محمد بن مسلم بن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ وقت نے ایک روز دیر کی عصر کی نماز میں تو گئے ان کے پاس عروہ بن زبیر اور خبر دی ان کو کہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک روز دیر کی تھی عصر کی نماز میں جب وہ حاکم تھے کوفہ کے پس گئے ان کے پاس ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری اور کہا کہ کیا ہے یہ دیر نماز میں اے مغیرہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ جبرائیل اترے آسمان سے اور نماز پڑھی انہوں نے (ظہر کی) تو نماز پڑھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (عصر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (مغرب کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (عشاء کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (فجر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر کہا جبرائیل نے پیغمبر خدا سے ایسا ہی تم کو حکم ہوا ہے۔
تب کہا عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہ سمجھو تم جو روایت کرتے ہو کیا جبرائیل نے قائم کیے نماز کے وقت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے عروہ نے کہا کہ ابو مسعود بن عقبہ بن عمرو انصاری کے بیٹے بشیر ایسا ہی روایت کرتے تھے اپنے باپ سے اور مجھ سے روایت کیا حضرت عائشہ نے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے تھے عصر کی اور دھوپ حجرے کے اندر ہوتی تھی دیواروں پر چڑھنے سے پہلے۔
روایت ہے عطا بن یسار سے ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز صبح کا وقت تو چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب دوسرا روز ہوا نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اندھیرے منہ صبح صادق نکلتے ہی پھر تیسرے روز نماز پڑھی فجر کی روشنی میں اور فرمایا کہ کہاں ہے وہ شخص جس نے نماز فجر کا وقت دریافت کیا تھا اور وہ شخص بول اٹھا میں ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز فجر کا وقت ان دونوں کے بیچ ہے۔
ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے فجر کی نماز پھر عورتیں نماز سے فارغ ہو کر پلٹتی تھیں چادریں لپیٹی ہوئیں اور پہچانی نہ جاتی تھیں اندھیرے سے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے پا لی ایک رکعت نماز صبح کی آفتاب نکلنے سے پہلے تو پا چکا وہ صبح کو اور جس شخص نے پا لی ایک رکعت نماز عصر کی آفتاب ڈوبنے سے پہلے تو پا چکا وہ نماز عصر کو۔
نافع عبداللہ بن عمر کے مولی (غلام آزاد) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب نے اپنے عالموں کو لکھا کہ تمہاری سب خدمتوں میں نماز بہت ضروری اور اہم ہے میرے نزدیک جس نے نماز کے مسائل اور احکام یاد کئے اور وقت پر پڑھی تو اس نے اپنا دین محفوظ رکھا جس نے نماز کو تلف کیا تو اور خدمتیں زیادہ تلف کرے گا پھر لکھا نماز پڑھو ظہر کی جب آفتاب ڈھل جائے اور سایہ آدمی کے ایک ہاتھ برابر ہو یہاں تک کہ سایہ آدمی کا اس کے برابر ہو جائے اور نماز پڑھو عصر کی جب تک کہ آفتاب بلند اور سفید رہے ایسا کہ بعد نماز عصر کے اونٹ کی سواری پر چھ میل یا نو میل قبل غروب کے آدمی پہنچ سکے اور نماز پڑھو مغرب کی جب سورج ڈوب جائے اور عشاء کی نماز جب شفق غائب ہو جائے تہائی رات تک جو شخص سو جائے عشا کی نماز سے پہلے تو خدا کرے نہ لگے آنکھ اس کی نہ لگے آنکھ اس کی نہ لگے آنکھ اس کی اور نماز پڑھو صبح کی اور تارے صاف گھنے ہوئے ہوں۔
مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ نماز پڑھ ظہر کی جب سورج ڈھل جائے اور نماز پڑھ عصر کی اور آفتاب سفید صاف ہو زرد نہ ہونے پائے اور نماز پڑھ مغرب کی جب سورج ڈوبے اور دیر کر عشاء کی نماز میں جہاں تک تو جاگ سکے اور نماز پڑھ صبح کی اور تارے صاف گھنے ہوں اور نماز پڑھ فجر کی نماز دو سورتیں لمبی مفصل سے۔
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ نماز پڑھ عصر کی اور آفتاب سفید ہو اتنا دن ہو کہ اونٹ کا سوار بعد نماز عصر کے نو میل جا سکے اور پڑھ عشاء کی نماز تہائی رات تک آخر درجہ آدھی رات تک اور غافل مت ہو۔
عبد اللہ بن رافع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بی بی ام سلمہ کے مولی ہیں انہوں نے پوچھا ابوہریرہ سے نماز کا وقت، کہا ابوہریرہ نے میں بتاؤں تجھ کو نماز پڑھ ظہر کی جب سایہ تیرا تیرے برابر ہو جائے اور عصر کی جب سایہ تیرا تجھ سے دوگنا ہو اور مغرب کی جب آفتاب ڈوب جائے اور عشاء کی تہائی رات کی اور صبح کی اندھیرے منہ۔
انس بن مالک کہتے ہیں کہ ہم نماز عصر کی پڑھتے تھے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ میں پھر ہم میں سے کوئی جاتا بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں تو پاتا ان کو عصر کی نماز میں۔
انس بن مالک کہتے ہیں کہ ہم نماز عصر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پڑھتے تھے پھر ہم میں سے کوئی جانے والا قبا کو جاتا تھا پھر وہاں کے لوگوں کو ملتا تھا اور آفتاب بلند رہتا تھا۔
قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق کہتے ہیں کہ میں نے تو صحابہ کو ظہر ٹھنڈے وقت پڑھتے دیکھا۔
مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہا انہوں نے میں دیکھتا تھا ایک بوریا عقیل بن ابی طالب کا ڈالا جاتا تھا جمعہ کے دن مسجد نبوی کے پچھم کی طرف کی دیوار کے تلے تو جب سارے بوریے پر دیوار کا سایہ آ جاتا عمر بن خطاب نکلتے اور نماز پڑھتے جمعہ کی مالک نے کہا کہ ہم بعد نماز کے آ کر چاشت کے عوض سو رہا کرتے۔
عبد اللہ بن اسید بن عمرو بن قیس سے روایت ہے کہ عثمان نے نماز پڑھی جمعہ کی مدینہ میں اور عصر کی ملل میں
ابوہریرہ نے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس نے ایک رکعت نماز میں سے پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی۔
عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جب قضا ہو جائے رکوع تیرا تو قضا ہو گیا سجدہ تیرا۔
امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے پہنچا عبداللہ بن عمر اور زید بن ثابت سے کہ وہ دونوں فرماتے تھے جس نے رکوع پایا تو اس نے سجدہ پا لیا۔
ابوہریرہ سے روایت ہے وہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے رکوع پا لیا تو اس نے سجدہ پا لیا یعنی رکعت پائی اور جس کو سورہ فاتحہ پڑھنا نہ ملا تو اس کی بہت خیر جاتی رہی۔
روایت ہے نافع سے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے دلوک الشمس سے آفتاب کا ڈھلنا مراد ہے۔
عبد اللہ بن عباس کہتے تھے کہ دلوک الشمس جب ہوتا ہے کہ سایہ پلٹے پچھم سے پورب کو اور غسق اللیل رات کا گزرنا اور اندھیر اس کا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص کی قضاء ہو جائے عصر کی نماز تو گویا لٹ گیا گھر بار اس کا۔
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب عصر کی نماز پڑھ کر لوٹے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو عصر کی نماز میں نہ تھا پوچھا آپ نے، کس وجہ سے تم رک گئے جماعت میں آنے سے؟ اس نے کچھ عذر بیان کیا تب فرمایا آپ نے طففت کہا امام مالک طففت تطفیف سے ہے عرب لوگ کہا کرتے ہیں لکل شییء وفاء وتطفیف
یحیی بن سعید کہتے تھے کہ نمازی کبھی نماز پڑھتا ہے اور وقت جاتا نہیں رہتا لیکن جس قدر وقت گزر گیا وہ اچھا اور بہتر تھا اس کے گھر بار سے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر بے ہوش ہو گئے ان کی عقل جاتی رہی پھر انہوں نے نماز کی قضا نہ پڑھی
سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب لوٹے جنگ خیبر سے رات کو چلے جب اخیر رات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اتر پڑے اور بلال سے فرمایا صبح کی نماز کا تم خیال رکھو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو رہے اور جب تک خدا کو منظور تھا بلال جاگتے رہے پھر بلال نے تکیہ لگایا اپنے اونٹ پر اور منہ اپنا صبح کی طرف کئے رہے اور لگ گئی آنکھ بلال کی تو نہ جاگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور نہ بلال اور نہ کوئی شتر سوار یہاں تک کہ پڑنے لگی ان پر تیزی دھوپ کی تب چونک اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور فرمایا کیا ہے یہ اے بلال کہا بلال نے زور کیا مجھ پر اس چیز نے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر زور کیا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوچ کرو تو لادے لوگوں نے کجاوے اپنے۔ تھوڑی دور چلے تھے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو تکبیر کہنے کا تو تکبیر کہی بلال نے نماز کی پھر نماز پڑھی رسول اللہ نے فجر کی۔ بعد اس کے فرمایا جب نماز پڑھ چکے جو شخص بھول جائے نماز کو تو چاہیے کہ پڑھ لے اس کو جب یاد آئے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے قائم کر نماز کو جس وقت یاد کرے مجھ کو۔
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رات کو اترے راہ میں مکہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مقرر کیا بلال کو اس پر کہ جگا دیں ان کو واسطے نماز کے تو سو گئے بلال اور سو گئے لوگ پھر جاگے اور سورج نکل آیا تھا اور گھبرائے لوگ تو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوار ہونے کا تاکہ نکل جائیں اس وادی سے اور فرمایا کہ اس وادی میں شیطان ہے پس سوار ہوئے اور نکل گئے اس وادی سے تب حکم کیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اترنے کا اور وضو کرنے کا اور حکم کیا بلال کو اذان کا یا تکبیر کا پھر متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی طرف اور دیکھا ان کی گھبراہٹ کو تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو۔ بے شک روک رکھا تھا اللہ تعالی نے ہماری جانوں کو اور اگر چاہتا تو وہ پھیر دیتا ہماری جانوں کو سوا اس وقت کے اور کسی وقت تو جب سو جائے کوئی تم میں سے نماز سے یا بھول جائے اس کی پھر گھبرا کے اٹھے نماز کے لئے تو چاہئے کہ پڑھ لے اس کو جیسے پڑھتا ہے اس کو وقت پر پھر شیطان آیا بلال کے پاس اور وہ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے تو لٹا دیا ان کو پھر لگا تھپکنے ان کو جیسے تھپکتے ہیں بچے کو یہاں تک کہ سو رہے وہ پھر ہلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو پس بیان کیا بلال نے اسی طرح جیسے فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حال ان کو پس بیان کیا بلال نے اسی طرح جیسے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حال ان کا ابوبکر سے تو کہا ابوبکر نے میں گواہی دیتا ہوں اس امر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے تو جب تیز ہو گرمی تاخیر کرو نماز میں ٹھنڈک تک اور فرمایا آپ نے شکوہ کیا آگ نے اپنے پروردگار سے اور کہا اے پروردگار میں اپنے آپ کو کھانے لگی تو اذن دیا اس کو پروردگار نے دو سانس کا ہر سانس لینے کا جاڑے میں اور سانس نکالنے کا گرمی میں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تیز گرمی ہو تو تاخیر کرو نماز کی ٹھنڈک تک اس لئے کہ تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ آگ نے گلہ کیا پروردگار سے تو اذن دیا پروردگار نے اس کو دو سانسوں کا ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تیز گرمی ہو تو تاخیر کرو نماز کی ٹھنڈک تک کیونکہ تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے۔