل یہ گوارا نہیں کرتا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا مال کسی کو دے ہاں اس کی کوئی غرض ہوتی ہے تو وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے چنانچہ یا تو وہ اپنی حاجت پوری ہونے کے بعد اللہ کے نام پر اپنا کچھ مال نکال دیتا ہے یا خدا کی راہ میں اپنا کچھ مال نکالنے کو حصول نفع یا دفع مضرت پر معلق کر دیتا ہے یعنی یہ نذر مانتا ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا یا مجھے فلاں نقصان نہ پہنچا تو میں اپنا اتنا مال خدا کی راہ میں خرچ کروں گا اور ظاہر ہے کہ اس بات سے تقدیر کا فیصلہ نہیں بدل جاتا لہٰذا اس صورت میں بھی اس کو مال خرچ کرنے کی نوبت نہیں آتی، ہاں کبھی اس کی نذر، تقدیر کے فیصلہ کے موافق ہو جاتی ہے تو گویا وہ نذر اس بخیل کو اپنا وہ مال خرچ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کو وہ خرچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں نذر سے منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نذر ماننے کے بعد اس کو پورا کرنے میں سستی وکاہلی نہ کی جائے کیونکہ جب کسی نے نذر مانی تو اس نذر کو پورا کرنا اس کے ذمہ واجب ہو گیا لہٰذا اس واجب کی ادائیگی میں تاخیر مناسب نہیں ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک یہاں نذر کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ اس اعتقاد و خیال کے ساتھ نذر مانی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام کو مقدر نہیں کیا ہے وہ نذر سے ہو جائے گا۔ لہٰذا نذر سے منع کرنا اس اعتبار سے ہے نہ کہ مطلق نذر سے منع کرنا مقصود ہے۔
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ایسی نذر مانے جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس کی اطاعت کرے (یعنی اس نذر کو پورا کرے) اور جو شخص ایسی نذر مانے جس سے اللہ تعالیٰ کی معصیت (نافرمانی) ہوتی ہو تو وہ اس کی معصیت نہ کرے (یعنی ایسی نذر کو پورا نہ کرے)۔ (بخاری)
٭٭ اور حضرت عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو نذر گناہ کا باعث ہو اس کو پورا کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس چیز کی نذر پوری کرنا جائز ہے جس کا وہ بندہ مالک نہ ہو۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نذر سے اللہ تعالیٰ کی معصیت (نافرمانی) ہوتی ہو اس کو پورا کرنا جائز نہیں۔
تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کرنے کی نذر مانے مثلاً یوں کہے کہ اگر میری فلاں حاجت پوری ہو گئی تو میں ناچ گانے کی محفل منعقد کروں گا یا یوں کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کرنے کے لئے قوالی کرنے کو اپنے اوپر واجب کرتا ہوں تو ایسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس صورت میں نذر کو پوری نہ کرنے میں کفارہ واجب ہو گا۔ چنانچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا قول یہی ہے، جب کہ اس صورت میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک قسم کا کفارہ واجب ہو گا۔
حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کی نذر ماننا جو اپنی ملکیت میں نہ ہو اس نذر کو پورا کرنے کو جائز نہیں رکھتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے غلام یا کسی دوسرے شخص کی کسی چیز کے بارے میں یہ نذر مانے کہ میں خدا کی راہ میں اس غلام کو آزاد کرتا ہوں یا اللہ کے واسطے اس چیز کو دینا اپنے اوپر واجب کرتا ہوں تو اس صورت میں اس نذر کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے اس غلام کو آزاد کرنا یا اس چیز کو اللہ کے واسطے دینا اس کے ذمہ لازم نہیں ہو گا۔
اور حضرت عقبہ ابن عامر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نذر کا کفارہ قسم کے کفارے جیسا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اگر کوئی شخص کسی چیز کا نام لئے بغیر محض نذر مانے مثلاً صرف یوں کہے کہ میں نذر مانتا ہوں تو اس پر کفارہ واجب ہو گا اور اگر وہ نذر میں بلا تعیّن عدد کے روزے کی نیت کرے تو اس پر تین روزے رکھنے واجب ہوں گے اور اگر میں صدقہ کی نیت کرے تو صدقہ فطر کی مانند دس مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہو گا۔
اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ایک شخص پر پڑی جو کھڑا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے بارے میں دریافت فرمایا (اس کا نام کیا ہے اور یہ اس وقت کیوں کھڑا ہے ؟) تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام ابو اسرائیل ہے اور اس نے یہ نذر مانی ہے کہ کھڑا رہے گا، نہ بیٹھے گا، نہ سائے میں آئے گا اور نہ (بالکل) بولے گا اور (ہمیشہ) روزے رکھے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اس سے کہو، بولے، سایہ میں آئے، بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ (بخاری)
تشریح
اس شخص نے جن باتوں کی نذر مانی تھی ان میں سے جس بات پر عمل کرنا اس کے لئے ممکن تھا اس کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا اور جن باتوں پر عمل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ تھا ان کو پورا نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ روزے کو پورا کرے یعنی اپنی نذر کے مطابق ہمیشہ روزے رکھا کرے، کیونکہ اطاعات و عبادات کی نذر کو پورا کرنا لازم ہے اور ہمیشہ روزے رکھنا اس شخص کے لئے ایک بہتر عمل ہے جو اس پر قادر ہو، لیکن واضح رہے کہ اس صورت میں وہ پانچ روزے مستثنیٰ ہوتے ہیں جو شرعاً وعرفاً ممنوع ہیں اور اگر وہ ان پانچ روزوں کی بھی نیت کرے گا تو ان روزوں کو توڑنا اس پر واجب ہو گا اور حنفیہ کے نزدیک روزہ توڑنے کا کفارہ اس پر واجب ہو گا۔
جن باتوں پر عمل کرنا ممکن نہ تھا ان میں سے ایک تو بولنا تھا جو شرعی طور پر یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص بالکل ہی نہ بولے کیونکہ بعض مواقع پر بولنا واجب ہے،۔ جیسے نماز میں قرات، سلام کا جواب دینا اور اس کو ترک کرنا گناہ ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بولنے کا حکم دیا، اسی طرح بالکل نہ بیٹھنا اور سایہ میں نہ آنا انسان کے بس سے باہر ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بیٹھنے اور سایہ میں آنے کا حکم دیا۔
٭٭ اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (بیت اللہ کے سفر کے دوران) ایک بوڑھے کو دیکھا جو (ضعف اور کمزوری کی وجہ سے) اپنے دو بیٹوں کے درمیان (ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھے) راستہ چل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اس شخص نے (بیت اللہ کو) پیادہ پا جانے کی منت مان رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس طرح اپنے آپ کو عذاب (تکلیف) میں ڈالنے کی خدا کو پرواہ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو سواری پر چلنے کا حکم دیا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بوڑھے سے فرمایا کہ بڑے میاں ! سواری پر چلو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے اور (تمہیں تکلیف میں ڈالنے والی) تمہاری اس منت سے بے نیاز ہے۔
تشریح
چونکہ وہ شخص اپنے بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے پیادہ پا چلنے سے عاجز و معذور تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سواری پر چلنے کا حکم فرمایا۔
حضرت امام شافعی نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی منت کی صورت میں سواری پر چلنے کی وجہ سے منت ماننے والے پر (بطور کفارہ) کوئی چیز واجب نہیں ہوتی لیکن امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس پر جانور (یعنی بکری یا اس کے مثل) ذبح کرنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کر لینے کے بعد اس کو پورا کرنے سے قاصر رہنا ہے، حضرت امام شافعی کا دوسرا قول بھی یہی ہے۔
مظہر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ نظر مانے کہ میں پیادہ پا بیت اللہ جاؤں گا تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ حضرت امام شافعی تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ شخص بیت اللہ کا سفر پیادہ پا طے کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ پیادہ پا جائے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو بطور کفارہ جانور ذبح کرے اور سواری پر سفر طے کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص خواہ پیادہ پا چلنے پر قادر ہو یا نہ قادر ہو، بہر صورت سواری کے ذریعہ سفر کرے اور جانور ذبح کرے۔
حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ میں پیادہ پا بیت اللہ جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں تو اس پر حج یا عمرہ واجب ہوتا ہے، اب وہ اپنی نیت کے مطابق ان دونوں میں سے جس کو چاہے پورا کرے۔ (یعنی اگر اس نے یہ کہتے وقت حج کی نیت کی تھی تو حج کرے اور اگر عمرہ کی نیت کی تھی تو عمرہ کرے) اور اگر یوں کہے کہ میں پیادہ پا حرم جانا یا پیادہ پا مسجد حرام جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں۔ تو حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا مگر صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک اس پر حج یا عمرہ واجب ہو جاتا ہے۔ اور اگر یوں کہے کہ میں بیت اللہ جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں تو اس صورت میں متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا یعنی اس پر حج یا عمرہ واجب نہیں ہو گا۔
اگر کوئی شخص پیادہ پا حج کو جانے کی نذر مانے تو اس پر واجب ہے۔ کہ وہ گھر سے پیادہ پا روانہ ہو اور جب تک کہ طواف زیارت سے فارغ نہ ہو جائے کوئی سواری استعمال نہ کرے اور اگر پیادہ پا عمرے کو جانے کی نذر مانی ہو تو جب تک کہ سر نہ منڈالے سواری پر نہ چڑھے۔ اور اگر نذر ماننے والے نے کسی عذر کی وجہ سے یا بلا عذر پورا راستہ یا آدھے سے زیادہ سواری پر طے کیا تو جانور ذبح کرنا اس پر واجب ہو گا اور اگر آدھے راستہ سے کم سواری کا استعمال کیا تو اس کے بقدر ایک بکری کی قیمت میں سے صدقہ کرنا واجب ہو گا۔
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس نذر کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں نے مانی تھی اور اس کو پورا کرنے سے پہلے وہ مر گئی تھیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد کو یہ فتویٰ دیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے اس نذر کو پورا کریں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت سعد کی والدہ کی نذر کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مطلق نذر مانی تھی، بعض تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے روزے کی نذر مانی تھی، بعض کا قول یہ ہے کہ ان کی نذر غلام کو آزاد کرنے کی تھی، اور بعض یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صدقہ کی نذر مانی تھی، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے یا تو مالی نذر مانی تھی یا ان کی نذر مبہم تھی چنانچہ اس کی تائید دار قطنی کی روایت کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کی طرف سے پانی پلاؤ۔
اگر کسی شخص نے کوئی نذر مانی ہو اور اس نذر کو پورا کرنے سے پہلے مر گیا ہو تو اس کے بارے میں جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اس شخص کے وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے جب کہ وہ نذر غیر مالی ہو، اسی طرح اگر نذر مالی ہو اور اس میت نے کچھ ترکہ نہ چھوڑا ہو تو اس صورت میں بھی اس کے وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہو گا، البتہ مستحب ہو گا، لیکن علماء ظواہر اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے بموجب یہ کہتے ہیں کہ وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہو گا۔ جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اس نذر کو خود وارث نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا ہے کہ اس کو پورا کرنا واجب ہو گا۔ البتہ مستحب ہو گا۔ لیکن علماء ظواہر اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے بموجب یہ کہتے ہیں کہ وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہو گا۔ جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اس نذر کو خود وارث نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا ہے کہ اس کو پورا کرنا اس پر واجب ہو، اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو اول تو یہ حدیث وجوب پر دلالت ہی نہیں کرتی دوسرے یہ کہ ہو سکتا ہے کہ حضرت سعد کی والدہ نے ترکہ چھوڑا ہو اور اس ترکہ سے ان کی نذر پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہو یا یہ کہ محض تبرعاً یہ حکم دیا گیا ہو۔
اور حضرت کعب ابن مالک کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری مکمل اور پوری طرح توبہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دست کش ہو جاؤں اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کے لئے خیرات کر دوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے حق میں بہتر یہ ہے کہ تم کچھ مال روک لو۔ میں نے عرض کیا (اچھا !) میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔ (بخاری و مسلم) یہ روایت ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔
تشریح
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو تین صحابہ، حضرت کعب ابن مالک، حضرت مرارہ ابن ربیع اور حضرت ہلال ابن امیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہ گئے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لائے تو ان تینوں صحابہ پر بہت خفا ہوئے اور لوگوں کو ان تینوں سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیا، یہ اس صورت حال سے سخت پریشان ہوئے اور اپنی اس کوتاہی اور ندامت و شرمساری کے ساتھ بارگاہ حق جل مجدہ میں دعا و زاری اور توبہ و استغفار کرنے لگے، چند دنوں کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے حق میں یہ آیت (وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا) 9۔ التوبہ:118) نازل ہوئی چنانچہ اسی موقع پر حضرت مالک نے جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام میں عرض کیا کہ میں اس معافی کے شکرانہ کے طور پر اور اپنی توبہ کو کامل کرنے کے لئے یہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس جو کچھ مال ہے سب صدقہ و خیرات کر دوں جس پر انہیں یہ حکم دیا گیا کہ کچھ مال بچا کر رکھ لو۔ بظاہر اس حکم کا مقصد یہ تھا کہ دو تہائی مال روک کر ایک تہائی مال صدقہ کر دو۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سارا مال صدقہ کرنے سے اس لئے منع کیا کہ مبادا انہیں اپنی ضروریات زندگی کے لئے کچھ مال کی احتیاج ہو اور اس صورت میں صبر و توکل کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے، اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایسے معاملات میں ہر شخص کے مرتبہ و مقام کو مد نظر رکھ کر ہی کوئی حکم دیتے تھے، چنانچہ ایک طرف تو حضرت کعب کا یہ واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنا سارا مال صدقہ کرنے سے منع کر دیا، دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق کی مثال ہے کہ جب انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں لا کر ڈال دیا اور سب کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس سے منع نہیں کیا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کی شان بالکل جدا گانہ تھی، وہ صبر و توکل برضاء مولیٰ کے جس اونچے مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر اس کا ہلکا سا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی بھی مرحلہ پر اپنی اور اپنی کسی بھی سخت سے سخت ضرورت کے موقع پر صبر و توکل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔
کتاب کے مؤلف نے اس حدیث کو اس باب میں شاید اس لئے نقل کیا ہے کہ حضرت کعب کا مذکورہ قول نذر کے مشابہ ہے بایں طور کہ حضرت کعب نے اپنے اوپر ایک ایسے امر کو (یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں دے دینے کو) واجب کیا۔ جو ایک مخصوص صورت حال (یعنی قبولیت توبہ) کی وجہ سے ان پر مطلقاً واجب نہیں تھا۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گناہ کی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں ہے اور اس نذر کا کفارہ قسم کے کفارہ جیسا ہے۔ (بو داؤد، ترمذی، نسائی)
تشریح
گناہ کی نذر کے بارے میں تفصیلی بحث پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے، یہ حدیث اس مسئلہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کی دلیل ہے اور حضرت امام شافعی کے مسلک کے برخلاف ہے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص غیر معین نذر مانے (یعنی صرف یہ کہے کہ میں نذر مانتا ہوں اور اس بات کا تعین نہ کرے کہ کس چیز کی نذر مان رہا ہے۔ مثلاً روزے کی نذر مان رہا ہے یا صدقہ کی ؟) تو اس نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے (یعنی غیر معین نذر کی صورت میں اس کو وہ کفارہ ادا کرنا ہو گا جو قسم توڑنے کی صورت میں دیا جاتا ہے) اسی طرح جو شخص کسی ایسی چیز کی نذر مانے جو گناہ ہے تو (اس کو پورا کرنا جائز نہیں اور) اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے نیز جو شخص ایسی چیز کی نذر مانے جس کو پورا کرنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو (جیسے کوئی شخص پہاڑ اٹھانے پاپیادہ بیت اللہ جانے کی نذر مانے یا اسی طرح کی ناممکن العمل کسی بھی چیز کو اپنے اوپر بطور نذر واجب کرے) تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جو شخص ایسی چیز کی نذر مانے جس کو پورا کرنے کی ہو طاقت رکھتا ہو تو اس کو چاہئے کہ اس نذر کو پورا کرے (ابوداؤد، ابن ماجہ) بعض راویوں نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس پر موقوف کیا ہے۔
اور حضرت ثابت ابن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ بوانہ میں (جو مکہ کے نشیبی علاقہ میں واقع ایک جگہ کا نام تھا) اونٹ ذبح کرے گا، پھر وہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی (نذر کی) خبر دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ سے) دریافت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں اس مقام پر کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں ! اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس شخص کو مخاطب) کر کے فرمایا کہ تم اپنی نذر کو پورا کرو، نیز ابن آدم اس چیز کی نذر کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس جگہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ اگر وہاں زمانہ جاہلیت میں کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی یا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا جہاں وہ سیر تماشے اور ناچ گانے میں مشغول ہوتے تھے تو اس صورت میں اس شخص کو اپنے نذر پوری کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ اس طرح کفار کے ساتھ مشابہت نہ ہو لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا کہ وہاں ان دونوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔
اور حضرت ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے (حضرت عبداللہ ابن عمر) سے رویت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !میں نے نذر مانی ہے کہ (جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم جہاد سے واپس تشریف لائیں تو) تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دف بجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو ۔ (ابوداؤد) اور رزین نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں کہ اس عورت نے (یہ بھی) کہا کہ اور میں نے یہ نذر مانی ہے کہ میں فلاں فلاں مقام پر جہاں زمانہ جاہلیت میں لوگ ذبح کرتے تھے، جانور ذبح کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا ؟ اس عورت نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ عورت نے کہا کہ نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دف بجانا مباح ہے ! جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صرف اس چیز کی نذر ماننی چاہئے جو اطاعت (یعنی بھلائی) کی قسم سے ہو وہ اس حدیث کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ دف بجانا کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ مباح ہے لیکن اس عورت نے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے اپنے جذبات عقیدت و محبت کی بنا پر یہ نذر مانی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب جہاد کے معرکوں سے فارغ ہو کر خیر و عافیت کے ساتھ واپس تشریف لائیں گے تو میں دف بجاؤں گی، لہٰذا اس اعتبار سے اس دف کا بجانا بھی گویا طاعت کی قسم سے ہوا۔
اور حضرت ابو لبابہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میری تمام و کمال توبہ یہ ہے کہ میں اپنی قوم کا گھر چھوڑ دوں جہاں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے اور یہ کہ میں اپنے تمام مال کو خیرات کرنے کے لئے اس سے دست کش ہو جاؤں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تہائی مال کا صدقہ تمہارے لئے کافی ہے ۔ (رزین)
تشریح
حضرت ابو لبابہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک بہت بڑا عجیب، سبق آموز اور عدیم المثال واقعہ ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا جو یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا۔ تو بنو قریظہ نے یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنے صحابی ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیجئے تاکہ ہم اپنے بارے میں ان سے مشورہ کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پیغام کو منظور فرما لیا اور ابو لبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا، جب بنو قریظہ نے ابو لبابہ کو دیکھا تو ان کے مرد و عورت اور بچے بوڑھے سب ہی ان کے آگے رونے اور گڑ گڑانے لگے ان کی اس کیفیت کو دیکھ کر ابو لبابہ کا دل پسیج گیا، پھر انہوں نے ابو لبابہ سے پوچھا کہ اگر ہم حکم محمدی کو مان لیں اور اپنے آپ کو ان کے حوالہ کریں تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ اس کے جواب میں ابو لبابہ نے اپنے حلق پر ہاتھ پھیر کر ظاہر کیا کہ تمہیں ذبح کر ڈالیں گے۔ ابو لبابہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات کہی اور ہنوز وہاں سے قدم نہیں اٹھایا تھا کہ میں متنبہ ہوا اور اس بات پر سخت نادم ہوا کہ تو نے خدا اور اس کے رسول کے بارے میں خیانت کی۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔
(يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ) 8۔ الانفال:27)
اے ایمان والو ! نہ تو خدا اور رسول کی امانت (یعنی ان کے پیغام و احکام) میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔
پھر کیا تھا، ایسا لگا جیسے احساس ندامت و شرمندگی نے ابو لبابہ کے قلب و شعور پر بجلی گرا دی ہو، وہ بے تاب ہو گئے اور دیوانہ وار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پہنچے اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا اور یہ اعلان کیا کہ جب تک میں توبہ نہ کر لوں اور پھر جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کر لے مجھ پر کھانا پینا حرام ہے ! جب نماز کا وقت آتا تو ان کے بیٹے آتے اور ان کو کھول دیتے پھر جب وہ نماز پڑھ لیتے ان کے ہاتھ باندھ دیتے لوگ ان کے پاس آتے تو کھولنے کے لئے کہتے تو انکار کر دیتے اور فرماتے کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود آ کر نہ کھولیں گے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا، چنانچہ مسلسل سات دن تک اسی طرح اس ستون سے بندھے کھڑے رہے یہاں تک کہ غش کھا کر گر پڑے، آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے۔ اب تو اپنے آپ کو کھول ڈالو، انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دست مبارک سے مجھے نہیں کھولیں گے میں خود اپنے آپ کو ہرگز نہیں کھولوں گا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے انہیں کھولا اسی موقع پر حضرت ابو لبابہ نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی توبہ کو کامل کرنے کے لئے میں یہ محسوس کرتا ہوں مجھے اپنے سارے اثاثہ سے دست کش ہونا چاہئے چنانچہ اول تو میں اپنا وہ آبائی اور قومی گھر چھوڑتا ہوں جو بنی قریظہ کے قبیلہ میں واقع ہے اور دوسرے میں اپنا وہ تمام مال و اسباب اللہ کی راہ میں خیرات کر دینا چاہتا ہوں۔
گھر چھوڑنے کے لئے ابو لبابہ نے اس لئے کہا کہ وہ اس جگہ سے دور ہو جائیں جہاں شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کر کے ان کو گناہ میں مبتلا کیا اور اس گناہ کا ظاہری سبب بنو قریظہ کے تئیں ان کا جذبہ ہمدردی تھا اور اس جذبہ ہمدردی کا اظہار انہوں نے اس لئے کیا کہ ان کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب کچھ بنو قریظہ کے قبضہ میں تھا۔ گھر چھوڑنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا اس کا حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ابو لبابہ کا گھر چھوڑ دینا طاعت کی قسم سے تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو جائز رکھا، البتہ صدقہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم دیا کہ سارا مال خیرات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے سارے مال کا تہائی حصہ خیرات کرنا حصول مقصد کے لئے کافی ہے۔
اور حضرت جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے عز و جل سے یہ نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مکہ کی فتح عطاء کرے گا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اسی جگہ (مسجد حرام میں) نماز پڑھ لو (کیونکہ یہاں نماز پڑھنا افضل ہے باوجودیکہ بیت المقدس جا کر وہاں نماز پڑھنے کی بہ نسبت یہاں نماز پڑھ لینا زیادہ آسان و سہل ہے) اس شخص نے پھر یہی عرض کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی جواب دیا کہ اس جگہ نماز پڑھ لو، جب اس نے تیسری مرتبہ بھی یہی عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب تمہیں اختیار ہے (یعنی اگر تم یہاں نماز پڑھنا نہیں چاہتے تو تم جانو، تمہیں اپنی نذر کے مطابق بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا اختیار ہے۔ (ابوداؤد، دارمی)
تشریح
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی نذر مانے اور پھر اس نماز کو مسجد حرام میں پڑھ لے تو اس کی نذر پوری ہو جائے گی لیکن اگر اس نماز کو وہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں پڑھے گا تو نذر پوری نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر مانے اور پھر اس نماز کو مسجد حرام یا مسجد نبوی میں پڑھ لے تو اس کی نذر پوری ہو جائے گی ! گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی جگہ نماز پڑھنے کی نذر مانی جائے اور اس نماز کو کسی ایسی دوسری جگہ پڑھ لیا جائے جو اس جگہ سے زیادہ فضیلت کی حامل ہو تو نذر پوری ہو جائے گی۔ لیکن حنفی علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ نماز پڑھنے کی نذر مانے اور پھر اس نماز کو کسی ایسی دوسری جگہ پڑھے جو اس جگہ سے کم فضیلت کی حامل ہو تو بھی نذر پوری ہو جائے گی۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ عقبہ ابن عامر کی بہن نے یہ نذر مانی کہ وہ پیدل حج کریں گی لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھی چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (حضرت عقبہ سے) فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری بہن کے پیدل جانے کی پرواہ نہیں ہے، لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ (جب پیدل نہ چل سکیں تو) سوری پر بیٹھ جائیں اور اس کے مال کا کفارہ کے طور پر بدنہ ذبح کریں (حنفیہ کے نزدیک بدنہ سے مراد اونٹ یا گائے ہے۔ لیکن شوافع کے نزدیک بدنہ کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے) (ابوداؤد، دارمی) ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کو اس کی مشقت کا کوئی ثواب نہیں دے گا (یعنی تمہاری بہن جو اس طرح مشقت برداشت کریں گی اس کا انہیں کچھ ثواب نہیں ملے گا) لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ (جب پیدل نہ چل سکیں تو) سوری پر بیٹھ کر حج کا سفر پورا کریں اور اپنی قسم کا کفارہ دیں۔
تشریح
ہدی اس جانور کو کہتے ہیں کہ جو ذبح کر نے کے لئے حرم بھیجا جائے ! ہدی کا کم سے کم درجہ بکری ہے اور اس کا اعلیٰ درجہ بدنہ یعنی اونٹ یا گائے ہے۔ اس حدیث میں بدنہ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ بطور استحباب ہے ! قاضی کہتے ہیں کہ پیادہ پا حج کے لئے جانا چونکہ طاعات کی قسم سے ہے اس لئے اس کی نذر پوری کرنا واجب ہے اور اس کے ساتھ ہر وہ عمل لاحق ہو جاتا ہے جس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے الاّ یہ کے کوئی شخص اس کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ لہٰذا ترک کی صورت میں فدیہ (کفارہ) واجب ہوا گا۔ اب اس بارے میں اختلاف ہے کہ بطور کفارہ کس جانور کو ذبح کرنا واجب ہو گا ؟ چنانچہ حضرت علی کا قول ہے کہ اس حدیث کے بموجب بدنہ واجب ہو گا، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس طرح میقات سے تجاوز کر جانے کی وجہ سے بکری واجب ہوتی ہے اسی طرح اس صورت میں بھی بکری واجب ہو گی، انہوں نے اس حدیث میں بدنہ ذبح کرنے کے حکم کو استحباب پر محمول کیا ہے، یہی قول امام مالک کا بھی ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کا قول بھی یہی ہے۔
اور اپنے قسم کا کفارہ دیں کے بارے میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس حکم میں کفارہ سے مراد کفارہ جنایت ہے اور وہ ہدی ہے، یا روزہ ہے جو ہدی کا قائم مقام ہے اور جس کا ذکر بھی اگلی حدیث میں کیا گیا ہے کفارہ کے بارے میں یہ تاویل اس لئے کی جاتی ہیں تاکہ یہ روایت اس بارے میں منقول دوسری روایتوں کے مطابق ہو جائے، حاصل یہ کہ یہاں قسم کے کفارہ سے وہ کفارہ مراد نہیں ہے جو قسم توڑنے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔
٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن مالک کہتے ہیں کہ جب عقبہ ابن عامر نے (سفر حج کے دوران) اپنی بہن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا جنہوں نے نذر مانی تھی کہ وہ پیادہ پا، ننگے پاؤں اور ننگے سر حج کو جائیں گی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان کو حکم دو کہ وہ اپنا سر ڈھانکیں اور سواری پر بیٹھ جائیں، نیز انہیں چاہئے کہ وہ تین روزے رکھیں۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
سر ڈھانکنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ عورت کا سر اور بال ستر ہیں۔ یعنی اس کے جسم کے یہ وہ حصے ہیں جس کو چھپانا اس پر واجب ہے اور اس کا کھلا رکھنا گناہ ہے اور سواری پر بیٹھنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ وہ پیدل چلنے سے عاجز تھیں اور اس کی وجہ سے وہ سخت مشقت و تکلیف میں مبتلا تھیں۔
چونکہ اوپر کی حدیث میں ہدی کا ذکر ہے اس لئے یہاں وہ تین روزے رکھیں کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر وہ ہدی (یعنی جانور ذبح کرنے) سے عاجز ہوں تو تین روزے رکھ لیں۔ یا پھر روزے رکھنے کے لئے اس لئے فرمایا گیا کہ قسم کے کفارہ کی جو کئی قسمیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کفارہ کی قسموں سے عاجز ہو تو وہ تین روزے رکھے اب ان تین روزوں کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تین روزے قسم کے کفارہ کے طور پر رکھے جائیں تو تین دن پے در پے رکھنے واجب ہیں اس کے علاوہ کی صورت میں اختیار ہے کہ جس طرح چاہے رکھے گا۔
اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ دو انصاری بھائیوں کو کسی کی میراث ملی تھی (جسے ان دونوں کے درمیان تقسیم ہونا باقی تھا) چنانچہ ان دونوں میں سے ایک بھائی نے ایک دوسرے بھائی سے اس میراث کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو اس دوسرے بھائی نے کہا کہ (میں یہ نذر مانتا ہوں کہ) اگر اب تم پھر مجھ سے تقسیم کا مطالبہ کرو گے تو میرا سارا مال کعبہ میں خرچ کیا جائے گا۔ جب یہ صورت حال حضرت عمر فاروق (کے علم میں آئی تو انہوں) نے فرمایا کہ کعبہ تمہارے مال سے بے پرواہ ہے۔ (یعنی کعبہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اپنا مال اس کی نذر کرو) اور چونکہ تمہارے اوپر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے اس لئے) تم اپنی قسم کا (یعنی اس ناجائز نذر کا) کفارہ ادا کرو اور (جب تمہارا بھائی اس میراث کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کرے تو اس معاملہ میں) تم اپنے بھائی سے بات چیت کرو (یعنی اس میراث کو تقسیم کر کے اس کا مطالبہ پورا کرو) کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم پر اس قسم (یعنی اس طرح کی نذر) کو پورا کرنا واجب نہیں ہے اور پروردگار کی معصیت کی نذر جائز نہیں ہے (یعنی جس نذر کا تعلق پروردگار کی نافرمانی اور کسی گناہ سے ہو اس کو پورا نہ کرنا چاہئے) اور نہ اس نذر کو پورا کرنا چاہئے جو قرابت داری کو منقطع کرنے سے متعلق ہو اور جس چیز کا انسان مالک نہ ہو، اس کی نذر پوری کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ (بلکہ جو نذر ناجائز ہونے کی وجہ سے پوری نہ کی جائے اس کا کفارہ دینا واجب ہے)۔ (ابوداؤد)
تشریح
تاج الکعبہ کا لفظی ترجمہ ہے کعبہ کا دروازہ کیونکہ تاج بڑے دروازہ (پھاٹک) کو کہتے ہیں لیکن تاج کعبہ سے کعبہ کا دروازہ مراد نہیں ہے، بلکہ نفس کعبہ مراد ہے۔
حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نذر دو قسم کی ہے (ایک تو یہ کہ) کوئی شخص طاعت (یعنی حق تعالیٰ کی بندگی) کی نذر مانے، یہ نذر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، اس طرح کی نذر کو پورا کرنا واجب ہے، اور دوسری یہ کہ کوئی شخص گناہ کی نذر مانے، یہ نذر شیطان کے لئے ہے، اس طرح کی نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں وہ کفارہ ادا کیا جائے جو قسم توڑنے کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ (نسائی)
اور حضرت محمد ابن منتشر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو دشمن سے نجات دلا دے تو وہ اپنے آپ کو ذبح کر ڈالے گا، چنانچہ جب اس کو اپنے دشمن سے نجات مل گئی تو (اس نے اس مسئلہ میں حضرت ابن عباس سے دریافت کیا حضرت ابن عباس نے اس سے فرمایا کہ یہ مسئلہ مسروق (تابعی) سے پوچھو، اس شخص نے مسروق سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اپنے آپ کو ذبح نہ کرو، کیونکہ اگر تم مسلمان ہو تو (اس صورت میں) تم ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مرتکب ہو گے اور اگر تم کافر ہو تو (اس صورت میں گویا) تم دوزخ میں جانے میں جلدی کرو گے، لہٰذا اگر تمہارے بارے میں یہ حکم ہے کہ (تم دنبہ خرید کر مسکینوں کے لئے اس کو ذبح کرو، حضرت اسحاق تم سے بہتر تھے جن کا بدلہ ایک دنبہ کو قرار دیا گیا، جب اس شخص نے حضرت ابن عباس کو (حضرت مسروق کے اس فتویٰ سے آگاہ کیا) تو انہوں نے فرمایا کہ حقیقت یہی ہے، میں خود تمہیں یہ فتویٰ دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ (رزین)
تشریح
حضرت مسروق ابن اجدع کا شمار اونچے درجہ کے تابعین میں ہوتا ہے۔ ان کی علمی فضیلت اور فقہی حیثیت اپنے زمانہ میں ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ مرہ ابن شرحبیل کا قول ہے کہ کسی ہمدانی عورت نے مسروق جیسا سپوت نہیں جنا، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر دربار رسالت میں حاضری کی سعادت سے محروم رہے تھے، چنانچہ انہوں نے چاروں خلفاء راشدین اور حضرت عائشہ صدیقہ سے تحصیل علم کیا تھا اس لئے جب اس شخص نے حضرت ابن عباس سے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اپنی جلالت علم کے باوجود اس شخص کو حضرت مسروق سے مسئلہ پوچھنے کے لئے کہا، اس سے جہاں حضرت مسروق کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے، وہیں حضرت ابن عباس کے جذبہ احتیاط اور ان کے کمال صبر و دیانت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے اس کو اپنے دشمن کے ہاتھوں مرنا نہایت شدید اور فضیحت ناک معلوم ہوتا تھا، چنانچہ اس نے التجا کی کہ پروردگار ! اصل موت مجھ پر سخت نہیں ہے اور نہ میں اپنے زندگی کے خاتمہ سے گھبراتا ہوں، میں اپنی جان اپنے ہاتھوں تجھے سونپتا ہوں اور اپنے آپ کو تیرے نام پر قربان کرتا ہوں لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنا مجھ پر سخت شاق ہے اس لئے اگر تو مجھے دشمن سے نجات دے گا تو میں اپنے آپ کو تیرے نام پر قربان کر دوں گا یہ تو گویا اس کا جذبہ اور اس کی ایک طبعی خواہش تھی لیکن اس نے یہ نہیں جانا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر لینا اس سے کہیں زیادہ سخت اور حرام ہے۔ چنانچہ حضرت مسروق نے اس کے سامنے اس مسئلہ کو بڑے لطیف انداز میں واضح کیا کہ اگر تم مسلمان ہو اور اپنے آپ کو قتل کر ڈالتے ہو تو اس طرح درحقیقت تم ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مرتکب گردانے جاؤ گے اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ نفس مؤمن کو قتل کرنے والے کے بارے میں اس آیت کریمہ (ۣوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْماً) 4۔ النساء:29) کے بموجب دوزخ کے دائمی عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے، اور اگر تم کافر ہو تو اس صورت میں تمہارا اپنے آپ کو قتل کر دینا، اس بات کے مترادف ہو گا کہ تم دوزخ میں جانے میں جلدی کر رہے ہو، کیونکہ اگر تم بقید حیات رہتے ہو تو عجب نہیں کہ حق تعالیٰ تمہیں راہ ہدایت سے نوازے اور تم اسلام قبول کر کے دائمی نجات پاؤ۔ بہر حال کسی بھی صورت میں تمہارا اپنے آپ کی قتل کر دینا نہ صرف یہ کہ نا مشروع ہے بلکہ غیر معقول بھی ہے۔
حدیث کا یہ جملہ حضرت اسحاق تم سے بہتر تھے جن کا بدلہ ایک دنبہ کو قرار دیا گیا تھا بعض علماء کے اس قول پر مبنی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں تو وہ بیٹے حضرت اسحاق تھے۔ لیکن اس بارے میں مشہور و مختار اور صحیح قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خواب میں جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت اسماعیل تھے۔ چنانچہ جلال الدین سیوطی نے وضاحت کی ہے کہ اس واقعہ میں اہل کتاب نے سخت تحریف و تکذیب سے کام لیا ہے، سابقہ آسمانی کتابوں میں اصل نام اسماعیل تھا جس کو اہل کتاب نے حذف کر کے اسحاق بنا دیا۔
در مختار میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو حضرت ابراہیم کے واقعہ کی موافقت میں اس پر بکری ذبح کرنا واجب ہو گا لیکن حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ ایسی نذر لغو ہو گی، اسی طرح اپنے آپ کو یا اپنے غلام کو ذبح کرنے کی نذر بھی لغو ہو گی لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک اس صورت میں ایک بکری ذبح کرنا واجب ہو گا ! اور اگر کسی نے اپنے باپ یا اپنے دادا کو اور یا اپنی ماں کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو تمام علماء کے نزدیک اس کی نذر لغو ہو گی۔