مشکوٰة شر یف

مباشرت کا بیان

مباشرت کے سلسلہ میں یہود کے ایک غلط خیال کی تردید

حضرت جابر کہتے ہیں کہ یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی عورت کے پیچھے کی طرف سے اس کے اگلے حصہ (یعنی شرم گاہ) میں جماع کرتا ہے تو اس کے بھینگا بچہ پیدا ہوتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ) 2۔ البقرۃ:223) (تمہاری عورتیں یعنی تمہاری بیویاں اور لونڈیاں) تمہاری کھیتی ہیں لہذا تمہیں اختیار ہے کہ ان کے پاس جس طرح چاہو آؤ(اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

 یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص عورت سے اس طرح جماع کرے کہ اس کے پیچھے کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر اس کے اگلے حصہ یعنی شرم گاہ میں اپنا عضو داخل کرے تو اس کی وجہ سے بھینگا بچہ پیدا ہو گا چنانچہ ان کے اس غلط خیال اور وہم کی تردید کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں کہ جس طرح تمہارے کھیتوں میں تمہارے لئے فصل پیدا ہوتی ہے اسی طرح تمہاری بیویوں کے ذریعے تمہاری اولاد پیدا ہوتی ہے اس لئے تم اپنی کھیتی میں آنے میں خود مختار ہو کہ جس طرح چاہو آؤ خواہ لیٹ کر خواہ بیٹھ کر خواہ کھڑے ہو کر خواہ پیچھے ہو کر اور خواہ آگے ہو کر جس طرح بھی تمہارا جی چاہے ان سے جماع کرو کسی صورت میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جماع بہرصورت عورت کے اگلے حصے یعنی شرمگاہ ہی میں کیا جائے کیونکہ جس اعتبار سے عورت کو کھیتی کہا گیا ہے اس کا اطلاق عورت کی شرم گاہ ہی پر ہو سکتا ہے مقعد پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا بایں وجہ کہ مقعد اولاد پیدا ہونے کی جگہ نہیں ہے بلکہ پاخانہ کی جگہ ہے اس لئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پیچھے کے حصہ میں بد فعلی یعنی اغلام کرنا صرف اسلام ہی نہیں بلکہ ہر دین میں حرام ہے۔

عزل کا مسئلہ

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن کریم نازل ہوتا رہتا تھا یعنی نزول کا سلسلہ جاری تھا مگر اس بارے میں کوئی ممانعت نازل نہیں ہوئی۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ہمارے اس فعل کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا۔

 

تشریح

 

 عزل کا مطلب یہ ہے کہ عورت سے اس طرح جماع کیا جاۓ کہ مرد جب منزل ہونے لگے تو وہ اپنا عضو مخصوص عورت کی شرم گاہ سے باہر نکال کر مادہ کا باہر ہی اخراج کر دے۔ اس طریقہ سے مادہ منویہ چونکہ اندر نہیں پہنچتا اس لئے عورت حاملہ ہونے سے بچ جاتی ہے۔

علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عزل جائز ہے اور بعض حضرات جن میں کچھ صحابہ بھی شامل ہیں اس کو ناجائز کہتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ عزل کرنا جائز ہے چنانچہ درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی خاص مصلحت یا عذر کی بناء پر عزل کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اپنی لونڈی سے عزل کرنا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی جائز ہو گا اسی طرح اگر کسی دوسرے کی لونڈی اپنے نکاح میں ہو تو اس کے مالک کی اجازت حاصل کرنے کے بعد اس سے عزل کرناجائز ہو گا۔ حضرت امام شافعی کے بارے میں سید نے یہ لکھا ہے کہ ان کے نزدیک بھی اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی عزل کرنا جائز ہے لیکن لونڈی خواہ اپنی مملوکہ ہو یا منکوحہ ہو اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل کرنا جائز ہے۔ اور امام نووی نے جو شافعی المسلک ہیں) یہ لکھا ہے کہ ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک عزل کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ انقطاع نسل کا سبب ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے پاس لونڈی ہے جو ہماری خدمت کرتی ہے اور میں اس سے جماع بھی کرتا ہوں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو عزل کر لیا کرو لیکن اس لونڈی کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہو چکی ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک وہ شخص نہیں آیا اور پھر جب آیا تو کہنے لگا کہ میری لونڈی حاملہ ہو گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہو چکی ہے وہ ضرور پیدا ہو گی (مسلم)

 

تشریح

 

 علامہ نووی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عزل کرنے کے باوجود اگر حمل ٹھہر جائے تو اس کا نسب ثابت ہو گا اور علامہ ابن ہمام نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے عورت کی اجازت کے بعد یا اس کی اجازت کے بغیر عزل کیا اور اس کے باوجود اس عورت کے حمل ٹھہر گیا تو آیا اس شخص کے لئے اس حمل سے انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے) جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں تفصیل ہے، چنانچہ علماء کا قول ہے کہ اگر اس شخص نے عزل کرنے کے بعد دخول نہیں کیا تھا یا دخول کیا تھا مگر اس سے پہلے پیشاب نہیں کیا تھا تو پھر اس کے لئے اس حمل سے انکار کرنا جائز نہیں ہو گا کیونکہ اس صورت میں اس بات کا قوی احتمال ہو سکتا ہے کہ اس کے ذکر میں منی کا کوئی قطرہ باقی رہ گیا ہو اور وہ اب دخول کی صورت میں عورت کے رحم میں چلا گیا ہو اسی طرح حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا یہ مسلک ہے کہ اگر کسی شخص نے مثلاً جماع سے فارغ ہونے کے بعد پیشاب کرنے سے پہلے غسل جنابت کیا اور اس کے بعد جب اس نے پیشاب کیا تو منی کا کوئی قطرہ نکل آیا تو اس صورت میں اس پر واجب ہو گا کہ وہ اب پھر غسل کرے۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بنی المصطلق کی جنگ میں گئے تو عرب قوم میں سے کچھ لونڈی غلام ہمارے ساتھ آئے، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور مجرد رہنا ہمارے لئے سخت مشکل ہو گیا اور ان لونڈیوں سے جو ہمارے ہاتھ لگی تھیں ہم نے عزل کرنا چاہا) تا کہ ان کے حمل نہ ٹھہر جائے) آخر ہم نے عزل کا ارادہ کر لیا مگر پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان ہیں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے بارے میں دریافت تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے اس لئے کے قیامت تک جو جان پیدا ہو نے والی ہے وہ تو پیدا ہو کر رہے گی (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 امام نووی کہتے ہیں کہ سبیا من العرب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل عرب پر بھی رق جاری ہوتا ہے جب کہ وہ مشرک ہوں (یعنی جس طرح غیرعرب مشرک و کافر جنگ میں پکڑ لئے جانے کے بعد غلام و لونڈی بنائے جا سکتے ہیں اسی طرح اگر وہ مشرک و کافر جن کا تعلق عرب نسل سے ہو کسی جنگ میں بطور قیدی ہاتھ لگیں تو وہ بھی مسلمانوں کے حق میں لونڈی غلام ہو جاتے ہیں کیونکہ یہاں جن لونڈی غلاموں کا ہاتھ لگنا ذکر کیا گیا ہے ان کا تعلق بنی المصطلق سے تھا جو قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ تھی اور قبیلہ خزاعہ والے اہل عرب میں سے تھے چنانچہ حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔

(ما علیکم ان لا تفعلوا) میں حروف  الف کے زبر کے ساتھ یعنی (ان) بھی صحیح ہے اور الف کے زیر کے ساتھ یعنی ان بھی صحیح ہے اس جملہ کے معنی نووی نے یہ بیان کئے ہیں کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ جب یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا مقدر کر دیا ہے تو وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گا اس لئے تم عزل کرو یا عزل نہ کرو پیدا ہونے والی جان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا اگر اسے دنیا میں آنا ہے تو تم لاکھ عزل کر لو ضبط ولادت کے لاکھ طریق آزما لو وہ اس دنیا میں آ کر رہے گی اور اگر اس کا پیدا ہونا مقدر نہیں ہے تو پھر اگر عزل نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں حاصل یہ کہ تمہارا عزل کرنا کوئی فائدہ مند چیز نہیں ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث عزل کے عدم جواز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اور بعض علماء کہتے ہیں کہ (ان لا تفعلوا) میں حرف، لا، زائد ہے اس صورت میں اس جملہ کے یہ معنی ہوں گے کہ عزل کر نے میں کوئی قباحت نہیں اس اعتبار سے یہ حدیث عزل کے جائز ہونے کی دلیل ہو گی۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا (کہ عزل کرنا جائز ہے یا نہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا منی کے ہر پانی سے بچہ بنتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو پیدا ہونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی (مسلم)

 

تشریح

 

 بظاہر اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ سوال اور جواب میں کوئی مطابقت نہیں ہے حالانکہ اگر حدیث کے حقیقی مفہوم پر نظر ہو تو یہ اشکال پیدا ہونے کا کوئی محل ہی نہیں رہ جاتا کیونکہ سوال کا مقصد یہ تھا کہ عزل کرنے کی اجازت مل جائے تا کہ عورت کے ہاں ولادت ہونے کا کوئی خوف نہ رہے، سوال کے اسی حقیقی مفہوم کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ تم لوگ تو یہ سمجھتے ہو کہ مرد کی منی کا عورت کے رحم میں گرنا عورت کے ہاں ولادت ہونے کا سبب ہے اور عزل کر لینا ولادت نہ ہونے کا سبب ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منی کے ہر پانی سے بچہ نہیں بنتا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرد کی منی عورت کے رحم تک پہنچ جاتی ہے مگر اس سے بچہ نہیں بنتا اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ عزل کرتے ہیں مگر اس کے باوجود عورت حاملہ ہو جاتی ہے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا حاملہ ہونا مرد کے مادہ تولید کے اندر کرنے پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے، اسی طرح عورت کا حاملہ نہ ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ ہی پر موقوف ہے عزل پر موقوف نہیں ہے۔ ہاں یہ ثابت ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تولد و تناسل کا ایک نظام مقرر کر دیا ہے کہ مرد کے نطفہ سے بچہ کی تولید ہوتی ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ عزل کرنے کی صورت میں بھی نطفہ کا کوئی حصہ بلا اختیار عورت کے رحم میں چلا جائے اور اس سے بچہ بن جائے بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کسی بچہ کا پیدا ہونا تقدیر الہی میں ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت حاصل ہے کہ وہ اس بچہ کو بغیر نطفہ کے بھی پیدا کر دے۔

بظاہر یہ احادیث عزل کے جائز نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن ان کا حقیقی مفہوم و منشاء اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزل کرنا پسندیدہ نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، اس مسئلہ میں حنفیہ اور دوسرے علماء کا جو فقہی مسلک ہے اس کا بیان حضرت جابر کی روایت کی تشریح میں گزر چکا ہے۔

 

 

 

٭٭  اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنی عورت سے عزل کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے شیر خوار بچہ کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں مدت رضاعت میں وہ حاملہ نہ ہو جائے اور اس حالت میں بچہ کو دودھ پلانا نقصان پہنچ جائے گا) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر یہ نقصان پہنچاتا تو روم و فارس والوں کو ضرور نقصان پہنچاتا (مسلم)

 

تشریح

 

 لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مدت رضاعت میں جماع اور پھر حمل ٹھہرنے سے چونکہ عورت کے دودھ میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اس دودھ کو پینے سے شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچتا ہے اس کے علاوہ ایسی حالت میں عورت کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے اس کا حاصل یہ تھا کہ اسی خوف کی بناء پر اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عزل کی اجازت چاہی اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرمایا اس کا حاصل یہ تھا کہ اگر مدت رضاعت میں جماع کرنا اور حمل ٹھہر جانا شیرخوار بچہ کو نقصان دہ ہوتا تو یہ روم و فارس والوں کو ضرور نقصان پہنچاتا کیونکہ وہ اس کے عادی ہیں اور جب ان کی یہ عادت ان کے لئے نقصان دہ نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ مدت رضاعت میں حمل ٹھہر جانا نقصان دہ نہیں ہے لہذا عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور حمل ٹھہر جانے کے خوف کی وجہ سے عزل نہ کرو گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد عزل کی کراہت و ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

 

 

٭٭  اور حضرت جدامہ بنت وہب کہتی ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت لوگوں کی ایک جماعت وہاں موجود تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو غیلہ سے منع کر دوں لیکن پھر میں نے دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ اپنی اولاد کی موجودگی میں غیلہ کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تو میں نے اس ارادہ کو ترک کر دیا) پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کیا حکم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ عزل کرنا تو پوشیدہ طور پر زندہ گاڑ دینا ہے اور یہ ایک بری عادت ہے جو اس آیت کریمہ (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ) 81۔ التکویر:8) (اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی) کے حکم میں داخل ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 غیلہ کے معنی ہیں حمل کی حالت میں بچہ کو دودھ پلانا اور نہایہ میں لکھا ہے کہ غیلہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے چنانچہ اہل عرب غیلہ یعنی ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرنے) احتراز کرتے تھے اور اس کیوجہ ان کا یہ گمان تھا کہ اس صورت میں شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچتا ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یہ ارادہ فرمایا کہ لوگوں کو ایام رضاعت میں اپنی بیوی کے پاس جانے سے منع کر دیں لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ممانعت کا ارادہ ترک فرما دیا۔

واد کے معنی ہیں زندہ در گور کرنا، جیتا گاڑ دینا، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب تنگدستی کے خوف اور عار کی وجہ سے اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان والدین سے سخت باز پرس کی جائے گی جو اپنے ہاتھوں اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عزل کو بھی واد خفی یعنی پوشیدہ زندہ گاڑ دینے سے تعبیر فرمایا۔ اس طرح یہ حدیث منسوخ ہے یا آپ نے یہ بات محض تہدید و تنبیہ کے طور پر فرمائی ہے یا پھر یہ کہ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ عزل نہ کرنا ہی اولی اور زیادہ بہتر ہے۔

ان حضرات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ایک مجلس منعقد تھی۔ حاضرین میں حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ کے علاوہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے۔ عزل کے سلسلہ میں مباحثہ ہو رہا تھا صحابہ کی رائے تھی کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ایک صحابی نے یہ کہا کہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عزل کرنا مودۃ(چھوٹی مؤدۃ ہے یعنی جس طرح اپنی اولاد کو زندہ گاڑ دینا مؤدۃ کبری ہے اسی طرح عزل کرنا مؤدۃ صغری ہے حضرت علی نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس سلسلہ میں حاصل کلام یہ ہے کہ جب تک بچہ میں جان نہ پڑے مؤدۃ کے مفہوم کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی اگر جان پڑھ جانے کے بعد اسقاط حمل کرایا جائے یا زندہ پیدا ہونے کے بعد اسے جیتا جاگتا گاڑ دیا جائے تو اس کو مؤدۃ کہا جائے گا۔ حضرت علی کا یہ جواب سن کر حضرت عمر نے فرمایا علی! اللہ تعالیٰ تمہاری عمر دراز کرے تم نے سچ کہا ہے چنانچہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بچہ میں جان نہ پڑے اسقاط حمل جائز ہے اور قرار حمل کے بعد ایک سو بیس دن میں حمل کے اندر جان پڑتی ہے گویا قرار حمل کے بعد ایک سو بیس دن کے اندر اندر تو اسقاط حمل جائز ہے اس کے بعد جائز نہیں ہے۔

بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی عزل کے حرام ہونے پر دلالت نہیں کرتا البتہ اس کے مکروہ ہونے پر ضرور دلالت کرتا ہے بایں معنی کہ عزل کرنا واد حقیقی یعنی واقعۃً زندہ درگور کر دینے کے حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ واد حقیق کا مطلب ہوتا ہے ایک جان کو ہلاک کر دینا جب کہ عزل میں یہ صورت نہیں ہوتی البتہ عزل کرنا واد حقیقی کے مشابہ یقیناً ہے اسی واسطے اس کو پوشیدہ زندہ گاڑ دینا فرمایا گیا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزل کے ذریعہ چونکہ اپنے مادہ تولید نطفہ کو ضائع کیا جاتا ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مادۃ تولید اللہ تعالیٰ نے بچہ پیدا ہونے کے لئے مہیا کیا ہے اس لئے یہ فعل یعنی عزل کرنا اپنے بچہ کو ہلاک کرنے یا اس کو زندہ درگور کر دینے کے مشابہ ہے۔

علامہ ابن ہمام کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے بارے میں یہ صحیح روایت منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ عزل مؤدۃ صغری ہے۔ نیز حضرت ابو امامہ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ جب ان سے عزل کا حکم پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے کسی مسلمان کو عزل کرتے نہیں دیکھا سنا اس سے معلوم ہوا کہ عزل کرنا پسندیدہ نہیں ہے)

اسی طرح حضرت ابن عمر سے یہ منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق نے بعض لوگوں کو عزل کرنے پر مارا ہے اور حضرت عثمان غنی کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ عزل کرنے سے منع کرتے تھے۔ ان تمام روایات سے عزل کی ممانعت ثابت ہوتی ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے،

اپنی بیوی کی پوشیدہ باتوں کو افشاء کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت ایک روایت میں یوں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعتبار مرتبہ کے سب سے برا شخص وہ ہو گا جو اپنی بیوی سے ہم بستر ہو اور اس کی بیوی ہم آغوش ہو اور پھر وہ اس کی پوشیدہ باتیں ظاہر کرتا پھرے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی (ان اعظم الامانۃ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت بڑی امانت کہ جس میں خیانت کرنے والے سے قیامت کے دن سخت باز پرس ہو گی شوہر وبیوی کے درمیان جنسی معاملات اور نجی امور سے متعلق باتیں ہیں یعنی خاوند بیوی کے درمیان جنسی افعال اور راز و نیاز کی باتیں ایک بہت بڑی امانت ہے جس کی حفاظت ہر شوہر کی ذمہ داری ہے جو شوہر اس امانت کی حفاظت نہیں کرے گا بایں طور کہ وہ اپنی بیوی سے ہمبستری کے بعد اس کے راز افشاء کرے گا اس سے قیامت کے دن بازپرس کی جائے گی اور اشرف کے قول کے مطابق اس ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت میں خیانت اس شخص کی خیانت ہو گی جو اپنی بیوی سے ہمبستری کرے اور پھر اس کے راز کو افشاء کرے۔ اور افشاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان راز و نیاز کی جو باتیں ہوئی ہوں اور جنسیات سے متعلق جو افعال ہوئے ہوں ان کو لوگوں سے کہتا پھرے جیسا کہ بے حیا لوگوں کی عادت ہے یا اپنی بیوی کے کسی عیب کو بیان کرتا پھرے اور یا یہ کہ اپنی بیویوں کی ان خوبیوں اور اوصاف کو ذکر کرتا پھرے جن کو چھپانا شرعاً اخلاقاً اور عرفاً واجب ہے۔

ابن ملک کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ خاوند و بیوی میں سے ہر ایک اپنے دوسرے کے افعال و اقوال کا امین ہے لہذا ان میں سے جو بھی اپنے دوسرے کے ان افعال و اقوال کو ظاہر کرے گا جن کو ظاہر کرنا وہ دوسرا ناپسند کرتا ہو تو وہ خیانت کرنے والا کہلائے گا۔

بہرکیف حدیث کا حاصل یہ ہے کہ خاوند و بیوی کے درمیان جنسی معاملات اور ذاتی امور سے متعلق جو باتیں ہوتی ہیں یا جو افعال ہوتے ہیں ان کو غیروں کے سامنے بیان کرنا یا ایک دوسرے کے عیوب وغیرہ کو ظاہر کرنا اخلاقی نکتہ نظر ہی سے معیوب نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر آخرت میں مؤخذاہ خداوندی کا موجب ہے۔

اس سلسلہ میں ایک سبق آموز واقعہ بیان کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب علم و دانش نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کے عیوب کیونکر ذکر کروں (یعنی اگر میں طلاق کی وجہ بیان کروں تو گویا میں اس کے عیوب کو جو طلاق کی وجہ ہیں تمہارے سامنے بیان کرو دوں اور یہ مجھے گوارا نہیں ہے کہ جب تک وہ میری بیوی ہے اس کے عیوب دوسروں کے سامنے آئیں) پھر جب اس نے طلاق دے دی تو پھر کچھ اور لوگوں نے پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی کو طلاق کیوں دی؟ اس نے کہا کہ میں ایک اجنبی عورت کے عیوب کیسے ظاہر کروں یعنی اگر میں طلاق کی وجہ بیان کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک اجنبی عورت کے عیوب تمہارے سامنے بیان کر دوں اور اسے میں مطلقاً مناسب نہیں سمجھتا)

بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ خاوند و بیوی کے لئے ایک دوسرے کی باتوں کو ظاہر کرنے کی یہ ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ اس کا کوئی فائدہ اور مقصد نہ ہو، ہاں اگر اس کا کوئی فائدہ یا اس کی کوئی معقول وجہ ہو تو پھر یہ ممانعت نہیں ہو گی مثلاً اگر عورت کا دعوی ہو کہ اس کا خاوند اس کی جنسی خواہش کی تسکین کا اہل نہیں ہے، یا بیوی یہ شکایت کرے کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ بیزاری اور لا پرواہی کا برتاؤ کرتا ہے تو اس صورت میں بیوی کے لیے ان چیزوں کا ذکر کرنا غیر پسندیدہ نہیں ہو گا جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (لا یحب اللہ الجہر بالسوء من القول الا من ظلم) (اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی بری بات کو اعلانیہ بیان کیا جائے ہاں اگر کسی پر ظلم کیا گیا ہے تو وہ اسے اعلانیہ بھی بیان کر سکتا ہے)

ایام حیض میں اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤ اور نہ بیوی کے ساتھ بد فعلی کرو

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ آیت نازل کی گئی (نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ) 2۔ البقرۃ:223) (تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں پس آؤ تم اپنی کھیتیوں میں الخ) لہذا تم جس طرح چاہو ان سے مجامعت کرو خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ یا پیچھے سے اگلی جانب آؤ لیکن مقعد میں دخول کرنے سے اجتناب کرو اور حیض کی حالت میں جماع نہ کرو (ترمذی ابن ماجہ دارمی)

 

تشریح

 

 لفظ اقبل (خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ) اور ادبر (یا پیچھے سے اگلی جانب میں آؤ) یہ دونوں لفظ آیت کریمہ کے الفاظ (فاتوا حرثکم) 2۔ البقرۃ:223) کی تفسیر و بیان میں ہیں، یعنی ان دونوں الفاظ کے ذریعہ یہ وضاحتی تنبیہ کی گئی ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خواہ آگے کی طرف سے آؤ یا پیچھے کی طرف سے آؤ مگر دخول بہرصورت اگلے حصے یعنی شرمگاہ ہی میں کرو چنانچہ بد فعلی کرنا یعنی مقعد میں دخول کرنا قطعی حرام ہے اسی طرح حیض کی حالت میں اگلے حصہ میں بھی دخول کرنا حرام ہے۔

 اور حضرت خزیمہ بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے حیا نہیں کرتا تم عورتوں کی مقعد میں بد فعلی نہ کرو (احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی)

 

تشریح

 

 حیا اس تغیر کو کہتے ہیں جو عیب لگنے اور برا کہے جانے کے خوف سے انسان میں واقع ہوتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی تغیر کا واقع ہونا محال ہے اس لئے یہاں حیا سے حقیقی حیا مراد نہیں ہے بلکہ مجازی حیا یعنی ترک کرنا مراد ہے جو حیا کا مقصد ہے اس طرح (اِنَّ اللّٰهَ لَا یسْتَحْىٖٓ) 2۔ البقرۃ:26) کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے اور اس کے اظہار کو ترک نہیں کرتا لہذا حدیث میں اس بات کو ما بعد کے مضمون (عورت کے ساتھ بد فعلی کی ممانعت) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ذکر کرنا گویا اس فعل بد کی انتہائی برائی اور اس کے حرام ہونے پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ بات اتنی ناپسندیدہ اور مکروہ ہے کہ اس کو زبان پر لانا اور اس کا ذکر کرنا بھی شرم و حیا کے منافی ہے اگرچہ اس کا ذکر کرنا اس سے روکنے ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو لیکن چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے اور شرعی مسئلہ کو بیان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اس لئے سن لو کہ عورتوں کے ساتھ ان کی مقعد میں بد فعلی کرنا حرام ہے اس لئے اجتناب کرو اس سے معلوم ہوا کہ جب عورتوں کے ساتھ بد فعلی کرنا حرام ہے تو مردوں کے ساتھ یہ فعل بطریقہ اولی حرام ہے۔

طیبی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہ فعل بد کرے تو وہ زانی کے حکم میں ہو گا اور اگر اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے ساتھ کرے تو وہ حرام کا مرتکب ہوا لیکن اس کی پاداش میں اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی البتہ اسے کوئی سزا ضرور دی جائے گی۔ اور نووی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کے ساتھ اغلام کرے تو وہ اجنبی کے ساتھ بد فعلی کرنے والے کے حکم میں ہو گا نیز حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس فعل بد پر فاعل اور مفعول یعنی یہ فعل بد کرنے والا اور کرانے والا دونوں مستوجب تعزیر ہوتے ہیں کہ ان دونوں کو ان کے حال کے مناسب کوئی سزا دی جائے گی ہاں اگر مفعول یعنی جس کے ساتھ یہ بد فعلی کی گئی ہے) چھوٹا ہو یا دیوانہ ہو یا اس کے ساتھ زبردستی یہ فعل بد کیا گیا ہو تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔

اپنی بیوی کے ساتھ بد فعلی کرنے والا ملعون

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنی عورت کے ساتھ بد فعلی کرتا ہے (ابو داؤد، احمد)

 

 

٭٭ اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی عورت کے ساتھ بد فعلی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھتا (ترمذی)

 

 

٭٭ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھتا جو مرد یا عورت کے ساتھ بد فعلی کرتا ہے (ترمذی)

غیلہ کی ممانعت

اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم اپنی اولاد کو مخفی طور پر قتل نہ کرو کیونکہ غیلہ سوار پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے گھوڑے سے گرا دیتا ہے (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 اپنی اولاد کو مخفی طور پر قتل نہ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ غیلہ کے ذریعہ اولاد کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ حمل کی حالت میں دودھ پلانے یا مدت رضاعت میں جماع کرنے کو غیلہ کہتے ہیں لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ غیلہ کی وجہ سے بچہ کے مزاج میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے قوی ضعیف ہو جاتے ہیں اور اس خرابی و ضعف کا اثر اس کے بالغ ہونے کے بعد تک رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہونے کے بعد جب میدان کارزار میں جاتا ہے تو دشمن کے مقابلہ میں سست اور کمزور پڑ جاتا ہے اور گھوڑے سے گر پڑتا ہے اور یہ چیز اس کے حق میں ایسی ہے جیسا کہ اسے مقابلہ سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا ہو لہذا غیلہ نہ کرو تا کہ غیلہ کی وجہ سے اپنے بچے کے قتل ہو جانے کا باعث نہ بنو۔

اس موقع پر یہ خلجان پیدا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہو کہ بچہ پر غیلہ کا اثر پڑتا ہے جبکہ اس سے پہلے گزرنے والی بعض احادیث سے یہ معلوم ہوا تھا کہ غیلہ بچہ پر اثرانداز نہیں ہوتا؟ اس کا جواب طیبی نے یہ دیا ہے کہ گزشتہ احادیث میں بچہ پر غیلہ کے اثرانداز ہونے کی نفی زمانہ جاہلیت کے اس اعتقاد کی تردید کے لئے تھے کہ لوگ غیلہ ہی کو حقیقی مؤثر سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث کے ذریعہ غیلہ کے اثرانداز ہونے کا جو اثبات کیا گیا ہے وہ اس بات کے پیش نظر ہے کہ غیلہ فی الجملہ سبب بنتا ہے اور مؤثر حقیقی حق تعالیٰ کی مرضی اور اس کا حکم ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں غیلہ کی جو ممانعت بیان کی گئی ہے وہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزشتہ ارشاد (لقد ہممت) الخ (حدیث نمبر٧) تحریم پر محمول ہے اسی طرح دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہے گا اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے) ان دونوں کی بنیاد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اجتہاد تھا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ عرب کے لوگ جب غیلہ کرتے ہیں تو ان کے بچے ضعیف و کمزور ہو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیلہ سے منع کیا مگر جب بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے روم و فارس کے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہاں غیلہ کی وجہ سے بچہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیلہ کی ممانعت کو ختم کر دیا چنانچہ حضرت جدامہ کی روایت نمبر ٧ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔

عزل کا مشروط جواز

اور حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حرۃ  (آزاد عورت) کے ساتھ اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 آزاد عورت سے جماع کے وقت اگر عزل کیا جائے تو اس سے اجازت لینی ضروری ہے اس کی اجازت حاصل کئے بغیر عزل نہ کیا جائے کیونکہ عزل کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بچہ نہیں ہوتا بلکہ عورت کی جنسی لذت میں کمی بھی ہو جاتی ہے اور ان دونوں چیزوں سے آزاد عورت کا حق متعلق ہے کہ اگر عورت بچہ کی پیدائش چاہتی ہے تو مرد کو یہ اختیار نہیں ہو گا کہ وہ عورت کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دے اسی طرح عورت اگر عزل کی وجہ سے اپنی جنسی لذت میں کمی محسوس کرتی ہے تو یہ اس کے ساتھ بے انصافی ہے اس لئے ضروری ہے کہ عزل کے لئے عورت کی اجازت حاصل کر لی جائے اگر وہ اجازت دے تو عزل کیا جائے اور اگر اجازت نہ دے تو عزل نہ کیا جائے گویا یہ حدیث آزاد عورت کی اجازت کی شرط کے ساتھ اور لونڈی کی اجازت کے بغیر بھی عزل کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔

لونڈی آزاد ہونے کے بعد اپنا نکاح فسخ کر سکتی ہے

حضرت عروۃ ام المؤمنین حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان یعنی (حضرت عائشہ) سے بریرہ کے بارے میں فرمایا کہ اسے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کر دو اور بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت نے اسے اختیار دے دیا تھا اور بریرہ نے اس اختیار کے مطابق اپنے آپ کو اپنے خاوند سے علیحدہ کر لیا تھا۔ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے یہ اختیار نہ دیتے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 بریرہ کا مذکورہ بالا واقعہ تفصیلی طور پر کتاب البیوع میں گزر چکا ہے یہ بطور لونڈی ایک یہودی کی ملکیت میں تھیں پھر حضرت عائشہ نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا تھا چنانچہ بریرہ کی خریداری کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ پہلے اسے اس کے مالکوں سے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کر دو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق حضرت عائشہ نے اسے خریدا اور پھر آزاد کر دیا، بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بریرہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد اگر چاہو تو تم اپنے خاوند کے نکاح میں حسب سابق رہو اور اگر اس کے نکاح میں رہنا نہ چاہو تو اس سے علیحدہ ہو جاؤ، اس اختیار کے پیش نظر بریرہ نے علیحدگی کو اختیار کیا اور اپنے خاوند سے قطع تعلق کر لیا۔ حدیث کا آخری جملہ (ولو کان حرا) الخ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا الخ بظاہر حضرت عروۃ کا اپنا قول معلوم ہوتا ہے اور ائمہ ثلثہ یعنی حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ لونڈی کو آزاد ہونے کے بعد اپنے نکاح کو باقی یا فسخ کرنے کا اختیار اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ اس کا خاوند غلام ہوتا کہ وہ آزاد ہو جانے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہنے کو عار محسوس نہ کرے، اگر اس کا خاوند غلام نہ ہو تو پھر اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہو گا لیکن حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اسے بہرصورت یہ اختیار حاصل ہوتا ہے، خواہ اس کا شوہر غلام ہو یا آزاد ہو۔ دونوں طرف کے علماء کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ آزاد ہوں تو تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا اسی طرح اگر شوہر آزاد ہو جائے تو اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ خواہ اس کی بیوی آزاد ہو یا لونڈی ہو۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام تھا جس کو مغیث کہا جاتا تھا میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ منظر ہے جب وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں روتا پھرتا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر اس کی داڑھی پر گرتے تھے چنانچہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباس سے فرمایا کہ عباس کیا تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ کو کتنا چاہتا ہے اور بریرہ مغیث سے کتنا نفرت کرتی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بریرہ سے بھی فرمایا کہ بریرہ کاش تم مغیث سے رجوع کرتیں (یعنی مغیث سے دوبارہ نکاح کر لیتیں) بریرہ نے عرض کیا کہ یا رسو اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ مجھے بطور وجوب اس کا حکم دے رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بریرہ میں تو سفارش کر رہا ہوں یعنی بطور وجوب نہیں بلکہ بطریق استحباب تمہیں حکم دے رہا ہوں بریرہ نے کہا کہ مجھے اس سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (یعنی مجھے اس کے پاس رہنا منظور نہیں ہے) (بخاری)

 

تشریح

 

 چونکہ بعض روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغیث یعنی بریرہ کا شوہر آزد تھا اس لئے اگر اس حدیث کے ابتدائی جملہ کی یہ وضاحت کی جائے کہ مغیث بد صورتی میں ایک سیاہ فام غلام کی مانند تھا یا یہ کہ مغیث پہلے تو غلام تھا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن پھر آزاد کیا گیا اور وہ آزاد ہو گیا تو اس صورت میں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردار حاکم کو اپی رعایا سے کسی کے حق میں جائز کام کی سفارش کرنا ایک اچھی بات ہے اسی طرح حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اپنے سردار حاکم کی سفارش کو قبول کرنا واجب نہیں ہے اور نہ اس سفارش کو نہ ماننے کی وجہ سے اس سے سردار حاکم کو کوئی مؤاخذہ کرنے کا حق حاصل ہے نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی سے اس کی بدصورتی و بد خلقی کی وجہ سے تعلق نہ رکھنا جائز ہے۔

مملوک خاوند و بیوی کو آزاد کرنا ہو تو پہلے خاوند کو آزاد کیا جائے

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دو مملوکوں کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا جو آپس میں خاوند بیوی تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا آپ نے انہیں عورت سے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا (تا کہ عورت کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار باقی نہ رہے) (ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 اگر حضرت عائشہ پہلے عورت کو آزاد کرتیں تو وہ آزاد ہونے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہتی اس صورت میں اسے یہ اختیار حاصل ہو جاتا کہ اگر وہ چاہتی تو اپنا نکاح باقی رکھتی اور اگر اسے شوہر کے ساتھ رہنا گوارہ نہ ہوتا تو نکاح فسخ کر دیتی (جیسا کہ ائمہ ثلاثہ کا مسلک ہے اور جس کی تفصیل ابھی پیچھے گزری ہے) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ کو پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تا کہ یہ اختیار نہ رہے اور مرد کی دل شکنی نہ ہو۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ مرد عورت کی بہ نسبت زیادہ کامل اور افضل ہوتا ہے لہذا اس کو مقدم رکھنا چاہئے، یا پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ مرد تو لونڈی بیوی کو گوارا کر لیتا ہے لیکن عورت اگر کسی غلام کے نکاح میں ہوتی ہے تو پھر اکثر اس سے بیزار رہتی ہے اور ہمہ وقت ذہنی اذیت و کوفت میں مبتلا رہتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تا کہ اس کی بیوی اپنے شوہر کی طرف سے کسی بیزاری میں مبتلا نہ ہو۔

اگر لونڈی اپنی مرضی سے نکاح کرے تو آزاد ہونے کے بعد فسخ نکاح کا اختیار اسے حصل نہیں ہوتا

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بریرہ اس حال میں آزاد ہوئی تھی کہ وہ مغیث کے نکاح میں تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار دے دیا لیکن یہ بھی فرما دیا کہ اگر تیرا شوہر تجھ سے جماع کرے گا تو تجھے یہ اختیار حاصل رہے گا کیونکہ اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ تو اس کی زوجیت پر راضی ہے (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

 ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کسی لونڈی نے اپنے مالک کی رضا مندی سے اپنا نکاح کیا یا اس کے مالک نے اس کا نکاح اس کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر کر دیا اور پھر وہ لونڈی آزاد ہو گئی تو اس کو اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے خواہ اس کا خاوند ہو یا غلام ہو اور اگر لونڈی اپنے مالک کی رضا مندی و اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کرے اور پھر اس کا مالک اس کو آزاد کر دے تو آزاد ہوتے ہی اس کا نکاح منعقد یعنی صحیح ہو جاتا ہے لیکن اسے مذکورہ اختیار حاصل نہیں رہتا۔ ائمہ ثلاثہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر لونڈی کسی آزاد کے نکاح میں ہو تو آزاد ہونے کے بعد اس لونڈی کو اپنے نکاح کے باقی یا فسخ کر دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔

علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ بریرہ کے خاوند کے بارے میں متعارض روایتیں منقول ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت بریرہ کو اس حال میں اختیار دیا تا کہ اس کا شوہر غلام تھا لیکن بخاری و مسلم ہی میں یہ بھی منقول ہے کہ جب بریرہ کو آزاد کیا گیا تو اس کا شوہر ایک آزاد مرد تھا۔

اسی طرح کی روایت سنن اربعہ یعنی ابو داؤد ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے بھی نقل کی ہے نیز ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے، لہذا ائمہ ثلاثہ نے تو پہلی روایت کو ترجیح دی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ نے دوسری روایت کو راجح قرار دیا ہے۔ ملا علی قاری نے ابن ہمام کے اس قول کو مرقاۃ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، یہاں طوالت کے خوف سے اس کا خلاصہ نقل کر دیا گیا ہے۔