حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ".
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا شعلہ ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۳۵۱، ومصباح الزجاجة:۸۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵)(صحیح)(ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۶۲۰)
وضاحت: ۱؎: یعنی جو کوئی اس کی خبر نہ کرے بلکہ اسے ہضم کرنے کی نیت سے چھپا رکھے تو اس کے بدلے میں یہ جہنم کی آگ کا مستحق ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ خَالُ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي بِالْبَوَازِيجِ فَرَاحَتِ الْبَقَرُ فَرَأَى بَقَرَةً أَنْكَرَهَا، فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: بَقَرَةٌ لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهَا فَطُرِدَتْ حَتَّى تَوَارَتْ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا يُؤْوِي الضَّالَّةَ إِلَّا ضَالٌّ".
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ بوازیج میں تھا کہ گایوں کا ریوڑ نکلا، تو آپ نے ان میں ایک اجنبی قسم کی گائے دیکھی تو پوچھا: یہ گائے کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: کسی اور کی گائے ہے، جو ہماری گایوں کے ساتھ آ گئی ہے، انہوں نے حکم دیا، اور وہ ہانک کر نکال دی گئی یہاں تک کہ وہ نظر سے اوجھل ہو گئی، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "گمشدہ چیز کو وہی اپنے پاس رکھتا ہے جو گمراہ ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللقطة ۱ (۱۷۲۰)،(تحفة الأشراف:۳۲۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۶۰،۳۶۲)(صحیح) (سند میں علت ہے کیونکہ ضحاک مجہول راوی ہیں، لیکن مرفوع حدیث، شاہد کی بناء پر صحیح ہے، قصہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء:۱۵۶۳، و صحیح أبی داود:۱۵۱۳، تراجع الألبانی: رقم:۵۱۵)
وضاحت: ۱؎: بوازیج: ایک شہر کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْعَلَاءِ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ، عَنْزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ فَغَضِبَ وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ فَقَالَ: "مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا الْحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ، حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا"وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ، فَقَالَ: "خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ"وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: "اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنِ اعْتُرِفَتْ وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ غضب ناک ہو گئے، اور غصے سے آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا: "تم کو اس سے کیا سروکار، اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے، وہ خود پانی پر جا سکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لیتا ہے" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کو لے لو اس لیے کہ وہ یا تو تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی" ۱؎ پھر آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو، اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، ۲؎ اگر اس کی شناخت پہچان ہو جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللقطة ۱ (۲۴۲۶)، صحیح مسلم/اللقطة ۱ (۱۷۲۲)، سنن ابی داود/اللقطة ۱ (۱۷۰۴،۱۷۰۵)، سنن الترمذی/الاحکام ۳۵ (۱۳۷۲)،(تحفة الأشراف:۳۷۶۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ۳۸ (۴۶،۴۷)، مسند احمد (۴/۱۱۵،۱۱۶،۱۱۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اگر کوئی اس کی حفاظت نہ کرے گا تو وہ اسے کھا جائے گا۔ ۲؎: بازار یا مسجد یا جہاں لوگ جمع ہوتے ہوں، پکار کر کہے کہ مجھے ایک چیز ملی ہے، نشانی بتا کر جس کی ہو لے جائے، اگر اس کا مالک اس کی شناخت کر لے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کر لے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ وَجَدَ لُقَطَةً فَلْيُشْهِدْ ذَا عَدْلٍ أَوْ ذَوَيْ عَدْلٍ، ثُمَّ لَا يُغَيِّرْهُ وَلَا يَكْتُمْ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا، فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا، وَإِلَّا فَهُوَ مَالُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ".
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو وہ ایک یا دو معتبر شخص کو اس پر گواہ بنا لے، پھر وہ نہ اس میں تبدیلی کرے اور نہ چھپائے، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللقطة ۱ (۱۷۰۹)،(تحفة الأشراف:۱۱۰۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۲،۲۶۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحیحین میں زید بن خالد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے چاندی اور سونے کے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: " اس کا تھیلا اور سربند پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کو پوچھتے رہو، اگر کوئی اس کو نہ پہچانے تو خرچ کر ڈالو، لیکن وہ تمہارے پاس امانت ہو گی، جب اس کا مالک آئے،گرچہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد تو تم اس کو دے دو "۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعُذَيْبِ الْتَقَطْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِي: أَلْقِهِ، فَأَبَيْتُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَصَبْتَ، الْتَقَطْتُ مِائَةَ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: "عَرِّفْهَا سَنَةً"، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: "عَرِّفْهَا". فَعَرَّفْتُهَا، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، فَقَالَ: "اعْرِفْ وِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا، وَإِلَّا، فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو"، میں پتا کرتا رہا، لیکن کسی کو نہ پایا جو انہیں پہچانتا ہو، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کا تھیلا، بندھن اور اس کی تعداد یاد رکھو، پھر سال بھر اس کے مالک کا پتا کرتے رہو، اگر اس کا جا ننے والا آ جائے تو خیر، ورنہ وہ تمہارے مال کی طرح ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللقطة ۱ (۲۴۲۶)، صحیح مسلم/اللقطة ۱ (۱۷۲۳)، سنن ابی داود/اللقطة ۱ (۱۷۰۱،۱۷۰۲)، سنن الترمذی/الأحکام ۳۵ (۱۳۷۴)،(تحفة الأشراف:۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۲۶،۱۲۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت میں ہے: «ثمَّ عرِّفها سنةً، فإن جاء صاحبُها وإلا فشأنكَ بها» سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر اس کا جاننے والا آ جائے تو خیر ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: "عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا فَإِنْ لَمْ تُعْرَفْ فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِعَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر کوئی اس کی (پہچان) کر لے تو اسے دے دو، ورنہ اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد رکھو، پھر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کر لو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللقطة ۱ (۱۷۲۲)، سنن ابی داود/اللقطة ۱ (۱۷۰۶)، سنن الترمذی/الأحکام ۳۵ (۱۳۷۲،۱۳۷۳)،(تحفة الأشراف:۳۷۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۱۶،۵/۱۹۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: مکہ میں جو لقطہ (گری پڑی چیز)ملے اس کے مالک کے تلاش کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ مکہ کا لقطہ جائز نہیں، مگر اس کے لئے جو اس کو دریافت کرے، صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پائی تو فرمایا: " اگر مجھ کو یہ ڈر نہ ہوتا کہ شاید یہ صدقہ کی ہو تو میں اسے کھا لیتا "، اور احمد و طبرانی اور بیہقی نے یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جس نے رسی یا درہم وغیرہ جیسا حقیر لقطہ اٹھایا تو وہ اس کے بارے میں تین دن تک پوچھے، اگر اس سے زیادہ چاہے تو چھ دن تک پوچھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دینار لائے جس کو انہوں نے بازار میں پایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: " تین دن اس کے مالک کو پوچھتے رہو "، انہوں نے پوچھا کوئی مالک نہیں پایا، جو اس کو پہچانے تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " اب اس کو کھا لو (یعنی خرچ کر لو) " اگر لقطہ کھانے کی چیز ہو (جیسے روٹی پھل وغیرہ) تو اس کا پوچھنا ضروری نہیں فوراً اس کا کھا لینا درست ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَثْمَةَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي قُرَيْبَةُ بِنْتُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أُمَّهَا كَرِيمَةَ بِنْتَ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو أَخْبَرَتْهَا، عَنِ ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ خَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى الْبَقِيعِ وَهُوَ: الْمَقْبَرَةُ لِحَاجَتِهِ، وَكَانَ النَّاسُ لَا يَذْهَبُ أَحَدُهُمْ فِي حَاجَتِهِ إِلَّا فِي الْيَوْمَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ، فَإِنَّمَا يَبْعَرُ كَمَا تَبْعَرُ الْإِبِلُ، ثُمَّ دَخَلَ خَرِبَةً، فَبَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ لِحَاجَتِهِ، إِذْ رَأَى جُرَذًا أَخْرَجَ مِنْ جُحْرٍ دِينَارًا، ثُمَّ دَخَلَ فَأَخْرَجَ آخَرَ حَتَّى أَخْرَجَ سَبْعَةَ عَشَرَ دِينَارًا، ثُمَّ أَخْرَجَ طَرَفَ خِرْقَةٍ حَمْرَاءَ. قَالَ الْمِقْدَادُ: فَسَلَلْتُ الْخِرْقَةَ، فَوَجَدْتُ فِيهَا دِينَارًا، فَتَمَّتْ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ دِينَارًا، فَخَرَجْتُ بِهَا حَتَّى أَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرَهَا، فَقُلْتُ: خُذْ صَدَقَتَهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "ارْجِعْ بِهَا، لَا صَدَقَةَ فِيهَا بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا"، ثُمَّ قَالَ: "لَعَلَّكَ أَتْبَعْتَ يَدَكَ فِي الحُجْرِ"قُلْتُ: لَا وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ. قَالَ: فَلَمْ يَفْنَ آخِرُهَا حَتَّى مَاتَ.
مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن وہ بقیع کے قبرستان کی طرف قضائے حاجت کے لیے نکلے، ان دنوں لوگ قضائے حاجت کے لیے دو دو تین تین دن بعد ہی جایا کرتے تھے، اور مینگنیاں نکالتے تھے، خیر وہ ایک ویرانے میں گئے اور قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک چوہے پر نظر پڑی جس نے سوراخ میں سے ایک دینار نکالا، پھر وہ اندر گھس گیا، اور پھر ایک دینار اور نکالا یہاں تک کہ اس نے سترہ دینار نکالے، پھر ایک سرخ کپڑے کے ٹکڑے کا کنارہ نکالا۔ مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ ٹکڑا کھینچا تو اس میں ایک دینار اور ملا اس طرح کل اٹھارہ دینار پورے ہو گئے، انہیں لے کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو پورا واقعہ بتایا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کی زکاۃ لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لے جاؤ، اس میں زکاۃ نہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاید تم نے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالا؟ میں نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کی حق سے عزت فرمائی"۔ راوی کہتے ہیں: ان دیناروں میں اتنی برکت ہوئی کہ ان کی وفات تک آخری دینار ختم نہیں ہوا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الخراج ۴۰ (۳۰۸۷)،(تحفة الأشراف:۱۱۵۵۰)(ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب ضعیف اور قر یبة بنت عبداللہ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ وأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «رکاز» میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، سنن ابی داود/الخراج ۴۰ (۳۰۸۵)، سنن الترمذی/الأحکام ۳۷ (۱۳۷۷)، سنن النسائی/الزکاة ۲۸ (۲۴۹۷)،(تحفة الأشراف:۱۳۱۲۸،۱۵۱۴۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۶ (۱۴۹۹)، المساقاة ۳ (۲۳۵۵)، الدیات ۲۸ (۶۹۱۲)،۲۹ (۶۹۱۳)، موطا امام مالک/ العقول ۱۸ (۱۲)، مسند احمد (۲/۲۲۸،۲۲۹،۲۵۴،۲۷۴،۲۸۵،۳۱۹،۳۸۲،۳۸۶،۴۰۶،۴۱۱،۴۱۴،۴۵۴،۴۵۶،۴۶۷،۴۷۵،۴۸۲،۴۸۲،۴۹۵،۴۹۹،۵۰۱،۵۰۷)، سنن الدارمی/الزکاة ۳۰ (۱۷۱۰)، الدیات ۹ (۲۴۲۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: «رکاز» کان کو کہتے ہیں، اور کچھ علماء کہتے ہیں کہ کافروں کے دفینہ یعنی خزانہ کو «رکاز» کہا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «رکاز» میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۱۲۹، ومصباح الزجاجة:۸۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۱۴،۳/۱۸۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاق الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْم بْنُ حَيَّانَ، سَمِعْتُ أَبِييُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ اشْتَرَى عَقَارًا، فَوَجَدَ فِيهَا جَرَّةً مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَشْتَرِ مِنْكَ الذَّهَبَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ بِمَا فِيهَا فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ: أَلَكُمَا وَلَدٌ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لِي غُلَامٌ، وَقَالَ الْآخَرُ: لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: فَأَنْكِحَا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ وَلْيُنْفِقَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ وَلْيَتَصَدَّقَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک زمین خریدی، اس میں اسے سونے کا ایک مٹکا ملا، خریدار بائع (بیچنے والے) سے کہنے لگا: میں نے تو تم سے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا، اور بائع کہہ رہا تھا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہارے ہاتھ بیچا ہے، الغرض دونوں ایک شخص کے پاس معاملہ لے گئے، اس نے پوچھا: تم دونوں کا کوئی بچہ ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: ہاں میرے پاس ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میرے پاس ایک لڑکی ہے، تو اس شخص نے کہا: تم دونوں اس لڑکے کی شادی اس لڑکی سے کر دو، اور چاہیئے کہ اس سونے کو وہی دونوں اپنے اوپر خرچ کریں، اور اس میں سے صدقہ بھی دیں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۲۹۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۲)، صحیح مسلم/الأقضیة ۱۱ (۱۷۲۱)، مسند احمد (۲/۳۱۶)(صحیح)