مشکوٰة شر یف

لیلۃ القدر کا بیان

لیلۃ القدر کا بیان

اس باب میں لیلۃ القدر کی عظمت و فضیلت اور ان اوقات کا بیان ہو گا جن میں اس مقدس رات کے آنے کی قوی امید ہوتی ہے یہ شب لیلۃ القدر اس لیے کہلاتی ہے کہ بندوں کے رزق ان کی زندگی و موت اور وہ واقعات و امور جو پورے سال رونما ہونے والے ہوتے ہیں وہ اسی رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس شب کے عظیم القدر ہونے کی وجہ سے اس کا نام لیلۃ القدر ہے۔

 اس شب کے تعین میں بہت زیادہ اقوال ہیں، اکثر احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ مقدس رات رمضان کے مبارک ماہ میں آتی ہے خصوصاً رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی رات اور بالخصوص ستائیسویں شب لیلۃ القدر ہوتی ہے چنانچہ اکثر علماء ستائیسویں شب ہی کو لیلۃ القدر مانتے ہیں۔

 لیلۃ القدر کی سعادت خاص طور پر امت محمدیہ کے لئے مخصوص ہوئی ہے تاکہ اس امت کے لوگ اپنی چھوٹی عمروں کے باوجود بہت زیادہ پائیں چنانچہ اس بارے میں ایک روایت بھی منقول ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پچھلی امتوں کے لوگوں کی عمروں کی زیادتی کے بارے میں معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے افسوس کا اظہار کیا کہ میری امت کے لوگ اپنی ان چھوٹی عمروں میں ان لوگوں کی طرح زیادہ نیک کام نہیں کر سکتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطہ سے پوری امت کو لیلۃ القدر کی عظیم سعادت عطا فرمائی جو ہزار مہینہ سے بہتر ہے۔

 ایک اور روایت میں جو ابن ابی حاتم سے منقول ہے بیان کیا گیا ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص کا ذکر کیا کہ انہوں نے اسی برس تک اللہ رب العزت کی عبادت کی اور ان کا ایک لمحہ بھی خدا کی نافرمانی میں نہیں گزرا اور وہ اشخاص تھے۔ (١) حضرت ایوب علیہ السلام(٢) حضرت زکریا علیہ السلام (٣) حضرت حزقیل علیہ السلام(٤) حضرت یوشع بن نون علیہ السلام۔ یہ سن کر صحابہ کرام بہت زیادہ تعجب کرنے لگے اور (متمنی ہوئے کہ کاش ہماری بھی اتنی ہی عمریں ہوتیں کہ ہم بھی اتنی طویل مدت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے) پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اے محمد! آپ کی امت ان لوگوں کی اسی اسی برس کی عبادت پر متعجب ہوتی ہے (تو سنئے کہ اللہ تعالیٰ نے خیر و بھلائی عطا فرمائی چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے آیت (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) پوری سورت پڑھی جس کے ذریعہ یہ عظیم بشارت عطا فرمائی گئی ہے کہ لیلۃ القدر جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کی پوری امت کو عطا کی گئی ہے اس چیز سے بہتر ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی امت متعجب و متمنی ہیں اس عظیم سعادت و خوش بختی پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت زیادہ خوش ہوئے۔

 اس موقع پر یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ ہزار مہینہ کے تراسی برس اور چار مہینے ہوتے ہیں اسی لئے فرمایا کہ آیت (لیلۃ القدر خیر من الف شہر) یعنی لیلۃ القدر ہزار مہینہ سے بہتر ہے کہ جس سے تراسی برس اور چار مہینے ہوئے۔

 لیلۃ القدر میں اللہ رب العزت کی رحمت خاص کی تجلی آسمان دنیا پر غروب آفتاب کے وقت سے صبح تک ہوتی ہے۔ اس شب میں ملائکہ اور ارواح طیبہ صلحاء اور عابدین سے ملاقات کے لیے اترتی ہیں اسی مقدس رات میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا، یہی وہ شب ہے جس میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ اسی شب میں آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا اسی شب میں جنت میں درخت لگائے گئے اس شب میں عبادت کا ثواب دوسرے اوقات کی عبادت سے کہیں زیاہ ہوتا ہے۔ اور یہی وہ مقدس شب ہے جس میں بندہ کی زبان و قلب سے نکلی ہوئی دعا بارگاہ رب العزت میں قبولیت سے نوازی جاتی ہے۔

 شریعت نے واضح طور پر کسی شب کو متعین کر کے نہیں بتایا ہے کہ لیلۃ القدر فلاں شب ہے گویا اس شب کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر واضح طور پر اس شب کی نشان دہی کر دی جاتی تو عبادات و طاعات کی طرف لوگوں کا میلان نہ رہتا بلکہ صرف اسی شب میں عبادت کر کے یہ سمجھ لیتے کہ ہم نے پورے سال کی عبادت سے بھی زیادہ ثواب حاصل کر لیا اس لئے اس شب کو متعین نہیں کیا گیا تاکہ لوگ عبادات و طاعات میں ہمہ وقت مصروف رہیں صرف اسی شب پر اعتماد کر کے نہ بیٹھ جائیں۔

 علماء لکھتے ہیں کہ جو شخص پورے سال عبادت خداوندی کے لئے شب بیداری کو اختیار کرے گا تو انشاء اللہ اسے شب قدر کی سعادت ضرور حاصل ہو گی اسی لئے کہا گیا ہے من لم یعرف قدر اللیلۃ یعرف قدر لیلۃ القدر (جس شخص نے رات کی قدر نہ پہچانی یعنی عبادت خداوندی کے لئے شب بیداری نہیں کی وہ لیلۃ القدر کی عظمت و سعادت کو کیا پہچان پائیں گے؟

 بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس رات کی کچھ ایسی علامتیں ہیں جو احادیث و آثار سے منقول ہیں اور بعض علامتیں اہل کشف نے پہچانی ہیں چنانچہ طبری نے ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ اس رات میں درخت بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور زمین پر گر پڑتے ہیں اور پھر اپنی اصلی حالت پر آ جاتے ہیں اسی طرح اس رات میں ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔

 لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس شب کے تعین کے سلسلہ میں ان چیزوں کا دیکھنا شرط نہیں ہے کیونکہ اکثر لوگ اس مقدس شب کو پا لیتے ہیں مگر نہ تو وہ درختوں کو سجدہ ریز دیکھتے ہیں اور نہ تمام چیزیں سجدہ کرتی نظر آتی ہیں اس لیے ہو سکتا ہے ایک ہی جگہ دو آدمی موجود ہوں دونوں شب قدر کو پا لیں ان میں سے ایک کو علامتیں نظر آئیں مگر دوسرے کو ان میں سے کچھ بھی محسوس نہ ہو بہر کیف سب سے بڑی علامت تو یہ ہے کہ اس مقدس رات میں عبادت خداوندی و ذکر و مناجات خضوع و خشوع اور حضور و اخلاص کی توفیق حاصل ہو جائے تو جانے کہ یہ عظیم سعادت حاصل ہو گئی۔

 اس رات میں شب بیداری کے سلسلہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ رات کے اکثر حصہ میں عبادت خداوندی کے لئے جاگتے رہنا معتبر ہے ہاں اگر کوئی شخص پوری شب جاگتا رہے تو افضل ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے کسی مرض و تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے یا فرائض و سنن مؤکدہ میں نقص و خلل واقع ہو جانے کا خوف نہ ہو، ورنہ تو رات کے جس قدر حصے میں جاگنے اور عبادت و ذکر میں مشغول رہنے کی توفیق حاصل ہو جائے انشاء اللہ مقصد حاصل ہو جائے گا۔ (ولیس للانسان الا ماسعی وکان سعیہ مشکورا۔ رزقنا اللہ۔

شب قدر کب آتی ہے

(١) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں سے مراد ہیں اکیسویں و تیئیسویں شب ستائیسویں شب اور انتیسویں شب۔

شب قدر کب آتی ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کتنے ہی صحابہ کو خواب میں شب قدر (رمضان کی آخری سات راتوں میں دکھلائی گئی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں یہ بات دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہیں لہٰذا جو شخص شب قدر پانا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 احتمال ہے کہ آخری سات راتوں سے وہ راتیں مراد ہیں جو بیس کے فوراً بعد ہیں یعنی اکیسویں شب سے ستائیسویں شب تک یا سب سے آخری سات راتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں یعنی تئیسویں شب سے انتیسویں شب تک اور چونکہ انتیسویں تاریخ یقینی ہوتی ہے اس لیے اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا اس بارے میں آخری احتمال یعنی یہ کہ تئیسویں شب سے انتیسویں شب تک مراد ہو زیادہ صحیح ہے۔

 

 

 

٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو یعنی لیلۃ القدر کو تلاش کرو باقی ماندہ نویں شب میں (کہ وہ اکیسویں شب ہے) باقی ماندہ ساتویں شب میں (کہ وہ تئیسویں شب ہے) اور باقی ماندہ پانچویں شب میں (کہ وہ پچیسویں شب ہے۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

 لیلۃ القدر کو پانے کے لیے رمضان کے آخری عشرہ کی کچھ راتوں کو یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ ان راتوں میں عبادت اور ذکر و تلاوت میں مشغولیت اختیار کی جائے تاکہ لیلۃ القدر ان میں سے جس شب بھی آئے اس کی سعادت حاصل ہو جائے۔ حدیث میں راتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں جو اسلوب اختیار فرمایا گیا ہے اس کی وضاحت ترجمہ میں بین القوسین کی گئی ہے کہ اس ترتیب سے مراد اکیسویں، تئیسویں اور پچیسویں شب ہے لیکن اس سلسلہ میں حدیث میں ذکر کردہ راتوں کو اس طرح آخر سے بھی شمار کیا جا سکتا ہے کہ لیلۃ القدر کو تلاش کرو بیسویں شب کے بعد نویں رات میں کہ وہ انتیسویں شب ہے اور بیسویں شب کے بعد ساتویں رات میں وہ ستائیسویں رات ہے اور بیسویں شب کے بعد پانچویں رات میں کہ وہ پچیسویں شب ہے، یہ وضاحت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ حدیث میں جو راتیں ذکر کی گئی ہیں ان سے مراد ہے یا تئیسویں شب، چوبیسویں شب اور چھبیسویں شب۔

 

 

٭٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ترکی خیمہ کے اندر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا اس کے بعد آپ نے اپنا سر مبارک خیمہ سے باہر نکال کر فرمایا کہ میں نے شب قدر کو تلاش کرنے کے لیے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر میں نے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، اس کے بعد میرے پاس فرشتہ آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں آتی ہے لہٰذا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے اسے چاہئے کہ وہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے اور مجھے خواب میں شب قدر کو متعین کر کے بتایا گیا مگر بعد میں اسے میرے ذہن سے محو کر دیا گیا یعنی حضرت جبرائیل نے مجھے بتایا کہ فلاں رات شب قدر ہے مگر پھر میں بھول گیا کہ انہوں نے کس رات کا تعین کیا تھا اور میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اس کی صبح یعنی لیلۃ القدر کی صبح کو کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں اور چونکہ میں یہ بھول گیا ہوں کہ وہ کون سی رات تھی لہٰذا اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو نیز لیلۃ القدر کو طاق راتوں میں یعنی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ (جس رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب دیکھا تھا) اس رات میں بارش ہوئی تھی اور چونکہ مسجد کی چھت کھجور کی شاخوں کی بنی ہوئی تھی اس لئے مسجد ٹپکی چنانچہ میری آنکھوں نے دیکھا کہ اکیسویں شب کی صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی پر پانی اور مٹی کا نشان تھا۔ اس حدیث کے نقل کے سلسلہ میں معنوی طور پر بخاری و مسلم دونوں متفق ہیں البتہ فقیل لی انہا فی العشر الا واخر تک اس روایت کے الفاظ تو مسلم نے نقل کئے ہیں اور روایت کے باقی الفاظ بخاری نے نقل کئے ہیں نیز ایک دوسری روایت کے باقی الفاظ بخاری نے نقل کئے ہیں نیز ایک دوسری روایت میں جو عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اکیسویں شب کی صبح کی بجائے تئیسویں شب کی صبح کے الفاظ ہیں اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 ترکی خیمہ، خیمہ کی ایک قسم کا نام تھا جو نمدہ سے بنتا تھا اور سائز میں چھوٹا ہوتا تھا اس خیمہ کو فارسی میں خرگاہ، کہتے ہیں روایت کے آخر میں لفظ من صبیحۃ من معنی کے اعتبار سے  فی کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اور بصرت کا متعلق ہے۔

 بہر کیف روایت کے آخر میں راوی نے کچھ بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس رات میں لیلۃ القدر کو خواب میں دیکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ میں لیلۃ القدر کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتا ہوں چنانچہ اسی رات میں بارش ہوئی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کو جب مسجد میں نماز پڑھی تو اس حال میں سجدہ کیا کہ مسجد کی زمین پر چھت ٹپکنے کی وجہ سے پانی اور گارا تھا جس کا نشان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی پر نمایا تھا گویا راوی نے اس بارش کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خواب کی رات کی علامت قرار دیا اور چونکہ یہ واقعہ اکیسویں یا تئیسویں شب کا تھا اس لیے راوی نے اس علامت کے ذریعہ معلوم کیا کہ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں شب ہے کیونکہ اسی شب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیلۃ القدر کو دیکھا۔

شب قدر کی ایک علامت

حضرت زر بن حبیش رحمۃ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے (دینی) بھائی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص تمام سال عبادت کے لئے شب بیداری کرے تو وہ شب قدر کو پا لے گا؟ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر رحم کرے انہوں نے یہ بات اس بنا پر کہی ہے کہ لوگ بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ شب قدر رمضان میں آتی ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات شب قدر ہوتی ہے اور وہ رات ستائیسویں شب ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسی قسم کھائی جس کے ساتھ انشاء اللہ نہ کہا کہ بلاشبہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہے میں نے عرض کیا ابومنذر!(یہ ابی بن کعب کی کنیت ہے) آپ یہ بات کس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس علامت یا نشانی کی بنا پر جو ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بتائی ہے کہ اس رات کی صبح آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس میں روشنی نہیں ہوتی چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ ستائیسویں شب کی صبح آفتاب طلوع ہوا تو اس میں روشنی نہیں تھی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ان لایتکل الناس (تاکہ لوگ بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں) کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ قول صحیح ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہے اور ظن غالب کے اعتبار سے اس پر فتویٰ بھی ہے مگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو متعین اس لئے نہیں کیا کہ کہیں لوگ اس قول پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں اور یہ جان کر کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہی ہے صرف اسی رات میں عبادت کے لئے شب بیداری کریں اور بقیہ راتوں کی شب بیداری ترک کر دیں چنانچہ انہوں نے زیادہ سے زیادہ راتوں میں لوگوں کو شب بیداری کی طرف راغب کرنے کے لئے کہا کہ لیلۃ القدر سال کی کسی بھی شب میں آ  سکتی ہے۔

 ستائیسویں شب کو لیلۃ القدر قرار دینے کے سلسلہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا قسم کھانا ظن غالب کی بنا پر تھا اسی لئے انہوں نے قسم کھاتے ہوئے انشاء اللہ نہیں کہا، کیونکہ اگر کوئی شخص قسم کھاتے ہوئے انشاء اللہ بھی کہہ دے تو نہ صرف یہ کہ قسم جزماً (یقینی) نہیں ہوتی بلکہ شرعی طور پر وہ منعقد نہیں ہوتی، لہٰذا حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی اور انشاء اللہ نہیں کہا تاکہ قسم جزماً ہو۔

 اس حدیث میں شب قدر کی ایک علامت بتائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جس رات میں شب قدر ہوتی ہے اس کی صبح سورج جب طلوع ہوتا ہے تو کچھ دیر اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں چنانچہ بعض ارباب نظر فرماتے ہیں کہ یہ علامت ایسی ہے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

رمضان کے آخری عشرہ میں مجاہدہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں جس قدر ریاضت و مجاہدہ کرتے اتنا مجاہدہ اور کسی مہینہ میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت و طاعت بہت زیادہ کرتے تھے کیونکہ اسی عشرہ میں لیلۃ القدر کی عظیم سعادت حاصل ہوتی ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے اور رات کو زندہ کرتے اور اپنے اہل و عیال کو جگاتے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 تہبند مضبوط باندھتے، یہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری عشرہ میں اپنی عادت اور اپنے معمول سے بھی بہت زیادہ عبادت و مجاہدہ کیا کرتے تھے اس بات سے بھی کنایہ ہو سکتا ہے کہ اس عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی عورتوں سے الگ رہتے تھے یعنی صحبت و مباشرت سے اجتناب فرماتے تھے۔

 رات کو زندہ کرنے، کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے اکثر حصہ میں یا پوری رات نماز، ذکر اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات ملحوظ رہے کہ ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ انہ علیہ السلام ما سہر جمیع اللیل کلہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پوری رات شب بیداری نہیں فرماتے تھے) تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ اکثر پوری رات شب بیداری نہیں فرماتے تھے لہٰذا ایک دو رات یا دس راتیں پوری طرح شب بیداری میں گزار دینا اس روایت کے منافی نہیں ہے۔

 اور اپنے اہل و عیال کو جگاتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات صاحبزادیوں لونڈیوں اور غلاموں کو آخری عشرہ کی بعض راتوں میں شب بیداری کی تلقین فرماتے اور انہیں عبادت خداوندی میں مشغول رکھتے تاکہ لیلۃ القدر کی سعادت انہیں بھی حاصل ہو جائے۔

لیلۃ القدر کی دعا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے بتائیے کہ اگر میں شب قدر کو پا لوں، تو اس میں کیا دعا مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ دعا مانگو، اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے۔ (احمد، ابن ماجہ، ترمذی)

 

تشریح

 

 علماء لکھتے ہیں کہ یہ دعا دنیا اور آخرت کی تمام خیر و بھلائی کے لئے جامع ہے کیونکہ حق تعالیٰ کی طرف سے بندہ کے معاملہ میں عفو و درگزر اور مغفرت و بخشش ہی وہ سب سے عظیم سعادت ہے جو ہر خیر و بھلائی کا نقطہ عروج ہے چنانچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ بندہ کی طرف سے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی سوال طلب عافیت و بخشش سے افضل نہیں ہے۔

شب قدر کی راتیں

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شب قدر کو (رمضان کی) باقی ماندہ نویں (یعنی انتیسویں شب میں) تلاش کرو باقی ماندہ ساتویں رات (یعنی ستائیسویں شب) میں یا باقی ماندہ پانچویں رات (یعنی پچیسویں شب میں) یا باقی ماندہ تیسری رات (تئیسویں شب) میں اور یا آخری شب میں (ترمذی)

شب قدر رمضان میں آتی ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شب قدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ ہر رمضان میں آتی ہے۔ امام ابوداؤد رحمۃ اللہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کو سفیان اور شعبہ نے ابی اسحٰق سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 ہر رمضان کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کوئی رمضان شب قدر سے خالی نہیں جاتا یعنی ہر سال جب رمضان آتا ہے تو اس میں شب قدر بھی آتی ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ شب قدر رمضان کے پورے مہینہ میں کسی بھی رات آ  سکتی ہے آخری عشرہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے لیکن اس معنی کے پیش نظر یہ تاویل کی جائے گی کہ پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہی معلوم ہوا تھا کہ شب قدر پورے رمضان میں کسی بھی رات آ  سکتی ہے مگر بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ اس مقدس شب کا حامل صرف آخری عشرہ ہی ہے۔ آخری عشرہ کے علاوہ اور کسی حصہ میں شب قدر نہیں آتی۔

شب قدر تئیسویں شب

حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا مکان جنگل میں ہے میں وہیں رہتا ہوں اور وہیں نماز پڑھتا ہوں خدا کا شکر ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے اس رات کے بارے میں بتائیے جس میں میں اس مسجد میں آؤں (یعنی بتائیے کہ شب قدر کونسی ہے تاکہ میں اس رات میں مسجد نبوی آ کر عبادت کروں) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (رمضان کی) تئیسویں شب میں آؤ اس کے بعد حضرت عبداللہ کے صاحبزادے سے کہ جن کا نام صمرہ تھا پوچھا گیا کہ اس سلسلہ میں آپ کے والد مکرم کا کیا معمول تھا تو انہوں نے کہا کہ رمضان کی بائیسویں تاریخ کو میرے والد عصر کی نماز پڑھ کے مسجد نبوی میں داخل ہوتے اور صبح کی نماز تک کسی بھی کام سے جو اعتکاف کے منافی ہوتا مسجد سے باہر نہ نکلتے چنانچہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو مسجد کے دروازے پر اپنی سواری کا جانور موجود پاتے اس پر سوار ہوتے اور اپنے جنگل چلے جاتے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اس روایت سے لیلۃ القدر کا تعین لازم آتا ہے جب کہ وہ متعین نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو جس سال یہ بات بتائی تھی اس سال لیلۃ القدر تئیسویں شب میں آئی ہو گی جس کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہو گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرما دیا کہ تئیسویں شب میں مسجد نبوی میں آ جانا مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اس سے یہ سمجھے کہ شب قدر ہر سال اسی تاریخ میں آتی ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی شب قدر متعین طور پر معلوم نہیں تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہر سال کی شب قدر کی تعیین معلوم نہیں تھی لہٰذا آپ کو کبھی کبھی شب قدر کا متعین طور پر معلوم ہو جانا اس کے منافی نہیں ہے۔

آنحضرت کو شب قدر کا علم اور اس کا نسیان

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ مسلمانوں میں سے دو شخص جھگڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں باہر آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کے بارے میں بتاؤں کہ وہ کون سی شب ہے مگر فلاں اور فلاں جھگڑنے لگے۔ چنانچہ شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اور شاید تمہارے لئے یہی بہتر ہو۔ لہٰذا تم شب قدر کو انتیسویں، ستائیسویں اور پچیسویں میں تلاش کرو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وہ دو اشخاص جو اس موقع پر جھگڑنے لگے تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ ابن ابی حذروا اور دوسرے کا نام کعب بن مالک تھا۔

 شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی، کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں اشخاص کے جھگڑنے کی وجہ سے شب قدر کے تعین کا علم میرے ذہن سے محو کر دیا گیا اس سے معلوم ہوا کہ آپس میں جھگڑنا اور منافرت و دشمنی اختیار کرنا بہت بری بات ہے اس کی وجہ سے آدمی برکات اور بھلائیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

 شاید تمہارے لئے یہی بہتر ہو گا، کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر کے بارے میں جو متعین طور پر مجھے بتا دی گئی تھی اور اب وہ بھلا دی گئی ہے اگر میں تمہیں بتا دیتا تو تم لوگ صرف اسی شب پر بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے، اب اس کے تعین کا علم نہ ہونے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ تم لوگ اسے پانے میں بہت زیادہ سعی و کوشش کرو گے بلکہ عبادت و طاعت میں زیادتی بھی ہو گی جو ظاہر ہے کہ تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے۔

شب قدر کی فضیلت

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جب شب قدر آتی ہے تو اس رات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے جلو میں اترے ہیں اور ہر اس بندے کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو کھڑا ہوا (نماز پڑھتا، طواف کرتا یا اور کوئی عبادت کرتا) ہوتا ہے یا بیٹھا ہوا (اللہ عز و جل کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغول) ہوتا ہے پھر جب ان (مسلمانوں کا عید (یعنی عید الفطر) کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی وجہ سے اپنے ان فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے (جنہوں نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت بنی آدم کو مطعون کیا تھا) اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کے لئے کیا اجر ہے جس نے اپنا کام پورا کر لیا ہو؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کا اجر یہ ہے کہ اسے اس کے کام کی پوری پوری اجرت دی جائے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتو! (تو سنو کہ) میرے بندے اور میری بندیوں نے میرا وہ فرض ادا کیا جو ان پر تھا (یعنی روزہ) پھر وہ (اپنے گھروں سے عید گاہ کی طرف) دعا کے لئے گڑ گڑاتے چلاتے نکلے، قسم ہے اپنی عزت اور اپنے جلال کی اپنے کرم اور اپنی بلند قدری کی اور اپنی بلند مرتبہ کی میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ بندوں سے فرماتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس ہو جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا ہے اور میں نے تمہاری برائیاں نیکیوں میں بدل دی ہیں تمہارے نامہ اعمال میں ہر برائی کے بدلہ ایک نیکی لکھ دی گئی ہے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، چنانچہ مسلمان عید گاہ سے اپنے گھروں کو اس حالت میں واپس ہوتے ہیں کہ ان کے گناہ بخشے جا چکے ہوتے ہیں۔ (بیہقی)