حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ ، قَالَ: "لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَخَذْتُ صُرَّةً مِائَةَ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ ثَلَاثًا، فَقَالَ: احْفَظْ وِعَاءَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا"، فَاسْتَمْتَعْتُ، فَلَقِيتُهُ بَعْدُ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی (کہیں راستے میں پڑی ہوئی) پائی۔ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا۔ اس لیے میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے پھر (سال بھر) اعلان کیا۔ لیکن ان کا مالک مجھے نہیں ملا۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھ۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو (علامت پوچھ کے) اسے واپس کر دینا، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کر لے چنانچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لایا۔ (شعبہ نے بیان کیا کہ)پھر میں نے سلمہ سے اس کے بعد مکہ میں ملاقات کی تو انہوں کہا کہ مجھے یاد نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیث میں) تین سال تک (اعلان کرنے کے لیے فرمایا تھا) یا صرف ایک سال کے لیے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ رَبِيعَةَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "جَاءَ أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَمَّا يَلْتَقِطُهُ ؟ فَقَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ احْفَظْ عِفَاصَهَا، وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِهَا، وَإِلَّا فَاسْتَنْفِقْهَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ: لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: ضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا حِذَاؤُهَا، وَسِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے (تو اسے اس کا مال واپس کر دے) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہو گی یا تمہارے بھائی(مالک) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیا ہو؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ (جن سے وہ چلے گا) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: "سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَزَعَمَ أَنَّهُ قَالَ: اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، يَقُولُ يَزِيدُ: إِنْ لَمْ تُعْرَفْ اسْتَنْفَقَ بِهَا صَاحِبُهَا، وَكَانَتْ وَدِيعَةً عِنْدَهُ، قَالَ يَحْيَى: فَهَذَا الَّذِي لَا أَدْرِي، أَفِي حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ أَمْ شَيْءٌ مِنْ عِنْدِهِ، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي ضَالَّةِ الْغَنَمِ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ يَزِيدُ: وَهِيَ تُعَرَّفُ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ ؟ قَالَ: فَقَالَ: دَعْهَا فَإِنَّ مَعَهَا حِذَاءَهَا، وَسِقَاءَهَا تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَجِدَهَا رَبُّهَا".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، انہوں نے زید بن خالد سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھ، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ یزید بیان کرتے تھے کہ اگر اسے پہچاننے والا (اس عرصہ میں) نہ ملے تو پانے والے کو اپنی ضروریات میں خرچ کر لینا چاہئے۔ اور یہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہو گا۔ اس آخری ٹکڑے (کہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہو گا) کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے یا خود انہوں نے اپنی طرف سے یہ بات کہی ہے۔ پھر پوچھا، راستہ بھولی ہوئی بکری کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو۔ وہ یا تمہاری ہو گی (جب کہ اصل مالک نہ ملے) یا تمہارے بھائی (مالک) کے پاس پہنچ جائے گی، یا پھر اسے بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔ یزید نے بیان کیا کہ اس کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ پھر صحابی نے پوچھا، راستہ بھولے ہوئے اونٹ کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے آزاد رہنے دو، اس کے ساتھ اس کے کھر بھی ہیں اور اس کا مشکیزہ بھی، خود پانی پر پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا اور اس طرح وہ اپنے مالک تک پہنچ جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ: "اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا"، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ: هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا، وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، انہیں منبعث کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں یاد رکھ کر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ اگر مالک مل جائے (تو اسے دیدے) ورنہ اپنی ضرورت میں خرچ کر۔ انہوں نے پوچھا اور اگر راستہ بھولی ہوئی بکری ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہو گی یا تمہارے بھائی کی ہو گی۔ ورنہ پھر بھیڑیا اسے اٹھا لے جائے گا صحابی نے پوچھا اور اونٹ جو راستہ بھول جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کا مشکیزہ ہے، اس کے کھر ہیں، پانی پر وہ خود ہی پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا۔ اور اس طرح کسی نہ کسی دن اس کا مالک اسے خود پا لے گا۔
وَقَالَ اللَّيْثُ : حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ"ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ، فَخَرَجَ يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا هُوَ بِالْخَشَبَةِ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ".
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی (جو اس سے پہلے گزر چکی ہے)کہ (قرض دینے والا) باہر یہ دیکھنے کے لیے نکلا کہ ممکن ہے کوئی جہاز اس کا روپیہ لے کر آیا ہو۔ (دریا کے کنارے پر جب وہ پہنچا) تو اسے ایک لکڑی ملی جسے اس نے اپنے گھر کے ایندھن کے لیے اٹھا لیا۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں روپیہ اور خط پایا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرَةٍ فِي الطَّرِيقِ، قَالَ: "لَوْلَا أَنِّي أَخَافُ أَنْ تَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ لَأَكَلْتُهَا". وَقَالَ يَحْيَى : حَدَّثَنَاسُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، وَقَالَ زَائِدَةُ : عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ .
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے طلحہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راستے میں ایک کھجور پر نظر پڑی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کا ڈر نہ ہوتا کہ صدقہ کی ہے تو میں خود اسے کھا لیتا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً فَأُلْقِيهَا".
اور یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے منصور نے بیان کیا، اور زائدہ بن قدامہ نے بھی منصور سے بیان کیا، اور ان سے طلحہ نے، کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی (دوسری سند) اور ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے گھر جاتا ہوں، وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے۔ میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں۔ لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں صدقہ کی کھجور نہ ہو۔ تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔
وَقَالَ طَاوُسٌ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهَا إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا"وَقَالَ خَالِدٌ: عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ".
اور طاؤس نے کہا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ کے لقطہٰ کو صرف وہی شخص اٹھائے جو اعلان کر لے، اور خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے لقطہٰ کو اٹھانا صرف اسی کے لیے درست ہے جو اس کا اعلان بھی کرے۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا زكَرِيَّاءُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يُعْضَدُ عِضَاهُهَا، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا تَحِلُّ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ ؟ فَقَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ".
اور احمد بن سعد نے کہا، ان سے روح نے بیان کیا، ان سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے درخت نہ کاٹے جائیں، وہاں کے شکار نہ چھیڑے جائیں، اور وہاں کے لقطہٰ کو صرف وہی اٹھائے جو اعلان کرے، اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر کی اجازت دے دی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِيأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، فَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُفْدَى، وَإِمَّا أَنْ يُقِيدَ". فَقَالَ الْعَبَّاسُ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ، قُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ: مَا قَوْلُهُ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کے لشکر کو مکہ سے روک دیا تھا، لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کو اسے فتح کرا دیا۔ دیکھو! یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا (یعنی وہاں لڑنا) اور میرے لیے صرف دن کے تھوڑے سے حصے میں درست ہوا۔ اب میرے بعد کسی کے لیے درست نہیں ہو گا۔ پس اس کے شکار نہ چھیڑے جائیں اور نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں۔ یہاں کی گری ہوئی چیز صرف اسی کے لیے حلال ہو گی جو اس کا اعلان کرے۔ جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا ہو اسے دو باتوں کا اختیار ہے یا (قاتل سے)فدیہ (مال) لے لے، یا جان کے بدلے جان لے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اذخر کاٹنے کی اجازت ہو، کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کاٹنے کی اجازت ہے۔ پھر ابوشاہ یمن کے ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا، یا رسول اللہ! میرے لیے یہ خطبہ لکھوا دیجئیے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ ابوشاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ دو۔ میں نے امام اوزاعی سے پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے کہ میرے لیے اسے لکھوا دیجئیے تو انہوں نے کہا کہ وہی خطبہ مراد ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مکہ میں) سنا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ امْرِئٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مَشْرُبَتُهُ فَتُكْسَرَ خِزَانَتُهُ فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ، فَإِنَّمَا تَخْزُنُ لَهُمْ ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ أَطْعِمَاتِهِمْ، فَلَا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص کسی دوسرے کے دودھ کے جانور کو مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔ کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ ایک غیر شخص اس کے گودام میں پہنچ کر اس کا ذخیرہ کھولے اور وہاں سے اس کا غلہ چرا لائے، لوگوں کے مویشی کے تھن بھی ان کے لیے کھانا یعنی (دودھ کے) گودام ہیں۔ اس لیے انہیں بھی مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوھا جائے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ قَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ: خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا حِذَاؤُهَا، وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے بندھن اور برتن کی بناوٹ کو ذہن میں یاد رکھ۔ اور اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ اس کا مالک اگر اس کے بعد آئے تو اسے واپس کر دے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! راستہ بھولی ہوئی بکری کا کیا کیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیونکہ وہ یا تمہاری ہو گی یا تمہارے بھائی کی ہو گی یا پھر بھیڑیئے کی ہو گی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ! راستہ بھولے ہوئے اونٹ کا کیا کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلماس پر غصہ ہو گئے اور چہرہ مبارک سرخ ہو گیا (یا راوی نے «وجنتاه» کے بجائے) «احمر وجهه» کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر اور اس کا مشکیزہ ہے۔ اسی طرح اسے اس کا اصل مالک مل جائے گا۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ ، قَالَ: "كُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَزَيْدِ بْنِ صُوحَانَ فِي غَزَاةٍ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِي: أَلْقِهِ، قُلْتُ: لَا، وَلَكِنْ إِنْ وَجَدْتُ صَاحِبَهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ، فَلَمَّا رَجَعْنَا حَجَجْنَا فَمَرَرْتُ بِالْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الرَّابِعَةَ، فَقَالَ: اعْرِفْ عِدَّتَهَا وَوِكَاءَهَا وَوِعَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا اسْتَمْتِعْ بِهَا". حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بِهَذَا، قَالَ: فَلَقِيتُهُ بَعْدُ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي أَثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ ایک جہاد میں شریک تھا۔ میں نے ایک کوڑا پایا (اور اس کو اٹھا لیا) دونوں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دے۔ میں نے کہا کہ ممکن ہے مجھے اس کا مالک مل جائے۔ (تو اس کو دے دوں گا) ورنہ خود اس سے نفع اٹھاؤں گا۔ جہاد سے واپس ہونے کے بعد ہم نے حج کیا۔ جب میں مدینے گیا تو میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مجھ کو ایک تھیلی مل گئی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ، میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا اور پھر حاضر ہوا۔ (کہ مالک ابھی تک نہیں ملا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اور اعلان کر، میں نے ایک سال تک اس کا پھر اعلان کیا، اور حاضر خدمت ہوا۔ اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا پھر اعلان کر، میں نے پھر ایک سال تک اعلان کیا اور جب چوتھی مرتبہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رقم کے عدد، تھیلی کا بندھن، اور اس کی ساخت کو خیال میں رکھ، اگر اس کا مالک مل جائے تو اسے دیدے ورنہ اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے اور انہیں سلمہ نے یہی حدیث، شعبہ نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد مکہ میں سلمہ سے ملا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیال نہیں (اس حدیث میں سوید نے) تین سال تک بتلانے کا ذکر کیا تھا یا ایک سال کا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ رَبِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ قَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعِفَاصِهَا وَوِكَائِهَا، وَإِلَّا فَاسْتَنْفِقْ بِهَا، وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ فَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ، وَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا، وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ، دَعْهَا حَتَّى يَجِدَهَا رَبُّهَا، وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ ؟ فَقَالَ: هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ربیعہ سے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ، اگر کوئی ایسا شخص آ جائے جو اس کی بناوٹ اور بندھن کے بارے میں صحیح صحیح بتائے (تو اسے دیدے) ورنہ اپنی ضروریات میں اسے خرچ کر۔ انہوں نے جب ایسے اونٹ کے متعلق بھی پوچھا جو راستہ بھول گیا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ اس کا مشکیزہ اور اس کے کھر موجود ہیں۔ وہ خود پانی تک پہنچ سکتا ہے۔ اور درخت کے پتے کھا سکتا ہے اور اس طرح وہ اپنے مالک تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے راستہ بھولی ہوئی بکری کے متعلق بھی پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا وہ تمہاری ہو گی یا تمہارے بھائی(اصل مالک) کو مل جائے گی۔ ورنہ اسے بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْبَرَاءُ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا. ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "انْطَلَقْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ يَسُوقُ غَنَمَهُ، فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَسَمَّاهُ، فَعَرَفْتُهُ، فَقُلْتُ: هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِي ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرْتُهُ، فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْ غَنَمِهِ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ ضَرْعَهَا مِنَ الْغُبَارِ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ كَفَّيْهِ، فَقَالَ: هَكَذَا ضَرَبَ إِحْدَى كَفَّيْهِ بِالْأُخْرَى، فَحَلَبَ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، وَقَدْ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ، فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو نضر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو اسرائیل نے خبر دی ابواسحاق سے کہ مجھے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خبر دی (دوسری سند) ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ابواسحاق سے، اور انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہ (ہجرت کر کے مدینہ جاتے وقت) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا، جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے؟ اس نے کہا، ہاں ضرور! چنانچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد و غبار سے صاف کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا۔ اس نے ویسا ہی کیا۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کر لیا۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا پھر دودھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے۔ یا رسول اللہ! پی لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔