أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: "إِذَا اسْتَأْجَرْتَ أَجِيرًا فَأَعْلِمْهُ أَجْرَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تم کسی مزدور سے مزدوری کراؤ تو اسے اس کی اجرت بتا دو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۹۵۸)، مسند احمد (۳/۵۹، ۶۸، ۷۱)، مرفوعاً (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابرہیم نخعی‘‘ کا ابو سعید خدری سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے لیکن اس اثر کا معنی صحیح ہے، آگے کے آثار دیکھیں)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّهُ: "كَرِهَ أَنْ يَسْتَأْجِرَ الرَّجُلَ حَتَّى يُعْلِمَهُ أَجْرَهُ".
حسن بصری سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی کسی آدمی سے اس کی اجرت بتائے بغیر مزدوری کرائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۵۷۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ حَمَّادٍ هُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَأَنَّهُ سُئِلَ عَنْ: رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا عَلَى طَعَامِهِ ؟ قَالَ: "لَا حَتَّى تُعْلِمَهُ".
حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مزدور سے اس کے کھانے کے بدلے کام لے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں(درست نہیں) یہاں تک کہ وہ اسے بتا دے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۵۹۲) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، وَقَتَادَةَ: "في رجل قَالَ لِرَجُلٍ: أَسْتَكْرِي مِنْكَ إِلَى مَكَّةَ بِكَذَا وَكَذَا، فَإِنْ سِرْتُ شَهْرًا أَوْ كَذَا وَكَذَا شَيْئًا سَمَّاهُ فَلَكَ زِيَادَةُ كَذَا وَكَذَا. فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا، وَكَرِهَا أَنْ يَقُولَ: أَسْتَكْرِي مِنْكَ بِكَذَا وَكَذَا، فَإِنْ سِرْتُ أَكْثَرَ مِنْ شَهْرٍ نَقَصْتُ مِنْ كِرَائِكَ كَذَا وَكَذَا".
حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا: میں تجھ سے مکے تک کے لیے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ - اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کر دی - چلا تو تیرے لیے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہو گا۔ تو اس(صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا ۱؎، تو میں تمہارے کرائے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۵۹۳) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا ۲؎: متعین مسافت :(دوری ) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کر لینے پر زیادہ اجرت بطور انعام و اکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قِرَاءَةً، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: عَبْدٌ أُؤَاجِرُهُ سَنَةً بِطَعَامِهِ، وَسَنَةً أُخْرَى بِكَذَا وَكَذَا. قَالَ: "لَا بَأْسَ بِهِ وَيُجْزِئُهُ اشْتِرَاطُكَ حِينَ تُؤَاجِرُهُ أَيَّامًا أَوْ آجَرْتَهُ وَقَدْ مَضَى بَعْضُ السَّنَةِ"، قَالَ: إِنَّكَ لَا تُحَاسِبُنِي لِمَا مَضَى.
ابن جریج کہتے ہںي کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت(مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گزرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۹۰۷۵) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْرَافِعِ بْنِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ إِلَى قَوْمِهِ إِلَى بَنِي حَارِثَةَ، فَقَالَ: يَا بَنِي حَارِثَةَ، لَقَدْ دَخَلَتْ عَلَيْكُمْ مُصِيبَةٌ، قَالُوا: مَا هِيَ ؟ قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذًا نُكْرِيهَا بِشَيْءٍ مِنَ الْحَبِّ ؟ قَالَ: "لَا"، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِالتِّبْنِ ؟ فَقَالَ: "لَا"، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِمَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي، قَالَ: "لَا ازْرَعْهَا، أَوِ امْنَحْهَا أَخَاكَ". خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ.
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج(غلہ) کے بدلے کرائے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں"، وہ کہتے ہیں: حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: "نہیں"، پھر کہا: ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیاریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: "نہیں"، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو۔ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۷) (صحیح) (اس کے راوی ’’ رافع بن اسید ‘‘ لین الحدیث ہیں، مگر متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہرحال حدیث صحیح ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ وَهُوَ ابْنُ مُهَلْهَلٍ، عَنْمَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: جَاءَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الثُّلُثُ وَالرُّبُعُ، وَعَنِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: شِرَاءُ مَا فِي رُءُوسِ النَّخْلِ بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ".
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں تہائی یا چوتھائی پیداوار پر (کھیتوں کو) بٹائی پر دینے سے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، مزابنہ درختوں میں لگے کھجوروں کو اتنے اور اتنے میں (یعنی معین) وسق کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۳۹۸)، سنن ابن ماجہ/الرہون۱۰(۲۴۶۰)، (تحفة الأشراف: ۳۵۴۹)، مسند احمد (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۸۹۵-۳۸۹۷) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، فَقَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ، نَهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَقَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَمْنَحْهَا، أَوْ لِيَدَعْهَا"، وَنَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الْمَالُ الْعَظِيمُ، مِنَ النَّخْلِ فَيَجِيءُ الرَّجُلُ فَيَأْخُذُهَا بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ.
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: "جس کی کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے"، نیز آپ نے مزابنہ سے روکا ہے، مزابنہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے پاس درخت پر کھجوروں کے پھل کا بڑا حصہ ہو۔ پھر کوئی (دوسرا) آدمی اسے اتنی اتنی وسق ۱؎ ایسی ہی (گھر میں موجود) کھجور کے بدلے میں لے لے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔ اور صاع اڑھائی کلوگرام کا، یعنی وسق =۱۵۰ کلوگرام۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، فَقَالَ: وَلَمْ أَفْهَمْ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَنْفَعُكُمْ، وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ مِمَّا يَنْفَعُكُمْ: "نَهَاكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الْمُزَارَعَةُ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَمَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ، وَنَهَاكُمْ عَنِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَجِيءُ إِلَى النَّخْلِ الْكَثِيرِ بِالْمَالِ الْعَظِيمِ فَيَقُولُ خُذْهُ بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرِ ذَلِكَ الْعَامِ".
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا، اور میں اس (ممانعت کے راز) کو سمجھ نہیں سکا، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا ہے جو تمہارے لیے سود مند تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے اس چیز سے جو تمہیں فائدہ دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں «حقل» سے روکا ہے۔ اور «حقل» کہتے ہیں: تہائی یا چوتھائی پیداوار کے بدلے زمین کو بٹائی پر دینا۔ لہٰذا جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس سے بے نیاز ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دیدے، یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے، اور آپ نے تمہیں مزابنہ سے روکا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ آدمی بہت سارا مال لے کر کھجور کے باغ میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سال کی اس مال کو (یعنی پاس میں موجود کھجور کو)اس سال کی (درخت پر موجود) کھجور کے بدلے اتنے اتنے وسق کے حساب سے لے لو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاق الْبَغْدَادِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ بْنُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَاكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَنَا، قَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ". خَالَفَهُ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ مَالِكٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لیے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا: "جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے"۔ اس میں عبدالکریم بن مالک نے ان (سعید بن عبدالرحمٰن) کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ اسید بن رافع ‘‘ لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: عبدالکریم بن مالک کی روایت آگے آ رہی ہے، اور مخالفت ظاہر ہے۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: أَخَذْتُ بِيَدِ طَاوُسٍ حَتَّى أَدْخَلْتُهُ عَلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، فَحَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". فَأَبَى طَاوُسٌ، فَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ لَا يَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا. وَرَوَاهُ أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ: عَنْ رَافِعٍ مُرْسَلًا.
مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بیٹے (اسید) کے یہاں گیا، تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائیے پر دینے سے منع فرمایا، تو طاؤس نے انکار کر دیا اور کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث کو ابو عوانہ نے ابوحصین سے، اور ابوحصین نے مجاہد سے، اور مجاہد نے رافع رضی اللہ عنہ سے مرسلاً (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع۲۱ (۱۵۵۰) (تحفة الأشراف: ۳۵۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: سابقہ تمام سندوں میں مجاہد اور رافع کے درمیان یا تو اسید بن رافع بن خدیج یا اسید بن ظہیر کسی ایک کا واسطہ ہے اور اس سند میں یہ واسطہ ساقط ہے، اس لیے یہ سند منقطع ہے مگر متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَأَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ: "نَهَانَا أَنْ نَتَقَبَّلَ الْأَرْضَ بِبَعْضِ خَرْجِهَا". تَابَعَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُهَاجِرٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ ابراہیم بن مہاجر نے ابوحصین کی متابعت کی ہے (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأحکام۴۲(۱۳۸۴)، (تحفة الأشراف: ۳۵۷۸)، مسند احمد (۱/۲۸۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۲۹۰۰-۳۹۰۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَرْضِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَدْ عَرَفَ أَنَّهُ مُحْتَاجٌ، فَقَالَ: "لِمَنْ هَذِهِ الْأَرْضُ ؟". قَالَ: لِفُلَانٍ، أَعْطَانِيهَا بِالْأَجْرِ. فَقَالَ: "لَوْ مَنَحَهَا أَخَاهُ". فَأَتَى رَافِعٌ الْأَنْصَارَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک آدمی کی زمین کے پاس سے گزرے جسے آپ جانتے تھے کہ وہ ضرورت مند ہے، پھر فرمایا: "یہ زمین کس کی ہے؟" اس نے کہا: فلاں کی ہے، اس نے مجھے کرائے پر دی ہے، آپ نے فرمایا: "اگر اس نے اسے اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پردے دی ہوتی (تو اچھا ہوتا)"، تب رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے انصار کے پاس آ کر کہا بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو تمہارے لیے نفع بخش تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح) (سند میں راوی ’’ابراہیم‘‘ کا حافظہ کمزور تھا، اور سند میں انقطاع بھی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَقْلِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حقل» سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: «حقل» کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے مقصد تہائی اور چوتھائی کے بٹائی دینے کا معاملہ ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَانَا عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، فَقَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ يَمْنَحْهَا، أَوْ يَذَرْهَا".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے تو آپ نے ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش تھی اور فرمایا: "جس کے پاس کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اس میں کھیتی کرے یا وہ اسے کسی کو دیدے یا اسے (یونہی) چھوڑ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، وَطَاوُسٍ،وَمُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَانَا عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَأَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَنَا، قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ لِيَذَرْهَا، أَوْ لِيَمْنَحْهَا". وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ طَاوُسًا لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے چھوڑ دے یا اسے (کسی کو) دیدے"۔ اور اس بات کی دلیل کہ یہ حدیث طاؤس نے (رافع رضی اللہ عنہ سے خود) نہیں سنی ہے آنے والی حدیث ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ طَاوُسٌ يَكْرَهُ أَنْ يُؤَاجِرَ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ، وَلَا يَرَى بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا، فَقَالَ لَهُ مُجَاهِدٌ: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، فَاسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَهُ، فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ مَا فَعَلْتُهُ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ: "لَأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا". وَقَدِ اخْتُلِفَ عَلَى عَطَاءٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ: عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَافِعٍ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ، وَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ.
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا فرمایا تھا: "تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دیدے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے"۔ اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں: «عن عطاء، عن رافع»(عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ۳۹۰۳ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان («عن رافع» کے بجائے) «عن عطاء عن جابر» کہتے ہیں (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۱۰ (۲۳۳۰)، ۱۸ (۲۳۴۲)، الہبة ۳۵ (۲۶۳۴)، صحیح مسلم/البیوع ۲۱(۱۵۵۰)، سنن ابی داود/البیوع ۳۱ (۳۳۸۹)، سنن الترمذی/الأحکام ۴۲ (۱۳۸۵)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۹ (۲۴۵۶)، ۱۱(۲۴۶۴)، (تحفة الأشراف: ۵۷۳۵) مسند احمد (۱/۲۳۴، ۲۸۱، ۳۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ أَنْ يَزْرَعَهَا فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، وَلَا يُزْرِعْهَا إِيَّاهُ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیدے اور اس سے اس میں بٹائی پر کھیتی نہ کرائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷(۱۵۳۶)، (تحفة الأشراف: ۲۴۳۹)، مسند احمد (۳/۳۰۲، ۳۰۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ وَلَا يُكْرِيهَا". تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو دیدے اور اسے بٹائی پر نہ دے"۔ عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے عبدالملک بن ابی سلیمان کی متابعت کی ہے (یہ متابعت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ لِأُنَاسٍ فُضُولُ أَرَضِينَ يُكْرُونَهَا بِالنِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ يُزْرِعْهَا، أَوْ يُمْسِكْهَا". وَافَقَهُ مَطَرُ بْنُ طَهْمَانَ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمینیں تھیں جنہیں وہ آدھا، تہائی اور چوتھائی پر اٹھاتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے یا بلا کھیتی کرائے روکے رکھے"۔ مطر بن طہمان نے اوزاعی کی موافقت(متابعت) کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۱۸ (۲۳۴۰)، الہبة ۳۵ (۲۶۳۲)، صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۷ (۲۴۵۱)، (تحفة الأشراف: ۲۴۲۴)، مسند احمد (۳/۳۵۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ وَهُوَ أَبُو عُمَيْرِ بْنُ النَّحَّاسِ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ هُوَ الْفَاخُورِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ لِيُزْرِعْهَا وَلَا يُؤَاجِرْهَا".
جابر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اور کہا: "جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا کسی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرائیے پر نہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۷ (۲۴۵۴)، (تحفة الأشراف: ۲۴۸۶)، مسند احمد (۳/۳۶۹) (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ رَفَعَهُ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". وَافَقَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ عَلَى النَّهْيِ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ.
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔ زمین کو کرائے پر نہ دینے کے سلسلہ میں (روایت کرنے میں) عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مطر کی موافقت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، (تحفة الأشراف: ۲۴۸۷)، مسند احمد (۳/۳۹۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، وَأبِي الزُبَيرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ، وَبَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يُطْعَمَ إِلَّا الْعَرَايَا". تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ.
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ اور مزابنہ، محاقلہ سے اور ان پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو ابھی کھانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، سوائے بیع عرایا کے ۱؎۔ یونس بن عبید نے اس کی متابعت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۸۳ (۲۱۸۹)، المساقاة ۱۷ (۲۳۸۰)، صحیح مسلم/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، (تحفة الأشراف: ۲۴۵۲، ۲۸۰۱)، مسند احمد (۳/۳۶۰، ۳۸۱، ۳۹۱، ۳۹۲)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۵۲۷، ۴۵۲۸، ۴۵۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مخابرہ: زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دینا، کہتے ہیں: مخابرہ " خیبر " سے ماخوذ ہے، یعنی خیبر کی زمینوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس کو " مخابرہ " کہتے ہیں۔ حالانکہ خیبر میں جو معاملہ کیا گیا وہ جائز ہے، اسی لیے تو وہ معاملہ کیا گیا، مؤلف نے حدیث نمبر ۳۹۱۴ میں مخابرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ " انگور جو ابھی بیلوں میں ہو کو اس انگور کے بدلے بیچنا جس کو توڑ لیا گیا ہو، یہی سب سے مناسب تعریف ہے جو " مزابنہ " اور " محاقلہ " سے مناسبت رکھتی ہے۔ مزابنہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے بدلے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ محاقلہ: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ عرایا: عرایا یہ ہے کہ مالک کا باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین و غریب کو کھانے کے لیے مفت دیدے، اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین و فقیر سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک پھل اس کے حوالے کر دے۔
أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَعَنِ الثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ". وَفِي رِوَايَةِ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى كَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ عَطَاءً لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ حَدِيثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ و مزابنہ اور مخابرہ نامی بیع سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء ۱؎ سے منع فرمایا ہے۔ (آگے آنے والی) ہمام بن یحییٰ کی روایت میں گویا یہ دلیل ہے کہ عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے ان کی یہ حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۴ (۳۴۰۵)، سنن الترمذی/البیوع ۵۵ (۱۲۹۰)، (تحفة الأشراف: ۲۴۹۵)، ویأتي عند المؤلف ۴۶۳۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: بیچی ہوئی چیز میں سے بلا تعیین و تحدید کچھ لینے کی شرط رکھنا یا سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینا اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینا۔ ۲؎: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے عطاء کی یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے :(دیکھئیے حدیث نمبر ۳۹۰۵ تخریج ) سندھی فرماتے ہیں: مؤلف نے «کالدلیل» کہا ہے :(«الدلیل» نہیں کہا ہے ) جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات مؤکد نہیں ہے۔ نیز یہ ممکن ہے کہ عطاء نے سلیمان سے سننے کے بعد پھر جابر رضی اللہ عنہ سے جا کر یہ حدیث سنی ہو۔ ایسا بہت ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: سَأَلَ عَطَاءٌ سُلَيْمَانَ بْنَ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَ جَابِرٌ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيُزْرِعْهَا أَخَاهُ وَلَا يُكْرِيهَا أَخَاهُ". وَقَدْ رَوَى النَّهْيَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ يَزِيدُ بْنُ نُعَيْمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی کوئی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے یا اپنے بھائی سے اس میں (بلا کرایہ لیے)کھیتی کرائے لیکن اسے اپنے بھائی کو کرائیے پر نہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، (تحفة الأشراف: ۲۴۹۱)، مسند احمد (۳/۳۶۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنِ يَزِيدَ بْنِ نُعَيْمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْحَقْلِ وَهِيَ الْمُزَابَنَةُ". خَالَفَهُ هِشَامٌ وَرَوَاهُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «حقل» (تہائی، چوتھائی پر بیع)، اور یہی مزابنہ ہے، سے منع فرمایا۔ ہشام نے معاویہ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے «عن یحییٰ عن ابی سلمہ عن جابر» کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷(۱۵۳۶)، (تحفة الأشراف: ۳۱۴۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَاضَرَةِ، وَقَالَ: "الْمُخَاضَرَةُ: بَيْعُ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَزْهُوَ، وَالْمُخَابَرَةُ: بَيْعُ الْكَرْمِ بِكَذَا وَكَذَا صَاعٍ". خَالَفَهُ عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ اور مخاضرہ سے منع فرمایا ہے۔ اور کہا مخاضرہ: پھل کو پکنے سے پہلے بیچنا اور مخابرہ (درخت کی) انگور کو خشک انگور کے اتنے اتنے صاع کے بدلے بیچنا ہے۔ اس میں عمرو بن ابی سلمہ نے یحییٰ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے اپنے باپ ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ نے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۱۶۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ"، خَالَفَهُمَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ: عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ محمد بن عمرو نے عمر بن ابی سلمہ اور یحییٰ دونوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۴۹۸۶)، مسند احمد (۲/۴۸۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ". خَالَفَهُمْ الْأَسْوَدُ بْنُ الْعَلَاءِ، فَقَالَ: عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسود بن علاء نے ان سب کی مخالفت کی ہے، اور حدیثوں روایت کی ہے: "عن ابی سلمۃ عن رافع بن خدیج"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۴۴۳۱)، مسند احمد (۳/۶۷)، سنن الدارمی/البیوع ۲۳ (۲۵۹۹) (حسن صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ". رَوَاهُ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ و مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے قاسم بن محمد نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۵۹۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْقَاسِمَ عَنِ الْمُزَارَعَةِ فَحَدَّثَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: مَرَّةً أُخْرَى.
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے بٹائی پر کھیت دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی نے دوسری مرتبہ (روایت کرتے ہوئے) کہا۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْقَاسِمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ، فَقَالَ: قَالَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". وَاخْتُلِفَ عَلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ فِيهِ.
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے زمین کرائے پر دینے کے سلسلے میں پوچھا تو وہ بولے: رافع بن خدیج نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ اس حدیث کی روایت میں سعید بن مسیب پر اختلاف واقع ہوا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: خود اس زمین سے پیدا ہونے والے غلہ کے بدلے کرایہ اٹھانے سے منع فرمایا، کیونکہ خود رافع رضی اللہ عنہ نے سونا چاندی کے بدلے کرایہ پر دینے کا فتویٰ دیا ہے۔ نیز مرفوعاً بھی روایت کی ہے :(دیکھئیے حدیث رقم ۳۹۲۱، و ۳۹۲۹ )۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ وَاسْمُهُ عُمَيْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: أَرْسَلَنِي عَمِّي وَغُلَامًا لَهُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ ؟ فَقَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا، حَتَّى بَلَغَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ فَلَقِيَهُ، فَقَالَ رَافِعٌ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنِي حَارِثَةَ فَرَأَى زَرْعًا، فَقَالَ: "مَا أَحْسَنَ زَرْعَ ظُهَيْرٍ". فَقَالُوا: لَيْسَ لِظُهَيْرٍ. فَقَالَ: "أَلَيْسَ أَرْضُ ظُهَيْرٍ ؟"قَالُوا: بَلَى، وَلَكِنَّهُ أَزْرَعَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خُذُوا زَرْعَكُمْ، وَرُدُّوا إِلَيْهِ نَفَقَتَهُ"، قَالَ: فَأَخَذْنَا زَرْعَنَا، وَرَدَدْنَا إِلَيْهِ نَفَقَتَهُ. وَرَوَاهُ طَارِقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدٍ، وَاخْتُلِفَ عَلَيْهِ فِيهِ.
ابوجعفر خطمی جن کا نام عمیر بن یزید ہے، کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک بچے کو سعید بن مسیب کے پاس بٹائی پر زمین دینے کے بارے میں مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پہنچی تو وہ ان سے ملے۔ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارثہ کے پاس آئے تو ایک کھیتی کو دیکھ کر فرمایا: "ظہیر کی کھیتی کس قدر اچھی ہے!" لوگوں نے عرض کیا: یہ (کھیتی) ظہیر کی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "کیا یہ ظہیر کی زمین نہیں ہے؟" لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن انہوں نے اسے بٹائی پر اٹھا رکھا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنی کھیتی لے لو اور اس پر آنے والی خرچ اسے دے دو"، تو ہم نے اپنی کھیتی لے لی اور ان کا خرچہ انہیں لوٹا دیا۔ اسے طارق بن عبدالرحمٰن نے بھی سعید بن مسیب سے روایت کیا اور اس میں طارق سے روایت کرنے میں اختلاف ہوا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۳۹۹)، (تحفة الأشراف: ۳۵۵۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَقَالَ: "إِنَّمَا يَزْرَعُ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ لَهُ أَرْضٌ فَهُوَ يَزْرَعُهَا أَوْ رَجُلٌ مُنِحَ أَرْضًا فَهُوَ يَزْرَعُ مَا مُنِحَ، أَوْ رَجُلٌ اسْتَكْرَى أَرْضًا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ". مَيَّزَهُ إِسْرَائِيلُ، عَنْ طَارِقٍ، فَأَرْسَلَ الْكَلَامَ الْأَوَّلَ، وَجَعَلَ الْأَخِيرَ مِنْ قَوْلِ سَعِيدٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ۱؎ اور فرمایا: "کھیتی تین طرح کے لوگ کرتے ہیں: ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو"۔ اس حدیث کو اسرائیل نے طارق سے روایت کرتے ہوئے دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ کر دیا ہے، پہلے ٹکڑے ۲؎ کو مرسلاً (بطور کلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) روایت کیا اور دوسرے ٹکڑے کو سعید بن مسیب کا قول بتایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۴۰۰)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۷ (۲۴۴۹)، (تحفة الأشراف: ۳۵۵۷)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۹۲۲-۳۹۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: محاقلہ سے مراد یہاں مزارعہ :(بٹائی ) پر دینا ہے اور مزابنہ سے مراد: درخت پر لگے کھجور یا انگور کا اندازہ کر کے اسے خشک کھجور یا انگور کے بدلے بیچنا ہے۔ ۲؎: پہلی بات سے مراد «نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المحاقلۃ والمزابنۃ» ہے اور آخری بات سے مراد «إنما یزرع ثلاثۃ، الیٰ آخرہ» ہے۔ یعنی: پہلی روایت میں آخری ٹکڑے کو درج کر کے اس کو مرفوع بنا دیا ہے، حالانکہ یہ سعید بن مسیب کا اپنا قول ہے، اسرائیل کی روایت جسے انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے، دونوں ٹکڑوں کو چھانٹ کر الگ الگ کر دیا ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ". قَالَ سَعِيدٌ: فَذَكَرَهُ نَحْوَهُ. رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ طَارِقٍ.
تابعی سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا، پھر راوی (اسرائیل) نے دوسری بات کو اسی طرح بیان کیا (یعنی دوسرا قول ابن المسیب کا ہے)، اسے طارق سے سفیان ثوری نے بھی روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۲۱ (حسن الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ ابْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ طَارِقٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: "لَا يُصْلِحُ الزَّرْعَ غَيْرُ ثَلَاثٍ أَرْضٍ يَمْلِكُ رَقَبَتَهَا، أَوْ مِنْحَةٍ، أَوْ أَرْضٍ بَيْضَاءَ يَسْتَأْجِرُهَا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ". وَرَوَى الزُّهْرِيُّ الْكَلَامَ الْأَوَّلَ عَنْ سَعِيدٍ فَأَرْسَلَهُ.
طارق کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے سنا: تین قسم کی زمینوں کے علاوہ میں کھیتی درست نہیں: وہ زمین جو کسی کی اپنی ملکیت ہو، یا وہ اسے عطیہ دی گئی ہو، یا وہ زمین جسے آدمی سونے چاندی کے بدلے کرائے پر لی ہو۔ زہری نے صرف پہلی بات سعید بن سعید سے مرسلاً روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۲۱ (صحیح)
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ". وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ لَبِيبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فَقَالَ: عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ.
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے محمد بن عبدالرحمٰن بن لبیبہ نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے اور «عن سعد بن أبي وقاص» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن مرفوع روایات سے تقویت پاکر صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ لَبِيبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ الْمَزَارِعِ يُكْرُونَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَزَارِعَهُمْ بِمَا يَكُونُ عَلَى السَّاقِي مِنَ الزَّرْعِ، فَجَاءُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَصَمُوا فِي بَعْضِ ذَلِكَ، فَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكْرُوا بِذَلِكَ، وَقَالَ: "أَكْرُوا بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ". وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ سُلَيْمَانُ، عَنْ رَافِعٍ، فَقَالَ: عَنْ رَجُلٍ مِنْ عُمُومَتِهِ.
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کھیتوں والے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے کھیت کرائیے پر اس اناج کے بدلے دیا کرتے تھے جو کھیتوں کی مینڈھوں پر ہوتا ہے۔ تو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اس سلسلے میں کسی چیز کے بارے میں انہوں نے جھگڑا کیا۔ تو آپ نے انہیں اس کے (غلہ کے) بدلے کرائے پر دینے سے منع فرما دیا اور فرمایا: "سونے چاندی کے بدلے کرائے پر دو"۔ اس حدیث کو سلیمان بن یسار نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے اپنے چچاؤں میں کسی چچا کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۱ (۳۳۹۱)، (تحفة الأشراف: ۳۸۶۰)، مسند احمد (۱/۱۷۸، ۱۸۲)، سنن الدارمی/البیوع ۷۵ (۲۶۶۰) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ’’محمد بن عکرمہ‘‘ لین الحدیث، اور ’’محمد بن عبدالرحمن بن لبیبہ‘‘ ضعیف)
أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: كُنَّا نُحَاقِلُ بِالْأَرْضِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُكْرِيهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالطَّعَامِ الْمُسَمَّى، فَجَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ رَجُلٌ مِنْ عُمُومَتِي، فَقَالَ: "نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا وَطَوَاعِيَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا، نَهَانَا أَنْ نُحَاقِلَ بِالْأَرْضِ، وَنُكْرِيَهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالطَّعَامِ الْمُسَمَّى، وَأَمَرَ رَبَّ الْأَرْضِ أَنْ يَزْرَعَهَا، أَوْ يُزْرِعَهَا، وَكَرِهَ كِرَاءَهَا". وَمَا سِوَى ذَلِكَ أَيُّوبُ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ يَعْلَى.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، ہم اسے تہائی یا چوتھائی یا غلہ کی متعینہ مقدار کے عوض کرائیے پر دیتے تھے۔ تو ایک دن میرے ایک چچا آئے اور انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے، آپ نے ہمیں زمین میں بٹائی کا معاملہ کر کے انہیں تہائی اور چوتھائی یا متعینہ مقدار کے غلے کے بدلے کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے۔ اور زمین کے مالک کو حکم دیا ہے کہ وہ اس میں کھیتی کرے، یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرائے پر اٹھانا یا اس کے علاوہ جو صورتیں ہوں انہیں ناپسند فرمایا۔ ایوب نے اس حدیث کو یعلیٰ سے نہیں سنا ہے، (بلکہ بذریعہ کتابت روایت کی ہے جیسا کہ اگلی سند سے ظاہر ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۱۸ (۲۳۴۶)، ۱۹ (۲۳۳۷)، صحیح مسلم/البیوع ۱۸ (۱۵۴۸)، سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۳۹۵)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۱۲ (۲۴۶۵)، (تحفة الأشراف: ۳۵۵۹، ۱۵۵۷۰)، مسند احمد (۳/۴۶۵، ۴/۱۶۹)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۹۲۷- ۳۹۲۹، ۳۹۴۰، ۳۹۴۱) (صحیح)
أَخْبَرَنِي زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ، إِنِّي سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ يُحَدِّثُ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: "كُنَّا نُحَاقِلُ الْأَرْضَ، نُكْرِيهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالطَّعَامِ الْمُسَمَّى". رَوَاهُ سَعِيدٌ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں بٹائی کا معاملہ کیا کرتے تھے، ہم اسے تہائی اور چوتھائی اور غلہ کی مقررہ مقدار کے بدلے کرائیے پر دیتے تھے۔ سعید نے بھی اسے یعلیٰ بن حکیم سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، قَالَ: كُنَّا نُحَاقِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَعَمَ أَنَّ بَعْضَ عُمُومَتِهِ أَتَاهُ، فَقَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا وَطَوَاعِيَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا، قُلْنَا: وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ لِيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلَا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ، وَلَا رُبُعٍ، وَلَا طَعَامٍ مُسَمًّى". رَوَاهُ حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ رَافِعٍ فَاخْتَلَفَ عَلَى رَبِيعَةَ فِي رِوَايَتِهِ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، پھر کہتے ہیں کہ ان کے ایک چچا ان کے پاس آئے اور بولے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چیز سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔ ہم نے کہا: وہ کیا چیز ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس کی کوئی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو کھیتی کرنے کے لیے (بلا کرایہ) دیدے، لیکن اسے تہائی، چوتھائی اور معینہ مقدار غلہ کے بدلے کرائے پر نہ دے"۔ اسے حنظلہ بن قیس نے بھی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور (حنظلہ سے روایت کرنے والے) ربیعہ کے تلامذہ نے ربیعہ سے روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۲۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي: "أَنَّهُمْ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يَنْبُتُ عَلَى الْأَرْبِعَاءِ وَشَيْءٍ مِنَ الزَّرْعِ يَسْتَثْنِي صَاحِبُ الْأَرْضِ، فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ". فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: فَكَيْفَ كِرَاؤُهَا بِالدِّينَارِ، وَالدِّرْهَمِ ؟ فَقَالَ رَافِعٌ: لَيْسَ بِهَا بَأْسٌ بِالدِّينَارِ، وَالدِّرْهَمِ. خَالَفَهُ الْأَوْزَاعِيُّ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے بدلے زمین کو بٹائی پر دیتے تھے جو پانی کی کیاریوں پر پیدا ہوتا تھا اور تھوڑی سی اس پیداوار کے بدلے جو زمین کا مالک مستثنی (الگ) کر لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا۔ میں نے رافع رضی اللہ عنہ سے کہا: تو دینار اور درہم سے کرائے پر دینا کیسا تھا؟ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: دینار اور درہم کے بدلے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اوزاعی نے لیث کی مخالفت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے جس میں "چچا" کا ذکر نہیں ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۲۶ (صحیح)
أَخْبَرَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالدِّينَارِ، وَالْوَرِقِ ؟ فَقَالَ: "لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَاجِرُونَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، فَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا، فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ". وَافَقَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَلَى إِسْنَادِهِ، وَخَالَفَهُ فِي لَفْظِهِ.
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دینار اور چاندی کے بدلے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ اس پیداوار کے بدلے کرائے دیا کرتے تھے جو کیاریوں اور نالیوں کے اوپر پیدا ہوتی ہے، تو کبھی اس جگہ پیداوار ہوتی اور دوسری جگہ نہیں ہوتی اور کبھی یہاں نہیں ہوتی اور دوسری جگہ ہوتی، لوگوں کا بٹائی پر دینے کا یہی طریقہ ہوتا، اس لیے اس پر زجر و توبیخ ہوئی۔ رہی معین چیز (پر بٹائی) جس کی ضمانت دی جا سکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے بھی اوزاعی کی سند میں (چچا کے نہ ذکر کرنے میں)موافقت کی ہے لیکن الفاظ میں مخالفت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۷ (۲۳۲۷)، ۱۲ (۲۳۳۲)، ۱۹(۲۳۴۶)، الشروط ۷ (۲۷۲۲)، صحیح مسلم/البیوع ۱۹ (۱۵۴۷)، سنن ابی داود/البیوع ۳۱ (۳۳۹۲)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۹ (۲۴۵۸) (تحفة الأشراف: ۳۵۵۳)، مسند احمد (۳/۴۶۳، ۴/۱۴۰، ۱۴۲)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۹۳۱-۳۹۳۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ ؟ فَقَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". قُلْتُ: بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ؟ قَالَ: "لَا، إِنَّمَا نَهَى عَنْهَا بِمَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْفِضَّةُ فَلَا بَأْسَ". رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَبِيعَةَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے روکا ہے، میں نے کہا: سونے، چاندی کے بدلے؟ کہا: نہیں (اس سے نہیں روکا ہے)۔ آپ نے تو اس سے صرف اس کی پیداوار کے بدلے روکا ہے۔ رہا سونا اور چاندی (کے بدلے کرایہ پر دینا) تو اس میں کوئی حرج نہیں سفیان ثوری نے بھی اسے ربیعہ سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ وَكِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، فَقَالَ: "حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ ذَلِكَ فَرْضُ الْأَرْضِ". رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، وَرَفَعَهُ. كَمَا رَوَاهُ مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ.
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے، چاندی کے بدلے صاف زمین کرائے پر اٹھانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: حلال ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، یہ زمین کا حق ہے۔ یحییٰ بن سعید نے بھی اسے حنظلہ بن قیس سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع کیا ہے جیسا کہ مالک نے ربیعہ سے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر أیضا حدیث رقم: ۳۹۳۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: "نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ أَرْضِنَا وَلَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ ذَهَبٌ وَلَا فِضَّةٌ، فَكَانَ الرَّجُلُ يُكْرِي أَرْضَهُ بِمَا عَلَى الرَّبِيعِ، وَالْأَقْبَالِ، وَأَشْيَاءَ مَعْلُومَةٍ وَسَاقَهُ". رَوَاهُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَاخْتُلِفَ عَلَى الزُّهْرِيِّ فِيهِ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا، اس وقت سونا اور چاندی (زیادہ) نہیں تھا۔ تو آدمی اپنی زمین کیاریوں اور نالیوں پر ہونے والی پیداوار اور متعین چیزوں کے بدلے کرایہ پر دیتا تھا۔ اسے سالم بن عبداللہ بن عمر نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور اس میں زہری پر اختلاف ہوا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۳۰ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِالزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَذَكَرَ نَحْوَهُ. تَابَعَهُ عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ.
زہری سے روایت ہے کہ سالم بن عبداللہ نے کہا، اور پھر اسی طرح روایت بیان کی، اور (اس روایت میں) عقیل بن خالد نے مالک کی متابعت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۳۹۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۷۱)، مسند احمد (۳/۴۶۵، ۱۴۳)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۹۳۵، ۳۹۳۶، ۳۹۳۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يُكْرِي أَرْضَهُ، حَتَّى بَلَغَهُ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ كَانَ يَنْهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ، فَلَقِيَهُ عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ خَدِيجٍ مَاذَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِرَاءِ الْأَرْضِ ؟ فَقَالَ رَافِعٌ لِعَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ عَمَّيَّ وَكَانَا قَدْ شَهِدَا بَدْرًا، يُحَدِّثَانِ أَهْلَ الدَّارِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَرْضَ تُكْرَى، ثُمَّ خَشِيَ عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ يَعْلَمُهُ، فَتَرَكَ كِرَاءَ الْأَرْضِ. أَرْسَلَهُ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ.
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کرائے پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکتے ہیں، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے ملاقات کی اور کہا: ابن خدیج! زمین کو کرائے پر اٹھانے کے بارے میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نقل کرتے ہیں؟ تو رافع رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: میں نے اپنے دو چچاؤں کو (کہتے) سنا (ان دونوں نے بدر میں شرکت کی تھی) وہ دونوں گھر والوں سے بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جانتا تھا کہ زمین کرائے پر اٹھائی جا سکتی ہے، پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خوف ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کوئی ایسی نئی بات کہی ہو گی جسے وہ نہ جان سکے ہوں، چنانچہ انہوں نے زمین کو کرائے پر اٹھانا چھوڑ دیا۔ اسے شعیب بن ابی حمزہ نے مرسلاً روایت کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شعیب نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے: «عن الزھری قال بلغنا أن رافع بن خدیج» جب کہ آگے روایت آ رہی ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍكَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ عَمَّيْهِ، وَكَانَا يَزْعُمُ شَهِدَا بَدْرًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". رَوَاهُ عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعَيْبٍ وَلَمْ يَذْكُرْ عَمَّيْهِ.
زہری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اپنے دو چچاؤں سے جو ان کے خیال میں غزوہ بدر میں شریک تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔ اسے عثمان بن سعید نے بھی شعیب سے روایت کیا ہے اور اس میں ان کے دونوں چچاؤں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۳۴(صحیح) (سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ روایت صحیح نہیں ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَانَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ: لَيْسَ بِاسْتِكْرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ بَأْسٌ، وَكَانَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ ذَلِكَ"، وَافَقَهُ عَلَى إِرْسَالِهِ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ الْحَارِثِ.
زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کہتے تھے: سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرائے پر اٹھانے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ عبدالکریم بن حارث نے اس کے مرسل ہونے میں ان کی موافقت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۵۸۰) (صحیح) (یہ روایت منقطع ہے، زہری کی رافع رضی الله عنہ سے ملاقات نہیں ہے، لیکن سابقہ متابعات کی وجہ سے صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو خُزَيْمَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَرِيفٍ، عَنْعَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ"ابْنُ شِهَابٍ: فَسُئِلَ رَافِعٌ بَعْدَ ذَلِكَ: كَيْفَ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ ؟، قَالَ: "بِشَيْءٍ مِنَ الطَّعَامِ مُسَمًّى، وَيُشْتَرَطُ أَنَّ لَنَا مَا تُنْبِتُ مَاذِيَانَاتُ الْأَرْضِ وَأَقْبَالُ الْجَدَاوِلِ". رَوَاهُ نَافِعٌ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَاخْتُلِفَ عَلَيْهِ فِيهِ.
۱؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔شرافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ زہری کہتے ہیں: اس کے بعد رافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: وہ لوگ زمین کو کرائے پر کیوں کر اٹھاتے تھے؟ وہ بولے: غلے کی متعینہ مقدار کے بدلے میں اور اس بات کی شرط ہوتی تھی کہ ہمارے لیے وہ بھی ہو گا جو زمین میں کیاریوں اور نالیوں پر پیدا ہوتا ہے۔ اسے نافع نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی روایت میں ان کے شاگردوں میں اختلاف ہوا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت بھی منقطع ہے، لیکن سابقہ متابعت سے تقویت پاکر صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّ عُمُومَتَهُ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعُوا فَأَخْبَرُوا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَدْ عَلِمْنَا أَنَّهُ كَانَ كُلُّ صَاحِبَ مَزْرَعَةٍ يُكْرِيهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ لَهُ مَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي الَّذِي يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْمَاءُ، وَطَائِفَةٌ مِنَ التِّبْنِ لَا أَدْرِي كَمْ هِيَ ؟. رَوَاهُ ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، فَقَالَ: عَنْ بَعْضِ عُمُومَتِهِ.
نافع کا بیان ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی کہ ہمارے چچا لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، پھر واپس آ کر خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہمیں معلوم ہے کہ وہ (رافع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں زمین والے تھے، اور اسے کرائے پر اس شرط پر دیتے تھے کہ جو کچھ اس کی کیاریوں کے کناروں پر جہاں سے پانی ہو کر گزرتا ہے پیدا ہو گا اور کچھ گھاس (چارہ) جس کی مقدار انہیں معلوم نہیں ان کی ہو گی۔ اسے ابن عون نے بھی نافع سے روایت کیا ہے لیکن اس میں :(«عمومتہ» کے بجائے)«بعض عمومتہ» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۳۵ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَأْخُذُ كِرَاءَ الْأَرْضِ، فَبَلَغَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ شَيْءٌ، فَأَخَذَ بِيَدِي، فَمَشَى إِلَى رَافِعٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَحَدَّثَهُ رَافِعٌ، عَنْ بَعْضِ عُمُومَتِهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ"، فَتَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدُ.
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما زمین کا کرایہ لیتے تھے، انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی کوئی بات سننے کو ملی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور رافع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور میں ان کے ساتھ تھا، تو رافع رضی اللہ عنہ نے ان سے اپنے کسی چچا سے روایت کرتے ہوئے (یہ حدیث بیان کی) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے ترک کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۲۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ كِرَاءَ الْأَرْضِ حَتَّى حَدَّثَهُ رَافِعٌ، عَنْ بَعْضِ عُمُومَتِهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ"، فَتَرَكَهَا بَعْدُ. رَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ رَافِعٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ عُمُومَتَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ زمین کا کرایہ لیتے تھے، یہاں تک کہ رافع رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی چچا سے روایت کرتے ہوئے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائیے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اسے ترک کر دیا۔ اسے ایوب نے نافع سے، انہوں نے رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ان کے چچاؤں کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۲۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكْرِي مَزَارِعَهُ، حَتَّى بَلَغَهُ فِي آخِرِ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يُخْبِرُ فِيهَا بِنَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ وَأَنَا مَعَهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، فَتَرَكَهَا ابْنُ عُمَرَ بَعْدُ فَكَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْهَا، قَالَ: زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا. وَافَقَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَكَثِيرُ بْنُ فَرْقَدٍ، وَجُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ.
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کھیت کرایہ پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں انہیں معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت نقل کرتے ہیں تو وہ ان کے پاس آئے، میں ان کے ساتھ تھا، انہوں نے رافع سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرماتے تھے۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے ترک کر دیا، پھر جب ان سے اس کے متعلق پوچھا جاتا تو کہتے کہ رافع رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ ایوب کی موافقت عبیداللہ بن عمر، کثیر بن فرقد اور جویریہ بن اسماء نے بھی کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإجارة ۲۲ (۲۲۸۵)، الحرث ۱۸ (۲۳۴۳)، صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۴۸)، سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۳۹۴ تعلیقًا)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۸ (۲۴۳)، (تحفة الأشراف: ۳۵۸۶)، مسند احمد (۲/۶۴، ۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴/۱۴۰)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۹۴۳-۳۹۴۶) (صحیح)
أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ بْنِ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ فَرْقَدٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُكْرِي الْمَزَارِعَ، فَحُدِّثَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يَأْثُرُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، قَالَ نَافِعٌ: فَخَرَجَ إِلَيْهِ عَلَى الْبَلَاطِ وَأَنَا مَعَهُ فَسَأَلَهُ ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، فَتَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ كِرَاءَهَا.
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کھیتوں کو کرائیے پر دیتے تھے، ان سے کہا گیا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مقام بلاط کی طرف نکلے، میں ان کے ساتھ تھا، تو آپ نے رافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے روکا ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے کرائے پر دینا چھوڑ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۴۲ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلًا أَخْبَرَ ابْنَ عُمَرَ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يَأْثُرُ فِي كِرَاءِ الْأَرْضِ حَدِيثًا، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ أَنَا، وَالرَّجُلُ الَّذِي أَخْبَرَهُ، حَتَّى أَتَى رَافِعًا فَأَخْبَرَهُ رَافِعٌ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ"، فَتَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ كِرَاءَ الْأَرْضِ.
نافع سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بتایا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کرائے پر دینے کے سلسلے میں حدیث بیان کرتے ہیں، تو میں اور وہ شخص جس نے انہیں بتایا تھا ان کے ساتھ چلے یہاں تک کہ وہ رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے زمین کرائے پر اٹھانی چھوڑ دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۴۲ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍحَدَّثَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ".
نافع سے روایت ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۴۲ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ عِنَانٍ، عَنْنَافِعٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ: قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكْرِي أَرْضَهُ بِبَعْضِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَبَلَغَهُ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يَزْجُرُ عَنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ قَبْلَ أَنْ نَعْرِفَ رَافِعًا ثُمَّ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي حَتَّى دُفِعْنَا إِلَى رَافِعٍ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ فَقَالَ رَافِعٌ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا تُكْرُوا الْأَرْضَ بِشَيْءٍ".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کو اس میں پیدا ہونے والے غلہ کے بعض حصے کے بدلے کرائے پر دیتے تھے، پھر انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اس سے روکتے اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رافع رضی اللہ عنہ کو جاننے سے پہلے ہم زمین کرائے پر اٹھاتے تھے۔ پھر آپ نے اپنے دل میں کچھ محسوس کیا، تو اپنا ہاتھ میرے مونڈھے پر رکھا یہاں تک کہ ہم رافع کے پاس جا پہنچے، پھر ابن عمر نے رافع سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کرائے پر دینے سے منع فرماتے سنا ہے؟ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ "کسی چیز کے بدلے زمین کرائے پر نہ دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۳۹۴۲ (شاذ) (اس روایت میں ’’ بشیٔ ‘‘ کا لفظ شاذ ہے، باقی باتیں صحیح ہیں)
وضاحت: ۱؎: «بشیٔ» :(کسی چیز کے بدلے ) کا لفظ شاذ ہے، کیونکہ سونے چاندی کے عوض زمین کو کرایہ پر دینے کی بات صحیح اور ثابت ہے۔
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، وَنَافِعٍ أخبراه، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". رَوَاهُ ابْنُ عُمَرَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ. وَاخْتُلِفَ عَلَى عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور (اس روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت کرنے والے) عمرو بن دینار سے روایت میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۵۷۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: كُنَّا نُخَابِرُ وَلَا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتَّى زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ مخابرہ کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۴۷)، سنن ابی داود/ البیوع ۳۱ (۳۳۸۹)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۸ (۲۴۵۰)، (تحفة الأشراف: ۳۵۶۶)، مسند احمد (۱/۲۳۴، ۲/۱۱، ۳/۴۶۳، ۴۶۵، ۴/۱۴۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہاں " مخابرہ " سے مراد: بٹائی کا وہی معاملہ ہے جس کی تشریح حدیث نمبر ۳۸۹۳ کے حاشیہ میں گزری، یعنی: زمین کے بعض خاص حصوں میں پیدا ہونے والی پیداوار پر بٹائی کرنا، نہ کہ مطلق پیدا وار کے آدھا پر، جو جائز ہے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ، يَقُولُ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، وَهُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْخِبْرِ، فَيَقُولُ: مَا كُنَّا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتَّى أَخْبَرَنَا عَامَ الْأَوَّلِ، ابْنُ خَدِيجٍ أَنَّهُ سَمِعَ"النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْخِبْرِ". وَافَقَهُمَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ.
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار کو کہتے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا اور وہ مخابرہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ ہمیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے (خلافت یزید کے) پہلے سال ۱؎ میں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخابرہ سے منع فرماتے سنا ہے۔ ان دونوں (سفیان و ابن جریج) کی موافقت حماد نے کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظرماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری دور خلافت کا ہے، اس لیے پہلے سال سے مراد یزید کی خلافت کا پہلا سال ہے۔ :(واللہ اعلم )
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: كُنَّا لَا نَرَى بِالْخِبْرِ بَأْسًا حَتَّى كَانَ عَامَ الْأَوَّلِ فَزَعَمَ رَافِعٌ أَنَّ"نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ". خَالَفَهُ عَارِمٌ، فَقَالَ: عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ،
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم مخابرہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب پہلا سال ہوا تو رافع رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ «عارم» محمد بن فضل نے یحییٰ بن عربی کی مخالفت کی ہے۔ اور اسے بسند «عن حماد عن عمرو عن جابر» روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۹۴۸ (صحیح)
قَالَ: حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَارِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ محمد بن مسلم طائفی نے حماد کی متابعت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۵۱۸)، مسند احمد (۳/۳۳۸، ۳۸۹) (صحیح) (اس کے راوی ’’عارم محمد بن الفضل‘‘ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے، اور امام نسائی نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی تھی، لیکن سابقہ متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے )
وضاحت: ۱؎: یہاں بھی کرایہ پر دینے سے مراد زمین کے بعض حصوں کی پیداوار کے بدلے کرایہ پر دینا ہے، نہ کہ روپیہ پیسے، یا سونا چاندی کے بدلے، جو کہ اجماعی طور پر جائز ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُخَابَرَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ". جَمَعَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ الْحَدِيثَيْنِ، فَقَالَ: عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ، محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے دونوں حدیثوں کو جمع کر کے ہے اور«عن ابن عمر و جابر» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۵۶۵) (صحیح) (اس کے راوی ’’ محمد بن مسلم ‘‘ حافظہ کے قدرے کمزور تھے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَنَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ". رَوَاهُ أَبُو النَّجَاشِيِّ عَطَاءُ بْنُ صُهَيْبٍ، وَاخْتُلِفَ عَلَيْهِ فِيهِ.
عبداللہ بن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ اس کا پختہ ہو جانا واضح ہو جائے۔ نیز آپ نے مخابرہ یعنی زمین کو تہائی یا چوتھائی (پیداوار) کے بدلے کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اسے ابوالنجاشی عطاء بن صہیب نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں ان سے روایت میں ان کے تلامذہ نے اختلاف کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، تحفة الأشراف: ۲۵۳۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الطَّبَرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بَحْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّجَاشِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَافِعٍ: "أَتُؤَاجِرُونَ مَحَاقِلَكُمْ ؟"، قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُؤَاجِرُهَا عَلَى الرُّبُعِ وَعَلَى الْأَوْسَاقِ مِنَ الشَّعِيرِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَفْعَلُوا ازْرَعُوهَا، أَوْ أَعِيرُوهَا، أَوِ امْسِكُوهَا". خَالَفَهُ الْأَوْزَاعِيُّ، فَقَالَ: عَنْ رَافِعٍ، عَنْ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "کیا تم اپنے کھیتوں کو اجرت پر دیتے ہو؟" میں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ہم انہیں چوتھائی اور کچھ وسق جو پر بٹائی دیتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، ان میں کھیتی کرو یا عاریتاً کسی کو دے دو، یا اپنے پاس رکھو"۔ اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر کی مخالفت کی ہے اور «عن رافع عن ظہیر بن رافع» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۸ (۱۵۴۸) سنن ابی داود/البیوع ۳۲ (۳۳۹۴ تعلیقًا)، (تحفة الأشراف: ۳۵۷۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي النَّجَاشِيِّ، عَنْ رَافِعٍ، قَالَ: أَتَانَاظُهَيْرُ بْنُ رَافِعٍ، فَقَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا رَافِقًا، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ: أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَقٌّ، سَأَلَنِي: "كَيْفَ تَصْنَعُونَ فِي مَحَاقِلِكُمْ ؟". قُلْتُ: نُؤَاجِرُهَا عَلَى الرُّبُعِ وَالْأَوْسَاقِ مِنَ التَّمْرِ أَوِ الشَّعِيرِ. قَالَ: "فَلَا تَفْعَلُوا ازْرَعُوهَا، أَوْ أَزْرِعُوهَا، أَوِ امْسِكُوهَا". رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ رَافِعٍ فَجَعَلَ الرِّوَايَةَ لِأَخِي رَافِعٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس (ہمارے چچا) ظہیر بن رافع رضی اللہ عنہ نے آ کر کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو ہمارے لیے مفید و مناسب تھی۔ میں نے کہا: وہ کیا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور وہ سچا (برحق) ہے، آپ نے مجھ سے پوچھا: "تم اپنے کھیتوں کا کیا کرتے ہو؟" میں نے عرض کیا: ہم انہیں چوتھائی پیداوار اور کچھ وسق کھجور یا جو کے بدلے کرائے پر اٹھا دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تم ایسا نہ کرو، یا تو ان میں خود کھیتی کرو یا پھر دوسروں کو کرنے کے لیے دے دو، یا انہیں یوں ہی روکے رکھو"۔ بکیر بن عبداللہ بن اشج نے اسے اسید بن رافع سے روایت کیا ہے، اور اسے رافع کے بھائی سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث۱۸(۲۳۳۹)، صحیح مسلم/البیوع۱۸(۱۵۴۸)، سنن ابن ماجہ/الرہون۱۰(۲۴۵۹)، (تحفة الأشراف: ۵۰۲۹)، مسند احمد (۱/۱۶۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ لَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ أَخَا رَافِعٍ، قَالَ لِقَوْمِهِ: قَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ عَنْ شَيْءٍ كَانَ لَكُمْ رَافِقًا وَأَمْرُهُ طَاعَةٌ وَخَيْرٌ: "نَهَى عَنِ الْحَقْلِ".
اسید بن رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رافع کے بھائی نے اپنے قبیلے سے کہا: آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز سے منع فرمایا ہے، جو تمہارے لیے سود مند تھی اور آپ کا حکم ماننا واجب، آپ نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۱) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: سَمِعْتُ أُسَيْدَ بْنَ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ الْأَنْصَارِيَّ يَذْكُرُ: "أَنَّهُمْ مَنَعُوا الْمُحَاقَلَةَ وَهِيَ أَرْضٌ تُزْرَعُ عَلَى بَعْضِ مَا فِيهَا". رَوَاهُ عِيسَى بْنُ سَهْلِ بْنِ رَافِعٍ.
عبدالرحمٰن بن ہرمز کہتے ہیں کہ میں نے اسید بن رافع بن خدیج انصاری کو بیان کرتے سنا کہ انہیں (یعنی صحابہ کو) بیع محاقلہ سے روک دیا گیا ہے، بیع محاقلہ یہ ہے کہ زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کھیتی کرنے کے لیے دے دیا جائے۔ اسے عیسیٰ بن سہل بن رافع نے بھی روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي شُجَاعٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ سَهْلِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: إِنِّي لَيَتِيمٌ فِي حَجْرِ جَدِّي رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَبَلَغْتُ رَجُلًا، وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَجَاءَ أَخِي عِمْرَانُ بْنُ سَهْلِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، فَقَالَ: يَا أَبَتَاهُ، إِنَّهُ قَدْ أَكْرَيْنَا أَرْضَنَا فُلَانَةَ بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ. فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، دَعْ ذَاكَ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَيَجْعَلُ لَكُمْ رِزْقًا غَيْرَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ".
عیسیٰ بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ میں یتیم تھا اور اپنے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی گود میں پرورش پا رہا تھا، میں جوان ہوا اور میں نے ان کے ساتھ حج کیا تو میرے بھائی عمران بن سہل بن رافع بن خدیج آئے اور کہا: اے ابا جان (دادا جان)! ہم نے اپنی زمین فلاں عورت کو دو سو درہم پر کرائے پردے دی ہے۔ انہوں نے کہا: میرے بیٹے! اسے چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے علاوہ روزی دے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے روک دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع۳۲(۳۴۰۱)، (تحفة الأشراف: ۳۵۶۹) (شاذ) (اس کے راوی ’’ عیسیٰ بن سہل ‘‘ لین الحدیث ہیں اور اس میں شاذ بات یہ ہے کہ اس میں مطلق کرایہ پر دینے سے ممانعت ہے، جب کہ خود رافع رضی الله عنہ کی اس روایت کے کئی طرق میں سونا چاندی پر کرایہ پر دینے کی اجازت مذکور ہے)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَا وَاللَّهِ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، إِنَّمَا كَانَا رَجُلَيْنِ اقْتَتَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنُكُمْ فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ". فَسَمِعَ قَوْلَهُ: "لَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرمائے۔ اللہ کی قسم! میں یہ حدیث ان سے زیادہ جانتا ہوں، دو آدمی جھگڑ پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تمہارا یہ حال ہے تو تم کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو"، تو رافع نے آپ کا صرف یہ قول سن لیا کہ "کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۱ (۳۳۹۰)، سنن ابن ماجہ/ الرہون ۱۰(۲۴۶۱)، (تحفة الأشراف: ۳۷۳۰)، مسند احمد (۵/۱۸۲، ۱۸۷) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابو عبیدة‘‘ لین الحدیث ہیں اور ’’الولید بن ابی الولید‘‘ ضعیف ہیں)
قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كِتَابَةُ مُزَارَعَةٍ عَلَى أَنَّ الْبَذْرَ وَالنَّفَقَةَ عَلَى صَاحِبِ الْأَرْضِ وَلِلْمُزَارِعِ رُبُعُ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهَا، هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلَانُ بْنُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفُلَانِ بْنِ فُلَانٍ إِنَّكَ دَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ الَّتِي بِمَوْضِعِ كَذَا فِي مَدِينَةِ كَذَا مُزَارَعَةً وَهِيَ الْأَرْضُ الَّتِي تُعْرَفُ بِكَذَا وَتَجْمَعُهَا حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ يُحِيطُ بِهَا كُلِّهَا وَأَحَدُ تِلْكَ الْحُدُودِ بِأَسْرِهِ لَزِيقُ كَذَا، وَالثَّانِي وَالثَّالِثُ وَالرَّابِعُ دَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ هَذِهِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِحُدُودِهَا الْمُحِيطَةِ بِهَا وَجَمِيعِ حُقُوقِهَا وَشِرْبِهَا وَأَنْهَارِهَا وَسَوَاقِيهَا أَرْضًا بَيْضَاءَ فَارِغَةً لَا شَيْءَ فِيهَا مِنْ غَرْسٍ، وَلَا زَرْعٍ سَنَةً تَامَّةً أَوَّلُهَا مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا وَآخِرُهَا انْسِلَاخُ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَلَى أَنْ أَزْرَعَ جَمِيعَ هَذِهِ الْأَرْضِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ الْمَوْصُوفُ مَوْضِعُهَا فِيهِ هَذِهِ السَّنَةَ الْمُؤَقَّتَةَ فِيهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا كُلَّ مَا أَرَدْتُ وَبَدَا لِي أَنْ أَزْرَعَ فِيهَا مِنْ حِنْطَةٍ، وَشَعِيرٍ، وَسَمَاسِمَ، وَأُرْزٍ، وَأَقْطَانٍ، وَرِطَابٍ، وَبَاقِلَّا، وَحِمَّصٍ، وَلُوبْيَا، وَعَدَسٍ، وَمَقَاثِي، وَمَبَاطِيخَ، وَجَزَرٍ، وَشَلْجَمٍ، وَفُجْلٍ، وَبَصَلٍ، وَثُومٍ، وَبُقُولٍ، وَرَيَاحِينَ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ الْغَلَّاتِ شِتَاءً وَصَيْفًا بِبُزُورِكَ، وَبَذْرِكَ وَجَمِيعُهُ عَلَيْكَ دُونِي عَلَى أَنْ أَتَوَلَّى ذَلِكَ بِيَدِي وَبِمَنْ أَرَدْتُ مِنْ أَعْوَانِي وَأُجَرَائِي وَبَقَرِي وَأَدَوَاتِي وَإِلَى زِرَاعَةِ ذَلِكَ وَعِمَارَتِهِ وَالْعَمَلِ بِمَا فِيهِ نَمَاؤُهُ وَمَصْلَحَتُهُ وَكِرَابُ أَرْضِهِ وَتَنْقِيَةُ حَشِيشِهَا، وَسَقْيِ مَا يُحْتَاجُ إِلَى سَقْيِهِ مِمَّا زُرِعَ، وَتَسْمِيدِ مَا يُحْتَاجُ إِلَى تَسْمِيدِهِ، وَحَفْرِ سَوَاقِيهِ وَأَنْهَارِهِ وَاجْتِنَاءِ مَا يُجْتَنَى مِنْهُ وَالْقِيَامِ بِحَصَادِ مَا يُحْصَدُ مِنْهُ وَجَمْعِهِ وَدِيَاسَةِ مَا يُدَاسُ مِنْهُ وَتَذْرِيَتِهِ بِنَفَقَتِكَ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ دُونِي وَأَعْمَلَ فِيهِ كُلِّهِ بِيَدِي وَأَعْوَانِي دُونَكَ عَلَى أَنَّ لَكَ مِنْ جَمِيعِ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَلَكَ ثَلَاثَةُ أَرْبَاعِهِ بِحَظِّ أَرْضِكَ وَشِرْبِكَ وَبَذْرِكَ وَنَفَقَاتِكَ وَلِي الرُّبُعُ الْبَاقِي مِنْ جَمِيعِ ذَلِكَ بِزِرَاعَتِي وَعَمَلِي وَقِيَامِي عَلَى ذَلِكَ بِيَدِي وَأَعْوَانِي وَدَفَعْتَ إِلَيَّ جَمِيعَ أَرْضِكَ هَذِهِ الْمَحْدُودَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِجَمِيعِ حُقُوقِهَا وَمَرَافِقِهَا، وَقَبَضْتُ ذَلِكَ كُلَّهُ مِنْكَ يَوْمَ كَذَا مِنْ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا فَصَارَ جَمِيعُ ذَلِكَ فِي يَدِي لَكَ لَا مِلْكَ لِي فِي شَيْءٍ مِنْهُ وَلَا دَعْوَى وَلَا طَلِبَةَ إِلَّا هَذِهِ الْمُزَارَعَةَ الْمَوْصُوفَةَ فِي هَذَا الْكِتَابِ فِي هَذِهِ السَّنَةِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ، فَإِذَا انْقَضَتْ فَذَلِكَ كُلُّهُ مَرْدُودٌ إِلَيْكَ وَإِلَى يَدِكَ وَلَكَ أَنْ تُخْرِجَنِي بَعْدَ انْقِضَائِهَا مِنْهَا وَتُخْرِجَهَا مِنْ يَدِي وَيَدِ كُلِّ مَنْ صَارَتْ لَهُ فِيهَا يَدٌ بِسَبَبِي أَقَرَّ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَكُتِبَ هَذَا الْكِتَابُ نُسْخَتَيْنِ.
ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: بٹائی کے معاملات کو (اس طرح) لکھنا چاہیئے کہ بیج اور اس کا خرچ زمین کے مالک پر ہو گا اور کھیتی کرنے والے کے لیے کھیتی میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پیداوار کا چوتھائی حصہ ہو گا ۱؎۔ یہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے فلاں بن فلاں کے لیے لکھی ہے، صحت و تندرستی کی حالت میں لکھا اور اس حال میں جب اس کے احکام نافذ ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنی ساری زمین جو فلاں مقام پر فلاں علاقے میں ہے مجھے بٹائی پر دی، اور یہ وہ زمین ہے جس کی پہچان یہ ہے: اس کی چوحدی یہ ہے کہ ان میں سے ایک فلاں مقام سے لگی ہوئی ہے، اسی طرح پھر دوسری، تیسری اور چوتھی حد بیان کرے۔ اس کتاب میں مذکور تمام حدود والی اپنی پوری زمین آپ نے مجھے دے دی۔ اور اس کے سارے حقوق، اس کا پانی، اس کی نہریں، اور نالیاں دے دیں، ایک ایسی زمین جو ہر چیز سے خالی ہے، نہ اس میں کھیتی ہے، نہ کوئی پودا، پورے ایک سال کے لیے جو فلاں سال، فلاں مہینے کی ابتداء سے شروع ہو گا، اور اس معاہدے کا اختتام فلاں سن کے فلاں مہینے کے خاتمے تک ہو گا۔ اس شرط پر کہ یہ پوری زمین جس کی حدیں اس معاہدہ میں بیان کی گئی ہیں اور جو فلاں مقام میں ہے اسے میں نے معینہ سال کے لیے شروع سے آخر تک کھیتی کے لیے لی، اور اس میں جب چاہوں اور جو چاہوں میں کھیتی کروں۔ گیہوں، جو، تل، چاول، روئی، کھجوریں، ساگ، چنا، لوبیا، مسور، کھیرا ککڑی، خربوزہ، گاجر، شلجم، مولی، پیاز، لہسن، یا ساگ یا بیل پھول وغیرہ، یعنی گرمی و سردی کے سارے غلے، اس طرح کہ بیج آپ کا ہو گا اور اس کی ساری محنت میری ہو گی، میرے ہاتھ کی یا اس کی جسے میں چاہوں اپنے دوستوں، مزدوروں اور بیل و ہل وغیرہ میں سے، میں اس میں کھیتی کروں گا، اسے آباد کروں گا اور ایسا کام کروں گا کہ اس سے نشو و نما ہو، وہ درست رہے، زمین میں ہل جوتوں گا، اس کی گھاس صاف کروں گا۔ اگی ہوئی کھیتی میں جسے پانی کی ضرورت ہو گی اس کی سینچائی کروں گا، اور جہاں کھاد کی ضرورت ہو گی کھاد ڈالوں گا، اس کی نالیاں اور نہریں کھودوں گا اور جو پھل توڑنا ضروری ہو گا اسے توڑوں گا۔ اور جس کھیتی کا کاٹنا ضروری ہو گا کاٹوں گا اور اکٹھا کروں گا اور جس فصل کی کٹائی ضروری ہو گی اسے کٹواؤں گا اور اس پر جو کچھ خرچ ہو گا وہ آپ کے ذمے ہو گا، نہ کہ میرے، اور یہ سب کام میں اپنے ہاتھ سے کروں گا یا اپنے مدد گاروں کے ذریعے نہ کہ آپ کی مدد سے، اس شرط پر کہ اس عہد نامے میں اس کے شروع سے لے کر آخر تک جو مدت ذکر کی گئی ہے اس پوری مدت میں جو اللہ تعالیٰ اس کھیت میں سے اگائے گا آپ کے لیے تین چوتھائی حصہ ہو گا، اس لیے کہ زمین آپ کی تھی، بیج آپ کا تھا اور خرچہ بھی آپ نے کیا تھا، اور میرے لیے اس پورے میں سے باقی چوتھائی حصہ ہو گا اس لیے کہ میں نے کھیتی کی، کام کیا اور اپنے ہاتھ سے اور اپنے کے مدد گاروں کے ہاتھ سے اسے سر کیا، اور آپ نے وہ پوری زمین جس کی حدود اس عہد نامے میں بیان کی گئی ہیں میرے حوالے کی، اس کے تمام حقوق اور لوازمات کے ساتھ اور میں نے یہ زمین آپ سے اپنے قبضے میں لی، فلاں سال کے فلاں ماہ کے فلاں دن سے۔ تو یہ پوری کی پوری میرے ہاتھ میں ہے جو آپ کی ہے، میری اس میں نہ کوئی ملکیت ہے اور نہ ہی کوئی دعویٰ اور نہ ہی کوئی مطالبہ، سوائے اس فصل اور پیداوار کے جو اس معینہ سال میں اس عہد نامے میں ذکر کی گئی ہے، اور جب مدت پوری ہو گی تو یہ پوری زمین آپ کو لوٹا دی جائے گی، وہ آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور مدت گزرنے کے بعد آپ کو اختیار ہو گا کہ آپ مجھے اس میں سے نکال دیں اور اسے میرے ہاتھ سے نکال لیں اور ہر اس شخص کے ہاتھ سے جس کا میری وجہ سے اس میں کوئی دخل تھا۔ فلاں اور فلاں نے یہ طے کیا، اور عہد نامہ کی دو کاپیاں لکھی گئیں۔
وضاحت: بیج اور دیگر سارے اخراجات زمین کے مالک کی طرف سے اٹھانے کی صورت میں پیداوار کا تین حصہ مالک کا ہو گا اور ایک حصہ کاشت کار کا، اور اگر بیج اور دیگر سارے اخراجات کاشتکار برداشت کرے تو مالک کو پیداوار کا آدھا ملے گا، جیسا کہ خیبر کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم نے کیا تھا (دیکھئے حدیث نمبر ۳۹۶۱۱) ایسا بالکل نہیں ہے کہ بہر حال بیج و اخراجات صرف مالک پر ہوں تب ہی بٹائی کا معاملہ جائز ہے۔ جیسا کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے۔ مذکورہ حدیث سے ان کے قول کی تردید ہوتی ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدٌ، يَقُولُ: "الْأَرْضُ عِنْدِي مِثْلُ مَالِ الْمُضَارَبَةِ فَمَا صَلُحَ فِي مَالِ الْمُضَارَبَةِ صَلُحَ فِي الْأَرْضِ، وَمَا لَمْ يَصْلُحْ فِي مَالِ الْمُضَارَبَةِ لَمْ يَصْلُحْ فِي الْأَرْضِ"، قَالَ: وَكَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَدْفَعَ أَرْضَهُ إِلَى الْأَكَّارِ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ فِيهَا بِنَفْسِهِ، وَوَلَدِهِ، وَأَعْوَانِهِ، وَبَقَرِهِ، وَلَا يُنْفِقَ شَيْئًا، وَتَكُونَ النَّفَقَةُ كُلُّهَا مِنْ رَبِّ الْأَرْضِ.
ابن عون کہتے ہیں کہ محمد (محمد بن سیرین) کہا کرتے تھے: میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے، تو جو کچھ مضاربت کے مال میں درست ہے، وہ زمین میں بھی درست ہے، اور جو مضاربت کے مال میں درست نہیں، وہ زمین میں بھی درست نہیں، وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زمین کاشتکار کے حوالے کر دیں اس شرط پر کہ وہ (کاشتکار) خود اپنے آپ، اس کے لڑکے، اس کے دوسرے معاونین اور گائے بیل اس میں کام کریں گے اور وہ اس میں کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا بلکہ تمام مصارف زمین کے مالک کی طرف سے ہوں گے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۹۳۰۸) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: بٹائی کی یہ ایک جائز صورت ہے، واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ زمین کا مالک کچھ بھی خرچ نہ کرے، تمام اخراجات کاشتکار کرے اور آدھی پیداوار کا حقدار ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوهَا مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَأَنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَطْرَ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہود کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں اپنے خرچ پر کام کریں گے اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱ (۱۵۵۱)، سنن ابی داود/البیوع ۳۵(۳۴۰۸)، (تحفة الأشراف: ۸۴۲۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث ۸ (۲۳۲۸) (في سیاق أطول من ذلک) ۹ (۲۳۲۹)، سنن الترمذی/الأحکام ۴۱ (۱۳۸۳)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۱۴ (۲۴۶۸)، مسند احمد (۲/۱۷، ۲۲، ۳۷)، سنن الدارمی/البیوع ۷۱ (۲۶۵۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ، وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوهَا بِأَمْوَالِهِمْ، وَأَنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَطْرَ ثَمَرَتِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود خیبر کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اپنے خرچ پر اس میں کام کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کے پھل کا آدھا ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: "كَانَتِ الْمَزَارِعُ تُكْرَى عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى أَنَّ لِرَبِّ الْأَرْضِ مَا عَلَى رَبِيعِ السَّاقِي مِنَ الزَّرْعِ، وَطَائِفَةً مِنَ التِّبْنِ، لَا أَدْرِي كَمْ هُوَ".
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھیت بٹائی پر دیے جاتے تھے اس شرط پر کہ زمین کے مالک کے لیے وہ پیداوار ہو گی جو نالیوں اور نہروں کی کیاریوں پر ہو اور کچھ گھاس جس کی مقدار مجھے معلوم نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۴۲۵) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: "كَانَ عَمَّايَ يَزْرَعَانِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، وَأَبِي شَرِيكَهُمَا وَعَلْقَمَةُ، وَالْأَسْوَدُ يَعْلَمَانِ فَلَا يُغَيِّرَانِ".
عبدالرحمٰن بن اسود کہتے ہیں کہ میرے دو چچا تہائی اور چوتھائی پر کھیتی کرتے تھے اور میرے والد ان کے شریک ہوتے تھے۔ علقمہ اور اسود کو یہ بات معلوم تھی مگر وہ کچھ نہ کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۹۵۳) (ضعیف الإسناد) (قاضی شریک ضعیف الحفظ اور ابواسحاق مختلط راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْمَرًا، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "إِنَّ خَيْرَ مَا أَنْتُمْ صَانِعُونَ أَنْ يُؤَاجِرَ أَحَدُكُمْ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس میں سب سے بہتر یہ ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پردے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۵۴۹) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: "أَنَّهُمَا كَانَا لَا يَرَيَانِ بَأْسًا بِاسْتِئْجَارِ الْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ".
ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ دونوں خالی زمین کو کرائے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۴۳۰، ۱۸۶۸۷) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: لَمْ أَعْلَمْ شُرَيْحًا كَانَ يَقْضِي فِي الْمُضَارِبِ إِلَّا بِقَضَاءَيْنِ: كَانَ رُبَّمَا قَالَ لِلْمُضَارِبِ: "بَيِّنَتَكَ عَلَى مُصِيبَةٍ تُعْذَرُ بِهَا"، وَرُبَّمَا قَالَ لِصَاحِبِ الْمَالِ: "بَيِّنَتَكَ أَنَّ أَمِينَكَ خَائِنٌ، وَإِلَّا فَيَمِينُهُ بِاللَّهِ مَا خَانَكَ".
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شریح مضارب ۱؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے: تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین (مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۸۰۱) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: مضارب :(راء کے زیر کے ساتھ ) اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مال سے تجارت کرے یعنی محنت اس شخص کی ہو اور پیسہ کسی اور کا۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: لَا بَأْسَ بِإِجَارَةِ الْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ خالی زمین کو سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفردبہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۷۰۷) (ضعیف) (اس کے راوی ’’شریک القاضی‘‘ ضعیف الحفظ ہیں)
وَقَالَ: "إِذَا دَفَعَ رَجُلٌ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَأَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ كِتَابًا كَتَبَ هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ طَوْعًا مِنْهُ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرِهِ لِفُلَانِ بْنِ فُلَانٍ أَنَّكَ دَفَعْتَ إِلَيَّ مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وُضْحًا جِيَادًا وَزْنَ سَبْعَةٍ قِرَاضًا عَلَى تَقْوَى اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ عَلَى أَنْ أَشْتَرِيَ بِهَا مَا شِئْتُ مِنْهَا كُلَّ مَا أَرَى أَنْ أَشْتَرِيَهُ وَأَنْ أُصَرِّفَهَا وَمَا شِئْتُ مِنْهَا فِيمَا أَرَى أَنْ أُصَرِّفَهَا فِيهِ مِنْ صُنُوفِ التِّجَارَاتِ، وَأَخْرُجَ بِمَا شِئْتُ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُ، وَأَبِيعَ مَا أَرَى أَنْ أَبِيعَهُ مِمَّا أَشْتَرِيهِ بِنَقْدٍ رَأَيْتُ أَمْ بِنَسِيئَةٍ وَبِعَيْنٍ رَأَيْتُ أَمْ بِعَرْضٍ عَلَى أَنْ أَعْمَلَ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ كُلِّهِ بِرَأْيِي، وَأُوَكِّلَ فِي ذَلِكَ مَنْ رَأَيْتُ وَكُلُّ مَا رَزَقَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مِنْ فَضْلٍ وَرِبْحٍ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ الَّذِي دَفَعْتَهُ الْمَذْكُورِ إِلَيَّ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فَهُوَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ نِصْفَيْنِ لَكَ مِنْهُ النِّصْفُ بِحَظِّ رَأْسِ مَالِكَ وَلِي فِيهِ النِّصْفُ تَامًّا بِعَمَلِي فِيهِ، وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ وَضِيعَةٍ فَعَلَى رَأْسِ الْمَالِ، فَقَبَضْتُ مِنْكَ هَذِهِ الْعَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ الْوُضْحَ الْجِيَادَ مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا فِي سَنَةِ كَذَا وَصَارَتْ لَكَ فِي يَدِي قِرَاضًا عَلَى الشُّرُوطِ الْمُشْتَرَطَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ أَقَرَّ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُطْلِقَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ وَيَبِيعَ بِالنَّسِيئَةِ كَتَبَ، وَقَدْ نَهَيْتَنِي أَنْ أَشْتَرِيَ وَأَبِيعَ بِالنَّسِيئَةِ".
(مؤلف) کہتے ہیں: جب کوئی آدمی کسی آدمی کو کچھ مال مضاربت کے طور پردے پھر اس کا معاہدہ لکھنا چاہے تو اس طرح لکھے: یہ وہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے، تندرستی کی حالت میں اور اس حال میں جب معاملات جاری ہوتے ہیں، فلاں بن فلاں کے لیے لکھا ہے: آپ نے مجھے فلاں سال کے فلاں مہینے کے شروع میں دس ہزار کھرے اور چوکھے درہم بہ طور مضاربت دیے جن کا وزن سات (مثقال) ہے۔ اس شرط پر کہ میں ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہوں گا اور اس امانت کو ادا کروں گا، اور اس شرط پر کہ ان سے میں وہ سب کچھ خریدوں گا جو میں چاہوں گا اور وہاں خرچ کروں گا جہاں میں خرچ کرنا مناسب سمجھوں گا، یعنی مختلف تجارتوں میں لگاؤں گا، جہاں اور جتنا مناسب سمجھوں گا اس میں سے لے کر جاؤں گا اور جو کچھ خریدوں گا اس میں سے نقد یا ادھار جب مناسب سمجھوں گا بیچوں گا، مال کی قیمت عینی چیز لوں گا یا پھر اس قیمت کا دوسرا مال، ان سب باتوں میں شرط یہ ہے کہ میں اپنی صواب دید سے کام کروں گا، اور ان تمام امور میں میں جسے مناسب سمجھوں گا اپنا وکیل بناؤں گا، اور اس اصل پونجی سے جو آپ نے مجھے دی ہے اور جس کی معینہ مقدار اس عہد نامے میں مذکور ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جو منافع اور جو بڑھوتری عطا کرے گا وہ میرے اور آپ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہو گا، اس کا آدھا آپ کے لیے آپ کے رأس المال (اصل پونجی) کی وجہ سے اور میرے لیے اس کا آدھا میری محنت اور میرے کام کی وجہ سے ہو گا، اور جو نقصان ہو گا تو وہ رأس المال (اصل پونچی) میں سے ہو گا۔ تو میں نے یہ دس ہزار کھرے چوکھے درہم فلاں سال کے فلاں مہینہ کے شروع میں آپ سے اپنے قبضے میں لیے اور یہ میرے ہاتھ میں آپ کے لیے شرکت و مضاربت کے طور پر ہیں، ان شرطوں کے ساتھ جو اس معاہدہ میں لکھی گئی ہیں اور فلاں اور فلاں نے انہیں منظور کیا ہے۔ اور جب صاحب مال چاہے کہ وہ ادھار خرید و فروخت نہ کرے تو اس طرح لکھے گا: اور آپ نے مجھے ادھار خرید و فروخت کرنے سے منع کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اسی طرح دیگر شرائط بھی اگر صاحب مال چاہے تو طے کر سکتا ہے، مثلاً: اس مال سے صرف فلاں سامان کی تجارت کی جا سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہاں جو طے ہو لکھا ضرور جائے، یہی بات اگلے معاملہ میں بھی ہے۔
هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ فِي صِحَّةِ عُقُولِهِمْ وَجَوَازِ أَمْرِهِمُ اشْتَرَكُوا شَرِكَةَ عِنَانٍ لاَ شَرِكَةَ مُفَاوَضَةٍ بَيْنَهُمْ فِي ثَلاَثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وُضْحًا جِيَادًا وَزْنَ سَبْعَةٍ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَشْرَةُ آلاَفِ دِرْهَمٍ خَلَطُوهَا جَمِيعًا فَصَارَتْ هَذِهِ الثَّلاَثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ فِي أَيْدِيهِمْ مَخْلُوطَةً بِشَرِكَةٍ بَيْنَهُمْ أَثْلاَثًا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا فِيهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ إِلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ وَيَشْتَرُونَ جَمِيعًا بِذَلِكَ وَبِمَا رَأَوْا مِنْهُ اشْتِرَاءَهُ بِالنَّقْدِ وَيَشْتَرُونَ بِالنَّسِيئَةِ عَلَيْهِ مَا رَأَوْا أَنْ يَشْتَرُوا مِنْ أَنْوَاعِ التِّجَارَاتِ وَأَنْ يَشْتَرِيَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى حِدَتِهِ دُونَ صَاحِبِهِ بِذَلِكَ وَبِمَا رَأَى مِنْهُ مَا رَأَى اشْتِرَاءَهُ مِنْهُ بِالنَّقْدِ وَبِمَا رَأَى اشْتِرَاءَهُ عَلَيْهِ بِالنَّسِيئَةِ يَعْمَلُونَ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ مُجْتَمِعِينَ بِمَا رَأَوْا وَيَعْمَلُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُنْفَرِدًا بِهِ دُونَ صَاحِبِهِ بِمَا رَأَى جَائِزًا لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ عَلَى نَفْسِهِ وَعَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبَيْهِ فِيمَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهِ وَفِيمَا انْفَرَدُوا بِهِ مِنْ ذَلِكَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ دُونَ الآخَرَيْنِ فَمَا لَزِمَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ مِنْ قَلِيلٍ وَمِنْ كَثِيرٍ فَهُوَ لاَزِمٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبَيْهِ وَهُوَ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا وَمَا رَزَقَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مِنْ فَضْلٍ وَرِبْحٍ عَلَى رَأْسِ مَالِهِمُ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فَهُوَ بَيْنَهُمْ أَثْلاَثًا وَمَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنْ وَضِيعَةٍ وَتَبِعَةٍ فَهُوَ عَلَيْهِمْ أَثْلاَثًا عَلَى قَدْرِ رَأْسِ مَالِهِمْ وَقَدْ كُتِبَ هَذَا الْكِتَابُ ثَلاَثَ نُسَخٍ مُتَسَاوِيَاتٍ بِأَلْفَاظٍ وَاحِدَةٍ فِي يَدِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَاحِدَةٌ وَثِيقَةً لَهُ أَقَرَّ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ.
یہ وہ عہد نامہ ہے جس میں فلاں، فلاں اور فلاں کی شرکت کا بیان ہے۔ جو صحت و حواس کی درستگی میں اور معاملات کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھی گئی ہے۔ یہ تینوں شرکت عنان کی بنیاد پر نہ کہ شرکت مفاوضت پر شریک ہوئے ہیں، تیس ہزار درہم میں جو سب کے سب کھرے اور عمدہ ہیں جن میں سے ہر درہم سات مثقال کے وزن کے برابر ہے۔ ہر شخص کے دس ہزار درہم ہیں اور تینوں کو ملا دینے پر کل تیس ہزار درہم ہوئے جس کے یہ تینوں مالک ہیں۔ ہر ایک ایک تہائی حصے کا شریک ہے، اس شرط پر کہ یہ سب کے سب اللہ کا خوف رکھنے اور اس امانت کو ادا کرنے کی نیت کے ساتھ محنت کریں گے، اور سب مل کر اس سے جو چاہیں گے خریدیں گے، جو چاہیں گے نقد خریدیں گے اور جو چاہیں گے ادھار خریدیں گے اور جس قسم کی تجارت چاہیں کریں گے، اور ان تینوں میں سے ہر شخص بغیر دوسرے کی شرکت کے جو چاہے نقد یا ادھار خریدے، اس پوری رقم میں تینوں شریک مل کر ایک ساتھ معاملہ کریں یا ہر ایک تنہا ہو کر معاملہ کرے، جو معاملہ سب کریں، وہ سب پر لازم اور نافذ ہو گا، کرنے والے پر بھی اور اس کے دونوں ساتھیوں پر بھی اور جو کوئی اکیلا کرے وہ بھی اس کے اوپر اور اس کے دونوں ساتھیوں پر لازم ہو گا، غرضیکہ ہر معاملہ تھوڑا ہو یا زیادہ سب پر نافذ ہو گا خواہ ایک کا کیا ہوا ہو یا سب کا۔ پھر اللہ تعالیٰ جو نفع دے گا وہ اصل پونجی کے مطابق تین حصے کر کے تینوں شریکوں میں تقسیم ہو گا اور اس میں جو نقصان (گھاٹا) ہو گا وہ سب پر برابر برابر تہائی اصل پونجی کے مطابق ہو گا۔ ایک ہی عبارت اور لفظوں کی اس تحریر (معاہدہ) کی تین کاپیاں کی گئیں، ہر شریک کو ایک ایک کاپی دے دی گئی تاکہ بطور سند اپنے پاس رکھے۔ اس بات پر فلاں فلاں اور فلاں یعنی تینوں شریکوں نے اقرار کیا۔
وضاحت: شرکت عنان یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ لوگ اجتماعی شکل میں کسی کام میں مالی و جسمانی تعاون یکساں طور پر دیں اور نفع میں برابر کے شریکوں اور ان میں سے اگر کسی کا مالی یا جسمانی تعاون زیادہ ہے تو نفع میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہو گا۔
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ بَيْنَهُمْ شَرِكَةَ مُفَاوَضَةٍ فِي رَأْسِ مَالٍ جَمَعُوهُ بَيْنَهُمْ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ وَنَقْدٍ وَاحِدٍ وَخَلَطُوهُ وَصَارَ فِي أَيْدِيهِمْ مُمْتَزِجًا لاَ يُعْرَفُ بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ وَمَالُ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ وَحَقُّهُ سَوَاءٌ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا فِي ذَلِكَ كُلِّهِ وَفِي كُلِّ قَلِيلٍ وَكَثِيرٍ سَوَاءً مِنَ الْمُبَايَعَاتِ وَالْمُتَاجَرَاتِ نَقْدًا وَنَسِيئَةً بَيْعًا وَشِرَاءً فِي جَمِيعِ الْمُعَامَلاَتِ وَفِي كُلِّ مَا يَتَعَاطَاهُ النَّاسُ بَيْنَهُمْ مُجْتَمِعِينَ بِمَا رَأَوْا وَيَعْمَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى انْفِرَادِهِ بِكُلِّ مَا رَأَى وَكُلِّ مَا بَدَا لَهُ جَائِزٌ أَمْرُهُ فِي ذَلِكَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَعَلَى أَنَّهُ كُلُّ مَا لَزِمَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى هَذِهِ الشَّرِكَةِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ حَقٍّ وَمِنْ دَيْنٍ فَهُوَ لاَزِمٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمِّينَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ وَعَلَى أَنَّ جَمِيعَ مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ فِي هَذِهِ الشَّرِكَةِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ وَمَا رَزَقَ اللَّهُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِيهَا عَلَى حِدَتِهِ مِنْ فَضْلٍ وَرِبْحٍ فَهُوَ بَيْنَهُمْ جَمِيعًا بِالسَّوِيَّةِ وَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ نَقِيصَةٍ فَهُوَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا بِالسَّوِيَّةِ بَيْنَهُمْ وَقَدْ جَعَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمِّينَ فِي هَذَا الْكِتَابِ مَعَهُ وَكِيلَهُ فِي الْمُطَالَبَةِ بِكُلِّ حَقٍّ هُوَ لَهُ وَالْمُخَاصَمَةِ فِيهِ وَقَبْضِهِ وَفِي خُصُومَةِ كُلِّ مَنِ اعْتَرَضَهُ بِخُصُومَةٍ وَكُلِّ مَنْ يُطَالِبُهُ بِحَقٍّ وَجَعَلَهُ وَصِيَّهُ فِي شَرِكَتِهِ مِنْ بَعْدِ وَفَاتِهِ وَفِي قَضَاءِ دُيُونِهِ وَإِنْفَاذِ وَصَايَاهُ وَقَبِلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ مَا جَعَلَ إِلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ أَقَرَّ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود» "اے ایمان والو! اپنے وعدے پورے کرو" (المائدة: 1) یہ وہ تحریر (عہد نامہ) ہے جس کی رو سے فلاں فلاں، فلاں اور فلاں بطور مفاوضہ رأس المال (اصل پونجی) میں شریک ہوئے ہیں جس کو سب لوگوں نے جمع کیا تھا جو ایک ہی قسم کا مال اور ایک ہی سکے کا تھا، اسے انہوں نے ملا دیا اور اب مل کر سب کے قبضے میں اس طرح آ گیا کہ اب کسی کا حصہ پہنچانا نہیں جاتا، اور اب سب کا مال اور حصہ برابر ہے، اس شرط پر کہ وہ سب مل کر محنت کریں گے، اس میں بھی اور اس کے علاوہ میں بھی خواہ کم ہو یا زیادہ، ہر طرح کے معاملات اور لین دین خواہ ادھار ہوں یا نقد، خرید رہے ہوں یا بیچ رہے ہوں، ہر طرح کے معاملات جسے لوگ کرتے ہیں، سب مل کر کریں یا الگ الگ، مگر ہر ایک کا معاملہ اس کے شریکوں پر جائز و نافذ ہو گا، اور جو اس شرکت کی رو سے کسی شریک پر حق یا قرض لازم ہو تو وہ ہراس شخص پر لازم ہو گا جن کا نام اس تحریر (معاہدہ) میں درج ہے اور اللہ تعالیٰ جو نفع یا بچت دے گا وہ سب آپس میں برابر تقسیم ہو گی اور جو نقصان (گھاٹا) ہو گا وہ بھی سب پر برابر برابر تقسیم ہو گا، ان چاروں اشخاص میں سے ہر ایک نے دوسرے کو اپنے ساتھیوں میں سے جن کے نام اس عہد نامہ میں لکھے ہیں اپنا اپنا وکیل (ایجنٹ) بنایا، ہر ایک کو حق کے مطالبے کے لیے، خصومت کرنے (عدالت میں مقدمہ دائر کرنے) کے لیے اور وصول کرنے کے لیے یا کوئی جو کچھ مطالبہ کرے اس کا جواب دینے کے لیے اور اس کو اپنا وصی بنایا اس شرکت میں اپنے مرنے کے بعد اپنے قرضوں کو ادا کرنے اور وصیتوں کو پورا کرنے کے لیے۔ ہر ایک نے ان چاروں میں سے ایک دوسرے کے کام قبول کیے جو اسے سونپے گئے۔ ان سب باتوں پر فلاں اور فلاں اور فلاں اور فلاں نے عہد و اقرار کیا۔
وضاحت: شرکت مفاوضہ یہ ہے کہ دو آدمی کی ساری ملکیت دونوں کے مابین اس طرح ہو کہ دونوں ایک دوسرے کی وکالت اور کفالت میں برابر کا درجہ رکھتے ہوں، یعنی ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اس مشترکہ ملکیت میں اپنا وکیل اور کفیل :(ایجنٹ ) سمجھتا ہو۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "اشْتَرَكْتُ أَنَا وَعَمَّارٌ وَسَعْدٌ يَوْمَ بَدْرٍ فَجَاءَ سَعْدٌ بِأَسِيرَيْنِ وَلَمْ أَجِئْ أَنَا وَلَا عَمَّارٌ بِشَيْءٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عمار اور سعد رضی اللہ عنہما بدر کی لڑائی کے روز شریک (کار) ہوئے تو سعد دو قیدی لے کر آئے، نہ میں کچھ لایا اور نہ ہی عمار کچھ لے کر آئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۳۰ (۳۳۸۸)، سنن ابن ماجہ/التجارات ۶۳ (۲۲۸۸)، (تحفة الأشراف: ۹۶۱۶)، ویأتی عند المؤلف فی البیوع ۱۰۳ (برقم: ۴۷۰۱) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابو اسحاق سبیعی‘‘ مختلط ہو گئے تھے، اور ’’ ابو عبیدہ ‘‘ کا اپنے باپ ’’ ابن مسعود رضی الله عنہ‘‘ سے سماع نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: شرکت ابدان یہ ہے کہ دو آدمی کسی کام کے انجام دینے میں اس طرح شریکوں کہ ان دونوں کی محنت سے اس کام میں جو بھی فائدہ حاصل ہو گا اس میں وہ دونوں برابر برابر کے حصہ دار ہوں گے۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، فِي عَبْدَيْنِ مُتَفَاوِضَيْنِ كَاتَبَ أَحَدُهُمَا، قَالَ: "جَائِزٌ إِذَا كَانَا مُتَفَاوِضَيْنِ يَقْضِي أَحَدُهُمَا عَنِ الْآخَرِ".
زہری کہتے ہیں کہ مفاوضہ کے طور پر دو غلام شریکوں پھر ایک مکاتبت کر لے تو یہ جائز ہے اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں شریک میں یہ بات طے ہو کہ ہر ایک دوسرے کی طرف سے ادا کرے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۹۴۱۵) (صحیح الإسناد)
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ بَيْنَهُمْ وَأَقَرَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمِّينَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِجَمِيعِ مَا فِيهِ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ أَنَّهُ جَرَتْ بَيْنَنَا مُعَامَلاَتٌ وَمُتَاجَرَاتٌ وَأَشْرِيَةٌ وَبُيُوعٌ وَخُلْطَةٌ وَشَرِكَةٌ فِي أَمْوَالٍ وَفِي أَنْوَاعٍ مِنَ الْمُعَامَلاَتِ وَقُرُوضٌ وَمُصَارَفَاتٌ وَوَدَائِعُ وَأَمَانَاتٌ وَسَفَاتِجُ وَمُضَارَبَاتٌ وَعَوَارِي وَدُيُونٌ وَمُؤَاجَرَاتٌ وَمُزَارَعَاتٌ وَمُؤَاكَرَاتٌ وَإِنَّا تَنَاقَضْنَا عَلَى التَّرَاضِي مِنَّا جَمِيعًا بِمَا فَعَلْنَا جَمِيعَ مَا كَانَ بَيْنَنَا مِنْ كُلِّ شَرِكَةٍ وَمِنْ كُلِّ مُخَالَطَةٍ كَانَتْ جَرَتْ بَيْنَنَا فِي نَوْعٍ مِنَ الأَمْوَالِ وَالْمُعَامَلاَتِ وَفَسَخْنَا ذَلِكَ كُلَّهُ فِي جَمِيعِ مَا جَرَى بَيْنَنَا فِي جَمِيعِ الأَنْوَاعِ وَالأَصْنَافِ وَبَيَّنَّا ذَلِكَ كُلَّهُ نَوْعًا نَوْعًا وَعَلِمْنَا مَبْلَغَهُ وَمُنْتَهَاهُ وَعَرَفْنَاهُ عَلَى حَقِّهِ وَصِدْقِهِ فَاسْتَوْفَى كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا جَمِيعَ حَقِّهِ مِنْ ذَلِكَ أَجْمَعَ وَصَارَ فِي يَدِهِ فَلَمْ يَبْقَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا قِبَلَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمِّينَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ وَلاَ قِبَلَ أَحَدٍ بِسَبَبِهِ وَلاَ بِاسْمِهِ حَقٌّ وَلاَ دَعْوَى وَلاَ طَلِبَةٌ لأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنَّا قَدِ اسْتَوْفَى جَمِيعَ حَقِّهِ وَجَمِيعَ مَا كَانَ لَهُ مِنْ جَمِيعِ ذَلِكَ كُلِّهِ وَصَارَ فِي يَدِهِ مُوَفَّرًا أَقَرَّ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ.
یہ تحریر (معاہدہ) ہے، اسے فلاں، فلاں، فلاں اور فلاں نے آپس میں لکھا ہے، ان میں سے ہر ایک نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے لیے جن کے نام اس تحریر میں درج ہیں، اس کے پورے مندرجات کے متعلق اقرار کیا ہے، صحت اور معاملات کے نافذ ہونے کی حالت میں، ہم چاروں میں معاملات، تجارتیں، خرید و فروخت، ہر طرح کے اموال اور ہر طرح کے معاملات میں شرکت اور حصہ داری تھی، اسی طرح ہمارے درمیان قرض، صرف، امانت، ڈرافٹ، مضاربت، عاریۃ اور قرض کے لین دین، کرایہ داری، کاشتکاری اور بٹائی کے معاملات جاری تھے۔ اب ہم سب نے اپنی رضا مندی سے اس کو ختم کر دیا۔ جو شرکت اور حصہ داری، اموال اور معاملات میں اب تک ہمارے درمیان جاری تھی اس کو ہم سب نے فسخ کیا خواہ وہ کسی بھی قسم یا کسی بھی نوعیت کے ہوں۔ ہم نے اس کی حد اور مقدار کو الگ الگ بیان کر دیا اور جو سچ اور صحیح تھا اس کو دریافت کر لیا اور ہر ایک نے اپنا پورا پورا حق پایا یا اپنے قبضے میں کر لیا، اب ہم میں سے کسی کو کسی ساتھی پر جن کے نام اس تحریر(معاہدہ) میں ہیں یا اس کی وجہ سے یا اس کے نام سے دوسرے پر کوئی دعویٰ اور مطالبہ نہیں رہا۔ کیونکہ ہر ایک نے اس کا جو حق تھا اسے پورا پورا پا لیا اور اپنے قبضہ میں لے لیا، اس کا اقرار فلاں، فلاں، فلاں اور فلاں نے کیا۔
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَنْ يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ هَذَا كِتَابٌ كَتَبَتْهُ فُلاَنَةُ بِنْتُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهَا وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفُلاَنِ بْنِ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ إِنِّي كُنْتُ زَوْجَةً لَكَ وَكُنْتَ دَخَلْتَ بِي فَأَفْضَيْتَ إِلَىَّ ثُمَّ إِنِّي كَرِهْتُ صُحْبَتَكَ وَأَحْبَبْتُ مُفَارَقَتَكَ عَنْ غَيْرِ إِضْرَارٍ مِنْكَ بِي وَلاَ مَنْعِي لِحَقٍّ وَاجِبٍ لِي عَلَيْكَ وَإِنِّي سَأَلْتُكَ عِنْدَمَا خِفْنَا أَنْ لاَ نُقِيمَ حُدُودَ اللَّهِ أَنْ تَخْلَعَنِي فَتُبِينَنِي مِنْكَ بِتَطْلِيقَةٍ بِجَمِيعِ مَالِي عَلَيْكَ مِنْ صَدَاقٍ وَهُوَ كَذَا وَكَذَا دِينَارًا جِيَادًا مَثَاقِيلَ وَبِكَذَا وَكَذَا دِينَارًا جِيَادًا مَثَاقِيلَ أَعْطَيْتُكَهَا عَلَى ذَلِكَ سِوَى مَا فِي صَدَاقِي فَفَعَلْتَ الَّذِي سَأَلْتُكَ مِنْهُ فَطَلَّقْتَنِي تَطْلِيقَةً بَائِنَةً بِجَمِيعِ مَا كَانَ بَقِيَ لِي عَلَيْكَ مِنْ صَدَاقِي الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ وَبِالدَّنَانِيرِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ سِوَى ذَلِكَ فَقَبِلْتُ ذَلِكَ مِنْكَ مُشَافَهَةً لَكَ عِنْدَ مُخَاطَبَتِكَ إِيَّاىَ بِهِ وَمُجَاوَبَةً عَلَى قَوْلِكَ مِنْ قَبْلِ تَصَادُرِنَا عَنْ مَنْطِقِنَا ذَلِكَ وَدَفَعْتُ إِلَيْكَ جَمِيعَ هَذِهِ الدَّنَانِيرِ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهَا فِي هَذَا الْكِتَابِ الَّذِي خَالَعْتَنِي عَلَيْهَا وَافِيَةً سِوَى مَا فِي صَدَاقِي فَصِرْتُ بَائِنَةً مِنْكَ مَالِكَةً لأَمْرِي بِهَذَا الْخُلْعِ الْمَوْصُوفِ أَمْرُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فَلاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَىَّ وَلاَ مُطَالَبَةَ وَلاَ رَجْعَةَ وَقَدْ قَبَضْتُ مِنْكَ جَمِيعَ مَا يَجِبُ لِمِثْلِي مَا دُمْتُ فِي عِدَّةٍ مِنْكَ وَجَمِيعَ مَا أَحْتَاجُ إِلَيْهِ بِتَمَامِ مَا يَجِبُ لِلْمُطَلَّقَةِ الَّتِي تَكُونُ فِي مِثْلِ حَالِي عَلَى زَوْجِهَا الَّذِي يَكُونُ فِي مِثْلِ حَالِكَ فَلَمْ يَبْقَ لِوَاحِدٍ مِنَّا قِبَلَ صَاحِبِهِ حَقٌّ وَلاَ دَعْوَى وَلاَ طَلِبَةٌ فَكُلُّ مَا ادَّعَى وَاحِدٌ مِنَّا قِبَلَ صَاحِبِهِ مِنْ حَقٍّ وَمِنْ دَعْوَى وَمِنْ طَلِبَةٍ بِوَجْهٍ مِنَ الْوُجُوهِ فَهُوَ فِي جَمِيعِ دَعْوَاهُ مُبْطِلٌ وَصَاحِبُهُ مِنْ ذَلِكَ أَجْمَعَ بَرِيءٌ وَقَدْ قَبِلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا كُلَّ مَا أَقَرَّ لَهُ بِهِ صَاحِبُهُ وَكُلَّ مَا أَبْرَأَهُ مِنْهُ مِمَّا وُصِفَ فِي هَذَا الْكِتَابِ مُشَافَهَةً عِنْدَ مُخَاطَبَتِهِ إِيَّاهُ قَبْلَ تَصَادُرِنَا عَنْ مَنْطِقِنَا وَافْتِرَاقِنَا عَنْ مَجْلِسِنَا الَّذِي جَرَى بَيْنَنَا فِيهِ أَقَرَّتْ فُلاَنَةُ وَفُلاَنٌ.
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «ولا يحل لكم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئا إلا أن يخافا ألا يقيما حدود اللہ فإن خفتم ألا يقيما حدود اللہ فلا جناح عليهما فيما افتدت به» "تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم عورتوں سے اپنا دیا ہوا واپس لو، الا یہ کہ دونوں ڈریں کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت(حدود) کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر جب ایسا ڈر ہو تو عورت پر گناہ نہیں کہ کچھ دے کر اپنے کو چھڑا لے" (البقرة: ۲۲۹) یہ وہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں کی فلاں بیٹی فلانہ نے اپنی صحت کی حالت میں اور تصرف نافذ ہونے کی صورت میں فلاں بن فلاں کے فلاں بیٹے کے لیے لکھا ہے، میں آپ کی بیوی تھی، آپ مجھ سے ملے اور صحبت کی اور دخول کیا، پھر مجھے آپ کی صحبت بری معلوم ہوئی اور میں نے آپ سے جدا ہونا اچھا جانا، آپ نے مجھے کسی طرح کا نہ تو نقصان پہنچایا اور نہ ہی میرے واجب الادا حقوق سے مجھے روکا، اور میں نے آپ سے اس وقت درخواست کی جب مجھے اندیشہ ہوا کہ ہم اللہ کے حدود کو ٹھیک سے قائم نہ رکھ سکیں گے کہ مجھ سے خلع کر لیں اور مجھے ایک طلاق بائن دے دیں، اس پورے مہر کے بدلے جو میرا آپ کے ذمے ہے اور وہ اتنے اتنے کھرے دینار جو اتنے مثقال کے ہیں، اور مہر کے علاوہ اتنے مثقال کے اتنے کھرے دینار کے بدلے۔ پھر آپ نے میرا مطالبہ پورا کر دیا اور ایک طلاق بائن دے دی اس پورے مہر کے بدلے جو میرا آپ پر باقی تھا اور جس کی مقدار اس تحریر میں لکھی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ ان دیناروں کے بدلے جن کی تعداد اس میں درج ہے، پھر میں نے آپ کے سامنے اسے اس وقت قبول کیا جب آپ میری طرف مخاطب تھے اور میں آپ کی بات کا جواب دیتی تھی اس سے پہلے کہ ہم اپنی اس بات چیت سے فارغ ہوں، اور میں نے آپ کو وہ سب دینار دے دیے جن کی تعداد اس تحریر میں درج ہے اور جن کے بدلے آپ نے خلع کیا، مہر کے علاوہ۔ اب میں آپ سے جدا اور اپنی مرضی کی مالک ہو گئی، اس خلع کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اب آپ کا مجھ پر کچھ اختیار نہیں رہا، نہ ہی کسی طرح کا مطالبہ اور رجوع کا حق۔ اور میں نے آپ سے اپنے وہ سارے حقوق لے لیے جو مجھ جیسی عورت کے آپ جیسے شوہر پر ہوتے ہیں جب تک کہ میں آپ کی زوجیت میں رہی، اور مجھے وہ سارے حقوق مل گئے جو مجھ جیسی طلاق والی کسی عورت کے ہوتے ہیں اور آپ جیسے شوہر کو ان کو دینا ضروری ہوتا ہے۔ اب ہم میں سے کوئی دوسرے پر کسی طرح کا حق یا دعویٰ یا مطالبہ جو کسی طور کا ہو پیش کرے تو اس کے سب دعوے جھوٹے ہیں اور جس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ پورے طور پر بری ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کا اقرار اور اس کا ابراء (بری کرنا) قبول کیا۔ جس کا ذکر اس کتاب میں آمنے سامنے سوال کے وقت ہوا اس سے پہلے کہ ہم اس گفتگو سے فارغ ہوں یا اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوں جہاں یہ اقرار نامہ میاں بیوی کی طرف سے ہم دونوں کے بیچ میں لکھا جا رہا ہے۔
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفَتَاهُ النُّوبِيِّ الَّذِي يُسَمَّى فُلاَنًا وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ وَيَدِهِ إِنِّي كَاتَبْتُكَ عَلَى ثَلاَثَةِ آلاَفِ دِرْهَمٍ وُضْحٍ جِيَادٍ وَزْنِ سَبْعَةٍ مُنَجَّمَةٍ عَلَيْكَ سِتُّ سِنِينَ مُتَوَالِيَاتٍ أَوَّلُهَا مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَلَى أَنْ تَدْفَعَ إِلَىَّ هَذَا الْمَالَ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فِي نُجُومِهَا فَأَنْتَ حُرٌّ بِهَا لَكَ مَا لِلأَحْرَارِ وَعَلَيْكَ مَا عَلَيْهِمْ فَإِنْ أَخْلَلْتَ شَيْئًا مِنْهُ عَنْ مَحِلِّهِ بَطَلَتِ الْكِتَابَةُ وَكُنْتَ رَقِيقًا لاَ كِتَابَةَ لَكَ وَقَدْ قَبِلْتُ مُكَاتَبَتَكَ عَلَيْهِ عَلَى الشُّرُوطِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ قَبْلَ تَصَادُرِنَا عَنْ مَنْطِقِنَا وَافْتِرَاقِنَا عَنْ مَجْلِسِنَا الَّذِي جَرَى بَيْنَنَا ذَلِكَ فِيهِ أَقَرَّ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ.
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «والذين يبتغون الكتاب مما ملكت أيمانكم فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا» "تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں دے دیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو" (النور: ۳۳) ۱؎۔ یہ وہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنی صحت کی حالت اور تصرف نافذ ہونے کی صورت میں اپنے اس غلام کے لیے جو نوبہ (ایک ملک کا نام ہے) کا رہنے والا ہے اور اس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے: میں نے تم سے تین ہزار عمدہ اور کھرے درہم پر جو وزن میں سات مثقال کے برابر ہیں مکاتبت کی جو مسلسل چھ سال میں قسط وار ادا کئے جائیں گے، پہلی قسط فلاں سال کے فلاں مہینے میں چاند دیکھتے ہی ادا کی جائے گی، اگر تم نے اس تحریر میں بتائی گئی متعینہ روپے کی مقدار برابر قسطوں میں ادا کر دی تو تم آزاد ہو اور تمہارے وہ سارے حقوق ملیں گے جو آزاد لوگوں کے ہیں اور تم پر وہ سب باتیں لازم ہوں گی جو ان پر لازم ہیں۔ اگر تم نے اس تحریر کی ذرہ برابر خلاف ورزی کی تو یہ تحریر کالعدم ہو گی اور تم پھر غلامی کی زندگی گزارو گے، مکاتبت سے متعلق کوئی تحریر دوبارہ نہیں لکھی جائے گی۔ میں نے تمہاری کتابت قبول کی ان شرائط کے مطابق جن کا ذکر اس کتاب میں ہوا اس سے پہلے کہ ہم اپنی گفتگو سے فارغ ہوں یا اپنی اس مجلس سے جدا ہوں جس میں یہ تحریر لکھی گئی، اقرار ہوا فلاں اور فلاں کی طرف سے۔
وضاحت: ۱؎: مکاتب: اس غلام کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ معاہدہ کر لیتا ہے کہ میں اتنی رقم جمع کر کے ادا کر دوں گا تو آزادی کا مستحق ہو جاؤں گا۔
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ لِفَتَاهُ الصَّقَلِّيِّ الْخَبَّازِ الطَّبَّاخِ الَّذِي يُسَمَّى فُلاَنًا وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ وَيَدِهِ إِنِّي دَبَّرْتُكَ لِوَجْهِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَاءِ ثَوَابِهِ فَأَنْتَ حُرٌّ بَعْدَ مَوْتِي لاَ سَبِيلَ لأَحَدٍ عَلَيْكَ بَعْدَ وَفَاتِي إِلاَّ سَبِيلَ الْوَلاَءِ فَإِنَّهُ لِي وَلِعَقِبِي مِنْ بَعْدِي أَقَرَّ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ بِجَمِيعِ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ مِنْهُ بَعْدَ أَنْ قُرِئَ ذَلِكَ كُلُّهُ عَلَيْهِ بِمَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ الْمُسَمِّينَ فِيهِ فَأَقَرَّ عِنْدَهُمْ أَنَّهُ قَدْ سَمِعَهُ وَفَهِمَهُ وَعَرَفَهُ وَأَشْهَدَ اللَّهَ عَلَيْهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا ثُمَّ مَنْ حَضَرَهُ مِنَ الشُّهُودِ عَلَيْهِ أَقَرَّ فُلاَنٌ الصَّقَلِّيُّ الطَّبَّاخُ فِي صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِهِ وَبَدَنِهِ أَنَّ جَمِيعَ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ حَقٌّ عَلَى مَا سُمِّيَ وَوُصِفَ فِيهِ.
یہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنے اس غلام کے لیے جو (صیقل گر) نان بائی اور باورچی ہے، جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک میری ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تجھ کو مدبر (یعنی اپنی موت کے بعد آزاد) کیا اللہ کی رضا مندی اور اس کے ثواب کی امید سے، تو تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو، میرے مرنے کے بعد کسی کا تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے ولاء (وارث) کے، اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے اور میرے مرنے کے بعد میرے وارثین کے لیے ہے۔ فلاں بن فلاں نے اقرار کیا کہ جو کچھ اس تحریر میں لکھا ہے وہ اپنی خوشی سے صحت اور تصرف کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھا گیا ہے۔ جب یہ تحریر اس عہد نامہ میں مذکور گواہ لوگوں کے سامنے پڑھی گئی تو اس نے اس کا اقرار کیا کہ میں نے اس کو سنا اور سمجھا اور جانا اور میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے پھر وہ لوگ گواہ ہیں جو حاضر ہیں۔ فلاں «صیقل گر» باورچی نے اپنی درستی عقل اور جسمانی صحت کی حالت میں اس کا اقرار کیا کہ جو کچھ اس میں ذکر کیا گیا وہ سب ٹھیک اور درست ہے۔
وضاحت: ۱؎: " تدبیر " یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہے کہ تم میری موت کے بعد آزاد ہو، ایسے غلام کو " مدبّر " کہتے ہیں۔
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ وَذَلِكَ فِي شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا لِفَتَاهُ الرُّومِيِّ الَّذِي يُسَمَّى فُلاَنًا وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ وَيَدِهِ إِنِّي أَعْتَقْتُكَ تَقَرُّبًا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَابْتِغَاءً لِجَزِيلِ ثَوَابِهِ عِتْقًا بَتًّا لاَ مَثْنَوِيَّةَ فِيهِ وَلاَ رَجْعَةَ لِي عَلَيْكَ فَأَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ وَالدَّارِ الآخِرَةِ لاَ سَبِيلَ لِي وَلاَ لأَحَدٍ عَلَيْكَ إِلاَّ الْوَلاَءَ فَإِنَّهُ لِي وَلِعَصَبَتِي مِنْ بَعْدِي.
یہ وہ تحریر ہے جس کو فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے صحت اور تصرف نافذ ہونے کی حالت میں لکھا ہے، فلاں سال کے فلاں مہینے میں اپنے اس رومی غلام کے لیے جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تم کو اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کا بڑا ثواب چاہنے کے لیے آزاد کیا، ایسی قطعی آزادی جو غیر مشروط ہے، میرے لیے رجوع کا کوئی حق باقی نہیں رہا، اب اللہ کے واسطے اور ثواب آخرت کے لیے تم آزاد ہو، اب میرا اور کسی کا بھی تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے حق ولاء (وراثت) کے کیونکہ وہ میرا ہے اور میرے بعد میرے عصبات کا ہے۔