حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ اس قوم پر تعجب کرتا ہے یعنی ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو زنجیروں میں بندھے ہوئے جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے) جو زنجیروں میں باندھ کر جنت کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کفار (دشمن) کے جو لوگ جہاد وغیرہ کے موقع پر قیدی بنائے جاتے ہیں اور ان کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر دارالاسلام میں لایا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو ایمان نصیب فرماتا ہے تو ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا اس اعتبار سے اگرچہ ان کے دخول جنت کا سبب ان کا ایمان قبول کر لینا ہے لیکن ظاہر میں گویا وہ زنجیروں اور بیڑیوں میں باندھ کر جنت میں داخل کئے گئے ہیں۔
اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) مشرکین، (دشمن) کا ایک جاسوس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سفر کے دوران تھے، چنانچہ اس جاسوس نے (ٹوہ لینے کے لئے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کیں اور پھر چلا گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جب اس کے بارے میں معلوم ہوا تو (آپ صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا اس کو تلاش کرو اور قتل کر ڈالو چنانچہ میں نے اس کو (ڈھونڈھ نکالا اور) قتل کر ڈالا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا سامان و اسباب مجھے مرحمت فرمایا۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے ساتھ (قبیلہ قیس کی ایک شاخ) ہوازن کے خلاف جہاد میں شریک تھے (ایک دن) اس وقت جب کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، اچانک ایک شخص جو (دشمن کا جاسوس تھا اور) سرخ اونٹ پر سوار تھا آیا، اس نے اونٹ کو بٹھا دیا اور (ادھر ادھر) دیکھنے لگا (یعنی وہ ہماری حالت و کیفیت کی ٹوہ لینے لگا) اس وقت ہم (اپنی خستہ حالی اور پیادہ پائی کی وجہ سے) بہت نڈھال ہو رہے تھے، ہمارے پاس سواریوں کی کمی تھی اور ہم میں سے بعض لوگ پیدل تھے۔چنانچہ (جب اس شخص نے ہماری اس کمزوری کا اندازہ لگا لیا کہ ہم سواریوں کی کمی اور اپنی خستہ حالی کی وجہ سے پریشان اور نڈھال ہیں تو دشمن کو اس کی اطلاع دینے کے لئے) وہ اچانک (ہمارے درمیان سے) دوڑتا ہوا نکلا اور اپنے اونٹ کے پاس پہنچ کر (اس پر سوار ہونے کے بعد) اس کو کھڑا کیا اور وہ اونٹ اس کو لے کر تیزی سے دوڑنے لگا میں (نے یہ صورت حال دیکھی تو میں بھی اپنے لوگوں کے درمیان سے نکلا اور (اس شخص کے پیچھے) دوڑا یہاں تک کہ میں نے (اس کو جا لیا اور) اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اس کو بٹھا دیا اور پھر اپنی تلوار سونت کر اس شخص کے سر پر (بھر پور) وار کیا (جس سے اس کا کام تمام ہو گیا) اس کے بعد اونٹ کو، جس پر اس شخص کا سامان اور اس کے ہتھیار تھے، کھینچتا ہوا لایا، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور دوسرے لوگ میرے سامنے آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس شخص کو کس نے قتل کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا کہ سلمہ ابن اکوع نے ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس سارے سامان کے حقدار یہی (سلمہ) ہیں۔ بخاری و مسلم)
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جب (مدینہ میں آباد) بنوقریظہ (کے یہودی) حضرت سعد ابن معاذ کو حاکم تسلیم کر لینے پر اتر آئے (یعنی وہ اس پر آمادہ ہوئے کہ سعد ابن معاذ جو فیصلہ کریں گے ہم اس کو تسلیم کر لیں گے، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد کو بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا، سعد ابن معاذ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے اور جب وہ قریب پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (حاضرین سے) کہا کہ تم لوگ اپنے سردار کی تعظیم یا ان کی مدد کے لئے کھڑے ہو جاؤ سعد ابن معاذ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب) آ کر بیٹھ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ یہ لوگ (یعنی بنو قریظہ کے یہودی) تمہیں حکم ماننے پر راضی ہو گئے ہیں۔ سعد ابن معاذ نے کہا کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان (یہودیوں) میں سے جو لوگ لڑنے (کی صلاحیت رکھنے) والے ہیں ان کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ 'آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا تم نے ان کے بارے میں بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے یعنی تم نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہے) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت سعد ابن معاذ بڑے اونچے درجہ کے صحابی اور مشاہیر انصار میں سے ہیں مدینہ کے انصار ان کو اپنا سردار اور بڑا مانتے تھے۔ بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا، یہ قبیلہ حضرت سعد ابن معاذ کا حلیف اور اس کے یہودی ان کے عہد و امان میں تھے،جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے قبائل یہود سے ایک باہمی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان، باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے شہری اور سیاسی حقوق و مفادات کے تحفظ کے معاملات طے پائے تھے لیکن یہودیوں نے کچھ ہی دنوں بعد اس معاہدہ کو بالائے طاق رکھ دیا، اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ان کو نقصان پہنچانے کے اقدامات میں مشغول ہو گئے، چنانچہ دوسرے یہودی قبائل کی طرح بنوقریظہ بھی اس عہد شکنی کے مرتکب ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ٥ھ میں غزوہ خندق کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان (بنوقریظہ) کے خلاف جہاد کا ارادہ کیا اور ان کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ پچیس ٢٥روز تک جاری رہا جب بنو قریظہ بالکل مجبور ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ سعد ابن معاذ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کریں گے ہم ان اس کو منظور کریں گے، ان کا خیال تھا کہ چونکہ ہم سعد کے حلیف اور ان کے عہد و امان میں ہیں اس لئے وہ ہماری رعایت کریں گے، اور ہمیں اس محاصرہ سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے، لیکن حضرت سعد نے اس تعلق کا لحاظ کئے بغیر وہی فیصلہ دیا جو ان یہودیوں کے حسب حال اور مصلحت و حکمت کے عین مطابق تھا۔
تم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ اس حکم کے بارے میں امام نووی کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ صاحب فضل کی تعظیم و توقیر کی جائے اور اس کے آنے پر تعظیماً کھڑا ہو جانا چاہئے چنانچہ اکثر علماء نے اس مسئلہ میں اس ارشاد گرامی کو دلیل قرار دیا ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم حضرت سعد کی تعظیم کرنے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ اس بنا پر تھا کہ ان (سعد) کی ران پر تیر کا زخم تھا جو غزوہ خندق میں ان کو لگا تھا اور اس کی وجہ سے وہ سواری پر سے خود اترنے سے مجبور تھے، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور سواری پر سے اترنے میں سعد کی مدد کرو۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لشکر کو (جہاد کرنے کے لئے) بخد کی طرف روانہ کیا، لشکر کے لوگ (قبیلہ) بنو حنیفہ کے ایک شخص کو پکڑ کر (مدینہ) لائے جس کا نام ثمامہ ابن اثال تھا اور جو شہر یمامہ کا سردار تھا، اس شخص کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا (تاکہ وہ بھاگ نہ سکے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس سے پوچھا کہ کہو ثمامہ ! تمہارے پاس (کہنے سننے کو) کیا ہے ؟ (یعنی بتاؤ تمہارا کیا حال ہے میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح کا سلوک کروں گا ؟) ثمامہ نے کہا کہ میرے پاس بھلائی ہی بھلائی ہے یا میرے پاس بہت مال ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (مجھ کو قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے (جو قتل ہی کئے جانے کا مستحق ہے، ان الفاظ کے ذریعہ گویا ثمامہ نے اپنی تقصیر کا اعتراف و اقرار کیا، یا اس کے ان الفاظ کا یہ مطلب تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے قتل کر دیں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا کیونکہ میری قوم میرا خون معاف نہیں کرے گی بلکہ آپ سے بدلہ لے گی، اس صورت میں اس نے گویا اپنی امارت اور اپنی ریاست و وجاہت کا دعوی کیا) اور اگر آپ (مجھے با عزت رہائی دے کر میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ایک شخص ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گزار و قدر دان سے (یعنی میں بھی اس اچھے سلوک کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بدلہ دوں گا) اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مال چاہتے ہیں تو مانگیے،جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا۔ (یہ باتیں سن کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو (اس حال پر) چھوڑ دیا جب دوسرا دن آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ ! تمہارے پاس) کہنے سننے کو کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گزار و قدردان ہے، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس دن بھی یہ سن کر) اس کو (اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اور جب تیسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر اس سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گزار و قدر دان ہے، اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) حکم دیا کہ ثمامہ کو رہا کر دیا جائے۔ چنانچہ (رہائی پانے کے بعد کچھ کہے سنے بغیر) کھجوروں کے ان درختوں (کے جھنڈ) میں چلا گیا جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تھے اور وہاں سے نہا دھو کر پھر مسجد نبوی میں آیا اور (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے) کہا اشہد ان لا الہ الاّ اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ یعنی میں (سچے دل کے اعتراف واقرار کے ساتھ) گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (پھر کہنے لگا کہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خدا کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے سے زیادہ نفرت انگیز کوئی چہرہ نہیں تھا لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک میرے نزدیک (دنیا کے) سارے چہروں سے زیادہ پیارا ہے، خدا کی قسم !میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین سے زیادہ نفرت انگیز کوئی دین نہیں تھا لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دین میرے نزدیک سارے دینوں سے زیادہ پیارا ہے اور خدا کی قسم ! میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر سے زیادہ نفرت انگیز کوئی شہر نہیں تھے لیکن اب میرے نزدیک سارے دنیا کے سارے شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔ پھر (اس عرض کیا کہ یا رسول اللہ !) آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے لشکر نے مجھے اس وقت گرفتار کیا تھا جب کہ میں عمرہ (کرنے کے لئے مکہ جانے کا ارادہ کر رہا تھا تو اب آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں (آیا میں عمرہ کے لئے مکہ جاؤں یا نہیں ؟) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (پہلے تو) اس کو بشارت دی کہ اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے تمہیں شرف و عظمت انسانیت حاصل ہو گئی ہے اور تمہارے پہلے سارے گناہ بخش دیئے گئے ہیں) اور پھر ان کو عمرہ کرنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد ثمامہ جب (عمرہ کرنے کے لئے) مکہ پہنچے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا کہ تم تو بے دین ہو گئے ہو۔ ثمامہ نے جواب دیا کہ نہیں ! میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، میں بے دین نہیں ہوا ہوں اور (یاد رکھو!) خدا کی قسم ! اب یمامہ سے تم کو گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں بھیجا جائے گا جب تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کی اجازت نہ دیں۔ (مسلم) اس روایت کو بخاری نے بھی اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا کہ اگر مطعم ابن عدی زندہ ہوتے اور مجھ سے ان ناپاک قیدیوں کے حق میں سفارش کرتے، تو میں ان (قیدیوں) کو ان (مطعم) کی سفارش پر رہا کر دیتا۔ (بخاری)
تشریح
حضرت جبیر اسلام قبول کرنے سے پہلے جنگ بدر کے موقع پر کفار کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کے مقابلے پر لڑ رہے تھے جنگ کے بعد ان کفار میں سے جو لوگ قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے ان میں حضرت جبیر بھی تھے اس طرح حضرت جبیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث سنی تو کفر کی حالت میں، مگر اس کو بیان کیا اسلام قبول کرنے کے بعد۔
مطعم ابن عدی، حضرت جبیر کے والد تھے اور نوفل ابن عبد مناف کا پوتا ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم جد قرابتی تھے ان (مطعم) کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک احسان تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے اور وہاں سے واپس آئے تو مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے نرغے میں لے کر نقصان پہنچانا چاہا مگر مطعم نے ان مشرکین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دور کیا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جبیر کے سامنے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے جس کا ایک مقصد جبیر کی تالیف قلب اور ان کو اسلام کی طرف راغب کرنا تھا۔
اور حضرت انس راوی ہیں کہ (صلح حدیبیہ کے سال) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف مکہ کے اسی آدمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر تنعیم کے پہاڑ سے اتر آئے جن کا ارادہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ پر اچانک حملہ کر کے ان کو نقصان پہنچائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (لڑے بھڑے بغیر) ان سب کو بے بس اور ذلیل کر کے گرفتار کر لیا اور پھر ان کو زندہ چھوڑ دیا۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ۔ اور پھر ان کو رہا کر دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ) 48۔ الفتح:24) اور وہ اللہ ایسا ہے جس نے نواح مکہ میں ان (کفار) کا ہاتھ تمہارے خلاف اور تمہارا ہاتھ ان کے خلاف بند رکھا۔ (مسلم)
اور حضرت قتادہ کہتے ہیں حضرت انس بن مالک نے حضرت ابو طلحہ کے حوالہ سے ہمارے سامنے یہ بیان کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر کے دن (مکہ کے) کفار قریش کے چوبیس (مقتولین) سرداروں کے بارے میں حکم دیا (کہ ان کو ٹھکانے لگا دیا جائے) چنانچہ ان کی نعشوں کو بدر کے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا جو ناپاک تھا اور ناپاک کرنے والا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ عادت تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم (جنگ میں) کسی قوم (یعنی دشمنوں) پر غلبہ اور فتح پا لیتے تھے تو اس میدان جنگ میں تین راتیں قیام فرماتے تھے چنانچہ (اسی عادت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم جنگ جیت لینے کے بعد بدر کے میدان میں بھی تین راتیں قیام فرما رہے اور جب تین دن گزر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سواری کے اونٹ پر کجاوہ باندھنے کا حکم دیا، چنانچہ کجاوہ باندھ دیا گیا اور وہاں سے روانہ ہوئے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے پیچھے ہو لئے (جب اس کنوئیں پر پہنچے جس میں سرداران قریش کی نعشیں ڈالی گئی تھی تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو گئے اور ان سرداروں کو ان کا اور ان کے باپوں کا نام لے کر پکارنا شروع کیا کہ اے فلاں ابن فلاں اور اے فلاں ابن فلاں (اور پھر گویا ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ) (اب) تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ؟ بلاشبہ ہمیں تو وہ چیز حاصل ہو گئی جس کا ہم سے ہمارے رب نے قطعی وعدہ کیا تھا (یعنی تمہارے مقابلہ پر ہماری فتح اور باطل طاقتوں پر ہمارے غلبہ کا) اور کیا تم نے بھی وہ چیز پالی جس کا تم سے تمہارے پروردگار نے قطعی وعدہ کیا تھا یعنی تمہارے عذاب کا (مطلب یہ کہ ہم کو تو خدا کے وعدے کے مطابق فتح و کامیابی حاصل ہو گئی کیا تم کو بھی عذاب ملا جس سے تمہارے پروردگار نے تمہیں ڈرایا تھا ؟ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ سوال از راہ توبیخ تھا) حضرت عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ ایسے جسموں کو مخاطب کر رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں !؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے، ان (جسموں سے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم اس کو زیادہ سننے والے نہیں ہو اور ایک روایت میں یوں ہے کہ۔ تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن (فرق صرف اتنا ہے کہ تم جواب دینے پر قادر ہو اور) یہ جواب نہیں دے سکتے۔ (بخاری و مسلم)
بخاری نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت قتادہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان (سرداران قریش) کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خطاب کے وقت) زندہ کر دیا تھا تا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن لیں اللہ تعالیٰ کے سامنے) ان کو سرزنش ہو اور وہ ذلت و خواری، عذاب اور افسوس و پشیمانی کو محسوس کریں۔
تشریح
حضرت عبد الحق محدث دہلوی وغیرہ نے اس حدیث کے ذریعہ سماع موتی کے مسئلہ کو ثابت کیا ہے جس کہ اکثر حنفی علماء نے اس (سماع موتی) کا انکار کیا ہے، ان علماء کی طرف سے مختلف انداز میں جواب دئیے گئے ہیں جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں جیسے فتح القدیر وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اور حضرت مروان اور حضرت مسور ابن مخرمہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت (خطبہ ارشاد کرنے کے لئے) کھڑے ہوئے جب قبیلہ ہوازن کے لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے قیدی واپس کر دئیے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لو یعنی یا تو قیدیوں کو رہا کرا لے جاؤ یا مال واپس لے لو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو رہا کرانا پسند کرتے ہیں تب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کے سامنے) یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ مستحق ہے اور پھر فرمایا کہ !بعد ازاں یہ (قبیلہ ہوازن کے لوگ) جو تمہارے (دینی یا نسبی) بھائی ہیں (اپنے کفر و شرک سے) توبہ کر کے (اور مسلمان ہو کر) تمہارے پاس آئے ہیں، میں نے اس چیز کو مناسب سمجھا ہے کہ ان کو ان کے قیدی واپس کر دے) اور جو شخص اپنے حصہ پر قائم رہنا چاہے تاوقتیکہ ہم اس کا عوض اس پہلے آنے والے مال میں سے نہ دے دیں جو اللہ تعالیٰ ہمیں غنیمت کے طور پر عطا کرے تو وہ ایسا ہی کرے (یعنی جو شخص اپنے حصے کے قیدی کو بغیر معاوضہ نہ دینا چاہے تو وہ ہمیں بتائے کہ وہ کیا معاوضہ لے گا تاکہ ہم یہ انتظام کر دیں کہ اب کہیں سے جو سب سے پہلے مال غنیمت آئے اس میں سے اس کا وہ معاوضہ ادا کر دیا جائے ! لوگوں نے (یعنی بعض صحابہ یا بلا امتیاز تمام صحابہ نے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم اس پر (یعنی قیدیوں کو واپس کر دینے پر) خوشی کے ساتھ آمادہ ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہمیں (اس مجمع میں) یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ تم میں سے کون شخص راضی ہے اور جو شخص راضی نہیں ہے اس کا امتیاز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا تم سب لوگ (اپنے اپنے گھر) لوٹ جاؤ اور اپنے خاندان و قبیلہ کے سرداروں سے اس بارے میں مشورہ کر لو) تاآنکہ تمہارے (وہ) سردار تفصیل کے ساتھ) ہمارے سامنے تمہارا فیصلہ پیش کریں۔ چنانچہ سب لوگ لوٹ کر چلے گئے اور جب ان کے سرداروں نے ان سے گفتگو کر لی تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بتایا کہ وہ (قیدیوں کو واپس کر دینے پر) راضی ہیں اور انہوں نے (اس امر کی) اجازت دے دی ہے۔ (بخاری)
تشریح
مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب طائف کے لئے جو راستہ جاتا ہے اس راستے پر ایک وسیع میدان ملتا ہے جس کے اطراف میں پہاڑیاں ہیں اور اس سے گزرنے کے بعد چھوٹی سی بستی ملتی ہے، اس میدان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے آس پاس قبیلہ ہوازن کے لوگ آباد تھے اور یہیں فتح مکہ کے بعد وہ غزوہ ہوا تھا جس کو غزوہ حنین یا غزوہ ہوازن کہتے ہیں۔ اس غزوہ میں غزوہ میں غنیمت کا بہت زیادہ مال مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور دشمن کے بے شمار بال بچے قیدی بنا کر مدینے لائے گئے تھے جن کو صحابہ کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے چنانچہ جب اس غزوہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تو وہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوئے اور اپنے مال اور اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، چونکہ ان کا مال اور قیدی مجاہدین اسلام (یعنی صحابہ) کی ملکیت ہو گئے تھے اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی ملکیت کو واپس کرنا جائز نہیں تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں صحابہ کے سامنے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا اور ان سے مذکورہ اجازت طلب کی۔
اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف، بنو عقیل کا حلیف تھا، چنانچہ جو قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا اور اس کو مضبوطی سے باندھ کر حرہ میں ڈال دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ادھر سے گزرے تو اس (قیدی) نے پکارا 'محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) !محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) مجھے کس جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے حلیف، قبیلہ ثقیف (کے لوگوں کے جرم میں یعنی قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ہمارے دو مسلمانوں کو پکڑ لیا ہے، ان کے بدلے میں تمہیں پکڑ لیا گیا ہے۔ (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اس کے حال پر (اس جگہ) چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئے، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پھر پکارا محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ! محمد! رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر رحم آگیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ تم کس حال میں ہو ؟ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (کاش !) تم یہ بات اس وقت کہتے،جب تم خود اپنے اختیار کے مالک تھے (یعنی جب کہ تم قید ہونے سے پہلے اپنے اوپر اختیار رکھتے تھے اور تم پر کوئی دباؤ نہیں تھا اگر اس وقت بطریق رغبت کے یہ کہتے کہ میں مسلمان ہوں تو تم نجات پا جاتے کامل نجات (یعنی دنیا میں تو یہ نجات ملتی کہ قید نہ ہوتے اور آخرت میں دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا پاتے) راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ان دونوں آدمیوں کے بدلے میں جن کو ثقیف نے گرفتار کیا تھا چھوڑ دیا۔ (مسلم)
تشریح
ثقیف عرب کے ایک بڑے اور مشہور قبیلہ کا نام ہے۔ جو بنو ہوازن کی ایک شاخ اور طائف میں آباد تھا، اسی طرح بنوعقیل بھی ایک تھا، یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت کے عرب میں یہ دستور تھا کہ قبائل آپس میں ایک دوسرے کے درمیان حلف و قسم کے ساتھ یہ عہد و پیمان کیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے برے بھلے کام کے ساتھی ہوں گے اور ہم میں سے کسی ایک کا دشمن دوسرے کا بھی دشمن اور کسی ایک کا دوست دوسرے کا بھی دوست ہو گا، لیکن جب اسلام کا زمانہ آیا تو زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق وہ قسما قسمی تو جائز رہی جس کا تعلق حق اور جائز باتوں سے تھا لیکن جس کا تعلق ناحق اور ناجائز باتوں سے تھا اس کو ختم کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اسلام کا جو حلف ہے وہ کافی ہے۔
بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا یعنی قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے جن دو صحابہ کو پکڑ کر اپنے یہاں قید کر لیا تھا ان کے بدلے میں مسلمانوں نے بنوعقیل ایک آدمی پکڑ کر اپنے یہاں باندھ دیا، کیونکہ اس وقت قبائل کا باہمی دستور یہی تھا کہ ایک حلیف کے جرم میں دوسرے حلیف کے حلیف کے آدمی پکڑ لیا جاتا تھا چنانچہ مسلمانوں نے بھی اسی دستور کے مطابق عمل کیا اور بظاہر اس میں مصلحت بھی تھی۔
حرہ مدینہ کے مضافات میں پہاڑی علاقہ کے اس قطعہ کو کہا جاتا تھا جس کی زمین کالی پتھریلی تھی۔
میں مسلمان ہوں الخ ان الفاظ کے ذریعہ اس شخص نے گویا یہ بتانا چاہا کہ میں پہلے ہی سے مسلمان ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو غیر مسلم، مسلم)انوں کی قید میں ہو اور وہ یہ دعوی کر لے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کی بات کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا دعوی گواہی کے ذریعہ ثابت نہ ہو جائے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ اس شخص کی یہ مراد ہو میں اب اسلام قبول کرتا ہوں۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے دعوی اسلام کو قبول نہیں کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ یہ تو از راہ نفاق اپنے اسلام کا دعویٰ کر رہا ہے یا بطریق اضطرار وہ اس دعوے پر مجبور ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جھوٹا سمجھتے ہوئے دارالحرب جانے دیا۔
اس اعتبار سے اس شخص کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معاملہ گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب (جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار مکہ پر غلبہ اور فتح عطا فرمائی اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دئیے گئے اور کچھ قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی رہائی کے بدلے میں مال طلب کیا تو) اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا معاوضہ روانہ کیا، (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی) حضرت زینب نے بھی (اپنے شوہر) ابو العاص کی رہائی کے بدلے میں کچھ مال بھیجا جس میں ان کا وہ ہار بھی تھا جو (پہلے) حضرت خدیجہ کے پاس تھا اور اس کو انہوں نے ابو العاص کے ساتھ زینب کے نکاح کے وقت ان کو (جہیز میں) دیا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ ہار دیکھا تو زنیب کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر رقت طاری ہو گئی (یعنی) اس وقت اپنی بیٹی حضرت زینب کی غربت و تنہائی کا احساس کر کے اور حضرت خدیجہ کی رفاقت کی یاد تازہ ہو جانے کی وجہ سے جن کے گلے میں وہ ہار رہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل امنڈ آیا) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ سے) فرمایا کہ اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کی خاطر اس کے قیدی (ابو العاص) کو (بلا معاوضہ) رہا کر دو اور اس (زینب) کو اس کی (وہ سب) چیزیں (جو اس نے ابو العاص کی رہائی کی لئے بھیجی ہیں) واپس کر دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ بہتر ہے (ہم زینب کا مال واپس کر کے ابو العاص کو بلا معاوضہ رہا کر دیتے ہیں) چنانچہ (ابو العاص کو رہا کر دیا گیا اور رہائی کے وقت) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو العاص سے یہ عہد وعدہ لیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس زینب کے آنے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو العاص کو رہا کرتے وقت ان سے کہا کہ یہ پختہ وعدہ کرو کہ مکہ پہنچ کر زینب کو میرے پاس مدینہ آنے دو گے اور اس کا راستہ نہیں روکو گے) اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زید ابن حارثہ اور انصار میں سے ایک شخص کو (مکہ) روانہ کیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ بطن یا جج میں ٹھہر جانا،جب زنیب (مکہ سے روانہ ہو کر) وہاں تمہارے پاس آ جائے تو تم اس کے ساتھ ہو جانا اور (مدینہ) لے آنا۔ (احمد، ابوداؤد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں، اور ابو العاص ابن ربیع جو عبدالعزی ابن عبد شمس ابن عبد مناف کے پوتے تھے، ام المؤمنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے اور حضرت زینب کے شوہر ہونے کی وجہ سے داماد بھی تھے۔
حضرت خدیجہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ساری اولاد علاوہ ابراہیم کے حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے تھی۔ ابراہیم جن کا کم سنی میں انتقال ہو گیا تھا حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے۔
حضرت زینب جو ایک کافر یعنی ابو العاص کے نکاح میں تھیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت مسلمان عورت کا کافر مرد کے ساتھ نکاح جائز تھا، نیز مکہ سے حضرت زینب کو لانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ایسے دو آدمیوں کا بھیجا جانا جو حضرت زینب کے شرعی محرم نہیں تھے ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا اور وہ ایک ایسی صورت تھی جو (امن) کی صورت کہلائی جا سکتی ہے کہ حضرت زینب چونکہ صاحبزادی رسول تھیں اس لئے ان کے ساتھ کسی غیر محرم کا ہونا کسی قسم کے شک و شبہ سے بالا تر تھا اور کسی خوف و خطرہ کے پیدا ہونے کا سوال نہیں تھا۔ ویسے یہ ایک عام مسئلہ ہے کہ عورت کو کسی نا محرم کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے
بطن یا حج ایک جگہ کا نام تھا جو مکہ سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس لفظ یا جج کو صاحب قاموس نے یا اور دونوں جیم کے ساتھ یعنی یا جج لکھا ہے اور علماء نے اس کو نون اور یا و جیم کے ساتھ یعنی ناجج بھی نقل کیا ہے چنانچہ مشکوٰۃ المصابیح کے اکثر قدیم نسخوں میں یہ لفظ ناجج ہی مذکور ہے۔
حضرت زینب جب مکہ سے مدینہ آ گئیں تو ابو العاص مکہ ہی میں رہے اور کفر کی حالت پر قائم رہے، کچھ دنوں کے بعد ان کو تجارت کی غرض سے شام کا سفر کرنا پڑا، جب مدینہ کے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ابو العاص اس سفر میں مدینہ کے قریب سے گزرنے والے ہیں تو انہوں نے یہ اسکیم بنائی کہ ابو العاص جیسے ہی مدینہ کے علاقہ میں داخل ہوں ان کا سارا مال چھین لیا جائے، اس اسکیم کی خبر حضرت زینب کو پہنچی تو ان کا دل شوہر کی محبت میں بے تاب ہو گیا، فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے عہد امان کا اعتبار نہیں ہے۔ حضرت زینب نے کہا کہ تو پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم گواہ رہئے کہ میں ابو العاص کو عہد امان دیتی ہوں۔ جب صحابہ نے یہ حال دیکھا تو ان کے لئے اپنی اسکیم پر عمل کرنا قطعاً ممکن نہیں رہا تا ہم وہ بغیر ہتھیار و اسلحہ کے مدینہ کے قریب ابو العاص کی گزر گاہ پر پہنچے اور ان سے ملے تو کہا کہ ابو العاص تم قریش کے ایک معزز شریف اور صاحب حیثیت فرد ہو اور پیغمبر اسلام کے چچا کے بیٹے بھی ہو (اس نسبت سے تمہارے حق میں اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہے کہ) تم مسلمان ہو جاؤ تا کہ (تمہیں آخرت کی فلاح و نجات تو ملے ہی گی) تمہارا یہ سب مال بھی تمہارے ہی پاس رہے۔ ابو العاص نے (یہ سن کر) کہا تم نے جو یہ کہا ہے (کہ مسلمان ہو جانے کی وجہ سے مال محفوظ رہے گا) تو یہ ایک قطعی نامناسب اور غیر موزوں بات ہے میں اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے اسلام کو مال و دولت (کی کثافت) سے گندہ کروں ! اس کے بعد ابو العاص مکہ روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر لوگوں کا مال ان کے سپرد کیا اور پھر (سب کو جمع کر کے) کہا کہ مکہ والو! تم لوگوں کے مال تمہارے پاس پہنچ گئے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، پہنچ گئے۔ پھر ابو العاص نے ان کے سامنے اعلان کیا کہ تم سب گواہ رہو! میں مسلمان ہو گیا ہوں اشھدان لا الہ الاّ اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ۔
اس کے بعد حضرت ابو العاص نے مکہ میں اپنا گھر بار، دوست عزیز، اور مال و اسباب سب کچھ چھوڑ کر راہ ہجرت اختیار کی اور مدینہ پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بکمال محبت و الفت ان کو خوش آمدید کہا، اور حضرت زینب کو ان کی سپردگی میں دے دیا۔
اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو العاص کے مدینہ پہنچنے پر حضرت زینب سے ان کا دوبارہ (از سر نو) نکاح کیا تھا یا پہلا ہی نکاح باقی رکھا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ابو العاص سے بہت زیادہ تعلق تھا، خاص طور سے ان کے مسلمان ہو جانے کے بعد تو آپ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان سے بہت خوش رہا کرتے تھے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں جنگ یمامہ کے دوران شہید ہوئے۔
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بدر (کی جنگ میں مجاہدین اسلام کے خلاف لڑنے) والوں (میں سے جن کفار کو قید کیا تھا ان میں سے عقبہ ابن ابو معیط اور نضر ابن حارث کو قتل کرا دیا اور ابو غرہ کو (بلا معاوضہ رہا کر کے) ممنوع کیا۔ (شرح السنۃ)
تشریح
امام وقت (یعنی و اسلامی مملکت کے سربراہ) کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو غیر مسلم (دشمن کے لوگ) اس کی قید میں ہوں اور وہ اسلام قبول نہ کریں تو وہ چاہے ان کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ چاہے غلام بنا کر رکھے اور چاہے مسلمانوں کے عہد امان کی بناء پر ان کو آزاد کر کے چھوڑ دے، البتہ ان کو ممنوع کرنا یعنی بلا کسی معاوضہ کے ان کو رہا کر دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا جواز منسوخ ہو گیا ہے۔
اور حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب عقبہ ابن معیط کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا تو (اس نے) کہا کہ (میرے بچوں کو کون پالے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آگ ۔ (ابو داؤد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ بچوں کو آگ پالے گی، گویا ان بچوں کے ضائع ہو جانے کے مفہوم کا حامل ہے، یعنی اگر آگ اس چیز کی صلاحیت رکھتی کہ وہ کسی کی مددگار و غمخوار ہو سکتی تو یقیناً وہ بچوں کی بھی مددگار و کفیل ہوتی لیکن چونکہ وہ ایسی ہی نہیں رکھتی اس لئے بچوں کا کوئی دوسرا مددگار و کفیل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تباہی لازمی ہے۔
یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ تو اب اپنی فکر کر کہ دوزخ کی آگ تیرا ٹھکانا بننے والی ہے، بچوں کی فکر میں مبتلا نہ ہو کہ ان کی پرورش نہ تجھ پر منحصر ہے اور نہ کسی دوسرے پر، ان کا مددگار و کفیل خدا کی ذات ہے وہی ان کی پرورش کرائے گا۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام، آنحضرت کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنے صحابہ کو جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیجئے کہ خواہ وہ ان کو قتل کر دیں یا فدیہ لے لیں (یعنی مال لے کر ان کو چھوڑیں دیں) لیکن فدیہ لینے کی صورت میں آئندہ سال ان (صحابہ) کے اتنے ہی (یعنی ستر) آدمی مارے جائیں گے۔ صحابہ نے (اس اختیار کو سن کر) عرض کیا کہ ہم فدیہ لینے کو اور اپنے ستر آدمیوں کے مارے جانے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
جنگ بدر میں مکہ کے جو کفار قریش مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے تھے ان میں سے ستر کفار قریش قتل کر دئیے گئے تھے اور ستر ہی کی تعداد گرفتار کر کے مدینہ لائی گئی تھی، جب یہ ستر قیدی مدینہ میں پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بارے میں صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے، آیا ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ یعنی مالی معاوضہ لے کر ان کو رہا کر دیا جائے ؟ حضرت ابوبکر نے یہ مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو قتل نہ کرائیے بلکہ زندہ چھوڑ دیجئے عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو کفر سے توبہ کی توفیق عطا فرما دے اور یہ مسلمان ہو جائیں، البتہ ان سے فدیہ لے لیجئے تاکہ ان سے فدیہ کے طور پر جو مال حاصل ہو وہ آپ کے رفقاء (یعنی مسلمانوں کی تقویت اور ان کی کچھ دینی و دنیوی ضروریات کے تکمیل کا ذریعہ بن جائے۔
حضرت عمر فاروق نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سب کی گردن اڑا دیجئے کیونکہ یہ کفر و شرک کے پیشوا اور سردار ہیں (ان کی موت سے کفر و شرک پر کاری ضرب لگے گی) اور (جہاں تک ان کی رہائی کے ذریعہ کچھ مالی منفعت حاصل ہو جانے کا سوال ہے تو) اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مال حاصل کرنے سے مستغنی و بے نیاز بنا رکھا ہے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اختلاف آراء دیکھتے ہوئے (حضرت جبرائیل علیہ السلام کے مشورہ پر) صحابہ کو اختیار دے دیا کہ تم لوگ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو کہ چاہے تو اپنے قیدیوں کی گردن اڑا دو اور چاہے فدیہ لے کر ان کو آزاد کر دو لیکن یہ واضح رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں یہ مقدر ہو چکا ہے کہ آئندہ سال تم میں ستر آدمی شہید ہوں گے اور فی الجملہ کفار کو فتح بھی حاصل ہو گی۔صحابہ نے اس انتباہ کے باوجود فدیہ لینے کو اختیار کیا۔ جب آئندہ سال غزوہ احد ہوا اور میدان جنگ میں مسلمانوں کو زبردست مقابلہ کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ایک موقع پر پسپائی کی صورت بھی اختیار کرنی پڑی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک سال پہلے جس چیز سے متنبہ کیا تھا وہ سامنے آئی یعنی اس غزوہ میں مسلمانوں کو اپنی ستر قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ان ستر شہیدوں میں حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور حضرت مصعب ابن عمیر جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔
ہنگامہ جنگ کے بعد حضرت عمر فاروق دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق دونوں رو رہے ہیں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں رہے ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ میں بھی رو دوں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھیوں پر رو رہا ہوں جنہوں نے فدیہ لینے کو اختیار کیا تھا اور (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک ایک درخت کھڑا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) مجھے اس درخت سے بھی زیادہ قریب سے ان کا عذاب دکھایا گیا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر ان پر عذاب نازل کیا جاتا تو اس عذاب سے عمر اور سعد ابن معاذ کے علاوہ اور کسی کو نجات نہیں ملتی حضرت سعد ابن معاذ بھی حضرت عمر فاروق کی اس رائے کے حامی تھے کہ ان قیدیوں سے فدیہ نہیں لینا چاہئے بلکہ ان کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے)
بہرحال صحابہ کرام نے فدیہ لینے کو اختیار کیا تو اس کی بنیاد ان قیدیوں کے تئیں ان (صحابہ) کی یہ انتہائی خواہش اور رغبت تھی کہ اگر یہ قتل ہونے سے بچ گئے تو کبھی نہ کبھی مسلمان ہو جائیں نیز آئندہ سال خود اپنے شہید ہو جانے کی تمنا بھی اس کا محرک بنی اس کے ساتھ ہی ان قیدیوں کے اہل و عیال اور ان کے اقرباء کے ساتھ ان (صحابہ) کا جذبہ ترحم بھی اس کا متقاضی ہوا کہ یہ قیدی قتل نہ کئے جائیں۔
اس موقع پر ایک یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کو دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا اور اسی اختیار کی بناء پر انہوں نے ایک چیز کو پسند کر لیا تو پھر ان پر عتاب کیوں ہوا، یہ عتاب اس اختیار کے منافی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اختیار دینا دراصل امتحان و آزمائش تھا کہ دیکھیں یہ لوگ (مسلمان اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو پسندیدہ حق ہے یا اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو ان کے دل کی خواہش کے مطابق ہے۔ اسی اعتبار سے وہ لوگ گویا اس امتحان و آزمائش میں کامیاب نہیں رہے کیونکہ انہوں نے اس چیز کو اختیار کیا جس کو ان کے دل نے چاہا لہٰذا ان پر عذاب ہوا۔
علامہ تورپشتی نے اس اختیار دینے والی) حدیث کو بعید جانا ہے کیونکہ یہ بظاہر اس بات کے مخالف ہے جو قرآن کریم سے مفہوم ہوتی ہے نیز ترمذی نے اس روایت پر غرابت کا حکم لگایا ہے لیکن میں نے کہا ہے کہ غریب روایت کے ذریعہ کوئی بات ثابت کرنا موجب طعن نہیں ہے کیونکہ غریب روایت کبھی صحیح بھی ہوتی ہے۔
اور حضرت عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ بنو قریظہ کے جو لوگ قیدی بنا کر لائے گئے تھے ان میں میں بھی تھا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت صحابہ نے (یہ طریقہ اختیار کیا کہ قیدیوں میں جو چھوٹی عمر والے تھے ان کے زیر ناف حصے کو کھول کھول کر دیکھ رہے تھے جس کے (زیر ناف حصے پر بال اگ آئے تھے اس کو قتل کر دیا جاتا، کیونکہ زیر ناف حصے پر بال اگ آنا بلوغ کی علامت ہے، لہٰذا ایسے شخص کو مسلمانوں سے لڑنے والا شمار کیا جاتا تھا) اور جس کے بال نہ اگے ہوئے تھے اس کو قتل نہیں کیا جاتا تھا (کیونکہ اس کو ذریت یعنی بچوں میں شمار کیا جاتا تھا چنانچہ میرے زیر ناف حصہ کو بھی کھولا گیا اور جب وہاں اگے ہوئے بال نہیں پائے گئے تو مجھ کو قیدیوں ہی میں (زندہ) رکھا گیا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ زیر ناف حصے پر بالوں کے اگ آنے کو بلوغ کی علامت قرار دینا ضروری مصلحت کی بناء پر تھا کیونکہ اگر ان قیدیوں سے بلوغ کی واقعی علامت یعنی احتلام اور عمر بلوغ کو پوچھا جاتا تو وہ اپنی ہلاکت کے خوف سے یقیناً صحیح بات نہ بتاتے۔
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن (مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان) معاہدہ لکھے جانے سے پہلے کچھ غلام (مکہ سے آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ان کے مالکوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کی قسم یہ غلام تمہارے پاس اس لئے نہیں پہنچے ہیں کہ وہ تمہارے دین کی طرف رغبت رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ غلامی (سے نجات پانے کی غرض سے بھاگ کر گئے ہیں (جب صحابہ میں سے) چند لوگوں نے (یہ مکتوب دیکھا تو) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان کے مالکوں نے بالکل صحیح لکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیجے (یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم غضب ناک ہو گئے اور فرمایا کہ قریش والو میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنی سرکشی اور نا فرمانی سے باز نہیں آؤ گے تاوقتیکہ اللہ تعالی تم پر اس شخص کو مسلط نہ کر دے جو تمہارے اس فیصلے کہ ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیا جائے اور اس طرح ان کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کو دار الحرب کے حوالے کر دیا جائے) کی بناء پر تمہاری گردن اڑا دے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان غلاموں کی واپسی کے مطالبہ کو رد کر دیا اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں ۔ (ابو داؤد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس لئے غضبناک ہوئے کہ صحابہ نے ان غلاموں کے حق میں اپنی ذاتی رائے کو شرعی حکم کے مقابل پیش کیا اور گویا ان کے مالکوں کے دعوے کی گواہی دی، چنانچہ ان غلاموں کے حق میں شرعی حکم یہ تھا کہ وہ چونکہ دار الحرب سے نکل آنے کے سبب محض اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے معصوم اور آزاد ہو گئے تھے ان کو ان کے پاس دارالحرب واپس کر دینا جائز نہیں تھا، لہٰذا صحابہ کا ان کی واپسی کے مطالبہ کی تائید کرنا جبر و زیادتی پر ان کے مالکوں کی مدد کرنے کے مترادف تھا۔
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خالد ابن ولید کو (ایک قبیلہ) بنی جذیمہ میں بھیجا، خالد نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، وہ لوگ اضطراب و سراسیمگی کے عالم میں یہ اچھی طرح سے نہیں کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے (یعنی وہ اپنی زبانوں سے اسلام کا کلمہ پوری طرح ادا نہیں کر سکے) بلکہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ (صبأنا صبأنا) یعنی ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا، خالد نے (جب ان کی زبان سے یہ سنا تو) ان (کے بعض لوگوں) کو قتل کرنا اور (بعض کو) گرفتار کرنا شروع کر دیا، اور پھر ہم (لوگ جو ان کے ساتھ تھے ان) میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی سپرد کر دیا (یعنی جو لوگ قیدی بنائے گئے ان کو ہمارے درمیان تقسیم کر کے ایک ایک قیدی ہر ایک کے سپرد کر دیا اور یہ حکم دیا کہ ہم ان قیدیوں کی اس وقت تک حفاظت و نگرانی کریں جب تک کہ ہمیں ان کو قتل کر دینے کا حکم نہ دیا جائے) چنانچہ جب ایک (وہ) دن آیا (جس میں خالد نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا) تو انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے (یہ حکم سن کر) میں (یعنی ابن عمر) نے کہا کہ خدا کی قسم !میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی شخص اپنی قیدی کو قتل کرے گا (بلکہ ہم لوگ اپنے قیدیوں کو اس وقت تک اپنی حفاظت میں رکھیں گے جب تک کہ ہم دربار رسالت میں نہ پہنچ جائیں اور اس بارے میں کوئی آخری حکم حاصل نہ کریں چنانچہ ہم نے اپنے قیدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھا) یہاں تک کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پورا واقعہ بیان کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (واقعہ کی تفصیل سن کر) اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے یہ کہا کہ اے اللہ! میں تیرے حضور میں خالد کے عمل سے اپنی بیزاری و بے رضائی کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ نے یہ الفاظ دو مرتبہ ارشاد فرمائے۔ (بخاری)
تشریح
خطابی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بار گاہ رب العزت میں حضرت خالد کے عمل سے اس لئے اظہار بیزاری فرمایا کہ خالد نے اس موقع پر احتیاط کی راہ اختیار نہیں کی اور اس بات میں غور وتامل نہیں کیا کہ وہ لوگ صبأنا سے کیا مراد رکھتے تھے کیونکہ یہ لفظ صبأنا دین اسلام اختیار کر لینے کے مفہوم کا بھی احتمال رکھتا تھا لیکن خالد نے محض یہ دیکھ کر کہ ان لوگوں نے قبولیت اسلام کے مفہہوم کو واضح طور پر ظاہر کرنے والے الفاظ اسلمنا استعمال کرنے سے روگردانی کی ہے اس لئے انہوں نے ان لوگوں کی بات کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے کہے ہوئے مذکور الفاظ کو ان کے بد دین ہو جانے پر محمول کر کے ان کو قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کر دیا۔