حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ عَلَيْهِمْ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی ۱؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۱ (۸۹۳)، والاستقراض ۲۰ (۲۴۰۹)، والعتق ۱۷ (۲۵۵۴)، والوصایا ۹ (۲۷۵۱)، والنکاح ۸۱ (۵۲۰۰)، والأحکام ۱ (۷۱۳۸)، (تحفة الأشراف: ۷۲۳۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة ۵ (۱۸۲۹)، سنن الترمذی/الجھاد ۲۷ (۱۵۰۷)، مسند احمد (۲/۵، ۵۴، ۱۱۱، ۱۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کہ تو نے کس طرح اپنی رعایا کی نگہبانی کی شریعت کے مطابق یا خلاف شرع۔ ۲؎ : کہ شوہر کے مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی اور اس کے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی یا نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، وَمَنْصُورٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ لَا تَسْأَلِ الإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا".
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہو گی ۲؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأیمان والنذور ۱ (۶۶۲۲)، وکفارات الأیمان ۱۰ (۶۷۲۲)، والأحکام ۵ (۷۱۴۶)، صحیح مسلم/الأیمان ۳ (۱۶۵۲)، سنن الترمذی/النذور ۵ (۱۵۲۹)، سنن النسائی/آداب القضاة ۵ (۵۳۸۶)، (تحفة الأشراف: ۹۶۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۶۱، ۶۲، ۶۳)، سنن الدارمی/النذور والأیمان ۹ (۲۳۹۱)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (۳۲۷۷، ۳۲۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ تعالی معاملات کو سلجھانے و نمٹانے میں تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ ۲ ؎ : یعنی تم معاملات کو بہتر طور پر انجام دے سکو گے۔
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ بِشْرِ بْنِ قُرَّةَ الْكَلْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ رَجُلَيْنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَشَهَّدَ أَحَدُهُمَا، ثُمَّ قَالَ: جِئْنَا لِتَسْتَعِينَ بِنَا عَلَى عَمَلِكَ، وَقَالَ الآخَرُ مِثْلَ قَوْلِ صَاحِبِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَخْوَنَكُمْ عِنْدَنَا مَنْ طَلَبَهُ، فَاعْتَذَرَ أَبُو مُوسَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: لَمْ أَعْلَمْ لِمَا جَاءَا لَهُ فَلَمْ يَسْتَعِنْ بِهِمَا عَلَى شَيْءٍ حَتَّى مَاتَ.
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دو آدمیوں کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، ان میں سے ایک نے (اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی) گواہی دی پھر کہا کہ ہم آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ آپ ہم سے اپنی حکومت کے کام میں مدد لیجئے ۱؎ دوسرے نے بھی اپنے ساتھی ہی جیسی بات کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے نزدیک تم میں وہ شخص سب سے بڑا خائن ہے جو حکومت طلب کرے"۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت پیش کی، اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں آدمی اس غرض سے آئے ہیں پھر انہوں نے ان سے زندگی بھر کسی کام میں مدد نہیں لی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/آداب القضاة ۴ (۵۳۸۴)، (تحفة الأشراف: ۹۰۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۳، ۴۱۱) (منکر)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ہمیں عامل بنا دیجئے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرَّمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى الْمَدِينَةِ مَرَّتَيْنِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں دو مرتبہ (جب جہاد کو جانے لگے) اپنا قائم مقام (خلیفہ) بنایا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۵۹۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ نسب اور سیر کے علماء کی ایک جماعت نے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غزوات میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو تیرہ مرتبہ اپنا جانشین مقرر کیا ہے، اور قتادہ کے اس قول کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ ان تک وہ روایتیں نہیں پہنچ سکی ہیں جو دوسروں تک پہنچی ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِالأَمِيرِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ غَيْرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرْهُ وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ جب کسی حاکم کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے سچا وزیر عنایت فرماتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے، اور اگر اسے یاد رہتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جب اللہ کسی حاکم کی بھلائی نہیں چاہتا ہے تو اس کو برا وزیر دے دیتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ یاد نہیں دلاتا، اور اگر یاد رکھتا ہے تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۷۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/البیعة ۳۳ (۴۲۰۹)، مسند احمد (۶/۷۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث ایک اصل عظیم ہے، اکثر بادشاہوں کی حکومتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں کہ ان کے وزیر اور مشیر نالائق اور نکمے تھے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ،عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: "لَهُ أَفْلَحْتَ يَا قُدَيْمُ إِنْ مُتَّ وَلَمْ تَكُنْ أَمِيرًا وَلَا كَاتِبًا وَلَا عَرِيفًا".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا: "قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مر گئے تو تم نے نجات پا لی ۲؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۳) (ضعیف) (اس کے راوی صالح بن یحییٰ بن مقدام ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : عریف: اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے۔ ۲؎ : اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا عَلَى مَنْهَلٍ مِنَ الْمَنَاهِلِ، فَلَمَّا بَلَغَهُمُ الإِسْلَامُ جَعَلَ صَاحِبُ الْمَاءِ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، فَأَرْسَلَ ابْنَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: ائْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَإِنَّهُ جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ ؟ فَإِنْ قَالَ لَكَ: نَعَمْ أَوْ لَا، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، فَقَالَ: "وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا وَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ ؟ فَقَالَ: إِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُسْلِمَهَا لَهُمْ فَلْيُسْلِمْهَا، وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَسْلَمُوا فَلَهُمْ إِسْلَامُهُمْ وَإِنْ لَمْ يُسْلِمُوا قُوتِلُوا عَلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَقَالَ: إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ، وَلَكِنَّ الْعُرَفَاءَ فِي النَّارِ".
غالب قطان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عرب کے ایک چشمے پر رہتے تھے جب ان کے پاس اسلام پہنچا تو چشمے والے نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا، چنانچہ وہ سب مسلمان ہو گئے تو اس نے اونٹوں کو ان میں تقسیم کر دیا، اس کے بعد اس نے اپنے اونٹوں کو ان سے واپس لے لینا چاہا تو اپنے بیٹے کو بلا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور اس سے کہا: تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ میرے والد نے آپ کو سلام پیش کیا ہے، اور میرے والد نے اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا چنانچہ وہ اسلام لے آئے اور والد نے ان میں اونٹ تقسیم بھی کر دیئے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا وہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اب اگر آپ ہاں فرمائیں یا نہیں فرمائیں تو فرما دیجئیے میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اس چشمے کے وہ عریف ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ مجھے وہاں کا عریف بنا دیں، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو"۔ پھر انہوں نے کہا: میرے والد نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں، تو وہ انہیں سو اونٹ دیں گے چنانچہ وہ سب اسلام لے آئے اور اچھے مسلمان ہو گئے، اب میرے والد چاہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو ان سے واپس لے لیں تو کیا میرے والد ان اونٹوں کا حق رکھتے ہیں یا وہی لوگ حقدار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تمہارے والد چاہیں کہ ان اونٹوں کو ان لوگوں کو دے دیں تو دے دیں اور اگر چاہیں کہ واپس لے لیں تو وہ ان کے ان سے زیادہ حقدار ہیں اور جو مسلمان ہوئے تو اپنے اسلام کا فائدہ آپ اٹھائیں گے اور اگر مسلمان نہ ہوں گے تو مسلمان نہ ہونے کے سبب قتل کئے جائیں گے (یعنی اسلام سے پھر جانے کے باعث)"۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اور اس چشمے کے عریف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کا عہدہ مجھے دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عرافت تو ضروری (حق) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن (یہ جان لو) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۱۶) (ضعیف) (اس کی سند میں کئی مجہول ومبہم راوی ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: السِّجِلُّ كَاتِبٌ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سجل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب (منشی یا محرر) تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۳۶۵) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن کعب مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے اپنے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ حدیث موضوع ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین وحی میں سے کسی بھی کاتب کا نام سجل نہیں تھا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے کسی بھی صحابی کا نام سجل نہیں تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَسْبَاطِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: "ایمانداری سے زکاۃ کی وصولی وغیرہ کا کام کرنے والا شخص جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کی طرح ہے، یہاں تک کہ لوٹ کر اپنے گھر آئے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزکاة ۱۸ (۶۴۵)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۱۴ (۱۸۰۹)، (تحفة الأشراف: ۳۵۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۶۵، ۴/۱۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "صاحب مکس (قدر واجب سے زیادہ زکاۃ وصول کرنے والا) جنت میں نہ جائے گا (کیونکہ یہ ظلم ہے)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۹۳۵، ۱۹۲۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۳، ۱۵۰)، سنن الدارمی/الزکاة ۲۸ (۱۷۰۸) (ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقَطَّانُ، عَنْ ابْنِ مَغْرَاءَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، قَالَ: الَّذِي يَعْشُرُ النَّاسَ يَعْنِي صَاحِبَ الْمَكْسِ.
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ صاحب مکس وہ ہے جو لوگوں سے عشر لیتا ہے (بشرطیکہ وہ ظلم و تعدی سے کام لے رہا ہو) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۹۳۵، ۱۹۲۸۶) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، وَسَلَمَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: إِنِّي إِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدِ اسْتَخْلَفَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَا يَعْدِلُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا ۱؎ اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اللہ کی! انہوں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو درجہ نہیں دے سکتے اور یہ کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲ (۱۸۲۳)، سنن الترمذی/الفتن ۴۸ (۲۲۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۲۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأحکام ۵۱ (۷۲۱۸)، مسند احمد (۱/۴۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان: " کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا " کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے لئے کسی متعین شخص کا نام نہیں لیا تھا بلکہ صرف اتنا کہہ کر رہنمائی کر دی تھی کہ «الأئمة من قريش» چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی سنت نبوی کو اپنا کر کبار صحابہ میں سے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے لئے چھ ناموں کا اعلان کیا اور کہا کہ ان میں سے صحابہ جس پر اتفاق کر لیں وہی میرے بعد ان کا خلیفہ ہے چنانچہ سبھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر اتفاق کیا۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نُبَايِعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَيُلَقِّنُنَا فِيمَا اسْتَطَعْتَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تھے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلقین کرتے تھے کہ ہم یہ بھی کہیں: جہاں تک ہمیں طاقت ہے (یعنی ہم اپنی پوری طاقت بھر آپ کی سمع و طاعت کرتے رہیں گے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۱۹۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأحکام ۴۳ (۷۲۰۲)، صحیح مسلم/الإمارة ۲۲ (۱۸۶۷)، سنن الترمذی/السیر ۳۴ (۱۵۹۳)، سنن النسائی/البیعة ۲۴ (۴۱۹۲)، موطا امام مالک/البیعة ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۶۲، ۸۱، ۱۰۱، ۱۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أخبرته عن بَيْعَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّسَاءَ، قَالَتْ: مَا مَسَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا فَإِذَا أَخَذَ عَلَيْهَا فَأَعْطَتْهُ، قَالَ: "اذْهَبِي فَقَدْ بَايَعْتُكِ".
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے کس طرح بیعت لیا کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی اجنبی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا، البتہ عورت سے عہد لیتے جب وہ عہد دے دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: "جاؤ میں تم سے بیعت لے چکا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲۱ (۱۸۶۶)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۶۰ (۳۳۰۶) (تحفة الأشراف: ۱۶۶۰۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الممتحنة ۲ (۴۸۹۱)، والطلاق ۲۰ (۵۲۸۸)، والأحکام ۴۹ (۷۲۱۴)، سنن ابن ماجہ/الجھاد ۴۳ (۲۸۷۵)، مسند احمد (۶/۱۱۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زَهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ: وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ صَغِيرٌ فَمَسَحَ رَأْسَهُ".
عبداللہ بن ہشام (انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد پایا تھا) فرماتے ہیں کہ ان کی والدہ زینب بنت حمید رضی اللہ عنہا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! اس سے بیعت کر لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کم سن ہے" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرکة ۱۳ (۲۵۰۱)، والأحکام ۴۶ (۷۲۱۰)، (تحفة الأشراف: ۹۶۶۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ أَبُو طَالِبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیں اور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ)مقرر کر دیں پھر وہ اپنے مقررہ حصے سے جو زیادہ لے گا تو وہ (مال غنیمت میں) خیانت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ عَلَى الصَّدَقَةِ فَلَمَّا فَرَغْتُ أَمَرَ لِي بِعُمَالَةٍ، فَقُلْتُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ، قَالَ: خُذْ مَا أُعْطِيتَ فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَمَّلَنِي.
ابن الساعدی (عبداللہ بن عمرو السعدی القرشی العامری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے صدقہ (وصولی) پر عامل مقرر کیا جب میں اس کام سے فارغ ہوا تو عمر رضی اللہ عنہ نے میرے کام کی اجرت دینے کا حکم دیا، میں نے کہا: میں نے یہ کام اللہ کے لیے کیا ہے، انہوں نے کہا: جو تمہیں دیا جائے اسے لے لو، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (زکاۃ کی وصولی کا)کام کیا تھا تو آپ نے مجھے اجرت دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۱ (۱۴۷۳)، والأحکام ۱۷ (۷۱۶۳)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۷ (۱۰۴۵)، سنن النسائی/الزکاة ۹۴ (۲۶۰۵، ۲۶۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۴۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷،۴۰، ۵۲)، سنن الدارمی/الزکاة ۱۹ (۱۶۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ لَنَا عَامِلًا فَلْيَكْتَسِبْ زَوْجَةً، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ خَادِمٌ فَلْيَكْتَسِبْ خَادِمًا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَسْكَنٌ فَلْيَكْتَسِبْ مَسْكَنًا، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أُخْبِرْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ اتَّخَذَ غَيْرَ ذَلِكَ فَهُوَ غَالٌّ أَوْ سَارِقٌ".
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے آپ کہہ رہے تھے: "جو شخص ہمارا عامل ہو وہ ایک بیوی کا خرچ بیت المال سے لے سکتا ہے، اگر اس کے پاس کوئی خدمت گار نہ ہو تو ایک خدمت گار رکھ لے اور اگر رہنے کے لیے گھر نہ ہو تو رہنے کے لیے مکان لے لے"۔ مستورد کہتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص ان چیزوں کے سوا اس میں سے لے تو وہ خائن یا چور ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۶۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۲۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، لفظه قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ، ابْنُ الأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَ فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَجِيءُ فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِيهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا ؟ لَا يَأْتِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا فَلَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً فَلَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ".
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے(یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:"عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہیں وہ اپنی ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں ۱؎، تم میں سے جو شخص کوئی چیز لے گا وہ اسے قیامت کے دن لے کر آئے گا، اگر اونٹ ہو گا تو وہ بلبلا رہا ہو گا، اگر بیل ہو گا تو ڈکار رہا ہو گا، اگر بکری ہو گی تو ممیا رہی ہو گی"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ ہم نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا: "اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟" (یعنی تو گواہ رہ جیسا تو نے فرمایا ہو بہو ویسے ہی میں نے اسے پہنچا دیا) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۷ (۱۵۰۰)، الھبة ۱۷ (۲۵۹۷)، الأیمان والنذور ۳ (۶۶۳۶)، الحیل ۱۵ (۶۹۷۹)، الأحکام ۲۴ (۷۱۷۲)، صحیح مسلم/الإمارة ۷ (۱۸۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۲۳)، سنن الدارمی/الزکاة ۳۱ (۱۷۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس کام پر مقرر نہ ہوتا تو یہ ہدیہ اس کو کبھی نہ ملتا۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعِيًا، ثُمَّ قَالَ: "انْطَلِقْ أَبَا مَسْعُودٍ وَلَا أُلْفِيَنَّكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَجِيءُ عَلَى ظَهْرِكَ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ لَهُ رُغَاءٌ قَدْ غَلَلْتَهُ، قَالَ: إِذًا لَا أَنْطَلِقُ، قَالَ: إِذًا لَا أُكْرِهُكَ".
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عامل بنا کر بھیجا اور فرمایا: "ابومسعود! جاؤ (مگر دیکھو) ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت میں اپنی پیٹھ پر زکاۃ کا اونٹ جسے تم نے چرایا ہو لادے ہوئے آتا دیکھوں اور وہ بلبلا رہا ہو"، ابومسعود رضی اللہ عنہ بولے: اگر ایسا ہے تو میں نہیں جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو میں تجھ پر جبر نہیں کرتا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۹۸۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی خواہ مخواہ تم جاؤ ہی بلکہ اگر تمہیں اپنے نفس پر اطمینان ہو تو جاؤ ورنہ نہ جانا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الأَزْدِيَّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ أَبَا فُلَانٍ، وَهِيَ كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ، فَقُلْتُ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمُ احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ وَفَقْرِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ.
ابومریم ازدی (اسدی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، انہوں نے کہا: اے ابوفلاں! بڑے اچھے آئے، میں نے کہا: میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بتا رہا ہوں، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے:"جسے اللہ مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے ۱؎ تو اللہ اس کی ضروریات اور اس کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۲؎"۔ یہ سنا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کرے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأحکام ۶ (۱۳۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان کی ضروریات پوری نہ کرے اور ان کی محتاجی و تنگ دستی دور نہ کرے۔ ۲؎ : یعنی اللہ تعالی بھی اس کی حاجت و ضروریات پوری نہیں کرتا۔
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أُوتِيكُمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا أَمْنَعُكُمُوهُ إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۷۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فرض الخمس ۷ (۳۱۱۷)، مسند احمد (۲/ ۳۱۴، ۴۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا الْفَيْءَ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهَذَا الْفَيْءِ مِنْكُمْ، وَمَا أَحَدٌ مِنَّا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا أَنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالرَّجُلُ وَقِدَمُهُ وَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ وَالرَّجُلُ وَعِيَالُهُ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن فیٔ (بغیر جنگ کے ملا ہوا مال) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فیٔ کا تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مراتب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہو گا یا جس نے (اسلام کے لیے) زیادہ مصائب برداشت کئے ہونگے یا عیال دار ہو گا یا حاجت مند ہو گا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہو گا، ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فیٔ تقسیم کیا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲) (حسن)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: حَاجَتَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: عَطَاءُ الْمُحَرَّرِينَ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ مَا جَاءَهُ شَيْءٌ بَدَأَ بِالْمُحَرَّرِينَ.
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! کس ضرورت سے آنا ہوا؟ کہا: آزاد کئے ہوئے غلاموں کا حصہ لینے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ جب آپ کے پاس فیٔ کا مال آتا تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزاد غلاموں کا حصہ دینا شروع کرتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۷۲۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ آزاد غلاموں کا نام حکومت کے رجسٹر میں نہیں رہتا تھا اس لئے وہ بیچارے محروم رہ جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان غلاموں کی بابت یاد دلایا اور ان کے حق میں عطیات کے سلسلہ میں سفارش کی۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِظَبْيَةٍ فِيهَا خَرَزٌ فَقَسَمَهَا لِلْحُرَّةِ وَالأَمَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک تھیلا لایا گیا جس میں خونگے (قیمتی پتھر) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد عورتوں اور لونڈیوں میں تقسیم کر دیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) آزاد مردوں اور غلاموں میں تقسیم کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۵۶، ۱۵۹، ۲۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مونگوں کی تقسیم عورتوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُصَفَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ جَمِيعًا، عَنْصَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ إِذَا أَتَاهُ الْفَيْءُ قَسَمَهُ فِي يَوْمِهِ، فَأَعْطَى الْآهِلَ حَظَّيْنِ وَأَعْطَى الْعَزَبَ حَظًّا"، زَادَ ابْنُ الْمُصَفَّى: فَدُعِينَا وَكُنْتُ أُدْعَى قَبْلَ عَمَّارٍ فَدُعِيتُ فَأَعْطَانِي حَظَّيْنِ وَكَانَ لِي أَهْلٌ، ثُمَّ دُعِيَ بَعْدِي عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأَعْطَى لَهُ حَظًّا وَاحِدًا.
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس دن مال فیٔ آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کر دیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار رضی اللہ عنہ سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا گیا(کیونکہ وہ کنوارے تھے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۵، ۲۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "میں مسلمانوں سے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں (بس) جو مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ مال اس کے گھر والوں کا حق ہے اور جو قرض چھوڑ جائے یا عیال، تو وہ (قرض کی ادائیگی اور عیال کی پرورش) میرے ذمہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۷ (۴۵)، والصدقات ۱۳ (۲۴۱۶)، (تحفة الأشراف: ۲۶۰۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۳ (۸۶۷)، سنن النسائی/العیدین ۲۱ (۱۵۷۹)، والجنائز ۶۷ (۱۹۶۴)، مسند احمد (۳/۳۷۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ وَمَنْ تَرَكَ كَلًّا فَإِلَيْنَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مال چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو عیال چھوڑ کر مر جائے تو ان کی پرورش ہمارے ذمہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الاستقراض ۱۱ (۲۳۹۸)، الفرائض ۲۵ (۶۷۶۳)، صحیح مسلم/الفرائض ۴ (۱۶۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۱۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ۶۹ (۲۰۱۹)، سنن النسائی/الجنائز ۶۷ (۱۹۶۵)، سنن ابن ماجہ/الصدقات ۱۳ (۲۴۱۶) مسند احمد (۲/۲۹۰، ۴۵۳، ۴۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: "أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ فَأَيُّمَا رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ دَيْنًا فَإِلَيَّ وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "میں ہر مسلمان سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں، تو جو مر جائے اور قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے، اور جو مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۱۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرِضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، فَلَمْ يُجِزْهُ وَعُرِضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر(۱۴) سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھر وہ غزوہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، والمغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، سنن النسائی/الطلاق ۲۰ (۳۴۶۱)، (تحفة الأشراف: ۷۸۳۳، ۸۱۱۵، ۸۱۵۳)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲۳ (۱۸۶۴)، سنن الترمذی/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، والجھاد ۳۱ (۱۷۱۱)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۴ (۲۵۴۳)، مسند احمد (۲/۱۷) ویأتی ہذا الحدیث فی الحدود (۴۴۰۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ مُطَيْرٍ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ وَادِي الْقُرَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِى مُطَيْرٌ، أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالسُّوَيْدَاءِ إِذَا بِرَجُلٍ، قَدْ جَاءَ كَأَنَّهُ يَطْلُبُ دَوَاءً وَحُضُضًا، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي مَن سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَعِظُ النَّاسَ وَيَأْمُرُهُمْ وَيَنْهَاهُمْ ؟ فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا الْعَطَاءَ، مَا كَانَ عَطَاءً فَإِذَا تَجَاحَفَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْمُلْكِ وَكَانَ عَنْ دِينِ أَحَدِكُمْ فَدَعُوهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَرَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ مُطَيْرٍ.
سلیم بن مطیر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حج کرنے کے ارادے سے نکلے، جب مقام سویدا پر پہنچے تو انہیں ایک(بوڑھا) شخص ملا، لگتا تھا کہ وہ دوا اور رسوت ۱؎ کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کہنے لگا: مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں اس حال میں سنا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے، انہیں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور بری باتوں سے روک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگو! (امام و حاکم کے) عطیہ کو لے لو جب تک کہ وہ عطیہ رہے ۲؎، اور پھر جب قریش ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں، اور عطیہ (بخشش) دین کے بدلے ۳؎ میں ملنے لگے تو اسے چھوڑ دو"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت کو ابن مبارک نے محمد بن یسار سے انہوں نے سلیم بن مطیر سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۵۴۶) (ضعیف) (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : ایک کڑوی دوا جو اکثر آنکھوں اور پھنسیوں کی دوا میں استعمال ہوتی ہے۔ ۲؎ : یعنی شریعت کے مطابق وہ مال حاصل کیا گیا ہو اور شریعت کے مطابق تقسیم بھی کیا گیا ہو۔ ۳؎ : یعنی حاکم عطیہ دے کر تم سے کوئی ناجائز کام کرانا چاہتا ہو۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ مُطَيْرٍ مِنْ أَهْلِ وَادِي الْقُرَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ قَالَ: سَمِعْت رَجُلًايَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَمَرَ النَّاسَ وَنَهَاهُمْ، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا تَجَاحَفَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْمُلْكِ فِيمَا بَيْنَهَا وَعَادَ الْعَطَاءُ أَوْ كَانَ رِشًا فَدَعُوهُ"، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا ؟ قَالُوا: هَذَا ذُو الزَّوَائِدِ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وادی القری کے باشندہ سلیم بن مطیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میں نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سنا آپ نے (لوگوں کو اچھی باتوں کا) حکم دیا (اور انہیں بری باتوں سے) منع کیا پھر فرمایا: "اے اللہ! کیا میں نے (تیرا پیغام) انہیں پہنچا دیا"، لوگوں نے کہا: ہاں، پہنچا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب قریش کے لوگ حکومت اور ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں اور عطیہ کی حیثیت رشوت کی بن جائے (یعنی مستحق کے بجائے غیر مستحق کو ملنے لگے) تو اسے چھوڑ دو"۔ پوچھا گیا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ذوالزوائد ۱؎ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۵۴۶) (ضعیف) (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یہ اہل مدینہ میں سے ایک صحابی کا لقب ہے، ان کے نام کا پتہ نہیں چل سکا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ جَيْشًا مِنْ الْأَنْصَارِ كَانُوا بِأَرْضِ فَارِسَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، وَكَانَ عُمَرُ يُعْقِبُ الْجُيُوشَ فِي كُلِّ عَامٍ فَشُغِلَ عَنْهُمْ عُمَرُ، فَلَمَّا مَرَّ الأَجَلُ قَفَلَ أَهْلُ ذَلِكَ الثَّغْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِمْ وَتَوَاعَدَهُمْ وَهُمْ أَصْحَاب رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا عُمَرُ إِنَّكَ غَفَلْتَ عَنَّا وَتَرَكْتَ فِينَا الَّذِي أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِعْقَابِ بَعْضِ الْغَزِيَّةِ بَعْضًا.
عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ انصار کا ایک لشکر اپنے امیر کے ساتھ سر زمین فارس میں تھا اور عمر رضی اللہ عنہ ہر سال لشکر تبدیل کر دیا کرتے تھے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو (خیال نہیں رہا) دوسرے کام میں مشغول ہو گئے جب میعاد پوری ہو گئی تو اس لشکر کے لوگ لوٹ آئے تو وہ ان پر برہم ہوئے اور ان کو دھمکایا جب کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے، تو وہ کہنے لگے: عمر! آپ ہم سے غافل ہو گئے، اور آپ نے وہ قاعدہ چھوڑ دیا جس پر عمل کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ایک کے بعد ایک لشکر بھیجنا تاکہ پہلا لشکر لوٹ آئے اور اس کی جگہ وہاں دوسرا لشکر رہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۱۵) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَائِذٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي فِيمَا حَدَّثَهُ ابْنٌ لِعَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، كَتَبَ إِنَّ مَنْ سَأَلَ عَنْ مَوَاضِعِ الْفَيْءِ فَهُوَ مَا حَكَمَ فِيهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَآهُ الْمُؤْمِنُونَ عَدْلًا مُوَافِقًا لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ اللَّهُ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ فَرَضَ الْأَعْطِيَةَ، وَعَقَدَ لِأَهْلِ الأَدْيَانِ ذِمَّةً بِمَا فُرَضَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْجِزْيَةِ لَمْ يَضْرِبْ فِيهَا بِخُمُسٍ وَلَا مَغْنَمٍ.
عدی بن عدی کندی کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ جو کوئی شخص پوچھے کہ مال فیٔ کہاں کہاں صرف کرنا چاہیئے تو اسے بتایا جائے کہ جہاں جہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے وہیں خرچ کیا جائے گا، عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کو مسلمانوں نے انصاف کے موافق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: " «جعل الله الحق على لسان عمر وقلبه» " (اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کر دیا ہے) کا مصداق جانا، انہوں نے مسلمانوں کے لیے عطیے مقرر کئے اور دیگر ادیان والوں سے جزیہ لینے کے عوض ان کے امان اور حفاظت کی ذمہ داری لی، اور جزیہ میں نہ خمس (پانچواں حصہ) مقرر کیا اور نہ ہی اسے مال غنیمت سمجھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد) (عدی بن عدی کے لڑکے مبہم ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کے حق کے طور پر نکالا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے وہ (جب بولتے ہیں) حق ہی بولتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۱ (۱۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۵، ۱۶۵، ۱۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ: يَا مَالِ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْءٍ فَأَقْسِمْ فِيهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِكَ فَقَالَ: خُذْهُ فَجَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا يَعْنِي عَلِيًّا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْمهُمَا، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، فَقَالَا: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6، وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ فَقَالَ: "أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالَا: نَعَمْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ". وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ. فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَوَلِيتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ فَسَأَلْتُمَانِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلِيهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَى ذَلِك، ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِنَّمَا سَأَلَاهُ أَنْ يَكُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ لَا أَنَّهُمَا جَهِلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"فَإِنَّهُمَا كَانَا لَا يَطْلُبَانِ إِلَّا الصَّوَابَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ أَدَعُهُ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چنانچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پر جس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے: مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لیے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو، میں نے کہا: اگر اس کام کے لیے آپ کسی اور کو کہتے(تو اچھا رہتا) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں تم (جو میں دے رہا ہوں) لے لو (اور ان میں تقسیم کر دو) اسی دوران یرفاء ۱؎ آ گیا، اس نے کہا: امیر المؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں (بلا لو) اس نے انہیں اجازت دی، وہ لوگ اندر آ گئے، جب وہ اندر آ گئے، تو یرفا پھر آیا، اور آ کر کہنے لگا: امیر المؤمنین! ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں؟ کہا: ہاں (آنے دو) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چنانچہ وہ بھی اندر آ گئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے (یعنی علی رضی اللہ عنہ کے) درمیان (معاملے کا) فیصلہ کر دیجئیے، (تاکہ جھگڑا ختم ہو) ۲؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں امیر المؤمنین! ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں (عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا (کہ وہ لوگ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدد دیں) ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ان پر رحم کرے! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو (میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں) پھر ان موجود صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟"، سبھوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔ پھر وہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، و آسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ہمارا (گروہ انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟"، ان دونوں نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی خصوصیت سے سرفراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سرفراز نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شىء قدير» "اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے" (سورۃ الحشر: ۶) چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لیے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کا سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا (یعنی مستحقین اور ضرورت مندوں میں خرچ ہوتا) ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو (یعنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے) انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں (یعنی ایسا ہی ہے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں، پھر تم اور یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر (اللہ ان پر رحم کرے) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے"، اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔ پھر تم اور یہ (علی) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پر دے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چنانچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔ اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوا دوسرے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں ۳؎ تو قسم اللہ کی! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا (معاہدہ کے مطابق) اہتمام نہیں کر سکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو (میں اپنی تولیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان دونوں حضرات نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کر دیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:«لا نورث ما تركنا صدقة» "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے" معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا (کیونکہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پر باقی رہنے دوں گا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۸۰ (۲۹۰۴)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، تفسیرالقرآن ۳ (۴۸۸۰)، النفقات ۳ (۵۳۵۸)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۵)، صحیح مسلم/الجھاد ۵ (۱۷۵۷)، سنن الترمذی/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، الجھاد ۳۹ (۱۷۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۳۲، ۱۰۶۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یرفأ عمر رضی اللہ عنہ کے دربان کا نام تھا، وہ ان کا غلام تھا۔ ۲؎ : معاملہ تھا بنو نضیر کے فِدَک اور خیبر کے اموال کی وراثت کا جوا للہ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا۔ ۳؎ : یعنی اس مال کو تم دونوں میں تقسیم کر دوں اور وہ تم میں سے ہر ایک کے ملک میں ہو جائے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَهُمَا يَعْنِي عَلِيًّا، وَالْعَبَّاسَ رضي الله عنهما يختصمان فيما أفاء الله على رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَرَادَ أَنْ لَا يُوقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ قَسْمٍ.
اس سند سے بھی مالک بن اوس سے یہی قصہ مروی ہے اس میں ہے: اور وہ دونوں (یعنی علی اور عباس رضی اللہ عنہما) اس مال کے سلسلہ میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو نضیر کے مالوں میں سے عنایت فرمایا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ(عمر رضی اللہ عنہ) چاہتے تھے کہ اس میں حصہ و تقسیم کا نام نہ آئے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۳۲، ۱۰۶۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس لئے کہ تقسیم تو ملکیت میں جاری ہوتی ہے اور وہ مال کسی کی ملکیت میں تھا نہیں۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، الْمَعْنَى أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْكُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ.
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے) ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۹۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۳۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، قَالَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ عُمَرُ: هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرَى عُرَيْنَةَ فَدَكَ وَكَذَا وَكَذَا مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الحشر آية 7، وَلَلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ، قَالَ أَيُّوبُ، أَوْ قَالَ حَظٌّ: إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا اللہ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» "جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے" (سورۃ الحشر: ۶) زہری کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عرینہ کے چند گاؤں جیسے فدک وغیرہ خاص ہوئے، اور دوسری آیتیں «ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» "گاؤں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے" (سورۃ الحشر: ۷)، اور «للفقراء الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم» "(فئی کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئیے گئے ہیں" (سورۃ الحشر: ۸) «والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم»"اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے" (سورۃ الحشر: ۹) «والذين جاءوا من بعدهم» "اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں" (سورۃ الحشر: ۱۰) تو اس آیت نے تمام لوگوں کو سمیٹ لیا کوئی ایسا مسلمان باقی نہیں رہا جس کا مال فیٔ میں حق نہ ہو۔ ایوب کہتے ہیں: یا «فيها حق» کے بجائے،، «فيها حظ» کہا، سوائے بعض ان چیزوں کے جن کے تم مالک ہو (یعنی اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۳۸) (صحیح) ( پچھلی اور اگلی روایات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں زہری اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل. ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِيعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ كُلُّهُمْ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: كَانَ فِيمَا احْتَجَّ بِهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَايَا بَنُو النَّضِيرِ وَخَيْبَرُ وَفَدَكُ، فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ فَكَانَتْ حُبُسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حُبُسًا لِأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَجُزْءًا نَفَقَةً لِأَهْلِهِ فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین «صفایا» ۱؎ (منتخب مال) تھے: بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی(ہنگامی) ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا ۲؎، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۳۵) (حسن الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : «صفايا» : «صفیہ» کی جمع ہے، «صفیہ» اس مال کو کہتے ہیں جسے امام تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چھانٹ لے، یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا کہ خمس کے ساتھ اور بھی جو چیزیں چاہیں لے لیں۔ ۲؎ : جیسے مہمانوں کی ضیافت اور مجاہدین کے لئے ہتھیار و سواری کی فراہمی۔
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے (یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے)"، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے (بطور وراثت) کچھ دینے سے انکار کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الخمس ۱ (۳۰۹۲)، وفضائل الصحابة ۱۲ (۳۷۱۱)، والمغازي ۱۴ (۴۰۳۵)، ۳۸ (۴۲۴۱)، والفرائض۳ (۶۷۲۵)، صحیح مسلم/الجھاد ۱۶ (۱۷۵۹)، سنن النسائی/الفيء (۴۱۴۶)، (تحفة الأشراف: ۶۶۳۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴، ۶، ۹، ۱۰، ۶/۱۴۵، ۲۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَفَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام حِينَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، وَإِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ يَعْنِي مَالَ اللَّهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت (اپنے والد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صدقے کی طلب گار تھیں جو مدینہ اور فدک میں تھا اور جو خیبر کے خمس میں سے بچ رہا تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اس مال میں سے (یعنی اللہ کے مال میں سے) صرف اپنے کھانے کی مقدار لے گی" اس مال میں خوراکی کے سوا ان کا کوئی حق نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۶۶۳۰) (صحیح) (لیکن «مال اللہ» کا لفظ صحیح نہیں اور یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں بھی نہیں ہے)
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فِيهِ: فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَغَلَبَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهَا وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا: میں کوئی ایسی چیز چھوڑ نہیں سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے رہے ہوں، میں بھی وہی کروں گا، میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جاؤں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے مدینہ کے صدقے کو علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی تحویل میں دے دیا، علی رضی اللہ عنہ اس پر غالب اور قابض رہے، رہا خیبر اور فدک تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو روکے رکھا اور کہا کہ یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صدقے ہیں جو آپ کی پیش آمدہ ضروریات اور مشکلات و حوادث، مجاہدین کی تیاری، اسلحہ کی خریداری اور مسافروں کی خبرگیری وغیرہ امور) میں کام آتے تھے ان کا اختیار اس کو رہے گا جو والی (یعنی خلیفہ) ہو۔ راوی کہتے ہیں: تو وہ دونوں آج تک ایسے ہی رہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۹۶۸)، (تحفة الأشراف: ۶۶۳۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، فِي قَوْلِهِ: فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ فَدَكَ وَقُرًى قَدْ سَمَّاهَا لَا أَحْفَظُهَا وَهُوَ مُحَاصِرٌ قَوْمًا آخَرِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ بِالصُّلْحِ قَالَ: فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَتْ بَنُو النَّضِيرِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا لَمْ يَفْتَحُوهَا عَنْوَةً افْتَتَحُوهَا عَلَى صُلْحٍ، فَقَسَمَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ لَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا رَجُلَيْنِ كَانَتْ بِهِمَا حَاجَةٌ.
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ اللہ نے جو فرمایا ہے: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» یعنی "تم نے ان مالوں کے واسطے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوئے" (سورۃ الحشر: ۶) تو ان کا قصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فدک اور کچھ دوسرے گاؤں والوں سے جن کے نام زہری نے تو لیے لیکن راوی کو یاد نہیں رہا صلح کی، اس وقت آپ ایک اور قوم کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، اور ان لوگوں نے آپ کے پاس بطور صلح مال بھیجا تھا، اس مال کے تعلق سے اللہ نے فرمایا: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» یعنی بغیر لڑائی کے یہ مال ہاتھ آیا (اور اللہ نے اپنے رسول کو دیا) ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں بنو نضیر کے مال بھی خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے، لوگوں نے اسے زور و زبردستی سے (یعنی لڑائی کر کے) فتح نہیں کیا تھا۔ صلح کے ذریعہ فتح کیا تھا، تو آپ نے اسے مہاجرین میں تقسیم کر دیا، اس میں سے انصار کو کچھ نہ دیا، سوائے دو آدمیوں کے جو ضرورت مند تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۳۷۹) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ عُمَرُ: يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ.
مغیرہ کہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فدک تھا، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرما گئے، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں: تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فاطمہ علیہا السلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۱۴۷) (ضعیف) (اس کے راوی مغیرة بن مقسم مدلس اور کثیر الارسال ہیں)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ".
ابوطفیل کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "اللہ عزوجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام (خلیفہ) کو ملتا ہے"، (یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۶۵۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴، ۶، ۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جو مال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہو گا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔ قرآن مجید میں جو زکریا علیہ السلام کا قول منقول ہے «يرثني ويرث من آل يعقوب»( سورۃ مریم : ۶ ) اور جو یہ فرمایا گیا ہے «وورث سليمان» ( سورۃ النمل : ۱۳ ) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: مُؤْنَةُ عَامِلِي يَعْنِي أَكَرَةَ الْأَرْضِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ورثاء میری میراث سے جو میں چھوڑ کر مروں ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں گے، اپنی بیویوں کے نفقے اور اپنے عامل کے خرچے کے بعد جو کچھ میں چھوڑوں وہ صدقہ ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «مؤنة عاملي» میں «عاملي» سے مراد کاشتکار، زمین جوتنے، بونے والے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۳۲ (۳۰۹۶)، فرض الخمس ۳ (۲۷۷۶)، الفرائض ۳ (۶۷۲۹)، صحیح مسلم/الجھاد ۱۶ (۱۷۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۰۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الکلام ۱۲ (۲۸)، مسند احمد (۲/۳۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، قَالَ: سَمِعْت حَدِيثًا مِن رَجُلٍفَأَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ: اكْتُبْهُ لِي فَأَتَى بِهِ مَكْتُوبًا مُذَبَّرًا، دَخَلَ الْعَبَّاسُ، وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ عُمَرُ: لِطَلْحَةَ، وَ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٍ: أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ إِنَّا لَا نُورَثُ ؟"قَالُوا: بَلَى قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ.
ابوالبختری کہتے ہیں میں نے ایک شخص سے ایک حدیث سنی وہ مجھے انوکھی سی لگی، میں نے اس سے کہا: ذرا اسے مجھے لکھ کر دو، تو وہ صاف صاف لکھ کر لایا: علی اور عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی عباس اور علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا"، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں(ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پر صرف کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، پھر راوی نے مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۶۴۹، ۳۹۵۲) (صحیح) (شواہد و متابعات پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جو پتہ نہیں صحابی ہے یاتابعی ؟)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو امہات المؤمنین نے ارادہ کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے اپنا آٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سب سے کہا (کیا تمہیں یاد نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۱۴ (۴۰۳۴)، الفرائض ۳ (۶۷۳۰)، صحیح مسلم/الجہاد ۱۶ (۱۷۵۸)، موطا امام مالک/ الکلام ۱۲ (۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۵، ۲۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ،حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ قُلْتُ: أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ أَلَمْ تَسْمَعْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ"، وَإِنَّمَا هَذَا الْمَالُ لِآلِ مُحَمَّدٍ لِنَائِبَتِهِمْ وَلِضَيْفِهِمْ فَإِذَا مِتُّ فَهُوَ إِلَى مَنْ وَلِيِّ الأَمْرِ مِنْ بَعْدِي.
اس سند سے بھی ابن شہاب زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے (دیگر امہات المؤمنین سے) کہا: تم اللہ سے ڈرتی نہیں، کیا تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے:"ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور یہ مال آل محمد کی ضروریات اور ان کے مہمانوں کے لیے ہے، اور جب میرا انتقال ہو جائے گا تو یہ مال اس شخص کی نگرانی و تحویل میں رہے گا جو میرے بعد معاملہ کا والی ہو گا (مسلمانوں کا خلیفہ ہو گا)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۰۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الشمائل (۴۰۲)، مسند احمد (۶/۱۴۵) (حسن)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَسَمَ مِنَ الْخُمُسِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْكَ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ"، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَ بَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِمْ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُعْطِيهِمْ مِنْهُ وَعُثْمَانُ بَعْدَهُ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں ۲؎" جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا جیسے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ ۳؎ بھی اپنی خلافت میں خمس کو اسی طرح تقسیم کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرماتے تھے مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کو نہ دیتے تھے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس میں سے ان کو دیتے تھے اور ان کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی ان کو دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۹ (۴۲۲۹)، سنن النسائی/الفيء (۴۱۴۱)، سنن ابن ماجہ/الجھاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفة الأشراف: ۳۱۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ ان دونوں کے خاندان والوں کو نہیں دیا تھا جب کہ ان سب کا اصل خاندان ایک تھا عبدمناف کے چار بیٹے تھے ایک ہاشم جن کی اولاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، دوسرے مطلب، تیسرے عبدشمس جن کی اولاد میں عثمان رضی اللہ عنہ تھے، اورچو تھے نوفل جن کی اولاد میں جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ تھے۔ ۲؎ : یعنی ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اسی لئے کفار نے جب مقاطعہ کا عہد نامہ لکھا تو انہوں نے اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں کو شریک کیا۔ ۳؎ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ اس وقت غنی اور مالدار رہے ہوں گے، اور دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حصہ خمس میں سے دیدیا تھا، جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حصہ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے نہیں لیا اور کہا کہ ہم غنی ہیں۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَاجُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم کیا کرتے تھے، مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو غالباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُسَدِّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى فِي بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ وَتَرَكَ بَنِي نَوْفَلٍ وَبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو هَاشِمٍ لَا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِلْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، فَمَا بَالُ إِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا وَقَرَابَتُنَا وَاحِدَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّا وَ بَنُو الْمُطَّلِبِ لَا نَفْتَرِقُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ شَيْءٌ وَاحِدٌ وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے قرابت داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو چھوڑ دیا، تو میں اور عثمان رضی اللہ عنہ دونوں چل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنو ہاشم ہیں، ہم ان کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انہیں میں سے کیا ہے، لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کا کیا معاملہ ہے؟ کہ آپ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا، جب کہ آپ سے ہماری اور ان کی قرابت داری یکساں ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، ہم اور وہ ایک چیز ہیں ۱؎"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا (گویا دکھایا کہ اس طرح) ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۹۷۸)، (تحفة الأشراف: ۳۱۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں" ، تو قصہ یہ ہے کہ قریش اور بنی کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے جدا کرنے پر حلف لیا تھا کہ وہ نہ ان سے نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے سپرد نہ کریں، اور اس عہد نامہ کو محصب میں لٹکا دیا تھا، اللہ تعالی کی قدرت سے اسے دیمک چاٹ گئی اور کفار مغلوب ہوئے۔
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ السُّدِّيِّ ذِي الْقُرْبَى، قَالَ: هُمْ بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
سدی کہتے ہیں کہ کلام اللہ میں «ذي القربى» کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۴۳۸) (ضعیف) (اس کے راوی حسین عجلی کثیرالخطأ ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ. حينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، وَيَقُولُ: لِمَنْ تَرَاهُ ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَسَمَهُ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا مِنْ ذَلِكَ عَرْضًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِ وَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ..
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یزید بن ہرمز نے خبر دی کہ نجدہ حروری (خارجیوں کے رئیس) نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بحران کے زمانہ میں ۱؎ جس وقت حج کیا تو اس نے ایک شخص کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس «ذي القربى» کا حصہ پوچھنے کے لیے بھیجا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس سے کون مراد ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و اقارب مراد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان سب میں تقسیم فرمایا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہمیں اس میں سے دیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنے حق سے کم پایا تو لوٹا دیا اور لینے سے انکار کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد ۴۸ (۱۸۱۲)، سنن الترمذی/السیر ۸ (۱۵۵۶)، سنن النسائی/الفيء (۴۱۳۸)، (تحفة الأشراف: ۶۵۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًا يَقُولُ: وَلَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسَ الْخُمُسِ فَوَضَعْتُهُ مَوَاضِعَهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَيَاةَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَيَاةَ عُمَرَ فَأُتِيَ بِمَالٍ فَدَعَانِي، فَقَالَ: خُذْهُ فَقُلْتُ: لَا أُرِيدُهُ قَالَ: خُذْهُ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ بِهِ، قُلْتُ قَدِ اسْتَغْنَيْنَا عَنْهُ فَجَعَلَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ..
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس کا خمس(پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صرف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما زندہ رہے پھر (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں) ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا: اس کو لے لو، میں نے کہا: میں نہیں لینا چاہتا، انہوں نے کہا: لے لو تم اس کے زیادہ حقدار ہو، میں نے کہا: اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بے نیاز کر دیا ہے) تو انہوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۲۴) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابوجعفر رازی ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا، وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عند النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ لَمْ يَدْعُنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ بَعْدَ عُمَرَ، فَلَقِيتُ الْعَبَّاسَ بَعْدَ مَا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ حَرَمْتَنَا الْغَدَاةَ شَيْئًا لَا يُرَدُّ عَلَيْنَا أَبَدًا وَكَانَ رَجُلًا دَاهِيًا.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے موافق ہے وہ ہمارے اختیار میں دے دیجئیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑا نہ کرے، تو آپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سال میں آپ کے پاس بہت سا مال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئیے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا، عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پھر کسی نے مجھے اس مال (یعنی خمس الخمس)کے لینے کے لیے نہیں بلایا، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلنے کے بعد میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملا، تو وہ کہنے لگے: علی! تم نے ہم کو آج ایسی چیز سے محروم کر دیا جو پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے گی (یعنی اب کبھی یہ حصہ ہم کو نہ ملے گا) اور وہ ایک سمجھدار آدمی تھے(انہوں نے جو کہا تھا وہی ہوا) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۴) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی حسین بن میمون لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایت اور یہ روایت دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مل کر اس واقعہ کی اصلیت کو حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچا دیتی ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَا: لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا وَاللَّهِ لَا نَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ"، فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نُوَافِقَ صَلَاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ثُمَّ قَالَ: "أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ"، ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ قَلِيلًا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لَا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لَا تَعْجَلَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرِنَا ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَقَالَ لَنَا: "إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ، فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَالَ: يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَحْمِيَةَ: أَنْكِحْ الْفَضْلَ فَأَنْكَحَهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا"، لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ.
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبر دی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شادی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول! ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئیے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ (یعنی حق محنت) ہو گا وہ ہم پائیں گے۔ عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے ۱؎"۔ اس پر ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف حاصل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور کہنے لگے: میں ابوالحسن سردار ہوں (جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آ جائیں جس کے لیے تم نے انہیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے۔ عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں گئے، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہو گئی ہم نے سب کے ساتھ نماز جماعت سے پڑھی، نماز پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے دروازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور (پیار سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: "بولو بولو، جو دل میں لیے ہو"، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لیے اشارہ کیا (تم کہو تم کہو)پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کو ہوا) آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیں حکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھڑی تک چپ رہے، پھر نگاہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پردے کی آڑ سے (ام المؤمنین) زینب رضی اللہ عنہا اشارہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو (گھبراؤ نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: "یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے)نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ" چنانچہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو"، تو نوفل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"محمیہ بن جزء کو میرے پاس بلاؤ"، محمیۃ بن جزء رضی اللہ عنہ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا (وہ آئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم فضل کا (اپنی بیٹی سے) نکاح کر دو"، تو انہوں نے ان کا نکاح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) کہا: "جاؤ مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کر دو"۔ (ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حارث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۵۱ (۱۰۷۲)، سنن النسائی/الزکاة ۹۵ (۲۶۱۰)، (تحفة الأشراف: ۹۷۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ ؟، فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ. حتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَمْزَةُ وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان، گھاس کے ٹوکرے اور رسیاں (وغیرہ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضروری سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لوٹ کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئیے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لیے گئے ہیں، جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پا سکا میں نے کہا: یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے، وہ اس گھر میں چند انصاریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں گا یا: «ألا يا حمز للشرف النواء» ۱؎ (اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لیے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو) یہ سن کر وہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جا کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چاک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لیے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو (صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں کیا ہوا؟" میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے، آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ کو ان کے کئے پر ملامت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا، پھر بولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آئے (اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۲۸ (۲۰۸۹)، المساقاة ۱۳ (۲۳۷۵)، فرض الخمس ۱ (۳۰۹۱)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۳)، اللباس ۹ (۵۷۹۳)، صحیح مسلم/الأشربة ۱ (۱۹۷۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۴۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎؎ : باقی اشعار اس طرح ہیں : «أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء ضَع السكين في اللبات منها وضرجهن حمزة بالدماء وعجل من أطايبها لشرب قديدًا من طبيخ أو شواء» " اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پر چھری پھیر کر انہیں خون میں لت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو "۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْه، عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ: "سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"، قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے، ہر نماز کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمداللہ، اور ایک بار«لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» کہہ لیا کرو"۔ عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضباعہ اور ام الحکم رضی اللہ عنہما) دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۱۲، ۱۵۳۱۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۶) (ضعیف) (اس حدیث کی البانی نے صحیحة ۲؍ ۱۸۸، اور صحیح ابی داود ۲۶۴۴، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲؍ ۴۲۴)
وضاحت: ۱؎ : مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے، سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔ ۲؎ : یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي الْجُرَيرِيَّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنْ ابْنِ أَعْبُدَ، قَالَ: قَالَ لِيعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ ؟ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَ فِي نَحْرِهَا وَكَنَسَتَ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدَمٌ، فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَرَجَعَتْ فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ فَقَالَ: مَا كَانَ حَاجَتُكِ ؟ فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا فَلَمَّا أَنْ جَاءَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ: "اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ، فَسَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فَتِلْكَ مِائَةٌ فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ"، قَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن اعبد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے، اور پانی بھربھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہو جاتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیتی، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کر رہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا: "تم کس ضرورت سے آئی تھیں؟"، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتاتا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑ گیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت و تکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فاطمہ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمدللہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لیے خادمہ سے بہتر ہیں ۱؎"۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خوش ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق: (اتقي اللّٰہ یا فاطمة، وأدي فریضة ربک، واعملي عمل أہلک)، وأما البقیة من الحدیث فقد رواہ کل من :صحیح البخاری/فرض الخمس ۶ (۳۱۱۳)، فضائل الصحابة ۹ (۳۷۰۵)، النفقات ۶ (۵۳۶۱)، الدعوات ۱۱ (۶۳۱۸)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۱۹ (۲۷۲۷)، سنن الترمذی/الدعوات ۲۴ (۳۴۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۴۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۰۶۲) (ضعیف) (مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے)
وضاحت: ۱؎ : شاید اسی میں مصلحت رہی ہوکہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَلَمْ يُخْدِمْهَا.
علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ اس میں یہ ہے کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خادم نہیں دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف) (علی بن حسین زیدالعابدین نے اپنے نانا علی کو نہیں پایا ہے لیکن واقعہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي ابْنَ عِيسَى: كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الأَبْدَالَ مِنَ الْمَوَالِي، قَالَ: حَدَّثَنِي الدَّخِيلُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ نُوحِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ سِرَاجِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ مُجَّاعَةَ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْلُبُ دِيَةَ أَخِيهِ قَتَلَتْهُ بَنُو سَدُوسٍ مِنْ بَنِي ذُهْلٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ كُنْتُ جَاعِلًا لِمُشْرِكٍ دِيَةً جَعَلْتُ لِأَخِيكَ، وَلَكِنْ سَأُعْطِيكَ مِنْهُ عُقْبَى"، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ فَأَخَذَ طَائِفَةً مِنْهَا وَأَسْلَمَتْ بَنُو ذُهْلٍ فَطَلَبَهَا بَعْدُ مُجَّاعَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، وَأَتَاهُ بِكِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ بِاثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ صَاعٍ مِنْ صَدَقَةِ الْيَمَامَةِ أَرْبَعَةِ آلَافٍ بُرًّا وَأَرْبَعَةِ آلَافٍ شَعِيرًا وَأَرْبَعَةِ آلَافٍ تَمْرًا، وَكَانَ فِي كِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُجَّاعَةَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ لِمُجَّاعَةَ بْنِ مَرَارَةَ مِنْ بَنِي سُلْمَى إِنِّي أَعْطَيْتُهُ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ عُقْبَةً مِنْ أَخِيهِ.
مجاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کی دیت مانگنے آئے جسے بنو ذہل میں سے بنی سدوس نے قتل کر ڈالا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں کسی مشرک کی دیت دلاتا تو تمہارے بھائی کی دیت دلاتا، لیکن میں اس کا بدلہ تمہیں دلائے دیتا ہوں"، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ذہل کے مشرکین سے پہلے پہل حاصل ہونے والے خمس میں سے سو اونٹ اسے دینے کے لیے لکھ دیا۔ مجاعہ رضی اللہ عنہ کو ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بنو ذہل کے مسلمان ہو جانے کے بعد ملے، اور مجاعہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باقی اونٹوں کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان کے خلیفہ ہونے کے بعد طلب کئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب (تحریر) دکھائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجاعہ رضی اللہ عنہ کے یمامہ کے صدقے میں سے بارہ ہزار صاع دینے کے لیے لکھ دیا، چار ہزار صاع گیہوں کے، چار ہزار صاع جو کے اور چار ہزار صاع کھجور کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاعہ کو جو کتاب (تحریر) لکھ کر دی تھی اس کا مضمون یہ تھا: "شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے، یہ کتاب محمد نبی کی جانب سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے ہے جو بنو سلمی میں سے ہیں، میں نے اسے بنی ذہل کے مشرکوں سے حاصل ہونے والے پہلے خمس میں سے سو اونٹ اس کے مقتول بھائی کے عوض میں دیا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۱۲) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی دخیل مجہول الحال ، اور ہلال لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کی کوئی دیت نہیں، البتہ جو مشرک ذمی ہو یعنی اسلامی حکومت کا باشندہ ہو، اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہو تو اس کو اگر کوئی کافر مار ڈالے تو اس پر قصاص ہوگا، یا دیت ہو گی، اور جو مسلمان مار ڈالے تو دیت دینی ہو گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمٌ يُدْعَى الصَّفِيَّ إِنْ شَاءَ عَبْدًا وَإِنْ شَاءَ أَمَةً وَإِنْ شَاءَ فَرَسًا يَخْتَارُهُ قَبْلَ الْخُمُسِ.
عامر شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حصہ تھا، جس کو «صفي» کہا جاتا تھا آپ اگر کوئی غلام، لونڈی یا کوئی گھوڑا لینا چاہتے تو مال غنیمت میں سے خمس سے پہلے لے لیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الفيء ۱ (۴۱۵۰)، (تحفة الأشراف: ۱۸۸۶۸) (ضعیف الإسناد) (عامر تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَأَزْهَرُ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفِيِّ، قَالَ: "كَانَ يُضْرَبُ لَهُ بِسَهْمٍ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ لَمْ يَشْهَدْ وَالصَّفِيُّ يُؤْخَذُ لَهُ رَأْسٌ مِنَ الْخُمُسِ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ".
ابن عون کہتے ہیں میں نے محمد (محمد ابن سیرین) سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور «صفي» کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حصہ لگایا جاتا تھا اگرچہ آپ لڑائی میں شریک نہ ہوتے اور سب سے پہلے خمس میں سے ۱؎ صفی آپ کے لیے لیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۲۹۵) (ضعیف الإسناد) (یہ بھی مرسل ہے، محمد بن سیر ین تابعی ہیں )
وضاحت: ۱؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «صفي» خمس میں سے ہوتا تھا اور اس سے پہلے شعبی والی روایت دلالت کرتی ہے کہ «صفي» خمس سے پہلے پورے مال غنیمت میں سے ہوتا تھا دونوں میں تطبیق کے لئے تاویل یہ کی جاتی ہے کہ «قبل الخمس»سے مراد «قبل أن يقسم الخمس» ہے یعنی صفی خمس میں سے ہوتا تھا لیکن خمس کی تقسیم سے پہلے اسے نکالا جاتا تھا۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا كَانَ لَهُ سَهْمٌ صَافٍ يَأْخُذُهُ مِنْ حَيْثُ شَاءَهُ فَكَانَتْ صَفِيَّةُ مِنْ ذَلِكَ السَّهْمِ، وَكَانَ إِذَا لَمْ يَغْزُ بِنَفْسِهِ ضُرِبَ لَهُ بِسَهْمِهِ وَلَمْ يُخَيَّرْ.
قتادہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خود لڑائی میں شریک ہوتے تو ایک حصہ چھانٹ کر جہاں سے چاہتے لے لیتے، ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا (جو جنگ خیبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں) اسی حصے میں سے آئیں اور جب آپ لڑائی میں شریک نہ ہوتے تو ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لگایا جاتا اور اس میں آپ کو انتخاب کا اختیار نہ ہوتا کہ جو چاہیں چھانٹ کر لے لیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۲۱۴) (ضعیف الإسناد) (قتادہ تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت بھی مرسل ہے)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ صَفِيَّةُ مِنَ الصَّفِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں صفیہ رضی اللہ عنہا «صفي» میں سے تھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۹۱۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمْنَا خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ تَعَالَى الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سُدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم خیبر آئے (یعنی غزوہ کے موقع پر) تو جب اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا، ان کا شوہر مارا گیا تھا، وہ دلہن تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے منتخب فرما لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم سد صہباء ۱؎ پہنچے، وہاں وہ حلال ہوئیں (یعنی حیض سے فارغ ہوئیں اور ان کی عدت پوری ہو گئی) تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ شب زفاف منائی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۱۱ (۲۲۳۵)، الجہاد ۷۴ (۲۸۹۳)، المغازی ۳۹ (۴۲۱۱)، الأطعمة ۲۸ (۵۴۲۵)، الدعوات ۳۶ (۶۳۶۳)، وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : خیبر میں ایک مقام کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا پہلے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آ گئی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ النکاح ۴۲ (۱۹۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۸۰) وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جگہ دحیہ رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی دے دی، اور ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لئے منتخب کر لیا، صفیہ قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں، اس لئے ان کا ایک عام صحابی کے پاس رہنا مناسب نہ تھا، کیونکہ اس سے دوسروں کو رشک ہوتا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وَقَعَ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ،فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَصْنَعُهَا وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں ایک خوبصورت لونڈی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سات غلام دے کر خرید لیا اور انہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ انہیں بنا سنوار دیں۔ حماد کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ وہ وہاں عدت گزار کر پاک و صاف ہو لیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (۲۰۵۴) (تحفة الأشراف: ۳۷۷، ۳۹۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ. ح وحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جُمِعَ السَّبْيُ يَعْنِي بِخَيْبَرَ فَجَاءَ دِحْيَةُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، قَالَ: "اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ، قَالَ يَعْقُوبُ: صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، قَالَ: ادْعُوهُ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا"، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں خیبر میں سب قیدی جمع کئے گئے تو دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قیدیوں میں سے مجھے ایک لونڈی عنایت فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ ایک لونڈی لے لو"، دحیہ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا، تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: اللہ کے رسول! آپ نے (صفیہ بنت حیی کو)دحیہ کو دے دیا، صفیہ بنت حیی قریظہ اور نضیر (کے یہودیوں) کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں و مناسب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دحیہ کو صفیہ سمیت بلا لاؤ"، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم کوئی اور لونڈی لے لو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکاح کر لیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الصلاة ۱۲ (۳۷۱)، صحیح مسلم/ النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، سنن النسائی/ النکاح ۶۴ (۳۳۴۲)، (تحفة الأشراف: ۹۹۰، ۱۰۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۰۱، ۱۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا بِالْمِرْبَدِ فَجَاءَ رَجُل أَشْعَثُ الرَّأْسِ بِيَدِهِ قِطْعَةُ أَدِيمٍ أَحْمَرَ، فَقُلْنَا: كَأَنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: أَجَلْ قُلْنَا: نَاوِلْنَا هَذِهِ الْقِطْعَةَ الأَدِيمَ الَّتِي فِي يَدِكَ، فَنَاوَلَنَاهَا فَقَرَأْنَاهَا فَإِذَا فِيهَا مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى بَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ: "إِنَّكُمْ إِنْ شَهِدْتُمْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَأَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ، وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ، وَأَدَّيْتُمُ الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ وَسَهْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفِيَّ أَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ"، فَقُلْنَا مَنْ كَتَبَ لَكَ هَذَا الْكِتَابَ ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یزید بن عبداللہ کہتے ہیں ہم مربد (ایک گاؤں کا نام ہے) میں تھے اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کے ہاتھ میں سرخ چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے کہا: تم گویا کہ صحراء کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا: ہاں ہم نے کہا: چمڑے کا یہ ٹکڑا جو تمہارے ہاتھ میں ہے تم ہمیں دے دو، اس نے اس کو ہمیں دے دیا، ہم نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا: "یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زہیر بن اقیش کے لیے ہے (انہیں معلوم ہو کہ) اگر تم اس بات کی گواہی دینے لگ جاؤ گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے لگو گے اور مال غنیمت میں سے (خمس جو اللہ و رسول کا حق ہے) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ «صفی» کو ادا کرو گے تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہو گی"، تو ہم نے پوچھا: یہ تحریر تمہیں کس نے لکھ کر دی ہے؟ تو اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۷۷، ۷۸، ۳۶۳) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الأَوْثَانَ وَالْيَهُودُ، وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ سورة آل عمران آية 186 الْآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ، فَبَعَثَ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ وَذَكَرَ قِصَّةَ قَتْلِهِ، فَلَمَّا قَتَلُوهُ فَزَعَتْ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ فَغَدَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: طُرِقَ صَاحِبُنَا فَقُتِلَ، فَذَكَرَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ يَقُولُ: وَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَنْ يَكْتُبَ بَيْنَهُ كِتَابًا يَنْتَهُونَ إِلَى مَا فِيهِ، فَكَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمُسْلِمِينَ عَامَّةً صَحِيفَةً.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور آپ ان تین لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی۱؎) : کعب بن اشرف (یہودی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف اکسایا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اس وقت وہاں سب قسم کے لوگ ملے جلے تھے ان میں مسلمان بھی تھے، اور مشرکین بھی جو بتوں کو پوجتے تھے، اور یہود بھی، وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کو بہت ستاتے تھے تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو صبر اور عفوو درگزر کا حکم دیا، انہیں کی شان میں یہ آیت «ولتسمعن من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم» "تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو شرک کرتے ہیں سنو گے بہت سی مصیبت یعنی تم کو برا کہیں گے، تم کو ایذا پہنچائیں گے، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو بڑا کام ہے" (سورۃ آل عمران: ۱۸۶) اتری تو کعب بن اشرف جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی سے باز نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ چند آدمیوں کو بھیج کر اس کو قتل کرا دیں تو آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا، پھر راوی نے اس کے قتل کا قصہ بیان کیا، جب ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا تو یہودی اور مشرکین سب خوف زدہ ہو گئے، اور دوسرے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: رات میں ہمارا سردار مارا گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ باتیں ذکر کیں جو وہ کہا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک بات کی دعوت دی کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جائے جس کی سبھی لوگ پابندی کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور ان کے درمیان ایک عمومی صحیفہ (تحریری معاہدہ) لکھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۵۲) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : سند میں «عبدالرحمن بن عبدالله بن كعب بن مالك، عن أبيه» ہے، اس عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ بن کعب بن مالک ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ کے بجائے ان کے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں اور باقی دو کے نام مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہما ہیں۔
حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الأَيَامِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدِمَ الْمَدِينَةَ جَمَعَ الْيَهُودَ فِي سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا قَبْلَ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قُرَيْشًا"، قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ لَا يَغُرَّنَّكَ مِنْ نَفْسِكَ أَنَّكَ قَتَلْتَ نَفَرًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا أَغْمَارًا لَا يَعْرِفُونَ الْقِتَالَ إِنَّكَ لَوْ قَاتَلْتَنَا لَعَرَفْتَ أَنَّا نَحْنُ النَّاسُ وَأَنَّكَ لَمْ تَلْقَ مِثْلَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ سورة آل عمران آية 12، قَرَأَ مُصَرِّفٌ إِلَى قَوْلِهِ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة آل عمران آية 13 بِبَدْرٍ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ سورة آل عمران آية 13.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں قریش پر فتح حاصل کی اور مدینہ لوٹ کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بنی قینقاع کے بازار میں اکٹھا کیا، اور ان سے کہا: "اے یہود کی جماعت! تم مسلمان ہو جاؤ قبل اس کے کہ تمہارا حال بھی وہی ہو جو قریش کا ہوا"، انہوں نے کہا: محمد! تم اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تم نے قریش کے کچھ نا تجربہ کار لوگوں کو جو جنگ سے واقف نہیں تھے قتل کر دیا ہے، اگر تم ہم سے لڑتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ مرد میدان ہم ہیں ابھی تمہاری ہم جیسے جنگجو بہادر لوگوں سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «قل للذين كفروا ستغلبون» "کافروں سے کہہ دیجئیے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے" (سورۃ آل عمران: ۱۲) حدیث کے راوی مصرف نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «فئة تقاتل في سبيل الله» ، «وأخرى كافرة» تک تلاوت کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۶۰۶) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی محمد بن ابی محمد مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاق حَدَّثَنِي مَوْلًى لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَتْنِي ابْنَةُ مُحَيْصَةَ، عَنْ أَبِيهَا مُحَيْصَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ ظَفِرْتُمْ بِهِ مِنْ رِجَالِ يَهُودَ فَاقْتُلُوهُ"، فَوَثَبَ مُحَيْصَةُ عَلَى شَبِيبَةَ رَجُلٍ مِنْ تُجَّارِ يَهُودَ كَانَ يُلَابِسُهُمْ فَقَتَلَهُ وَكَانَ حُوَيْصَةُ إِذْ ذَاكَ لَمْ يُسْلِمْ وَكَانَ أَسَنَّ مِنْ مُحَيْصَةَ، فَلَمَّا قَتَلَهُ جَعَلَ حُوَيْصَةُ يَضْرِبُهُ، وَيَقُولُ: يَا عَدُوَّ اللَّهِ أَمَا وَاللَّهِ لَرُبَّ شَحْمٍ فِي بَطْنِكَ مِنْ مَالِهِ.
محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہودیوں میں سے جس کسی مرد پر بھی تم قابو پاؤ اسے قتل کر دو"، تو محیصہ رضی اللہ عنہ نے یہود کے سوداگروں میں سے ایک سوداگر کو جس کا نام شبیبہ تھا حملہ کر کے قتل کر دیا، اور اس وقت تک حویصہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور وہ محیصہ رضی اللہ عنہ سے بڑے تھے، تو جب محیصہ رضی اللہ عنہ نے یہودی تاجر کو قتل کر دیا تو حویصہ محیصہ کو مارنے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے دشمن! قسم اللہ کی تیرے پیٹ میں اس کے مال کی بڑی چربی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۳۶، ۴۳۵) (ضعیف) (اس کے دوراوی مولی زید بن ثابت اور ابنت محیصہ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ أُرِيدُ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ: اعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم مسجد میں تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لے آئے اور فرمانے لگے:"یہود کی طرف چلو"، تو ہم سب آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچ گئے، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور انہیں پکار کر کہا: "اے یہود کی جماعت! اسلام لے آؤ تو (دنیا و آخرت کی بلاؤں و مصیبتوں سے) محفوظ ہو جاؤ گے"، تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پھر یہی فرمایا: «أسلموا تسلموا» انہوں نے پھر کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا یہی مقصد تھا"، پھر تیسری بار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اور مزید یہ بھی کہا کہ: "جان لو! زمین اللہ کی، اور اس کے رسول کی ہے (اگر تم ایمان نہ لائے) تو میں تمہیں اس سر زمین سے جلا وطن کر دینے کا ارادہ کرتا ہوں، تو جو شخص اپنے مال کے لے جانے میں کچھ (دقت و دشواری) پائے (اور بیچنا چاہے) تو بیچ لے، ورنہ جان لو کہ (سب بحق سرکار ضبط ہو جائے گا کیونکہ) زمین اللہ کی اور اس کے رسول کی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجزیة ۶ (۳۱۶۷)، والإکراہ ۲ (۶۹۴۴)، والاعتصام ۱۸ (۷۳۴۸)، صحیح مسلم/الجھاد ۲۰ (۱۷۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۴۳۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ كَتَبُوا إِلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مَعَهُ الأَوْثَانَ مِن الأَوْسِ وَ الْخَزْرَجِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِنَّكُمْ آوَيْتُمْ صَاحِبَنَا وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللَّهِ لَتُقَاتِلُنَّهُ أَوْ لَتُخْرِجُنَّهُ أَوْ لَنَسِيرَنَّ إِلَيْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَاءَكُمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ مِنْ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ اجْتَمَعُوا لِقِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُمْ فَقَالَ: "لَقَدْ بَلَغَ وَعِيدُ قُرَيْشٍ مِنْكُمُ الْمَبَالِغَ مَا كَانَتْ تَكِيدُكُمْ بِأَكْثَرَ مِمَّا تُرِيدُونَ أَنْ تَكِيدُوا بِهِ أَنْفُسَكُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا أَبْنَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَفَرَّقُوا، فَبَلَغَ ذَلِكَ كُفَّارَ قُرَيْشٍ فَكَتَبَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِلَى الْيَهُودِ إِنَّكُمْ أَهْلُ الْحَلْقَةِ وَالْحُصُونِ وَإِنَّكُمْ لَتُقَاتِلُنَّ صَاحِبَنَا أَوْ لَنَفْعَلَنَّ كَذَا وَكَذَا وَلَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَدَمِ نِسَائِكُمْ شَيْءٌ وَهِيَ الْخَلَاخِيلُ، فَلَمَّا بَلَغَ كِتَابُهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْمَعَتْ بَنُو النَّضِيرِ بِالْغَدْرِ فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ إِلَيْنَا فِي ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ وَلْيَخْرُجْ مِنَّا ثَلَاثُونَ حَبْرًا حَتَّى نَلْتَقِيَ بِمَكَانِ الْمَنْصَفِ فَيَسْمَعُوا مِنْكَ فَإِنْ صَدَّقُوكَ وَآمَنُوا بِكَ آمَنَّا بِكَ فَقَصَّ خَبَرَهُمْ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ غَدَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْكَتَائِبِ فَحَصَرَهُمْ فَقَالَ: لَهُمْ إِنَّكُمْ وَاللَّهِ لَا تَأْمَنُونَ عِنْدِي إِلَّا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُونِي عَلَيْهِ"، فَأَبَوْا أَنْ يُعْطُوهُ عَهْدًا فَقَاتَلَهُمْ يَوْمَهُمْ ذَلِكَ، ثُمَّ غَدَا الْغَدُ عَلَى بَنِي قُرَيْظَةَ بِالْكَتَائِبِ وَتَرَكَ بَنِي النَّضِيرِ وَدَعَاهُمْ إِلَى أَنْ يُعَاهِدُوهُ فَعَاهَدُوهُ فَانْصَرَفَ عَنْهُمْ وَغَدَا عَلَى بَنِي النَّضِيرِ بِالْكَتَائِبِ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى الْجَلَاءِ فَجَلَتْ بَنُو النَّضِيرِ وَاحْتَمَلُوا مَا أَقَلَّتِ الإِبِلُ مِنْ أَمْتِعَتِهِمْ وَأَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَخَشَبِهَا، فَكَانَ نَخْلُ بَنِي النَّضِيرِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا وَخَصَّهُ بِهَا فَقَالَ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، فَأَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَهَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَقَسَمَهَا بَيْنَهُمْ وَقَسَمَ مِنْهَا لِرَجُلَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ، وَكَانَا ذَوِي حَاجَةٍ لَمْ يَقْسِمْ لِأَحَدٍ مِنَ الأَنْصَارِ غَيْرِهِمَا، وَبَقِيَ مِنْهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي فِي أَيْدِي بَنِي فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کفار قریش نے اس وقت جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے تھے اور جنگ بدر پیش نہ آئی تھی عبداللہ بن ابی اور اس کے اوس و خزرج کے بت پرست ساتھیوں کو لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم اس سے لڑ بھڑ(کر اسے قتل کر دو) یا اسے وہاں سے نکال دو، نہیں تو ہم سب مل کر تمہارے اوپر حملہ کر دیں گے، تمہارے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے لیے مباح کر لیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو پہنچا تو وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے، جب یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ جا کر ان سے ملے اور انہیں سمجھایا کہ قریش کی دھمکی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی دھمکی ہے، قریش تمہیں اتنا ضرر نہیں پہنچا سکتے جتنا تم خود اپنے تئیں ضرر پہنچا سکتے ہو، کیونکہ تم اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں سے لڑنا چاہتے ہو، جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو وہ آپس میں ایک رائے نہیں رہے، بٹ گئے، (جنگ کا ارادہ سب کا نہیں رہا) تو یہ بات کفار قریش کو پہنچی تو انہوں نے واقعہ بدر کے بعد پھر اہل یہود کو خط لکھا کہ تم لوگ ہتھیار اور قلعہ والے ہو تم ہمارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لڑو نہیں تو ہم تمہاری ایسی تیسی کر دیں گے (یعنی قتل کریں گے) اور ہمارے درمیان اور تمہاری عورتوں کی پنڈلیوں و پازیبوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو گی، جب ان کا خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگا، تو بنو نضیر نے فریب دہی و عہدشکنی کا پلان بنا لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اصحاب میں سے تیس آدمی لے کر ہماری طرف نکلئے، اور ہمارے بھی تیس عالم نکل کر آپ سے ایک درمیانی مقام میں رہیں گے، وہ آپ کی گفتگو سنیں گے اگر آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ان کی یہ سب باتیں بیان کر دیں، دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور ان کا محاصرہ کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: "اللہ کی قسم ہمیں تم پر اس وقت تک اطمینان نہ ہو گا جب تک کہ تم ہم سے معاہدہ نہ کر لو گے"، تو انہوں نے عہد دینے سے انکار کیا (کیونکہ ان کا ارادہ دھوکہ دینے کا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس دن جنگ کی، پھر دوسرے دن آپ نے اپنے لشکر کو لے کر قریظہ کے یہودیوں پر چڑھائی کر دی اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور ان سے کہا: "تم ہم سے معاہدہ کر لو"، انہوں نے معاہدہ کر لیا کہ (ہم آپ سے نہ لڑیں گے اور نہ آپ کے دشمن کی مدد کریں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ سے معاہدہ کر کے واپس آ گئے، دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوجی دستے لے کر بنو نضیر کی طرف بڑھے اور ان سے جنگ کی یہاں تک کہ وہ جلا وطن ہو جانے پر راضی ہو گئے تو وہ جلا وطن کر دئیے گئے، اور ان کے اونٹ ان کا جتنا مال و اسباب گھروں کے دروازے اور کاٹ کباڑ لاد کر لے جا سکے وہ سب لاد کر لے گئے، ان کے کھجوروں کے باغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہو گئے، اللہ نے انہیں آپ کو عطا کر دیا، اور آپ کے لیے خاص کر دیا، اور ارشاد فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» "اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کافروں کے مال میں سے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہارے اونٹ اور گھوڑے دوڑانے یعنی جنگ کرنے کے نتیجہ میں نہیں دیا ہے" (سورۃ الحشر: ۶) ۔ راوی کہتے ہیں: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» کے معنی ہیں جو آپ کو بغیر لڑائی کے حاصل ہوا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دیا اور انہیں کے درمیان تقسیم فرمایا اور اس میں سے آپ نے دو ضرورت مند انصاریوں کو بھی دیا، ان دو کے علاوہ کسی دوسرے انصاری کو نہیں دیا، اور جس قدر باقی رہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا جو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے ہاتھ میں رہا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۲۲) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ: يَهُودَ بَنِي النَّضِيرِ وَقُرَيْظَةَ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنِي النَّضِيرِ وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ وَقَسَمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلَادَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّنَهُمْ وَأَسْلَمُوا وَأَجْلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ بَنِي قَيْنُقَاعَ وَهُمْ قَوْمُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ وَكُلَّ يَهُودِيٍّ كَانَ بِالْمَدِينَةِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا، اور بنو قریظہ کو رہنے دیا اور ان پر احسان فرمایا (اس لیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر لیا تھا) یہاں تک کہ قریظہ اس کے بعد لڑے ۱؎ تو ان کے مرد مارے گئے، ان کی عورتیں، ان کی اولاد، اور ان کے مال مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے، ان میں کچھ ہی لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امان دی، وہ مسلمان ہو گئے، باقی مدینہ کے سارے یہودیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے نکال بھگایا، بنو قینقاع کے یہودیوں کو بھی جو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی قوم سے تھے اور بنو حارثہ کے یہودیوں کو بھی اور جو کوئی بھی یہودی تھا سب کو مدینہ سے نکال باہر کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۱۴ (۴۰۲۸)، صحیح مسلم/الجھاد ۲۰ (۱۷۶۶)، (تحفة الأشراف: ۸۴۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جنگ خندق کے موقع پر انہوں نے بد عہدی کی اور در پردہ قریش کی اعانت کی۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَحْسَبُهُ عَنْنَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاتَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ فَغَلَبَ عَلَى النَّخْلِ وَالأَرْضِ وَأَلْجَأَهُمْ إِلَى قَصْرِهِمْ فَصَالَحُوهُ عَلَى أَنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفْرَاءَ وَالْبَيْضَاءَ وَالْحَلْقَةَ وَلَهُمْ مَا حَمَلَتْ رِكَابُهُمْ عَلَى أَنْ لَا يَكْتُمُوا وَلَا يُغَيِّبُوا شَيْئًا، فَإِنْ فَعَلُوا فَلَا ذِمَّةَ لَهُمْ وَلَا عَهْدَ فَغَيَّبُوا مَسْكًا لِحُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ كَانَ قُتِلَ قَبْلَ خَيْبَرَ كَانَ احْتَمَلَهُ مَعَهُ يَوْمَ بَنِي النَّضِيرِ حِينَ أُجْلِيَتْ النَّضِيرُ فِيهِ حُلِيُّهُمْ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِسَعْيَةَ أَيْنَ مَسْكُ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ ؟ قَالَ: أَذْهَبَتْهُ الْحُرُوبُ وَالنَّفَقَاتُ ؟"، فَوَجَدُوا الْمَسْكَ فَقَتَلَ ابْنَ أَبِي الْحُقَيْقِ وَسَبَى نِسَاءَهُمْ وَذَرَارِيَّهُمْ وَأَرَادَ أَنْ يُجْلِيَهُمْ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ دَعْنَا نَعْمَلْ فِي هَذِهِ الأَرْضِ وَلَنَا الشَّطْرُ مَا بَدَا لَكَ وَلَكُمُ الشَّطْرُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي كُلَّ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ ثَمَانِينَ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ وَعِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ شَعِيرٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے جنگ کی، ان کی زمین، اور ان کے کھجور کے باغات قابض ہو گئے اور انہیں اپنے قلعہ میں محصور ہو جانے پر مجبور کر دیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر صلح کر لی کہ سونا چاندی اور ہتھیار جو کچھ بھی ہیں وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوں گے اور ان کے لیے صرف وہی کچھ (مال و اسباب) ہے جنہیں ان کے اونٹ اپنے ساتھ اٹھا کر لے جا سکیں، انہیں اس کا حق و اختیار نہ ہو گا کہ وہ کوئی چیز چھپائیں یا غائب کریں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو مسلمانوں پر ان کی حفاظت اور معاہدے کی پاس داری کی کوئی ذمہ داری نہ رہے گی تو انہوں نے حیی بن اخطب کے چمڑے کی ایک تھیلی غائب کر دی، حیی بن اخطب خیبر سے پہلے قتل کیا گیا تھا، اور وہ جس دن بنو نضیر جلا وطن کئے گئے تھے اسے اپنے ساتھ اٹھا لایا تھا اس میں ان کے زیورات تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعیہ (یہودی) سے پوچھا: "حیی بن اخطب کی تھیلی کہاں ہے؟"، اس نے کہا: لڑائیوں میں کام آ گئی اور مصارف میں خرچ ہو گئی پھر صحابہ کو وہ تھیلی مل گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حقیق کو قتل کر دیا، ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا، اور ان کی اولاد کو غلام بنا لیا، ان کو جلا وطن کر دینے کا ارادہ کر لیا، تو وہ کہنے لگے: محمد! ہمیں یہیں رہنے دیجئیے، ہم اس زمین میں کام کریں گے (جوتیں بوئیں گے) اور جو پیداوار ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا آپ کو دیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس پیداوار سے) اپنی ہر ہر بیوی کو (سال بھر میں) (۸۰، ۸۰) وسق کھجور کے اور (۲۰، ۲۰) وسق جو کے دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۸۷۷) (حسن الإسناد)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ فَلْيَلْحَقْ بِهِ فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ فَأَخْرَجَهُمْ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے یہ معاملہ کیا تھا کہ ہم جب چاہیں گے انہیں یہاں سے جلا وطن کر دیں گے، تو جس کا کوئی مال ان یہودیوں کے پاس ہو وہ اسے لے لے، کیونکہ میں یہودیوں کو (اس سر زمین سے) نکال دینے والا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکال دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الشروط ۱۴ (۲۷۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۵۴) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہودیوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں نکال رہے ہیں، حالانکہ آپ کے رسول نے ہمیں یہاں رکھا تھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ جزیرہ عرب میں دو دین نہ رہیں، اسی وجہ سے میں تمہیں نکال رہا ہوں۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا افْتُتِحَتْ خَيْبَرُ، سَأَلَتْ يَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِرَّهُمْ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا عَلَى النِّصْفِ مِمَّا خَرَجَ مِنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُقِرُّكُمْ فِيهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا فَكَانُوا عَلَى ذَلِكَ"، وَكَانَ التَّمْرُ يُقْسَمُ عَلَى السُّهْمَانِ مِنْ نِصْفِ خَيْبَرَ وَيَأْخُذُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخُمُسَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَ كُلَّ امْرَأَةٍ مِنْ أَزْوَاجِهِ مِنَ الْخُمُسِ مِائَةَ وَسْقٍ تَمْرًا وَعِشْرِينَ وَسْقًا شَعِيرًا، فَلَمَّا أَرَادَ عُمَرُ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ أَرْسَلَ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُنَّ: مَنْ أَحَبَّ مِنْكُنَّ أَنْ أَقْسِمَ لَهَا نَخْلًا بِخَرْصِهَا مِائَةَ وَسْقٍ فَيَكُونَ لَهَا أَصْلُهَا وَأَرْضُهَا وَمَاؤُهَا وَمِنَ الزَّرْعِ مَزْرَعَةَ خَرْصٍ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَعَلْنَا وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ نَعْزِلَ الَّذِي لَهَا فِي الْخُمُسِ كَمَا هُوَ فَعَلْنَا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کر لیا تو امہات المؤمنین کو کہلا بھیجا کہ آپ میں سے جس کا جی چاہے کہ میں اس کو اتنے درخت دے دوں جن میں سے سو وسق کھجور نکلیں مع جڑ کھجور اور پانی کے اور اسی طرح کھیتی میں سے اس قدر زمین دے دوں جس میں بیس وسق جو پیدا ہو، تو میں دے دوں اور جو پسند کرے کہ میں خمس میں سے اس کا حصہ نکالا کروں جیسا کہ ہے تو میں ویسا ہی نکالا کروں گا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱ (۱۵۵۱)، (تحفة الأشراف: ۷۴۷۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث ۸ (۲۳۲۸)، سنن الترمذی/الأحکام ۴۱ (۱۳۸۳)، سنن ابن ماجہ/الرھون ۱۴ (۲۴۶۷)، مسند احمد (۲/۱۷، ۲۲، ۳۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ. ح وحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، أن إسماعيل بن إبراهيم حدثهم، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجُمِعَ السَّبْيُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے جہاد کیا، ہم نے اسے لڑ کر حاصل کیا، پھر قیدی اکٹھا کئے گئے (تاکہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۲ (۳۷۱)، صحیح مسلم/الجھاد ۴۳ (۱۳۶۵)، سنن النسائی/النکاح ۶۴ (۳۳۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: "قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ نِصْفَيْنِ، نِصْفًا لِنَوَائِبِهِ وَحَاجَتِهِ، وَنِصْفًا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَسَمَهَا بَيْنَهُمْ عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا".
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا: ایک حصہ تو اپنی حوائج و ضروریات کے لیے رکھا اور ایک حصہ کے اٹھارہ حصے کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الأَسْوَدِ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ آدَمَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي شِهَابٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِع نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: فَكَانَ النِّصْفُ سِهَامَ الْمُسْلِمِينَ وَسَهْمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَزَلَ النِّصْفَ لِلْمُسْلِمِينَ لِمَا يَنُوبُهُ مِنَ الأُمُورِ وَالنَّوَائِبِ.
بشیر بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں سے سنا، انہوں نے کہا، پھر راوی نے یہی حدیث ذکر کی اور کہا کہ نصف میں سب مسلمانوں کے حصے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حصہ تھا اور باقی نصف مسلمانوں کی ضروریات اور مصائب و مشکلات کے لیے رکھا جاتا تھا جو انہیں پیش آتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۶) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الأَنْصَارِ، عَنْ رِجَالٍمِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَيْبَرَ قَسَمَهَا عَلَى سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ سَهْمًا جَمَعَ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ سَهْمٍ، فَكَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِلْمُسْلِمِينَ النِّصْفُ مِنْ ذَلِكَ، وَعَزَلَ النِّصْفَ الْبَاقِيَ لِمَنْ نَزَلَ بِهِ مِنَ الْوُفُودِ وَالأُمُورِ وَنَوَائِبِ النَّاسِ".
بشیر بن یسار جو انصار کے غلام تھے بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر پر غالب آئے تو آپ نے اسے چھتیس حصوں میں تقسیم فرمایا، ہر ایک حصے میں سو حصے تھے تو اس میں سے نصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے ہوا اور باقی نصف آنے والے وفود اور دیگر کاموں اور اچانک مسلمانوں کو پیش آنے والے حادثات و مصیبتوں میں خرچ کرنے کے لیے الگ کر کے رکھ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ قَسَمَهَا عَلَى سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ سَهْمًا جَمَعَ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ سَهْمٍ فَعَزَلَ نِصْفَهَا لِنَوَائِبِهِ، وَمَا يَنْزِلُ بِهِ الْوَطِيحَةَ وَالْكُتَيْبَةَ وَمَا أُحِيزَ مَعَهُمَا، وَعَزَلَ النِّصْفَ الْآخَرَ فَقَسَمَهُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ الشِّقَّ وَالنَّطَاةَ وَمَا أُحِيزَ مَعَهُمَا، وَكَانَ سَهْمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا أُحِيزَ مَعَهُمَا.
بشیر بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے خیبر اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور غنیمت عطا فرمایا تو آپ نے اس کے(۳۶ چھتیس) حصے کئے اور ہر حصے میں سو حصے رکھے، تو اس کے نصف حصے اپنی ضرورتوں و کاموں کے لیے رکھا اور اسی میں سے وطیحہ وکتیبہ ۱؎ اور ان سے متعلق جائیداد بھی ہے اور دوسرے نصف حصے کو جس میں شق و نطاۃ ۲؎ ہیں اور ان سے متعلق جائیداد بھی شامل تھی الگ کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ان دونوں گاؤں کے متعلقات میں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶) (صحیح) (یہ روایت گرچہ مرسل ہے پچھلی سے تقویت پا کر صحیح ہے، أغلب یہی ہے کہ وہی صحابی یہاں بھی واسطہ ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یہ دونوں گاؤں کے نام ہیں۔ ۲؎ : یہ بھی دو گاؤں کے نام ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ قَسَمَهَا سِتَّةً وَثَلَاثِينَ سَهْمًا جَمْعًا، فَعَزَلَ لِلْمُسْلِمِينَ الشَّطْرَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا يَجْمَعُ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةً النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ لَهُ سَهْمٌ كَسَهْمِ أَحَدِهِمْ، وَعَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا وَهُوَ الشَّطْرُ لِنَوَائِبِهِ وَمَا يَنْزِلُ بِهِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، فَكَانَ ذَلِكَ الْوَطِيحَ وَالْكُتَيْبَةَ وَالسَّلَالِمَ وَتَوَابِعَهَا، فَلَمَّا صَارَتِ الأَمْوَالُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِينَ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ عُمَّالٌ يَكْفُونَهُمْ عَمَلَهَا، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَهُودَ فَعَامَلَهُمْ.
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ نے خیبر کا مال عطا کیا تو آپ نے اس کے کل چھتیس حصے کئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھے یعنی اٹھارہ حصے مسلمانوں کے لیے الگ کر دئیے، ہر حصے میں سو حصے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں کے ساتھ تھے آپ کا بھی ویسے ہی ایک حصہ تھا جیسے ان میں سے کسی دوسرے شخص کا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھارہ حصے (یعنی نصف آخر) اپنی ضروریات اور مسلمانوں کے امور کے لیے الگ کر دیے، اسی نصف میں وطیح، کتیبہ اور سلالم(دیہات کے نام ہیں) اور ان کے متعلقات تھے، جب یہ سب اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں آئے تو مسلمانوں کے پاس ان کی دیکھ بھال اور ان میں کام کرنے والے نہیں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلا کر ان سے (بٹائی پر) معاملہ کر لیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۵، ۱۸۴۵۶) (صحیح) (یہ روایت بھی سابقہ روایت سے تقویت پا کر صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَعْقُوبَ بْنَ مُجَمِّعٍيَذْكُرُ لِي، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمِّهِ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ أَحَدَ الْقُرَّاءِ الَّذِينَ قَرَءُوا الْقُرْآنَ، قَالَ: "قُسِمَتْ خَيْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا، وَكَانَ الْجَيْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ فِيهِمْ ثَلَاثُ مِائَةِ فَارِسٍ، فَأَعْطَى الْفَارِسَ سَهْمَيْنِ وَأَعْطَى الرَّاجِلَ سَهْمًا".
مجمع بن جاریہ انصاری (جو قرآن کے قاریوں میں سے ایک تھے) کہتے ہیں کہ خیبر ان لوگوں پر تقسیم کیا گیا جو صلح حدیبیہ میں شریک تھے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو اٹھارہ حصوں میں تقسیم کیا، لشکر کی تعداد ایک ہزار پانچ سو تھی، ان میں تین سو سوار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواروں کو دو دو حصے دئیے اور پیادوں کو ایک ایک حصہ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظرحدیث رقم : (۲۷۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۱۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ یہی لوگ مکہ سے آ کر خیبر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَجْلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِالزُّهْرِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وبعض ولد محمد بن مسلمة، قَالُوا: بَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ تَحَصَّنُوا، فَسَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْقِنَ دِمَاءَهُمْ وَيُسَيِّرَهُمْ فَفَعَلَ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ أَهْلُ فَدَكَ فَنَزَلُوا عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً لِأَنَّهُ لَمْ يُوجَفْ عَلَيْهَا بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ.
ابن شہاب زہری، عبداللہ بن ابوبکر اور محمد بن مسلمہ کے بعض لڑکوں سے روایت ہے یہ لوگ کہتے ہیں (جب خیبر فتح ہو گیا) خیبر کے کچھ لوگ رہ گئے وہ قلعہ بند ہو گئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کا خون نہ بہایا جائے اور انہیں یہاں سے نکل کر چلے جانے دیا جائے، آپ نے ان کی درخواست قبول کر لی) یہ خبر فدک والوں نے بھی سنی، تو وہاں کے لوگ بھی اس جیسی شرط پر اترے تو فدک (اللہ کی جانب سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص (عطیہ) قرار پایا، اس لیے کہ اس پر اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے گئے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۸۸۶) (ضعیف الإسناد) (یہ روایت مرسل ہے جیسا کہ سند سے ظاہر ہے )
وضاحت: ۱؎ : یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوا جنگ سے حاصل ہوتا تو اس میں مسلمانوں کا بھی حق ہوتا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، افْتَتَحَ بَعْضَ خَيْبَرَ عَنْوَةً، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَقُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكُمْ ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ خَيْبَرَ كَانَ بَعْضُهَا عَنْوَةً وَبَعْضُهَا صُلْحًا وَالْكَتِيبَةُ أَكْثَرُهَا عَنْوَةً وَفِيهَا صُلْحٌ، قُلْتُ لِمَالِكٍ: وَمَا الْكَتِيبَةُ ؟ قَالَ: أَرْضُ خَيْبَرَ وَهِيَ أَرْبَعُونَ أَلْفَ عَذْقٍ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا کچھ حصہ طاقت سے فتح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ آپ لوگوں کو ابن وہب نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا ہے وہ ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں کہ "خیبر کا بعض حصہ زور و طاقت سے حاصل ہوا ہے، اور بعض صلح کے ذریعہ اور کتیبہ (جو خیبر کا ایک گاؤں ہے) کا زیادہ حصہ زور و طاقت سے فتح ہوا اور کچھ صلح کے ذریعہ"۔ ابن وہب کہتے ہیں: میں نے مالک سے پوچھا کہ کتیبہ کیا ہے؟ بولے: خیبر کی زمین کا ایک حصہ ہے، اور وہ چالیس ہزار کھجور کے درختوں پر مشتمل تھا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «عَذْق» کھجور کے درخت کو کہتے ہیں، اور «عِذْق» کھجور کے گچھے کی جڑ جو ٹیڑھی ہوتی ہے، اور گچھے کو کاٹنے پر درخت پر خشک ہو کر باقی رہ جاتی ہے اس کو کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۷۳۲، ۱۹۳۶۷) (ضعیف) (یہ روایت بھی مرسل ہے)
وضاحت: ۱؎ : خیبر کے زیادہ تر درخت کھجور ہی کے تھے اور کچھ زراعت (کھیتی باڑی) بھی ہوتی تھی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ عَنْوَةً بَعْدَ الْقِتَالِ، وَنَزَلَ مَنْ نَزَلَ مِنْ أَهْلِهَا عَلَى الْجَلَاءِ بَعْدَ الْقِتَالِ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو طاقت کے ذریعہ لڑ کر فتح کیا اور خیبر کے جو لوگ قلعہ سے نکل کر جلا وطن ہوئے وہ بھی جنگ کے بعد ہی جلا وطنی کی شرط پر قلعہ سے باہر نکلے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۴۰۲) (ضعیف) (اس سند میں انقطاع ہے، زہری اور نبی کریم صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے درمیان واسطے کا پتہ نہیں ہے مگر بات یہی صحیح ہے کہ خبیر بزور طاقت (جنگ سے) فتح کیا گیا تھا جیساکہ صحیح اور متصل مرفوع روایات میں وارد ہے)
وضاحت: ۱؎ : پھر انہوں نے منت سماجت کی اور کہنے لگے کہ ہمیں یہاں رہنے دو، ہم زراعت (کھیتی باڑی) کریں گے، اور نصف پیداوار آپ کو دیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رکھ لیا، اس شرط کے ساتھ کہ جب ہم چاہیں گے، نکال دیں گے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: خَمَّسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، ثُمَّ قَسَمَ سَائِرَهَا عَلَى مَنْ شَهِدَهَا وَمَنْ غَابَ عَنْهَا مِنْ أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ.
ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے مال میں سے (جو غنیمت میں آیا) خمس (پانچواں حصہ) نکال لیا اور جو باقی بچ رہا اسے ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جو جنگ میں موجود تھے اور جو موجود نہیں تھے لیکن صلح حدیبیہ میں حاضر تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۴۰۱) (حسن)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فُتِحَتْ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ.
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا (یعنی ان کی محتاجی کا) خیال نہ ہوتا تو جو بھی گاؤں و شہر فتح کیا جاتا اسے میں اسی طرح تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۱۴ (۲۳۳۴)، فرض الخمس ۱۴ (۳۱۲۵)، المغازي ۳۸ (۴۲۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۱، ۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ، فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرِ فَلَوْ جَعَلْتَ لَهُ شَيْئًا، قَالَ: "نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ"..
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ مرالظہران ۲؎ میں مسلمان ہو گئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کر دیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کر دیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے وہ بھی مامون ہے" (ہم اسے نہیں ماریں گے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۸۵۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : مکہ ۸ ہجری میں فتح ہوا۔ ۲؎ : مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّهْرَانِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَنْوَةً قَبْلَ أَنْ يَأْتُوهُ فَيَسْتَأْمِنُوهُ إِنَّهُ لَهَلَاكُ قُرَيْشٍ، فَجَلَسْتُ عَلَى بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: لَعَلِّي أَجِدُ ذَا حَاجَةٍ يَأْتِي أَهْلَ مَكَّةَ فَيُخْبِرُهُمْ بِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجُوا إِلَيْهِ فَيَسْتَأْمِنُوهُ فَإِنِّي لَأَسِيرُ إِذْ سَمِعْتُ كَلَامَ أَبِي سُفْيَانَ وَبُدَيْلِ بْنِ وَرْقَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنْظَلَةَ، فَعَرَفَ صَوْتِي، فَقَالَ أَبُو الْفَضْلِ: قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: مَا لَكَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قُلْتُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، قَالَ: فَمَا الْحِيلَةُ ؟، قَالَ: فَرَكِبَ خَلْفِي وَرَجَعَ صَاحِبُهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرَ فَاجْعَلْ لَهُ شَيْئًا، قَالَ: "نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ دَارَهُ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ"، قَالَ: فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إِلَى دُورِهِمْ وَإِلَى الْمَسْجِدِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظہران میں (فتح مکہ کے لیے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ) پڑاؤ کیا، عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حاضر ہو کر امان حاصل نہ کر لی تو قریش تباہ ہو جائیں گے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر نکلا، میں نے (اپنے جی) میں کہا: شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت سے مکہ جاتا ہوا مل جائے (تو میں اسے بتا دوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر کر دے (کہ آپ مع لشکر جرار تمہارے سر پر آ پہنچے ہیں) تاکہ وہ آپ کے حضور میں پہنچ کر آپ سے امان حاصل کر لیں۔ میں اسی خیال میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ابوسفیان اور بدیل بن ورقاء کی آواز سنی، میں نے پکار کر کہا: اے ابوحنظلہ (ابوسفیان کی کنیت ہے) اس نے میری آواز پہچان لی، اس نے کہا: ابوفضل؟ (عباس کی کنیت ہے) میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: کیا بات ہے، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میں نے کہا: دیکھ! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے لوگ ہیں (سوچ لے) ابوسفیان نے کہا: پھر کیا تدبیر کروں؟ وہ کہتے ہیں: ابوسفیان میرے پیچھے (خچر پر) سوار ہوا، اور اس کا ساتھی (بدیل بن ورقاء) لوٹ گیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا (وہ مسلمان ہو گیا) میں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان فخر کو پسند کرتا ہے، تو آپ اس کے لیے(اس طرح کی) کوئی چیز کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "ہاں (ایسی کیا بات ہے، لو کر دیا میں نے)، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لیے امن ہے (وہ قتل نہیں کیا جائے گا) اور جو اپنے گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کے لیے امن ہے، اور جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے اس کو امن ہے"، یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں میں اور مسجد میں بٹ گئے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۱۳۲) (حسن) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم (بعض أہلہ) راوی ہے)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْكَرِيمِ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَقِيلِ بْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا هَلْ غَنِمُوا يَوْمَ الْفَتْحِ شَيْئًا ؟ قَالَ: لَا.
وہب (وہب بن منبہ) کہتے ہیں میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا مسلمانوں کو فتح مکہ کے دن کچھ مال غنیمت ملا تھا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۱۳۵) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ سَرَّحَ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَأَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْخَيْلِ، وَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ اهْتِفْ بِالأَنْصَارِ قَالَ: اسْلُكُوا هَذَا الطَّرِيقَ فَلَا يَشْرُفَنَّ لَكُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَمْتُمُوهُ فَنَادَى مُنَادٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ دَخَلَ دَارًا فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ". وَعَمَدَ صَنَادِيدُ قُرَيْشٍ فَدَخَلُوا الْكَعْبَةَ فَغَصَّ بِهِمْ وَطَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَخَذَ بِجَنْبَتَيِ الْبَابِ فَخَرَجُوا فَبَايَعُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلَامِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سَأَلَهُ رَجُلٌ قَالَ: مَكَّةُ عَنْوَةً هِيَ، قَالَ: إِيشْ يَضُرُّكَ مَا كَانَتْ ؟ قَالَ: فَصُلْحٌ قَالَ: لَا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابوعبیدہ ابن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو گھوڑوں پر سوار رہنے دیا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: "تم انصار کو پکار کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلا دیں"، اتنے میں ایک منادی نے آواز دی: آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے"، قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی پھر خانہ کعبہ کے دروازے کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر (کھڑے ہوئے) تو خانہ کعبہ کے اندر سے لوگ نکلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ کسی شخص نے احمد بن حنبل سے پوچھا: کیا مکہ طاقت سے فتح ہوا ہے؟ تو احمد بن حنبل نے کہا: اگر ایسا ہوا ہو تو تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: تو کیا صلح (معاہدہ) کے ذریعہ ہوا ہے؟ کہا: نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد ۳۱ (۱۷۸۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۲، ۵۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْكَرِيمِ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ عَقِيلِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ شَأْنِ ثَقِيفٍ إِذْ بَايَعَتْ، قَالَ: اشْتَرَطَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا صَدَقَةَ عَلَيْهَا وَلَا جِهَادَ، وَأَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ يَقُولُ: "سَيَتَصَدَّقُونَ وَيُجَاهِدُونَ إِذَا أَسْلَمُوا".
وہب کہتے ہیں میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے بنو ثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرط رکھی کہ نہ وہ زکاۃ دیں گے اور نہ وہ جہاد میں حصہ لیں گے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جب وہ مسلمان ہو جائیں گے تو وہ زکاۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۳۱۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سُوَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ مَنْجُوفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، أَنَّ وَفْدَ ثَقِيفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزَلَهُمُ الْمَسْجِدَ لِيَكُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِهِمْ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لَا يُحْشَرُوا وَلَا يُعْشَرُوا وَلَا يُجَبَّوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تُعْشَرُوا وَلَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ".
عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ جہاد کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر (زکاۃ) لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم جہاد کے لیے نہ نکالے جاؤ (کیونکہ اور لوگ جہاد کے لیے موجود ہیں) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے (کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع (نماز) نہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۷۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۱۸) (ضعیف) (حسن بصری کا عثمان ابن أبی العاص رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَهْرٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لِي هَمْدَانُ: هَلْ أَنْتَ آتٍ هَذَا الرَّجُلَ وَمُرْتَادٌ لَنَا فَإِنْ رَضِيتَ لَنَا شَيْئًا قَبِلْنَاهُ وَإِنْ كَرِهْتَ شَيْئًا كَرِهْنَاهُ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَجِئْتُ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضِيتُ أَمْرَهُ وَأَسْلَمَ قَوْمِي وَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْكِتَابَ إِلَى عُمَيْرٍ ذِي مَرَّانٍ، قَالَ: وَبَعَثَ مَالِكَ بْنَ مِرَارَةَ الرَّهَاوِيَّ إِلَى الْيَمَنِ جَمِيعًا، فَأَسْلَمَ عَكٌّ ذُو خَيْوَانَ، قَالَ: فَقِيلَ لِعَكٍّ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخُذْ مِنْهُ الأَمَانَ عَلَى قَرْيَتِكَ وَمَالِكَ فَقَدِمَ وَكَتَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ لِعَكٍّ ذِي خَيْوَانَ إِنْ كَانَ صَادِقًا فِي أَرْضِهِ وَمَالِهِ وَرَقِيقِهِ فَلَهُ الأَمَانُ وَذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، وَكَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ.
عامر بن شہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بحیثیت نبی) ظہور ہوا تو مجھ سے (قبیلہ) ہمدان کے لوگوں نے کہا: کیا تم اس آدمی کے پاس جاؤ گے اور ہماری طرف سے اس سے بات چیت کرو گے؟ اگر تمہیں کچھ بھی اطمینان ہوا تو ہم اسے قبول کر لیں گے، اگر تم نے اسے ناپسند کیا تو ہم بھی برا جانیں گے، میں نے کہا: ہاں (ٹھیک ہے میں جاؤں گا) پھر میں چلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ کا معاملہ ہمیں پسند آ گیا (تو میں اسلام لے آیا) اور میری قوم بھی اسلام لے آئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر ذی مران کو یہ تحریر لکھ کر دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن مرارہ رہاوی کو تمام یمن والوں کے پاس (اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے) بھیجا، تو عک ذوخیوان (ایک شخص کا نام ہے) اسلام لے آیا۔ عک ذوخیوان سے کہا گیا کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا اور آپ سے اپنی بستی اور اپنے مال کے لیے امان لے کر آ (تاکہ آئندہ کوئی تجھ پر اور تیری بستی والوں پر زیادتی نہ کرے) تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھ کر دیا آپ نے لکھا: "بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو اللہ کے رسول ہیں عک ذوخیوان کے لیے اگر وہ سچا ہے تو اسے لکھ کر دیا جاتا ہے کہ اس کو امان ہے، اس کی زمین، اس کے مال اور اس کے غلاموں میں، اسے اللہ اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ذمہ اور امان و پناہ حاصل ہے"۔ (راوی کہتے ہیں) خالد بن سعید بن العاص نے یہ پروانہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) اسے لکھ کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۰۴۳) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی مجالد ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ أَبْيَضَ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، أَنَّهُ كَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَةِ حِينَ وَفَدَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَخَا سَبَأٍ لَابُدَّ مِنْ صَدَقَةٍ"، فَقَالَ: إِنَّمَا زَرَعْنَا الْقُطْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَدْ تَبَدَّدَتْ سَبَأٌ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ بِمَأْرِبَ، فَصَالَحَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَبْعِينَ حُلَّةً بَزٍّ مِنْ قِيمَةِ وَفَاءِ بَزِّ الْمَعَافِرِ كُلَّ سَنَةٍ عَمَّنْ بَقِيَ مِنْ سَبَأٍ بِمَأْرِبَ فَلَمْ يَزَالُوا يَؤُدُّونَهَا حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ الْعُمَّالَ انْتَقَضُوا عَلَيْهِمْ بَعْدَ قَبْضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا صَالَحَ أَبْيَضُ بْنُ حَمَّالٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحُلَلِ السَّبْعِينَ، فَرَدَّ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى مَا وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَاتَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انْتَقَضَ ذَلِكَ وَصَارَتْ عَلَى الصَّدَقَةِ.
ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ وفد میں شامل ہو کر رسول اللہ کے پاس آئے تو آپ سے صدقے کے متعلق بات چیت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے سبائی بھائی! (سبا یمن کے ایک شہر کا نام ہے) صدقہ دینا تو ضروری ہے"، ابیض بن حمال نے کہا: اللہ کے رسول! ہماری زراعت تو صرف کپاس (روئی) ہے، (سبا اب پہلے والا سبا نہیں رہا) سبا والے متفرق ہو گئے (یعنی وہ شہر اور وہ آبادی اب نہیں رہی جو پہلے بلقیس کے زمانہ میں تھی، اب تو بالکل اجاڑ ہو گیا ہے) اب کچھ تھوڑے سے سبا کے باشندے مارب(ایک شہر کا نام ہے) میں رہ رہے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ہر سال کپڑے کے ایسے ستر جوڑے دینے پر مصالحت کر لی جو معافر ۱؎ کے ریشم کے جوڑے کی قیمت کے برابر ہوں، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک برابر یہ جوڑے ادا کرتے رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد عمال نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ابیض بن حمال سے سال بہ سال ستر جوڑے دیتے رہنے کے معاہدے کو توڑ دیا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سال میں ستر جوڑے دئیے جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو دوبارہ جاری کر دیا، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا اور ان سے بھی ویسے ہی صدقہ لیا جانے لگا جیسے دوسروں سے لیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲) (ضعیف الإسناد) (اس کے دو راوی ثابت بن سعید اور سعید بن ابیض لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں کپڑے بنے جاتے تھے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى بِثَلَاثَةٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوٍ مِمَّا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَ: فَأُنْسِيتُهَا، وقَالَ: الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ سُلَيْمَانُ: لَا أَدْرِي أَذَكَرَ سَعِيدٌ الثَّالِثَةَ فَنَسِيتُهَا، أَوْ سَكَتَ عَنْهَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) تین چیزوں کی وصیت فرمائی (ایک تو یہ) کہا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، دوسرے یہ کہ وفود (ایلچیوں) کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرنا جیسے میں ان کے ساتھ کرتا ہوں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اور تیسری چیز کے بارے میں انہوں نے سکوت اختیار کیا یا کہا کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر تو کیا) لیکن میں ہی اسے بھلا دیا گیا۔ حمیدی سفیان سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے کہا کہ مجھے یاد نہیں، سعید نے تیسری چیز کا ذکر کیا اور میں بھول گیا یا انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا خاموش رہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۱۷۵ (۳۰۵۳)، الجزیة ۶ (۳۱۶۸)، المغازي ۸۳ (۴۴۳۱)، صحیح مسلم/الوصیة ۵ (۱۶۳۷)، (تحفة الأشراف: ۵۵۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ فَلَا أَتْرُكُ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میں جزیرہ عرب سے یہود و نصاری کو ضرور با لضرور نکال دوں گا اور اس میں مسلمانوں کے سوا کسی کو نہ رہنے دوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد ۲۱ (۱۷۶۷)، سنن الترمذی/السیر ۴۳ (۱۶۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۴۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۹، ۳۲، ۳/۳۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَاهُ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ.
اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۴۱۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَكُونُ قِبْلَتَانِ فِي بَلَدٍ وَاحِدٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک ملک میں دو قبلے نہیں ہو سکتے"، (یعنی مسلمان اور یہود و نصاریٰ عرب میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزکاة ۱۱ (۶۳۳)، (تحفة الأشراف: ۵۳۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/ ۲۲۳، ۲۸۵) (ضعیف) (اس کے راوی قابوس ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَاحِدِ، قَالَ: قَالَ سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ: جَزِيرَةُ الْعَرَبِ مَا بَيْنَ الْوَادِي إِلَى أَقْصَى الْيَمَنِ إِلَى تُخُومِ الْعِرَاقِ إِلَى الْبَحْرِ. قَالَ أَبُو دَاوُد قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ، وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكَ أَشْهَبُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: عُمَرُ أَجْلَى أَهْلَ نَجْرَانَ وَلَمْ يُجْلَوْا مِنْ تَيْمَاءَ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ مِنْ بِلَادِ الْعَرَبِ، فَأَمَّا الْوَادِي فَإِنِّي أَرَى أَنَّمَا لَمْ يُجْلَ مَنْ فِيهَا مِنَ الْيَهُودِ أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْهَا مِنْ أَرْضِ الْعَرَبِ.
سعید یعنی ابن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ جزیرہ عرب وادی قریٰ سے لے کر انتہائے یمن تک عراق کی سمندری حدود تک ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین کے سامنے یہ پڑھا گیا اور میں وہاں موجود تھا کہ اشہب بن عبدالعزیز نے آپ کو خبر دی ہے کہ مالک کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل نجران ۱؎ کو جلا وطن کیا، اور تیماء سے جلا وطن نہیں کیا، اس لیے کہ تیماء ۲؎ بلاد عرب میں شامل نہیں ہے، رہ گئے وادی قریٰ کے یہودی تو میرے خیال میں وہ اس وجہ سے جلا وطن نہیں کئے گئے کہ ان لوگوں نے وادی قری کو عرب کی سر زمین میں سے نہیں سمجھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۲۵۱) (منقطع) (امام مالک نے اپنی سند کا ذکر نہیں کیا اس لئے انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎ : شام و حجاز کے درمیان ایک گاؤں ہے۔ ۲؎ : سمندر کے قریب شام کے نواح میں ایک مقام ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: وَقَدْ أَجْلَى عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ.
مالک کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے نجران و فدک کے یہودیوں کو جلا وطن کیا (کیونکہ یہ دونوں عرب کی سرحد میں ہیں) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۲۵۲) (ضعیف) (سند میں امام مالک اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے لیکن اسی معنی کی پچھلی حدیث کی سند صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنَعَتْ الْعِرَاقُ قَفِيزَهَا وَدِرْهَمَهَا وَمَنَعَتْ الشَّامُ مُدْيَهَا وَدِينَارَهَا وَمَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّهَا وَدِينَارَهَا، ثُمَّ عُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ"، قَالَهَا زُهَيْرٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ لَحْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَدَمُهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(ایک وقت آئے گا) جب عراق اپنے پیمانے اور روپے روک دے گا اور شام اپنے مدوں اور اشرفیوں کو روک دے گا اور مصر اپنے اردبوں ۲؎ اور اشرفیوں کو روک دے گا ۳؎ پھر (ایک وقت آئے گا جب)تم ویسے ہی ہو جاؤ گے جیسے شروع میں تھے ۴؎"، (احمد بن یونس کہتے ہیں:) زہیر نے یہ بات (زور دینے کے لیے) تین بار کہی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گوشت و خون (یعنی ان کی ذات) نے اس کی گواہی دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفتن وأشراط الساعة ۸ (۲۸۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۶۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۶۲)، (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سواد سے مراد عراق کے دیہات کی وہ زمینیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں حاصل کیا، یہ اپنے کھجور کے باغات اور زراعت کی ہریالی کی وجہ سے سواد کے نام سے مشہور ہے، اور اس کی لمبائی موصل سے عبدان تک اور چوڑائی قادسیہ سے حلوان تک ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ مفتوحہ زمینیں مال غنیمت میں داخل نہیں ہیں ، امام کو مصلحت کے اعتبار سے اس کے تصرف کے بارے میں اختیار ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تقسیم بھی کیا ہے ، اور چھوڑا بھی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے تقسیم نہ کر کے اس کو جوں کا توں رکھا اور اس پر مستقل خراج (محصول) مقرر کر دیا ، جو فوجیوں کے استعمال میں آئے ، یہ اس زمین (ارض سواد) کے وقف کا معنی ہے، اس کا معنی اصطلاحی وقف نہیں ہے ، جس کی ملکیت منتقل نہیں ہو سکتی بلکہ اس زمین کا بیچنا جائز ہے ، جس پر امت کا عمل ہے ، اور اس بات پر اجماع ہے کہ یہ وراثت میں منتقل ہو گی ، اور وقف میں وراثت نہیں ہے ، امام احمد نے یہ تنصیص فرمائی ہے کہ اس (ارض سواد) کو مہر میں دیا جا سکتا ہے ، اور وقف کو مہر میں دینا جائز نہیں ہے ، اور اس واسطے بھی کہ وقف کی بیع ممنوع ہے ، ایسے ہی اس کی نقل ملکیت بھی ممنوع ہے ، اس لیے کہ جن لوگوں کے لیے وقف ہوتاہے ، وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے ، اور فوجیوں کا حق زمین (ارض سواد) کے خراج (محصول) میں ہے ، تو جس نے اس زمین کو خرید لیا وہ اس کے خراج کا مستحق ہو گیا، جیسے کہ کوئی چیز بائع کے یہاں ہوتی ہے (تو جب مشتری کے یہاں منتقل ہوتی ہے ، تو اس کا نفع بھی منتقل ہو جاتا ہے)، تو اس بیع سے کسی مسلمان کا حق باطل نہیں ہوتا، جیسے کہ میراث ، ہبہ اور صدقہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (انتہی مختصراً) مسلمانوں نے جن علاقوں کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے ، امام ابن منذر کہتے ہیں کہ امام شافعی اس بات کی طرف گئے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان مجاہدین کو راضی کرلیا تھا جنہوں نے علاقہ سواد کو فتح کیا تھا اور مالِ غنیمت میں اس کے حق دار تھے، اور طاقت سے حاصل کی گئی زمین کا حکم یہ ہے کہ وہ تقسیم کی جائے گی ، جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکی زمین کو تقسیم فرمایا تھا ، امام مالک کہتے ہیں کہ مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والی یہ زمینیں تقسیم نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وقف رہیں گی ، اور اس کے محصول سے فوجیوں کے وظائف ، پل بنانا اور دوسرے کار خیر کیے جائیں گے ، ہاں اگر امام کبھی یہ دیکھے کہ مصلحت کا تقاضا اس کا تقسیم کر دینا ہے تو وہ اس زمین کو تقسیم کر سکتا ہے، ابوعبید نے کتاب الأموال میں حارثہ بن مضرب سے نقل کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سواد کی زمین کو تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس سلسلے میں مشورہ کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اسے مسلمانوں کے مفاد عامہ کے لیے چھوڑ دیجئے ، تو آپ نے اسے مجاہدین میں تقسیم نہ کر کے اس کو ایسے ہی چھوڑ دیا ، اور عبداللہ بن ابی قیس سے یہ نقل کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ارض سواد کی تقسیم کا ارادہ فرمایا تو معاذ رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اسے تقسیم کر دیں گے تو اس کی بڑی آمدنی لوگوں کے پاس چلی جائے گی اور لوگوں کے فوت ہو جانے کے بعد وہ ایک مرد یا ایک عورت کے ہاتھ میں چلی جائے گی ، اور دوسرے ضرورت مند مسلمان آئیں گے تو انہیں کچھ نہ ملے گا ، تو آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کیجئے جس سے پہلے اور بعد کے سارے مسلمان فائدہ اٹھائیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کی تقسیم کو مؤخر کر دیا ،اور غنیمت پانے والے مجاہدین اور بعد کے آنے والے لوگوں کی مصلحت کے لیے اس پر محصول لگا دیا۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داود ۸/۱۹۴، ۱۹۵) ۲؎ : اردب ایک پیمانہ کانام ہے۔ ۳؎ : یعنی ان ممالک کی دولت پر تم قابض ہو جاؤ گے۔ ۴؎ : یعنی یہ ساری دولت تم سے چھِن جائے گی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وَأَقَمْتُمْ فِيهَا فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ، ثُمَّ هِيَ لَكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس بستی میں تم آؤ اور وہاں رہو تو جو تمہارا حصہ ہے وہی تم کو ملے گا ۱؎ اور جس بستی کے لوگوں نے اللہ و رسول کی نافرمانی کی (اور اسے تم نے زور و طاقت سے زیر کیا) تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کا نکال کر باقی تمہیں مل جائے گا (یعنی بطور غنیمت مجاہدین میں تقسیم ہو جائے گا) "۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد ۵ (۱۷۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۷۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی غنیمت کی طرح وہ گاؤں تم میں تقسیم نہ ہو گا، کیونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے بلکہ امام کو اختیار ہے کہ جس کو جس قدر چاہے اس میں سے دے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى أُكَيْدِرِ دُومَةَ فَأُخِذَ فَأَتَوْهُ بِهِ، فَحَقَنَ لَهُ دَمَهُ وَصَالَحَهُ عَلَى الْجِزْيَةِ.
انس رضی اللہ عنہ سے (مرفوعاً) اور عثمان بن ابو سلیمان سے (مرسلاً) روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو اکیدر ۱؎ دومہ کی طرف بھیجا، تو خالد اور ان کے ساتھیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، آپ نے اس کا خون معاف کر دیا اور جزیہ پر اس سے صلح کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۳۷، ۱۹۰۰۲) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اکیدر شہر دومہ کا نصرانی بادشاہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زندہ پکڑ لانے کا حکم دیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ يَعْنِي مُحْتَلِمًا دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مِنَ الْمُعَافِرِيِّ ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيَمَنِ".
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا، تو انہیں حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے جزیہ لیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزکاة ۸ (۲۴۵۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۱۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة ۵ (۶۲۳)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۱۲ (۱۸۰۳)، مسند احمد (۵/۲۳۰، ۲۳۳، ۲۴۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی معاذ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هَانِئٍ أَبُو نُعَيمٍ النَّخَعِيُّ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: لَئِنْ بَقِيتُ لِنَصَارَى بَنِي تَغْلِبَ لَأَقْتُلَنَّ الْمُقَاتِلَةَ وَلَأَسْبِيَنَّ الذُّرِّيَّةَ فَإِنِّي كَتَبْتُ الْكِتَابَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ لَا يُنَصِّرُوا أَبْنَاءَهُمْ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، بَلَغَنِي عَنْ أَحْمَدَ أَنَّه كَانَ يُنْكِرُ هَذَا الْحَدِيثَ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَهُوَ عِنْدَ بَعْضِ الْنَّاسِ شِبْهُ الْمَتْرُوكِ وَأَنْكَرُوا هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى عَبْدِ الْرَحْمَنِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: وَلَمْ يَقْرَأْهُ أَبُو دَاوُدَ فِي الْعَرْضَةِ الثَّانِيَةِ.
زیاد بن حدیر کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں زندہ رہا تو بنی تغلب کے نصاریٰ کے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دوں گا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لوں گا کیونکہ ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ عہد نامہ میں نے ہی لکھا تھا اس میں تھا کہ وہ اپنی اولاد کو نصرانی نہ بنائیں گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام احمد بھی اس حدیث کا نہایت سختی سے انکار کرتے تھے۔ ابوعلی کہتے ہیں: ابوداؤد نے دوسری بار جب اس کتاب کو سنایا تو اس میں اس حدیث کو نہیں پڑھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۹۷) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوة عبد الرحمن ، شریک اور ابراہیم حافظے کے کمزور راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الْيَامِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ صَالَحَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ نَجْرَانَ عَلَى أَلْفَيْ حُلَّةٍ النِّصْفُ فِي صَفَرٍ وَالْبَقِيَّةُ فِي رَجَبٍ يُؤَدُّونَهَا إِلَى الْمُسْلِمِينَ وَعَارِيَةِ ثَلَاثِينَ دِرْعًا وَثَلَاثِينَ فَرَسًا وَثَلَاثِينَ بَعِيرًا وَثَلَاثِينَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْ أَصْنَافِ السِّلَاحِ يَغْزُونَ بِهَا، وَالْمُسْلِمُونَ ضَامِنُونَ لَهَا حَتَّى يَرُدُّوهَا عَلَيْهِمْ إِنْ كَانَ بِالْيَمَنِ كَيْدٌ أَوْ غَدْرَةٌ عَلَى أَنْ لَا تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، وَلَا يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلَا يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا، قَالَ إِسْمَاعِيل: فَقَدْ أَكَلُوا الرِّبَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِذَا نَقَضُوا بَعْضَ مَا اشْتُرِطَ عَلَيْهِمْ فَقَدْ أَحْدَثُوا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں، اور باقی ماہ رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے، اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور(ضرورت پوری ہو جانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریۃً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے (یعنی سازش کر کے نقصان پہنچانا چاہے) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے (اور وہاں جنگ در پیش ہو) اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا، اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا، اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔ اسماعیل سدی کہتے ہیں: پھر وہ سود کھانے لگے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب انہوں نے اپنے اوپر لاگو بعض شرائط توڑ دیں تو نئی بات پیدا کر لی (اور وہ ملک عرب سے نکال دئیے گئے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۳۶۱) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی اسماعیل سدی کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ أَهْلَ فَارِسَ لَمَّا مَاتَ نَبِيُّهُمْ كَتَبَ لَهُمْ إِبْلِيسُ الْمَجُوسِيَّةَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب اہل فارس کے نبی مر گئے تو ابلیس نے انہیں مجوسیت (یعنی آگ پوجنے) پر لگا دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (حسن الإسناد)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ بَجَالَةَ، يُحَدِّثُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ، وَأَبَا الشَّعْثَاءِ، قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ إِذْ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَانْهَوْهُمْ عَنِ الزَّمْزَمَةِ، فَقَتَلْنَا فِي يَوْمٍ ثَلَاثَةَ سَوَاحِرَ، وَفَرَّقْنَا بَيْنَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَحَرِيمِهِ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَصَنَعَ طَعَامًا كَثِيرًا فَدَعَاهُمْ، فَعَرَضَ السَّيْفَ عَلَى فَخْذِهِ فَأَكَلُوا وَلَمْ يُزَمْزِمُوا وَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَيْنِ مِنَ الْوَرِقِ، وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ.
عمرو بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے بجالہ کو عمرو بن اوس اور ابوشعثاء سے بیان کرتے سنا کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا منشی (کاتب) تھا، کہ ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا (اس میں لکھا تھا کہ) : "ہر جادوگر کو قتل کر ڈالو، اور مجوس کے ہر ذی محرم کو دوسرے محرم سے جدا کر دو، ۱؎ اور انہیں زمزمہ (گنگنانے اور سر سے آواز نکالنے) سے روک دو"، تو ہم نے ایک دن میں تین جادوگر مار ڈالے، اور جس مجوسی کے بھی نکاح میں اس کی کوئی محرم عورت تھی تو اللہ کی کتاب کے مطابق ہم نے اس کو جدا کر دیا، احنف بن قیس نے بہت سارا کھانا پکوایا، اور انہیں (کھانے کے لیے) بلوا بھیجا، اور تلوار اپنی ران پر رکھ کر بیٹھ گیا تو انہوں نے کھانا کھایا اور وہ گنگنائے نہیں، اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچروں کے بوجھ کے برابر چاندی (بطور جزیہ) لا کر ڈال دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر ۲؎ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجزیة ۱ (۳۱۵۶)، سنن الترمذی/السیر ۳۱ (۱۵۸۶)، (تحفة الأشراف: ۹۷۱۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة ۲۴ (۴۱)، مسند احمد (۱/۱۹۰، ۱۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : غالباً مجوسی اپنی بہن، خالہ وغیرہ سے شادی کرتے رہے ہوں گے۔ ۲؎ : بحرین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ قُشَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بَجَالَةَ بْنِ عَبْدَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَسْبَذِيِّينَ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ وَهُمْ مَجُوسُ أَهْلِ هَجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَكَثَ عِنْدَهُ، ثُمَّ خَرَجَ فَسَأَلْتُهُ مَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ فِيكُمْ ؟ قَالَ: شَرٌّ قُلْتُ: مَهْ قَالَ: الْإِسْلَامُ أَوِ الْقَتْلُ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قَبِلَ مِنْهُمُ الْجِزْيَةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَتَرَكُوا مَا سَمِعْتُ أَنَا مِنْ الْأَسْبَذِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بحرین کے رہنے والے اسبذیوں ۱؎ (ہجر کے مجوسیوں) میں کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر نکلا تو میں نے اس سے پوچھا: اللہ اور اس کے رسول نے تم سب کے متعلق کیا فیصلہ کیا؟ وہ کہنے لگا: برا فیصلہ کیا، میں نے کہا: چپ (ایسی بات کہتا ہے) اس پر اس نے کہا: فیصلہ کیا ہے کہ یا تو اسلام لاؤ یا قتل ہو جاؤ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ لینا قبول کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تو لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کیا اور اسبذی سے جو میں نے سنا تھا اسے چھوڑ دیا (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مقابل میں کافر اسبذی کے قول کا کیا اعتبار) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۳۷۱، ۹۷۲۳، ۱۵۶۱۳) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی قشیر مجہول الحال ہیں)
وضاحت: ۱؎ : اسبذی منسوب ہے «اسپ» کی طرف، «اسپ» فارسی میں گھوڑے کو کہتے ہیں، ممکن ہے وہ یا اس کے باپ دادا گھوڑے کو پوجتے رہے ہوں اسی وجہ سے انہیں اسبذی کہا جاتا ہو۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَجَدَ رَجُلًا وَهُوَ عَلَى حِمْصَ يُشَمِّسُ نَاسًا مِنَ الْقِبْطِ فِي أَدَاءِ الْجِزْيَةِ، فَقَالَ: مَا هَذَا ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں)سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ "اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۳۳ (۲۶۱۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۳۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۰۴، ۴۶۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ظلم کرتے ہیں، اور لوگوں کو جرم اور قصور سے زیادہ سزا دیتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ".
حرب بن عبیداللہ کے نانا (جو بنی تغلب سے ہیں) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عشر (دسواں حصہ) یہود و نصاریٰ سے لیا جائے گا اور مسلمانوں پر دسواں حصہ (مال تجارت میں) نہیں ہے (بلکہ ان سے چالیسواں حصہ لیا جائے گا۔ البتہ پیداوار اور زراعت میں ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۷۴، ۴/۳۲۲) (ضعیف) (اس کے راوی حرب بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں نیز ان کے شیخ کے بارے میں سخت اضطراب ہے، دیکھیں اگلی روایتوں کی سندیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: خَرَاجٌ مَكَانَ الْعُشُورِ.
حرب بن عبیداللہ سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے لیکن «عشور» کی جگہ «خراج» کا لفظ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹) (ضعیف) (حرب بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں، نیز روایت مرسل ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ خَالِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُعَشِّرُ قَوْمِي، قَالَ: "إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى".
عطا سے روایت ہے انہوں نے (قبیلہ) بکر بن وائل کے ایک شخص سے اس نے اپنے ماموں سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی قوم سے (اموال تجارت میں) دسواں حصہ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دسواں حصہ یہود و نصاریٰ پر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۴۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹) (ضعیف) (اس کے سند میں بکر بن وائل اور ان کے ماموں مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ الثَّقَفِيِّ،عَنْ جَدِّهِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِي الْإِسْلَامَ وَعَلَّمَنِي كَيْفَ آخُذُ الصَّدَقَةَ مِنْ قَوْمِي مِمَّنْ أَسْلَمَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كُلُّ مَا عَلَّمْتَنِي قَدْ حَفِظْتُهُ إِلَّا الصَّدَقَةَ أَفَأُعَشِّرُهُمْ ؟ قَالَ: "لَا إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى النَّصَارَى وَالْيَهُودِ".
حرب بن عبیداللہ کے نانا جو بنی تغلب سے تعلق رکھتے تھے کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسلمان ہو کر آیا، آپ نے مجھے اسلام سکھایا، اور مجھے بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جو اسلام لے آئیں کس طرح سے صدقہ لیا کروں، پھر میں آپ کے پاس لوٹ کر آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو آپ نے مجھے سکھایا تھا سب مجھے یاد ہے، سوائے صدقہ کے کیا میں اپنی قوم سے دسواں حصہ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، دسواں حصہ تو یہود و نصاریٰ پر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۴۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹) (ضعیف) (حرب ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ عُمَيْرٍ أَبَا الأَحْوَصِ، يُحَدِّثُ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ وَمَعَهُ مَنْ مَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَكَانَ صَاحِبُ خَيْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْكَرًا فَأَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَلَكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا وَتَأْكُلُوا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوا نِسَاءَنَا، فَغَضِبَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: "يَا ابْنَ عَوْفٍ ارْكَبْ فَرَسَكَ ثُمَّ نَادِ أَلَا إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِمُؤْمِنٍ وَأَنْ اجْتَمِعُوا لِلصَّلَاةِ، قَالَ: فَاجْتَمَعُوا، ثُمَّ صَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ".
عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "عبدالرحمٰن! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لیے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ"، تو سب لوگ اکٹھا ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے؟ خبردار! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ۱؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۸۸۶) (ضعیف) (اس کے راوی اشعث لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یعنی حدیث پر بھی قرآن کی طرح عمل واجب اور ضروری ہے، یہ نہ سمجھو کہ جو قرآن میں نہیں ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کا حکم دیا ہے، وہ اصل میں اللہ ہی کا حکم ہے، اسی طرح جن باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ان سے اللہ تعالی نے روکا ہے، ارشاد باری ہے : «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» ( سورۃ الحشر : ۷ )۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، عَنْ رَجُلٍمِنْ جُهَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَعَلَّكُمْ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا فَتَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ فَيَتَّقُونَكُمْ بِأَمْوَالِهِمْ دُونَ أَنْفُسِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ"، قَالَ سَعِيدٌ فِي حَدِيثِهِ: فَيُصَالِحُونَكُمْ عَلَى صُلْحٍ، ثُمَّ اتَّفَقَا فَلَا تُصِيبُوا مِنْهُمْ شَيْئًا فَوْقَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لَكُمْ.
جہینہ کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا ہو سکتا ہے کہ تم ایک قوم سے لڑو اور اس پر غالب آ جاؤ تو وہ تمہیں مال (جزیہ) دے کر اپنی جانوں اور اپنی اولاد کو تم سے بچا لیں"۔ سعید کی روایت میں ہے: «فيصالحونكم على صلح» پھر وہ تم سے صلح پر مصالحت کر لیں پھر (مسدد اور سعید بن منصور دونوں راوی آگے کی بات پر) متفق ہو گئے کہ: جتنے پر مصالحت ہو گئی ہو اس سے زیادہ کچھ بھی نہ لینا کیونکہ یہ تمہارے واسطے درست نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۰۷) (ضعیف) ( رجل من ثقیف مبہم مجہول راوی ہے)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ الْمَدِينِيُّ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ، أَخْبَرَهُ عَنْعِدَّةٍ، مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَن آبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوصخر مدینی کا بیان ہے کہ صفوان بن سلیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائ سے(جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے "وکیل" ۱؎ ہوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۰۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث میں «حجیج» کا لفظ ہے یعنی میں اس کے دعوے کی وکالت کروں گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ قَابُوسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ جِزْيَةٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان پر جزیہ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزکاة ۱۱ (۶۳۴)، (تحفة الأشراف: ۵۴۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۸۵) (ضعیف)(اس کے راوی قابوس لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: سُئِلَ سُفْيَانُ، عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا فَقَالَ: إِذَا أَسْلَمَ فَلَا جِزْيَةَ عَلَيْهِ.
محمد بن کثیر کہتے ہیں سفیان سے اس حدیث کا مطلب ۱؎ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب ذمی اسلام قبول کر لے تو اس پر (اسلام لاتے وقت سال میں سے گزرے ہوئے دنوں کا) جزیہ نہ ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث (نمبر ۳۰۵۳) کے متعلق سوال کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ، فَقُلْتُ: يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: مَا كَانَ لَهُ شَيْءٌ كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنَ التُّجَّارِ، فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ: يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي، وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا، وَقَالَ لِي: أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ ؟ قَالَ: قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ: إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلَاءِ الأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي، فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو: يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبْشِرْ فَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعَ، فَقُلْتُ: بَلَى فَقَالَ: إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ، فَفَعَلْتُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ ؟ قُلْتُ: قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْءٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْءٌ، قَالَ: أَفَضَلَ شَيْءٍ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ، فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ دَعَانِي، قَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ"، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَزْوَاجَهُ، فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ.
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال رضی اللہ عنہ سے حلب ۱؎ میں ملاقات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا: بلال! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آ پہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا: اے حبشی! میں نے کہا: «يا لباه» ۲؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا: تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا: قریب ہے، اس نے کہا: مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ۳؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہو جائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا) تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہو چکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہو جائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر رہے ہیں) چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "بلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کر دی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں؟"، میں نے کہا: ہاں دیکھ لی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو"، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا؟"، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کر دیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کچھ مال بچا بھی ہے؟"، میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہو جائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا"، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا: "کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟" میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے) یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا:"وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟"، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو اس سے بے نیاز و بےفکر کر دیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آ جاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی!) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۰۴۰) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : شام کے ایک شہر کا نام ہے۔ ۲؎ : یہ کلمہ عربی میں جی، یا حاضر ہوں کی جگہ بولا جاتا ہے۔ ۳؎ : قرض واپسی کی مدت میں ابھی چار دن باقی تھے اس لئے اسے لڑنے جھگڑنے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بولنے اور جھگڑنے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ أَبِي تَوْبَةَ وَحَدِيثِهِ، قَالَ: عِنْدَ قَوْلِهِ مَا يَقْضِي عَنِّي فَسَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَمَزْتُهَا.
اس سند سے بھی ابوتوبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ جب میں نے کہا کہ نہ آپ کے پاس اتنا مال ہے اور نہ میرے پاس کہ قرضہ ادا ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا تو مجھے بڑی گرانی ہوئی (کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات پر توجہ نہیں دی) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۰۴۰) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، قَالَ: أَهْدَيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةً، فَقَالَ"أَسْلَمْتَ، فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ".
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟" میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/السیر ۲۴ (۱۵۷۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۲) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی، مقوقس، اکیدر دومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ «إني نهيت عن زبد المشركين» کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَ مُوتَ.
وائل رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضر موت ۱؎ میں زمین کا ٹکڑا جاگیر میں دیا ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۹۹)، سنن الدارمی/البیوع ۶۶ (۲۶۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یمن کا ایک شہر ہے۔ ۲؎ : حاکم یا حکومت کی طرف سے رعایا کو دی گئی زمین کو جاگیر کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی کے مثل روایت مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فِطْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: خَطَّ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ بِقَوْسٍ، وَقَالَ: "أَزِيدُكَ أَزِيدُكَ".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مجھے گھر بنانے کے لیے کمان سے نشان لگا کر ایک زمین دی اور فرمایا: "میں تمہیں مزید دوں گا مزید دوں گا" (فی الحال یہ لے لو) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۱۸) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی خلفیہ مخزومی لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ وَهِيَ مِنْ نَاحِيَةِ الْفُرْعِ فَتِلْكَ الْمَعَادِنُ لَا يُؤْخَذُ مِنْهَا إِلَّا الزَّكَاةُ إِلَى الْيَوْمِ.
ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو فرع ۱؎ کی طرف کے قبلیہ ۲؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جاتا رہا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۷۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة ۳ (۸)، مسند احمد (۱/۳۰۶) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، اس میں مذکور جاگیر دینے والے واقعہ کی متابعت اور شواہد تو موجود ہیں مگر زکاة والے معاملہ کے متابعات و شواہد نہیں ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ ۲؎ : قبلیہ ایک گاؤں ہے جو فرع کے متعلقات میں سے ہے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ، وَغَيْرُهُ، قَالَ الْعَبَّاسُ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا، وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا أَعْطَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، وَقَالَ غَيْرُ الْعَبَّاسُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ. قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الدِّيلِ بْنِ بَكْرِ بْنِ كِنَانَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَهُ.
عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ کی نشیب و فراز کی کانیں ٹھیکہ میں دیں ۱؎۔ (ابوداؤد کہتے ہیں) اور دیگر لوگوں نے «جلسيها وغوريها» کہا ہے) اور قدس (ایک پہاڑ کا نام ہے) کی وہ زمین بھی دی جو قابل کاشت تھی اور وہ زمین انہیں نہیں دی جس پر کسی مسلمان کا حق اور قبضہ تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے لیے ایک دستاویز لکھ کر دی، وہ اس طرح تھی: "بسم الله الرحمن الرحيم،، یہ دستاویز ہے اس بات کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ کے کانوں کا جو بلندی میں ہیں اور پستی میں ہیں، ٹھیکہ دیا اور قدس کی وہ زمین بھی دی جس میں کھیتی ہو سکتی ہے، اور انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا"۔ ابواویس راوی کہتے ہیں: مجھ سے بنو دیل بن بکر بن کنانہ کے غلام ثور بن زید نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۰۱۵، ۱۰۷۷۷) (حسن) ( کثیر کی روایت متابعات وشواہد سے تقویت پا کر حسن ہے، ورنہ کثیر خود ضعیف راوی ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت حسن ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان کے نام سے الاٹ کر دیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحُنَيْنِيَّ، قَالَ: قَرَأْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ يَعْنِي كِتَابَ قَطِيعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وحَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، قَالَ ابْنُ النَّضْرِ: وَجَرْسَهَا وَذَاتَ النُّصُبِ، ثُمَّ اتَّفَقَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ حَقَّ مُسْلِمٍ، وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا مَا أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ، قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، زَادَ ابْنُ النَّضْرِ، وَكَتَبَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ.
محمد بن نضر کہتے ہیں کہ میں نے حنینی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اسے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاگیر نامہ کو کئی بار پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھ سے کئی ایک نے حسین بن محمد کے واسطہ سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ابواویس نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں: مجھ سے کثیر بن عبداللہ نے بیان کیا ہے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں بطور جاگیر دیں۔ ابن نضر کی روایت میں ہے: اور اس کے جرس اور ذات النصب ۱؎ کو دیا، پھر دونوں راوی متفق ہیں: اور قدس کی قابل کاشت زمین دی، اور بلال بن حارث کو کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھ کر دیا کہ یہ وہ تحریر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو لکھ کر دی، انہیں قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں اور قدس کی قابل کاشت زمینیں دیں، اور انہیں کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا۔ ابواویس کہتے ہیں کہ ثور بن زید نے مجھ سے بیان کیا انہوں نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم مثل روایت کیا اور ابن نضر نے اتنا اضافہ کیا کہ (یہ دستاویز) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لکھی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۷۷) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو جگہوں کے نام ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کی قسموں کے نام ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، الْمَعْنَى وَاحِد أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيَّحَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنِي أَبِي،عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شُمَيْرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ ابْنِ عَبْدِ الْمَدَانِ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ، قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: الَّذِي بِمَأْرِبَ فَقَطَعَهُ لَهُ فَلَمَّا أَنْ وَلَّى، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ، قَالَ: فَانْتَزَعَ مِنْهُ، قَالَ وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنَ الأَرَاكِ، قَالَ: مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ وَقَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: أَخْفَافُ الإِبِلِ.
ابیض بن حمال ماربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے: جو مآرب ۱؎ میں تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ واپس مڑے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت و مشقت کے حاصل ہوتا ہے ۲؎ وہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس لے لیا، تب انہوں نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ گھیری جائے؟ ۳؎، آپ نے فرمایا: "جہاں جانوروں کے پاؤں نہ پہنچ سکیں" ۴؎۔ ابن متوکل کہتے ہیں: خفاف سے مراد «أخفاف الإبل» (یعنی اونٹوں کے پیر) ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۰)، سنن ابن ماجہ/الرھون ۱۷ (۲۴۷۵)، (تحفة الأشراف: ۱)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن لغیرہ) (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے: ثمامہ لیّن، سمی مجہول اور شمیر لین ہیں، لیکن آنے والی حدیث (۳۰۶۶) سے تقویت پا کر یہ حسن ہوئی، اس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، البانی نے دوسرے طریق کی وجہ سے اس کی تحسین کی ہے، «ما لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ» کے استثناء کے ساتھ، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۸۸)
وضاحت: ۱؎ : یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے۔ ۲؎ : یعنی یہ چیز تو سب کے استعمال و استفادہ کی ہے اسے کسی خاص شخص کی جاگیر میں دے دینا مناسب نہیں۔ ۳؎ : کہ جس میں اور لوگ نہ آ سکیں اور اپنے جانور وہاں نہ چرا سکیں۔ ۴؎ : یعنی جو آبادی اور چراگاہ سے دور ہو۔
حدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَخْزُومِيُّ: مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الإِبِلِ يَعْنِي أَنَّ الإِبِلَ تَأْكُلُ مُنْتَهَى رُءُوسِهَا وَيُحْمَى مَا فَوْقَهُ.
ہارون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ محمد بن حسن مخزومی نے کہا: «ما لم تنله أخفاف الإبل» کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کا سر جہاں تک پہنچے گا وہاں تک وہ کھائے ہی کھائے گا اس سے اوپر کا حصہ بچایا جا سکتا ہے (اس لیے ایسی جگہ گھیرو جہاں اونٹ جاتے ہی نہ ہوں) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف جداً) (محمد بن حسن مخزومی کذّاب راوی ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حِمَى الأَرَاكِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا حِمَى فِي الْأَرَاكِ، فَقَالَ: أَرَاكَةٌ فِي حِظَارِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حِمَى فِي الأَرَاكِ"، قَالَ: فَرَجٌ يَعْنِي بِحِظَارِي الأَرْضَ الَّتِي فِيهَا الزَّرْعُ الْمُحَاطُ عَلَيْهَا.
ابیض بن حمال ماربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیلو کی ایک چراگاہ مانگی ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پیلو میں روک نہیں ہے"، انہوں نے کہا: پیلو میرے باڑھ اور احاطے کے اندر ہیں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پیلو میں روک نہیں ہے" (اس لیے کہ اس کی حاجت سبھی آدمیوں کو ہے) ۔ فرج کہتے ہیں: «حظاری» سے ایسی سر زمین مراد ہے جس میں کھیتی ہوتی ہو اور وہ گھری ہوئی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳)، وقد أخرجہ: دی/ البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن لغیرہ) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۹۰)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ایک احاطہ جس میں دوسرے لوگ آ کر نہ درخت کاٹیں نہ اس میں اپنے جانور چرائیں۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبُو حَفْصٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ صَخْرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا ثَقِيفًا، فَلَمَّا أَنْ سَمِعَ ذَلِكَ صَخْرٌ رَكِبَ فِي خَيْلٍ يُمِدُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ انْصَرَفَ وَلَمْ يَفْتَحْ، فَجَعَلَ صَخْرٌ يَوْمَئِذٍ عَهْدَ اللَّهِ وَذِمَّتَهُ أَنْ لَا يُفَارِقَ هَذَا الْقَصْرَ حَتَّى يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُفَارِقْهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ صَخْرٌ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ ثَقِيفًا قَدْ نَزَلَتْ عَلَى حُكْمِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا مُقْبِلٌ إِلَيْهِمْ وَهُمْ فِي خَيْلٍ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ جَامِعَةً فَدَعَا لِأَحْمَسَ عَشْرَ دَعَوَاتٍ اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأَحْمَسَ فِي خَيْلِهَا وَرِجَالِهَا، وَأَتَاهُ الْقَوْمُ فَتَكَلَّمَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ صَخْرًا أَخَذَ عَمَّتِي وَدَخَلَتْ فِيمَا دَخَلَ فِيهِ الْمُسْلِمُونَ فَدَعَاهُ فَقَالَ: "يَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ فَادْفَعْ إِلَى الْمُغِيرَةِ عَمَّتَهُ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ وَسَأَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لِبَنِي سُلَيْمٍ قَدْ هَرَبُوا عَنِ الْإِسْلَامِ وَتَرَكُوا ذَلِكَ الْمَاءَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَنْزِلْنِيهِ أَنَا وَقَوْمِي، قَالَ: نَعَمْ فَأَنْزَلَهُ وَأَسْلَمَ، يَعْنِي السُّلَمِيِّينَ فَأَتَوْا صَخْرًا فَسَأَلُوهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَيْهِمُ الْمَاءَ فَأَبَى، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَسْلَمْنَا وَأَتَيْنَا صَخْرًا لِيَدْفَعَ إِلَيْنَا مَاءَنَا فَأَبَى عَلَيْنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَدِمَاءَهُمْ فَادْفَعْ إِلَى الْقَوْمِ مَاءَهُمْ، قَالَ: نَعَمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ"، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ عِنْدَ ذَلِكَ حُمْرَةً حَيَاءً مِنْ أَخْذِهِ الْجَارِيَةَ وَأَخْذِهِ الْمَاءَ.
صخر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقیف سے جہاد کیا (یعنی قلعہ طائف پر حملہ آور ہوئے) چنانچہ جب صخر رضی اللہ عنہ نے اسے سنا تو وہ چند سوار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے لیے نکلے تو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہو چکے ہیں اور قلعہ فتح نہیں ہوا ہے، تو صخر رضی اللہ عنہ نے اس وقت اللہ سے عہد کیا کہ وہ قلعہ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے جب تک کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے آگے جھک نہ جائیں اور قلعہ خالی نہ کر دیں (پھر ایسا ہی ہوا) انہوں نے قلعہ کا محاصرہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے آگے جھک نہ گئے۔ صخر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا: "امّا بعد، اللہ کے رسول! ثقیف آپ کا حکم مان گئے ہیں اور وہ اپنے گھوڑ سواروں کے ساتھ ہیں میں ان کے پاس جا رہا ہوں (تاکہ آگے کی بات چیت کروں)"، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے باجماعت نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور نماز میں احمس ۱؎ کے لیے دس (باتوں کی) دعائیں مانگیں اور (ان دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی) : «اللهم بارك لأحمس في خيلها ورجالها» "اے اللہ! احمس کے سواروں اور پیادوں میں برکت دے"، پھر سب لوگ (یعنی ضحر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور کہا: اللہ کے نبی! صخر نے میری پھوپھی کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ وہ اس (دین) میں داخل ہو چکی ہیں جس میں سبھی مسلمان داخل ہو چکے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صخر رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور فرمایا: "صخر! جب کوئی قوم اسلام قبول کر لیتی ہے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو بچا اور محفوظ کر لیتی ہے، اس لیے مغیرہ کی پھوپھی کو انہیں لوٹا دو"، تو صخر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی پھوپھی واپس کر دی، پھر صخر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمیوں کے پانی کے چشمے کو مانگا جسے وہ لوگ اسلام کے خوف سے چھوڑ کر بھاگ لیے تھے، صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے نبی! آپ مجھے اور میری قوم کو اس پانی کے چشمے پہ رہنے اور اس میں تصرف کرنے کا حق و اختیار دے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "ہاں ہاں (لے لو اور) رہو"، تو وہ لوگ رہنے لگے (اور کچھ دنوں بعد) بنو سلیم مسلمان ہو گئے اور صخر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور صخر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ انہیں پانی (کا چشمہ) واپس دے دیں، صخر رضی اللہ عنہ (اور ان کی قوم) نے دینے سے انکار کیا (اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چشمہ انہیں اور ان کی قوم کو دے دیا ہے) تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم مسلمان ہو چکے ہیں، ہم صخر کے پاس پہنچے (اور ان سے درخواست کی) کہ ہمارا پانی کا چشمہ ہمیں واپس دے دیں تو انہوں نے ہمیں لوٹانے سے انکار کر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صخر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور فرمایا: "صخر! جب کوئی قوم اسلام قبول کر لیتی ہے تو اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لیتی ہے (نہ اسے ناحق قتل کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا مال لیا جا سکتا ہے) تو تم ان کو ان کا چشمہ دے دو" صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت اچھا اللہ کے نبی! (صخر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک کو دیکھا کہ وہ شرم و ندامت سے بدل گیا اور سرخ ہو گیا (یہ سوچ کر) کہ میں نے اس سے لونڈی بھی لے لی اور پانی بھی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۴۸۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۰)، سنن الدارمی/الزکاة ۳۴ (۱۷۱۵) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابان ضعیف الحفظ اور''عثمان'' لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : احمس ایک قبیلہ ہے، صخر اسی قبیلہ کے ایک فرد تھے۔ ۲؎ : لونڈی وہی مغیرہ کی پھوپھی اور پانی وہی بنی سلیم کے پانی کا چشمہ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَبْرَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ تَحْتَ دَوْمَةٍ، فَأَقَامَ ثَلَاثًا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَإِنَّ جُهَيْنَةَ لَحِقُوهُ بِالرَّحْبَةِ فَقَالَ لَهُمْ: "مَنْ أَهْلُ ذِي الْمَرْوَةِ ؟ فَقَالُوا: بَنُو رِفَاعَةَ مِنْ جُهَيْنَةَ فَقَالَ: قَدْ أَقْطَعْتُهَا لِبَنِي رِفَاعَةَ فَاقْتَسَمُوهَا فَمِنْهُمْ مَنْ بَاعَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَمْسَكَ فَعَمِلَ"، ثُمَّ سَأَلْتُ أَبَاهُ عَبْدَ الْعَزِيزِ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي بِبَعْضِهِ وَلَمْ يُحَدِّثْنِي بِهِ كُلِّهِ.
ربیع جہنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ جہاں اب مسجد ہے ایک بڑے درخت کے نیچے پڑاؤ کیا، وہاں تین دن قیام کیا، پھر تبوک ۱؎ کے لیے نکلے، اور جہینہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وسیع میدان میں جا کر ملے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "مروہ والوں میں سے یہاں کون رہتا ہے؟"، لوگوں نے کہا: بنو رفاعہ کے لوگ رہتے ہیں جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:،، میں یہ زمین (علاقہ) بنو رفاعہ کو بطور جاگیر دیتا ہوں تو انہوں نے اس زمین کو آپس میں بانٹ لیا، پھر کسی نے اپنا حصہ بیچ ڈالا اور کسی نے اپنے لیے روک لیا، اور اس میں محنت و مشقت (یعنی زراعت) کی۔ ابن وہب کہتے ہیں: میں نے پھر اس حدیث کے متعلق سبرہ کے والد عبدالعزیز سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس کا کچھ حصہ بیان کیا پورا بیان نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۸۱۲) (ضعیف) (ربیع جہنی تابعی ضعیف ہیں، اور حدیث مرسل ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲/۴۵۷)
وضاحت: ۱؎ : تبوک مدینہ سے شمال شام کی طرف ایک جگہ کا نام ہے، جہاں نو ہجری میں لشکر اسلام گیا تھا۔
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ نَخْلًا.
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ (اسماء رضی اللہ عنہا کے خاوند ہیں) کو کھجور کے کچھ درخت بطور جاگیر عنایت فرمائی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۳۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فرض الخمس ۱۹ (۲۸۱۵)، مسند احمد (۶/۳۴۷) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايَ صَفِيَّةُ، وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ، وَكَانَتْ جَدَّةَ أَبِيهِمَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: تَقَدَّمَ صَاحِبِي تَعْنِي حُرَيْثَ بْنَ حَسَّانَ وَافِدَ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ فَبَايَعَهُ عَلَى الإِسْلَامِ عَلَيْهِ وَعَلَى قَوْمِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ بِالدَّهْنَاءِ أَنْ لَا يُجَاوِزَهَا إِلَيْنَا مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا مُسَافِرٌ أَوْ مُجَاوِرٌ، فَقَالَ: "اكْتُبْ لَهُ يَا غُلَامُ بِالدَّهْنَاءِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قَدْ أَمَرَ لَهُ بِهَا شُخِصَ بِي وَهِيَ وَطَنِي وَدَارِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَمْ يَسْأَلْكَ السَّوِيَّةَ مِنَ الأَرْضِ إِذْ سَأَلَكَ إِنَّمَا هِيَ هَذِهِ الدَّهْنَاءُ عِنْدَكَ مُقَيَّدُ الْجَمَلِ وَمَرْعَى الْغَنَمِ وَنِسَاءُ بَنِي تَمِيمٍ وَأَبْنَاؤُهَا وَرَاءَ ذَلِكَ، فَقَالَ: أَمْسِكْ يَا غُلَامُ صَدَقَتِ الْمِسْكِينَةُ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ يَسَعُهُمَا الْمَاءُ وَالشَّجَرُ وَيَتَعَاوَنَانِ عَلَى الْفَتَّانِ".
عبداللہ بن حسان عنبری کا بیان ہے کہ مجھ سے میری دادی اور نانی صفیہ اور دحیبہ نے حدیث بیان کی یہ دونوں علیبہ کی بیٹیاں تھیں اور قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا کی پروردہ تھیں اور قیلہ ان دونوں کے والد کی دادی تھیں، قیلہ نے ان سے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہمارا ساتھی حریث بن حسان جو بکر بن وائل کی طرف پیامبر بن کر آیا تھا ہم سے آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اور آپ سے اسلام پر اپنی اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اور بنو تمیم کے درمیان دہناء ۱؎ کو سرحد بنا دیجئیے، مسافر اور پڑوسی کے سوا اور کوئی ان میں سے آگے بڑھ کر ہماری طرف نہ آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے غلام! دہناء کو انہیں لکھ کر دے دو"، قیلہ کہتی ہیں: جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہناء انہیں دے دیا تو مجھے اس کا ملال ہوا کیونکہ وہ میرا وطن تھا اور وہیں میرا گھر تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے اس زمین کا آپ سے مطالبہ کر کے مبنی پر انصاف مطالبہ نہیں کیا ہے، دہناء اونٹوں کے باندھنے کی جگہ اور بکریوں کی چراگاہ ہے اور بنی تمیم کی عورتیں اور بچے اس کے پیچھے رہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے غلام رک جاؤ! (مت لکھو) بڑی بی صحیح کہہ رہی ہیں، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ایک دوسرے کے درختوں اور پانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مصیبتوں و فتنوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے اور کام آ سکتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۵۰ (۲۸۱۴)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۴۷) (حسن) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۷/۳۹۲)
وضاحت: ۱؎ : دہناء : ایک جگہ کانام ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ جَنُوبٍ بِنْتُ نُمَيْلَةَ، عَنْ أُمِّهَا سُوَيْدَةَ بِنْتِ جَابِرٍ، عَنْ أُمِّهَا عَقِيلَةَ بِنْتِ أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ، عَنْ أَبِيهَا أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ، فَقَالَ: "مَنْ سَبَقَ إِلَى مَاءٍ لَمْ يَسْبِقْهُ إِلَيْهِ مُسْلِمٌ فَهُوَ لَهُ"، قَالَ: فَخَرَجَ النَّاسُ يَتَعَادَوْنَ يَتَخَاطُّونَ.
اسمر بن مضرس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بیعت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی ایسے پانی (چشمے یا تالاب) پر پہنچ جائے (یعنی اس کا کھوج لگا لے) جہاں اس سے پہلے کوئی اور مسلمان نہ پہنچا ہو تو وہ اس کا ہے"، (یعنی وہ اس کا مالک و مختار ہو گا) (یہ سن کر) لوگ دوڑتے اور نشان لگاتے ہوئے چلے (تاکہ نشانی رہے کہ ہم یہاں تک آئے تھے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۵) (ضعیف) (یہ سند مسلسل بالمجاہیل ہے: ام الجنوب سویدة اور عقیلہ سب مجہول ہیں اور عبد الحمید لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ حُضْرَ فَرَسِهِ فَأَجْرَى فَرَسَهُ حَتَّى قَامَ، ثُمَّ رَمَى بِسَوْطِهِ فَقَالَ: "أَعْطُوهُ مِنْ حَيْثُ بَلَغَ السَّوْطُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو اتنی زمین جاگیر میں دی جہاں تک ان کا گھوڑا دوڑ سکے، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور جہاں گھوڑا رکا اس سے آگے انہوں نے اپنا کوڑا پھینک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دے دو زبیر کو جہاں تک ان کا کوڑا پہنچا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۷۷۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۵۶) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی عبد اللہ بن عمر ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ".
سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کا ہے(وہی اس کا مالک ہو گا) کسی اور ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأحکام ۳۸ (۱۳۷۸)، (تحفة الأشراف: ۱۹۰۴۳، ۴۴۶۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ۲۴ (۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کوئی ظالم اس کی آباد اور قابل کاشت بنائی ہوئی زمین کو چھین نہیں سکتا۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ"وَذَكَرَ مِثْلَهُ، قَالَ: فَلَقَدْ خَبَّرَنِي الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَرَسَ أَحَدُهُمَا نَخْلًا فِي أَرْضِ الآخَرِ فَقَضَى لِصَاحِبِ الأَرْضِ بِأَرْضِهِ وَأَمَرَ صَاحِبَ النَّخْلِ أَنْ يُخْرِجَ نَخْلَهُ مِنْهَا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهَا وَإِنَّهَا لَتُضْرَبُ أُصُولُهَا بِالْفُؤُوسِ وَإِنَّهَا لَنَخْلٌ عُمٌّ حَتَّى أُخْرِجَتْ مِنْهَا.
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ زمین اسی کی ہے"۔ پھر راوی نے اس کے مثل ذکر کیا، راوی کہتے ہیں: جس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی اسی نے یہ بھی ذکر کیا کہ دو شخص اپنا جھگڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے ایک نے دوسرے کی زمین میں کھجور کے درخت لگا رکھے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو اس کی زمین دلا دی، اور درخت والے کو حکم دیا کہ تم اپنے درخت اکھاڑ لے جاؤ میں نے دیکھا کہ ان درختوں کی جڑیں کلہاڑیوں سے کاٹی گئیں اور وہ زمین سے نکالی گئیں، حالانکہ وہ لمبے اور گنجان پورے پورے درخت ہو گئے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۴۴۶۳) (حسن ) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ یہ روایت مرسل ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقِ، بِإِسْنَادِه وَمَعْنَاهُ، إلا أَنَّهُ قَالَ عِنْدَ قَوْلِهِ مَكَانَ الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرُ ظَنِّي أَنَّهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، فَأَنَا رَأَيْتُ الرَّجُلَ يَضْرِبُ فِي أُصُولِ النَّخْلِ.
ابن اسحاق اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں مگر اس میں «الذي حدثني هذا» کی جگہ یوں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا: میرا گمان غالب یہ ہے کہ وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رہے ہوں گے کہ میں نے اس آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے درختوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۷۳)، (تحفة الأشراف: ۴۴۶۳) (حسن) (حدیث نمبر :۳۰۷۳ سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ یہ حدیث مرسل ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْآمُلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الأَرْضَ أَرْضُ اللَّهِ، وَالْعِبَادَ عِبَادُ اللَّهِ وَمَنْ أَحْيَا مَوَاتًا فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ جَاءَنَا، بِهَذَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ جَاءُوا بِالصَّلَوَاتِ عَنْهُ.
عروہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فیصلہ) فرمایا ہے کہ زمین اللہ کی ہے اور بندے بھی سب اللہ کے بندے ہیں اور جو شخص کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اس زمین کا زیادہ حقدار ہے، یہ حدیث ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ان لوگوں نے بیان کی ہے جنہوں نے آپ سے نماز کی روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۳۷) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ أَحَاطَ حَائِطًا عَلَى أَرْضٍ فَهِيَ لَهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی بنجر زمین پر دیوار کھڑی کرے تو وہی اس زمین کا حقدار ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۴۵۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۲، ۲۱) (ضعیف) (حسن بصری اور قتادہ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، قَالَ هِشَامٌ: الْعِرْقُ الظَّالِمُ أَنْ يَغْرِسَ الرَّجُلُ فِي أَرْضِ غَيْرِهِ فَيَسْتَحِقَّهَا بِذَلِكَ، قَالَ مَالِكٌ: وَالْعِرْقُ الظَّالِمُ كُلُّ مَا أُخِذَ وَاحْتُفِرَ وَغُرِسَ بِغَيْرِ حَقٍّ.
مالک نے خبر دی کہ ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ ظالم رگ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی غیر کی زمین میں درخت لگائے اور پھر اس زمین پر اپنا حق جتائے۔ امام مالک کہتے ہیں: ظالم رگ ہر وہ زمین ہے جو ناحق لے لی جائے یا اس میں گڈھا کھود لیا جائے یا درخت لگا لیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۳۰۷۳)، (تحفة الأشراف: ۴۴۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ الْعَبَّاسِ السَّاعِدِيِّ يَعْنِي ابْنَ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ فَلَمَّا أَتَى وَادِي الْقُرَى إِذَا امْرَأَةٌ فِي حَدِيقَةٍ لَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: "اخْرُصُوا، فَخَرَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَةَ أَوْسُقٍ، فَقَالَ لِلْمَرْأَةِ: أَحْصِي مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَأَتَيْنَا تَبُوكَ فَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ وَكَسَاهُ بُرْدَةً وَكَتَبَ لَهُ يَعْنِي بِبَحْرِهِ، قَالَ: فَلَمَّا أَتَيْنَا وَادِي الْقُرَى، قَالَ لِلْمَرْأَةِ: كَمْ كَانَ فِي حَدِيقَتِكِ ؟ قَالَتْ: عَشْرَةَ أَوْسُقٍ خَرْصَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيَتَعَجَّلْ".
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک (جہاد کے لیے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: "تخمینہ لگاؤ (کہ باغ میں کتنے پھل ہوں گے)" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق ۱؎ کا تخمینہ لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا: "آپ اس سے جو پھل نکلے اس کو ناپ لینا"، پھر ہم تبوک آئے تو ایلہ ۲؎ کے بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید رنگ کا ایک خچر تحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے (جزیہ کی شرط پر) اپنے ملک میں رہنے کی سند (دستاویز) لکھ دی، پھر جب ہم لوٹ کر وادی قری میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے پوچھا: "تیرے باغ میں کتنا پھل ہوا؟" اس نے کہا: دس وسق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق ہی کا تخمینہ لگایا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جلد ہی مدینہ کے لیے نکلنے والا ہوں تو تم میں سے جو جلد چلنا چاہے میرے ساتھ چلے" ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۴ (۱۴۸۱)، والجزیة ۲ (۳۱۶۱)، صحیح مسلم/الحج ۹۳ (۱۳۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع پانچ رطل (تقریباً ڈھائی کلو) کا۔ ۲؎ : شام کی ایک آبادی کا نام ہے۔ ۳؎ : باب سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ پر اس عورت کی ملکیت برقرار رکھی اس لئے کہ اس نے اس زمین کو آباد کیا تھا، اور جو کسی بنجر زمین کو آباد کر ے وہی اس کا حقدار ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ كُلْثُومٍ، عَنْ زَيْنَبَ: أَنَّهَا كَانَتْ تَفْلِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَنِسَاءٌ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ وَهُنَّ يَشْتَكِينَ مَنَازِلَهُنَّ أَنَّهَا تَضِيقُ عَلَيْهِنَّ وَيُخْرَجْنَ مِنْهَا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُوَرَّثَ دُورَ الْمُهَاجِرِينَ النِّسَاءُ، فَمَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَوُرِّثَتْهُ امْرَأَتُهُ دَارًا بِالْمَدِينَةِ.
زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے جوئیں نکال رہی تھیں، اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی اور کچھ دوسرے مہاجرین کی عورتیں آپ کے پاس بیٹھیں تھیں اور اپنے گھروں کی شکایت کر رہی تھیں کہ ان کے گھر ان پر تنگ ہو جاتے ہیں، وہ گھروں سے نکال دی جاتی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مہاجرین کی عورتیں ان کے مرنے پر ان کے گھروں کی وارث بنا دی جائیں، تو جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عورت مدینہ میں ایک گھر کی وارث ہوئی (شاید یہ حکم مہاجرین کے ساتھ خاص ہو) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۶۳) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : مہاجر عورتیں پردیس میں تھیں اور جب ان کے شوہر کے ورثاء شوہر کے گھر سے ان کو نکال دیتے تھے تو ان کو پردیس میں سخت پریشانیوں کا سامنا ہوتا تھا اس لئے گھروں کو ان کے لئے الاٹ کر دیا گیا یہ ان کے لئے خاص حکم تھا، تمام حالات میں گھروں میں بھی حسب حصص ترکہ تقسیم ہو گا، اور باب سے تعلق یہ ہے کہ ان کے شوہروں نے خالی جگہوں پر ہی یہ گھر بنائے تھے اس لئے ان کے لئے یہ گھر بطور مردہ زمین کو زندہ کرنے کے حق کے ہو گئے تھے۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى يَعْنِي ابْنَ سُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِيأَبُو عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ عَقَدَ الْجِزْيَةَ فِي عُنُقِهِ فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے اپنی گردن میں جزیہ کا قلادہ ڈالا (یعنی اپنے اوپر جزیہ مقرر کرایا) تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بری ہو گیا (یعنی اس نے اچھا نہ کیا) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۷۲) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی محمد بن عیسیٰ سیٔ الحفظ ہیں)
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، حَدَّثَنِي سِنَانُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنِيشَبِيبُ بْنُ نُعَيْمٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَخَذَ أَرْضًا بِجِزْيَتِهَا فَقَدِ اسْتَقَالَ هِجْرَتَهُ وَمَنْ نَزَعَ صَغَارَ كَافِرٍ مِنْ عُنُقِهِ فَجَعَلَهُ فِي عُنُقِهِ فَقَدْ وَلَّى الإِسْلَامَ ظَهْرَهُ"، قَالَ: فَسَمِعَ مِنِّي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ لِي: أَشُبَيْبٌ حَدَّثَكَ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: فَإِذَا قَدِمْتَ فَسَلْهُ فَلْيَكْتُبْ إِلَيَّ بِالْحَدِيثِ، قَالَ: فَكَتَبَهُ لَهُ، فَلَمَّا قَدِمْتُ سَأَلَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ الْقِرْطَاسَ فَأَعْطَيْتُهُ فَلَمَّا قَرَأَهُ تَرَكَ مَا فِي يَدِهِ مِنَ الأَرْضِينَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الْيَزَنِيُّ لَيْسَ هُوَ صَاحِبَ شُعْبَةَ.
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جزیہ والی زمین خرید لی تو اس نے (گویا) اپنی ہجرت فسخ کر دی اور جس نے کسی کافر کی ذلت (یعنی جزیہ کو) اس کے گلے سے اتار کر اپنے گلے میں ڈال لیا (یعنی جزیے کی زمین خرید لے کر زراعت کرنے لگا اور جزیہ دینا قبول کر لیا) تو اس نے اسلام کو پس پشت ڈل دیا"۔ (اس حدیث کے راوی سنان) کہتے ہیں: خالد بن معدان نے یہ حدیث مجھ سے سنی تو انہوں نے کہا: کیا شبیب نے تم سے یہ حدیث بیان کی ہے؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب تم شبیب کے پاس جاؤ تو ان سے کہو کہ وہ یہ حدیث مجھ کو لکھ بھیجیں۔ سنان کہتے ہیں: (میں نے ان سے کہا) تو شبیب نے یہ حدیث خالد کے لیے لکھ کر (مجھ کو) دی، پھر جب میں خالد بن معدان کے پاس آیا تو انہوں نے قرطاس (کاغذ) مانگا میں نے ان کو دے دیا، جب انہوں نے اسے پڑھا، تو ان کے پاس جتنی خراج کی زمینیں تھیں سب چھوڑ دیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یزید بن خمیر یزنی ہیں، شعبہ کے شاگرد نہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۶۹) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی سنان بن قیس لیّن الحدیث ہیں، نیز اس میں بقیہ بھی ہیں جو متکلم فیہ ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یہ حکم غالباً ابتداء اسلام میں تھا یا پھر یہ تہدید ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ صر ف کاشتکار بن کر رہ جائے اور جہاد کو بھول جائے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا حِمَى إِلَّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ"، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمَى النَّقِيعَ.
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے"۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع (ایک جگہ کا نام ہے) کو«حمی» (چراگاہ) بنایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المساقاة ۱۱ (۲۳۷۰)، الجہاد ۱۴۶ (۳۰۱۲)، (تحفة الأشراف: ۴۹۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷، ۳۸، ۷۱، ۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حمَى النَّقِيعَ، وَقَالَ: "لَا حِمَى إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع کو چراگاہ بنایا، اور فرمایا: "اللہ کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۴۹۴۱) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی حکومت کے مویشی جیسے جہاد سے یا زکاۃ میں حاصل ہونے والے جانوروں کے لیے چراگاہ کو خاص کرنا جائز ہے ، اور عام آدمی کسی جگہ یا چشمہ وغیرہ کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے روک لے تو یہ صحیح نہیں ہے ، یہ حکم ایسی زمینوں کا ہے جو کسی خاص آدمی کی ملکیت اور قبضے میں نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ، يُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دفینہ میں خمس (پانچواں حصہ) ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۶ (۱۴۹۹)، والمساقاة ۳ (۲۳۵۵)، والدیات ۲۸ (۶۹۱۲)، ۲۹ (۶۹۱۳)، صحیح مسلم/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، سنن الترمذی/الأحکام ۳۷ (۱۳۷۷)، سنن النسائی/الزکاة ۲۸ (۲۴۹۴)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۴ (۲۶۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۸، ۱۵۱۴۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العقول ۱۸ (۱۲)، مسند احمد (۲/۲۲۸، ۲۲۹، ۲۵۴، ۲۷۴، ۲۸۵، ۳۱۹، ۳۸۲، ۳۸۶، ۴۰۶، ۴۱۱، ۴۱۴، ۴۵۴، ۴۵۶، ۴۶۷، ۴۷۵، ۴۸۲، ۴۹۲، ۴۹۵، ۴۹۹، ۵۰۱، ۵۰۷)، سنن الدارمی/الزکاة ۳۰ (۱۷۱۰)، ویأتی ہذا الحدیث فی الدیات (۴۵۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی پانچ حصے میں ایک حصہ اللہ و رسول کا ہے باقی چار حصے پانے والے کے ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: "الرِّكَازُ الْكَنْزُ الْعَادِيُّ".
حسن بصری کہتے ہیں کہ رکاز سے مراد جاہلی دور کا مدفون خزانہ ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۵۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض نسخوں میں "یحییٰ بن معین" ہے، مزی نے تحفۃ الاشراف میں "ابن معین" ہی لکھا ہے۔ ۲؎ : حسن بصری نے رکاز کی تعریف «الکنز العادی» سے کی ، یعنی زمانہ جاہلیت میں دفن کیا گیا خزانہ ، اور ہر پرانی چیز کو عادی «عاد» سے منسوب کر کے کہتے ہیں، گرچہ «عاد» کا عہد نہ ملا ہو، حسن بصری کی یہ تفسیر لؤلؤئی کے سنن ابی داود کے نسخے میں نہیں ہے ، امام مزی نے اسے تحفۃ الأشراف میں ابن داسہ کی روایت سے ذکر کیا ہے۔
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا الزَّمْعِيُّ، عَنْ عَمَّتِهِ قُرَيْبَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْأُمِّهَا كَرِيمَةَ بِنْتِ الْمِقْدَادِ،عَنْ ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهَا، قَالَتْ: ذَهَبَ الْمِقْدَادُلِحَاجَتِهِ بِبَقِيعِ الْخَبْخَبَةِ، فَإِذَا جُرَذٌ يُخْرِجُ مِنْ جُحْرٍ دِينَارًا، ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يُخْرِجُ دِينَارًا دِينَارًا حَتَّى أَخْرَجَ سَبْعَةَ عَشَرَ دِينَارًا، ثُمَّ أَخْرَجَ خِرْقَةً حَمْرَاءَ يَعْنِي فِيهَا دِينَارٌ، فَكَانَتْ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ دِينَارًا، فَذَهَبَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ وَقَالَ لَهُ: خُذْ صَدَقَتَهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ هَوَيْتَ إِلَى الْجُحْرِ ؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا".
ضباعۃ بنت زبیر بن عبدالمطلب بن ہاشم سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں مقداد اپنی ضرورت سے بقیع خبخبہ ۱؎ گئے وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چوہا سوراخ سے ایک دینار نکال رہا ہے (وہ دیکھتے رہے) وہ ایک کے بعد ایک دینار نکالتا رہا یہاں تک کہ اس نے (۱۷) دینار نکالے، پھر اس نے ایک لال تھیلی نکالی جس میں ایک دینار اور تھا، یہ کل (۱۸) دینار ہوئے، مقداد ان دیناروں کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو پورا واقعہ بتایا اور عرض کیا: اس کی زکاۃ لے لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے سوراخ کا قصد کیا تھا"، انہوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تمہیں اس مال میں برکت عطا فرمائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأحکام ۳ (۲۵۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۵۰) (ضعیف) (اس کی راویہ قریبہ لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مدینہ کے اطراف میں ایک گاؤں کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَقَ يُحَدِّثُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ بُجَيْرِ بْنِ أَبِي بُجَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ خَرَجْنَا مَعَهُ إِلَى الطَّائِفِ فَمَرَرْنَا بِقَبْرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ وَكَانَ بِهَذَا الْحَرَمِ يَدْفَعُ عَنْهُ فَلَمَّا خَرَجَ أَصَابَتْهُ النِّقْمَةُ الَّتِي أَصَابَتْ قَوْمَهُ بِهَذَا الْمَكَانِ فَدُفِنَ فِيهِ وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّهُ دُفِنَ مَعَهُ غُصْنٌ مِنْ ذَهَبٍ إِنْ أَنْتُمْ نَبَشْتُمْ عَنْهُ أَصَبْتُمُوهُ مَعَهُ فَابْتَدَرَهُ النَّاسُ فَاسْتَخْرَجُوا الْغُصْنَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طائف کی طرف نکلے تو راستے میں ہمارا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: "یہ ابورغال ۱؎ کی قبر ہے عذاب سے بچے رہنے کے خیال سے حرم میں رہتا تھا ۲؎ لیکن جب (ایک مدت کے بعد) وہ (حدود حرم سے) باہر نکلا تو وہ بھی اسی عذاب سے دوچار ہوا جس سے اس کی قوم اسی جگہ دوچار ہو چکی تھی (یعنی زلزلہ کا شکار ہوا) وہ اسی جگہ دفن کیا گیا، اور اس کی نشانی یہ تھی کہ اس کے ساتھ سونے کی ایک ٹہنی گاڑ دی گئی تھی، اگر تم قبر کو کھودو تو اس کو پا لو گے"، یہ سن کر لوگ دوڑ کر قبر پر گئے اور کھود کر ٹہنی (سونے کی سلاخ) نکال لی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۶۰۷) (ضعیف) (اس کے راوی بجیر مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : قوم ثمود کے ایک شخص کا نام تھا جو ثقیف کا جداعلیٰ تھا۔ ۲؎ : کیونکہ حرم میں عذاب نازل نہیں ہو گا۔