لباس اصل میں تو مصدر ہے، لیکن استعمال ملبوس کے معنی میں ہوتا ہے،جیسا کہ کتاب کا لفظ مصدر ہونے کے باوجود مکتوب کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لباس کے ماضی اور مضارع کے صیغے باب علم یعلم سے آتے ہیں، ویسے اس کا مصدر لبس (لام کے پیش کے ساتھ) بھی آتا ہے ! اور لبس جو لام کے زبر کے ساتھ آتا ہے اس کے معنی التباس و خلط کے ہیں جس کا باب ضرب یضرب ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سب کپڑوں میں پہننے کے لئے (نہ کہ کسی دوسری ضرورت جیسے بستر پر بچھانے یا کسی کو دینے وغیرہ کے لئے) حبرہ (چادر) سب سے زیادہ پسند تھی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حبرہ (با کے زبر کے ساتھ بروزن زغبۃ) ایک خاص قسم کی یمنی چادر کو کہتے ہیں جو اس زمانہ میں بننے والی چادروں میں سب سے عمدہ ہوتی تھی اس چادر میں اکثر سرخ دھاریاں ہوتی تھیں، بعض ایسی بھی ہوتی تھیں جن میں سبز دھاریاں ہوتی تھیں اس کی بناوٹ میں خالص سوت ہوتا تھا۔علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس چادر کو اسی وجہ سے پسند فرماتے تھے،جب کہ بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس پسندیدگی کا سبب اس کا سبز رنگ ہوتا تھا کیونکہ سبز کپڑا اہل جنت کے ملبوسات میں سے ہے، اور یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سبز رنگ بہت زیادہ پسند تھا جیسا کہ طبرانی نے اوسط میں اور ابن نسی اور ابونعیم نے محب میں یہ روایت نقل کی ہے کہ۔
انہ کان احب الالوان الیہ الخضرۃ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام رنگوں میں سبز رنگ سب سے زیادہ پسند تھا۔
اور بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس چادر کو اس لئے پسند فرماتے تھے کہ اس کی دھاریاں سرخ ہوتی تھیں اور سرخ رنگ میل خورا ہوتا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ایک دن) صبح کے وقت سیاہ بالوں کی نقشی چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لے گئے۔ (مسلم)
تشریح
بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ لفظ مرجل کے بجائے مرحل زیادہ صحیح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس چادر پر اونٹ کے پالان جیسے نقش و نگار تھے۔
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رومی جبہ پہنا جس کی آستین تنگ تھی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ ایک سفر کے دوران کا واقعہ ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تنگ آستینوں والا جبہ پہنا، چنانچہ ایک اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کی آستینیں اتنی تھیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرمانے لگے تو وہ آستینیں اوپر چڑھ سکیں۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ہاتھوں کو دھونے کے لئے ان آستینون کے نیچے سے نکالنا پڑا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے کرتے و جبہ وغیرہ کی آستینیں تنگ بنوانا سفر کے دوران تو مستحب ہے، سفر کے علاوہ (حضر میں) مستحب نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام فراخ آستینیں بنوایا کرتے تھے جب کہ ابن حجر نے یہ کہا ہے کہ اس بارے میں ائمہ کا قول یہ ہے کہ آستینوں کو فراخ رکھنا ایک قسم کی مذموم بدعت ہے، انہوں نے صحابہ کی آستینوں کے فراخ ہونے کے دوسرے معنی لکھے ہیں، جس کی تفصیل ان کی شرح میں دیکھی جا سکتی ہے، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے ہے کہ ائمہ کا قول مفرط یعنی حد سے زیادہ فراخی پر محمول ہے اور صحابہ کی آستینوں کے فراخ ہونے کے بارے میں جو کچھ منقول ہے غیر مفرط (یعنی حد کے اندر) پر محمول ہے۔ اسی لئے منتقی میں، جو ائمہ کی کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، یہ لکھا ہے کہ آستینوں کو ایک بالشت کے بقدر فراخ رکھنا مستحب ہے۔
اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں دکھانے کے لئے ایک پیوند لگی چادر اور ایک موٹا تہبند نکالا اور فرمایا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مبارک قبض کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ...ان ہی دو کپڑوں میں تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے حق میں یہ دعا کی تھی کہ دعا (اللہم احیینی مسکینا وامتنی مسکینا) یعنی یا اللہ مجھے مسکین (غریب) رکھ کر جلا اور مسکین رکھ کر موت دے۔تو یہ اس کا اثر تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر یہ دو انتہائی معمولی کپڑے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا اور دنیا کے زرق برق سے بے رغبتی و بے اعتنائی ایک پاکیزہ زندگی کا بہترین سرمایہ ہوتا ہے، لہٰذا امت کو لازم ہے کہ ہر خصلت و عادت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کو اختیار کیا جائے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بچھونا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے تھے چمڑے کا تھا اور اس میں (روئی کی جگہ) کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
شمائل ترمذی میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت منقول ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بچھونا ٹاٹ کا تھا، لہٰذا ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد و تناقض نہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کسی زمانہ میں چمڑے کا بچھونا رہا ہو گا، اور کسی زمانے میں ٹاٹ کا یا یہ کہ سونے کا بچھونا تو چمڑے کا ہو گا اور بیٹھنے کا بچھونا ٹاٹ کا ہو گا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تکیہ، کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تکیہ فرماتے تھے چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (مسلم)
تشریح
تکیہ کرتے تھے یعنی اس پر ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے یا سوتے وقت اس کو سر کے نیچے رکھتے تھے، ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ سونے کے لئے اور آرام کی خاطر، بچھونا اور تکیہ بنانا مستحب ہے، بشرطیکہ عیش و عشرت اور آسودگئی نفس میں انہماک اور اسراف کے طور پر نہ ہو، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تکیہ کو پسند کرتے تھے اور سوتے وقت اس کو سر کے نیچے رکھتے تھے اور اس پر ٹیک لگا کر بیٹھتے بھی تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے کہ اگر کوئی شخص تکیہ اور خوشبو دے تو اس کو قبول کرنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔
یہ اور ان جیسی دوسری روایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا کی زندگی میں زہد و استغناء اختیار کئے ہوئے تھے اور دنیا کی متاع اور لذتوں سے اعراض کرتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لباس بھی موٹے جھوٹے اور پھٹے پرانے کپڑوں پر مشتمل ہوتا تھا، منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جیسا بھی لباس میسر آ جاتا اس کو پہن لیتے اس میں کسی تکلف و اہتمام کے روادار نہیں ہوتے تھے، البتہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی نفیس و عمدہ کپڑا آ گیا، تو بیان جواز کے لئے اس کو بھی زیب تن فرما لیا لیکن پھر فوراً ہی وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو غنایت فرما دیا، لہٰذا عمدہ و نفیس ہی کپڑے پہننے کی قید اپنے اوپر عائد کر لینا، یا عمدہ و نفیس کپڑا پہننے کی عادت اختیار کر لینا اور اس سلسلے میں بیجا تکلف و اہتمام کرنا سنت کے خلاف ہے اگرچہ اصل کے اعتبار سے مباح ہے، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ اگر کوئی اچھے کپڑے پہننے کی استطاعت و حیثیت کے باوجود محض بخل اور خست کی بنا پر موٹے جھوٹے اور پھٹے پرانے کپڑے پہننے، یا لوگوں پر اپنے زہد و تقویٰ کا سکہ جمانے کے لئے اور یا حرص و طمع کے تحت لوگوں سے مانگنے کے لئے ریاکاری کے طور پر معمولی قسم کے خستہ و بوسیدہ کپڑے پہنے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی بلکہ بعض ارباب خیر و مشیخت کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے اپنی پرہیز گاری اور اپنے بلند مقام روحانیت کو چشم اغیار سے چھپانے کے لئے، یا تحدیث نعمت کے طور پر اپنی خوشحالی کو ظاہر کرنے کے لئے عمدہ اور نفیس کپڑے پہنے۔ حاصل یہ کہ اگر خدا نے کسی کو خوشحالی کی نعمت عطا کی ہے، اور وہ مالی طور پر اچھی حیثیت و استطاعت رکھتا ہے تو اس کو اعلیٰ و نفیس کپڑے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ وہ اسراف و تکبر کی حد کو نہ پہنچے کیونکہ میانہ روی ہر جگہ اور ہر عمل میں محمود و مطلوب ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ہجرت) سے قبل ایک دن جب کہ ہم دوپہر کی گرمی میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کسی کہنے والے نے (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے) کہا کہ (دیکھو) وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم چادر کے کونے سے اپنا سر مبارک چھپائے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ (بخاری)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے سر مبارک کو چادر کے کونے سے ڈھانکنا یا تو تمازت و تپش سے بچنے کے لئے تھا، یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا سر اس لئے ڈھانک رکھا تھا کہ چہرہ چھپا رہے اور لوگ (دشمنان دین) پہچان نہ سکیں۔
یہ حدیث اصل میں اس حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے کہ (مکہ میں) بیعت العقبہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کے حکم کے منتظر تھے ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس بات کے درخواست گزار تھے کہ اس سفر میں ان کو رفاقت کا شرف حاصل ہو، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان سے فرماتے تھے کہ اگر ہجرت کا حکم نازل ہوا تو ایسا ہی ہو گا (کہ اس سفر میں تم ہی رفیق بنو گے) چنانچہ ایک دن اچانک ہجرت کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوپہر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور ان کو بتایا کہ ہجرت کا حکم نازل ہو گیا ہے اور یہ ہدایت ملی ہے کہ میں ہجرت کے لئے مکہ سے نکل جاؤں اور تم میرے رفیق بنو، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم رات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر ان کے مکان کی اس کھڑکی سے نکلے جو مکہ کے نشیبی علاقہ میں واقع ثور پہاڑ کی سمت میں تھی اور غار ثور میں جا کر چھپ گئے ........الخ۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا ایک بچھونا مرد کے لئے،دوسرا بچھونا اس کی بیوی کے لئے تیسرا بچھونا مہمان کے لئے اور چوتھا بچھونا شیطان کے لئے ہوتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی گھر میں میاں بیوی ہوں اور وہ استطاعت رکھتے ہوں تو ان کو اپنے یہاں تین بستر رکھنے چاہئیں، ایک تو میاں کے لئے،دوسرا بیوی کے لئے کہ شاید کسی وقت بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ تنہا سونا چاہے ورنہ میاں بیوی کو ایک بستر پر سونا اولی ہے اور سنت کے مطابق ہے کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ازواج مطہرات کے ساتھ سویا کرتے تھے، اور تیسرا بستر اس مقصد کے لئے ہو کہ اگر کوئی مہمان آ جائے تو وہ رات میں اس پر سوئے، بس یہ تین بستر کافی ہیں ان سے زیادہ جو بھی بستر ہو گا وہ اسراف کی حد میں آئے گا، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر چوتھا بستر ہو گا تو وہ شیطان کے لئے ہو گا، شیطان کی طرف نسبت اسی لئے گئی ہے کہ وہ (چوتھا بستر) یقیناً ضرورت و حاجت سے زائد ہو گا اور ضرورت سے زائد چیز کا ہونا فخر و مباحات کے دائرے میں آنے کی وجہ سے مذموم ہے اور ہر مذموم چیز کی نسبت شیطان ہی کی طرف ہوتی ہے، یا اس نسبت کا سبب یہ ہے کہ وہ چوتھا بستر چونکہ ضرورت سے زائد ہوتا ہے اس لئے شیطان اس پر رات گزارتا ہے۔تاہم یہ واضح رہے کہ جو شخص سخی اور فراخ دل ہو اور کرم نواز طبیعت کا مالک ہو اور اس وجہ سے اس کے یہاں مہمانوں کی آمد کثرت سے ہوتی ہو تو اس کے یہاں بستر اور دوسرے اسباب کی زیادتی بظاہر مذموم نہیں ہو گی، مذموم تو وہ زیادتی و کثرت ہو گی جو محض اپنی بڑائی کے اظہار اور مفاخرت کے تحت ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا، جو غرور و تکبر سے اپنی ازار (یعنی پائجامہ و تہبند) کو (ٹخنوں سے نیچے) لٹکائے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
غرور و تکبر کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غرور و تکبر کے بغیر اپنے پائجامے یا تہبند کو ٹخنوں سے لٹکائے تو یہ حرام نہیں، تاہم مکروہ تنزیہی یہ بھی ہے۔ اور کسی عذر کے سبب جیسے سردی یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پائجامہ و تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص غرور و تکبر کے طور پر اپنے (بدن کے) کپڑے کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت و عنایت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
کپڑے میں عمومیت ہے کہ خواہ تہبند ہو یا پائجامہ ہو، خواہ کرتا ہو انگر کھا ہو اور خواہ فرغل ہو یا دوپٹہ ہو ان سب کا یہی حکم ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب وقت ایک شخص غرور و تکبر کے طور پر اپنی ازار (یعنی تہبند یا پاجامہ) کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا تو اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک (اسی طرح) زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (بخاری)۔
تشریح
جس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اسی امت کا کوئی فرد ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات بطور پیشن گوئی کے فرمائی کہ کسی آنے والے زمانہ میں ایسا ہو گا اور چونکہ اس واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا اس لئے آیت نے اس بات کی خبر دینے کے لئے ماضی کا پیرایہ بیان اختیار فرمایا۔ یا کسی ایسے شخص کا واقعہ ہے جو پچھلی کسی امت میں رہا ہو گا اس اعتبار سے حدیث کا ظاہری مفہوم اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک گزرے ہوئے واقعہ کی خبر دی بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے مراد قارون ہے (لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم اور اس شخص کا نام لئے بغیر ذکر کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص قارون کے علاوہ کوئی اور ہو گا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ از قسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے پیر کے جتنے حصہ پر تہبند وغیرہ لٹکا ہوا ہو گا وہ پورا حصہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ عمل یعنی ٹخنے سے نیچے تہبند وغیرہ لٹکانا) ایک مذموم عمل ہے اور دوزخیوں کا کام ہے ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے کے مسئلہ میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اس سلسے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں زیادہ تر ازار کے لٹکانے کا ذکر ہے اور ازر لٹکانے والے کے حق میں بہت سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہے یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن ایک شخص کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے پائچے ٹخنوں سے نیچے تھے تو أپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دوبارہ وضو کرنے اور نماز لوٹانے کا حکم دیا اسی طرح ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ شعبان کی پندرھویں شب میں سب (مسلمانوں) کی بخشش کی جاتی ہے علاوہ عاق، مدمن خمر، اور مسبل ازار کے کہ ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ساری وعیدوں اور ممانعت کا تعلق محض ازار ہی سے نہیں ہے بلکہ سب کپڑوں سے ہے یعنی بدن پر جو بھی کپڑا ضرورت سے زائد اور سنت کے دائرے سے باہر ہو گا اس پر مذکورہ ممانعت کا حکم عائد ہو گا جہاں تک ازار کی تخصیص کا تعلق ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اس زمانہ میں چادر اور ازار عام طور پر لباس ہوتا تھا اس لئے اس کے استعمال کی کثرت کی بنا پر اس کا ذکر کیا گیا ویسے بعض روایتوں میں ازار کے ساتھ دوسرے کپڑوں جیسے قمیص اور پگڑی کا بھی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے چنانچہ آگے دوسری فصل میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل ہو گی کہ الاّ سبال فی الاّ زار والقمیص والعمامۃ من جر منھا شیأ خیلا الخ اسی طرح اسی فصل میں ابھی اوپر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی جو روایت گزری ہے اس میں مطلق کپڑے کا ذکر ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لباس میں ضرورت سے زائد کپڑا رکھنے کی ممانعت کا تعلق ہر کپڑے سے ہے
بہر حال عزیمت یعنی اولی درجہ یہ ہے کہ ازار یعنی تہبند وپائجامہ کو نصف پنڈلی تک رکھا جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنا تہبند نصف پنڈلی ہی تک رکھتے تھے البتہ رخصت یعنی اجازت و آسانی کا درجہ ٹخنوں تک ہے کہ تہبند و پائجامے کو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھا جا سکتا ہے کرتے و قمیص اور عباد شیروانی وغیرہ کے دامن کا بھی یہی حکم ہے اسی طرح قمیص و کرتے وغیرہ کی آستینوں کی مسنون لمبائی یہ ہے کہ وہ بندوست یعنی ہاتھ کے جوڑ تک ہوں عمامہ کا شملہ زیادہ سے زیادہ اتنا چھوڑاجانا چاہئے جو نصف پشت تک رہے جو شملہ لمبائی یا چوڑائی میں اس سے زائدہو گا وہ بدعت اور اس زائد لٹکانے میں شمار ہو گا جو ممنوع ہے چنانچہ بعض علاقوں اور شہروں کے لوگ اپنے لباس میں جو زائد از ضرورت کپڑا استعمال کرتے ہیں جیسے ضرورت سے زائد لمبی لمبی آستینوں اور وسیع و عریض دامنوں والے کرتے کئی کئی گز کے پاجامے اور شلواروں اور بڑے بڑے عمامے اور پگڑ کا رواج بعض جگہ پایا جاتا ہے وہ خلاف سنت ہے بلکہ یہ زائد از ضرورت کپڑے صرف کرنا اگر تکبر و غرور کی نیت سے ہو گا تو اس کو حرام کہیں گے اور اگر لوگوں کی دیکھا دیکھی یا کسی رواج کے تحت ہو گا تو اس کو مکروہ کہا جائے گا کپڑوں میں ضرورت سے زائد لمبائی چوڑائی رکھنا عورتوں کے لئے بھی ممنوع ہے لیکن مردوں کی بہ نسبت ایک بالشت کے بقدر زائد ہونا جائز ہے بلکہ اتنی زائد مقدار تو مستحب ہے جو پردہ پوشی کے بقدر ہو جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہو گا جو دوسری فصل میں نقل ہو گی
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھائے یا ایک (پیر میں) جوتا پہن کر چلے اور یہ کہ کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر آ جائیں یا بدن پر کوئی ایک کپڑا لپیٹ کر اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کا ستر کھلا ہوا ہو (مسلم)
تشریح
بائیں ہاتھ سے کھانے کی ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور بعض حضرات کے نزدیک تحریمی کے طور پر ہے ایک پیر میں جوتا پہن کر چلنا ایک طرح کی بد ہئیتی ہے اور وقار کے خلاف ہے دوسرے اگر وہ جوتا اونچی ایڑی کا ہو گا تو اس صورت میں قدم کے ڈگمگانے اور زمین پر گر پڑنے کا باعث ہو گا لہذا اس سے منع فرما یا گیا کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لے ...الخ ..اس کو عربی میں اشتمال الصماء کہتے ہیں اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی ایک کپڑے جیسے چادر وغیرہ کو اس طرح اوڑھے یا بدن پر لپیٹ لے کہ پورا جسم ڈھک جائے کسی طرف سے کھلا نہ رہے دونوں ہاتھ بھی بند ہو جائیں اور کسی طرف سے کپڑے کے اٹھنے کی گنجائش نہ رہے کہ اس سے ہاتھ نکالا جائے اس طرح کوئی کپڑا اوڑھنے یا لپیٹنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس صورت میں آدمی ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس کو طوق پہنا دیا گیا ہو چنانچہ اس کو صماء اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اعضاء جسم کی نقل و حرکت اور منافذ کو بند کر دیتا ہے جیسے صخرہ صمار اس سخت و سپاٹ پتھر کو کہتے ہیں جس میں کوئی سوراخ یا شگاف وغیرہ نہیں ہوتا۔ ابن ہمام نے ہدایہ کی شرح میں لکھا ہے کہ نماز میں اشتمال صماء مکروہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں اپنا سر اور اپنا پورا بدن اس طرح لپیٹ لے کہ ہاتھ نکلنے کی بھی کوئی جگہ نہ چھوڑے۔ لیکن امام محمد نے اس کراہت کے لئے اس کو شرط قرار دیا ہے کہ اس نے ازار (تہبند) بھی نہ پہن رکھا ہو جب کہ دوسروں کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے۔ اور نووی نے شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ فقہا کے نزدیک اشتمال صماء کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایک کپڑے کو اپنے پورے بدن پر لپیٹ لے اور کوئی دوسرا کپڑا (جیسے تہبند و پاجامہ وغیرہ ) اسکے جسم پر نہ ہو اور پھر اس لپیٹے ہوئے کپڑے کا کوئی کنارہ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لے۔ یہ صورت حرام ہے کیوں کہ اس میں ستر کا کچھ حصہ کھل جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ اگر ستر کا کھل جانا یقینی ہو اشتمال صماء حرام ہو گا اور اگر ستر کا کھلنا محض احتمال کا درجہ رکھتا ہو تو مکروہ ہو گا۔
گوٹ مار کر بیٹھنا اس ہیئت میں بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ دونوں کولہوں کو زمین پر ٹیک کر پنڈلیوں کو کھڑا کرے اور دونوں ہاتھ ان کے گرد باندھ لے، یا اس طرح بیٹھ کر کوئی کپڑا پیٹھ اور پنڈلوں پر لپیٹ لے (جب کہ اس کپڑے کے علاوہ اور کوئی کپڑا پہنے ہوئے نہ ہو) چنانچہ اس طرح بیٹھنا اس صورت میں ممنوع ہے جب کہ اس کے پاس صرف چادر ہو کہ اگر اس کو اس طرح لپیٹے گا تو ستر کھل جائے گا اور اگر چادر کے علاوہ اس نے کوئی اور کپڑا پہن رکھا ہو تو اس طرح بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ نماز کے علاوہ دوسری حالتوں میں اس طرح بیٹھنا مستحب بھی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ کے سامنے ایک چادر میں اور ہاتھوں کے ذریعہ بھی گوٹ مار کر بیٹھے تھے، اور اگر چادر اتنی بڑی اور چوڑی ہو کہ اس کو لپٹنے سے ستر کھلنے کا احتمال نہ ہو تو صرف ایک چادر میں بھی اس طرح بیٹھنا جائز ہے۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ (چاروں صحابہ کرام) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے دنیا میں (غیر مشروع ریشم پہنا وہ آخرت میں ریشم نہیں پہنے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس ارشاد گرامی کا تعلق اس شخص سے ہے جو مردوں کے لئے ریشم کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے ریشمی کپڑا پہننے یا یہ زجر و تہدید پر محمول ہے اور یا اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ایسا شخص ایک خاص مدت تک جنت میں داخل ہونے سے پہلے ریشمی کپڑا پہننے سے محروم رہے گا کیوں کہ جنت میں جنتیوں کا لباس ریشمی ہو گا، اور حافظ سیوطی کے قول کے مطابق اکثر علماء نے اس حدیث کی یہ تاویل بیان کی ہے کہ جو شخص دنیا میں ریشمی کپڑا پہنے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا جو ابتداء ہی میں جائز المرام قرار پا کر جنت میں جائیں گے چنانچہ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت جویرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ حدیث (من لبس الحریر فی الدنیا البسہ اللہ یوم القیمۃ ثوبا من نار)۔ یعنی جس شخص نے دنیا میں ریشمی کپڑا پہنا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آگ کا لباس پہنائے گا۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وہی شخص ریشم پہنتا ہے جس کے لئے آخرت میں حصہ نہیں ہوتا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ریشم پہننے والا شخص آخرت کے عقیدہ کا حصہ دار نہیں ہوتا یا یہ کہ دنیا میں ریشم پہننے والے کو آخرت (جنت) میں ریشم پہننا نصیب نہیں ہو گا۔ جیسا کہ اوپر کی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ لم یلبسہ فی الاخرۃ یعنی وہ آخرت میں ریشم نہیں پہنے گا اس اعتبار سے اس ارشاد گرامی کا مقصد کنایۃً یہ بیان کرنا ہے کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (ولباسہم فیہا حریر) لہٰذا کافر کے حق میں تو یہ بات بالکل ظاہر ہے البتہ مسلمانوں کے حق میں یہ بات بطریق تغلیظ کے ہو گی کہ اس بات کے ذریعہ اس حقیقت کو شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان دنیا میں ریشم پہنے گا وہ شروع میں جنت میں داخل نہیں ہو گا یا یہ کہ وہ اس وقت تک جنت میں نہیں ہو گا جب تک کہ دوسرے بدکاروں کے ساتھ وہ بھی دوزخ کی آگ کے لباس کا عذاب نہ بھگت لے گا۔
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا کہ ہم سونے چاندی کے برتنوں میں پئیں اور ان میں کھائیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حریر و دیبا (ایک قسم کا ریشمی کپڑا) پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
سونے چاندی کے برتنوں وغیرہ میں کھانے پینے اور ریشمی کپڑے پہننے کے بارے میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ ریشمی کپڑے کا استعمال جس طرح مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح اس کو بچوں کو بھی پہننا حرام ہے اور پہنانے والوں کو گناہ ہوتا ہے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ ریشمی کپڑے کو بچھونے میں استعمال کرنا اور اس پر سونا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا اسی طرح اگر تکیہ کے غلاف اور پردے ریشمی کپڑے کے ہوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ جب کہ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نے ان سب کو مکروہ کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ (حدیث میں مردوں کے لئے ریشمی کپڑے پہننے اور ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی جو ممانعت منقول ہے اس میں پہننے کی ممانعت تو متفقہ طور پر سب کے نزدیک تحریم پر محمول ہے لیکن ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی) ممانعت صاحبین کے نزدیک تو تحریم ہی پر محمول ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تنزیہہ پر محمول ہے کیونکہ ابھی اوپر ان کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ ریشمی کپڑے کو بچھونے وغیرہ میں استعمال کرنے کے مسئلہ میں یہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کا مطلب یہ کہ ان چیزوں میں ریشمی کپڑے کا استعمال بہر حال احتیاط و تقویٰ کے خلاف ہے، کیونکہ کسی عمل کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ ہونے کے شک سے بچنے کے لئے اس عمل کو نہ کرنا ہی بہتر ہے اس خوف کے سبب کہ شاید اس میں کوئی مضائقہ ہو اور یہی معنی اس مشہور حدیث کے بھی ہیں ! دع مالا یریبک الی ما یریبک یعنی اس کام کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کام کو اختیار کرو جس میں شک نہ ہو بہرحال حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کو چونکہ ایسی کوئی دلیل قطعی حاصل نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر ریشمی کپڑے پر بیٹھنے یا سونے کو حرام قرار دیا جا سکے اور کپڑے پہننے کی ممانعت میں جو صریح نصوص (یعنی اس کی حرمت کے واضح احکام) منقول ہیں ان کے دائرہ حکم میں ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کا مسئلہ نہیں آتا کیوں کہ پہننا اور بیٹھنا دو الگ الگ چیزیں ہیں کہ پہننے کا اطلاق بیٹھنے پر نہیں ہو سکتا اس لئے انہوں نے اس حدیث میں (ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی ممانعت کو نہی تنزیہہ پر محمول کیا ہے۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک دھاری دار ریشمی جوڑا (جو تہبند اور چادر پر مشتمل تھا بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو میرے پاس بھیج دیا اور میں نے اس کو پہن لیا لیکن میں نے دیکھا کہ (اس جوڑے کو میرے بدن پر دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار پیدا ہو گئے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے اس جوڑے کو تمہارے پاس اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تم اس کو پہن لو بلکہ میں نے تو اس جوڑے کو تمہارے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس کو پھاڑ کر اوڑھنیاں بنا لو اور ان اوڑھنیوں کو عورتوں میں تقسیم کر دو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اس جوڑے کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو وہ یہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جوڑے کو میرے پہننے کے لئے بھیجا ہے کیونکہ اس کا پہننا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس کیوں بھیجتے چنانچہ انہوں نے پہن لیا اور جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے غصہ کا سبب یہ تھا کہ اس کپڑے میں اکثر حصہ یا سب کا سب ریشم تھا اس صورت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو پہن کر ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی، یا یہ کہ اگر اس میں ریشم کم مقدار میں تھا اور اس وجہ سے اگرچہ اس کا پہننا جائز تھا لیکن بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان یہ نہیں تھی کہ وہ اس کو پہنتے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم خفا ہوئے کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ یہ کپڑا متقی و پرہیز گار لوگوں کا لباس نہیں ہو سکتا۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ریشم (کے کپْڑے) پہننے سے منع فرمایا علاوہ اتنی (یعنی دو انگشت) مقدار کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ ممانعت بیان فرماتے ہوئے مذکورہ مقدار کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کو اٹھایا اور دونوں کو ملایا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا اور بتایا کہ اس قدر یعنی دو انگشت کے بقدر ریشمی کپڑا لباس میں ہو تو مباح ہے) (بخاری و مسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ملک شام کے ایک شہر) جابیہ میں اپنے خطبہ کے دوران یہ فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے علاوہ بقدر دو یا تین اور یا چار انگل کے۔
تشریح
پہلی روایت سے مردوں کے لئے ریشمی کپڑے کی مباح مقدار دو انگشت معلوم ہوئی اور دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ چار انگشت تک کی مقدار مباح ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ چار انگشت تک کے بقدر ریشمی کپڑا مردوں کے لباس میں استعمال ہو تو جائز ہے چنانچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے۔
اور حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے طیلسانی کا کسروانی جبہ نکالا، اس کے گریبان پر (سنجاف یعنی گوٹ کے طور پر) ریشمی کپڑے کا ٹکڑا سلا ہوا تھا اور اس کی دونوں کشادگیوں پر بھی ریشمی بیل ٹکی ہوئی تھی پھر انہوں نے فرمایا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا جبہ ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی میراث سے جو میری بہن تھیں) میرے قبضے میں آ گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس جبہ کو (کبھی کبھی) پہن لیا کرتے تھے، ہم اس کو بیماروں کے لئے دھوتے ہیں (یعنی اس کے دھوئے ہوئے پانی کو بیماروں کو پلاتے ہیں) اور اس کے ذریعہ شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مسلم)
تشریح
طیالس اصل میں طیلسان کی جمع ہے اور طیلسان، ایک دوسری زبان کے لفظ تالسان کا معرب ہے جو ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے ہیں، یہ چادر سیاہ رنگ کی ہوتی ہے اور صوف (اون) سے بنتی ہے پہلے زمانہ میں اس چادر کو عام طور پر یہودی لوگ اوڑھا کرتے تھے یہاں حدیث میں جس جبہ (چغہ) کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسی چادر کا بنایا گیا تھا، اور سیاہ رنگ کا مدور تھا چونکہ اس طرح کا جبہ فارس (ایران) کے بادشاہ خسرو کی طرف منسوب ہوتا تھا اور خسرو کا عربی لفظ کسریٰ یا بعض کے مطابق کسریٰ ہے اس لئے اس جبہ کو کسروانی کہا گیا ہے۔
دونوں کشادگیوں سے مراد جبہ کے وہ دونوں کنارے ہیں جہاں سے جبہ کھلا ہوتا ہے اور جو ایک آگے اور ایک پیچھے ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر بعض جبوں کے آگے اور پیچھے دامن میں چاک کھلے ہوتے ہیں انہی دونوں چاکوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان پر جو سنجاف (گوٹ یا بیل) ٹکی ہوئی تھی وہ ریشم کی تھی۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس جبہ کو اس لئے نکالا تھا کہ لوگوں کو اس نعمت و برکت کا ان (اسماء رضی اللہ عنہا) کے پاس ہونا معلوم ہوا اور یہ ظاہر کرنا بھی مقصد تھا کہ اگر جبہ پر اس طرح کی ریشمی سنجاف ٹکی ہوئی ہو تو اس کو پہننا جائز ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ریشمی سنجاف لگے ہوئے جبہ کو پہنا ہے جب کہ اسی باب کی دوسری فصل میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ میں ایسا کرتا نہیں پہنتا جس پر ریشمی سنجاف ٹکا ہو۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے اس کو اس توجیہ کے ذریعہ دور کیا جائے گا کہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ کی روایت اس صورت پر محمول ہے جب کہ وہ ریشمی سنجاف چار انگشت سے زائد ہو اور یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے یہ چار انگشت یا اس سے کم ریشمی سنجاف کے ٹکے ہوئے ہونے پر محمول ہے یا یہ کہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ کی روایت کا منشاء احتیاط و تقویٰ کی صورت کو بیان کرنا ہے اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا مقصد اصل جواز کو ظاہر کرنا ہے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بعض اعتبار سے کرتے میں جبہ کی بہ نسبت زیادہ ٹھاٹ باٹ اور آسودگی کا اظہار ہوتا ہے (اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ریشمی سنجاف کے ٹکے ہوئے کرتے کو پہننا پسند نہیں فرمایا اور ریشمی سنجاف ٹکا ہوا جبہ پہنا۔
اور اس کے ذریعہ شفا حاصل کرتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس کے دھوئے ہوئے پانی کو بیماروں کو پلاتے ہیں جس سے ان کو شفا ملتی ہے یا اس شفا یابی کے مقصد سے اس جبہ کو مریض کے سر پر اور آنکھوں پر رکھتے لگاتے ہیں اور یا اس جبہ کو ہاتھ سے چھو کر یا اس کو بوسہ دے کر اس کی برکت سے شفا حاصل کرتے ہیں۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت دے دی کیونکہ ان کے خارش ہو گئی تھی (اور یہ خارش جوئیں پڑ جانے کی وجہ سے تھی جیسا کہ آگے کی روایت سے معلوم ہو گا) (بخاری و مسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان دونوں (حضرت زبیر اور حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہما) نے جوئیں پڑ جانے کی شکایت کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت دے دی۔
تشریح
موجز میں لکھا ہے کہ ریشم اپنی اصل کے اعتبار سے گرم اور مفرح ہوتا ہے اور ریشمی کپڑا پہننے سے جوئیں ختم ہو جاتی ہیں۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو کسم کے رنگے ہوئے دو کپڑوں میں دیکھا تو فرمایا کہ۔ یہ کافروں کا لباس ہے (کہ نہ وہ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں اور نہ مرد و عورت کے لباس میں فرق کرتے ہیں) لہٰذا تم ان کو نہ پہنو۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے عرض کیا کہ کیا ان کو دھو ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (نہیں) بلکہ جلا ڈالو۔ (مسلم)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت خرج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ذات غداۃ الخ انشاء اللہ ہم مناقب اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے باب میں نقل کریں گے۔
تشریح
شارحین نے لکھا ہے کہ جلا ڈالنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد اس بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ ان کپڑوں کو کسی بھی صورت سے اپنی ملکیت اور اپنے قبضے سے نکال دو، خواہ اس کو کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دو، یا کسی کو ہبہ کر دو غرضکہ جس طرح بھی ہو ان کو اپنے پاس سے جدا کر دو۔ جہاں تک اس باب کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کپڑوں کو دھو ڈالنے کا حکم کیوں نہیں دیا تو اس کا سبب یہ تھا کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا اگرچہ مردوں کے لئے حرام و مکروہ ہے لیکن عورتوں کے لئے مکروہ نہیں ہے لہٰذا اس کو دھو ڈالنے کی صورت میں گویا اپنے مال کو ناقص کر دینا یا ضائع کر ڈالنا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ حکم کے ذریعہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ان کپڑوں کو چاہئے اپنی عورتوں کو دے دو چاہے بیچ ڈالو، اور چاہے دوسروں کی عورتوں کو ہبہ کر دو کہ وہ ان کپڑوں سے فائدہ اٹھائیں۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بہ نظر ظاہر یہ حکم دیا گیا اور انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ اور پھر جب اگلے دن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے بارے میں عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے وہ کپڑے اپنی عورتوں کو کیوں نہیں پہنا دیئے کیونکہ ایسے کپڑوں کا پہننا عورتوں کے لئے درست ہے۔ اس روایت کی بنا پر شارحین نے جلا ڈالنے کو اس کے ظاہری حکم کے خلاف پر محمول کیا ہے، اور بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ جلا ڈالنے کا حکم اصل میں اس بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ ان کپڑوں سے کسم کے رنگ کو ختم کر دیا جائے تو یہ قول روایت کے مفہوم سے بھی مطابقت نہیں رکھتا اور روایت کے بھی خلاف ہے۔
واضح رہے کہ مردوں کو کسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہننے کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، بعض علماء اس کو مطلق حرام کہتے ہیں، اور بعض حضرات مباح کہتے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر کپڑے کو بننے کے بعد کسم میں رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا حرام ہو گا اور اگر سوت کو رنگنے کے بعد اس کا کپڑا بنا گیا ہو تو اس کا پہننا مباح ہو گا، بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر اس (کسم) کی بو زائل ہو گئی تو مباح ہو گا ورنہ حرام، اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کسم کے رنگے ہوئے کپڑوں کو مجلسوں وغیرہ میں پہننا تو مکروہ ہے، البتہ اگر گھر میں پہنا جائے تو درست ہے جہاں تک حنیفہ کا تعلق ہے تو ان کے مسلک میں مختار قول یہ ہے کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مکروہ تحریمی ہے اور اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کسم کے علاوہ دوسرے سرخ رنگ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں شیخ قاسم حنفی نے جو مصر کے متاخرین علماء حنیفہ میں بہت بڑی حیثیت کے مالک گزرے ہیں، اور قسطلانی کے استاد ہیں، فتویٰ دیا ہے کہ اصل میں رنگ کے سبب سے ہے لہٰذا ہر سرخ رنگ مردوں کے لئے حرام و مکروہ ہے۔
اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمام کپڑوں میں کرتا سب سے زیادہ پسند تھا۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
کرتے کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس کے پہننے سے جسم کے اعضاء اچھی طرح ڈھک جاتے ہیں اور دوسرے وہ بہت ہلکا اور جسم کے لئے آرام دہ ہوتا ہے، اور تیسرے یہ کہ کرتا پہننے سے آدمی متواضع و منکسر معلوم ہوتا ہے اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پسندیدہ و مرغوب رہی ہو گی اس میں یقیناً وہ اسرار و انوار ہوں گے جو اس کے علاوہ کسی چیز میں نہیں ہوں گے جیسا کہ تمام مستحبات کا حکم ہے۔
اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کرتے کی آستینیں پہنچوں تک (بھی) تھیں۔ (ترمذی، ابوداؤد) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
بعض روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کرتے کی آستینوں کا ہاتھ کی انگلیوں کے سر تک کی ہونا بھی منقول ہے، اسی طرح بعض روایتوں میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کرتا لمبائی میں ٹخنوں سے اونچا تھا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کرتا پہنتے تو دائیں طرف سے پہننا شروع کرتے۔ (ترمذی)
تشریح
میامن میمنہ کی جمع ہے جس کے معنی دائیں جانب کے ہیں، حدیث میں یہ لفظ جمع کے صیغہ کے ساتھ اس لئے لایا گیا ہے کہ کرتے کی دائیں جانب کا تعلق آستین اور کرتے کے نیچے تک کی بھی دوسری چیزوں جیسے گلے وغیرہ سے ہے۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مؤمن کے تہبند و پائجامہ کی سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ وہ آدھی پنڈلیوں تک ہو اور آدھی پنڈلیوں سے ٹخنوں تک (کے درمیان) ہونے میں (بھی) کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس (ٹخنے) سے نیچے جو حصہ (لٹکا ہوا) ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں لے جائے گا۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ تین بار فرمائے۔ اور (پھر فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو (رحمت و عنایت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا جو غرور و تکبر سے اپنے تہبند و پائجامہ کو (ٹخنوں سے) نیچے لٹکائے گا۔ (ابوداؤد، ترمذی)'۔
اور حضرت سالم اپنے والد (یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اسبال یعنی لٹکانا، ازار،کُرتے اور عمامے میں سے ہے جو شخص ان (کپڑوں) سے کچھ لٹکا کر غرور و تکبر سے کھینچے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (بنظر کرم) نہیں دیکھے گا )۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
اسبال یعنی کپڑے کو شرعی مقدار سے زائد لٹکانے کی جو حرمت و کراہت منقول ہے اس کا تعلق محض ازار یعنی تہبند و پائجامہ ہی سے نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں بلکہ کرتے اور پگڑی میں کپڑے کا اسراف کرنا اور ان کو شرعی مقدار سے زائد لٹکانا حرام و مکروہ ہے، چنانچہ اس مسئلہ کی تفصیلی بحث پہلی فصل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے تحت گزر چکی ہے۔
اور حضرت ابوکبشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ٹوپیاں اس طرح کی ہوتی تھیں کہ وہ سروں سے چپکی رہتی تھیں۔ (ترمذی) نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔
تشریح
اکثر شارحین نے کہا ہے کہ کمام اصل میں کمہ کی جمع ہے جیسے قبہ کی جمع قباب اور کمہ مدور یعنی گول ٹوپی کو کہتے ہیں۔ اور بطح بطحا کی جمع ہے جس کے معنی ہموار پتھریلی زمین کے ہیں، اس صورت میں حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ صحابہ کرام جو ٹوپیاں استعمال کرتے تھے وہ گول اور پھیلی ہوئی ہوتی تھیں کہ وہ سروں سے چپکی رہتی تھیں نہ کہ ہوا میں اوپر اٹھی ہوئی بلند و دراز جیسے اس زمانہ میں ترکی اور ایرانی ٹوپیاں ہوتی ہیں۔
اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کمام کمہ کی جمع نہیں بلکہ کم کی جمع ہے جس کے معنی آستین کے ہیں جیسے قف کی جمع قفاف (قف کے معنی بلند زمین کے ہیں ) اس صورت میں بطحا کے معنی فراخ و کشادہ کے ہوں گے، کیونکہ بطحا یعنی ہموار پتھریلی زمین، کشادہ بھی ہوتی ہے، اس طرح حدیث کا مطلب یہ ہو جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ اپنے کرتوں میں تنگ آستین نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے کرتوں کی آستینیں ایک بالشت کے بقدر چوڑی ہوتی تھیں۔
اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ازار بند (تہبند و پائجامہ) کا حکم بیان فرما رہے تھے (کہ اس کا لٹکانا ممنوع ہے) تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اور عورت (کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ یعنی اگر وہ اپنے ازار کو نیچا نہ رکھے تو اس کا ستر پوری طرح نہیں چھپے گا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت اپنا تہبند یا پائجامہ (اپنی آدھی پنڈلیوں یا بعض کے قول کے مطابق اپنے ٹخنوں سے) ایک بالشت نیچا لٹکا سکتی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اس صورت میں بھی کھلا رہے گا یعنی مثلاً اس کی پنڈلیاں زیادہ لمبی ہوں اور وہ اپنی آدھی پنڈلیوں سے ایک بالشت اور نیچے تک اپنا پائجامہ لٹکا لے تب بھی اس کا ستر کھلنے کا احتمال رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اگر اس صورت میں بھی اس کا ستر کھلا رہے تو ) وہ ایک گز اور نیچے لٹکا لے (گز سے شرعی گز یعنی ایک ہاتھ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں وہ اپنے پائجامہ وغیرہ کو اتنا نیچے لٹکا سکتی ہے کہ وہ زمین تک پہنچ جائے تاکہ اس کے پیر چھپے رہیں اور وہ ایک بالشت کے بقدر زائد ہو یا ایک گز کے بقدر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حد سے زیادہ لٹکانے کی ممانعت کو تاکیداً بیان کرنے کے لئے یہ فرمایا کہ) کوئی عورت اس ایک گز سے زیادہ نیچے نہ لٹکائے۔ (مالک، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ،) اور ترمذی نسائی کی ایک روایت میں جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، یوں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا کہ اس صورت میں ان کے پیر کھلے رہیں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ ہاتھ بھر اور نیچے لٹکا لیں لیکن اس سے زائد نہ لٹکائیں۔
اور حضرت معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ (ایک دن) میں نے مزینہ قوم کی ایک جماعت کے ساتھ (جو اسلام قبول کرنے آئی تھی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا چنانچہ اس جماعت کے لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے (اسلام پر بیعت کی، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے کرتے کی) گھنڈیاں کھولے ہوئے بیٹھے تھے، میں نے (موقع غنیمت جانا اور حصول برکت و سعادت کے لئے) اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کرتے کے گریبان میں ڈال کر مہر نبوت پر ہاتھ پھیر لیا۔ (ابوداؤد
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کرتے کا گریبان سینہ مبارک پر تھا، چنانچہ اس پر بہت حدیثیں دلالت کرتی ہیں، اسی لئے شیخ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ بعض لوگ جو علم سنت سے بے بہرہ ہیں یہ خیال رکھتے ہیں کرتے کا گریبان سینہ پر رکھنا بدعت ہے یہ قول قطعاً بے بنیاد اور بالکل باطل ہے۔
اور حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ کہ سفید کپڑے بہت پاک اور زیادہ پاکیزہ و خوش تر ہوتے ہیں اسی طرح اپنے مردوں کو کفن بھی سفید کپڑوں کا دو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ
تشریح
سفید کپڑے کو بہت پاک تو اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ سفید کپڑا چونکہ جلد میلا ہو جاتا ہے اس لئے وہ بار بار اور بہت دھویا جاتا ہے، اس کے برخلاف رنگین کپڑا چونکہ میل خور ہوتا ہے اس لئے وہ کافی عرصہ کے بعد ہی دھویا جاتا ہے ! اور زیادہ پاکیزہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ وہ دوسرے رنگوں میں مخلوط نہیں ہوتا، اسی طرح سفید کپڑے کو خوش تر اس سبب سے کہا گیا ہے کہ سلیم الطبع لوگ سفید ہی کپڑے کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ البتہ ضرورت کی صورت میں اس سے خارج ہے۔ جیسے صوفیاء نیلا اور یا کسی اور رنگ کے کپڑے کو اس ضرورت کی بناء پر اختیار کرتے ہیں کہ وہ سفید کپڑے کو بار بار دھوئے رہنے پر قادر نہیں ہوتے۔
جہاں تک کفن کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ کفن میں سفید ہی کپڑا دینا افضل ہے کیوں کہ اس وقت مردہ گویا فرشتوں کی مجلس میں حاضر ہوتا ہے جیسے کہ سفید کپڑا پہننا اس شخص کے لئے افضل ہے جو مجلسوں اور محفلوں میں جانا چاہے، مثلاً جمعہ یا جماعت کے لئے مسجد میں، اور علماء و اولیاء اللہ کی ملاقات کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہو لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ عید میں وہ کپڑا پہننا افضل ہے جو زیادہ قیمتی ہو تاکہ خدا کی عطا کی ہوئی نعمت کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہو سکے چنانچہ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عیدین اور جمعہ میں سرخ دھاریوں والی چادر اوڑھتے تھے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب عمامہ باندھتے تو اس کا شملہ دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈالتے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو عمامہ بندھوایا تو اس کا شملہ میرے آگے اور میرے پیچھے (دونوں طرف) لٹکایا۔ (ابوداؤد)
تشریح
یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پگڑی کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر ایک کو سینہ اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکایا۔
واضح رہے کہ عمامہ باندھنا سنت ہے اور اس کی فضیلت میں بہت زیادہ حدیثیں منقول ہیں، بلکہ ایک روایت میں جو اگرچہ ضعیف ہے یہاں تک منقول ہے کہ عمامہ باندھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتیں بغیر عمامہ کے پڑھی جانے والی ستر رکعتوں سے افضل ہیں۔
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عمامہ میں شملہ چھوڑنا افضل ہے لیکن دائمی طور پر نہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی تو شملہ چھوڑتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اسی طرح بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمامہ کا شملہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گردن سے نیچے تک لٹکا ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ عمامہ کا ایک سرا عمامہ ہی میں اڑس دیتے تھے اور دوسرا چھوڑ دیتے تھے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمامہ کا شملہ اکثر اوقات میں پیٹھ پر پڑا ہوتا تھا اور کبھی کبھی دائیں طرف بھی لٹکا لیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ عمامہ کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر دونوں مونڈھوں کے درمیان یعنی ایک کو سینے پر اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکا لیتے تھے لیکن بائیں طرف لٹکانا چونکہ ثابت نہیں ہے اس لئے بدعت ہے اور کنز میں لکھا ہے کہ شملہ کو مونڈھوں کے درمیان چھوڑنا مستحب ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے شملہ کی لمبائی کم سے کم ایک بالشت اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ بھر ہونی چاہئے اس سے زائد لمبا شملہ چھوڑنا بدعت ہے اور اس کے خلاف ورزی ہے جس کے ذریعہ اسبال و اسرف سے منع کیا گیا ہے چنانچہ مقررہ حد سے زائد لمبائی اگر غرور و تکبر کے طور پر ہو گی تو وہ حرام شمار ہو گی ورنہ مکروہ اور خلاف سنت ! نیز محمدثین نے یہ لکھا ہے کہ شملہ چھوڑنے کو صرف نماز کے وقت کے ساتھ مختص کرنا بھی سنت کے خلاف ہے۔
یہ ملحوظ رہے کہ شملہ چھوڑنا فقہی اعتبار سے مستحب ہے جس کا تعلق سنت زائدہ سے ہے سنت ہدی سے نہیں اس لئے اس (شملہ چھوڑنے) کے ترک میں کوئی گناہ یا برائی نہیں ہے اگرچہ اس کو اختیار کرنے میں ثواب و فضیلت ہے، جن حضرات نے شملہ چھوڑنے کو سنت مؤکدہ کہا ہے ان کا یہ قول ہے تحقیق و روایت کے خلاف ہے۔
اور حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ہمارے اور مشرکوں کے درمیان (ایک) فرق یہ (بھی) ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد درست نہیں۔
تشریح
اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے سکوت کیا ہے یعنی انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد درست نہیں، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی اسناد اصل کے اعتبار سے درست ہو یا دونوں (ترمذی، ابوداؤد،) کے نقل کرنے کی وجہ سے اس کو درستی حاصل ہو گئی ہو۔
بہرحال حدیث کی عبارت کے دو معنی محتمل ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ ہم (مسلمان) تو ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرک لوگ بغیر ٹوپیوں کے (یعنی ننگے سر پر) عمامہ باندھتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ۔ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرک لوگ عمامہ باندھتے ہی نہیں صرف ٹوپی پہنتے ہیں۔ شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں معنوں میں سے پہلے ہی معنی مراد ہیں کیونکہ اس زمانہ کے مشرکین کا عمامہ باندھنا تو تحقیق کے ساتھ معلوم ہے لیکن ان کا صرف ٹوپی پہننا ثابت نہیں ہے (اگرچہ ملا علی قاری نے خدری سے نقل کیا ہے کہ دوسرے معنی بھی مراد لئے جا سکتے ہیں نیز انہوں نے کہا ہے کہ بعض علماء کے قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ ٹوپی اور عمامہ استعمال کیا جائے صرف ٹوپی پہننا مشرکین کی علامت ہے۔
اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کی عورتوں کے لئے سونا اور ریشم حلال کیا گیا ہے اور امت کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے (ترمذی، نسائی) اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
مرد کے لفظ میں بچے (لڑکے) بھی داخل ہیں لیکن بچے چونکہ مکلف نہیں ہیں اس لئے ان کے حق میں ان چیزوں کی حرمت کا تعلق پہنانے والوں سے ہو گا کہ اگر کوئی بچہ ریشم یا سونے، کا زیور پہنے گا تو اس کا گناہ اس کے پہنانے والے پر ہو گا۔ نیز سونے سے مراد سونے کے زیورات ہیں ورنہ سونے چاندی کے برتن کا استعمال جس طرح مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی حرام ہے، اسی طرح چاندی کے زیورات کا حلال ہونا بھی صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے علاوہ اس مقدار کے جو مردوں کے لئے بھی حلال ہے جیسے انگوٹھی وغیرہ۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کا جو نام ہوتا یعنی پگڑی یا کرتا اور یا چادر، وہ نام لیتے اور پھر فرماتے۔ اے اللہ تیرے ہی لئے تعریف ہے کہ تو نے مجھ کو یہ کپڑا پہنایا، اے اللہ میں تجھ سے اس کپڑے کی بھلائی کا طلب گار ہوں (کہ یہ کپڑا میرے بدن پر عافیت سے رہے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے) اور تجھ سے اس چیز کی بھلائی چاہتا ہوں جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے (یعنی یہ کہ میں یہ کپڑا پہن کر تیری اطاعت کروں) اور میں اس کپڑے کی برائی اور اس چیز کی برائی کی جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے تیری پناہ چاہتا ہوں (یعنی یہ کہ میں کپڑا پہن کر کوئی گناہ نہ کروں)۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
نیا کپڑا پہننے کے بارے میں ابن حبان خطیب اور بغوی نے نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کوئی نیا کپڑا پہننے کا ارادہ کرتے تو اس کو جمعہ کے دن زیب تن فرماتے۔
اس کا جو نام ہوتا الخ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کپڑے کا نام لیتے خواہ کپڑا عمامہ ہوتا یا کرتا یا چادر اور یا کوئی اور لباس، چنانچہ مذکورہ جملہ میں لفظ ثوب سے عمومیت مراد ہے اور خاص طور پر جن کپڑوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض تمثیل کے طور پر ہیں۔
وہ نام لیتے یعنی اگر مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کرتا پہنتے تو اس طرح فرماتے کہ رزقنی اللہ، یا اعطانی اللہ۔ یا کسانی اللہ ہذا القمیص اور پھر اس کے بعد مذکورہ دعا پڑھتے۔
اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص کھانا کھائے اور پھر یہ کہے یعنی یہ دعا پڑھے۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو یہ کھانا کھلایا اور کھانا بغیر میرے کسی حیلہ اور بغیر میری کسی قوت (کے اثر کے) مجھ تک پہنچایا تو اس کے تمام پہلے (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (ترمذی) اور ابوداؤد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ جو شخص کپڑا پہنے اور پھر یہ کہے۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو یہ کپڑا پہنایا اور یہ کپڑا بغیر میرے کسی حیلہ اور بغیر میری کسی قوت (کے اثر کے) مجھ تک پہنچایا۔ تو اس کے تمام اگلے پچھلے (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ! اگر تم (دنیا و آخرت دونوں جگہ مجھ سے (کامل) اتصال و وابستگی چاہتی ہو تو دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر اکتفا کرو جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو اور دولت مندوں کی ہم نشینی اختیار کرنے سے اجتناب کرو، نیز کپڑے کو اس وقت تک پرانا سمجھ کر نہ پھینکو جب تک کہ تم اس کو پیوند (لگا کر پہننے) کے قابل سمجھو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور یہ حدیث ہم تک صالح ابن حسان کی روایت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں پہنچی ہے جب کہ محمد بن اسماعیل (یعنی امام بخاری) نے کہا ہے صالح ابن حسان منکر الحدیث ہیں (یعنی ان کی روایت منکر ہے)۔
تشریح
جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو۔ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر قناعت کرے جو اس کی زندگی اور مقصد حیات کے لئے ضروری ہوں۔ اس جملہ میں سوار کی تخصیص شاید اس لئے ہے کہ وہ اپنا راستہ تیز گامی سے طے کرتا ہے اور منزل پر جلد پہنچتا ہے جس کی وجہ سے اس کو تھوڑا سا بھی زاد راہ کافی ہو جاتا ہے اس کے برخلاف پیادہ کو چونکہ سفر میں دیر لگتی ہے اس لئے اس کو زاد راہ بھی زیادہ لینا پڑتا ہے۔۔
دولت مندوں کی ہمنشینی سے پچنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ دنیا دار دولت مندوں کی صحبت و مجالست دنیا اور دنیا کی لذات کے تئیں محبت و خواہشات میں زیادتی اور لہو و لعب میں مشغولیت کا باعث بنتی ہے اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا آیت (لاتمدن عینیک) الآیہ ایک روایت میں منقول ہے کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما یا کہ مردوں کی ہمنشینی سے اجتناب کرو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کون لوگ ہیں (جن کو مردہ فرمایا جا رہا ہے اور جن کی ہمنشینی سے بچنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے أپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (دنیا دار) دولت مند۔
جب تک کہ تم اس کو پیوند کے قابل سمجھو۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کپڑا پرانا و بوسیدہ ہو جائے یا وہ پھٹ جائے تو اس سے بے اعتنائی نہ برتو اور اس کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کو ٹھیک ٹھاک کر کے اور اس میں پیوند لگا کر کم سے کم ایک بار اور استعمال کر لو۔ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اگر اپنے پاس پھٹے پرانے کپڑے ہوں تو (زہد و قناعت کا تقاضا یہ ہے کہ ستر پوشی کے لئے انہی پر اکتفا کیا جائے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی خلافت کے زمانہ میں (جب کہ ان کو دنیا کے ایک عظیم ترین حکمران کی حیثیت حاصل تھی) ایک دن اسی حالت میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ انہوں نے جو تہبند باند ھ رکھا تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔
اور حضرت ابوامامہ ابن ایاس ابن ثعلبہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ کیا تم سن نہیں رہے (یعنی اے لوگو! کان لگا کر سنو ! کپڑے کی بوسیدگی و کہنگی (یعنی لباس کی سادگی) کو اختیار کرنا اور دنیا کی زیب و زینت کو ترک کرنا حسن ایمان کی علامت ہے، کپڑے کی بوسیدگی و کہنگی کو اختیار کرنا اور دنیا کی زیب و زینت کو ترک کرنا حسن ایمان کی علامت ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ لباس کے معاملہ میں زیادہ تکلف و اہتمام سے کام لینا،عورتوں کی طرح اپنے آپ کو سنوارنا اور ہر وقت زیب و زینت کا خیال رکھنا مسلمان مرد کے شایان شان نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے اچھے کپڑے پہننے کی استطاعت عطا کی ہے تو بیشک اپنے لباس میں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے عمدگی و نفاست کا لحاظ رکھنا اور جائز طریقے سے اچھے کپڑے پہننا کوئی معیوب نہیں ہے لیکن کبھی کبھی پرانا کپڑا بھی پیوند لگا کر پہن لینا بہتر ہے۔ حاصل یہ کہ لباس میں تواضع و انکسار اختیار کرنا اور دنیاوی زیب و زینت سے بچنا اہل ایمان کی اچھی عادتوں میں سے ہے اور حسن ایمان کی علامت ہے کیونکہ آخرت اور آخرت کی زینتوں پر ایمان لانا ہی اس زہد و قناعت کا باعث ہوتا ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنے گا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ،)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی عزت طلبی اور اپنی بڑائی کے اظہار کی غرض سے اعلیٰ و نفیس لباس پہنے یعنی اس کا مقصد یہ ہو کہ لوگ میرے جسم پر اعلیٰ لباس دیکھ کر میری عزت کریں اور مجھے شہرت و بڑائی ملے تو ایسے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلیل و حقیر کپڑا پہنائے گا، یعنی اس کو اس کپڑے کے ذریعہ ذلیل و بے عزت کرے گا اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دنیا میں ایسا لباس پہنے گا جس سے تواضع اور بے نفسی ظاہر ہوتی ہو (یعنی جس کو دنیا دار لوگ ذلیل و حقیر لباس سمجھتے ہوں اس کو اللہ تعالیٰ عقبی میں عزت و عظمت کا لباس پہنائے گا۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شہرت کے کپڑے سے مراد وہ حرام کپڑے ہیں کہ جن کا پہننا مباح نہیں ہے بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ کپڑا مراد ہے جو از راہ تمسخر و مذاق یعنی لوگوں کو ہنسانے کے لئے پہنے، یا وہ کپڑا مراد ہے جو اپنے زہد و پارسائی کے اظہار کے لئے پہنے اسی طرح بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں داراصل اعمال کو کپڑے سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی مراد یہ ہے کہ جو شخص از راہ ریا یعنی محض دکھانے سنانے کے لئے اچھے اعمال کرے تاکہ ان کی وجہ سے دنیا والوں کی شہرت و عزت حاصل ہو تو قیامت کے دن اس کا حشر یہ ہو گا ! بہرحال حدیث کے سیاق کو دیکھتے ہوئے یہ بات بلاشک کہی جا سکتی ہے کہ وہی مراد و مطلب زیادہ صحیح ہے جس کو پہلے بیان کیا گیا ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ۔ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم میں ہو گا۔ (احمد، ابوداؤد۔)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس قوم و جماعت کی مشابہت اختیار کرے گا اس کو اسی قوم و جماعت جیسی خیر و معصیت ملے گی مثلاً اگر کوئی شخص اپنے لباس و اطوار وغیرہ کے ذریعہ کسی غیر مسلم قوم یا فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرے گا تو اس کے نامہ اعمال میں وہی گناہ لکھے جائیں گے جو اس غیر مسلم قوم کے لوگوں یا فساق و فجار کو ملتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے آپ کو علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے نمونے پر ڈھالے گا کہ انہی جیسے لباس پہنے گا انہی جیسے اطوار اختیار کرے گا اور انہی جیسے اعمال کرے گا تو وہ بھلائی و سعادت کے اعتبار سے انہی کے زمرہ میں شمار ہو گا، اس ارشاد گرامی کے الفاظ بہت جامع وہمہ گیر ہیں جن کے دائرے میں بہت سی باتیں اور بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں یعنی مشابہت کا مفہوم عمومیت کا حامل ہے کہ مشابہت خواہ اخلاق و اطوار میں ہو، یا اطوار میں ہو، یا افعال و کردار میں ہو، اور خواہ لباس و طرز رہائش میں ہو اور یا کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، رہنے سہنے اور بولنے چالنے میں ہو سب کا یہی حکم ہے۔
اور حضرت سوید بن وہب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی کے بیٹے سے، اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص زیب و زینت کے لباس کو پہننا چھوڑ دے باوجودیکہ وہ اس کے پہننے کی استطاعت و حیثیت رکھتا ہو۔ اور ایک روایت میں تواضعا کا لفظ بھی آیا ہے یعنی جو شخص زہد تواضع اور کسر نفسی کے سبب زیب و زینت کا لباس پہننا چھوڑ دے اس کو اللہ تعالیٰ عزت و عظمت کا جوڑا پہنائے گا یعنی اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا لباس عطا کرے گا جو اس کی رفعت و عظمت کا باعث ہو گا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت دونوں جگہ عزت و عظمت عطا کرے گا جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص فروتنی اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بلند مرتبہ بناتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نکاح کرے اس کو اللہ تعالیٰ بادشاہت کا تاج عطا فرمائے گا۔ (ابوداؤد،) اور ترمذی نے اس روایت کا صرف وہ حصہ جس میں لباس کا ذکر ہے حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جز کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اعلیٰ و نفیس کپڑے اور زینت و آرائش کا لباس پہننے کی حیثیت رکھتا ہو لیکن اس کے باوجود یا تو اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے، یا آخرت میں بلند مرتبہ پانے کی تمنا میں اور یا دنیا کی زینت و آرائش کے بے وقعت و حقیر جان کر اعلیٰ لباس پہننا چھوڑ دے تو اس کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں عزت و عظمت کی دولت سے نوازے گا۔
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نکاح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جو نہ تو کفو اور عزت میں اس کے برابر اور نہ دولت و ثروت میں اس کی برابری رکھتی ہو اور اس شخص نے اس عورت سے محض اس لئے نکاح کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا خوشنودی چاہتا تھا یا وہ اپنے نفس کو بدکاریوں کے فتنہ سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا اور اس کا مقصد دین کی محافظت اور طلب و بقا نسل تھا۔
اس کو اللہ تعالیٰ بادشاہت کا تاج عطا فرمائے گا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس عمل پر اس کو جنت میں بادشاہی عزت و عظمت کا تاج پہنائے گا یا یہ جملہ عزت و توقیر سے کنایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں عزت و توقیر عطا فرمائے گا
روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ امام ترمذی نے اس حدیث کو معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہو اور صرف وہ حصہ نقل کیا ہے جس میں لباس کا ذکر ہے، حدیث کا دوسرا جز کہ جس میں نکاح کا ذکر ہے انہوں نے نقل نہیں کیا۔
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے بندے پر دیکھا جائے۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مادی نعمت عطا کرے تو چاہئے کہ وہ اس کو ظاہر کرے مثلاً وہ اپنی حیثیت کے مطابق اور مبالغہ و اسراف کی حد تک جائے بغیر اچھے کپڑے پہنے، لیکن اس کو خوش پوشاکی کسی غرور و تکبر اور اتراہٹ کے جذبہ سے نہیں ہونی چاہئے بلکہ شکر گزاری کی نیت سے ہونی چاہئے تاکہ فقراء محتاج، زکوٰۃ صدقات لینے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو چھپانا اچھا نہیں ہے بلکہ کفران نعمت کا موجب ہے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو روحانی نعمت جیسے علم و فضل کی دولت اور بزرگی و شخصیت عطا فرمائے تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس نعمت کا اظہار کرے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اوپر کی حدیث میں تو ترک زینت کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ اور اس حدیث میں خوش پوشاکی کی ذریعہ گویا زیب و زینت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اس صورت میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان جو ظاہری تضاد محسوس ہوتا ہے، اس کے دفعیہ کے لئے کیا توجیہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ اوپر کی حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ خوش پوشاکی کی حیثیت و استطاعت نہ ہو، چنانچہ اس صورت میں ترک زینت کی طرف راغب کیا گیا ہے تاکہ اگر کسی شخص کو کسی موقع پر خوش پوشاکی کی ضرورت بھی لاحق ہو اور وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس مقصد کی تکمیل کے لئے غیر موزوں تکلیف و اہتمام کر کے اور ناروا زحمت برداشت کر کے اچھے کپڑے حاصل کرنے کی سعی نہ کرے، بلکہ صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے ترک زینت ہی پر عامل رہے اس کے برخلاف جو شخص عمدہ پوشاک پہننے اور لباس کی نفاست و لطافت کو اختیار کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور وہ اس کے باوجود ترک زینت ہی کو اپنا معمول کی بنا پر پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پر قناعت کئے رہے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کیوں کہ اس کی یہ عادت اصل میں بخل و خست پر محمول ہو گی۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ملاقات کی غرض سے ہمارے پاس تشریف لائے تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک پراگندہ بال شخص کو دیکھا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا اس شخص کو وہ چیز یعنی کنگھی وغیرہ میسر نہیں ہے جس کے ذریعہ یہ اپنے بالوں کو درست کر سکے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسے شخص شخص کو دیکھا جس کے بدن پر میلے کچیلے کپڑے تھے تو فرمایا کہ کیا اس شخص کو وہ چیز یعنی صابون یا پانی میسر نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑوں کو دھو ڈالے۔ (احمد، نسائی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسم کی درستی و نفاست اور لباس کی صفائی و ستھرائی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک پسندیدہ تھی اور اس کا برعکس ناپسندیدہ مکروہ کیونکہ یہ چیزیں تہذیب و شائستگی کی علامت بھی ہیں اور اسلام کی روح پاکیزگی کے عین مطابق بھی۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی البذاذۃ من الایمان (یعنی لباس کی سادگی اور ترک زینت حسن ایمان کی علامت ہے) کی مراد چونکہ موٹے چھوٹے کپڑے پر قناعت کرنا ہے اس لئے یہ بات نہ تو مذکورہ بالا روایت کے منافی ہے اور نہ اس نظافت و پاکیزگی کے خلاف ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہا من الذین (یعنی وہ نظافت وپاکیزگی) دین کا ایک جز ہے۔
اور حضرت ابوالاحوص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایسی حالت میں حاضر ہوا کہ میرے بدن پر خراب و خستہ کپڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ نے یہ دیکھ کر مجھ سے فرمایا کہ تمہارے پاس مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہر قسم کا مال ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ گائیں اور بکریاں بھی عطا کی ہیں اور گھوڑا اور غلام بھی دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب اللہ تعالی نے تمہیں اتنا زیادہ مال دیا ہے تو اس کا تقاضا تو یہ ہیکہ تم پر اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی نعمت کا اثر ظاہر ہو اور تمہیں اللہ نے جس عزت و عظمت سے نوازا ہے وہ عیاں ہو (نسائی) اور شرح السنہ نے اس روایت کو مصابیح کی روایت سے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے عبادت تو دونوں کی مختلف ہے لیکن دونوں کا مضمون ایک ہی ہے۔
تشریح
مطلب یہ کہ جب اللہ تعالی نے تمہیں اتنا کچھ دیا ہے اور تم اچھا لباس پہن سکتے ہو تو پھر تم اچھے کپڑے زیب تن کرو تاکہ لوگ جانیں کہ تم مالدار ہو اللہ کی نعمت کا اظہار کرنے کے لئے خوش پوشاکی اچھے صاف ستھرے اور نئے کپڑے پہننے سے حاصل ہوتی ہے بشرطیکہ وہ کپڑے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق ہوں اور یہ کہ وہ تو اتنے باریک اور مہین ہوں جس کی ممانعت منقول ہے اور نہ اتنے زیادہ نفیس و عمدہ ہوں جس سے بیجا شان و شوکت کا اظہار ہو اسی طرح وہ کپڑے اوپر تلے یعنی ایک لباس کے اوپر تلے یعنی ایک لباس کے اوپر دوسرا لباس نہ پہنا گیا ہو۔ منقول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لباس کے تئیں دونوں شہرتوں سے منع فرماتے تھے یعنی باریک کپڑے سے بھی اور موٹے کپڑے سے بھی اور سخت کپڑے سے بھی اور لمبے کپڑے سے بھی اور چھوٹے کپڑے سے بھی۔ الاّ یہ کہ وہ کپڑا درمیانی درجہ کا ہو۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ کپڑے کی کہنگی یعنی کپڑے کا پرانا ہونا اور اس میں پیوند لگا ہوا ہونا ایک پسندیدہ محمود چیز ہے اور افعال ایمان میں سے ہے بشرطیکہ محض اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے دنیا میں زہد و فقر اور تواضع و انکسار اختیار کرنے کے مخلصانہ جذبہ سے ہو اور اگر حیثیت و استطاعت کے باوجود یہ (یعنی کپڑے کا پرانا و خستہ و پیوند لگا ہوا ہونا) بخل و خست کی بنا پر ہو گا تو اس کو قبیح و مذموم کہیں گے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص دو سرخ کپڑے پہنے ہوئے گزرا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
یہ حدیث صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو سرخ کپڑا پہننا حرام ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو شخص کسی ممنوع چیز کا مرتکب ہو اور وہ سلام کرے تو وہ سلام کا جواب دیئے جانے اور تکریم و توقیر کئے جانے کا مستحق نہیں ہے ! جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے ریشمی کپڑے پر بیٹھنا بھی صاحبین اور تینوں اماموں کے نزدیک مکروہ ہے لیکن حضرت امام اعظم کے نزدیک جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک مکروہ ہے۔
اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میں ارغوانی یعنی سرخ رنگ ازین پوش پر سوار نہیں ہوتا نہ میں کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہنتا ہوں اور نہ میں ایسا پیرہن (کرتا وغیرہ) پہنتا ہوں جس پر ریشمی سنجاف (یعنی ریشمی گوٹ و بیل وغیرہ) لگی ہو۔ اور پھر فرمایا یاد رکھو ! مرد جو خوشبو لگائیں وہ ایسی ہونی چاہئے جس میں مہک تو ہو رنگ نہ ہو جیسے گلاب اور عطر وغیرہ تاکہ رنگ دار خوشبو لگانے سے کپڑے رنگین نہ ہو جائیں، اور عورتیں جو خوشبو لگائیں وہ ایسی ہونی چاہئے جس میں رنگ تو ہو مہک نہ ہو جیسے زعفران و مہندی وغیرہ تاکہ ان کی مہک باہر نکل کر مردوں کے لئے فتنہ و ابتلاء کا سبب نہ بن جائے۔ (ابو داؤد)
تشریح
ارجوان (الف و جیم کے پیش اور راء کے سکون کے ساتھ) کے معنی ہیں سرخ رنگ کی ریشمی پوش مطلب یہ ہے کہ میں سواری کے کسی ایسے جانور پر نہیں بیٹھتا جس کی زین (پالان) کے اوپر سرخ ریشمی کپڑا پڑا ہو اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ ارجوان اصل میں ارغوان کا معرب ہے اور ارغوان اس درخت کو کہتے ہیں اور قاموس میں یہ لکھا ہے کہ ارجوان سرخ رنگ کو کہتے ہیں بہرحال ملا علی قاری کے مطابق حدیث میں ارجوان سے مراد سرخ رنگ کا کپڑا ہے خواہ وہ ریشمی ہو یا غیر ریشمی اور گویا یہ ارشاد گرامی اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس حکم کو زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ واضح کر رہا ہے کہ مردوں کو سرخ رنگ کا لباس پہننے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اگرچہ سوار ہونے پر پہننے کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب رنگ کے زین پوش پر سوار ہونے سے اجتناب کرتے تھے تو سرخ رنگ کا کپڑا پہننے سے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطریق اولی اجتناب کرتے ہوں گے
اور نہ میں ایسا پیرہن پہنتا ہوں .......کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسا کرتا یا جبہ نہیں پہنتا جس میں ریشمی سنجاف چار انگشت سے زیادہ ہو یا یہ کہ یہ ارشاد گرامی تقویٰ اور احتیاط پر محمول ہے۔
جس میں رنگ تو ہو مہک نہ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے گھر سے باہر نکلتے وقت ایسی کوئی چیز استعمال کرنی درست نہیں ہے جس میں مہک اور خوشبو ہو ہاں ......گھر کے اندر رہتے ہوئے اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حدیث میں خوشبو کے سلسلے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ظاہری اسلوب بیان خبر کا ہے لیکن معنی میں امر یعنی حکم کے ہے جس کا مطلب یہ ہے جیسا کہ ترجمہ میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ مرد جو خوشبو استعمال کریں اس میں رنگ کی آمیزش نہ ہونی چاہئے، اس کے برخلاف عورت جو خوشبو استعمال کرے اس میں مہک نہ ہونی چاہئے، اسی طرح شمائل ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ مردوں کی خوشبو ایسی چیز ہونی چاہئے جس سے مہک تو نکلتی ہو لیکن اس کا رنگ ظاہر نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو ایسی چیز ہونی چاہئے جس کا رنگ تو ظاہر ہو لیکن اس سے مہک نہ نکلتی ہو۔ اس روایت کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عورت گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی ایسی چیز استعمال نہ کرے جس کی مہک پھیلتی ہو کیونکہ اگر یہ مطلب نہ لیا جائے تو عبارت کا مفہوم اس لئے غیر واضح ہو جائے گا کہ کوئی بھی خوشبو بغیر مہک کے نہیں ہو سکتی اس صورت میں اس کی طرف مہک کی نسبت غیر ضروری اور بے فائدہ ہو گی اور اگر یہ کہا جائے کہ کچھ خوشبوئیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بالکل مہک نہیں ہوتی اور عورتوں کے لئے ایسی ہی خوشبوؤں کا استعمال جائز کیا گیا ہے تو یہ بات بالکل غیر حقیقی اور غیر صحیح ہو گی۔
اور حضرت ابوریحانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دس باتوں سے منع فرمایا ہے دانتوں کو تیز کرنے سے، جسم کے کسی حصہ کو گودنے سے، بال اکھاڑ نے سے، مرد کو مرد کے ساتھ سونے سے اگر درمیان میں کپڑا حائل نہ ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ مرد اپنے کپڑے کے نیچے ریشم (کا استر) لگائے جیسا کہ عجمی لوگ لگاتے ہیں یا عجمی لوگوں کی طرح مونڈھوں پر ریشمی کپڑا لگائے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کا مال لوٹنے سے اور چیتے کی زین پر سونے سے منع فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص مہر والی انگوٹھی پہنے الاّ یہ کہ وہ صاحب حکومت ہو۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
عرب میں یہ دستور تھا کہ بوڑھی عورتیں، جوان عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے اپنے دانت کے کناروں کو تیز اور باریک کیا کرتی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نے منع فرمایا، اسی طرح ایک رواج یہ بھی تھا کہ عورتیں اپنے جسم کے کسی بعض حصوں کو سوئی سے گود کر اس میں نیل یا سرمہ بھر دیتی تھیں (جیسا کہ ہمارے یہاں بھی بعض غیر مسلم میں یہ دستور ہے کہ جسم کے کسی حصہ خاص طور سے ہاتھ پر نام وغیرہ گودتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے بھی منع فرمایا۔ بال اکھاڑنے سے منع فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ آرائش و زینت کی خاطر داڑھی اور سر کے سفید بال چننا ممنوع ہے یا یہ کہ عورتوں کا اپنے چہرہ یعنی پیشانی کے بال چننا ممنوع ہے ان چیزوں کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اول تو ان سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغیر کرنا لازم آتا ہے دوسرے یہ چیزیں آرائش و زینت کے لئے بے جا اور برے قسم کے تکلفات کا مرتکب ہونے کا باعث ہیں اگرچہ زیب و زینت اختیار کرنا عورتوں کے لئے جائز ہے مگر اس طرح کے مذموم تکلفات ان کے لئے بھی ممنوع ہیں۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں بال اکھاڑنے سے مراد یہ ہے کہ کسی حادثہ و مصیبت کے وقت شدت جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے سر اور داڑھی کے بال نوچنا ممنوع ہے۔
مرد کا مرد کے ساتھ سونے .......الخ کا مطلب حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق تو یہی ہے کہ دو مرد ایک کپڑے (یعنی ایک چادر و لحاف وغیرہ میں) اس طرح سوئیں کہ دونوں بالکل ننگے ہوں، یا ان کے صرف ستر ڈھکے ہوئے ہوں تو یہ بالکل ممنوع ہے یا یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس ممانعت کا تعلق صرف اس صورت سے ہو جب کہ دونوں کے ستر بھی ڈھکے ہوئے نہ ہوں یہی دونوں احتمال عورتوں کے بارے میں بھی ہیں اگر وہ عورتوں کا باہم اس طرح سونا کسی فتنہ و شر انگیزی کا خوف نہ ہو تب بھی یہ صورت تہذیب و شائستگی اور ادب و اخلاق کے منافی اور بے حیائی و بے شرمی کی غماز تو بہر حال ہو ہی گی۔
مرد اپنے کپڑے کے نیچے ریشم کا استر لگائے کا مطلب یہ ہے کہ ریشم کا کپڑا پہننا مرد کے لئے قطعاً حرام ہے خواہ وہ کپڑا ایسے لباس کی صورت میں کیوں نہ ہو کہ اس کے اوپر کا حصہ سوتی اور اس کا استر ریشمی ہو یا اس کے اوپر کا حصہ تو ریشمی ہو اور اس کا استر سوتی ہو چنانچہ صحیح قول یہی ہے۔
مونڈھوں پر ریشمی کپڑا لگانے کا مطلب یہ ہے کہ کرتے یا جبہ وغیرہ کے مونڈھوں پر بطور سنجاف (بیل) ریشمی کپڑا لگانا یا ریشم کا کام کرنا ایسی صورت میں جائز ہے جب کہ اس کی مقدار چار انگشت تک ہو، چار انگشت سے زائد کی صورت میں ممنوع ہو گا نیز ہو سکتا ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد ہو کہ کاندھوں پر دوپٹے کی طرح از راہ تکبر و اتراہٹ ریشمی کپڑا ڈالنا ممنوع ہے۔
چیتے کی کھال کی زین پر سوار ہونے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس میں متکبرین کی مشابہت ہے۔ بعض مشائخ نے کہا ہے کہ چوپایوں اور درندوں کی کھال پر بیٹھنے سے ان چوپایوں و درندوں کی خاصیتیں جیسے وحشت و درندگی وغیرہ سرایت کر جاتی ہیں۔
الاّ یہ کہ وہ صاحب حکومت ہو۔ یعنی جیسے بادشاہ، قاضی اور حاکم وغیرہ۔ حاصل یہ کہ مہر والی انگوٹھی کو بلا ضرورت کے محض زینت کی خاطر پہننا مکروہ تنزیہی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے بایں دلیل کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے خلفاء کے زمانہ میں صحابہ مہر والی انگوٹھی پہنا کرتے تھے اور کوئی اس کو خلاف نہیں کہتا تھا۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو سونے کی انگوٹھی اور قسی کے پہننے سے اور میاثر استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی ابن ماجہ،) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارغوانی یعنی سرخ میاثر استعمال کرنے سے منع فرمایا۔
تشریح
مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا چاروں اماموں کے نزدیک حرام ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض صحابہ جیسے حضرت طلحہ، حضرت سعد، اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی تو اس کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ یہ حرمت نافذ نہیں ہوئی تھی۔
قسی اصل میں اس کپڑے کو کہا جاتا تھا جو مصر کے ایک شہر قس میں تیار ہوتا تھا۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ قسی ایک خاص قسم کے کپڑے کو کہا جاتا تھا جس میں ریشمی دھاریاں ہوتی تھیں، اس صورت میں اس ممانعت کا تعلق احتیاط و تقویٰ کی بناء پر نہی تنزیہی سے ہو گا، اور حضرت ابن مالک نے کہا ہے کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق اس صورت میں سے ہے جب کہ وہ کپڑا یا تو پوری طرح کا ریشم کا ہو یا اس کے بانے میں ریشم ہو اس صورت میں یہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہو گی اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ قسی جس کپڑے کو کہتے تھے وہ کتان کا ہوتا تھا جس میں ریشم بھی مخلوط ہوتا تھا۔
میاثر مثیر کی جمع ہے جو سرخ رنگ کے زین پوش کو کہتے ہیں اور عام طور پر ریشمی ہوتا تھا چنانچہ اس ممانعت کا تعلق بھی اس صورت میں سے ہو گا جب کہ وہ ریشمی ہو، تاہم یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس ممانعت کا تعلق اس کے سوتی ہونے کی صورت سے بھی ہو اس صورت میں یہ ممانعت اسکے بیجا قسم شان و شوکت اور اتراہٹ و تکبر میں مبتلا لوگوں کی مشابہت کے مظہر ہونے کی وجہ سے نہی تنزیہی کے طور پر ہو گی۔
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لوگ خز اور چیتے کی کھال کے زین پوش پر سوار نہ ہوا کرو (ابوداؤد نسائی)
تشریح
خز پچھلے زمانہ میں اس کپڑے کو کہتے تھے جو اون اور ریشم ملا کر بنا جاتا تھا اور ایک طرح کے خالص ریشمی کپڑے کو بھی خز کہتے ہیں چنانچہ اگر خز سے وہ کپڑا مراد ہو جس میں اون اور ریشم دونوں ہوتے تھے تو ان عجمیوں کی مشابہت کی بنیاد پر جواز راہ تکبر خز کو زین پر ڈالتے تھے نہ ممانعت نہی تنرہیی کے طور پر ہو گی کیونکہ اس خز کا پہننا مباح ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین اس کو پہنا کرتے تھے اور اگر خز سے مراد خالص ریشمی کپڑا ہو تب یہ ممانعت نہی تحریمی یعنی حرمت کے طور پر ہو گی۔ واضح رہے کہ ایک دوسری روایت میں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ آخر زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو خز اور حریر (ریشمی لباس) کو حلال جانیں گے تو اس میں خز سے وہی خالص ریشمی کپڑا مراد ہے۔ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ زمانہ نبوت میں اس کپڑے (یعنی وہ خز جو خالص ریشم کا ہوتا ہے کا وجود نہیں تھا اس صورت میں یہ ارشاد گرامی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزہ پر محمول ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسے کپڑے کے بارے میں آگاہ کیا جو بہت بعد کے زمانہ میں وجود پذیر ہونے والا تھا۔
حضرت براء ابن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ (شرح السنۃ
اور حضرت ابورمثہ تیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدن پر دو سبز کپڑے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو دو کپڑے پہن رکھے تھے وہ یا تو خالص سبز رنگ کے تھے یا ان میں سبز رنگ کی دھاریاں تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سر اور داڑھی کے تھوڑے ہی بالوں پر بڑھاپے (یعنی سفیدی) کا غلبہ تھا، نیز آپ کا بڑھاپا سرخ تھا۔ (ترمذی،) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وفرہ والے تھے اور ان (بالوں) میں مہندی کا رنگ تھا۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سفید بالوں کی مقدار کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں، چنانچہ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو گنا تو وہ چودہ سے زیادہ نہیں تھے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بڑھاپے کا اثر تقریباً بیس سفید بالوں سے زیادہ نہیں تھا، اس طرح ایک روایت میں سترہ کی تعداد آئی ہے وفرہ اصل میں سر کے ان بالوں کو کہتے ہیں جو کانوں کی لو تک ہوں لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وفرہ والے تھے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر کے بال کان کی لو تک تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بڑھاپا سرخ تھا کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جو چند بال ان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مہدی کا خضاب کئے ہوئے تھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ سرخ بڑھاپے سے مراد یہ ہے کہ وہ چند بال بھی بالکل سفید نہیں تھے بلکہ مائل بہ سرخی تھے جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب بال سفید ہونے لگتے ہیں تو وہ پہلے بھورے ہوتے ہیں اور پھر سفید ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خضاب کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں محدثین اور فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خضاب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اکثر محدثین یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خضاب نہیں کیا ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بڑھاپا سفید بالوں کی اس حد تک پہنچا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خضاب کرنے کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جو چند بال سفید تھے ان کی بھی صورت یہ تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سر کو تیل لگاتے تو ان بالوں کی سفیدی ظاہر نہیں ہوتی تھی اور جب سر بغیر تیل کے ہوتا تو وہ سفید بال ظاہر رہتے ! اس کے برخلاف فقہاء اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خضاب لگاتے تھے اس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ محدثین اس حدیث کے بارے میں جو اوپر نقل ہوئی ہے یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہی مفہوم ہوتا ہے کہ جو چند بال سفید تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف انہی پر خضاب کرتے تھے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان بالوں پر بھی قصداً خضاب نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے بالوں کو دھونے اور ان کو صاف کرنے کے لئے کبھی کبھی سر میں مہندی ڈال لیا کرتے تھے اسی کی وجہ سے وہ سفید بال رنگین ہو جاتے تھے، ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا جو موئے مبارک تھا وہ (دیکھنے والوں کو) ایسا نظر آتا تھا جیسے اس پر مہندی کا خضاب کیا گیا ہو تو اس کے بارے میں محدثین یہ کہتے ہیں کہ بیشک اس بال پر خضاب کا اثر تھا لیکن وہ خضاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں کیا تھا بلکہ اس کی حقیقت یہ تھی کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ چونکہ ادب و تعظیم و تبرک کے طور پر اس بال کو خوشبوؤں میں ڈال کر رکھتے تھے اس لئے وہ ان خوشبوؤں کے رنگ کے اثر سے خضاب کے مشابہ نظر آتا تھا یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس بال کی حفاظت و مضبوطی کے لئے اس پر خضاب کر دیا ہو اسی طرح بعض روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کبھی سرخ خضاب کرتے تھے اور کبھی زرد تو اس کی حقیقت بھی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ریش مبارک کو صفائی و ستھرائی کے لئے مہندی کے ساتھ دھوتے تھے اور کبھی زعفران کے ساتھ چنانچہ ریش مبارک کے بال جو بذات خود سیاہ تھے اس طرح دھوئے جانے کی وجہ سے رنگین ہو جاتے تھے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیماری کے زمانہ میں اس حالت میں باہر (مسجد میں) تشریف لائے کہ اسامہ پر سہارا دیئے ہوئے تھے اور بدن مبارک پر قطر کا کپڑا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدھی کی طرح لپیٹ رکھا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ (شرح السنۃ)
تشریح
قطر ایک قسم کی چادر کو کہتے ہیں جس میں سرخ رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں اور اس کا کپڑا کچھ کھرا کھرا ہوتا ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جس کپڑے کا ذکر کیا گیا ہے وہ قطر کا تھا جو بحرین کے علاقہ میں ایک بستی کا نام ہے اسی مناسبت سے اس کپڑے کو قطری کہا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے یہ اس وقت کا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مرض الموت میں مبتلا تھے چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری نماز تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کی روایت میں منقول ہے کہ اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ کو نماز پڑھانا شروع کر چکے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مرض اور نقاہت کی وجہ سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لئے ہوئے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے اور نماز پڑھائی، چنانچہ اس واقعہ کی پوری تفصیل کتاب الصلوۃ کے باب الامامت میں گزر چکی ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر جو دو کپڑے تھے وہ قطر کے تھے اور بہت زیادہ موٹے تھے چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ دیر تک بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ کپڑے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدن پر بھاری ہو جاتے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف اٹھانی پڑتی آخر کار ایک دن جب کہ فلاں یہودی کے ہاں جس کا نام یہاں ذکر نہیں کیا گیا ہے شام سے کپڑا آیا ہوا تھا تو میں نے عرض کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی شخص کو اس یہودی کے پاس بھیج دیتے جو اس سے بوعدہ فراغت یعنی اس وعدہ پر کہ جب کہیں سے کچھ آ جائے گا تو قیمت ادا کر دی جائے گی دو کپڑے خرید لیتا تو اچھا ہوتا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس تکلیف سے بچ جائیں جو ان کپڑوں کی وجہ سے اٹھانا پڑ رہی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے اس مشورہ کو قبول فرما لیا اور کسی شخص کو مذکورہ وعدہ پر کپڑا خریدنے کے لئے اس یہودی کے پاس بھیج دیا اس شخص نے یہودی کے پاس پہنچ کر جب کپڑا مانگا تو اس نے کہا کہ تمہارا جو ارادہ ہے اس کو میں جانتا ہوں تم اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے کہ اس وقت تو وعدہ پر میرا کپڑا لے جاؤ اور پھر قیمت ادا کرنے سے انکار کر دو بظاہر ان الفاظ کا مخاطب وہ شخص تھا، لیکن حقیقت میں اس کا خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا پھر اس شخص نے واپس آ کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہودی کا قول نقل کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس یہودی نے جھوٹ بولا ہے، اور وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس نے بالکل جھوٹ بات اپنی زبان سے نکالی ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ (تورات کے ذریعہ) یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہوں اور ان سے زیادہ اچھی طرح امانت ادا کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، نسائی)
تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے موٹا کپڑا پہنا لیکن جب اس کپڑے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی راحت اور آسودگی کی خاطر دوسرے کپڑے قرض خریدنے کا ارادہ فرمایا اسی طرح اس حدیث سے اس یہودی کی شقاوت بھی ظاہر ہوئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تئیں کس قدر بغض و نفرت کا شکار تھا۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو کسم کا رنگا ہوا گلابی رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ میں اس ارشاد گرامی سے سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے اس کپڑے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے چنانچہ میں فوراً گیا اور اپنے اس کپڑے کو جلا ڈالا، پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ تم نے اپنے اس کپڑے کا کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو جلا ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نے اس کپڑے کو اپنی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا کیونکہ عورتوں کے لئے اس قسم کے کپڑے میں کوئی حرج نہیں۔ (ابوداؤد)
اور حضرت بلال ابن عامر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو منیٰ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم خچر پر سوار تھے اور جسم مبارک پر سرخ (دھاریوں کی) چادر تھی، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھڑے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ لوگوں تک پہنچا رہے تھے ! (ابوداؤد)
تشریح
چونکہ اس موقع پر لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز مبارک مجمع میں دور والوں تک نہیں پہنچ رہی تھی اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ بلند آواز میں دوہرا کر لوگوں کو سمجھاتے جاتے تھے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے سیاہ چادر تیار کی گئی جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے استعمال فرمایا لیکن جب اس کی وجہ سے پسینہ آیا اور اس میں سے اون کی بو نکلنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے الطافت طبع کی ناگواری کی بنا پر اس چادر کو پھینک دیا !۔ (ابو داؤد)۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک چادر کے ذریعہ گوٹ مارے ہوئے بیٹھے تھے اور اس چادر کے کنارے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں پر پڑے ہوئے تھے !(ابوداؤد)
تشریح
گوٹ مار کر بیٹھنا اس نشست کو کہتے ہیں جس میں کولھے زمین پر ٹیک کر دونوں گھٹنے کھڑے کر لیتے ہیں اور سہارے کے لئے دونوں ہاتھ یا کوئی کپڑا گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیتے ہیں۔
اور حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس قبطی کپڑے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے ایک قبطی کپڑا مجھ کو عطا کیا اور فرمایا کہ اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کر لینا، ان میں سے ایک کا کرتہ بنا لینا اور دوسرا اپنی عورت کو دے دینا وہ اس کا دوپٹہ بنا لے گی۔ پھر جب دحیہ یعنی میں واپس ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ اپنی عورت کو ہدایت کر دینا کہ اس قبطی کپڑے کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تاکہ اس کپڑے کے باریک ہونے کی وجہ سے اس کے بال اور جسم نظر نہ آئے۔ (ابوداؤد)
تشریح
قباطی اصل میں قبطیہ کی جمع ہے، قبطیہ ایک خاص قسم کے کپڑے کو کہتے ہیں جو سفید اور مہین ہوتا تھا اور مصر میں بنا کرتا تھا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر عورت کوئی ایسا کپڑا پہننا چاہے جس کے نیچے بدن جھلکتا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ خالی وہی کپڑا نہ پہنے بلکہ کپڑے کے نیچے کوئی اور کپڑا لگا لے تاکہ اس کا بدن نہ جھلکے۔
اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ اس وقت دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دوپٹہ کا ایک ہی سر پر ڈال لیتیں دوسرے پیچ کی ضرورت نہیں تھی۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ تھا کہ دوپٹہ کا سر پر اور گلے کے نیچے ایک ہی پھیر ڈالا کرو دو پھیر نہ دو تاکہ اسراف لازم نہ آئے اور مردوں کے عمامہ کی مشابہت بھی نہ ہو اور یہ بھی محتمل ہے بلکہ یہی زیادہ صحیح ہے کہ یہاں پیچ سے مراد سر پر کپڑا لپیٹنا ہو، جیسا کہ پچھلے زمانہ کی عرب عورتوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے سر کو عصابہ (عورتوں کے سر پر باندھنے کا ایک خاص قسم کا رو مال) کی طرح کپڑے لپیٹے رہا کرتی تھیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح فرمایا کہ دوپٹہ کا پس ایک پیچ کافی ہے،دوپٹہ کو سر پر زیادہ نہ لپیٹو تاکہ اسراف کی صورت بھی پیدا نہ ہو اور مردوں کی پگڑی کی مشابہت بھی لازم نہ آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ مردوں جیسا لباس پہنیں اور ان کی مشابہت اختیار کریں جس طرح کہ مردوں کیلئے عورتوں جیسا لباس پہننا اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا درست نہیں ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب سے گزرا اس وقت میرا تہبند لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عبداللہ ! اپنا تہبند اونچا کرو۔ میں نے تھوڑا سا اونچا کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور اونچا کرو، میں نے اور اونچا کر لیا پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس حکم کے بعد میں برابر عمل (یعنی تہبند کو اونچا کرتے رہنے) کی طرف متوجہ رہتا ہوں، بعض لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے تہبند کو کتنا اونچا رکھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ آدھی پنڈلیوں تک۔ (مسلم)
تشریح
اتحراھا کی ضمیر اصل میں فعلہ جو مخدوف ہے کی طرف راجع ہے چنانچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے لیکن بظاہر صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضمیر رفعہ اخیرہ کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ میں ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہتا ہوں کہ میرا تہبند آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی منشاء کے مطابق اونچا ہے۔ بہرحال مطلب دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص از راہ تکبر اپنا تہبند یا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت کی نظر نہیں اٹھائے گا یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ میرے قصد و ارادہ کے بغیر میرا تہبند لٹک جاتا ہے اور ٹخنوں تک یا ٹخنوں سے نیچے پہنچ جاتا ہے الاّ یہ کہ میں ہمہ وقت اس کا دھیان رکھوں یعنی اگر میں ہر وقت اس طرف متوجہ رہوں تو یقیناً کسی بھی وقت میرا تہبند نہیں لٹک سکتا لیکن بعض شرعی یا طبعی رکاوٹوں کی وجہ سے اس کی طرف ہر وقت دھیان رکھنا ممکن نہیں ہے تو ایسی صورت میں میرے لئے کیا حکم ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں جو از راہ تکبر اپنا تہبند یا پائجامہ لٹکاتے ہیں،۔ (بخاری )
تشریح
مطلب یہ ہے کہ تہبند یا پائجامہ کا بغیر قصد و ارادہ کے لٹکنا شرعی طور پر نقصان دہ نہیں ہے خاص طور سے اس شخص کے حق میں جو غرور و تکبر سے دور رہتا ہے لیکن افضل یہی ہے کہ بہر صورت متابعت ہی کو اختیار کیا جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تہبند و پاجامہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت کی اصل تکبر ہے۔
اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اس طرح تہبند باندھے ہوئے دیکھا کہ وہ اس تہبند کے آگے کا کنارہ تو اپنے پیروں کے اوپر تک رکھتے اور اس کے پیچھے کا کنارہ ٹخنوں سے اونچا رکھتے تھے، میں نے یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کبھی کبھی اس طرح تہبند کیوں باندھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی کبھی کبھی اس طرح تہبند باندھا کرتے تھے۔ (ابوداؤد
تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ تہبند و پاجامہ آگے کی طرف تو لٹکا رہے لیکن پیچھے کی طرف سے ٹخنوں سے اوپر اٹھا رہے تو عدم اسبال یعنی ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکانے کے حکم کی تعمیل کے لئے کافی ہے۔
اور حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم عمامہ پگڑی باندھنا ضروری سمجھو کیونکہ عمامے فرشتوں کی علامت ہیں (بایں طور کہ بدر کی جنگ کے موقعہ پر جو فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لئے نازل ہوئے تھے وہ عمامہ باندھے ہوئے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملئکۃ مسومین ) اور عمامہ کے شملہ کو اپنی پشت پر چھوڑ دو کیونکہ ملائکہ بھی اسی ہیئت سے آئے تھے۔ (بیہقی شعب الایمان)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس حالت میں آئیں کہ ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اسماء رضی اللہ عنہا ! عورت جب ایام حیض کو پہنچ جائے یعنی (جب وہ بالغ ہو جائے) تو یہ گز درست نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی عضو دیکھا جائے علاوہ اس کے اور اس کے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ عورت کے لئے شرعی پردہ کی حد یہی ہے کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ باقی اعضاء کو ڈھانکے لیکن شرم و حجاب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس حالت میں بھی گھر سے باہر نکل کر مردوں کے سامنے نہ آئے کہ اس کا پورا بدن علاوہ چہرے اور ہاتھوں کے چھپا ہوا ہو بلکہ اگر باہر نکلنا ضروری ہو تو چہرے اور ہاتھوں کو بھی چھپائے رکھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر عورت نے کوئی ایسا باریک کپڑا پہن رکھا ہو جس کے نیچے اسکا بدن جھلک رہا ہو تو وہ برہنہ کے حکم میں ہو گی۔
اور حضرت ابومطر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک کپڑا تین درہم کے عوض خریدا اور جب اس کو پہنا تو کہا تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں جس نے مجھ کو زینت والے اسباب میں سے وہ چیز عطا کی جس کے ذریعہ ہم لوگوں کے سامنے اپنی آرائش بھی کرتے ہیں اور ستر بھی چھپاتے ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی طرح میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی کپڑے پہننے کے بعد یہ حمد و ثنا کرتے ہوئے سنا ہے۔ (احمد)
اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نیا کپڑا پہنا تو یہ کہا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے وہ کپڑا پہننے کو دیا جس کے ذریعہ میں اپنا ستر بھی چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں لوگوں کے سامنے اپنی آرائش بھی کرتا ہوں، پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص نیا کپڑا پہننے کے بعد یوں کہے، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے وہ کپڑا پہننے کو دیا جس کے ذریعہ میں اپنا ستر بھی چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں لوگوں کے سامنے اپنی آرائش بھی کرتا ہوں اور پھر اس کپڑے کو جو پرانا ہو گیا ہے یعنی جو (کپڑا اس نے اپنے جسم سے اتارا ہے) کسی کو اللہ واسطے دے دے تو وہ اپنے جیتے جی اور مرنے کے بعد (یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی) اللہ کی پناہ میں رہے گا اللہ کی محافظت میں رہے گا اور اللہ کے عفو و مغفرت کے پردے میں رہے گا !۔ (احمد ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے)۔
اور حضرت علقمہ بن علقمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حفصہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس حالت میں آئیں، کہ انہوں نے باریک اوڑھنی اوڑھ رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ باریک اوڑھنی پھاڑ ڈالی اور ان کو ایک موٹی اوڑھنی اڑھا دی۔ (مالک)
تشریح
حفصہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب ان کو باریک دوپٹہ اوڑھے ہوئے دیکھا تو خفا ہوئیں اور ان کو سبق دینے کے لئے ان کے اس باریک دوپٹے کے دو ٹکڑے کر ڈالے اور پھر اس کے بدلے ان کے سر پر ایک موٹا دوپٹہ ڈال دیا۔
اور حضرت عبدالواحد بن ایمن اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت ان کے جسم پر (مصر کے بنے ہوئے) قطری کپڑے کا کرتا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا کہ ذرا میری اس لونڈی کو تو دیکھو یہ کس قدر غرور کرتی ہے یہ گھر میں بھی اس کپڑے کو پہننے پر تیار نہیں ہوتی (چہ جائیکہ اس کو پہن کر باہر نکلے) حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں میرے پاس اس طرح کے (یعنی قطری کپڑے) کا ایک کرتا تھا اور مدینہ میں جو بھی عورت (اپنی شادی میں یا کسی اور کی شادی کے وقت) اپنی آرائش کرنا چاہتی وہ کسی کو میرے پاس بھیج کر وہی کرتا عاریتاً منگواتی۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہاں یہ واضح کیا ہے کہ اس تھوڑے سے عرصہ میں ذہنوں میں کیسی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے کہ جس کپڑے کے کرتے کو کل تک عورتیں اپنی آرائش کے لئے ضروری سمجھتی تھیں وہی کرتا اب وہ اپنے گھر میں بھی پہننا پسند نہیں کرتی ہیں وہیں انہوں نے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اپنے فقر و تنگی اور زہد کو بھی بیان کیا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ریشمی قبا پہنی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کے طور پر دی گئی تھی۔ لیکن فوراً ہی اس قبا کو جسم مبارک سے اتار کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا صحابی نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے اس قباء کو اتنی جلد کیوں اتار ڈالا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ کو جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پہننے سے منع کر دیا تھا (اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ قبا ریشمی کپڑے کی حرمت نازل ہونے سے پہلے پہنی تھی) پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ روتے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناپسند فرمایا ہے (یعنی اس ریشمی قبا کے پہننے کو) اس کو مجھے مرحمت فرما دیا ہے (تاکہ میں اس کو پہن لوں) اس صورت میں میرا کیا حال ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے وہ قبا تمہیں اس لئے نہیں دی ہے کہ تم اس کو پہنو بلکہ اس لئے دی ہے کہ تم اس کو بیچ ڈالو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قبا کو دو ہزار درہم کے عوض بیچ دیا۔ (مسلم
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کپڑے کو پہننے سے منع فرمایا ہے جو خالص ریشم کا ہو، البتہ ریشم کی گوٹ یا بیل (جو چار انگشت سے زائد نہ ہو) اور وہ کپڑا جس کے تانے میں ریشم ہو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
جس کپڑے میں تانا اور بانا دونوں ریشم کا ہو اس کا مردوں کو پہننا حرام ہے اور صاحبین کے نزدیک جنگ میں اس کو پہننا مباح ہے اور جس کپڑے کا تانا ریشم کا ہو اور بانا، سوت وغیرہ کا ہو تو اس کا پہننا بالاتفاق جائز ہے اور اس کا برعکس ناجائز ہے مگر جنگ میں جائز ہے۔گویا صاحبین کے نزدیک تو جنگ میں وہ کپڑا بھی مباح ہے جو خالص ریشم کا ہو، اور وہ کپڑا بھی جس کے بانے میں ریشم ہو۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جنگ میں صرف وہ کپڑا پہننا مباح ہے جس کا بانا ریشم کا ہو اور تانا سوت وغیرہ کا اور جس کپڑا کا تانا ریشم کا ہو اور بانا کسی اور چیز کا وہ ہر حالت میں مباح ہے۔
اور حضرت ابو رجاء (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمران بن حصین (گھرسے) نکل کر ہمارے پاس آئے تو اس وقت ان کے بدن پر خزکا مطرف (شال) تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمت سے سرفراز فرمائے تو اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی نعمت کا اثر دیکھا جائے۔ (احمد)
تشریح
مطرف ایک خاص طرح کا چادر نما کپڑا ہوتا تھا، جس کے دونوں طرف کنارے بنے ہوتے تھے اور قاموس میں لکھا ہے کہ مطرف، جو مکرم کے وزن پر ہے خز کی دھاری دار شال کو کہتے ہیں اس صورت میں مطرف من خز اس کپڑے کو کہتے تھے جو ریشم اور اون دونوں سے بنا جاتا تھا۔ اس کا پہننا مباح ہے۔چنانچہ یہاں خز سے یہی مراد ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جائز و مباح چیزوں میں سے جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو تاوقتیکہ دو چیزیں یعنی اسراف اور تکبر تم میں سرایت نہ کریں۔ (بخاری فی ترجمۃباب)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کھانے کی ہر مباح چیز کو کھانا اور پہننے کی ہر مباح چیز کو پہننا درست ہے لیکن کھانے اور پہننے میں وہ توسع مکروہ ہے جو اسراف اور تکبر کے طور پر ہو جس توسع میں اسراف اور تکبر نہ ہو وہ مباح ہے۔
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اپنی حاجت و ضرورت کے بقدر) کھاؤ اور پیو اور جو چیز تمہاری حاجت اور ضرورت سے زائد ہو اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو (نیز پہننے کی مباح چیزوں میں سے جو چاہو) پہنو جب تک کہ اس میں اسراف اور تکبر نہ ہو۔ (احمد، نسائی، ابن ماجہ
اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بہترین کپڑا کہ جس کو پہن کر تم اپنی قبروں اور اپنی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو، سفید کپڑا ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
مسجد، اللہ کا گھر ہے۔ جو شخص عبادت کے لئے مسجد میں گیا وہ گویا اللہ سے ملاقات کے لئے گیا لہٰذا وہاں سفید کپڑا پہن کر جانا بہتر ہے اسی طرح بندہ مرنے کے بعد گویا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے۔ لہٰذا مردہ کو سفید کفن دینا بہتر ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ انگوٹھی کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا۔ اور پھر اس کو پھینک دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کرائے اور فرمایا کہ کوئی شخص میری اس مہر کی مانند الفاظ (اپنی انگوٹھی میں) کندہ نہ کرائے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب انگوٹھی پہنتے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی اس وقت بنوائی تھی جب کہ مردوں کے لئے سونا حرام نہیں ہوا تھا چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مردوں کے لئے سونا پہننا حرام قرار دے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ انگوٹھی پھینک دی امام محمد نے اپنی کتاب مؤطا میں کہا ہے کہ مردوں کے لئے جس طرح سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اسی طرح ان کے لئے لوہے اور کانسی وغیرہ کی انگوٹھی بھی جائز نہیں ہے لہٰذا مرد کو چاندی کے علاوہ اور کسی چیز کی انگوٹھی نہیں چاہئے۔عورتوں کے لئے سونے کی انگوٹھی اور دوسرے زیورات پہننا جائز ہے بلکہ علماء نے یہ لکھا ہے کہ عورتوں کو چاندی کی انگوٹھی مکروہ ہے، کیونکہ چاندی کی انگوٹھی مرد پہنتے ہیں اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنا مکروہ ہے، لہٰذا اگر کوئی عورت چاندی کی انگوٹھی پہننا ہی چاہئے تو وہ اس کے رنگ کو کسی ملمع وغیرہ کے ذریعہ تبدیل کر دے۔ نیز ہدایہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں انگوٹھی کے حلقہ کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے نگینہ کا۔
کوئی شخص میری مہر کے مانند الفاظ کندہ نہ کرائے اصل بات یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ دیکھا کرتے تھے کہ مسلمان میری اتباع کے کس قدر حریص اور شیدائی ہیں وہ میرے ہر عمل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ لوگ میری اس مہر کے الفاظ اپنی انگوٹھیوں میں بھی کندہ کرنے لگیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا، نیز اس ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس مہر اور اس میں کندہ الفاظ کی ایک قانونی حیثیت بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو خطوط وغیرہ دنیا کے بادشاہوں اور سربرہان مملکت کے نام بھیجا کرتے تھے ان پر وہی مہر ثبت فرماتے تھے اس صورت میں اگر دوسرے لوگ بھی اپنی انگوٹھیوں میں اسی طرح کی مہر کندہ کراتے تو نہ صرف یہ کہ مہر رسالت کی مخصوص حیثیت ان بادشاہوں کی نظر میں مشتبہ ہو جاتی بلکہ ایک عجیب طرح کی خرابی بھی واقع ہو جاتی۔
قاضی خاں نے کہا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی پہننا اس شخص کے حق میں مباح ہے جس کے لئے مہر رکھنا ایک ضرورت کے درجہ کی چیز ہو جیسے قاضی وغیرہ اور جو شخص مہر رکھنے کا ضرورت مند نہ ہو اس کے حق میں افضل یہی ہے کہ چاندی کی انگوٹھی کا بھی استعمال نہ کرے نیز جو شخص انگوٹھی پہنے اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ انگوٹھی کو بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنی جائے تو سیوطی کہتے ہیں کہ احادیث تو دائیں ہاتھ میں پہننے کے بارے میں بھی منقول ہیں اور بائیں ہاتھ میں پہننے کے بارے میں بھی، لیکن عمل ان ہی احادیث پر ہے جن میں بائیں ہاتھ میں پہننے کا ذکر ہے اور جو احادیث دائیں ہاتھ کے متعلق ہیں ان کو منسوخ قرار دیا گیا ہے چنانچہ عدی وغیرہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پہلے تو دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے لیکن پھر بائیں ہاتھ میں پہننے لگے۔سفر السعادہ کے مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، بعض روایتوں میں تو نقل کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور بعض روایتوں میں بائیں ہاتھ میں پہننا نقل کیا گیا ہے یہ سب روایتیں صحیح ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائیں ہاتھ میں پہنتے ہوں گے اور کبھی بائیں ہاتھ میں۔ امام نووی یہ لکھتے ہیں کہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انگوٹھی کا دائیں ہاتھ میں بھی پہننا جائز ہے اور بائیں ہاتھ میں بھی لیکن شوافع کے نزدیک دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائیں کی بہ نسبت شرف و فضیلت رکھتا ہے اس لئے وہی ہاتھ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی زینت و آرائش اور توقیر ہو۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (مردوں کو) قسی کپڑے کسم کے رنگے ہوئے کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ (مسلم)
تشریح
قسی ایک خاص قسم کے ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں جو مصر کے ایک شہر قس میں تیار ہوتا تھا۔
رکوع میں قرآن پڑھنے کی ممانعت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ رکوع میں یا سجدے میں تسبیح کے بجائے قرآن پڑھا جائے، دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص قیام کی حالت میں اضطراب وبے اطمینانی کا رویہ اختیار کرے اور قرات کو پورا کئے بغیر اس طرح رکوع میں چلا جائے کہ اس قرآت کا کچھ حصہ رکوع میں واقع ہو۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا اور پھر فرمایا کہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوزخ کی آگ کے انگارے کو حاصل کرے اور اس کو اپنے ہاتھ میں پہن لے، یعنی جو شخص اپنے ہاتھوں میں سونے کی کوئی چیز پہنے گا اس کا ہاتھ دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا اس صورت میں کسی مرد کا سونے کی انگوٹھی پہننا گویا اپنے ہاتھ میں دوزخ کی آگ کا انگارہ پہننا ہے، پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم وہاں سے تشریف لے گئے تو اس شخص سے کہا گیا کہ تم اپنی اس انگوٹھی کو اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ یعنی چاہے تو اس کو فروخت کر ڈالو اور چاہے کسی عورت کو دے دو لیکن اس شخص نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم میں اس کو کبھی نہیں اٹھاؤں گا جب کہ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پھینک دیا ہے !(مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قدرت رکھتا ہو وہ اگر کسی خلاف شرع چیز کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ دے اور مٹا دے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے حدیث (اذا رای احد منکم منکر فلیغیرہ بیدہ) یعنی جب تم میں سے کوئی شخص کسی خلاف شرع چیز کو دیکھے تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ ڈالے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ واپس آ کر، کسری (فارس کے بادشاہ) قیصر (روم کے بادشاہ) اور نجاشی (حبشہ کے بادشاہ) کو (اسلام کی دعوت دینے کے لئے) خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو عرض کیا گیا کہ (مروج قاعدہ کے مطابق) یہ (بادشاہ) اسی خط کو قبول کرتے ہیں یعنی مستند سمجھتے ہیں جس پر مہر لگی ہوئی ہو، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چاندی کے حلقہ والی انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کندہ کر دیا گیا۔ (مسلم) اور بخاری کی ایک ورایت میں یوں منقول ہے کہ اس انگوٹھی میں جو الفاظ کندہ کرائے گے تھے وہ تین سطروں میں تھے اس طرح کہ ایک سطر میں (جو سب سے نیچی تھی) محمد کا لفظ تھا ایک سطر میں (جو پیچ میں تھی) رسول کا لفظ تھا اور ایک سطر میں (جو سب سے اوپر تھی) اللہ (کا لفظ) تھا۔
تشریح
یہاں انگوٹھی کے ضمن میں صرف اس کے حلقہ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اس کے نگینہ کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ انگلی میں خلقہ ہی پہنا جاتا ہے اور وہی محل استبعاد بھی ہے اس لئے بیان جواز کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا تاہم دوسری احادیث میں نگینہ کا بھی ذکر ہے چنانچہ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کا نگینہ حبشی یعنی عقیق کا تھا چنانچہ اس کا ذکر آگے آر ہا ہے
مہر نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں جو الفاظ کندہ تھے ان کی ہیت امام نووی نے وہی بیان کی ہے جو اوپر ذکر کی گئی یعنی اوپر کی سطر میں اللہ بیچ کی سطر میں رسول اور نییچے کی سطر میں محمد کا لفظ تھا گویا اس مہر کی یہ صورت تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور بعض حضرات نے اس مہر کی یہ صورت بیان کی ہے محمد رسول اللہ واللہ اعلم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہا کرتی تھی ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے آخری دور میں وہ انگوٹھی ایک دن معیقیب کے ہاتھ سے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خادم تھے اریس کنویں میں گر پڑی اور پھر اس کو بہت زیادہ تلاش کیا گیا مگر نہیں ملی
علماء لکھتے ہیں کہ وہ فتنہ و فساد اور اختلاف و انتشار جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور خلافت میں اور پھر ان کے بعد اسلامی مملکت میں پیدا ہوا اس کا باعث اس مبارک انگوٹھی کا گم ہونا تھا کیونکہ اس انگوٹھی میں حق تعالی نے ایسی برکت عطا فرمائی تھی جو حکومت و مملکت کے انتظام و انصرام کا ایک مؤثر ذریعہ تھی جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی مہر والی انگوٹھی کی خاصیت تھی
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا۔(البخاری)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا (بخاری)٦ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے (یہ بھی) روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی جس کا نگینہ حبشی تھا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی انگوٹھی کو اس طرح پہنتے تھے کہ اس کا نگینہ والا حلقہ ہتھیلی کی طرف رہتا تھا (بخاری و مسلم)
تشریح
حبشی سے مراد عقیق ہے اور عقیق کو حبشہ کی طرف منسوب کر کے حبشی اس لئے کہا گیا ہے کہ عقیق کی کان حبشہ اور یمن میں تھی یا وہ نگینہ عقیق کی بجائے کسی اور قسم کا ہو گا اور وہ قسم حبشہ ہی میں پائی جاتی تھی اس لئے اس کو حبشی کہا گیا یا وہ نگینہ سیاہ رنگ کا تھا جیسا کہ حبشیوں کا رنگ ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کو حبشی کہا گیا اور یا یہ کہ اس نگینہ کو کسی حبشی شخص نے بنایا ہو گا اس لئے اس کو حبشی سے تعبیر کیا گیا اس صورت میں دونوں روایتیں تعدد پر محمول ہوں گی یعنی یہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک انگوٹھی کا نگینہ چاندی ہی کا تھا اور دوسری انگوٹھی کا نگینہ حبشی یعنی عقیق کا تھا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی (اس انگلی) میں تھی ! حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کی طرف اشارہ کیا۔ (مسلم
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس سے منع فرمایا کہ میں اپنی اس انگلی میں یا اس انگلی میں انگوٹھی پہنوں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے (یہ کہہ کر) درمیانی انگلی اور اس قریب والی انگلی یعنی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ (مسلم)
تشریح
درمیانی اور شہادت کی انگلی کے بارے میں تو اس حدیث سے واضح ہوا اور انگوٹھے نیز چھوٹی انگلی کے قریب والی انگلی میں انگوٹھی پہننا نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ و تابعین ہی سے منقول ہے اس سے معلوم ہوا کہ انگوٹھی کو چھوٹی انگلی ہی میں پہننا مستحب ہے۔ چنانچہ شوافع اور حنیفہ کا رجحان اسی طرف ہے تاہم یہ بات مردوں کے حق میں ہے، جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے قریب کے لئے سب انگلیوں میں پہننا جائز ہے۔ امام نووی نے کہا ہے کہ مردوں کو درمیانی اور شہادت کی انگلی میں انگوٹھی پہننا مکروہ تنزیہی ہے۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم انگوٹھی کو اپنے دائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (ابن ماجہ) ابوداؤد، اور نسائی نے اس روایت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم انگوٹھی کو اپنے بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ریشمی کپڑا لیا اور اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اسی طرح سونا لیا اور اس کو اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا اور پھر فرمایا کہ میری امت کے مردوں کے لئے یہ دونوں چیزیں حرام ہیں۔ (احمد، ابوداؤد، نسائی)
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چیتے کی کھال کی زین پر سوار ہونے سے منع فرمایا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (مردوں کو) سونا پہننے سے منع فرمایا الاّ یہ کہ وہ بہت قلیل مقدار میں ہو۔ (ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ سے قلیل مقدار میں سونے کی جو اباحت ثابت ہوتی ہے وہ بھی منسوخ قرار پا چکی ہے ویسے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ سے بظاہر جو جواز ثابت ہوتا ہے وہ حنیفہ کے نزدیک اس پر محمول ہے کہ مثلاً کسی چیز پر سونے کا ملمع کیا جائے یا نگینہ وغیرہ میں سونے کی کیل لگائی جائے اور یا کپڑے پر دھاریوں اور بیل کے طور پر سنہرا کام کیا جائے تو یہ حنیفہ کے نزدیک مردوں کے لئے بھی جائز ہیں۔
اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص سے جو پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا فرمایا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم میں بتوں کی بو پاتا ہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے سامنے یہ بات بطور تعریض فرمائی۔ کیونکہ عام طور پر پیتل ہی کے بت بنائے جاتے تھے۔چنانچہ اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ ناگواری دیکھ کر اس انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا پھر (جب دوبارہ) وہ شخص آیا تو لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم پر دوزخیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات بھی بطور تعریض اس بناء پر فرمائی کہ کفار میں سے کچھ لوگ دنیا میں لوہے کی چیز پہنتے ہیں یا اس ارشاد میں اس طرف اشارہ تھا کہ کافروں کو دوزخ میں جو طوق و سلاسل پہنائے جائیں گے وہ لوہے کے ہوں گے اس لئے لوہے کی انگوٹھی پہننا دوزخیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے چنانچہ اس شخص نے اس انگوٹھی کو (بھی) اتار کر پھینک دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چاندی کی اور وہ چاندی بھی پوری مثقال نہ ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)
محی السنۃ فرماتے ہیں کہ عورت کے مہر کے بارے میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا جو نکاح کرنے کا متمنی تھا کہ بیوی کے مہر کے لئے از قسم مال کوئی چیز تلاش کرو اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔
تشریح
پوری ایک مثقال نہ ہو یہ ممانعت اصل میں احتیاط و تقویٰ اور الویت کے لئے ہے، یعنی اولیٰ یہ ہے کہ انگوٹھی ایک مثقال (٢٤/١ماشہ) سے کم چاندی کی ہو ورنہ جہاں تک جواز کا تعلق ہے تو پورے ایک مثقال کی بھی جائز ہے) اور یہ الویت بھی اس بنا پر ہے کہ سونا اور چاندی اصل کے اعتبار سے غیر پسندیدہ ہیں لہٰذا ان کا استعمال بس اسی قدر ہونا چاہئے جو ضرورت کے مطابق ہو اس لئے دو یا اس سے زائد انگوٹھیاں پہننا مکروہ ہے تاہم متعدد انگوٹھیاں بنانا مکروہ نہیں ہے، بشرطیکہ ان کو ایک ساتھ نہ پہنا جائے بلکہ نوبت بنوبت پہنا جائے۔
فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ لوہے اور پیتل کی انگوٹھی وغیرہ پہننا مکروہ ہے اور مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔
محی السنۃ نے عورت کے مہر کے بارے میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی ہے اس سے ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص سے جو یہ فرمایا کہ بیوی کو مہر میں دینے کے لئے مال مہیا کرو اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو تو اس سے معلوم ہوا کہ اوپر روایت میں لوہے کی انگوٹھی پہننے کی جو ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ تحریم کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر حقیقت میں لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کے متمنی شخص کو لوہے کی انگوٹھی مہیا کرنے کے لئے کیوں فرماتے۔
مہر کے مال کے بارے میں مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ اس کا مقصد دراصل عورت کے مہر میں مال خرچ کرنے کی اہمیت و ضرورت کو زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ مہر کے طور پر کوئی نہ کوئی مال ضرور مقرر کیا جائے خواہ وہ ادنی ترین چیز ہی کیوں نہ ہو۔ اس ارشاد سے یہ بھی واضح ہوا کہ لوہے کی انگوٹھی پہننے کو اگرچہ ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن دو انگوٹھی مال متقوم مالیت کے دائرے سے باہر نہیں ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننے کی اس ممانعت کے نفاذ و بیان کا زمانہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کے بعد کا ہو، کیوں کہ یہ ثابت ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی روایت استقراء سنن اور استحکام شرائع سے پہلے کی ہے اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس کے بعد کی ہے لہٰذا حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی روایت منسوخ قرار پائے گی، نیز حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی روایت باب المہر کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دس چیزوں کو برا سمجھتے تھے ایک تو زردی یعنی خلوق کے استعمال کو، دوسرے بڑھاپا تبدیل کرنے کو، تیسرے (ٹخنوں سے نیچے) تہبند (یا پاجامہ کو لٹکا کر) کھینچتے ہوئے چلنے کو، چوتھے (مردوں کے لئے) سونے کی انگوٹھی پہننے کو، پانچویں عورت کا بے محل زینت ظاہر کرنے کو چھویں نرد (چونسر) کھیلنے کو، ساتویں بجز معوذات کے جھاڑ پھونک کرنے کو، آٹھویں کوڑیوں اور منکوں کے باندھنے کو نویں بے موقع عزل یعنی عورت کی شرم گاہ سے باہر منی گرانے کو اور دسویں بچے کے خراب کرنے کو، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو حرام نہیں فرماتے تھے۔ (ابوداؤد)
تشریح
خلوق ایک قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں جو زعفران وغیرہ سے بنائی جاتی ہے، خلوق استعمال کرنے کی یہ ممانعت صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کو اس کا لگانا درست ہے اگرچہ ایسی احادیث بھی منقول ہیں جن سے مردوں کے لئے بھی خلوق کے استمعال کی اباحت ثابت ہوتی ہے لیکن ایسی احادیث زیادہ منقول ہیں جن سے ممانعت ثابت ہوتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اباحت کی حدیثیں منسوخ ہیں مردوں کے لئے خلوق کا استعمال اس لئے ممنوع ہے کہ وہ خاص طور پر عورتوں کی خوشبو ہے
بڑھاپے کو تبدیل کرنا خواہ سفید بالوں کو چننے کی صورت میں ہو یا سیاہ خضاب لگانے کے ذریعہ ہو یہ بہر صورت ممنوع ہے البتہ مہندی کا خضاب مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے جواز میں احادیث کے منقول ہونے کی بنا پر وہ بالاتفاق درست ہے، سفید بالوں کو اکھاڑنے اور چننے کے بارے میں حنفیہ کا مختار قول حرمت و کراہت کا ہے۔
والتبرج بالزینۃ لغیرمحلہا میں لفظ محل حاء کے زیر کے ساتھ ہے جو موضع حل کے معنی میں ہے یعنی وہ جگہ جہاں عورت کو اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنا حلال ہے اور وہ جگہ اس کا شوہر اور اس کے محارم جیسے باپ اور بھائی وغیرہ ہیں، گویا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے خاوند اور اپنے محارم کے علاوہ دوسرے مردوں کے سامنے بناؤ سنگار ظاہر کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ولایبدین زینتہن الاّ لبعولتہن او ابآۂن) الآیہ۔ بعض حضرات نے محلہا میں لفظ محل حاء کے زیر کے ساتھ بھی کہا ہے جو حلول سے ہے۔
کعاب کعب کی جمع ہے اور چوسر کی گوٹوں اور مہروں (پانسوں) کے معنی میں ہے جن کو قرعہ کی مانند پھینک پھینک کر چوسر کھیلا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ کھیل ممنوع ہے، چنانچہ اہل علم صحابہ کی اکثریت کے نزدیک یہ کھیل حرام تھا، حنفیہ شطرنج کھیلنے کو بھی مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔
رقی رقیہ کی جمع ہے جس کے معنی منتر پڑھ کر پھونکنے کے ہیں اور معوذات سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جو استعاذہ کے معنی پر مشتمل ہیں، خواہ وہ یہ دونوں سورتیں ہوں یا ان کے علاوہ دوسری آیات۔ حاصل یہ کہ قرآن کریم کی آیات، احادیث میں منقول دعاؤں اور اسماء الٰہی کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز ہے ان کے علاوہ حرام ہے، خاص طور پر ایسے الفاظ کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جن کے معنی معلوم نہ ہوں نہ صرف حرام ہے، بلکہ کفر کی حد میں داخل ہو جانے کے خوف کا بھی محتمل ہے۔
تمائم تمیمہ کی جمع ہے اس کے معنی ان منکوں (دانوں) اور ہڈیوں کے ہیں جن کو جوڑ کر عرب نظر نہ لگنے کے لئے بچوں کے گلے میں لٹکاتے تھے یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا خاص طریقہ تھا لیکن اسلام نے اس کی ممانعت فرما دی، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تمائم سے مراد وہ گنڈے اور منتر ہیں جن کی نوعیت مشرکانہ ہوتی ہے اور جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے، لیکن وہ تعویذات وغیرہ جن میں آیات قرآنی منقول دعائیں اور اسماء الٰہی لکھے ہوتے ہیں گلے میں لٹکانا جائز ہیں جیسا کہ حصن حصین میں منقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
بے موقع عزل کا مطلب یہ ہے کہ حمل ٹھہر جانے کے خوف سے عزل کرنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ عورت (بیوی) کی رضامندی حاصل ہو اگر اس کی رضامندی کے بغیر عزل کیا جائے گا تو وہ ایسا عزل ہو گا جو بے موقع کھلائے گا۔ جس کی ممانعت اس حدیث میں مذکور ہے البتہ اگر عورت آزاد نہ ہو بلکہ لونڈی ہو تو وہ (لونڈی) چونکہ محل عزل ہے اس لئے اس کی رضامندی کے بغیر عزل کرنا جائز ہے۔
بچے کو خراب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کے ساتھ صحبت کی جائے جس کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو اور اس صحبت کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو جائے، چونکہ اس حمل کی وجہ سے اس کا دودھ خراب ہو جاتا ہے اور وہ دودھ بچے کو نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کو ضعف وغیرہ لاحق ہو جاتا ہے اس لئے دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ صحبت کرنا گویا بچے کو نقصان پہنچانا ہے۔ دودھ والی عورت کے ساتھ صحبت کرنے کو غیل کہتے ہیں اور اس کا ذکر باب المباشرت میں گزر چکا ہے۔
اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو حرام نہیں فرماتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دودھ پلانے کے زمانے میں عورت کے ساتھ صحبت کرنے اور بچے کو نقصان پہنچانے کو ناپسند فرماتے تھے لیکن اس کو حرام قرار نہیں دیتے تھے کیونکہ منکوحہ عورت کے ساتھ جماع کرنا حلال ہے اور محض حمل کے احتمال سے کہ جس سے بچے کو مذکورہ نقصان پہنچنے کا تعلق ہے وہ عورت حرام نہیں ہوتی۔
اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی آزاد کی ہوئی لونڈی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی بچی کے پیروں میں کھنگرو تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان گھنگھروؤں کو کاٹ ڈالا اور فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر (جرس بجنے والی چیز) کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ شیطان کا مزمار (باجہ) ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے الجرس مذامیر الشیطان لہٰذا ہر جرس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شیطان ہر بجنے والی چیز کی طرف لوگوں کو مائل کرتا ہے اور ان کی نظر اس کی آواز کو زیادہ سے زیادہ دلکش بناتا ہے۔
اور حضرت عبد الرحمن بن حیان انصاری رضی اللہ عنہ کی آزاد کی ہوئی لونڈی بنانہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دن) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک چھوٹی لڑکی لائی گئی جو گھنگرو پہننے ہوئے تھی اور وہ بج رہے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اس لڑکی کو لانے والی عورت سے) فرمایا کہ اس لڑکی کو میرے پاس اس وقت تک نہ لایا جائے جب تک کہ ان گھنگھروؤں کو کاٹ کر پھینک نہ دیا جائے کیوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس گھر میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں باجے کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت عبد الرحمن ابن طرفہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا حضرت عرفجہ بن سعد رضی اللہ عنہ کی ناک کلاب کی لڑائی میں کاٹ ڈالی گئی تھی، انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی لیکن اس میں بدبو پیدا ہو گئی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سونے کی ناک بنوانے کا حکم دیا۔' (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)
تشریح
کلاب ایک جگہ کا نام ہے وہاں لڑائی ہوئی جس میں حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے اسی لڑائی کے دوران ان کی ناک کٹ گئی تھی جس کی وجہ سے ان کو چاندی کی ناک بنوا کر چہرے پر لگانی پڑی لیکن اس میں بدبو پیدا ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سونے کی ناک بنوانے کی اجازات عطا فرمائی اس حدیث کی بناء پر علماء نے سونے کی ناک بنوانے کو اور اسی طرح دانتوں میں چاندی کا تارا باندھنے کو مباح قرار دیا ہے، لیکن حضرت امام محمد نے دانتوں میں سونے کی تار باندھنے کو بھی جائز کہا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے عزیز یعنی بیوی یا اولاد وغیرہ کو (ان کے کان یا ناک میں) آگ کا حلقہ پہنانا پسند کرتا ہو تو وہ اس کو سونے کا حلقہ ضرور پہنائے (یعنی سونے کا بالا وغیرہ پہنانے کی سزا یہ ہے کہ اس کو آگ کا بالا وغیرہ پہنایا جائے گا) جو شخص اپنے عزیز کی گردن میں آگ کا طوق ڈالنا پسند کرتا ہو تو وہ اس کو سونے کا گلوبند ضرور پہنائے اور جو شخص اپنے عزیز کو آگ کا کنگن پہنانا پسند کرتا ہو وہ اس کو کنگن ضرور پہنائے، لیکن چاندی کے استعمال کی تمہیں اجازت ہے کہ تم اس کو اپنے استعمال و تصرف میں لا سکتے ہو۔ (ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ فلعبوابھا کا اصل ترجمہ تو یہ ہے کہ تم چاندی سے کھیلو، یعنی چاندی کے زیورات بنوا کر اپنی عورتوں کو پہناؤ، اس کی انگوٹھی بنوا کر خود پہنو، اور اگر اپنے ہتھیار جیسے تلوار وغیرہ کی زینت و آرائش چاہو تو اس مقصد کے لئے بھی چاندی استعمال کر سکتے ہو، لیکن حدیث کے ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا کی زیب و زینت اور دنیا کے زیورات لہو و لعب میں داخل ہیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے مباح ہوں، یا اس طرف اشارہ ہے کہ زیور دار عورت کے ساتھ تفریح و دل چسپی لینا گویا اس کے زیور کے ساتھ کھیلنا ہے۔
ابن مالک کہتے ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ کھیلنا اس میں خواہش و مرضی کے مطابق تصرف کرنے کے مترادف ہے، لہٰذا ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عورتوں کے زیور کے اقسام میں سے جس قسم کا زیور چاہو اس میں چاندی کا استعمال کرو، لیکن مردوں کو صرف انگوٹھی، تلواروں اور جنگ کے دوسرے ہتھیاروں کی زینت و آرائش کے لئے چاندی کا استعمال کرنا جائز ہے۔
اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو عورت سونے کا ہار پہنے قیامت کے دن اس کی گردن میں اسی طرح کا ہار پہنایا جائے گا، اور جو عورت اپنے کان میں سونے کا بالا یا بالی پہنے گی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے کان میں اسی طرح کا آگ کا بالا یا بالی ڈالے گا۔ (ابو داؤد)
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے عورتوں کی جماعت ! کیا تمہارے لئے چاندی میں وہ بات نہیں ہے کہ تم اس کا زیور بناؤ (یعنی تمہارے لئے چاندی کا زیور بنوانا کافی ہے) یاد رکھو! تم میں سے جو بھی عورت سونے کا زیور بنوائے گی اور پھر اس زیور کی (بے جا اور بے موقع) نمائش کرتی پھرے گی تو اس کو اس کے عمل کی بنا پر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
اوپر جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کو بھی خالص سونا پہننا منع ہے اور جو عورت سونے کے زیوارت پہنے گی وہ حدیث میں مذکورہ وعید کا مورد ہو گی نیز یہ کہ محض چاندی کا زیور پہننا مباح ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لئے دونوں مباح ہیں وہ سونے کے زیوارت بھی پہن سکتی ہیں اور چاندی کے بھی لہذا علماء نے ان احادیث کی مختلف تاویلیں بیان کی ہیں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو یہی حکم تھا کہ سونا پہننا عورتوں کے لئے بھی مباح نہیں لیکن بعد میں اس روایت کے ذریعہ اس حکم کو منسوخ قرار دیا گیا جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حریر یعنی خالص ریشم اور سونا میری امت کے مردوں کے لئے حرام ہے پس اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ عورتوں کو سونا اور خالص ریشم پہننا مباح ہے۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مذکورہ احادیث میں جو وعید بیان کی گئی ہے اس کا تعلق اس عورت سے ہے جو زکوٰۃ ادا کئے بغیر سونے کے زیورات پہنے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ وعید اس عورت کے حق میں ہے جو زیورات پہن کر اجنبی مردوں کو دکھلائے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم زیور والوں اور ریشم والوں کو منع فرماتے تھے (یعنی ان چیزوں کے پہننے کی ممانعت بیان کرتے تھے) اور فرماتے تھے کہ اگر تم جنت کے زیور اور جنت کے ریشم کی خواہش رکھتے ہو کہ جنت میں تمہیں یہ چیزیں ملیں تو دنیا میں ان چیزوں کو نہ پہنو۔ (نسائی)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کو پہنا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حاضرین کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ آج کے دن اس انگوٹھی نے مجھ کو تمہاری طرف سے مشغول رکھا (یعنی میں تمہاری طرف متوجہ نہ رہ سکا) کیونکہ کبھی تو اس انگوٹھی کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی تمہاری طرف دیکھتا ہوں۔ اور (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس انگوٹھی کو اتار پھینکا۔ (نسائی)
تشریح
بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث میں جس انگوٹھی کا ذکر کیا گیا ہے وہ سونے کی تھی۔
اور حضرت امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اس کو برا سمجھتا ہوں کہ لڑکوں کو سونے کی کوئی چیز پہنائی جائے کیونکہ مجھ تک روایت پہنچی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بھی استعمال کرنے سے منع فرمایا (اور جب انگوٹھی جیسی ممنوع ہے تو اور چیزیں بطریق اولی ممنوع ہوں گی لہذا میں مردوں کے لئے (سونا پہننا) برا سمجھتا ہوں خواہ وہ بڑے ہوں یا بچے ہوں !۔ (مؤطا)
تشریح
پس جس طرح مردوں کو سونے کی کوئی چیز خود پہننا یا لڑکوں کو پہننا ممنوع ہے اسی طرح چاندی کی چیزیں بھی ممنوع ہیں علاوہ انگوٹھی کے نیز ریشم کا کپڑا بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے۔