الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَعَلَى جَمِيعِ الأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ.
شروع کرتا ہوں میں اللہ جل جلالہ کے نام سے جو مہربان ہے رحم والا۔ سب تعریف لائق ہے اسی پروردگار کو جو پالتا ہے سارے جہان کو اور بہتر انجام انہی لوگوں کا ہے جو پرہیزگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اتارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو تمام پیغمبروں کے ختم کرنے والے ہیں (یعنی نبوت کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات بابرکت پر ختم کر دیا ہے۔ اب دنیا میں آپ کے بعد کوئی پیغمبر نئی شریعت لے کر نہیں آئے گا) اور تمام نبیوں اور پیغمبروں پر (جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہیں جیسے آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام)۔
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ بِتَوْفِيقِ خَالِقِكَ ذَكَرْتَ أَنَّكَ هَمَمْتَ بِالْفَحْصِ عَنْ تَعَرُّفِ جُمْلَةِ الأَخْبَارِ الْمَأْثُورَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُنَنِ الدِّينِ وَأَحْكَامِهِ وَمَا كَانَ مِنْهَا فِي الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَالتَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ صُنُوفِ الأَشْيَاءِ بِالأَسَانِيدِ الَّتِي بِهَا نُقِلَتْ وَتَدَاوَلَهَا أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا بَيْنَهُمْ فَأَرَدْتَ- أَرْشَدَكَ اللَّهُ- أَنْ تُوَقَّفَ عَلَى جُمْلَتِهَا مُؤَلَّفَةً مُحْصَاةً وَسَأَلْتَنِي أَنْ أُلَخِّصَهَا لَكَ فِي التَّأْلِيفِ بِلاَ تَكْرَارٍ يَكْثُرُ فَإِنَّ ذَلِكَ- زَعَمْتَ- مِمَّا يَشْغَلُكَ عَمَّا لَهُ قَصَدْتَ مِنَ التَّفَهُّمِ فِيهَا وَالاِسْتِنْبَاطِ مِنْهَا. وَلِلَّذِي سَأَلْتَ- أَكْرَمَكَ اللَّهُ- حِينَ رَجَعْتُ إِلَى تَدَبُّرِهِ وَمَا تَؤُولُ بِهِ الْحَالُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَاقِبَةٌ مَحْمُودَةٌ وَمَنْفَعَةٌ مَوْجُودَةٌ وَظَنَنْتُ- حِينَ سَأَلْتَنِي تَجَشُّمَ ذَلِكَ- أَنْ لَوْ عُزِمَ لِي عَلَيْهِ وَقُضِيَ لِي تَمَامُهُ كَانَ أَوَّلُ مَنْ يُصِيبُهُ نَفْعُ ذَلِكَ إِيَّايَ خَاصَّةً قَبْلَ غَيْرِي مِنَ النَّاسِ لأَسْبَابٍ كَثِيرَةٍ يَطُولُ بِذِكْرِهَا الْوَصْفُ إِلاَّ أَنَّ جُمْلَةَ ذَلِكَ أَنَّ ضَبْطَ الْقَلِيلِ مِنْ هَذَا الشَّانِ وَإِتْقَانَهُ أَيْسَرُ عَلَى الْمَرْءِ مِنْ مُعَالَجَةِ الْكَثِيرِ مِنْهُ. ولاسيما عِنْدَ مَنْ لاَ تَمْيِيزَ عِنْدَهُ مِنَ الْعَوَامِّ إِلاَّ بِأَنْ يُوَقِّفَهُ عَلَى التَّمْيِيزِ غَيْرُهُ. فَإِذَا كَانَ الأَمْرُ فِي هَذَا كَمَا وَصَفْنَا فَالْقَصْدُ مِنْهُ إِلَى الصَّحِيحِ الْقَلِيلِ أَوْلَى بِهِمْ مِنَ ازْدِيَادِ السَّقِيمِ وَإِنَّمَا يُرْجَى بَعْضُ الْمَنْفَعَةِ فِي الاِسْتِكْثَارِ مِنْ هَذَا الشَّانِ وَجَمْعِ الْمُكَرَّرَاتِ مِنْهُ لِخَاصَّةٍ مِنَ النَّاسِ مِمَّنْ رُزِقَ فِيهِ بَعْضَ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ بِأَسْبَابِهِ وَعِلَلِهِ فَذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ يَهْجُمُ بِمَا أُوتِيَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى الْفَائِدَةِ فِي الاِسْتِكْثَارِ مِنْ جَمْعِهِ. فَأَمَّا عَوَامُّ النَّاسِ الَّذِينَ هُمْ بِخِلاَفِ مَعَانِي الْخَاصِّ مِنْ أَهْلِ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ فَلاَ مَعْنَى لَهُمْ فِي طَلَبِ الْكَثِيرِ وَقَدْ عَجَزُوا عَنْ مَعْرِفَةِ الْقَلِيلِ.
امام مسلم رحمہ اللہ اپنے مخاطب کو فرماتے ہوئے بعد حمد اور صلوٰۃ کے، اللہ تجھ پر ۱؎رحم کرے تو نے اپنے پروردگار کی توفیق سے ذکر کیا تھا کہ تیرا قصہ یہ ہے کہ تلاش کرے ان سب حدیثوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں دین کے طریقوں اور حکموں میں (یعنی مسائل کی حدیثیں جو فقہ سے متعلق ہیں) اور ان حدیثوں کو جو ثواب اور عقاب اور خوشخبری اور ڈرانے کے لیے ہیں (یعنی فضائل اور اخلاق کی حدیثیں) اور ان کے سوا اور باتوں کی سندوں کے ساتھ جن کی رو سے وہ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور جن کو علمائے حدیث نے جاری رکھا ہے اپنے میں (یعنی مشہور و معروف سندیں) تو تیرا مطلب یہ تھا اللہ تجھ کو ہدایت کرے کہ تو ان سب حدیثوں سے واقف ہو جائے اس طرح سے کہ وہ سب حدیثیں ایک جگہ جمع ہوں اور تو نے یہ سوال کیا تھا کہ میں ان سب حدیثوں کو اختصار کے ساتھ تیرے لئے جمع کروں اور اس میں تکرار نہ ہو کیونکہ اگر تکرار ہو گی (اور طول ہو گا) تو تیرا مقصد جو حدیثوں کو سمجھنا اور ان میں غور کرنا ہے اور ان سے مسائل نکالنا ہے وہ جاتا رہے گا اور تو نے جس بات کا سوال کیا اللہ تجھ کو عزت دے جب میں نے اس میں غور کیا اور اس کے انجام کو دیکھا تو اللہ چاہے اس کا انجام اچھا ہو گا اور بالفعل بھی اس میں فائدہ سے (یعنی حال اور مآل دونوں کے فائدے کی بات ہے) اور میں نے یہ خیال کیا جب تو نے مجھے اس بات کی تکلیف دی کہ اگر یہ کام مجھ سے ہو جائے تو سب سے پہلے دوسروں کو تو خیر مجھے خود ہی فائدہ ہو گا کئی اسباب کی وجہ سے جن کا بیان کرنا طول ہے مگر خلاصہ یہ ہے کہ اس طول سے تھوڑی حدیثوں کو یاد رکھنا مضبوطی اور صحت کے ساتھ آسان ہے آدمی پر بہت سی حدیثوں کو روایت کرنے سے (بغیر ضبط اور اتقان کے کیونکہ اس میں ایک طرح کا خلجان پیدا ہوتا ہے) خاص کر عوام کو بڑا فائدہ ہو گا جن کو تمیز نہیں ہوتی کھوٹی کھری حدیث کی بغیر دوسرے کے بتلائے ہوئے اور جب حال ایسا ہوا جیسا ہم نے اوپر بیان کیا تو تھوڑی صحیح حدیثوں کا بیان کرنا ان کے لیے بہتر ہے بہت ضعیف حدیثوں سے اور بہت سی حدیثیں بیان کرنا اور مکررات کو جمع کرنا خاص خاص شخصوں کو فائدہ دیتا ہے جن کو علم حدیث میں کچھ واقفیت ہے اور حدیث کے اسباب اور علتوں کو وہ پہچانتے ہیں ایسا شخص البتہ بوجہ اپنی واقفیت اور معرفت کے بہت حدیثوں کے جمع کرنے سے فائدہ اٹھائے گا لیکن عام لوگ جو برخلاف ہیں خاص لوگوں کے جو صاحب واقفیت و معرفت ہیں ان کو کچھ حاصل نہیں بہت حدیثوں کے طلب کرنے میں جب کہ تھوڑی حدیثوں کے پہچاننے سے عاجز ہیں (یعنی جس قدر کم حدیثیں انہوں نے دیکھی ہیں ان ہی کے پہچاننے کی اور صحیح کو ضعیف سے تمیز کرنے کی استعداد ان میں نہیں تو بہت حدیثوں سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ثُمَّ إِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ مُبْتَدِئُونَ فِي تَخْرِيجِ مَا سَأَلْتَ وَتَأْلِيفِهِ عَلَى شَرِيطَةٍ سَوْفَ أَذْكُرُهَا لَكَ وَهُوَ إِنَّا نَعْمِدُ إِلَى جُمْلَةِ مَا أُسْنِدَ مِنَ الأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَقْسِمُهَا عَلَى ثَلاَثَةِ أَقْسَامٍ وَثَلاَثِ طَبَقَاتٍ مِنَ النَّاسِ عَلَى غَيْرِ تَكْرَارٍ. إِلاَّ أَنْ يَأْتِيَ مَوْضِعٌ لاَ يُسْتَغْنَى فِيهِ عَنْ تَرْدَادِ حَدِيثٍ فِيهِ زِيَادَةُ مَعْنًى أَوْ إِسْنَادٌ يَقَعُ إِلَى جَنْبِ إِسْنَادٍ لِعِلَّةٍ تَكُونُ هُنَاكَ لأَنَّ الْمَعْنَى الزَّائِدَ فِي الْحَدِيثِ الْمُحْتَاجَ إِلَيْهِ يَقُومُ مَقَامَ حَدِيثٍ تَامٍّ فلابد مِنْ إِعَادَةِ الْحَدِيثِ الَّذِي فِيهِ مَا وَصَفْنَا مِنَ الزِّيَادَةِ أَوْ أَنْ يُفَصَّلَ ذَلِكَ الْمَعْنَى مِنْ جُمْلَةِ الْحَدِيثِ عَلَى اخْتِصَارِهِ إِذَا أَمْكَنَ. وَلَكِنْ تَفْصِيلُهُ رُبَّمَا عَسُرَ مِنْ جُمْلَتِهِ فَإِعَادَتُهُ بِهَيْئَتِهِ إِذَا ضَاقَ ذَلِكَ أَسْلَمُ فَأَمَّا مَا وَجَدْنَا بُدًّا مِنْ إِعَادَتِهِ بِجُمْلَتِهِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنَّا إِلَيْهِ فَلاَ نَتَوَلَّى فِعْلَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى. فَأَمَّا الْقِسْمُ الأَوَّلُ فَإِنَّا نَتَوَخَّى أَنْ نُقَدِّمَ الأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنَ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا وَأَنْقَى مِنْ أَنْ يَكُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمِ اخْتِلاَفٌ شَدِيدٌ وَلاَ تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ كَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَى كَثِيرٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَبَانَ ذَلِكَ فِي حَدِيثِهِمْ فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنَ النَّاسِ أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالإِتْقَانِ كَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ عَلَى أَنَّهُمْ وَإِنْ كَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ فَإِنَّ اسْمَ السِّتْرِ وَالصِّدْقِ وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ كَعَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ وَلَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ
ان سب حدیثوں کی طرف قصد کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسنداً(یعنی متصلاً) ایک راوی نے دوسرے سے سنا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک روایت کی گئی ہیں (سب حدیثوں سے مراد اکثر حدیثیں ہیں اس لیے کہ سب مسند حدیثیں اس کتاب میں نہیں ہیں) پھر ان کو تقسیم کرتے ہیں تین قسموں پر اور راویوں کے تین طبقوں پر (پہلا طبقہ تو حافظ اور ثقہ لوگوں کی روایتوں کا، دوسرا متوسطین کا، تیسرا ضعفاء اور متروکین کا مگر مصنف نے اس کتاب میں پہلی قسم کے بعد دوسری قسم کی حدیثوں کو بیان کیا ہے، مگر تیسری قسم کو مطلق ذکر نہیں کیا اور حاکم اور بیہقی نے کہا کہ اس کتاب میں سب سے پہلی قسم کی حدیثیں ہیں اور دوسری قسم کی حدیثیں بیان کرنے سے پہلے مسلم رحمہ اللہ وفات پا گئے) بغیر تکرار کے مگر جب کوئی ایسا مقام ہو جہاں دوبارہ حدیث کا لانا ضروری ہو۔ اس وجہ سے کہ اس میں کوئی دوسری بات زیادہ ہو یا کوئی ایسی اسناد ہو جو دوسری اسناد کے پہلو میں واقع ہو کسی علت کی وجہ سے تو وہاں تکرار کرتے ہیں (یعنی دوبارہ اس حدیث کو نقل کرتے ہیں) اس لیے کہ جب کوئی بات زیادہ ہوئی حدیث میں جس کی احتیاج ہے تو وہ مثل ایک پوری حدیث کے ہے۔ پھر ضروری ہے اس سب حدیث کا ذکر کرنا جس میں وہ بات زیادہ ہے یا ہم اس زیادتی کو جدا کر لیں گے پوری حدیث سے اختصار کے ساتھ اگر ممکن ہوا یعنی ایک حدیث میں ایک جملہ زیادہ ہے جس سے کوئی بات کام کی نکلتی ہے اور وہ جملہ جدا ہو سکتا ہے تو صرف اس جملہ کو دوسری اسناد سے بیان کر کے نقل کر دیں گے اور ساری حدیث دوبارہ نہ لائیں گے۔ مگر ایسا جب کریں گے کہ اس جملہ کا علیحدہ ہونا حدیث سے ممکن ہو (نووی رحملہ اللہ علیہ نے کہا کہ اس مسئلہ میں علمائے حدیث کا اختلاف ہے یعنی حدیث کا ایک ٹکڑا علیحدہ روایت کرنے میں بعضوں کے نزدیک مطلقاً منع ہے کیونکہ روایت بالمعنیٰ ان کے نزدیک جائز نہیں بلکہ حدیث کو لفظ بلفظ نقل کرنا چاہیئے اور بعض کے نزدیک اگرچہ روایت بالمعنیٰ جائز ہے مگر حدیث کا ایک ٹکڑا علیحدہ روایت کرنا اسی صورت میں درست ہے جب پہلے پوری حدیث کو روایت کر لیں اور بعض کے نزدیک مطلقاً جائز ہے اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ مسلم رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور صحیح یہ ہے کہ علماء اور اہل معرفت کی یہ بات درست ہے بشرطیکہ معنی میں خلل واقع نہ ہو۔) لیکن جب جدا کرنا اس جملہ کا دشوار ہو تو پوری حدیث اپنی خاص وضع سے بیان کرنا بہتر ہے اور جس حدیث کی ہم کو دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہ ہو (یعنی اس میں کوئی ایسی بات زیادہ نہ ہو جس کی احتیاج ہے) تو ہم اس کو دوبارہ بیان نہ کریں گے اگر اللہ چاہے پہلی قسم کی حدیثوں میں ان حدیثوں کو پہلے بیان کرتے ہیں جو عیبوں سے پاک اور صاف ہیں اس وجہ سے کہ ان کے روایت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو صاحب استقامت اور اتقان (یعنی مضبوط اور صاف ہیں اپنی روایات میں۔ نہ ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ خلط ملط ہے اس لیے کہ جو راوی اور ثقہ لوگوں سے بہت اختلاف کیا کرے یا روایتوں میں بہت خلط ملط کرے وہ قابل اعتبار نہیں رہتا) جیسے بعض محدثین کی کیفیت معلوم ہو گئی اور ان کی حدیث میں یہ بات کھل گئی ہے۔ پھر جب ہم بیان کر چکتے اس قسم کے راویوں کی حدیثیں (یعنی جو موصوف ہیں ساتھ کمال حفظ اور ضبط اور اتقان کے) تو اس کے بعد وہ حدیثیں لاتے ہیں جن کی اسناد میں وہ لوگ ہیں جن میں اتنا حفظ اور اتقان نہیں جیسا پہلی قسم کے راویوں میں تھا اور یہ لوگ اگرچہ پہلے قسم کے راویوں سے درجہ میں کم ہیں مگر ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور سچائی اور حدیث کی روایت میں وہ بھی شامل ہیں (یعنی دوسرے درجے کے راوی بھی سچے اور ٹھیک ہیں اور جو کچھ ان میں عیب تھا وہ چھپایا گیا ہے۔ اہل حدیث نے ان کو متہم نہیں کیا ہے کذب سے، نہ ان سے روایت ترک کی ہے) جیسے عطاء بن السائب اور یزید بن ابی زیاد اور لیث بن ابی سلیم۔
وَأَضْرَابِهِمْ مِنْ حُمَّالِ الآثَارِ وَنُقَّالِ الأَخْبَارِ. فَهُمْ وَإِنْ كَانُوا بِمَا وَصَفْنَا مِنَ الْعِلْمِ وَالسِّتْرِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مَعْرُوفِينَ فَغَيْرُهُمْ مِنْ أَقْرَانِهِمْ مِمَّنْ عِنْدَهُمْ مَا ذَكَرْنَا مِنَ الإِتْقَانِ وَالاِسْتِقَامَةِ فِي الرِّوَايَةِ يَفْضُلُونَهُمْ فِي الْحَالِ وَالْمَرْتَبَةِ لأَنَّ هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ دَرَجَةٌ رَفِيعَةٌ وَخَصْلَةٌ سَنِيَّةٌ
اور ان کی مانند لوگ، حدیث کی روایت کرنے اور خبر کے نقل کرنے والے اگرچہ یہ لوگ مشہور ہیں علم میں اور مستور ہیں۔ اہل حدیث کے نزدیک لیکن ان کے ہم عصر دوسرے لوگ جن کے پاس اتقان اور استقامت ہے روایت میں ان سے بڑھ کر ہیں حال اور مرتبے میں اس واسطے کہ اس علم کے نزدیک یہ ایک درجہ ہے بلند اور ایک خصلت ہے عمدہ (یعنی ضبط اور اتقان)۔
أَلاَ تَرَى أَنَّكَ إِذَا وَازَنْتَ هَؤُلاَءِ الثَّلاَثَةَ الَّذِينَ سَمَّيْنَاهُمْ عَطَاءً وَيَزِيدَ وَلَيْثًا بِمَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ وَسُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ فِي إِتْقَانِ الْحَدِيثِ وَالاِسْتِقَامَةِ فِيهِ وَجَدْتَهُمْ مُبَايِنِينَ لَهُمْ لاَ يُدَانُونَهُمْ لاَ شَكَّ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ فِي ذَلِكَ لِلَّذِي اسْتَفَاضَ عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّةِ حِفْظِ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِتْقَانِهِمْ لِحَدِيثِهِمْ وَأَنَّهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا مِثْلَ ذَلِكَ مِنْ عَطَاءٍ وَيَزِيدَ وَلَيْثٍ
کیا تو نہیں دیکھتا اگر تو نے ان تینوں کو جن کا ہم نے نام لیا یعنی عطاء اور یزید اور لیث کو منصور بن معتمر اور سلیمان اعمش اور اسمٰعیل بن ابی خالد کے ساتھ (جو ان تینوں کے ہم عصر ہیں) حدیث کے اتقان اور استقامت میں تو ان کو بالکل جدا پائے گا ہرگز ان کے قریب نہ ہوں گے۔ اس بات میں کچھ شک نہیں اہل حدیث کے نزدیک اس لیے کہ ان کو ثابت ہو گیا ہے حفظ منصور اور اعمش اور اسماعیل کا اور ان کا ضبط اور اتقان حدیث میں۔ جو نہیں ثابت ہوا عطاء اور یزید اور لیث میں۔
وَفِي مِثْلِ مَجْرَى هَؤُلاَءِ إِذَا وَازَنْتَ بَيْنَ الأَقْرَانِ كَابْنِ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ مَعَ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ وَأَشْعَثَ الْحُمْرَانِيِّ وَهُمَا صَاحِبَا الْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ كَمَا أَنَّ ابْنَ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ صَاحِبَاهُمَا إِلاَّ أَنَّ الْبَوْنَ بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ هَذَيْنِ بَعِيدٌ فِي كَمَالِ الْفَضْلِ وَصِحَّةِ النَّقْلِ وَإِنْ كَانَ عَوْفٌ وَأَشْعَثُ غَيْرَ مَدْفُوعَيْنِ عَنْ صِدْقٍ وَأَمَانَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَلَكِنَّ الْحَالَ مَا وَصَفْنَا مِنَ الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَإِنَّمَا مَثَّلْنَا هَؤُلاَءِ فِي التَّسْمِيَةِ لِيَكُونَ تَمْثِيلُهُمْ سِمَةً يَصْدُرُ عَنْ فَهْمِهَا مَنْ غَبِيَ عَلَيْهِ طَرِيقُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْتِيبِ أَهْلِهِ فِيهِ فَلاَ يُقَصَّرُ بِالرَّجُلِ الْعَالِي الْقَدْرِ عَنْ دَرَجَتِهِ وَلاَ يُرْفَعُ مُتَّضِعُ الْقَدْرِ فِي الْعِلْمِ فَوْقَ مَنْزِلَتِهِ وَيُعْطَى كُلُّ ذِي حَقٍّ فِيهِ حَقَّهُ وَيُنَزَّلُ مَنْزِلَتَهُ. وَقَدْ ذُكِرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ. مَعَ مَا نَطَقَ بِهِ الْقُرْآنُ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:{وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ}
اور ایسی ہی کیفیت ہے جب تو موازنہ کرے (یعنی تولے ایک کو دوسرے کے ساتھ) ہم عصروں کو جیسے ابن عون اور ایوب سختیانی کو عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی کے ساتھ یہ دونوں مصاحب تھے ابن سیرین اور حسن بصری کے (جو مشہور تابعین میں سے ہیں) جیسے ابن عون اور ایوب ان کا مصاحب تھے اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے(یعنی ابن عون اور ایوب کا درجہ بہت بڑھ کر ہے) کمال فضل اور صحت روایت میں اگرچہ عوف اور اشعت بھی سچے اور امانت دار ہیں (امام احمد نے کہا: عوف، ثقہ ہیں صالح الحدیث اور یحییٰ بن معین نے بھی کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔ اسی طرح اشعث حمرانی کو دارقطنی نے کہا کہ وہ ثقہ ہے اہل علم کے نزدیک) مگر اصل حال وہ ہے درجے کا اہل علم کے نزدیک جو ہم نے بیان کیا اور ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ان کا نام لے کر تاکہ ان کی مثال ایک نشانی ہو اور فراغت پائے اس کو سمجھ کر وہ شخص جس پر چھپا ہوا ہے راستہ علم والوں کا، اہل علم کی ترتیب میں تو کم نہ کیا جائے بلند درجے والا شخص اپنے درجے سے اور بلند نہ کیا جائے کم درجے والا اپنے درجے پر اور ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے اور اپنا درجہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم کیا ہر ایک آدمی کو اس کے مرتبے پر رکھنے کا۔ اور قرآن سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”ہر علم والے سے بڑھ کر دوسرا علم والا ہے“ (تو حدیث اور قرآن دونوں سے اہل علم کے تفاوت و درجات کا ثبوت ہوا۔)
فَعَلَى نَحْوِ مَا ذَكَرْنَا مِنَ الْوُجُوهِ نُؤَلِّفُ مَا سَأَلْتَ مِنَ الأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْهَا عَنْ قَوْمٍ هُمْ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مُتَّهَمُونَ أَوْ عِنْدَ الأَكْثَرِ مِنْهُمْ فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِيجِ حَدِيثِهِمْ كَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِسْوَرٍ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيِّ وَعَمْرِو بْنِ خَالِدٍ وَعَبْدِ الْقُدُّوسِ الشَّامِيِّ وَمُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَصْلُوبِ
تو جیسے اوپر ہم نے بیان کیا انہی طریقوں پر ہم جمع کرتے ہیں حدیثوں کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے، جن کا تو نے سوال کیا۔ اب جو حدیثیں ایسے لوگوں سے مروی ہیں جن پر سب اہلحدیث نے کذب کی نسبت کی یا اکثر اہل حدیث نے تو ان کو ہم روایت نہیں کرتے جیسے عبداللہ بن مسور ابی جعفر مدائنی اور عمرو بن خالد اور عبدالقدوس شامی (جو روایت کرتا ہے عکرمہ اور عطاء سے، عمرو بن علی فلاس نے کہا کہ اتفاق کیا اہل علم نے اس کی حدیث کے ترک پر) اور محمد بن سعید مصلوب۔
وَغِيَاثِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي دَاوُدَ النَّخَعِيِّ وَأَشْبَاهِهِمْ مِمَّنِ اتُّهِمَ بِوَضْعِ الأَحَادِيثِ وَتَوْلِيدِ الأَخْبَارِ. وَكَذَلِكَ مَنِ الْغَالِبُ عَلَى حَدِيثِهِ الْمُنْكَرُ أَوِ الْغَلَطُ أَمْسَكْنَا أَيْضًا عَنْ حَدِيثِهِمْ. وَعَلاَمَةُ الْمُنْكَرِ فِي حَدِيثِ الْمُحَدِّثِ إِذَا مَا عُرِضَتْ رِوَايَتُهُ لِلْحَدِيثِ عَلَى رِوَايَةِ غَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْحِفْظِ وَالرِّضَا خَالَفَتْ رِوَايَتُهُ رِوَايَتَهُمْ أَوْ لَمْ تَكَدْ تُوَافِقُهَا فَإِذَا كَانَ الأَغْلَبُ مِنْ حَدِيثِهِ كَذَلِكَ كَانَ مَهْجُورَ الْحَدِيثِ غَيْرَ مَقْبُولِهِ وَلاَ مُسْتَعْمَلِهِ.
اور غیاث بن ابراہیم اور سلیمان بن عمرو اور ابوداؤد نخعی اور ان کے مانند اور لوگ جن سے حدیث بنانے کی خبریں تراشنے کی نسبت کی گئی ہے۔ (یعنی یہ سب لوگ وضاع اور کذاب اور متروک الحدیث تھے تو ایسے لوگوں کی روایتیں میں نے بالکل نہیں لکھیں اور اسی طرح ہم نے ان لوگوں کی روایت بھی نہیں لکھی جن کی حدیث اکثر منکر (یعنی ثقہ کے خلاف) یا غلط ہوتی ہے اور منکر کی نشانی محدث کی حدیث میں یہ ہے کہ جب اس کی روایت کا مقابلہ کیا جائے دوسرے لوگوں کی روایت سے جو اچھے اور حافظے والے ہیں تو اس کی روایت ان کی روایت کے خلاف پڑے بالکل یا کچھ موافق ہو اور اکثر خلاف۔ جب کسی راوی کی اکثر اس قسم کی روایتیں ہوں تو وہ مہجور الحدیث ہے یعنی اس کی روایت مقبول و متعمل نہ ہو گی۔
فَمِنْ هَذَا الضَّرْبِ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَيَحْيَى بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ وَالْجَرَّاحُ بْنُ الْمِنْهَالِ أَبُو الْعَطُوفِ وَعَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ وَحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضُمَيْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ صُهْبَانَ وَمَنْ نَحَا نَحْوَهُمْ فِي رِوَايَةِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْحَدِيثِ.
اس قسم کے راویوں میں سے عبداللہ بن محرر اور یحییٰ بن ابی انیسہ اور جراح بن منہال ابوالعطوف اور عباد بن کثیر اور حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ اور عمر بن صہبان اور ان کے مثل اور لوگ ہیں جو منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔
فَلَسْنَا نُعَرِّجُ عَلَى حَدِيثِهِمْ وَلاَ نَتَشَاغَلُ بِهِ لأَنَّ حُكْمَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالَّذِي نَعْرِفُ مِنْ مَذْهَبِهِمْ فِي قَبُولِ مَا يَتَفَرَّدُ بِهِ الْمُحَدِّثُ مِنَ الْحَدِيثِ أَنْ يَكُونَ قَدْ شَارَكَ الثِّقَاتِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْحِفْظِ فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا وَأَمْعَنَ فِي ذَلِكَ عَلَى الْمُوَافَقَةِ لَهُمْ فَإِذَا وُجِدَ كَذَلِكَ ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْئًا لَيْسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ قُبِلَتْ زِيَادَتُهُ فَأَمَّا مَنْ تَرَاهُ يَعْمِدُ لِمِثْلِ الزُّهْرِيِّ فِي جَلاَلَتِهِ وَكَثْرَةِ أَصْحَابِهِ الْحُفَّاظِ الْمُتْقِنِينَ لِحَدِيثِهِ وَحَدِيثِ غَيْرِهِ أَوْ لِمِثْلِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَحَدِيثُهُمَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مَبْسُوطٌ مُشْتَرَكٌ قَدْ نَقَلَ أَصْحَابُهُمَا عَنْهُمَا حَدِيثَهُمَا عَلَى الاِتِّفَاقِ مِنْهُمْ فِي أَكْثَرِهِ فَيَرْوِي عَنْهُمَا أَوْ عَنْ أَحَدِهِمَا الْعَدَدَ مِنَ الْحَدِيثِ مِمَّا لاَ يَعْرِفُهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِمَا وَلَيْسَ مِمَّنْ قَدْ شَارَكَهُمْ فِي الصَّحِيحِ مِمَّا عِنْدَهُمْ فَغَيْرُ جَائِزٍ قَبُولُ حَدِيثِ هَذَا الضَّرْبِ مِنَ النَّاسِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ. قَدْ شَرَحْنَا مِنْ مَذْهَبِ الْحَدِيثِ وَأَهْلِهِ بَعْضَ مَا يَتَوَجَّهُ بِهِ مَنْ أَرَادَ سَبِيلَ الْقَوْمِ وَوُفِّقَ لَهَا وَسَنَزِيدُ- إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى- شَرْحًا وَإِيضَاحًا فِي مَوَاضِعَ مِنَ الْكِتَابِ عِنْدَ ذِكْرِ الأَخْبَارِ الْمُعَلَّلَةِ إِذَا أَتَيْنَا عَلَيْهَا فِي الأَمَاكِنِ الَّتِي يَلِيقُ بِهَا الشَّرْحُ وَالإِيضَاحُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى.
تو ہم ان لوگوں کی حدیثیں نہیں لاتے، نہ ان میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اہل علم نے جو حکم کیا ہے اور جو ان کا مذہب معلوم ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ جس روایت کو ایک ہی محدث نے روایت کیا ہو وہ قبول کی جائے گی اس شرط سے کہ وہ محدث شریک ہو اور ثقہ اور حافظہ لوگوں کا ان کی بعض روایتوں میں یا بالکل موافق ہو ان کا، پھر جب یہ حال ہو اس کا اور کسی روایت میں کچھ عبارت زیادہ کرے جو اس کے ساتھیوں کی روایت میں نہ ہو تو وہ قبول کی جائے گی لیکن اگر تو کسی کو دیکھے جو زہری جیسے بزرگ شخص سے روایت کرنے کا قصد کرے جس کے شاگرد بہت ہیں اور وہ حافظ ہیں اور مضبوطی سے بیان کرتے ہیں اس کی اور اوروں کی حدیثوں کو یا ہشام بن عروہ سے روایت کا قصد کرے اور ان دونوں کی یعنی ہشام اور زہری کی حدیثیں اہل علم کے نزدیک پھیلی ہوئی ہیں اور مشترک ہیں اور ان دونوں کے شاگرد ان کی حدیثوں کو اتفاق کے ساتھ اکثر بیان کرتے ہیں پھر وہ شخص ان دونوں سے چند ایسی حدیثیں نقل کرے جو کسی شاگرد کو ان دونوں کے شاگردوں میں سے معلوم نہ ہوں اور وہ شخص اور صحیح روایتوں میں ان شاگردوں کا شریک نہ ہو تو اس قسم کی روایتیں ایسے لوگوں کی ہرگز مقبول نہ ہوں گی (بلکہ وہ منکر مردود ہوں گی) اور ہم نے بیان کیا مذہب حدیث اور اہل حدیث کا اس قدر جو مقصود ہے اس شخص کا جو چلنا چاہے اہل حدیث کی راہ پر اور اس کو توفیق دی جائے چلنے کی اس پر اور اللہ چاہے تو ہم اس کو شرح اور وضاحت سے بیان کریں گے۔ اس کتاب کے کئی مقاموں میں جہاں وہ حدیثیں آئیں گی جن میں کچھ علتیں ہیں، ان مقاموں میں جہاں شرح کرنا اور واضح بیان کرنا مناسب ہو گا۔
وَبَعْدُ- يَرْحَمُكَ اللَّهُ- فَلَوْلاَ الَّذِي رَأَيْنَا مِنْ سُوءِ صَنِيعِ كَثِيرٍ مِمَّنْ نَصَبَ نَفْسَهُ مُحَدِّثًا فِيمَا يَلْزَمُهُمْ مِنْ طَرْحِ الأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ وَالرِّوَايَاتِ الْمُنْكَرَةِ وَتَرْكِهِمْ الاِقْتِصَارَ عَلَى الأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ الْمَشْهُورَةِ مِمَّا نَقَلَهُ الثِّقَاتُ الْمَعْرُوفُونَ بِالصِّدْقِ وَالأَمَانَةِ بَعْدَ مَعْرِفَتِهِمْ وَإِقْرَارِهِمْ بِأَلْسِنَتِهِمْ أَنَّ كَثِيرًا مِمَّا يَقْذِفُونَ بِهِ إِلَى الأَغْبِيَاءِ مِنَ النَّاسِ هُوَ مُسْتَنْكَرٌ وَمَنْقُولٌ عَنْ قَوْمٍ غَيْرِ مَرْضِيِّينَ مِمَّنْ ذَمَّ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ أَئِمَّةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِثْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الأَئِمَّةِ- لَمَا سَهُلَ عَلَيْنَا الاِنْتِصَابُ لِمَا سَأَلْتَ مِنَ التَّمْيِيزِ وَالتَّحْصِيلِ. وَلَكِنْ مِنْ أَجْلِ مَا أَعْلَمْنَاكَ مِنْ نَشْرِ الْقَوْمِ الأَخْبَارَ الْمُنْكَرَةَ بِالأَسَانِيدِ الضِّعَافِ الْمَجْهُولَةِ وَقَذْفِهِمْ بِهَا إِلَى الْعَوَامِّ الَّذِينَ لاَ يَعْرِفُونَ عُيُوبَهَا خَفَّ عَلَى قُلُوبِنَا إِجَابَتُكَ إِلَى مَا سَأَلْتَ.
بعد ان سب باتوں کے جو اوپر گزریں اللہ تجھ پر رحم کرے اگر ہم نہ دیکھتے وہ برا کام جو کر رہا ہے وہ شخص جس نے اپنے تئیں محدث بنایا ہے۔ یعنی لازم ہے ایسے شخص کو کہ ضعیف حدیثوں اور منکر روایتوں کو نقل نہ کرے اور صرف انہی حدیثوں کو روایت کرے جو صحیح اور مشہور ہیں جن کو ثقہ لوگوں نے، جن کی سچائی اور امانت مشہور ہے، نقل کیا ہے اور وہ جانتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ بہت سی حدیثیں جن کو وہ عام لوگوں کو سناتا ہے منکر ہیں اور ان لوگوں سے مروی ہیں جن کی مذمت حدیث کے اماموں نے کی ہے جیسے مالک بن انس اور شعبہ بن حجاج اور سفیان بن عیینہ اور یحییٰ بن سعید القطان اور عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہم نے (یہ سب حدیث کے بڑے امام اور پیشوا ہیں) البتہ ہم کو یہ تکلیف اٹھانا تیری خواہش کے مطابق جو تو نے صحیح حدیثوں کو جدا کرنے کے لیے کی تھی دشوار ہوتی۔ (کیوں کہ جب سب لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے کہ صرف صحیح حدیثیں نقل کیا کرتے تو عوام کے دھوکہ کھانے کا ڈر نہ ہوتا اور صحیح حدیثوں کے جدا کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی) لیکن اسی وجہ سے جو ہم نے بیان کی کہ لوگ منکر حدیثوں کو ضعیف اور مجہول سندوں سے بیان کیا کرتے ہیں اور عوام کو سنا دیتے ہیں جن کو عیبوں کے پہچاننے کی لیاقت نہیں تیری خواہش کا قبول کرنا ہم پر آسان ہو گیا (اس لیے کہ جس کام کی ضرورت ہوتی ہے اس کا کرنا آسان ہوتا ہے)
وَاعْلَمْ- وَفَّقَكَ اللَّهُ تَعَالَى- أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ عَرَفَ التَّمْيِيزَ بَيْنَ صَحِيحِ الرِّوَايَاتِ وَسَقِيمِهَا وَثِقَاتِ النَّاقِلِينَ لَهَا مِنَ الْمُتَّهَمِينَ أَنْ لاَ يَرْوِيَ مِنْهَا إِلاَّ مَا عَرَفَ صِحَّةَ مَخَارِجِهِ. وَالسِّتَارَةَ فِي نَاقِلِيهِ. وَأَنْ يَتَّقِيَ مِنْهَا مَا كَانَ مِنْهَا عَنْ أَهْلِ التُّهَمِ وَالْمُعَانِدِينَ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ
جان تو! اللہ تجھ کو توفیق دے جو شخص صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور ثقہ (معتبر) اور متہم (جن پر تہمت لگی ہو کذب وغیرہ کی) راویوں کو پہچانتا ہو اس پر واجب ہے کہ نہ روایت کرے مگر اس حدیث کو جس کے اصل کی صحت ہو اور اس کے نقل کرنے والے وہ لوگ ہوں جن کا عیب فاش نہ ہوا ہو، اور بچے ان لوگوں کی روایت سے جن پر تہمت لگائی ہے یا جو عناد رکھتے ہیں اہل بدعت میں سے۔
وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الَّذِي قُلْنَا مِنْ هَذَا هُوَ اللاَّزِمُ دُونَ مَا خَالَفَهُ قَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ}
اور دلیل اس پر جو ہم نے کہا: یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ جا پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو پچھتاؤ اپنے کیے ہوئے پر“۔
وَقَالَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: {مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الْشُّهَدَاءِ} وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: {وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ} فَدَلَّ بِمَا ذَكَرْنَا مِنْ هَذِهِ الآيِ أَنَّ خَبَرَ الْفَاسِقِ سَاقِطٌ غَيْرُ مَقْبُولٍ وَأَنَّ شَهَادَةَ غَيْرِ الْعَدْلِ مَرْدُودَةٌ وَالْخَبَرُ وَإِنْ فَارَقَ مَعْنَاهُ مَعْنَى الشَّهَادَةِ فِي بَعْضِ الْوُجُوهِ فَقَدْ يَجْتَمِعَانِ فِي أَعْظَمِ مَعَانِيهِمَا إِذْ كَانَ خَبَرُ الْفَاسِقِ غَيْرَ مَقْبُولٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَمَا أَنَّ شَهَادَتَهُ مَرْدُودَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ
دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور گواہ کرو دو مردوں کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو جن کو تم پسند کرتے ہو“ (گواہی کیلئے یعنی جو سچے اور نیک معلوم ہوں)اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے گواہ کرو دو شخصوں کو جو عادل ہوں“ تو ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ فاسق کی بات بے اعتبار ہے اور
وَدَلَّتِ السُّنَّةُ عَلَى نَفْيِ رِوَايَةِ الْمُنْكَرِ مِنَ الأَخْبَارِ كَنَحْوِ دَلاَلَةِ الْقُرْآنِ عَلَى نَفْيِ خَبَرِ الْفَاسِقِ. وَهُوَ الأَثَرُ الْمَشْهُورُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ».
اسی طرح حدیث شریف سے یہ بھی بات معلوم ہوتی ہے کہ منکر روایت کا بیان کرنا (جس کے غلط ہونے کا احتمال ہو) درست نہیں جیسے قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور وہ حدیث وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ شہرت منقول ہے کہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ خیال کرتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹا ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ أَيْضًا، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ.
امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی اسناد سے روایت کیا سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یعنی وہی حدیث جو اوپر گزری کہ جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ سمجھتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹا ہے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَيَّ، يَلِجِ النَّارَ ".
ربعی بن حراش سے روایت ہے انہوں نے سنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہتے تھے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”مت جھوٹ باندھو میرے اوپر۔ جو کوئی میرے اوپر جھوٹ باندھے گا وہ جہنم میں جائے گا۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّه قَالَ: إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے بہت حدیثیں بیان کرنے سے یہی بات روکتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی: ”جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ رَبِيعَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَسْجِدَ، وَالْمُغِيرَةُ أَمِيرُ الْكُوفَةِ، قَال: فَقَالَ الْمُغِيرَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ، لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ".
علی بن ابی ربیعہ والبی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں آیا اور ان دنوں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کوفہ کے حاکم تھے انہوں نے کہا: مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”میرے اوپر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں ہے جیسے اور کسی پر جھوٹ باندھنا (کیونکہ اور کسی پر جھوٹ باندھنے سے جھوٹ بولنے والے کا نقصان ہو گا یا جس پر جھوٹ باندھا اس کا بھی یا اور دو تین آدمیوں کا سہی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے ایک عالم گمراہ ہو گا اور دنیا کو نقصان پہنچے گا) پھر جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“
وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَيْسٍ الأَسدِيُّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْأَسَدِيِّ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ: إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ، لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں ان الفاظ کے علاوہ ”مجھ پر جھوٹ بولنا تمھارا کسی عام شخص پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے“۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عن أبى هريرة ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: " كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ".
حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کافی ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کہ جو سنے اس کو بیان کرے“۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ ذَلِكَ.
حفص بن عاصم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثل بیان کیا۔
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، قَال: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بِحَسْبِ الْمَرْءِ مِنَ الْكَذِبِ، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ.
ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کافی ہے آدمی کو اتنا جھوٹ کہ کہہ ڈالے جو بات سنے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَال: قَالَ لِي مَالِكٌ: اعْلَمْ أَنَّهُ لَيْسَ يَسْلَمُ رَجُلٌ حَدَّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ، وَلَا يَكُونُ إِمَامًا أَبَدًا وَهُوَ يُحَدِّثُ بِكُلِّ مَا سَمِعَ
ابن وہب سے روایت ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: جان لو اس بات کو کہ جو شخص کہہ ڈالے جو سنے وہ بچ نہیں سکتا (جھوٹ سے) اور کبھی وہ شخص امام(پیشوا) نہیں ہو سکتا جو بیان کرے ہر بات جس کو وہ سنے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِى إِسْحَاق ، عَنْ أَبِى الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بِحَسْبِ الْمَرْءِ مِنَ الْكَذِبِ، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ کافی ہے آدمی کو اتنا جھوٹ کہ جو سنے وہ کہہ دے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: لَا يَكُونُ الرَّجُلُ إِمَامًا يُقْتَدَى بِهِ، حَتَّى يُمْسِكَ عَنْ بَعْضِ مَا سَمِع
عبدالرحمٰن بن مہدی سے روایت ہے (جو حدیث کے بڑے امام ہیں) انہوں نے کہا: آدمی کبھی امام نہیں ہو سکتا (یعنی اس لائق کہ لوگ اس کی پیروی کریں) جب تک کہ وہ نہ کہے بعض باتوں کو جن کو اس نے سنا ہو اس خیال سے کہ شاید یہ باتیں غلط ہوں تو میرا جھوٹ ثابت ہو گا۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: سَأَلَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: إِنِّي " أَرَاكَ قَدْ كَلِفْتَ بِعِلْمِ الْقُرْآنِ، فَاقْرَأْ عَلَيَّ سُورَةً وَفَسِّرْ، حَتَّى أَنْظُرَ فِيمَا عَلِمْتَ، قَالَ: فَفَعَلْتُ، فَقَالَ لِيَ: احْفَظْ عَلَيَّ مَا أَقُولُ لَكَ، إِيَّاكَ وَالشَّنَاعَةَ فِي الْحَدِيثِ، فَإِنَّهُ قَلَّمَا حَمَلَهَا أَحَدٌ، إِلَّا ذَلَّ فِي نَفْسِهِ، وَكُذِّبَ فِي حَدِيثِهِ
سفیان بن حسین سے روایت ہے، مجھ سے ایاس بن معاویہ نے کہا: میں دیکھتا ہوں تم بہت محنت کرتے ہو قرآن کے حاصل کرنے میں (یعنی علم تفسیر میں) تو ایک سورت پڑھ میرے سامنے پھر اس کا مطلب بیان کر تاکہ میں دیکھوں تمہارا علم۔ سفیان نے کہا: میں نے ایسا ہی کیا۔ ایاس نے کہا، یاد رکھ جو میں کہتا ہوں تجھ سے۔ بچ تو شناعت سے حدیث میں (شناعت کے معنی قباحت یعنی ایسی حدیثیں مت نقل کر کہ لوگ تمہیں برا سمجھیں اور جھوٹا جانیں) کیوں کہ جس نے شناعت کو اختیار کیا وہ خود بھی ذلیل ہوا اور دوسروں نے بھی اس کو جھٹلایا (یعنی اس کا اعتبار جاتا رہا، اب سچی بات بھی اس کی جھوٹی سمجھی جاتی ہے)۔
وحَدَّثَنِي أَبُو طَاهِرٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا، لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تو لوگوں سے ایسی حدیثیں بیان کرے جو ان کی عقل میں نہ آئیں تو بعض لوگوں کیلئے اس میں فتنہ ہو گا یعنی وہ گمراہ ہو جائیں گے اسی لئے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنی چاہئے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِى أَيُّوبَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " سَيَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِى، أُنَاسٌ يُحَدِّثُونَكُمْ مَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری اخیر امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تم سے حدیثیں بیان کریں گے جن کو نہ تم نے سنا، نہ تمہارے باپ دادا نے تو ان سے بچے رہنا۔“
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: " أُتِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِكِتَابٍ، فِيهِ قَضَاءُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، مَحَاهُ إِلَّا قَدْرَ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ بِذِرَاعِهِ
طاؤس سے روایت ہے کہ سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس سيدنا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کی کتاب آئی۔ انہوں نے سب کو مٹا دیا مگر ایک ہاتھ کے برابر رہنے دیا (جو فیصلہ صحیح تھا اس لیے کہ ان کو معلوم ہوا کہ روایت ان فیصلوں کی ٹھیک نہیں)۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَال: حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ شَرَاحِيلَ بْنَ يَزِيدَ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: " يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الأَحَادِيثِ، بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اخیر زمانے میں دجال (یعنی جھوٹ کو سچ بنانے والے) اور کذاب (یعنی جھوٹ بولنے والے) پیدا ہوں گے۔ وہ ایسی حدیثیں تم کو سنائیں گے جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنی ہوں گی تو بچے رہنا ان سے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کر دیں اور آفت میں ڈال دیں۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبَدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ، فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ، فَيَتَفَرَّقُونَ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَجُلًا، أَعْرِفُ وَجْهَهُ وَلَا أَدْرِى مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ
عامر بن عبدہ سے روایت ہے، اس نے کہا کہ سيدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: شیطان ایک مرد کی صورت بن کر لوگوں کے پاس آتا ہے پھر ان سے جھوٹى حدیث بیان کرتا ہے۔ جب لوگ اس جگہ سے جدا ہو جاتے ہیں تو ان میں سے ایک شخص کہتا ہے، میں نے سنا ایک شخص سے جس کی صورت میں پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا وہ ایسا بیان کرتا تھا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: إِنَّ فِي الْبَحْرِ شَيَاطِينَ مَسْجُونَةً، أَوْثَقَهَا سُلَيْمَانُ يُوشِكُ أَنْ تَخْرُجَ، فَتَقْرَأَ عَلَى النَّاسِ قُرْآنًا
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: دریا میں(یعنی سمندر میں) بہت شیطان ہیں جن کو قید کیا ہے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے، قریب ہے کہ وہ نکلیں اور لوگوں کو قرآن سنائیں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَسَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الأَشْعَثِيُّ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: جَاءَ هَذَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَعْنِي بُشَيْرَ بْنَ كَعْبٍ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: " عُدْ لِحَدِيثِ كَذَا وَكَذَا، فَعَادَ لَهُ، ثُمَّ حَدَّثَهُ، فَقَالَ لَهُ: عُدْ لِحَدِيثِ كَذَا وَكَذَا، فَعَادَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا أَدْرِى، أَعَرَفْتَ حَدِيثِي كُلَّهُ وَأَنْكَرْتَ هَذَا، أَمْ أَنْكَرْتَ حَدِيثِي كُلَّهُ وَعَرَفْتَ هَذَا؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا كُنَّا نُحَدِّثُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ لَمْ يَكُنْ يُكْذَبُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ، تَرَكْنَا الْحَدِيثَ عَنْهُ
سیدنا طاوَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بشیر بن کعب، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے حدیثیں بیان کرنے لگے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے کہا کہ فلاں حدیث پھر بیان کر۔ انہوں نے پھر دوبارہ بیان کیا اور کہا: مجھے معلوم نہیں ہوتا کیا تم نے سب حدیثیں میری پہچانیں اور اسی کو منکر سمجھا یا سب حدیثوں کو منکر سمجھا اور اسی حدیث کو پہچانا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نقل کیا کرتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا جاتا تھا پھر جب لوگ بری اور اچھی راہ چلنے لگے(یعنی سب قسم کی حدیثیں صحیح اور غلط نقل کرنے لگے) تو ہم نے حدیثیں بیان کرنا چھوڑ دیا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنِ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّمَا " كُنَّا نَحْفَظُ الْحَدِيثَ، وَالْحَدِيثُ يُحْفَظُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا إِذْ رَكِبْتُمْ كُلَّ صَعْبٍ وَذَلُولٍ، فَهَيْهَاتَ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم حدیث یاد کیا کرتے تھے اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کرنی چاہیے لیکن جب تم بری اور اچھی ہر طرح کی راہ چلنے لگے تو اب اعتبار جاتا رہا اور دور ہو گیا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْغَيْلَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ يَعْنِى الْعَقَدِيَّ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: جَاءَ بُشَيْرٌ الْعَدَوِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُ، وَيَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَا يَأْذَنُ لِحَدِيثِهِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِ.فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، مَالِي لَا أَرَاكَ تَسْمَعُ لِحَدِيثِي، أُحَدِّثُكَ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْمَعُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " إِنَّا كُنَّا مَرَّةً إِذَا سَمِعْنَا رَجُلًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَدَرَتْهُ أَبْصَارُنَا، وَأَصْغَيْنَا إِلَيْهِ بِآذَانِنَا، فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ، لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَا نَعْرِفُ
مجاہد سے روایت ہے بشیر بن کعب عدوی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور حدیث بیان کرنے لگے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کان نہ رکھا ان کی طرف نہ دیکھا ان کو۔ بشیر بولے اے ابن عباس! تم کو کیا ہوا جو میری بات نہیں سنتے۔ میں حدیث بیان کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور تم نہیں سنتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا جب ہم کسی شخص سے یہ سنتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تو اسی وقت اس طرف دیکھتے اور کان اپنے لگا دیتے۔ پھر جب لوگ بری اور اچھی راہ چلنے لگے (یعنی غلط روایتیں شروع ہو گئیں) تو ہم لوگوں نے سننا چھوڑ دیا مگر جس حدیث کو ہم پہچانتے ہیں (اور ہم کو صحیح معلوم ہوتی ہے تو اس کو سن لیتے ہیں)۔
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِى مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ، أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابًا وَيُخْفِي عَنِّى، فَقَالَ: " وَلَدٌ نَاصِحٌ، أَنَا أَخْتَارُ لَهُ الأُمُورَ اخْتِيَارًا، وَأُخْفِى عَنْهُ، قَال: فَدَعَا بِقَضَاءِ عَلِيٍّ، فَجَعَلَ يَكْتُبُ مِنْهُ أَشْيَاءَ وَيَمُرُّ بِهِ الشَّيْءُ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَا قَضَى بِهَذَا عَلِيٌّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ ضَلَّ
ابن ابی ملکیہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا کہ میرے لئے ایک کتاب لکھ دو اور چھپا لو (ان باتوں کو جن میں کلام ہے تاکہ جھگڑا نہ ہو) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لڑکا (اچھی) نصیحت کرتا ہے (یعنی ابن ابی ملکیہ کو کہا) میں اس کے لئے چنوں گا باتوں کو اور چھپا لوں گا جو چھپانے کی باتیں ہیں۔ ۱؎ پھر انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو منگوایا۔ ان میں سے کچھ باتیں لکھنے لگے اور بعض فیصلوں کو دیکھ کر کہتے تھے کہ قسم اللہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایسا فیصلہ نہیں کیا۔ اگر کیا ہو تو وہ بھٹک گئے (یعنی ان سے غلطی ہوئی)۔ ۲؎
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِى إِسْحَاق، قَالَ: لَمَّا أَحْدَثُوا تِلْكَ الأَشْيَاءَ، بَعْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ: قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، أَيَّ عِلْمٍ أَفْسَدُوا؟
ابواسحاق نے کہا: جب لوگوں نے ان باتوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد نکالا (یعنی جھوٹی جھوٹی روایتیں ان سے شائع کیں) تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک رفیق بولے: اللہ ان کو تباہ کرے یا ان پر لعنت کرے کیسا علم کو بگاڑا (یعنی لوگوں کو گمرا کیا اور حدیث کے علم کا ستیاناس کیا)۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِى ابْنَ عَيَّاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ، يَقُولُ: لَمْ يَكُنْ يَصْدُقُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فِي الْحَدِيثِ عَنْهُ، إِلَّا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
ابوبکر بن عیاش سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو لوگ روایت کرتے تھے ان کی روایت نہ مانی جاتی جب تک سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھی اس کی تصدیق نہ کرتے۔
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ وَهِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، وَحَدَّثَنَا فُضَيْلٌ، عَنْ هِشَامٍ، قَال: وَحَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ
محمد بن سیرین (جو مشہور تابعی ہیں) نے کہا کہ یہ علم دین ہے تو دیکھو کس شخص سے تم دین حاصل کرتے ہو (یعنی ہر شخص کا اس میں اعتبار نہ کرو، جو سچا اور دیندار اور معتبر ہو اسی سے علم دین حاصل کرنا ضروری ہے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ زَكَرِيَّاءَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَل، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنِ الإِسْنَادِ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ، قَالُوا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ، فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ، فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ، وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ، فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ
ابن سیرین نے کہا: پہلے زمانے میں کوئی حدیث بیان کرتا تو اس سے سند نہ پوچھتے۔ پھر جب فتنہ پھیلا (یعنی گمراہی شروع ہوئی اور بدعتیں روافض اور خوارج اور مرجیہ اور قدریہ کی شائع ہوئیں) تو لوگوں نے کہا: اپنی اپنی سند بیان کرو۔ پھر دیکھا جائے گا اگر روایت کرنے والے اہل سنت ہیں تو قبول کی جائے گی روایت ان کی اور جو بدعتی ہیں تو نہ قبول کریں گے روایت ان کی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: لَقِيتُ طَاوُسًا، فَقُلْتُ: حَدَّثَنِي فُلَانٌ، كَيْتَ وَكَيْتَ، قَالَ: " إِنْ كَانَ صَاحِبُكَ مَلِيًّا، فَخُذْ عَنْهُ
سلیمان بن موسیٰ نے کہا «: می» ں طاوَس سے ملا اور میں نے کہا: فلاں شخص نے مجھ سے حدیث بیان کی ایسی اور ویسی۔ انہوں نے کہا: اگر وہ معتبر ہے (یعنی اس کی دیانت اور امانت پر بھروسہ ہو سکتا ہے جیسے مالدار خوش معاملہ کی بات کا اعتبار ہوتا ہے) تو اس سے روایت کر حدیث کو۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ يَعْنِى ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِطَاوُسٍ: إِنَّ فُلَانًا حَدَّثَنِي بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: إِنْ كَانَ صَاحِبُكَ مَلِيًّا، فَخُذْ عَنْهُ
سلیمان بن موسیٰ نے کہا: میں طاوَس سے کہا: فلاں شخص نے مجھ سے حدیث بیان کی ایسی اور ویسی۔ انہوں نے فرمایا اگر تیرا ساتھی معتبر ہے تو اس سے روایت کر حدیث کو۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الأَصْمَعِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " أَدْرَكْتُ بِالْمَدِينَةِ مِائَةً، كُلُّهُمْ مَأْمُونٌ، مَا يُؤْخَذُ عَنْهُمُ الْحَدِيثُ، يُقَالُ: لَيْسَ مِنْ أَهْلِهِ
ابوالزناد (جن کا نام عبداللہ بن ذکوان ہے اور وہ امام تھے حدیث کے) نے کہا: میں مدینہ میں سو اشخاص کو پایا، سب کے سب اچھے تھے مگر ان سے حدیث کی روایت نہیں کی جاتی، لوگ کہتے تھے وہ اس لائق نہیں ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ.ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، يَقُولُ: لَا يُحَدِّثُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا الثِّقَاتُ
سعد بن ابراہیم نے کہا: نہیں حدیث قبول کی جاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مگر ثقہ لوگوں کی (جن کی روایت پر بھروسا ہو سکتا ہے)۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذ َ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ بْنَ عُثْمَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الإِسْنَادُ، لَقَالَ: مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ يَعْنِي الإِسْنَاد وقَال مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالَقَانِيَّ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَك: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ، إِنَّ مِنَ الْبِرِّ، بَعْدَ الْبِرِّ، أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: يَا أَبَا إِسْحَاق، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ، فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ؟ قَالَ: قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاق، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ، تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ وَقَالَ مُحَمَّدٌ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ شَقِيقٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ
عبداللہ بن مبارک کہتے تھے: اسناد، دین میں داخل ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈالتا (اور اپنی بات چلا دیتا)۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا: ہمارے اور لوگوں کے درمیان پائے ہیں یعنی اسناد (جیسے جانور بغیر پاؤں کے تھم نہیں سکتا ویسے ہی حدیث بغیر اسناد کے جم نہیں سکتی)۔ ابواسحاق نے (جن کا نام ابراہیم بن عیسیٰ طاتقانی ہے) کہا: میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ حدیث کیسی ہے جو روایت کی گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ”نیکی کے بعد دوسری نیکی یہ ہے کہ تو نماز پڑھے اپنے ماں باپ کیلئے اپنی نماز کے بعد اور روزہ رکھے ان کے لیے اپنے روزے کے ساتھ۔“ انہوں نے کہا: اے ابواسحاق! یہ حدیث کون روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: شہاب بن خراش۔ انہوں نے کہا: وہ تو ثقہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا: وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: حجاج بن دینار سے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ثقہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا: وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔ عبداللہ نے کہا: اے ابواسحاق! ابھی تو حجاج سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اتنے بڑے بڑے جنگل باقی ہیں کہ ان کے طے کرنے کے لئے اونٹوں کی گردنیں تھک جائیں البتہ صدقہ دینے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ صَاحِبُ بُهَيَّةَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، فَقَالَ يَحْيَى لِلْقَاسِمِ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَى مِثْلِكَ عَظِيمٌ، أَنْ تُسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ، فَلَا يُوجَدَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، وَلَا فَرَجٌ أَوْ عِلْمٌ، وَلَا مَخْرَجٌ، فَقَالَ لَهُ الْقَاسِمُ: وَعَمَّ ذَاكَ؟ قَالَ: لِأَنَّكَ ابْنُ إِمَامَيْ هُدًى ابْنُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَر قَالَ: يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ: أَقْبَحُ مِنْ ذَاكَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ، عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ آخُذَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: فَسَكَتَ فَمَا أَجَابَهُ
عبداللہ بن مبارک لوگوں کے سامنے کہتے تھے چھوڑ دو روایت کرنا عمرو بن ثابت سے کیوں کہ وہ برا کہتا تھا اگلے بزرگوں کو۔ ابوعقیل (یحییٰ بن متوکل ضریر) سے روایت ہے جو صاحب تھا بہیہ کا (بہیہ ایک عورت کا نام ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہے، ابوعقیل اس کے مولیٰ تھے) کہ میں قاسم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا تھا وہاں یحییٰ بن سعید بھی تھے، تو یحییٰ نے قاسم سے کہا: اے ابو محمد! تمہارے جیسے آدمی کیلئے یہ بات بہت بری ہے کہ تم سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے پھر تم کو اس کا علم نہ ہو، نہ اس کا جواب، قاسم نے کہا: کس وجہ سے؟ یحییٰ نے کہا: اس وجہ سے کہ تم بیٹے ہو دو بڑے بڑے رہنما اماموں کے یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے (قاسم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے کیونکہ قاسم کی ماں ام عبیداللہ ہیں جو بیٹے ہیں قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے) قاسم نے کہا: اس سے بھی زیادہ یہ بات بری ہے اس شخص کے نزدیک جس کو اللہ نے عقل عنایت فرمائی ہے کہ میں کہوں ایک بات اور اس کا مجھے علم نہ ہو یا میں اس شخص سے روایت کروں جو معتبر نہ ہو۔ یہ سن کر یحییٰ چپ ہو رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔
وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَخْبَرُونِي، عَنْ أَبِي عَقِيلٍ صَاحِبِ بُهَيَّةَ، أَنَّ أَبْنَاءً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، سَأَلُوهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ لَهُ يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْظِمُ أَنْ يَكُونَ مِثْلُكَ وَأَنْتَ ابْنُ إِمَامَيِ الْهُدَى يَعْنِي عُمَرَ وَابْنَ عُمَرَ، تُسْأَلُ عَنْ أَمْرٍ لَيْسَ عِنْدَكَ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَاللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ، وَعِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، أَوْ أُخْبِرَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: وَشَهِدَهُمَا أَبُو عَقِيلٍ يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حِينَ قَالَا ذَلِك
ابوعقیل سے روایت ہے جو صاحب تھا بہیہ کا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے کوئی بات پوچھی جس کا جواب ان کو نہ آیا۔ یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا کہ یہ امر مجھ پر بہت گراں گزرا کہ تمہارے جیسا شخص جو بیٹا ہے دو بڑے اماموں یعنی سیدنا عمر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اس سے کوئی بات پوچھی جائے اور وہ بتلا نہ سکے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اور اس سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک اور اس کے نزدیک جس کو اللہ نے عقل دی یہ بات ہے کہ میں کہوں اور مجھے علم نہ ہو یا روایت کروں اس شخص سے جو ثقہ نہ ہو۔ سفیان نے کہا: یحییٰ بن متوکل یعنی ابوعقیل اس گفتگو کے وقت موجود تھے۔
وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، وَشُعْبَةَ، وَمَالِكًا، وَابْنَ عُيَيْنَةَ، عَنِ الرَّجُلِ، لَا يَكُونُ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ، فَيَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي عَنْهُ، قَالُوا: أَخْبِرْ عَنْهُ، أَنَّهُ لَيْسَ بِثَبْتٍ
یحییٰ بن سعید نے کہا: میں نے سفیان ثوری اور شعبہ اور مالک اور ابن عینیہ سے پوچھا(جو حدیث کے بڑے بڑے امام تھے) کہ اگر ایک شخص معتبر نہ ہو حدیث کی روایت میں اور کوئی اس کا حال مجھ سے پوچھے (تو میں اس کا عیب بیان کر دوں یا چھپاوں؟) ان سب نے کہا: بیان کر دے کہ وہ شخص معتبر نہیں (اور اس کے بیان کرنے میں غیبت کا گناہ نہیں بلکہ اجر ہو گا، کیونکہ نیت بخیر ہے، دین کی حفاظت منظور ہے نہ کے توہین اس اس شخص کی)۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّضْرَ، يَقُولُ: سُئِلَ ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ حَدِيثٍ لِشَهْرٍ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى أُسْكُفَّةِ الْبَابِ، فَقَالَ: إِنَّ شَهْرًا نَزَكُوهُ، إِنَّ شَهْرًا نَزَكُوهُ، قَالَ مٌسْلِمٌ: رَحِمَهُ اللَّهُ، يَقُولُ: أَخَذَتْهُ أَلْسِنَةُ النَّاسِ تَكَلَّمُوا فِيهِ
نضر بن شمیل سے روایت ہے، ابن عون سے کسی نے پوچھا: شھر بن حوشب کی حدیث کو اور وہ کھڑے تھے دروازہ کی چوکھٹ پر انہوں نے کہا: شہر کو لوگوں نے ترک کیا۔ شہر کو لوگوں نے ترک کیا۔ مسلم نے کہا: ترک کرنے سے مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے اس میں کلام کیا اور اس کے حق میں جرح اور طعن کیا۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِر، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: قَال شُعْبَةُ: وَقَدْ لَقِيتُ شَهْرًا، فَلَمْ أَعْتَدَّ بِهِ
شبابہ بیان کرتے ہیں کہ شعبہ نے کہا میں شھر بن حوشب سے ملا ہوں مگر میں اس کی روایت کو شمار نہیں کرتا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: قُلْتُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: إِنَّ عَبَّادَ بْنَ كَثِيرٍ، مَنْ تَعْرِفُ حَالَهُ، وَإِذَا حَدَّثَ، جَاءَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، فَتَرَى أَنْ أَقُولَ لِلنَّاسِ: لَا تَأْخُذُوا عَنْهُ؟ قَالَ سُفْيَانُ: بَلَى، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَكُنْتُ إِذَا كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ، ذُكِرَ فِيهِ عَبَّادٌ، أَثْنَيْتُ عَلَيْهِ فِي دِينِهِ، وَأَقُولُ: لَا تَأْخُذُوا عَنْهُ وَقَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: قَالَ أَبِي: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: انْتَهَيْتُ إِلَى شُعْبَةَ، فَقَالَ: هَذَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ فَاحْذَرُوهُ
عبداللہ بن مبارک نے کہا: میں نے سفیان ثوری سے پوچھا: تم جانتے ہو عباد بن کثیر کا حال جب حدیث بیان کرتا ہے تو ایک بلا لاتا ہے تو تمہاری کیا رائے ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دوں نہ روایت کرو اس سے۔ سفیان نے کہا: ہاں کہہ دو۔ عبداللہ نے کہا: پھر جس مجلس میں میں ہوتا اور عباد بن کثیر کا ذکر آتا تو میں اس کی دینداری کی تعریف کرتا لیکن کہہ دیتا کہ مت روایت کرو حدیث کو۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا: میں شعبہ کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا: یہ عباد بن کثیر ہے اس سے بچو (یعنی اس سے روایت کرنے میں)۔
وحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: سَأَلْتُ مُعَلًّى الرَّازِيَّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ، الَّذِي رَوَى عَنْهُ عَبَّادٌ، فَأَخْبَرَنِي، عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، قَالَ: كُنْتُ عَلَى بَابِهِ، وَسُفْيَانُ عِنْدَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ كَذَّابٌ
فضل بن سہل سے روایت ہے، اس نے کہا: میں نے معلیٰ رازی سے پوچھا محمد بن سعید کا حال جس سے عباد بن کثیر روایت کرتا ہے تو انہوں نے نقل کیا عیسیٰ بن یونس سے۔ انہوں نے کہا: میں عباد کے دروازہ پر تھا اور سفیان اس کے پاس تھا جب وہ باہر نکلے تو میں نے پوچھا ان سے عباد کے متعلق۔ سفیان نے کہا: وہ جھوٹا ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْءٍ، أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ: فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ: لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مُسْلِم: يَقُولُ: يَجْرِي الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ، وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ
محمد بن یحییٰ بن سعید قطان نے اپنے باپ سے سنا (یحییٰ بن سعید قطان سے جو حدیث کے بڑے امام تھے) وہ کہتے تھے: ہم نے نیک آدمیوں کو (یعنی درویشوں اور صوفیوں کو) اتنا جھوٹا کسی چیز میں نہیں دیکھا جتنا جھوٹا حدیث کی روایت کرنے میں دیکھا۔ ابن ابی عتاب نے کہا: میں محمد بن یحییٰ سے ملا اور ان سے یہ بات پوچھی۔ انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: تو نیک لوگوں کو اتنا جھوٹا کسی بات میں نہ پائے گا جتنا حدیث روایت کرنے میں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کی تاویل یہ کى ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے لیکن وہ قصداً جھوٹ نہیں بولتے۔
حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي خَلِيفَةُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى غَالِبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَجَعَلَ يُمْلِي عَلَيَّ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، فَأَخَذَهُ الْبَوْلُ، فَقَامَ، فَنَظَرْتُ فِي الْكُرَّاسَةِ، فَإِذَا فِيهَا، حَدَّثَنِي أَبَانٌ، عَنْ أَنَسٍ وَأَبَانٌ، عَنْ فُلَانٍ، فَتَرَكْتُهُ، وَقُمْتُ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيَّ، يَقُولُ: رَأَيْتُ فِي كِتَابِ عَفَّانَ، حَدِيثُ هِشَامٍ أَبِي الْمِقْدَامِ، حَدِيثَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيز، قَالَ هِشَامٌ: حَدَّثَنِي جُلٌ، يُقَالُ لَهُ: يَحْيَي بْنُ فُلَانٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَفَّانَ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ هِشَامٌ سَمِعَهُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا ابْتُلِيَ مِنْ قِبَلِ هَذَا الْحَدِيثِ، كَانَ يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَي، عَنْ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ادَّعَى بَعْدُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ
خلیفہ بن موسیٰ نے کہا: میں غالب بن عبیداللہ کے پاس گیا۔ وہ مجھ کو لکھوانے لگا، حدیث بیان کی مجھ سے مکحول نے۔ اتنے میں اس کو پیشاب آ گیا۔ وہ پیشاب کرنے گیا۔ میں نے اس کی کتاب کو دیکھا تو اس میں یوں لکھا تھا، حدیث بیان کی مجھ سے ابان نے انس سے اور ابان نے فلاں سے، یہ دیکھ کر میں نے اس سے روایت کرنا چھوڑ گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا: سنا میں نے حسن بن علی حلوانی سے، وہ کہتے تھے میں نے عفان کی کتاب میں ہشام ابوالمقدام کی حدیث دیکھی جو عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے۔ ہشام نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا جس کا نام یحییٰ تھا فلاں کا بیٹا، اس نے محمد بن کعب سے سنا۔ میں نے عفان سے کہا لوگ کہتے ہیں ہشام نے اس حدیث کو خود محمد بن کعب سے سنا ہے عفان نے کہا: ہشام اسی حدیث کی وجہ سے آفت میں پڑ گیا پہلے کہتا مجھ سے حدیث بیان کی یحییٰ نے، اس نے سنا محمد سے۔ پھر کہنے لگا: میں نے خود سنا محمد سے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُثْمَانَ بْنِ جَبَلَةَ، يَقُولُ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي رَوَيْتَ عَنْهُ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، يَوْمُ الْفِطْرِ، يَوْمُ الْجَوَائِزِ؟ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْحَجَّاجِ: انْظُرْ مَا وَضَعْتَ فِي يَدِكَ مِنْهُ، قَالَ ابْنُ قُهْزَاذَ: وَسَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ زَمْعَةَ يَذْكُرُ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ: رَأَيْتُ رَوْحَ بْنَ غُطَيْفٍ صَاحِبَ الدَّمِ، قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَجَلَسْتُ إِلَيْهِ مَجْلِسًا، فَجَعَلْتُ أَسْتَحْيِي مِنْ أَصْحَابِي، أَنْ يَرَوْنِي جَالِسًا مَعَهُ، كُرْهَ حَدِيثِه.
عبداللہ بن عثمان بن جبلہ نے کہا: میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا: وہ کون شخص ہے جس سے تم نے عبداللہ بن عمرو کی حدیث روایت کی کہ عیدالفطر «يوم الجوائز» ہے(عبداللہ بن مبارک نے کہا)؟ ۱؎ سلیمان بن الحجاج نے کہا۔ دیکھو تم نے ان سے کیا حاصل کیا (یعنی وہ عمدہ شخص تھے اور ثقہ تھے، یہ تعریف ہے ان کی) ابن قہزاذ نے کہا: میں نے سنا وہب بن زمعہ سے، وہ روایت کرتے تھے سفیان بن عبدالملک سے کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: میں نے روح بن غطیف کو دیکھا جس نے درہم کے برابر خون کی حدیث روایت کی۔۲؎ اور میں اس کی صحبت میں بیٹھا پھر اپنے دوستوں سے شرمانے لگا کہ وہ کیا کہیں گے مجھے اس کے پاس بیٹھا دیکھ کر، اس وجہ سے کہ اس سے روایت کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔ ۳؎
حَدَّثَنِي ابْنُ قُهْزَاذَ، قَالَ: سَمِعْتُ وَهْبًا، يَقُولُ: عَنِ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: بَقِيَّةُ صَدُوقُ اللِّسَانِ وَلَكِنَّهُ يَأْخُذُ عَمَّنْ أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ
عبداللہ بن مبارک نے کہا بقیہ بن ولید بن صائد بن کعب کلاعی سچا ہے لیکن وہ روایت کرتا ہے سب قسم کے لوگوں سے (یعنی ثقہ اور ضعیف کو نہیں دیکھتا اسی وجہ سے اس کو بھی ضعیف کہا ہے محدثین نے)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ الأَعْوَرُ الْهَمْدَانِيُّ وَكَانَ كَذَّابًا،
شعبی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی حارث الاعور ہمدانی نے حالانکہ وہ جھوٹا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الأَشْعَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُفَضَّلٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ الأَعْوَرُ، وَهُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ،
عامر بن شراحیل شعمی (جو حدیث کے امام ہیں) وہ کہتے تھے مجھ سے حدیث بیان کی حارث اعور نے اور وہ ایک جھوٹا شخص تھا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَلْقَمَةُ: قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فِي سَنَتَيْنِ، فَقَالَ الْحَارِثُ: الْقُرْآنُ هَيِّنٌ، الْوَحْيُ أَشَدُّ،
ابراہیم نخعی (جو حدیث کے بڑے امام ہیں) روایت کرتے ہیں کہ علقمہ نے (جو مصاحب تھے عبداللہ بن مسعود کے) کہا: میں نے قرآن کو دو برس میں پڑھا۔ حارث کہنے لگا: قرآن آسان ہے لیکن وحی مشکل ہے۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الْحَارِثَ، قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْقُرْآنَ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ، وَالْوَحْيَ فِي سَنَتَيْنِ، أَوَ قَالَ: الْوَحْيَ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ وَالْقُرْآنَ فِي سَنَتَيْنِ،
ابراہیم سے روایت ہے، حارث نے کہا کہ میں نے قرآن کو تین برس میں سیکھا اور وحی کو دو برس میں یا کہا وحی کو تین برس میں پڑھا اور قرآن کو دو برس میں۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالْمُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الْحَارِثَ، اتُّهِمَ.
ابراہیم نے کہا: حارث متہم ہے (یعنی وہ منسوب کیا گیا کذب اور بدمذہبی سے)۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، قَالَ: سَمِعَ مُرَّةُ الْهَمْدَانِيُّ، مِنَ الْحَارِثِ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ: اقْعُدْ بِالْبَابِ، قَالَ: فَدَخَلَ مُرَّةُ، وَأَخَذَ سَيْفَهُ، قَالَ: وَأَحَسَّ الْحَارِثُ بِالشَّرِّ فَذَهَبَ،
حمزہ زیات سے روایت ہے، مرہ ہمدانی نے حارث سے کوئی بات سنی تو اس سے کہا: تم دروازہ میں بیٹھو اور مرہ اندر گئے اور تلوار اٹھائی (کہ حارث کو قتل کریں) حارث نے آہٹ پائی کہ کچھ شر ہونے والا ہے تو وہ چل دیا۔
وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيد، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا إِبْرَاهِيمُ إِيَّاكُمْ وَالْمُغِيرَةَ بْنَ سَعِيدٍ، وَأَبَا عَبْدِ الرَّحِيمِ، فَإِنَّهُمَا كَذَّابَانِ،
ابن عون سے روایت ہے، ہم سے کہا ابراہیم نے، بچو تم مغیرہ بن سعید اور ابوعبدالرحیم سے وہ دونوں جھوٹے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيَّ، وَنَحْنُ غِلْمَةٌ أَيْفَاعٌ، فَكَانَ يَقُولُ لَنَا لَا تُجَالِسُوا الْقُصَّاصَ، غَيْرَ أَبِي الأَحْوَصِ: وَإِيَّاكُمْ وَشَقِيقًا، قَالَ: وَكَانَ شَقِيقٌ هَذَا، يَرَى رَأْيَ الْخَوَارِجِ، وَلَيْسَ بِأَبِي وَائِلٍ،
عاصم سے روایت ہے کہ ہم ابوعبدالرحمٰن سلمی کے پاس آیا جایا کرتے تھے اور اس زمانے میں ہم جوان لڑکے تھے (یعنی جوانی کے قریب) تو وہ ہم سے کہا کرتے: مت بیٹھا کرو قصہ خوانوں کے پاس سوائے ابولاحوص کے اور بچو تم شقیق سے اور یہ شقیق خارجیوں کا سا اعتقاد رکھتا تھا۔ یہ ابووائل نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا، يَقُولُ: " لَقِيتُ جَابِرَ بْنَ يَزِيدَ الْجُعْفِيَّ، فَلَمْ أَكْتُبْ عَنْهُ، كَانَ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ.
جریر سے روایت ہے، میں جابر بن یزید جعفى سے ملا پھر میں نے اس سے حدیث نہیں لکھی وہ یقین کرتا تھا رجعت کا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ، قَبْلَ أَنْ يُحْدِثَ مَا أَحْدَثَ.
مسعر سے روایت ہے، ہم سے حدیث بیان کی جابر بن یزید نے اس سے پہلے جو اس نے نئی بات نکالی (یعنی بدمذہبی سے پہلے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے جابر کا اعتقاد درست تھا پھر فاسد ہو گیا)۔
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَحْمِلُونَ، عَنْ جَابِر، قَبْلَ أَنْ يُظْهِرَ مَا أَظْهَرَ، فَلَمَّا أَظْهَرَ مَا أَظْهَرَ، اتَّهَمَهُ النَّاسُ فِي حَدِيثِهِ، وَتَرَكَهُ بَعْضُ النَّاسِ، فَقِيلَ لَهُ: وَمَا أَظْهَرَ؟ قَالَ: الإِيمَانَ بِالرَّجْعَةِ،
سفیان سے روایت ہے، پہلے لوگ جابر سے حدیثیں روایت کرتے تھے جب تک اس نے بداعتقادی نہیں ظاہر کی تھی۔ پھر جب اس نے اپنا اعتقاد کھولا تو لوگوں نے اسے مہتم کیا حدیث میں اور بعض نے اس کو ترک کر دیا۔ لوگوں نے کہا: بداعتقادی اس کی کیا معلوم ہوئی؟ سفیان نے کہا: رجعت پر یقین کرنا۔
وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، وَأَخُوهُ، أنهما سمعا الجراح بن مليح، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: عِنْدِي سَبْعُونَ أَلْفَ حَدِيثٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهَا.
جابر بن یزید جعفی نے کہا: میرے پاس ستر (۷۰) ہزار حدیثیں ہیں جن کو میں نے روایت کیا ہے ابوجعفر سے (یعنی امام محمد بن باقر سے) انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُهَيْرًا، يَقُولُ: قَالَ جَابِرٌ أَوْ سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: إِنَّ عِنْدِي لَخَمْسِينَ أَلْفَ حَدِيثٍ، مَا حَدَّثْتُ مِنْهَا بِشَيْءٍ.قَالَ ثُمَّ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ، فَقَالَ: هَذَا مِنَ الْخَمْسِينَ أَلْفًا.
زہیر سے روایت ہے، جابر کہتا تھا میرے پاس پچاس ہزار ایسی حدیثیں ہیں جن کو میں نے لوگوں سے بیان نہیں کیا۔ پھر ایک روز ایک حدیث بیان کی اور کہنے لگا کہ یہ ان ہی پچاس ہزار میں سے ہے۔
وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْيَشْكُرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِيدِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَلَّامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرًا الْجُعْفِيَّ، يَقُولُ: عِنْدِي خَمْسُونَ أَلْفَ حَدِيثٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سلام بن ابی مطیع سے روایت ہے کہ میں نے سنا جابر جعفی سے، میرے پاس پچاس ہزار حدیثیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا سَأَلَ جَابِرًا، عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلَنْ أَبْرَحَ الأَرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ سورة يوسف آية 80، فَقَالَ جَابِرٌ: لَمْ يَجِئْ تَأْوِيلُ هَذِهِ، قَالَ سُفْيَانُ: وَكَذَبَ.فَقُلْنَا لِسُفْيَانَ: وَمَا أَرَادَ بِهَذَا، فَقَالَ: إِنَّ الرَّافِضَةَ، تَقُولُ: إِنَّ عَلِيًّا فِي السَّحَابِ، فَلَا نَخْرُجُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مِنْ وَلَدِهِ، حَتَّى يُنَادِيَ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ، يُرِيدُ عَلِيًّا أَنَّهُ يُنَادِي، اخْرُجُوا مَعَ فُلَانٍ. يَقُولُ جَابِرٌ: فَذَا تَأْوِيلُ هَذِهِ الآيَةِ، وَكَذَبَ، كَانَتْ فِي إِخْوَةِ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلامُ "
سفیان سے روایت ہے، میں سنا ایک شخص نے جابر جعفی سے پوچھا اس آیت «فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ» کے بارے میں۔ ۱؎ جابر نے کہا: اس آیت کا مطلب ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ سفیان نے کہا: جابر جھوٹا تھا۔ حمیدی نے (جو اس روایت کو سفیان سے نقل کرتے ہیں) کہا: ہم لوگوں نے سفیان سے پوچھا: جابر کی کیا غرض تھی؟ انہوں نے کہا: رافضی لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابر میں ہیں اور ہم ان کى اولاد میں سے کسى کے ساتھ نہ نکلیں گے یہاں تک کہ آسمان سے سیدنا على رضی اللہ عنہ آواز دیں گے کہ نکلو اس شخص کے ساتھ تو جابر نے کہا کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے اور جھوٹ کہا: اس لئے کہ یہ آیت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے قصہ میں ہے۔۲؎
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يُحَدِّثُ بِنَحْوٍ مِنْ ثَلَاثِينَ أَلْفَ حَدِيثٍ، مَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَذْكُرَ مِنْهَا شَيْئًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا، قَالَ مُسْلِم: وَسَمِعْتُ أَبَا غَسَّانَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو الرَّازِيَّ، قَالَ: سَأَلْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ الْحَمِيدِ، فَقُلْتُ: الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ لَقِيتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، شَيْخٌ طَوِيلُ السُّكُوتِ، يُصِرُّ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ.
سفیان سے روایت ہے، میں نے جابر سے سنا تیس ہزار حدیثوں کو۔ میں حلال نہیں جانتا ان میں سے ایک بھی حدیث بیان کرنے کو اگرچہ مجھے یہ اور یہ ملے (یعنی کیسی ہی دولت ملے مگر میں ان حدیثوں کو نقل نہ کروں گا کیونکہ وہ سب جھوٹی تھیں)۔ ابوغسان محمد بن عمر درازی نے کہا: میں نے جریر بن عبدالحمید سے پوچھا: تم نے حارث بن حصیرہ کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ایک بزرگ تھا، اکثر خاموش رہتا لیکن بہت بڑی بات پر اصرار کرتا تھا۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: ذَكَرَ أَيُّوبُ رَجُلًا يَوْمًا، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ بِمُسْتَقِيمِ اللِّسَانِ، وَذَكَرَ آخَرَ، فَقَالَ: هُوَ يَزِيدُ فِي الرَّقْمِ
حماد بن زید نے کہا: ایوب (سختیانی ابن ابی تمیمہ کیسان ابوبکر بصری جو ثقہ، ثبت حجت، فقیہ، عابد مشہور تھے) نے کہا: ایک شخص کا حال کہ اس کی زبان درست نہ تھی اور دوسرے کو کہا کہ وہ رقم کو بڑھا دیتا ہے۔
حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ أَيُّوبُ: إِنَّ لِي جَارًا، ثُمَّ ذَكَرَ مِنْ فَضْلِهِ، وَلَوْ شَهِدَ عِنْدِي عَلَى تَمْرَتَيْنِ، مَا رَأَيْتُ شَهَادَتَهُ جَائِزَةً،
حماد بن زید سے روایت ہے، ایوب نے کہا: میرا ایک ہمسایہ ہے پھر بیان کی اس کی فضیلت (یعنی اس کی لیاقت اور علم کی تعریف کی) اور کہا کہ اگر وہ میرے سامنے دو کھجوروں پر گواہی دے تو میں اس کی گواہی درست نہ سمجھوں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: قَالَ مَعْمَرٌ: مَا رَأَيْتُ أَيُّوبَ اغْتَابَ أَحَدًا قَطُّ، إِلَّا عَبْدَ الْكَرِيمِ يَعْنِي أَبَا أُمَيَّةَ، فَإِنَّهُ ذَكَرَهُ، فَقَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: كَانَ غَيْرَ ثِقَةٍ، لَقَدْ سَأَلَنِي، عَنْ حَدِيثٍ لِعِكْرِمَةَ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ،
معمر سے روایت ہے کہ میں نے ایوب کو کبھی کسی شخص کی غیب کرتے نہیں سنا مگر عبدالکریم بن ابی المخارق کی جس کی کنیت ابوامیہ ہے ذکر کیا انہوں نے اس کا اور کہا: اللہ رحم کرے اس پر وہ ثقہ نہ تھا۔ ایک بار مجھ سے ایک حدیث پوچھی عکرمہ کی پھر کہنے لگا میں نے خود سنا ہے عکرمہ سے۔
حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو دَاوُدَ الأَعْمَى فَجَعَلَ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِقَتَادَةَ، فَقَالَ: كَذَبَ مَا سَمِعَ مِنْهُمْ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ سَائِلًا، يَتَكَفَّفُ النَّاسَ زَمَنَ طَاعُونِ الْجَارِفِ،
ہمام سے روایت ہے، ابوداؤد نابینا (نفیع بن حارث) ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: حدیث بیان کی مجھ سے براء بن عازب نے اور حدیث بیان کی مجھ زید بن ارقم نے، ہم نے یہ قتادہ سے ذکر کیا انہوں نے کہا جھوٹا ہے اس نے نہیں سنا ان سے (براء اور زید سے)۔۱؎ وہ تو ایک منگتا تھا، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا تھا سخت وبا کے زمانے میں۔ ۲؎
وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو دَاوُدَ الأَعْمَى، عَلَى قَتَادَةَ، فَلَمَّا قَامَ، قَالُوا: إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ لَقِيَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ بَدْرِيًّا، فَقَالَ قَتَادَةُ: هَذَا كَانَ سَائِلًا قَبْلَ الْجَارِفِ، لَا يَعْرِضُ فِي شَيْءٍ مِنْ هَذَا، وَلَا يَتَكَلَّمُ فِيهِ، فَوَاللَّهِ مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، وَلَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، إِلَّا عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ،
ہمام سے روایت ہے، ابوداؤد اعمیٰ قتادہ کے پاس آیا۔ جب وہ اٹھ کر چلا تو لوگوں نے کہا: یہ کہتا ہے کہ میں ان اٹھارہ صحابیوں سے ملا جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔ قتادہ نے کہا: یہ تو طاعون جارف سے پہلے بھیک مانگا کرتا تھا۔ اس کو حدیث روایت کرنے کا کب خیال تھا نہ کبھی اس نے گفتگو کی حدیث میں۔ اللہ کی قسم! حسن بصری نے (جو ابوداؤد سے عمر میں زیادہ تھے اور حدیث کے عالم بھی تھے) کوئی حدیث ہم سے نہیں بیان کی کسی بدری صحابی سے سن کر نہ سعید بن المسیب نے مگر سعد بن مالک سے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ رَقَبَةَ، أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ الْهَاشِمِيَّ الْمَدَنِيَّ، كَانَ يَضَعُ أَحَادِيثَ كَلَامَ حَقٍّ، وَلَيْسَتْ مِنْ أَحَادِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَرْوِيهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
رقبہ بن مسقلہ بن عبداللہ کوفی نے کہا کہ ابوجعفر ہاشمی مدنی (جس کا نام عبداللہ بن مسور مدانيی ہے) سچی سچی باتوں کو حدیث بنا کر نقل کرتا حالانکہ وہ حدیث نہ ہوتیں اور روایت کرتا ان کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ أَبُو إِسْحَاق إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُفْيَانَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ.
یونس بن عبید سے روایت ہے کہ عمرو بن عبید حدیث میں جھوٹ بولتا ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: قُلْتُ لِعَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، قَالَ: كَذَبَ وَاللَّهِ عَمْرٌو وَلَكِنَّهُ أَرَادَ، أَنْ يَحُوزَهَا إِلَى قَوْلِهِ الْخَبِيثِ
معاذ بن معاذ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے عوف بن ابوجمیلہ سے کہا: عمرو بن عبید نے ہم سے حدیث بیان کی حسن بصرى کے حوالے سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے (یعنی مسلمانوں کے قتل پر بغیر کسی وجہ شرعی کے مستعد ہو) وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ عوف نے کہا: قسم اللہ کی عمرو جھوٹا ہے۔ اس کا مقصد اس حدیث کی روایت کرنے سے یہ ہے کہ اپنے ناپاک اعتقاد کو اس سے ثابت کرے۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ، قَدْ لَزِمَ أَيُّوبَ وَسَمِعَ مِنْهُ، فَفَقَدَهُ أَيُّوبُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّهُ قَدْ لَزِمَ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ حَمَّادٌ: فَبَيْنَا أَنَا يَوْمًا مَعَ أَيُّوبَ، وَقَدْ بَكَّرْنَا إِلَى السُّوقِ، فَاسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ أَيُّوبُ، وَسَأَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ أَيُّوبُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ لَزِمْتَ ذَاكَ الرَّجُلَ.قَالَ حَمَّادٌ: سَمَّاهُ يَعْنِي عَمْرًا؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّهُ يَجِيئُنَا بِأَشْيَاءَ غَرَائِبَ، قَالَ: يَقُولُ لَهُ أَيُّوبُ: إِنَّمَا نَفِرُّ أَوْ نَفْرَقُ مِنْ تِلْكَ الْغَرَائِبِ،
حماد بن زید سے روایت ہے، ایک شخص ہمیشہ ایوب سختیانی کی صحبت میں رہا کرتا اور ان سے حدیثیں سنتا۔ ایک مرتبہ ایوب نے اس کو نہ پا کر پوچھا تو لوگوں نے کہا: اے ابوبکر! (یہ کنیت ہے ایوب سختیانی کی) وہ شخص اب عمرو بن عبید کی صحبت میں رہتا ہے۔ حماد نے کہا! ایک روز میں ایوب کے ساتھ سویرے بازار کو جا رہا تھا اتنے میں وہ شخص سامنے آیا۔ ایوب نے اس کو سلام کیا اور حال پوچھا۔ پھر اس سے کہا، میں نے سنا ہے تم اس شخص کے پاس رہتے ہو، عمرو بن عبید کا نام لیا۔ وہ بولا: ہاں اے ابوبکر! کیونکہ وہ ہم کو عجیب باتیں سناتا ہے۔ ایوب نے کہا ہم تو ایسی ہی عجیب باتوں سے بھاگتے ہیں۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ زَيْدٍ يَعْنِي حَمَّادًا، قَالَ: قِيلَ لِأَيُّوبَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ رَوَى، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لَا يُجْلَدُ السَّكْرَانُ مِنَ النَّبِيذِ، فَقَالَ: كَذَبَ، أَنَا سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: يُجْلَدُ السَّكْرَانُ مِنَ النَّبِيذِ،
حماد سے روایت ہے، ایوب سے کسی نے کہا کہ عمرو بن عبید نے حسن سے روایت کیا ہے جو شخص نبیذ پینے سے مست ہو جائے اس پر حد نہ پڑے گی۔ ایوب نے کہا کہ عمرو بن عبید جھوٹا ہے۔ حسن کہتے تھے: جو شخص نبیذ سے مست ہو جائے اس پر حد پڑے گی۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَّامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ، يَقُولُ: بَلَغَ أَيُّوبَ، أَنِّي آتِي عَمْرًا، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ يَوْمًا، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا لَا تَأْمَنُهُ عَلَى دِينِهِ، كَيْفَ تَأْمَنُهُ عَلَى الْحَدِيثِ؟،
سلام بن ابی مطیع سے روایت ہے ایوب کو خبر پہنچی کہ میں عمرو عبید کے پاس جاتا ہوں تو ایک روز میرے پاس آئے اور کہنے لگے: تو کیا سمجھتا ہے جس شخص کے دین پر تجھے بھروسہ نہ ہو کیا اس کی حدیث پر تو بھروسا کر سکتا ہے۔
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ، قَبْلَ أَنْ يُحْدِثَ،
ابوموسیٰ کہتے تھے: مجھ سے حدیث بیان کی عمرو بن عبید نے قبل اس کے کہ اس نے نکالیں نئی باتیں (یعنی بداعتقادی سے پہلے)۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى شُعْبَةَ، أَسْأَلُهُ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ قَاضِي وَاسِطٍ، فَكَتَبَ إِلَيَّ لَا تَكْتُبْ عَنْهُ شَيْئًا وَمَزِّقْ كِتَابِي.
معاذ عنبری نے کہا: میں نے شعبہ کو لکھا کہ ابوشیبہ واسط (ایک گاوَں کا نام ہے بصرہ کے پاس) کے قاضی کا کیا حال ہے، انہوں نے جواب میں لکھا کہ مت روایت کر اس سے کچھ اور پھاڑ ڈال میرا خط۔
وحَدَّثَنَا الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَفَّانَ، قَالَ: حَدَّثْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ بِحَدِيثٍ، عَنْ ثَابِتٍ، فَقَالَ: كَذَبَ، وَحَدَّثْتُ هَمَّامًا، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ بِحَدِيثٍ، فَقَالَ: كَذَبَ،
عفان سے روایت ہے، میں نے حماد بن سلمہ سے ایک حدیث بیان کی صالح مری کی انہوں نے ثابت سے۔ حماد نے کہا: جھوٹ ہے۔ پھر میں نے ہمام سے ایک حدیث بیان کی صالح مری کی۔ انہوں نے کہا: جھوٹ ہے۔
وحَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: قَالَ لِي شُعْبَةُ: ايتِ جَرِيرَ بْنَ حَازِمٍ، فَقُلْ لَهُ: لَا يَحِلُّ لَكَ أَنْ تَرْوِيَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، فَإِنَّهُ يَكْذِب، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا عَنِ الْحَكَمِ بِأَشْيَاءَ لَمْ أَجِدْ لَهَا أَصْلًا، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لِلْحَكَمِ: أَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَيْهِمْ، وَدَفَنَهُمْ، قُلْتُ لِلْحَكَمِ: مَا تَقُولُ فِي أَوْلَادِ الزِّنَا؟ قَالَ: يُصَلَّى عَلَيْهِمْ، قُلْتُ: مِنْ حَدِيثِ مَنْ يُرْوَى؟ قَالَ: يُرْوَى عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَلِيٍّ
ابوداوَد سے روایت ہے، مجھ سے شعبہ نے کہا: تو جریر بن حازم کے پاس جا اور کہہ تجھ کو درست نہیں حسن بن عمارہ سے روایت کرنا کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ابوداوَد نے کہا: میں نے شعبہ سے پوچھا: کیونکر معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے؟ شعبہ نے کہا: اس وجہ سے کہ حسن بن عمارہ نے حکم سے چند حدیثیں نقل کیں جن کی اصل میں نے کچھ نہ پائى۔ میں نے کہا: وہ کونسی حدیثیں ہیں؟ شعبہ نے کہا: میں نے حکم سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے شہیدوں پر نماز پڑھی تھی؟ حکم نے کہا: نہیں۔ پھر حسن بن عمارہ نے حکم سے روایت کیا۔ اس نے مقسم سے، اس نے سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی احد کے شہیدوں پر اور دفن کیا ان کو۔ اور میں نے حکم سے کہا: تم زنا کی اولاد کے حق میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: ان پر نماز پڑھی جائے جنازے کی۔ میں نے کہا: کس سے روایت کیا گیا ہے اس باب میں؟ انہوں نے کہا: حسن بصری سے۔ حسن بن عمارہ نے کہا: مجھ سے حکم نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن الجزار سے سنا، انہوں نے سيدنا علی رضی اللہ عنہ سے۔
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ، وَذَكَرَ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، فَقَالَ: حَلَفْتُ، أَلَّا أروي عنه شيئا ولا عَنْ خَالِدِ بْنِ مَحْدُوجٍ، وَقَالَ: لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثٍ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنْ بَكْرٍ الْمُزَنِيِّ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنْ مُوَرِّقٍ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنِ الْحَسَنِ، وَكَانَ يَنْسُبُهُمَا إِلَى الْكَذِبِ، قَالَ الْحُلْوَانِيُّ، سَمِعْتُ عَبْدَ الصَّمَدِ، وَذَكَرْتُ عِنْدَهُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ فَنَسَبَهُ إِلَى الْكَذِبِ،
یزید بن ہارون نے ذکر کیا زیادہ بن میمون کا اور کہا: میں نے قسم کھائی ہے کہ اس سے کچھ روایت نہ کروں گا نہ خالد بن محدوج سے۔ یزید نے کہا: میں زیاد بن میمون سے ملا اور اس سے ایک حدیث پوچھی۔ اس نے روایت کیا اس حدیث کو بکر بن عبداللہ مزنی سے۔ پھر میں اس سے ملا تو اس نے روایت کیا اسی حدیث کو مورق بن ثمرج سے۔ پھر میں اس سے ملا تو روایت کیا اس حدیث کو حسن سے اور یزید بن ہاروں ان دونوں کو یعنی زیاد بن میمون اور خالد بن محدوج کو جھوٹا کہتے تھے۔ حسن حلوانی نے کہا: میں نے عبدالصمد سے سنا، میں نے ذکر کیا زیاد بن میمون کا۔ انہوں نے کہا: جھوٹا ہے۔
وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي دَاوُدَ الطَّيَالِسِيِّ: قَدْ أَكْثَرْتَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، فَمَا لَكَ لَمْ تَسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَ الْعَطَّارَةِ، الَّذِي رَوَى لَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ لِيَ: اسْكُتْ، فَأَنَا لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقُلْنَا لَهُ: هَذِهِ الأَحَادِيثُ الَّتِي تَرْوِيهَا، عَنْ أَنَسٍ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتُمَا رَجُلًا يُذْنِبُ فَيَتُوبُ، أَلَيْسَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ أَنَسٍ، مِنْ ذَا قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، إِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ النَّاسُ، فَأَنْتُمَا لَا تَعْلَمَانِ، أَنِّي لَمْ أَلْقَ أَنَسًا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: فَبَلَغَنَا بَعْدُ أَنَّهُ يَرْوِي، فَأَتَيْنَاهُ أَنَا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: أَتُوبُ، ثُمَّ كَانَ بَعْدُ يُحَدِّثُ، فَتَرَكْنَاهُ،
محمود بن غیلان سے روایت ہے، میں نے ابو داؤد طیالسی سے کہا: تم نے عباد بن منصور سے بہت روایتیں کیں تو کیا سبب ہے تم نے وہ حدیث نہیں سنی عطارۃ عورت کی جو روایت کی نضر بن شمیل نے ہمارے لئے۔ انہوں نے کہا چپ رہ۔ میں اور عبدالرحمٰن بن مہدی دونوں زیاد بن میمون سے ملے اور اس سے پوچھا ان حدیثوں کو جو وہ روایت کرتا ہے انس سے۔ وہ بولا: تم دونوں کیا سمجھتے ہو۔ اگر کوئی شخص گناہ کرے پھر توبہ کرے تو کیا اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔ عبدالرحمٰن نے کہا: البتہ معاف کرے گا۔ زیاد نے کہا: میں انس رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، نہ بہت نہ کم، اگر لوگ اس بات کو نہیں جانتے تو کیا تم بھی نہیں جانتے (یعنی تم تو جانتے ہو) میں انس رضی اللہ عنہ سے ملا تک نہیں۔ ابوداؤد نے کہا: پھر ہم کو خبر پہنچی کہ زیاد روایت کرتا ہے انس رضی اللہ عنہ سے۔ میں اور عبدالرحمٰن پھر گئے۔ اس نے کہا: میں توبہ کرتا ہوں۔ پھر وہ بعد اس کے روایت کرنے لگا۔ آخر ہم نے اس کو ترک کیا (یعنی اس سے روایت چھوڑ دی کیونکہ وہ جھوٹا نکلا اور جھوٹا بھی کیسا کہ توبہ کا بھی خیال اس نے چھوڑ دیا)۔
حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِي، قَالَ: سَمِعْتُ شَبَابَةَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ الْقُدُّوسِ يُحَدِّثُنَا، فَيَقُولُ: سُوَيْدُ بْنُ عَقَلَةَ: قَالَ شَبَابَةُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ الْقُدُّوسِ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ يُتَّخَذَ الرَّوْحُ عَرْضًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ هَذَا ! قَالَ: يَعْنِي تُتَّخَذُ كُوَّةٌ فِي حَائِطٍ، لِيَدْخُلَ عَلَيْهِ الرَّوْحُ، قَال مُسْلِمٌ: وسَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِرَجُلٍ بَعْدَ مَا جَلَسَ مَهْدِيُّ بْنُ هِلَالٍ بِأَيَّامٍ: مَا هَذِهِ الْعَيْنُ الْمَالِحَةُ الَّتِي نَبَعَتْ قِبَلَكُمْ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا إِسْمَاعِيل،
شبابہ بن سوار مدائنی سے روایت ہے، عبدالقدوس ہم سے حدیث بیان کرتا تھا تو کہتا تھا سوید بن عقلہ اور کہتا تھا منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روح یعنی ہوا کو عرض میں لینے سے۔ لوگوں نے کہا: اس کا مطلب کیا ہے؟ وہ بولا: مطلب یہ ہے کہ دیوار میں ایک سوراخ کرے ہوا آنے کے لیے۔ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے سنا عبیداللہ بن عمرو قواریری سے انہوں نے سنا ْ حماد بن زید سے، انہوں نے کہا ایک شخص سے، جب مہدی بن ہلال کئی دن تک بیٹھا یہ کیسا کھاری چشمہ ہے جو پھوٹا تمہاری طرف۔ وہ شخص بولا: ہاں اے ابواسماعیل۔
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَفَّانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَوَانَةَ، قَالَ: مَا بَلَغَنِي عَنِ الْحَسَنِ حَدِيثٌ، إِلَّا أَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ، فَقَرَأَهُ عَلَيَّ.
ابوعوانہ سے روایت ہے، مجھے حسن سے کوئی روایت نہیں پہنچی مگر میں نے پوچھا: ابان بن ابی عیاش سے اس نے پڑھا اس کو میرے سامنے۔
وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، نَحْوًا مِنْ أَلْفِ حَدِيثٍ، قَالَ عَلِيٌّ: " فَلَقِيتُ حَمْزَةَ فَأَخْبَرَنِي، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَا سَمِعَ مِنْ أَبَانَ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا شَيْئًا يَسِيرًا، خَمْسَةً أَوْ سِتَّةً،
علی بن مسہر سے روایت ہے میں نے اور حمزہ زیات نے ابان بن عیاش سے قریب ایک ہزار حدیثوں کے سنیں۔ علی نے کہا پھر میں حمزہ سے ملا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور جو کچھ ابان سے سنا تھا وہ آپ کو سنایا۔ آپ نے نہ پہچانا ان حدیثوں کو مگر تھوڑی حدیثیں قبول کیں پانچ یا چھ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ: اكْتُبْ عَنْ بَقِيَّةَ مَا رَوَى عَنِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا تَكْتُبْ عَنْهُ مَا رَوَى عَنْ غَيْرِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا تَكْتُبْ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، مَا رَوَى عَنِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا عَنْ غَيْرِهِمْ،
زکریا بن عدی نے کہا: مجھ سے کہا: ابو اسحاق فزاری (ابراہیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجہ کوفی) نے (جو حدیث کے بڑے امام اور ثقہ اور فاضل تھے) لکھ لے تو بقیہ (بن ولید) کی وہ حدیث جو روایت کرے وہ مشہور لوگوں سے اور مت لکھ اس حدیث کو جو روایت کرے مجہول لوگوں سے اور مت لکھ تو اسماعیل بن عیاش کی حدیث ہرگز اگرچہ وہ روایت کرے مشہور لوگوں سے بھی۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: نِعْمَ الرَّجُلُ بَقِيَّةُ، لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ يَكْنِي الْأَسَامِيَ وَيُسَمِّي الْكُنَى، كَانَ دَهْرًا يُحَدِّثُنَا، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْوُحَاظِيِّ، فَنَظَرْنَا فَإِذَا هُوَ وَعَبْدُ الْقُدُّوسِ،
عبداللہ بن مبارک نے کہا: بقیہ بن الولید اچھا آدمی تھا اگر وہ ناموں کو کنیت سے بیان نہ کرتا اور کنیت کو ناموں سے (یعنی بقیہ کی یہ عادت خراب ہے کہ تدلیس و تلبیس کرتا ہے۔ راویوں کا عیب چھپانے کے لئے نام کو کنیت سے بدل دیتا ہے اور کنیت کو نام سے تاکہ لوگ پہچانیں نہیں) ایک مدت تک ہم سے حدیث بیان کرتا تھا ابوسعید وحاظی سے۔ جب ہم نے غور کیا (کہ وحاظی کون شخص ہے) تو معلوم ہوا کہ وہ عبدالقدوس ہے۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّزَّاقِ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ يُفْصِحُ بِقَوْلِهِ كَذَّابٌ، إِلَّا لِعَبْدِ الْقُدُّوسِ، فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَهُ: كَذَّابٌ،
عبدالرزاق سے روایت ہے، عبداللہ بن مبارک کو میں نے نہیں سنا کسی کو صاف جھوٹا کہتے ہوئے مگر عبدالقدوس کے وہ کہتے تھے: جھوٹا ہے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ، وَذَكَرَ الْمُعَلَّى بْنَ عُرْفَانَ، فَقَال: قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا ابْنُ مَسْعُودٍ بِصِفِّينَ، فَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: أَتُرَاهُ بُعِثَ بَعْدَ الْمَوْتِ؟.
ابونعیم نے ذکر کیا معلّٰی بن عرفان کا تو کہا کہ معلّٰی نے کہا: مجھ سے حدیث بیان کی ابووائل نے کہ نکلے ہمارے سامنے عبداللہ بن مسعود صفین میں، ابونعیم نے کہا: شاید مر کر پھر قبر سے اٹھے ہوں گے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ عَفَّانَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ، فَحَدَّثَ رَجُلٌ عَنْ رَجُلٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِثَبْتٍ، قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: اغْتَبْتَهُ؟ قَالَ إِسْمَاعِيل: مَا اغْتَابَهُ، وَلَكِنَّهُ حَكَمَ أَنَّهُ لَيْسَ بِثَبْتٍ.
عفان بن مسلم سے روایت ہے، ہم اسمٰعیل بن علیہ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک حدیث روایت کی۔ میں نے کہا: وہ معتبر نہیں۔ وہ شخص بولا: تو نے اس کی غیبت کی۔ اسمٰعیل نے کہا: اس نے غیبت نہیں کی بلکہ حکم لگایا اس پر کہ وہ معتبر نہیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي يَرْوِي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ شُعْبَةَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ حَرَامِ بْنِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُ مَالِكًا، عَنْ هَؤُلَاءِ الْخَمْسَةِ، فَقَالَ: لَيْسُوا بِثِقَةٍ، فِي حَدِيثِهِمْ وَسَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ آخَرَ نَسِيتُ اسْمَهُ، فَقَالَ: هَلْ رَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لَوْ كَانَ ثِقَةً، لَرَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي
بشر بن عمر سے روایت ہے، میں نے امام مالک سے پوچھا: محمد بن عبدالرحمٰن کے متعلق جو روایت کرتا ہے سعید بن المیسب سے۔ انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہے اور پوچھا میں نے مالک بن انس سے ابوالحویرث کے متعلق۔ انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہے۔ اور پوچھا میں نے ان سے شعبہ کے متعلق جس سے روایت کرتا ہے ابن ابی ذئب، انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہے۔ اور پوچھا میں نے ان سے صالح کے متعلق جو مولٰی ہے توامہ کا۔ انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہے۔ اور پوچھا میں نے ان سے حرام بن عثمان کے متعلق۔ انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہے۔ اور پوچھا میں نے امام مالک سے ان پانچوں آدمیوں کے متعلق(جن کا ذکر اوپر گزرا) انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہیں اپنی حدیث میں۔ اور میں نے پوچھا ان سے ایک اور شخص کے متعلق جس کا نام میں بھول گیا تو انہوں نے کہا: تو نے اس کی روایت میری کتابوں میں دیکھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ امام مالک نے کہا: اگر وہ ثقہ ہوتا تو تُو اس کی روایت میری کتابوں میں دیکھتا۔
وحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ سَعْدٍ، وَكَانَ مُتَّهَمًا،
ابن ابی ذئب نے روایت کیا شرحبیل بن سعد سے اور وہ متہم ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق الطَّالَقَانِيّ َ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: لَوْ خُيِّرْتُ بَيْنَ أَنْ أَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ أَنْ أَلْقَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَرَّرٍ، لَاخْتَرْتُ أَنْ أَلْقَاهُ، ثُمَّ أَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ كَانَتْ بَعْرَةٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْهُ،
عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے، وہ کہتے تھے اگر مجھے اختیار دیا جاتا کہ جنت میں جاؤں یا عبداللہ بن محرر سے ملوں تو میں پہلے اس سے ملتا پھر جنت میں جاتا (ایسی اس کی تعریف سنتا تھا اور اس قدر اس سے ملنے کا اشتیاق تھا) پھر جب میں اس سے ملا۔ تو ایک اونٹ کی مینگنی مجھے اس سے بہتر معلوم ہوئی۔
حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا وَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أُنَيْسَةَ: لَا تَأْخُذُوا عَنْ أَخِي،
زید بن ابی انیسہ نے کہا: مت روایت کرو میرے بھائی سے۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ السَّلَامِ الْوَابِصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ يَحْيَي بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ كَذَّابًا.
عبیداللہ بن عمرو نے کہا: یحییٰ بن انیسہ جھوٹا تھا۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: ذُكِرَ فَرْقَد عِنْدَ أَيُّوبَ، فَقَالَ: إِنَّ فَرْقَدًا، لَيْسَ صَاحِبَ حَدِيثٍ،
حماد بن زید نے کہا: فرقد (بن یعقوب سنجی ابویعقوب) کا ذکر آیا ایوب کے سامنے۔ انہوں نے کہا: وہ صاحب حدیث نہیں۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، ذُكِرَ عِنْدَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيُّ، فَضَعَّفَهُ جِدًّا، فَقِيلَ لِيَحْيَى: أَضْعَفُ مِنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَطَاءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَحَدًا يَرْوِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْر ٍ،
عبدالرحمٰن بن بشر عبدی نے کہا: میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے سنا، ان کے سامنے ذکر آیا محمد بن عبیداللہ بن عبید بن عمیر لیثی کا تو انہوں نے بہت ضعیف کہا اس کو،کسی نے کہا: کیا وہ یعقوب بن عطاء سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر کہا کہ میں نہ سمجھتا تھا کہ کوئی محمد بن عبیداللہ بن عبید بن عمیر سے روایت کرے گا۔
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، ضَعَّفَ حَكِيمَ بْنَ جُبَيْرٍ وَعَبْدَ الأَعْلَى وَضَعَّفَ يَحْيَى مُوسَى بْنَ دِينَارٍ، قَالَ: حَدِيثُهُ رِيحٌ وَضَعَّفَ مُوسَى بْنَ دِهْقَانَ وَعِيسَى بْنَ أَبِي عِيسَى الْمَدَنِيّ،
بشر بن حکم سے روایت ہے، میں نے سنا یحییٰ بن سعید قطان سے (جو امام تھے حدیث کے) انہوں نے ضعیف کہا حکیم بن جبیر کو اور عبدالاعلیٰ (بن عامر ثعلبی) کو اور ضعیف کہا یحییٰ بن موسیٰ بن دینار کو اور کہا: حدیث اس کی مثل ہوا کے ہے اور موسیٰ بن دہقان کو اور عیسیٰ بن ابوعیسیٰ مدنی کو۔
قََالَ: وَسَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عِيسَى، يَقُولُ: قَالَ لِي ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا قَدِمْتَ عَلَى جَرِيرٍ، فَاكْتُبْ عِلْمَهُ كُلَّهُ، إِلَّا حَدِيثَ ثَلَاثَةٍ لَا تَكْتُبْ، حَدِيثَ عُبَيْدَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ، وَالسَّرِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيل، وَمُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ،
امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سنا حسن بن عیسیٰ سے، وہ کہتا تھا، مجھ سے کہا عبداللہ بن مبارک نے، جب تو جریر کے پاس جائے تو اس کا سارا علم لکھ (یعنی سب حدیثیں اس کی روایت کر) مگر تین آدمیوں کی حدیثیں مت لکھ عبیدہ بن معتب اور سری بن اسمٰعیل اور محمد بن سالم کی روایتیں۔
قَالَ مُسْلِم وَأَشْبَاهُ: مَا ذَكَرْنَا مِنْ كَلَامِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُتَّهَمِي رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَإِخْبَارِهِمْ، عَنْ مَعَايِبِهِمْ كَثِيرٌ يَطُولُ الْكِتَابُ بِذِكْرِهِ، عَلَى اسْتِقْصَائِهِ، وَفِيمَا ذَكَرْنَا كِفَايَةٌ لِمَنْ تَفَهَّمَ، وَعَقَلَ مَذْهَبَ الْقَوْمِ، فِيمَا قَالُوا مِنْ ذَلِكَ، وَبَيَّنُوا
امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا: اور اس کے مانند جو ہم نے ذکر کیا اہل حدیث کا کلام متہم راویوں میں اور ان کے عیوب بہت ہیں جس کے بیان کرنے سے کتاب لمبی ہو جائے گی اور جس قدر ہم نے بیان کیا وہ کافی ہے اس شخص کے لئے جو قوم کا مذہب سمجھ بوجھ جائے۔
وَإِنَّمَا أَلْزَمُوا أَنْفُسَهُمُ الْكَشْفَ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ، وَنَاقِلِي الأَخْبَارِ، وَأَفْتَوْا بِذَلِكَ حِينَ سُئِلُوا لِمَا فِيهِ مِنْ عَظِيمِ الْخَطَرِ، إِذْ الأَخْبَارُ فِي أَمْرِ الدِّينِ، إِنَّمَا تَأْتِي بِتَحْلِيلٍ، أَوْ تَحْرِيمٍ، أَوْ أَمْرٍ، أَوْ نَهْيٍ، أَوْ تَرْغِيبٍ، أَوْ تَرْهِيبٍ، فَإِذَا كَانَ الرَّاوِي لَهَا لَيْسَ بِمَعْدِنٍ لِلصِّدْقِ وَالأَمَانَةِ، ثُمَّ أَقْدَمَ عَلَى الرِّوَايَةِ عَنْهُ مَنْ قَدْ عَرَفَهُ، وَلَمْ يُبَيِّنْ مَا فِيهِ لِغَيْرِهِ مِمَّنْ جَهِلَ مَعْرِفَتَهُ، كَانَ آثِمًا بِفِعْلِهِ ذَلِكَ غَاشًّا لِعَوَامِّ الْمُسْلِمِينَ، إِذْ لَا يُؤْمَنُ عَلَى بَعْضِ مَنْ سَمِعَ تِلْكَ الأَخْبَارَ، أَنْ يَسْتَعْمِلَهَا، أَوْ يَسْتَعْمِلَ بَعْضَهَا، وَلَعَلَّهَا، أَوْ أَكْثَرَهَا أَكَاذِيبُ لَا أَصْلَ لَهَا، مَعَ أَنَّ الأَخْبَارَ الصِّحَاحَ مِنْ رِوَايَةِ الثِّقَاتِ وَأَهْلِ الْقَنَاعَةِ، أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى نَقْلِ مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَلَا مَقْنَعٍ،
اور حدیثوں کے اماموں نے راویوں کا عیب کھول دینا ضروری سمجھا اور اس بات کا فتویٰ دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا اس لئے کہ یہ بڑا اہم کام ہے۔ کیونکہ دین کی بات جب نقل کی جائے گی تو وہ کسی امر کے حلال ہونے کے لئے ہو گی یا حرام ہونے کے لئے یا اس میں کسی بات کا حکم ہو گا یا کسی بات کی ممانعت ہو گی یا کسی کام کی طرف رغبت دلائی جائے یا کسی کام سے ڈرایا جائے گا۔ بہرحال جب راوی سچا اور امانت دار نہ ہو پھر اس سے کوئی روایت کرے جو اس کے حال کو جانتا ہو اور وہ حال دوسرے سے بیان نہ کرے جو نہ جانتا ہو تو گنہگار ہو گا اور دھوکا دینے والا ہو گا عام مسلمانوں کو۔ اس لئے کہ بعض لوگ ان حدیثوں کو سنیں گے اور ان سب پر یا بعض پر عمل کریں گے اور شاید وہ سب یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہوں۔ (اور بعض نسخوں میں یہ ہے کہ ان میں کم یا بہت جھوٹی ہوں) جن کی اصل نہ ہو حالانکہ صحیح حدیثیں ثقہ لوگوں کی اور جن کی روایت پر قناعت ہو سکتی ہے کیا کم ہیں کہ بے اعتبار اور جن کی روایت پر قناعت نہیں ہو سکتی ان کی روایتوں کی احتیاج پڑے۔
وَلَا أَحْسِبُ كَثِيرًا مِمَّنْ يُعَرِّجُ مِنَ النَّاسِ، عَلَى مَا وَصَفْنَا مِنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ الضِّعَافِ، وَالأَسَانِيدِ الْمَجْهُولَةِ، وَيَعْتَدُّ بِرِوَايَتِهَا بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ بِمَا فِيهَا مِنَ التَّوَهُّنِ، وَالضَّعْفِ، إِلَّا أَنَّ الَّذِي يَحْمِلُهُ عَلَى رِوَايَتِهَا، وَالِاعْتِدَادِ بِهَا إِرَادَةُ التَّكَثُّرِ بِذَلِكَ عِنْدَ الْعَوَامِّ، وَلِأَنْ يُقَالَ: مَا أَكْثَرَ مَا جَمَعَ فُلَانٌ مِنَ الْحَدِيثِ، وَأَلَّفَ مِنَ الْعَدَدِ، وَمَنْ ذَهَبَ فِي الْعِلْمِ هَذَا الْمَذْهَبَ، وَسَلَكَ هَذَا الطَّرِيقَ، فَلَا نَصِيبَ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ بِأَنْ يُسَمَّى جَاهِلًا أَوْلَى مَنْ أَنْ يُنْسَبَ إِلَى عِلْمٍ
اور میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس قسم کی ضعیف حدیثیں اور مجہول سندیں نقل کی ہیں اور ان میں مصروف ہیں اور وہ جانتے ہیں ان کے ضعف کو، تو ان کی غرض یہ ہے کہ عوام کے نزدیک اپنا کثرت علم ثابت کریں اور اس لئے کہ لوگ کہیں سبحان اللہ! فلاں شخص نے کتنی زیادہ حدیثیں جمع کی ہیں۔ اور جس شخص کی یہ چال ہے اور اس کا یہ طریقہ ہے، اس کا علم، حدیث میں کچھ نہیں اور وہ جاہل کہلانے کا زیادہ سزاوار ہے عالم کہلانے سے۔
وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ مُنْتَحِلِي الْحَدِيثِ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا فِي تَصْحِيحِ الأَسَانِيدِ، وَتَسْقِيمِهَا، بِقَوْلٍ: لَوْ ضَرَبْنَا عَنْ حِكَايَتِهِ، وَذِكْرِ فَسَادِهِ صَفْحًا، لَكَانَ رَأْيًا مَتِينًا، وَمَذْهَبًا صَحِيحًا، إِذْ الْإِعْرَاضُ عَنِ الْقَوْلِ الْمُطَّرَحِ أَحْرَى، لِإِمَاتَتِهِ، وَإِخْمَالِ ذِكْرِ قَائِلِهِ، وَأَجْدَرُ أَنْ لَا يَكُونَ ذَلِكَ تَنْبِيهًا لِلْجُهَّالِ عَلَيْهِ، غَيْرَ أَنَّا لَمَّا تَخَوَّفْنَا مِنْ شُرُورِ الْعَوَاقِبِ وَاغْتِرَارِ الْجَهَلَةِ، بِمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ وَإِسْرَاعِهِمْ إِلَى اعْتِقَادِ خَطَإِ الْمُخْطِئِينَ، وَالأَقْوَالِ السَّاقِطَةِ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ رَأَيْنَا الْكَشْفَ عَنْ فَسَادِ قَوْلِهِ، وَرَدَّ مَقَالَتِهِ بِقَدْرِ مَا يَلِيقُ بِهَا مِنَ الرَّدِّ، أَجْدَى عَلَى الأَنَامِ، وَأَحْمَدَ لِلْعَاقِبَةِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ،
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں بعض ایسے لوگوں نے جنہوں نے جھوٹ موٹ اپنے تئیں محدث قرار دیا ہے، اسنا کی صحت اور سقم میں ایک قول بیان کیا ہے۔ اگر ہم بالکل اس کو نقل نہ کریں اور اس کا ابطال نہ لکھیں تو عمدہ تجویز ہو گی اور ٹھیک راستہ ہو گا اس لئے کہ غلط بات کی طرف التفات نہ کرنا اس کو مٹانے کے لئے اور اس کے کہنے والے کا نام کھودنے کے لئے بہتر ہے اور مناسب ہے جاہلوں کے لئے تاکہ ان کو خبر بھی نہ ہو اس غلط بات کی مگر اس وجہ سے کہ ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور یہ بات دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی بات پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کر لیتے ہیں جو علما کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے، ہم نے اس قول کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد و بطلان اور خرابیاں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا اور اس کا انجام بھی نیک ہو گا اگر اللہ عزوجل چاہے۔
وَزَعَمَ الْقَائِلُ الَّذِي افْتَتَحْنَا الْكَلَامَ عَلَى الْحِكَايَةِ، عَنْ قَوْلِهِ وَالإِخْبَارِ عَنْ سُوءِ رَوِيَّتِهِ، أَنَّ كُلَّ إِسْنَادٍ لِحَدِيثٍ فِيهِ فُلَانٌ عَنْ فُلَانٍ، وَقَدْ أَحَاطَ الْعِلْمُ بِأَنَّهُمَا قَدْ كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ وَجَائِزٌ، أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَى الرَّاوِي عَمَّنْ رَوَى عَنْهُ، قَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ وَشَافَهَهُ بِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَعْلَمُ لَهُ مِنْهُ سَمَاعًا، وَلَمْ نَجِدْ فِي شَيْءٍ مِنَ الرِّوَايَاتِ، أَنَّهُمَا الْتَقَيَا قَطُّ أَوْ تَشَافَهَا بِحَدِيثٍ، أَنَّ الْحُجَّةَ لَا تَقُومُ عِنْدَهُ بِكُلِّ خَبَرٍ جَاءَ هَذَا الْمَجِيءَ، حَتَّى يَكُونَ عِنْدَهُ الْعِلْمُ بِأَنَّهُمَا قَدِ اجْتَمَعَا مِنْ دَهْرِهِمَا مَرَّةً، فَصَاعِدًا، أَوْ تَشَافَهَا بِالْحَدِيثِ بَيْنَهُمَا، أَوْ يَرِدَ خَبَرٌ فِيهِ بَيَانُ اجْتِمَاعِهِمَا وَتَلَاقِيهِمَا مَرَّةً مِنْ دَهْرِهِمَا فَمَا فَوْقَهَا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ عِلْمُ ذَلِكَ، وَلَمْ تَأْتِ رِوَايَةٌ صَحِيحَةٌ تُخْبِرُ، أَنَّ هَذَا الرَّاوِيَ، عَنْ صَاحِبِهِ، قَدْ لَقِيَهُ مَرَّةً، وَسَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ فِي نَقْلِهِ الْخَبَرَ، عَمَّنْ رَوَى عَنْهُ عِلْمُ ذَلِكَ، وَالأَمْرُ كَمَا وَصَفْنَا حُجَّةٌ، وَكَانَ الْخَبَرُ عِنْدَهُ مَوْقُوفًا، حَتَّى يَرِدَ عَلَيْهِ سَمَاعُهُ مِنْهُ لِشَيْءٍ مِنَ الْحَدِيثِ قَلَّ أَوْ كَثُرَ فِي رِوَايَةٍ مِثْلِ مَا وَرَدَ
اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے گفتگو شروع کی اور جس کے فکر اور خیال کو ہم نے باطل کہا یوں گمان کیا ہے کہ جو اسناد ایسی ہو جس میں فلاں عن فلاں ہو اور یہ بات معلوم ہو گئی کہ وہ دونوں ایک زمانہ میں تھے اور ممکن ہو کہ یہ حدیث ایک نے دوسرے سے سنی ہو اور اس سے ملا ہو مگر ہم کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس نے اس سے سنا ہے، نہ ہم نے کسی روایت میں اس بات کی تصریح پائی کہ وہ دونوں ملے تھے اور ان میں منہ در منہ بات چیت ہوئی تھی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حجت نہیں ہے جب تک یہ بات معلوم نہ ہو کہ کم سے کم وہ دونوں اپنی عمر میں ایک بار ملے تھے اور ایک نے دوسرے سے بات چیت کی تھی یا ایسی کوئی حدیث روایت کی جائے جس میں اس امر کا بیان ہو کہ ان دونوں کی ملاقات ایک یا زیادہ بار ہوئی تھی۔ اگر اس بات کا علم نہ ہو اور نہ کوئی حدیث ایسی روایت کی جائے جس سے ملاقات اور سماع کا ثبوت ہو تو ایسی حدیث نقل کرنا جس سے ملاقات کا علم نہ ہو ایسی حالت میں حجت نہیں ہے اور وہ حدیث موقوف رہے گی، یہاں تک کہ ان دونوں کا سماع تھوڑا یا بہت دوسری روایت سے معلوم ہو۔
وَهَذَا الْقَوْلُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فِي الطَّعْنِ فِي الأَسَانِيدِ قَوْلٌ مُخْتَرَعٌ، مُسْتَحْدَثٌ، غَيْرُ مَسْبُوقٍ صَاحِبُهُ إِلَيْهِ، وَلَا مُسَاعِدَ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَيْهِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْقَوْلَ الشَّائِعَ الْمُتَّفَقَ عَلَيْهِ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ، بِالأَخْبَارِ، وَالرِّوَايَاتِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا، أَنَّ كُلَّ رَجُلٍ ثِقَةٍ، رَوَى عَنْ مِثْلِهِ حَدِيثًا وَجَائِزٌ، مُمْكِنٌ لَهُ لِقَاؤُهُ وَالسَّمَاعُ مِنْهُ، لِكَوْنِهِمَا جَمِيعًا كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فِي خَبَرٍ قَطُّ، أَنَّهُمَا اجْتَمَعَا وَلَا تَشَافَهَا بِكَلَامٍ، فَالرِّوَايَةُ ثَابِتَةٌ وَالْحُجَّةُ بِهَا لَازِمَةٌ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ هُنَاكَ دَلَالَةٌ بَيِّنَةٌ، أَنَّ هَذَا الرَّاوِيَ لَمْ يَلْقَ مَنْ رَوَى عَنْهُ، أَوْ لَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ شَيْئًا، فَأَمَّا وَالأَمْرُ مُبْهَمٌ عَلَى الإِمْكَانِ الَّذِي فَسَّرْنَا، فَالرِّوَايَةُ عَلَى السَّمَاعِ أَبَدًا، حَتَّى تَكُونَ الدَّلَالَةُ الَّتِي بَيَّنَّا،
اور یہ قول اسناد کے باب میں اللہ تجھ پر رحم کرے ایک نیا ایجاد کیا ہوا ہے جو پہلے کسی نے نہیں کہا نہ حدیث کے عالموں نے اس کی موافقت کی ہے اس لئے کہ مشہور مذہب جس پر اتفاق ہے اہل علم کا اگلے اور پچھلوں کا، وہ یہ ہے کہ جب کوئی ثقہ شخص کسی ثقہ شخص سے روایت کرے ایک حدیث کو اور ان دونوں کی ملاقات جائز اور ممکن ہو(باعتبار سن اور عمر کے) اس وجہ سے کہ وہ دونوں ایک زمانے میں موجود تھے اگرچہ کسی حدیث میں اس بات کی تصریح نہ ہو کہ وہ دونوں ملے تھے یا ان میں روبرو بات چیت ہوئی تھی تو وہ حدیث حجت ہے اور وہ روایت ثابت ہے۔ البتہ اگر اس امر کی وہاں کوئی کھلی دلیل ہو کہ درحقیقت یہ راوی دوسرے راوی سے نہیں ملا یا اس سے کچھ نہیں سنا تو وہ حدیث حجت نہ ہو گی لیکن جب تک یہ امر مبہم رہے (یعنی گول مول اور کوئی دلیل نہ سننے اور نہ ملنے کی نہ ہو) تو صرف ملاقات کا ممکن ہونا کافی ہو گا اور وہ روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔
فَيُقَالُ لِمُخْتَرِعِ هَذَا الْقَوْلِ، الَّذِي وَصَفْنَا مَقَالَتَهُ، أَوْ لِلذَّابِّ عَنْهُ، قَدْ أَعْطَيْتَ فِي جُمْلَةِ قَوْلِكَ، أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ الثِّقَةِ عَنِ الْوَاحِدِ، الثِّقَةِ حُجَّةٌ يَلْزَمُ بِهِ الْعَمَلُ، ثُمَّ أَدْخَلْتَ فِيهِ الشَّرْطَ بَعْدُ، فَقُلْتَ: حَتَّى نَعْلَمَ أَنَّهُمَا قَدْ كَانَا الْتَقَيَا مَرَّةً فَصَاعِدًا أَوْ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا، فَهَلْ تَجِدُ هَذَا الشَّرْطَ الَّذِي اشْتَرَطْتَهُ عَنْ أَحَدٍ يَلْزَمُ قَوْلُهُ وَإِلَّا فَهَلُمَّ دَلِيلًا عَلَى مَا زَعَمْتَ،
پھر جس شخص نے یہ قول نکالا ہے یا اس کی حمایت کرتا ہے اس سے یوں گفتگو کریں گے کہ خود تیرے ہی سارے کلام سے یہ بات نکلی کہ ایک ثقہ شخص کی روایت دوسرے ثقہ شخص سے حجت ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے۔ پھر تو نے خود ایک شرط بعد میں بڑھا دی کہ جب یہ بات معلوم ہو جائے کہ وہ دونوں اپنی عمر میں ایک بار ملے تھے یا زیادہ اور ایک نے دوسرے سنا تھا۔ اب اس شرط کا ثبوت کسی ایسے شخص کے قول سے پانا ہے جس کا ماننا ضروری ہو۔ اگر ایسا قول نہیں ہے تو اور کوئی دلیل اپنے دعوے پر لانا۔
فَإِنِ ادَّعَى قَوْلَ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ السَّلَفِ، بِمَا زَعَمَ مِنْ إِدْخَالِ الشَّرِيطَةِ فِي تَثْبِيتِ الْخَبَرِ طُولِبَ بِهِ، وَلَنْ يَجِدَ هُوَ وَلَا غَيْرُهُ إِلَى إِيجَادِهِ سَبِيلًا، وَإِنْ هُوَ ادَّعَى فِيمَا زَعَمَ دَلِيلًا يَحْتَجُّ بِهِ، قِيلَ لَهُ: وَمَا ذَاكَ الدَّلِيلُ؟
اگر وہ یہ کہے کہ اس باب میں سلف کا قول ہے یعنی اس شرط کے ثبوت کے لئے تو کہا جائے گا کہاں ہے؟ لا! پھر نہ اس کو کوئی قول ملے گا اور نہ کسی اور کو۔ اور اگر وہ اور کوئی دلیل قائم کرنا چاہے تو پوچھیں گے وہ دلیل کیا ہے؟
فَإِنْ، قَالَ: قُلْتُهُ لِأَنِّي وَجَدْتُ رُوَاةَ الأَخْبَارِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا، يَرْوِي أَحَدُهُمْ عَنِ الآخَرِ الْحَدِيثَ، وَلَمَّا يُعَايِنْهُ، وَلَا سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا قَطُّ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمُ اسْتَجَازُوا رِوَايَةَ الْحَدِيثِ بَيْنَهُمْ هَكَذَا عَلَى الإِرْسَالِ مِنْ غَيْرِ سَمَاعٍ، وَالْمُرْسَلُ مِنَ الرِّوَايَاتِ فِي أَصْلِ قَوْلِنَا، وَقَوْلِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالأخْبَارِ لَيْسَ بِحُجَّةٍ احْتَجْتُ، لِمَا وَصَفْتُ مِنَ الْعِلَّةِ إِلَى الْبَحْثِ عَنْ سَمَاعِ رَاوِي كُلِّ خَبَرٍ، عَنْ رَاوِيهِ، فَإِذَا أَنَا، هَجَمْتُ عَلَى سَمَاعِهِ مِنْهُ لِأَدْنَى شَيْءٍ ثَبَتَ عَنْهُ عِنْدِي بِذَلِكَ جَمِيعُ مَا يَرْوِي عَنْهُ بَعْدُ، فَإِنْ عَزَبَ عَنِّي مَعْرِفَةُ ذَلِك أَوْقَفْتُ الْخَبَرَ، وَلَمْ يَكُنْ عِنْدِي مَوْضِعَ حُجَّةٍ لِإِمْكَانِ الإِرْسَالِ فِيهِ،
پھر اگر وہ شخص یہ کہے: میں نے یہ مذہب اس لئے اختیار کیا ہے کہ میں نے حدیث کے تمام اگلے اور پچھلے راویوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے حدیث روایت کرتے ہیں حالانکہ اس ایک نے دوسرے کو دیکھا ہے نہ اس سے سنا تو جب میں نے دیکھا کہ انہوں نے جائز رکھا ہے مرسل کو روایت کرنا بغیر سماع کے اور مرسل روایت ہمارے اور علم والوں کے نزدیک حجت نہیں ہے تو احتیاج پڑی مجھ کو راوی کے سماع دیکھنے کی جس کو وہ روایت کرتا ہے دوسرے سے۔ پھر اگر مجھے کہیں ذرا بھی ثابت ہو گیا کہ اس نے سنا ہے دوسرے راوی سے تو اس کی تمام روایتیں اس سے درست ہو گئیں۔ اگر بالکل مجھے معلوم نہ ہوا کہ اس نے اس سے سنا ہے تو میں روایت کو موقوف رکھوں گا اور میرے نزدیک وہ روایت حجت نہ ہو گی اس لئے کہ ممکن ہے اس کا مرسل ہونا (دلیل ہوئی مخالف کی۔ اب اس کا جواب آگے مذکور ہوتا ہے)۔
فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنْ كَانَتِ الْعِلَّةُ فِي تَضْعِيفِكَ الْخَبَرَ وَتَرْكِكَ الِاحْتِجَاجَ بِهِ، إِمْكَانَ الْإِرْسَالِ فِيهِ، لَزِمَكَ أَنْ لَا تُثْبِتَ إِسْنَادًا مُعَنْعَنًا، حَتَّى تَرَى فِيهِ السَّمَاعَ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ. وَذَلِكَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْوَارِدَ عَلَيْنَا بِإِسْنَادِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عائشة َ، فَبِيَقِينٍ نَعْلَمُ، أَنَّ هِشَامًا قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ، وَأَنَّ أَبَاهُ قَدْ سَمِعَ مِنْ عائشة كَمَا نَعْلَمُ، أَنَّ عائشة قَدْ سَمِعَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ يَجُوزُ إِذَا لَمْ يَقُلْ هِشَامٌ فِي رِوَايَةٍ يَرْوِيهَا، عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتُ، أَوْ أَخْبَرَنِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَبِيهِ فِي تِلْكَ الرِّوَايَةِ إِنْسَانٌ آخَرُ أَخْبَرَهُ بِهَا، عَنْ أَبِيهِ وَلَمْ يَسْمَعْهَا هُوَ مِنْ أَبِيهِ، لَمَّا أَحَبَّ أَنْ يَرْوِيَهَا مُرْسَلًا وَلَا يُسْنِدَهَا إِلَى مَنْ سَمِعَهَا مِنْهُ، وَكَمَا يُمْكِنُ ذَلِكَ فِي هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ أَيْضًا مُمْكِنٌ فِي أَبِيهِ، عَنْ عائشة، وَكَذَلِكَ كُلُّ إِسْنَادٍ لِحَدِيثٍ لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ سَمَاعِ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ، وَإِنْ كَانَ قَدْ عُرِفَ فِي الْجُمْلَةِ، أَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ قَدْ سَمِعَ مِنْ صَاحِبِهِ سَمَاعًا كَثِيرًا، فَجَائِزٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَنْ يَنْزِلَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَةِ، فَيَسْمَعَ مِنْ غَيْرِهِ عَنْهُ بَعْضَ أَحَادِيثِهِ، ثُمَّ يُرْسِلَهُ عَنْهُ أَحْيَانًا، وَلَا يُسَمِّيَ مَنْ سَمِعَ مِنْهُ، وَيَنْشَطَ أَحْيَانًا، فَيُسَمِّيَ الرَّجُلَ الَّذِي حَمَلَ عَنْهُ الْحَدِيثَ وَيَتْرُكَ الإِرْسَالَ،
تو اس سے کہا جائے گا اگر تیرے نزدیک حدیث کو ضعیف کرنے کی اور اس کو حجت نہ سمجھنے کی علت صرف ارسال کا ممکن ہونا ہے (جیسے اس نے خود کہا کہ جب سماع ثابت نہ ہو تو وہ روایت حجت نہ ہو گی کیونکہ ممکن ہے اس کا مرسل ہونا) تو لازم آتا ہے کہ تو کسی اسناد معنعن کو نہ مانے جب تک اول سے لے کر آخر تک اس میں تصریح نہ ہو سماع کی (یعنی ہر راوی دوسرے سے یوں روایت کرے کہ میں نے اس سے سنا) مثلاً جو حدیث ہم کو پہنچی ہشام کی روایت سے، اس نے اپنے باپ عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے جیسے ہم اس بات کو بالیقین جانتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے باوجود اس کے احتمال ہے کہ اگر کسی روایت میں ہشام یوں نہ کہے کہ میں نے عروہ سے سنا ہے یا عروہ نے مجھے خبر دی (بلکہ صرف «عن عروه» کہے) تو ہشام اور عروہ کے بیچ میں ایک اور شخص ہو جس نے عروہ سے سن کر ہشام کو خبر دی ہو اور خود ہشام نے اپنے باپ سے اس روایت کو نہ سنا ہو لیکن ہشام نے اس کو مرسلاً روایت کرنا چاہا اور جس کے ذریعہ سے سنا اس کا ذکر مناسب نہ جانا۔ اور جیسے یہ احتمال ہشام اور عروہ کے بیچ میں ہے، ویسے ہی عروہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک اسناد میں جس میں سماع کی تصریح نہیں اگرچہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ ایک نے دوسرے سے بہت سی روایتیں سنی ہیں۔ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ بعض روایتیں اس سے نہ سنی ہوں بلکہ کسی اور کے ذریعہ سے سن کر اس کو مرسلاً نقل کیا ہو پر جس کے ذریعہ سے سنا اس کا نام نہ لیا اور کبھی اس اجماع کو رفع کرنے کے لیے اس کا نام بھی لے دیا اور ارسال کو ترک کیا۔
وَمَا قُلْنَا: مِنْ هَذَا مَوْجُودٌ فِي الْحَدِيثِ، مُسْتَفِيضٌ مِنْ فِعْلِ ثِقَاتِ الْمُحَدِّثِينَ، وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ؟ وَسَنَذْكُرُ مِنْ رِوَايَاتِهِمْ عَلَى الْجِهَةِ الَّتِي ذَكَرْنَا، عَدَدًا يُسْتَدَلُّ بِهَا عَلَى أَكْثَرَ مِنْهَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، فَمِنْ ذَلِكَ.أَنَّ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيَّ وَابْنَ الْمُبَارَكِ وَوَكِيعًا وَابْنَ نُمَيْرٍ وَجَمَاعَةً غَيْرَهُمْ رَوَوْا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِحِلِّهِ وَلِحِرْمِهِ بِأَطْيَبِ مَا أَجِد، فَرَوَى هَذِهِ الرِّوَايَةَ بِعَيْنِهَا، اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَدَاوُدُ الْعَطَّارُ وَحُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ وَوُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ احتمال جو ہم نے بیان کیا (صرف فرضی اور خیالی نہیں ہے) بلکہ موجود ہے حدیث میں اور جاری ہے بہت سے ثقہ محدثین کی روایتوں میں۔ ہم تھوڑی سی ایسی روایتیں بیان کرتے ہیں اللہ چاہے تو ان سے دلیل پوری ہو گی بہت سی روایتوں پر۔ پہلی روایت وہ ہے جو ایوب سختیانی اور ابن مبارک اور وکیع اور ابن نمیر اور ایک جماعت نے سوائے ان کے ہشام سے نقل کی، اس نے اپنے باپ عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ میں خوشبو لگاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولتے وقت اور احرام باندھتے وقت جو سب سے عمدہ مجھ کو ملتی۔ اسی روایت کو بعینہ لیث بن سعد اور داؤد عطار اور حمید بن الاسود اور وہیب بن خالد اور ابواسامہ نے ہشام سے روایت کیا۔ ہشام نے کہا: خبر دی مجھ کو عثمان بن عروہ نے، اس نے عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
وَرَوَى هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا اعْتَكَفَ، يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ، فَأُرَجِّلُهُ، وَأَنَا حَائِضٌ، فَرَوَاهَا بِعَيْنِهَا مَالِكُ بْن أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
دوسری روایت ہشام کی ہے، اپنے باپ عروہ سے، اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میری طرف جھکا دیتے۔ میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیتی حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔ اسی روایت کو بعینہ امام مالک رحمہ اللہ نے زہری سے روایت کیا ہے۔ اس نے عروہ سے، اس نے عمرہ سے، اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
وَرَوَى الزُّهْرِيُّ وَصَالِحُ بْنُ أَبِي حَسَّانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ، فَقَالَ يَحْيَي بْنُ أَبِي كَثِيرٍ فِي هَذَا الْخَبَرِ فِي الْقُبْلَةِ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ "،
تیسری روایت وہ ہے جو زہری اور صالح بن ابی حسان نے ابوسلمہ سے نقل کیا اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے اور آپ روزہ دار ہوتے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے اس بوسے کی حدیث کو یوں روایت کیا خبر دی مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، ان کو خبر دی عمر بن عبدالعزیز نے ان کو خبر دی عروہ نے ان کو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بوسہ لیتے اور آپ روازہ دار ہوتے۔
وَرَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَار ٍ، عَنْ جَابِر، قَالَ: " أَطْعَمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لُحُومَ الْخَيْلِ، وَنَهَانَا عَنْ لُحُومِ الْحُمُر " ِ، فَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا النَّحْوُ فِي الرِّوَايَاتِ كَثِيرٌ، يَكْثُرُ تَعْدَادُهُ، وَفِيمَا ذَكَرْنَا مِنْهَا، كِفَايَةٌ لِذَوِي الْفَهْمِ،
چوتھی روایت وہ ہے جو سفیان بن عیینہ وغیرہ نے عمرو بن دینار سے کی، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو کھلایا گھوڑوں کا گوشت اور منع کیا پالتو گدھوں کے گوشت سے۔ اسی حدیث کو روایت کیا حماد بن زید نے عمرو سے، انہوں نے محمد بن علی (یعنی امام باقر) سے، انہوں نے جابر سے (تو حماد بن زید نے عمرو بن دینار اور جابر کے بیچ میں ایک واسطہ اور نقل کیا محمد بن علی کا جو پہلی اسناد میں نہیں) اور اسی قسم کی حدیثیں بہت ہیں جن کا شمار کثیر ہے اور جتنی ہم نے بیان کیں وہ سمجھنے والوں کے لیے کافی ہیں۔
فَإِذَا كَانَتِ الْعِلَّةُ عِنْدَ مَنْ وَصَفْنَا، قَوْلَهُ مِنْ قَبْلُ فِي فَسَادِ الْحَدِيثِ وَتَوْهِينِهِ، إِذَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّ الرَّاوِيَ قَدْ سَمِعَ مِمَّنْ رَوَى عَنْهُ شَيْئًا إِمْكَانَ الإِرْسَالَ فِيهِ، لَزِمَهُ تَرْكُ الِاحْتِجَاجِ فِي قِيَادِ قَوْلِهِ بِرِوَايَةِ مَنْ يُعْلَمُ، أَنَّهُ قَدْ سَمِعَ مِمَّنْ رَوَى عَنْهُ، إِلَّا فِي نَفْسِ الْخَبَرِ الَّذِي فِيهِ ذِكْرُ السَّمَاعِ لِمَا بَيَّنَّا مِنْ قَبْلُ، عَنِ الأَئِمَّةِ الَّذِينَ نَقَلُوا الأَخْبَارَ، أَنَّهُمْ كَانَتْ لَهُمْ تَارَاتٌ يُرْسِلُونَ فِيهَا الْحَدِيثَ إِرْسَالًا، وَلَا يَذْكُرُونَ مَنْ سَمِعُوهُ مِنْهُ، وَتَارَاتٌ يَنْشَطُونَ فِيهَا فَيُسْنِدُونَ الْخَبَرَ عَلَى هَيْئَةِ مَا سَمِعُوا، فَيُخْبِرُونَ بِالنُّزُولِ فِيهِ إِنْ نَزَلُوا، وَبِالصُّعُودِ إِنْ صَعِدُوا، كَمَا شَرَحْنَا ذَلِكَ عَنْهُمْ،
پھر جب علت اس شخص کے نزدیک جس کا قول ہم نے اوپر بیان کیا حدیث کی خرابی اور توہیں کی یہ ہوئی کہ ایک راوی کا سماع جب دوسرے راوی سے معلوم نہ ہو تو ارسال ممکن ہے تو اس کے قول کے بموجب اس کو لازم آتا ہے ترک کرنا حجت کا ان روایتوں کے ساتھ جن کے راوی کا سماع دوسرے سے معلوم ہو چکا ہے (لیکن خاص اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں) البتہ اس شخص کے نزدیک صرف وہی روایت حجت ہو گی جس میں سماع کی تصریح ہے کیوں کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں کہ حدیث روایت کرنے والے اماموں کا حال مختلف ہوتا ہے کبھی تو وہ ارسال کرتے اور جس سے انہوں نے سنا ہو اس کا نام نہیں لیتے اور کبھی خوش ہوتے اور حدیث کی پوری اسناد جس طرح سے انہوں نے سنا ہے، بیان کر دیتے پھر اگر ان کو اتار ہوتا تو اتار بتلاتے اور جو چڑھاؤ ہوتا چڑھاؤ بتلاتے جیسے ہم اوپر صاف بیان کر چکے ہیں۔
وَمَا عَلِمْنَا أَحَدًا مِنْ أَئِمَّةِ السَّلَفِ، مِمَّنْ يَسْتَعْمِلُ الأَخْبَارَ، وَيَتَفَقَّدُ صِحَّةَ الأَسَانِيدِ وَسَقَمَهَا، مِثْلَ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَابْنِ عَوْنٍ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، فَتَّشُوا عَنْ مَوْضِعِ السَّمَاعِ فِي الأَسَانِيدِ، كَمَا ادَّعَاهُ الَّذِي وَصَفْنَا قَوْلَهُ مِنْ قَبْلُ، وَإِنَّمَا كَانَ تَفَقُّدُ مَنْ تَفَقَّدَ مِنْهُمْ، سَمَاعَ رُوَاةِ الْحَدِيثِ مِمَّنْ رَوَى عَنْهُمْ، إِذَا كَانَ الرَّاوِي مِمَّنْ عُرِفَ بِالتَّدْلِيسِ فِي الْحَدِيثِ وَشُهِرَ بِهِ، فَحِينَئِذٍ يَبْحَثُونَ عَنْ سَمَاعِهِ فِي رِوَايَتِهِ، وَيَتَفَقَّدُونَ
اور ہم نے سلف کے اماموں میں سے جو حدیث کو استعمال کرتے تھے اور اسناد کی صحت اور سقم کو دریافت کرتے تھے جیسے ابوب سختیانی اور ابن عون اور مالک بن انس اور شعبہ بن حجاج اور یحییٰ بن سعید قطان اور عبدالرحمٰن بن مہدی اور جو ان کے بعد ہیں کسی کو نہیں سنا کہ وہ اسناد میں سماع کی تحقیق کرتے ہوں جیسے یہ شخص دعویٰ کرتا ہے جس کا قول اوپر ہم نے بیان کیا۔ البتہ جنہوں نے ان میں سے راویوں کے سماع کی تحقیق کی ہے تو وہ ان راویوں کے جو مشہور ہیں تدلس میں۔ اس وقت بے شک ایسے راویوں کے سماع سے بحث کرتے ہیں اور اس کی دریافت کرتے ہیں تاکہ ان سے تدلیس کا مرض دور ہو جائے لیکن سماع کی تحقیق اس راوی میں جو مدلس نہ ہو جس طرح اس شخص نے بیان کیا تو یہ ہم نے کسی امام سے نہیں سنا ان اماموں میں سے جن کا ذکر ہم نے کیا اور جن کا نہیں کیا۔
ذَلِكَ مِنْهُ كَيْ تَنْزَاحَ عَنْهُمْ عِلَّةُ التَّدْلِيسِ، فَمَنِ ابْتَغَى ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ مُدَلِّسٍ عَلَى الْوَجْهِ الَّذِي زَعَمَ مَنْ حَكَيْنَا قَوْلَهُ، فَمَا سَمِعْنَا ذَلِكَ عَنْ أَحَدٍ مِمَّنْ سَمَّيْنَا، وَلَمْ نُسَمِّ مِنِ الأَئِمَّةِ. فَمِنْ ذَلِكَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الأَنْصَارِيَّ، وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوَى، عَنْ حُذَيْفَةَ وَعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، وَعَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدِيثًا يُسْنِدُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْهُمَا ذِكْرُ السَّمَاعِ مِنْهُمَا، وَلَا حَفِظْنَا فِي شَيْءٍ مِنَ الرِّوَايَاتِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ شَافَهَ حُذَيْفَةَ وَأَبَا مَسْعُودٍ بِحَدِيثٍ قَطُّ، وَلَا وَجَدْنَا ذِكْرَ رُؤْيَتِهِ إِيَّاهُمَا فِي رِوَايَةٍ بِعَيْنِهَا، وَلَمْ نَسْمَعْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِمَّنْ مَضَى وَلَا مِمَّنْ أَدْرَكْنَا، أَنَّهُ طَعَنَ فِي هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ اللَّذَيْنِ رَوَاهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ حُذَيْفَةَ وَأَبِي مَسْعُودٍ، بِضَعْفٍ فِيهِمَا، بَلْ هُمَا وَمَا أَشْبَهَهُمَا عِنْدَ مَنْ لَاقَيْنَا مَنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ مِنْ صِحَاحِ الأَسَانِيدِ، وَقَوِيِّهَا يَرَوْنَ اسْتِعْمَالَ مَا نُقِلَ بِهَا، وَالِاحْتِجَاجَ بِمَا أَتَتْ مِنْ سُنَنٍ، وَآثَارٍ وَهِيَ فِي زَعْمِ مَنْ حَكَيْنَا قَوْلَهُ مِنْ قَبْلُ وَاهِيَةٌ مُهْمَلَةٌ، حَتَّى يُصِيبَ سَمَاعَ الرَّاوِي عَمَّنْ رَوَى،
اس قسم کی روایت میں سے عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے (جو خود صحابی ہیں) انہوں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور روایت کی ہے حذیفہ بن الیمان اور ابومسعود (عقبہ بن عمرو انصاری بدری) سے، ہر ایک سے ایک ایک حدیث کو جس کو انہوں نے مسند کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک، مگر ان روایتوں میں اس بات کی تصریح نہیں کہ عبداللہ بن یزید نے سنا ان دونوں سے (یعنی حذیفہ اور ابومسعود سے سنا) اور نہ کسی روایت میں ہم نے یہ بات پائی کہ عبداللہ، حذیفہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہم سے روبرو ملے اور ان سے کوئی حدیث سنی اور نہ کہیں ہم نے پایا کہ عبداللہ نے ان دونوں کو دیکھا کسی خالص روایت میں (مگر چونکہ عبداللہ خود صحابی تھے) اور اس کا سن اتنا تھا کہ ملاقات ان کی حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ سے ممکن ہے اس لیے روایت عن کے ساتھ محمول ہے اتصال پر تو صرف امکان ملاقات کافی ہوا جیسے امام مسلم کا مذہب ہے اور کسی علم والے سے نہیں سنا گیا نہ اگلے لوگوں سے، نہ ان سے جن سے ہم ملے ہیں کہ انہوں نے طعن کیا ہو ان دونوں حدیثوں میں جن کو عبداللہ نے روایت کیا حذیفہ اور ابی مسعود رضی اللہ عنہما سے کہ یہ ضعیف ہیں بلکہ یہ حدیثیں اور جو ان کے مشابہ ہیں صحیح حدیثوں میں سے ہیں اور قوی ہیں ان اماموں کے نزدیک جن سے ہم ملے ہیں اور وہ ان کا استعمال جائز رکھتے ہیں اور ان سے حجت لیتے ہیں حالانکہ یہی حدیثیں اس شخص کے نزدیک جس کا قول اوپر ہم نے بیان کیا (جو ثبوت ملاقات شرط کرتا ہے) واہی ہیں اور بےکار ہیں جب تک سماع عبداللہ کا حذیفہ اور ابو مسعود سے متحقق نہ ہو۔
وَلَوْ ذَهَبْنَا نُعَدِّدُ الأَخْبَارَ الصِّحَاحَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِمَّنْ يَهِنُ بِزَعْمِ هَذَا الْقَائِلِ، وَنُحْصِيهَا لَعَجَزْنَا عَنْ تَقَصِّي ذِكْرِهَا، وَإِحْصَائِهَا كُلِّهَا، وَلَكِنَّا أَحْبَبْنَا، أَنْ نَنْصِبَ مِنْهَا عَدَدًا يَكُونُ سِمَةً لِمَا سَكَتْنَا عَنْهُ مِنْهَا.
اور اگر ہم سب ایسی حدیثوں کو، جو اہل علم کے نزدیک صحیح ہیں اور اس شخص کے نزدیک ضعیف ہیں، بیان کریں تو ان کا ذکر کرتے کرتے ہم تھک جائیں گے (اس قدر کثرت سے ہیں) لیکن ہم چاہتے ہیں کہ تھوڑی ان میں سے بیان کریں تاکہ باقی کے لئے وہ نمونہ ہوں۔
وَهَذَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ وَأَبُو رَافِعٍ الصَّائِغُ، وَهُمَا مَنْ أَدْرَكَ الْجَاهِلِيَّةَ وَصَحِبَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنَ الْبَدْرِيِّينَ هَلُمَّ جَرًّا، وَنَقَلَا عَنْهُمُ الأَخْبَارَ، حَتَّى نَزَلَا إِلَى مِثْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَذَوِيهِمَا، قَدْ أَسْنَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدِيثًا وَلَمْ نَسْمَعْ فِي رِوَايَةٍ بِعَيْنِهَا، أَنَّهُمَا عَايَنَا أُبَيًّا أَوْ سَمِعَا مِنْهُ شَيْئًا،
ابو عثمان نہدی (عبدالرحمٰن بن مل جو ایک سو تیس برس کے ہو کر مرے) اور ابورافع صائغ (نقیع مدنی) ان دونوں نے زمانہ جاہلیت کا پایا ہے (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر نہ ہوئی ایسے لوگوں کو مخضرم کہتے ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے بدری صحابیوں سے ملے ہیں اور روایتیں کی ہیں۔ پھر ان سے ہٹ کر اور صحابہ سے یہاں تک کہ ابوہریرہ اور ابن عمر اور ان کے مانند صحابیوں سے، ان میں سے ہر ایک نے ایک حدیث ابی بن کعب سے روایت کی ہے، انہوں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے حالانکہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوئی کہ ان دونوں نے ابی بن کعب کو دیکھا یا ان سے کچھ سنا۔
وَأَسْنَدَ أَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ وَهُوَ مِمَّنْ أَدْرَكَ الْجَاهِلِيَّةَ، وَكَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، وَأَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَيْنِ، وَأَسْنَدَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، وَعُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ وُلِدَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسْنَدَ قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَقَدْ أَدْرَكَ زَمَنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَخْبَارٍ، وَأَسْنَدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى وَقَدْ حَفِظَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَصَحِبَ عَلِيًّا، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، وَأَسْنَدَ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، وَقَدْ سَمِعَ رِبْعِيٌّ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَرَوَى عَنْهُ، وَأَسْنَدَ نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، وَأَسْنَدَ النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ثَلَاثَةَ أَحَادِيثَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسْنَدَ عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، وَأَسْنَدَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، وَأَسْنَدَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ،
اور ابوعمرو شیبانی (سعد بن ایاس) نے جس نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے اور وہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جوان مرد تھا اور ابومعمر عبداللہ بن سنجرہ نے ہر ایک نے ان میں سے دو دو حدیثیں ابومسعود انصاری سے روایت کیں، انہوں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے اور عبید بن عمیر نے، ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث روایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور عبید پیدا ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور قیس بن ابی حازم نے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے ابومسعود انصاری سے تین حدیثیں روایت کیں اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی نے جس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہا۔ ایک حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور ربعی بن حراش نے عمران بن حصین سے دو حدیثیں روایت کیں، انہوں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوبکرہ سے ایک حدیث، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ربعی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ان سے روایت کی ہے اور نافع بن جبیر بن مطعم نے ابوشریح خزاعی سے ایک حدیث روایت کی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نعمان بن ابی عیاش نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے تین حدیثیں روایت کیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور عطاء بن یزید لیثی نے تمیم داری سے ایک حدیث روایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے اور سلیمان بن یسار نے رافع بن خدیج سے ایک حدیث روایت کی انہوں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے اور عبید بن عبدالرحمٰن حمیری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کئی حدیثیں روایت کیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
فَكُلُّ هَؤُلَاءِ التَّابِعِينَ الَّذِينَ نَصَبْنَا رِوَايَتَهُمْ، عَنِ الصَّحَابَةِ الَّذِينَ سَمَّيْنَاهُمْ، لَمْ يُحْفَظْ عَنْهُمْ سَمَاعٌ عَلِمْنَاهُ مِنْهُمْ، فِي رِوَايَةٍ بِعَيْنِهَا، وَلَا أَنَّهُمْ لَقُوهُمْ فِي نَفْسِ خَبَرٍ بِعَيْنِهِ، وَهِيَ أَسَانِيدُ عِنْدَ ذَوِي الْمَعْرِفَةِ بِالأَخْبَارِ، وَالرِّوَايَاتِ مِنْ صِحَاحِ الأَسَانِيدِ، لَا نَعْلَمُهُمْ وَهَّنُوا مِنْهَا شَيْئًا قَطُّ، وَلَا الْتَمَسُوا فِيهَا سَمَاعَ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ، إِذْ السَّمَاعُ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُمْكِنٌ مِنْ صَاحِبِهِ، غَيْرُ مُسْتَنْكَرٍ لِكَوْنِهِمْ جَمِيعًا كَانُوا فِي الْعَصْرِ الَّذِي اتَّفَقُوا فِيهِ، وَكَانَ هَذَا الْقَوْلُ الَّذِي أَحْدَثَهُ الْقَائِلُ الَّذِي حَكَيْنَاهُ، فِي تَوْهِينِ الْحَدِيثِ بِالْعِلَّةِ الَّتِي وَصَفَ أَقَلَّ مِنْ أَنْ يُعَرَّجَ عَلَيْهِ، وَيُثَارَ ذِكْرُهُ إِذْ كَانَ قَوْلًا مُحْدَثًا، وَكَلَامًا خَلْفًا لَمْ يَقُلْهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ سَلَفَ، وَيَسْتَنْكِرُهُ مَنْ بَعْدَهُمْ خَلَفَ، فَلَا حَاجَةَ بِنَا فِي رَدِّهِ بِأَكْثَرَ مِمَّا شَرَحْنَا، إِذْ كَانَ قَدْرُ الْمَقَالَةِ، وَقَائِلِهَا الْقَدْرَ الَّذِي وَصَفْنَاهُ، وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى دَفْعِ مَا خَالَفَ مَذْهَبَ الْعُلَمَاءِ، وَعَلَيْهِ التُّكْلَانُ.
پھر یہ سب تابعین رحمہ اللہ علیہم جنہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا، ان کا سماع ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے کسی معین روایت میں معلوم نہیں ہوا، نہ ملاقات ہی ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ روایت سے ظاہر ہوئی باوجود اس کے یہ سب روایتیں حدیث اور روایت کے پہچاننے والوں کے نزدیک (یعنی ائمہ حدیث کے نزدیک) صحیح السند ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ کسی نے ان میں سے کسی روایت کو ضعیف کہا ہو یا اس میں سماع کی تلاش کی ہو، اس لیے کہ سماع ممکن ہے اس کا انکار نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دونوں ایک زمانہ میں موجود تھے اور یہ قول جس کو اس شخص نے نکالا ہے جس کا بیان اوپر ہم نے کیا حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے اس علت کی وجہ سے مذکور ہوئی اس لائق بھی نہیں کہ اس طرف التفات کریں یا اس کا ذکر کریں، اس لئے کہ یہ قول نیا نکالا ہوا ہے اور غلط اور فاسد ہے کوئی اہل علم سلف میں سے اس کا قائل نہیں ہوا۔ اور جو لوگ سلف کے بعد گزرے انہوں نے اس کا انکار کیا تو اس سے اس کے رد کرنے کی حاجت نہیں۔ جب اس قول کی اور اس کے کہنے والے کی یہ وقعت ہے جیسے بیان ہوئی اور اللہ مدد کرنے والا ہے اس بات کو رد کرنے کے لئے جو عالموں کے مذہب کے خلاف ہے اور اسی پر بھروسا ہے۔ تمام ہوا مقدمہ مسلم کا۔ اب شروع ہوتا ہے بیان ایمان کا جو اصل ہے تمام اعمال کا اور جس پر موقوف ہے نجات آخرت کے عذاب سے۔