مشکوٰة شر یف

مفاخرت اور عصبیت کا بیان

مفاخرت اور عصبیت کا بیان

فخر، یا کے معنی ہیں اترانا یعنی اپنے حسب و نسب یا اپنے خاندان و قبیلہ یا اپنی قوم و جماعت یا اپنے علم و اخلاق اور یا اپنی مالداری و ثروت وغیرہ پر نازاں ہونا اور فخر کرنا، تفاخر کے معنی ہیں کہ ایک دوسرے پر فخر کرنا مفاخرت کے معنی ہیں فخر میں ایک دوسرے کی برابری کرنا اور افتخار و تفخر کے معنی ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں بڑھانا۔ مفاخرت یعنی اظہار فخر کرنا اور نازاں ہونا اگر حق کے معاملہ میں ہو حق کی خاطر ہو کسی دینی مصلحت کے پیش نظر ہو اور دشمنان اسلام پر اپنی برتری، اپنی شان و شوکت اور اپنی قوت کے اظہار کے طور پر ہو تو جائز ہے چنانچہ اس طرح کہ مفاخرت صحابہ اور سلف سے منقول ہے اور اگر مفاخرت کا تعلق ناحق معاملہ سے ہو اور نفسانیت کے تحت تکبر و غرور اور گھمنڈ کے طو پر ہو تو مذموم ہے اور عرف عام میں مفاخرت کا استعمال اکثر اسی معنی میں ہوتا ہے۔

 عصبیت  کے معنی ہیں عصبی یا متعصب ہونا یعنی اپنے مذہب یا اپنے خیال کی پچ کرنا اور اپنی قوم کی قوت و سختی کے اظہار کے لے جدل و خصومت کرنا چنانچہ عصبہ اس شخص کہتے ہیں جو اپنی بات یا اپنی قوم کی حمایت کرے اور یا اپنی قوم و جماعت کی بچ کے لیے غصہ ہو تعصب بھی اگر حق کے معاملہ میں ہو اور ظلم و تعدی کے ساتھ نہ ہو تو مستحسن ہے اگر تعصب کا تعلق حق بات کو نہ ماننے،ظلم و تعدی اختیار کرنے اور اپنی قوت و شان و شوکت کے بیجا اظہار کی خاطر ہو تو مذموم ہے عام طور پر تعصب کا اطلاق اپنی بات و خیال اور اپنے مذہب قوم کے حق میں ناروا سختی اختیار کرنے اور دوسروں کو تئیں ظلم وتعدی کرنے پر ہوتا ہے جیسا کہ اس باب میں نقل کی جانے والے احادیث سے معلوم ہو گا۔

خاندانی و ذاتی شرافت کا حسن،علم دین سے ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کون شخص زیادہ معزز و مکرم ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار و متقی ہے یعنی اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی عظمت باپ دادا کی بڑائی اور اپنے فضائل و اچھی عادات سے قطع نظر ذاتی بزرگی و کرامت کیا چیز تو ہے جان لو کہ وہ تقوی ہے لہذا جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے وہی سب سے زیادہ معزز و مکرم ہے خواہ وہ اپنے حسب و نسب، خاندانی عظمت وجاہت اور اپنے اوصاف و خصائل کے اعتبار سے کم تر ہو یا برتر، صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مطلب یہ نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم ذاتی بزرگی و کرامت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تو اس اعتبار سے انسانوں میں سب سے زیادہ شریف و بزرگ حضرت یوسف ہیں جو خدا کے نبی (حضرت یعقوب کے بیٹے، خدا کے (حضرت اسحٰق کے پوتے اور خدا کے دوست حضرت ابراہیم کے پڑپوتے ہیں یعنی حضرت یوسف میں کئی طرح کی شرافت و بزرگیاں جمع ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان تین پشتوں میں نبوت رہی ہے ان کے پردادا کو خلیل اللہ کا لقب ملا ہے کہ اللہ نے ان کو خالص دوست قرار دیا ہے پھر وہ علم دانائی، حسن و جمال،عفو و کرم اخلاق و احسان،عدل و انصاف اور دینی دنیاوی سرداری و حکمرانی کے اوصاف سے بھی متصف تھے لہذا اس اعتبار سے وہ انسانوں میں سب سے زیادہ بزرگ و شریف انسان تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ آپ سے ہمارے سوال کا یہ مطلب نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم عربوں کی خاندانی شرافت اور ذات و حسب کی اعلیٰ خصوصیات کے اعتبار سے پوچھ رہے ہو؟کہ اہل عرب جو اپنے اور باپ دادا کے کارناموں ذاتی بزرگی و عزت اور اس طرح کے اور دوسرے اوصاف کے ذریعہ ایک دوسرے سے کے سامنے اظہار فخر کرتے ہیں اور اپنی بزرگی و برائی کا دعوی کرتے ہیں نیز وہ اپنے میں ایک دوسرے کی عزت و شرافت کا معیار تقوی اور نسب کے بجائے مذکورہ اوصاف و خصوصیات کو قرار دیتے ہیں تو ان میں واقعتاً سب سے زیادہ معزز و مکرم کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں ہمارے سوال کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو سنو! تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں سب سے بہتر ہیں جبکہ وہ فقیہ ہوں (یعنی تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنی خاندانی شرافت شریف النفسی بہادری، سرداری اور عمدہ اخلاق و عادات کے اعتبار سے سب سے پسندیدہ اور سب سے بہتر شمار کہے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی لوگ سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ اسلامی احکام و شرائع کے سمجھنے والے اور دین کا علم حاصل کرنے والے ہوں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری جواب کا مطلب یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں کی ذات اور شخصیت کی وجہ سے ان کو سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا وہ لوگ اپنی انہی خصوصیات کی بنا پر زمانہ اسلام میں بھی معزز و مکرم قرار دیئے جائیں گے بشرطیکہ انہوں نے ایمان و اسلام قبول کر کے دین کا علم اور شریعت کے احکام و مسائل حاصل کیے ہوں فرق یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان پر کفر کا سایہ معصیت کی تاریکی اور جہل کا غبار چھایا ہوا تھا اور خواہش نفس کے دام فریب میں مبتلا تھے اور اس اعتبار سے ان کی ذاتی شرافت و صفات کی کوئی حیثیت نہیں تھی مگر اب ایمان و اسلام کی پاکیزگی اور عبادات و علم دین کے نور نے ان کی ذات و شخصیت کو نکھار دیا ہے ان کی زندگی کو روشن کر دیا ہے اور ان کو حق کا تابعدار بنا دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ معاون سے مراد وہ لوگوں کی اپنی ذات و شخصیات ہیں جو عمدہ و صفات و اعلیٰ خصوصیات سے متصف ہوں جیسا کہ کتاب میں یہ روایت نقل کی جا چکی ہے کہ الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ۔ الخ۔ یعنی لوگوں کی بھی کانیں ہوتی ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، پس جو خاندان و افراد اپنی اعلیٰ خصوصیات کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر شمار کیے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم حاصل کریں۔

سب سے زیادہ مکرم کون ہے

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کریم بن کریم ابن کریم اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ حضرت یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم ہیں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ خاندانی شرافت و عظمت اور نسبی برتری کی جو خصوصیات حضرت یوسف کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں سب سے بڑا شرف ان کے علاوہ اور کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا کہ وہ خود نبی تھے ان کے باپ نبی تھے ان کے دادا نبی تھے اور ان کے پڑدادا نبی تھے اس خصوصیت کے علاوہ ان کو حسن و جمال،عدل و انصاف،علم و دانائی اور ریاست و حکومت کے جو اوصاف حاصل تھے ان کے اعتبار سے ان کی ذاتی مکرمت کو شرافت کو سب سے برتر مقام حاصل ہے۔

کفار کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اظہار فخر

اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ان کے خچر یعنی رسول اللہ کے خچر کی باگ سفیان ابن حارث رضی اللہ عنہ نے پکڑ رکھی تھی جو حارث بن عبدالمطلب کے لڑکے ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی تھے اور عرب کے دلیر،جیالے جوانوں میں ایک بہادر مرد تھے چنانچہ جنگ کے دوران جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مشرکوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ (اپنے خچر سے) اتر پڑے اور یہ رجز فرمانا شروع کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں، راوی کا بیان ہے کہ پس اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ بہادر دلیر اور کسی کو نہیں دیکھا گیا۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بے مثال شجاعت و جوان مردی پر دلالت کرتی ہے کہ ایک ایسے معرکے میں جہاں ہوازن و غطفان کے قبائل سمیت عرب کے دوسرے بہت سے جنگجو قبائل بر سر پیکار تھے اور انہوں نے اپنی بے پناہ خرابی قوت اور انفرادی طاقت کے ذریعہ اسلامی لشکر پر اتنا زبردست دھاوا بول دیا تھا کہ شکست کی صورت ظاہر ہونے لگی تھی تو آپ بھی خچر پر سوار ہو کر مجاہدین اسلام کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے اور اپنے خچر کو ایڑ لگا لگا کر کفار کے لشکر پر حملہ کر رہے تھے اور پھر جب ان دشمنان دین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور خچر کو آگے بڑھنے کا راستہ نہ مل سکا تو آپ اس سے اتر پڑے اور پیادہ ہو کر بڑی دلیری اور جوان مردی کے ساتھ دشمن کے لشکر پر ضرب لگائی آخرکار اللہ نے ان کو شکست سے دو چار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو فتح نصیب ہوئی۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حسب و نسب اور خاندانی وجاہت پر اظہار فخر کرنے اور نازاں ہونے سے منع فرمایا ہے لیکن آپ کا بطور رجز یہ فرمانا کہ میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں اس طرح کا اظہار فخر نہیں ہے جو ممنوع ہے کیونکہ وہ فخر ممنوع ہے جو نہ زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق، بیجا اظہار نام و نمود، تعصب و ہٹ دھرمی اور نفس کے گھمنڈ کے طور پر ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ فخر دین کی طاقت اور شان و شوکت کو بڑھانے اور کفار کے مقابلہ میں اپنا رعب اور دبدبہ ظاہر کرنے کے لیے تھا اور اس طرح کا فخر جائز ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں بعض اہل عرب جیسے کاہن اور اہل کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے بعثت نبوی کی خبر دیا کرتے تھے اور نبی آخر الزمان کی جو نشانیاں اور علامتیں بتایا کرتے تھے ان میں ایک نشانی یہ بھی تھی کہ وہ پیغمبر عبدالمطلب کی اولاد سے ہوں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے تئیں سردار کہلانے سے انکار

اور حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ بنو عامر کا جو وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس میں بھی شریک تھا چنانچہ جب ہم آپ کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ ہمارے سردار ہیں آپ نے فرمایا سردار تو خدا ہے ہم نے عرض کیا آپ بھلائی و بہتری کے اعتبار سے ہم میں سب سے بہتر ہیں اور بخشش کے اعتبار سے ہم میں سے بزرگ و برتر ہیں آپ نے فرمایا ہاں اس طرح کہو بلکہ اس سے بھی کم درجہ کے الفاظ استعمال کرو یعنی میری تعریف و مدح میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لو اور ان صفات کو میری طرف منسوب نہ کرو جو صرف اللہ کی ذات سے مخصوص ہیں تم نے آخر میں جو بات کہی ہے زیادہ سے زیادہ اسی حد تک میری تعریف کر سکتے ہو بلکہ میرے تئیں اس سے بھی ہلکے درجہ کی تعریف کرو تو زیادہ بہتر ہے اور دیکھو شیطان تم کو اپنا وکیل نہ بنائے۔ (ابوداؤد

 

تشریح

 

لفظ  جری  کے معنی وکیل کے ہیں جو اپنے موکل کا جاری مجری یعنی قائم مقام ہوتا ہے لہذا لا یستجرینکم الشیطن کا مطلب یہ ہے کہ تم میری تعریف ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں نہ کرو جس سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان لعین نے تمہیں اپنا وکیل و قائم مقام بنا لیا ہے اور تم اس کی وکالت کے طور پر بلا تامل جو چاہتے ہو کہتے چلے جا رہے ہو چنانچہ وہ لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں جو ذات رسالت کی منقبت و تعریف میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں اور نبی کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ گویا بندے کو خدا کا درجہ دے دیتے ہیں جیسے مروج مولود کے قصائد نقلیہ میں ایسے الفاظ و بیان اختیار کیے جاتے ہیں کہ جن سے پروردگار کی شان میں بڑی بے ادبی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں اس یستجرینکم میں یاء کی بجائے ہمزہ ہے اس صورت میں یہ لفظ جری کے بجائے جوات سے ہو گا اور معنی یہ ہوں گے کہ شیطان تم کو میری تعریف میں اس طرح اور بے باک نہ بنا دے کہ غلط سلط اور خلاف حقیقت جو کچھ کہنا چاہو بے جھجک کہنے لگو۔

 سردار تو بس خدا ہے سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ذات جو کہ مخلوق کے تمام امور کی حقیقی مالک ہے اور وہ ذات کہ ہر ایک پر فرمانروائی و حکمرانی کی سزاوار ہے اور جس کے دست قدرت میں تمام تر نظم و تصرف ہے صرف اللہ کی ذات ہے نہ کہ کوئی اور شخص۔علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس جماعت کی طرف سے اپنے آپ کو سردار کہے جانے کی ممانعت کرنا اس سبب سے نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تئیں سرداری و سیادت کو ثابت کیا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بلاشبہ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں بلکہ آپ کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو لفظ سید سردار کے ذریعہ اس انداز مخاطب کیا تھا کہ جس طرح کسی قوم قبیلہ کے سردار کو مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو لفظ نبی یا رسول اللہ کے ذریعہ مخاطب کرتے جو بشریت کا سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے۔

اصل فضیلت تقوی ہے

اور حضرت حسن، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسب مال داری ہے اور کرم پرہیزگاری کا نام ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حسب ان فضائل و خصائل کو کہتے ہیں کہ جو کسی انسان میں ہوتے ہیں چنانچہ صاحب انسان اپنے اور اپنے باپ دادا کے خصائل و فضائل کو شمار کرتا ہے اور ان کے ذریعہ اپنی حیثیت کو بڑھاتا ہے کرم صفات خیر کا نام ہے جس کا اطلاق تمام وجوہ خیر بھلائی اور شرف پر ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک اصل حسب و فضیلت مالداری ہے کہ جو شخص مالدار اور صاحب ثروت ہو تو وہی حسب والا اور فضیلت والا سمجھا جاتا ہے اور اس کی عزت کی جاتی ہے اگر کسی کے پاس مال ثروت نہ ہو تو وہ سب کی نظروں میں کم تر و بے وقعت رہتا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے نزدیک اصل فضیلت تقوی پرہیزگاری میں ہے کہ بغیر تقوی کے کوئی بھی فضیلت اعتبار نہیں رکھتی خدا کی نظر میں کریم یعنی بزرگ و شریف وہی شخص ہے جو پرہیزگار ہو جیسا کہ قرآن کریم میں ہے، آیت (ان اکرمکم عنداللہ اتقکم)، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

اپنے باپ دادا پر فخر کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص زمانہ جاہلیت کی نسبت کے ساتھ اپنے کو منسوب کر لے تو اس کے باپ ہن کو کٹواؤ اور اس میں اشارہ کنایہ سے کام نہ لو۔ (شرح السنہ)

 

تشریح

 

 ھن ہر اس قبیح اور بری چیز کو کہتے ہیں کہ جو صاف صاف نام لے کر بیان نہیں کی جاتی اسی لیے اس لفظ کا اطلاق شرمگاہ پر بھی ہوتا ہے یعنی اگر کسی موقع پر شرمگاہ کا نام لینا ہو تو اس مقصد کے لیے ہن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ دادا پر فخر کرے جو زمانہ جاہلیت میں گزرے ہیں تو اس کو صاف صاف باپ کی گالی دو اور اس کے باپ کی شرمگاہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کنایہ سے کام نہ لو بلکہ اس کا صریح نام لو یعنی اس سے مہذب گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں سیدھا صاف کہہ دو کہ ابے جا اپنے باپ کی شرمگاہ۔ اور اس ارشاد کا مطلب گویا باپ دادا اور خاندانی ثروت وجاہت پر فخر کرنے والوں کو تئیں شاید نفرت کا اظہار اور ان کو سخت تنبیہ کرنا مقصود ہے تاکہ کوئی شخص اپنے باپ دادا کے تئیں فخر و مباہات میں مبتلا نہ ہو۔

بعض حضرات نے من تعزی بعزاء الجاہلیۃ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص زمانہ جاہلیت کی رسموں اور عادتوں کو اختیار کرے جیسے نوحہ بال نوچنے کپڑے پھاڑنے وغیرہ کے ذریعہ غمی منائے تو اس کو صاف صاف باپ کی گالی دو یا جو شخص زمانہ جاہلیت کی طرح لوگوں کو برا بھلا کہے اور ان کو عار دلائے اور ان کے ساتھ گالم گلوچ کرے تو اس کے سامنے اس کے باپ کی برائیاں اشارہ کنایوں میں نہیں بلکہ صریح الفاظ میں بیان کرو یعنی یوں کہو کہ تمہارا باپ بتوں کو پوچھتا تھا، فسق و فجور کی زندگی اختیار کیے ہوئے تھا اور زناکاری و شراب نوشی جیسی قبیح برائیوں میں مبتلا تھا اگر اس کے سامنے اس طرح کی بات کرو گے تو آئندہ کسی شخص کو برا بھلا کہنے، گالم گلوچ کرنے اور کسی کی آبروریزی کرنے کی وہ کبھی جرات نہیں کرے گا۔

اپنے زمانہ جاہلیت کے کسی تعلق پر فخر نہ کرو

اور حضرت عبدالرحمن ابن ابوعقبہ حضرت ابوعقبہ سے نقل کرتے ہیں کہ جو کسی انصاری کے ایک فارس نثراز مولی تھے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ کے ہمراہ میں بھی غزوہ احد میں شریک تھا چنانچہ معرکہ آرائی کے دوران میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو (تلوار یا نیزہ کھینچ کر) مارا اور کہا کہ ایک وار میری طرف سے بھی کھا میں ایک فارسی غلام نژاد ہوں (جو دلیر اور بہت مار دینے والا ہے) رسول اللہ نے میرا یہ جملہ سنا تو میری طرف متوجہ ہو گئے اور فرمایا کہ تم نے اس طرح کیوں نہیں کہا کہ لے میری طرف سے بھی ایک وار کھا میں ایک انصاری غلام ہوں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تنبیہ کا مطلب یہ تھا کہ اس موقع پر اگر تم اپنی نسبت فارس کی طرف جو مذہباً مجوسی اور آتش پرست قوم ہے کرنے کی بجائے انصاری کی طرف کرتے جو بہت بہادر اور خدا کے دین اور رسول اللہ کے حامی و مددگار ہیں تو زیادہ اچھا ہوتا اور اس وجہ سے بھی موزوں تھا کہ مولی القوم منھم۔ (کسی قوم کے مولی کا شمار اسی قوم میں ہوتا ہے) کے بموجب جب تمہارا تعلق ہی سے ہے۔

 مولی  کی دو قسمیں ہیں ایک تو مولی عتاقہ یعنی وہ غلام جس کو اس کے مالک نے آزاد کر دیا ہو اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ جن کا وطنی تعلق غیرب عرب علاقوں اور ملکوں میں ہوتا تھا اور اسلام قبول کر لیتے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ جاتے تھے وہ اپنے آپ کو مہاجرین و انصار کے اختیار میں رہتی تھی ان کے سیاہ و سفید وہی مالک و متصرف ہوتے تھے ایسے لوگوں کو مولی الموالات کہا جاتا تھا حضرت ابوعقبہ رضی اللہ عنہ صحابی جن کا اصل نام رشد تھا اسی طرح کے مولی تھے کہ وہ اصلا فارس کے رہنے والے تھے اور جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے ملک فارس سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تو کسی انصاری کے زیر تربیت رہے اس حدیث کے راوی حضرت عبدالرحمن انہی ابوعقبہ کے صاحبزادے ہیں اور ان کا شمار ثقہ تابعین میں ہوتا ہے۔

اپنی قوم کی بیجا حمایت کرنے والے کی مذمت

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنی قوم کی ناحق حمایت و مدد کرے وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنویں میں گر پڑے اور پھر اس کی دم پکڑ کر اس کو کھینچا جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی اونٹ کنویں میں گر کر ہلاک ہو جاتا ہے اسی طرح وہ شخص کنویں میں گر کر روحانی طور پر تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس میں سے نکالے جانے کی کوئی سبیل نہیں پاتا جو کسی ناحق معاملہ میں یا کسی ایسے معاملہ میں کہ اس کا حق ہونا مشتبہ ہو اپنی قوم و جماعت کی حمایت و مدد کے ذریعہ اپنے آپ کو اونچا اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ قوم و جماعت کو تو ہلاک ہو جانے والے اونٹ کے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ جو طبقہ و گروہ حق کو چھوڑ کر باطل کو اختیار کرتا ہے وہ گویا ہلاک ہو جانے والا شمار ہوتا ہے اور جو شخص اس قوم و جماعت کی حمایت کرتا ہے اس کو اس اونٹ کی دم کے ساتھ تشبیہ دی ہے چنانچہ جو اونٹ کنویں میں گر جائے اس کو اس کی دم پکڑ کر کھینچنا اس کو ہلاک ہونے سے نہیں بچا سکتا اس طرح جو قوم و جماعت باطل ہونے کی وجہ سے ہلاکت کی کھائی میں گر پڑی اس کو وہ حمایتی اور مددگار ہلاکت کی کھائی سے نجات نہیں دلا سکتا۔

عصبیت کس کو کہتے ہیں

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ عصبیت یعنی جاہلیت کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم و جماعت کی حمایت کرو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس سے معلوم ہوا کہ حق کے معاملہ میں اپنی قوم و جماعت کی حمایت و رعایت کی جائے تو یہ اچھی چیز ہے جیسا کہ آنے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

اپنی قوم و جماعت کے ظلم کے ختم کرنے کی کوشش کرو

اور حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی قوم جماعت کے لوگوں کے ظلم و زیادتی کا دفعیہ کرے جب تک اس دفعیہ کی وجہ سے ظلم کے گناہ کا خود مرتکب نہ ہو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اگر یہ سوال پیدا ہو کہ وہ شخص جو ظلم و زیادتی کا دفعیہ کر رہا ہے وہ خود ظلم کا مرتکب کس طرح ہو سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ فرض کیجیے ایک شخص کو اس کے ظلم سے زبانی ہدایت و تنبیہ اور افہام و تفہیم کے ذریعہ روکا جا سکتا ہے لیکن کوئی شخص اس ظلم کے دفعیہ کے لیے اپنی زبان کو ذریعہ بنانے کے بجائے اپنے ہاتھوں کو ذریعہ بنانے لگے کہ ظلم کرنے والے کو مارنے لگے تو ظاہر ہے کہ یہ روا نہیں ہو گا یا اس ظلم کو روکنے کے لیے تھوڑا بہت مارنا کافی ہو سکتا ہو مگر کوئی شخص اس کو بہت زیادہ مارنے لگے یا جان ہی سے مار ڈالے تو اس کی اس کاروائی کو سراسر ناواجب کہا جائے گا، حاصل یہ کہ کسی ظالمانہ کاروائی کو روکنے کے لیے ایسا اقدام کرنا ضرورت سے زائد اور واجبی حد متجاوز ہو تو ظلم کی وہ مدافعت خود ظلم و تعدی بن جائے گی۔

عصبیت کی مذمت

اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہمارے اہل ملت یا ہمارے اہل طریقہ میں سے نہیں ہے) جو لوگوں کو عصبیت کی دعوت دے (یعنی لوگوں کو کسی ناحق معاملہ میں حمایت کرنے پر آمادہ کرے نہ وہ شخص ہم میں سے ہے جو عصبیت کے سبب جنگ کرے اسی طرح وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی حالت میں مر جائے (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ عصبیت میں مبتلا ہونا یعنی اس شخص و قوم کی حمایت کرنا جو باطل پر ہو ہر حالت میں مذموم و ممنوع ہے بشرطیکہ اس عصبیت کا تعلق کسی دینی مصلحت سے نہ ہو بلکہ محض ظلم و تعدی کے طور پر ہو۔

محبت اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے

اور حضرت ابوداؤد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی چیز سے تمہارا محبت کرنا تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ محبت کا جنون انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے کہ وہ غلبہ محبت کی وجہ سے اپنی محبوب چیز کے عیب نہ دیکھنے کی صلاحیت باقی رکھتا ہے اور نہ سننے کی اگر محبوب میں کوئی برائی دیکھتا بھی ہے تو اس کو اچھی سمجھتا ہے اور اگر اس سے کوئی بری بات سنتا بھی ہے تو اس کو اچھا جانتا ہے یا یہ مراد ہے کہ محبت انسان کو محبوب کے علاوہ ہر چیز سے اندھا اور بہرا کر دیتی ہے کہ وہ جمال یار کے سوا نہ کسی چیز پر نظر ڈالتا ہے اور نہ محبوب کے سوا بات سننا پسند کرتا ہے۔ اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی اس شخص کے حق میں فرمایا گیا ہے جو کسی کی محبت سے مغلوب ہو باطل و ناروا امور میں اسی کی حمایت و مدد کرتا ہے وہ حق کو نہ دیکھتا ہے اور نہ سنتا ہے بلکہ محض محبت کی وجہ سے ناحق و باطل کا حامی و مددگار بن جاتا ہے۔

عصبیت کے معنی

اور حضرت عبادہ بن کثیر شامی جن کا تعلق فلسطین سے تھا اپنے لوگوں میں ایک خاتون سے جن کا نام فسیلہ تھا نقل کرتے ہیں کہ وہ خاتون بیان کرتی تھیں میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ کیا عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم و جماعت کو عزیز رکھے؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملہ میں اپنی قوم و جماعت کی حمایت و مدد کرے۔ (احمد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی عصبیت  کے مفہوم پر بڑے سادہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اپنی جماعت اور اپنی قوم کی جائز حمایت کرنا اور اس کے فطری و قانونی حقوق و مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے اسی طرح جدوجہد کرنا کہ دوسروں کے حقوق و مفادات پر کوئی زد نہ پڑے عصبیت کے معنی میں داخل نہیں ہے ہاں اگر اپنی جماعت و قوم کی اس طرح حمایت کی جائے جس سے دوسروں کے تئیں ظلم و تعدی کے جذبات ظاہر ہوتے ہوں، یا اپنی جماعت و قوم کی جدوجہد میں معاونت کرنا جو سراسر زیادتی اور انتہا پسندی پر مبنی ہو نیز اس جدوجہد کا کوئی قانونی جواز موجود نہ ہو تو اس کو عصبیت کہا جائے گا، اور شریعت کی نظر میں اس حمایت و معاونت کی کوئی حقیقت نہیں ہو گی۔

اپنے نسب پر گھمنڈ نہ کرو

اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا نسب کوئی ایسی چیز نہیں جس کے سبب تم کسی کو برا کہو اور عار دلاؤ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو جس طرح ایک صاع دوسرے صاع کے برابر ہوتا ہے کہ جس کو تم نے بھرا نہ ہو کسی کو کسی پر کوئی فضیلت و ترجیح نہیں ہے علاوہ دین اور تقوی کے آدمی کی برائی کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ زبان دراز اور فحش گوئی اور لچر باتیں کرنے والا بخیل ہو۔ اس روایت کو احمد اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 صاع سے مراد مپانہ یا پیمانہ ہے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح ایک صاع یعنی مپانہ اپنے ہی جیسے دوسرے مپانہ کے بالک برابر ہوتا ہے یا ان دونوں میانوں میں جو چیزیں بھری ہوتی ہیں وہ یکساں اور برابر مقدار وزن کی حامل ہوتی ہیں کہ ان کو ایک دوسرے پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہوتی اسی طرح تمام انسان ایک باپ آدم کی اولاد ہونے کی حیثیت میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی انسان کو دوسرے انسان پر محض نسب کے اعتبار سے کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں ہوتی۔

 تقوی سے مراد شرک جلی و خفی سے بچنا اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنا ہے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ انسان، انسان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا بلکہ انسانی جبلت اور نفسانی تقاضوں کے اختیار سے تمام انسان، نقصان و خسران کے مقام پر ہوتے ہیں البتہ جو انسان ایمان و اسلام کی دولت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کمال تقوی و دین داری کے حامل ہوتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ آخرت کے نقصان سے محفوظ ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کا اعلیٰ مظہر ہونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں پر فضیلت و برتری بھی رکھتے ہیں چنانچہ اسی حقیقت کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ فرمایا گیا ہے  وَالْعَصْرِ  ۙ  اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ   ۙ   103۔ العصر:1)۔قسم ہے زمانے کی انسان بڑے ہی خسارہ میں ہے علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث نے طیبی کے حوالہ سے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ  طف صاع  کے معنی ہیں وہ پیمانہ جو پورا بھرا ہوا ہو لہذا انسان کو طف صاع کے ساتھ تشبیہ دے کر گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ تم تمام انسانوں کے باپ چونکہ آدم ہیں اور آدم کو خاک سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے تم سب اپنے اصل نسب کے اعتبار سے نقصان اور درجہ کمال تک نہ پہنچنے میں ایک دوسرے کے بالکل قریب اور برابر ہو کہ ہر انسان اپنی طبعی جبلت کی وجہ سے نقصان اور ٹوٹے میں مبتلا ہے ہاں وہ انسان اس نقصان اور ٹوٹے سے محفوظ ہیں جو ایمان و اسلام کے حامل اور تقوی و کمال دین داری کے مرتبہ پر فائز ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ صرف تقوی اور کامل دین داری ایک ایسا وصف ہے جو کسی انسان کو معزز و مکرم اور افضل و برتر قرار دے سکتا ہے جو شخص مومن اور متقی و پرہیزگار ہے اور دین دار کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے بس وہی انسان فضیلت کا حامل ہو سکتا ہے اور اس وصف  کے علاوہ نہ نسب کی وجہ سے کوئی انسان برتر قرارپا سکتا ہے اور نہ محض خاندانی وجاہت و شوکت اور نسلی و قبائل شرف و امتیاز کسی انسان کو دوسرے انسانوں پر فوقیت و برتری کا درجہ دے سکتا ہے۔