مساقات کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید اپنا باغ یا اپنے کچھ درخت بکر کو اس شرط کے ساتھ دے کہ تم ان درختوں کو سیراب کرنا ان کی دیکھ بھال کرنا پھر ان پر جو پھل آئیں گے ان کو آدھوں آدھ یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ جو بھی مقدار مقرر ہو آپس میں تقسیم کر لیں گے۔
مزارعت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً زید اپنی زمین بکر کو اس شرط کے ساتھ دے کہ تم اس کو جوتنا بونا اس کی جو پیداوار ہو گی اسے آدھوں آدھ یا تہائی اور یا چوتھائی جو بھی مقدار مقرر ہو آپس میں تقسیم کر لیں گے۔
گویا مساقات اور مزارعت دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی بٹائی پر دینا فرق صرف اتنا ہے کہ مساقات کا تعلق تو درختوں سے ہوتا ہے اور مزارعت کا تعلق زمین سے ہے ان دونوں کا فقہی حکم بھی ایک ہے مساقات اور مزارعت یعنی اپنے درختوں یا زمین کوئی بٹائی پر دینا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک فاسد ہے جب کہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد نیز دوسرے علماء کے نزدیک یہ جائز ہے۔
حضرت امام اعظم کی دلیل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا اجارہ ہے جس میں اجر مجہول اور معدوم ہوتا ہے پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مخابرت مزارعت کی نہی ثابت ہے لیکن فتوی چونکہ حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے قول پر ہے اس لئے حنفیہ کے ہاں بھی مساقات اور مزارعت جائز ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کی کھجوروں کے درخت اور وہاں کی زمین اس شرط پر خیبر کے یہودیوں کے حوالہ کر دی کہ وہ اس میں اپنی جان اور اپنا مال لگائیں اور اس کا آدھا پھل رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ہو گا (مسلم)
اور بخاری کی روایت میں یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو یعنی وہاں کی زمین اور درخت کو اس شرط پر خیبر کے یہودیوں کے حوالہ کر دیا تھا کہ وہ اس میں محنت کریں اور کاشت کاری کریں اور پھر اس کی پیداوار کا آدھا حصہ یہودیوں کا حق ہو گا اور آدھا حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لے لیں گے۔
تشریح
خیبر ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ سے تقریباً ٦٠ میل شمالی میں ایک حرے کے درمیان واقع ہے پہلے یہ ایک مشہور مقام رہ چکا ہے جہاں یہودیوں کی بود باش تھی لیکن اب یہ بستی چند گاؤں کا مجموعہ ہے چونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہیں ہے اس لئے یہاں لوگ اقامت اختیار کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اس کے علاقہ میں کھجور وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے۔
بہرحال یہ حدیث علاوہ امام اعظم ابو حنیفہ کے تمام علماء کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ مساقات و مزارعت جائز ہے حضرت امام اعظم یہ فرماتے ہیں کہ خیبر کی زمین اور درختوں کو وہاں کے یہودیوں کو دینا مساقات و مزارعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ کیونکہ خیبر کی زمین اور وہاں کے درخت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ملکیت میں نہیں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطور مساقات و مزارعت وہاں کے یہودیوں کو دیتے بلکہ وہ زمین بھی یہودیوں ہی کی ملکیت تھی اور وہاں کے درختوں کے مالک بھی یہودی ہی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی املاک کو انہیں کے حوالے کیا اور اس کی پیداوار کا نصف بطور خراج اپنے لئے مقرر فرمایا چنانچہ خراج کی دو قسمیں ہیں (١) خراج مؤظف(٢) خراج مقاسمت۔
خراج مؤظف کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اسلامی مملکت کی طرف سے جن لوگوں پر خراج عائد کیا جاتا ہے ان سے سربراہ مملکت ہر سال کچھ مال لینا مقرر کر لیتا ہے جیسا کہ اہل نجران سے ہر سال بارے سو حلے یعنی جوڑے لئے جاتے تھے۔
خراج مقاسمت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن لوگوں پر خراج عائد کیا جاتا ہے ان کی زمین کی پیداوار ان لوگوں اور اسلامی حکومت کی درمیان کسی مقررہ مقدار میں تقسیم ہوتی ہے جیسا کہ اہل خیبر کے ساتھ ہوا کہ ان کی زمین اور درختوں کی نصف پیداوار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لے لیتے تھے
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ہم لوگ مخابرت کیا کرتے تھے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت رافع ابن خدیج نے یہ بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے تو ہم نے اس وجہ سے اسے ترک کر دیا (مسلم)
تشریح
مخابرت اس مزارعت کو کہتے ہیں کہ جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک چونکہ مزارعت ممنوع ہے اس لئے یہ حدیث ان کی دلیل ہے۔
اور حضرت حنظلہ ابن قیس تابعی حضرت رافع بن خدیج صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی رافع نے فرمایا کہ مجھے میرے دو چچاؤں نے بتایا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مانے میں صحابہ کرام نالیوں پر ہونے والی پیداوار کے عوض اپنی زمین اجرت پر دیا کرتے تھے (یعنی صحابہ اپنی زمین کو کسی دوسرے شخص کو اس شرط کے ساتھ اجرت پر دے دیا کرتے تھے کہ وہ شخص اپنی محنت اور اپنا تخم لگا کر اس میں کاشت کرے اور اس زمین کی پانی کی نالیوں کے کناروں پر جو کچھ پیدا ہو گا وہ اس زمین کی اجرت میں مالک کا حق ہو گا اور اس کے علاوہ باقی زمین کی پیداوار کاشت کرنے والے کا حق ہو گا یا اپنی زمین کو اس قطعہ کی پیداوار کے عوض اجرت پر دیتے تھے جسے مالک اپنے لئے علیحدہ کر لیتا تھا (یعنی زمین کو اجرت پر دینے کی دوسری صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنی زمین جب کسی کو کاشت کے لیے دیتے تو اس کا کوئی قطعہ اپنے لئے متعین کر دیتے تھے اور یہ طے ہو جاتا تھا کہ کاشت کرنے والا اپنی محنت اور اپنا تخم لگا کر پوری زمین پر کاشت کرے پھر اس متعین قطعہ کی جو کچھ پیداوار ہو گی وہ تو مالک لے لے گا اور باقی زمین کی پیداوار کاشت کرنے والا لے گا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا کیونکہ اس میں نقصان اور فریب میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا تھا) حدیث کے راوی حضرت حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع سے پوچھا کہ درہم و دینار کے عوض مزارعت کا کیا حکم ہے (یعنی اپنی زمین کسی کو کاشت کرنے کے لئے دے دی جائے اور اس کے عوض بطور لگان روپے لئے جائیں تو کیا حکم ہے حضرت رافع نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور جس چیز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے (یعنی مزارعت کی مذکورہ دونوں صورتیں) وہ ایسی چیز ہے کہ اگر حرام و حلال کی سمجھ رکھنے والا شخص اس میں غور کرے تو نقصان پہنچنے کے خوف سے اسے پسند نہ کرے (بخاری و مسلم)
تشریح
اپنی زمین کو کاشت کے لئے دینے کی جو دو صورتیں ذکر کی گئی ہیں اور جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے وہ ان علماء کے نزدیک بھی محل نہی ہیں جو مزارعت کے جواز کے قائل ہیں۔
مزارعت کے سلسلے میں چونکہ مختلف احادیث منقول ہیں اس لئے جو علماء مزارعت کو جائز کہتے ہیں وہ بھی اپنے مسلک کو حدیث سے ثابت کرتے ہیں اور وہ علماء بھی حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں جن کے نزدیک مزارعت جائز نہیں ہے گویا دونوں طرف کے علماء کے لئے تاویل کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے اکثر علماء مزارعت کو جائز کہتے ہیں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اس کے عدم جواز کے قائل ہیں لیکن حنفیہ کے دو جلیل القدر ائمہ حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد چونکہ جواز ہی کے قائل ہیں پھر یہ کہ دفع ضرورت کی مصلحت بھی پیش نظر ہے اس لئے حنفی مسلک میں بھی فتوی اسی بات پر ہے کہ مزارعت جائز ہے۔
اور حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ ہم اکثر مدینہ والے کاشتکاری کیا کرتے تھے اور ہم میں سے بعض لوگ اپنی زمین کو بٹائی پر کاشت کرنے کے لئے کسی دوسرے کو دے دیا کرتے تھے اور اس سے یہ کہہ دیتے تھے کہ تم اس پوری زمین پر کاشت کرو اس کے عوض میں اس زمین کا یہ قطعہ میرے لئے ہے یعنی اس قطعہ کی پیداوار میں لے لوں گا اور یہ قطعہ تمہارے لئے ہے (یعنی اس دوسرے قطعہ کی پیداوار تم لے لینا) اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ایک قطعہ میں پیداوار ہو جاتی تھی لیکن دوسرے قطعہ میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا تھا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مزارعت کی اس صورت سے منع فرمایا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ایک شخص کو تو زمین کی پوری پیداوار مل جاتی تھی اور دوسرے شخص کا حق بالکل ضائع ہو جاتا تھا (بخاری و مسلم)
اور حضرت عمرو ابن دینار تابعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس تابعی سے کہا کہ اگر آپ مزارعت کو ترک کر دیتے تو بہتر تھا کیونکہ علماء کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس نے کہا کہ عمرو! میں اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے لوگوں کو دیتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں اور سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباس نے مجھے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع نہیں فرمایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا ہے کہ اپنے کسی بھائی کو اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے دے دینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر اس زمین کا کوئی لگان وغیرہ متعین کر کے لے لیا جائے (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مزارعت میں تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ دیا جاتا ہے اور کچھ لیا جاتا ہے یعنی اپنی زمین دی جاتی ہے اور اس کے عوض اس کی پیداوار میں سے کچھ حصہ متعین کر کے لیا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر کسی کے ساتھ احسان کیا جائے بایں طور کہ اسے اپنی زمین بغیر کچھ لئے بطور رعایت دی جائے تو وہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ بہتر ہے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زمین ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس میں خود کاشت کرے یا خود کاشت نہ کر سکے) تو اپنے کسی بھائی کو عاریۃً دے دے اور اگر یہ دونوں ہی باتیں پسند نہ ہوں تو پھر چاہئے کہ اپنی زمین اپنے پاس رکھے (بخاری و مسلم)
تشریح
شیخ مظہر فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے مال سے نفع حاصل کرے لہذا جس شخص کے پاس زمین ہو اسے چاہئے کہ وہ اس میں خود کھیتی باڑی کرے تا کہ اس سے پیداوار ہو اور اس کی وجہ سے اسے نفع ہو اور اگر کی وجہ سے وہ خود کاشت نہ کر سکتا ہو تو پھر وہ اس زمین کو اپنے کسی مستحق مسلمان بھائی کو عاریۃً دے دے تاکہ وہ اس میں محنت مشقت کر کے اپنا پیٹ بھرے اس صورت میں انسانی اخلاق و ہمدردی کا ایک تقاضہ بھی پورا ہو گا اور اسے ثواب بھی ملے گا لیکن اگر وہ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت پسند نہ کرے تو پھر اپنی زمین کو اپنے پاس رہنے دے یہ آخری حکم گویا ان دونوں صورتوں کو ترک کرنے اور مزارعت کو اختیار کرنے پر از راہ تنبیہ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص نہ تو اپنی زمین سے مالی فائدہ حاصل کرے کہ اس پر خود کاشت کرے اور نہ کسی مسلمان بھائی کو عاریۃً دے کر اس سے روحانی نفع حاصل کرے تو پھر بہتر یہی ہے کہ وہ اس زمین کو یوں ہی چھوڑ دے کسی کو بطور مزارعت نہ دے نیز اس میں ایسے لوگوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو اپنے مال سے نہ تو خود ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ دوسرے کو نفع پہنچاتے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تو پھر چاہئے کہ اپنی زمین اپنے پاس رکھے کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کی زمین عاریۃً قبول کرنے سے انکار کر دے تو اپنی زمین اپنے پاس رہنے دے اس صورت میں یہ حکم اباحت کے طور پر ہو گا۔
منقول ہے کہ حضرت ابو امامہ نے ایک جگہ) ہل اور کھیتی باڑی کا کچھ دیگر سامان دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ سامان جس گھر میں داخل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گھر میں ذلت داخل کر دیتا ہے (بخاری)
تشریح
اس حدیث سے اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک زراعت کا پیشہ ناپسندیدہ یا معیوب تھا یا اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کھیتی باڑی کرنے والوں کی مذمت کرنا تھا بلکہ درحقیقت اس ارشاد گرامی کا منشاء جہاد کی ترغیب دینا ہے اور یہ آگاہ کرنا ہے کہ زراعت میں مشغول ہو کر جہاد کو ترک نہ کر دیا جائے اگر کوئی شخص اپنی معاشی ضروریات کی جائز و حلال تکمیل کے لئے زراعت کے پیشے کو اختیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ کوئی غیر پسندیدہ بات نہیں ہے اور نہ ایسا شخص اس وعید میں داخل ہے۔
بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو دشمنان دین کے قریب یا ان کے ملک کی سرحدوں سے متصل اقامت پذیر ہوں کہ اگر ایسے لوگ اپنی تمام تر توجہ زراعت کی طرف مبذول کر کے جہاد کی ضرورت و اہمیت کو فراموش کر دیں گے تو دشمن ان پر غالب آ جائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو جائیں گے۔
حضرت رافع بن خدیج نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کی زمین میں اس کی اجازت کے بغیر (یعنی مالک کی رضا اور حکم کے بغیر) کاشت کرے تو اس کے لئے اس زمین کی پیداوار میں سے علاوہ اس کے کہ جو اس نے خرچ کیا ہے اور کچھ نہیں ہو گا (ترمذی ابو داود) امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی کی زمین میں مالک کی اجازت و مرضی کے بغیر اگر کوئی شخص کاشت کرے تو اس زمین میں ساری پیداوار زمین کے مالک ہی کو ملے گی ہاں کاشت کرنے والے نے اپنا جو تخم اس کاشت میں لگایا ہو گا وہ اسے مل جائے گا اس کے علاوہ اور کچھ اسے نہیں ملے گا چنانچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے۔
لیکن دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں زمین کی پیداوار کاشت کرنے والے ہی کو ملے گی البتہ اس کے لئے یہ ضروری ہو گا کہ وہ زمین کا نقصان اس کے مالک کو ادا کرے حنفیہ کے بعض علماء نے بھی اسی قول کو ذکر کیا ہے اور ابن مالک نے یہ کہا ہے کہ ایسے شخص پر زمین پر قبضہ کے دن سے اس کی کاشت کے دن سے زمین خالی ہونے کے دن تک اس زمین کا معاوضہ واجب ہو گا اور اس کی جو کچھ پیداوار ہو گی وہ اس شخص کی ہو گی۔
حضرت قیس بن اسلم حضرت ابو جعفر (یعنی امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا مدینہ میں مہاجرین کا کوئی ایسا گھر نہ تھا جو تہائی اور چوتھائی پر (کی بٹائی پر) کھیتی نہ کرتا ہو۔ حضرت علی حضرت سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاص حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عمر بن عبدالعزیز قاسم عروہ حضرت ابو بکر کی والد حضرت عمر کی اولاد حضرت علی کی اولاد اور ابن سیرین یہ سب کھیتی کرتے تھے حضرت عبدالرحمن بن اسود تابعی کا بیان ہے کہ میں حضرت عبدالرحمن بن یزید کی شرکت میں مزارعت کیا کرتا تھا۔ نیز حضرت عمر نے لوگوں سے اس شرط پر مزارعت کا معاملہ کیا تھا کہ اگر عمر تخم اپنے پاس سے دیں گے تو پیداوار کا نصف حصہ ان کا ہو گا اور اگر وہ لوگ بیج دیں گے تو پیداوار میں اس کے مطابق ان کا حصہ ہو گا (یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی جو بھی مقرر ہوتا ہو) بخاری)
تشریح
میرک شاہ نے کہا ہے کہ خود بخاری کی عبارت اور اس کی شرحوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو جفعر کی عبارت لفظ والربع پر ختم ہو گئی ہے اس کے آگے وزارع سے آخر تک ساری عبارت خود بخاری کی ہے اور یہ سب آثار (یعنی صحابی یا تابعی کے اقوال) ہیں جن کو بخاری نے چونکہ بغیر اسناد نقل کیا ہے اس لئے معلق ہیں چنانچہ مؤلف مشکوٰۃ کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ روایت کے آخر میں رواہ بخاری تعلیقاً (اس روایت کو بخاری نے بطریق تعلیق نقل کیا ہے) لکھتے۔