مشکوٰة شر یف

مختلف اوقات کی دعائیں

مختلف اوقات کی دعائیں

جو اذکار یعنی دعائیں وغیرہ شارع سے کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت سے متعلق منقول ہیں ان کو اختیار کرنا اور ان اذکار کو ان کے منقول اوقات میں پورا کرنا ہر شخص کے لئے مسنون ہے اگر ان اذکار کو پابندی کے ساتھ اختیار کیا جائے تو کیا ہی کہنے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم سے کم ایک مرتبہ تو ضرور ہی ان کو پورا کیا جائے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع کی سعادت حاصل ہو جائے۔

اولاد کو شیطان سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی یا لونڈی کے پاس صحبت کے لئے آئے تو دعا پڑھے اگر اس وقت (ان دونوں) مرد و عورت کے جماع کے نتیجہ میں فرزند دیا جانا مقدر ہوا یعنی بچہ پیدا ہوا تو اس بچہ کو شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچائے گا اور وہ دعا یہ ہے کہ (بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا) ہم مدد چاہتے ہیں اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ تو ہمیں جو اولاد نصیب کرے اس شیطان سے اور شیطان کو اس سے دور رکھ۔

 

تشریح

 

 اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اکثر لوگ یہ دعا پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی اولاد شیطان کے تصرف اور اس کے ضرر سے محفوظ نہیں رہتی؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچائے گا سے مراد یہ ہے کہ شیطان انہیں کفر کی کھائیوں میں نہیں پھینک سکتا، لہٰذا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ صحبت کے وقت ذکر اللہ کی برکت سے اولاد خاتمہ بخیر کی سعادت ابدی سے نوازی جاتی ہے یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان اس کی اولاد کو آسیب اور صرع یعنی ہاتھ پاؤں ٹیڑھے کر دینے یا اسی قسم کی دوسری بلاؤں میں مبتلا کر کے ضرر پہنچانے پر قادر نہیں رہتا۔

 حضرت امام جوزی کے قول کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اس شخص کی اولاد کے دین و اعتقاد پر اثر انداز نہیں ہوتا اور جس طرح کہ شیطان دوسروں کے صحیح اعتقادات اور دینی رجحانات میں نقصان پہنچاتا ہے ان کی بہ نسبت اس شخص کی اولاد کے حق میں اس کا ضرر و نقصان بے اثر رہتا ہے۔

 بعض دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ ضرر پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ شیطان جو پیدائش کے وقت ہر بچہ کی کوکھ میں انگلی ماتا ہے جس کی وجہ سے بچہ روتا چلاتا پیدا ہوتا ہے اس دعا کی وجہ سے وہ زور سے انگلی نہیں مار پاتا۔

شدت فکر و غم کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شدت فکر و غم کے وقت یہ دعا پڑھتے (لا الہ الا اللہ العظیم الحلیم لا الہ اللہ رب العرش العظیم لا الہ الا اللہ رب السموات ورب الارض رب العرش الکریم) نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو بزرگ اور بردبار ہے نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو پروردگار ہے عرش عظیم کا نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو پروردگار ہے آسمانوں کا پروردگار ہے زمین کا اور پروردگار ہے عرش کریم کا۔

غصہ فرد کرنے کی ترکیب

حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس میں دو آدمی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے ان میں سے ایک آدمی تو دوسرے کو بہت ہی برا بھلا کہہ رہا تھا وہ غصہ میں بھرا ہوا تھا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر یہ شخص اس کلمہ کو پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے جو اس پر سوار ہے اور وہ کلمہ یہ ہے۔ (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔ صحابہ نے جب یہ دیکھا کہ اس شخص نے کلمہ نہیں پڑھا تو اس سے کہا کیا تم سن نہیں رہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرما رہے ہیں ؟ اس شخص نے کہا کہ میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غصہ فرو کرنے کا بڑا آسان طریقہ یہ ہے کہ اعوذ باللہ پڑھ لیا جائے اس سے غصہ فرو ہو جائے گا اس حدیث کی بنیاد یہ آیت ہے (وَاِمَّا ینْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِیعٌ عَلِیمٌ     ٢٠٠) 7۔ الاعراف:200) اور اگر تمہیں شیطان بہکا کر اپنے جال میں پھانسے تو اللہ سے پناہ مانگو بلاشبہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

 جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کلمہ تعلیم فرمایا وہ علم شریعت کے زیور سے آراستہ نہیں تھا ور دین کی سمجھ سے بالکل کورا تھا۔ چنانچہ اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ کلمہ پڑھنے کے لئے اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دیوانگی میں مبتلا ہو میں دیوانگی میں مبتلا نہیں ہوں اس لئے یہ کلمہ کیوں پڑھوں اسی لئے جب صحابہ نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیم کی طرف متوجہ کیا تو اس نے اس بد فہمی کی بنا پر کہ اس کلمہ کو تو دیوانے پڑھتے ہیں یہی جواب دیا کہ میں دیوانہ نہیں ہوں جو اس کلمہ کو پڑھوں حالانکہ اس نے نہیں سمجھا کہ غصہ بھی شیطان کے بہکانے کا ہی اثر ہوتا ہے جو بسا اوقات دیوانگی کا ہی روپ دھار لیتا ہے اس لئے غصہ کے وقت بھی اس کلمہ کو پڑھنا نافع ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس تعلیم کی طرف اس شخص کے بے اعتنائی کے سلسلہ میں علامہ طیبی تو یہ فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص منافق رہا ہو یا پھر پرلے درجے کا بدخو، اجڈ اور گنوار۔

مرغ فرشتے کو دیکھ کر بانگ دیتا ہے اور گدھا شیطان کو دیکھ کر رینکتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم مرغ کو بانگ دیتے سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتے ہیں اور جب گدھے کا رینگنا سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مرغ فرشتے کو دیکھ کر بانگ دیتا ہے اس سے اس وقت تم خدا سے دعا مانگو تاکہ وہ آمین کہے۔ اور تمہارے لئے بخشش چاہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر رینگتا ہے۔

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نیک ہستیوں کے آنے کے وقت اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہوتی ہے اور لہٰذا اس وقت دعا مانگنی مستحب ہے نیز اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ کافروں پر چونکہ اللہ کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے اس لئے کفار کے سامنے گزرنے کے وقت اللہ کی پناہ مانگنا مستحب ہے اس خوف سے کہ کہیں ان بدبختوں کی نحوست اور ان کی برائی کے جراثیم اپنے تک نہ پہنچ جائیں۔

سفر کے وقت کی دعا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر کے لئے نکلتے اور اونٹ پر سوار ہو جاتے تو پہلے تین بار اللہ اکبر اور پھر یہ پڑھتے دعا (سبحان الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون اللہم انا نسألک فی سفرنا ہذا البر والتقویٰ ومن العمل ماترضی اللہم ہون علینا سفرنا ہذا اطولنا بعدہ اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاہل والمال اللہم انی اعوذبک من وعثاء السفر وکابۃ المنظر وسورء المنقلب فی المال والاہل)۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارا تابعدار بنایا جب کہ ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اے اللہ! ہم مانگتے ہیں تجھے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ ایسا عمل ہے جس سے تو راضی ہوتا ہے یعنی اسے قبول کرتا ہے اے پروردگار ! آسان کر دے ہمارے لئے ہمارے اس سفر کو اور لپیٹ دے ہمارے لئے اس کی درازی کو یعنی سفر کی طوالت کو جلد ختم کر دے) اے اللہ! سفر میں تو ہی ہمارا نگہبان ہے اور ہمارے گھر والوں کا تو ہی خبر گیراں ہے اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی مشقت سے اور بری حالت دیکھنے سے یعنی اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے اہل و عیال اور اپنے اسباب و مال میں نقصان دیکھ کر غمگین ہوں اور اس سے بری حالت ہو، اور واپسی کی برائی سے اپنے گھر والوں اور اپنے مال میں یعنی اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ سفر سے واپس آنے کے بعد اپنے گھر والوں میں اور اپنے مال میں کوئی نقصان دیکھوں اور اس کی وجہ سے میں رنج اٹھاؤں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر سے واپس ہوتے تو یہی دعا پڑھتے اور اس میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے۔ دعا (اٰئبون تائبون عابدون لربنا حامدون)۔ ہم سفر سے پھرنے والے ہیں سلامتی کے ساتھ اپنے وطن کو توبہ کرنے والے ہیں اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں اور تعریف کرنے والے ہیں۔ (مسلم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر کے وقت کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر کرتے تو پناہ مانگتے، سفر کی مشقت اور محنت سے واپسی سے بری حالت سے (اعمال صالح اور اہل و مال میں) زیادتی کے بعد نقصان سے، مظلوم کی بد دعا سے اور واپس آ کر اہل و مال کو بری حالت میں دیکھنے سے (مسلم)

 

تشریح

 

  مظلوم کی بد دعا  سے پناہ مانگنے سے مراد یہ ہے کہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظلم سے پناہ مانگتے تھے کہ خدایا مجھے اس بات سے محفوظ و مامون رکھ کہ دانستہ یا نادانستہ کسی پر ظلم نہ کراؤں تاکہ کوئی مظلوم میرے لئے بد دعا نہ کر سکے۔

کسی نئی جگہ ٹھہرتے وقت کی دعا

حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص کسی نئی جگہ (خواہ سفر کی حالت میں یا حضر میں) آئے اور پھر یہ کلمات کہے تو اس کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس جگہ سے کوچ کر جائے اور وہ کلمات یہ ہیں دعا (اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ماخلق) پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات (یعنی اس کے اسماء و صفات یا اس کی کتابوں) کے ذریعہ اس چیز کی برائی سے جو پیدا کی ہے۔ (مسلم)

رات میں ضرر و نقصان سے بچانے والی دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں ایک بچھو کی وجہ سے اذیت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ جس نے گزشتہ رات میں مجھے ڈس لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جان لو اگر تم شام کے وقت یہ کلمات کہہ لیتے تو بچھو تمہیں ضرر نہ پہنچاتا اور وہ کلمات یہ ہیں دعا (اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ماخلق)۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ان مذکورہ بالا کلمات کو شام کے وقت تین مرتبہ پڑھ لے تو اسے اس رات میں کسی بھی زہریلے جانور کا زہر ضرر نہیں پہنچائے گا۔ نیز ایک روایت میں ان کلمات کو صبح کے وقت بھی پڑھنا منقول ہے یعنی اگر ان کلمات کو صبح کے وقت پڑھا جائے تو اس دن زہریلے جانوروں سے حفاظت حاصل رہتی ہے۔

 حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ جو صحابی ہیں سے منقول ہے کہ جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے متعین کئے جاتے ہیں جو اس شخص کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں نیز وہ شخص اگر اسی حالت میں مر جاتا ہے تو شہید مرتا ہے۔

حالت سفر میں صبح کے وقت کی دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر میں ہوتے تو بوقت سحر یہ کہتے۔ سنی سننے والے نے خدا کی تعریف کو جو میں نے کی اور اس کی نعمتوں کی خوبی کے اقرار کو جو میں نے کیا، اے ہمارے پروردگار ہماری نگہبانی کر اور ہم دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ (مسلم)

جہاد، حج اور عمرہ سے واپسی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جہاد یا حج یا عمرہ سے واپس میں سفر میں ہوتے ہر بلند جگہ (ٹیلا وغیرہ) پر چڑھتے ہوئے پہلے تین مرتبہ تکبیر اللہ اکبر کہتے اور پھر یہ کلمات فرماتے۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اٰئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدقہ اللہ وعدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ہم اپنے وطن کی طرف واپس ہونے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں اللہ ہی کے آگے سر جھکانے والے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں اللہ نے دین کو پھیلانے کا وعدہ پورا کیا، اپنے بندہ محمد کی مدد کی اور کفار کے گروہوں کو تنہا شکست دی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ سے غزوہ خندق کے موقع پر تائید و نصرت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ علاوہ یہود قریظہ و نضیر کے تقریباً دس یا بارے ہزار کفار مدینہ پر چڑھ آئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کا ارادہ رکھتے تھے مگر اللہ نے ہوا اور ملائکہ کی جماعت کو کفار کے لشکر پر مسلط کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنگ کے بغیر ہی وہ ہلاک و خراب ہو گئے۔

غزوہ احزاب کے موقع پر مشرکین کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بددعا

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ احزاب کے دن مشرکین کے لئے بد دعا فرمائی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارگاہ حق میں یوں عرض رسا ہوئے اے اللہ نازل کرنے والے کتاب اور جلد لینے والے حساب کے، اے اللہ کفار کے گروہ کو شکست دے اے اللہ ان کو شکست دے اور ان کو ہلا کے رکھدے (یعنی ان کو مقابل میں جمنے نہ دے) (بخاری و مسلم)

مہمان اور میزبان کے لئے کچھ مسنون باتیں

حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد کے پاس بطور مہمان تشریف لائے چنانچہ ہم نے کھانا اور مالیدہ کی مانند ایک چیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے تناول فرمایا پھر خشک کھجور پیش کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھجور کھاتے اور اس کی گٹھلی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان ڈالتے جاتے اور اس کے لئے آپ اپنی شہادت کی اور بیچ کی انگلی یکجا کئے ہوئے تھے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (بائیں ہاتھ کی) اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی پشت پر گٹھلیاں ڈالتے جاتے تھے بہرکیف اس کے بعد پانی پیش کیا گیا جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیا پھر میرے والد نے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا فرمائیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا فرمائی دعا (اللہم بارک لہم فیما رزقتہم واغفر لہم وارحمہم)۔ اے اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ روزی رزق دیا ہے اس میں برکت فرما ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 کھجوریں کھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی گٹھلیوں کو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر جمع کرتے جاتے تھے۔ اب ایک روایت تو یہ بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گٹھلیاں دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے تھے اور ایک روایت یہ بتا رہی ہے کہ دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے تھے بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن اگر ذہن میں یہ بات رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گٹھلیوں کو دوں انگلیوں کے درمیان کبھی رکھے جاتے ہوں گے اور کبھی دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے جاتے ہوں گے تو ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نظر نہیں آئے گا۔ اور پھر پشت پر انگلیوں کی، گٹھلیوں کو ڈالنے کی وجہ یہ تھی تاکہ ہاتھ کے اندر کا رخ گٹھلیوں میں لگے ہوئے لعاب وغیرہ سے ملوث نہ ہو کیونکہ اندر کی صفائی اور ستھرائی باہر کی صفائی اور ستھرائی سے اولیٰ ہے۔

 یہ حدیث ایسی کئی باتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو مہمان اور میزبان کے لئے مسنون کا درجہ رکھتی ہے۔ مثلاً اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکابر اور مہمان کی سواری کی رکاب اور لگام کو از راہ تواضع اور خطر داری پکڑنا مسنون ہے۔ اسی طرح مہمان کو رخصت کرنے کے لئے مکان کے دروازے یا باہر کچھ دور تک اس کے ساتھ جانا سنت ہے۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میز بان کے لئے تو یہ مسنون ہے کہ وہ مہمان سے طلب دعا کرے اور مہمان کے لئے یہ مسنون ہے کہ میزبان کے لئے دعا کرے۔

ہلال دیکھنے کے وقت کی دعا

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہلال دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ دعا (اللہم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ) اے اللہ طلوع فرما اور دکھا ہم کو یہ چاند امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ (اے چاند) میرا پروردگار اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

 ہلال کہتے ہیں قمری مہینے کی پہلی، دوسری اور تیسری رات کے چاند کو، اس کے بعد کی راتوں کا چاند قمر کہلاتا ہے لہٰذا حدیث بالا سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب ہلال دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔

 اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ اے اللہ اس مہینے میں ہم امن و ایمان کے ساتھ ہر آفت و مصیبت سے محفوظ و سلامت اور اسلام کے احکام پر ثابت قدم اور مستقیم رہیں اس کے بعد چاند کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے کہ میرا اور تیرا دونوں کا رب اللہ ہی ہے۔ جس طرح میں اس کی ایک مخلوق ہوں اسی طرح تو بھی اس کی ایک مخلوق ہے اس سے گویا ان لوگوں کے اعتقادات کی تردید مقصود ہوتی تھی جو چاند اور سورج کو پوجتے ہیں اور انہیں اپنا معبود اور رب مانتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔

مبتلاء مصیبت کو دیکھ کر پڑھنے کی دعا

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی مبتلاء مصیبت کو دیکھے اور دیکھ کر یہ دعا پڑھے (الحمدللہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا) (یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو اس چیز سے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اور فضیلت بخشی اپنی بہت سی مخلوقات پر تو وہ اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گا وہ جو مصیبت ہو۔ (ترمذی) اس روایت کو ابن ماجہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عمرو بن دینار قوی نہیں ہیں۔

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص مبتلاء بلاء اور مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھتا ہے دعا (الحمد للہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا) تو وہ اس بلا و مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا چاہے وہ بلاء و مصیبت بدنی ہو، جیسے برص،جذام، بینائی سے محرومی وغیرہ چاہے وہ بلاء دنیوی ہو، جیسے مال و جاہ کی محبت اور دنیا کی ہوس وغیرہ اور خواہ وہ بلاء دینی ہو، جیسے فسق ظلم اور شرک و کفر وغیرہ غرض کہ ہر طرح کے مبتلا کو دیکھ کر یہ دعا پڑھنی چاہئے لیکن علماء نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ اگر کوئی بیماری کی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے دیکھ کر یہ دعا آہستہ سے پڑھنی چاہئے تاکہ وہ بیمار آزردہ خاطر نہ ہو اور اگر کسی ایسے شخص کو دیکھے جو گناہ یا دنیا کی محبت میں مبتلا ہو تو اسے اس صورت میں یہ دعا بلند آواز سے پڑھنی چاہئے تاکہ اسے اپنے احوال پر ندامت ہو اور وہ اس سے باز آ جائے اور اگر یہ دعا بآواز بلند پڑھنے سے کسی فتنہ و فساد کا خوف ہو تو پھر اس صورت میں بھی یہ دعا آہستہ آواز میں پڑھی جائے۔

بازار میں پڑھنے کی دعا اور اس کی فضیلت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص بازار میں پہنچ کر یہ کلمات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اس سے دس لاکھ برائیاں دور کرتا ہے اس کے لئے دس لاکھ درجے بلند کرتا ہے اور اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے اور وہ کلمات یہ ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحیی ویمیت وہو حی لا یموت بیدہ الخیر وہو علی کل شئی قدیر (یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اس کے لئے تعریف ہے وہ زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اس کے لئے موت نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (ترمذی، ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے نیز شرح السنۃ میں من دخل السوق (جو شخص بازار میں پہنچ کر) کی بجائے یہ ہے من قال فی سوق جامع یباع فیہ۔ (جو بازار میں جہاں خرید و فروخت ہوتی ہو جہاں اکثر چیزیں بکتی ہوں یہ کلمات کہے۔

 

تشریح

 

 اتنا زیادہ ثواب ملنے کی وجہ یہ ہے کہ بازار غفلت کی جگہ ہے نیز بازار ایک ایسی جگہ ہے جہاں عام طور پر جھوٹ، دغا، مکر و فریب اور چالبازیوں کی کثرت ہوتی ہے پھر یہ کہ بازاروں کو شیاطین کی سلطنت کہا جاتا ہے اس لئے اسی جگہ میں اللہ کو یاد کرنے سے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔

دنیا کی نعمت پوری نعمت نہیں ہے

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دعا مانگتے سنا جو اس طرح کہہ رہا تھا اے اللہ میں تجھ سے پوری نعمت مانگتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پوری نعمت کیا چیز ہے؟ اس شخص نے کہا یہ دعا ہے جس کے ذریعہ میں زیادہ مال کے حصول کی امید رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نادان! جان لے جنت میں داخل ہونا اور دوزخ سے نجات پانا پوری نعمت ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دعا مانگتے سنا جو بارگاہ حق میں ان الفاظ کے ذریعہ عرض رساں تھا یا ذالجلال والاکرام یعنی اے بزرگی و بخشش کے مالک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری دعا قبول کی گئی لہٰذا جو مانگنا ہو مانگ لو۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سنا ایک شخص یہ دعا مانگ رہا تھا اے اللہ میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تم تو اللہ تعالیٰ سے بلا مانگ رہے ہو۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ تم اس سے عافیت مانگو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جز کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص دنیا کی نعمت کو پوری نعمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے حصول کی دعا مانگ رہا تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے متنبہ فرمایا کہ دنیا کی نعمت ایسی نعمت نہیں ہے جس کو اس طرح طلب کیا جائے کیونکہ یہ فنا ہو جانے والی ہے پوری نعمت اور حقیقی نعمت تو جنت میں داخل ہونا اور دوزخ سے نجات پانا ہے اس لئے اس نعمت کے حصول کی دعا مانگنی چاہئے۔

 حدیث کے آخری جز کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص صبر مانگ رہا تھا ظاہر ہے صبر کی ضرورت مصیبت و بلاء کے بعد ہی ہوتی ہے اس لئے صبر مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ بالواسطہ بلا مانگ رہا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبر نہ مانگو کیونکہ اس طرح بلاء کا مانگنا مفہوم ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو کہ وہ تمہیں تمام مصائب اور تمام بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ ہاں اگر کسی مصیبت و بلاء میں مبتلا ہو تو پھر صبر کی طاقت مانگنا اور بلاء و مصیبت پر صبر کرنا چاہئے۔

کفار ۃ المجلس

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسی مجلس میں شریک ہو جہاں بے فائدہ باتیں ہو رہی ہوں اور وہاں سے اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا وہ اس کے لئے بخش دیا جاتا ہے (دعا یہ ہے) سبحانک اللہم وبحمدک اشہد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک) یعنی تو پاک ہے اے الٰہی اور تیری تعریف کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اور میں تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ ترمذی، بیہقی)

 

تشریح

 

 لفظ لغط سے یہاں مراد ایسا کلام ہے اور ایسی بات چیت ہے جس کی وجہ سے گناہ ہوتا ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ لغط کے معنی ہیں بے فائدہ کلام، بہر کیف حدیث بالا میں جو دعا ذکر کی گئی ہے اسے کفارۃ المجلس کہتے ہیں یعنی جس مجلس میں گناہ یا بے فائدہ باتیں ہوتی ہوں یا ہنسی ٹھٹھا ہوا ہو تو اس دعا کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو معاف کر دیتا ہے گویا یہ مجلس کی غیر شرع اور غیر پسندیدہ باتوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔

سوار ہونے کی دعا

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ ان کی خدمت میں سواری کا جانور لایا گیا تاکہ وہ اس پر سوار ہوں چنانچہ انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں ڈالا یعنی (سوار ہونے کے لئے رکاب میں پاؤں ڈالنے کا ارادہ کیا) تو کہا بسم اللہ پھر جب اس کی پیٹھ پر چڑھے تو کہا الحمدللہ یعنی سواری کی نعمتوں اور اس کے علاوہ دوسری نعمتوں پر اللہ کا شکر ہے۔ اور پھر یہ کلمات پڑھے آیت (سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون) (یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابعدار کیا جب کہ ہمیں اس کی طاقت حاصل نہیں تھی اور بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں) اس کے بعد انہوں نے تین مرتبہ الحمدللہ اور تین بار اللہ اکبر کہہ کر یہ پڑھا سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت (یعنی اے پروردگار تو پاک ہے بے شک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے پس تو مجھے بخش دے بلاشک گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ہے) پھر حضرت علی کرم اللہ وجہ ہنسے ان سے پوچھا گیا کہ امیر المؤمنین آپ کیوں ہنسے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح کیا جس طرح میں نے کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے میں نے عرض کیا! یا رسول اللہ! آپ کس چیز کی وجہ سے ہنسے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا پروردگار! اپنے بندہ سے راضی ہوتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار میرے لئے گناہوں کو بخش دے۔ چنانچہ جب بندہ پروردگار سے بخشش چاہتا ہے تو پروردگار فرماتا ہے کہ یہ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے سوا کوئی نہیں بخشتا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی وجہ سے ہنسے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہنسنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع اور پیروی کی بناء پر تھا۔

دعاء رخصت و وداع

حضرت ابن عمر رضی اللہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی شخص(مسافر) کو رخصت کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیتے اور اس کے ہاتھ کو اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک کو نہ چھوڑ دیتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بسبب حسن اخلاق و تواضع ایسا کرتے) اور پھر فرماتے استودع اللہ دینک وامانتک واخر عملک(میں نے تیرا دین، تیری امانت اور تیرا آخری عمل اللہ کے سپرد کیا (یعنی میں تیرے دین اور تیری امانت کی حفاظت کا طلبگار ہوں اور خدا کرے تیرا خاتمہ بخیر ہو) اور ایک روایت میں واخر عملک کی بجائے وخواتیم عملک ہے یعنی تیرے آخری اعمال میں بھی اللہ کے سپرد کرتا ہوں (دونوں کا مطلب ایک ہی ہے) اس روایت کو ترمذی، ابوداؤد، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد اور ابن ماجہ کی روایتوں میں واخر عملک کے الفاظ نہیں ہیں)

 

تشریح

 

  امانت سے مراد وہ اموال ہیں جن سے لوگوں کے ساتھ لین دین کیا جاتا ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ امانت سے مراد وہ اہل و اولاد ہیں جنہیں مسافر گھر میں چھوڑ کر راہ سفر اختیار کرتا ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ خطمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب لشکر کو رخصت کرنے کا ارادہ فرماتے تو دعا فرماتے میں نے تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارا آخری عمل اللہ کو سونپا۔

 

 

٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں سفر میں روانہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے توشہ عنایت فرمائیے (یعنی میرے لئے دعا فرمائیے) تاکہ اس کی برکت سفر میں توشہ کی مانند میرے ساتھ ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تقویٰ کو تمہارا توشہ بنائے (یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں پرہیزگاری نصیب کرے کہ یہ راہ آخرت کا توشہ ہے اس نے عرض کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان، میرے لئے مزید کوئی دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور تم جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی بھلائی کو تمہارے لئے آسان کرے اور اس کی توفیق بخشے، امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں سفر میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے کوئی نصیحت فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خدا سے ڈرنے کو اور راہ سفر میں ہر بلند جگہ اللہ اکبر کہنے کو اپنے اوپر لازم کرو پھر جب وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے واپس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اللہ اس کے لئے سفر کی درازی کو لپیٹ دے (یعنی اس کی دراز مسافت کو مختصر فرما کر سفر کی مشقتوں کو دور کر دے اور اس کے سفر کے تمام امور کو اس پر آسان کر دے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 علیک بتقویٰ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ خوف و خشیت الٰہی اختیار کرو یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو، شرک و گناہ اور شبہ کی چیزوں کو ترک کرو اور ایسی چیزوں کو بھی اختیار نہ کرو جو ضرورت و حاجت سے زاید ہوں۔ عبادت و ذکر اللہ میں غفلت اور ماسوا اللہ کے دھیان سے بچو، نیز اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ جانو اور نہ غیراللہ پر اعتماد کرو۔

سفر میں رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر کرتے اور رات آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے اے زمین میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کی برائی سے مثلاً خسف وغیرہ سے اور اس چیز کی برائی سے جو تیرے اندر ہے جیسے پانی یا تجھ سے پیدا ہونے والی ایسی بوٹی وغیرہ جو کسی کو ہلاک کر دے اور اس چیز کی برائی سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے جیسے زہریلے جانور اور ہلاک کر دینے والی چیزیں اور ان چیزوں کی برائی سے جو تجھ پر چلتی پھرتی ہیں جیسے حشرات الارض اور حیوانات جو ضرر پہنچاتے ہیں اور اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیر سے، کالے سانپ سے دوسرے قسم کے سانپوں سے اور بچھو سے اور آبادی میں رہنے والوں کی برائی سے (بعض حضرات کہتے ہیں ان سے مراد جنات ہیں جو ہر آبادی اور ہر زمین میں رہتے ہیں) اور جننے والے کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے کہ جنا گیا یعنی ابلیس لعین اور اس کی اولاد کی شر سے یا ہر جننے والے اور اس کی اولاد کی شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد)

جہاد کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم جب جہاد کرتے تو یہ فرماتے دعا (اللہم انت عضدی ونصیری بک احول وبک اقاتل)۔ اے اللہ تو ہی میرا معتمد علیہ ہے۔ یعنی مجھے ہر معاملہ میں تجھی پر بھروسہ ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے کفار کے مکر و فریب کو دور کرنے کے لئے میں تیری قوت کے ساتھ حیلہ کرتا ہوں (یعنی ان کی طرف جنگ کے لئے متوجہ ہوں) اور تیری ہی قوت کے ساتھ دشمنان دین پر حملہ کرتا ہوں) اور تیری ہی مدد کے ساتھ دین کے ان دشمنوں سے لڑتا ہوں۔ (ترمذی، ابوداؤد)

دشمن کے خوف کے وقت کی دعا

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب کسی قوم (دشمن) سے اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا پڑھتے (اللہم انا نجعلک فی نحورہم ونعوذبک من شرورہم) اے اللہ ہم تجھ کو دشمن کے مقابل کرتے ہیں یعنی تجھ سے اس بات کی درخواست کرتے ہیں کہ تو ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور ان کے اور ہمارے درمیان حائل ہو اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حصن حصین میں لکھا ہے کہ جو شخص دشمن یا کسی اور کے خوف میں مبتلاء ہو تو سورہ لایلاف قریش پڑھنا ہر شر و خوف سے امان کا باعث ہو گا اور یہ عمل مجرب ہے۔

گھر سے نکلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے (بسم اللہ توکلت علی اللہ اللہم انا نعوذبک من ان نزل او نضل او نظلم او نظلم او نجہل او یجہل علینا)۔ گھر سے نکلتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ، بھروسہ کیا میں نے اللہ پر اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اس سے کہ پھسلیں یعنی بلا قصد گناہ میں مبتلا ہو جائیں یا ہم گمراہ ہوں یعنی قصداً گناہ کریں یا ہم ظلم کریں یا ہم پر طلم کیا جائے یا ہم پھر جہالت میں مبتلا ہوں یا ہمیں جہالت میں مبتلا کیا جائے۔ (احمد، ترمذی، نسائی) نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی میرے گھر سے نکلتے آسمان کی طرف اپنی نگاہ اٹھا کر یوں فرماتے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک ان اضل او اضل او اظلم او اظلم او اجہل او یجعل علی)۔ اے اللہ میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں گمراہ ہوں یا گمراہ کیا جاؤں (یعنی مجھے کوئی گمراہ کر دے) یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے یا میں جہالت میں مبتلا ہوں یا مجھے جہالت میں مبتلا کیا جائے۔

 

 

٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے اور پھر یہ پڑھتا ہے۔ دعا (بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ)۔ (یعنی نکلتا ہوں میں اللہ کے نام کے ساتھ بھروسہ کیا میں نے اللہ پر، گناہوں سے بچنے کی طاقت اور عبادت کرنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے تو اس وقت اس سے کہا جاتا ہے (یعنی فرشتہ اسے بتاتا ہے) کہ اے اللہ کے بندے! تجھے راہ راست دکھائی گئی تجھے (جمع مہمات اور تمام امور میں) غیر سے مستغنی کر دیا گیا ہے اور تو تمام برائیوں سے محفوظ رہا، چنانچہ یہ سن کر شیطان اس سے دور ہو جاتا ہے اور دوسرا شیطان اس شیطان کی تسلی کے لئے اس سے کہتا ہے کہ تو اس شخص پر کیونکر قابو پا سکتا ہے جسے راہ راست دکھائی گئی جسے غیر سے مستثنی کر دیا گیا جو تمام برائیوں سے محفوظ رہا۔ (ابوداؤد) امام ترمذی نے اس روایت کو لفظ لہ الشیطان تک نقل کیا ہے۔

 

 

تشریح

 

 تجھے راہ راست دکھائی گئی۔ یعنی چونکہ تو نے خدا کا نام لیا، اسی کی ذات پر توکل و اعتماد کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ کو عاجز جانا اس لئے تو نے راہ راست پائی کیونکہ راہ راست یہی ہے کہ بندہ خدا کو یاد کرے اور اسی پر اعتماد و توکل کر کے اپنے تمام امور اس کی طرف سونپ دے۔

کار خود راہ بخدا باگزار

کت نمی بینم ازیں بہتر کار

 امام نووی کی کتاب الاذکار کے مطابق کتاب ابن سنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص معاشی تنگی میں مبتلا ہو تو اس کو کون سی چیز اس بات سے روکتی ہے کہ وہ جب گھر سے نکلے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ دعا (بسم اللہ علی نفسی ومالی ودینی اللہم رضنی بقضائک وبارک لی فیما قدرت لی حتی لا احب تعجیل ما اخرت ولا تاخیر ما عجلت)۔ میں گھر سے نکلا اللہ کے نام سے جو مالک ہے میری جان، میرے مال اور میرے دین کا اے اللہ! تو مجھے مطمئن کر دے اپنے فیصلہ پر اور تو مجھے برکت دے اس چیز میں جو تو نے میرا مقدر کر دیا ہے یہاں تک کہ میں نہ پسند کروں اس چیز میں عجلت کو جس کو تو نے مؤخر کیا اور نہ چاہوں تاخیر اس چیز میں جس میں تو نے عجلت کو پسند کیا۔

 نیز ابن ماجہ میں یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص نماز کے لئے اپنے گھر سے نکلے اور پھر یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف بذات خود متوجہ ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہیں دعا یہ ہے۔ (اللہم انی اسألک بحق ممشای ہذا فانی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا ریاء ولا سمعۃ وخرجت اتقاء سکطک وابتغاء مرضتک فاسئلک ان تعیذنی من النار وان تغفر لی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت)۔ اے اللہ! میں درخواست کرتا ہوں تجھ سے اپنے چلنے کے وسیلہ سے اس لئے میں نہیں نکلا تکبر کے ساتھ اور نہ اترا کر اور نہ ریا کاری کے لئے اور نہ نمود کے لئے بلکہ میں تیرے غضب سے ڈر کر اور تیری خوشنودی کی طلب میں اس لئے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو مجھے دوزخ کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھ اور میرے تمام گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ اور کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔

گھر میں داخل ہونے کے وقت کی دعا

حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی اسئلک خیر المولج وخیر المخرج بسم اللہ ولجنا وعلی اللہ ربنا توکلنا)۔ اے اللہ ! میں تجھ سے گھر میں داخل ہونے اور گھر سے باہر نکلنے کی بھلائی مانگتا ہوں (یعنی گھر میں آنا اور گھر سے نکلنا خیر و برکت کے ساتھ ہو۔) اللہ کے نام سے ہم گھر میں داخل ہوئے اور ہم نے اللہ پر کہ وہ ہمارا رب ہے بھروسہ کیا) اس کے بعد اسے چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کو سلام کرے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حصن حصین میں یہ دعا ابوداؤد ہی سے نقل کی گئی ہے اس میں بسم اللہ ولجنا کے بعد بسم اللہ خرجنا۔ اللہ کے نام سے ہم گھر سے نکلے۔ بھی ہے چنانچہ اصل ابوداؤد کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں بھی یہ جملہ موجود ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ یا تو خود مؤلف مشکوٰۃ علیہ الرحمۃ اس جملہ کو لکھنا بھول گئے ہوں یا پھر کاتب کی غلطی سے یہ جملہ نقل ہونے سے رہ گیا ہو، بہر کیف اس دعا کو پڑھتے وقت اس جملہ کو بھی پڑھنا چاہئے۔

 علماء نے لکھا ہے کہ اپنے گھر میں داخل ہونے اور یہ دعا پڑھنے کے بعد اپنے گھر والوں کو تو سلام کرنا ہی چاہئے جیسا کہ حدیث نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے لیکن اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تب بھی بہ نیت ملائکہ سلام کر لینا چاہئے کیونکہ وہاں ملائکہ تو بہر صورت ہوتے ہی ہیں اور اس صورت میں اس طرح سلام کرنا چاہئے۔ السلام علی عباد اللہ الصالحین۔

دولہا اور دلہن کے لئے دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے دعا دیتے تو یہ فرماتے (بارک اللہ لک وبارک علیکما وجمع بینکما فی خیر)۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مبارک فرمائے اور تم دونوں میاں بیوی کو برکت دے یعنی تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور اولاد رزق کی وسعت اور فراوانی سے نوازے اور تم دونوں میں بھلائی جمع کرے (یعنی تمہیں طاعت و عبادت کی توفیق بخشے صحت و عافیت کے ساتھ تمہاری زندگی گزارے تم دونوں میں پیار و محبت اور حسن سلوک ہمیشہ قائم رکھے تمہاری اولاد کو نیک و صالح بنائے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

نکاح کرنے والے کی دعا

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور وہ اپنے دادا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اور عبداللہ بن عمرو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے یا کوئی غلام خریدے تو وہ یہ دعا پڑھے (اللہم انی اسئلک خیرہا وخیر ما جبلتہا علیہ واعوذبک من شرہا و شر ماجبلتہا)۔ اے اللہ! میں تجھ سے اس کی ذات کی بھلائی مانگتا ہوں اور بھلائی اس چیز کی جس پر تو نے ان کو پیدا کیا یعنی اچھے اخلاق اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جس پر تو نے اسے پیدا کیا (یعنی برے اخلاق و افعال) اور جب اونٹ خریدے تو اس کے کوہان کی بلندی کو پکڑ کر اسی طرح کہے یعنی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔ ایک اور روایت میں عورت اور غلام کے بارے میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر عورت یا غلام کی پیشانی کے بال پکڑ کر خیر و برکت کی دعا کرے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

  خیر و برکت کی دعا  سے یہی مذکورہ بالا دعا ہے جیسا کہ حصن حصین سے مفہوم معلوم ہوتا ہے یعنی عورت یا غلام کی پیشانی کے بال پکڑ کر تب یہ دعا پڑھی جائے۔

 علامہ جزری فرماتے ہیں کہ صرف اونٹ پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ جو بھی جانور خریدا جائے۔ یہ دعا پڑھی جائے اللہ تعالیٰ اس جانور میں برکت و ترقی عطا فرمائے گا۔

غم دور کرنے کی دعا

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ غمزدہ کی دعا جس کو پڑھنے سے غم جاتا رہتا ہے۔ یہ ہے دعا (اللہم رحمتک ارجو فلا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین واصلح لی شانی کلہ لا الہ الا انت)۔ اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلبگار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر (کیونکہ وہ میرا بڑا دشمن ہے اور عاجز ہے وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ حاجت روائی کر سکے) اور میرے سارے کاموں کو درست کر دے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (ابوداؤد)

ادائیگی قرض کی دعا

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے فکر و غم نے گھیر رکھا ہے اور قرض نے جکڑ رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی دعا نہ بتا دوں جسے اگر تم پڑھ لیا کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارا فکر دور کر دے قرض کے بارے میں تمہیں نجات دے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ ہاں ضرور بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح شام دونوں وقت یہ دعا پڑھا کرو۔ (اللہم انی اعوذبک من الہم والحزن واعوذ بک من العجز والکسل واعوذ بک من البخل والجبن واعوذ بک من غلبۃ الدین وقہر الرجال)۔ اس شخص کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا،یعنی یہ دعا پڑھنے لگا) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری فکر دور فرما دی اور میرے اوپر سے قرض کا بوجھ اتار دیا۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

 عاجزی سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ ادائے طاعت و عبادت اور مصیبت و مشقت کے تحمل پر قادر نہ ہو سکوں اور ان سے عاجز رہو۔

  بخل سے مراد یہ ہے زکوٰۃ، کفارات اور دوسرے واجبات مالیہ کی ادائیگی کا ترک کرنا، سائل و محتاج کو اپنے در سے نامراد واپس کر دینا مہمان کی ضیافت نہ کرنا، سلام نہ کرنا، اور سلام کا جواب نہ دینا، اگر کوئی علمی سوال کیا جائے یا کوئی دینی مسئلہ پوچھا جائے تو اس کو جانتے ہوئے اور اس کا علم رکھتے ہوئے بھی اس علمی سوال کا جواب نہ دینا اور وہ مسئلہ نہ بتانا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم گرامی سن کر درود نہ پڑھنا۔

 نامردی سے مراد یہ ہے کہ جہاد کے وقت دشمنوں سے ڈر کر مقابلہ کی ہمت ہار بیٹھنا، اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے موقع پر جرات اور حق گوئی کا مظاہرہ نہ کرنا اور رزق وغیرہ کے معاملہ میں دل سے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد نہ کرنا۔

 

 

 

٭٭ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ایک مکاتب آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنا بدل کتابت ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں (یعنی مال کتابت ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے مگر میرے پاس مال نہیں ہے اس لئے آپ مال و دعا سے میری مدد کیجئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تمہیں وہ دعا نہ بتا دوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے سکھائی تھی کہ جس کی برکت سے اگر تمہارے اوپر پہاڑ کی مانند بھی قرض ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے ذمہ سے ادا کر دے گا۔ تو سنو وہ دعا یہ ہے تم اس کو پڑھ لیا کرو۔ دعا (اللہم اکفنی بحلالک عن حرامک واغننی بفضلک عمن سواک)۔ اے اللہ! مجھے حلال مال کے ذریعہ حرام سے بے نیاز کر دے (یعنی مجھے حلال رزق عطا فرما تاکہ اس کی وجہ سے حرام مال سے بے نیاز ہو جاؤں۔ اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ اپنے ماسوا سے مجھے مستغنی کر دے۔ (ترمذی، بیہقی)

 

تشریح

 

  مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے لکھوا لے کہ جب وہ اتنا مال یا اتنے روپے ادا کر دے گا تو اس وقت وہ آزاد ہو جائے گا اسی طرح  بدل کتابت اس مال کو کہتے ہیں جس کو ادا کرنے کی ذمہ داری اس مکاتب غلام نے قبول کر لی ہو لہٰذا جب وہ مقررہ مال ادا کر دے گا تو اسی وقت ہو جائے گا۔

 اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اذا سمعتم نباح الکلاب ہم انشاء اللہ باب تغطیۃ الاوانی میں ذکر کریں گے۔

کسی مجلس سے اٹھتے ہوئے پڑھی جانے والی دعا

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی مجلس میں بیٹھتے یا نماز پڑھتے تو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے یا نماز سے فراغت کے بعد چند کلمات پڑھا کرتے تھے ایک مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا (کہ ان کلمات کو پڑھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر ان کلمات سے پہلے مجلس میں نیک باتیں ہوئی ہوں گی تو یہ کلمات ان نیک باتوں پر قیامت تک کے لئے مہر ہو جائیں گے (یعنی ان کلمات کو پڑھنے سے وہ نیک باتیں قیامت تک محفوظ رہیں گی کہ ان کا ثواب ضائع نہیں ہو گا) اگر ان کلمات سے پہلے مجلس میں بری باتیں ہوں گی) تو یہ کلمات ان بری باتوں کی معافی اور بخشش کا ذریعہ بن جائیں گے اور وہ کلمات یہ ہیں۔ دعا (سبحانک اللہم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک)۔ پاک ہے تو اے اللہ! اور تیری تعریف کے ساتھ تیری پاکی بیان کی جاتی ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ (نسائی)

ہلال دیکھ کر کہے جانے والے کلمات

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب ماہ نو دیکھتے تو یہ کہتے ہلال خیر و رشد ہلال خیر و رشد ہلال خیر و رشد۔ یعنی چاند ہے بھلائی اور ہدایت کا، چاند ہے بھلائی اور ہدایت کا، چاند ہے بھلائی اور ہدایت کا (اسی کے ساتھ یہ کہتے) اٰمنت بالذی خلقک۔ یعنی اے چاند میں اس ذات پاک پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا کیا یہ بھی تین بار فرماتے اور پھر اس کے بعد کہتے۔ دعا (الحمدللہ الذی ذہب بشہر کذا وجاء بشہر کذا)۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے اس مہینہ کو ختم کیا اور اس مہینہ کی ابتدا کی۔ کذا کی جگہ گزشتہ اور آئندہ مہینہ کا نام لیتے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 جیسا کہ دارمی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے واضح ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ نو کو دیکھ کر پہلے اللہ اکبر کہتے پھر اس کے بعد ہلال خیر و رشد الخ کہتے۔

  چاند ہے بھلائی و ہدایت کا  اس جملہ کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دعائیہ جملہ ہے یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ  خدایا یہ چاند بھلائی اور ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہو۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بطور فال نیک جملہ خبریہ ہی ہے۔

فکر دور کرنے کی دعا

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو بہت زیادہ فکروں نے گھیر رکھا ہو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی عبدک و ابن عبدک و ابن امتک وفی قبضتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قضائک اسئلک بکل اسم ہو لک سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک او علمتہ احدا من خلقک او الہمت عبادک او استأثرت بہ فی مکنون الغیب عند ان تجعل القرآن ربیع قلبی وجلاء ھمی وغمی)۔ اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری لونڈی کا بیٹا ہوں تیرے قبضہ میں ہوں، یعنی تیری ملک اور تیرے تصرف میں ہوں، میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں تیری مدد کے بغیر مجھے حرکت و سکون کی قوت بھی حاصل نہیں میرے حق میں تیرا حکم جاری ہے۔ یعنی تیرے حکم کو توقف اور کوئی روکنے والا نہیں جو تو کہتا ہے اور چاہتا ہے وہی ہوتا ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل و انصاف ہے۔ یعنی میرے مقدر میں جو کچھ تو نے لکھ دیا ہے وہی عین انصاف ہے میں تجھ سے ہر نام کے وسیلہ سے مانگتا ہوں جسے تو نے اپنی ذات کے لئے اختیار کیا ہے یا اس کو اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اس کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے یعنی کتاب میں ذکر کئے بغیر انبیاء کو الہام کیا ہے یا تو نے اسے اپنے ہاں پردہ غیب میں اختیار کیا ہے یعنی وہ تیرے علاوہ کسی کو معلوم نہیں یہ کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میری آنکھوں کا نور اور میرے فکر و غم کو دور کرنے والا بنا دے۔ اس دعا کو جو بھی بندہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر غم دور کر دیتا ہے اور اس کے بدلہ خوشی عطا فرماتا ہے۔ (رزین)

بلندی پر چڑھتے اور اترتے وقت تکبیر و تسبیح پڑھنا

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم بلندی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔ (بخاری)

غم دور کرنے کی دعا

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب معاملہ غمگین کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے۔ دعا (یا حی یا قیوم برحمتک استغیث)۔ یعنی اے زندہ! اے قائم رکھنے والے میں تیری رحمت کے ذریعہ فریاد رسی چاہتا ہوں۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے محفوظ نہیں ہے۔

 

تشریح

 

 اس روایت کو حاکم اور ابن سنی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ نیز حاکم اور نسائی نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ویکرر وہو ساجد یا حی یا قیوم یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں یا حی یا قیوم بار بار کہتے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ خندق کے دن ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا کوئی ذکر و دعا ہے جسے ہم پڑھیں اور کامیاب ہوں کیونکہ ہمارے دل گردن کو پہنچ گئے ہیں (یعنی انتہائی دشواریوں اور مشقتوں نے ہمیں گھیر لیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں! اور وہ یہ ہے۔ دعا (اللہم استر عوراتنا واٰمن روعاتنا)۔ یعنی اے اللہ ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں خوف سے امن میں رکھ! حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے منہ پر ہوا کے تھپیڑے مارے اور ہوا ہی کے ذریعہ انہیں شکست دی۔ (احمد)

 

تشریح

 

 خندق کے دن سے مراد غزوہ خندق ہے جسے غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بایں طور اپنی مدد و نصرت سے نوازا کہ ہوا کے تیز و تند تھپیڑے دشمنان دین پر مسلط کر دیئے جنہوں نے ان کی ہانڈیاں الٹ دیں، ان کے خیمے اکھاڑ ڈالے اور انہیں طرح طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر کے تباہ و برباد کر دیا۔

بازار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بازار میں آتے تو یہ دعا پڑھتے۔ (بسم اللہ اللہم انی اسألک خیر ہذہ السوق وخیر ما فیہا واعوذ بک من شرہا و شر ما فیہا اللہم انی اعوذبک من ان اصیب فیہا صفقۃ خاسرۃ)۔ آیا میں اللہ کے نام کے ساتھ! اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں بھلائی اس بازار کی (یعنی حلال رزق میسر ہو اور اس میں نفع و برکت ہو) اور اس چیز کی بھلائی جو اس میں ہے (یعنی لوگ) اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو اس میں ہے (یعنی فاسد خرید و فروخت اور نقصان اور فاسد لوگ) اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ اس بازار میں کسی نقصان دہ معاملہ سے دو چار ہوں۔ (بیہقی)