روزہ نہ رکھنے یا روزہ توڑ ڈالنے کی صورت میں تین حکم ہیں۔ (١) بھول چوک میں روزہ افطار کر لینے کی صورت میں نہ کفارہ واجب ہے اور نہ قضاء۔ (٢) بغیر کسی عذر کے قصداً روزہ افطار کر لینے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے۔ (٣) کسی عذر مثلاً مرض یا سفر کی بناء پر روزہ نہ رکھنے یا افطار کر لینے کی صورت میں قضا واجب ہوتی ہے چنانچہ اس باب کے تحت قضا روزہ کے احکام و آداب بیان کئے جائیں گے اور صحیح یہ ہے کہ یہاں قضا روزہ سے مراد رمضان کے قضا روزے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے ذمہ رمضان کے جو روزے ہوتے ان کی قضا میں صرف شعبان ہی کے مہینہ میں رکھ سکتی تھی۔ یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں مشغولیت یا کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت کے ساتھ مشغولیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو (شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں) رمضان کے قضا روزے سے باز رکھتی تھی۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان کے اپنے وہ روزے جو حیض کی وجہ سے قضا ہوتے تھے شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں رکھنے کی فرصت نہیں پاتی تھیں کیونکہ اور دنوں میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ہمہ وقت مشغول رہا کرتی تھیں اور اس طرح مستعد رہا کرتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت بھی خدمت و صحبت کے لیے بلائیں حاضر ہو جائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ شعبان کے مہینے میں اکثر روزے سے رہا کرتے تھے اس لیے اس مہینہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مہلت مل جاتی تو ان کے ذمہ رمضان کے جو روزے ہوتے تھے ان کی قضا رکھتیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی عورت کے لیے اپنے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفل روزے رکھنا درست نہیں ہے۔ نیز کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کسی کو اپنے گھر میں گھسنے کی اجازت نہ دے۔ (مسلم)
تشریح
پہلے حکم کا مطلب یہ ہے کہ جس عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر عورت کے لیے نفل روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اجازت خواہ دلالۃً ہو یا صراحۃً اور اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں مرد صحبت وغیرہ کے سلسلہ میں دقت و پریشانی محسوس کرے گا۔
اس حدیث سے مطلقاً نفل روزے رکھنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے چنانچہ یہ حدیث حضرت امام شافعی کے مسلک کی نفی کرتی ہے کیونکہ حضرات شوافع کہتے ہیں کہ عورت، عرفہ اور عاشورہ کے روزے اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر بھی رکھ سکتی ہے۔
دوسرے حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو اپنے گھر میں آنے دے خواہ آنے والا اپنا کوئی عزیز و رشتہ دار ہو یا اجنبی حتی کہ اگر کوئی عورت آئے تو اسے بھی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں گھسنے نہ دے۔ اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ خاوند کی رضا کا علم بھی اس کی اجازت ہی کے حکم میں ہے یعنی کسی شخص کے بارے میں اگرچہ مرد نے زبانی طور پر اجازت نہیں دی ہے لیکن عورت اگر یہ جانتی ہے کہ اس شخص کے آنے سے شوہر کو کوئی ناگواری نہیں ہو گی تو اس صورت میں وہ اس شخص کو اپنے گھر میں آنے دے سکتی ہے کیونکہ یہ بھی دلالۃً اجازت ہے۔
حضرت معاذہ عدویہ رحمۃ اللہ علیہا (جن کی کنیت ام الصہبا ہے اور جلیل القدر تابعیہ ہیں) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت پر روزہ کی قضاء واجب مگر نماز کی قضاء واجب نہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک میں جب ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزہ کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (مسلم)
تشریح
سائلہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حائضہ عورت کے بارے میں نماز اور روزہ کی تفریق کی وجہ دریافت کی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ بیان کرنے کی بجائے مذکورہ بالا جواب دے کر گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہر مسئلہ کی وجہ دریافت کرنا یا اس کی علت کی جستجو کرنا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں ہے بلکہ شان عبودیت کا تقاضہ صرف یہ ہونا چاہئے کہ شارع نے جو حکم دے دیا ہے اس کی علت پوچھے بغیر اس پر عمل کیا جائے چنانچہ یہ ممکن تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سوال کے پیش نظر یہ فرماتیں کہ اگر نماز کی قضا کا حکم دیا جاتا تو حائضہ عورت بہت زیادہ دقت و مشقت اور حرج میں مبتلا ہو جاتی کیونکہ ایام کے دنوں میں بہت زیادہ نمازیں ترک ہوتی ہیں ان سب کو ہر مہینہ قضا کرنا عورت پر بہت زیادہ بار ہو جاتا ہے اس لیے اس میں یہ آسانی عطا فرمائی گئی کہ ایام کے دنوں کی نمازیں حائضہ کے حق میں معاف فرما دی گئیں جب کہ روزہ سے واسطہ سال ہی میں صرف ایک مرتبہ پڑتا ہے ان کی قضا میں اتنی زیادہ مشقت اور حرج نہیں ہوتا اس لئے حائضہ پر ان کی قضا واجب قرار پائی لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس جواب سے احتراز فرما کر مذکورہ بالا اسلوب اختیار فرمایا اور بحث و مباحثہ کی راہ بند کر دی کیونکہ ممکن تھا کہ سائلہ اس علت کو سن کر کہتی کہ میں تو نماز کی قضا میں حرج و مشقت محسوس نہیں کرتی پھر کیوں نہ نماز کی قضا بھی واجب ہو؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا انتقال ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء روزہ رکھیں (یعنی فدیہ دیں) (بخاری و مسلم)
تشریح
جس شخص کا انتقال ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی مسلک ہیں چنانچہ اکثر علماء کہ جن میں حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہم اللہ بھی شامل ہیں یہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی طرف سے کوئی دوسرا روزہ نہ رکھے بلکہ اس کے ورثاء اس کے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دیں چنانچہ ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کی یہی تاویل کی جاتی ہے کہ یہاں روزہ رکھنے سے مراد فدیہ دینا ہے کیونکہ فدیہ دینا بھی بمنزلہ روزہ رکھنے کے ہے اور اگلی حدیث اس توجیہ و تاویل کی بنیاد ہے۔
میت کی طرف سے روزہ رکھنے سے اس لیے منع کیا جاتا ہے کہ ایک حدیث میں جو اس باب کے آخر میں آ رہی ہے صراحت کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی گئی حضرت امام احمد حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے اس کا وارث روزے رکھے۔
مذکورہ بالا مسئلہ کے سلسلہ میں حنفیہ کا یہ مسلک بھی ہے کہ اگر مرنے والے فدیہ کے بارے میں وصیت کر جائے تو وارث پر میت کی طرف سے فدیہ مذکور ادا کرنا واجب ہے۔ جب کہ وہ فدیہ میت کی تہائی مال میں سے نکل سکتا ہو لہٰذا اگر فدیہ مقدار اس کے تہائی مال کے مقدار سے زائد ہو گی تو وارث پر فدیہ کی اس مقدار کی ادائیگی واجب نہیں جو تہائی مال سے زائد ہو۔ ہاں اگر وارث اس زائد مقدار کو بھی ادا کر دے گا تو نہ صرف یہ کہ وارث کا یہ عمل جائز شمار ہو گا بلکہ میت پر اس کا احسان بھی ہو گا، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ پورا مسئلہ اس صورت سے متعلق ہے جب کہ مرنے والے کے ذمہ وہ روزے ہوں جن کی قضا اس کے مرنے سے پہلے ممکن رہی ہو۔ مثلاً رمضان کا مہینہ گزر جانے کے بعد کسی ایسے مہینہ میں اس کا انتقال ہو جس میں وہ مرنے سے پہلے رمضان کے وہ روزے جو بیماری وغیرہ کی وجہ سے رکھنے سے رہ گئے تھے ان کی وہ قضا کر سکتا تھا، اور اگر رمضان کے کچھ روزے فوت ہو گئے ہوں (مثلاً رمضان ہی کے مہینہ میں اس کا انتقال ہوا ہو اور انتقال سے پہلے کچھ روزے رکھنے سے رہ گئے کہ جن کی قضا ممکن نہ ہو تو پھر ان کا تدارک یعنی ان روزوں کے بدلہ فدیہ دینا لازم ہے اور نہ مرنے والے پر فوت شدہ روزوں کا کوئی گناہ ہو گا چنانچہ تمام علماء کا یہی مسلک ہے البتہ طاؤس اور قتادہ کہتے ہیں کہ ان روزوں کا تدارک اور فدیہ بھی لازم ہو گا جن کی قضا کے ممکن ہونے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا ہو گا۔
امام شافعی کا مسلک یہ ہے مرنے والا وصیت کرے یا نہ کرے۔ اس کے فوت شدہ روزوں کے بدلے اس کے کل مال میں سے فدیہ ادا کرنا ضروری ہے مذکورہ بالا مسئلہ میں حضرت امام احمد کا جو مسلک ہے وہ پہلی حدیث کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے۔
٭٭ حضرت نافع (تابعی) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا انتقال ہو جائے اور اس کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہئے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے یعنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
تشریح
ہر روزہ کے بدلہ مسکین کو کھلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ میں پونے دو سیر گیہوں یا ساڑھے تین سیر جو۔ یا اتنی ہی مقدار کی قیمت ادا کی جائے اور یہی مقدار نماز کے فدیہ کی بھی ہے کہ ہر نماز کے بدلہ اسی قدر فدیہ ادا کیا جائے۔ یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جن کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی مرنے والے کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص روزہ نہ رکھے بلکہ ورثاء اس کے بدلہ فدیہ ادا کریں اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے غالب امکان ہے کہ وہ منسوخ ہو اور یہ حدیث ناسخ ہو، لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس حدیث کو منسوخ نہ قرار دے کر اس کی جو تاویل کی جاتی ہے اس کی بنیاد یہی حدیث ہے۔
یہ روایت اگرچہ موقوف ہے جیسا کہ امام ترمذی نے فرمایا لیکن حکم میں مرفوع (ارشاد رسول) ہی کے ہے کیونکہ اس قسم کے تشریعی امور کوئی بھی صحابی اپنی عقل سے بیان نہیں کر سکتا لہٰذا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ضرور سنا ہو گا جب ہی انہوں نے اسے نقل کیا۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ ان تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے یا کسی دوسرے کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے کہ نہ تو کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ کسی دوسرے کی طرف سے روزے رکھے۔ (مؤطا)
تشریح
حضرت امام مالک، ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے کہ نماز روزہ کسی کی طرف سے کرنا تاکہ وہ بری الذمہ ہو جائے درست نہیں ہے ہاں حنفیہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھی عمل کا ثواب خواہ وہ نماز ہو یا روزہ وغیرہ کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے۔