مشکوٰة شر یف

قضیوں اور شہادتوں کا بیان

قضیوں اور شہادتوں کا بیان

قضیہ  اس نزاعی معاملے کو کہتے ہیں جو حاکم و قاضی کے پاس اس غرض سے لے جایا جائے کہ وہ فریقین کے درمیان کوئی حکم و فیصلہ کرے۔ اور  شہادت  گواہی دینے کو کہتے ہیں اور  گواہی  کا مطلب ہے  دو فریقوں میں سے ایک فریق کے مقابلہ پر دوسرے فریق کے حق کا اقرار و اثبات کرنا۔

مدعی کا دعوی گواہوں کے بغیر معتبر نہیں

حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر لوگوں کو محض ان کے دعوی پر (ان کے مدعا) دیا جائے (یعنی اگر مدعی سے نہ تو گواہ طلب کئے جائیں اور نہ مدعا علیہ سے تصدیق کیا جائے بلکہ محض اس کے دعوی پر اس کا از قسم مال و جان مدعا کو دے دیا جائے) تو لوگ اپنے آدمیوں کے خون اور اپنے مال کا (جھوٹا) دعوی کرنے لگیں (لہٰذا صرف مدعی کا بلا گواہی کے بیان معتبر نہیں ہے) لیکن قسم کھانا مدعا علیہ پر ضروری ہے (مسلم) اور نووی نے اپنی کتاب شرح مسلم میں لکھا ہے کہ بیہقی کی روایت میں جو حسن یا صحیح اسناد سے منقول ہے حضرت ابن عباس سے (مذکورہ بالا حدیث میں بطریق مرفوع ان الفاظ کا اضافہ بھی منقول ہے کہ  گواہ پیش کرنا نہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم کھانا اس شخص کا حق ہے جو انکار کرے یعنی مدعا  علیہ۔

 

تشریح

 

 لیکن قسم کھانا مدعا علیہ کا حق ہے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر فریق دوم یعنی مدعا علیہ، فریق اول یعنی مدعی کے دعوی سے انکار کرے اور مدعی اس سے قسم کا مطالبہ کرے تو اس (مدعا علیہ) پر قسم کھانا ضروری ہے اس (مسلم کی) روایت میں مدعی سے گواہ طلب کرنے کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ یہ مدعی کا گواہ پیش کرنے کا ذمہ دار ہونا شریعت کا ثابت شدہ اور بالکل ظاہری ضابطہ ہے اس اعتبار سے گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے اگر مدعی گواہ پیش نہ کرے تو پھر مدعا علیہ قسم اور جحد (انکار) کے ذریعہ اپنی صفائی پیش کرنے کا حق رکھتا ہے یہ مفہوم حضرت ابن عباس کی دوسری روایت سے ظاہر ہے۔

عدالت میں جھوٹی قسم کھانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص کسی چیز پر مقید ہو کر (یعنی حاکم کی مجلس میں) قسم کھائے اور وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہو کہ اس کا مقصد قسم کھا کر کسی مسلمان شخص کا مال حاصل کرنا ہو تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہو گا۔ چنانچہ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَناً قَلِيْلاً اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) 3۔ آل عمران:77)۔ (بخاری)

 

تشریح

پوری آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے۔

(اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَناً قَلِيْلاً اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ)۔ 3۔ آل عمران:77)

 یقیناً جو لوگ معاوضہ حقیر لے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو اللہ تعالیٰ سے (انہوں نے) کیا ہے اور (بمقابلہ اپنی قسموں کے، ان لوگوں کو کچھ حصہ آخرت میں (وہاں کی نعمت کا) نہیں ملے گا اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ نہ ان سے (لطف کا) کلام فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف (نظر محبت سے دیکھیں گے۔ اور نہ (ان کے گناہوں کو معاف کر کے) ان کو پاک کریں گے۔ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔

حدیث کی عبارت من حلف علی یمین  صبر کے لغوی معنی ہیں  حبس، روکنا، لزوم  اور  یمین صبر  سے مراد یہ ہے کہ حاکم عدالت میں کسی شخص پر قسم کھانا لازم ہے گویا علی یمین صبر میں  علی  حرف با کے معنی میں ہے اور اس سے مراد محلوف علیہ ہے ! بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ  یمین صبر  یہ ہے کہ کسی چیز پر قسم کھانے والا اس مقصد سے دیدہ ودانستہ غلط بیانی کرتا ہے کہ ایک مسلمان کا مال تلف کر دے یا اس کو ہڑپ کر لے، چنانچہ (وہو فیہا فاجر) اور وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہو، کے الفاظ سے اس مفہوم کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔

 

 

 اور حضرت امامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی (جھوٹی) قسم کے ذریعہ کسی مسلمان شخص کا حق غصب کیا بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے آگ کو واجب کیا اور اس پر بہشت کو حرام کر دیا۔ ایک شخص نے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ و علیہ و سلم سے عرض کیا اگرچہ وہ حق کوئی معمولی ہی چیز ہو۔ آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا (ہاں) اگرچہ پیلو کے درخت کا ایک ٹکڑا (یعنی مسواک) ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے آگ کو واجب کیا  اس جملہ کی دو تاویلیں ہیں ایک تو یہ کہ یہ حکم اس شخص پر محمول ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کا حق غصب کرنا حلال جانے اور اسی عقیدہ پر اس کی موت ہو جائے دوسری تاویل یہ ہے کہ ایسا شخص اگرچہ دوزخ کی آگ کا یقیناً سزاوار ہو گا لیکن یہ بھی غیر بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو معاف کر دے ! اسی طرح  بہشت کو اس پر حرام کر دیا۔ کی تاویل یہ ہے کہ ایسا شخص اول وہلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے محروم قرار دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ جس طرح جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کے حق کو ہڑپ کرنے والے کے بارے میں مذکورہ وعید ہے اسی طرح وہ شخص بھی اس وعید میں شامل ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی ذمی کا حق مارے۔

مدعی کو ایک ہدایت

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا  اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک انسان ہوں اور تم اپنے قضیے (جھگڑے) لے کر میرے پاس آتے ہو، ممکن ہے تم میں سے کوئی شخص اپنے دلائل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ فصیح و بلیغ بیان کا حامل ہو اور میں اس کا (مدلل) بیان سن کر اسی کے مطابق فیصلہ کر دوں لہٰذا وہ شخص کہ میں جس کے حق میں کسی ایسی چیز کا فیصلہ کروں جو حقیقت میں اس کے بھائی مسلمان کی ہو، اس چیز کو نہ لے کیونکہ (ایسی صورت میں گویا) میں اس کے حق میں آگ کے ایک ٹکڑے کا فیصلہ کروں گا۔ (بخاری، و مسلم)

 

تشریح

 

 میں ایک انسان ہوں  کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ سہو اور نسیان کسی انسان سے بعید نہیں ہے اور انسان کی فطرت اور وضع بشری کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کسی معاملہ کے صرف اسی پہلو کو دیکھے جو ظاہری طور پر عیاں ہو اور اس کے متعلق اسی بات کو قبول کرے جو ایک کھلی ہوئی دلیل کی صورت میں اس کے سامنے آئے اور چونکہ میں بھی ایک انسان اور اس حیثیت سے وہ تمام احکام و عوارض مجھ پر بھی پیش آتے ہیں جو بشریت کا خاصہ ہیں اور جن کا تعلق انسانی جبلت سے ہے، لہٰذا جن معاملات میں مجھے وحی کے ذریعہ براہ راست بار گاہ الوہیت سے حقیقت رسی کی قوت عطا کی جاتی ہے اور حق سبحانہ تعالیٰ کی جانب سے مجھے تعلیم و ہدایت دی جاتی ہے ان کے علاوہ دوسرے امور میں مجھے انہی ضابطوں اور قاعدوں کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے جن کی بنیاد انسانی عقل اور بشری تقاضوں پر ہے۔ چنانچہ جب میرے سامنے کوئی قضیہ آتا ہے تو میں اس کے ظاہری پہلوؤں کے مطابق ہی فیصلہ کرتا ہوں۔ اگر مدعی اپنے دلائل، اپنے گواہ اور اپنے زور بیان سے میرے سامنے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس کا دعوی صحیح ہے اور اس نے جس چیز کا مطالبہ کیا ہے وہ اسی کا حق ہے تو میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں کہ ظاہری حکم کا تقاضہ یہی ہے اب اس کے بعد مدعی جانے کہ اگر حقیقت میں اس کا دعوی صحیح ہے اور جس چیز کا اس نے مطالبہ کیا ہے وہ اسی کا حق ہے تو وہ اپنی مراد پا لے۔ لیکن اگر حقیقت میں اس کا دعوی صحیح نہ تھا اور جس چیز کا اس نے مطالبہ کیا تھا وہ اس کا حق نہیں تھا بلکہ کسی دوسرے کا حق تھا اور میں نے اس کے ظاہری دلائل و ثبوت اور اس کی چرب زبانی اور قوت لسانی سے یہ سمجھا کہ اس کا دعوی صحیح ہے۔ اور اس کا مدعا اس کو دلوا دیا تو اس کو چاہئے کہ وہ اس چیز کو اپنے حق میں حلال نہ جانے بلکہ یہ سمجھ کر کہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو ملا ہے۔ اس سے اجتناب کرے۔

ناحق مقدمہ بازی کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں بدترین اور مبغوض ترین وہ شخص ہے جو بہت زیادہ ناحق جھگڑے والا ہے۔ (بخاری و مسلم)

کیا مدعی ایک گواہ اور ایک قسم کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کر سکتا ہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ و علیہ و سلم نے (ایک قضیہ میں) ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ صادر فرمایا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کا ظاہری مفہوم یہ بتاتا ہے کہ اگر مدعی اپنے دعوی کے ثبوت میں صرف ایک گواہ پیش کر سکے تو اس (مدعی) سے دوسرے گواہ کے بدلے ایک قسم لے لی جائے اور اس قسم کو ایک گواہ کا قائم مقام قرار دے کر اس کا دعوی تسلیم کر لیا جائے چنانچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد تینوں کا یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے بلک دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے، اور چونکہ قرآن کے حکم کو خبر واحد کے ذریعہ منسوخ کرنا جائز نہیں ہے اس لئے اس روایت کی بناء پر ایسے مسلک کی بنیاد صحیح نہیں ہو سکتی جو قرآن کے حکم کے منافی ہو درآنحالیکہ اس رویت کے بارے میں یہ احتمال بھی ہے جب مدعی اپنا دعوی لے کر آنحضرت صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں آیا ہو اور وہ اپنے دعوی کے ثبوت میں صرف ایک گواہ پیش کر سکا ہو تو چونکہ وہ اپنے ثبوت شہادت کی تکمیل نہ کر سکا اور آنحضرت صلی اللہ و علیہ و سلم نے صرف ایک گواہ کے وجود کے وجود کا اعتبار نہیں کیا اس لئے مدعا علیہ کو قسم کھانے کا حکم دیا مدعا علیہ کے قسم کھانے کے بعد آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس قضیہ کا فیصلہ دیا۔ اسی کو راوی نے  ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ دینے سے تعبیر کیا۔

طیبی کہتے ہیں کہ ائمہ کا یہ اختلاف بھی اس صورت میں ہے جب کہ قضیہ کا تعلق کسی مالی دعوی سے ہو اگر دعوی کا تعلق مال کے علاوہ کسی اور معاملہ سے ہو تو اس صورت میں متفقہ طور پر تمام ائمہ کا مسلک یہی ہے کہ گواہ اور قسم (یعنی مدعی) کی طرف سے مثلاً ایک گواہ پیش کرنے اور ایک قسم کھانے کا اعتبار نہ کیا جائے۔

مدعا علیہ کی قسم کا اعتبار کیا جائے خواہ وہ حقیقت میں جھوٹی قسم کیوں نہ ہو

اور حضرت علقمہ ابن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حضرموت کا رہنے والا اور ایک شخص کندہ کا۔ دونوں حاضر ہوئے حضرمی (یعنی حضر موت کے رہنے والے) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس شخص نے میری زمین (کو غصب کر کے اس) پر قضبہ کر لیا ہے  کندی نے کہا کہ  وہ میری زمین ہے اور ہاتھ (یعنی میرے قبضے) میں ہے، اس شخص کا اس زمین پر کوئی حق نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  دونوں فریق کا بیان سن کر حضرمی سے فرمایا کہ  کیا تمہارے پاس گواہ ہیں ؟  اس نے کہا کہ  نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تو اب تمہارے دعوی کا دارومدار اس (مدعا علیہ کی قسم پر ہے (کہ اگر یہ قسم کھانے کا انکار کر دے گا تو تمہارا دعوی تسلیم کر لیا جائے گا اور اس نے قسم کھا لی تو تمہارا دعوی باطل کر دیا گا)  اس (حضرمی) نے کہا کہ  یا رسول اللہ ! یہ شخص تو فاجر (جھوٹا ہے) اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس نے جس چیز کی قسم کھائی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ اور اس کو کسی چیز سے پرہیز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (بہرحال) تمہارے لئے اس شخص کی طرف سے سوائے اس (قسم) کے اور کچھ نہیں ہے۔ (یہ سن کر) وہ (کندی) شخص قسم کھانے کے لئے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر یہ شخص اس حضرمی) کے مال قسم کھائے گا تاکہ اس کا مال زبردستی ہضم کر جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کر یں گے کہ وہ (اللہ) اس سے بیزار ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 وہ شخص قسم کھانے کے لئے چلا  ممکن ہے کہ اس کا چلنا اس اعتبار سے ہے کہ جیسے شافعیہ کے یہاں یہ مسئلہ ہے کہ یہ قسم کھانے والا پہلے وضو کرتا ہے اور پھر ایک خاص وقت میں یعنی جمعہ کے روز عصر کے بعد قسم کھاتا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ مدعی کی طرف سے پیٹھ پھیر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچ کر قسم کھائے۔ 

نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے کئی مسئلے نکلتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ اس طرح کے قضیے میں اس (اجنبی سے قبضے والا اولی ہے۔ جو اس کے زیر چیز پر دعوی کرے۔

دوسرا یہ کہ مدعا علیہ پر قسم کھانا لازم ہے جب کہ وہ مدعی کے دعوی کو تسلیم نہ کرے۔

اور تیسرا یہ کہ فاجر مدعا علیہ کی قسم کو بھی اس طرح تسلیم و قبول کیا جائے جس طرح عادل مدعا علیہ کی قسم تسلیم و قبول کی جاتی ہے نیز اس قسم کھا لینے کی وجہ سے اس پر سے مدعی کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے (لیکن یہ واضح رہے کہ اگر عدالت میں سچی گواہی سے مدعا علیہ کی قسم کا جھوٹ معلوم ہو جائے تو پھر اس کی قسم کالعدم قرار پائے گی۔)

جھوٹا دعوی کرنے والے کا ٹھکانا دوزخ ہے

اور حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا  جو شخص کسی ایسی چیز کا دعوی کرے جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں ڈھونڈھ لے۔ (مسلم)

بہترین گواہ کون ہے

اور زید ابن خالد کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا میں تہیں بہترین گواہوں کے بارے میں نہ بتا دوں ؟ (سنو کہ) گواہوں میں بہترین گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کئے جانے سے پہلے گواہی دے دے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ گواہی دراصل  بیان حقیقت  کا دوسرا نام ہے اور حقیقت بیان کرنے کو طلب و درخواست پر موقوف رکھنا غیر موزوں بات ہے۔ لہٰذا بہترین گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کئے جانے سے پہلے اور قبل اس کے اس سے پوچھا جائے کہ کیا تم وہ ہو اور یہ کہ کیا تم گواہی دینا چاہتے ہو، وہ از خود گواہی دیدے اور اس طرح حق کو ظاہر کرنے کی ذمہ داری پوری کرے۔

بغیر طلب کے گواہی دینی چاہئے یا نہیں ؟

لیکن اس کے برعکس ایک دوسری حدیث میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو بغیر طلب کے گواہی دیں۔ چنانچہ حنفی مسلک کی ہدایت یہی ہے کہ جب تک گواہی طلب نہ کی جائے اس وقت تک گواہی نہ دی جائے، گواہی طلب کئے جانے کے بعد گواہی دینا واجب ہے اور حدود میں گواہی کا چھپانا افضل ہے۔

جہاں تک مذکورہ بالا روایت کا تعلق ہے کہ جس سے بغیر طلب کے گواہی دینے والے کا بہترین گواہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں حنیفہ کی طرف سے دو تاویلیں کی جاتی ہیں ایک تو یہ کہ یہ ارشاد گرامی دراصل اس شخص پر محمول ہے جو کسی کے حق کا گواہ ہے لیکن مدعی کو اس کے گواہ ہونے کا علم نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چاہئے کہ وہ مدعی کو بتا دے کہ میں اس قضیہ میں تمہارا گواہ ہوں۔

دوسری تاویل یہ ہے کہ اس حدیث کا تعلق حق تعالیٰ کے حقوق میں گواہی دینے سے ہے۔ جیسے زکوٰۃ کفارہ رویت ہلال اور وصیت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی چیز کا شاہد ہو۔ مثلاً اس نے چاند دیکھا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ حاکم و قاضی کے ہاں حاضر ہو اور گواہی دے۔

ان دونوں تاویلوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ارشاد گرامی اس حکم کو بطور مبالغہ بیان کرنے پر محمول ہے کہ جو شخص کسی قضیہ میں گواہ کی حیثیت رکھتا ہو اور اس سے گواہی طلب کی گئی ہو تو اس طلب کے بعد اس کو چاہئے کہ وہ گواہی دینے کی اپنی ذمہ داری کو جلد سے جلد پورا کرے اور بغیر طلب کے گواہی دینے کی جو مذمت منقول ہے وہ اس کے عکس پر محمول ہے۔

جھوٹی گواہی دینے والوں کے بارے میں پیشین گوئی

اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں یعنی صحابہ پھر وہ جو ان کے متصل ہیں یعنی تابعین اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل ہیں یعنی تابع تابعین اور پھر (آخر میں) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ ان میں سے ایک گواہی اس کی قسم سے پہلے اور اس کی قسم اس کی گواہی سے پہلے ہو گی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 گواہی قسم سے پہلے اور قسم گواہی سے پہلے ہو گی۔ سے گواہی و قسم میں عجلت پسندی و زیادتی کو بطور کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ عجلت میں و زیادتی کی وجہ سے گواہی دینے اور قسم کھانے میں اس قدر لا پرواہ ہو گا کہ کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائے گا اور کبھی پہلے گواہی دے گا اور پھر قسم کھائے گا۔

مظہر نے کہا ہے یہ جملہ گواہی و قسم میں تیز روی و عجلت پسندی کی تمثیل کے طور پر ہے یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں اتنی تیزی اور پھرتی دکھایا کرے گا کہ نہ تو اس کو دین کی کوئی پرواہ ہو گی اور نہ وہ ان چیزوں میں کوئی پرواہ کرے گا۔ یہاں تک کہ اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ پہلے قسم کھائے یا پہلے گواہی دے۔ یا یہ کہ اس کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ اس نے پہلے قسم کھائی ہے یا پہلے گواہی دی ہے۔

بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی دراصل جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کے عام ہو جانے کی خبر دینے کے طور پر ہے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ گواہی دینے کو پیشہ بنا لیں گے اور جھوٹی قسم کھانا ان کا تکیہ کلام بن جائے گا۔ جیسا کہ آجکل عام طور پر رواج ہے کہ پیشہ ور گواہ عدالتوں میں جھوٹی گواہی دیتے پھرتے ہیں اور ان کو اس بات کا ذرہ پھر احساس نہیں ہوتا کہ وہ چند روپوں کی خاطر عدالت میں جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کس طرح برباد کر رہے ہیں۔

اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص کبھی تو قسم کے ذریعہ اپنی گواہی کو ترویج دے گا یعنی یوں کہے گا کہ  خدا کی قسم !میں سچا گواہ ہوں۔ اور کبھی گواہی کے ذریعہ اپنی قسم کو ترویج دے گا یعنی اعلان کرتا پھرے گا کہ  لوگ میری قسم کے سچے ہونے پر گواہ رہیں۔

قسم کے لئے قرعہ ڈالنے کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ لوگوں پر قسم کو پیش کیا (یعنی ان سے کہا کہ قسم کھاؤ کہ مدعی صحیح نہیں ہے) چنانچہ ان دونوں نے قسم کھانے میں) جلدی دکھائی تو آپ نے فرمایا کہ  قسم کھانے کے لئے ان لوگوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے کہ ان میں سے کون شخص قسم کھائے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 عبارت کے ظاہری مفہوم سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص نے دربار رسالت میں کچھ لوگوں کے خلاف دعوی دائر کیا، ان لوگوں (مدعا علیہم) نے مدعی کو صحیح ماننے سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو قسم کھانے کا حکم دیا ان لوگوں نے قسم کھانے میں جلدی دکھائی، یعنی ہر شخص قسم کھانے کے لئے مستعد نظر آنے لگا۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سب لوگوں سے قسم نہیں کھلوائی بلکہ یہ حکم دیا کہ تم اپنے درمیان قرعہ ڈالو، قرعہ میں جس کا نام نکلے وہی قسم کھائے۔

لیکن شارحین نے اس مسئلہ کی یہ صورت لکھی ہے کہ مثلاً دو مختلف دو مختلف آدمیوں نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا جو تیسرے شخص کے پاس ہے۔ ان دونوں (مدعیوں) میں سے ہر شخص یہ کہتا ہے کہ وہ چیز میری ہے لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی گواہ نہیں رکھتا، یا یہ کہ دونوں ہی کے پاس گواہ ہیں لیکن وہ شخص یہ کہتے ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ چیز ان دونوں میں سے کس کی ہے، لہٰذا اس صورت میں ان دونوں مدعیوں کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ان کے درمیان قرعہ ڈالا جائے اور ان میں سے جس کے نام قرعہ نکلے اس سے قسم کھانے کے لئے کہا جائے جب وہ قسم کھائے تو وہ چیز اس شخص کے حوالے کرنے کا حکم دیا جائے۔ رہی یہ بات کہ اس صورت میں قسم کھانے کی ذمہ داری مدعی پر عائد ہوتی ہے۔ جب کہ قسم مدعا علیہ کو کھانی چاہئے تو بظاہر اس (مدعی) سے قسم کھلوانا اس اعتبار سے ہے کہ ان دونوں مدعیوں میں سے ہر ایک دوسرے کے حق کا منکر ہوتا ہے اور ضابطہ یہی ہے کہ حدیث (والیمین علی من انکر) یعنی قسم اس شخص کو کھانی چاہئے جو منکر ہو۔

بہرحال مذکورہ بالا دونوں صورتوں حدیث کے ظاہری مفہوم کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں لیکن جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق تو حضرت علی اس کے قائل تھے جو مذکورہ صورت میں بیان ہوا لیکن حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ایسے قضیہ میں حاکم عدالت کو چاہئے کہ وہ چیز اسی تیسرے شخص کے پاس چھوڑ دے اور دونوں مدعیوں کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کر دیا جائے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں امام اور امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول حضرت علی کے قول کے مطابق ہے اور دوسرا قول حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے۔ آگے حضرت ام سلمہ کو جو روایت آ رہی ہے وہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کی موئید ہے۔

گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ اور قسم کھانا مدعا علیہ کے ذمہ ہے

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعا علیہ کے ذمہ ہے  (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کرنا مدعی کا حق ہے اور اگر مدعا علیہ مدعی کے دعوی کو صحیح ماننے سے انکار کر دے اور مدعی اس سے قسم کھانے کا مطالبہ کرے تو مدعا علیہ پر قسم کھانا ہے۔

اگر ایک ہی چیز کے دو مدعی ہوں تو وہ چیز ان دونوں کے درمیان تقسیم کر دی جائے

اور حضرت ام سلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دو آدمیوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں جو اپنا ایک میراث کا معاملہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے کر آئے تھے اور دونوں میں سے کسی کا کوئی گواہ نہیں تھا بلکہ صرف دعوی تھا (یعنی ان میں سے ایک شخص نے دربار رسالت میں دعوی کیا کہ فلاں چیز میری ہے جو مجھے میراث میں ملی ہے اور دوسرے شخص نے بھی اسی چیز کے بارے میں یہی دعوی کیا اور دونوں میں سے کوئی بھی اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ نہیں رکھتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان دونوں کے جواب سن کر) فرمایا  (یاد رکھو) میں جس شخص کے لئے کسی ایسی چیز کا فیصلہ کر دوں جو اس کے بھائی کا حق ہو تو وہ چیز اس کے لئے آگ کے ایک ٹکڑے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گی (یعنی اگر مثلاً مدعی نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا ہے جس کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی نہیں ہے بلکہ واقعۃً مدعا علیہ کی ہے لیکن اس نے جھوٹے گواہوں یا جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کر دیا اور میں نے ظاہری قانون کے مطابق اس کی گواہوں اور قسم پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دیا اور وہ چیز اس کو دلوا دی تو اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ چیز اس کے حق میں آگ کا ایک ٹکڑا ثابت ہو گی یعنی اس کو دوزخ کی آگ کا سزاوار بنائے گی) ان دونوں میں سے ہر ایک نے (یہ سن کر) عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! میرا حق میرے ساتھی (یعنی فریق مخالف) کے لئے ہے (میں اپنا دعوی ترک کرتا ہوں) آپ نے فرمایا  نہیں !(یہ کیسے ممکن ہے کہ چیز ایک ہو اور اس کے حق دار دو ہوں) بلکہ تم دونوں جاؤ اس چیز کو (آدھو آدھ) تقسیم کر لو اور اپنا اپنا حق لے لو (یعنی تقسیم میں عدل و ایمانداری کو ملحوظ رکھو) اور (یہ طریقہ اختیار کرو کہ پہلے اس چیز کو دو حصے کر لو (اور اگر یہ تنازعہ ہو کہ ان دونوں حصوں میں سے کون سا حصہ کس کو ملے تو) ان دونوں حصوں کو قرعہ پر ڈال لو (تاکہ طے ہو جائے کہ ان دونوں حصوں میں کون سا حصہ کس شخص کو ملے گا اس طرح تم دونوں میں سے ہر ایک اس حصہ کو لے لے جس پر اس کا قرعہ نکلا ہے اور پھر تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنا (وہ) حق اپنے ساتھی کو معاف کر دے (جو اس کی طرف سے چلا گیا ہو۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میں تم دونوں کے درمیان یہ فیصلہ اپنی رائے اور اپنے اجتہاد سے کر رہا ہوں۔ اس معاملہ میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ (ابو داؤد)

قابض کے حق میں فیصلہ

اور حضرت جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے دربار رسالت میں) ایک جانور کے بارے میں دعوی کیا اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے گواہ پیش کئے کہ یہ جانور اس کا (یعنی میں نے ہی اس کی ماں پر نر کو چھوڑا تھا جس کے نتیجہ میں یہ پیدا ہوا اور اس طرح اس کے پیدا ہونے کا میں ہی سبب بنا تھا گویا ان دونوں میں سے ہر ایک نے یہی دعوی کیا ) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جانور کو اس شخص کا حق قرار دیا جس کے وہ قبضے میں تھا۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی ایسا قضیہ ہو جس میں کسی چیز کی ملکیت کو ثابت کرنے کے لئے دونوں فریق اپنے اپنے گواہ پیش کریں تو دونوں میں سے اس فریق کے گواہوں کو ترجیح دی جائے گی۔ جس کے قبضے میں وہ چیز ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ حکم اس صورت کے لئے ہے جب کہ وہ قضیہ کسی جانور کے متعلق ہو اور ہر فریق یہ دعوی کرے کہ اس جانور کو اسی نے جنوایا ہے۔

شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ علماء نے کہا ہے کہ اگر کوئی قضیہ پیش ہو جس میں دو آدمیوں نے ایک جانور یا کسی کی چیز کی ملکیت کا دعوی کیا اور وہ جانور کسی ایک کے قبضے میں ہو تو اس جانور یا اس چیز پر قابض کا حق تسلیم کیا جائے اور اس سے قسم کھلوائی جائے گی۔ ہاں اگر فریق مخالف نے اپنے گواہ پیش کر دیئے جنہوں نے یہ گواہی دی کہ یہ جانور یا یہ چیز قابض نہیں ہے بلکہ اس فریق کی ہے تو وہ جانور یا وہ چیز قابض سے لے کر دوسرے فریق کے حوالے کر دی جائے گی اور اگر یہ صورت دونوں ہی فریق اپنے اپنے گواہ پیش کر دیں تو پھر قابض کے گواہوں کو ترجیح دی جائے گی۔

حنفی مسلک میں یہ مسئلہ اس طرح ہے کہ مذکورہ صورت میں (یعنی جب کہ دونوں فریق اپنے اپنے گواہ پیش کریں) قابض کے گواہوں کا اعتبار نہ کیا جائے، لیکن اگر دعوی کا تعلق جانور کے جنوانے سے ہو یعنی ہر فریق یہ دعوی کرے کرے کہ یہ جانور میری ملکیت ہے اور میں نے اس کو جنوایا ہے ہے پھر ہر ایک اپنے دعوی پر گواہ پیش کرے تو پھر قابض کے لئے فیصلہ کیا جائے گا اور اگر قضیہ کا تعلق کسی ایسی چیز سے ہو جو دونوں فریق کے قبضے میں ہو اور دونوں فریق اس کے پورے حصے پر اپنی اپنی ملکیت کا دعوی کریں تو دونوں سے قسم کھلوائی جائے اور اس چیز کو دونوں کے درمیان ہر ایک قبضے کے مطابق تقسیم کر دی جائے اسی طرح اگر وہ چیز ان میں سے کسی ایک کے بھی قبضے میں نہ ہو مگر دونوں ہی اپنے اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کریں تو اس چیز کو دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔

دو مدعیوں کے درمیان متنازعہ مال کی تقسیم

اور حضرت ابو موسی اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے بارے میں دعوی کیا (یعنی ہر ایک نے کہا یہ اونٹ میرا ہے) اور پھر ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے (اپنے دعوی کے ثبوت میں) دو دو گواہ پیش کئے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ان دونوں کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کر دیا۔ (ابو داؤد) اور ابوداؤد کی ایک اور روایت نیز نسائی و ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے کہ دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے بارے میں دعوی کیا لیکن ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے۔

چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اونٹ کو دونوں کا مشترکہ حق قرار دیا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 اس اونٹ کو ان دونوں میں آدھوں آدھ تقسیم کر دیا۔ کے بارے میں خطابی کہتے ہیں کہ شاید وہ اونٹ دونوں کے قبضے میں ہو گا۔ اور ملا علی قاری کہتے ہیں کہ۔ یا وہ اونٹ کسی ایسے تیسرے آدمی کے قبضہ میں ہو گا جو اس اونٹ کے بارے میں ان دونوں سے کوئی تنازعہ رکھتا تھا۔ پہلی روایت میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ دونوں مدعی اپنے اپنے گواہ رکھتے تھے جب کہ دوسری روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کے پاس بھی گواہ نہیں تھے ؟ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ دونوں روایتوں میں مذکورہ قضیے الگ الگ ہوں، اور یہ بھی کوئی بعید نہیں ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ رکھتا ہوں اور دوسری روایت میں حقیقت حکم کا بیان ہے کہ جب دونوں نے گواہ پیش کئے تو دونوں کی گواہیاں باہم متعارض ہونے کی بنا پر ساقط قرار پائیں لہٰذا وہ دونوں ہی ایسے دو مدعیوں کی مانند ہوئے جو گواہ نہ رکھتے ہوں۔

اس اعبتار سے  ان دونوں میں کسی کے پاس گواہ نہیں تھے۔ کے معنی یہ ہوں گے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی اس طرح کے گواہ نہیں تھے جن کو دوسرے کے گواہوں پر ترجیح دی جا سکتی ہو۔

 اس اونٹ کو ان دونوں کا مشترکہ حق قرار دیا  کے بارے میں ابن ملک کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر دو آدمی کسی ایک چیز کی ملکیت کا دعوی کریں اور ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہ ہوں یا ان میں سے ہر ایک کے پاس گواہ ہوں اور وہ چیز دونوں کے قبضے میں ہو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے بھی قبضے میں نہ ہوں تو اس چیز کو ان دونوں کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کیا جائے۔

 

 

 اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں کا ایک جانور کے بارے میں تنازعہ ہوا (کہ ان دونوں میں سے ہر ایک اس جانور کو اپنی ملکیت کہتا تھا) اور ان دونوں کے پاس گواہ نہیں تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  قسم کھانے پر قرعہ ڈال لو (جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم کھا کر کہے کہ یہ جانور میرا ہے اسی کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 اس روایت میں جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ اس روایت کے حکم کی مانند ہے جو پہلی فصل کے آخر میں ذکر کی گئی ہے اور جس کو حضرت ابوہریرہ ہی نے نقل کیا ہے۔

مدعا علیہ کی قسم

اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ (ایک قضیہ میں) جس شخص یعنی مدعا علیہ) سے قسم کھلوائی جانی تھی اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس بات پر اللہ کی قسم کھاؤ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ اس شخص (یعنی مدعی) کا تم پر کوئی حق نہیں ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 جیسا کہ پہلے بتایا گیا اگر مدعی اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش نہ کر سکے اور مدعا علیہ اس کے دعوی سے انکار کرے تو اس کے مطالبہ پر مدعا علیہ کو قسم کھانا ضروری ہو گا اور وہ اس طرح قسم کھائے گا کہ  میں اس خدائے واحد کی قسم کھاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ اس شخص (یعنی مدعی ) نے مجھ پر اپنے جس حق کا دعوی کیا ہے وہ مبنی بر صداقت نہیں ہے اور اس کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے۔ 

قسم و حلف کے سلسلے میں یہ ضابطہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ حلف، قاضی یعنی حاکم عدالت دے گا مسلمان سے خدائے واحد کا حلف لیا جائے گا، عیسائی کو خدائے انجیل کا، یہودی کو خدائے تورات کا اور مجوسی وغیرہ کو صرف خدا کا حلف دیا جائے گا۔

یہ بات بھی پہلے بتائی جا چکی ہے کہ مدعا علیہ کی قسم کا بہر صورت اعتبار ہو گا خواہ وہ عادل (سچا) ہویا فاجر (جھوٹا) ہو ہاں اگر قاضی یعنی حاکم عدالت کو سچی گواہی کے ذریعہ اس کے حلف کا جھوٹ معلوم ہو جائے گا تو اس صورت میں اس کا حلف کالعدم ہو جائے گا۔

مدعا علیہ کا حلف کا حق دیا جائے گا خواہ وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو

اور حضرت اشعث ابن قیس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا  ایک زمین میرے اور ایک یہودی کے درمیان مشترک تھی لیکن یہودی نے (اس زمین پر) میرے حصے (کو تسلیم کرنے) سے انکار کر دیا، چنانچہ میں اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گیا اور اپنا معاملہ پیش کیا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  کیا تمہارے پاس گواہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا  نہیں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودی سے فرمایا کہ  تم قسم کھاؤ  میں نے یہ (سن کر) عرض کیا کہ  یا رسول اللہ !یہ اس وقت قسم کھا لے گا اور میرا مال ہڑپ کر لے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (اسی طرح کے ایک قضیہ کے سلسلے میں جس کا ذکر حضرت ابن مسعود کی روایت میں گزر چکا ہے) یہ آیت نازل فرمائی۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَناً قَلِيْلاً اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) 3۔ آل عمران:77) یقیناً جو لوگ معاوضہ حقیر لے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے کیا ہے اور (بمقابلہ) اپنی قسموں کے الخ اس روایت کو ابوداؤد، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ 

 

تشریح

 

 حدیث میں جو آیت نقل کی گئی ہے وہ دراصل اس قضیہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جو حضرت ابن مسعود کی روایت (نمبر ٢) میں بیان ہوا ہے، چونکہ اس روایت میں جو قضیہ ذکر کیا گیا ہے وہ بھی اس قضیہ کی مانند ہے اس لئے یہاں اسی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ پوری روایت حضرت ابن مسعود کی روایت کی تشریح میں نقل کی جا چکی ہے۔

حضرت اشعث کا نقطہ اعتراض یہ تھا کہ اس یہودی کو قسم کھانے کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس کی قسم پر فیصلہ کا انحصار ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ بطور خاص مالی معاملات میں یہودیوں کی فطرت کیا ہے، اس یہودی کے لئے اس میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ میرا مال ہڑپ کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھا لے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کی قسم پر فیصلہ کا انحصار نہ رکھا جائے۔ حضرت اشعث کے اس نقطہ اعتراض کے جواب میں صرف اس آیت کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے جو اس سلسلہ میں نازل ہوئی تھی، لہٰذا اس آیت کو ذکر کرنا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا ہے کہ شریعت نے اس صورت میں کے لئے جو ضابطہ مقرر کیا ہے وہ یہی ہے کہ مدعا علیہ سے قسم لی جائے اور چونکہ اس طرح کے قضیہ میں قسم کھانا مدعا علیہ کا حق ہے اس لئے کسی نقطہ اعتراض کی بنا پر مدعا علیہ کو اس حق سے محروم کرنا اس مقررہ ضابطہ کی خلاف ورزی کرنا ہے جو ہمارے لئے غیر موزوں بات ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی مدعا علیہ اپنے حق سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور اس مقصد سے جھوٹی قسم کھاتا ہے کہ مدعی کا مال ہڑپ کرے تو اس کو آگاہ ہو جانا چاہئے کہ اس کی اس جھوٹی قسم کا وبال اس کی گردن پر ہو گا اور جیسا کہ قرآن مجید نے اعلان کیا ہے۔ اس شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔

جھوٹی قسم کے ذریعہ دوسرے کا مال ہڑپ کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت اشعث ابن قیس سے روایت ہے کہ قبیلہ کندہ کا ایک شخص اور حضرموت کا ایک شخص دونوں یمن کی ایک زمین کے بارے میں اپنا قضیہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرمی نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! اس شخص کے باپ نے میری زمین مجھ سے چھین لی تھی اور اب وہ اس کے قضیہ میں ہے  (میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری وہ زمین مجھ کو واپس دلوائی جائے)  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرمی سے فرمایا کہ  کیا تمہارے پاس گواہ ہیں (جو گواہی دے سکیں کہ وہ زمین واقعۃً تمہاری تھی؟) اس نے عرض کیا کہ  نہیں ! لیکن میں اس سے خدا کی قسم کھلوا کر یہ اقرار کراؤں گا کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ زمین میری (حضرمی کی) ہے جس کو اس کے باپ نے مجھ سے چھین لیا ہے۔ چنانچہ وہ (کندی) قسم کھانے کے لئے تیار ہو گیا (اور جب قسم کھانے چلا) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (یاد رکھو) جو بھی شخص (جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہو گا۔  کندی نے یہ (سن کر) کہا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ) وہ زمین اسی شخص کی ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

( الالقی اللہ وہو اجذم)، جذام ایک مشہور بیماری کا نام ہے جس میں اعضائے جسمانی سڑ گل جاتے ہیں ویسے لغت میں  جذام  کی اصل  جذم ہے جس کے معنی ہیں  کاٹنا  جلدی سے کانٹا۔ نیز یہ لفظ قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنے یا کٹے ہوئے ہاتھ  کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ یہاں حدیث میں یہ لفظ  قطع ید ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے  برکت ہونا اور بھلائی سے خالی ہونا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا :

(من تعلم القرآن ثم نسیہ لقی اللہ وہو اجذم۔)

یعنی جس شخص نے قرآن سیکھا (یاد کیا) پھر اس کو بھول گیا تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا۔ یعنی بے برکت۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں کہ یہاں اجذم سے مراد  مقطوع الحجۃ  (بے دلیل) ہے یعنی وہ شخص اس حال میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو گا کہ اس کے پاس نہ تو اپنے دین و دیانت کی اور خدا ترسی و حقوق شناسی کی بظاہر کوئی دلیل ہو گی جس سے وہ اپنی نجات کا راستہ تلاش کر سکے اور نہ اس کے پاس ایسی زبان ہو گی جس کے ذریعہ وہ عرض معروض کی جرأت کر سکے۔

جھوٹی قسم کھانا ایک بڑا گناہ ہے

اور حضرت عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں (١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (٢) ماں باپ کی نافرمانی کرنا (٣) اور جھوٹی قسم کھانی (یاد رکھو) جس قسم کھانے والے نے بھی مجبوری و قید کی حالت میں خدا کی قسم کھائی اور اس قسم میں مچھر کے بازو کے برابر (یعنی تھوڑا سا) بھی جھوٹ شامل کیا تو اس کے دل میں قیامت تک کے لئے ایک نکتہ پیدا ہو جائے گا (جس کا وبال آخرت میں ظاہر ہو گا)  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 غموس  دراصل  غمس سے ہے جس کے معنی ہیں  غوطہ دینا  اور  یمین غموس کسی گزری بات پر دیدہ و دانستہ جھوٹی قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ حنفی مسلک کے مطابق ایسی قسم کھانے والے پر کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ لیکن اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ توبہ استغفار کرے اور آئندہ اس طرح جھوٹی قسم نہ کھانے کا پختہ عہد کرے کیونکہ یمین غموس کے بارے میں دوزخ کی آگ سے ڈرایا گیا ہے چنانچہ ایسی قسم  کو غموس  اسی اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ ایسی قسم کھانے والے کو دوزخ کی آگ میں غوطہ دے گی۔ نیز غیر کا حق دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جو جھوٹی قسم کھائی جاتی ہے وہ اسی قبیل سے (یعنی یمین غموس کی قسم سے) ہے۔

یمین صبر (یعنی مجبوری وقید کی حالت میں قسم کھانا، کی تفصیل پہلی فصل (حدیث نمبر ١٢) کی تشریح میں گزر چکی ہے نتیجہ کے اعتبار سے  یمین صبر  بھی  یمین غموس  کے مفہوم میں داخل ہے کہ جس طرح یمین غموس سے کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ بلکہ آخرت کی سزا (یعنی دوزخ کی آگ) ملتی ہے اسی طرح  یمین صبر  میں کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی سزا بھی آخرت میں ہی میں ملے گی۔

حدیث (جعلت نکتۃ فی قلبہ الی یوم القیامۃ) (اس دل میں قیامت تک کے لئے ایک نکتہ پیدا ہو جائے گا) کا مطلب یہ ہے کہ اس نکۃ (داغ) کا اثر زنگ کی طرح ہے کہ وہ اپنی قسم میں تھوڑے سے بھی جھوٹ کی آمیزش کرنے والے شخص کے دل پر قیامت تک ہو گا پھر قیامت میں اس کا وبال اس طرح ظاہر ہو گا کہ اس کو عذاب خداوندی میں مبتلا کیا جائے گا۔ اس سے عبرت پکڑنی چاہئے جب کہ تھوڑے سے جھوٹ کی آمیزش کرنے کا انجام یہ ہے کہ تو اس صورت میں کیا حشر ہو گا جب کہ جس بات پر قسم کھائی جائے وہ سرے جھوٹ ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس ارشاد میں تین چیزوں کو ذکر کیا ہے جو بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ ہیں اور پھر ان تینوں میں سے صرف آخر کے بارے میں وعید بیان فرمائی تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ بھی سب سے بڑے گناہ ہیں اور پھر ان تینوں میں سے صرف آخر میں کے بارے میں وعید بیان فرمائی تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ بھی سب سے بڑے گناہوں میں داخل ہے اور لوگ یہ گمان کر کے عدالت میں جھوٹی قسم کھانا گناہ کے اعتبار سے شرک اور ماں باپ کی نافرمانی کی طرح نہیں ہے اس کو کمتر نہ جائیں اسی طرح آگے حضرت خزیمہ ابن فاتک کی جو روایت آئے گی اس کے یہ الفاظ (عدلت شہادۃ الزور بالا شراک باللہ) سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ بھی  اکبر کبائر میں داخل ہے۔

 

 

 اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو بھی شخص میرے منبر کے پاس قسم کھاتا ہے اور اس کی وہ قسم جھوٹی ہوتی ہے اگرچہ وہ ایک مسواک ہی کے لئے کیوں نہ ہو تو وہ (دوزخ کی) آگ میں اپنا ٹھکانہ تیار کرتا ہے۔ یا یہ فرمایا کہ۔ اس کے لئے (دوزخ کی) آگ واجب ہوتی ہے۔ (مالک، ابو داؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 منبر کے پاس قسم کھانے کی قید اس لئے لگائی کہ وہ ایک مقدس وباعظمت جگہ ہے وہاں جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ ورنہ مطلق جھوٹی قسم کھانا خواہ جہاں بھی کھائی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب کو واجب کرتا ہے۔

 سبز مسواک  کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ وہ ایک حقیر ترین چیز ہے۔ جب کہ خشک ہو جانے کے بعد اس میں قدروقیمت پیدا ہو جاتی ہے۔ حاصل یہ کہ مسواک بذات خود بہت معمولی و حقیر چیز ہے۔ جب کہ خشک ہونے سے پہلے تو اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی۔ جب اس کے لئے جھوٹی قسم کھانا اتنی بڑی وعید کا محمول ہے تو جو لوگ عدالتوں میں بڑی بے باکی کے ساتھ بڑی سے بڑی چیز کے لئے جھوٹی قسمیں کھاتے پھرتے ہیں ان کا حشر کیا ہو گا ؟

جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے

اور حضرت خریم ابن فاتک کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو (صحابہ سے خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے کہ  جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر کی گئی ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (بطور دلیل) یہ آیت تلاوت فرمائی (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ  30؀ۙ  حُنَفَاۗءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ) 22۔ الحج:30) پلیدی (بتوں کی پرستش) سے بچو اور جھوٹ بولنے سے اجتناب کرو، کیونکہ تم باطل سے حق رجوع کرنے والے ہو نہ کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہو۔ اس روایت کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے نیز اس کو روایت احمد و ترمذی نے بھی ایمن ابن خریم سے نقل کیا ہے اور ابن ماجہ کی نقل کردہ روایت میں آیت شریفہ کا تلاوت کرنا مذکور نہیں ہے۔

 

تشریح

 

 جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر کی گئی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ شرک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ کیونکہ شرک کا مطلب ہے  اللہ تعالیٰ کی طرف اس چیز کا جھوٹ بولنا جو جائز نہیں ہے۔ اس اعتبار سے چونکہ ان دونوں کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا لہٰذا حکم میں بھی دونوں برابر ہوئے۔

کن لوگوں کی گواہی کا اعتبار نہیں ؟

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ان لوگوں کی گواہی جائز و معتبر نہیں۔ (١) خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت (٢) جس شخص پر تہمت کی حد جاری کی گئی ہو (٣) دشمن جو اپنے (مسلمان) بھائی کے خلاف ہو (٤) وہ شخص جو ولاء کے بارے میں متہم ہو (٥) وہ شخص جو قرابت کے بارے میں متہم ہو۔ (٦) وہ شخص جو کسی ایک گھر پر قانع ہو۔  امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے نیز اس حدیث کا ایک راوی یزید ابن زیاد دمشقی منکر الحدیث ہے۔

 

تشریح

 

 اسلام کی رو سے گواہ کا عادل ہونا اتنا ہی ضروری ہے جس قدر حاکم کا عادل ہونا کیونکہ گواہی ایک ایسا اہم درمیانی وسیلہ ہے جو عدالت کو عدل تک پہنچنے میں فیصلہ کن مدد دیتا ہے، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حدیث میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ چونکہ عدل کے معیار پر پورے نہیں اترتے اس لئے ان کی گواہی کو ناقابل اعتبار قرار دیا گیا ہے خیانت کرنے والا مرد الخ میں  خیانت سے  لوگوں کی امانتوں میں خیانت مراد ہے، یعنی ان مردوں اور عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جو لوگوں کی امانتوں میں خیانت کرنے والے مشہور ہوں اور ان کا جرم خیانت بار بار سرزد ہونے کی وجہ سے لوگوں پر عیاں ہو۔ ورنہ تو ظاہر ہے کہ (خیانت) ایک ایسا مخفی جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے مگر عام طور سے بندوں پر عیاں نہیں ہوتا۔

بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں  خیانت  سے مراد فسق ہے خواہ وہ گناہ کبیرہ کے ارتکارب اور گناہ صغیرہ پر اصرار کی صورت میں ہوا یا احکام دین اور فرائض دین کی عدم بجا آوری کی شکل میں ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دین کے احکام کو بھی  امانت  فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد ہے۔

(اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)۔33۔ الاحزاب:72)

 تحقیق ہم نے امانت (یعنی اپنے دین کے بار کو ) آسمانوں اور زمین پر پیش کیا الخ

اور دین کے احکام کو بجا نہ لانے کو  خیانت  فرمایا جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد ہے۔

(لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا اماناتکم)۔ (الانفال ٨: ٢٧)

 نہ تو خدا اور اس کے رسول کی امانت (یعنی دین کے امور) میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔

اس صورت میں اول تو حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو مرد و عورت احکام شرع اور فرائض دین کی بجا آوری نہ کرتے ہوں یا گناہ کبیرہ کے ارتکاب اور گناہ صغیرہ پر اصرار کرتے ہوں ان کی گواہی معتبر نہیں ہو گی۔ دوسرے یہ کہ آگے آنے والی حدیث میں خیانت کے بعد  زنا  کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ تخصیص بعد تعمیم  کے طور پر ہے علماء لکھتے ہیں کہ یہ تاویل (یعنی خیانت سے فسق مراد لینا اولی ہے ورنہ دوسری صورت میں تمام برائیوں اور گناہوں کا ذکر باقی رہ جائے گا۔ جن کا ارتکاب قبول گواہی سے مانع ہے اور ان سب کو چھوڑ کر صرف خیانت کا ذکر کرنا سمجھ میں نہیں آئے گا۔

جس شخص پر تہمت کی حد جاری کی گئی ہو  کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کسی پاکدامن پر زنا کی تہمت لگائی ہو اور اس کی سزا میں اس پر حد قذف جاری کی گئی ہو تو اس شخص کی گواہی قابل قبول نہیں ہو گی اگرچہ وہ اس سے توبہ بھی کر لے۔

اس بارے میں فقہی مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ حد قذف کے علاوہ اور دوسرے تمام حدود میں یہ رعایت حاصل ہے کہ جس شخص پر حد جاری ہوئی ہو اگر وہ توبہ کرے تو اس کی گواہی قبول ہو گی، توبہ سے پہلے تو اس کی گواہی ناقابل اعتبار قرار پائے گی جب کہ حد قذف میں یہ سزا ہے کہ جس شخص پر یہ حد جاری ہوئی اگر وہ توبہ بھی کرے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی لیکن دوسرے ائمہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ تمام ہی حدود سے متعلق ہے کہ اگر کسی شخص پر حد جاری ہو گئی تو اس کے توبہ کر لینے کے بعد اس کی گواہی قبول کی جائے گی خواہ وہ حد تہمت کے جرم میں جاری ہوئی ہو یا کسی اور گناہ (جیسے زنا) کی وجہ سے۔

 دشمن جو اپنے خلاف ہو  کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آپس میں ایک دوسرے سے دشمنی و عداوت رکھتے ہوں ان کی ایک دوسرے کے بارے میں گواہی معتبر نہیں ہو گی خواہ وہ دونوں آپس میں نسبی بھائی ہوں یا اجنبی  یعنی دینی بھائی  ہوں۔

 وہ شخص جو ولاء کے بارے میں متہم ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص زید ایک دوسرے بکر کا غلام تھا اور بکر نے اس کو آزاد کر دیا تھا اب زید اپنی آزادی کو ایک تیسرے شخص کی طرف منسوب کرتا یعنی یوں کہتا ہے کہ میں عمرو کا آزاد کیا ہوا ہوں، حالانکہ وہ اپنی بات میں جھوٹا ہے اور وہ اپنے اس جھوٹ میں مشہور ہے کہ لوگ عام طور پر اس کے جھوٹے انساب پر اس کو متہم کرتے ہیں اور اس کی تکذیب کرتے ہیں ایسے شخص کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہو گی کیونکہ وہ اپنے اس کہنے کی وجہ سے  فاسق  ہے چنانچہ آزاد کرنے والے کی ولاء (یعنی آزاد کرنے پر حاصل ہونے والے حق کو قطع کرنا اور اس کی ولاء کی نسبت کسی ایسے شخص کی طرف کرنا جس نے حقیقت میں اس کو آزاد نہیں کیا ہے گناہ کبیرہ ہے اور اس کے مرتکب کے بارے میں سخت وعید و تنبیہ وارد ہے۔ یہ حکم قرابت کے بارے میں بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی قرابت میں غلط بیانی کرے یعنی یوں کہے کہ میں فلاں شخص مثلاً زید کا بیٹا ہوں لیکن اس کی غلط بیانی پر لوگ اس کو متہم کرتے ہوں اور اس کی تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ زید کا بیٹا نہیں ہے بلکہ حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے تو اس کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہو گی کیونکہ اس کا یہ جھوٹ بھی  فسق  ہے اور اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے والے کے بارے میں لعنت وارد ہوئی ہے۔

وہ شخص جو کسی ایک گھر پر قانع ہو۔ ایسا شخص وہ سائل ہے جو کم سے کم پیٹ بھرنے پر قناعت کر لیتا ہو یا جس کی روزی کسی ایک گھر سے متعلق ہو اور یا جو کسی ایک گھر کا ہو رہا ہو۔ لیکن یہاں وہ شخص مراد ہے جو کسی کے زیر نفقہ ہو یعنی جس کا گزر کسی کے دینے پر ہوتا ہو جیسے خادم و تابع۔ ایسے شخص کی گواہی اس کے مخدوم و متبوع کے حق میں قبول نہیں ہو گی کیونکہ اول تو یہ احتمال ہے کہ وہ اپنی محتاجی کی وجہ سے اپنے مخدوم متبوع کی ناروا طرف داری کرے اور سچی بات نہ کہے اور دوسرے یہ کہ اپنے مخدوم و متبوع کے حق میں گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ گویا وہ اپنی گواہی کے ذریعہ اس چیز کے منافع کو اپنی ذات سے متعلق کرتا ہے جو اس کی گواہی کے نتیجہ میں اس کے مخدوم و متبوع کو حاصل ہو گی یا بایں طور کہ جب اس کا کھانا پینا اس کے مخدوم و متبوع کے ذمہ ہے جس کے حق میں وہ گواہی دے رہا ہے تو اس مخدوم و متبوع کو اس کی گواہی کا وہی حکم ہو گا جو باپ اور بیٹے یا شوہر اور بیوی کی گواہی کا حکم ہے کہ جس طرح اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کے حق میں یا بیٹا اپنے باپ کے حق میں گواہی دے یا شوہر اپنی بیوی کے حق میں یا بیوی شوہر کے حق میں گواہی دے تو اس کی گواہی درست نہیں ہو گی اور اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے حق میں گواہی دینا گویا اپنی ذات کے فائدے کے لئے گواہی دینا ہے اسی طرح مخدوم و متبوع کے حق میں تابع و خادم کی گواہی بھی درست نہیں ہے اور اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ! البتہ یہ واضح رہے کہ بھائی کے حق میں بھائی کی گواہی درست رہے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا۔

 نیز اس حدیث کا ایک راوی یزید ابن زیاد دمشقی منکر الحدیث ہے  میں  منکر الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حدیث منکر ہے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ جس راوی سے کوئی فحش غلطی صادر ہوئی ہو یا اس پر غفلت ونسیان کا غلبہ ہو اور یا اس کا فسق ظاہر ہو تو اس صورت میں اس کی روایت کردہ حدیث  منکر کہلائے گی۔

 

 

 اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور ان کے والد اپنے دادا سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ تو خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت کی گواہی درست ہے اور نہ زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورت کی گواہی درست ہے اسی طرح دشمن کی گواہی (اپنے) دشمن کے خلاف مقبول نہیں۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک مقدمہ میں) اس شخص کی گواہی کو رد کر دیا جو ایک گھر کی کفالت و پرورش میں تھا اور اس نے وہ گواہی اس کے گھر والوں کے حق میں دی تھی۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 اس حدیث کی وضاحت اس سے قبل کی حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔

شہری کے حق میں یا اس کے خلاف جنگلی کی شہادت قبول ہو گی یا نہیں ؟

اور حضرت ابوہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا  بستی میں رہنے والے کے حق میں یا اس کے خلاف،جنگل میں رہنے والے کی گواہی درست نہیں ہو گی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 جنگل میں رہنے والے کی گواہی اس لئے درست نہیں کہ عام طور پر وہ نہ تو شریعت کے احکام کا علم رکھتا ہے اور نہ گواہی دینے کی شرائط و کیفیت کی واقفیت رکھتا ہے اسی طرح اس پر غفلت و نسیان کا غلبہ زیادہ رہتا ہے لہٰذا اگر جنگل میں رہنے والا گواہی کی ذمہ داریوں کا احساس رکھتا ہو اور دینے کی جو شرائط و کیفیات ہیں ان سے واقف ہو نیز عادل اہل شہادت کے زمرے میں آتا ہو تو اس کی گواہی درست و معتبر ہو گی۔ حضرت امام مالک نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے چنانچہ ان کے نزدیک کسی شہری کے حق میں یا اس کے خلاف جنگل میں رہنے والے کی گواہی جائز نہیں ہو گی جب کہ اکثر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ جنگل میں رہنے والا اگر عادل ہو اور گواہی کے معیار پر پورا اترتا ہو تو شہری کے حق یا اس کے خلاف اس کی گواہی درست و معتبر ہو گی۔ ان ائمہ کے نزدیک حدیث کے الفاظ (لا یجوز) گویا (لایحسن) کے معنی میں ہیں اور جنگلی کی گواہی کا جائز نہ ہونا  صفات مذکورہ کے نہ پائے جانے کے ساتھ مقید ہے۔

اپنے معاملے مقدمے میں دانائی و ہوشیاری کو ملحوظ رکھو

اور حضرت عوف ابن مالک کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو شخصوں کے درمیان ایک مقدمہ کا فیصلہ دیا (جو ایک شخص کے خلاف اور دوسرے شخص کے حق میں تھا۔ چنانچہ مقدمہ کا فیصلہ جس شخص کے خلاف ہوا تھا اس نے مجلس نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے اٹھ کر) واپس جاتے ہوئے کہا کہ (حسبی اللہ ونعم الوکیل) یعنی مجھ کو میرا للہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ (سن کر) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نادانی و لاپرواہی پر ملامت کرتا ہے، تم کو چالاکی اور ہوشیاری ضروری ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑے تو (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہو۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے کچھ قرض لیا ہو گا اور وہ قرض اس نے ادا بھی کر دیا ہو گا لیکن اس سے یہ نادانی اور حماقت ہوئی کہ اس نے قرض واپس کرتے وقت قرض خواہ سے کوئی رسید نہ لی اور نہ کسی کو گواہ کیا، آخر مدعی (قرض خواہ) نے بارگاہ رسالت میں اس شخص پر دعوی کر دیا چونکہ اس( مدعی) نے قرض دینے کا ثبوت پیش کر دیا ہو گا لیکن یہ شخص (مدعا علیہ) واپسی قرض کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا ہو گا اس لئے مقدمہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا اور مدعی نے ڈگری حاصل کر لی۔ جب وہ مقدمہ ہار کر دربار رسالت سے نکلا تو اس نے از راہ غم و حسرت  (حسبی اللہ ونعم الوکیل)  کہا اور اس طرح اس نے یہ اشارہ کیا کہ مدعی نے مجھ سے ناحق مال لے لیا اور میں خواہ مخواہ نقصان اٹھا بیٹھا۔

اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے کاروبار زندگی اور اپنے معاملات میں لاپرواہی نادانی اور غفلت و کوتاہی کوئی اچھی چیز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے والے پر اللہ تعالیٰ ملامت کرتا ہے، پھر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو لازم ہے کہ اپنے کاروبار اور اپنے معاملات میں ہوشیار و چوکس رہو اور احتیاط و دانائی اختیار کرو۔

حاصل یہ کہ غفلت و کوتاہی سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا کیونکہ حق تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم کی جس دولت سے نوازا ہے اس کا صحیح مقتضیٰ یہی ہے کہ بندہ اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات میں دانائی و ہوشیاری کو ملحوظ رکھے لہٰذا اس معاملہ میں تم سے جو کوتاہی و غفلت سرزد ہوئی ہے اس کو اپنے عجز پر محمول کر کے (حسبی اللہ ونعم الوکیل) نہ کہو بلکہ آئندہ کے لئے اس بات کا عہد کر لو کہ پھر کبھی اس طرح کی غفلت و کوتاہی نہیں کرو گے اور احتیاط و ہوشیاری کو بہر صورت ملحوظ رکھو گے۔

طیبی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ گویا اس شخص پر یہ واضح کیا کہ لازم تو یہ تھا کہ تم اپنے معاملے میں ہوشیار رہتے اور کسی کو گواہ بنا کر یا اس کے مانند کوئی ثبوت رکھ کر کوتاہی و غفلت میں مبتلا نہ ہوتے تا کہ جب تمہارا مقدمہ پیش ہوتا اور تم فیصلے کے لئے یہاں حاضر ہوتے تو گواہوں اور ثبوت کے ذریعہ مدعی کو ناحق ثابت کرنے پر قادر ہوتے مگر اب جب کہ تم اپنی غفلت ٍو کوتاہی کی وجہ سے مدعی کے دعوی کو ناحق ثابت کرنے سے عاجز ہو تو (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہتے ہو حالانکہ (حسبی اللہ ونعم الوکیل) اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ حصول مقصد کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور اپنی تمام تدابیر و احتیاط کے باوجود کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا، لہٰذا یہ ذہن نشین رہے کہ جب کوئی معاملہ کیا جائے اس میں پوری پوری احتیاط اور ہوشیاری کو ملحوظ رکھا جائے اور جب تمام تر امکانی احتیاط و ہوشیاری کے باوجود حصول مقصد کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آئے اور اس طرح عجز و  معذوری کے درجہ پرپہنچ جائے تو اس وقت (حسبی اللہ ونعم الوکیل) کہے۔

ملزم کو قید کرنا شرعی سزا ہے

اور حضرت بہز ابن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو تہمت کی بنا پر قید کر دیا تھا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 تہمت کی بنا پر  کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے اس پر اپنے دئیے ہوئے قرض کا دعوی کیا تھا اس پر کسی گناہ کا الزام نہیں تھا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو قید (حوالات) میں رکھا تا کہ اس دوران میں گواہوں کے ذریعہ مدعی کے دعوی کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے۔ لیکن مدعی اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے سے عاجز رہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو الزام سے بری قرار دے کر رہا کر دیا۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ملزم کو قید کرنا شرعی حکم کے مطابق ہے۔

مدعی اور مدعا علیہ دونوں حاکم کے سامنے موجود رہیں

حضرت عبداللہ ابن زبیر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمان (عدالتی ضابطہ) جاری فرمایا کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں حاکم کے روبرو بیٹھیں۔ (احمد، و ابو داؤد)

 

تشریح

 

 طیبی کہتے ہیں کہ قاضی (حاکم عدالت) کے لئے اس سے دشوار اور سخت ترین مرحلہ کوئی نہیں ہے کہ جب اس کے سامنے مقدمہ پیش ہو تو وہ دونوں فریق یعنی مدعا علیہ کے درمیان پوری برابری رکھے۔