مشکوٰة شر یف

مصافحہ اور معانقہ کا بیان

مصافحہ اور معانقہ کا بیان

مصافحہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے دست یکدیگر را گرفتن۔ دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا۔ معانقہ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے دست درگرون یکدیگر درآوردن۔ یعنی دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالنا یا دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے کو سینے سے لگانا۔

 

مصافحہ اور معانقہ کے احکام

 

باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے نیز دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا غیر مسنون ہے کسی خاص موقع پر یا کسی خاص تقریب کے وقت مصافحہ ضروری سمجھنا غیر شرعی بات ہے چنانچہ بعض مقامات پر جو یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ عصر کی نماز یا جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مصافحہ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ تخصیص وقت کے سبب اس طرح کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے اور بدعت مذمومہ ہے ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور لوگ نماز میں مشغول ہوں یا نماز شروع کرنے والے ہوں اور وہ شخص نماز ہو جانے کے بعد ان لوگوں سے مصافحہ کرے تو یہ مصافحہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے بشرطیکہ اس نے مصافحہ سے پہلے سلام بھی کیا ہو تاہم یہ واضح رہے کہ اگرچہ کسی متعین اور مکروہ وقت میں مصافحہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی شخص اس وقت مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس کی طرف سے ہاتھ کھینچ لینا اور اس طرح بے اعتنائی برتنا مناسب نہیں ہو گا کیونکہ اس کی وجہ سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھانے والے شخص کو دکھ پہنچے گا اور کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچانا آداب کی رعایت سے زیادہ اہم ہے۔ جوان عورت سے مصافحہ کرنا حرام ہے اور اس بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے سے کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کی طرف جنسی جذبات مائل نہ ہو سکتے ہوں چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ان بوڑھیوں سے مصافحہ کرتے تھے جن کا انہوں نے پیا تھا اسی طرح وہ بڈھا مرد جو جنسی جذبات کی فتنہ خیزیوں سے بے خوف ہو چکا ہو اس کو جوان عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے، عورت کی طرح خوش شکل مرد سے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس کو چھونا بھی حرام ہے بلکہ چھونے کی حرمت دیکھنے کی حرمت سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ مطالب المومنین میں مذکور ہے۔

صلوۃ مسعودی میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص سلام کرے تو اپنا ہاتھ بھی دے یعنی مصافحہ کے لیے ہاتھ دینا سنت ہے لیکن مصافحہ کا یہ طریقہ ملحوظ رہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھے محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنے پر اکتفا نہ کرے کیوں کہ محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنا مصافحہ کا ایسا طریقہ ہے جس کو بدعت کہا گیا ہے۔ معانقہ یعنی ایک دوسرے کو سینے سے لگانا مشروع ہے خاص طور سے اس وقت جب کہ کوئی شخص سفر سے آیا ہو جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی حدیث منقول ہے کہ لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جب کہ اس کی وجہ سے کسی برائی میں مبتلا ہو جانے یا کسی شک و شبہ کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے بارے میں منقول ہے کہ یہ دونوں حضرات معانقہ اور تقبیل یعنی ہاتھ کو منہ اور آنکھوں کے ذریعہ چومنے کی کراہت کے قائل ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ معانقہ کے بارے میں نہی (ممانعت) منقول ہے چنانچہ فصل اول میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نہی ثابت ہوتی ہے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جن روایتوں سے معانقہ کی اجازت ثابت ہوتی ہے ان کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ معانقہ کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا بہرحال اس سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں اور جن کے درمیان بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کہ بعض سے ممانعت کی اجازت ثابت ہوتی ہے اور بعض معانقہ کا تعلق محبت و اکرام کے جذبہ سے ہو وہ بلا شک و شبہ جائز ہے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ معانقہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ جسم پر کپڑے نہ ہوں بدن پر قمیص و جبہ وغیرہ ہونے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ بالاتفاق جائز ہے۔تقبیل یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا بھی جائز ہے بلکہ بزرگان دین اور متبعین سنت علماء کے ہاتھ پر بوسہ دینے کو بعض حضرات نے مستحب کہا ہے لیکن مصافحہ کے بعد خود اپنا ہاتھ چومنا کچھ اصل نہیں رکھتا بلکہ یہ جاہلوں کا طریقہ ہے اور مکروہ ہے۔

امرائے سلطنت اور علماء مشائخ کے سامنے زمین بوسی کرنا حرام ہے زمین بوسی کرنے والا اس زمین بوسی پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہگار ہوتے ہیں۔فقیہ ابوجعفر کہتے ہیں کہ سلطان و حاکم کے سامنے زمین بوسی اور سجدہ کرنے والا کافر ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس کی زمین بوسی و سجدہ عبادت کی نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی کافر ہو جاتا ہے واضح رہے کہ اکثر علماء کے نزدیک زمین بوسی کرنا، زمین پر ماتھا ٹیکنے یا رخسارہ رکھنے سے ہلکا فعل ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ کسی عالم یا سلطان و حاکم کے ہاتھ کو چومنا ان کے علم و انصاف کی بناء پر اور دین کے اعزاز و اکرام کے جذبہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر ان کے ہاتھ چومنے کا تعلق کسی دنیاوی غرض و منفعت سے ہو تو سخت مکروہ ہو گا اگر کوئی شخص کسی عالم یا کسی بزرگ سے اس کا پیر چومنے کی درخواست کرے تو اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے بچوں کو بوسہ سے پیار کرنے کی اجازت ہے اگرچہ غیر کا بچہ ہو بلکہ وہاں طفل پر بوسہ دینا مسنون ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ جو بوسہ شرعی طور پر جائز ہے اس کی پانچ صورتیں ہیں ایک تو مودت و محبت کا بوسہ جیسے والدین کا اپنے بچہ کے رخسار کو چومنا، دوسرے احترام و اکرام اور رحمت کا بوسہ، جیسے اولاد کا اپنے والدین کے سر پر بوسہ دینا، تیسرے جنسی جذبات کے تحت بوسہ دینا جیسے شوہر کا بیوی کے چہرہ پر بوسہ لینا، چوتھے تحیۃ سلام کا بوسہ جیسے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ چومنا، اور پانچویں وہ بوسہ جو بہن اپنے بھائی کی پیشانی کا لیتی ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ اور چہرہ کا بوسہ دینا مکروہ ہے بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چھوٹے بچے کا بوسہ لینا واجب ہے۔ امام نووی نے یہ لکھا ہے کہ شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور جنسی جذبات کے تحت بوسہ لینا بالاتفاق حرام ہے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور دوسرا۔

مصافحہ مشروع ہے

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ (باہمی ملاقات کے وقت سلام کے بعد مصافحہ کرتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں۔ (بخاری

بچے کو چومنا مستحب ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا تو ایک صحابی اقرع ابن حابس رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہا کہ میرے دس بچے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کا کبھی بوسہ نہیں لیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا یعنی جو شخص اپنی اولاد یا مخلوق خدا پر لطف و شفقت نہیں کرتا اس پر اللہ کی رحمت و شفقت نہیں ہوتی۔ (بخاری، مسلم)

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اثم لکع کو ہم انشاء اللہ مناقب اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ و سلم وعلیھم اجمعین کے باب میں نقل کریں گے اور حضرت ام ہانی کی روایت باب الامان میں نقل کی جا چکی ہے۔

مصافحہ کی فضیلت و برکت

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمان ملتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے خدا ان کو بخش دیتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمان ملیں، ایک دوسرے سے مصافحہ کریں اللہ تعالی کی حمد کریں اور بخشش چاہیں تو ان دونوں کو بخش دیا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

حکیم ترمذی اور ابوالشیخ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمان ملتے ہیں اور ان میں ایک اپنے دوسرے ساتھی کو سلام کرتا ہے تو ان میں سے وہ مسلمان اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے جو کشادہ پیشانی اور بشاشت کے ساتھ اپنے دوسرے ساتھی سے ملتا ہے اور پھر جب دونوں مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان پر سو رحمتیں نازل کرتا ہے نوے رحمتیں تو اس پر جس نے پہل کی اور دس رحمتیں اس پر جس سے مصافحہ کیا ہے۔

سلام کے وقت جھکنا ممنوع ہے

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیا وہ جھک جائے؟ آپ نے فرمایا نہیں اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے گلے ملے اور اس کو بوسہ دے؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا تو کیا اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے مصافحہ کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کے وقت جھکنا، جیسا کہ کچھ لوگوں کا معمول ہے اور بعض جگہوں پر اس کا رواج ہے، خلاف سنت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اس بنا پر ناپسند فرمایا کہ یہ چیز رکوع کے حکم میں ہے اور رکوع اللہ کی عبادت ہے۔ یحییٰ نے محی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ سلام کے وقت پیٹھ جھکانا مکروہ ہے کیوں کہ اس کی ممانعت میں صحیح حدیث منقول ہے اور اگرچہ بعض اہل علم و صلاح نے اس کو اختیار کیا ہے لیکن ان کا فعل ہرگز قابل اعتبار و اعتماد نہیں ہے۔ مطالب المومنین میں حضرت شیخ ابومنصور ماتریدی سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے سامنے زمین بوسی کرے یا اس کے آگے پیٹھ جھکائے تو اس کی وجہ سے کافر نہیں ہو گا البتہ گناہگار ہو گا کیونکہ کسی کے آگے زمین بوسی کرنا یا جھکنا تعظیم کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ عبادت کی نیت سے (اگر کوئی شخص عبادت کی نیت سے اس طرح کا فعل کرے گا تو وہ یقیناً کافر ہو جائے گا۔) بعض مشائخ نے اس فعل جھکنے کی ممانعت کو بڑی شدت اور سختی کے ساتھ بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ کاد الانحناء ان یکون کفرا یعنی جھکنا کفر کے نزدیک پہنچا دیتا ہے۔

جو حضرات معانقہ و تقبیل یعنی گلے لگانا اور ہاتھ وغیرہ چومنے کو مکروہ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ، اور امام محمد سے منقول ہے وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں تاہم جو حضرات ان چیزوں کی کراہت کے قائل نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ معانقہ و تقبیل مکروہ ہے جو تملق یعنی بیجا خوشامد اور تعظیم کے طور پر ہو یا جس معانقہ و تقبیل سے کسی برائی میں مبتلا ہو جانے یا شک و شبہ کے پیدا ہو جانے کو خوف ہو ورنہ اس صورت میں گلے لگنا اور ہاتھ وغیرہ چومنا جائز ہے جب کسی کو رخصت کیا جائے یا کوئی سفر سے آئے یا کسی سے بہت دنوں کے بعد ملاقات نصیب ہوئی ہو اور یا بوجہ اللہ کسی کی محبت کا غلبہ اس کا متقاضی ہو۔

سلام، مصافحہ سے پورا ہوتا ہے

اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اس کی پیشانی یا اس کے ہاتھ پر رکھے اور پھر پوچھے کہ اس کا کیا حال ہے اور تمہارا پورا سلام جو تم آپس میں کرتے ہو مصافحہ ہے یعنی جب تم سلام کرو تو مصافحہ کرو تاکہ سلام پورا اور کامل ہو اس روایت کو احمد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کو ضعیف کہا ہے۔

سفر سے آنے والے کے ساتھ معانقہ و تقبیل بلا کراہت جائز ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو مشہور صحابی ہیں اور جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹا بنایا تھا، کسی غزوہ یا کسی سفر سے لوٹ کر مدینے پہنچے تو اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، زید رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے میرے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم برہنہ بدن اپنے کپڑے یعنی چادر کو کھینچتے ہوئے زید رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لیے باہر تشریف لائے (یعنی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر تہبند کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں تھا اور آپ اسی حالت میں دروازہ پر تشریف لے گئے قسم ہے خدا کی میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی آپ کو برہنہ نہیں دیکھا یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کے استقبال کے وقت اس طرح کا اظہار شوق و تمنا کیا ہو اور اس سے ملنے کے لیے برہنہ بدن باہر تشریف لے گئے ہوں بہر حال آپ نے حضرت زید کو گلے لگایا اور بوسہ دیا۔ (ترمذی

 

تشریح

 

یہ حدیث اور اسی طرح حضرت جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی حدیث جو آگے آئے گی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ معانقہ و تقبیل یعنی گلے لگانا اور پیشانی چومنا جائز ہے اور فقہاء نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ سفر سے آنے والے کے ساتھ معانقہ و تقبیل بلا کراہت جائز ہے۔

معانقہ کا جواز

اور حضرت ایوب بن بشیر بنو غنزہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا جب آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کیا کرتے تھے تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے؟حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے مصافحہ کیا اور ایک دن کا واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بلانے کے لیے میرے پاس ایک شخص کو بھیجا اس وقت میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا جب میں گھر آیا تو مجھے اس کی اطلاع دی گئی، چنانچہ میں آپ کی خدمت حاضر ہوا آپ اس وقت ایک تخت پر تشریف فرما تھے آپ نے مجھ کو گلے لگایا اور یہ گلے لگانا بہتر تھا کہیں زیادہ بہتر۔ (ابوداؤد

 

تشریح

 

اس سے معلوم ہوا کہ سفر سے آنے کے علاوہ دوسری حالتوں میں بھی اظہار محبت و عنایت کے پیش نظر معانقہ کرنا ثابت ہے۔

بارگاہ نبوت میں عکرمہ ابن ابوجہل کی حاضری کا راز

اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ ابن ابوجہل کہتے ہیں اس دن جب کہ میں اسلام قبول کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا اللہ اور رسول کی طرف یا دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنے والے سوار کو خوش آمدید۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

سیوطی نے جمع الجوامع میں حضرت مصعب بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عکرمہ اور ابن ابوجہل کو اپنے پاس آتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور چل کر ان کے پاس پہنچے اور پھر ان کو گلے سے لگایا اور فرمایا کہ مرحبا بالراکب المہاجر۔ حضرت عکرمہ اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے باپ ابوجہل کی طرح سے سخت عداوت رکھتے تھے اور اسلام کے خلاف ہر معرکہ آرائی میں پیش پیش رہتے تھے ان کا خاص وصف شہ سواری تھا جس میں بڑے مشہور تھے اور بڑے جیالے سوار جاتے تھے فتح مکہ کے دن جب اسلام دشمن عناصر کی طاقت آخری طور پر ٹوٹ کر چور چور ہو گئی اور اس خطہ مقدس پر خدا کے نام لیواؤں کا مکمل تسلط و غلبہ ہو گیا تو یہ عکرمہ بھی مکہ سے فرار ہو کر یمن پہنچے پھر ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث ان کے پاس یمن گئیں اور ان کو اپنے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائیں اور انہوں نے آپ کے سامنے اپنی گزشتہ تقصیرات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی اور بخشش کے طلب گار ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور حسن اسلام کی ایسی دولت نصیب ہوئی کہ قابل رشک بن گئے یہاں تک کہ خدا کے دین کا جھنڈا سر بلند رکھنے کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی اور جنگ یرموک میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ یاد رہے اس حدیث میں سفر سے آنے والے کو خوش آمدید کہنے کا ذکر ہے اور خوش آمدید کہنا مصافحہ سے ایک طرح کی مناسبت رکھتا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کو یہاں مصافحہ کے باب میں نقل کیا گیا ہے۔

 

 

 اور حضرت اسید بن حضیر جو انصار میں سے تھے کے بارے میں راوی کہتے ہیں کہ ایک دن اس وقت جب کہ اسید لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور ان کے مزاج میں جو خوش طبعی و ظرافت تھی اس کے تحت لوگوں کو ہنسا رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے از راہ مذاق ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے ٹھوکا دیا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ مجھے اس ٹھوکا دینے کا بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لو مجھ سے بدلہ لو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم پر کپڑا ہے اور میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اپنا کرتہ اٹھا دیا اسید آپ کے پہلو سے لپٹ گئے اور پہلو پر بوسہ دینا شروع کر دیا اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں صرف یہی چاہتا تھا یعنی بدن مبارک پر بوسہ دینا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

لفظ رجل مصابیح میں جس طرح مذکورہ ہے یعنی لام کے زیر کے ساتھ وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جس شخص کے مزاج میں خوش طبع و ظرافت تھی اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بدلہ کا مطالبہ کیا وہ خود اسید ہیں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہوا لیکن جامع الاصول میں یہ لفظ رجل نہیں بلکہ رجلا منقول ہے چنانچہ روایت کے الفاظ یوں ہیں عن اسید بن حضیر قال ان رجلامن الانصار کان فیہ مزاح فبینما ہو یحدث القوم یضحکم اذ طعنہ النبی۔ (یعنی حضرت اسید سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص تھے جن کے مزاج میں خوش طبعی وظرافت تھی چنانچہ ایک موقع پر جب لوگوں سے باتیں کر رہے اور ان کو ہنسا رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے پہلو میں لکڑی سے ٹھوکا دیا، اس سے یہ واضح ہوا کہ خوش طبعی و ظرافت سے ہنسانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بدلہ لینے کا مطالبہ کرنے والے کوئی دوسرے صاحب تھے، خود حضرت اسید نہیں تھے حضرت اسید تو ان کے واقع کو نقل کرنے والے ہیں۔

چنانچہ طیبی نے جامع الاصول ہی کی روایت کے پیش نظر متن حدیث کی روایت میں توجیہ و تاویل کر کے اس بات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ صاحب واقعہ خود اسید نہیں ہیں بلکہ وہ محص اس واقعہ کے راوی ہیں اور انہوں نے کوشش اس بنا پر کی ہے کہ حضرت اسید ایک جلیل القدر صحابی تھے ان کا تعلق اونچے درجہ کے صحابہ کے زمرہ سے تھا لہذا ان کی جلالت شان سے یہ مستبعد معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق خود ان کی ذات سے ہو۔ واللہ اعلم۔ آنحضرت نے ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے ٹھوکا دیا ان الفاظ کا محمول یہ ہے کہ وہ صاحب (خواہ اسید ہوں یا کوئی دوسرے صحابی) مزاح و ظرافت کی پھلجڑیاں چھوڑ رہے تھے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو ہنسا رہے تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس موقع پر خوش طبعی فرمائی اور بطور مزاح ان کے پہلو میں لکڑی سے ٹھوکا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوش طبعی و ظرافت کی باتیں کرنا اور ان باتوں کو سننا مباح ہے بشرطیکہ ان کی وجہ سے کسی غیر شرعی اور ممنوع بات کا صدور نہ ہو۔

معانقہ اور بوسہ کا ذکر

اور حضرت شعبی تابعی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ملے تو ان کو گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اس روایت کو ابوداؤد اور شعب الایمان میں بیہقی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے جب کہ مصابیح کے بعض نسخوں اور شرح السنۃ میں یہ روایت بیاضی سے بطریق اتصال نقل کی گئی ہے۔

 

تشریح

 

یہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حبشہ سے واپس آنے کے اسی واقعہ سے متعلق ہے جس کا ذکر آگے کی حدیث میں بھی آ رہا ہے۔ بیاضی بیاضہ ابن عامر کی طرف منسوب ہے اور جامع الاصول میں لکھا ہے کہ جہاں مطلق بیاضی بغیر نام کے منقول ہوتا ہے وہاں حضرت عبداللہ بن جابر انصاری رضی اللہ عنہ صحابی مراد ہوتے ہیں۔

 

 

 اور حضرت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سر زمین حبشہ سے واپسی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حبشہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ملاقات کی آپ نے مجھ کو گلے لگایا اور فرمایا میں نہیں کہہ سکتا کہ میں خیبر کے فتح ہو جانے کی وجہ سے زیادہ خوش ہوں، یا جعفر کے واپس آنے کی وجہ سے اور تفاق سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اسی دن آئے تھے جس دن خیبر فتح ہوا تھا۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی کے شیخ و استاد حضرت سفیان بن عیینہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک دن حضرت امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت امام مالک نے ان سے مصافحہ کیا اور فرمایا کہ اگر معانقہ بدعت نہ ہوتا تو میں آپ سے معانقہ بھی کرتا حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معانقہ تو ان لوگوں نے کیا جو مجھ سے اور آپ سے کہیں بہتر تھے، حبشہ سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی واپسی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان سے گلے ملے ہیں اور ان کو بوسہ دیا ہے حضرت امام مالک نے فرمایا کہ صحیح ہے لیکن وہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخصوص تھا، حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جی نہیں وہ معانقہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ ایک عام مسئلہ کے طور پر تھا اور اگر ہمارا تعلق صلحاء کے زمرہ سے ہو تو ہم اور جعفر اس مسئلہ میں ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں نیز اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کی مجلس میں یہ حدیث بیان کروں۔ حضرت امام مالک نے فرمایا کہ ہاں اجازت دیتا ہوں چنانچہ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے حدیث کو اپنی سند کے ساتھ بیان کیا اور امام مالک نے سکوت اختیار کیا۔

پاؤں کو بوسہ دینا جائز نہیں

اور حضرت زارع رضی اللہ عنہ جو عبد القیس کے وفد میں شامل تھے کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترنے لگے اور بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے چنانچہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ پیروں کو چومنا جائز ہے لیکن فقہاء اس کو ممنوع قرار دیتے ہیں چنانچہ وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یا تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے تھا کہ صرف آپ کے پاؤں کو بوسہ دینا جائز تھا یا ابتداء یہ جائز تھا مگر پھر ممنوع قرار دے دیا گیا، یا وہ لوگ اس مسئلہ سے ناواقف تھے اور اس ناواقفی کی بناء سے انہوں نے آپ کے پاؤں کے بوسہ دیا اور یا یہ کہ شوق ملاقات میں اضطراری طور پر ان سے یہ فعل صادر ہو گیا تھا۔

اولاد کو بوسہ دینا اظہار محبت کا ذریعہ ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے طور طریقہ، عادات و روش اور نیک خصلتی اور ایک روایت میں ہے کہ بات چیت اور کلام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مشابہت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت مشابہ تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ بیان کرنے کے بعد اس محبت و تعلق خاطر کو بیان کر رہی ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک دوسرے سے تھا اور جس وجہ سے دونوں کے درمیان کمال مشابہت ظاہر ہوتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو جاتے ان کی طرف متوجہ ہو جاتے پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے، ان کو بوسہ دیتے (یعنی ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو چومتے) اور پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے یعنی جگہ ان کے بیٹھنے کے لیے چھوڑ دیتے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو دیکھ کر کھڑی ہو جاتیں آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں پھر آپ کو بوسہ دیتیں یعنی آپ کے دست مبارک کو چومتیں، یا کسی اور جگہ بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابوداؤد)

 

 

 اور حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کسی غزوہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مدینہ آتے ہی ان کے ساتھ ان کے گھر گیا تو دیکھتا ہوں کہ ان کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوئی ہیں اور بخار میں مبتلا ہیں چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ میری بیٹی تمہاری طبعیت کیسی ہے اور انہوں نے (از راہ محبت و شفقت) ان کے رخسار پر بوسہ دیا۔ (ابوداؤد

اولاد کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک بچہ لایا گیا آپ نے اس کا بوسہ لیا اور فرمایا کہ جان لو یہ اولاد بخل کا باعث اور بزدلی کا سبب ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اولاد خدا کی عطا کردہ نعمت اور رزق بھی ہے۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

اولاد کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ فرمایا اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اولاد ہی ہے جو انسان سے سب کچھ کراتی ہے ایک باپ اپنے بچوں کے لیے نہ صرف مختلف ذرائع و وسائل اختیار کر کے روپیہ پیسہ کماتا ہے اور مال و و اسباب فراہم کرتا ہے بلکہ بچوں کا مستقبل اس کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا ہے اس کو پیسہ پیسہ جوڑ کر رکھے، یہاں تک کہ اولاد کی فکر اس کو بخیل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے روپے پیسے اور مال و اسباب کو نہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے نہ بھلائی و انسانی ہمدردی کے کام میں مدد دیتا ہے اور پھر یہ کہ آل و اولاد کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کو اس حد تک بزدل و نامرد بنا دیتی ہے کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق اور دین وحق کی سر بلندی کے اپنے فرض کو بھی فراموش کر دیتا ہے چنانچہ جہاد کرنے سے کتراتا ہے اور لڑائی میں جانے سے دل چراتا ہے اس کو یہ خوف، شجاعت و بہادری دکھانے سے باز رکھتا ہے کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا گیا یا مجھے پکڑ لیا گیا تو میرے بچے کا کیا حال ہو گا ان کی دیکھ بھال اور پرورش کیسے ہو گی اور میرے بچے باپ کے سایہ سے محروم ہو کر کس کس طرح تکلیف و مشقت برداشت کریں گے۔

پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا اولاد کے بارے میں اس طرح کی بڑائی بیان کی اور پھر بعد میں اولاد کی ایک خوبی اور اس کی تعریف بھی بیان فرمائی چنانچہ آپ نے فرمایا کہ یہ بچے ریحان ہیں ریحان کے معنی روزی اور نعمت کے بھی ہیں اور ریحان ہر اس پودے اور گھاس کو بھی کہتے ہیں جو خوشبودار ہو، دونوں ہی صورتوں میں اولاد کی مدح ظاہر ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ بچے ماں باپ کے حق رزق کا درجہ رکھتے ہیں کہ اگر والدین کی گود اولاد سے خالی ہو تو ان کی مامتا اور ان کے جذبات اسی طرح مضطرب و پریشان رہتے ہیں جس طرح کوئی بھوکا روزی نہ ملنے کی صورت میں مضطرب رہتا ہے اسی طرح بچے دراصل خدا کی طرف سے ماں باپ کو ایک عظیم نعمت کے طور پر عطا ہوتے ہیں، ایسی نعمت جو ان کی زندگی کا سہارا بھی ہوتی ہے اور ان کے گھر کا چراغ بھی۔ اور اگر ریحان سے خوشبودار پودا مراد لیا جائے تو بلاشک و شبہ بچے اپنے ماں باپ اور اہل خاندان کی نظر میں پھول کا درجہ رکھتے ہیں کہ جس طرح کوئی شخص خوشبودار پھول کو دیکھ کر سرور حاصل کرتا ہے اور سونگھ کر مشام جان کو معطر کرتا ہے اسی طرح بچوں کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے ان کو پیار کر کے، ان کو چوم کر اور ان کے ساتھ خوش طبعی کر کے سرور حاصل کیا جاتا ہے۔

انسان اور اس کی اولاد

حضرت یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حسن اور حسین کہیں سے دوڑتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو آپ نے ان دونوں کو گلے لگا لیا اور فرمایا کہ بچے بخل کا سبب ہیں اور بزدلی کا باعث ہیں۔ (احمد)

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ یہاں مذکورہ الفاظ سے بچوں کے تئیں شفقت و محبت اور تعریف کا اظہار مقصود ہے جب کہ پچھلی حدیث میں ان الفاظ کے ذریعہ بچوں کی برائی اور کراہت کو ظاہر کیا گیا ہے۔

برے نام کو بدل دینا مستحب ہے

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام عاصیہ بمعنی گناہگار کہا جاتا تھا چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کا نام عاصی یا عاصیہ رکھتے تھے اس کے لفظی معنی نافرمان، سرکش، متکبر اور خدا اور اس کے دین کا مخالف ہیں چنانچہ زمانہ اسلام کے ظہور کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کے نام رکھنے کو ناپسند فرمایا اور جس کسی کا نام عاصیہ یا عاصی تھا اس کو بدل کر دوسرا نام رکھ دیا اس سے معلوم ہوا کہ برے ناموں کو بدل دینا مستحب ہے۔

 

 

 اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منذر بن ابی اسید جب پیداہوئے تو ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا آپ نے ان کو اپنی ران مبارک پر رکھا اور پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ لانے والے نے بتایا کہ فلاں نام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ نام اچھا نہیں بلکہ اس کا نام منذر ہے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

فلاں نام ہے یعنی ماں باپ یا خاندان والوں نے جو لکھا تھا لانے والے اس کو بیان کیا چونکہ راوی کو وہ نام معلوم نہیں تھا اس لیے انہوں نے اس طرح نقل کیا ہے۔ منذر اصل میں انذار سے مشتق ہے جس کے معنی تبلیغ احکام اور عذاب خداوندی سے ڈرانے والے کے ہیں۔

اپنے غلام اور باندی کو میرا بندہ یا میری بندی نہ کہو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام اور باندی کو عبدی میرا بندہ اور امتی میری لونڈی نہ کہے تمہارے سب مرد اللہ کے بندے اور تمہاری سب عورتیں اللہ کی لونڈیاں ہیں بلکہ یوں کہے میرا غلام یعنی میرا لڑکا اور میری جاریہ یعنی میری لڑکی، یا میرا خادم اور میری خادمہ اسی طرح کوئی غلام اپنے مالک کو میرا رب نہ کہے بلکہ میرا سردار کہنا چاہیے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ کوئی اپنے غلام کو اپنے مالک کو میرا مولی نہ کہے کیونکہ تمہارا مولی صرف اللہ ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

جب غلام اور باندی رکھنے کا رواج تھا تو لوگ ان کو ایسے الفاظ کے ذریعہ یاد اور مخاطب کیا کرتے تھے جو اپنے معنی کے اعتبار سے بالکل غیر موزوں ہوتے تھے، مثلاً زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جب اپنے غلام یا اپنی باندی کو مخاطب کرتے تو اس طرح کہتے، یا عبدی اے میرے بندے، اور یا امتی، یعنی اے میری لونڈی،ظاہر ہے کہ لفظ عبد ایک مخصوص مفہوم کا حامل ہے اور اسلامی عقیدے کے مطابق انسان اللہ ہی کا عبد بندہ ہے اور ہو سکتا ہے ایک دوسرے انسان کا بندہ نہیں ہو سکتا کیونکہ عبد یا بندہ عبادت کرنے والے کو کہتے ہیں اور عبادت صرف اللہ ہی کی ہو سکتی ہے کسی مخلوق کی نہیں، اس اعتبار سے اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو اپنا عبد یعنی بندہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر وہ یا تو حقیقت عبدیت میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے یا شرک کا مرتکب نہ سہی ارتکاب شرک کے گمان کا سبب بن رہا ہے لہذا آپ نے اس لفظ کو استعمال کرنے سے منع فرمایا اسی طرح قاموس کے مطابق لفظ امتہ کے معنی مملوکہ کے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی بھی انسان کی حقیقی ملکیت صرف اللہ کو حاصل ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ملکیت کا دعوی کرے لہذا آپ نے اس لفظ کو بھی استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ جن الفاظ کے ذریعہ غلام و باندی کو یاد اور مخاطب کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں سے غلام کے معنی لڑکے کے ہیں جاریہ کے معنی لڑکی کے ہیں، فتی کے معنی جوان مرد اور فتاۃ کے معنی جوان عورت کے ہیں ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے استعمال میں نہ صرف یہ کہ مفہوم کے اعتبار سے کوئی غیر موزونیت نہیں ہے بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ ایک طرح سے غلام و باندی کے تئیں شفقت و محبت اور یگانگت و رواداری کے جذبات کا بھی اظہار ہوتا ہے رہی یہ بات کہ فتی اور فتاۃ جوان مرد اور جوان عورت کو کہتے ہیں تو ان الفاظ کا اطلاق ان غلام اور باندی پر کیسے ہو گا جو عمر رسیدہ اور بوڑھے ہوں تو اس بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ غلام اور باندی خواہ وہ کتنے ہی بوڑھے ہوں عام طور پر ان کے آقا اور مالک ان کے ساتھ چھوٹوں اور جوانوں ہی کاسا معاملہ رکھتے تھے، اور ان کو بڑھاپے کا وہ لحاظ و احترام نہیں کرتے تھے جو ان کی عمر کے دوسرے لوگوں یعنی آزاد بڑھیوں کا ہوتا تھا علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خدمت گاری اور کام کاج کے سلسلے میں چونکہ بوڑھے غلام و باندی بھی جوانوں جیسی مستعدی اور چستی رکھتے تھے اس لیے ان کو بھی فتی اور فتاۃ کہا جاتا تھا۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنے غلام اور باندی کو ایسے الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرنا ہی ہو جوان کی حیثیت و رتبہ کو واضح کر سکیں تو اس مقصد کے لیے عبد اور امتہ سے بہتر مذکورہ الفاظ ہیں تاہم علماء نے یہ لکھا ہے کہ عبد اور امتہ کے الفاظ کے استعمال کی اس ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے جب کہ اپنے غرور و تکبر کے اظہار اور باندی کو حقیر و ذلیل جاننے کے طور پر ہو، ورنہ غلام و باندی پر لفظ عبد اور امتہ کا اطلاق خود قرآن و حدیث میں منقول ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا، آیت (والصالحین من عبادکم ومائکم) اور آیت (ضرب اللہ مثلاً عبدا مملوکا لایقدر علی شئی)، اس طرح بہت احادیث میں بھی غلام اور باندی کو لفظ عبد اور امتہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس طرح مالکوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے غلام و باندی کو ناشائستہ اور غیر موزوں الفاظ کے ذریعہ مخاطب نہ کریں چنانچہ فرمایا گیا کہ کوئی غلام و باندی اپنے آقا کو ربی میرا رب نہ کہے کیوں کہ اگرچہ رب کے معنی تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں اور ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ایک آقا کو اپنے غلام و باندی کا تربیت و پرورش کرنے والا کہا جا سکتا ہے لیکن ربوبیت علی الاطلاق ایک ایسی خاص صفت ہے جو صرف اللہ کی ذات سے متعلق ہے لہذا کسی انسان کو رب کہنا شرک کے گمان کا باعث ہے لیکن واضح رہے کہ اس ممانعت کا تعلق بھی اس صورت سے ہے جب کہ اس لفظ کے استعمال کا مقصد اپنے مالک کی تعظیم ہو، ورنہ مالک پر لفظ رب کا اطلاق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے جیسا کہ فرمایا گیا، اذکرنی عند ربک، غلام و باندی کو اپنے مالک کے تئیں جس لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ سید ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مالک کو اپنے غلام باندی پر سیادت و فضیلت اور امارت و ریاست حاصل ہوتی ہے اس اعتبار سے غلام و باندی کا اپنے مالک کو یا سیدی یعنی اے میرے سردار یا اے میرے آقا کہہ کر مخاطب کرنا موزوں و مناسب ہے۔

واضح رہے کہ ایک روایت میں تو غلام و باندی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مالک کو مولی کہیں لیکن دوسری روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ کوئی غلام و باندی اپنے مالک کو مولی نہ کہے ان دونوں روایتوں کے درمیان پائے جانے والے ظاہری تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے کہ مولی کے کئی معنی آتے ہیں جیسے متصرف، و منتظم، ناصر اور معین وغیرہ چنانچہ غلام و باندی کو اپنے مالک کے تئیں، مولی، کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت و جواز کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ وہ اس کے معنی مراد نہ لیں جو حق تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ہاں جس معنی کا اطلاق بندوں کی ذات پر بھی ہو سکتا ہے جیسے متصرف، منتظم تو ان معنی کو مراد لیتے ہوئے مالک کے لیے لفظ مولی کا استعمال کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مولی کا اطلاق معتق اور معتق پر کیا جاتا ہے،جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد مولی القوم من انفسھم یا طبری کی روایت میں ہے مولی الرجل اخوہ اور مالک کو مولی کہنے کی ممانعت و عدم جواز کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس کے معنی وہ مراد لیے جائیں جو حق تعالی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے ناصر، اور معین وغیرہ کیونکہ ان کے معنی کے اعتبار سے مولی کے حقیقی معنی صرف حق تعالی ہے جیسا کہ یہ فرمایا گیا نعم المولی و نعم النصیر، اس تا کی روشنی میں دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہا حاصل یہ کہ اس مسئلے میں وہی ضابطہ پیش نظر رہے گا جو پہلے گزر چکا کہ اگر لفظ مولی کا استعمال غایت تعظیم کے طور پر ہو تو ممانعت کا حکم نافذ ہو گا ورنہ بصورت دیگر اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔

انگور کو کرم کہنے کی ممانعت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (انگور کے درخت کو) کرم نہ کہو کیونکہ مومن کا دل ہے۔ مسلم۔ اور مسلم ہی کی ایک حدیث میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے یوں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا انگور کے درخت کو کرم نہ کہو بلکہ عنب اور حبلہ کہو۔

 

تشریح

 

حبلہ، حاء اور باء کے زبر کے ساتھ، یاہاء کے زبر اور باء کے جزم کے ساتھ۔ اصل میں انگور کے درخت یا ایک قول کے مطابق انگور کی جڑ یا شاخ کو کہتے ہیں بعض مواقع پر مجازا انگور کو بھی حبلہ کہا گیا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انگور کو عنب یا حبلہ کہو یا اس کے اور جو نام ہیں وہ لیا کرو، لیکن اس کو کرم نہ کہا جائے اس کی ممانعت کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب انگور کو کرم کہا کرتے تھے کیونکہ انگور سے شراب بنتی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اس شراب کے پینے سے آدمی میں سخاوت و ہمت اور جود و کرم کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں چنانچہ جب شریعت نے شراب کو حرام کر دیا اور وہ ایک نجس و ناپاک چیز قرار پائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انگور کو کرم کہنے سے منع فرمایا کیونکہ ایک ایسی چیز کو مذکورہ نام کے ذریعہ کرم و خیر کے ساتھ متصف کرنا جو شراب جیسی ناپاک چیز کی جڑ ہے مناسب نہیں سمجھا گیا جب کہ انگور کو اتنے عمدہ نام یاد کرنے کا مطلب ایک حرام چیز کی تعریف و توصیف کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اس کی طرف سے دل و دماغ کو رغبت دلانا ہے نیز آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ کرم ایک ایسا اعلیٰ لفظ ہے جو اپنے وسیع مفہوم کے اعتبار سے تمام بھلائیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس اعتبار سے اس لفظ کا مصداق مومن اور اس کا قلب ہی ہو سکتا ہے جو علم و تقوی کے نور کا مخزن اور اسرار معارف کا منبع ہے۔

زمانہ کو برا نہ کہو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انگور کو کرم نہ کہو  اور یہ نہ کہو کہ اے ناامیدی زمانہ کی کیونکہ بلاشبہ اللہ ہی کے اختیار میں زمانہ ہے (بخاری)

 

تشریح

 

زمانہ جاہلیت میں عام طور پر لوگوں کی عادت تھی کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی یا وہ کسی آفت میں مبتلا ہوتے تو یوں کہتے، یا خبیبۃ الدھر، اور اس لفظ کے ذریعہ گویا وہ زمانہ کو برا کہتے تھے جیسا کہ اب بھی جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ بات بات پر زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس سے منع فرمایا کیونکہ زمانہ بذات خود کوئی چیز نہیں ہے حالات میں الٹ پھیر اور زمانہ کے انقلابات مکمل طور پر اللہ کے قدرت قبضہ میں ہیں کہ جس بھلائی و برائی اور مصیبت و راحت کی نسبت زمانہ کی طرف کی جاتی ہے حقیقت میں وہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی فاعل حقیقی ہے پس زمانہ کو برا کہنا دراصل اللہ کو برا کہنا ہے۔

 

 

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں کوئی شخص زمانہ کو برا نہ کہے کیونکہ حقیقت میں اللہ تعالی ہی زمانہ کو الٹ پھیر کرنے والا ہے۔ (مسلم)

امتلاء نفس کو خباثت نفس سے تعبیر نہ کرو

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یوں نہ کہے کہ میرا جی برا ہوا بلکہ لقست نفسی کہے۔ (بخاری و مسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت یوذینی ابن ادم باب الایمان میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

خبثت نفسی اور لقست نفسی یہ دونوں لفظ اگر معنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں رکھتے بلکہ عربی میں ان دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، یعنی جی متلانا اور طبیعت کا فاسد ہونا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خبثت نفسی کہنے کو ناپسند فرمایا کیونکہ لفظ، خبث کی وجہ سے نہ صرف یہ جملہ قبیح ہو جاتا ہے بلکہ مومن کا لفظ خبث کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا بھی لازم آتا ہے جو ایک مناسب بات نہیں ہے۔

ابوالحکم، کنیت کی ناپسندیدگی

حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت ہانی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے سنا کہ ان کی قوم ان کو ابوالحکم کی کنیت کے ذریعہ یاد و مخاطب کرتی ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بلایا اور فرمایا کہ حکم تو صرف اللہ ہے اور حکم اسی کی طرف سے ہے پھر تم نے اپنی کنیت ابوالحکم کیوں مقرر کی؟حضرت ہانی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری قوم مجھ کو ابوالحکم کی کنیت کے ذریعہ اس لیے پکارتی ہے کہ جب میری قوم کے لوگ کسی معاملہ میں اختلافات کا شکار ہوتے ہیں تو میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے معاملہ میں جو فیصلہ کرتا ہوں وہ دونوں فریق تسلیم کر لیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ یعنی لوگوں کے تنازعات کو نمٹانا اور ان کے درمیان فیصلہ و حکم کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بتاؤ تمہارے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں انہوں نے کہا میرے تین بچے ہیں جن کے شریح، مسلم) اور عبداللہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ ان تینوں میں بڑا کون ہے؟حضرت ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا شریح! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر آج سے تم ابوشریح ہو۔ (نسائی)

 

تشریح

 

کنیت کبھی تو کسی وصف وصفت کی طرف نسبت کر کے مقرر کی جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی کنیت ابوالفضل یا ابوالحکم اور ابوالخیر وغیرہ مقرر کرے کبھی اولاد کی طرف نسبت کر کے مقرر کی جاتی ہے جیسے ابو سلمہ یا ابوشریح وغیرہ، کبھی کنیت کا تعلق کسی ایسی خاص چیز کی طرف نسبت کرنے سے ہوتا ہے جس کے ساتھ انتہائی اختلاط اور ربط ہو جیسے ابوہریرہ چنانچہ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبداللہ تھا کہتے ہیں کہ ایک بلی ان کے پاس رہا کرتی تھی ایک دن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس بلی کو آستین میں لیے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟انہوں نے عرض کیا کہ بلی ہے آپ نے فرمایا یا اباہریرہ، بس اس دن سے ان کی کنیت ابوہریرہ مشہور ہو گئی اور کبھی کنیت محض علمیت کے لیے یعنی اصل نام کے طور پر ہوتی ہے جیسے ابوبکر، اور ابوعمر وغیرہ۔

 اور حکم اسی کی طرف سے ہے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ حقیقی حکم اللہ کی ذات ہے اور ہر حکم و فیصلہ کی ابتداء و انتہا اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے کہ نہ صرف اس کے حکم و فیصلہ کو کوئی رد نہیں کر سکتا بلکہ اس کا حکم فیصلہ حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا اس اعتبار سے یہ وصف چونکہ اللہ کی صفات کے ساتھ خاص ہے اور وہی اس صفت کا سزا وار ہے اس لیے کسی دوسرے کو مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابوالحکم یعنی حکم و فیصلہ کا مالک کہے یا کہلائے کیونکہ اس صورت میں اللہ کے اس وصف خاص میں غیراللہ کے شریک ہونے کا گمان پیدا ہوتا ہے اور بات ہے ابوت و ابنیت کے وہم کی وجہ سے اس کی ذات پر ابوالحکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اجدع شیطانی نام ہے

حضرت مسروق(تابعی) کہتے ہیں کہ جب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟میں نے عرض کیا کہ میں اجدع کا بیٹا مسروق ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (میرے باپ کا نام اجدع سن کر) فرمایا کہ میں نے رسول اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اجدع ایک شیطان کا نام ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اجدع اصل میں اس کو کہتے ہیں جس کے کان، ناک، ہونٹ، اور ہاتھ کٹے ہوئے ہوں اور کنایۃً اس نام کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جس کی کسی بات میں کوئی وزن اور دلیل نہ ہو اسی مناسبت سے ایک شیطان کو اجدع کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت مسروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھنا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ ارشاد نقل کرنا گویا تفنن طبع کے طور پر تھا اور اس کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اگر تمہارے والد حیات ہوں تو ان کا یہ نام بدل دو۔

اچھے نام رکھو

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم کو تمہارے اور تمہارے باپ کے ناموں سے پکارا جائے گا لہذا تم اپنے اچھے نام رکھو۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

تم اچھے نام رکھو اس ارشاد کے ذریعہ تمام بنی آدم کو خطاب کیا گیا ہے لہذا اس میں باپ بھی داخل ہیں اور ان کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کا اچھا نام رکھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام کے ساتھ پکارا جائے گا اور علماء نے لکھا ہے کہ ماؤں کے نام کے ساتھ پکار نے کی حکمت و علت ایک تو یہ ہے کہ جو لوگ زنا سے پیدا ہوئے ہوں گے وہ اس صورت میں شرمندگی اور رسوائی سے بچ جائیں گے دوسرے حضرت عیسیٰ بن مریم کی رعایت حال مقصود ہو گی جو بے پدر تھے اور تیسرے حسن اور حضرت حسین کے اس فضل و شرف کا اظہار مقصود ہو گا جو ان کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف نسبت کے ذریعہ حاصل ہے اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو کہا جائے گا کہ تم کو تمہارے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا میں باپ کو تغلیب پر حمل کیا جائے جیسا کہ ماں اور باپ دونوں کو ابوین کہا جاتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پر تو باپ کے نام سے پکارا جائے گا اور کسی موقع پر ماں کے نام کے ساتھ یا بعض لوگوں کی نسبت ان کے باپ کی طرف کی جائے گی اور بعض لوگوں کی نسبت ان کی ماں کی طرف کی جائے گی اور یا یہ کہ بعض مقامات میں باپ کے نام کے ساتھ اور بعض مقامات میں ماں کے نام کے ساتھ پکارا جائے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام اور کنیت دونوں کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص آپ کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرے اور جس شخص کا نام محمد ہو اس کو ابوالقاسم بھی کہا جائے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

مذکورہ ترجمہ اس صورت میں ہو گا جب کہ لفظ محمد مرفوع اور یسمی بصیغہ مجہول ہو جیسا کہ ترمذی اور شرح السنہ اور مصابیح کے اکثر نسخوں میں نقل کیا گیا ہے لیکن جامع الاصول اور مصابیح کے بعض نسخوں میں محمد کو نصب کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اس صورت میں یسمی صیغہ معروف کے ساتھ ہو گا اور ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ کوئی شخص اس آدمی کو ابوالقاسم کہے جس کا نام محمد ہو، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہو۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہو تو نہ خود اس کے لیے روا ہے کہ وہ اپنی کنیت ابوالقاسم مقرر کرے اور نہ کسی دوسرے شخص کے لیے مناسب ہے کہ وہ محمد نامی کو ابوالقاسم کہے اس مسئلہ کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔

 

 

 اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے نام پر اپنا نام محمد رکھو تو میری کنیت پر کنیت (ابوالقاسم) مقرر نہ کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے نیز ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص میرے نام پر نام رکھے تو وہ میری کنیت پر کنیت نہ مقرر کرے اور جو شخص میری کنیت پر کنیت مقرر کرے تو میرے نام پر نام نہ رکھے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی صریح ممانعت کو ظاہر کرتی ہے تاہم ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا یعنی صرف نام پر نام رکھنا یا صرف کنیت پر کنیت مقرر کرنا ممنوع نہیں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطور تحریم نہیں ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میرے ایک لڑکا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی ہے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اس کو پسند نہیں فرماتے یعنی بتانے والے نے مجھ کو یہ بتلایا کہ آپ نے اپنا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کیے جانے کو حرام قرار دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسی کیا چیز ہے جس نے میرے نام پر نام رکھنے کو تو حلال و جائز رکھا ہے اور میری کنیت پر کنیت مقرر کرنے کو حرام کیا ہے یا یہ فرمایا کہ ایسی کیا چیز ہے جس نے میری کنیت پر کنیت رکھنے کو تو حرام کیا ہے اور میرے نام پر نام رکھنے کو حلال رکھا ہے؟ابوداؤد) اور محی السنہ نے کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کے سلسلے میں راوی نے یہ فرمایا کہ کے ذریعہ اپنے شک کو ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو پہلے نام کی حلت اور بعد میں کنیت کی حرمت کو ذکر کیا یا پہلے کنیت کی حرمت کو اور بعد میں نام کی حلت کو ذکر فرمایا۔تاہم دونوں صورتوں میں معنی و مطلب ایک ہی ہیں مفہوم و مقصد کے درمیان کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے! اصل بات یہ ہے کہ محدث جب کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو اس بات کو پوری احتیاط رکھتا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جس طرح سنے ہیں یا جس طرح اس تک پہنچے ہیں اسی طرح بعینیہ ان کو نقل کرے چونکہ اس موقع پر راوی کو الفاظ حدیث کے سلسلے میں شک ہو اس لیے اس نے مذکورہ طرح سے بیان کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطریق تحریم یعنی حرام ہونے کے طور پر نہیں ہے بلکہ مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے۔

 

 

 اور حضرت محمد بن حنفیہ اپنے والد ماجد حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بتائیے کہ اگر میں آپ کے وصال کے بعد میرے یہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یا کسی اور بیوی سے کوئی بچہ پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں!(ابوداؤد

 

تشریح

یہ حدیث بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے تھا اس کے بعد یہ جائز ہے اس مسئلہ پر علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں پیچھے نقل کیے جا چکے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میری کنیت اس ساگ کے نام پر مقرر کی تھی جس کو میں اکھاڑتا تھا (یعنی آپ نے ایک دن مجھ کو ایک ساگ جس کو عربی میں حمزہ کہتے ہیں اکھاڑتے ہوئے دیکھا تو اس کی مناسبت سے میری کنیت ابوحمزہ رکھ دی) اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا علم یہ ہے کہ یہ حدیث اس سند کے علاوہ جو جامع الترمذی میں نقل کی گئی ہے اور کسی سند کے ساتھ مذکور نہیں ہے (گویا یہ حدیث غریب ہے کہ ایک طریق اور ایک سند کے علاوہ اور کسی طریق وسند سے منقول نہیں ہے) لیکن صاحب مشکوٰۃ کہتے ہیں کہ مصابیح میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔

جو نام اچھا نہ ہو اس کو بدل دو

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم برے نام کو بدل دیا کرتے تھے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

مثلاً ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے ایک شخص کا نام اسود یعنی کالا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے نام کو بدل دیا اور فرمایا کہ آج سے اس کا نام ابیض(یعنی گورا) ہے۔

ایسے نام رکھنے کی ممانعت جو اسماء الہی میں سے ہیں

اور حضرت بشیر بن میمون (تابعی) اپنے چچا اسامہ رضی اللہ عنہ ابن اخدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک جماعت حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص بھی تھا جس کو اصرام کہا جاتا تھا رسول اللہ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟اس نے کہا کہ مجھ کو اصرام کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آج تمہارا نام زرعہ ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز انہوں نے بطریق تحلیق یہ بھی نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عاص،عزیز،عتلہ،شیطان، حکم، غراب، حباب، اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ میں نے احتصار کے پیش نظر ان روایتوں کو کہ جس میں مذکورہ ناموں کو بدلنے کا ذکر ہے بغیر اسناد کے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اصرام صرم سے مشتق ہے جس کے معنی قطع و برید کرنا، ترک سلام و کلام کرنا اور درخت کاٹنا ہیں ان کی مناسبت سے آپ نے اصرام نام کو ناپسند فرمایا اور اس کے بجائے مذکورہ نام رکھ دیا یہ لفظ زراعت سے ماخوذ ہے اور اپنے معنی کے اعتبار سے جود و سخاوت اور خیر و برکت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آخر میں ابوداؤد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے جن ناموں کے بدلے جانے کا ذکر کیا ہے ان میں عاص،عاصی کا مخفف ہے یہ نام لفظی مفہوم کے اعتبار سے عصیان و سرکشی،عدم اطاعت اور نافرمانی پر دلالت کرتا ہے جب کہ مومن کی خصوصیات اطاعت و فرمانبرداری ہے اس لیے کسی مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ عاص یا عاصیہ نام رکھے۔عزیز چونکہ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم پاک ہے اس لیے عبدالعزیز نام رکھنا تو مناسب ہے لیکن صرف عزیز نام غیر موزوں ہے علاوہ ازیں یہ لفظ غلبہ قوت عزت و زور آوری پر دلالت کرتا ہے جو اللہ کی شان ہے جب کہ بندے کی شان ذلت و انکساری، حضوع اور فروتنی ہے اسی طرح حمید نام رکھنا بھی غیر مناسب ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے اسماء اور اس کی صفات میں سے ایک ہے اور بطریق مبالغہ اس کی ایک صفت ہے اس اعتبار سے کسی شخص کا نام عبدالحمید موزوں ہے کریم وغیرہ کو بھی اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ عتلہ نام کو بھی آپ نے اس لیے ناپسند فرمایا کہ اس میں غلظت وشدت اور سختی کے معنی نکلتے ہیں جب کہ مومن کو نرم و ملائمت کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے۔شیطان نام رکھنا نہ صرف اس ذات کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے بلکہ اس کے لفظی مفہوم کے اعتبار سے بھی نہایت غیر موزوں ہے کیونکہ لفظ شیطان یا تو شیط سے نکلا ہے جس کے معنی جل جانا ہلاک ہو جانا، شطن سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں خدا کی رحمت سے دور ہونا۔ حکم حاکم کا مبالغہ ہے اور حقیقی حاکم صرف اللہ کی ذات ہے کہ بس اسی کا حکم قابل نفاظ بھی ہے اور لائق اطاعت بھی اس اعتبار سے حکم نام بھی غیر موزوں ہے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوالحکم کی کنیت کو پسند نہیں فرمایا جیسا کہ پیچھے روایت گزری ہے تو حکم تام کا تغیر بطریق اولی مناسب ہے۔غراب نام کی ناپسندیدگی کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ غراب کوے کو کہتے ہیں جو جانوروں میں پلید جانور ہے وہ مردار اور نجاست کھاتا ہے دوسرے یہ کہ اس کے معنی دوری کے ہیں۔ حباب نام اس اعتبار سے نہایت غیر موزوں ہے کہ یہ شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی حباب کہتے ہیں۔ شہاب آگ کے اس شعلہ کو کہتے ہیں کہ جو فرشتے شیطانوں پر مارتے ہیں اس مناسبت کے شیاب نام رکھنا بھی غیر پسندیدہ ہے البتہ اگر شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے یعنی شہاب الدین نام رکھا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔

لفظ زعموا کی برائی

اور حضرت ابوسعید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ سے یا حضرت ابوعبداللہ نے حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لفظ زعموا کے بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ لفظ مرد کی بری سواری ہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ابوعبداللہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے جو اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں۔

 

تشریح

 

 زعموا  زاء ل، میں زعم سے مشتق ہے، زعم، یا زعم، زاء کے پیش اور زیر کے ساتھ کے معنی تقریباً وہی ہیں جو ظن و گمان کے ہوتے ہیں جیسا کہ نہایہ میں لکھا ہے صراح میں یہ لکھا ہے کہ زعم کے معنی ہیں کہنا اور عام طور پر زعم کا اطلاق اس بات پر ہوتا ہے کہ جو غیر صحیح اور قابل اعتماد ہو، اور قاموس میں لکھا ہے کہ، زعم، یا زعم، کے معنی قول کے ہیں اور اس کا اطلاق اکثر بے بنیاد اور جھوٹی بات پر ہوتا ہے۔ لفظ زعموا کے بارے میں علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ لوگوں کا جو یہ محمول ہے کہ جب انہیں کسی بے بنیاد بات کو بیان کرتا ہوتا ہے تو وہ یوں کہتے ہیں یا لکھتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے ہیں فلاں شخص کے متعلق یہ سنا گیا ہے اور یا لوگ اس طرح کہہ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور جھٹلائے جانے کے خوف سے کسی شخص کا نام لے کر تو کہا نہیں جاتا کہ یہ بات فلاں نے کہی ہے یا فلاں شخص نے بیان کیا ہے بلکہ لوگ کہتے ہیں یا بیان کیا جاتا ہے پردہ میں بے تحاشہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور بلا تحقیق و بے بنیاد باتوں کو پھیلایا جاتا ہے چنانچہ مذکورہ بالا دونوں صحابہ میں سے ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ آدمی جو لفظ زعمو یعنی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ذریعہ بے بنیاد اور غیر تحقیقی باتیں نقل کرتے ہیں تو کیا آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس لفظ کے بارے میں سنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لفظ تحقیق میں اس لفظ کے استعمال اور اس کے مفہوم کے بارے میں کیا فرماتے تھے؟دوسرے صحابی نے جواب دیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ لفظ بری سواری ہے۔ یعنی آپنے اس لفظ کو سواری کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کوئی شخص سواری پر بیٹھ کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اسی طرح جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ کسی بے بنیاد اور غیر تحقیقی بات کو دوسروں کے سامنے نقل کرے اور پھیلائے تو وہ اپنی گفتگو اور اپنے قول کے شروع میں لفظ زعموا استعمال کرتا ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اپنی غرض حاصل کرنا چاہتا ہے نیز آپ نے بری سواری کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ لفظ زعموا کوئی اچھا آغاز کلام نہیں ہے کیونکہ اس لفظ کو بنیاد بنا کر جو بات کہی جاتی یا نقل کی جاتی ہے جو کوئی سند اور ثبوت نہ رکھے بلکہ ایک حکایت کے درجہ میں ہو اور برسبیل ظن و گمان زبان پر آئے۔ لہذا اس کا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ نقل و بیان اور روایات و حکایات کے سلسلے میں پوری احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کیونکہ وہ باتیں جن کا تعلق محض ظن و گمان سے ہوتا ہے عام طور پر غلط فہمی اور جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور اسی لیے کہا گیا ہے کہ و زعموا مطیہ الکذب لفظ زعموا جھوٹ کی سواری ہے۔ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مذکورہ ارشاد کا مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کوئی شخص بلا تحقیق و یقین کسی کی طرف زعم و گمان یعنی دروغ گوئی کی نسبت نہ کرے ہاں اگر اس کو اس بات کا یقین ہو کہ فلاں شخص نے واقعتاً دروغ گوئی کی ہے اور یہ کہ اس شخص کی دروغ گوئی کے نقصان و اثرات سے دوسروں کا بچانا ضروری ہے تاکہ کوئی دھوکا نہ کھائے تو اس مصلحت کے پیش نظر کسی کی طرف زعم و گمان کی نسبت کرنا جائز ہو گا جیسا کہ محدثین وغیرہ کرتے ہیں۔

مشیت میں اللہ اور غیراللہ کو برابر قرار نہ دو

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اس طرح نہ کہو کہ وہی ہو گاجو اللہ چاہے اور فلاں شخص چاہے کیونکہ اس طرح کے کہنے کا مطلب، ارادہ و مشیت میں اللہ اور بندے کو برابر کا درجہ دینا ہے جب کہ کسی کام کا ہونا یا نہ ہونا صرف اللہ کی مشیت و مرضی پر منحصر ہوتا ہے البتہ ظاہری اسباب و وسائل کے پیش نظر انسان کی طرف ارادہ و مشیت کی نسبت کرنا ہی منظور ہو تو پھر یوں کہو کہ وہی ہو گا جو اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے یعنی اس صورت میں اللہ کی مشیبت مقدم ہونا اور بندے کی مشیت کا اس کے تابع ہونا مفہوم ہو گاجو صحیح ہے۔ (ابوداؤد، احمد)

 

تشریح

 

 اور ایک روایت میں جس کا سلسلہ سند متصل نہیں ہے بطریق انقطاع یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں کہ آپ نے فرمایا یوں نہ کہو کہ وہی ہو گا جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں بلکہ اس طرح کہو کہ وہی ہو گا جو اللہ چاہے خواہ کوئی دوسرا چاہے یا نہ چاہے اس اعتبار سے اوپر کی روایت کہ جس میں ماشاء اللہ ثم شاء فلاں کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اس روایت کے درمیان تضاد واقع نہیں ہو گا اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے۔

کسی منافق کو سید نہ کہو

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی منافق کو سید نہ کہو یعنی سردار آقا نہ کہو کیونکہ اگر وہ سید ہو اور تم نے اس کو سید کہا تو تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کیا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

عربی میں سید کے معنی ہیں سردار آقا۔ ظاہر ہے کہ کسی منافق کو یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ اس کو کوئی مسلمان سردار آقا کہے بلکہ اگر کوئی منافق واقعتاً سردار ہو بایں طور کہ وہ اپنی قوم کا سربراہ ہو یا کچھ لوگوں کا حاکم ہو اور غلام و باندی اور دوسرے اسباب کا مالک ہو تو اس کے باوجود وہ اس قابل نہیں سمجھا جائے گا کہ کوئی مسلمان اس کو سردار و آقا کہہ کر مخاطب کرے یا اس کو سید کہے اور اگر کوئی مسلمان اس کو سید و سردار و آقا کہے گا تو وہ خدا کے غضب کا مستوجب ہو گا کیونکہ یہ لفظ سید تعظیم و احترام پر دلالت کرتا ہے اور وہ منافق مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی تعظیم کا مستحق نہیں ہے اور اگر صورت یہ ہو کہ وہ واقعتاً کسی بھی طرح کی سیادت و سرداری رکھتا ہی نہ ہو تو اس کو سید کہنا اور بھی برا ہو گا کیونکہ اس کے باوجود اس کو سید کہنے والا نہ صرف مذکورہ حکم کی خلاف و رزی بلکہ جھوٹ اور نفاق کا بھی مرتکب ہو گا۔ظاہر تو یہ ہے کہ اس بارے میں کافر، گم کردہ راہ ہدایت اور علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرنے والے مسلمان بھی منافق کے حکم میں داخل ہوں لیکن حدیث میں خاص طور پر صرف منافق ہی کا ذکر ہے اس لیے کہا گیا ہے کہ منافق چونکہ بہر حال ظاہر طور پر مسلمان ہوتا ہے اس لیے عام مسلمانوں کا اس کی تعریف و خوشامد میں مبتلا ہونا زیادہ قریبی احتمال رکھتا ہے لہذا صرف منافق کا ذکر کر کے اس بات کی ممانعت فرمائی گئی کہ اس کو سید نہ کہو۔

برے نام کا برا اثر

حضرت عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سعد بن مسیب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے انہوں نے کہا میرا نام حزن ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے بلکہ میں تمہارا نام سہل رکھتا ہوں میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے جو میرا نام رکھا ہے اب میں اس کو بدل نہیں سکتا۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

حزن، سخت اور دشوار گزار زمین کو کہتے ہیں، سہل، حزن کی ضد ہے یعنی ملائم اور ہموار زمین جہاں آدمی کو آرام ملے۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے دادا نے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے رکھے ہوئے نام کو اختیار نہیں کیا اس لیے اللہ نے اس انکار کی نحوست سے ان کے خاندان پر حزن کو مسلط کر دیا کہ ان کے گھر والے ہمیشہ سختی حالات کا شکار رہنے لگے اور برابر ایک نہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوتے رہے۔ رہی یہ بات کہ حزن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کا انکار کرنے کی جرات کیوں ہوئی تو اول اس شیطان کا وسوسہ کہا جا سکتا ہے جس میں وہ مبتلا ہو گئے دوسرے یہ کہ مذکورہ واقعہ ابتداء ہجرت کا ہے جب کہ وہ نئے نئے ہجرت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور وہ اس وقت تعلیم و تربیت کے فقدان کی وجہ سے وہ صدق ایمان سلامتی طبع اور تہذیب و اخلاق سے مشرف نہ ہوئے لہذا اس پر شیطان کا داؤ کار گر ہو گیا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تجویز کردہ نام کو اختیار نہ کر سکے۔

اچھے نام

اور حضرت ابووہب چشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انبیاء کے ناموں پر اپنے نام رکھو اور اللہ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن اور اسی طرح عبدالرحیم،عبدالکریم ہیں نیز زیادہ سچے نام حارث، ہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

انبیاء کے ناموں پر سے واضح ہوتا ہے کہ ملائکہ کے ناموں پر نام نہ رکھنے چاہئیں اسی طرح وہ نام بھی نہ رکھنے چائیں جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے جیسے کلب، حمار،عبد شمس اور اسی طرح کے دوسرے نام۔ حارث کے معنی ہیں کسب و کمائی اور قصد کرنے والا۔ اسی طرح ہمام،ھم سے نکلا ہے جس کے معنی قصد و ارادہ کے ہیں ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص کب و کمائی اور قصد کا ارادہ کرنے سے خالی نہیں ہوتا اس لیے معنی و مفہوم اور واقعہ کے اعتبار سے ان ناموں کو زیادہ سچا فرمایا گیا ہے۔ حرب اور مرہ کو سب سے برے نام اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ حرب لڑائی اور جنگ کو کہتے ہیں اور جنگ بڑی خراب چیز ہے جس میں کشت و خون اور خسارہ و بربادی ہے اسی طرح مرہ تلخی کو کہتے ہیں جو طبیعت کو ناپسند ہوتی ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ابلیس کی کنیت ابومرہ ہے اور اس وجہ سے مرہ قبیح نام ہے۔