متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک شکار یا شکار میں کسی کی اعانت محرم کے لئے حرام ہے، چنانچہ کسی شکار کے جانور کو قتل کرنے یا اس کے قتل میں اعانت کرنے سے محرم پر جزاء لازم آتی ہے۔
شکار کی وجہ سے محرم پر جو جزاء یا کفارہ لازم ہوتا ہے اس سے مراد وہ قیمت ہے جو دو عادل و تجربہ کار شخص اس شکار کی تجویز کریں اور یہ قیمت یا تو اس مقام کے اعتبار سے ہو جہاں وہ شکار مارا گیا ہے یا اگر اس مقام پر کوئی قیمت نہ ہو تو اس مقام کے اعتبار سے ہو جو شکار کے مقام سے قریب تر ہو کیونکہ ایک چیز کی قیمت مختلف مقامات کے اعتبار سے بدل جاتی ہے، اسی طرح یہ قیمت اس زمانہ کے اعتبار سے ہو جس میں وہ شکار مارا گیا ہے کیونکہ ایک چیز کی قیمت مختلف اوقات و زمانہ میں بدل جاتی ہے، پھر اس بارے میں محرم کو اختیار ہو گا کہ چاہے تو وہ اس مجوزہ قیمت سے قربانی کا کوئی جانور خرید کر اگر اس قیمت میں کوئی جانور مل سکتا ہو حرم میں ذبح کر دے اور چاہے اس قیمت سے غلہ خرید کر ہر فقیر کو، اگر گیہوں ہو تو نصف نصف صاع اور اگر جو یا کھجور ہو تو ایک ایک صاع تقسیم کر دے کسی فقیر کو اس تعداد سے کم نہ دے اور چاہے ہر فقیر کی تعداد صدقہ یعنی نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو کے عوض ایک روزہ رکھ لے اور اس صورت میں اگر ایک فقیر کے مقدار صدقہ کا کوئی حصہ باقی بچے تو اس کو خیرات کر دے یا اس کے بدلہ بھی ایک روزہ رکھ لے۔ اس صورت میں یہ بات ملحوظ رہے کہ شکار کی جزا بہر صورت واجب ہو گی خواہ کوئی محرم قصداً شکار مارے یا سہواً اس کا مرتکب ہو جائے۔
اگر کوئی محرم کسی شکار کے ہاتھ پیر کاٹ دے یا اس کے پر نوچ اکھاڑ دے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی حفاظت سے معذور ہو جائے تو اس شکار کی پوری قیمت دینا پڑے گی اور اس کا دودھ دوہے تو اس دودھ کی قیمت اس پر واجب ہو گی، اسی طرح اگر اس کا انڈا توڑ دے تو اس کی قیمت دینی پڑے گی۔
محرم شکار کھائے یا نہ کھائے؟ اس بارے میں تفصیل ہے اس بات میں تو بالاتفاق تمام علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی محرم خود شکار کرے یا کوئی دوسرا محرم شکار کرے تو وہ شکار کھانا محرم کے لئے حرام ہے ہاں اگر صورت یہ ہو کہ کوئی غیر محرم اپنے لئے شکار کرے یا محرم کے لئے اس کی اجازت سے یا اس کی اجازت کے بغیر شکار کرے تو اس کے کھانے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال و مسلک ہیں چنانچہ بعض صحابہ و تابعین کہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں کا قول تو یہ ہے کہ محرم کے لئے مطلق شکار کھانا حرام ہے، ان کی دلیل حضرت صعب ابن جثامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو اس باب کی پہلی حدیث ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ اگر محرم خود شکار کرے یا کوئی دوسرا شخص اس کے لئے یا اس کی اجازت سے یا اس کی اجازت کے بغیر شکار کرے تو اس کے لئے اس شکار کو کھانا حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی غیر محرم اپنے لئے شکار کرے اور اس میں سے کچھ بطور ہدیہ محرم کو بھیجے تو اس کا کھانا اس کے لئے حلال ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء کا مسلک یہ ہے کہ محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا حلال ہے خواہ وہ شکار اس کے لئے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو بشرطیکہ وہ شکار نہ تو اس نے خود کیا ہو، نہ اس شکار کرنے کا کسی کو حکم دیا ہو، نہ اس شکار کی راہ کسی کو دکھائی ہو، نہ اس شکار کی طرف کسی کو متوجہ کیا ہو، اور نہ اس شکار میں خود اس نے یا کسی اور محرم نے اعانت کی ہو۔ حنفیہ کی دلیل حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
محرم کے لئے جس شکار کی ممانعت ہے اس سے مراد جنگلی شکار کو قتل کرنا ہے۔ جنگلی ان جانوروں کو کہتے ہیں جن کا توالد و تناسل خشکی یا جنگل میں ہوتا ہو گو ان کی بود و باش پانی میں ہو جیسے مرغابی وغیرہ۔ اسی طرح شکار اس جانور کو کہتے ہیں جو اصل خلقت میں وحشی ہو خواہ وہ کسی وجہ سے مانوس ہو گیا ہو جیسے ہرن کہ وہ پالنے والے سے مانوس ہو جاتا ہے مگر چونکہ وہ دراصل وحشی ہے اس لئے شکار کہلائے گا خواہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا پلا ہوا ہو بہر صورت اس کا شکار کرنے سے جزا واجب ہو گی۔ جو جانور دراصل وحشی نہ ہو اس کا قتل کرنا حالت احرام میں بھی جائز ہے چنانچہ بکری، دنبہ، بھیڑ گائے اونٹ اور گھر کی پلی ہوئی بطخ کو ذبح کرنا محرم کے لئے جائز ہے۔ کبوتر کو فقہاء نے وحشی الاصل قرار دیا ہے اس لئے اس کے شکار پر جزا واجب ہوتی ہے۔ دریائی جانوروں کا شکار آیت کریمہ۔ (اُحِلَّ لَكُمْ صَیدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ) 5۔ المائدہ:96)۔ کے پیش نظر محرم اور غیر محرم دونوں کے لئے حلال ہے خواہ وہ جانور کھائے جانے والے ہوں یا کھائے جانے والے نہ ہوں۔
جو جنگلی جانور کھائے جاتے ہیں ان کا شکار تو متفقہ طور پر حرام ہے، ہاں جو جانور کھائے نہیں جاتے ان کو صاحب بدائع نے دو قسمیں کی ہیں ایک قسم تو ان جانوروں کی ہے جو طبعاً ایذاء پہنچاتے ہیں اور اکثر و بیشتر ایذاء پہنچانے میں خود ابتداء کرتے ہیں، جیسے شیر، چیتا اور بھیڑیا چنانچہ ان جانوروں کو قتل کرنا محرم کے لئے جائز ہے اور ان کو قتل کرنے سے محرم پر جزاء واجب نہیں ہوتی، دوسری قسم ان جانوروں کی ہے جو ایذا پہنچانے میں ابتداء نہیں کرتے جیسے چرغ(شکرہ کی ایک قسم وغیرہ) ایسے جانوروں کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ جانور محرم پر پہلے حملہ کریں تو وہ ان کو مار سکتا ہے اور اس کی وجہ سے اس پر جزاء واجب نہیں ہو گی اور اگر وہ حملہ نہ کریں تو پھر محرم کے لئے یہ مباح نہیں ہے کہ وہ ان کو مارنے میں ابتداء کرے اگر ابتداء کرے گا تو اس پر جزا واجب ہو گی۔
حضرت صعب رضی اللہ عنہ بن جثامہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حمار وحشی (گورخر) بطور ہدی کے بھیجا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ابواء یا ودان میں کہ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے واپس کر دیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی وجہ سے ان کے چہرہ پر غم و افسوس کے آثار محسوس کئے تو فرمایا کہ ہم نے تمہارا ہدیہ اس لئے واپس کر دیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
بظاہر یہ حدیث ان حضرات کی دلیل ہے جو مطلق شکار کا گوشت کھانے کو محرم کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور چونکہ حنفیہ کا مسلک جو باب کی ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ بن عبیدا للہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق ہے اس لئے حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ زندہ گورخر بطور شکار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور چونکہ شکار قبول کرنا محرم کے لئے درست نہیں ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے واپس کر دیا۔ لیکن پھر ایک اشکال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک روایت میں وضاحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا گیا تھا، ایک روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ گورخر کی ران بھیجی گئی تھی، اسی طرح ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ اس کا ایک ٹکڑا بھیجا گیا تھا۔
لہٰذا ان روایتوں کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندہ گورخر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ یہاں حدیث میں بھی گورخر سے اس کا گوشت ہی مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں زندہ گورخر ہی بھیجا گیا ہو گا جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول نہیں کیا، پھر بعد میں دوسرے گورخر کی ران بھیجی گئی اسی کو کسی نے تو گوشت سے تعبیر کیا اور کسی نے اسے اس کا ٹکڑا کہا۔
اس بارے میں حنفیہ کی بڑی دلیل یہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں گورخر پیش کیا گیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام عرف میں تشریف فرما تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے رفقاء میں تقسیم کر دو۔ مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں شافعیہ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس گورخر کو اس گمان کی بناء پر واپس کر دیا کہ بطور خاص میرے لئے شکار کیا گیا ہے۔
حضرت ابوقتادہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ روانہ ہوئے تو وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے جو عمرہ کے لئے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن خود ابوقتادہ حالت احرام میں نہیں تھے! چنانچہ راستہ میں ایک جگہ ان کے ساتھیوں نے گورخر دیکھا مگر ابوقتادہ کی نظر اس پر نہیں پڑی، ان کے ساتھیوں نے اس گورخر کو دیکھ کر صرف نظر کر لیا، آخر کار ابوقتادہ نے بھی اس گور خر کر دیکھ لیا اور اس کو شکار کرنے کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے اپنا چابک مانگا مگر انہوں نے اس وجہ سے کہ اس شکار میں ہماری اعانت کسی درجہ میں بھی شامل نہ ہو چابک دینے سے انکار کر دیا ابوقتادہ نے گھوڑے سے اتر کر خود چابک اٹھایا اور گورخر پر حملہ آور ہوئے یہاں تک کہ اسے مار لیا، پھر اس کے گوشت کو تیار کر کے خود انہوں نے بھی کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا، مگر ان کے ساتھی اس کا گوشت کھا کر پشیمان ہوئے کیونکہ انہوں نے گمان کیا کہ محرم کے لئے مطلق شکار کا گوشت کھانا درست نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا حکم پوچھا کہ آیا اس گورخر کا گوشت کھانا ہمارے لئے درست تھا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس کا پاؤں باقی رہ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ پاؤں لیا اور اس کو تیار کرا کر کھایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظاہر فرمایا کہ اس کا گوشت کھانا تمہارے لئے درست تھا (بخاری و مسلم) بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ گورخر پر حملہ آور ہوں یا تم میں سے کسی نے گورخر کی طرف اشارہ کر کے اس کے شکار پر متوجہ کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر اس کے گوشت میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے کھا لو۔
تشریح
اس حدیث کے بارے میں ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس گورخر میں سے بچا ہوا پاؤں تیار کرا کر کھایا جب کہ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کھایا نہیں؟ لہٰذا اس اشکال کو دور کرنے کے لئے علماء ان دونوں روایتوں میں یہ مطابقت پیدا کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ خود حالت احرام میں تھے اس لئے ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ گمان کیا ہو گا کہ اس گورخر کے شکار میں کسی محرم کے حکم یا اس کی اعانت کو دخل رہا ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کھانے سے انکار کر دیا ہو گا مگر جب صحیح صورت حال سامنے آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہو گیا کہ اس کے شکار میں کسی محرم کے حکم یا اس کی اعانت کا کوئی دخل نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کھایا۔
محرم کے لئے جس طرح یہ ممنوع ہے کہ وہ شکار کے لئے کسی کو حکم دے اسی طرح دلالت اور اشارت بھی ممنوع ہے دلالت اور اشارت میں فرق یہ ہے کہ دلالت کا تعلق زبان سے ہوتا ہے مثلاً محرم کو کسی ہاتھ کے اشارہ سے شکار کی طرف متوجہ کرے! بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دلالت کا تعلق اس شکار سے ہوتا ہے جو نظر کے سامنے نہ ہو اور اشارت کا تعلق اس شکار سے ہوتا ہے جو نظر کے سامنے ہو۔
اس موقع پر یہ بات جان لیجئے کہ محرم کے لئے تو دلالت حدود حرم میں بھی حرام اور حدود حرم سے باہر بھی لیکن غیر محرم کے لئے حدود حرم میں تو حرام ہے اور حدود حرم سے باہر نہیں۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محرم کو شکار کا گوشت کھانا حلال ہے بشرطیکہ وہ شکار نہ تو خود اس نے کیا ہو اور نہ اس شکار میں اس کی دلالت اشارت اور اعانت کا قطعاً دخل ہو، چنانچہ یہ حدیث حنفیہ کے اس مسلک کی دلیل ہے اور ان حضرات کے مسلک کی تردید کرتی ہے جو محرم کو مطلق شکار کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ پانچ جانور ہیں جن کو حرم میں اور حالت احرام میں مارنا گناہ نہیں ہے (١) چوہا۔ (٢) کوا (٣) چیل(٤) بچھو (۵) کٹ کھنا کتا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
الغراب (کوا) سے مراد الغراب الابقع (ابلق کوا) یعنی وہ سیاہ سفید کوا ہے جو اکثر مردار اور نجاسات کھاتا ہے۔ چنانچہ اگلی روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ اس لئے وہ کوا مارنا جائز نہیں ہے جو کھیت کھلیاں کھاتا ہے اور جس کے پورے جسم کا رنگ تو سیاہ اور چونچ و پاؤں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔
کٹ کھنے کتے کے حکم کے میں وہ تمام درندے جانور شامل ہیں جو حملہ آور ہوتے ہیں، ایسے تمام جانوروں کو حرم میں اور احرام کی حالت میں مارنا جائز ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایذاء پہنچانے والے پانچ جانور ہیں جن کو حدود حرم سے باہر بھی اور حدود حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے (مارنے والا خواہ احرام کی حالت میں ہو خواہ احرام سے باہر ہو) سانپ، ابلق کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا، چیل۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس کتے کو مارنا حرام ہے جس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اس کتے کو بھی مارانا حرام ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو اس سے کوئی ضرر و نقصان بھی نہ پہنچتا ہو۔
مذکورہ بالا دونوں حدیث میں جن جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے مارنے کی اجازت صرف انہیں پر منحصر نہیں بلکہ یہی حکم ان تمام جانروں کا بھی ہے جن سے ایذاء پہنچتی ہو جیسے چیونٹی، پسو، چچری، اور کھٹمل وغیرہ۔ ہاں اگر جوئیں ماری جائیں گی تو پھر حسب استطاعت و توفیق صدقہ دینا واجب ہو گا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے لئے احرام کی حالت میں شکار کا گوشت حلال ہے بشرطیکہ وہ شکار نہ تو تم نے خود کیا اور نہ تمہارے لئے کیا گیا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی،)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر حالت احرام میں تم خود شکار کرو گے یا کوئی دوسرا تمہارے لئے شکار کرے گا، اگرچہ وہ شکاری حالت احرام میں نہ ہو تو اس شکار کا گوشت کھانا تمہارے لئے درست نہیں ہو گا۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی اس حدیث کو اپنے اس مسلک کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ محرم کے لئے اس شکار کا گوشت کھانا حرام ہے جسے کسی غیر محرم نے اس کے لئے شکار کیا ہو۔
لیکن حنفیہ اس حدیث کے یہ معنی مراد لیتے ہیں کہ اگر حالت احرام میں زندہ شکار تمہارے لئے بطور تحفہ بھیجا جائے تو اس کا گوشت کھانا تمہارے لئے حرام ہو گا۔ ہاں اگر اس شکار کا گوشت تحفہ کے طور پر تمہارے پاس بھیجا جائے اس کا کھانا حرام نہیں ہو گا۔ گویا اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ اگر تمہارے حکم کی بناء پر کوئی شکار کیا جائے گا تو اس کا کھانا تمہارے لئے درست نہیں ہو گا لہٰذا اس شکار کا گوشت محرم کے لئے حرام نہیں ہے جسے کوئی غیر محرم اس کے لئے ذبح کرے بشرطیکہ اس شکار میں محرم کے حکم یا اس کی اعانت اور اشارت و دلالت کا کوئی دخل نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹڈی دریا کے شکار کی مانند ہے (ابوداؤد، ترمذی)
تشریح
حنفی علماء کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ٹڈی کو دریا کے شکار کی مانند صرف اس اعتبار سے فرمایا ہے، کہ ٹڈی دریائی شکار یعنی مچھلی کے مشابہ ہے کہ جس طرح مچھلی بغیر ذبح کئے ہوئے کھائی جاتی ہے اسی طرح ٹڈی کو بھی بغیر ذبح کئے کھانا درست ہے، چنانچہ محرم کے لئے ٹڈی مارنا جائز نہیں ہے اگر کوئی محرم ٹڈی مارے گا تو اس پر صدقہ جتنا بھی وہ دے سکے گا لازم ہو گا۔ نیز ہدایہ میں بھی یہ لکھا ہے کہ ٹڈی جنگل کے شکار کے حکم میں ہے اور ابن ہمام کے قول کے مطابق اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔
بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لئے ٹڈی کا شکار یعنی ٹڈی پکڑنا جائز ہے کیونکہ یہ دریائی شکار کی مانند ہے اور اس آیت کریمہ۔ (اُحِلَّ لَكُمْ صَیدُ الْبَحْرِ) 5۔ المائدہ:96)۔ اور احرام کی حالت میں تمہارے لئے دریائی شکار حلال رکھا گیا ہے کے پیش نظر محرم کے لئے دریا کا شکار جائز ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ محرم حملہ کرنے والے درندے کو مار ڈالے۔
تشریح
حملہ کرنے والے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ جان لینے یا زخمی کرنے کے لئے چڑھ دوڑے جیسے شیر، بھیڑیا اور چیتا وغیرہ کہ یہ درندے انسان کو دیکھتے ہی اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن ابوعمار (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے چرغ کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ شکار ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں! میں نے پھر پوچھا کہ کیا اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں! میں نے کہا کہ کیا آپ نے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہاں! (ترمذی، نسائی، شافعی) نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
سائل کا مطلب یہ تھا کہ چرغ شکار ہے کہ محرم کے لئے اس کا کھانا حرام ہو یا یہ کہ شکار نہیں ہے، بہر کیف اس موقع پر محرم سے قطع نظر چرغ کے بارے میں بنیادی اختلاف تو یہ ہے کہ چرغ کا گوشت ویسے بھی حلال ہے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت امام شاسفعی تو اس حدیث کے پیش نظر یہ فرماتے ہیں کہ چرغ حلال جانور ہے اس کا گوشت کھانا درست ہے جب کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک حلال جانور نہیں ہے اس لئے اس کا گوشت کسی کو بھی کھانا درست نہیں ہے۔ ان کی دلیل حضرت خزیمہ ابن جزی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو آگے آ رہی ہے۔
٭٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چرغ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ شکار ہے اگر کوئی محرم اس کا مرتکب ہو جائے تو اس کے بدلہ میں دنبہ دے یا مینڈھا دے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے احرام کی حالت میں چرغ کا شکار کیا اسے خریدا تو اس کی جزاء کے طور پر ایک دنبہ یا ایک مینڈھا واجب ہو گا۔
حضرت خزیمہ بن جزی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چرغ کا گوشت کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کہیں کوئی اس کا گوشت بھی کھاتا ہے؟ یعنی اس کا گوشت نہ کھانا چاہئے پھر میں نے بھیڑئیے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا کوئی ایسا شخص جس میں بھلائی یعنی ایمان یا تقویٰ ہو بھیڑئیے کا گوشت بھی کھاتا ہے؟ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔
تشریح
جیسا کہ امام ترمذی نے فرمایا ہے یہ روایت اگرچہ باعتبار سند کے ضعیف ہے لیکن بذات خود یہ حدیث بالکل صحیح ہے جس کی دلیل ابن ماجہ کی روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ومن یاکل الضبع نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ذی ناب کونچلی والا درندہ کھانے سے منع کیا (ذی ناب درندہ اس درندہ کو کہتے ہیں جو دانت سے شکار کرتا ہے) اور چرغ ذی ناب درندہ ہے، بہر کیف چونکہ چرغ کے مباح اور حرام ہونے کی دلیلوں میں تعارض ہے اس لئے حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے کہ اس کا گوشت نہ کھانا چاہئے۔
حضرت عبدالرحمن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور ہم سب احرام کی حالت میں تھے کہ ان کے پاس بطور ہدیہ ایک پرندہ کا پکا ہوا گوشت آیا حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سور ہے تھے چنانچہ ہم میں سے بعض نے وہ گوشت کھا لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ محرم کو شکار کا گوشت کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس شکار میں اس کے حکم وغیرہ کو کوئی دخل نہ ہو اور بعض نے اس سے پرہیز کیا کیونکہ ان کا گمان تھا کہ محرم کو یہ گوشت کھانا درست نہیں ہے، پھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی موافقت کی جنہوں نے وہ گوشت کھایا تھا، نیز انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ اسی طرح یعنی حالت احرام میں شکار کا گوشت کھایا تھا۔
تشریح
گوشت کھانے والوں سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی موافقت کا تعلق قول سے بھی ہو سکتا ہے اور فعل سے بھی، یعنی یا تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے زبانی یہ کہا ہو گا کہ تم نے گوشت کھا لیا، اچھا کیا، اس میں کوئی حرج نہیں یہ قولی موافقت ہے، یا پھر یہ کہ خود انہوں نے بھی باقی بچا ہوا گوشت کھایا ہو گا یہ فعلی موافقت ہے۔ بہر کیف یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے اس مسلک کی تائید کرتی ہے کہ اگر محرم خود شکار نہ کرے اور نہ اس شکار میں اس کے حکم وغیرہ کا دخل ہو تو وہ اس کا گوشت کھا سکتا ہے۔
ایک پرندہ سے مراد یا تو جنس ہے کہ کئی پرندوں کا گوشت آیا تھا، یا پھر وہ ایک ہی پرندہ تھا جو اتنا بڑا تھا کہ اس کا گوشت تمام لوگوں کے لئے کافی ہو گیا۔