مشکوٰة شر یف

مردہ کو دفن کرنے کا بیان

بغلی قبر بنانا مستحب ہے

حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں ان کی وفات ہوئی فرمایا کہ مجھے دفن کرنے کے لیے لحد بنانا اور مجھ پر کچی اینٹیں کھڑی کرنا جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کیا گیا تھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  لحد قبر میں قبلہ کی طرف بنائے گئے اس گھڑے کو کہتے ہیں جس میں مردہ رکھا جاتا ہے جس قبر میں ایسا گڑھا بنایا جاتا ہے اسے بغلی قبر کہتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغلی قبر بنانا مستحب ہے۔

 حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک قبر میں لحد بنانا سنت ہے بشرطیکہ کوئی مجبوری نہ ہو یعنی اگر زمین نرم ہو اور لحد بنانے سے قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہو تو پھر قبر میں لحد نہ بنائی جائے بلکہ صندوق قبر بنائی جائے۔

 حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ارشاد مجھ پر کچی اینٹیں کھڑی کرنا  کا مطلب یہ ہے میری لحد کو کچی اینٹوں سے بند کرنا۔ علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک کی لحد کو نو اینٹوں سے بند کیا گیا تھا۔

قبر میں کپڑا بچھانے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر میں ایک سرخ لوئی (چادر) ڈالی گئی تھی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک خادم تھے جن کا نام  شعران تھا انہوں نے صحابہ کرام کی مرضی اور ان کی اجازت کے بغیر از خود اس چادر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر میں رکھ دیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اسے قطعی ناپسند کرتا ہوں کہ جس چادر مبارک کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود استعمال کر چکے ہوں اسے آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص استعمال کرے۔

 بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قبر میں یہ چادر رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خصائص میں سے تھا (اب کسی دوسرے کے لیے اجازت نہیں کہ اس کی قبر میں چادر وغیرہ بچھائی جائے یا رکھی جائے) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر میں چادر رکھنے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت علی اور حضرت عباس کے بارے میں منقول ہے کہ ان دونوں نے شعران سے اس بات پر سخت معاوضہ کیا کہ انہوں نے وہ چادر قبر مبارک میں کیوں رکھی؟ نیز علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ نے تو  کتاب استیعاب میں یہ لکھا ہے کہ  وہ لوئی (جو شعران نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک میں ڈالی تھی) مٹی ڈالنے سے پہلے قبر مبارک سے نکال لی گئی تھی۔

 بہر حال علماء نے قبر میں مردہ کے نیچے کپڑا بچھانے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مال کا اسراف اور اس کا ضائع کرنا ہے۔

اونٹ کے کوہان کی مانند قبر بنانا افضل ہے

حضرت سفیان تمار سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر کو دیکھا جو اونٹ کے کوہان کی طرح تھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 حضرت امام مالک، حضرت امام احمد، اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بلکہ اس کے علاوہ اور بھی صحیح احادیث کو اپنے اس مسلک کا مستدل قرار دیا ہے کہ قبر کو اونٹ کے کوہان کی طرح اٹھی ہوئی بنانا مسطح بنانے سے افضل ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک قبر مسطح بنانا افضل ہے۔

قبر کو اونچا کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابوالہیاج اسدی (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس کام پر معمور نہ کروں جس کام پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معمور کیا تھا؟ اور وہ کام یہ ہے کہ تم جو بھی تصویر دیکھو اسے چھوڑو نہیں بلکہ اسے مٹادو اور جس قبر کو بلند دیکھو اسے برابر کر دو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 علماء نے لکھا ہے کہ اپنے پاس تصویر کا رکھنا حرام ہے اور اسے مٹا دینا واجب ہے نیز اس کے سامنے بیٹھنا جائز نہیں ہے، جس قبر کو بلند دیکھو اسے برابر کر دو۔ کا مطلب یہ ہے کہ قبر اگر زیادہ اونچی اور بلند بنائی گئی ہو تو اسے اتنی نیچی کر دو کہ زمین کی سطح سے قریب ہو جائے صرف اس کا نشان باقی رہے جس کی مقدار ایک بالشت ہے کیونکہ مسنون یہی ہے چنانچہ کتاب  ازہار میں علماء کا یہ قول لکھا ہوا ہے کہ قبر کو بقدر ایک بالشت کے بلند کرنا مستحب ہے اور ور اس سے زیادہ مکروہ ہے نیز ایک بالشت سے زیادہ قبر کو ڈھا دینا (یعنی صرف ایک بالشت کی بقدر باقی رہنے دینا مستحب ہے)

قبر پر گچ کرنے، عمارت بنانے اور اس کے اوپر بیٹھنے کی ممانعت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبر پر گچ کرنے اور اس پر عمارت بنانے نیز قبر کے اوپر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 کتاب اظہار میں لکھا ہے کہ قبروں پر گچ کرنے کی ممانعت کراہت کے طور پر ہے یعنی قبروں پر گچ کرنا مکروہ ہے پھر ممانعت کا یہ حکم دونوں صورتوں کے لیے ہے یعنی خواہ قبر کی چٹائی گچ سے کی جائے خواہ قبروں پر گچ کیا جائے دونوں ہی مکروہ ہیں قبر کے اوپر کوئی عمارت مثلاً گنبد یا قبہ وغیرہ بنانا درست نہیں ہے بلکہ اگر کسی قبر پر کوئی عمارت بنی ہوئی ہو تو اسے ڈھا دینا واجب ہے اگر وہ مسجد ہی کیوں نہ ہو۔

 علامہ تور پشتی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ قبروں پر بناء یعنی عمارت بنانا دونوں چیزوں کو محتمل ہے خواہ قبر پر پتھر و اینٹ وغیرہ سے کوئی عمارت بنائی جائے خواہ قبر کے اوپر کوئی خیمہ وغیرہ کھڑا کیا جائے دونوں ہی صورتیں ممنوع ہیں کیونکہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے علامہ تور پشتی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس ممانعت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ فعل جاہلیت ہے یعنی کفار میت اوپر دس دن تک سایہ رکھتے تھے اس لیے مشابہت سے بچانا بھی مقصود ہے۔

  قبر کے اوپر بیٹھنے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے کہ یہ مومن کے اکرام و شرف کے منافی ہے بایں طور کہ قبر کے اوپر چڑھ کر بیٹھنے سے صاحب قبر کی تحقیر اور بے وقعتی لازم آتی ہے۔

 بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  قبر کے اوپر بیٹھنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اظہار رنج و غم کے لیے قبر کے پاس مسلسل بیٹھا رہے جیسے کے بعض لوگ فقر اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے کسی محسن و متعلق ہی کی قبر کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں لہٰذا اس سے منع فرمایا گیا ہے۔

قبروں کے بارے میں چند احکام

حضرت ابو مرثد غنوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  نہ قبروں کے اوپر بیٹھو اور نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو (مسلم)

 

تشریح

 

 محقق ابن ہمام فرماتے ہیں کہ قبروں پر بیٹھنا اور ان کو روندنا مکروہ ہے لہٰذا بعض لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے قبرستان میں اپنے کسی عزیز و متعلق کی قبر تک پہنچنے کے لیے درمیان کی قبروں کو بلاتکلف روندتے ہوئے چلتے ہیں یہ انتہائی غلط بات ہے۔ ہاں ضرورت و حاجت کے وقت مثلاً قبر کھودنے کے لیے یا میت کو دفن کرنے کے لیے قبروں پر پاؤں رکھ کر چلنا جائز ہے۔ قبرستان میں ننگے پاؤں چلنا مستحب ہے قبر کے نزدیک یا قبر کو تکیہ بنا کر سونا مکروہ ہے قبروں کے پاس استنجا کرنا تو انتہائی کراہت کی بات ہے، قبرستان آنے جانے کے بارے میں ہر وہ چیز مکروہ جو معہود یعنی سنت سے ثابت نہیں اس بارے میں صرف قبروں پر جانا اور وہاں کھڑے کھڑے دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنت البقیع تشریف لے جاتے تو وہاں یہ فرماتے دعا (السلام علیکم دار قوم مومنین وانا ان شاء اللہ بکم لاحقون واسأل اللہ لی ولکم العافیہ)۔ یعنی اے مومنین کے گھر تجھ پر سلامتی ہو، اے مومنو! انشاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے امن و عافیت مانگتا ہوں۔ (ملا علی قاری)

 کے ان الفاظ سے اگر یہ اشکال پیدا ہوا کہ یہاں تو یہ ثابت ہوا کہ زیارت قبور کے سلسلے میں صرف قبروں پر جانا اور وہاں دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے جیسا کہ خود ملا علی قاری نے ابھی اس باب کی تیسری فصل کی ایک حدیث کو جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کی تشریح کے ضمن میں وہ احادیث نقل کی ہیں تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ قرآن کریم کی تلاوت دعا میں شامل ہے اس لیے کہ تلاوت قرآن کریم بھی حکما دعا ہی ہے لہٰذا وہ مکروہ نہیں ہے۔

 حدیث کے آخری الفاط ولاتصلوا الیہا (اور نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو) کی روشنی میں علماء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قبر یا صاحب قبر کی تعظیم کی خاطر قبر کی طرف نماز پڑھتا ہے تو یہ صریح کفر ہے اگر قبر یا صاحب قبر کی تعظیم پیش نظر نہ ہو تو تب بھی قبر کی طرف نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یہی حکم جنازہ کا بھی ہے جب کہ وہ نمازی کے سامنے رکھا ہوا ہو بلکہ اس میں تو اور بھی زیادہ کراہت ہے حاصل یہ کہ نمازی کے سامنے قبر یا جنازہ نہ ہونا چاہئے۔

قبر کے اوپر بیٹھنے کی تہدید

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اگر تم میں سے کوئی شخص انگارے پر بیٹھ جائے اور وہ انگارہ اس کا کپڑا جلا کر اس کے جسم تک پہنچ جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ قبر کے اوپر بیٹھے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آگ کے اوپر بیٹھ جائے اور وہ آگ اس شخص کے کپڑوں کو جلا کر اس کے جسم تک پہنچ جائے اور جسم کے حصوں کو جلا ڈالے تو یہ تکلیف و مصیبت قبر کے اوپر بیٹھنے سے سہل و آسان ہے یعنی قبر کے اوپر بیٹھنے کا ضرر و نقصان اس کے ضرر و نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔

صندوقی قبر بھی مشروع ہے

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں دو شخص تھے (جو قبریں کھودا کرتے تھے) ان میں سے ایک شخص (حضرت ابو طلحہ انصاری) تو بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور دوسرے شخص (حضرت ابوعبیدہ بن الجراح) بغلی قبر نہیں کھودتے تھے (بلکہ صندوقی قبر کھودا کرتے تھے) چنانچہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جب وصال ہوا تو) تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے (متفقہ طور پر) یہ کہا کہ ان دونوں میں سے جو پہلے آ جائے وہی قبر کھودے (یعنی اگر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ پہلے آ گئے تو بغلی قبر کھودیں اور اگر ابو عبیدہ پہلے آ جائیں تو صندوقی قبر کھودیں) آخرکار بغلی قبر کھودنے والے شخص (پہلے) آ گئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے بغلی قبر کھودا کرتے ؟

بغلی قبر کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  لحد یعنی بغلی قبر، ہمارے لیے ہے اور شق (یعنی صندوقی قبر) دوسروں کے لیے ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، اور امام احمد نے اس روایت کو جریر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

 علماء نے اس حدیث کے کئی معنیٰ بیان کیے ہیں لیکن زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ  لحد یعنی بغلی قبر ہم انبیاء کی جماعت کے لیے ہے اور شق یعنی صندوقی قبر جماعت انبیاء کے علاوہ دوسروں کے لیے جائز ہے گویا لحد کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بغلی قبر کی نسب جماعت انبیاء کی طرف کر کے اس کی فضیلت اور اولیت کا اظہار فرمایا جا رہا ہے۔

قبر گہری کھودنی چاہئے

حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ احد کے دن فرمایا کہ  قبریں کھودو اور قبروں کو کشادہ و گہری کھودو اور انہیں اچھی بناؤ(یعنی قبروں کو ہموار بناؤ اور اندر سے کوڑا کرکٹ و مٹی وغیرہ صاف کرو) اور ایک ایک قبر میں دو دو تین تین کو دفن کرو اور ان میں آگے (یعنی قبلہ کی طرف) اسے رکھو جسے قرآن زیادہ اچھا یاد تھا ۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو لفظ  احسنوا  تک نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 غزوہ احد کے دن سے مراد یہ ہے کہ جب احد ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس وقت آپ نے فرمایا کہ قبریں کھودو، لہٰذا ارشاد گرامی میں قبریں کھودنے کا حکم تو وجوب کے طور پر ہے بقیہ احکام یعنی قبروں کو کشادہ اور گہرا کھودنے اور اچھی بنانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔

  قبروں کو گہری کھودو اس سے معلوم ہوا کہ قبر کو گہرا کھودنا سنت ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے میت درندوں سے محفوظ رہتی ہے۔

 مظہر کا قول ہے کہ قبریں اتنی گہری کھودنی چاہئیں کہ اگر آدمی اندر کھڑا ہو کر اپنے ہاتھ اٹھائے تو اس کی انگلیوں کے سرے قبر کے کنارے تک پہنچ جائیں۔

 ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین مردوں کو دفن کرنا مجبوری اور ضرورت کے وقت تو جائز ہے لیکن بغیر کسی ضرورت اور مجبوری کے جائز نہیں ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی اور ان میں آگے (یعنی قبلہ کی طرف) اسے رکھو جسے قرآن زیادہ اچھا یاد تھا میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح عالم باعمل کی تعظیم و تکریم اس کی زندگی میں کی جاتی تھی اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کی تعظیم اور اس کے احترام کو مد نظر رکھنا چاہئے۔

ایک سے زیادہ جنازوں کی بیک وقت نماز

جس طرح ایک جنازہ پر ایک نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح ایک وقت میں کئی جنازوں پر بھی ایک نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے مطلب یہ ہے کہ بیک وقت کئی جنازے جمع ہو جائیں تو خواہ ہر جنازے کی الگ الگ نماز پڑھی جائے خواہ تمام جنازوں کو رکھ کر سب کے لیے ایک ہی نماز پڑھ لی جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ نیز اگر کئی جنازوں کی ایک ہی نماز بیک وقت پڑھی جائے تو جنازوں کو آگے ترتیب سے رکھنے میں بھی اختیار ہے کہ چاہے تو تمام جنازوں کو قبلہ کی طرف آگے پیچھے کر کے رکھا جائے اور چاہے طول میں قطار باندھ کر تمام جنازوں کو رکھ دیا جائے دونوں طرح جائز ہے البتہ امام کو چاہئے کہ وہ اس جنازہ کے پاس کھڑا ہو جو ان جنازوں میں افضل ہو۔

میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا مسئلہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب غزوہ احد ہوا تو میری پھوپھی میرے والد (کی نعش) لے کر آئیں تاکہ انہیں میں اپنے قبرستان میں دفن کریں، لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ایک منادی کرانے والے نے اعلان کیا کہ  شہیدوں کو ان کے شہید ہونے کی جگہ پہنچا دیا جائے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی دارمی) الفاظ ترمذی کے ہیں۔

 

تشریح

 

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب غزوہ احد اور بعض مسلمان شہید ہوئے تو میرے والد مکرم بھی ان شہیدوں میں تھے چنانچہ میری پھوپھی میرے والد کی نعش میدان کارزار سے شہر لائیں تاکہ انہیں اپنے قبرستان یعنی بقیع میں دفن کر دیا جائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ شہداء جس جگہ شہید کیے گئے ہیں انہیں دفن کیا جائے۔

 یہ حدیث کی وضاحت تھی اب مسئلہ کی طرف آئیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ جیسا کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم نقل کیا گیا ہے جو شخص جس شہر میں انتقال کرے اسے اسی شہر میں دفن کیا جائے اس کی نعش دوسرے شہر میں منتقل نہ کی جائے چنانچہ کتاب ازہار میں لکھا ہے کہ نقل میت کے عدم جواز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک مضبوط اور قوی تر دلیل ہے لیکن اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ یہاں حدیث میں میت کو منتقل کرنے کی جو ممانعت فرمائی گئی ہے اسے صرف شہداء کے ساتھ مختص کیا جائے اور اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ممانعت میت کو دفن کرنے کے بعد بغیر کسی عذر کے منتقل کرنے پر محمول کی جائے یعنی اگر میت دفن کر دی جائے تو اب اس کے بعد کسی صحیح عذر کے بغیر کسی دوسری جگہ اسے منتقل کرنا ممنوع ہے۔

 علامہ یحییٰ رحمۃ اللہ اس مسئلہ میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آ جائے تو میت کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے لیکن بغیر ضرورت کے جائز نہیں ہے۔

 محقق علامہ ابن ہمام کا قول یہ ہے کہ اگر میت کو دفن کرنے اور قبر کی تیاری سے پہلے ایک دو کوس کے فاصلے پر منتقل کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ قبرستان اتنے فاصلہ پر ہوا کرتے ہیں۔

 علماء لکھتے ہیں کہ میت کو اسی شہر کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے جہاں اس کا انتقال ہوا ہے چنانچہ منقول ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ہوا تو ان کا جنازہ دفن کرنے کے لیے مکہ مکرمہ لایا گیا۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی قبر پر تشریف لائیں تو فرمایا کہ اگر میں تمہارے انتقال کے وقت موجود ہوتی تو تمہیں یہاں منتقل نہ کرتی بلکہ وہیں دفن کرتی جہاں انتقال ہوا تھا۔

دفن کے بعد قبر کھودنے کا مسئلہ

میت کو دفن کرنے اور قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد (میت کو نکالنے کے لیے یا کسی اور مقصد کے تحت) قبر کو کھودنا جائز نہیں ہے خواہ دفن کیے ہوئے بہت تھوڑا وقفہ ہوا ہو یا زیادہ عرصہ ہو گیا ہو ہاں عذر کی بنا پر جائز ہو گا مثلاً یہ اگر دفن کرنے کے بعد یہ ظاہر ہو کہ جس زمین پر قبر بنائی گئی ہے وہ زمین غصب کی ہے یا اس زمین کو کسی شخص نے بحق شفعہ لے کر اپنی ملکیت بنا لی تو ان صورتوں میں مالک زمین کے مطالبہ پر قبر کھودنا جائز ہو گا علماء لکھتے ہیں کہ کتنے ہی صحابی کافروں کے شہروں میں دفن کیے گئے مگر انہیں وہاں سے منتقل نہیں کیا گیا۔ اگر اس زمین کا مالک کہ جس میں قبر بنائی گئی ہے یہ چاہے کہ زمین کو ہموار کر لے اور اس میں کھیتی باڑی کرے تو اسے حق پہنچتا ہے دفن کرنے کے بعد قبر کھودنے کا اعذار میں ایک عذر یہ بھی ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مال یا کپڑا وغیرہ قبر میں رہ جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ قبر کھود کر وہ مال یا کپڑا نکال دیں۔

 علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ علماء اور مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی عورت کا بیٹا شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں دفن کر دیا جائے اور وہاں وہ عورت موجود نہ رہی ہو اور پھر اسے اس کی مامتا بے چین کرے اور وہ اس بات پر اصرار کرے کہ اس کے بیٹے کی نعش اس کے شہر میں منتقل کر دی جائے تو اس صورت میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ نعش کو منتقل کر دیا جائے چنانچہ اس بارے میں بعد کے بعض علماء جس جواز کے قائل ہوئے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

 صاحب ہدایہ نے (ہدایہ کے علاوہ اپنی کسی دوسری کتاب میں) لکھا ہے کہ  اگر کوئی شخص کسی شہر میں مر جائے تو اس کی نعش کو دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ ایک بے فائدہ اور لاحاصل چیز میں وقت صرف ہوتا ہے بلکہ میت کو دفن کرنے میں بھی تاخیر ہوتی ہے، نیز علماء کا بالاتفاق یہ فیصلہ ہے کہ اگر کوئی میت بغیر نماز کے بھی دفن کر دی جائے تب بھی اس قہر سے نکالنا جائز نہیں ہے۔

 کسی شخص کو اس مکان میں دفن نہ کیا جائے جس میں وہ رہا کرتا تھا کیونکہ یہ صرف انبیاء کرام صلوات اللہ و سلم علیہم کے ساتھ مختص ہے دوسرے کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

میت کو قبر میں کس طرح اتارا جائے؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (قبر میں اتارتے وقت) سر کی طرف اتارا گیا۔ (شافع)

 

 

تشریح

 

 اس کی صورت یہ تھی کہ جنازہ قبر کے پائنتی رکھا گیا پھر آپ کو سر مبارک کی طرف سے اٹھا کر قبر میں اتارا گیا چنانچہ حضرت امام شافعی کے ہاں میت کو اسی طریقہ سے قبر میں اتارا جاتا ہے۔

 حنفیہ کے نزدیک اس سلسلہ میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ جنازہ قبر کے قبلہ والی جانب رکھا جائے اور وہاں سے میت کو اٹھا کر قبر میں رکھا جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میت کو اسی طریقہ سے قبر میں اتارا کرتے تھے جیسا کہ اگلی حدیث سے واضح ہو گا۔

 جہاں تک مذکورہ بالا روایت کا تعلق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے قبر میں کیوں اتارا گیا؟ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حجرۃ شریفہ میں اتنی وسعت نہ تھی کہ آپ کو قبلہ کی طرف سے قبر میں اتارا جاتا کیونکہ آپ کی قبر حجرہ کی دیوار سے ملی ہوئی ہے حنفیہ کی طرف سے اس کا ایک جواب یہ بھی دیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قبر میں اتارنے کی کیفیت مضطرب منقول ہے یعنی یہاں اس روایت میں تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سر کی طرف سے قبر میں اتارا گیا تھا جب کہ ابوداؤد کی ایک روایت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قبر میں قبلہ کی طرف اتارا گیا تھا سر کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا تھا نیز اسی طرح کی روایت ابن ماجہ نے بھی نقل کی ہے۔ لہٰذا جب ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہوا تو دونوں حدیثیں ساقط ہوئیں۔

میت کو قبر میں کس طرح اتارا جائے؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (کسی میت کو رکھنے کے لیے) قبر میں اترے، آپ کے لیے چراغ جلا دیا گیا چنانچہ آپ نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑا (اور اسے قبر میں اتارا) اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تو (خوف خدا سے) بہت رونے والا اور قرآن کریم بہت زیادہ پڑھنے والے تھے (اور ان دونوں چیزوں کے سبب سے تم رحمت و مغفرت کے مستحق ہو) یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے اور شرح السنۃ میں ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے۔

 

تشریح

 

 اس روایت کے بارے میں امام ترمذی کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز اس بارے میں حضرت جابر اور حضرت یزید بن ثابت کی روایتیں بھی منقول ہیں۔

 اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رات کے وقت مردہ کو دفن کرنا مکروہ نہیں جیسا کہ بعض علماء نے لکھا ہے یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی دلیل ہے ان کے ہاں میت کو قبر میں قبلہ کی طرف سے اتارنا سنت ہے۔

میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا پڑھا جائے؟

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میت کو قبر میں اتارتے تھے تو یہ فرماتے دعا (بسم اللہ وباللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ)۔ اس میت کو ہم اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے حکم کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت پر قبر میں اتارتے ہیں اور ایک روایت میں وعلیٰ ملۃ رسول اللہ کے بجائے وعلیٰ سنۃ رسول اللہ ہے (یعنی یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت پر منقول ہے اور ایک دوسری روایت میں اس کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر نقل کیا گیا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابوداؤد نے دوسری روایت (جس میں ملۃ کے بجائے سنۃ ہے) نقل کی ہے۔

قبر پر مٹی ڈالنا اور پانی چھڑکنا سنت ہے

حضرت امام جعفر صادق بن محمد اپنے والد (حضرت امام باقر) سے بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی قبر کے اوپر پانی چھڑکا اور علامت کے لیے قبر پر سنگریزے رکھے۔ شرح السنۃ اور حضرت امام شافعی نے اس حدیث کو  رش پانی چھڑکا) سے آخر تک) روایت کیا ہے۔

 

تشریح

 

 امام احمد نے اسناد ضعیف کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر میں مٹی اس طرح ڈالتے تھے کہ جب پہلی مٹھی بھر کر مٹی ڈالتے تو پڑھتے منہا خلقناکم اور جب دوسری مٹھی بھر کر ڈالتے تو پڑھتے وفیہا نعیدکم اور اسی طرح جب تیسری مٹھی ڈالتے تو یہ پڑھتے ومنہا نخرجکم۔

 حضرت ابن مالک فرماتے ہیں کہ جو لوگ جنازہ کے ہمراہ قبر پر جائیں ان کے لیے سنت ہے کہ جب لحد یا شق بند کر دی جائے تو وہ مٹھی بھر کر مٹی قبر میں ڈالیں اسی طرح قبر جب بھر جائے اور اوپر سے مٹی برابر کر دی جائے تو قبر کے اوپر پانی چھڑکنا سنت ہے۔

 

ایک حکایت

منقول ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا تو اسے کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا کہ جب میری نیکیاں اور برائیاں وزن کی گئیں تو برائیاں نیکیوں سے بڑھ گئیں اچانک ایک تھیلی نیکیوں کے پلڑے میں آ کر گری جس کی وجہ سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا، میں نے جب تھیلی کھولی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک مٹھی مٹی تھی جو میں نے ایک مسلمان کی قبر میں ڈالی تھی (اس طرح میری یہ نیکی کام آ گئی)

قبروں پر لکھنے اور انہیں روندنے کی ممانعت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ قبریں گچ کی جائیں، ان پر لکھا جائے اور یہ کہ وہ روندی جائیں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 قبروں پر گچ کرنے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے کہ اس میں ایک طرف کی زینت اور تکلیف ہے ہاں بعض حضرات کے نزدیک قبروں پر مٹی لیپنا جائز ہے۔

 قبروں پر اللہ و رسول کا نام اور قرآن کی آیتیں لکھنا مکروہ ہے تاکہ پیروں کے نیچے آنے سے یا جانور وغیرہ کے پیشاب کر دینے سے ان کی بے حرمتی نہ ہو۔ بعض حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اسی طرح مساجد وغیرہ کی دیوار پر اللہ و رسول کا نام اور قرآن کی آیتیں لکھنا ممنوع ہے نیز یہ بھی مکروہ ہے کہ پتھر وغیر پر میت کا نام وغیرہ لکھ کر قبر پر کھڑا کیا جائے۔ البتہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ پتھر وغیرہ پر میت کا اور خاص طور پر علماء دین اور صلحاء امت کا نام وغیرہ لکھ کر قبر پر کھڑا کرنا جائز ہے تاکہ زمانہ گزرنے کے باوجود ان کی قبریں پہچانی جائیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا گیا تھا

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر پر پانی چھڑکا گیا تھا ور وہ شخص کہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا تھا، حضرت بلال بن رباح تھے چنانچہ انہوں نے مشک لے کر سر کی طرف سے (قبر پر) پانی چھڑکنا شروع کیا اور پاؤں تک (چھڑکتے ہوئے) لے گئے۔ (بیہقی)

علامت کے لیے قبر پر کوئی پتھر رکھ دینا جائز ہے

اور حضرت مطلب رضی اللہ عنہ بن ابو وداعہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (باہر نکالا گیا اور دفن کیا گیا جب تدفین سے فراغت ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک بڑا پتھر لائے تاکہ اسے قبر پر علامت کے لیے رکھ دیا جائے اس شخص سے پتھر نہ اٹھ سکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے اٹھانے کے لیے خود کھڑے ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھائیں۔ حدیث کے راوی حضرت مطلب فرماتے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث بیان کی وہ کہتے تھے کہ گویا اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک ہاتھوں کی سفیدی میری نظروں میں گھوم رہی ہے جب کہ آپ نے اسے کھولا تھا، بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ پتھر اٹھا لیا اور اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا کہ میں نے اس کے ذریعہ اپنے بھائی کی قبر پر علامت کر دی ہے اب میرے گھر والوں میں سے جس کا انتقال ہو گا میں اسے اس کے پاس دفن کر دوں گا۔

 

تشریح

 

 حضرت مطلب بن ابی وداوعہ رضی اللہ عنہ صحابی اور فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے انہوں نے اس روایت کو ایک دوسرے صحابی سے اس لیے نقل کیا ہے کہ یہ خود اس موقع پر موجود نہ تھے۔

 حضرت عثمان بن مظعون آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دودھ شریک بھائی تھے انہوں نے بالکل ابتدائی زمانہ ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا چنانچہ ان سے پہلے صرف تیرہ آدمی اسلام لا چکے تھے، غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے، مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا تھا ان کی قبر کے قریب سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم دفن کیے گئے تھے۔

 ازہار میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ قبر پر بطور علامت و نشانی کوئی پتھر وغیرہ رکھ دینا مستحب ہے تاکہ قبر پہچانی جا سکے نیز اہل خاندان اور اقربا کو ایک جگہ دفن کرنا بھی مستحب ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اللہ عنہم کی قبریں

حضرت قاسم بن محمد (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ  اے میری ماں! مجھے زیارت کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے دونوں رفقا (یعنی حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی قبریں کھول دیجیے چنانچہ انہوں نے تینوں قبریں کھول دیں، میں نے دیکھا کہ وہ تینوں قبریں نہ تو بہت اونچی تھیں اور نہ بالکل زمین سے ملی ہوئی تھیں (بلکہ زمین سے ایک ایک بالشت بلند تھیں اور ان پر مدینہ مطہرہ کے گرد جو میدان ہے اس کی سرخ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تھیں جب تک دروازہ کھلا ہوا تھا اس پر پردہ پڑا رہا کرتا تھا جب کوئی شخص قبروں کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتا تو پردہ اٹھا کر اندر چلا جاتا تھا۔

 

 

٭٭ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ انصار میں سے ایک شخص کے جنازہ کے ساتھ چلے جب ہم قبرستان پہنچے تو چونکہ ابھی تدفین عمل میں نہیں آئی تھی (یعنی قبر نہیں تیار ہوئی تھی) اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبلہ کی طرف تشریف فرما ہو گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ (یعنی آپ کے گرد) بیٹھ گئے (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ) اور ابن ماجہ نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے تھے یعنی انتہائی خاموش اور چپ چاپ سر جھکائے ہوئے بیٹھے تھے۔

 

تشریح

 

 باب مایقال عند من حضرہ الموت کی تیسری فصل میں بھی یہ حدیث تفصیل کے ساتھ نقل کی جا چکی ہے یہاں اس حدیث کا صرف انتہائی خاموش اور چپ چاپ سر جھکائے ہوئے بیٹھے تھے۔

میت کی تحقیر ممنوع ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مردہ کی ہڈیوں کو توڑنا (باعتبار گناہ کے) زندہ شخص کی ہڈیوں کے توڑنے کی مانند ہے (مالک، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح زندہ شخص کی تحقیر و بے عزتی ممنوع ہے اسی طرح میت کی تحقیر اور بے وقعتی بھی ممنوع ہے نیز جس طرح زندہ شخص تکلیف پر ایذاء اور آرام پر سکون محسوس کرتا ہے اسی طرح مردہ بھی سکون اور ایذاء محسوس کرتا ہے۔

صاحبزادی کے انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنسو

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت موجود تھا جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی (یعنی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت ام کلثوم) سپرد خاک کی جا رہی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر کے پاس تشریف فرما تھے، میں نے یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں، بہرحال اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم میں ایسا بھی کوئی شخص موجود ہے جو آج کی رات اپنی عورت سے ہم بستر نہ ہوا ہو؟ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں! میں ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (میت کو قبر میں رکھنے کے لیے) تم ہی قبر میں اترو۔ چنانچہ وہ قبر میں اترے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے اپنی عورتوں سے صحبت نہ کرنے کے بارے میں اس لیے دریافت فرمایا کہ اگرچہ اپنی عورتوں سے صحبت ممنوع نہیں ہے لیکن نہ کرنے میں اس طرح سے ملائکہ سے مشابہت ہوتی ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگرچہ اپنی عورتوں سے نہ کی ہو اور اس طرح وہ ملائکہ کے مشابہ ہو وہی ام کلثوم کو قبر میں اتارے۔

 اب یہاں ایک اشکال پیدا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت ابو طلحہ نے ام کلثوم کو قبر میں اتارا جو ان کے لیے اجنبی اور غیر محرم تھے؟ اس اشکال کی توجیہ یہ ہے کہ یا تو ان کی خصوصیات میں سے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بطور خاص قبر میں اترنے کا حکم فرمایا یا یہ کہ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بارے میں بیان جواز کی طرف اشارہ فرمایا۔

عورت کی میت کو مرد ہی قبر میں اتاریں

محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عورت کی میت کو قبر میں اتارنے یا نکالنے کا کام صرف مرد ہی انجام دیں اور چونکہ جس طرح عورت کو اس کی زندگی میں کسی اجنبی مرد کا ضرورت کے وقت اس طرح چھونا جائز ہے کہ درمیان میں کپڑا وغیرہ حائل ہو اسی طرح مرد و عورت کو بھی بوقت ضرورت اجنبی مرد کا چھونا جائز ہے۔ لہٰذا جب کوئی عورت مر جائے اور اس کا کوئی محرم نہ ہو تو اسے قبر میں اس کے وہ پڑوسی اتاریں جو نیک و صالح ضعیف موجود نہ ہوں تو پھر وہ پڑوسی جو ان کو قبر میں اتاریں جو نیک و صالح ہوں ہاں اگر محرم موجود ہوں خواہ دودھ کے اعتبار سے محرم ہوں خواہ سسرال کی طرف سے تو وہی قبر میں اتر کر دفن کریں۔

 اگر مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں اشکال پیدا ہو کہ علماء تو یہ لکھتے ہیں کہ عورت کی میت کو قبر میں اتار نے کے لیے خاوند اور محارم اولیٰ ہیں تو حضرت ام کلثوم کو حضرت عثمان نے یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبر میں کیوں نہیں اتارا؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ احتمال ہے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت عثمان کو کوئی عذد پیش آ گیا ہو گا اس لیے نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی قبر میں اترے اور نہ حضرت عثمان ہی نے قبر میں اتر کر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو رکھا۔

حضرت عمرو بن عاص کی وصیت

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جب کہ وہ حالت نزع میں تھے اپنے صاحبزادے (حضرت عبداللہ) کو یہ وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازہ کے ہمراہ نہ تو کوئی نوحہ کرنے والی ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنے لگو تو میرے اوپر مٹی آہستہ آہستہ (یعنی تھوڑی تھوڑی کر کے) ڈالنا پھر دفن کر دینے کے بعد میری قبر کے پاس دعائے استقامت و مغفرت اور ایصال ثواب کے لیے اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ میں تمہاری وجہ سے آرام پا جاؤں اور بغیر کسی وحشت و گھبراہٹ کے جان لوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ فخر و بڑائی اور ریا کے طور پر میت کے ساتھ آگ لے کر چلتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ خوشبو وغیرہ جلا سکیں یا کسی اور کام میں لا سکیں شریعت اسلام نے اس سے منع فرمایا اس لیے حضرت عمرو بن عاص نے یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کے ساتھ نہ تو نوحہ کرنے والی ہو کہ یہ خالص غیر اسلامی طریقہ اور نہ آگ ہو کہ یہ بھی زمانہ جاہلیت کی ایک نشانی ہے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ اگر دان میں اگر بتی جلا کر بلا ضرورت مشعلیں و پنچ و شاخ وغیرہ روشن کر کے جنازہ کے ساتھ لے کر چلنا یا جنازہ کے ہمراہ لکڑ والوں کا آگ لے کر چلنا ممنوع ہے۔

  یہاں تک کہ میں آرام پا جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ قبر پر تمہاری دعائے استقامت و مغفرت، ذکر و قرأت قرآن کریم اور استغفار و ایصال ثواب کی وجہ سے سوال و جواب کے مرحلہ سے میں بآسانی گزر جاؤں اور قبر میں خدا کی رحمتوں سے ہمکنا ہو جاؤں۔ چنانچہ ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی مردہ کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر کھڑے ہو جاتے اور صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے دعائے استقامت و اثبات مانگو کیونکہ اس وقت قبر میں اس سے سوال و جواب ہو رہا ہے۔

تدفین میں جلدی کرنی چاہئے

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو اسے محبوس نہ رکھو بلکہ اس کی قبر تک اسے جلد پہنچا دو نیز یہ بھی چاہئے کہ (قبر پر کھڑے ہو کر) اس کے سر کے قریب سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (یعنی شروع سے مفلحون تک) اور پاؤں کے قریب سورہ البقرہ کی آخری آیتیں یعنی آمن الرسول سے آخرت تک کی آیتیں پڑھی جائیں۔ (بیہقی نے اس روایت کو شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت حضرت عبداللہ پر موقوف ہے۔

 

تشریح

 

 اسے محبوس نہ رکھو، بغیر کسی عذر کے میت کو دفن کرنے میں تاخیر نہ کرو بلکہ جہاں تک ہو سکے جلد سے جلد میت کو اس دنیا کی آخری آرام گاہ قبر تک پہنچا دو، چنانچہ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص مر جائے تو اس کی تدفین و تکفین میں جلدی کرنا مستحب ہے فلاتحسبو کے بعد کا جملہ واسرعوا بہ یا تو اس سے پہلے جملہ کی تاکید کے طور پر لایا گیا ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یا پھر اس جملہ سے اس طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ جب جنازہ لے کر چلیں تو جلدی چلنا سنت ہے یعنی جنازہ لے کر درمیانی چال کے ساتھ چلا جائے نہ تو دوڑنا چاہئے اور نہ بالکل ہی آہستہ آہستہ چلنا چاہئے۔

 

ایصال  ثواب کی فضیلت

 حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم قبرستان جاؤ تو وہاں سورۃ فاتحہ، معوذتین اور قل ہواللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبرستان کو پہنچاؤ جو انہیں پہنچ جاتا ہے۔ ایصال ثواب کے لیے قبروں پر جانے سے اہل قبر یعنی میت کے لیے تو یہ مقصود ہے کہ وہ ایصال ثواب اور دعائے مغفرت وغیرہ سے فائدہ حاصل کرے اور قبر پر جانے والے کے لیے اس لیے بہتر ہے کہ وہاں پہنچ کر وہ عبرت حاصل کرے۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور وہاں قل ہواللہ احد گیارہ مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبرستان کو بخشے تو اسے قبرستان میں مدفون مردوں کی تعداد کے بقدر ثواب ملتا ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور سورہ فاتحہ قل ہواللہ احد اور الہٰکم التکاثر پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرے کہ میں نے تیرے کلام پاک میں سے جو کچھ اس وقت پڑھا ہے اس کا ثواب اس قبرستان میں مدفون مومنین اور مومنات کو پہنچاتا ہوں۔ تو قبرستان میں مدفون مردے اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کرنے والے ہو جاتے ہیں۔

 حضرت حماد مکی رحمۃ اللہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات مکہ کے ایک قبرستان جا پہنچا اور وہاں ایک قبر پر سر رکھ کر سو رہا اچانک خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ اہل قبرستان یعنی مردے مختلف ٹکڑیوں میں حلقہ بنائے بیٹھے ہیں میں نے کہا کہ کیا قیامت قائم ہو گئی ہے؟ جو تم سب قبروں سے باہر نکلے بیٹھے ہو انہوں نے کہا کہ نہیں، بلکہ ہمارے بھائیوں میں سے ایک شخص نے قل ہو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا ہے لہٰذا اب ہم لوگ ایک برس سے یہاں بیٹھے ہوئے اسی ثواب کو آپس میں تقسیم کر رہے ہیں۔

 حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قبرستان جائے اور وہاں بغرض ایصال ثواب سورہ یٰسین تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اہل قبرستان کے عذاب میں کمی کرتا ہے اور اس شخص کو قبرستان میں مدفون مردوں کی تعداد کے بقدر نیکیاں دی جاتی ہیں۔

 

حضرت امام شافعی کا قول

 علامہ سیوطی جو شافعی المذہب ہیں، شرح الصدور میں لکھا ہے کہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ قرآن پڑھ کر اگر اس کا ثواب میت کو بخشا جائے تو آیا وہ ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ جمہور سلف یعنی صحابہ و تابعین پہلے زمانہ کے علماء اور تینوں ائمہ تو یہ کہتے ہیں کہ میت کو اس کا ثواب پہنچتا ہے مگر ہمارے امام حضرت شافعی نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے۔

 بھر اس کے بعد سیوطی نے امام شافعی کے دلائل کے کئی جواب لکھ کر یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بدنی اعمال و عبادات کا ثواب جیسے نماز روزہ اور قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کسی میت کو بخش دے تو اس میت کو اس کا ثواب ملتا ہے (اس بارے میں مزید تحقیق کے لیے شرح الصدور یا مرقات دیکھی جا سکتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی کی قبر پر

حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر کا حبشہ میں جو ایک مقام ہے انتقال ہوا تو ان کی نعش کو مکہ لایا گیا اور وہاں انہیں دفن کیا گیا، جب حضرت عائشہ صدیقہ حج کے لیے مکہ تشریف لائیں تو اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن کی قبر پر بھی گئیں اور وہاں یہ شعر پڑھے

وکنا کندمانی جذیمۃ حقبۃ

من الدہر حتی قیل لن یتصدعا

فلما تفرقنا کانی ومالکا

لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا

 یعنی ہم دونوں جذیمہ کے دونوں ہم نشینوں کی طرف ایک مدت دراز تک زمانہ سے جدا نہیں ہوئے یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں تو کبھی جدا نہیں ہوں گے لیکن جب ہم دونوں یعنی میں اور مال ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو طویل زمانہ تک ساتھ رہنے کے باوجود گویا ایک رات کے لیے بھی یکجا نہ ہوئے اس کے بعد حضرت عائشہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! اگر تمہارے انتقال کے وقت میں موجود ہوتی تو تم وہیں دفن کیے جاتے جہاں تمہارا انتقال ہوا تھا کیونکہ میت کو اس جگہ سے کہ جہاں اس کا انتقال ہوا ہو دوسری جگہ منتقل نہ کرنا سنت اور افضل ہے نیز یہ کہ اگر میں انتقال کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتی تو اس وقت تمہاری قبر پر نہ آتی۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

حبشی مکہ کے قریب ایک موضع کا نام تھا، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ مکہ سے ایک منزل کا نام ہے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب اپنے بھائی کی قبر پر گئیں تو وہاں انہوں نے اپنے بھائی کے فراق میں حسب حال دو شعر پڑھے یہ اشعار تمیم بن نویرہ نے اپنے بھائی مالک بن نویرہ کے مرثیہ میں کہے تھے جسے خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے زمانہ میں قتل کر دیا تھا۔

 ان اشعار میں تمیم بن نویرہ نے خود کو اور اپنے بھائی کو جزیمہ کے دو ہم نشینوں کے ساتھ مشابہت دی ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ کسی زمانہ میں عراق کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام جذیمہ تھا۔ جزیرہ عرب بھی اس کے تصرف میں تھا، اس بادشاہ کے دو ہم نشین تھے جو دونوں ہم نشین اور ندیم رہے ان دونوں بھائیوں کو نعمان نے مار ڈالا۔ ان کے قتل کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے جو مقامات حریری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

 بہرحال تمیم اپنے بھائی کے مرثیہ میں کہہ رہا ہے کہ میں اور تم دونوں ہم نشین اور آپس میں انتہائی گہرا تعلق اور محبت رکھنے والے تھے اور ہم دونوں میں ایک طویل زمانہ تک جدائی کی نوبت نہیں آئی تھی جیسا کہ جذیمہ کے دونوں ہم نشین آپس میں اتنے طویل عرصہ تک انتہائی گہرا اخلاص و محبت اور ہم نشینی رکھتے تھے کہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر کہتے تھے کہ یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ پھر تمیم کہتا ہے کہ جب مالک کی موت ہوئی اور اس طرح ہم دونوں میں دائمی جدائی ہو گئی تو اب اس کے باوجود کہ ہم دونوں ایک طویل زمانہ تک ایک ساتھ رہے مگر اب مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا ہم دونوں ایک رات کے لیے بھی یکجا اور ایک ساتھ نہیں رہے یعنی محبت و یکجائی کا وہ طویل زمانہ چند لمحوں میں سمٹا ہوا یا کہ ایک خواب محسوس ہو رہا ہے۔

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ اگر میں انتقال کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتی تو اس وقت تمہاری قبر پر نہ آتی مطلب یہ ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو قبروں پر جائیں اس لیے میں یہاں قبر پر ہرگز نہ آتی مگر انتقال کے وقت چونکہ تمہاری زیارت نصیب نہیں ہو سکی تھی اس لیے مجبوراً اب قبر پر آ گئی ہوں تاکہ میرا قبر پر آ جانا آخری وقت میں تمہاری ملاقات کا قائم مقام بن جائے۔

امام شافعی کا مستدل

حضرت رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سعد کو جنازہ میں سے سر کی طرف سے نکالا (یعنی انہیں سر کی طرف سے قبر میں اتارا) اور ان کی قبر پر پانی چھڑکا۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مردہ کو قبر میں اتارنے کے بارے میں حضرت امام شافعی کا مسلک بیان کیا جا چکا ہے۔ یہ حدیث ان کے اسی مسلک کی دلیل ہے حنفیہ کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یا تو یہ ضرورت پر یا پھر یہ کہ بیان جواز پر محمول ہے چنانچہ اس کی پوری تفصیل اسی باب کی دوسری فصل میں حضرت ابن عباس کی روایت کی تشریح کے ضمن میں دیکھی جا سکتی ہے۔

سرہانے کی طرف سے مٹی ڈالنے کی ابتداء کرنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی پھر اس کی قبر پر آئے اور سرہانے کی طرف سے قبر میں تین مٹھی مٹی ڈالی۔ (ابن ماجہ)

قبر پر سہارا دے کر لیٹنے یا بیٹھنے کی ممانعت

حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایک قبر کے سہارے (لیٹے یا بیٹھے ہوئے) دیکھا تو فرمایا کہ  تم اس قبر والے کو ایذاء نہ دو یا یہ فرمایا کہ اسے ایذاء نہ دو (احمد)

 

تشریح

 

ایذاء سے غالباً مراد یہ ہے کہ قبر پر سہارا دے کر لیٹنے یا بیٹھنے سے صاحب قبر کی روح ناخوش ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس کی حقارت لازم آتی ہے۔