اللہ کے ساتھ محبت کے معنی یہ ہیں کہ معبود کے ساتھ عبودیت کا جو تعلق قائم کیا جائے اور پروردگار کی ذات سے جو محبت کی جائے اس میں ریا و نمائش اور خواہشات نفسانی کی آمیزش نہ ہو بلکہ وہ محبت تعلق اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہو۔ اللہ کے لیے محبت کا مطلب یہ ہے کہ کسی بندے کے ساتھ تعلق محبت کا جو رشتہ قائم کیا جائے وہ محض اللہ ہی کی خاطر ہو اللہ کی راہ میں کسی دنیاوی غرض و لالچ کی وجہ سے نہ ہو یعنی اگر کسی بندے سے دلی محبت و دوستی کی جائے تو صرف اس لیے کہ اس بندہ کے ساتھ محبت و دوستی رکھنے سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا روحیں جسموں میں داخل کیے جانے سے پہلے لشکر کی طرح ایک جگہ مجتمع تھیں اور پھر ان کو الگ الگ کر کے ایک ایک جسم میں داخل کیا گیا چنانچہ جسموں میں داخل ہونے سے پہلے جو روحیں ایک دوسرے کے صفات سے مناسبت و مشابہت رکھنے کی وجہ سے آپس میں مانوس و متعارف تھیں وہ جسموں میں پہنچنے کے بعد اس دنیا میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت رکھتی ہیں، اور جو روحیں ایک دوسرے سے انجان و نامانوس تھیں وہ اس دنیا میں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ (بخاری)
تشریح
جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ دنیا میں اب تک جتنے اجسام پیدا ہو چکے ہیں یا قیامت تک جتنے پیدا ہوں گے ان سب کی روحین اپنے جسمانی وجود سے بھی بہت پہلے پیدا کی جا چکی تھیں جو عالم ارواح میں جمع ہیں اور دنیا میں جب کسی روح کا جسم پیدا ہوتا ہے تو وہ روح اس جسم میں بھیج دی جاتی ہے چنانچہ ابتداء خلقت میں اور روز ازل اللہ نے اپنی ربوبیت کا عہد اقرار کرنے کے لیے جب پوری کائنات انسانی کی روحوں کو چیونٹیوں کی صورت میں جمع کیا تو اس وقت وہاں جو روحیں آپس میں ایک دوسرے سے مانوس و متعارف ہوئیں اور جن روحوں کے درمیان صفات کی مناسبت اور موانست پیدا ہوئی یا جو روحیں آپس میں نامانوس ہو چکی اور جن روحوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ رہا وہ دنیا میں بھی اپنے اجسام میں آنے کے بعد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و موانست ایک دوسرے کی صفات سے مناسبت و مشابہت رکھتے ہیں لہذا جیسے نیک لوگ اور اچھے ہوتے ہیں وہ نیک اور اچھے لوگوں سے محبت تعلق رکھتے ہیں اور جو لوگ فاسق اور بدکار ہوتے ہیں وہ فاسقوں اور بدکاروں کے محبت تعلق رکھتے ہیں یا جو لوگ ایس دنیا میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف و عناد رکھتے ہیں جیسے نیک لوگ برے لوگوں سے اجتناب کرتے ہیں اور برے لوگ نیک لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں تو وہ در اصل اپنی روحوں کے ازلی اتحاد و موانست یا اختلاف کا مظہر ہیں روز ازل جن روحوں میں محبت و موانست تھی ان کے درمیان دنیا میں بھی محبت و موانست ہے اور جن روحوں میں وہاں اختلاف تھا وہ یہاں بھی اختلاف و عناد رکھتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ روحوں کے درمیان جو روز ازل جو تعارف و تعلق پیدا ہو گیا تھا اس کا ظہور دنیا میں الہام خداوندی کے سبب ہوتا ہے بایں طور کہ جب روحیں اس دنیا میں اپنے جسموں میں آتی ہیں تو اللہ ان کی وہاں روز ازل کی محبت کے سبب یہاں دنیا میں بھی ان لوگوں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت رکھتا ہے یعنی جب وہ اپنے بندوں میں کسی بندے کے تئیں اپنی خوشنودی کو ظاہر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو جبرائیل کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت رکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جبرائیل یہ سن کر اس بندے سے محبت رکھتے ہیں اور پھر وہ اللہ کے حکم سے آسمان میں یہ اعلان کرواتا ہے کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تم سب بھی اس بندے سے محبت رکھو چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر اس بندے کے لیے زمین میں مقبولیت ہو جاتی ہے یعنی زمین والوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے اور تمام جن و انس اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اللہ تعالی کسی بندے سے نفرت کرتا ہے تو جبرائیل کو بلاکر فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے نفرت کرو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جبرائیل بھی اس سے نفرت کرنے لگتا ہے چنانچہ آسمان والے بھی اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں یہاں تک اس شخص کے لیے زمین میں بھی عداوت و نفرت رکھ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے تمام جن و انس اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ (مسلم)
تشریح
اللہ تعالی کا کسی بندے کو دوست محبوب رکھنے کا مطلب دراصل اس بندے پر حق تعالی کی طرف سے خیر و بھلائی اور ہدایت و فلاح کی بارش ہونا اور اس پر رحمت خداوندی کا نازل ہونا ہے اسی طرح اللہ کا کسی شخص سے نفرت کرنا گویا اس شخص کو عذاب میں مبتلا کرنے کی ارادہ خداوندی کو ظاہر کرنا، اس سے حق ہدایت کی توفیق کسی بندے کے حق میں ان کی محبت کو دو صورتوں پر محمول کیا جا سکتا ہے، ایک تو یہ کہ وہ اس بندے کے حق میں استغفار کرتے ہیں اس کی مدح و تعریف کرتے ہیں اور اس کے لیے بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے ہیں دوسرے یہ کہ محبت کے وہی ظاہری معنی مراد ہیں جو عام طور پر مفہوم ہوتے ہیں یعنی ان کے دل میں اس بندے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اس سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے ہیں۔
ملا علی قاری کہتے ہیں کہ دوسری صورت یعنی محبت کو اس کے اپنے ظاہر معنی پر محمول کرنا زیادہ صحیح ہے کیونکہ جب کسی لفظ کو اس کے پہلے حقیقی معنی پر محمول کرنا صحیح ہو تو مجازی معنی مراد لینا غیر موزوں ہے علاوہ ازیں محبت کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنے کی صورت میں پہلے معنی یعنی اس بندے کے حق میں جبرائیل اور فرشتوں کا دعا استغفار اور مدح تعریف کرنا ضمنی طور پر خود بخود متحقق ہو جاتے ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالی قیامت کے دن سب لوگوں کے سامنے اپنے بعض بندوں کی عظمت و بزرگی کو ظاہر کرنے کے لیے فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بڑائی کے اظہار اور میری تعظیم کی خاطر آپس میں محبت و تعلق رکھتے تھے یا کہاں ہیں وہ لوگ جو میری رضا و خوشنودی کی خاطر اور حصول ثواب کی غرض سے آپس میں محبت و تعلق رکھتے تھے آج میں ان لوگوں کو اپنے سایہ میں پناہ دوں گا اور آج کے دن میرے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہے۔ (مسلم)
تشریح
اللہ کے سایہ سے مراد یا تو عرش کا سایہ ہے جیسا کہ بعض احادیث میں اس کا صراحتہً ذکر ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اللہ کی طرف سایہ کی وضاحت اس سایہ کی عظمت و تکریم کو ظاہر کرنے کے ہے یا سایہ سے مراد حفاظت خداوندی اور رحمت الہی ہے جیسا کہ السلطان ظل اللہ فی الارض۔ بادشاہ دنیا میں اللہ کا سایہ ہے، فرمایا گیا ہے کہ اور یا یہ کہ سایہ کے ذریعہ قیامت کے دن ان راحتوں اور نعمتوں کا تعبیر کیا گیا ہے جو ان لوگوں پر حق تعالی کی طرف سے ظاہر ہوں گی چنانچہ عربی میں لفظ ظل یعنی سایہ، راحت، نعمت کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ خوشی و راحت کے ساتھ گزرنے والی زندگی کو عیش ظلیل کہا جاتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے مسلمان بھائی کی ملاقات کے لیے روانہ ہوا جو کہ دوسری آبادی میں رہتا تھا اللہ نے اس کے راستہ پر اس کے انتظار میں ایک فرشتہ کو بیٹھا دیا جب وہ شخص اس جگہ پہنچا تو فرشتہ نے اس کو روک کر پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے اس شخص نے کہا میں اپنے ایک مسلمان بھائی کی ملاقات کو جا رہا ہوں جو اس آبادی میں رہتا ہے فرشتہ نے پوچھا کہ کیا اس پر تمہارا کوئی حق نعمت ہے؟جس کو حاصل کرنے کے لیے تم اس کے پاس جا رہے ہو، (یعنی جس شخص کے پاس تم جا رہے ہو کیا وہ کوئی ایسا شخص ہے جس کو تم نے کوئی نعمت دی تھی اور اب اس کا بدلہ حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس جا رہے ہو) اس شخص نے کہا نہیں میں محض اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس سے محبت و تعلق رکھتا ہوں فرشتہ نے کہا تو پھر سنو مجھے اللہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں یہ بشارت دوں کہ اللہ تم سے محبت کرتا ہے جیسا کہ تم محض اللہ کی خاطر اس شخص سے محبت تعلق رکھتے ہو۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں اللہ کی خاطر محبت کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ یہ چیز حب فی اللہ محبت الہی کے حصول کا ذریعہ ہے نیز اس سے صالحین کی ملاقات کے لیے ان کے پاس جانے کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے علاوہ ازیں یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی کسی بھی اپنے نیک و محبوب بندوں کے پاس فرشتوں کو بھیجتا ہے جو ان سے ہم کلام ہوتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ چیز پچھلی امتوں کے ساتھ مخصوص تھی کیونکہ اب نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور انسانوں کے پاس فرشتوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔
علماء اور اولیاء اللہ کے ساتھ محبت رکھنے والے آخرت میں ان ہی کے ساتھ ہوں گے۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو کسی جماعت یعنی علماء و صلحاء اور بزرگان دین سے محبت و عقیدت رکھتا ہو لیکن ان کی محبت اس کو نہ ہوئی ہو یا وہ ان کے علم و عمل تک نہ پہنچا ہو؟حضور نے فرمایا وہ شخص اسی کے ساتھ ہے جس کو وہ محبوب رکھتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضور کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی عالم یا بزرگ کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتا ہے وہ آخرت میں اسی عالم و بزرگ کے ساتھ ہو گا اور اگرچہ کامل محبت کہ جس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے وہی ہے جو اتباع موافقت اور علمی و عملی یگانگت تک پہنچا دے لیکن محض مخلصانہ عقیدت و محبت بھی معیت یکجائی کا ذریعہ بن جاتی ہے اس میں گویا ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جو علماء و صلحاء اور بزرگان دین سے عقیدت و محبت اور دوستی رکھتے ہیں کہ وہ لوگ انشاء اللہ قیامت کے دن انہی علماء و صلحاء اور بزرگان دین کے ساتھ اٹھیں گے اور آخرت میں ان کی رفاقت و معیت کی دولت پائیں گے، ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ حدیث کا ظاہری مفہوم عمومیت پر دلالت کرتا ہے یعنی اس ارشاد گرامی میں عمومی طور پر یہ نکتہ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے اس کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا، اور وہ شخص کہ جس کے ساتھ محبت ہے خواہ نیک ہو یا بدکار فاسق، ملا علی قاری کی اس بات کی تائید اس حدیث المرء علی دین خلیلہ، سے ہوتی ہے جو آگے آئے گی اس صورت میں کہا جائے گا کہ جو لوگ علماء و صلحاء اور بزرگان دین کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے ہیں ان کے لیے اس حدیث میں خاتمہ بخیر اور اخروی فلاح و سعادت کی بشارت ہے اور جو لوگ بدکار فاسق اور خدا کے دشمنوں کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے ہیں ان کے لیے اس حدیث میں سخت وعید و تنبیہ ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ سے ایک شخص نے یہ سوال کیا یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم پر افسوس ہے؟کیا تم نے قیامت کے لیے کوئی تیاری کر رکھی ہے؟بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا یہ سوال اچھا نہیں لگا اور آپ کو گمان ہوا کہ اس شخص نے اچھا اعتقاد رکھتے ہوئے از راہ خودی یہ سوال نہیں کیا ہے بلکہ قیامت کے آنے کو ایک درر دراز کی بات سمجھتے ہوئے لاپرواہی کے طور پر یہ سوال کیا ہے چنانچہ آپ نے اس کو جواب بھی اسی انداز میں دیا کہ یہ کیا پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی، تم اپنا عقیدہ و عمل درست رکھو اور اچھے کام کرو، جب قیامت کے دن کو آنا ہو گا آ جائے گا، لیکن جب اس شخص نے یہ عرض کیا کہ میں نے کوئی تیاری نہیں کی البتہ میرے پاس ایک دولت ضرور ہے وہ یہ کہ میں خدا اور خدا کے رسول سے محبت رکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جانا کہ اس شخص کا مذکورہ سوال ایک مخلص کامل مومن کے اعتقاد کا مظہر ہے اور از راہ خوف ہے کسی لاپرواہی کا غمازہ نہیں ہے چنانچہ آپ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں اسی کے ساتھ ہو، جس سے محبت رکھتے ہو حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی چیز سے اتنا زیادہ خوش نہیں دیکھا جتنا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے خوش ہوئے۔ بخاری و مسلم۔
تشریح
اس شخص نے تیاری کے زمرہ میں صرف خدا اور خدا کے رسول کے ساتھ محبت کو ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسری بدنی و قلبی اور مالی عبادتوں کا اس نے کوئی ذکر نہیں کیا جن سے اس کی زندگی یقیناً خالی نہیں تھی، اس کی وجہ ایک تو اظہار عجز و انکساری اور اپنے مرتبہ عبودیت کا اخفاء تھا جو ایک مخلص مومن کی شان ہے دوسری وجہ یہ تھی کہ خدا اور خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہی اصل چیز ہے اور تمام عبادتیں اسی محبت کی شاخیں اور اس کا لازمی اثر ہوتی ہیں، جس شخص کا قلب خدا اور خدا کے رسول کی محبت سے سرشار ہو جاتا ہے،عبادت و طاعت خود بخود اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے علاوہ ازیں صرف محبت کو ذکر کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ محبت بذات خود سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے کیونکہ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے اس سے اللہ تعالی بھی محبت کرتا ہے جیسا کہ خود اللہ نے فرمایا ہے، یحبھم ویحبونہ، اور ایک جگہ یوں فرمایا، آیت (ان کنتم تحبون) .........الخ ظاہر ہے کہ جس بندے کو محبت الہی کی دولت حاصل ہو جائے اس کی دنیاوی و اخروی فلاح نجات میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
تم اسی کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی ذات سے اس درجہ کا تعلق رکھتا ہے کہ اس کی محبت دوسری تمام چیزوں یہاں تک کہ اپنے مال، اپنے اہل و عیال اور اپنی جان تک کی محبت پر غالب ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کے ساتھ منسلک و ملحق و ہو جاتا ہے اور اس کا شمار محبوب کے اپنے لوگوں میں ہونے لگتا ہے اور محبت صادقہ یا عشق حقیقی کی علامت یہ ہے کہ وہی کام کرے جس کا محبوب حکم کرتے ہیں یا جو محبوب کی رضا و خوشنودی کا باعث ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرے جو محبوب کے حکم و مرضی کے خلاف ہو اور اس کے غیر کی مرضی و مراد کو پورا کرنے والا ہو، لہذا تم اگر اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اپنے عقیدہ و قول اور فعل عمل سے اس دعوے کو ثابت کرتے رہو، بایں طور کہ فرائض و واجبات کی بجا آوری کرو حق تعالی جن امور سے راضی و خوش ہو جاتا ہے ان کو ہمیشہ اختیار کرو، اور اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کے قریب بھی مت جاؤ، اسی بات کو مشہور صوفی خاتون حضرت رابعہ بصری نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے۔
ترجمہ۔ تم خدا کی نافرمانی اختیار کیے ہوئے درآنحالیکہ تم اس کی محبت کا دم بھرتے ہو اپنی جان کی قسم یہ چیز قیاس میں بھی آ سکتی اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو یقیناً تم اس کی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا درحقیقت اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد سن کر مسلمانوں کا بہت زیادہ خوش ہونا اس بنا پر تھا کہ پہلے ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جنت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت محج آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ محبت اور آپ کی متابعت کی وجہ سے حاصل نہیں ہو گی بلکہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہن اور کثرت کے ساتھ ریاضت و مجاہدہ اختیار کرنا ضروری ہے چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا بات ارشاد فرمائی تو صحابہ کو بہت زیادہ خوشی ہوئی اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو علامہ عماد الدین ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ حقیقت میں آپ مجھ کو اپنی جان اپنے اہل خانہ اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز محبوب ہیں میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کے تصور میں کھویا رہتا ہوں جب آپ کی یاد بہت ستاتی ہے تو روئے انور کی زیارت کے بغیر چین نہیں ملتا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں، اور آپ کی زیارت کر کے تسکین حاصل کرتا ہوں جب مجھے اپنی موت کا خیال آ جاتا ہے اور اس دنیا سے آپ کے رخصت ہو جانے کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آپ جنت میں جائیں گے جنت کے سب سے اعلیٰ درجہ میں انبیاء کے ساتھ ہوں گے اور اگر خدا نے مجھے بھی جنت میں داخل کر دیا تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں آپ کی زیارت سے محروم رہوں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان صحابی کی یہ بات سنی لیکن کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی،
آیت (وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقاً) 4۔ النساء:69)۔ جس نے ضروری احکام میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ جنت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام نازل کیا ہے یعنی انبیاء، صدیق،شہداء، اور صالحین۔
رہی یہ بات کہ یہاں معیت سے کیا مراد ہے تو جاننا چاہیے کہ معیت سے مراد یہ نہیں کہ محبت کرنے والا اور محبوب دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی جو کیفیت ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ والے ان لوگوں کے پاس آئیں گے جو نیچے کے درجات میں ہوں گے اور پھر سب جنت کے باغات میں یکجا ہوں گے وہاں ایک دوسرے کی زیارت و ملاقات ہو گی اور درجہ عالیہ والے ان چیزوں کی ذکر کریں گے جو ان کو اللہ کی طرف سے بطور انعام حاصل ہوئی ہوں گی، اور حق تعالی انعامات و اکرامات پر اس کی حمد و ثناء کریں گے پھر درجات سافلہ والے ان کی خاطر و تواضع کریں گے اور دوڑ دوڑ کر وہ چیزیں لائیں گے اور ان کو دیں گے جن کی وہ خواہش و طلب کریں، غرضیکہ اسی طرح وہ سب جنت کے باغات میں اس طرح کی تقریب سے لطف اندوز و مسرور ہوا کریں گے۔
واضح رہے کہ متابعت اور ضروری احکام کے مدارج مختلف ہوتے ہیں لہذا جس درجہ کے احکام ضروریہ میں اطاعت ہو گی اسی درجہ کی محبت بھی شمار ہو گی، اور جس درجہ کی محبت یا جس درجہ کا حسن معاملہ ہو گا اسی درجہ کی یہ معیت و ملاقات بھی نصیب ہو گی۔
اور حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا نیک اور بد ہم نشین کی مثال مشک رکھنے والے اور دھونکنی دھونکنے والے کی سی ہے مشک رکھنے والا یا تو تمہیں مشک مفت دیدے گا یا تم اس سے خرید لو گے اور یا اگر کسی بھی صورت میں اس کا مشک تمہارے ہاتھ نہیں لگتا تو کم از کم خوشبو تو ضرور تمہیں حاصل ہو جائے گی، اسی طرح نیک اور صالح ہم نشین سے کوئی فیض یا کوئی خاص نعمت نہ بھی ملے تو یہی کیا کم ہے کہ کچھ ساعتوں کے لیے اس کی صحبت میں سکون و اطمینان کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہو جائے اور دھونکنی دھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تمہیں اس سے دماغ پوش یعنی دھواں ملے گا، اسی طرح بدکار ہم نشین اول تو دین و دنیا دونوں کا نقصان پہنچاتا ہے وقت کو ضائع کرتا ہے اور حصول سعادت کی صلاحیت و استعداد کو بے کار کر دیتا ہے اور اگر یہ نہ بھی ہو تو اس کی صحبت میں کم از کم اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ زندگی کے وہ قیمتی لمحات، دل و دماغ کی کبیدگی اور لاحاصل صحبت کی ناخوشگوار میں صرف ہوتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اچھے لوگوں کی محبت و ہم نشینی اور برے لوگوں کی محبت و ہم نشینی کے درمیان جو فرق ہے اس کی مذکورہ بالا نشین مثال کے ذریعہ واضح کر دیا گیا ہے اور جیسا کہ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد اس بات کی تاکید و تنبیہ ہے کہ اچھے لوگوں سے محبت و تعلق پیدا کرو ان کی صحبت و ہم نشینی کو اختیار کرو اور برے لوگوں کی محبت و موافقت اور ان کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب کرو نیز اس میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اچھے لوگوں یعنی علماء و صلحاء کی صحبت و ہم نشینی دے دنیا و آخرت میں فائدہ حاصل کرنے کا سبب ہے اور برے لوگوں یعنی بدکار و فاسق کی صحبت و ہم نشینی دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے کا ذریعہ ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ میرا محبت کرنا ایک طے شدہ امر ہے جو محض میری رضا مندی و خوشنودی کی خاطر آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں محض میری خوشنودی کی خاطر اور میری حمد و ثناء کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں محض میری رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور محض میری رضا و خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں مالک ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو لوگ میری عظمت و جلال کے سبب آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں ان کے لیے آخرت میں نور کے منبر ہوں گے جن انبیاء و شہداء بھی رشک کریں گے۔
تشریح
جن پر انبیاء و شہداء رشک کریں گے اس جملہ پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح درست ہو سکتی ہے کہ انبیاء علی الاطلاق تمام لوگوں سے افضل و برتر ہیں اور شہداء راہ میں اپنی جان و مال قربان کر دینے کے سبب عظیم فضیلت رکھتے ہیں لہذا ان دونوں کا ایسے لوگوں کے اجر انعام پر رشک کرنا کس طرح موزوں ہو سکتا ہے جس کا مذکورہ عمل یعنی خدا کے لیے آپس میں میل جول محبت رکھنا نہایت آسان اور سہل ہے علاوہ ازین اس بات سے انبیاء اور شہداء کے مقابلہ پر مذکورہ لوگوں کا زیادہ افضل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ رشک اسی کو ہوتا ہے جو مفضول ہو اور جس پر رشک کیا جاتا ہے وہ فاضل ہوتا ہے اس کا جواب علماء نے اجر و انعام پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ہے نہ کہ رشک کا حقیقی مفہوم مراد ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث کا مذکورہ بالا جملہ در اصل فرض و تقدیر پر مبنی ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہا لوگوں کو جو رتبہ و مقام حاصل ہو گا اس کی اہمیت فضیلت کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے اگر بفرض محال انبیاء و شہداء کو کسی رتبہ و مقام پر رشک ہوتا ہے تو ان لوگوں کے رتبہ و مقام پر ہوتا ہے اور تیسرا جواب یہ دیا ہے کہ اس طرح کے مواقع پر عام طور پر دیا جاتا ہے یہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مفضول میں کوئی ایسی خاص صفت و فضیلت ہوتی ہے جو فاضل میں نہیں ہوتی اور باجودیکہ فاضل اپنے اندر جو فضائل اور خوبیاں رکھتا ہے ان کے مقابلہ میں مفضول کی اس صفت و فضیلت کی اہمیت نہیں ہوتی لیکن فاضل کی تمنا و خواہش ہوتی ہے کہ اس کو وہ صفت و خوبی حاصل ہو جائے جو مفضول میں ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جائے کہ زید کے پاس ایک ہزار بہت سے خوبصورت غلام ہیں اور ان میں خوبصورتی کے علاوہ دوسری اور خوبیاں بھی اور اس کے مقابلہ میں بکر کے پاس ایک غلام بچہ ہو جو بہت نیک اور ہو نہار ہو ظاہر ہے کہ زید اپنے غلاموں کی تعداد و اہمیت کے اعتبار سے بکر کے مقابلہ میں کہیں زیادہ برتری فضیلت رکھتا ہے اور اس کو اس بات کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بکر کے غلام بچہ پر رشک کرے لیکن اس کے باوجود اس کی خواہش یہ ہو گی کی کہ بکر کے پاس جو غلام بچہ ہے اسی طرح کا ایک غلام بچہ مجھے بھی حاصل ہو جائے، اسی طرح انبیاء و شہداء بھی مذکورہ لوگوں کی فضیلت دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کاش دوسری فضیلتوں کی طرح یہ فضیلت بھی ان کو حاصل ہو جائے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ خدا کے بندوں میں سے کتنے ہی لوگ یعنی اولیاء اللہ ایسے ہیں جو اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور شہید نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن خدا کے نزدیک ان کے مراتب و درجات دیکھ کر انبیاء اور شہداء ان پر رشک کریں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں بتائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ لوگ ہیں جو خدا کی روح یعنی قرآن کریم کے سبب آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں حالانکہ ان کے درمیان کوئی ناتہ رشتہ نہیں ہے جس کا تقاضا انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنے پر مجبور کرے اور نہ مال دولت کی لین دین کا معاملہ ہوتا ہے (حاصل یہ ہے کہ ان کی باہمی محبت اور آپس کے اتحاد و میل جول کی بنیاد کسی دنیاوی غرض و وسیلہ پر نہیں ہوتی بلکہ محض اللہ کی رضا و خوشنودی اور تعلیمات قرآنی کی اتباع پر ہوتی ہے قسم ہے اللہ کی قیامت کے دن ان کے چہرے نورانی ہوں گے، یا وہ مجسم نور ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر یا نفس نور پر متمکن و مستولی ہوں گے وہ لوگ اس وقت بھی خوف زدہ نہیں ہوں گے جب دوسرے لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے اور وہ اس وقت بھی غمگین نہیں ہوں گے جب کہ دوسرے لوگ غمگین و رنجیدہ ہوں گے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں کو خدا کا دوست کرنے اور ان سے خوف و حزن کی نفی کرنے کے لیے بطور دلیل یہ آیت فرمائی، آیت (اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ) 10۔یونس:62)۔ آگاہ رہو کہ خدا تعالی دوستوں پر نہ تو خوف طاری کرے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور بغوی نے شرح السنہ میں اس روایت کو بالفاظ مصابیح ابومالک سے روایت کیا ہے لیکن اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ بھی ہے اور اس طرح باضافہ الفاظ اس روایت کو بیہقی نے بھی شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
انبیاء اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے کے بارے میں پچھلی حدیث کی تشریح کو سامنے رکھ لینا چاہیے اور ایک خاص بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ انبیاء سے وہ نبی اور پیغمبر مراد ہیں جو زندگی میں کسی عذر یا کسی اور سبب سے باہمی ملاقات کا موقع نہ پا سکے ہوں گے ورنہ جہاں تک نفس محبت وہم نشینی کا تعلق ہے ایسا کوئی نبی اور پیغمبر نہیں گزرا جو اللہ کی خاطر اپنی امت کے لوگوں سے محبت و تعلق نہ رکھتا ہو اور ہم نشینی سے محروم رہے ہوں گے۔
روح را کے پیش کے ساتھ اصل میں تو اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ جسم زندہ رہتا ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس جوہر کو کہتے ہیں جس کے سبب زندگی کو بقا حاصل ہوتی ہے اور یہاں روح سے مراد قرآن کریم ہے چنانچہ قرآن کریم میں روح کے معنی قرآن کے بھی آئے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے، آیت (وکذالک اوحینا الیک روحا من امرنا)، اور اس اعتبار سے بھی قرآن کو روح کہنا نہایت موزوں ہے کہ جس طرح جسم و بدن کی زندگی کا مدار روح پر ہے اسی طرح قلب انسان کی حیات کا مدار قرآن پر ہے۔قرآن کو باہمی میل جول محبت کا سبب قرار دینا یا تو اس اعتبار سے ہے کہ قرآن کریم کو نظام زندگی کا اساس قانون ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے باہمی محبت و موانست کی دولت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ قرآن کریم کی تعلیمات، محبت موانست کی دولت حاصل ہوتی ہے کیونکہ قرآن کریم کی تعلیمات، محبت و موانست کا ذریعہ اور مومنین کو باہمی میل ملاپ اور اتحاد و یکجہتی اختیار کرنے کی ہدایت دینے والی ہے۔ بعض حضرات نے روح اللہ کی مراد قرآن کے بجائے خود محبت کو قرار دیا ہے ان کے نزدیک محبت پر روح کا اطلاق اس سبب سے موزوں سے ہے کہ محبت بھی قلب انسان کی حیات و نشاط اور تازگی کا سبب ہے اسی لیے محبوب کو جان من کہا جاتا ہے۔
مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں یہ را کے زبر کے ساتھ یعنی روح اللہ منقول ہے جس کے معنی رحمت اور رزق کے ہیں بہرحال مآل و ما حاصل کے اعتبار سے معنی میں کوئی فرق نہیں مطلب سب کا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ خدا کی رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنا۔
بالفاظ مصابیح یہ روایت جس طرح نقل کی وہ یوں ہے۔
حضرت ابومالک اشعری کہتے ہیں کہ ایک دن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھا اس وقت آپ نے فرمایا اللہ عزوجل کے بعض بندے ایسے ہیں جو اگرچہ انبیاء اور شہداء نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن خدا کے نزدیک ان کا مرتبہ و مقام دیکھ کر ان کی رفعت شان دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے یہ سن کر ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اللہ کے بندے ہیں جن کا تعلق مختلف شہروں اور مختلف قبائل سے ہوتا ہے ان کے درمیان کوئی رشتہ ناتا بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعلق محبت قائم رکھنے پر مجبور ہوں اور نہ وہ ایک دوسرے سے اپنا مال اور روپیہ پیسہ خرچ کرتے ہیں جس سے ان کے درمیان تعلقات قائم ہوں مگر وہ محض خدا کی روح یعنی قرآن کریم کے سبب آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں قیامت کے دن ان کے چہرے نور کے ہوں گے اور وہ عرش الہی کے نیچے ان کے لیے نور کے منبر رکھے جائیں گے (جن پر وہ متمکن ہوں گے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ تم جانتے ہو ایمان کی کون سی شاخ زیادہ مضبوط ہے اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں حضور نے فرمایا خدا کی رضا و خوشنودی کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھنا اور خدا کی خوشنودی کے لیے کسی سے دوستی رکھنا اور خدا کی رضا و خوشنودی کے لیے کسی سے بغض و نفرت رکھنا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے اس کی ملاقات کی خاطر اس کے ہاں جاتا ہے تو اللہ تعالی بلاواسطہ یا فرشتوں کی زبانی فرماتا ہے کہ دنیا و آخرت میں تیری زندگی خوش ہوئی تیرا چلنا مبارک رہا، تو چل کر یہاں تک آیا ہر قدم پر تجھے ثواب ملا اور تجھ کو جنت میں ایک بڑی اور عالی مرتبہ جگہ حاصل ہوئی اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
دنیا میں زندگی کو خوشی اطمینان ملنے کا تعلق جن چیزوں سے ہے وہ یہ ہیں کہ قناعت و توکل کی دولت نصیب ہو جائے رضائے الہی کی سعادت ملے رزق میں برکت ملے قلب میں وسعت و حوصلہ، عادات اطوار میں تہذیب و شائستگی اور علم و عمل کی توفیق حاصل ہو۔ واضح رہے کہ یہ تینوں لفظ طیب طاب اور تبوات بطور خبر نقل ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اللہ کی طرف سے مذکورہ چیزوں کے حاصل ہو جانے کی خوش خبری دی جاتی ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تینوں لفظ دعائیہ جملہ کے طور پر منقول ہوں اس صورت میں ان الفاظ کے معنی یہ ہوں گے تیری زندگی کو خوشی و راحت نصیب ہو تیرا راہ چلنا مبارک ثابت ہو اور تجھے جنت میں اعلیٰ مقام حاصل ہو۔
اور حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے دوستی و محبت رکھے تو چاہیے کہ وہ اس مسلمان کو بتا دے کہ وہ اس کو دوست محبوب رکھتا ہے۔
تشریح
یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ جب اس مسلمان کو یہ معلوم ہو گا کہ فلاں شخص مجھ سے دوستی اور محبت رکھتا ہے تو وہ بھی اس سے دوستی محبت رکھے گا اور دوستی کے حقوق ادا کرے گا نیز اس کے حق میں دعا گو و خیر خواہ رہے گا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے ایک شخص گزرا جب کہ آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا یہ جو آدمی ابھی سامنے سے گزرا ہے اس سے محض خدا کی رضا و خوشنودی کے لے محبت کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم نے اس کو بتا دیا ہے تم اس سے محبت رکھتے ہو؟ اس نے کہا نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اٹھو اور اس کے پاس جا کر اس کو بتا دو چنانچہ وہ شخص مجلس نبوی سے اٹھ کر اس کے پاس گیا اور اس کو بتایا کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ذات یعنی اللہ تم سے محبت کرے جس کی رضا و خوشنودی کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص لوٹ کر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ اس شخص نے جواب میں کیا کہا؟ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا وہ جواب بتا دیا جو اس نے دیا تھا حضور نے فرمایا آخرت میں اس شخص کے ساتھ ہوؤ گے جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم محبت رکھنے بلکہ ہر عمل میں اس چیز پر اجر پاؤ گے جس کی اللہ کے لیے نیت کرو گے اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آدمی اس شخص کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہے اور اس کو اس چیز پر اجر ملے گا جس کو وہ یہ ثواب کی نیت اختیار کرے گا۔
تشریح
احتساب کے معنی ہیں اللہ سے ثواب کی امید رکھنا اور حسبہ اس لفظ کا اسم ہے اور اصل میں یہ لفظ حساب سے نکلا ہے جس کے معنی گننے شمار کرنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی سے محبت کرنا ایسا فعل ہے جو اگر ثواب کی نیت سے ہو تو وہ حساب میں آتا ہو یعنی اس پر اجر مرتب ہوتا ہے اور اللہ تعالی محبت کرنے والے کو اس کی نیت کے مطابق ثواب عطا کرتا ہے۔
اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان کے علاوہ اور کسی کافر و مشرک کو اپنا ہم نشین اور دوست نہ بناؤ یا یہ مراد ہے کہ نیکوکار مسلمان کے علاوہ کسی فاسق و بدکار سے دوستی مت کرو اس مراد کا قرینہ وہ جملہ ہے جو آگے فرمایا کہ تمہارا کھانا پرہیز گار اور نیکوکار کے علاوہ اور کوئی نہ کھائے۔ (ترمذی، ابوداؤد،دارمی)
تشریح
ارشاد گرامی کے آخر کے جملہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم اپنی روزی حلال و جائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرو تاکہ وہ نیک پرہیزگار مسلمانوں کے کھانے کے قابل ہو اور یہ مطلب بھی ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم اپنا کھانا دعوت کی صورت میں صرف متقی لوگوں کو کھلاؤ تاکہ اس کھانے کے ذریعہ انہیں عبادت خداوندی اور نیک کام کرنے کی طاقت حاصل ہو غیر متقی اور بدکار لوگوں کو اپنا کھانا نہ کھلاؤ جس سے ان کو گناہ کرنے کی طاقت حاصل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو دشمنان دین اور بدکار لوگوں کے ساتھ صحبت و ہم نشینی اور ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے سے اس لیے منع فرمایا کہ تاکہ ان سے الفت و محبت قائم ہونے کے سبب پیدا نہ ہو اور نہ ان کی صحبت و ہم نشینی کی وجہ سے کفر و شرک و بدکاری و برائیوں کے جراثیم سرایت نہ کریں۔علماء نے لکھا ہے کہ صرف متقی و پرہیزگار کو کھانا کھلانے کا حکم کا تعلق محض دعوت طعام اور تقاریب سے ہے ضرورت مندی و احتیاج کی صورت اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ کسی بھوکے کو اور محتاج کو کھانا کھلانے کے لیے کسی قسم کا امتیاز روا نہیں یہ بات اس آیت کریمہ، (وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْناً وَّيَتِيْماً وَّاَسِيْراً) 76۔ الدہر:8) سے بھی ثابت ہے کیونکہ اس آیت میں دوسرے ضرورت مندوں کے ساتھ جن اسیروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کافر تھے لہذا معلوم ہوا کہ رفع حاجت یعنی بھوک سے بچانے کے لیے کافر کو کھلانا جائز ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے یعنی جو شخص کسی کو دلی دوست بناتا ہے تو عام طور پر اس کے عقائد و نظریات اور اس کے عادات اطوار کو قبول کر لیتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو دوست بنائے تو دیکھ لے کہ کس کو دوست بنا رہا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، بیہقی) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور نووی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
تشریح
حدیث میں جس دوستی کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے مراد دلی اور سچی دوستی ہے نہ کہ ظاہر داری اور خوش اخلاقی کیونکہ ظاہر داری اور خوش اخلاقی کے تعلقات ضرورت کی بنا پر ہر ایک کے ساتھ استوار کیے جاتے ہیں البتہ دلی اور سچی دوستی صرف انہی لوگوں کے ساتھ کرنی چاہیے جن کے عقائد و نظریات صالح ہوں اور جن کے اعمال و عادات پاکیزہ ہوں چنانچہ اس بارے میں قرآن کی ہدایت بھی ہے۔ آیت (یاایھا الذین آمنو اتقواللہ وکونوا مع الصادقین)۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔
حضرت امام غزالی نے فرمایا کہ حریض کی ہم نشینی و محافظت حرص کا ذریعہ بنتی ہے اور زاہد کی ہم نشینی دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے کیونکہ صحبت و اختلاط کا اثر قبول کرنا اور اپنے ہم نشین و مصاحب کی مشابہت و پیروی کرنا انسانی طبعیت و جبلت کا خاصہ ہے۔ حدیث کے اخر میں مؤلف جو طویل عبارت لائے ہیں اس کا مقصد ان لوگوں کے خیال کی تردید کرنا ہے جو اس حدیث کو موضوع کہتے ہیں۔
اور حضرت یزید بن نعامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی سے بھائی چارہ قائم کرتا ہے تو چاہیے کہ وہ اس سے اس کا اور اس کے باپ کا نام دریافت کر لے اور پوچھ لے کہ وہ کس قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ دریافت کرنا دوستی اور تعلق کو بہت زیادہ مفید اور مضبوط تر بنانے کا ذریعہ ہو گا۔ (ترمذی)۔
اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد نبوی میں ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے نزدیک بہت پیارا عمل کون سا ہے؟کسی کہنے والے نے کہا نماز یا زکوٰۃ اور ایک کہنے والے نے کہا کہ جہاد۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا اللہ کے نزدیک بہت پیارا عمل خدا کی خوشنودی و رضا کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور خدا کی خوشنودی کی خاطر کسی سے نفرت و بغض رکھنا ہے۔ (احمد، اور ابوداؤد نے اپنی روایت میں حدیث کا صرف آخری جزو یعنی ان احب الاعمال الخ۔ نقل کیا ہے۔
تشریح
لفط والزکوٰۃ میں حرف واؤ کے معنی کے اعتبار سے او کی جگہ استعمال ہوا ہے یا مفہوم کے اعتبار سے الصلوۃ کے بعد عبارت گویا یوں ہے وقال قائل الزکوٰۃ، اور کسی کہنے والے نے کہا زکوٰۃ۔ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سوال، صحابہ کے جواب اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا جواب اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا جو سلوب نقل کیا گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا درجہ نماز، زکوٰۃ اور جہاد سے بھی بڑا ہے جبکہ حقیقت میں یہ نہیں ہے کیونکہ نماز زکوٰۃ اور جہاد وہ اعمال ہیں جو بلا شک و شبہ تمام اعمال سے افضل و اعلیٰ ہیں اس صورت میں یہاں جو اشکال پیدا ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص حقیقی معنی میں کسی سے اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر محبت تعلق رکھے گا وہ یقیناً انبیاء اور علماء اور اولیا اللہ سے سچی محبت و عقیدت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقیناً ان کی اتباع و پیروی کرے گا بایں طور کہ نماز بھی پڑھے گا اور زکوٰۃ بھی دے گا اسی طرح جو شخص کسی سے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے بغض و نفرت کرے گا تو وہ یقیناً دشمنان دین سے دشمنی اور عداوت بھی رکھے گا اور جب وہ ان سے دشمنی و عداوت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ ان کی بیخ کنی، جہاد فی سبیل اللہ اور دین کی سر بلندی کی سعی و کوشش کرے گا، لہذا جب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے ضمن میں ساری طاعتیں آ جائیں گی خواہ وہ نماز و زکوٰۃ ہو یا جہاد وغیرہ ان میں سے کوئی بھی چیز اس عمل سے باہر نہیں رہے گی اس اعتبار سے حضور کے ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ دین کی اصلی بنیاد اور اعمال و طاعات کا مدار حب فی اللہ پر ہے،جس شخص نے اس درجہ کو حاصل کر لیا اس کے لیے تمام عبادات و طاعات کو اختیار کرنا کچھ مشکل نہیں ہو گا۔
یا اس ارشاد گرامی سے مراد یہ ہے کہ قلبی اعمال میں سب سے افضل حب فی اللہ اور بغض فی اللہ ہے اور بدنی اعمال میں سب سے افضل عمل نماز روزہ زکوٰۃ اور جہاد وغیرہ ہے اس صورت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہو گا اور یا یہ مراد ہے کہ شریعت نے جن امور کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان پر عمل کرنے کے بعد اور شریعت نے جن امور سے باز رکھا ہے ان سے اجتناب کرنے کے بعد یعنی فرائض واجبات کی تکمیل کے بعد حب فی اللہ اور بغض فی اللہ سب سے افضل عبادت ہے اور سب سے کامل طاعت ہے اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ احب الاعمال الی اللہ بعد الفرائض ادخال السرور فی قلب مومن۔ فرائض کے بعد جو عمل خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے وہ کسی مومن کے دل کو خوشی و مسرت سے بھرنا ہے۔
اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس بندے نے کسی بندے سے محض اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر محبت دوستی رکھی تو اس نے درحقیقت اپنے پروردگار عزوجل کی تعظیم و تکریم کی۔ (احمد
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر دو بندے محض خدا کی خوشنودی کی خاطر آپس میں محبت رکھیں اور خواہ ان میں سے ایک مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں تو بلاشبہ اللہ ان کو قیامت کے دن یکجا کر دے گا۔تاکہ وہ ایک دوسرے کی شفاعت کریں جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ نیز اللہ تعالی فرشتے کی زبانی یا براہ راست خود ان میں سے ہر ایک سے فرمائے گا کہ یہ بندہ وہ ہے جس سے تو میری خاطر محبت رکھتا تھا۔
اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں بتاؤں تم میں سے بہترین لوگ کون ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں ضرور بتائیں حضور نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آ جائے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
باب حفظ اللسان میں تیسری فصل میں یہ حدیث مع ترجمہ و شرح کے نقل کی جا چکی ہے۔
اور حضرت ابورزین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ان سے فرمایا میں تمہیں اس امر یعنی دین کی جڑ نہ بتا دوں جس کے ذریعہ تم دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کر سکو تو سنو ان چیزوں کو تم اپنے اوپر لازم کر لو اہل ذکر کی مجالس میں بیٹھا کرو جب تنہا رہو تو جس قدر ممکن ہو ذکر اللہ کے ذریعہ اپنی زبان کو حرکت میں رکھو یعنی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ابھی ذکر اللہ کرو اور تنہائی میں بھی خدا کی یاد میں مشغول رہو اگر تم کسی کو دوست رکھو تو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے دوست رکھو اور جس کو دشمن رکھو تو محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے دشمن رکھو یعنی کسی سے تمہاری دوستی اور دشمنی کا معیار تمہاری اپنی ذات کی خواہشات یا کوئی دنیاوی نفع نقصان نہ ہونا چاہیے بلکہ اللہ کی رضا و خوشنودی کو معیار بناؤ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسی شخص کو اپنا دلی دوست بناؤ جس کی دوستی سے خدا خوش ہوتا ہے اور اسی شخص سے دشمنی رکھو جس کی دشمنی سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو اور اے ابورزین کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی زیارت و ملاقات کے ارادہ سے گھر سے نکلتا ہے اور اس مسلمان کے ہاں جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ سب فرشتے اس کے لیے دعا و استغفار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس شخص نے محض تیری رضا و خوشنودی کے لیے ایک مسلمان بھائی کی ملاقات کی ہے تو اس کو اپنی رحمت و مغفرت کے ساتھ منسلک کر دے پس اے ابورزین اگر تمہارے لیے ان مذکورہ چیزوں میں اپنی جان کو لگانا یعنی ان پر عمل کرنا ممکن ہو تو ان چیزوں کو ضرور اختیار کرو۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ آپ فرمانے لگے جنت میں یاقوت کے ستون ہیں جن پر زمرد کے بالا خانے بنے ہوئے ہیں ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور وہ بالاخانے اور ان کے دروازے اسی طرح روشن اور چمکتے ہیں جیسا کہ روشن ستارے چمکتے ہیں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ان میں لوگ رہیں گے حضور نے فرمایا وہ لوگ جو خدا کی خوشنودی کی خاطر آپس میں محبت رکھتے ہیں خدا کی رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دوسرے کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرتے ہیں اور خدا کی رضا و خوشنودی کی خاطر آپس میں ملاقات کرتے ہیں، ان تینوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تھاجر کے معنی ہیں ترک کرنا کاٹنا اور تقاطع کے معنی بھی یہ ہیں اس اعتبار سے لفظ تقاطع معنوی طور پر تھاجر کی وضاحت اور اس کے بیان کے لیے ہے اور ان دونوں لفظوں سے مراد ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ اسلام کلام اور ملنا جلنا چھوڑے رکھنا صحبت و ہم نشینی کے تعلق کو مقطع رکھنا اور اسلامی بھائی چارے کو نظر انداز کرنا چونکہ ان امور کی ممانعت علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ بعض حالت میں اور بعض قیود کے ساتھ ان کو اختیار کرنا کوئی گناہ نہیں رکھتا اس لیے مذکورہ بالا عنوان میں یوں کہا گیا ہے ماینھی عنہ التھاجر والتقاطع۔ عورات عورت کی جمع ہے اور لغت میں عورت اس چیز کو کہتے یہں جو شرم کی متقاضی ہو اور جس کے ظاہر ہونے کو کوئی شخص پسند نہ کرتا ہو بلکہ چاہتا ہو کہ وہ چیز پوشیدہ رہے جیسا کہ کسی شخص میں کسی عیب اور نقصان کا ہونا اور اس اعتبار سے اتباع عورت کا مطلب ہے کسی کی عیب جوئی کرنا۔