مشکوٰة شر یف

مشترک غلام کو آزاد کرنے، قرابت دار کو خرید نے اور بیماری کی حالت میں آزاد کر نے کا بیان

مشترک غلام کو آزاد کرنے، قرابت دار کو خرید نے اور بیماری کی حالت میں آزاد کر نے کا بیان

اس باب میں جن مسائل و احکام سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اگر کوئی غلام مشترک ہو مثلاً دو شخص زید اور بکر مشترک طور پر ایک غلام کے مالک ہوں اور ان میں سے ایک شریک مثلاً زید اپنا حصہ آزاد کر دے تو دوسرا کیا کرے ؟ چنانچہ اس بارے میں جزوی آزادی (یعنی ایک غلام کا مثلاً آدھا حصہ آزاد ہو جائے اور آدھا غلام ہی رہے) معتبر ہے یا نہیں خود حنفیہ کے ہاں مختلف اقوال ہیں، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ  جزوی آزادی معتبر ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ جزوی آ زادی معتبر نہیں ہے، اقوال کے اس اختلاف کا تعلق مسئلہ کے صرف اسی ایک جزو سے نہیں ہے بلکہ اس سے دوسرے احکام و مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔

باب کا دوسرا جزء یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے غلام کو خریدے جو اس کا قرابت دار ہو تو وہ غلام محض خرید لینے ہی سے آزاد ہو جائے گا خواہ وہ شخص اس کو آزاد کرے یا نہ کرے ! البتہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ  قرابت دار  سے کس کس رشتہ کے لوگ مراد ہیں اس کی تفصیل بھی آگے آئے گی۔

باب کا تیسرا جزء یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں غلام کو آزاد کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ چنانچہ اس کے متعلق احکام و مسائل بھی حسب موقع احادیث کی تشریح کے ضمن میں بیان کئے جائیں گے۔

مشترک غلام کو آزاد کرنے کے بارے میں ایک ہدایت

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص کسی (مشترک) غلام کے اپنے حصہ کو آزاد کرے (تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ) اگر اس کے پاس اتنا مال موجود ہو جو (اس غلام کے باقی حصوں) کی قیمت کے بقدر ہو تو انصاف کے ساتھ (یعنی بغیر کمی بیشی کے) اس غلام کے (باقی ان حصوں) کی قیمت لگائی جائے گی اور وہ اس غلام کے دوسرے شریکوں کو ان کے حصوں کی قیمت دے دے وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو تو پھر اس غلام کا جو حصہ اس شخص نے آزاد کیا ہے وہ آزاد ہو جائے گا (اور دوسرے شرکاء کے حصے مملوک رہیں گے۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر ایک غلام کے مثلاً دو مالک ہوں اور ان میں سے ایک حصہ دار اپنا حصہ آزاد کرنا چاہے تو اگر وہ آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور ہو تو وہ دوسرے شریک کو اس کے حصہ کے بقدر قیمت ادا کر دے اس صورت میں وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور نہ ہو (اور دوسرے شریک کو اس کے حصہ کی قیمت ادا نہ کر سکتا ہو) تو اس صورت میں وہ غلام اس شخص کے حصہ کے بقدر تو آزاد ہو جائے گا اور دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر غلام رہے گا۔

نیز حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آزادی اور غلامی متجزی ہو سکتی ہیں (یعنی کسی غلام کا کچھ حصہ آزاد ہو جانا اور کچھ حصہ غلام رہنا جائز رہتا ہے) اور دوسرے شریک کو اپنا حصہ آزاد کر نے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس غلام سے استسعاء (محنت) کرائی جائے ! چنانچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ باوجودیکہ آزادی اور غلامی کے متجزی ہونے کا قائل ہیں لیکن اس صورت میں ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر آزاد کر نے والا شخص صاحب مقدور ہو تو وہ دوسرے شریک کا حصہ بھر دے (یعنی وہ اس کو اس کے حصہ کی قیمت ادا کر دے) یا دوسرا شریک اپنے حصے کے بقدر اس غلام سے استسعاء کرائے یا وہ شریک بھی اپنا حصہ آزاد کر دے اور اگر آزاد کرنے والا شخص صاحب مقدور نہ ہو تو پھر وہ اپنے شریک کو اس کا حصہ نہ پھیر دے۔ بلکہ وہ شریک یا تو اس غلام سے استسعاء کے ذریعہ اپنے حصے کی قیمت وصول کر لے یا اپنا حصہ آزاد کر دے اس صورت میں حق ولاء دونوں کو حاصل ہو گا ! اس بارے صاحبین یعنی حضرت امام ابو یو سف اور امام محمد کا یہ قول ہے کہ آزاد کرنے والا شخص اگر صاحب مقدور ہو تو دوسرے شریک کا حصہ پھیر دے اور اگر صاحب مقدور نہ ہو دوسرا شریک اس غلام سے استسعاء کے ذریعہ اپنے حصہ کی قیمت حاصل کر لے، اور چونکہ آزادی متجزی نہیں ہوتی اس لئے اس صورت میں حق ولاء صرف آزاد کر نے والے کو حاصل ہو گا۔

صاحبین کی مستدل حدیث

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص (مشترک) غلام کے اپنے حصہ کو آزاد کرے گا تو وہ غلام پورا آزاد ہو جائے گا (اور یہ آزادی اس آزاد کرنے والے شخص کی طرف سے متصور ہو گی) اور اگر اس شخص کے پاس (اتنا) مال ہو (کہ وہ اپنے حصہ کے علاوہ باقی حصوں کی قیمت کی ادائیگی کر سکے تو دوسرے شرکاء کو ان کے حصوں کی قیمت دے دے) اور اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو تو پھر ہو غلام (ان باقی حصوں) کے بقدر محنت مزدوری یا دوسرے شرکاء کی خدمت پر مامور کیا جائے لیکن غلام کو (کسی ایسے کام اور محنت کی) مشقت میں مبتلا نہ کیا جائے (جو اس کی طاقت سے باہر ہو)۔  (بخاری و مسلم)

مرض الموت میں اپنے تمام غلام آزاد کر کے اپنے ورثاء کی حق تلفی نہ کرو

اور حضرت عمران ابن حصین راوی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیئے اور اس شخص کے پاس ان غلاموں کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا (پھر اس شخص کی وفات کے بعد جب) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان غلاموں کو بلایا اور (دو دو کی تعداد میں) ان کے تین حصے کئے اور ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اس طرح ان سے دو کو تو آزاد کر دیا اور چار کو غلام رکھا اور آزاد کرنے والے کے حق میں (اظہار ناراضگی) کے لئے سخت الفاظ فرمائے۔  اور نسائی کی روایت میں جو حضرت عمران ہی سے منقول ہے، ان الفاظ  سخت الفاظ فرمائے  کی بجائے یہ الفاظ ہیں  کہ میں نے تو یہ ارادہ کر لیا تھا کہ اس شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھوں  اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس (شخص کے حق میں بطور تنبیہ وتہدید) یہ فرمایا کہ اگر میں اس کی تدفین سے پہلے اس کے جنازہ پر پہنچتا تو وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاتا۔ 

 

تشریح

 

 دو کو تو آزاد کر دیا الخ  کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم جاری فرمایا کہ جن دو کے نام قرعہ نکلا ہے وہ آزاد ہیں اور باقی چاروں غلام رہیں گے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنے مرض الموت میں اپنے سارے غلاموں کو آزاد کر دے تو اس آزادی کا اجراء ان غلاموں کی صرف تہائی تعداد میں ہو گا کیونکہ مرض الموت میں اس کے مال کے ساتھ اس کے ورثاء کا حق متعلق ہو جاتا ہے، اسی طرح وصیت، صدقہ، ھبہ اور ان کے مثل کا اجراء بھی تہائی مال میں ہو گا۔

زین العرب نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم اس لئے جاری فرمایا کہ اس وقت عام طور پر غلام زنگی ہوا کرتے تھے جو قیمت میں مساوی ہوتے تھے۔ اور امام نووی نے حضرت امام ابو حنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ایسی صورت میں (مساوی سلوک کے پیش نظر) ہر غلام کا تہائی حصہ تو آزاد متصور ہو گا اور باقی دو حصوں کے بقدر اس سے محنت یا خدمت لی جائے گی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص پر اس لئے اظہار ناراضگی فرمایا کہ اس نے چھ کے چھ غلاموں کو آزاد کر کے اپنے ورثاء کو بالکل محروم کر دیا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں سخت مکروہ عمل تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ورثاء پر اس طرح شفقت و کرم کیا کہ اس شخص کی طرف سے دی گئی آزادی کو دو غلاموں کے حق میں جاری کیا اور باقی چار کو ان کو ورثاء کا حق قرار دے دیا۔ حدیث کے اس جزو سے یہ معلوم ہوا کہ میت کو اس کے کسی نا مشروع اور ظالمانہ عمل پر برا کہہ سکتے ہیں اور یہ اس ارشاد گرامی حدیث (اذکرو اامواتکم بالخیر) (اپنے مرے ہوئے لوگوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کرو) کے منافی نہیں ہے۔

غلام باپ کو خرید نے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کوئی بیٹا اپنے باپ کا بدلہ نہیں اتار سکتا مگر اس صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے اور اس کو خرید کر آزاد کر دے۔  (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ محض بیٹے کے خرید لینے سے ہی آزاد ہو جاتا بلکہ جب اسے اس کا بیٹا خرید کر آزاد کرے تب آزاد ہوتا ہے۔ چنانچہ اصحاب ظواہر کا یہی مسلک ہے۔ لیکن جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی محض ملکیت میں آ جانے سے آزاد ہو جاتا ہے، اس کی صراحت دوسری فصل کی پہلی حدیث سے بھی ہوتی ہے اور اس حدیث کے معنی بھی یہی ہیں۔ چنانچہ حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ (فیعتقہ) میں حرف فا سبب کے لئے ہے۔ اس صورت میں حدیث کے آخری جزء کا ترجمہ یہ ہو گا کہ  جب کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے خرید لے  لہٰذا خریدنے کے بعد اس کی ضرورت نہیں ہو گی کہ بیٹا اس باپ سے یوں کہے کہ میں نے تمہیں آزاد کیا بلکہ وہ محض بیٹے کے خرید لینے ہی سے آزاد ہو جائے گا۔

مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟

اور جابر کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور اس کے پاس اس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ چنانچہ ایک شخص نعیم ابن نحام نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ  چنانچہ نعیم ابن عبداللہ عدوی نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا۔ انہوں نے آٹھ سو درہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ درہم اس شخص کو دے دیئے (جس کا وہ غلام تھا) اور فرمایا کہ تم اس رقم کو سب سے پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو اور اس کے ذریعہ ثواب حاصل کرو اور اس کے بعد اگر کچھ بچ جائے تو اس کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو، اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی بچ جائے تو رشتہ داروں پر خرچ کرو اور اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو اس کو اس طرح اور اس طرح خرچ کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح سے مراد یہ ہے کہ اس کو اپنے آگے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں خرچ کرو (یعنی تمہارے لئے آگے اور دائیں بائیں جو سائل جمع ہوں ان کو اللہ واسطے دے دو)۔ 

 

تشریح

 

  مدبر  کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے غلام سے یہ کہہ دے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو، چنانچہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ایسے غلام کو بیچنا حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ مدبر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو مدبر مطلق اور دوسرا مدبر مقید۔ مدبر مطلق تو وہ غلام ہے جس کا مالک اسے یوں کہے کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔ اور مدبر مقید وہ غلام ہے جس سے اس کا مالک یوں کہے کہ اگر میں اس بیماری میں مر جاؤں تو تم آزاد ہو۔  مدبر مطلق کا حکم تو یہ ہے کہ ایسے غلام کو آزادی کے علاوہ کسی اور صورت میں اپنی ملکیت سے نکالنا مالک کے لئے جائز نہیں ہے یعنی وہ مالک اس غلام کو آزاد تو کر سکتا ہے لیکن نہ تو اس کو فروخت کر سکتا ہے اور نہ ہبہ کر سکتا ہے، ہاں اس سے خدمت لینا جائز ہے، اسی طرح اگر لونڈی ہو تو اس سے جماع کرنا بھی جائز ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرنا بھی جائز ہے ایسا غلام اپنے مالک کے مرنے کے بعد اس کے تہائی مال میں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اگر تہائی مال میں سے پورا آزاد نہ ہو سکا ہو تو پھر تہائی مال کے بقدر (جزوی طور پر ہی آزاد ہو گا) مدبر مطلق کے برخلاف مدبر مقید کو بیچنا جائز ہے اور اگر وہ شرط پوری ہو جائے یعنی مالک اس مرض میں مر جائے تو پھر جس طرح مدبر مطلق اپنے مالک کے مر جانے کے بعد آزاد ہو جاتا ہے اسی طرح مدبر مقید بھی آزاد ہو جائے گا ! لہٰذا امام ابو حنیفہ اس حدیث کے مفہوم میں تاویل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس مدبر کو فروخت فرمایا وہ مدبر مقید ہو گا۔

مشکوٰۃ کے تمام نسخوں میں نعیم ابن نحام لکھا ہے لیکن علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے اصل میں نعیم ہی کا دوسرا نام نحام ہے، اس دوسرے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں نعیم کی نحمہ (یعنی آواز سنی)  اس مناسبت سے انہیں نحام کہا جانے لگا۔

ذی رحم محرم ملکیت میں آتے ہی آزاد ہو جاتا ہے

حضرت حسن بصری حضرت سمرہ سے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص خواہ خریدنے کی وجہ سے خواہ ہبہ یا وراثت کے ذریعہ) اپنے ذی رحم محرم کا مالک ہو گا تو وہ آزاد ہو جائے گا۔  (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا۔

 ذی رحم  اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا، باپ، بھائی چچا، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں  اور محرم  اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ چچا کا بیٹا اور اسی قسم کے دوسرے رشتہ دار ذی رحم محرم کے زمرہ میں شامل نہیں ہیں۔

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں قرابت دار محض ملکیت میں آ جانے کی وجہ سے آزاد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ اہل ظواہر کا قول یہ ہے کہ ان قرابت داروں میں سے کوئی بھی محض ملکیت میں آ جا نے سے آزاد نہیں ہو جاتا بلکہ آزاد کرنا ضروری ہوتا ہے، ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے جو پہلی فصل میں گزری ہے۔

جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ محض ملکیت میں آ جانے کی وجہ سے اصول کے درجہ کے قرابت دار (جیسے باپ داد ا، پڑ دادا وغیرہ) اور فروع کے درجہ کے قرابت دار، (جیسے بیٹا، پوتا پڑپوتا وغیرہ) آزاد ہو جاتے ہیں، البتہ اصول اور فروع کے علاوہ دوسرے قرابت داروں کے بارے میں جمہور علماء کے بھی مختلف اقوال ہیں، چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک تو یہ ہے کہ یہ خصوصیت صرف اصول و فروع کے قرابت داروں ہی کے حاصل ہے وہ محض ملکیت میں آ جانے کی وجہ سے آزاد ہو جاتے ہیں جب کہ حضرت امام مالک نے اس خصوصیت میں بھائی کو بھی شامل کیا ہے، ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ تمام ذی رحم محرم آزاد ہو جا تے ہیں۔

نیز ان کی تیسری روایت امام شافعی کے مسلک کے مطابق ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر وہ قرابت دار جو ذی رحم محرم ہو محض ملکیت میں آ جانے کی وجہ سے آزاد ہو جاتا ہے۔

ام ولد، اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہو جاتی ہے

اور حضرت عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب کسی شخص کی لونڈی اس کے (نطفہ) سے بچہ جنے تو وہ لونڈی اس شخص کے مرنے کے پیچھے۔ یا یہ فرمایا کہ اس شخص کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی۔  (دارمی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو لونڈی اپنے مالک کے بچہ کو جنم دے وہ اس مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہو جاتی ہے وہ مالک کی زندگی میں آزاد نہیں ہوتی لیکن مالک اس لونڈی کو نہ تو فروخت کر سکتا ہے اور نہ ہبہ کر سکتا ہے اس مسئلہ پر علماء کا اجماع و اتفاق ہے، اس کے برخلاف جو روایت منقول ہے وہ منسوخ ہے اس کی تفصیل اگلی حدیث کے ضمن میں آئے گی۔

 

 

٭٭ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں بچوں کی ماؤں کو بیچا لیکن حضرت عمر فاروق خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ہمیں ان کو بیچنے سے منع کر دیا اور ہم اس سے باز رہے۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  بچوں کی ماؤں  سے مراد وہ لونڈیاں ہیں جن سے ان کے مالکوں کی اولاد ہو چکی تھی۔ یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں ان لونڈیوں کو بیچا جاتا تھا تو حضرت عمر نے اس سے کیوں منع کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ان لونڈیوں کو بیچنے کی اجازت کی منسوخی کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عام لوگوں تک نہ پہنچا ہو گا اور ان لونڈیوں کو بیچے جانے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک نہ پہنچی ہو گی۔ لہٰذا اس صورت میں حضرت جابر کا یہ ارشاد ایسی لونڈیوں کے بیچنے کے جواز کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ دلیل تو جب ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان لونڈیوں کے بیچے جانے کی اطلاع ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو جائز رکھتے۔

نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ان لونڈیوں کو بیچے جانے کا واقعہ اس کی اجازت کی منسوخی سے پہلے کا ہو گا، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ حضرت ابوبکر کا زمانہ خلافت چونکہ بہت قلیل تھا اس میں بھی وہ دوسری مہمات میں مشغول رہے اس لئے انہیں اس کی علم نہ ہوا ہو گا، اگر ان کو اس کی خبر ہوتی تو وہ اس فعل سے ضرور باز رکھتے۔ حضرت ابوبکر کے بعد جب حضرت عمر فاروق خلیفہ ہوئے تو انہوں نے لوگوں کو اس سے روک دیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ام ولد کو بیچنے کی ممانعت فرما دی تھی۔

اگر آزادی کے وقت غلام کے پاس کچھ مال ہو تو آقا کی اجازت کے بعد ہی وہ اس مال کا مالک ہو گا

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کوئی شخص اپنے غلام کو آزاد کرے اور اس غلام کے پاس کچھ مال ہو تو غلام کا وہ مال اس کے مالک ہی کا ہے ہاں اگر مالک اس کی شرط کر دے (تو پھر وہ مال اس غلام کا ہو جائے گا۔ ' (ابوداؤد و ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 ظاہر ہے کہ کوئی بھی غلام کسی بھی مال کا مالک ہوتا ہی نہیں تو اس کے پاس مال کہاں سے ہو گا  لہٰذا اور اس غلام کے پاس کچھ مال ہو  اس سے مراد یہ ہے کہ اس غلام نے اپنے مالک کی اجازت سے جو محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ کی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو مال حاصل ہوا ہے اگر وہ مال اس غلام کے پاس ہو تو اس کے بارے میں بھی حکم یہ ہے کہ وہ دراصل اس غلام کے آقا ہی کی ملکیت ہے کیونکہ غلام اور اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے سب کا مالک اس کا آقا ہی ہوتا ہے لہٰذا یہ گمان نہ کیا جائے کہ غلام جب آزاد ہو جانے کی وجہ سے ملکیت قائم کرنے کا اہل ہو گیا ہے تو وہ مال جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھا وہ اس کی ملکیت میں آ گیا ہے کیونکہ وہ مال تو پہلے بھی اس کے آقا کی ملکیت تھا اور اب اس کے آقا کی ملکیت رہے گا۔ غلام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہو گا، ہاں اگر اس کا آقا اس کو آزاد کرتے وقت یہ کہہ دے کہ یہ مال غلام کی ملکیت ہے تو اس صورت میں وہ مال اس آقا کی طرف سے اس غلام کے لئے صدقہ اور ہبہ ہو جائے گا اور وہ آزاد ہونے کے بعد اس کا مالک ہو جائے گا۔

آزادی جزوی طور پر واقع ہوتی ہے یا نہیں ؟

اور حضرت ابو ملیح (تابعی) اپنے والد مکرم (حضرت اسامہ ابن عمیر صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے ایک غلام میں سے کچھ حصہ آزاد کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خدا کا کوئی شریک نہیں ہے  اور پھر یہ حکم دیا کہ اس غلام کو بالکل آزاد کر دیا جائے۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو بھی کام اللہ تعالیٰ کے لئے کیا جائے اور وہ عبادت کی قسم سے ہو تو اس میں اپنے حصہ کو شریک نہ کرنا چاہئے۔ لہٰذا ایک غلام کے بعض حصوں کو آزاد کر دینا اور بعض حصوں کو بدستور غلام رکھنا مناسب نہیں ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آزادی اور غلامی متجزی نہیں ہوتی، لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ چو نکہ متجزی کے قائل ہیں اس لئے ان کے نزدیک ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلام کو بالکل آزاد کر دینے کا حکم دیا بایں طور کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے مالک کو اس کی ترغیب دلائی کہ وہ اس غلام کو بالکل آزاد کر دے۔

مشروط آزادی کا ایک واقعہ

اور حضرت سفینہ کہتے ہیں کہ (ابتداءً) میں حضرت ام سلمہ کی ملکیت میں تھا (ایک دن) انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ  میں تمہیں آزاد کرنا چاہتی ہوں، لیکن یہ شرط عائد کرتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کر تے رہو گے  میں نے عرض کیا (کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت تو میرے لئے سعادت وخوش بختی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے) اگر آپ یہ شرط عائد نہ کرتیں تب بھی میں اپنے جیتے جی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جدا نہ ہوتا  چنانچہ حضرت ام سلمہ نے مجھے آزاد کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی شرط مجھ پر عائد کر دی۔  (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 سفینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے آزد کردہ غلام تھے، لیکن بعض حضرات یہ فرماتے تھے کہ یہ حضرت ام سلمہ کے غلام تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، پھر حضرت ام سلمہ نے ان کو مذکورہ بالا شرط کے ساتھ آزاد کر دیا تھا سفینہ کا اصل نام مہران یا رومان اور یا رباح تھا انکی کنیت ابو عبد الرحمٰن یا ابو البختری تھی، سفینہ ان کا لقب تھا اور اسی نام کے ساتھ زیادہ مشہور تھے، اس لقب کا پس منظر یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام کی خدمت کیا کرتے تھے جب غزوات میں جاتے تو لوگوں کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر ادھر ادھر پہنچاتے تھے۔

 سفینہ  کشتی کو کہتے ہیں جس طرح کشتی بار برداری کے کام آتی ہے اس طرح یہ بھی لوگوں کے بوجھ ڈھوتے تھے، اسی اعتبار سے ان کا لقب  سفینہ  ہو گیا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سفینہ اسلامی لشکر کے ہمراہ تھے کہ قافلہ سے بچھڑ گئے اور جنگل میں راستہ بھول گئے، وہ راستہ کی تلاش میں سر گرداں تھے کہ اتنے میں قریب کی جھاڑیوں سے ایک شیر نمودار ہوا اور ان کے سامنے آگیا، انہوں نے شیر کو دیکھتے ہی کہا کہ ابو الحارث ! میں سفینہ ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا آزاد کردہ غلام ہے !یہ سنتے ہی شیر دم ہلانے لگا اور پھر ان کے آگے ہو لیا اور ان کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔

مکاتب جب تک پورا بدل کتابت ادا نہ کر دے غلام ہی رہے گا

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مکاتب (اس وقت تک) غلام رہے گا جب تک کہ اس کے بدل کتابت میں سے ایک درہم بھی باقی رہے گا۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  مکاتب  اس غلام کو کہتے ہیں جس کو اس کا مالک یہ لکھ کر دے دے کہ جب تم اتنے روپے ادا کرو گے آزاد ہو جاؤ گے، چنانچہ اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ مالک نے اس کی آزادی کے لئے جتنے روپے مقرر کئے ہیں جب تک وہ پورے مالک کو ادا نہ ہو جائیں گے وہ مکاتب، غلام ہی رہے گا، اگر اس مقدار میں سے مثلاً ایک روپیہ بھی باقی رہ گیا تو وہ آزاد نہیں ہو گا، یہ نہیں ہو گا کہ اس نے جتنا روپیہ مالک کو ادا کر دیا ہے اس کے حساب سے اس کا کچھ حصہ آزاد ہو جائے اور جو روپیہ باقی رہ گیا اس کے مطابق کچھ حصہ غلام رہے۔

عورتوں کو اپنے مکاتب غلام سے پردہ کا حکم

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (عورتوں) سے فرمایا کہ  جب تم میں سے کسی (عورت) کے مکاتب غلام کے پاس اتنا روپیہ ہو جائے جس سے وہ اپنا پورا بدل کتابت ادا کر سکے تو اس (مالکہ) کو چاہئے کہ وہ اس مکاتب سے پردہ کرے۔  (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مکاتب نے جب تک پورا بدل کتابت ادا نہیں کر دیا غلام اور محرم ہے اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے اگر اس کے پاس اتنا مال و زر ہو گیا ہے جس سے وہ اپنا پورا بدل کتابت ادا کر سکتا ہے تو از راہ تقویٰ و احتیاط اس سے پردہ کرنا چاہئے کیونکہ جب وہ پورا بدل کتابت ادا کرنے کی قدرت واستطاعت رکھتا ہے تو گویا اس نے واقعی اپنے بدل کتابت ادا کر دیا ہے

اس حدیث کے سلسلہ میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم مخصوص طور پر اپنی ازواج مطہرات کے لئے فرمایا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (لستن کاحد من النساء) کے مطابق ازواج مطہرات کا پردہ بھی دوسری عورتوں کی بنسبت زیادہ سخت تھا

مکاتب کی طرف سے بدل کتابت کی جزوی عدم ادائے گی کا مسئلہ

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کسی شخص نے اپنے غلام کو سو اوقیہ کے بدلے مکاتب کیا اور اس غلام نے سب اوقیے ادا کر دیئے مگر دس اوقیے ادا نہ کر سکا یا یہ فرمایا کہ  دس دینار ادا نہ کر سکا (یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دس اوقیہ فرمایا تھا یا دس دینار کا ذکر کیا تھا) اور پھر وہ اس باقی کی ادائے گی سے عاجز ہو گیا تو وہ مکاتب (بدستور) غلام ہی رہے گا۔  (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مکاتب کا اپنے بدل کتابت کے کچھ حصے کی ادائے گی سے قاصر رہنا پورے بدل کتابت کی ادائیگی سے قاصر رہنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مالک کو اس کی کتاب فسخ کر دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اور فسخ کتابت کے بعد وہ مکاتب بدستور غلام رہتا ہے، نیز حدیث کے الفاظ (فھو رقیق) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت کا جو کچھ حصہ مالک کو ادا کر دیا ہے وہ اس مالک ہی کی ملکیت رہے گا۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کوئی مکاتب  دیت یا میراث کا مستحق ہو جائے تو اس کو (اس دیت یا میراث کا) صرف اس قدر حصہ ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی) اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مکاتب کو دیت میں اس حصہ کے بقدر مال دیا جائے گا جو وہ اپنی آزادی کی قیمت (یعنی بدل کتابت) میں سے ادا کر چکا تھا، اور اس حصہ کے بقدر قیمت دی جائے گی اور ابھی بطور غلام باقی ہے، اس روایت کو ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔ 

 

تشریح

 

  دیت یا میراث کا مستحق ہو جائے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مکاتب کسی دیت یا کسی میراث کا حقدار ہو جائے تو اس دیت یا میراث میں سے اس کو اسی قدر ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ زید کسی شخص کا غلام تھا اس کے مالک نے اس کو مکاتب کیا، اور زید نے ابھی اپنے بدل کتابت میں سے آدھا ہی حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ اس کا باپ مر گیا جو ایک آزاد شخص تھا لیکن اس نے اپنے اس مکاتب بیٹے یعنی زید کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں چھوڑا تو اس صورت میں زید اپنے مرحوم باپ کی وراثت میں صرف آدھے حصے کا حقدار ہو گا۔ یا دوسری صورت جس کو دوسروں نے بیان کیا ہے، یہ ہو کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت میں سے آدھا حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ کسی نے اس (زید) کو قتل کر دیا تھا، اس صورت میں قاتل اس مکاتب کے آدھے آزاد حصہ کی دیت تو اس کے ورثاء کو ادا کرے گا اور اس کے آدھے غلام حصہ کی دیت جو اس کی قیمت کا بھی آدھا حصہ ہے، اس کے مالک کو ادا کرے مثلاً بکر نے اپنے غلام زید کو ایک ہزار کے بدلے مکاتب کیا ویسے زید نے غلام ہونے کی حیثیت سے سو روپے کی قیمت کا تھا، مکاتب ہونے کے بعد زید اپنے مالک بکر کو اپنے بدلے کتابت کے مقررہ ایک ہزار روپے میں سے پانچ سو روپے ہی ادا کر پایا تھا کہ کسی شخص نے اس کو قتل کر دیا، اس صورت میں قاتل زید کے ورثاء کو پانچ سو روپے ادا کرے گا جو اس کی آزادی کی قیمت (یعنی بدل کتابت) کا نصف حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے مالک بکر کو پچاس روپے ادا کرے گا جو اس کی اصل قیمت کا نصف حصہ ہے۔

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مکاتب اپنے بدل کتابت میں سے جو مقدار مالک کو ادا کر دے گا اس کے بقدر وہ آزاد ہو جائے گا اور جو مقدار ادا نہیں کرے گا اس کے بقدر غلام رہے گا چنانچہ اس حدیث پر صرف امام نخعی نے عمل کیا ہے لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس کو کسی مسلک کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا بلکہ یہ ان دونوں حدیثوں کے معارض بھی ہے جو اس سے پہلے بروایت حضرت عمرو ابن شعیب نقل ہو چکی ہیں جن سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ مکاتب کے ذمہ جب تک بدل کتابت کا کچھ حصہ بھی باقی رہے گا وہ غلام ہی رہے گا۔

مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے

حضرت عبد الرحمٰن ابن ابو عمرہ انصاری (تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی والدہ نے (ایک دن) بردے کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا مگر وہ اگلی صبح ہونے تک اس ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکی تھیں، کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم ابن محمد سے (اس صورت حال کو ذکر کیا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں اپنی والدہ کی طرف سے (بردہ کو) آزاد کروں تو کیا اس سے ان کو نفع پہنچے گا ؟ حضرت قاسم نے فرمایا کہ (ایک مرتبہ) حضرت سعد ابن عبادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری والدہ کا (اچانک) انتقال ہو گیا ہے، اگر میں ان کی طرف سے بردہ آزاد کروں تو کیا اس سے ان کو نفع پہنچے گا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ہاں نفع  پہنچے گا۔  (مالک)

 

تشریح

 

 حضرت قاسم ابن محمد، حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے تھے، اس وقت مدینہ میں جو سات فقہاء مشہور تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھے

 ہاں نفع پہنچے گا  کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کی طرف سے جو بردہ آزاد کرو گے اس کا ثواب تمہاری والدہ کو پہنچے گا، چنانچہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے البتہ بدنی عبادت کے ثواب پہنچنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں لیکن زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ بدنی عبادت کا ثواب بھی پہنچتا ہے۔

 

 

٭٭  اور حضرت یحییٰ ابن سعید (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن ابن ابوبکر سوئے ہوئے تھے کہ اسی سونے کی حالت میں (اچانک) انتقال کر گئے، چنانچہ حضرت عائشہ جو ان کی بہن تھیں ان کی طرف سے بہت سے بردے آزاد کئے۔  (مالک)

 

تشریح

 

 حضرت عائشہ نے جو بہت سے بردے آزاد کئے ان کا سبب یا تو یہ تھا کہ حضرت عبدالرحمن پر کسی وجہ سے بردے آزاد کرنے واجب ہوں گے جس پر وہ اپنی زندگی میں عمل نہ کر سکے اور وہ پھر ناگہانی موت کی وجہ سے اس کی وصیت بھی نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت عائشہ نے ازخود ان کی طرف سے بردے آزاد کر دیئے، یا پھر یہ کہ بعض حالات میں ناگہانی موت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، ظاہر ہے کہ اس صورت میں حضرت عائشہ بہت زیادہ غمگین ہوئی ہوں گی، اس لئے انہوں نے بہت سارے بردے آزاد کئے تاکہ اس صورت میں نقصان کا تدارک ہو سکے۔

غیر مشروط طور پر غلام خرید نے والا اس غلام کے مال کا حق دار نہیں ہو گا

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص کسی غلام کو خریدے اور اس کے مال کو شرط نہ کرے تو خریدنے والے کو اس مال میں سے کچھ نہیں ملے گا۔  (دارمی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے غلام کو خریدا اور خریداری کے معاملہ میں اس مال کو شامل نہیں کیا جو غلام کے ساتھ ہے تو وہ اس مال کا حق دار نہیں ہو گا کیونکہ وہ مال تو دراصل اس مالک کی ملکیت ہے۔ جس سے اس نے غلام کو خریدا ہے۔