مشکوٰة شر یف

لعان کا بیان

بہترین بیوی کی پہچان

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کون سی بیوی بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اسکو خوش کر دے اور جب شوہر اس کو کوئی حکم دے تو اس کو بجا لائے (بشرطیکہ وہ حکم خلاف شرع نہ ہو) اور اپنی ذات اور اپنے مال میں اس کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کرے جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 اس روایت میں ایک اچھی بیوی کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے یعنی اس کی خوش اخلاقی و خوش اطواری کو دیکھے تو وہ خوش ہو جائے اور اگر کہیں وہ بیوی صورت و سیرت دونوں میں اچھی ہو تو پھر کیا کہنا نور علی نور اور سرور علی سرور ہے اسی طرح ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مال میں ایسی کوئی بات نہ کرے جو اس کے شوہر کی نظر میں پسندیدہ نہ ہو۔

یہاں اپنے مال سے خود اس بیوی کا مال بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی جس مال کی حقیقت میں وہ خود مالک ہو اس مال کو بھی وہ اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف خرچ نہ کرے اور اس سے وہ مال بھی ہو سکتا ہے جو خود اس کی ملکیت نہ ہو بلکہ حقیقت میں مالک تو اس کا خاوند ہو البتہ اس عورت کے قبضہ و تصرف میں ہو اس صورت میں بھی یہ مطلب ہو گا کہ اس کا خاوند اس کو جو کچھ مال و اسباب اور روپیہ پیسہ دے وہ اس کو ایک امانت کے طور پر اپنے پاس رکھے اس میں نہ تو خیانت کرے اور نہ اپنے خاوند کی مرضی کے خلاف اس کو خرچ کرے۔

امانت دار بیوی کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص کو مل جائیں اس کو دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو جائے اول حق تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے والا دل، دوم خوشی اور رنج ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والی زبان، سوم بلاؤں پر صبر کرنے والا جسم اور چہارم وہ عورت جو اپنی ذات اور اپنے خاوند کے مال میں خیانت نہ کرے۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

لعان کے معنی و تعریف

لعان کے معنی و تعریف

 لعان اور ملاعنہ کے معنی ہیں ایک دوسرے پر لعنت کرنا، شرعی اصطلاح میں لعان اس کو کہتے ہیں کہ جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے یا جو بچہ پیدا ہو اس کے بارے میں یہ کہے کہ یہ میرا نہیں نہ معلوم کس کا ہے اور بیوی اس سے انکار کرے اور کہے کہ تم مجھ پر تہمت لگا رہے ہو پھر وہ قاضی اور شرعی حاکم کے پاس فریاد کرے قاضی شوہر کو بلا کر اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کہے چنانچہ اگر شوہر گواہوں کے ذریعہ ثابت کر دے تو قاضی اس کی بیوی پر زنا کی حد جاری کرے اور اگر شوہر چار گواہوں کے ذریعہ الزام ثابت نہ کر سکے تو پھر قاضی پہلے شوہر کو اس طرح کہلائے کہ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے جو زنا کی نسبت اس کی طرف کی ہے اس میں سچا ہوں عورت کی طرف اشارہ کر کے چار دفعہ شوہر اسی طرح کہے پھر پانچویں دفعہ مرد کی طرف اشارہ کر کے یوں کہے کہ اس مرد نے میری طرف جو زنا کی نسبت کی ہے اگر اس میں یہ سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ٹوٹے۔

جب دونوں اس طرح ملاعنت کریں تو حاکم دونوں میں جدائی کرا دے گا اور ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی اور وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی ہاں اگر اس کے بعد مرد خود اپنے کو جھٹلائے یعنی یہ اقرار کر لے کہ میں نے عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اس صورت میں اس پر حد تہمت جاری کی جائے گی اور عورت سے پھر نکاح کرنا اس کے لئے درست ہو جائے گا لیکن حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر مرد خود اپنے کو جھٹلائے تب بھی عورت اس کے لئے ہمیشہ کو حرام رہے گی۔

دربار رسالت میں لعان کا ایک واقعہ

حضرت سہل ابن سعد ساعدی کہتے ہیں کہ ایک صحابی عویمر عجلانی نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اس شخص کے بارے میں بتائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس مرد نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے کیا وہ اس مرد کو قتل کر ڈالے؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے گا تو مقتول کے وارث اس کو قتل کر دیں گے ایسی صورت میں وہ کیا کرے آیا اس عار پر صبر کرے یا کوئی اقدام کرے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اس سے فرمایا کہ تم میاں بیوی کے قضیہ میں و حی نازل کی گئی ہے جاؤ اپنی بیوی کو بلا لاؤ حضرت سہل کہتے ہیں کہ عویمر اپنی بیوی کو بلا لائے اور میاں بیوی نے مسجد نبوی میں لعان کیا اور میں بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہی موجود تھا چنانچہ جب وہ دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر (یعنی میاں نے کہا کہ اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی ہے اس کے بعد انہوں نے اس عورت کو تین بار طلاق دی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہ عورت اپنے موجودہ حمل سے ایسا بچہ جنے جس کا رنگ سیاہ آنکھیں بہت کالی ہوں کولہے بڑے ہوں اور دونوں پنڈلیوں کا گوشت بھرا ہو تو میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت کے بارے میں جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے کیونکہ عویمر نے جس مرد کی طرف زنا کی نسبت کی وہ اسی رنگ وصورت کا ہے اور جب اسی کی شباہت کا بچہ پیدا ہو گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اسی کے نطفہ سے ہے اور اگر اس عورت نے ایسا بچہ جنا جس کا رنگ سرخ ہو اور بامنی کے رنگ کا معلوم ہوتا ہو تو پھر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے یعنی عویمر چونکہ سرخ رنگ کے ہیں اس لئے بچہ کی رنگت بھی سرخ ہوئی تو سمجھا جائے گا کہ بچہ عویمر ہی کے نطفہ سے ہے اور عویمر نے اپنی بیوی کو جھوٹی تہمت لگائی ہے) چنانچہ جب اس عورت کا بچہ پیدا ہوا تو وہ اسی صورت کا تھا جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عویمر کی تصدیق کے لئے ذکر کیا تھا (یعنی وہ بچہ اسی مرد کی شباہت کا تھا جس کی طرف سے عویمر نے زنا کی نسبت کی تھی گویا عویمر کی بات سچ ثابت ہوئی اس کے بعد وہ بچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کے مطابق) اپنی ماں کی طرف منسوب کیا گیا (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اگر کوئی شخص کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ منہ کالا کرتا ہوا پائے اور وہ شخص اس مرد کو جان سے مار ڈالے تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا وہ شخص جس نے اپنی بیوی کے ساتھ منہ کالا کرنے والے کو جان سے مار ڈالا ہے) اسلامی قانون کے مطابق قصاص یعنی سزائے موت کا مستوجب ہے یا نہیں؟ چنانچہ جمہور علماء کا قول یہی ہے کہ اس کو سزائے موت دی جائے ہاں اگر وہ شخص اس بات کے ثبوت میں کہ مقتول نے اس کی بیوی کے ساتھ منہ کالا کیا تھا چار گواہ پیش کر دے یا خود مقتول کے ورثاء اس بات کا اقرار کر لیں تو اس صورت میں اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی تاہم یہ ملحوظ رہے کہ اگر چار پیش نہ کرنے یا مقتول کے ورثاء کے اقرار نہ کرنے کی صورت میں اسے سزائے موت دے دی گئی تو واقع کے اعتبار سے وہ سچا تھا تو خدا کے نزدیک گنہگار نہیں سمجھا جائے گا۔

اللہ تعالی نے وحی نازل کی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ہیں۔

آیت (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ    وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ) 24۔ النور: 7-6)

 اور جو لوگ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس بجز اپنے ہی دعوی کے اور کوئی گواہ نہ ہو تو ان کی شہادت جو کہ ان کو حد قذف سے بچا سکتی ہے یہی ہے وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر یہ کہہ دے بے شک میں سچا ہوں اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں (آخر تک)

بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیات کریمہ ٩ھ کے ماہ شعبان میں نازل ہوئیں ہیں ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بارے میں مذکورہ بالا آیت حضرت عویمر کے واقعہ پر نازل ہوئی ہے اور اسلام میں سب سے پہلا لعان انہی کی طرف سے ہوا تھا جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک دوسرے صحابی حضرت ہلال ابن امیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اسلام میں سب سے پہلے ہلال ہی نے لعان کیا ہے چنانچہ آگے حضرت ابن عباس کی جو روایت آئے گی اس سے یہی ثابت ہوتا ہے لہذا اس صورت میں ارشاد گرامی تم میاں بیوی کے قضیہ میں وحی نازل کی گئی ہے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے قضیہ جیسے ایک قضیہ میں وحی نازل کی گئی ہے۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ آیت دونوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہو جس کی صورت یہ ہوئی ہو گی کہ پہلے ان میں سے کسی ایک نے آنحضرت سے اپنے بارے میں سوال کیا ہو گا پھر بعد میں دوسرے کا قضیہ پیش آیا ہو گا اور اس نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا ہو گا یہاں تک کہ ان دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن ان دونوں میں حضرت ہلال نے پہلے لعان کیا۔

گویا میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے یہ حضرت عویمر نے دراصل تین طلاق دینے کا سبب بیان کیا ہے کہ اس صورت حال کے بعد بھی اگر میں اس عورت کو اپنے نکاح میں رکھو اور طلاق نہ دوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ میں نے اس کی طرف زنا کی جھوٹی نسبت کی ہے کیونکہ اس کو نکاح میں رکھنے کا مطلب یہی ہو گا کہ گویا میں نے جو کچھ کہا ہے سب جھوٹ ہے اور یہ عورت بدکاری کے گناہ سے پاک ہے۔

لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے مابین لعان کا حکم فرمایا چنانچہ اس لعان کی وجہ سے وہ شخص اس عورت کے بچہ سے دور ہو گیا یعنی بچہ کا نسب اس شخص سے ہٹا دیا گیا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور بچہ کو عورت کے حوالے کر دیا (بخاری مسلم) اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں جو بخاری و مسلم ہی نے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا (تاکہ وہ جھوٹ نہ بولے اور عورت اپنے الزام کو ناحق ثابت نہ کرے) اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو بلایا اس کو بھی نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا اور آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔

 

تشریح

 تفریق کرا دی کا مطلب یہ ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق جدائی حاکم و قاضی کے حکم ہی سے ہوتی ہے نہ کہ محض لعان سے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نفس لعان ہی سے تفریق واقع ہو جاتی تو پھر تین طلاقیں کیوں دی جاتیں جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔

دنیا کے عذاب سے مراد حد یعنی شرعی سزا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر مرد کسی عورت کو چاہے وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو) زنا کی تہمت لگائے اور اس کی تہمت جھوٹی ثابت ہو جائے تو شرعی قانون کے مطابق اس پر حد جاری کی جائیگی یعنی اس کو ایک پاکدامن عورت پر زنا کی جھوٹ تہمت لگانے کے جرم میں اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ مرد سچا ثابت ہو جائے یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس عورت نے بدکاری کرائی ہے تو پھر اس عورت پر حد جاری ہو گی کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کو سنگسار کر دیا جائے گا اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے مارے جائیں گے اس صورت میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ مرد نے کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی خاص جذبہ کے تحت عورت کو تہمت لگا دی ہو اور پھر اسے یہ یقین ہو گیا ہو کہ میں نے عورت پر جو الزام لگایا ہے وہ بے بنیاد ہے مگر اب اس خوف سے کہ ایک پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی یا یہ کہ واقعۃً  عورت نے بدکاری کرائی ہو مگر اس خوف سے کہ میں سنگسار کر دی جاؤں گی یا سو کوڑے ماری جاؤں گی اپنے اس گناہ کا اعتراف و اقرار نہیں کرتی بلکہ ملاعنت پر تیار ہو جاتی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امکانی صورت کے خلاف دونوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کا عذاب یعنی یہاں کی سزا کہیں آسان اور سہل ہے اس لئے جو صورت حال ہو اور جو سچ بات ہو اس کا اعتراف و اقرار کر لو اور اس دنیا کے آسان عذاب کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے بچو۔

لعان کرنے والوں کا محاسبہ آخرت میں ہو گا

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لعان کرنے والے مرد وعورت سے فرمایا ہم صرف ظاہری احوال و وجوہ کی بنیاد ہی پر کوئی حکم نافذ کر سکتے ہیں اور وہ ہم نے لعان کی صورت میں نافذ کر دیا ہے البتہ) تمہارا حساب خدا کے ہاں ہو گا کیونکہ نفس الامر اور حقیقت کے اعتبار سے تم دونوں میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے (پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد سے فرمایا کہ) اب عورت کے بارے میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں ہے (یعنی لعان کے بعد اس عورت کے ساتھ رہنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے ہمیشہ حرام ہو گئی ہے) مرد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اور میرا مال یعنی میں نے اس عورت کو جو مہر دیا ہے کیا وہ مجھ سے جاتا رہے گا) اپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس مال پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے یعنی دیئے ہوئے مہر کو واپس لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اگر تم نے اس عورت کے بارے میں سچ کہا ہے کہ یعنی تمہارے کہنے کے مطابق اگر اس عورت نے واقعۃً بدکاری کرائی ہے) تو وہ مال اس چیز کا بدلہ ہو گیا کہ تم نے اس کی شرم گاہ کو حلال کیا ہے اگر تم نے اس عورت کے بارے میں بولا ہے تو وہ اس صورت میں مہر کا واپس لے لینا اس سے بھی بعید ہے اور تم سے بھی بہت بعید ہے یعنی جب سچ کی صورت میں مہر کو واپس لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے تو جھوٹ کی صورت میں تو بدرجہ اولی تمہیں وہ مہر واپس نہ لینا چاہئے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 تمہارا حساب خدا کے ہاں ہو گا کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو ہم نے تمہارے اس تنازعہ کو لعان کی صورت میں ختم کرا دیا ہے مگر تم دونوں کا حقیقی محاسبہ آخرت میں ہو گا کہ وہاں تمہارے معاملہ کی تحقیق کی جائے گی اور پھر تم میں سے جو جھوٹا ہو گا اس کو اس کی سزا اللہ تعالی دے گا۔

تو وہ مال اس چیز کا بدل ہو گی الخ اس بات کی دلیل کہ لعان کرنے والا مہر واپس نہ لے بشرطیکہ اس عورت کے ساتھ اس نے دخول کیا ہو چنانچہ اس بارہ میں تمام علماء کا متفقہ طور پر یہی مسلک ہے البتہ عدم دخول کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا قول یہ ہے کہ اگر لعان کرنے والے نے اس عورت کے ساتھ دخول نہ کیا ہو تو اس صورت میں وہ آدھے مہر کی حقدار ہو گی۔

آیت لعان کا شان نزول

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک صحابی ہلال ابن امیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی بیوی شریک ابن سحماء صحابی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی یعنی ہلال نے کہا کہ شریک ابن سحماء نے میری بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہلال سے فرمایا کہ اپنے الزام کے ثبوت میں گواہ پیش کرو ورنہ جھوٹی تہمت لگانے کے جرم میں تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی یعنی اسی کوڑے مارے جائیں گے ہلال نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اگر ہم میں سے کوئی کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری میں مبتلا دیکھے تو کیا وہ گواہ ڈھونڈھنے چلا جائے؟ یعنی اول تو ایسی صورت میں اتنا موقع کہاں کہ کسی کو گواہ کرے پھر یہ کہ کسی کو گواہ کرنے کی وہ جگہ کیا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہی فرمائے جا رہے تھے کہ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی پھر ہلال نے عرض کیا کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں سچا ہوں مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بری رکھے گا، آخر کا کچھ ہی عرصہ بعد حضرت جبریل تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ آیتیں نازل کی گئی ہیں آیت (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ) 24۔ النور:26) (یعنی اور جو لوگ کہ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں الخ پھر اس کے بعد کی آیتوں (اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ) 24۔ النور:26) تک تلاوت کی اس کے بعد ہلال دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور گواہی دی یعنی لعان کی جو تفصیل پیچھے بیان کی جا چکی ہے اس کے ساتھ انہوں نے پانچ مرتبہ گواہی کے ذریعہ لعان کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ بلاشبہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ میں تم سے کوئی ایک جھوٹا ہے سو تم میں سے کون ہے جو توبہ کرے اس کے بعد ہلال کی بیوی کھڑی ہوئی اور لعان کیا یعنی چار مرتبہ اپنی پاکدامنی کی شہادت دی اور جب وہ پانچویں مرتبہ گواہی دینے چلی تو صحابہ نے اس کو روکا اور کہا کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لو یہ پانچویں گواہی تم دونوں کے درمیان جدائی کو واجب کر دے گی یا اگر تم جھوٹی ہو گی تو آخرت میں عذاب کو واجب کر دے گی ابن عباس کہتے ہیں یہ سن کر وہ عورت ٹھہر گئی اور پیچھے ہٹی یعنی وہ پانچویں مرتبہ کچھ گواہی دینے میں متامل ہوئی جس سے ہمیں یہ گمان ہوا کہ یہ اپنی بات سے پھر جائے گی لیکن پھر اس نے کہا کہ میں لعان سے بچ کر اور اپنے خاوند کے الزام کی تصدیق کر کے اپنی قوم کو ساری عمر کے لئے رسوا نہیں کروں گی یہ کہہ کر اس نے پانچویں گواہی کو بھی پورا کیا اس طرح جب لعان پورا ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں میاں بیوی کے درمیان جدائی کرا دی تو آپ نے فرمایا کہ اس کو دیکھتے رہنا اگر اس نے ایسے بچے کو جنم دیا جس کی آنکھیں سرمئی کولہے بھاری اور پنڈلیاں موٹی ہوں تو وہ بچہ شریک ابن سحماء کا ہو گا کیونکہ شریک اسی طرح کے ہیں چنانچہ جب اس عورت نے ایسے ہی بچہ کو جنم دیا جو شریک کے مشابہ تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا مذکورہ حکم نہ ہوتا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لعان کرنے والوں پر تعزیر جاری نہیں ہو گی) تو پھر میں اس عورت کے ساتھ دوسرا ہی معاملہ کرتا یعنی شریک کے ساتھ اس بچہ کی مشابہت اس عورت کی بدکاری کا ایک واضح قرینہ ہے اس لئے اس کی اس بدکاری پر میں اس کو ایسی سزا دیتا کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہوتی (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے حضرت ہلال نے لعان کیا ہے اور اس موقع پر لعان کے سلسلہ میں مذکورہ آیت نازل ہوئی اس بارے میں جو تحقیقی تفصیل ہے وہ حضرت سہل کی روایت کی تشریح میں بیان ہو چکی ہے۔

بلاشبہ اللہ تعالی جانتا ہے الخ، بظاہر زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات ان دونوں کے لعان سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فرمائی اور اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ جو بھی شخص کوئی جھوٹی بات کہے یا کسی پر جھوٹی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات لعان سے پہلے ان دونوں کو جھوٹ کے عواقب سے ڈرانے کے لئے ارشاد فرمائی تھی۔

اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم و قاضی کسی بھی معاملہ میں اپنے گمان و خیال قرائن اور کسی علامت کی بنیاد پر کوئی حکم نہ دے بلکہ وہی حکم دے جس کے دلائل و شواہد تقاضا کریں۔

زنا کی تہمت چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی سعد نے کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پاؤں تو جب تک کہ چار گواہ فراہم نہ کر لوں اس کو ہاتھ نہ لگاؤں۔ یعنی نہ اس کو ماروں اور نہ قتل کروں) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں سعد نے کہا کہ ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں قبل اس کے کہ چار گواہ فراہم کروں فوری طور پر تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سنو تمہارا سردار یعنی سعد کیا کہہ رہا ہے بلاشبہ وہ غیرت مند ہے میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ جواب سن کر حضرت سعد نے جو کچھ کہا اس سے نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کی تردید مقصود تھی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت منظور تھی بلکہ انہوں نے اپنی اس بات کے ذریعہ دراصل اپنی طبیعت اور اپنے مزاج کے بارے میں بتایا۔ کہ میرا حال تو یہ ہے کہ میرے غصہ اور میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے پاس کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو اس کو فوراً قتل کر دوں جب کہ اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک چار گواہ فراہم نہ کر لو اس کو کچھ نہ کہو تو اس صورت میں میرے لئے کونسا راستہ ہے؟ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد کی یہ بات سن کر لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیا کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ کی مراد حضرت سعد کے وصف کی تعریف کرنا ہے اور اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ طبیعت و مزاج میں اتنی غیرت کا ہونا بزرگوں کی صفات اور سرداروں کی عادات میں سے ہے اگرچہ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوسرا ہے جس پر عمل کرنا غیرت مندی کے تقاضا پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔

حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت سعد کی بات کی تقریر یعنی تائید و توثیق نہیں فرمائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا عذر بیان کیا کہ حضرت سعد نے جو بات کہی ہے اور جس سے بظاہر میرے حکم کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے وہ دراصل ان کی غیر معمولی غیرت مندی کی وجہ سے سے ان کی زبان سے نکل گئی ہے۔

حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ حضرت سعد کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مذکورہ جواب دینا آنحضرت کے حکم کی مخالفت یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کو قبول کرنے سے انکار کر دینے کے طور پر نہیں تھا بلکہ درحقیقت ان کی اس خواہش کے اظہار کے طور پر تھا کہ اگر کوئی غیرت مند کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پائے تو اس کو قتل کر دینے کی اجازت عطا ہو جائے چنانچہ جب آنحضرت نے یہ اجازت دینے سے ایک بلیغ انداز میں انکار کر دیا تو انہوں نے سکوت اختیار کر لیا۔

غیرت آدمی کی اندرونی کیفیت و حالت کے اس تغیر کو کہتے ہیں جو اپنے اہل میں کسی ناگوار چیز کو دیکھنے پر پیدا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کی غیرت کی نسبت اسی معنی کے اعتبار سے محال و ناممکن ہے لہذا اللہ تعالی کے غیرت مند ہونے کی معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو گناہوں سے روکنے والا ہے تا کہ وہ اس کی بارگاہ کی قربت و مقبولیت سے دور نہ جا پڑیں۔

اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے

اور حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو میں اس کو تلوار سے مار دوں اور تلوار کی پشت کی جانب سے نہیں بلکہ دھار والی جانب سے ماروں حاصل یہ کہ میں تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی کہ سعد اس طرح کہتے ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تمہیں سعد کی اس غیر معمولی غیرت مندی پر تعجب ہے؟ خدا کی قسم میں یقیناً ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے تمام گناہوں کو حرام کیا ہے خواہ وہ ظاہری گناہ ہوں یا پوشیدہ گناہ ہوں اور عذر کو اللہ تعالی سے زیادہ کوئی محبوب نہیں رکھتا اور اسی لئے اللہ تعالی نے ڈرانے والوں اور بشارت دینے والوں یعنی پیغمبروں کو بھیجا ہے نیز تعریف کرنے کو اللہ تعالی سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا اور اسی کے سبب اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اور اللہ تعالی نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے گناہوں کو حرام کیا ہے یہ جملہ دراصل اللہ تعالی کی غیرت کی وضاحت کے لئے ہے کہ اللہ تعالی کی غیرت کے معنی یہ ہیں کہ اس نے لوگوں کو حرام امور اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور حرام امور کو اختیار کرنے پر عذاب مقرر کیا ہے چنانچہ اصل میں غیرت کا مطلب یہی ہے کہ آدمی اس بات کو ناپسند کرے اور اس پر ناراض ہو کہ کوئی اس کی ملکیت میں تصرف کرے۔

اور غیرت کا مشہور معنی یہ ہے کہ آدمی اس شخص پر غصہ کرے جو اس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرے یا اس کو نظر بد سے دیکھے لہذا اللہ تعالی کی غیرت یہ ہے کہ وہ اس شخص پر غصہ کرے جو گناہ کا مرتکب ہو۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ عذر کو اللہ تعالی سے زیادہ کوئی محبوب نہیں رکھتا میں عذر اعزار یعنی ازالۂ عذر کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالی عذر ختم کر دینے کو پسند کرتا ہے اس طرح کوئی اور عذر کو ختم کرنے کو پسند نہیں کرتا اسی لئے اللہ تعالی نے دنیا میں پیغمبروں اور رسولوں کو بھیجا ہے تا کہ اس طرف سے اتمام حجت ہو جائے اور بندوں کو عذر کرنے کا موقع نہ ملے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالی فرماتا ہے

آیت (لئلا یکون علی اللہ حجۃ بعد الرسل)

تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالی کے سامنے پیغمبروں کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے

تعریف کو اللہ تعالی سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا، کا مطلب یہ ہے کہ تعریف کرنے کو جتنا اللہ تعالی پسند کرتا ہے اتنا کوئی اور پسند نہیں کرتا۔ اسی لئے اللہ تعالی نے خود اپنی تعریف بھی فرمائی ہے اور اپنے محبوب بندوں کی بھی تعریف کی ہے اور ان لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا ہے جو اس کی حمد و تعریف کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا کیا ہے

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی غیرت مند ہے اور مؤمن بھی غیرت مند ہے (یعنی غیرت دراصل اللہ تعالی کی صفت ہے جو مؤمن میں بھی موجود ہے) اور اللہ تعالی کی غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ مؤمن وہ کام نہ کرے جس کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے (بخاری و مسلم)

محض معمولی علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے اور اس وجہ سے کہ وہ میرا ہم رنگ نہیں ہے) میں نے اس کا انکار کر دیا ہے (یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں، اس نے عرض کیا کہ ہاں ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آ گئے (یعنی ان میں خاکستری رنگ کہاں سے آیا جب کہ ان کے ماں باپ خاکستری رنگ کے نہیں ہیں؟) اس نے عرض کیا کہ کوئی رگ ہو گی جس نے انہیں کھینچ لیا (یعنی ان کی اصل میں کوئی خاکستری کا رہا ہو گا جس کے مشابہ یہ بھی ہو گئے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تو پھر یہ بچہ بھی کسی ایسی رگ کے سبب کالا ہوا ہے جس نے اس کو کھینچ لیا ہے یعنی اس بچہ کی اصل میں بھی کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہو گا جس کے مشابہ یہ بچہ ہو گیا ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دیہاتی کو اس بچہ کا انکار کرنے کی اجازت نہیں دی (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ محض معمولی اور ضعیف علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے ممنوع ہے بلکہ اس صورت میں مضبوط دلائل و وجوہ کا ہونا ضروری ہے مثلاً بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور اس کے باوجود بچہ کی ولادت ہوئی ہو یا صحبت کی ہو مگر صحبت کے بعد چھ مہینہ سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا ہو اور ان صورتوں میں اس بچہ کا انکار کر دینا جائز ہے۔

زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے تم اس کو لے لینا چنانچہ فتح مکہ کے سال سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے جبکہ ابن زمعہ نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے پھر وہ دونوں اپنا معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے گئے اور سعد نے کہا کہ یہ لڑکا میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کی بات سن کر فرمایا کہ عبد بن زمعہ' اس بچہ کے تم ہی حقدار ہو کیونکہ بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے اور زانی کے لئے نسب و میراث سے محرومی ہے یا یہ کہ زانی سنگساری کا مستوجب ہے) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے فرمایا کہ تم اس لڑکے سے پردہ کیا کرو کیونکہ اس میں عتبہ کی شباہت نظر آتی ہے چنانچہ حضرت سودہ اس لڑکے کے سامنے کبھی نہیں آئیں یہاں تک کہ وہ واصل بحق ہو گیا) ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عبد بن زمعہ وہ لڑکا تمہارا بھائی ہے اس لئے کہ وہ لڑکا ان کے باپ کے بستر پر پیدا ہوا تھا (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں جو چند نام ذکر ہوئے ہیں پہلے ان کے بارے میں بتا دینا ضروری ہے تا کہ صورت واقعہ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ عتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا حقیقی بھائی تھا حضرت سعد کو تو اللہ تعالی نے اسلام کی دولت سے بہرہ ور کیا اور وہ ایک جلیل القدر صحابی ہوئے مگر عتبہ کفر کے اندھیرے سے نہ نکل سکا یہاں تک کہ کفر کی حالت میں مر گیا اور یہی وہ بدبخت تھا اور یہی وہ بدبخت تھا جس نے غزوہ احد کے موقع پر رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دندان مبارک شہید کئے تھے۔ زمعہ حضرت سودہ کے باپ تھے اور عبد ان زمعہ کے بیٹے یعنی حضرت سودہ کے حقیقی بھائی تھے حضرت سودہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ تھیں۔

اب حدیث کی طرف آئیے کہ عتبہ نے زمعہ کی لونڈی سے زنا کیا جس کے نتیجہ میں لڑکا پیدا ہوا چونکہ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ زانی کے دعوی پر ولد الزنا (حرامی بچہ) کا نسب اسی زنی سے ثابت ہوتا تھا اس لئے عتبہ نے اس قدیم دستور کے مطابق اس لڑکے کے بارے میں دعوی کیا کہ یہ میرا ہے اور اپنے بھائی حضرت سعد کو وصیت کی کہ تم اس لڑکے کو اپنی تحویل میں لے لینا اور اس کی پرورش کرنا چنانچہ حضرت سعد نے فتح مکہ کے سال اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق اس لڑکے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور یہ اعلان کیا کہ یہ میرا بھتیجا ہے ادھر زمعہ کے بیٹے عبد نے یہ دعوی کیا کہ یہ میرا بھائی ہے کیونکہ اس کو میرے باپ نے اپنی لونڈی سے جنوایا ہے غرضیکہ ان دونوں کے درمیان ایک تنازعہ کی صورت ہو گئی تو وہ دونوں اس معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے کر آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد بن زمعہ سے فرمایا کہ یہ تمہارا بھائی ہے کیونکہ بچہ صاحب فراش ہی سے ثابت ہوتا ہے اور زانی اس سے محروم رہتا ہے۔ (بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے اور زانی کے لئے محرومی ہے) کی تفصیلی وضاحت باب الوصایا کی پہلی فصل میں حضرت ابوامامہ کی روایت کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔

ام المؤمنین حضرت سودہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کہ تم اس لڑکے سے پردہ کیا کرو) کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ یہ لڑکا شرعی حکم کے مطابق تمہارا بھائی ہوا بایں طور کہ اس کا نسب تمہارے باپ زمعہ سے ثابت ہو گیا ہے اور یہ بھی اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ شرعی معاملات میں مشابہت اور قیافہ و قرائن کا اعتبار نہیں لیکن وہ لڑکا چونکہ عتبہ کے مشابہ ہے اور عتبہ کے دعوی کی وجہ سے اس کا عتبہ کے نطفہ سے ہونا ایک حد تک حقیقت کے مطابق بھی ہے اس لئے احتیاط و ورع کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس کے سامنے نہ آؤ۔

دوسری روایت کے آخری الفاظ (انہ ولد علی فراش ابیہ) (اس لیے کہ وہ لڑکا ان کے باپ کے بستر پر پیدا ہوا تھا) دراصل حدیث کے راوی کا اپنا قول ہے یعنی راوی نے ان الفاظ کے ذریعہ یہ واضح کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد بن زمعہ کے حق میں یہ حکم کہ وہ لڑکا تمہارا بھائی ہے اس لئے صادر فرمایا تھا کہ وہ ان کے باپ (زمعہ) کے بستر پر پیدا ہوا تھا) ان کے بستر پر پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ استقرار حمل اور بچہ کی ولادت کے زمانہ میں وہ لونڈی زمعہ کی ملکیت میں اور ان کے تصرف میں تھی نیز وہ لڑکا انہی کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔

اثبات نسب میں قیافہ شناس کا قول معتبر ہے یا نہیں؟

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بہت خوش میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ عائشہ ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ آج مجزر مدلجی مسجد نبوی میں آیا) اور جب اس نے اسامہ اور زید کو دیکھا جو اس طرح چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے اور ان کے سر چھپے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ ان دونوں کے پیر ایک دوسرے کے مطابق ہیں یعنی یہ پیر جن دو آدمیوں کے ہیں وہ آپس میں باپ بیٹے ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت زید بن حارثہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متبنی (لے پالک) تھے بہت گورے اور خوبصورت تھے جب کہ ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ کالے تھے اور اپنی ماں کے ہم رنگ تھے ان کی ماں جن کا نام ام ایمن تھا ایک لونڈی اور کالے رنگ کی تھیں باپ بیٹے رنگت کے اس فرق کی وجہ سے منافق حضرت اسامہ کے نسب میں عیب لگاتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ ایسے حسین اور خوبصورت باپ کا بیٹا اتنا کالا کیسے ہو سکتا ہے؟ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم منافقوں کی اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوتے تھے کہ اسی دوران میں یہ واقعہ پیش آیا۔

مجزر مدلجی عرب کا ایک مشہور قیافہ شناس اور اپنے فن میں یگانہ روزگار تھا وہ آدمی کی صورت دیکھ کر اس کے حالات و کوائف اور اوصاف و خصوصیات معلوم کر لیا کرتا تھا چنانچہ مسجد نبوی میں آیا اور اس نے حضرت زید اور حضرت اسامہ کے پیر دیکھے تو اس نے علم قیافہ کی رو سے یہ فیصلہ کیا کہ یہ پیر جن دو آدمیوں کے ہیں ان دونوں کو آپس میں باپ بیٹا ہونا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ اہل عرب کے ہاں قیافہ شناس کا قول معتبر ہوتا تھا اور اس کے فیصلہ کو سند کا درجہ دیا جاتا تھا لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بھی اطمینان ہو گیا کہ اب جب کہ اسامہ کا نسب اس سند سے ثابت ہو گیا ہے تو منافقین بھی ان کے نسب کے بارے میں طعن کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔

لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حدیث سے لازم نہیں آتا کہ شرعی احکام اور اثبات نسب میں قیافہ شناس کا قول معتبر ہوتا ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے البتہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ قیافہ شناس کے قول کو معتبر مانتے ہیں یہاں تک کہ ان کے مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی لونڈی دو آدمیوں کی مشترک ملکیت ہو اور اس کے بچہ پیدا ہو اور پھر وہ دونوں شریک اس بچہ کے نسب کا دعوی کریں یعنی ہر ایک یہ کہے کہ یہ میرا بچہ ہے تو اس صورت میں ان دونوں کو قیافہ شناس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اور وہ قیافہ شناس اپنے قیافہ کی بنیاد پر جو فیصلہ کرے اس کو قبول کر لینا چاہئے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس صورت میں وہ بچہ شرعی حکم کے اعتبار سے دونوں کا ہو گا اگرچہ واقعہ کے اعتبار سے وہ کسی ایک کا ہو گا اور وہ لونڈی دونوں کی ام ولد ہو گی۔

اپنے باپ کا انکار کرنے والے کے بارہ میں وعید

اور حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو بکرہ دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس پر جنت حرام ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے اور وہ اس بات کو برا نہیں جانتا بلکہ اس کا اعتقاد ہے کہ اپنے نسب میں اس طرح خلط ملط کرنا حلال ہے تو ایک حرام چیز کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے وہ کفر کی حد میں پہنچ گیا اور جب وہ کفر کی حد میں پہنچ گیا اور اسی حال میں مر گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس پر جنت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند رہیں گے اور اگر وہ شخص کفریہ عقیدہ نہیں رکھتا (یعنی باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے کو حلال نہیں جانتا بلکہ حرام ہی جانتا ہے تو اس صورت میں اس پر جنت حرام ہے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس وقت اس پر جنت کے دروازے بند رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے اس گناہ کی سزا نہ بھگت لے گا۔

یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ اس پر جنت حرام ہے زجر یعنی تنبیہ کے طور پر ہے جس کا مقصد لوگوں کو اس برائی سے روکنا ہے۔

 اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم غیر شخص سے اپنا نسب جوڑ کر اپنے باپ سے منہ نہ پھیرو کیونکہ جس شخص نے اپنے باپ سے منہ پھیرا یعنی اس سے اپنے نسب کا انکار کیا) تو اس نے درحقیقت کفران نعمت کیا (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 زمانہ جاہلیت میں یہ ایک عام برائی تھی کہ لوگ اپنے اصل باپ سے اپنے نسب کا انکار کر کے دوسروں کو اپنا باپ قرار دیتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس برائی سے منع فرمایا۔

اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر اصل باپ کی بجائے کسی غیر شخص سے اپنا نسب قائم کرنا حرام ہے اور اگر کسی شخص نے غیر شخص سے اپنا نسب قائم کرنے کو مباح جانا اور اس کا عقیدہ رکھا تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ ایسی چیز کے حلال و مباح ہونے کا عقیدہ رکھنا جس کو پوری امت نے حرام قرار دیا ہے کفر ہے اس صورت میں حدیث کے الفاظ فقد کفر اپنے حقیقی معنی پر محمول ہوں گے اور اگر کرنے والا مباح ہونے کا یقین نہیں رکھتا تو اس صورت میں کفر کے دو معنی ہوں گے ایک تو یہ کہ اس شخص نے کفار کے فعل کی مشابہت اختیار کی دوسرے یہ کہ اس نے کفران نعمت کیا ہے

 اور حضرت عائشہ کی حدیث (ما من احد غیر من اللہ) باب صلوۃ الخسوف میں نقل کی جا چکی ہے۔

اپنے بچہ کا انکار کرنے والا خدا تعالی کے دیدار سے محروم رہے گا

اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے لعان کی آیت نازل ہونے کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو عورت کسی کو اس قوم میں داخل کرے جس میں سے وہ نہیں ہے (یعنی کسی عورت نے بدکاری کرائی اور پھر اس بدکاری کے نتیجہ میں بچہ کو جنم دیا اور اس بچہ کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کر دیا) تو وہ خدا کے نزدیک کسی درجہ میں نہیں ہے اور اللہ تعالی اس کو اپنے مقرب اور نیک بندوں کے ساتھ ہرگز اپنی جنت میں داخل نہیں کرے گا اور جو شخص اپنے بچہ کا انکار کرے یعنی اس کی بیوی نے جس بچہ کو جنم دیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ میرا نہیں ہے درآنحالیکہ وہ اس کی طرف دیکھتا ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ بچہ میرا ہی ہے تو اللہ تعالی اس سے پردہ کرے گا یعنی اس کو خدا کا دیدار نصیب نہیں ہو گا اور اللہ تعالی اس کو تمام اگلے و پچھلے لوگوں میں رسوا کرے گا یعنی جب میدان حشر میں تمام اگلی پچھلی مخلوق جمع ہو گی تو ان کے درمیان اس کو ذلیل و رسوا کرے گا (ابوداؤد نسائی دارمی)

 

تشریح

 

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو عورت کو چاہئے کہ وہ بدکاری کرائے اور اپنے حرامی بچہ کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کرے اور نہ مرد کو چاہئے کہ دیدہ دانستہ اپنے بچہ کا انکار کرے اور اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے۔

بد کار بیوی کو طلاق دے دینا اولیٰ ہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیوی کسی چھونے والے ہاتھ کو جھٹکتی نہیں (یعنی جو بھی شخص اس سے بدکاری کا ارادہ کرتا ہے اس کو وہ انکار نہیں کرتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے طلاق دے دو اس نے عرض کیا یہ ممکن نہیں کیونکہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر اس کی نگہبانی کرو تا کہ وہ بدکاری میں مبتلا نہ ہو سکے) ابوداؤد نسائی اور نسائی نے کہا ہے کہ اس روایت کے راویوں میں سے ایک راوی نے تو اس کو حضرت ابن عباس تک پہنچایا ہے اور وصل کیا ہے اور ایک راوی نے اس کو ابن عباس تک نہیں پہنچایا ہے اور وصل نہیں کیا ہے نیز نسائی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے (یعنی یہ حدیث متصل نہیں ہے بلکہ منقطع ہے)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بدکار بیوی کو طلاق دے دینا اولی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے طلاق دینے کا حکم پہلے دیا اور نگہبانی کرنے کا حکم بعد میں دیا ہاں اگر کسی وجہ سے طلاق دینا آسان نہ ہو مثلاً اس سے اتنی زیادہ محبت ہو کہ اس کو اپنے سے جدا کرنا ناممکن ہو یا اس کے بطن سے کوئی بچہ ہو جو ماں کی جدائی کو برداشت نہ کر سکتا ہو اور یا اس بیوی کا اپنے اوپر کوئی ایسا قرض و مطالبہ مثلاً مہر واجب ہو کہ جس کو ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو ایسی صورتوں میں جائز ہے کہ اس کو طلاق نہ دے لیکن یہ شرط ہے کہ وہ اس کو بدکاری سے روکے اور اگر وہ اس کو بدکاری سے نہ روک سکا تو پھر طلاق نہ دینے کی صورت میں گنہگار ہو گا۔

اثبات نسب کے سلسلہ میں ایک واضح ہدایت و ضابطہ

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم دینے کا فیصلہ کیا کہ جس لڑکے کا نسب اس کے اس باپ کے مرنے کے بعد کہ جس کی طرف نسبت کی گئی ہے ملایا گیا ہے اور اس کا دعوی اس باپ کے وارثوں نے کیا ہے (یعنی مثلاً زید کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں نے ایک لڑکے بکر کے بارے میں کہا کہ یہ زید کا بیٹا ہے لہذا یہ بھی ہماری طرح زید کا وارث ہے تو اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم صادر فرمایا کہ اگر وہ لڑکا جس کا نسب ملایا گیا ہے ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو صحبت کے دن اس کے باپ کی ملکیت میں تھی (یعنی اس لونڈی سے اس کے باپ کا جائز طریقہ پر جماع ہوا ہو) تو وہ اس شخص کے ساتھ نسب میں مل جائے گا جس نے اس کو ملایا ہے (یعنی جو وارث اس کو ملائیں گے وہ ان وارثوں میں مل جائے گا اور ان کے ساتھ میراث کا حقدار ہو گا بایں طور کہ اگر اس کو سبھی وارث ملائیں گے تو سب کے حق میں وارث ہو گا اور اگر بعض وارثوں نے ملایا ہو گا تو انہی بعض کے حق میں وارث ہو گا اور جو میراث اس کو ملنے سے پہلے تقسیم ہو چکی ہو گی اس میں اسکا کوئی حصہ نہیں ہو گا ہاں جو میراث ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی اس میں سے اس کو حصہ ملے گا اور وہ لڑکا ایسا ہو کہ اس کی نسبت جس باپ کی طرف جاتی ہے اس نے اس کا انکار کر دیا تھا (یعنی اس باپ نے اپنی زندگی میں اس کے اپنا بیٹا ہونے کا انکار کر دیا تھا) تو وہ لڑکا اس کے مرنے کے بعد وارثوں کے ملانے سے نہیں ملے گا اور اس باپ کا وارث نہیں ہو گا اسی طرح اگر وہ لڑکا کسی ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو صحبت کے دن اس باپ کی ملکیت میں نہ رہی ہو (یعنی اس نے کسی دوسرے شخص کی لونڈی سے زنا کیا تھا اور اس زنا کے نتیجہ میں یہ لڑکا پیدا ہوا تھا) یا کسی ایسی آزاد عورت کے بطن سے ہو جس سے اس باپ نے زنا کیا تھا تو وہ لڑکا اس باپ کے وارثوں میں شامل نہیں ہو گا اور نہ اسے میراث ملے گی اگرچہ خود اس شخص یعنی باپ نے کہ جس کی طرف اس لڑکے کی نسبت کی جاتی ہے اس کا دعوی کیا ہو (یہ جملہ گویا پہلے حکم کی تاکید کے طور پر ہے کہ وہ لڑکا ولد الزنا ہو تو اس کو اس باپ یعنی زانی کے وارثوں میں کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر خود وہ زانی اپنی زندگی میں اس کے نسب کا دعوی کرتا ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے تب بھی اس کے ساتھ اس لڑکے کا نسب نہ ملتا چہ جائیکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث اس لڑکے کو اپنے میں شامل کریں لہذا وہ لڑکا حرام ہے خواہ وہ لونڈی کے بطن سے ہو یا آزاد عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 خطابی کہتے ہیں کہ یہ وہ احکام ہیں جو شروع زمانہ اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نافذ فرمائے تھے اس زمانہ میں لوگوں کی بدکار لونڈیاں تھیں جو زنا کراتی پھرتی تھیں اور ان کے مالک بھی ان سے صحبت کرتے تھے اور پھر جب ان کے کوئی بچہ ہوتا تو اس کا دعوی مالک بھی کرتا اور زانی بھی اس قسم کے تنازعہ کو شرعی طور پر ختم کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا حکم صادر فرمائے، چنانچہ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شرعی ضابطہ مقرر فرمایا اور جس کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص زید کا انتقال ہو گیا اس کے بعد زید کے وارثوں کا یہ دعوی تسلیم کر لیا جائے گا اور اس لڑکے کا نسب زید سے قائم کر کے اس کی میراث کا حصہ دار قرار دے دیا جائے گا لیکن یہ اسی صورت میں ہو گا جب کہ وہ لڑکا کسی ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو زید کی ملکیت میں رہی ہو اور زید کا اس کے ساتھ جائز طور پر جماع ہوا ہو یا وہ کسی آزاد عورت کے بطن سے ہو جو زید کے نکاح میں رہی ہو اور خود زید نے بھی اپنی زندگی میں یہ اقرار و اعلان کیا ہو کہ یہ میرا لڑکا ہے۔

پھر جیسا کہ حدیث میں وضاحت ہے یہ لڑکا انہی وارثوں کے حق میں حصہ دار ہو گا جنہوں نے مذکورہ بالا دعوی کیا ہو اگر سب ہی وارثوں نے یہ دعوی کیا ہو گا تو وہ لڑکا سب وارثوں کے حق میں حصہ دار ہو گا اور اگر بعض وارثوں نے دعوی کیا ہو گا تو صرف انہی بعض وارثوں کے حق میں حصہ دار ہو گا۔ نیز یہ لڑکا صرف اس میراث میں حصہ دار ہو گا جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی ہے جو میراث اس دعوی سے پہلے تقسیم ہو چکی ہو گی اس میں اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر یہ صورت ہو کہ زید نے اپنی زندگی میں اس لڑکے کے نسب کا انکار کر دیا یعنی یہ کہا تھا کہ یہ لڑکا میرا نہیں ہے تو پھر اس کے مرنے کے بعد اگر اس کے وارث اس لڑکے کو اپنے میں شامل کرنا چاہیں تو وہ شامل نہیں ہو سکے گا اور نہ اس کو زید کی میراث میں سے کوئی حصہ ملے گا۔

اگر اسی طرح وہ لڑکا کسی ایسی لونڈی کے بطن سے ہو جو زید کی ملکیت میں نہیں تھی جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں زمعہ کے بیٹے کے بارے میں گزر چکا ہے یا کسی ایسی آزاد عورت کے بطن سے جو زید کے نکاح میں نہیں تھی یعنی وہ لڑکا زید کے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا تو اس صورت میں بھی وہ زید کے وارثوں میں شامل نہیں ہو سکے گا اور نہ اس کو زید کی میراث میں سے کچھ ملے گا بلکہ اگر زید اپنی زندگی میں خود بھی یہ چاہے کہ اس کے ساتھ اپنا نسب جوڑ کر اس کو اپنے وارثوں میں شامل کر دے تو بھی وہ شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ ولد الزنا کا نسب زانی سے قائم نہیں ہوتا اور نہ وہ زانی کا وارث نہیں ہوتا ہے۔

غیرت بعض صورتوں میں پسندیدہ اور بعض صورتوں میں ناپسندیدہ ہے

اور حضرت جابر ابن عتیک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنی بیوی اور لونڈی کے بارے میں) بعض غیرت کو تو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے اور بعض غیرت کو ناپسند کرتا ہے چنانچہ جس غیرت کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے وہ شک و شبہ کی جگہ پیدا ہونے والی غیرت ہے (مثلاً بیوی یا لونڈی غیر مردوں کے سامنے آتی ہے یا غیر مرد اس کے پاس آتے ہیں اور وہ ان سے ہنسی مذاق کرتی ہے تو اس موقع پر خاوند جو غیرت محسوس کرتا ہے اس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور جس غیرت کو اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے وہ غیرت ہے جو کسی شک و شبہ کی وجہ کے بغیر پیدا ہوئی ہو (مثلاً کسی قرینہ و سبب کے بغیر خاوند کے دل میں بیوی کے کردار کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو جائے اور پھر اس پر غیرت محسوس کرے) اسی طرح بعض تکبر کو تو اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند فرماتا ہے چنانچہ جس تکبر کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے وقت آدمی کا تکبر کرنا ہے (یعنی جہاد میں جب کفار سے مقابلہ ہو تو اپنی قوت و برتری اور کفار کی حقارت و کمتری کے اظہار کے لئے خوب اکڑے اور اپنی بڑائی و شجاعت کو بڑے فخر و غرور کے ساتھ بیان کرے) اور وہ تکبر بھی اللہ تعالی کو پسند ہے جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں ہو (یعنی جب صدقہ و خیرات دے تو خوشدلی اور بے پروائی کے ساتھ دے اور زیادہ سے زیادہ دینے کو بھی تھوڑا جانے) اور جس تکبر کو اللہ تعالی نے ناپسند کرتا ہے وہ اپنے نسب پر فخر کا تکبر ہے اور ایک روایت میں فی الفخر کی بجائے فی البغی ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے وہ ظلم کا تکبر ہے یعنی وہ تکبر جو بلا کسی حق استحقاق کیا جائے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں) (احمد ابوداؤد نسائی)

 

تشریح

 

 اپنے نسب پر فخر کا تکبر یہ ہے کہ جو شخص اعلیٰ حسب و نسب اور اچھے خاندان کا ہو وہ یہ کہتا پھرے کہ مجھے نسب میں برتری اور امتیاز حاصل ہے اور میرے باپ دادا اعلیٰ نسل و خاندان کے افراد ہونے کی وجہ سے بزرگ و افضل ہیں یہ ایسا تکبر ہے جو اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں تو برتری و فوقیت اور بزرگی و فضیلت اسی شخص کو حاصل ہے جو دین کے اعتبار سے سب میں ممتاز ہو چنانچہ ارشاد ربانی ہے

آیت (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم)

اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگ و بلند مرتبہ وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے

مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں اس روایت میں فی الفخر کی بجائے فی الفقر ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالی نا پسند کرتا ہے وہ فقر کا تکبر ہے مطلب یہ کہ خدا کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص حالت فقر میں اپنی قناعت اور اپنے صبر و توکل پر تکبر کرے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ تکبر اس تکبر سے بد تر ہے جو اپنے غنا اور اپنی ثروت پر کیا جاتا ہے لیکن فقر کا تکبر اس صورت میں برا اور خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے جب کہ وہ فقراء کے مقابلہ پر کیا جائے ہاں اگر وہ تکبر امراء و اغنیاء کے مقابلہ پر ہو تو اچھا اور پسندیدہ ہے کیونکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ کہا گیا ہے

ولد الزنا کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مجلس نبوی میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! فلاں میرا لڑکا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی گئی گزری بات زمانہ اسلام میں دعوی نہیں ہو سکتا (یعنی یہ بات زمانہ جاہلیت ہی کے ساتھ مخصوص تھی اور جو بچہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتا تھا اس کا نسب زانی اپنے ساتھ جوڑ لیتا تھا اب زمانہ اسلام میں یہ بات درست نہیں بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لئے پتھر یعنی محرومی ہے یا سنگساری (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 صاحب فراش سے وہ شخص مراد ہے جو ولد الزنا کی ماں کا خاوند یا مالک ہو مطلب یہ ہے کہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں کسی کی ملک میں ہو تو اس کے زنا کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہو گا اس کا نسب اس کے خاوند یا مالک سے ثابت ہو گا اور اگر وہ عورت کسی کے نکاح یا کسی کی ملک میں نہ ہو تو پھر بچہ ماں ہی کی طرف منسوب ہو گا بہرصورت زانی کا اس بچہ سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہو گا۔

وہ چار عورتیں جن سے لعان نہیں ہوتا

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چار طرح کی عورتیں ہیں کہ ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان لعان نہیں ہوتا ایک تو وہ نصرانیہ عورت یعنی عیسائی عورت جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو اور دوسری یہودیہ یعنی یہودی عورت جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو اور تیسری وہ آزاد عورت جو کسی غلام کے نکاح میں ہو اور چوتھی وہ لونڈی جو کسی آزاد کے نکاح میں ہو (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عیسائی یا یہودی عورت کسی مسلمان کی نکاح میں ہو اور اس کا خاوند اس پر زنا کی تہمت لگائے اور وہ اس کی تردید کرے تو اس صورت میں ان دونوں کے درمیان لعان نہیں کرایا جائے گا اسی طرح اگر کوئی آزاد عورت کسی غلام کے نکاح میں ہو یا کوئی لونڈی کسی آزاد کے نکاح میں ہو تو اس کے درمیان بھی لعان نہیں ہو گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لعان دراصل شہادت و گواہی ہے اس لئے لعان کی صورت میں مرد و عورت دونوں کا اہل شہادت کہ جن کی شہادت شرعی طور پر معتبر ہوتی ہے ہونا ضروری ہے جب کہ مملوک یعنی غلام و لونڈی اور کافر اہل شہادت نہیں ہیں یعنی کسی معاملہ میں ان کی شہادت و گواہی شرعی طور پر معتبر نہیں ہے لہذا ان کے درمیان لعان کی کوئی صورت نہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حتی الامکان لعان سے باز رکھنا چاہتے تھے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر دو لعان کرنے والے یعنی میاں بیوی لعان کر رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ پانچویں گواہی کے وقت لعان کرنے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے اور فرمایا کہ پانچویں گواہی واجب کرنے والی ہے (نسائی)

 

تشریح

 

 کسی خاوند نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی ہو گی اور بیوی نے اس کی تردید کی ہو گی اور صورت حال کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے لعان کا ارادہ کیا ہو گا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو لعان کا حکم دیا اور اسی وقت ایک دوسرے شخص کو یہ حکم فرمایا کہ جب پانچویں گواہی کی باری آئے تو لعان کرنے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دینا تا کہ وہ پانچویں گواہی دے کر لعان کو پورا نہ کرے۔

اس حکم کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ جب اس کے منہ پر ہاتھ رکھا جائے گا تو اسے تنبہ اور اسحاس ہو گا اور جو سچ بات ہو گی اسکا اقرار کر کے پانچویں گواہی سے باز رہے گا اور جب پانچویں گواہی پوری نہیں ہو گی تو لعان واقع نہیں ہو گا یہ گویا اس بات کی علامت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حتی الامکان لعان سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ جو سچ بات ہو میاں بیوی اس کا اقرار کریں اور اس دنیا کے آسان عذاب یعنی زنا یا تہمت کی حد) کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے محفوظ رہے۔

شیطان، میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتا ہے

اور حضرت عائشہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ شعبان کی پندرہویں رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بڑی غیرت آئی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لائے اور میں جس کیفیت میں مبتلا تھی اس کو دیکھا تو فرمایا کہ عائشہ! تمہیں کیا ہوا؟ کیا تم مجھ پر غیرت کرتی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ بھلا میری جیسی عورت کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم جیسے مرد پر غیرت کیوں نہ آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دراصل تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے یعنی شیطان نے تمہیں شک و شبہ میں مبتلا کر دیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر حاوی کر دیا ہے یہاں' تک کہ میں اس وسوسہ سے سالم محفوظ رہتا ہوں حتی اسلم کا ترجمہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے یعنی میرا تابع ہو گیا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 ایک مرتبہ شعبان کی پندرہویں شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چپکے سے حضرت عائشہ کے پاس سے اٹھ کر جنت البقیع تشریف لے گئے تا کہ وہاں مردوں کے لئے ایصال ثواب اور دعا و مغفرت کریں لیکن حضرت عائشہ یہ سمجھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے اٹھ کر اپنی کسی اور بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں، یہ گویا شیطان کا فریب تھا جس نے انہیں اس شک میں مبتلا کر دیا اس کی وجہ سے ان کو بڑی غیرت آئی ان کی قلبی کیفیت متغیر ہو گئی چنانچہ وہ بھی گھبرا کر اٹھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے پیچھے چل پڑیں پھر انہوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی منزل کسی دوسری بیوی کا مکان نہیں ہے بلکہ جنت البقیع مدینہ کا قبرستان ہے) جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے چلے جانے والے مسلمانوں کے لیے دعاء مغفرت میں مشغول ہیں یقینی بات ہے کہ جس شک و شبہ نے حضرت عائشہ کو اتنا اکسایا اور گھبراہٹ میں مبتلا کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی گھر میں پہنچ جانا چاہتی ہوں گی چنانچہ وہ وہاں سے بھاگی دوڑتی گھر کی طرف چلیں جب گھر میں داخل ہوئی تو کچھ دوڑنے کی وجہ سے اور کچھ ندامت کے سبب سینہ دھونکنی بن گیا اور دم پھولنے لگا ان کے بعد ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں آئے اور حضرت عائشہ کی یہ کیفیت دیکھی کہ دم چڑھ رہا ہے اور گھبراہٹ طاری ہے تو فرمایا آخر اتنی گھبراہٹ تم پر کیوں طاری ہو گی کیا تم نے محض اس وجہ سے غیرت محسوس کی کہ میں اس طرح کیوں چلا گیا اس کے جواب میں حضرت عائشہ نے جو کچھ کہا وہ دراصل عورت کے جذبات فطرت کی بڑی حسین اور دلچسپ ترجمانی تھی انہوں نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ مجھ جیسی عورت آپ صلی اللہ علیہ و سلم جیسے مرد پر غیرت نہ کرے؟ یعنی اگرچہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پناہ محبت حاصل ہے لیکن میری سوکنیں بھی کئی ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمام ظاہری و باطنی جمال و کمال سے متصف ہیں ایسی صورت میں کیونکر رشک و غیرت میں مبتلا نہ ہوں۔