مشکوٰة شر یف

معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان

تین دن سے زیادہ خفگی رکھنا جائز نہیں

حضرت ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا یہ شخص کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ملنا جلنا چھوڑ دے اور صورت یہ ہو کہ جب وہ کہیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو یہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے اور وہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے یعنی دونوں ہی ایک دوسرے سے سلام و کلام کا اور ملاقات کا احتراز کریں اور ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو خفگی کو دور کرنے کے لیے پہل کرے اور سلام میں پہل کرے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

تین دن سے زیادہ کی قید کی بناء پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے اظہار خفگی کی خاطر تین دن تک ملنا جلنا چھوڑ دے تو یہ حرام نہیں ہے کیونکہ انسان کی طبعیت میں غیظ و غضب، غیرت و حمیت بے صبری کا جو مادہ ہے وہ بہر حال اپنا اثر ضرور ظاہر کرتا ہے اس لیے اس قدر مدت معاف کر دی گئی ہے تاکہ انسان کے ان جذبات کی بھی کچھ تسکین ہو جائے اور اس تین دن کے عرصہ میں خفگی و ناراضگی اور بغض و نفرت کے جذبات بھی ختم ہو جائیں یا کم سے کم ہلکے پڑ جائیں اور صلح و صفائی کر لیں۔ بہرحال حدیث کی مراد یہ ہے کہ اجتماعی طور پر ایک جگہ رہنے سہنے اور روزہ مرہ کے باہمی معاملات کی وجہ سے آپس میں نزاع ہو جایا کرتا ہے اور ایک دوسرے سے کوئی شکایت پیدا ہو جانے کی وجہ سے خفگی ناراضگی صورت پیش آ جاتی ہے مثلاً ایک شخص نے کسی کی غیبت کر دی برا بھلا کہہ دیا اور یا تو اس شخص کی خیر خواہی کی امید تھی مگر اس نے خیر خواہی نہیں کی تو اس طرح کی صورتوں میں اگر آپس میں ناراضگی ہو جائے اور ترک ملاقات کی نوبت آ جائے تو اس خفگی اور ترک ملاقات کو تین دن سے زیادہ نہیں رہنے دینا چاہیے ہاں اگر ترک ملاقات کی دینی معاملہ کی وجہ سے ہو جیسے کوئی شخص خواہشات نفسانی کا غلام بن گیا ہو یا کوئی شخص بدعتی ہو تو اس صورت میں ترک ملاقات جائز ہے اس وقت تک جب تک وہ توبہ نہ کر لے اور راہ راست اختیار نہ کر لے اور حق کی طرف رجوع نہ کر لے۔

سیوطی نے موطا کے حاشیہ میں لکھا ہے اور عبدالبر سے نقل کیا ہے انہوں نے کہا علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کو یہ خوف ہو کہ اگر میں فلاں آدمی سے سلام کروں اور اس سے ملنا جلنا رکھوں تو اس کی وجہ سے مجھے دینی یا دنیاوی نقصان برداشت کرنا پڑے گا اور میرا قیمتی وقت ضائع ہو گا وہ شخص اس سے کنارہ کشی کر لے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرے لیکن یہ کنارہ کشی اور دوری اختیار کرنا اچھے انداز میں ہونا چاہیے یہ نہیں کہ اس کی غیبت کی جائے اور اس پر عیب لگائے جائیں اور اس کے تئیں کینہ و عداوت کو ظاہر کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے زمانہ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں مسلمانوں کا دینی مصالح کے پیش نظر ایک دوسرے سے تین دن سے زیادہ بھی ترک ملاقات کیے رہنا ثابت ہے، چنانچہ احیاء العلوم میں صحابہ کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ ان میں سے بعض مرتے دم تک ترک ملاقات پر قائم رہے ان تین صحابہ کا واقعہ بہت مشہور ہے جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں نفاق کی راہ پا جانے کے خدشہ سے ان کو تمام مسلمانوں سے الگ تھلگ کر دیا تھا یہاں تک کہ آپ نے تمام صحابہ، ان تینوں کی ازواج اور ان کے عزیز و اقارب کو ان سے ترک ملاقات اور ترک سلام کلام کا حکم دیا تھا یہ حکم اور اس پر عمل پچاس دنوں تک جاری رہا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے ایک مہینہ تک اپنی ازواج مطہرات سے ملنا جلنا چھوڑے رکھا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مدت تک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات اختیار کی رکھی اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے بیٹے حضرت بلال سے ایک دینی معاملہ میں اس درجہ ناراض ہوئے کہ ان سے بات چیت کرنا چھوڑ دی تھی غرض ایسے بہت سے واقعات منقول ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ دینی معاملات میں خفگی ناراضگی تین دن سے زیادہ بھی جاری رکھی جا سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ نیت صادق رکھی جائے اور اس میں کسی نفسانی خواہش اور دنیاوی غرض دخل نہ ہو۔ جو سلام کے ذریعہ ابتداء کرے کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو شخص خفگی و ناراضگی کو ختم کرنے کے پہلے سلام کرے گا اس کا درجہ دوسرے کے مقابلہ پر بڑا ہو گا نیز اس میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا ترک ملاقات کے گناہ کو زائل کر دیتا ہے اور یہ کم سے کم ترک سلام کو ختم کر ہی دینا چاہیے تاکہ اخوۃ اسلامی کا یہ بنیادی حق ضائع نہ ہونے پائے۔

ان باتوں سے ممانعت جن سے معاشرہ کی انفرادی و اجتماعی زندگی فاسد ہوتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بد گمانی قائم کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ بد گمانی باتوں کا سب سے بدتر جھوٹ ہے (اپنے سے غیر متعلق امور اور بلا ضرورت دوسروں کے احوال کی) ٹوہ میں نہ رہو کسی کی جاسوسی نہ کرو کسی کے سودے نہ بگاڑو، آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو اور سارے مسلمان خدا کے بندے اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو، اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپس میں حرص نہ کرو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان کا معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بھاؤ سے براہ راست تعلق ہے ان باتوں سے اگر اجتناب کیا جائے تو معاشرہ میں پھیلنے والی بہت سی خرابیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ بد گمانی کو باتوں کا سب سے بدتر جھوٹ فرمایا گیا ہے چنانچہ جب کوئی شخص کسی کے بارے میں بد گمانی کرتا ہے تو وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے اور چونکہ وہ شخص حقیقت میں ایسا نہیں ہے اس لیے اس فیصلہ کو جھوٹ ہی کہا جائے گا واضح رہے کہ باتوں سے مراد وہ باتیں جو نفس پیدا کرتا ہے اور حقیقت میں وہ شیطان کی طرف سے ہیں اسی اعتبار سے بد گمانی کو بدترین جھوٹ کہا گیا ہے یا یہ کہ اس کو بدترین جھوٹ کا نام دینا گویا اس کیبرائی کو زیادہ سے زیادہ کر کے بیان کرنا مقصود ہے قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا ہے آیت (ان بعض الظن اثم) چنانچہ ان الفاظ میں جس ظن کو گناہ قرار دیا گیا ہے اس سے بد گمانی مراد ہے اور جیسا کہ علماء نے وضاحت کی ہے جس سے بد گمانی کے بارے میں ممانعت منقول ہے اس سے وہ بد گمانی منقول ہے جو ذہن میں بیٹھ جائے اور جیسا کہ علماء نے وضاحت کی ہے۔ اس سے وہ بد گمانی مراد نہیں ہے جو محض خیالی طور پر دل سے گزر جائے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ بد گمانی گناہ گار اس وقت کرتی ہے جب کہ اس کا ذکر کیا جائے اور اس کو زبان پر لایا جائے نیز بہر صورت اس بد گمانی کے موجب گناہ ہونے کی شرط یہ بھی ہے کہ اس بد گمانی کو قائم کرنے لیے کوئی معقول وجہ اور دلیل نہ ہو یا اگر بد گمانی کی بھی معقول وجہ اور دلیل ہو تو بدگمانی نہ کرنے کی بھی کوئی معقول وجہ اور دلیل ہو، اور دونوں دلیلیں باہم متعارض ہوں ہاں اگر اس بدگمانی کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی ایسا واضح قرینہ اور معقول دلیل ہو جس کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو اسی بد گمانی پر مواخذہ نہیں ہو گا اور نہ اس حقیقی معنی میں اس کو بد گمانی کہیں گے۔

تحسس اور تجسس یعنی ٹو اور جاسوسی بظاہر ایک مفہوم کے حامل دو الفاظ ہیں علماء نے کئی وجوہ سے ان دونوں کے درمیان فرق ظاہر کیا ہے اس سلسلے میں مختلف اقوال منقول ہیں چنانچہ صاحب قاموس نے جیم کی فصل میں لکھا ہے کہ تجسس کے معنی ہیں کہ خبروں کی تلاش میں رہنا جیسا کہ تجسس کے معنی ہیں جاسوس وجس اسی سے مشتق ہیں جن کے معنی ہیں ایسی پوشیدہ خبریں رکھنے والا جو اچھی نہ ہوں پھر انہوں نے حاء کی فصل میں لکھا ہے کہ حاسوس کے وہی معنی ہیں جو جاسوس کے ہیں یا یہ کہ حاسوس خاص طور پر ایسی پوچیدہ خبریں رکھنے والے کو کہتے یہں جو اچھی ہوں بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ تجسس کے معنی ہیں اچھی خبروں کو ہوشیاری اور نرمی کے ساتھ دریافت کرنا اور تحسس کے معنی ہیں کسی شخص کی برائیوں اور عیوب کی تفتیش کرنا اور تحسس کا معنی ہے ان خبروں کو قوت حاسہ سے دریافت کرنا جیسے کوئی شخص کسی بات کو چوری چھپے سنتا اور دیکھتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ تجسس کے معنی ہیں کسی شخص کی برائیوں اور عیوب کی تفتیش کرنا اور تحسس کے معنی ہیں ان برائیوں اور عیوب کو سننا بعض حضرت یہ کہتے ہیں کہ تجسس کے معنی ہیں دوسرے کے لیے خبر کی ٹوہ میں رہنا اور تحسس کے معنی ہیں اپنے لیے کسی کی خبر کی ٹوہ لگانا۔ اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں تجسس مراد ہے خواہ اپنے طور پر یا کسی کی مدد سے دوسرے لوگوں کے عیوب اور ان کے پوشیدہ ذاتی احوال و معاملات کی ٹوہ لگانا اور تحسس کے معنی ہیں کسی کی مدد کے بغیر اپنے ٹوہ لگانا بہرحال اگر حدیث کی مراد لوگوں کے احوال و معاملات کی لگانے اور ایسی خبروں کی تلاش میں رہنے سے منع کرنا ہے جن کا تعلق عیب و بڑائی اور کردار احوال کی کمزرویوں سے ہو تو اس کی ممانعت بالکل ظاہر ہے اور اگر اچھی خبر کی تلاش میں رہنے اور اچھے احوال معاملات کی ٹوہ میں رہنے سے بھی منع کرنا مراد ہے تو اس صورت میں اس ممانعت کی وجہ یہ بیان کیجائے گی کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے بارے میں کوئی خبر اچھی پانے کے بعد اپنے اندر کے حسد کا جذبہ پیدا ہو جائے یا طمع و حرص جاگ اٹھے جو کوئی اچھی چیز نہیں ہے، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ کسی کی اچھی خبر کی ٹوہ میں بھی نہ رہا جائے۔

ولاتناجشوا۔ اس میں اصل نجش ہے جس کے اصل معنی شکار کو برانگیختہ کرنا، بعض حضرات نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ دوسروں کے مقابلہ میں اپی عظمت و وقعت اور بڑائی کی طلب و خواہش کرنا اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ کسی کو دھوکا دینے کے لیے بکنے والی چیز کو چڑھا چڑھا کر تعریف کرنا یا مصنوعی خریدار بن کر بکنے والی چیز کی قیمت بڑھانا کہ تاکہ دوسرا شخص اس کے دیکھا دیکھی اس چیز کو اسی قیمت میں خرید لے یا کسی بکتی ہوئی چیز کی برائی کرنا تاکہ خریدار اس کو چھوڑ کر دوسری طرف ہو جائے عام طور پر علماء نے حدیث میں اسی لفظ کو اسی پر محمول کیا ہے یعنی مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی بھی طریقے سے سودے کو بگاڑنا، بعض حضرات نے اس لفظ کے اصل معنی رعایت سے حدیث میں ولاتناجشوا کے یہ معنی مراد لیے ہیں کہ کسی کو کسی کی برائی اور خصومت پر نہ اکساؤ۔

ولاتحاسدوا۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر ظالم کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اس کے زوال کی آرزو نہ کرو یا یہ خواہش نہ کرو کہ وہ نعمت اس کے پاس سے ہٹ کر تمہارے پاس آ جائے۔

ولاتباغضوا۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو کا مطلب یہ ہے کہ ایسے اسباب کو پیدا کرنے سے احتراز کرنا چاہے جو بغض و نفرت کو لازم کرتے ہیں یہ وضاحت اس بناء پر ہے کہ جس طرح محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو خود بخود پیدا ہوتا ہے اسی طرح بغض و نفرت بھی پیدائشی ہیں کہ اس جذبہ کے پیدا ہونے یا نہ ہونے میں کسی شخص کا کوئی اختیار نہیں ہے البتہ انسان اپنے آپ کو ایسے اسباب سے محفوظ رکھے پر یقیناً قادر ہو سکتا ہے جن سے باہمی بغض و نفرت پیدا ہو سکتی ہے بعض حضرات لاتباغضوا کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ شرعی احکام و مسائل میں خواہشات نفسانی کی بناء پر آپس میں اختلاف و انتشار پیدا نہ کرو اور خود ساختہ افکار و نظریات کو دین میں شامل نہ کرو کیونکہ دین میں بدعت اختیار کرنا اور راہ مسقیم سے گمراہ ہونا وہ اسباب ہیں جو مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے بغض و نفرت کو پیدا کرتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث میں ایک دوسرے سے بغض رکھنے کی ممانعت کا اصل مقصد باہمی محبت و الفت کے حکم کو مؤکد کرتا ہے اور محبت و الفت کے اسی حکم کو تعلق علی الاطلاق مسلمانوں کی پوری زندگی سے ہے البتہ جس محبت و الفت سے دین میں خلل پڑتا ہو اس صورت میں محبت کو جائز قرار دینا جائز نہیں بلکہ دین کو نقصان پہنچانے والے شخص سے بغض و نفرت ہی رکھنا جائز ہو گا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لئے محبت و اتحاد کی زنجیر میں منسلک رہیں جو ارشاد خداوندی کا بھی تقاضا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا۔ آیت (واعتصمو بحبل اللہ)............۔

اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محبت و الفت اتحاد کی بنیاد پر ہے اور بغض و نفرت افتراق کا ذریعہ ہے لہذا فرمایا گیا ہے کہ تم ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ لاتباغضوا کے معنی یہ ہیں کہ تم مسلمانوں کے درمیان عدوات و دشمنی پیدا نہ کرو۔ اس صورت میں مذکورہ ممانعت کا تعلق گویا چغل خوری سے ہو گا، کیونکہ چغل خوری سے فساد کی بنیاد پڑی ہے اور ایک دوسرے سے عداوت پیدا ہو جاتی ہے۔

ولاتدابرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی پیٹھ کے پیچھے برائی بیان نہ کرو۔ اور طیبی نے کہا ہے کہ تدابر سے مراد تقاطع ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا چھوڑ دو اس معنی کو مذکورہ جملہ سے لفظی مناسبت بایں طور ہے کہ ترک ملاقات کرنے والوں میں سے ہر ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر لیتا ہے اور اسلام کے بتائے ہوئے باہمی حقوق کی ادائیگی سے گریز کرتا ہے۔

(وکونوا عباداللہ اخوانا۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور عبودیت میں سب برابر ہو نیز تم سب اخوہ کی ایک زنجیر سے منسلک ہو لہذا تمہارا اس حیثیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کے درمیان حسد بغض اور غیبت جیسی برائیوں کو حائل کرنے کے اپنے دلوں میں افتراق اور اپنی صفوں میں انتشار پیدا نہ کرو بلکہ اپنے مرتبہ عبودیت پر اتحاد کے ساتھ قائم رہو اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

ولاتنافسوا۔ میں لفظ تنافس لغوی طور پر تحاسد کے معنی کے قریب ہے لیکن احتمال یہ رہے کہ تنافس کے معنی دنیا کے طرف میلان رکھنا ہو اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ مجھے خدشہ ہے کہ تم پر دنیا کے دروازے کھول دیئے جائیں اور تنافس کرنے لگو۔ یعنی تم دنیا کی طرف راغب ہو جاؤ اسی اعتبار سے ترجمہ میں تنافس کے معنی آپس میں حرص کرنا نقل کیے گئے ہیں۔

عداوت کی برائی

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو خدا کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں۔ مسلم۔

 

تشریح

 

جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جنت کے طبقات درجات یا اس کے بالا خانے ان دونوں میں کھول دیئے جاتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں حق تعالی کی رحمت و کثرت سے نازل ہوتی ہے جو بندوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے۔ (ملاعلیٰ قاری)

اور شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ دروازوں کا کھلنا دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ ان دونوں میں بندوں کو بہت زیادہ مغفرت سے نوازا جاتا ہے ان کے گناہ و جرائم سے درگزر کیا جاتا ہے اور انہیں ثواب کی کثرت اور بلندی درجات کی سعادت سے سرفراز کیا جاتا ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے کیونکہ نصوص (یعنی قرآن و حدیث میں منقول احکام) کو ان کے ظاہری مفہوم پر عمل کرنا واجب ہے تاوقتیکہ کوئی ایسی واضح دلیل موجود نہ ہو جس سے اس سے ظاہری مفہوم کے بجائے کوئی دوسرا مطلب مراد لیا جا سکتا ہو۔ تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی مغفرت باہمی صلح و صفائی اور عداوت کے ختم ہو جانے پر موقوف رہتی ہے خواہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے عداوت رکھتے ہوں یا ان میں سے ایک عداوت رکھتا ہو اور دوسرا اس عداوت سے صاف ہو۔

ٍ

 

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر ہفتہ میں دوبار پیر اور جمعرات کے دن پروردگار کے حضور کے لوگوں کے عمل پیش کیے جاتے ہیں چنانچہ ہر مومن بندہ کی مغفرت کی جاتی ہے علاوہ ازیں اس بندہ کے جو اپنے اور کسی مسلمان کے درمیان عداوت رکھتا ہو ان کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مہلت دو تاکہ وہ رجوع کر لیں اور عداوت سے باز آ جائیں۔ (مسلم)

دروغ مصلحت آمیز

اور حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابومعیط رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو اپنی جھوٹی باتوں کے ذریعہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرے یعنی باہمی عداوت رکھنے والوں کے درمیان صلح و صفائی کرائے (آپس میں دشمنی رکھنے والوں میں سے ہر ایک سے) بھلی بات کہے اور ہر ایک کی طرف سے دوسرے کو بھلی بات پہنچائے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ میں نے اس ذات گرامی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی بات کی اجازت دی ہو جس کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں یعنی آپ نے کسی معاملہ میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی،علاوہ تین باتوں کے ایک تو جنگ کی حالت میں دوسرے لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے میں اور تیسرے جبکہ شوہر اپنی بیوی سے باتیں کر رہا ہو اور بیوی اپنے شوہر سے باتیں کر رہی ہو۔ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت

ان الشیطان قد ایس، الخ۔ باب الوسوسہ میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

 بھلی بات پہنچائے۔ یعنی صلح کرانے والا شخص دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کی طرف سے دوسرے فریق کو وہ بات پہنچائے جو حقیقت میں اس فریق نے نہ کہی ہو اور وہ بات اس طرح کی ہو جس سے دونوں کے درمیان صلح دوستی کے جذبات پیدا کرنے میں مدد ملتی ہو مثلاً وہ دونوں فریق میں سے کسی کے پاس جائے اور اس سے یوں کہے کہ تم اس دوسرے فریق سے خواہ مخواہ کی عداوت رکھتے ہو حالانکہ وہ تمہارا بڑا خیر خواہ ہے اور تمہارے حق میں اچھی بات کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتا اس نے تمہیں سلام کہا ہے اور تمہارے تئیں دوستی و خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

جنگ کی حالت میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اس کا تعلق ایسی باتیں کہنے سے ہے جن سے مسلمانوں کی طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہو اپنے لشکر کے لوگوں کا حوصلہ بڑھتا ہو اور ان کے دل قوی ہوتے ہوں اور دشمن کے لشکر کا فریب کھا جانا ممکن ہو اگرچہ وہ باتیں حقیقت کے بالکل خلاف ہوں، مثلاً یوں کہا جائے کہ ہمارے لشکر کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دشمن کا لشکر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا اور ہمارے لشکر کی مدد کے لیے مزید کافی کمک آ رہی ہے یا اپنے سامنے کھڑے ہوئے دشمن سے یوں کہا جائے کہ دیکھ سنبھل جا فلاں شخص تجھے ختم کر دینے کے لیے تیرے پیچھے آ پہنچا ہے اور پھر جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے اور اس کا دھیان سامنے سے ہٹ جائے تو موقع سے فائدہ اٹھا کر اس پر وار کر دیا جائے۔ میاں بیوی کی باتوں میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً میاں بیوی سے یا بیوی میاں سے اپنے اتنے زیادہ پیار و محبت کا اظہار کرے جو حقیقت کے خلاف ہو اور اس سے مقصد یہ ہو کہ آپس میں محبت و الفت زیادہ بڑھے۔

تین موقعوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے

اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے علاوہ تین موقعوں پر ایک تو شوہر کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا جس سے وہ خاموش ہو جائے دوسرے کفار سے جنگ کی حالت میں اور تیسرے اس مقصد کے جھوٹ بولنا تاکہ لوگوں کے درمیان صلح و صفائی ہو جائے۔ (احمد، ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث میں صرف شوہر کے جھوٹ بولنے کی اجازت ذکر ہے بیوی کے جھوٹ بولنے کا ذکر نہیں ہے جب کہ پچھلی حدیث میں دونوں کا ذکر ہے اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ راوی نے یہاں اختصار کی خاطر صرف شوہر کے بارے میں نقل کیا ہے اور بیوی کے ذکر کو حذف کر دیا یہ کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اکثر و اغلب کا اعتبار کرتے ہوئے صرف شوہر ہی کا ذکر فرمایا کیونکہ عام طور پر عورتیں اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے زیادہ شکی اور بد گمان ہوتی ہیں اس لئے ان کی تسلی اور ان کو خوش رکھنے کی شوہر کو زیادہ ضرورت پیش آتی ہے۔

تین دن سے زیادہ خفگی نہ رکھو

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ملنا جلنا چھوڑ دے جب وہ اس مسلمان سے کہیں ملے جو اس سے خفا ہے اور اسے تین مرتبہ سلام کرے اور وہ ایک مرتبہ بھی جواب نہ دے تو وہ جواب نہ دینے والا اس کے گناہ کا وبال لے کر وہاں سے لوٹے گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر وہ سلام کرنے والے کے سلام کا جواب نہیں دے گا تو ترک ملاقات کا گناہ اس کے سر پڑ جائے گا یا تو وہ صرف اپنے گناہ میں مبتلا ہو گا یا سلام کرنے والے کا گناہ بھی اس پر ہو گا حاصل یہ ہے کہ سلام کرنے والا تو ترک ملاقات کے گناہ سے نکل آئے گا لیکن سلام کا جواب نہ دینے والے کی گردن پر بدستور رہے گا بلکہ سلام کا جواب نہ دینے کی وجہ سے سلام کرنے والے کا گناہ بھی اس پر ہو گا۔

ترک تعلق کی حالت میں مر جانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے لہذا جو شخص تین دن سے زیادہ خواہ ایک ساعت ہی کیوں نہ ملنا جلنا چھوڑ دے اور پھر وہ اسی حالت میں توبہ کیے بغیر مر جائے تو آگ میں جائے گا۔ (احمد، ابوداؤد)

ایک برس تک کسی مسلمان سے ملنا جلنا چھوڑے رکھنا بہت بڑا گناہ ہے

اور حضرت ابوخراش اسلمی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے ناراضگی کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی سے ایک سال تک ملنا جلنا چھوڑے رکھا اس نے گویا اس کا خون کیا یعنی طویل ترک ملاقات کا گناہ اور ناحق قتل کرنے کا گناہ قریب قریب ہیں۔ (ابوداؤد)

تین دن کے بعد ناراضگی ختم کر دو

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مومن سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے لہذا جب ناراضگی کو تین دن گزر جائیں تو چاہیے کہ جس سے ملنا جلنا چھوڑے رکھا تھا اس سے ملے اور اس کو سلام کرے اگر اس نے سلام کا جواب دے دیا تو پھر وہ دونوں ثواب میں شریک ہوں گے کیونکہ پہلے کو تو سلام میں پہل اور ترک خفگی کی ابتداء کرنے کی وجہ سے ثواب ملے گا اور دوسرا سلام کا جواب دینے اور بحالی تعلق کی پیشکش کو قبول کرنے کی وجہ سے اس ثواب کا حق دار ہو گا اور اگر اس نے سلام کا جواب نہ دیا تو اس صورت میں وہ گناہ کے ساتھ لوٹے گا یعنی اس پر ترک ملاقات اور سلام کا جواب نہ دینے کا گناہ ہو گا اور سلام کرنے والا ترک ملاقات کے گناہ سے بری ہو جائے گا۔ (ابوداؤد۔)

صلح کرانے کی فضیلت

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتا دوں جس کے ثواب کا درجہ روزے، صدقے اور نماز کے ثواب سے زیادہ ہے ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سن کر عرض کیا ہاں ضرور بتا دیں آپ نے فرمایا آپس میں دشمنی رکھنے والے دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا اور دو آدمیوں کے درمیان فساد و نفاق پیدا کرنا ایک ایسی خصلت ہے جو مونڈنے والی ہے یعنی اس خصلت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات اور دین میں نقصان و خلل پیدا ہوتا ہے اس روایت کو ترمذی ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ والصدقہ میں حرف واؤ جمع کے لیے ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ صلح صفائی کرانا ان سب عبادات سے افضل ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ حرف واؤ مفہوم کے اعتبار سے او کے معنی میں ہو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ صلح صفائی کرانا ان عبادتوں سے افضل ہے حدیث کا جو مقصد ہے یعنی آپس میں دشمنی رکھنے والوں کے درمیان صلح کرانے کی ترغیب دلانا اس کے پیش نظر پہلا قول زیادہ بہتر ہے۔

ملا علی قاری نے بعض حضرات کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حدیث میں صلح کرانے کو جو روزہ، صدقہ اور نماز سے افضل کہا گیا ہے تو یہاں فرض روزہ یا فرض صدقہ یا فرض نماز مراد نہیں ہے بلکہ نوافل مراد ہیں۔ اس کے بعد ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ میرا کہنا یہ ہے کہ ویسے تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقی معنی مراد کیا ہے لیکن اگر وہ فریقوں کے درمیان پائی جانے والے دشمنی و عداوت کی نوعیت یہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی خون ریزی مال و اسباب کی غارت گری اور عزت و ناموس کی بے حرمتی کا ہونا یقینی ہو تو قیاس کہتا ہے کہ ایسی عداوت و دشمنی کو ختم کرانا اور دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرنا مذکورہ فرض عبادات سے بھی افضل ہے کیونکہ اول تو یہ عبادات ایسا عمل ہیں جو کسی وقت چھوٹ جائیں تو ان کی قضا ہو سکتی ہے جب کہ اس عداوت دشمنی کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والی جانیں تباہ برباد ہونے والے مال اسباب اور بے حرمت ہونے والی عزتیں و ناموس کی مکافات ممکن نہیں دوسرے یہ کہ ان عبادات کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور مذکورہ ہلاکت و تباہی کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ بعض اعتبار سے پروردگار کے نزدیک حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کی اہمیت ہے لہذا اس حقیقت کی بناء پر یہ کہنا زیادہ صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ جنس عمل کو ان عبادات پر جزوی فضیلت بہر حال حاصل ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے البشر خیر من الملک والرجل خیر من المراۃ۔ یعنی انسان فرشتہ سے بہتر ہے اور مرد عورت سے بہتر ہے۔

 ذات البین کے معنی ہیں وہ احوال جن میں لوگ باہمی طور پر مبتلا ہوں جیسے بغض و عداوت اور جنگ و جدل وغیرہ اور اصلاح کے معنی ہیں ان احوال کو درست کرنا اس اعتبار سے اصلاح ذات البین کا معنی یہ ہو گا کہ کچھ لوگ آپس میں برے حالات کا شکار ہوں مثلاً وہ ایک دوسرے کے بغض عناد میں مبتلا ہو کر اور آپس میں لڑائی جھگڑے میں پھنس کر اپنے آپ کو فتنہ و فساد میں ڈالے ہوئے ہوں تو ان کے بغض و عناد کو باہمی محبت و الفت میں بدلا جائے ان کو فتنہ و فساد سے نکال کر صلح کی طرف لایا جائے اس کے برخلاف، فساد ذات البین ہے یعنی فساد و نفاق پیدا کرنا، جس کو لفظ حالقہ سے تعبیر کیا گیا ہے حالقہ اصل میں حلق سے ہے جس کے معنی ہیں بال مونڈنا اور حالقہ بال مونڈنے والی کو کہتے ہیں یہاں اس لفظ سے مراد تباہ برباد کرنا اور جڑ سے اکھاڑنا ہے مطلب یہ ہے کہ فساد ذات البین یعنی لوگوں کے درمیان افتراق و انتشار کے فتنہ کا بیج بونا ایک ایسی خصلت ہے جو دین کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اور ثواب کے حصول کو بالکل ختم کر دیتی ہے۔ اور ثواب کے حصول کو بالکل ختم کر دیتی ہے جیسا کہ استرا بالوں کو جڑ سے صاف کر دیتا ہے بہر حال اس ارشاد گرامی کا مقصد لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے اور فتنہ و فساد کو مٹانے کی ترغیب دلانا اور لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے سے متنفر کرنا ہے۔

حسد اور بغض کی مذمت

اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم سے پہلے کی امتوں کی بیماری تمہارے اندر سرایت کر گئی ہے اور وہ بیماری حسد اور بغض ہے جو مونڈنے والی ہے اس سے میری مراد بالوں کو مونڈنا نہیں ہے بلکہ دین کو مونڈنا یعنی بغض یا حسد اتنی بری خصلت ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کا دین و اخلاق تباہ و برباد ہو جاتا ہے بلکہ یہ خصلت دین و دنیا دونوں کے لیے بڑی نقصان دہ ہے۔ (احمد، ترمذی)

حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا حسد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح لکڑیوں کو آگ جاتی ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ جس طرح آگ اور لکڑی کا معاملہ ہے کہ آگ لکڑی کو جلا کر اس کا وجود مٹا دیتی ہے اسی طرح حسد وہ خصلت ہے جو انسان کو اپنی گرفت میں لے کر اس کی نیکیوں کو مٹا دیتا ہے۔

 معتزلہ  اس حدیث کو اپنے اس مسلک کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ ارتکاب معصیت،عمل صالح کو باطل کر دیتا ہے اور برائیاں نیکیوں کو مٹا دیتی ہیں ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی گناہ کا مرتکب ہو جائے تو اس کے اچھے اعمال محض اس گناہ کے ارتکاب سے ملیا میٹ ہو جاتے ہیں، اور برائی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ پچھلی نیکیوں کو ختم کر ڈالتی ہے لیکن ہم اہل سنت والجماعت اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں انکا کہنا یہ ہے کہ برائیوں سے نیکیاں ختم نہیں ہوتیں البتہ نیکیوں کا خاصہ یہ ضرور ہے کہ وہ برائیوں کو مٹا دیتی ہیں جیسا کہ فرمایا گیا ہے

آیت (ان الحسنات یذھبن السیات)۔ (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں) جہاں تک اس حدیث سے معتزلہ کے استدلال کا سوال ہے تو اہل سنت والجماعت کی طرف سے کہا جاتا ہے اس ارشاد گرامی میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے تو اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ حسد نیکیوں کے حسن و کمال کو زائل کر دیتا ہے جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ، الحسد یفسد الایمان کما یفسد الصبر العسل۔ یعنی حسد ایمان میں فتور پیدا کر دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو بدمزہ کر دیتا ہے بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جانے سے مراد یہ ہے کہ حسد، حاسد کو محسود کا مال تلف کرنے اس کی زندگی تباہ کرنے اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے پر اکساتا ہے اگر حاسد ان چیزوں کو عملاً پورا نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کا ارادہ اور رجحان ضرور رکھتا ہے اور کچھ نہیں تو غیبت وغیرہ کے ذریعہ اس کی عزت و آبرو کو نقصان یقیناً پہنچاتا ہے لہذا حسد کی سزا یہ ملے گی کہ قیامت کے دن حاسد کی نیکیاں محسود کو دے دی جائیں گی اور یہ محسود کے ان حقوق کا بدلہ ہو گا جو حاسد اپنی گردن پر لے کر اس دنیا سے جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ میری امت میں حقیقی مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور شب بیداری کا ثواب لیے ہوئے آئے گا لیکن اس کی حالت یہ ہو گی کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر زنا کا بہتان لگایا گیا ہو گا کسی کا مال کھایا ہو گا کسی کا خون کیا ہو گا اور کسی کو مارا پیٹا ہو گا۔ لہذا اس کی تمام نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن پر اس نے گالی اور بہتان وغیرہ کے ذریعہ زیادتی کی ہو گی لہذا مذکورہ بالا حدیث میں نیکیوں کے مٹائے جانے سے یہی مراد ہے یعنی قیامت کے دن اپنی نیکیوں سے محروم ہو جانا نہ کہ ان کی نیکیوں کو دیوان اعمال میں سے مٹا دینا اور ختم کر دینا مراد ہے یہ مراد یوں بھی صحیح نہیں ہو گی کہ اگر کسی کی نیکیوں کو یہیں مٹا دیا جائے اور ان کو دیوان اعمال میں سے محو کر دیا جائے تو پھر وہ وہاں قیامت کے دن کن اعمال کے ساتھ آئے گا۔ درآنحالیکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص نے دنیا میں جو اعمال کیے گئے ہوں گے وہ قیامت کے دن انہی اعمال کے ساتھ میدان حشر میں حاضر ہو گا۔ ایک جواب یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ہر بندہ اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں ثواب کی تعداد بڑھتی رہتی ہے ظاہر ہے کہ جو بندہ نیکیوں کی بجائے خطاؤں کا مرتکب ہوتا ہے وہ اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں اور ثواب کے اضافہ سے محروم ہو جاتا ہے اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ حسد، حاسد کا اچھی بات سے مٹا کر گویا ان نیکیوں سے محروم رکھتا ہے جو اس کو بری خصلت سے اجتناب کی صورت میں حاصل ہوتیں۔

دو آدمیوں کے درمیان برائی ڈالنے کی مذمت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم اپنے آپ کو دو آدمیوں کے درمیان برائی ڈالنے کی خصلت سے بچاؤ کیوں کہ یہ خصلت مونڈنے والی یعنی دین کو تباہ کرنے والی ہے۔ (ترمذی)

ٍ

 

 اور حضرت ابوصرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو شخص کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی کوئی ضرور نقصان پہنچائے گا تو اللہ تعالی اس کو ضرور نقصان پہنچائے گا یعنی اس برے عمل کی سزا دے گا جو شخص کسی مسلمان کو مشقت و تکلیف میں ڈالے گا تو اللہ اس کو مشقت و تکلیف میں مبتلا کرے گا۔ ابن ماجہ اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

لفظ شاق کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے گئے ہیں کہ جو شخص کسی مسلمان سے عداوت و مخالفت کرے گا اللہ اس سے عداوت و مخالفت رکھے گا یعنی اس کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔

کسی مسلمان کو ضرر پہنچانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص ملعون ہے جو کسی مسلمان کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر و فریب کرے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو خواہ ظاہری طور پر ضرر و نقصان پہنچائے اور خواہ پوشیدہ طور پر ہو اس کو بارگاہ رب العزت کے قریب اور رحمت الہی سے دور قرار دیا گیا ہے۔

کسی مسلمان کو اذیت پہنچانے،عار دلانے اور اس کی عیب جوئی کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو با آواز بلند اس طرح مخاطب فرمایا اے وہ لوگو جو زبان سے تو اسلام لائے ہیں اور ان کے دل تک ایمان نہیں پہنچا ہے تمہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ تم ان مسلمانوں کو اذیت نہ دو جو کامل مسلمان ہیں بایں طور کہ انہوں نے زبان سے بھی اسلام کو قبول کیا ہے اور ان کا دل بھی ایمان سے نور سے منور ہے ان کو عار نہ دلاؤ اور ان کے عیب نہ ڈھونڈو۔ یاد رکھو جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرتا ہے اللہ اس کا عیب ڈھونڈے گا اور جس کا عیب اللہ تعالی ڈھونڈے اس کا رسوا کیا جانا یقینی ہے اگرچہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے بچ کر اپنے گھر میں چھپا ہوا کیوں نہ ہو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

جو زبان سے اسلام لائے ہیں اس خطاب میں مومن اور منافق دونوں شامل ہیں اور اس کے آگے جو یہ فرمایا کہ جن کے دل ایمان تک نہیں پہنچا ہے یعنی ان کا دل اصل ایمان یا کمال ایمان کے نور سے منور نہیں ہوا ہے تو اس کے ذریعہ خطاب میں فاسق کو بھی شامل کر لیا گیا ہے یہ بات اس لیے بھی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ارشاد گرامی میں آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرتا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا خطاب تمام مسلمانوں سے تھا خواہ وہ کامل مسلمان ہوں یا منافق اور یا فاسق۔ اگر خطاب صرف منافقین سے ہوتا چوں کہ مسلمان اور منافق کے درمیان اخوۃ یعنی بھائی چارہ نہیں ہے اس لیے اس ارشاد گرامی میں اپنے مسلمان بھائی کا لفظ استعمال نہ کیا جاتا لہذا طیبی کا اس قول کا اختیار کرنا کہ اس ارشاد گرامی کے مخاطب صرف منافقین ہیں اور صرف انہیں پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے ظاہر مفہوم کے خلاف ہے۔

 عار نہ دلاؤ  کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اس کے اس گناہ پر طعن اور تنبیہ نہ کرو جو کبھی پہلے اس سے صادر نہ ہوا ہو خواہ اس گناہ سے اس کا توبہ کرنا تمہیں معلوم ہو یانہ ہو البتہ اگر کوئی شخص کسی گناہ کے ارتکاب کی حالت میں ہو یا وہ کوئی گناہ کر چکا ہو اور وہ گناہ اس کے توبہ کرنے سے پہلے علم میں آ گیا ہو تو اس صورت میں اس کو اس گناہ پر طعن اور تنبیہ کرنا اس شخص پر واجب ہے جو اس پر قادر ہے اور اگر وہ گناہ قابل حد و تعزیر ہو تو اس پر حد اور تعزیر بھی جاری کرنا قاضی حاکم پر واجب ہو گا گویا اس صورت کا تعلق عار دلانے سے نہیں ہو گا بلکہ اس کا شمار امر بالمعروف نہی عن المنکر کے زمرہ میں ہو گا۔

 نہ ان کے عیب ڈھونڈو یعنی تم کسی مسلمان کے جن کے عیوب کو نہیں جانتے ہو اس کی ٹوہ میں نہ لگو اس کے جو عیوب تمہارے علم میں آ گئے ہیں ان کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کرو اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان جو فاسق نہ ہو کے عیوب کی ٹوہ میں رہنے یا اس کے جو عیوب علم میں ہوں ان کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے اور جو شخص ایسا کرے اس سے خود بھی کنارہ کشی اختیار کرنا اور دوسروں کو بھی اس سے دور رکھنا واجب ہے۔

 اللہ اس کے عیب ڈھونڈے گا  کا مقصد اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں کسی مسلمان کی عیب جوئی کرتا ہے یا کسی مسلمان کے عیوب کو ظاہر کرتا ہے دوسروں کے سامنے اس کو رسوا کراتا ہے اس کو جان لینا چاہیے کہ آخرت میں اس کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہو گا بایں طور کہ اللہ وہاں اس کے عیوب سے درگزر کرنے کے بجائے اس کی ایک ایک برائی پر نظر رکھے گا اور اس کے تمام عیوب کو مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گا تاکہ جس طرح اس نے اپنے ایک مسلمان بھائی کو دنیا میں رسوا کیا تھا اسی طرح آخرت میں وہ خود بھی رسوا ہو گا اور ظاہر ہے کہ آخرت کی رسوائی دنیا کی رسوائی سے کہیں زیادہ ہو گی عطا نے لکھا ہے کہ کسی کے عیوب کی ٹوہ لگانا خود سب سے بڑا عیب ہے۔

امام غزالی نے لکھا ہے کہ عیب جوئی وہ خصلت ہے جو دراصل بد گمانی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے جو شخص کسی مسلمان کے بارے میں بد گمانی قائم کر لیتا ہے وہ اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکتا اس کی خواہیش ہوتی ہے کہ وہ ٹوہ میں لگا رہے چنانچہ وہ ٹوہ میں لگا رہتا ہے اور جب اس کے علم میں کوئی عیب آ جاتا ہے تو پھر وہ اس کی پردہ دری کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت نے ایک مسلمان کے کردار اس کی سماجی حیثیت اس کے شخص وقار اور اس کی نجی زندگی کو معاشرہ میں ذلت و رسوائی سے بچانے پر بڑا زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس بات کی تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم کسی مسلمان کے کسی عیب کو جانو تو اس کو چھپاؤ نہ کہ اس کو اچھالتے پھرو نیز کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ کسی مسلمان کے نجی حالات کی جستجو کرے اس کی کمزوری کو کھوج کھوج کر دوسروں کے سامنے لائے اور اس کے کردار کے ان گوشوں میں جھانکنے کی کوشش کرے جن کو وہ دنیا کی نظروں سے چھپانا چاہتا ہے اس کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ شریعت نے کسی مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی کا جو حکم دیا ہے اس کی حد یہ ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں ایسا مکان ہے جہاں شغل مے نوشی ہوتا ہے اور راگ رنگ کی مجلس جمتی ہو تو اس شخص کو چاہے کہ وہ خود اپنے مکان کا دروازہ بند کرے تاکہ اس کی نظر اس مذکورہ مکان کے درمیان جو دیوار حائل ہے اس سے کان لگا کر چوری چھپے اس آواز کو سننے کی کوشش نہ کرنی چاہیے جو اس مکان میں گانے بجانے اور راگ رنگ وغیرہ کے پیدا ہونے کا سبب ہے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ اس برائی کو دیکھنے کے لیے اس شخص کے گھر میں گھسا جائے ہاں اگر اس مکان کے مکین اپنے افعال بد کو خود ظاہر کر رہے ہوں جیسے وہ اتنی بلند آواز میں گانا بجانا کر رہے ہوں کہ باہر تک آواز آ رہی ہو یا شرابی لوگ آپس میں شرابیوں جیسا کہ شورو شغب کر رہے ہوں اور ان کی آواز انکے شغل مے نوشی بھی ان تک ظاہر ہو رہی ہو تو یہ دوسری بات ہے کہ اس طرح اگر وہ شخص ان کی ٹوہ لینے کے مقصد کے بغیر یونہی اس گھر میں چلا جائے اور وہ لوگ شغل مے نوشی یا گانا بجانا موقوف کر کے شراب کے برتن اور گانے بجانے کی چیزیں اپنے دامن وغیرہ کے نیچے چھپا لیں تو اس شخص کے لیے یہ جائز نہ ہو گا اور نہ یہ جائز ہو گا اپنے پڑوسیوں سے دریافت کرتا پھرے کہ اس کے مکان میں کیا کیا ہوتا ہے۔

آخر میں ایک بات یہ جان لینی چاہیے کہ حدیث کے الفاظ ولم یفض الایمان الی قلبہ (اور ان کے دل تک ایمان نہیں پہنچا ہے) میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب تک ایمان نور دل کو روشن نہیں کر دیتا اس وقت تک نہ اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کے حقوق ادا ہوتے ہیں اور یہ کہ قلب کے تمام روحانی امراض کا علاج اللہ کی معرفت اور اس کے حقوق کو ادا کرنے پر موقوف ہے چنانچہ جو شخص اللہ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو نہ وہ کسی کو تکلیف پہنچاتا ہے اور نہ کسی کو نقصان و ضرر میں مبتلا کرتا ہے نہ کسی کو عار دلاتا ہے اور نہ کسی کے احوال و کردار کی کمزوریوں اور اس کے عیوب کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے۔

کسی مسلمان کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کی مذمت

اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو کو ناحق بگاڑنے کے لیے زبان درازی کی جائے۔ (ابوداؤد، بیہقی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی شرعی مصلحت کے بغیر اور ناروا طور پر کسی مسلمان کے بارے میں اپنی زبان سے برے الفاظ نکالنا اس کی غیبت کرنا اس کے ساتھ تکبر کرنا اور اپنی بڑائی جتانے کے لیے اس کی حقارت و توہین کرنا اور اس طرح اس کی عزت کے درپے ہونا ایک ایسی خصلت ہے جو حرام ہونے اور گناہ لازم کرنے کے اعتبار سے بہ نسبت اور سودوں کے سخت ترین سود ہے واضح رہے کہ لغت میں ربوہ کے معنی ہیں زیادہ ہونا بڑھنا اور اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم ہے خرید و فروخت اور قرض میں واجب حق اور اصل رقم سے زیادہ لینا۔ لہذا کسی مسلمان کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرنا یا ایسے الفاظ اپنی زبان سے نکالنا جس کا اس مسلمان کے بارے میں اس کو کوئی حق نہیں ہے اور نہ اس کا تعلق کسی ایسے معاملہ سے ہو جس میں اس طرح کا رویہ اختیار کرنا یا اس طرح کے الفاظ کے استعمال کی شرعی طور پر اجازت ہو گویا اس چیز کی طرح ہے جو اپنے حق سے زیادہ اور نہایت ظلم کے ساتھ لی گئی ہو۔ اس اعتبار سے کسی کی آبروریزی کے لے زبان درازی کو ربو کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور پھر اس کو اربی یعنی سب سے بڑا سود کہا گیا ہے کیونکہ کسی مسلمان کے نزدیک اس کی عزت و آبرو اس کے مال و زر سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے اور مال و زر کی بہ نسبت عزت و آبرو کا نقصان زیادہ تکلیف اور زیادہ سخت ہوتا ہے۔

شارحین نے حدیث نے لکھا ہے کہ ناحق کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ بعض صورتوں میں ایسا رویہ اختیار کرنا اور ایسی بات کہنا کہ جس سے عزت و آبرو مجروح ہوتی ہو مباح قرار دیا ہے مثلاً کسی شخص پر کسی شخص کا کوئی حق ہے اور وہ اس حق کو ادا نہ کر رہا ہو تو صاحب حق کو اجازت ہے کہ وہ اس شخص کو ظالم جیسے سخت الفاظ کہہ کر اس کو بد نام و بے عزت کرے۔ یا کوئی شخص کسی کے حق میں گواہی دے رہا ہو تو اس پر جرح کرنا اور اس کے گواہ کے عیوب بیان کرنا درست ہے اسی قسم سے راویان حدیث پر جرح کرنا بھی ہے یعنی محدثین کا حدیث کے راویوں کے عیوب ظاہر کرنا بھی درست ہے کیونکہ اس کا مقصد حدیث کی صحت کو محفوظ رکھنا ہے اور دین کی حفاظت کرنا ہے اسی طرح لوگوں کو نقصان و فساد سے بچانے کے لئے نکاح کا پیغام دینے والے کے صحیح احوال یعنی اس کی برائیوں کو ظاہر کرنا اور بدعتی و فاسق کی مذمت و بے عزتی کرنا بھی درست ہے۔

کسی کی ناحق آبروریزی کرنا اس کا گوشت کھانے کے مترادف ہے

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب اللہ تعالی نے مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت جبرائیل کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کے حق میں نازیبا الفاظ اپنی زبان سے نکالتے ہیں اور اس طرح ان لوگوں کی عزت و آبرو کو پامال کرتے ہیں ان لوگوں کا اپنے چہروں اور سینوں کو کھرونچنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے بھائیوں کی آبروریزی کر کے اور اس آبروریزی پر خوش ہو کر ان بھائیوں کے سینوں یعنی دلوں اور چہروں کو مجروح و مغموم کیا ہے لہذا ان کی سزا یہی ہے کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے سینوں اور چہروں کو بھی زخمی کریں۔

کسی شخص کی بے آبروئی کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت مستورد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی غیبت، برائی کرنے یا اس پر زنا وغیرہ کی تہمت لگانے کے ذریعہ اس کی آبروریزی کر کے ایک لقمہ کھائے تو اللہ اس کو اس لقمہ کی مانند دوزخ کی آگ کھلائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی تحقیر و امانت کے بدلہ میں کسی کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالی اس کو اس کپڑے کی مانند دوزخ کی آگ کا کپڑا پہنائے گا اور جو شخص کسی کو سنانے اور دکھانے کے لیے کھڑا کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کے سنانے اور دکھانے کے لے خود کھڑا ہو گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

لفظ اکلہ کے معنی ایک لقمہ کے ہیں اور ایک نسخہ میں یہ لفظ اکلۃ الف کے زبر کے ساتھ منقول ہے جس کے معنی ایک بار سیر ہو کر کھانا ہے۔ کسی مسلمان کی آبروریزی کر کے ایک لقمہ ایک بار کھانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی خوشنودی مزاج کے لیے اس کے سامنے کسی مسلمان کی برائی کرنا اور اس کے عوض کچھ کھانے پینے کا سامان پیدا کر لینا ہے مثلاً فرض کریں ایک شخص زید ہے جو کسی مسلمان سے عداوت رکھتا ہے اور اس مسلمان کی برائی سن کر بہت خوش ہوتا ہے چنانچہ ایک اور شخص بکر اس کے اس مزاج کو جان کر اس کے پاس جاتا ہے اور از راہ خوشامد اس کے سامنے اس مسلمان کو برا بھلا کہتا ہے یا اس کے عیوب کو بیان کرتا ہے اور زید اس کی اس حرکت سے خوش ہو کر اس کو روپیہ پیسہ یا کچھ کھانے کے لیے دے دیتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی آبروریزی کو اپنی کمائی کا ذریعہ بناتا ہے تو آخرت میں اس کو اپنی روزی اور کمائی کے مثل دوزخ کی آگ کھانی پڑے گی۔

لفظ  کسی بصیغہ معروف ہے اور اوپر کے ترجمہ اسی اعتبار سے کیا گیا ہے لیکن ایک نسخہ میں یہ لفظ بصیغہ مفعول ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ جو شخص کسی مسلمان کی تحقیر و اہانت کرتا ہے اور اس کے بدلے میں کپڑا پہنایا جائے یہ معنی قبل کی عبارت کی زیادہ مطابق ہیں۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس لفظ کے بصیغہ معروف ہونے کی صورت میں قبل کی عبارت میں من اکل برجل مسلم اکلہ دیکھتے ہوئے ترجمہ یوں ہو گا جو شخص کسی مسلمان کی تحقیر و اہانت کرنے کے بدلے میں اپنے آپ کو کپڑے پہنائے۔

ومن قام برجل  کے لفظ برجل میں حرف باء تعدیہ کے لیے اور رجل سے مراد خود وہی شخص ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نمود و نمائش کی خاطر اپنی زبان سے اپنی بڑائیاں بیان کرے اور اپنی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہو یا کسی دوسرے شخص کو اسبات پر مامور کرے کہ وہ لوگوں کی بڑائی جتانے کے لئے اور دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اس کی تعریف کرے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی برائیاں ظاہر کر کے لوگوں کے درمیان اس کی رسوائی کا سامان پیدا کرے گا۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ برجل میں حرف باء تعدیہ کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور سببیت کے لیے بھی۔ پس اگر تعدیہ کے لیے ہو تو یہ مطلب ہو گا کہ جو شخص کسی کو سمعہ وریاء نمود و نمائش کے طور پر اس کی پرہیزگاری دینداری کا ڈنکا پیٹتا پھرے اور اس کے زہد عبادات اور اس کی بزرگی کو جھوٹ کی شہرت دے اور اس سے مقصد یہ ہو کہ لوگ اس کے معتقد ہوں اور اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہو کر اپنے جان و دل کے ذریعہ اس کی خدمت کیا کریں۔ اور اس کی آڑ میں اپنا جاہ و مال کا فائدہ ہو جیسا کہ بعض بزرگان کے خدام کا شیوہ ہے وہ ان کی شہرت کی آڑ میں اپنے لیے مختلف فوائد حاصل کرتے ہیں اور بقول شخصے پیراں نمی پرند مریدان میں پرانند۔تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ قیامت کے دن اس شخص کو رسوائی کی جگہ پر کھڑا کرے گا یعنی فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس شخص کے بارے میں اعلان کرو کہ یہ جھوٹا ہے اس نے محض اپنے فائدہ اور ذاتی اغراض کے لیے ایک شخص کو ناروا طور پر شہرت دی اس کے بعد اس کو عذاب میں مبتلا کر دیا جائے گا جو جھوٹوں کے لیے ہو گا۔

اور اگر حرف باء سببیت کے لیے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ اگر کوئی شخص کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود اپنے آپ کو سمعہ وریا کے مقام پر کھڑا کرے یعنی اپنے آپ کو بڑا زاہد متقی اور نہایت صالح و پاکباز ظاہر کرے تاکہ کوئی صاحب جاہ و مال دار شخص اس کا معتقد ہو اور وہ اس کے ذریعہ جاہ و مال کی اپنی خواہش و طلب کو پورا کرے تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ اس کو ایسی جگہ پر کھڑا کرے گا جہاں لوگ اس کی رسوائی و  فضیحت کو دیکھیں گے یعنی فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ یہ اعلان کرو کہ یہ شخص نہایت ریا کار تھا اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور اس کے ذریعہ جاہ و مال حاصل کرنے کے لیے خود کو زاہد متقی ظاہر کرتا تھا اور پھر اس کے بعد اس کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جو ریا کاروں کے لیے ہو گا۔

خدا کے ساتھ حسن ظن کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اچھا گمان رکھنا من جملہ بہترین عبادات کے ہے۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جن اعمال کو عبادات حسنہ کہا جاتا ہے ان میں سے ایک بہترین چیز اور بہترین عبادت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اچھا گمان رکھا جائے لہذا ضروری ہے کہ عبادتوں کو ترک نہ کیا جائے واضح رہے کہ جاہل عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اگر عبادتیں ترک ہوتی ہیں تو ہونے دو۔ البتہ اللہ کی ذات پر اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ کریم اور غفور ہے جو تارک عبادت کو بھی یقیناً بخش دے گا یہ گمان نہایت گمراہی کا سبب ہے اور شیطان کے فریب میں پھنس جانے کا نتیجہ ہے علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص عبادتوں کو ترک کرے اور معبود کے ساتھ حسن ظن کا دعوی کرے وہ یقیناً مغرور و مردود ہے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ اچھے گمان کا تعلق خدا کے بجائے مسلمانوں کے بارے میں خیر و صلاح کا عقیدہ رکھنا من جملہ عبادات حسنہ کے ہے۔ یا یہ کہ یہ ایک ایسی صفت ہے جو عبادتوں میں حسن و کمال پیدا کرتی ہے اور ثواب کا درجہ بڑھاتی ہے اس کا حاصل یہ نکلا کہ جو شخص عبادات گزار و نیکوکار ہوتا ہے وہ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان اور نیک خیال رکھتا ہے اور بد گمانی رکھنے والا بدکار کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

 بدگماں باشد ہمیشہ زشت کار نامہ خود خواند اندر حق یار

ایک زوجہ مطہرہ کی بد گوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ناراضگی

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا اس وقت زینب کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ سواری تھی یعنی ان کے پاس ایک اونٹ ضرورت سے زیادہ تھا لہذا رسول اللہ نے زینب سے فرمایا کہ تم اپنا وہ اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بھلا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دوں گی، یعنی انہوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنا اونٹ دینے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ ان کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی بیان کیے چنانچہ رسول اللہ ان سے سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ آپ نے ذی الحجہ اور محرم کے پورے مہینے اور ماہ صفر کے کچھ دنوں تک ان سے ملنا جلنا چھوڑے رکھا (ابوداؤد) اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کی روایت من حمی مومناالخ باب الشفعہ میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ایک یہودی حی بن اخطب کا سلسلہ نسب چوں کہ اوپر جا کر حضرت ہارون علیہ السلام سے مل جاتا تھا اس لیے ان کو ایک پیغمبر یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولا میں سے ہونے کا نسبی شرف بھی حاصل تھا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی پہلی شادی ایک یہودی ابوالحقیق سے ہوئی تھی جب جنگ خیبر میں وہ مارا گیا اور صفیہ قیدی بن کر بارگاہ رسالت میں لائی گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو رہا کر دیا اور پھر ان سے عقد کر لیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض ازواج ان کو ناپسند کرتی تھیں اور خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی انہیں میں سے تھیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دوسری ازواج کی طرح ان سے بھی برابر کا تعلق تھا اور ان کی حمایت و رعایت کرتے تھے ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی بات پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہودیہ کہا اور کچھ سخت سست بھی کہا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہو کہ تم ابوبکر کی بیٹی ہو اور میں پیغمبر زادی ہوں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ تھیں پہلے ان کا نام برہ تھا اور پہلی شادی عبداللہ ابن زمعہ سے ہوئی تھی جب یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے عقد میں آئیں تو آپ نے ان کا نام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔

اس حدیث سے یہ بات تو معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو اس کی گزشتہ زندگی کے تعلق کا طعنہ دینا اس کی حقارت کرنا نہایت نازیبا بات ہے دوسری بات یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بد گوئی پر ان سے سخت ناراض ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک ان سے ترک ملاقات اختیار کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی شرعی مصلحت کی بنا پر کسی مسلمان سے تین دن سے زائد بھی ترک ملاقات کی جا سکتی ہے مثلاً اگر کوئی شخص کسی قبیح فعل کا مرتکب ہو تو اس کی تادیب کی خاطر نہ کہ کسی بغض و عداوت کی خاطر اس سے تین دن سے زیادہ بھی ملنا جلنا چھوڑے رکھنا جائز ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے۔

قسم کا بہرحال اعتبار کرو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ایک مرتبہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا حضرت عیسی علیہ السلام نے اس شخص سے کہا تم نے چوری کی ہے اس شخص نے کہا ہرگز نہیں اس ذات پاک کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے چوری نہیں کی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کو اس طرح قسم کھاتے ہوئے سنا تو کہا میں خدا پر ایمان لایا اور اپنے نفس کو جھوٹا قرار دیا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

میں خدا پر ایمان لایا یعنی تم نے اپنی ہی قسم میں خدا کی وحدانیت کا جو ذکر کیا ہے میں اس پر اپنے ایمان و اعتقاد کا اقرار کرتا ہوں یہ جملہ مفہوم کے اعتبار سے یوں ہے کہ تم نے اللہ کی جو قسم کھائی ہے میں اس کا اعتبار کرتا ہوں اور اپنے نفس کو اس بات کے کہنے میں جھوٹا قرار دیتا ہوں کہ تم نے چوری کی ہے اگرچہ میرا یہ کہنا ظاہری حالات میں غمازی کی بنا پر تھا یہ وضاحت اس احتمال کے پیش نظر ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے کہیں سے کوئی چیز اس کے مالک سے پوشیدہ طور پر اٹھائی ہو گی اس بنا پر حضرت عیسی علیہ السلام نے سمجھا کہ اس شخص نے چوری کی ہے لیکن اس نے اول تو خدا کی قسم کھا کر چوری سے انکار کیا اور دوسرے اس موقع پر ایسی کوئی شرط نہیں پائی گئی ہو گی جس کا چوری کے ثبوت کے لیے اور چوری کی سزا یعنی حد جاری کرنے کے لیے پایا جانا شرعی طور پر ضروری ہوتا ہے اس لیے حضرت عیسی علیہ السلام نے اس شخص کی قسم کو تسلیم کر لیا اور اپنی بات کو غلط قرار دیا۔

حضرت شیخ عبدالحق نے یہ مطلب لکھا ہے کہ میں تمہیں تمہاری قسم میں سچا مانتا ہوں اپنے اس گمان سے رجوع کرتا ہوں جو میں نے تمہارے بارے میں قائم کیا تھا اور مذکورہ بات کے کہنے میں اپنے نفس کو جھوٹا قرار دیتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر خدا کی قسم کھائے تو اگرچہ اس کی وہ بات حقیقت کے کتنی ہی خلاف معلوم ہوتی ہو لیکن چاہیے یہی کہ اپنے گمان اور اپنی معلومات کو غلط قرار دیا جائے اور اللہ کے نام کی تعظیم کے پیش نظر اس کی قسم کا اعتبار کیا جائے۔

حسد اور افلاس کی برائی

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا فقر افلاس و قریب ہے کہ کفر کی حد تک پہنچا دے اور حسد قریب ہے کہ تقدیر پر غالب آ جائے۔

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جز کا مطلب یہ ہے کہ فقر و افلاس اور تنگدستی ایسی بری چیز ہے کہ بسا اوقات انسان اس سے مجبور ہو کر کفر کی حد تک پہنچ سکتا ہے چنانچہ جو فقیر مفلس، صبر استقامت کی طاقت کھو کر قلبی افلاس میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ خدا کی ذات پر اعتماد بھروسہ کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت مایوسی کے عالم میں خدا کے نظام قدرت پر اعتراض کرنے لگتا ہے یا تقدیر الہی کا شکوہ گلا کر کے خدا کے حکم و فیصلہ پر ہر حالت میں راضی رہنے کے تقاضا کو پس پشت ڈال دیتا ہے یا خدا کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے غیر اللہ کے سامنے دست سوال کرنے لگتا ہے اور ماسواء اللہ کو اپنا حاجت روا ماننے لگتا ہے اور یا جب وہ دیکھتا ہے کہ اکثر کافر مال دار ہیں اور عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے برخلاف اکثر مسلمان افلاس تنگدستی کی آزمائش میں مبتلا ہیں تو وہ کفر کی طرف مائل ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فقر و افلاس در اصل مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش اور امتحان کا درجہ رکھتا ہے چنانچہ جو لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں اور مال و دولت اور دنیاوی زندگی کے اعتبار سے مفلس و قلاش ہونے کے باوجود اپنے دل کو غنی رکھتے ہیں اور تقدیر الہی پر صابر و شاکر رہ کر اس امتحان و آزمائش میں پورے اترتے ہیں ان کے حق میں وہی فقر و افلاس ایمان کی پختگی اور ترقی درجات کا ضامن بن جاتا ہے لہذا جو مسلمان مال و دولت سے نہی دست اور فقر و افلاس میں مبتلا ہوں اور تمام تر انسانی تدابیر اور محنت و مشقت کے باوجود تنگی حالات سے نجات نہ پاتے ہوں ان کو چاہے کہ وہ اپنی اس حالت کو خدا کی طرف سے امتحان و آزمائش سمجھیں اور یہ یقین کر لیں کہ یہ دنیا اور دنیا کی ساری پریشانیاں مرد مومن کے لیے ایک ایسا وقفہ حیات ہے جس میں اگر صبر و استقامت اور اللہ کی ذات پر توکل کی دولت نصیب ہو گئی تو کبھی نہ کبھی دنیا میں بھی حالات تبدیل ہو سکتے ہیں اور آخرت کی فلاح و کامیابی تو یقیناً نصیب ہو گی اور یہاں کی ساری کلفتیں اور پریشانیاں وہاں کی بے پایاں نعمتوں اور لازوال آسائشوں میں تبدیل ہو جائیں گی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے اور جو مسلمان اس قید خانہ کی تکلیف و مصائب کو خندہ پیشانی کے ساتھ انگیز کر لے ان کے لیے خدا نے آخرت کی بے پایاں انعامات کا وعدہ کیا ہے قرآن کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالی نے یوں فرمایا ہے۔آیت (لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد).....۔ الخ۔ اے مومن تجھ کو ان کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا مغالطہ میں نہ ڈالے کیونکہ یہ چند روزہ بہار ہے پھر ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے دوزخ ہو گا وہ برا ہی مقام ہے لیکن جو لوگ خدا سے ڈریں اور مسلمان ہو جائیں ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ ان کی مہمانی ہو گی اللہ کی طرف سے اور جو چیزیں خدا کے پاس ہیں یہ نیک بندوں کے لیے بدرجہا بہتر ہیں۔

منقول ہے کہ بعض صحابہ جب کفار مشرکین کی تجارتی سرگرمیوں ان کے یہاں مال و دولت کی ریل پیل کو دیکھتے اور ان کو دنیا کی راحت و آسائش میں دیکھتے تو ان کی زبان پر یہ الفاظ آ جاتے تھے کہ یہ لوگ جو خدا کے دشمن ہیں ان کا حال تو ہم بڑا اچھا دیکھتے ہیں لیکن ہم محنت و مشقت کی سختیوں اور افلاس بھوک کی جانکاہیوں سے دم توڑتے نظر آ رہے ہیں اس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ دنیا کا یہ آرام و چین اور یہاں کی ساری عیاشی چند روزہ ہے ان کو جلد ہی فنا ہو جانا ہے لیکن تمہیں آخرت کا جو آرام و چین اور وہاں کی جو آسائشیں اور راحت نصیب ہونے والی ہے وہ لازوال ہیں جن کو کبھی فنا نہیں آئے گی لہذا تم لوگ فنا ہونے والے چین اور چند روزہ کی راحت کی تمنا نہ کرو بلکہ ان نعمتوں کے امیدوار رہو جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔

جس طرح فقر و افلاس بسا اوقات کفر کی حد تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح بسا اوقات مال و دولت کی زیادتی بھی گمراہ کر دیتی ہے دولت مندی کا نشہ انسان کو تمرد و سرکشی میں مبتلا کر دیتا ہے اور حد سے زیادہ راحت و آسائش کا فتنہ گناہ معصیت کے اندھیروں میں پھینک دیتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خواہ مالداری ہو یا افلاس ان دونوں کا معتدل طور پر رہنا زندگی کو گمراہی کی ضلالت سے بچا سکتا ہے چنانچہ وہ فقر افلاس جس کو انگیز کیا جا سکتا ہو مایوسی اور کفر کی حد تک پہنچنے سے روکے رکھتا ہے اور بقدر ضرورت مال و دولت کا ملنا سرمایہ داری کے نشہ سے محفوظ رکھتا ہے جس کی وجہ سے تمرد سرکشی اور گناہ و معصیت کا خدشہ نہیں رہتا لہذا خیر الامور اوسطھا کا اصول ان دونوں پر بھی صادق آتا ہے۔ حدیث کے دوسرے جز اور حسد قریب ہے کہ تقدیر الہی پر غالب آ جائے گا مطلب یہ ہے کہ بفرض محال کوئی ایسی چیز ہوتی جو تقدیر پر غالب آ جاتی اور اس کو بدل دینے کی طاقت رکھتی تو وہ حسد ہوتا اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ حسد، حاسد کو اس گمراہ کن گمان تک لے جاتا ہے کہ وہ تقدیر الہی کو بھی بدل سکتا ہے۔

عذر خواہی کو قبول کرو

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے اپنے کسی قصور پر عذر خواہی کرے اور وہ مسلمان شخص اس کو معذور قرار نہ دے یا اس کے عذر کو قبول نہ کرے یعنی یوں کہے کہ تم عذر تو رکھتے ہو مگر میں تمہارے عذر کو قبول نہیں کرتا تو وہ اسی درجہ گنہ گار ہو گا جس درجہ کا صاحب مکس گنہ گار ہوتا ہے ان دونوں حدیثوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ مکاس عشر لینے والے کو کہتے ہیں۔

 

تشریح

 

مکس کے معنی ہیں محصول لینا اسی اعتبار سے عشر لینے کا مکاس کہا جاتا ہے اور عام طور پر صاحب مکس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو از راہ ظلم و تعدی ناحق محصولات وصول کرے ناحق اور خلاف شرع محصولات لگانے اور وصول کرنے کا گناہ بہت سخت ہے ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ صاحب مکس جنت میں نہیں جائے گا عذر خواہی کو قبول نہ کرنے والے اور صاحب مکس کے درمیان مشابہت کی وجہ شاید یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی طرح مکس بھی محصول دہندہ کے کسی عذر اور دلیل کو قبول نہیں کرتا کوئی تاجر لاکھ کہے کہ مجھ پر اس قدر محصول عائد نہیں ہوتا میرے پاس مال تجارت کا نہیں ہے بلکہ امانت کا ہے اور یا یہ کہ میں قرض دار ہوں یہ محصول ادا نہیں کر سکتا وغیرہ مگر وہ اس کی بات کو تسلیم نہیں کرتا اس سے زبردستی محصول وصول کر لیتا ہے۔

عذر خواہی کو قبول نہ کرنے کی مذمت اور اس سے گناہ کے بارے میں حدیث بھی منقول ہے کہ چنانچہ طبرانی نے وسط میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ من اعتذر الی اخیہ المسلم فلم یقبل عذرہ لم یرد علی الحوض۔

 اگر کسی شخص نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے عذر خواہی کی اور اس نے اس کے عذر کو قبول نہیں کیا تو اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہو گا۔طبرانی اور دوسرے محدثین نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں تو ضرور بتائیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں برا شخص وہ ہے جو تنہا کسی منزل پر اترے اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپی عطا و بخشش سے محروم رکھے پھر فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جو قصور کرنے والے کے عذر کو تسلیم نہ کرے معذرت کو قبول نہ کرے اور خطا کو معاف نہ کرے پھر فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ بتائیں اگر آپ بہتر سمجھیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ شخص کہ جس سے خیر و بھلائی کی توقع نہ کی جائے اور اس کی فتنہ انگیزیوں سے امن ملتا نہ ہو۔

حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں کو عورتوں کے تئیں پاک دامن رکھو یعنی تم دوسروں کی عورتوں پر بری نظر نہ رکھو تمہاری عورتیں دوسرے لوگوں سے اپنے دامن عفت کو محفوظ رکھیں گی۔تم اپنے باپ سے اچھا سلوک کرو تمہارے بیٹے تم سے اچھا سلوک کریں گے اور جس شخص کے پاس اس کا کوئی مسلمان بھائی عذر خواہ بن کر آئے تو چاہیے کہ وہ اس کے عذر کو قبول کرے اور خواہ اس کا عذر صحیح ہو یا غلط۔ اگر اس نے اس مسلمان بھائی کے عذر خواہی کو قبول نہیں کیا تو وہ یاد رکھے اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہو گا۔ (حاکم نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔