مشکوٰة شر یف

قصاص کا بیان

قصاص کا بیان

٭٭  اصطلاح شریعت میں  قصاص کا مفہوم ہے، قاتل کی جان لینا، جس شخص نے کسی کو ناحق قتل کر دیا ہو اس کو مقتول کے بدلے میں قتل کر دینا ! یہ لفظ قص اور قصص سے  نکلا ہے جس کے لغوی معنی ہیں کسی کے پیچھے پیچھے جانا، چونکہ مقتول کا ولی قاتل کا پیچھا پکڑتا ہے تا کہ اسے مقتول کے بدلے میں قتل کرائے اس لئے قاتل کی جان لینے کو قصاص کہا جاتا ہے، ویسے قصاصات کے معنی مساوات (برابری) کے بھی ہیں۔  قصاص  پر اس معنی کا اطلاق اس طرح ہوتا ہے کہ جب قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جاتا ہے تو مقتول کا ولی اور قاتل یا مقتول اور قاتل برابر ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ قصاص میں قاتل کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو قاتل نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔

خون مسلم کی حرمت

حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا مسلم انسان کہ جو اس امر کی شہادت دے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شک میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس کا خون بہانا جائز نہیں الاّ یہ کہ ان تین باتوں میں کوئی ایک بات پیش آ جائے (١) ناحق قتل کرنا کہ خون کے بدلے میں خون (یعنی قصاص) لیا جائے (لیکن یہ مقتول کے ولی کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں شریعت کے مقرر کردہ اصول کے مطابق قاتل سے بدلہ لے)۔ (٢) شادی شدہ (مسلمان، مکلف اور آزاد) کا زنا کرنا (اس کو سنگ سار کو کیا جائے (٣) اپنے دین سے نکلنے اور اپنی جماعت کو چھوڑنے والا (یعنی مسلمان مرتد ہو جائے اس کو قتل کرنا جائز ہے) (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یہ جملہ جو اس امر کی شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شک میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں  دراصل لفظ مسلم کی وضاحت وبیان اور اس کے موکد کرنے کے لئے ارشاد فرمایا گیا ہے، نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ محض کلمہ شہادت پڑھ لینا خون بہانے کے ناجائز ہونے کے لئے کافی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص (جو پہلے سے مسلمان نہ ہو یا جس کا مسلمان ہونا معلوم نہ ہو) محض زبان سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور آنحضرت کی رسالت کی شہادت دے دے تو اس شخص کا ناحق خون بہانا بھی اسی طرح ناجائز ہو گا جس طرح کسی دوسرے جانے پہنچانے مسلمان کا۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان کا خون بہانا قطعاً جائز نہیں ہے الاّ یہ کہ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز پیش آ جائے اول تو یہ کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کر دے تو  خون کا بدلہ خون  کے اصول کے تحت اس کو قتل کیا جا سکتا ہے، دوم یہ کہ اگر کوئی شادی شدہ شخص جو مکلف، مسلم)ان اور آزاد ہو، زنا کا مرتکب ہو تو اس کو سنگسار کر دیا جائے اور سوم یہ کہ جو مسلمان دین سے نکل آئے یعنی مرتد ہو جائے اس کو قتل کر دینا بھی جائز ہے۔

 اپنی جماعت چھوڑنے والا  یہ مارق کی صفت مؤکدہ ہے یعنی جو شخص قولاً یا فعلاً اور یا اعتقاداً مرتد ہو جائے کہ وہ اسلام کو ترک کر دیتا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کی قوم سے علیحدگی اختیار کرے تو اس شخص کو قتل کر دینا واجب ہے بشرطیکہ وہ اپنے ارتداد سے توبہ نہ کر لے۔ حدیث میں ایسے شخص (یعنی مرتد کو)  مسلمان  کے۔ ذلیل میں ذکر کرنا اس اس کی پہلی حالت کے اعتبار سے مجازاً ہے۔ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو حنفیہ کے مسلک کے مطابق اس عورت کو قتل نہ کرنا چاہئے۔

خون ناحق کرنے والا رحمت خداوندی سے محروم رہتا ہے

اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا  تاوقتیکہ کوئی مسلمان خون حرام (یعنی ناحق) قتل کا مرتکب نہ ہو وہ ہمیشہ اپنے دین کی وسعت و کشادگی میں رہتا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 یوں تو ہر برائی انسان کی دینی و اخلاقی زندگی کے لئے زوال کا باعث اور غضب خداوندی کا موجب ہوتی ہے لیکن یہاں بطور خاص خون ناحق کے مذموم ترین فعل کے بارے میں واضح کیا گیا ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی کے خون ناحق سے اپنا ہاتھ نہیں رنگتا اس پر رحمت خداوندی کا ہاتھ رہتا ہے اور اس کو حق تعالیٰ کی امید رحمت اور اس کی بخشش و مغفرت کا سہارا اپنے وسیع دامن میں لئے رہتا ہے لیکن جب کوئی شخص خون ناحق سے اپنے ہاتھ سے رنگ لیتا ہے تو اس پر تنگی مسلط ہو جاتی ہے اور وہ ان لوگوں کے زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے جو رحمت خداوندی سے ناامید و محروم ہیں۔

قیامت میں سب سے پہلے خون کے بارے میں پرسش ہو گی

اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا  قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا وہ خون ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن بندوں کے حقوق میں سے جس کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا وہ انسان کے خون کا مقدمہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے سوال کیا جائے گا وہ نماز ہو گی۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ منہیات میں سے جس چیز کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا وہ خون کا مقدمہ ہو گا اور مامورات میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے سوال کیا جائے گا وہ نماز ہو گئی۔

جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا وہ معصوم الدم ہو گیا

اور حضرت مقداد ابن اسود سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ اگر (مجھے کوئی کافر مل جائے) اور ہمارے درمیان لڑائی چھڑ جائے اور وہ کافر میرے ہاتھ پر تلوار کا وار کر کے کاٹ دے اور پھر ایک درخت کی آڑ میں مجھ سے پناہ پکڑ کر یہ کہے کہ میں خدا کے لئے مسلمان ہو گیا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اور جوں ہی میں اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کروں تو وہ کہے کہ لا الہ الاّ اللہ تو کیا میں اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلنے کے بعد اس کو قتل کر سکتا ہوں؟ آنحضرت فرمایا نہیں اس کو قتل نہ کرو مقداد نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے جو میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اس کے باوجود) اس کو قتل نہ کرو کیونکہ اگر تم اس کو قتل کرو گے تو وہ اس جگہ پہنچ جائے گا،جہاں تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے اور تم اس جگہ پہنچ جاؤ گے جہاں وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس کو کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا تو جس طرح تم نے اس کو قتل کرنے سے پہلے معصوم الدم تھے اب وہ اسلام لانے کی وجہ سے معصوم الدم ہو گیا اور جس طرح وہ کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے غیر معصوم الدم تھا اب تم اس کو قتل کر دینے کی وجہ سے غیر معصوم الدم ہو گئے۔ اس کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے اس شخص کو اس کے کافر ہونے کی وجہ سے قتل کر دینا درست تھا اب اس کے مسلمان ہو جانے کے بعد اس کو قتل کر دینے کی وجہ سے تمہیں قتل کر دینا درست ہو گا۔

 

 

٭٭  اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں قبیلہ جہینہ کے لوگوں کے مقابلہ پر بھیجا چنانچہ (ان کے مقابلہ کے دوران) میں ایک شخص پر جھپٹا اور اس پر نیزہ کا حملہ کرنا چاہا کہ اس نے (لاالہ الاّ اللہ) کہہ دیا لیکن میں نے اس میں اپنا نیزہ پیوست کر کے اس کو قتل کر دیا۔ پھر جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں واپس آیا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (صد افسوس) کہ تم نے اس صورت میں قتل کر دیا جب کہ اس نے (لاالہ الاّ اللہ) پڑھ تھا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اس نے محض قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو تم نے اسکا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا لیا تھا؟۔ اور جندب ابن عبداللہ بجلی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب قیامت کے دن کلمہ (لا الہ الاّ اللہ) اپنے پڑھنے والے یعنی (مقتول) کی طرف سے جھگڑتا ہوا تمہارے پاس آئے گا تو اس وقت تم اس کو کیا جواب دو گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (خوف دلانے کے لئے) یہ الفاظ کئی بار ارشاد فرمائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد اس شخص کے باطن کے مطابق فرمایا کہ اگر تم اس شخص کے باطن پر مطلع ہو سکتے تھے تو تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے اور یہ معلوم کرتے کہ آیا اس شخص نے محض اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے کلمہ (لا الہ الاّ اللہ) پڑھا تھا یا واقعۃً یہ کلمہ اس کے قلب کے صدق اخلاص کے ساتھ اس کی زبان سے نکلا تھا! لیکن ظاہر ہے کہ تم نہ اس کے دل کو چیر کر اس کے باطن کو دیکھ سکتے تھے اور نہ فوری طور پر اس کے باطن کا حال کسی اور ذریعہ سے تمہیں معلوم ہو سکتا تھا اس لئے معقول بات تو یہ تھی کہ تم اس کے ظاہر پر حکم لگاتے یعنی اس کے کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے اس کو مؤمن سمجھ لیتے اور اس کو قتل کرنے سے باز رہتے۔ ادھر حضرت اسامہ نے یہ گمان کیا کہ ایسی حالت میں جب میرا نیزہ موت بن کر اس کے سر پر پہنچ چکا ہے اب اس کا ایمان قبول کرنا فائدہ مند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس شخص کا کام تمام کر دیا، یہ گویا ان کا اجتہاد تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر یہ تو ظاہر فرما دیا کہ تم سے اجتہادی خطاء ہو گئی ہے لیکن ان پر دیت لازم نہیں کی کیوں کہ مجتہد اپنی خطاء اجتہاد میں معذور ہوتا ہے ہاں اس بات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہر حال اپنی خفگی کا بھی اظہار فرمایا کہ اس کی اصل حیثیت و حقیقت ظاہر ہونے تک تم پر توقف لازم تھا لیکن تم نے توقف نہ کر کے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔

معاہد کو قتل کرنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص عہد والے کو قتل کرے گا وہ جنت کی بو نہیں پائے گا اور جنت کی بو چالیس برس کی راہ سے آتی ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 معاہد یعنی عہد والا اس کافر کو کہتے ہیں جس نے امام وقت (سربراہ مملکت اسلامی) سے جنگ و جدل نہ کرنے کا عہد کر لیا ہو خواہ وہ ذمی ہو یا غیر ذمی۔

اس روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جنت کی بو چالیس برس کی راہ سے آتی ہے۔ جب کہ ایک روایت میں ستر برس  ایک روایت میں  سو برس  مؤطا میں  پانچ سو برس ' اور فردوس میں  ہزار برس  کے الفاظ ہیں ' بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان روایتوں میں یہ فرق و اختلاف دراصل اشخاص و اعمال کے مختلف ہونے اور درجات کے تفاوت کی بناء ہے چنانچہ (میدان حشر میں) بعض لوگوں کو جنت کی بو ہزار برس کی راہ سے بعض لوگوں کو پانچ سو برس کی راہ سے آئے گی، اسی طرح بعض لوگ جنت کی اس بو کو ایک سو برس اور بعض لوگ ستر برس اور چالیس برس کی مسافت آتی ہوئی محسوس کریں گے بہر کیف ان تمام مذکورہ اعداد سے تحدید مراد نہیں ہے بلکہ طول مسافت مراد ہے۔ نیز جنت کی بو نہ پانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ شخص ہمیشہ کے لئے جنت کی بو سے محروم رہے گا۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں جب مقربین اور علماء جنت کی بو پائیں گے۔ وہ شخص اس وقت جنت کی بو سے محروم رہے گا۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس ارشاد سے مراد معاہد کو قتل کرنے کی سخت مذمت بیان کرنا اور قتل کرنے والے کے خلافت سخت الفاظ میں تنبیہ و تہدید کا اظہار کرنا ہے۔

خودکشی کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کر لی وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں گرایا جائے گا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور کبھی اس سے نہیں نکلے گا۔ جو شخص زہر پی کر خود کشی کرے گا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا جسے وہ دوزخ کی آگ میں پئے گا وہ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔ اور جس شخص نے لوہے کے (کسی) ہتھیار (جیسے چھری وغیرہ) سے اپنے آپ کو مار ڈالا اس کا وہ ہتھیار دوزخ کی آگ میں اس کے ہاتھ میں ہو گا جس کو وہ اپنے پیٹ میں گھونپے گا اور دوزخ میں ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 لفظ  مخلدا  اور ابداً خالداً  کی تاکید ہیں۔ حاصل حدیث کا یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا آخرت میں اس کو ہمیشہ کے لئے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ لیکن یہاں  ہمیشہ  سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے، یا پھر  ہمیشہ ہمیشہ  سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا وہ دوزخ میں بھی اپنا گلا گھونٹے گا اور جس شخص نے اپنے آپ کو نیزہ مار کر خود کشی کر لی وہ دوزخ میں (بھی) اپنے آپ کو نیزے مارے گا۔

 

 

٭٭ اور حضرت جندب ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک دن فرمایا  تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص تھا (جو کسی طرح) زخمی ہو گیا تھا چنانچہ (جب زخم کی تکلیف شدید ہونے کی وجہ سے) اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تو چھری اٹھائی اور اپنے (اس) ہاتھ کو کاٹ ڈالا (جس میں زخم تھا) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زخم نہ رکا اور وہ مر گیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں میرے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا (بلکہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا) لہٰذا میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 میں نے جنت کو حرام کر دیا  اس بات پر محمول ہے کہ اس نے خود کشی کو حلال جانا تھا اور چونکہ ایک حرام چیز کے بارے میں حلال کا عقیدہ رکھنا صریحاً کفر ہے اس لئے اس پر دخول جنت کو حرام کر دیا گیا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک وہ دوزخ میں جا کر اپنے کئے کی سزا نہ چکھ لے، اس کو اول مرحلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں جانے سے محروم کر دیا گیا۔

خود کشی حرام ہے

خودکشی حرام یعنی اپنے آپ کو ہلاک کر لینا دنیا کے کسی مہذب قانون اور سماج میں جائز نہیں ہے۔ اس کا تعلق دراصل اس بات سے ہے کہ انسان جو کچھ ہے یعنی اس کا ظاہر بھی اور اس کا باطن بھی کیا وہ خود اس کا مالک ہے ؟ یا اس کا ظاہر و باطن سب کچھ کسی اور کی ملکیت ہے ؟ یہ بالکل بدیہی بات ہے کہ انسان بذات خود اپنے وجود کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کا وجود اس دنیا میں صرف ایک امانت کے طور پر ہے خود اس کے لئے بھی اور دنیا والوں کے لئے بھی اور اس کا مالک حقیقی وہ ذات پاک ہے جس نے اس کو تخلیق سے نوازا ہے اور اس دنیا میں پیدا کیا ہے، پھر کیا امانت میں خیانت نہیں ہے یہ کہ انسان اپنے وجود کو نقصان پہنچائے کیا یہ جرم نہیں ہے کہ بندہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے جس کا ظاہر و باطن سب کچھ پروردگار کی ملکیت ہے ؟ یقیناً یہ ایک بڑا جرم ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا درحقیقت غیر کی ملکیت میں تصرف کرنا ہے اور کسی بندہ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ پروردگار کی ملکیت میں تصرف کرے اسی لیے شریعت نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور اسے گناہ کبیرہ کہا ہے اور اس کے مرتکب کو بڑے درد ناک عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔

خود کشی کے بارے میں ایک سبق آموز واقعہ

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو طفیل ابن عمرو دوسی بھی ہجرت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ گئے ان کے ساتھ ان کے قبیلے کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی (اتفاق سے) وہ شخص مدینہ میں بیمار ہو گیا اور (جب مرض نے شدت اختیار کی) اس سے صبر نہ ہو سکا، چنانچہ اس نے تیر کی پیکان لے کر اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے، اس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھوں سے اتنا خون جاری ہوا کہ وہ مر گیا (اس کے انتقال کے بعد ایک دن) طفیل بن عمرو نے اس شخص نے اس سے پوچھا کہ  تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس شخص نے کہا  اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وجہ سے بخش دیا ہے کہ میں نے اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہجرت کی تھی  پھر طفیل نے کہا کہ  میں تمہیں اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے دیکھ رہا ہوں اس شخص نے (بڑی حسرت کے ساتھ) کہا کہ (پروردگار کی طرف سے) مجھ سے کہا گیا ہے کہ جس چیز کو تم نے خود خراب کیا ہے ہم اس کو درست نہیں کریں گے  جب طفیل نے یہ خواب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اے اللہ ! اس کو اور اس کے دونوں ہاتھوں کو بخش دے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس سے معلوم ہوا کہ اپنے وطن سے ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلے جانے کی یہ برکت تھی کہ مہاجر کو حق تعالیٰ کی مغفرت ورحمت ہوتی ہے اور اگر مہاجر کسی گناہ میں مبتلا ہو جاتا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے استغفار کی وجہ سے اس کی بخشش ہو جاتی تھی۔صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ اطہر کی زیارت، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارک میں آپ کی جسمانی زیارت کے مانند ہے لہٰذا آپ کی حیات مبارک میں آپ کی زیارت کرنے والوں کو حق تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی جو برکت ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ اطہر کے زیارت کرنے والے کو بھی اسی نعمت عظمی کی امید رکھنی چاہئے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ تو کفر کا باعث ہے اور نہ دوزخ کے دائمی عذاب کا موجب ہے، چنانچہ اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اپنے کئے کی سزا پا لینے کے بعد جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

مقتول کے ورثاء کو قصاص اور دیت دونوں میں سے کسی ایک کو لینے کا اختیار ہے

اور حضرت ابو شریح کعبی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (فتح مکہ کے دن جو خطبہ ارشاد فرمایا اور جس کا ابتدائی حصہ حرم مکہ کے باب میں گزر چکا ہے، اسکے آخر الفاظ یہ تھے) فرمایا  اے خزاعہ ! تم نے اس مقتول کو جو قبیلہ ہذیل کا ایک فرد تھا قتل کیا ہے اور میں خدا کی قسم، اس کا خون بہا دینے کا ذمہ دار ہوں، اب اس کے بعد (اس حکم سے مطلع کیا جاتا ہے کہ) اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کے ورثاء کو دو چیزوں کو اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ (١) چاہے وہ قاتل کو مار ڈالیں۔ (٢) چاہے اس سے خون بہا لے لیں۔ (ترمذی،شافعی) شرح السنۃ میں یہ روایت شافعی کی اسناد کے ساتھ مذکور ہے اور شرح السنۃ کے مصنف علامہ بغوی نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم میں ابو شریح سے منقول نہیں ہے، لیکن بغوی نے کہا ہے کہ بخاری و مسلم میں یہ روایت ابوہریرہ سے منقول ہے حالانکہ اس میں بھی بالمعنی منقول ہے۔

 

تشریح

 

 حدیث کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں قبیلہ ہذیل نے قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، چنانچہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے اب آ کر اپنے مقتول کے بدلے میں قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کو قتل کر دیا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں قبیلوں کے درمیان متوقع فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے قبیلہ ہذیل کے اس مقتول کا 'خون بہا'دے دیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اور میں خدا کی قسم اس خون بہا دینے کا ذمہ دار ہوں  پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بعد اس سلسلہ میں یہ شرعی قانون بیان فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی کو ناحق مار دے تو مقتول کے ورثاء کا حق یہ ہے کہ چاہئے وہ قاتل کو قتل کر دیں اور چاہئے قاتل سے خون بہا لے لیں چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا مسلک یہی ہے اور اس اعتبار سے یہ ارشاد گرامی ان دونوں کے مسلک کی دلیل ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء کو قاتل سے خون بہا لینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہو گا جب کہ قاتل خود بھی اس پر راضی ہو، اگر قاتل خون بہا دینے پر راضی نہ ہو تو مقتول کے ورثاء کو صرف یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ قاتل کو قتل کر دیں، کہا جاتا ہے کہ حضرت امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان حضرات کے نزدیک اس ارشاد گرامی کی تاویل یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ چاہے وہ قاتل کو قتل کر دیں چاہے اس سے خون بہا لے لیں اگر خون بہا ان کو دیا جائے۔

حالانکہ ان سے بھی بالمعنی منقول ہے  اس کے ذریعہ مصنف مشکوٰۃ نے گویا صاحب مصابیح امام بغوی پر اعتراض کیا ہے بخاری و مسلم میں یہ حدیث بالمعنی تو مذکور ہے لیکن اصل حالت میں یعنی یہاں کے مذکور الفاظ کے ساتھ نہ تو ابو شریح سے اور نہ ابوہریرہ سے منقول ہے جیسا کہ خود بغوی نے کہا ہے کہ یہ روایت بخاری و مسلم میں نہیں ہے اور پھر اس روایت کو یوں فصل اول میں کیوں نقل کیا ہے کیونکہ فصل اول میں تو وہی حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جو بخاری و مسلم میں مذکور ہوں۔

عورت کے مرد قاتل کو قتل کیا جا سکتا ہے

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل ڈالا (یعنی ایک پتھر پر اس کا سر رکھ کر دوسرے پتھر سے اس پر ضرب ماری) چنانچہ (جب لڑکی کا نزاعی بیان لیا گیا تو) اس سے پوچھا گیا کہ تمہارے ساتھ کس نے یہ معاملہ کیا ہے، کیا فلاں شخص نے ؟کیا فلاں شخص نے ؟ (یعنی جن جن لوگوں پر شبہ تھا ان کا نام لیا گیا یہاں تک کہ جب اس یہودی کا نام لیا گیا تو لڑکی نے اپنے سر کے اشارے سے بتایا کہ ہاں اس نے ایسا کیا ہے۔ پھر اس یہودی کو حاضر کیا گیا اور اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا، لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح اس یہودی کا سر کچلنے کا حکم فرمایا اور اس کا سر پتھروں سے کچلا گیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 بظاہر یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس یہودی نے لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا تھا اسی طرح اس یہودی کا بھی دو پتھروں کے درمیان کچلا گیا ہو، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو مقتول مرد کے بدلے میں اس عورت کو قتل کیا جا سکتا ہے، اسی طرح مقتول عورت کے بدلے میں اس کے مرد قاتل کو بھی قتل کی جا سکتا ہے۔چنانچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے، نیز یہ حدیث اس امر پر بھی دلالت ہے کہ ایسے بھاری پتھر سے کسی کو ہلاک کر دینا جس کی ضرب سے عام طور پر ہلاکت واقع ہو جاتی ہو، قصاص کا بموجب ہے۔چنانچہ اکثر علماء اور تینوں ائمہ کا یہی قول ہے لیکن امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پتھر کی ضرب سے ہلاکت واقع ہو جائے تو اس کی وجہ سے قصاص لازم نہیں ہوتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک اس یہودی سے قصاص لینے کا سوال ہے تو اس کا تعلق سیاسی اور وقتی مصالحت سے تھا۔

جو جیسا کرے اس کو ویسی ہی سزا دو

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ربیع نے جو حضرت انس ابن مالک کی پھوپھی تھیں، ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے اس لڑکی کے رشتہ دار استغاثہ لے کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بدلہ لینے کا حکم فرمایا (یعنی یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ربیع کے بھی دانت توڑے جائیں) انس ابن نضر نے جو انس بن مالک کے چچا تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ایسا نہیں ہو گا، خدا کی قسم ربیع کے دانت نہیں توڑے جائیں گے آنحضرت نے فرمایا۔ انس ! اللہ کا حکم بدلہ لینے کا ہے  لیکن (خدا نے ایسا کیا) کہ لڑکی کے خاندان والے (ربیع کے دانت نہ توڑے جانے پر) راضی ہو گئے اور دیت (مالی معاوضہ) قبول کر لیا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  بعض بندگان خدا ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر خدا کی قسم کھا بیٹھیں تو خداوند تعالیٰ ان کی قسم پوری کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ربیع، انس اور مالک یہ تینوں بھائی تھے ان کے والد کا نام نضر تھا، مالک کے لڑکے کا نام انس تھا گویا چچا اور بھتیجے دونوں ایک نام سے موسوم تھے اس حدیث میں جن ربیع کا ذکر ہے وہ انس یعنی، حضرت انس ابن مالک کی پھوپھی تھیں اور دوسرے انس یعنی حضرت انس بن نضر کی بہن تھیں۔

حضرت انس ابن نضر کا یہ کہنا کہ  یا رسول اللہ ! ایسا نہیں ہو گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت اور آپ کے فیصلہ کو ماننے کا انکار کرنے کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس کی بنا حق تعالیٰ کے اس فضل و کرم کی توقع اور امید پر تھی کہ وہ مدعی کو راضی اور ان کے دل میں ڈال دے گا کہ وہ قصاص (یعنی بدلہ لینے) کو معاف کر دیں، چنانچہ حق تعالیٰ نے ان کی امید و توقع کو پورا کیا اور لڑکی کے خاندان والوں نے دیت قبول کر کے قصاص کو معاف کر دیا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت انس ابن نضر کے بارے میں یہ مدحیہ کلمات ارشاد فرمائے کہ حضرت انس ابن نضر خدا کے ان بندگان خاص میں سے ہیں جو اگر کسی بات پر قسم کھا لیتے ہیں تو خدا ان کو حانث نہیں کرتا بلکہ ان کی اس بات کو پورا کرتا ہے اور قسم کو سچی کرتا ہے۔

اے انس  اللہ کا حکم بدلہ لینے کا ہے اس ارشاد سے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس) تا۔ (والسن بالنسن) کی طرف اشارہ فرمایا۔

اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کسی ایسی بات پر قسم کھانا جائز ہے جس کے واقع ہونے کا قسم کھانے والے کو گمان ہو،

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف و توصیف کا اظہار کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے اس شخص کے کسی فتنہ و برائی میں مبتلا ہو جانے کا خوف نہ ہو اور تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ قصاص کو معاف کر دینا مستحب ہے۔

مقتول کافر کے بدلے میں قاتل مسلمان کو قتل کیا جا سکتا ہے یہ نہیں ؟

اور حضرت جحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ؟ انہوں نے فرمایا  قسم ہے اس ذات کی جس نے اناج کو پیدا کیا اور جان کو وجود بخشا میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو قرآن میں موجود نہ ہاں قرآن کی وہ سمجھ (مجھ کو ضرور دی گئی) جو کسی انسان کو عطا ہو سکتی ہے، نیز ہمارے پاس کچھ چیزیں ہیں جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہیں  میں نے عرض کیا کہ  وہ کیا چیزیں ہیں جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا (ناحق قتل) کا خون بہا، اس کی مقدار اور اس کے احکام اور قیدی کو چھوڑنے (کا ثواب لکھا ہے) اور یہ لکھا ہے کہ کافر (جو ذمی نہ ہو) کے بدلہ میں مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 ہاں قرآن کی وہ سمجھ جو کسی بھی انسان کو عطا ہو سکتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ فہم عطا فرمایا ہے جس سے میں قرآن کے معنی و احکام کا استنباط کرتا ہوں، اس کے اجمال و اشارات سے مطلع ہو جاتا ہوں اور اسی فہم کے ذریعہ میری رسائی ان پوشیدہ علوم اور باطنی اسرار تک ہو جاتی ہے جو علماء راسخین اور ارباب یقین پر منکشف ہوتے ہیں ۔

ہمارے پاس کچھ ایسی چیزیں ہیں جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس سے وہ نوشتہ مراد ہے جس میں حضرت علی نے خون بہا وغیرہ کے کچھ احکام و مسائل لکھ کر اس کو اپنی تلوار کی نیام میں رکھ رکھا تھا۔علماء نے لکھا ہے کہ اس نوشتہ میں مذکورہ بالا تین چیزوں کے علاوہ اور بہت سی چیزوں کے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے،جن کو یہاں ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ اس باب میں صرف قصاص اور خون بہا کا ذکر کرنا مقصود ہے، البتہ قیدی بعض نوعیت کے اعتبار سے چونکہ قریب القتل ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کا بھی ذکر کر دیا گیا۔

  کافر کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہ کیا جائے گا  بہت سے صحابہ و تابعین، تبع تابعین اور تینوں اماموں کا مسلک یہی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافر کو قتل کر دے میں مقتول کافر کے بدلے میں قاتل مسلمان کو قتل نہ کیا جائے خواہ وہ مقتول کافر ذمی ہو یا حربی ہو لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور اکثر علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر یہ مقتول کافر ذمی ہو تو اس کے بدلے میں قاتل مسلمان کو قتل کیا جا سکتا ہے جو حدیث ان کے مسلک کی دلیل ہے وہ مرقات میں مذکور ہے۔

حضرت ابو جحیفہ نے حضرت علی سے سوال کیا اس کی بنیاد یہ تھی۔ کہ شیعہ جن کا وجود مختلف صورتوں میں اس زمانہ میں تھا کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اہل بیت کے مخصوص افراد اور خاص طور پر حضرت علی کو علم وحی کے کچھ ایسے اسرار و نکات بتائے ہیں جو ان کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں بتائے گئے !یا پھر حضرت ابو جحیفہ نے یہ سوال اس لئے کیا کہ حضرت علی کے زمانہ میں کوئی بھی شخص علم و تحقیق میں حضرت علی کا ہمسر نہیں تھا، ان کی اس غیر معمولی علمی خصوصیت و برتری نے سب ہی کو حیران کر رکھا تھا کہ آخر ان کے پاس اتنا علم کہاں سے آیا؟ بہر کیف حضرت علی نے قسم کھا کر بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے دامن و علم حکمت کو سب لوگوں سے زیادہ بھرا ہو یا دوسرے لوگوں کے سوا مجھے مخصوص طور پر تبلیغ و ارشاد سے نوازا ہو، بلکہ میرے پاس بھی وہی قرآن ہے۔ جو دوسروں کے پاس ہے اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں ہے، یا پھر وہ نوشتہ ہے۔ جس میں کچھ چیزوں کے احکام لکھے ہوئے ہیں اور وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔ہاں مجھ میں اور دوسروں میں جو علمی تفاوت ہے اس کی بنیاد فہم اور استعداد و استنباط ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے قرآن کی وہ سمجھ عطا کی ہے اس کے ذریعہ میں قرآن کے علوم و معانی تک رسائی حاصل کرتا ہوں اور پھر اس سے احکام و مسائل نکالتا ہوں اور یہ مجھ ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ جس شخص کو بھی یہ سمجھ، ادراک اور فضیلت عطا فرما دے گا اس پر حکمت و علوم کی راہیں منکشف ہو جائیں گی۔ الحاصل تمام علوم و معنی کی بنیاد چونکہ قرآن کریم ہے۔ اسی لئے توفیق خداوندی اور تائید الٰہی سے جس شخص کو بھی قرآن کریم کا فہم حاصل ہو گیا اس پر تمام علوم اور حکمتوں کے دروازے کھل گئے یہ اور بات ہے کہ حق تعالیٰ اس نعمت سے کسی کسی ہی نوازتا ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ قرآن میں تمام علوم ہیں لیکن (عام طور پر) لوگوں کے فہم (قرآن کی گہرائی تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں)۔

(وذکر حدیث بن مسعود لا تقتل نفس ظلما فی کتاب العلم۔)

 اور حضرت ابن مسعود کی حدیث  از راہ ظلم کسی کی جان نہ لی جائے  کتاب العلم میں نقل کی جا چکی ہے۔

خون مسلم کی اہمیت

حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہو جانا ایک مرد مؤمن کے قتل ہو جانے سے زیادہ سہل ہے۔ (ترمذی، نسائی)

اور بعض راویوں نے اس حدیث کو موقوف بیان کیا ہے (یعنی یہ کہا ہے کہ یہ حدیث نبوی نہیں ہے بلکہ عبداللہ ابن عمرو کا قول ہے) اور یہی زیادہ صحیح ہے، نیز ابن ماجہ نے اس روایت کو (عبداللہ ابن عمرو کی بجائے) حضرت براء ابن عازب سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ نے دنیا کی چیزیں زمین و آسمان وغیرہ مسلمانوں کے لئے پیدا کی ہیں تاکہ وہ پروردگار کی عبادت کریں اور چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھیں، لہٰذا جس شخص نے کسی مسلمان کو کہ جس کے لئے یہ دنیا پیدا کی گئی ہے، قتل کیا اس نے گویا پوری دنیا کو فنا کے گھاٹ اتار دیا، چنانچہ اسی نکتہ کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے :

( مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعاً) 5۔ المائدہ:32)۔

 جس شخص نے کسی کو ناحق قتل کیا (یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے ملک میں فتنہ فساد پھیلانے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اگر (یہ ثابت ہو جائے کہ آسمان والے اور زمین والے سب کے سب کسی ایک مرد مؤمن کے قتل میں شریک ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو دوزخ کی آگ میں الٹا ڈال دے گا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 بعض شارحین نے لکھا ہے لفظ اکبہم فعل لازم ہے اور لفظ کبہم فعل متعدی ہے لہٰذا یہاں کسی راوی سے سہو ہو گیا ہے کہ اس نے لکبہم کی بجائے لاکبہم نقل کر دیا ہے، لیکن ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ اکبہ قاموس میں لازمی اور متعدی دونوں طرح نقل کیا گیا ہے، اس اعتبار سے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ثقہ اور عادل راویوں کی طرف خطا اور سہو کی نسبت کرنے سے اولی اور احوط یہ ہے کہ بعض بلکہ تمام اہل لغت کی طرف خطا کی نسبت کر دی جائے۔ بہر کیف چونکہ یہاں لفظ اکبہم ہے اس لئے اس موقع پر یہ تحقیق پیش کی گئی،جامع صغیر میں اس روایت کے یہ الفاظ منقول ہیں (لکبہم اللہ عزوجل فی النار

قیامت کے دن مقتول کا استغاثہ

اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو اس طرح پکڑ کر لائے گا کہ قاتل کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور خود اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوں گا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ ہوں گے  پروردگار !(اس نے) مجھے قتل کیا ہے (میری فریاد رسی) کر یہاں تک کہ مقتول اس قاتل کو (کھینچتا ہوا) عرش الٰہی کے قریب تک لے جائے گا۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مقتول قیامت کے دن اپنا پورا حق طلب کرے گا نیز یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عدل و انصاف سے مقتول کو راضی و مطمئن کر دے گا۔

اپنی مظلومیت کے دن حضرت عثمان کی تقریر

اور حضرت امامہ ابن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ابن عفان،دار کے دن مکان کی چھت پر چڑھے اور (بلوائیوں کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں) کہ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے  کسی مرد مؤمن کی خون ریزی (کسی صورت میں جائز نہیں ہوتی الاّ یہ کہ تین باتوں میں کوئی ایک بات پیش نہ آ جائے  (١) نکاح کرنے کے بعد زنا کرنا۔ (٢) اسلام لانے کے بعد کافر ہو جانا۔ (٣) اور کسی کو ناحق قتل کر دینا کہ اس کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا پس قسم ہے خدا کی میں نے نہ تو زمانہ جاہلیت میں زنا کیا ہے اور نہ زمانہ اسلام میں، اور جب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی ہے آج تک اسلام سے نہیں پھیرا ہوں اور نہ میں نے کسی ایسے شخص کو قتل کیا جس کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو، تو (خدارا مجھے بتاؤ تم مجھے کس بناء پر قتل کرنا چاہتے ہو؟ اس روایت کو ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور حدیث کے الفاظ دارمی کے ہیں۔

 

تشریح

 

 یوم الدار یعنی دار (گھر)  کا دن سے وہ دن مراد ہیں جن میں تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی کے مخالف بلوائیوں نے ان کے مکان کو محاصرہ میں لے رکھا تھا، چنانچہ انہی دنوں میں حضرت عثمان غنی نے اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر بلوائیوں کے سامنے مذکورہ بالا جملے ارشاد فرمائے۔

 نکاح کرنے کے بعد زنا کرنا  اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرے اس کو سنگسار کرنا مشروع ہے۔  محصن  اس شخص کو کہتے ہیں جو مسلمان ہو، آزاد ہو، مکلف ہو اور نکاح صحیح کے ساتھ اپنی عورت سے جماع کر چکا ہو۔

 اور حدیث کے الفاظ دارمی نے نقل نہیں کئے ہیں بلکہ اس کی روایت میں صرف اصل حدیث کے الفاظ( لایحل دم امرء مسلم) الخ ہیں،

قاتل، توفیق خیر سے محروم رہتا ہے

اور حضرت ابو درداء رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مسلمان اس وقت تک نیکی کی طرف سبقت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادائیگی میں مشغول رہتا ہے جب تک کہ وہ خون حرام کا ارتکاب نہیں کرتا اور جب وہ خون حرام کا مرتکب ہوتا ہے تو تھک جاتا ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مومن جب تک خون سے اپنا ہاتھ نہیں رنگتا، اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کو برابر نیکی کرنے اور بھلائی کی طرف سبقت کرنے کی توفیق دی جاتی ہے لیکن جب وہ کسی کو ناحق قتل کر دیتا ہے تو وہ اس گناہ کی شامت سے نیکی و بھلائی حاصل کرنے سے باز رہتا ہے گویا یہ قتل ناحق کا وبال ہے کہ قاتل کا قلب سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ خیر کی توفیق سے محروم رہتا ہے اگرچہ سارے گناہوں کا یہی وبال ہوتا ہے لیکن یہ گناہ اور تمام گناہوں کی بہ نسبت زیادہ سخت ہے۔

قتل ناحق، ناقابل معافی جرم ہے

اور حضرت ابو درداء رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر گناہ کے بارے میں یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا مگر اس شخص کو نہیں بخشے گا،جو شرک کی حالت میں مر جائے یا جس نے کسی مسلمان کا قتل عمد کیا ہو۔ (ابو داؤد) نسائی نے اس روایت کو حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 بظاہر اس حدیث سے یہ مفہوم ہوتا کہ جس طرح شرک کا گناہ ناقابل معافی ہے اسی طرح قتل عمد کے گناہ بخشش نہیں ہوتی لیکن اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ قتل کا گناہگار مدت دراز تک شدید ترین عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد بخش دیا جائے گا ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے۔

آیت (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ  ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْداً) 4۔ النساء:116)

 اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو نہیں بخشتا،شرک کے علاوہ اور گناہوں کو جس کو وہ چاہئے بخش دیتا ہے۔

جہاں تک اس حدیث کے ظاہری مفہوم کا سوال ہے تو یہ قتل کی شدید ترین مذمت اور اس کی سخت ترین سزا کے اظہار پر محمول ہے یا اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص قتل مسلم کو حلال جان کر کسی مسلمان کو قتل کرے گا اس کو نہیں بخشا جائے گا علاوہ ازیں لفظ متعمداً کے (قتل عمد کی بجائے) یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ جو شخص کسی مؤمن کے قتل کا اس لئے قصد کرے کہ وہ مؤمن ہے تو اس شخص کی بخشش نہ ہو گی۔

باپ سے اولاد کا قصاص نہ لیا جائے

اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مسجدوں میں حدود جاری نہ کی جائیں اور نہ اولاد کے (قتل کے) بدلے میں باپ کو قتل کیا جائے (بلکہ باپ سے دیت (یعنی مالی معاوضہ لیا جائے)۔ ترمذی،دارمی)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ زنا، چوری، یا اسی قسم کے دوسرے جرائم حدود (یعنی ان کی شرعی سزائیں) مساجد میں جاری نہ کی جائیں، اسی طرح قصاص بھی اسی حکم میں داخل ہے کہ کسی قاتل کو بطور قصاص مسجد میں قتل نہ کیا جائے کیونکہ مسجدیں فرض نماز پڑھنے کے لئے ہیں یا فرض نماز کے توابع کے لئے ہیں جیسے نفل نمازیں یا ذکر و شغل اور دینی علوم کا پڑھنا پڑھانا۔

حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ اگر باپ اپنی اولاد کو قتل کر دے تو اس کو مقتول اولاد کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ اگر بیٹا اپنے ماں باپ کو قتل کر دے تو اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ بیٹے کو بطور قصاص قتل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ماں باپ، بیٹے کو مار ڈالے تو اس میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، امام ابو حنیفہ امام شافعی اور امام احمد تو یہ فرماتے ہیں کہ باپ کو بطور قصاص قتل نہ کیا جائے، امام مالک کا قول یہ ہے کہ اگر باپ نے بیٹے کو ذبح کر کے مار ڈالا ہے تو اس صورت میں باپ کو بطور قصاص قتل کیا جا سکتا ہے اور اگر اس نے بیٹے کو تلوار سے ختم کیا ہے تو پھر اس سے قصاص نہ لیا جائے !یہ ملحوظ رہے کہ اس بارے میں ماں کا حکم بھی وہی ہے جو باپ کا ہے، نیز دادا دادی، اور نانی بھی ماں اور باپ کے حکم میں ہیں۔

باپ بیٹے ایک دوسرے کے جرم میں قابل مواخذہ نہیں

اور حضرت ابو رمثہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ والد نے کہا کہ  یہ میرا بیٹا ہے، آپ گواہ رہیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نہ تو یہ تمہیں اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرے گا اور نہ تم اس کو اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرو گے۔ (ابو داؤد، نسائی) اور صاحب مصابیح نے شرح السنۃ میں اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ  ابو رمثہ نے کہا کہ جب میں نے اپنے والد کے ہمراہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی تو وہ اس کی حقیقت نہ سمجھ سکے اور کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ آپ کی پشت پر جو چیز ہے میں اس کا علاج کروں کیونکہ میں طبیب ہوں، رسول کریم نے فرمایا  تم (تو بس) رفیق ہو، طبیب (تو) اللہ ہے ۔

 

تشریح

 

 آپ گواہ رہئے  کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بات کے گواہ رہئے کہ یہ میرا صلبی بیٹا ہے  اور اس گواہ بنانے سے مقصود یہ تھا کہ اگر مجھ سے کوئی جرم جیسے قتل وغیرہ سرزد ہو جائے  تو میرے اس بیٹے سے مواخذہ کیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ باپ بیٹے ایک دوسرے کے جرم میں قابل مواخذہ ہوتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس ارشاد نہ تمہیں یہ اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرے گا الخ کے ذریعہ ابو رمثہ کے والد پر یہ واضح کر دیا کہ اگر تمہارے بیٹے نے کوئی جرم کیا تو اس کی وجہ سے تمہیں نہیں پکڑا جائے گا اور نہ اس گناہ کی وجہ سے آخرت میں تم سے پرستش ہو گی، اسی طرح اگر تم سے کوئی جرم و گناہ سرزد ہو جائے تو دنیا و آخرت میں تمہارے بیٹے سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا، یہ صرف زمانہ جاہلیت کا رواج ہے کہ باپ بیٹے ایک دوسرے کے گناہ کی وجہ سے پکڑے جاتے تھے، یہ ایک منصفانہ طرز عمل تھا جو اب ختم کر دیا گیا ہے۔

کیونکہ میں طبیب ہوں  اس جملہ کے ذریعہ ابو رمثہ کے والد نے گویا طب و دانائی کا دعوی کیا، ان کی یہ بات جس سے ان کی نا سمجھی اور بے ادبی مترشح تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سخت ناپسند ہوئی، چنانچہ آپ نے ان سے فرمایا کہ تم تو بس رفیق ہو، بایں معنی کہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ جب تم کسی مریض کو دیکھو تو اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر کوئی نسخہ اور دوا تجویز کر دو اس کے علاج کے دوران اس کے ساتھ نرمی و مہربانی کی خو اختیار کرو اور جو چیز بظاہر اس کے لئے نقصان دہ ہوتی ہو اس سے اس کو دور رکھنے کی کوشش کرو اس کے علاوہ اور تمہارے بس میں کیا ہے ؟ کیا شفا تمہارے ہاتھ میں ہے ؟ کیا مرض کی حقیقت تک تمہارے علم و فن کی رسائی ہو جاتی ہے ؟ ہرگز نہیں طبیب تو خدا ہے کیونکہ مرض کی حقیقت بھی وہی جانتا ہے اور دوا کی حقیقت بھی اسی کے علم میں ہے اور شفا بھی صرف اسی ذات پاک کے ہاتھ میں ہے۔ جو بقا کے ساتھ موصوف ہے، اس ذات پاک کے علاوہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت شفا نہیں دے سکتی۔

بیٹے سے باپ کا قصاص لیا جائے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے اور وہ حضرت سراقہ ابن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا  میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، آپ بیٹے سے باپ کا قصاص لیتے تھے لیکن باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیتے تھے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

 

تشریح

 

 یعنی اگر بیٹا اپنے باپ کو مار ڈالتا ہے تو باپ کو قصاص میں بیٹے کو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن اگر با پ اپنے بیٹے کو مار ڈالتا ہے تو باپ کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس سے خون بہا (خون کا مالی معاوضہ) لیا جاتا تھا۔

غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟

اور حضرت حسن بصری (تابعی) حضرت سمرۃ (صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اس کو قتل کر دیں گے اور جو شخص (اپنے غلام کے) اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹ دیں گے۔ (ترمذی، ابو دؤاد، ابن ماجہ، دارمی) اور نسائی نے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں۔ کہ جو شخص اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اس کو خصی کر دیں گے۔

 

تشریح

 

 جو شخص اپنے غلام کو قتل کر دے گا ہم اس کو قتل کر دیں گے دیں گے، یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور زجر و تشدید اور تنبیہ فرمایا کہ لوگ اپنے غلاموں کو مار ڈالنے سے باز رہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک شخص نے سخت ترین ممانعت تنبیہ کے باوجود بھی جب چوتھی یا پانچویں بار شراب پی لی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو قتل کر دو، لیکن جب وہ آپ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں غلام سے مراد وہ شخص ہے جو غلام بھی رہا ہو، اور پھر آزاد کر دیا گیا ہو، اگرچہ ایسے شخص کو غلام نہیں کہا جاتا لیکن اس کے سابق حال کے اعتبار سے اس کو یہاں غلام تعبیر کیا گیا۔

اور بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس آیت کریمہ (اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى) 2۔ البقرۃ:178) کے ذریعہ منسوخ ہے ! اس بارے میں جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے غلام کو قتل کر دے تو اس کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس نے اپنے غلام کو قتل کر دیا تو اس غلام کے بدلے میں اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام اعظم کے سوا تینوں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ آیت کریمہ (اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى) 2۔ البقرۃ:178) کے بموجب کسی آزاد شخص کو نہ تو اپنے غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے اور نہ کسی دوسرے کے بدلے میں۔ حضرت ابر اہیم نخعی اور حضرت سفیان ثوری کا قول یہ ہے کہ مقتول غلام کے بدلے میں قاتل آزاد کو قتل کیا جائے خواہ وہ مقتول اس کا اپنا غلام ہو یا کسی دوسرے کا۔

 اور جو شخص اعضاء کاٹے گا الخ  شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ  تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آزاد کسی غلام کے اعضاء جسم کاٹ ڈالے تو اس کے بدلے میں اس آزاد کے اعضاء جسم نہ کاٹے جائیں  علماء کے اس اتفاق سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی  ہم اس کے اعضاء کاٹ دیں گے  یا تو زجر و تنبیہ پر محمول ہے یا منسوخ ہے۔

قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص قتل عمد کا ارتکاب کرے اس کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے چاہے وہ اس کو (مقتول کے بدلے میں) قتل کر دیں اور چاہے اس سے دیت یعنی خون بہا لے لیں، اور خون بہا (کی مقدار و تعداد) یہ ہے کہ تیس اونٹنیاں وہ ہوں جو (تین برس کی ہو کر) چوتھے برس میں لگی ہوں اور تیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں برس میں لگی ہوں اور چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں (اس کے علاوہ) اور جس چیز پر صلح ہو جائے تو وہ اس کے حق دار ہوں گے (یعنی دیت جو مقتول کے ورثاء کا حق ہے اس کی اصل مقدار و تعداد تو یہ ہے ہاں اگر ورثاء اس سے کم پر راضی ہو جائیں تو قاتل پر وہی واجب ہو گا۔

 

تشریح

 

 دیت یعنی خون بہا کے بارے میں حضرت امام شافعی اور امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ (دیت میں جو سو اونٹ مشروع ہیں وہ اس طرح کے ہونے چاہئیں پچیس بنت مخاض، پچیس بنت لبون پچیس حقہ اور پچیس جزعہ ! ان کی دلیل حضرت سائب ابن یزید کی یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (خون بہا میں) چار طرح کے اونٹ دینے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ حدیث ثابت ہوتی تو صحابہ اختلاف کرنے کی بجائے متفقہ طور سے اسی حدیث پر عمل کرتے۔

قصاص و دیت کے بارے میں سب مسلمان برابر ہیں

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قصاص اور دیت میں سب مسلمان برابر ہیں اور ایک ادنی مسلمان بھی امان دے سکتا ہے اور دور والا مسلمان بھی حق رکھتا ہے اور سب مسلمان ایک ہاتھ کی طرح ہوتے ہیں (یعنی تمام مسلمان غیر مسلموں کے مقابلہ میں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہونے میں ایک ہاتھ کی مانند ہوتے ہیں کہ جس طرح کسی چیز کو پکڑنے یا سکون و حرکت کے موقع پر ایک ہاتھ کے تمام اجزاء میں کوئی مخالفت یا جدائی نہیں ہوتی اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ غیروں کے مقابلے پر متحد و متفق رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں) اور خبر دار! کافر کے بدلے میں مسلمان نہ مارا جائے اور نہ عہد والے (یعنی ذمی) کو مارا جائے جب تک کہ وہ عہد و ضمان میں ہے۔ ابوداؤد، نسائی) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو ابن عباس سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 سب مسلمان برابر ہیں :  کا مطلب یہ ہے کہ قصاص اور خون بہا کے لینے دینے میں سب مسلمان برابر ہیں اور یکساں ہیں شریف اور رزیل میں، چھوٹے درجہ والا کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے، یا بڑی ذات والے کے خون بہا کی مقدار پوری دی جائے اور چھوٹی ذات والے کے خون بہا کی مقدار کم دی جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ اگر کوئی با حیثیت آدمی کسی کم حیثیت والے کو قتل کر دیتا تھا وہ تو قصاص میں اس کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اس عوض میں اس کے قبیلے کے ان چند آدمیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا جو زیردست ہوتے تھے۔

 اور ایک ادنی مسلمان بھی امان دے سکتا ہے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں کا کوئی ادنی ترین فرد جیسے غلام یا عورت کسی کافر کو امان دے دے تو سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کافر کو امان دیں اور اس کے جان و مال کی حفاظت کا جو عہد اس مسلمان کی طرف سے کیا گیا ہے اس کو نہ توڑیں۔

 اور دور والا مسلمان بھی حق رکھتا ہے  اس جملہ کے دو مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسے مسلمان نے جو دار الحرب سے دور رہ رہا ہے کسی کافر کو امان دے رکھی ہے تو ان مسلمانوں کے لئے جو دار الحرب کے قریب ہیں یہ جائز نہیں ہے کہ اس مسلمان کے عہد امان کو توڑ دیں۔ دوسرے معنی یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر دار الحرب میں داخل ہو جائے، اور مسلمانوں کا امیر لشکر کے ایک دستہ کو کسی دوسری سمت میں بھیج دے اور پھر وہ دستہ مال غنیمت لے کر واپس آئے تو وہ مال غنیمت صرف اسی دستہ کا حق نہیں ہو گا، بلکہ وہ سارے لشکر والوں کو تقسیم کیا جائے گا۔

 جب تک کہ وہ عہد و ضمان میں ہے  کا مطلب یہ ہے کہ جو کافر جزیہ (ٹیکس) ادا کر کے اسلامی سلطنت کا وفادار شہری بن گیا ہے اور اسلامی سلطنت نے اس کے جان و مال کی حفاظت کا عہد کر لیا ہے تو جب تک وہ ذمی ہے اور اپنے ذمی ہونے کے منافی کوئی کام نہیں کرتا اس کو مسلمان قتل نہ کرے بلکہ اس کی حفاظت کو ذمہ داری سمجھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون حکومت کی نظر میں ایک ذمی کے خون کی بھی وہی قیمت ہے جو ایک مسلمان کے خون کی ہے لہٰذا اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو ناحق قتل کر دے تو اس کے قصاص میں اس کے قاتل مسلمان کو قتل کر دینا چاہئے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک ہے۔

اس نکتہ سے حدیث کے اس جملہ  کافر کے بدلے میں مسلمان کو نہ مارا جائے  کا مفہوم بھی واضع ہو گیا کہ یہاں  کافر سے مراد حربی کافر ہے نہ کہ ذمی !حاصل یہ ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک کسی مسلمان کو حربی کافر کے قصاص میں تو قتل نہ کیا جائے لیکن ذمی کے قصاص میں قتل کیا جائے اور حضرت امام شافعی کے نزدیک کسی مسلمان کو کسی کافر کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے خواہ وہ کافر حربی ہو یا ذمی۔

مقتول یا زخم خوردہ کے ورثاء کا حق

اور حضرت ابو شریح خزاعی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جو شخص قتل ناحق یا زخم کی وجہ سے غم زدہ ہو (یعنی جس کے مورث کو ناحق قتل کر دیا گیا ہو، یا اس کے جسم کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا ہو) تو وہ تین چیزوں میں کسی ایک چیز کو اختیار کرنے کا حقدار ہے اور اگر وہ (ان تینوں چیزوں سے زائد) کسی چوتھی کا طلب گار ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ لو (یعنی اس کو وہ چوتھی طلب کرنے سے منع کر دو) اور وہ تین چیزیں یہ ہیں (١) یا تو وہ قصاص لے لے (٢) یا معاف کر دے۔ (٣) اور یا مالی معاوضہ لے لے۔ پھر اگر اس نے ان چیزوں میں کسی ایک چیز کو اختیار کیا اور اس کے بعد کسی دوسری چیز کا اضافہ کیا (یعنی مثلاً پہلے تو اس نے معاف کر دیا اور پھر بعد میں قصاص یا مالی معاوضہ کا مطالبہ کیا) تو اس کے لئے ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس میں اس کو ہمیشہ رکھا جائے گا کبھی اس سے نہیں نکلے گا۔ (دارمی)

 

تشریح

 

( خالداً فیہا مخلداً) اس جملہ میں  تاکید کے بعد تاکید  کا اسلوب سخت زجر وتنبیہ اور شدید وعید کے اظہار کے لئے ہے دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے بارے میں جو وضاحت پہلی فصل میں حضرت ابوہریرہ کی روایت نمبر سات کے ضمن میں کی جا چکی ہے وہی وضاحت یہاں بھی پیش نظر رہنی چاہئے۔

قتل خطاء کا حکم

اور حضرت طاوس ابن عباس سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص لوگوں کے درمیان پتھراؤ میں یا کوڑوں اور لاٹھیوں کی اندھا دھند مار میں مار جائے (یعنی یہ نہ پتہ چلے) کہ اس کا قاتل کون ہے) تو یہ قتل (گناہ نہ ہونے کے اعتبار سے) قتل خطاء کے حکم میں ہو گا (کیونکہ وہ بلا قصد قتل مارا گیا ہے) اور اس کی دیت، قتل خطا کی دیت ہے اور جو شخص جان بوجھ کر مارا گیا تو اس کا قتل، قصاص کو واجب کرے گا اور جو شخص قصاص لینے میں حائل (مزاحم) ہو اس پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہے نہ اس کے نفل قبول کئے جائیں گے اور نہ فرض۔ (ابو داؤد، نسائی)

 

تشریح

 

  لوگوں کے درمیان پتھراؤ الخ  کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً زید کسی ایسی جگہ گھر گیا جہاں دو مخالف گروہ آپس میں لڑ رہے تھے۔ اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر پتھراؤ ہو رہا تھا کہ اچانک ایک پتھر اس (زید) کے آ کر لگا۔ اور وہ مر گیا۔گویا اگر کوئی شخص پتھر کی ضرب سے مر جائے بلکہ یوں کہے کہ یہاں  پتھر  کا ذکر محض اتفاقی ہے مراد یہ ہے کہ کسی بھی مثقل (بھاری) چیز کی ضرب سے مر جائے تو یہ قتل قصاص کو واجب نہیں کرتا بلکہ اس میں دیت واجب ہوتی ہے اور دیت بھی وہ جو قتل خطاء میں واجب ہوتی ہے۔فقہا کی اصطلاح میں اس کو قتل کو  شبہ عمد  کہتے ہیں، چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ  وہ قتل جو کسی غیر دھار دار چیز سے واقع ہوا ہو اگرچہ وہ کوئی ایسی چیز سے نہ ہو جس سے اکثر ہلاکت واقع ہو جاتی ہو لیکن صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ وہ قتل جو با ارادہ قتل کسی ایسی چیز سے ہوا ہو جس سے اکثر ہلاکت واقع نہ ہوتی ہو اور جو قتل کسی ایسی چیز سے ہوا جس سے اکثر ہلاکت واقع ہو جاتی ہو قتل عمد میں داخل ہو گا، لہٰذا حدیث میں مذکورہ چیزیں یعنی پتھر اور لاٹھی، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک تو اپنے مطلق معنی پر محمول ہیں کہ خواہ وہ ہلکی ہوں یا بھاری جب کہ صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک یہ چیزیں ہلکی (غیر مثقل) ہونے پر محمول ہیں گویا خلاصہ یہ نکلا کہ جو قتل مثقل (بھاری) چیز کے ذریعہ ہوا اس میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک قصاص واجب نہیں ہو گا اور صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک مذکورہ بالا تفصیل کا اعتبار کیا جائے گا۔

 

قتل کی قسمیں

فقہا کے نزدیک قتل کی پانچ قسمیں ہیں۔ (١) قتل عمد۔ (٢) قتل شبہ عمد۔ (٣) قتل خطا۔ (٤) قتل جاری مجری خطا۔ (٥) قتل بسبب۔

(١) قتل عمد یہ ہے کہ مقتول کو کسی چیز سے مارا جائے جو اعضاء کو جدا کر دے (یا اجزاء جسم کو پھاڑ ڈالے) خواہ وہ ہتھیار کی قسم سے ہو یا پتھر، لکڑی، کھیاچ کی قسم سے کوئی تیز (دھار دار) چیز ہو اور مادہ آگ کا شعلہ ہو، صاحبین کے نزدیک قتل عمد کی تعریف یہ ہے کہ  مقتول بارادہ قتل کسی ایسی چیز سے مارا جائے جس سے عام طور پر انسان کو ہلاک کیا جا سکتا ہے  قتل عمد کا مرتکب سخت گناہگار ہوتا ہے اور اس قتل کی سزا قصاص (یعنی مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کر دینا) ہے الاّ یہ کہ مقتول کے ورثاء اس کو معاف کر دیں یا دیت (مالی معاوضہ) لینے پر راضی ہو جائیں، اس میں کفارہ واجب نہیں ہوتا۔

 قتل شبہ عمد۔ یہ ہے کہ مقتول کو مذکورہ بالا چیزوں (ہتھیار اور دھار دار چیز وغیرہ) کے علاوہ کسی اور چیز سے قصداً ضرب پہنچائی گئی ہو قتل کی یہ صورت بھی (باعتبار ترک عزیمت اور عدم احتیاط) گنہگار کرتی ہے، لیکن اس میں قصاص کی بجائے قاتل کے عاقلہ (برادری کے لوگوں) پر دیت مغلظہ واجب ہوتی ہے (دیت مغلظہ چار طرح کے سو اونٹوں کو کہتے ہیں، لیکن اگر ہلاکت واقع نہ ہو تو قصاص واجب ہوتا ہے یعنی اس کی وجہ سے مرنے کی بجائے مضروب کا کوئی عضو کٹ گیا ہو تو مارنے والے کا بھی وہی عضو کاٹا جائے گا۔

 قتل خطاء کی دو قسمیں ہیں، ایک تو یہ کہ  خطاء  کا تعلق  قصد  سے ہو، مثلاً ایک چیز کا شکار گمان کر کے تیر یا گولی کا نشان بنایا گیا مگر وہ آدمی نکلا یا کسی شخص کو حربی کافر سمجھ کر تیر یا گولی کا نشانہ بنایا مگر وہ مسلمان نکلا۔ دوسرے یہ کہ  خطا  کا تعلق  فعل سے ہو مثلاً کسی خاص نشانہ پر تیر یا گولی چلائی گئی مگر وہ تیر یا گولی بہک کر کسی آدمی کے جالگی۔

 قتل جاری مجریٰ خطاء کی صورت یہ ہے مثلاً ایک شخص سوتے میں کسی دوسرے شخص پر جا پڑا اور اس کو ہلاک کر ڈالا !قتل خطاء اور جاری مجریٰ خطاء میں کفارہ لازم آتا ہے اور عاقلہ پر دیت واجب ہوتی ہے، نیز ان صورتوں میں (باعتبار ترک عزیمت) گناہ بھی ہوتا ہے۔

 قتل بسبب یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص نے دوسرے شخص کی زمین میں اس کی اجازت کے بغیر کنواں کھدایا کوئی پتھر رکھ دیا اور کوئی تیسرا شخص اس کنویں میں گر کر یا اس پتھر سے ٹھوکر کھا کر مر گیا۔ اس صورت میں عاقلہ پر دیت واجب ہوتی ہے کفارہ لازم نہیں آتا۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ قتل کی پہلی چار قسمیں یعنی عمد، شبہ عمد، اور جاری مجریٰ خطاء میں قاتل، مقتول کی میراث سے محروم ہو جاتا ہے (اور وہ صورت کہ مقتول، قاتل کا مورث ہو) اور پانچویں قسم یعنی  قتل بسبب  میں قاتل، مقتول کی میراث سے محروم نہیں ہوتا۔

قاتل سے دیت لینے کے بعد پھر اس کو قتل کر دینا قابل معافی جرم ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (مقتول کے ولی اور وارثوں میں سے) جو شخص (قاتل سے) دیت (خون بہا) لینے کے بعد اس کو قتل کرے گا میں اس کو معاف نہیں کروں گا (بلکہ اس کو بھی بطور قصاص قتل کرا دوں گا۔ (ابو داؤد)

زخمی کر دینے والے کو معاف کرنے کا اجر

اور حضرت ابو درداء کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے بدن کے کسی حصہ کو زخمی کیا گیا اور اس نے زخمی کرنے والے کو معاف کر دیا (یعنی اس سے بدلہ نہیں لیا بلکہ درگزر کیا اور تقدیر الٰہی پر صابر رہا) تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور اس کا ایک گناہ معاف کر دے گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

ایک آدمی کو کئی آدمی مل کر قتل کریں تو سب ہی قصاص کے سزاوار ہوں گے

اور حضرت سعید ابن مسیب راوی ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب (خلیفۃ المسلمین) نے ایسے پانچ یا سات آدمیوں کی ایک جماعت کو قتل کیا جنہوں نے فریب اور دھوکے سے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔ نیز حضرت عمر نے فرمایا کہ  اگر صنعاء والے سب اس شخص کو قتل کر دیتے یا قاتلوں کی مدد کرتے تو میں ان سب کو قتل کر دیتا۔ (مالک) امام بخاری نے بھی حضرت ابن عمر سے اسی مانند نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

  صنعاء  یمن کا ایک مشہور شہر ہے جو آج کل اپنے ملک کا دار الحکومت بھی ہے، حضرت عمر نے  صنعاء کا ذکر یا تو اس لئے کیا کہ جن قاتلوں کو انہوں نے قتل کیا تھا قصاص میں، وہ سب ہی صنعا کے ہی رہنے والے تھے، یا یہ کہ اہل عرب کے ہاں کسی چیز کی زیادتی اور کثرت کو ظاہر کرنے کے لئے اپنے کلام میں  صنعا  مثل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ اگر ایک شخص کو قتل کرنے میں کئی آدمی شریک ہوں تو قصاص میں ان سب کو قتل کر دینا چاہئے۔

قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر خدا سے فریاد کرے گا

اور حضرت جندب کہتے ہیں کہ مجھے فلاں صحابی نے (کہ جن کا نام یا تو حضرت جندب ہی نے نہ لیا یا انہوں نے نام لیا لیکن راوی کے ذہن میں وہ نام نہیں رہا (یہ حدیث بیان کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو (پکڑ کر) لائے گا اور (اللہ تعالیٰ سے) فریاد کرے گا کہ  اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھ کو کس وجہ سے قتل کیا تھا ؟ چنانچہ قاتل کہے گا کہ میں نے اس کو فلاں شخص کی سلطنت میں قتل کیا تھا  جندب نے (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) کہا کہ  تم اس سے بچو ۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 بظاہر مقتول کے سوال اور قاتل کے جواب میں کوئی مطابقت نظر نہیں آتی، کیونکہ مقتول نے تو قتل کا سبب پوچھا تھا نہ کہ قتل کی جگہ کو دریافت کیا تھا ؟ اس بارے میں شارحین لکھتے ہیں کہ قاتل کے جملہ  میں نے اس کو فلاں شخص کی سلطنت میں قتل کیا تھا  کی مراد یہ ہے کہ میں فلاں حاکم یا فلاں بادشاہ یا فلاں دنیا دار کے زمانہ میں اس کی مدد سے یا اس کے ایماء پر اس قتل کا ارتکاب کیا تھا  لیکن یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب کہ روایت میں لفظ  ملک  میم کے پیش کے ساتھ (یعنی ملک) ہو اور اگر زبر کے ساتھ (یعنی ملک) ہے تو پھر یہ معنی مراد ہوں گے کہ میں نے اس کو جھگڑے کے دوران قتل کیا تھا جو میرے اور اس کے درمیان فلاں شخص (مثلاً زید کی عملداری میں ہوا تھا  اس اعتبار سے قاتل کا مذکورہ جملہ بیان واقعہ کے لئے ہو گا۔

جندب کے قول  تم اس سے بچو  سے مراد مخاطب کو قتل اور قتل میں مدد دینے سے نیز جھگڑا فساد کرنے سے جو عام طور پر قتل کا باعث ہوتا ہے، روکنا ہے، طیبی کہتے ہیں کہ حضرت جندب نے ایک بادشاہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی تھی اور مذکورہ جملہ کا مخاطب وہی بادشاہ تھا، اس سے حضرت جندب کا مقصود یہ تھا کہ بادشاہ کسی ظالم کی مدد نہ کرے۔

قاتل کی مدد کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص آدھا جملہ کہہ کر بھی کسی مؤمن کے قتل میں مدد کرے کا (یعنی مثلاً اقتل پورا نہیں کہا بلکہ صرف اق کہا) تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہوا ہو گا  یہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہے ۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مسلمان کو قتل کرنا گناہ کی شدت و سختی میں کفر کے مشابہ ہے، اس اعتبار سے یہ جملہ  یہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہے  گویا کفر کا کنایۃً پیرایہ اظہار ہے کیونکہ آیت کریمہ : (اِنَّهٗ لَا يَايَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ) 12۔یوسف:87) ترجمہ۔ اللہ کی رحمت سے کافروں کی قوم ہی ناامید ہوتی ہے۔ کے بموجب اللہ کی رحمت سے ناامیدی صرف کافر کے لئے ہے۔

اس جملہ کا ماحصل یہ ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن مذکورہ علامت کے ذریعہ خلائق کے درمیان رسوا ہو گا۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ حدیث کا مفہوم یا تو ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید و تہدید پر محمول ہے، یا پھر اس کا محمول وہ شخص ہے جو قتل مؤمن میں معاونت کو حلال جان کر اس کا مرتکب ہو۔

قاتل کے مدد گار کو تعزیراً قید کیا جائے

اور حضرت ابن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا  جب ایک شخص کسی آدمی کو پکڑے اور دوسرا اس کو قتل کر دے تو (مقتول کے بدلہ میں) اس شخص کو قتل کیا جائے جس نے اس کو قتل کیا ہے اور پکڑنے والے کو سزائے قید دی جائے۔ (دار قطنی)

 

تشریح

 

 جس طرح کسی عورت کو ایک شخص پکڑے اور دوسرا شخص اس سے زنا کرے تو پکڑنے والے پر حد جاری نہیں کی جاتی اسی طرح مقتول کو پکڑنے والے سے بھی قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کو بطریق تعزیر قید کیا جائے گا اور قید کی مدت کا انحصار حاکم و قاضی کی رائے پر ہو گا کہ وہ جتنی مدت کے لئے مناسب سمجھے سزائے قید دے۔ یہ شارحین کی تصریح ہے لیکن یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ مقتول کو پکڑنا دراصل اس کے قتل میں معاونت کرنا ہے اور دوسری احادیث کی روشنی میں قتل کے مددگار کی سزا بھی قصاص ہی ہے، اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔

شمنی نے ملتقی میں مذکور یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو شیر یا کسی اور درندے کے سامنے ڈال دے اور وہ شیر یا درندہ اس شخص کو مار ڈالے تو اس صورت میں ڈالنے والے پر قصاص واجب ہو گا اور نہ دیت بلکہ اس کے لئے سزا ہے کہ جب تک وہ توبہ نہ کرے اس کو قید میں ڈالا جائے اور اس طرح مارا جائے کہ اس کا جسم درد کرنے لگے۔