مشکوٰة شر یف

لوگوں میں تغیر و تبدل کا بیان

لوگوں میں تغیر و تبدل کا بیان

بکا کے معنی ہیں رونا اور آنسو بہانا۔ اگر یہ لفظ مد کے بغیر یعنی  بکا  ہو تو اس کا اطلاق کسی غم و حزن کی وجہ سے صرف آنسو بہنے پر ہوتا ہے، اور اگر یہ لفظ مد کے ساتھ، یعنی بکا ہو تو اس کا اطلاق آواز کے ساتھ رونے اور آنسو بہانے پر ہوتا ہے اور زیادہ مشہور مد کے ساتھ ہی ہے نیز ظاہر یہ ہے کہ عنوان بالا میں اس لفظ کا عام مفہوم مراد ہے یعنی رونا، خواہ خاموش آنسو بہانے کی صورت میں ہو یا بلند آواز کے ساتھ رونے کی صورت میں۔ اس سے تباکی کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی ہیں رونے کی صورت بنانا، بہ تکلف رونا اور ان چیزوں کو کہ جن سے رونا آئے۔ مبادا اور بیان کر کے زبردستی رونا، ابکا بھی اسی لفظ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کو رلانا۔

  خوف  کے معنی ہیں ڈرنا، دہشت کھانا اسی لفظ سے اخافت اور تخویف ہے، جس کے معنی ہیں ڈرانا، واضح رہے کہ  خوف ایک خاص کیفیت وحالت کا نام ہے جو پیش آتی ہے۔

 حاصل یہ کہ رونے اور ڈرنے سے مراد آخرت کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کے عقاب وعتاب سے ڈرنا اور ان چیزوں کے خوف سے رونا گڑگڑانا ہے۔

زیادہ ہنسنا آخرت کی ہولناکیوں سے بے فکر کی علامت ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو القاسم (محمد) صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقیناً تمہارا رونا زیادہ اور ہنسنا کم ہو جائے (یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکیاں، مبدا و معاد کی حقیقت گنہگاروں کے تئیں اللہ تعالیٰ کا عتاب و عذاب یوم حساب کی شدت پرسش اور باری تعالیٰ کی صفات قہریہ و جلالیہ کو، جو خوف مصیبت کا باعث ہیں جس قدر میں جانتا ہوں اور پھر ان چیزوں کے تعلق سے تمہارے انجام کار کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل پر ہر وقت غم و خوف طاری رہتا ہے اگر تم بھی ان سب چیزوں سے پوری طرح آگاہ ہو جاؤ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خوف و ہیبت کے مارے تم ہنسنا بھول جاؤ اور اپنا زیادہ وقت رونے اور غم کھانے میں صرف کرو، کیونکہ اس صورت میں تم رجا یعنی رحمت خداوندی کی امید کے مقابلہ پر عذاب خداوندی کے خوف کو زیادہ ترجیح دینے لگو)۔ (بخاری)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے ایک تنبیہ تو یہ ہے کہ اپنے اوپر گریہ طاری رکھنا چاہئے اور ان چیزوں کی یاد تازہ رکھنی چاہئے جو رونے و ہلانے اور غم کھانے کا باعث ہوتی ہیں جیسے خوف خداوندی کا احساس اور عظمت و جلال حق کی حقیقت معلوم کرنا۔ دوسری تنبیہ یہ ہے کہ جاہل و غافل لوگوں کی طرح بہت زیادہ ہنسنے اور راحت چین اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف عفو مغفرت اور اس کی رحمت پر امید کی وجہ سے فی الجملہ راحت چین اختیار کرنا ایک حد تک گنجائش رکھتا ہے۔

کسی کے اخروی انجام کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا

حضرت ام العلا انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن خدا کی قسم یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کی عاقبت کا معاملہ غیر معلوم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کون شخص کیا عمل کرے گا اور اس کا آخری انجام کیا ہو گا؟ تاہم واضح رہے کہ انبیا اور رسولوں اور خصوصاً سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عاقبت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان حضرات کے بارے میں ایسی دلائل قطعیہ منقول ہیں جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ انبیا خصوصاً حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ کو اس مخصوص پس منظر میں رکھ کر دیکھنا چاہئے جس میں یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمائی تھی اور وہ یہ کہ ایک صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جو اونچے درجہ کے مہاجر صحابہ میں سے تھے، ان کا مدینہ میں انتقال ہوا اور خاص بات یہ کہ مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ یہی تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ذاتی نگرانی میں ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام فرمایا، ان کے جنازے کے ساتھ نہایت عزت و تکریم کا معاملہ کیا ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر اپنے سامنے بقیع میں ان کو سپر خاک کرایا، اس موقع پر ایک خاتون، جو وہاں موجود تھیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تئیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ محبت و عنایات دیکھ رہی تھیں کہنے لگیں۔ عثمان تمہیں جنت مبارک ہو کہ تمہاری عاقبت و انجام بخیر ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان خاتون کو سرزنش کی اور مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔ لہٰذا اس حدیث کا مقصد دراصل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک غیر موزوں بات زبان سے نکالنے کی جرات و گستاخی پر بطریق مبالغہ سرزنش کرنا ہے۔

 دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو یہ فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا تو ان الفاظ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد ان کے حقیقی معنی نہیں تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان الفاظ کے ذریعہ بطور کنایہ یہ فرمایا کہ کسی دوسرے شخص کی عاقبت کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خود میرا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں اور میری عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے مگر چونکہ عاقبت کا معاملہ علم غیب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں از راہ ادب اپنی عاقبت کے بارے میں بھی تصریح نہیں کر سکتا ہے اور یہ نہیں بتا سکتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔

 یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں لیکن کسی کی عاقبت اور انجام کار کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ کون شخص دنیا میں کس انجام کو پہنچے گا اور آخرت میں کس احوال سے دوچار ہو گا کیونکہ اس طرح کے احوال کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کی تفصیلی باتیں عالم الغیب (اللہ تعالیٰ) کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ گو اجمالی طور پر اتنا ضرور معلوم ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی عاقبت بخیر ہے ملا علیٰ قاری نے اسی احتمال کو صحیح لکھا ہے۔

 ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ مذکورہ ارشاد سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں اس دنیا سے کس طرح رخصت ہوں گا اور میری موت کن حالات میں واقع ہو گی، آیا اپنی موت سے مروں گا یا کوئی شخص مجھے قتل کر دے گا اسی طرح مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ جس طرح پچھلی امتوں پر خدا کا عذاب نازل ہوتا تھا اس طرح تم پر بھی کوئی ہلاکت خیز عذاب نازل ہو سکتا ہے یا نہیں؟

 اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی اس آیت کریمہ (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ) 48۔ الفتح:2) کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، چنانچہ پہ تو عاقبت کے بارے میں ابہام تھا کہ کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی تھی۔ مگر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد یہ ابہام دور ہو گیا اور یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عاقبت بخیر ہے۔

دوزخ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک مشاہدہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا معراج کی رات میں یا اور کسی موقعہ پر حالت خواب یا بیداری ہی میں میرے سامنے دوزخ کی آگ دکھانے کے لئے لائی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو جلتے ہوئے دیکھا جو بنی اسرائیل کی اہل ایمان میں سے تھی اس کو ایک بلی کے معاملہ میں عذاب دیا جا رہا تھا جس کو اس نے باندھ چھوڑا تھا، نہ تو اس کو کچھ کھانے پینے کے لئے دیا کرتی تھی اور نہ اس کو کھولتی ہی تھی کہ وہ چل کر حشرات الارض (یعنی چوہوں وغیرہ) میں سے کچھ کھا لے، اور آخر کار وہ بلی بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ نیز میں دوزخ میں عمرو بن عام خزاعی کو بھی دیکھا جو اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں کھینچ رہا تھا یہ وہ سب سے پہلا شخص تھا جس نے اونٹنی چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ (مسلم) )

 

تشریح

 

  سوائب اصل میں سائبۃ کی جمع ہے اور سائبہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں نذر وغیرہ کے لئے چھوڑی جاتی تھی چنانچہ اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی اونٹنی سارے بچے مادہ ہی مادہ جنتی، یا کوئی شخص دور دراز کے سفر سے واپس آتا، اور یا کوئی مریض صحت یاب ہوتا تو وہ اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیتے تھے کہ نہ تو اس پر سوار ہوتے اور نہ اس کا دودھ دوہتے، وہ جہاں چاہتی پھرتی، کوئی شخص اس کو اپنے گھاس پانی وغیرہ سے روکتا نہیں تھا، وہ لوگ اس کام کو ایک عبادت اور اپنے بتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ جانتے تھے، اس رسم کو سب سے پہلے جس نے جاری کیا وہ عمرو بن عام خزاعی تھا۔ علما نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے بت پوجنے کی رسم نکالی اور بت پرستی کو تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا وہ بھی یہی عمرو بن عامر تھا۔ بعض روایتوں میں یہ نام عمرو بن عامر کے بجائے عمرو بن لحی بیان کیا گیا ہے اور بظاہر یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے ہیں عامر تو اس کے باپ کا نام تھا اور لحی اس کے دادا کا نام تھا یا اس کے برعکس تھا کہ باپ کا نام تو لحی اور دادا کا نام عامر تھا چنانچہ کسی روایت میں باپ کی طرف نسب کر کے اور کسی روایت میں دادا کی طرف نسبت کر کے اس کا ذکر کیا گیا۔

 کرمانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ابھی سے دوزخ میں ڈالے جا چکے ہیں اور وہاں عذاب بھگت رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ارشاد گرامی کا تعلق اس بات سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دوزخ کا وہ احوال منکشف کیا گیا جو قیامت کے دن پیش آئے گا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی صورت دکھائی گئی کہ قیامت کے دن مذکورہ عورت اور عمرو بن عامر کو دوزخ میں اس طرح ڈالا جائے گا اور ان کو اس طرح عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

فسق و فجور کی کثرت پوری قوم کے لئے موجب ہلاکت ہے

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ہاں ایسی حالت میں تشریف لائے کہ جیسے بہت گھبرائے ہوئے ہیں پھر فرمانے لگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں۔ افسوس صد افسوس عرب کے اس شر و فتنہ پر جو اپنی ہلاکت آفرینی کے ساتھ قریب آ پہنچا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہو گیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگوٹھے اور برابر والی انگلی کے ذریعہ حلقہ بنایا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم اس صورت میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان صالح و پاکباز لوگ موجود ہوں گے ؟ کیا ہمارے درمیان خدا کے نیک بندوں کے وجود کی برکت ان فتنوں کے پھیلنے اور آفات و بلاؤں کے نازل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں تمہارے درمیان علما اور بزرگان دین کی موجودگی کے باوجود تمہیں ہلاکت و تباہی میں مبتلا کیا جائے گا جب کہ فسق و فجور کی کثرت ہو گی (یعنی جب معاشرہ میں برائیاں بہت پھیل جائیں گی اور ہر طرف فسق و فجور کا دور دورہ ہو گا تو ان برائیوں اور فسق و فجور کے سبب نازل ہونے والے فتنہ و آلام اور آفات کو صلحا اور بزرگوں کی موجودگی اور ان کی برکت بھی نہیں روک سکے گی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  شر سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد اس فتنہ و فساد اور قتل و قتال کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جس کی ابتدا مستقبل میں ہونے والی تھی اور جس کا شکار سب سے پہلے اہل عرب بننے والے تھے، چنانچہ قلب نبوت نے اہل اسلام کو افتراق و انتشار میں مبتلا کرنے والے جن واقعات کا بہت پہلے ادراک کر لیا تھا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا ان کے بارے میں پیش گوئی فرما دی تھی ان کی ابتدا خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سانحہ شہادت سے ہوئی اور جن کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے۔ بعض حضرات نے یہ مراد بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب اہل عرب کو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سبب دشمنوں کے مقابلہ پر فتوح حاصل ہوں گی، دوسرے ملکوں پر غلبہ و اقتدار حاصل ہو گا اور مال و دولت کی ریل پیل ہو گی تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ لوگوں کے خلوص وللہیت میں کمی آ جائے گی، حکومت و اقتدار اور مال و زر سے رغبت و محبت پیدا ہو جائے گی، دنیا طلبی و جاہ پسندی اور خود غرضی کا عفریت باہمی مخالفت و مخاصمت اور افتراق و انتشار کے ذریعہ پوری ملت کو متاثر کر دے گا۔

  حلقہ بنایا  یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ حلقہ بنا کر دکھایا کہ اس دیوار میں آج تک کبھی کوئی سوراخ نہیں ہوا تھا۔ لیکن آج اس میں اتنا بڑا سوراخ ہو گیا ہے جتنا کہ ان دونوں انگلیوں کے ذریعہ بنایا گیا حلقہ ہے۔ واضح رہے کہ اس دیوار میں سوراخ کا ہو جانا قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جس طرح کہ عرب اور اہل عرب میں فتنہ و فساد کا بیج پڑ جانا اور برائیوں کے پھیل جانا بھی قیامت کے قریب آ جانے کی ایک دلیل ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یاجوج ماجوج کی دیوار میں سوراخ ہو جانے کی بات کہہ کر گویا اس علاقہ سے اٹھنے والے ایک عظیم فتنہ اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پہنچنے والے سخت نقصان کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ چنگیزیت کی صورت میں اسی علاقہ سے اٹھا اور جس نے بڑی بڑی اسلامی حکومتوں کو نقصان پہنچایا یہاں تک کہ ہلاکو خان کی سربراہی میں تاتاری ترکوں کے سیلاب نے اسلامی خلافت کو بہا ڈالا، خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کیا بغداد کو لوٹ کر تباہ و تاراج کیا اور لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا اور پوری ملت اسلامیہ کو بڑی بڑی جہادوں سے دوچار کیا۔

 لفظ  خبث خ اور ب کے زبر کے ساتھ فسق و فجور اور کفر شرک کے معنی میں ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کے معنی بدکاری زنا کے ہیں حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی جگہ آگ لگتی ہے بھڑک اٹھتی ہے تو پھر وہ ہر ایک چیز کو جلا ڈالتی ہے کیا خشک اور کیا تر، ہر ایک کو بھسم کر دیتی ہے۔ حلال اور حرام، پاک اور ناپاک جو بھی چیز اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آتی ہے جل کر خاک ہو جاتی ہے، مومن اور کافر، موافق اور مخالف کسی کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو شخص بھی اس کی زد میں آ جاتا ہے راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اسی طرح عذاب الٰہی کا معاملہ ہے کہ جب کسی ملک میں، کسی علاقہ میں اور روئے زمین کے کسی حصہ پر برائیوں کا دور دورہ ہو جاتا ہے، بد کاریاں عام ہو جاتی ہیں فواحش کی کثرت ہو جاتی ہے اور فسق و فجور کا غلبہ ہو جاتا ہے اور اس کے سبب وہاں کے لوگوں پر خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر کسی کی کوئی تخصیص نہیں رہ جاتی، بدکار اور سرکش لوگ تو تباہ و برباد ہوتے ہیں نیکو کار و پاکباز لوگ بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ جب قیامت میں ساری مخلوق کو دوبارہ اُٹھایا جائے گا تو اس وقت ہر شخص کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق ہی سلوک ہو گا۔

 ایک نسخے میں لفظ خ کے پیش اور ب کے جزم کے ساتھ یعنی خبت منقول ہے جس کے معنی فواحش اور فسوق کے ہیں، ویسے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔

خسف اور مسخ کا عذاب اس امت کے لوگوں پر بھی نازل ہو سکتا ہے

حضرت ابو عامر رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے (یعنی ابو عامر یا ابو مالک نے) بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں کچھ ایسے گروہ اور طبقے بھی پیدا ہوں گے جو ریشمی کپڑے کو اور شراب کو اور باجوں کو حلال و جائز کر دیں گے اور ان میں سے کچھ لوگ بلند پہاڑ کے پہلو میں قیام کریں گے۔ یعنی وہ اپنے قیام کرنے کی جگہ ایسے مقامات پر بنائیں گے جو بلند و ممتاز اور نمایاں ہوں گے اور ان کی یہ ممتاز و نمایاں حیثیت دیکھ کر غریب و محتاج لوگ اپنی حاجتیں اور ضرورتیں لے کر ان کے پاس آیا کریں گے رات کے وقت ان کے مویشی (جو چرنے کے لئے گئے ہوں گے) پیٹ بھرے ہوئے واپس آیا کریں گے اور ان مویشیوں کو چرانے والا دودھ سے بھرا ہوا لے کر آئے گا لیکن جب کوئی شخص محتاج اپنی ضرورت لے کر ان کے پاس آئے گا اور یہ خواہش کرے گا کہ ان مویشیوں کے دودھ میں سے کچھ حصہ اس کی غذائی ضرورت پورا کرنے کے لئے لے جائے تو وہ اس کو یہ کہہ کر ٹال دیں گے کہ کل ہمارے پاس آنا، اور پھر رات ہی میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اس طرح نازل کرے گا کہ ان میں سے بعض پر تو پہاڑ کی چوٹی الٹ دے گا (تاکہ وہ اس کے نیچے دب کر تباہ و ہلاک ہو جائیں اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے اور ان میں سے بعض کی صورتوں کو مسخ کر کے بندر اور سور بنا دے گا جو قیامت تک اسی شکل و صورت میں باقی رہیں گے یا یہ کہ اس طرح کے بدکار لوگوں پر جو بھی عذاب نازل ہو گا وہ قیامت تک ان پر مسلط رہے گا)۔ (بخاری)

 اور مصابیح کے بعض نسخوں میں  الخز کے بجائے ح اور را کے ساتھ  الحر ہے اور ح کے زیر اور را کے جزم کے ساتھ  الحر  کے معنی عورت کی شرمگاہ کے ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ لوگ زنا و بدکاری کو حلال و جائز کر دیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کا حا اور را کے ساتھ یعنی  الحر نقل ہونا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کتابت کی غلطی ہے جو کاتب سے واقع ہو گئی ہے اصل میں یہ لفظ  خز' ہے (یعنی خ اور ز کے ساتھ)۔ حمیدی اور ابن اثیر نے اس حدیث کے سلسلہ میں اس معنی کی تصریح کی ہے۔ نیز حمیدی کی کتاب میں امام بخاری ہی سے جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اور اسی طرح خطابی نے شرح بخاری میں جو روایت نقل کی ہے ان دونوں میں (یروح علیہم بسارحۃ) کے بجائے یوں ہے تروح علیہم سارحۃ لہم یاتیہم لحاجۃ۔

 

تشریح

 

 یا حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس عبارت کے ذریعہ بخاری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے یہ شک و تردد ظاہر کیا ہے کہ اس حدیث کو یا تو حضرت ابو عامر اشعری نے نقل کیا ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعری کے چچا اور اکابر صحابہ میں سے ہیں یا اس روایت کو بیان کرنے والے حضرت ابو مالک اشعری ہیں جن کو اشجعی بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ایک مشہور صحابی ہیں، تاہم واضح رہے کہ کسی حدیث کے راوی کی حیثیت سے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قسم کا شک و تردد اس حدیث میں طعن کا موجب نہیں ہوتا کیونکہ صحابہ سب ہی ثقہ اور عدل ہیں، لہٰذا وہ حدیث جس صحابی سے بھی منقول ہو گی صحیح ہو گی۔

  خز (خ کے زبر اور ز کی تشدید کے ساتھ اس خاص کپڑے کا نام ہے جو پہلے زمانے میں ریشم اور اون سے بنا جاتا تھا اس وقت یہ کپڑا بہت مستعمل تھا یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین بھی اس کو پہنتے اور استعمال کرتے تھے لہٰذا علما لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں خز کا ذکر کر کے مذکورہ کپڑے کے استعمال کی جو ممانعت ظاہر فرمائی گئی ہے وہ شاید اس بنا پر ہے کہ اس کپڑے کو پہننے سے اہل عجم (غیر دیندار اور عیش پرستوں) کی مشابہت پیدا ہوتی ہے علاوہ ازیں وہ کپڑا اپنی بناوٹ اور قیمت کے اعتبار سے ایک ایسا لباس تھا جس کو دولت مند، عیش پسند لوگ اور اہل اسراف استعمال کرتے تھے، دوسری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس حدیث کا اصل محمول وہ  خز ہے جو اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں رائج نہیں ہوا تھا مگر بعد میں اس کا رواج ہوا۔ جس میں صرف ریشم ریشم ہوتا ہے اس اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد بطور معجزہ، غیب (زمانہ مستقبل کی بات کی) خبر دینے کے طور پر ہو گا، اور اس مطلب کو تسلیم کرنے کی صورت میں  خز پر حریمہ کا عطف تعمیم بعد تخصیص کے قبیل سے ہو گا۔

  معازف کے معنی عود و طنبورہ وغیرہ جیسے باجوں کے ہیں اور یہ لفظ  عزف یا  معزف کی جمع ہے ویسے  عزف اور  عزیف اصل میں جن کی آواز کو کہتے ہیں اور اس مخصوص آواز کو بھی کہتے ہیں جو رات کے وقت جنگل و بیابان میں سیٹوں کے مشابہ سنائی دیتی ہے جس کو ہوا کی سرسراہٹ اور اس کی آواز سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو مختلف شکوک و شبہات پیدا کر کے دور دراز کار تاویلیں کر کے اور لغو و مہمل نظائر دلائل کے ذریعہ ان چیزوں کو حلال کر لیں گے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے مثال کے طور پر بعض علما نے بیان کیا ہے کہ مر دوں کے لئے خالص ریشم کا کپڑا پہننا اور استعمال کرنا اس صورت میں حرام ہے جب کہ وہ بدن سے متصل ہو، یعنی اس کپڑے اور بدن کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ ہو، اگر وہ ریشمی کپڑا ابرے کے طور پر استعمال کیا جائے کہ بدن سے لگا ہوا جو کپڑا ہو وہ تو سوتی ہو اور اس کے اوپر کا کپڑا ریشمی ہو تو اس اس کے استعمال کی گنجائش ہے، یہ بات الگ ہے کہ اس قول کی تحقیق کیا ہے اور یہ کس مرد کو واضح کرتا ہے لیکن اگر اس قول کو بنیاد بنا کر مر دوں کے لئے مطلق ریشمی کپڑا پہننے اور استعمال کرنے کو جائز قرار دے لیا جائے اور لوگ بلا تکلف حریر و دیباج جیسے خالص ریشمی کپڑے پہننے لگیں تو یہ کھلی ہوئی گمراہی ہو گی، چنانچہ یہی ہوا کہ جب امرا اور عوام خالص ریشمی کپڑے استعمال کرتے اور اور ان سے کہا جاتا کہ مر دوں کے حریر و دیباج پہننا حرام ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر یہ حرام ہوتا تو فلاں عالم نے یہ بات کیوں کہی ہوتی اور فلاں فلاں بزرگ نے ریشمی کپڑا کیوں استعمال کیا ہوتا؟ اس طرح وہ لوگ ایک حرام چیز کو حلال جاننے اور سمجھنے کی نہایت سخت برائی اور گناہ میں مبتلا ہوئے۔ اسی طرح مزامیر کا معاملہ کہ بعض علما اور مشائخ کو سماع اور مزامیر سے تعلق رہا ہے جو اپنی جگہ پر ایک الگ بحث ہے اور اس کی تفصیل بہت طویل ہے اس بات سے قطع نظر کہ سماع و مزامیر سے ان کا تعلق کن حالت میں اور کن شرائط و پابندیوں کے ساتھ تھا، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے قول و فعل کو غلط طور پر بنیاد بنا کر لوگوں نے کس قدر گمراہیاں پھیلائی ہیں اور راگ رنگ باجے گاجے کی شیطانی مجلسوں کو  محفل سماع کے نام پر شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو نہ صرف حلال جانتے بلکہ ان کو نعوذ باللہ حصول ثواب کا ذریعہ ماننے کی گمراہی کو عام کیا گیا۔

 واضح رہے کہ ابن ابی الدنیا نے مذکورہ روایت کو آلات لہو یعنی مزامیر کی مذمت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح نقل کیا ہے کہ یکونن فی ہذہ المۃ خسف وقذف ومسخ ذلک او اشربوا الخمرواتخذت القینات وضربوا بالمعازف۔

 اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان چیزوں کو حلال جان کر ان کو اختیار کریں گے تو خسف و مسخ جیسے عذاب خداوندی میں گرفتار کئے جائیں گے۔

  نص علیہ الحمیدی الخ اس عبارت کے ذریعے مؤلف مشکوٰۃ نے حمیدی اور ابن اثیر کے قول کو بطور دلیل اختیار کر کے اس امر کی تائید کی کہ لفظ  الحر (ح اور ز کے ساتھ) واقعۃً کتابت کی غلطی ہے اور صحیح لفظ  الخز (خ اور ز کے ساتھ) ہی ہے، لہٰذا کسی کا یہ گمان کرنا کہ یہ لفظ ح اور ر کے ساتھ صحیح ہے حقیقت کے خلاف ہے تاہم مؤلف نے فی ہذا الحدیث کے الفاظ کے ذریعے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ یہ بحث صرف اس حدیث کے سلسلے میں ہے جو بخاری سے یہاں نقل کی گئی ہے، ویسے  الحر کا لفظ ایک دوسری روایت میں منقول ہے جس کو ابو داؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے چنانچہ طیبی نے اس حدیث کو اپنی شرح میں ذکر کیا ہے لیکن بخاری کے مشہور شارح علامہ بن حجر نے جو بات کہی ہے وہ مؤلف مشکوٰۃ کے مذکورہ قول کے منافی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ بخاری کی اکثر روایتوں میں یہ لفظ ح اور را کے ساتھ یعنی  الحر ہی ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اپنی جگہ پر دونوں روایتیں صحیح ہیں۔

  تروح علیہم بسارحۃ میں  سارحۃ تروح کا فاعل ہے اور یہ اس بات کا قریبہ ہے کہ پہلی روایت (جس کو مؤلف مشکوٰۃ نے یہاں نقل کیا ہے) کے لفظ  بسارحۃ میں حرف ب زائد ہے چنانچہ ترجمہ میں اسی کو محفوظ رکھا گیا ہے، اسی طرح ان دونوں کتابوں (کتاب حمیدی اور بخاری کی شرح خطابی) میں  یاتیہم لحاجۃ منقول ہوا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں کی نقل کردہ حدیث میں اس جملے میں رجل کا لفظ نہی ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان دونوں نے بھی رجل کا لفظ نقل تو کیا ہے لیکن  لحاجۃ کے بعد اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس امت کے لوگوں کو بھی خسف اور مسخ کے عذاب میں گرفتار کیا جا سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ امتوں کے لوگوں کی سرکشی اور بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو اس عذاب میں مبتلا کیا گیا، لہٰذا وہ احادیث کہ جو اس بات کی نفی میں منقول ہیں اور جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امت محمدیہ پر اس طرح عذاب نازل نہیں ہوں گے وہ یا تو اس امت کے ابتدائی زمانہ پر محمول ہیں اور آخری زمانہ ان کے دائرہ مفہوم سے باہر ہے اور یا اجتماعی طور سے پوری امت کے خسف و مسخ پر محمول ہیں، نہ کہ انفرادی طور سے بعض کے بارے میں نفی پر۔

عذاب الٰہی کا نزول

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو وہ عذاب ہر اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس قوم میں ہوتا ہے اور پھر آخرت میں لوگوں کو ان کے اعمال کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و سرکشی، فسق و فجور، ظلم و عصیان، خدا کے دین اور خدا کے دین کو ماننے والوں کے ساتھ بغض و نفرت اور تمسخر و استہزا اور وہ برائیاں حد سے زیادہ پھیل جاتی ہیں جو قہر خداوندی کو دعوت دیتی ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ تو وہ عذاب صالح و غیر صالح اور نیک و بد کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا بلکہ ہر اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جو اس قوم کے درمیان ہوتا ہے، اگرچہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے نیک و صالح بندوں کو اس عذاب سے محفوظ بھی رکھ لیتا ہے۔ لیکن تمام ہی لوگوں کا اس عذاب میں مبتلا ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اخروی انجام کے تعلق سے بھی وہ تمام لوگ ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہاں آخرت میں ہر شخص کے ساتھ اس کے اعمال ہی کے مطابق معمول ہو گا، جو شخص نیک و صالح رہا ہو گا اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا اور جو شخص بدکار و سرکش ہو گا وہ وہاں بھی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

اصل اعتبار خاتمہ کا ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن ہر بندہ کو اسی حال پر اٹھایا جائے گا ۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس حالت و حیثیت میں اس دنیا سے رخصت ہو گا اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھے گا اور اس کا اخروی انجام اسی کے مطابق ہو گا۔ اگر ایمان کی حالت میں مرا ہے تو ایمان ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو کفر ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر طاعت و عبادت کی حالت میں مرا ہے تو طاعت و عبادت گزار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اگر گناہ و معصیت کی حالت میں مرے گا تو نافرمان و گنہگار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اسی طرح اگر خدا کے ذکر کی حالت میں مرے گا تو ذاکر بندے کی حیثیت میں اٹھے گا اور اگر ذکر خداوندی سے غفلت و لاپرواہی کی حالت میں مرے گا تو غافل و لاپرواہ بندے کے طور پر اٹھے گا۔ غرض یہ کہ قیامت کے دن اٹھنے اور آخرت میں فلاح یاب ہونے یا نامراد قرار دیئے جانے کا مدار خاتمہ پر ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا آخر کیسا گزرے اور اس کا خاتمہ کس حالت میں ہو۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔

حکم مستوری ومستی ہمہ برخاتمہ است

کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گزرد

 تاہم بعض عارفین نے کہا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے تئیں حضوری و استغراق کا ملکہ حاصل کر لیتا ہے اور اس کے دل میں ذکر اللہ کا جو ہر جگہ پا لیتا ہے تو اگر موت کے وقت سختی و شدت کے سبب یا بیماری کے غلبہ اور بے تابی و اضطراب کی وجہ سے اس کے اندر استحضار و استغراق کی کیفیت میں کوئی کمی ٍو کوتاہی راہ پا جائے تو یہ چیز اس کے حق میں نقصان دہ نہیں ہو گی بلکہ جسم سے روح کی جدائی کے بعد اس کی وہ کیفیت و حالت لوٹ آئے گی۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ذکر خداوندی اور تعلق مع اللہ میں وہ ملکہ و کمال حاصل کیا جائے جو بہر صورت سرمایہ نجات ہے۔

انسان کی نادانی و غفلت کی ایک مثال

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شدت و سختی ہولناکی کے اعتبار سے میں نے دوزخ کی آگ کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس سے بھاگنے والا سوتا رہے اور سرور و شادمانی کے اعتبار سے میں نے جنت کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس کا طلب گار سوتا رہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی طاقتور دشمن کو اپنے لئے مضرت رساں اور ہلاکت میں مبتلا کرنے والا جانتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس دشمن کی طرف سے غافل نہیں رہتا اور اطمینان کی چادر تان کر سو نہیں جاتا بلکہ ہر وقت ہوشیار رہتا ہے اور جس قدر ممکن ہوتا ہے اس سے دور بھاگتا رہتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ دوزخ کی آگ، جو اپنی ہلاکت و آفرینی، سختی و شدت اور ہولناکی کے اعتبار سے بڑے سے بڑے طاقتور دشمن سے بھی زیادہ ہلاکت و نقصان پہنچانے کے درپے ہے لوگ اس کی طرف سے غافل پڑے رہتے ہیں اور اس سے دور بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے، اور اگر دور بھاگتے بھی ہیں تو عین بھاگنے کی حالت میں نیند و غفلت کی شکار ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دوزخ کی آگ سے دور بھاگنا اور اس کی طرف سے غفلت کا شکار نہ ہونا یہ ہے کہ انسان خدا شناسی و خدا ترسی کا راستہ اختیار کرے گناہ و معصیت کو ترک کر دے اور طاعت و عبادت کو لازم کرے۔

 اس طرح دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پسندیدہ و محبوب چیز کا طالب ہوتا ہے اور اس کو پوری طرح حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس چیز کی طلب و خواہش کی راہ میں کسی غفلت و سستی کا روا دار نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے اور وہ جتنی زیادہ سعی و کوشش کر سکتا ہے اس کے مطابق اس چیز کی طرف بھاگتا ہے اور اس کو پا لینا چاہتا ہے مگر کتنی عجیب بات ہے کہ جنت جو تمام تر خوبیوں، راحتوں شادمانیوں اور سعادتوں کا مرکز و مجموعہ ہے اس کی طرف سے انسان کس قدر غافل ہے اس کو پانے کی کوشش نہیں کرتا، اس کی طرف دوڑتا نہیں؟

 واضح رہے کہ جنت کو پانا اور اس کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ خدا اور خدا کے رسول کی رضا و خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی کا راستہ اختیار کیا جائے اور طاعت و عبادت میں غفلت و سستی نہ کی جائے۔

ایک نصیحت ایک آرزو

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے (یعنی قیامت کی علامتیں، قدرت کی کرشمہ سازیوں کی نشانیاں اور اللہ تعالیٰ کی صفات قہریہ و جلالیہ جس طرح میرے سامنے ہیں اور میں ان کو دیکھتا ہوں اس طرح نہ تمہارے سامنے ہیں اور نہ تم انہیں دیکھتے ہو، نیز احوال آخرت کے اسرار و اخبار، قیامت کی ہولناکیوں اور دوزخ کے عذاب کی شدت و سختی کی باتوں کو جس طرح میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے) آسمان میں سے آواز نکلتی ہے اور اس میں سے آواز کا نکلنا بجا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں فرشتے خدا کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کئے ہوئے نہ پڑے ہوں، خدا کی قسم اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقیناً تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رونے لگو۔ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لذت حاصل کرنا چھوڑ دو اور یقیناً تم خدا سے نالہ و فریاد کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل جاؤ جیسا کہ رنج اٹھانے والوں اور غموں سے تنگ آ جانے والوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور صحرا صحرا جنگل جنگل گھومتے پھرتے ہیں تاکہ زمین کا بوجھ کم ہو اور دل کچھ ٹھکانے لگے۔ حضرت ابو ذر نے یہ حدیث بیان کر کے ارادہ حسرت و دردناکی کہا کہ کاش میں درخت ہوتا جس کو کاٹا جاتا۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 لفظ  اطت دراصل  اط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں آواز نکالنا، پالان اور زین وغیرہ کا چڑچڑانا، اونٹ کا تعب کی وجہ سے بلبلانا، اس حدیث میں آسمان سے آواز نکلنے کی جو بات فرمائی گئی ہے اس کا مفہوم بالکل ظاہر ہے کہ فرشتوں کی کثرت و ازدہام اور ان کے بوجھ کی وجہ سے آسمان میں سے آواز نکلتی ہے جیسا کہ سواری کا جانور سواری کے بوجھ کی وجہ سے ایک خاص قسم کی آواز نکالتا ہے یا کسی تخت و پلنگ پر جب زیادہ لوگ بیٹھ جاتے ہیں تو وہ چڑچڑانے لگتا ہے یا آسمان میں سے نکلنے کا مطلب آسمان کا خدا کے خوف سے نالہ و فریاد کرنا ہے اور اس جملے کا مقصد یہ آگاہی ہے کہ جب آسمان ایک غیر ذی روح اور منجمد چیز ہوتے ہوئے اور مقدس ملائکہ کی قرار گاہ کی حیثیت رکھنے کے باوجود خوف الٰہی سے نالہ و فریاد کرتا ہے تو انسان کہ جو جاندار ہے اور گناہ و معصیت کی آلودگی رکھتا ہے، وہ کہیں زیادہ اس لائق ہے کہ خوف الٰہی سے گریہ و زاری اور نالہ و فریاد کرے۔ یہ معنی حدیث کے اصل مقصد سے زیادہ قریب اور مناسب تر ہیں۔

  اپنا سر سجدہ ریز کئے ہوئے نہ پڑے ہوں سے مراد فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کی عبادت و تابعدای میں مشغول ہونا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے تاکہ وہ بات بھی اس جملے کے دائرہ مفہوم میں آ جائے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر فرشتہ خدا کی عبادت و تابعداری میں مشغول ہے کہ کچھ تو قیام کی حالت میں عبادت گزار ہیں، کچھ رکوع کی حالت میں ہیں اور کچھ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں یا یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آسمان میں سے کسی خاص آسمان کا ذکر فرمایا ہے اور اس آسمان میں جو فرشتے ہیں وہ سب کے سب سجدہ کی ہی حالت میں پڑے ہوئے خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔

  صعدات اصل میں  صعد کی جعم ہے اور صعد جمع ہے صعید کی جیسے طرقات جمع ہے طرق کی اور طرق جمع ہے طریق کی۔ صعید کے لغوی معنی مٹی، راستہ اور زمین کے بلند حصے کے ہیں اور یہاں حدیث میں اس سے مراد جنگل ہے۔

  کاش میں درخت ہوتا  یعنی انسان ہونے کی حیثیت سے گناہوں اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا بڑا مشکل ہے شیطان ہر وقت پیچھے لگا رہتا ہے نہ جانے کب اس کا داؤ چل جائے گا اور گناہ و معصیت کا ارتکاب ہو جائے۔ جس کی وجہ سے خدا کی ناراضگی اور اس کا عذاب مول لینا پڑ جائے گا۔ لہٰذا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے یہ آرزو ظاہر کی کہ کاش میں انسان نہ ہوتا تاکہ کل قیامت کے دن گناہوں کی آلودگی کے ساتھ نہ اٹھتا۔ اور جس طرح ایک درخت کو کاٹ ڈالا جاتا ہے تو وہ سرے سے مٹ جاتا ہے، اسی طرح میں بھی ہوتا کہ مجھے کاٹ کر پھینک دیا جاتا اور میں آخرت میں ندامت و شرمندگی اور عذاب سے بچ جاتا۔ واضح رہے کہ اس طرح کی غمناک اور درد انگیز آرزوئیں دوسرے بڑے صحابہ سے بھی منقول ہیں، مثلاً ایک صحابی نے کہا تھا کہ کاش، میں بکری ہوتا جس کو لوگ کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ دوسرے صحابی نے کہا کاش میں پرندہ ہوتا کہ وہ جہاں چاہتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔ اس پر کوئی فکر اور کسی چیز کا دباؤ نہیں ہوتا یہ سب مقدس صحابہ وہ تھے جن کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی اور آخرت کے اعتبار سے ان کی عافیت کے بخیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا لیکن جب ان پاک نفس حضرات کے احساس اور فکر آخرت کا یہ حال تھا تو دوسروں کو کیا کہا جا سکتا ہے، اگرچہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وعدہ ہے کہ ہر مومن انشا اللہ مغفرت و بخشش سے نوازا جائے گا اور اس کی عاقبت بخیر ہو گی لیکن بارگاہ بے نیازی کا خوف ہی کمر توڑے ڈالتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے

کیا کیا نہ اپنے زہد و اطاعت پہ ناز تھا

بس دم نکل گیا جو سنا بے نیاز ہے

حکیمانہ نصیحت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اس کا دشمن رات کے آخری حصے میں دھاوا بولنے والا ہے تو وہ رات کے پہلے ہی حصے میں اپنے بچاؤ کا راستہ اختیار کر لیتا ہے تاکہ دشمن کی غارت گری سے محفوظ رہ سکے اور جو شخص رات کے پہلے حصے میں بھاگنا شروع کر دیتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے جان لو خدا کا مال بہت قیمتی ہے جو نہایت اونچی قیمت چکائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، اور وہ اونچی قیمت اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی ہے اور یاد رکھو خدا کا مال جنت ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  منزل سے مراد مطلوب و مقصود کو حاصل کر لینا ہے طیبی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان الفاظ کے ذریعے گویا آخرت کی مثال بیان فرمائی ہے کہ شیطان اس کی تاک میں ہے نفس اور اس کی باطل آرزوئیں اس شیطان کی مددگار ہیں اور اس طرح وہ اس شخص کی مانند ہے جس کا طاقتور اور عیار دشمن اس پر دھاوا بولنے کے لئے تیار کھڑا ہو اور انتظار کر رہا ہو کہ رات کا پچھلا پہر آئے تو تاریکی اور سناٹے میں اس پر حملہ کر کے اس کو غارت و تباہ کر دے، پس اگر وہ رہر و آخرت ہوشیار ہو جائے، راہ ہدایت پر ابتدا ہی سے چلنا شروع کر دے اور اپنے اعمال میں نیت کا اخلاص پیدا کر لے تو وہ یقیناً شیطان سے اور اس کے مکر سے محفوظ رہے گا۔ ورنہ وہ اتنا عیار دشمن ہے کہ جہاں ذرا سی غفلت دیکھتا ہے اپنے مددگاروں کو لے کر فوراً دھاوا بول دیتا ہے اور ہلاکت میں دال دیتا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس امر کی راہنمائی فرمائی کہ راہ آخرت پر چلنا نہایت دشوار، اور وہاں کی نعمتیں و سعادتیں حاصل کرنا سخت مشکل ہے، اس راستے میں ذرا سی غفلت و سستی بھی منزل کو دور سے دور کر دیتی ہے جب تک زیادہ سے زیادہ محنت و عمل اور سعی و کوشش نہیں کی جاتی وہ نعمتیں اور سعادتیں پوری طرح حاصل نہیں ہو سکتیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  جان لو خدا کا مال بہت قیمتی ہے کے ذریعے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

 حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مال یعنی جنت کی اگر کوئی قیمت ہو سکتی ہے اور اگر اس کو کسی چیز کے بدلے میں حاصل کیا جا سکتا ہے تو وہ خدا پرستی و خدا ترسی اور نیک اعمال کا سرمایہ ہے اگر خدا کی جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو نیکی کے راستے کو اختیار کرو، برائی کے نزدیک بھی نہ بھٹکو، اور زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرو۔ اسی مفہوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ کے ذریعے اشارہ فرمایا ہے۔ آیت(والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا وخیر املا)۔ اور جو اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی ہزار درجے بہتر ہے۔ اور فرمایا۔ آیت(ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ)۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔

ذکر اللہ اور خوف خداوندی کی فضیلت

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ کہ جس کا ذکر بہت با عظمت ہے (دوزخ پر متعین فرشتوں سے) فرمائے گا کہ اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس نے ایک دن بھی (یعنی کسی ایک وقت بھی) مجھ کو یاد رکھا ہے، یا کسی موقع پر مجھ سے ڈرا ہے۔ (ترمذی اور بیہقی نے اس روایت کو کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے

 

تشریح

 

  اس شخص سے مراد وہ مومن ہے جو مرتے وقت تک اخلاص کے ساتھ ایمان پر قائم رہا تھا لیکن گناہوں اور بد عملی کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا گیا تھا۔

  یا کسی موقع پر مجھ سے ڈرا ہے یعنی اس کی دنیاوی زندگی میں کوئی ایسا موقع آیا ہو جب وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے سے محض میرے خوف کی وجہ سے باز رہا ہو۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ آیت(واما من خاف مقامہ ربہ ونہی النفس عن الہوی فان الجنۃ ہی الماوی)۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہو گا اور نفس کو خواہش سے روکا ہو گا سو جنت میں اس کا ٹھکانا ہو گا۔

 طیبی کہتے ہیں کہ ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے مراد وہ  ذکر ہے جس میں زبان کے ساتھ دل بھی شریک ہو اور جس کو اخلاص کہتے ہیں، اخلاص کا مطلب یہ ہے خلوص دل اور صدق نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو ایک جاننا اور ماننا ورنہ یوں تو کافر بھی زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کے اس ذکر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا دل خدا کی وحدانیت اور صدق و اخلاص سے قطعاً خالی ہوتا ہے اس بات کی تائید حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔ من لاالہ الاّ اللہ خالصا من قلبہ دخل الجنۃ۔ جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ لا الہ الاّ اللہ کہا وہ جنت میں جائے گا۔

 واضح رہے کہ  خوف خداوندی سے مراد وہ خوف ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے اعضا جسم کو گناہوں سے باز اور طاعات و عبادات میں مشغول رکھے ورنہ ایسے خوف کا کوئی اعتبار نہیں جو پیدا تو ہو مگر اس کی کار فرمائی اعضا جسم پر ظاہر نہ ہو کہ نہ تو وہ گناہوں سے باز رکھے اور نہ طاعات و عبادات میں لگائے رکھے، بلکہ حقیقت میں اس کو خوف خداوندی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کو تو  حدیث نفس یعنی ایک ایسا وسوسہ اور ایک ایسی تحریک کہا جا سکتا ہے جو کسی ہولناک چیز کے اسباب و آثار دیکھنے کے وقت طبیعت پر طاری ہو جاتی ہے۔ اور جب وہ اسباب و آثار غائب ہو جاتے ہیں تو دل پھر غفلت میں پڑ جاتا ہے۔ مشہور بزرگ حضرت فضیل نے بڑی حکیمانہ بات کہی ہے کہ جب تم سے پوچھا جائے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو؟ تو اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کر لینی چاہئے کیونکہ اگر تم نے جواب میں کہا کہ نہیں، تو یقیناً کافر ہو جاؤ گے اور اگر کہا کہ ہاں، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے۔ گویا حضرت فضیل نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اصل میں خدا کا خوف تو وہی ہے جو اعضا جسم کو گناہوں میں ملوث ہونے قطعی باز رکھے۔

 بہرحال اس حدیث میں یہ بشارت ہے کہ جس مسلمان نے ایک بار بھی از راہ اخلاص خدا کو یاد کر لیا اور کسی ایک موقع پر بھی حقیقی معنی میں خدا کے عذاب کا خوف کھایا تو بالآخر خدا کا خوف کھایا تو بالآخر وہ دوزخ کے عذاب سے نجات پائے گا بلکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو دوزخ میں داخل ہی نہ کرے اور ابتدا جنت میں بھیج دے، بے شک آیت(یغفر لمن یشا ویعذب من یشا) اسی کی صفت اور شان ہے۔

ایک آیت کا مطلب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا۔ (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) 23۔ المؤمنون:60)۔ وہ لوگ کہ جو دیتے ہیں اور جو کچھ کر دیتے ہیں یعنی از قسم زکوٰۃ و صدقات، ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں و ترساں ہیں یعنی ان پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں اور اس کے حکم کی اتباع میں جو کچھ خرچ کیا ہے وہ قبول بھی ہو گا یا نہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ انفاق و ایثار شرائط و آداب کے مطابق واقع نہ ہو اور ہم الٹے وبال میں پڑ جائیں۔ اسی آیت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال یہ تھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا گنہگاروں ہی کا کام ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ صدیق کی بیٹی نہیں یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے اعمال کو شائد قبول نہ کیا جائے (اس کی دلیل آیت کے آخری الفاظ ہیں) آیت(اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ) 23۔ المؤمنون:61)۔ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں بایں طور کہ طاعات و عبادات کی طرف ان کی رغبت بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ سبقت کر کے ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حدیث میں جو آیت ذکر کی گئی ہے وہ آخر تک اس طرح ہے۔ آیت(وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ  60؀ۙ  اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ  61؀  23۔ المؤمنون:61-60) اس آیت کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال یہ تھا کہ اس میں جن لوگوں کے ڈرنے کا ذکر کیا گیا ہے ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور دوسری برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہی لوگوں کو ڈرنا چاہئے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پر واضح فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جو طاعات و عبادات کرتے ہیں اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل خود آیت کے آخری الفاظ ہیں۔

 واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیت میں دو قرأتیں ہیں، مشہور قرأت میں جو کہ قرا سبعہ کی قرأت ہے، یوتون کا لفظ ہے جو ایتا کا فعل مضارع ہے اسی طرح لفظ آتو ہمزہ کے مد کے ساتھ ہے جو ایتا کا فعل ماضی ہے اور اعطا بمعنی عطا یعنی دینے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی بیان کئے گئے ہیں اور دوسری قرأت میں جو کہ شاذہ ہے یہ لفظ یاتون مااتوا پڑھا گیا ہے جو ایتان سے مشتق ہے اور جس کے معنی کام کرنے کے ہیں، اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ وہ لوگ کہ جو کرتے ہیں اور جو کچھ کہ کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں و ترساں ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو سوال کیا وہ اس دوسری قرأت کے زیادہ مناسب ہے، لیکن نہ صرف یہاں مشکوٰۃ بلکہ اصل کتاب مصابیح میں بھی یہ لفظ پہلی قرأت ہی کے مطابق منقول ہے جب کہ زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ دوسری قرأت کے مطابق ہو۔ یہ تو طیبی کے منقولات کا خلاصہ تھا جس کو انہوں نے تفسیر زجاج اور کشاف سے نقل کیا ہے۔ ملاعلیٰ قاری نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر اس لفظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف قرأت شاذہ ہی کے مطابق منسوب کیا جائے تو بھی مراد یہ ہو گی کہ وہ لوگ کہ جو از قسم طاعات و عبادات کوئی عمل کرتے ہیں گویا اس سے وہ مراد نہیں ہو گی جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سمجھتی تھی کہ وہ لوگ جو از قسم معصیت کوئی عمل کرتے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس لفظ سے عام عمل کہ خواہ وہ از قسم طاعت ہو یا از قسم معصیت، مراد ہے کیونکہ آیت کے آخری الفاظ اولئک یسارعون فی الخیرات اس مراد کی تائید نہیں کرتے۔ حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد آیت(الذین یصومون) الخ آیت کے الفاظ (والذین یاتون مااتوا) کی واضح تفسیر و ترجمانی ہے۔ خواہ ان الفاظ کا تعلق دونوں قرأتوں میں سے کسی سے بھی ہو، زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک قرأت کے مطابق الفاظ میں ایک طرح کی تغلیب ہے لہٰذا مشہور قرأت کے تعلق سے یہ آیت جس طرح کے عمل کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ مالی عبادت ہے جب کہ قرأت شاذہ کے مطابق اس آیت کا تعلق بدنی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مشہور قرأت کے مطابق جو الفاظ ہیں ان کی تفسیر میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ کہ جو اپنے نفسوں میں سے وہ چیز دیتے ہیں جو طاعات و عبادات میں سے ہے یعنی محنت و مشقت برداشت کر کے نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں اور دوسری بدنی عبادتیں کرتے ہیں اور جو اپنے مال میں سے خدا کی راہ میں نکالتے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صدقہ و خیرات دیتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں و ترساں ہیں۔ اس تفسیر و وضاحت سے دونوں طرح کی عبادتیں اس آیت کے مفہوم میں داخل ہو جائیں گی۔

ذکر اللہ کی نصیحت و تلقین

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے اور فرماتے۔ لوگو اللہ کو اس کی وحدانیت ذات اور اس کی تمام صفات کے ساتھ یاد کرو، اللہ کو (یعنی اس کے عذاب و ثواب کو) یاد کرو (تاکہ تم اللہ کے تئیں خوف وامید کے درمیان رہو۔ اور ان لوگوں میں شمار کئے جاؤ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیت(تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا وطمعا)۔ زلزلہ آیا ہی چاہتا ہے (یعنی پہلا صور پھونکا ہی جانے والا ہے جس کے ساتھ ہی سب مر جائیں گے) اس کے پیچھے پیچھے وہ بھی آ رہا ہے جو پیچھے آنے والا ہے (یعنی پہلے صور کے بعد دوسرا صور بھی بس پھونکا ہی جانے والا ہے جس کی آواز پر سب دوبارہ زندہ ہو جائیں گے اور اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں جمع ہو جائیں گے۔ غرض یہ کہ ان الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقصد قیامت کی یاد دلانا، اور آخرت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ یہ چیز طاعات و عبادات اور ذکر اللہ میں مشغول رکھنے کا باعث ہو۔) موت اپنے سے وابستہ تمام احوال کے ساتھ آیا ہی چاہتی ہے، موت اپنے سے وابستہ تمام احوال کے ساتھ آیا ہی چاہتی ہے (ان الفاظ کا مقصد بھی یہ تنبیہ کرنا ہے کہ غفلت چھوڑ کر ہوشیار ہو جاؤ، تمہاری موت تمہارے سر پر تیار کھڑی ہے اور ان تمام چیزوں کے ساتھ جو کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد واقع ہونے والی ہیں، آیا ہی چاہتی ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  لوگو کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو مخاطب فرمایا جو چین کی نیند سو رہے تھے اور تہجد کی نماز اور ذکر اللہ سے غافل تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بیدار کیا تاکہ وہ لوگ ذکر اللہ اور تہجد کی نماز میں مشغول ہو۔ پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ آخر تہائی رات میں اٹھنا اور ذکر اللہ و نوافل میں مشغول ہونا مستحب مؤکدہ ہے، ایک نسخے میں اذکروا اللہ کے الفاظ تین مرتبہ نقل کئے گئے ہیں گویا تیسری مرتبہ کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی نعمتوں، اس کی عطا کی ہوئی راحتوں اور اس کی طرف سے پیش آنے والے ضرر و آلام کو یاد کرو۔

 جات الراجفہ (زلزلہ آیا ہی چاہتا ہے) میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آیت(يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ) 79۔ النازعات: 6) نیز اس جملے میں جات ماضی کا صیغہ اس زلزلے کے آنے (یعنی صورت پھونکے جانے) کے یقینی امر ہونے کی بنا پر استعمال کیا گیا ہے اور مفہوم وہی ہے جو ترجمے کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے یعنی وہ وقت بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لہٰذا موقع کو غنیمت جانو اور طاعات و عبادات کی طرف سبقت کر کے ایسی تیاری کر لو کہ اس کے احوال آسانی کے ساتھ گزر جائیں۔ اس ارشاد گرامی میں ایک لطیف نکتہ بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ سونا، در حقیت موت کا حکم رکھتا ہے جو پہلے صور پھونکے جانے کا اثر ہے اور بھاگنا دوسری مرتبہ صورت پھونکے جانے کے حکم میں ہے۔ لہٰذا یہ دونوں چیزیں یعنی سونا اور جاگنا گویا قیامت کی علامت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور قیامت کی یاد دلانے کا باعث ہیں۔

موت اور قبر کو یاد رکھو

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لئے مسجد شریف تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ گویا لوگ آپس میں کسی بات پر ہنس رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اس طرح ہنستے ہوئے دیکھ کر فرمایا۔ خبردار تم پر کونسی غفلت طاری ہے کہ اس طرح بے فکری کے ساتھ ہنسنے میں مشغول ہو اگر تم لذتوں کو فنا کر دینے والی چیز کا اکثر ذکر کرتے رہو تو وہ تم کو اس چیز یعنی زیادہ ہنسنے اور غافل لوگوں کی طرح کے کلام وگفتگو سے باز رکھے جس کو میں دیکھ رہا ہوں اور وہ یعنی لذتوں کو فنا کر دینے والی چیز موت ہے پس تم لذتوں کو فنا کر دینے والی چیز یعنی موت کو بہت یاد کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ قبر پر ایسا کوئی دن (یعنی ایسا کوئی وقت اور زمانہ نہیں گزرتا جس میں وہ زبان قال یا زبان حال سے یہ نہ کہتی ہو کہ میں غربت کا گھر ہوں (یعنی میں ایک ایسی دور دراز اور ویران و سنسان جگہ کی طرح ہوں جہاں جو بھی آ جاتا ہے وہ اپنے عزیز و اقارب، اپنے متعلقین اور اپنے گھر والوں سے ناقابل عبور مسافت کی دوری پر جا پڑتا ہے۔ لہٰذا اے انسان تجھ کو لازم ہے کہ تو دنیا میں اس طرح رہ جس طرح کوئی مسافر اپنے عزیز و اقارب اور گھر والوں سے دور مسافرت کی حالت میں ہوتا ہے۔ میں تنہائی کا گھر ہوں (یعنی ایک ایسا گھر ہوں جس میں تنہائی اور وحشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، ہاں جو لوگ اللہ رب العزت کی وحدانیت کا نور لے کر آتے ہیں وہ بے شک تنہائی محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہی نور ان کا رفیق ودم ساز بن جاتا ہے) میں خاک کا گھر ہوں (یعنی میں اس مٹی کا گھروندہ ہوں جو ہر جاندار کی اصل اور بنیاد ہے پس جس کی اصل اور جس کا مرجع مٹی ہو اس کی شان یہی ہے کہ مسکین و خاک نشین رہے، تاکہ مٹی کے ساتھ اس کی مناسبت ہر وقت ہر وقت تازہ رہے) میں کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں (پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) جب کسی مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو جس طرح کہ کوئی خوش اخلاق میزبان اپنے کسی عزیز مہمان کی آمد کے وقت کلمات ترحیب کے ذریعے اس کا استقبال کرتا ہے اسی طرح قبر بھی اس بندہ مومن کا استقبال کرتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ خوش آمدید تم ایک اچھی کشادہ آرام کی جگہ اور اپنے ہی مکان میں آئے ہو، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم میرے نزدیک ان لوگوں میں سب سے زیادہ پیارے تھے جو مجھ پر چلتے ہیں پس آج جب کہ میں تم پر حاکم و قادر بنائی گئی ہوں اور تم میرے مجبور و مقہور ہوئے ہو تو تم عنقریب میرے اس نیک سلوک کو دیکھو گے۔ جو میں تمہارے ساتھ کروں گی یعنی میں تمہارے لئے کشادہ و فراخ ہو جاؤں گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس کے بعد وہ قبر اس بندے کے لے کشادہ وفراخ ہو جاتی ہے اور وہ کشادگی و فراخی اس کو اپنی حد نظر تک معلوم ہوتی ہے اور پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے (جس میں سے وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا رہتا ہے اسی دروازے سے گزر کر اس تک ٹھنڈی اور مشکبار ہوائیں آتی ہیں اور وہ جنت کے مکانات، حوریں، نہریں میوے اور درخت اور دوسری روح افزا نعمتیں دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتا ہے اور جب کوئی بندہ فاسق یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو جس طرح کوئی شخص اپنے یہاں آئے ہوئے نا آشنا وغیرہ عزیز اور بن بلائے مہمان کے ساتھ بے رخی اور بے مروتی کا برتا کرتا ہے اسی طرح قبر بھی اس کافر کو جھڑکتی ہے اور کہتی ہے کہ نہ تو تیرا آنا مبارک اور نہ تو اچھی کشادہ آرام کی جگہ اور اپنے مکان میں آیا ہے۔ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تو میرے نزدیک ان لوگوں میں سب سے برا تھا جو مجھ پر چلتے ہیں پس آج جب کہ میں تجھ پر حاکم و قادر بنائی گئی ہوں اور تو میرا مجبور ومقہور ہوا ہے تو جلد ہی دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور پھر قبر اس کو دباتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پسلیوں کی صورت حال دکھانے کے لئے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور بتایا کہ اس طرح قبر کے دبانے کی وجہ سے اس کافر کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کافر پر ستر اژدھا مسلط کر دئیے جاتے ہیں اور وہ ایسے اژدھا ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک اژدہا بھی زمین پر پھنکار مار دے تو وہ زمین جب تک کہ دنیا باقی ہے سبزہ اگانے کے قابل نہ رہے، وہ اژدھا اس کافر کو کاٹتے اور نوچتے ہیں۔ اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اس بندہ کو قیامت کے دن حساب کے لئے نہ لے جایا جائے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا اس میں کوئی شک نہیں کہ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 لذت کو فنا کر دینے والی چیز کو بہت یاد کیا کرو یہ درحقیقت غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کے لئے ایک بڑی اور مؤثر نصیحت ہے اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ موت کو یاد کرنا غافل کے دل کو زندہ کرتا ہے، حضرت شیخ عارف باللہ مولانا نورالدین علی متقی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک تھیلی نما چیز بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے جس پر  موت کا لفظ لکھا ہوا ہوتا تھا، جب کوئی شخص ان کا مرید ہوتا تو وہ اس تھیلی کو اس مرید کی گردن میں لٹکا دیتے تھے تاکہ اس کے دل پر ہر وقت یہ احساس طاری رہے کہ موت بالکل قریب ہے،دور نہیں ہے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ گویا اس طریقہ سے سالکین طریقت کی تربیت فرماتے تھے اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ کسی وقت غافل نہ ہوں اور بیداری کے ساتھ طاعت و عبادت اور ذکر اللہ میں لگے رہیں۔ اسی طرح ایک بہت نیک اور خدا ترس بادشاہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے اعیان سلطنت میں سے کسی ایک کو اس خدمت پر مامور رکھتے تھے کہ وہ ہر وقت ان کے پیچھے کھڑا رہے اور الموت الموت کہتا رہے تاکہ دل کو خدا کی طرف سے غافل ہونے کا موقع ہی نہ ملے اور ہر طرح کی روحانی بیماری کا علاج ہوتا رہے۔

 فانہ لم یات الخ کے ذریعے گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حکم کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرنا چاہئے

  اور میں کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں یعنی میں ایک ایسا مکان ہوں جس میں آنے والا انسان کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے، پس اے انسان، تیرے لئے یہ بات کیسے مناسب ہو سکتی ہے کہ تو کھانے پینے کی چیزوں کو لذت اور عمدگی کو جویا ہو اور تیری خواہش و ارادہ ایک ایسے جسم کو اعلیٰ قسم کے طعام و مشروبات کے ذریعے بنانے اور لذت پہنچانے میں منہمک ہو جس کو آخر کار فنا ہو جانا ہے اور حقیر کیڑے مکوڑے کی خوراک بننا ہے ہاں جو چیز یہاں تیرے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے وہ صرف نیک عمل ہے، اگر اچھے اعمال کا سرمایہ لے کر میری آغوش میں آئے گا تو یقیناً تجھے فائدہ پہنچے گا۔ اسی وجہ سے قبر کو اعمال کا صندوق کہا گیا ہے۔ بعض حضرات نے حجر میں پیدا ہونے والے کیڑوں کے بارے میں یہ تحقیق بیان کی ہے کہ جب جسم میں سڑاند پیدا ہوتی ہے تو اس سڑاند اور بدبو سے کیڑے پیدا ہوتے ہیں اور اس جسم کو کھا کھا کر زندہ رہتے ہیں، پھر جب وہاں ہڈیوں کے ڈھانچہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا تو وہ کیڑے آپس میں ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ آخر میں ایک کیڑا باقی رہ جاتا ہے اور پھر وہ بھی بھوک کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ قبروں میں کیڑے مکوڑوں کی خوراک بننے اور زمین کے کھانے سے انبیا، شہدا اور اولیا کے اجسام محفوظ رہتے ہیں، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے۔ حدیث(ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء) اور شہدا کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آیت(ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیا عند ربہم) رہی بات ان علما با عمل کی جن کو اولیا اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے تو جب شہدا کو یہ فضیلت حاصل ہے تو ان علما کو بدرجہ اولیٰ حاصل ہو گی کیونکہ ان کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند شہدا کے خون سے افضل ہے۔

  بندہ فاسق سے فسق و فجور میں اکمل ترین فرد، یعنی کافر مراد ہے۔ اس کا قرینہ مقابلہ کا لفظ مومن ہے۔ نیز ایک قرینہ اس کے حق میں قبر کا یہ کہنا بھی ہے کہ تو میرے نزدیک ان لوگوں میں سب سے برا تھا جو مجھ پر چلتے ہیں۔ اس کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں فاسق سے کافر مراد لیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت(اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كَانَ فَاسِقاً) 32۔ السجدہ:18) علاوہ ازیں یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ قرآن و حدیث کا اسلوب اور معمول بھی یہی ہے کہ برزخ و آخرت کے بارے میں جب کوئی حکم و فیصلہ بیان کیا جاتا ہے تو اس کے دو ہی فریق ہوتے ہیں ایک تو مومن اور دوسرا کافر جہاں تک فاسق مومن کا تعلق ہے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے اور یہ سکوت اختیار کرنا یا تو اس کی پردہ پوشی کے نقطہ نظر سے ہوتا ہے یا اس لئے کہ اس کو خوف و رجا کے درمیان رکھا جائے نہ کہ اس کا مقصد اس کو دونوں مرتبوں یعنی کفر و ایمان کے درمیان ایک الگ تیسرے مرتبہ پر رکھنا ہے جیسا کہ معتزلہ نے غلط گمان کیا ہے۔

  اس کافر پر ستر اژدھے مسلط کئے جاتے ہیں میں  ستر کا عدد یا تو تحدید کے لئے ہے کہ اس متعین تعداد میں اژدھے اس پر مسلط کئے جاتے ہیں یا اس عدد سے کثرت مراد ہے جس کا مقصد اس مفہوم کو ادا کرنا ہے کہ اس پر بہت زیادہ اژدھے مسلط کئے جاتے ہیں۔ ایک دوسری روایت سے اس دوسرے احتمال کی تائید ہوتی ہے جو کہ قبر میں کافر پر عذاب کئے جانے کے سلسلے میں منقول ہے اور جس میں فرمایا گیا ہے کہ کافر پر اس کی قبر میں ایک کم سو اژدھے مسلط ہوں گے۔

آخرت کے خوف نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جلد بوڑھا کر دیا تھا

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صحابہ نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! آپ تو بوڑھے ہو گئے یعنی بڑی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی آپ پر بڑھاپے کے اثرات ظاہر ہو گئے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے مجھ کو بوڑھا کر دیا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 یعنی سورہ ہود اور ان جیسی سورتوں میں قیامت اور آخرت کے عذاب کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ ان کے مضمون دیکھ دیکھ کر اپنی امت کی طرف سے یہ غم مجھے کھائے جا رہا ہے کہ نہ معلوم میری امت کے لوگوں کا کیا حشر ہو گا، یہی غم کھاتے کھاتے میرا یہ حال ہو گیا ہے۔

 

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تو بہت جلد بوڑھے ہو گئے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورہ مرسلات، عم یتسا لون اور اذالشمس کورت اور ان جیسی دوسری سورتوں نے (کہ جن میں قیامت اور اس کے احوال کا ذکر ہے) مجھ کو بڑی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا ہے۔ (ترمذی)

 اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت لایلج النار الخ کتاب الجہاد میں نقل کی جا چکی ہے

صحابہ رضی اللہ عنہم کا کمال احتیاط و تقویٰ

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں لیکن ہم ان کاموں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں موبقات یعنی ہلاک کرنے والے کاموں میں شمار کرتے تھے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ایسے ایسے کام کرتے ہو اور ایسی ایسی چیزیں اختیار کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بہت معمولی درجہ کی اور بہت حقیر ہیں، زیادہ سے زیادہ تم ان کو مکروہات میں شمار کرتے ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کام اور وہ چیزیں بڑی نقصان دہ ہیں اور بڑی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ہم لوگ ایسے کاموں میں شمار کرتے تھے جو اخروی انجام کے اعتبار سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں۔

 

 

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عائشہ! تم اپنے آپ کو ان گناہوں سے بھی دور رکھو جن کو بہت معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان گناہوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مطالبہ کرنے والا بھی ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

  مطالبہ کرنے والا بھی ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے گناہوں پر ایک طرح کا عذاب مقرر ہے جو ان گناہوں کے مرتکبین کو اپنی گرفت میں لیتا ہے پس گویا خود وہ عذاب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اللہ کے مطالبہ کو رد نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے لفظ  طالبا  میں تنوین اظہار تعظیم کے لئے ہے اور جملے کے اعتبار سے طالبا عظیما کے مفہوم میں ہے لہٰذا یہ بات کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اس امر سے غافل رہے جیسا کہ اکثر لوگ ایسے ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو کہ جو صغیرہ گناہ کے حکم میں ہوتے ہیں، بہت سہل جانتے ہیں اور ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو توبہ و استغفار کے ذریعے ان گناہوں کا تدارک کرتے ہیں اور نہ ان کی وجہ سے کسی خوف و ڈر میں مبتلا ہوتے ہیں نیز وہ اس بات سے بھی غافل رہتے ہیں کہ کسی چھوٹے چھوٹے سے گناہ پر اصرار (یعنی اس کو بار بار کرنا اور اس سے اجتناب نہ کرنا صغیرہ گناہ نہیں رہتا بلکہ گناہ کبیرہ کے حکم میں آ جاتا ہے اور ویسے بھی ہر گناہ صغیرہ اللہ کی عظمت و کبریائی کی نسبت سے کبیرہ ہی ہے جس کا تھوڑا سا حصہ بھی بہت بڑا بن جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کبھی کبیرہ گناہ کو تو معاف کر دیتا ہے اور صغیرہ گناہ پر عذاب دیتا ہے جیسا کہ اس کے ارشاد آیت(ویغفر مادون ذالک لمن یشا) سے مفہوم و مستفاد ہوتا ہے۔ جہاں تک قرآن کی اس آیت کریمہ کا تعلق ہے آیت(اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ) 4۔ النسا:31) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے صغیرہ گناہوں کو تمہاری ان عبادتوں کے ذریعے دھو ڈالیں گے جو گناہ کو مٹا دیتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ سرے سے گناہ سے اجتناب کرو خواہ وہ صغیرہ ہو یا گناہ کبیرہ ہو۔ گویا اس آیت میں شرط کا تعلق محض کبیرہ گناہوں سے بچنے سے نہیں ہے جیسا کہ معتزلہ نے گمان کیا ہے بلکہ اس شرط کا تعلق مطلق گناہ سے ہے۔

 ایک اور روایت میں کہ جس کو احمد اور طبرانی نے نقل کیا ہے یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ کیونکہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو کسی کھائی میں اترے اور وہاں انہوں نے ایک ایک لکڑی ایندھن جمع کیا اور پھر اپنی روتی پکائی اسی طرح صغیرہ گناہوں کا مرتکب چھوٹے چھوٹے گناہ کر کے اتنے وبال جمع کر لیتا ہے کہ آخر اس کے پاپ کی ناؤ بھر جاتی ہے اور وہ غرق ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہ کرنے والے کو پکڑ لیتا ہے تو پھر اس کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے کیا کہا

حضرت ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری (جو اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر مجھ سے کہنے لگے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمہارے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری) سے کیا کہا تھا؟ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا کہ ابو موسیٰ کیا یہ بات تمہارے لئے خوش کن ہے کہ ہمارا اسلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے ملا ہوا تھا) ہماری ہجرت جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی، ہمارا جہاد جو آپ کے ساتھ تھا اور ہمارے سارے اعمال (یعنی نماز، روزے، زکوٰۃ حج اور اس طرح کے دوسرے عبادتی اعمال جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے، وہ سب ہمارے لئے ثابت و برقرار رہیں اور ہم نے جو اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کئے ہیں وہ اگر ہم سے برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو ہماری نجات کے لئے کافی ہیں تمہارے والد نے یہ سن کر میرے والد سے کہا کہ نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جہاد کیا ہے، نمازیں پڑھیں ہیں، روزے رکھے ہیں اور دوسرے بہت نیک اعمال جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ کئے ہیں اور بہت سے لوگ ہمارے ہاتھوں پر یعنی ہماری وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں اور یقیناً ہم مذکورہ چیزوں کا اجر و ثواب پانے کی امید رکھتے ہیں جو ہمارے پہلے اعمال کے ثواب میں اضافہ ہی کریں گے میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری بات صحیح ہے لیکن میں تو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ہم نے جو اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کئے ہیں وہ ثابت و برقرار رہیں اور جو اعمال ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کئے ہیں ان سے برابر سرابر چھوٹ جائیں۔ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارے والد، خدا کی قسم میرے والد سے بہتر تھے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 برابر سرابر چھوٹ جائیں ان الفاظ کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اعمال اختیار کئے جو نیک کام کئے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس زمرے میں رکھے گئے آیا وہ قبول کئے گئے یا ان کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، اس صورت میں ہماری یہ تمنا ہی بہتر ہے کہ ان اعمال کا نہ تو ہمیں کوئی نفع پہنچے نہ نقصان، نہ ان پر ثواب ملے اور نہ وہ عذاب کا موجب بنیں گویا اگر وہ اعمال ہمارے لئے ثواب کا موجب نہیں بن سکتے تو خدا کرے وہ ہمارے حق میں عذاب کا بھی سبب نہ ہوں۔

طاعت ناقص، موجب غفراں نشود

راضیم گر مدد علت عصیاں نشود

 چنانچہ ہم نے جو اعمال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سایہ تربیت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت کی نورانیت کے سبب کئے ہیں اور بجا طور پر ان کی قبولیت کا گمان رکھتے ہیں، اگر وہی ثابت و برقرار رہیں تو زہے سعادت، اور جو اعمال ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کئے ہیں اور وہ نقصان و خرابی سے خالی نہیں تھے، اگر ان سے ہم برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو یہی بہت غنیمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس احساس کی بنیاد دراصل اس حقیقت پر تھی کہ اتباع کرنے والا علم و عمل کے تئیں اعتقاد و اخلاص میں حجت و فساد کا خود ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے متبوع کی ذمہ داری کے تحت ہوتا ہے، جیسا کہ مقتدی کی نماز کا معاملہ ہے کہ اس کی نماز کا صحیح ادا ہونا امام کی نماز کے صحیح ادا ہونے پر انحصار رکھتا ہے کہ اگر امام کی نماز صحیح ادا نہیں ہوئی تو مقتدی کی نماز بھی صحیح ادا نہیں ہو سکتی، اسی طرح مقتدی کی نماز کا فاسد امام کی نماز کے فاسد ہونے پر انحصار رکھتا ہے لہٰذا جو اعمال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی راہنمائی میں ادا ہوئے ان کا صحت و خوبی کے ساتھ ادا ہونا اور درجہ کمال تک پہنچنا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح جو عبادتی اعمال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد وقوع پذیر ہوئے ان کا نیتوں کے غیر اور حالات کی خرابی سے متاثر ہونا بعید از امکان نہیں، چنانچہ اس بات کا اقرار تو خود صحابہ کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہم نے ابھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد اپنے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے اور ہنوز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سپرد خاک کرنے میں مشغول ہی تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں ایک بڑا تغیر محسوس کیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ آفتاب نبوت کے غروب ہو جانے سے پوری کائنات پر جو اندھیرا پھیلا اس نے ان صحابہ کے قلوب کو بھی متاثر کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ ہم زمانہ رسالت پناہ میں ایمان و اخلاص اور یقین و اعتقاد کے جس مقام پر تھے اب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس مقام سے نیچے آ گئے۔ چنانچہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ہم نے جو عبادت اعمال کئے، ان سے برابر سرابر بھی چھوٹ جانا ہمارے حق میں بڑا غنیمت ہے تو انہوں نے یقیناً بڑی عارفانہ بات فرمائی۔ واضح رہے کہ اس بات کا تعلق جب ان پاک نفوس سے جو جلیل القدر صحابہ تھے اور جو اپنے ایمان و اعتقاد اور عمل و کردار کے اعتبار سے پوری امت سے افضل فرد تھے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے، اور ان کا کیا ٹھکانا ہو گا جو ان پاک نفسوں کے بھی بعد اس دنیا میں آئے اور ان کی طاعات و عبادات عجب و غرور اور ریا وغیرہ سے بھری ہوئی ہیں؟ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر اپنا فضل و کرم اور رحمت خاص کا سایہ کرے یعنی بدکاروں کو اپنے نیک بندوں کے طفیل میں حسن عاقبت سے نواز دے، ویسے تو بعض عارفین نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ گناہ و معصیت جو بندے میں ندامت و شرمندگی اور ذلت و خواری کا باعث ہو اس طاعت و عبادت سے بہتر ہے جو خود بینی خود نمائی اور تکبر و غرور میں مبتلا کر دے۔

 روایت کے آخری جز یعنی حضرت ابو بردہ کے اس قول  تمہارے والد خدا کی قسم، میرے والد سے بہتر تھے  کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے والد اتنی عظیم القدر ہستی ہونے اور اتنے زیادہ اعمال وفضائل کے حامل ہونے کے باوجود خوف ودہشت کے اس مقام پر تھے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ میرے والد سے کہیں زیادہ بہتر ہوئے اور ان کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہو گا، یا یہ مراد ہے کہ اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے والد باوجودیکہ میرے والد سے برتر و افضل تھے لیکن وہ آخرت کے معاملے میں اس قدر خوف زدہ تھے؟ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا معاملہ بہت نازک ہے۔

نو باتوں کا حکم

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے رب نے مجھ کو نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ظاہر و پوشیدہ ہر حالت میں اللہ سے ڈرا جائے (یعنی دل میں بھی خدا کا خوف سمایا ہوا ہو، اور ارتکاب معصیت سے اجتناب کی صورت میں اعضا جسم پر بھی خوف خداوندی کا اثر ظاہر ہو، یا یہ کہ خواہ تنہائی ہو یا لوگوں کی موجودگی، ہر حالت میں وہی کام کرنا چاہئے جو خوف خداوندی کا مظہر ہو) دوسری بات یہ کہ سچ بولا جائے خواہ غصہ کی حالت ہو یا رضامندی کی (یعنی بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب کسی سے راضی و خوش ہوتے ہیں تو اس کی تعریف کرتے ہیں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اس کے عیوب کو چھپاتے ہیں اور جب کسی سے غصے و ناراض ہو جاتے ہیں تو اس کی برائی کرتے ہیں اس کی ہر بات کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے عیوب کو اچھالتے ہیں، یہ بات مناسب نہیں ہے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ غصہ اور خوشی دونوں حالت میں اپنی زبان کو حد اعتدال پر رکھا جائے اور وہی بات کہی جائے جو حقیقت کے عین مطابق اور عین سچائی ہو) تیسری بات یہ ہے کہ فقر و غربت، اور ثروت و مالداری دونوں حالت میں میانہ روی اختیار کی جائے (یعنی خواہ فقر و غربت کی حالت ہو ثروت و مالداری کی، بہر صورت راہ اعتدال پر قائم رہا جائے کہ فقر و غربت کی حالت میں تو غصہ، تلخی اور جزع و فزع اختیار نہ کیا جائے اور ثروت مالداری کی حالت میں تکبر و سرکشی اور اونچا اڑنے سے اجتناب کیا جائے یا یہ معنی ہیں کہ رزق اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں بس اسی مقدار میں طلب کرے جو اعتدال کی حد تک ہو، نہ تو فقر و افلاس کی حد تک تنگی و سختی برداشت کرے اور نہ عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرے) چوتھی بات یہ کہ میں اس شخص سے قرابت داری کو قائم رکھو جو مجھ سے قطع تعلق کرے (یعنی مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اگر میرا کوئی عزیز و رشتہ دار مجھ سے بدسلوکی کرے اور قرابت داری کا تعلق ختم کرے تو میں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کروں اور اس کے ساتھ قرابت داری کو قائم رکھنے کی کوشش کروں۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصف علم و بردباری اور کمال تواضع و مروت کی آئینہ دار ہے) پانچویں بات یہ کہ میں اس شخص کو (بھی) اپنی عطا و بخشش اور جود و سخاوت سے نوازوں جو مجھے (اپنے لین دین سے) محروم رکھے، چھٹی بات یہ کہ میں انتقام لینے کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود اس شخص کو معاف کروں جو مجھ پر ظلم و زیادتی کرے، ساتویں بات یہ کہ میرا چپ رہنا عبادت کا ذریعہ ہو (یعنی جب میں خاموشی کی حالت میں ہوں اور کسی کے ساتھ بات چیت یا زبان کے ذریعے تبلیغ میں مشغول نہ ہوں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات اس کی قدرت کی کرشمہ سازیوں اور اس کے کلام کے معانی و مطالب میں غور و فکر اور استغراق و انہماک رکھو، آٹھویں یہ کہ میرا بولنا ذکرا للہ کا مظہر ہو (یعنی جب میری زبان جاری ہو اور میں بولوں تو اللہ کی بات کروں کہ اس کا تعلق خواہ تسبیح وتحمید اور تکبیر و توحید سے ہو یا تلاوت کلام اللہ اور اس کے بندوں کو تعلیم و تلقین اور تذکیر و نصیحت سے) اور نویں بات یہ کہ میری نظر عبرت پذیری کے لئے ہو (یعنی جب میں خدا کی کسی مخلوق کی طرف دیکھوں تو میرا وہ دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لئے اور توجہ و ہوشیاری کے ساتھ ہو، نہ کہ نادانی و غفلت کے ساتھ، نیز میرے پروردگار نے مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ میں بندگان خدا کو نیکی کی تلقین و تبلیغ کروں اور ایک روایت میں  بالمعروف کا لفظ ہے۔ (رزین)

 

تشریح

 

 آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ایک روایت میں  بالعرف کے بجائے  بالمعروف' کا لفظ ہے اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی  اچھی بات ۔  رہی یہ بات کہ جب امر بالمعروف کا ذکر کیا گیا ہے تو نہی عن المنکر کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کا لفظ عام ہے جس کے دائرہ میں نہی عن المنکر کا مفہوم بھی آ جاتا ہے، چنانچہ جب صرف امر بالمعروف کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد پورا مفہوم ہوتا ہے یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔

 واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امر بالمعروف کے حکم کا جو ذکر فرمایا ہے وہ مذکورہ باتوں کے حکم کے علاوہ ہے اور یہ حکم جامعیت کا حامل ہے کہ اس کے دائرہ مفہوم میں خالق و مخلوق سے متعلق تمام ہی اچھی باتیں اور طاعات آ جاتی ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد پھر علیحدہ سے بطریق اجمال ذکر فرمایا۔

خوف الٰہی سے گریہ کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہر وہ بندہ مومن جس کی آنکھوں سے خدا کے خوف میں آنسو نکلیں اگرچہ وہ آنسو مکھی کے سر کے برابر (یعنی بہت معمولی مقدار میں) کیوں نہ ہوں اور پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے وجیہ (خوبصورت) پر پہنچیں تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ (ابن ماجہ)