مشکوٰة شر یف

منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان

منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان

جیسا کے کتاب الامارۃ و قضاء کے ابتدائیہ میں بتایا گیا تھا کہ اسلامی نظام حکومت کا اصل محور و امیر یعنی سربراہ مملکت اور قاضی ہوتے ہیں، چنانچہ گذشتہ دونوں ابواب میں امام و امیر کے متعلقات کو بیان کیا گیا اب اس باب میں منصف قضاء کا بیان ہو گا اور اس سلسلہ میں بطور خاص دونوں کا ذکر کیا گیا جائے گا ایک تو یہ قاضی اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی صرف اسلامی قانون کے مآخذ یعنی کتاب سنت اور اجتہاد کو رہنما بنائے اور اس کا کوئی فیصلہ و حکم ان چیزوں کے خلاف نہیں ہونا چاہئے دوسری بات یہ ہے کہ منصب قضاء اپنی اہمیت و عظمت اور اپنی بھر ذمہ داریوں کے اعتبار سے اتنا اونچا ہے۔ کہ صرف یہ کہ ہر شخص کو اس تک پہنچنے کی کوشش نہ کرنی چاہئے، بلکہ جہاں تک ہو سکے اس منصب کو قبول کرنے سے ڈرنا اور اجتناب کرنا چاہئے۔

غصہ کی حالت میں کسی قضیہ کا فیصلہ نہ کیا جائے

حضرت ابو بکرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جب کوئی حاکم و قاضی غصہ کی حالت میں ہو تو وہ اس وقت دو آدمیوں (کے نزاعی معاملے) میں فیصلہ نہ دے  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 غصہ کی حالت میں چونکہ غور و فکر کی قوت مغلوب ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں مبنی بر انصاف کے فیصلے کا صادر ہونا محل نظر ہو جاتا ہے اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ کوئی حاکم و قاضی غیض و غضب کی حالت میں کسی قضیہ کا فیصلہ نہ کرے تا کہ اس کا غیض و غضب، اس کے غور و فکر اور اجتہاد میں رکاوٹ نہ بنے اور وہ منصفانہ فیصلہ دے سکے اسی طرح سخت گرمی سردی، بھوک پیاس اور بیماری کی حالت میں بھی کوئی حکم و فیصلہ نہ دے کیونکہ ان اوقات میں بھی حواس پوری طرح قابو میں نہیں ہوتے اور دماغ حاضر نہیں رہتا۔ لہٰذا اگر کوئی حاکم و قاضی ان احوال میں حکم و فیصلہ دے گا تو وہ کراہت کے ساتھ جاری و نافذ ہو گا۔

قاضی کو اجتہاد کا اختیار

اور حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب کوئی حاکم فیصلہ دینے کا ارادہ کرے اور اجتہاد کرے یعنی غور و فکر کے ذریعہ حکم و فیصلہ دے) اور پھر اس کا وہ حکم و فیصلہ صحیح یعنی کتاب و سنت کے موافق ہو تو اس کو دوہرا اجر ملے گا (ایک اجر تو اجتہاد کرنے کا اور دوسرا اجر صحیح فیصلہ پر پہنچنے کا) اور اگر اس نے کوئی ایسا حکم و فیصلہ دیا جس میں اس نے اجتہاد کیا لیکن (نتیجہ اخذ کرنے میں) چوک گیا (یعنی صحیح حکم تک پہنچنے میں خطا کر گیا) تو اس کو ایک اجر ملے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر حاکم و قاضی کسی سے قضیہ و معاملہ کا حکم و فیصلہ دینا چاہے جس کے بارے میں کتاب و سنت اور اسلامی فقہ میں کوئی صریح اور واضح ہدایت نہیں ہے اور پھر وہ اجتہاد کرے یعنی کتاب و سنت کے احکام وتعلیمات وفقہ اسلامی کے مسائل اور اسلامی عدالتوں کے نظائر میں پوری طرح غور و فکر کرنے کے بعد وہ کسی ایسے نتیجہ پر پہنچ جائے جس کے بارے میں اس کے ضمیر کی رہنمائی نہ ہو کہ یہ مبنی برحق ہے اور پھر وہی نتیجہ اس کا حکم و فیصلہ بن جائے تو وہ حکم و فیصلہ ظاہری قانون کے اعتبار سے تو بالکل صحیح تسلیم کیا جائے گا البتہ عقبیٰ کے لحاظ سے اس کی دو صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ اگر حقیقت میں بھی وہ فیصلہ کتاب و سنت کی منشاء کے موافق رہا تو اس کو دو اجر ملیں گے، اور اگر اس کا فیصلہ کتاب و سنت کے موافق نہیں ہوا ہے تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا۔ بالکل یہی حکم مجتہد کا ہے کہ اگر وہ استنباط مسائل کے وقت اپنے اجتہاد کے نتیجے میں کتاب و سنت کی منشاء تک پہنچ گیا تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر کتاب و سنت کی منشاء تک پہنچنے میں خطا کر گیا تو اس کو ایک ثواب ملے گا۔ لہٰذا یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی اسلام کو ایسی جزئیات میں اجتہاد کا اختیار حاصل ہے جو اسلامی قانون کے ماخذ میں صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہیں اور جن کا کوئی حکم واضح نہیں وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مجتہد اپنے اجتہاد میں کبھی تو صحیح حکم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی خطا کر جاتا ہے یعنی صحیح حکم تک نہیں پہنچ پاتا لیکن اجر و ثواب اس کو بہرصورت ملتا ہے۔

ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا حکم و مسئلہ، نصوص یعنی کتاب اللہ، احادیث رسول اللہ اور اجماع امت میں مذکور نہ ہونے کی وجہ سے قیاس پر عمل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو تو اس صورت میں قیاس پر عمل کرنا تحری قبلہ کی مانند ہو گا (جس طرح اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے قبلہ کی سمت کا پتہ نہ چلے اور وہ نماز کے وقت غور و فکر اور تحری کر کے اپنے گمان غالب کے مطابق قبلہ کی کوئی سمت مقرر کر لے اور اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہو گی اگرچہ حقیقت میں قبلہ اس سمت نہ ہو اسی طرح قیاس پر عمل کرنے والا، مصیبت یعنی درست عمل کرنے والا ہو گا اگرچہ اس قیاس میں اس سے خطا (غلطی) ہو گئی ہو۔

منصب قضاء ایک ابتلاء ہے

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کیا گیا (گویا) اس کو بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

  ذبح سے اس کے متعارف معنی (یعنی ہلاکت بدن) مراد نہیں ہے بلکہ غیر متعارف معنی  ذہنی و روحانی ہلاکت  مراد ہے۔ چنانچہ جس شخص کو قاضی مقرر کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ہمہ وقت کی الجھن و پریشانی اور روحانی، (اذیت) یا یوں کہئے۔ کہ درد بے دواء اور مفت کی بیماری میں مبتلا رہتا ہے بلکہ اس کو اپنی عاقبت کی خرابی کا خوف بھی رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ چھری سے ذبح ہو جانا صرف لمحہ بھر کے لئے اذیت برداشت کرنا ہے جب کہ یہ اذیت عمر بھر کی ہے بلکہ اس کی حسرت و پشیمانی قیامت تک باقی رہنے والی ہے۔

قاضی بننے کی خواہش نہ کرو

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص (اپنے دل میں) منصب و قضا کی طلب و خواہش کرے اور پھر (سربراہ مملکت سے) اس کا خواستگار ہو (یہاں تک کہ اس کی خواست گاری پر اس کو قاضی بنا دیا جائے) تو وہ منصب اس کے نفس کے حوالے کر دیا جاتا ہے (یعنی اس کو اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں اللہ تعالیٰ کی مدد توفیق حاصل نہیں ہوتی) اور جس کو (اس کی طلب و خواہش کے بغیر) زبردستی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو اس کو گفتار و کردار میں راست و درست رکھتا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

جنتی اور دوزخی قاضی!

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک طرح کے تو جنت میں جانے والے اور دو طرح کے دوزخ میں جانے والے !لہٰذا جنت میں جانے والا قاضی تو وہ شخص ہے جس نے حق کو جانا (یعنی یہ جانا کہ حق اس بات میں ہے) اور پھر حق ہی کے مطابق فیصلہ کیا اور جس نے حق کو جانا مگر (اس کے باوجود) اپنے حکم و فیصلہ میں ظلم کیا (یعنی اس نے دیدہ دانستہ حق کو پامال کیا تو وہ دوزخی ہے، اسی طرح جو اپنی جہالت کی وجہ سے حق کو نہیں پہنچانا اور اسی حالت میں لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کیا تو وہ بھی دوزخی ہے (کیونکہ اس نے حق رسی میں کوتاہی اور تقصیر کی۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)

 

 

 اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص مسلمانوں کے منصب قضاء کا طالب اور خواستگار ہوا یہاں تک کہ اس نے اس کو حاصل بھی کر لیا اور پھر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں) اس کا عدل و انصاف ظلم پر غالب ہو گا تو جنت ملے گی اور اگر ظلم غالب ہو گا تو دوزخ ملے گی۔ لیکن علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں  غالب  کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس درجہ کا ہو کہ دوسرے کے لئے رکاوٹ بن جائے۔ مثلاً اس کے عدل و انصاف کا وصف اس طرح حاوی ہو کہ اس کا ظلم سر نہ اٹھا سکے۔ یا اس کے ظلم کی خصلت اتنی حاوی ہو کہ اس کے مقابلہ پر اس کا عدل ظاہر نہ ہو سکے۔

قیاس و اجتہاد برحق ہے

اور حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان (معاذ) کو (قاضی و حاکم بنا کر) یمن بھیجا تو ان سے (بطور امتحان) پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی قضیہ پیش ہو گا تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ  میں کتاب اللہ (قرآن کریم) کے موافق فیصلہ کروں گا۔ 'فرمایا  اگر تمہیں وہ مسئلہ (صراحتًہ) کتاب اللہ میں نہ ملا ؟  انہوں نے کہا  پھر میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم) کے موافق فیصلہ کروں گا  فرمایا  اگر تمہیں وہ مسئلہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) میں بھی نہ ملا ؟ انہوں نے کہا تو پھر میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا اور (اپنے اجتہاد و حقیقت رسی میں) کوتاہی نہیں کروں گا۔ (یا وہ راوی جنہوں نے یہ حدیث معاذ سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) اپنا دست مبارک معاذ کے سینے پر مارا (تاکہ اس کی برکت سے وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو، اور فرمایا) تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول (یعنی معاذ) کو اس چیز کی توفیق عطا کی جس سے (اللہ) اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم راضی ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

 میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا  کا مطلب یہ ہے کہ میں اس قضیہ کا حکم ان مسائل پر قیاس کے ذریعہ حاصل کروں گا جو نصوص یعنی کتاب و سنت میں مذکور ہیں بایں طور کہ کتاب و سنت میں اس قضیہ کے مشابہ جو مسائل مذکور ہیں ان کے مطابق اس قضیہ کا حکم و فیصلہ کروں گا۔ مظہر نے بھی اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔ کہ پہلے میں غور و فکر کروں گا کہ میرے سامنے جو قضیہ پیش ہوا ہے کہ جس کا کوئی حکم کتاب و سنت میں مذکور نہیں ہے وہ کون سے ایسے مسئلہ سے مشابہ ہے جو کتاب و سنت میں مذکور ہے جب میں ان دونوں کے درمیان مشابہت پاؤں گا تو اس کا وہی حکم و فیصلہ کروں گا جو کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ میں مذکور مسئلہ کا ہے، چنانچہ ائمہ مجتہدین کے یہاں اس قیاس پر بہت سے مسائل کا استنباط کیا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان ائمہ مجتہدین نے قیاس کی علت و بنیاد میں اختلاف کی ہے مثلاً گیہوں کے ربوا (سود) کے حرام ہونے کے بارے میں نفس (یعنی صریح حکم ) جب کہ تربوز کے بارے میں ایسی نص نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت امام شافعی نے تربوز کو گیہوں پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ربوا کو بھی حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے علت اس کا کھائی جانے والی چیز ہے  اس لئے گیہوں کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے اس کا ربوا بھی حرام ہو گا۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے کی علت چونکہ اس کا مکیل(یا موزون) ہونا ہے اس لئے انہوں نے گیہوں پر چونے کو قیاس کیا اور یہ مسئلہ اخذ کیا کہ چونے کا ربوا بھی حرام ہے۔

بہرحال یہ حدیث قیاس و اجتہاد کے مشروع ہونے کی علت کی بہت مضبوط دلیل ہے اور اصحاب ظواہر (غیر مقلدین) کے مسلک کے خلاف ہے جو قیاس و اجتہاد کے منکر ہیں۔

مدعا علیہ کا بیان سنے بغیر مدعی کے حق میں فیصلہ نہ کیا جائے

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ (جب) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے قاضی بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ نوجوان کو (قاضی بنا کر) بھیج رہے ہیں (جو کم عمری کی وجہ سے نا تجربہ کار بھی ہے اور) جس کو (منصب قضا کی ذمہ داریوں کا پوری طرح علم بھی نہیں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (تم اس بارے میں فکر نہ کرو) اللہ تعالیٰ تمہارے دل کو فہم و فراست کی ہدایت عطا کرے گا اور تمہاری زبان کو صحیح اور برحق حکم و فیصلہ کرنے پر) ثابت رکھے گا۔ (پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منصب قضاء کی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے سلسلہ میں یہ تعلیم و ہدایت دی کہ جب تمہارے پاس دو آدمی اپنا قضیہ لے کر آئیں تو تم پہلے آدمی (یعنی مدعا علیہ) کا بیان نہ سن لو کیونکہ یہ (مدعا علیہ کا بیان تمہیں) صحیح حکم و فیصلہ دینے میں اچھی مدد دے گا۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی) اس مبارک دعا کی برکت سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس ہدایت و تعلیم پر عمل کرنے کے بعد میں کسی بھی قضیہ کا حکم فیصلہ کرنے میں مذبذب نہیں ہوا۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

قیامت کے دن ظالم حاکم کا انجام

حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر وہ حاکم جو لوگوں پر اپنا حکم و فیصلہ جاری و نافذ کرتا ہے قیامت کے دن (احکم الحاکمین کی بارگاہ میں) اس طرح پیش کیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اس کی گدی پکڑے ہو گا، پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے (کھڑا رہے گا) یہاں تک کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ حکم دے گا کہ اس کو (دوزخ میں) ڈال دو تو وہ اس کو دوزخ کے) گڑھے میں ڈال دے گا جو چالیس برس کی مسافت) کے بقدر (گہرا) ہو گا۔ (احمد، ابن ماجہ، بیہقی، اور شعب الایمان)

 

تشریح

 

 پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا  سے مراد فرشتہ کی اس حالت کو بیان کرنا ہے جس میں وہ حکم خداوندی کا منتظر ہو گا، یعنی جس طرح بادشاہ کے ہاں یہ درباری آداب میں سے ہے کہ جب وہاں کوئی ملزم پیش کیا جاتا ہے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ انتظار کرتا ہے کہ بادشاہ حاکم کی طرف سے کیا حکم و فیصلہ صادر ہوتا ہے، اسی طرح وہ فرشتہ بھی اس حاکم کو بارگاہ رب العزت میں پیش کر کے اس انتظار میں کھڑا رہے گا کہ اس کے بارے میں کیا حکم ہوتا ہے۔

 چالیس برس کے بقدر سے مراد اس گڑھے کی گہرائی کو زیادہ سے زیادہ کر کے بیان کرنا ہے نہ کہ اس سے اس کی مدت کی تعین و تحدید مراد ہے اس حدیث میں جس حاکم کا انجام بیان کیا گیا ظالم حاکم ہے،عدل و انصاف پرور کے بارے میں یہ حکم دیا گیا جائے گا کہ اس کو بہشت میں پہنچایا جائے گا۔ جیسا کہ کتاب الامارۃوالقضاء میں حضرت ابو امامہ کی روایت سے واضح ہو چکا ہے

قیامت کے دن قاضی کی حسرت ناک آرزو؟

اور حضرت عائشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن (جب حاکموں، سرداروں، اور قانون و انصاف کے ذمہ داروں سے سخت مؤاخذہ ہو رہا ہو گا تو) عادل و منصف قاضی کے لئے بھی ایک ایسا لمحہ آئے گا جس میں وہ یہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کو دو آدمیوں کے درمیان کھجور کے (بھی) قضیہ کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری انجام نہ دینا پڑتی ہو۔  (احمد)

عادل و منصف کو حق تعالیٰ کی توفیق و تائید حاصل رہتی ہے

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قاضی جب تک ظلم و ناانصافی کی راہ اختیار نہیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے یعنی حق تعالیٰ کی توفیق و تائید اس کے شامل حال ہوتی ہے لیکن جب وہ ظلم و ناانصافی کی راہ اختیار کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے الگ ہو جاتا ہے (یعنی اس کے اوپر سے حق تعالیٰ کی تائید و توفیق کا سایہ ہٹ جاتا ہے اور شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قاضی جب ظلم و ناانصافی کی راہ اختیار کر لیتا ہے تو (اللہ تعالیٰ) اس کے کام کو اس کے سپرد کر دیتا ہے (یعنی اس کو اپنی توفیق و تائید سے محروم کر دیتا ہے۔ 

 

 

 اور حضرت سعید ابن مسیب راوی ہیں کہ (ایک دن) حضرت عمر فاروق کی خدمت میں ایک مسلمان اور ایک یہودی اپنا جھگڑا لے کر آئے حضرت عمر نے جب (قضیہ کی تحقیق کے بعد) یہ دیکھا کہ یہودی حق پر ہے تو انہوں نے اس (یہودی) کے حق میں فیصلہ دیا اس یہودی نے (اپنے حق میں فیصلہ سن کر) کہا  خدا کی قسم ! آپ نے حق کے مطابق فیصلہ دیا ہے حضرت عمر نے (یہ سن کر) اس کے ایک درہ مارا اور فرمایا تجھے کیسے علم ہوا کہ میں نے حق کے مطابق فیصلہ دیا ہے ؟ یہودی نے کہا  خدا کی قسم ! ہم نے توراۃ میں (یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ جو بھی قاضی حق کے مطابق فیصلہ دیتا ہے اس کے دائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے اور اس کے بائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے اوہ دونوں فرشتے اس کو تقویت پہنچاتے ہیں اور حق کی توفیق دیتے ہیں جب تک وہ حق پر رہتا ہے اور جب قاضی حق کو چھوڑ کر دیتا ہے تو وہ فرشتے آسمان پر چلے جاتے ہیں اور اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ (مالک)

 

تشریح

 

 ایک خلجان تو یہ واقع ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر نے اس یہودی کو اپنے درے سے کیوں مارا درآنحالیکہ اس نے ان کے فیصلہ کے منصفانہ اور برحق ہونے کا اقرار و اعتراف کیا تھا؟ اور ایک اشکال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر کے سوال  تجھ کو یہ کیسے معلوم ہوا الخ  اور یہودی کے جواب  ہم نے توراۃ میں پایا ہے الخ  میں مطابقت کیا ہوئی۔ پہلے خلجان کا جواب تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے یہودی کو کسی سزا یا غصہ کے طور پر نہیں مارا تھا بلکہ نرمی اور خوش طبعی کے طور پر مارا تھا اور دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ اس بات کو یہودی سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ اس تنازعہ میں حق پر کون ہے۔ لہٰذا جب اس یہودی نے دیکھا کہ اگر حضرت عمر حق سے انحراف کرتے تو فریق مخالف یعنی مسلمان کے حق میں فیصلہ کرتے، اس صورت میں ان کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہوتا اور نہ ان کا حق پر قائم رہنا ظاہر ہوتا۔ لہٰذا جب انہوں نے مسلمان کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر حق پر قائم ہیں اور انہوں نے انصاف سے انحراف نہیں کیا ہے۔

منصب قضا قبول کرنے سے حضرت ابن عمر کا انکار

اور حضرت ابن موہب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ابن عفان نے (اپنے زمانہ خلافت میں حضرت ابن عمر سے کہا کہ  لوگوں کا قاضی بن جاؤ (یعنی حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر کی خدمت میں منصب قضا کی پیش کش کی) حضرت ابن عمر نے کہا  امیر المؤمنین ! مجھ کو اس کام سے معاف رکھئے۔ حضرت عثمان نے فرمایا  تم اس منصب کو کیوں ناپسند کرتے ہو !حالانکہ تمہارے والد ! حضرت عمر فاروق) تو اپنے دور خلافت کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں) قضاء کا کام کرتے تھے ؟۔ حضرت ابن عمر نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جو  شخص قضاء پر فائز ہو اور مبنی بر انصاف فیصلے کرے تو وہ اس لائق ہے کہ وہ اس منصب سے برابر سرابر جدا ہو (یعنی نہ نقصان پہنچائے نہ فائدہ نہ ثواب پائے نہ عذاب۔) اس کے بعد حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی (ترمذی) اور رزین کی روایت میں جو انہوں نے حضرت نافع سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں  کہ حضرت ابن عمر نے کہا  امیر المؤمنین  میں (تو) دو آدمیوں کے درمیان (بھی) کوئی حکم و فیصلہ نہیں کروں گا (چہ جائیکہ بہت زیادہ لوگوں کا قاضی بنوں۔ حضرت عثمان نے فرمایا  تمہارے والد (حضرت عمر فاروق) تو لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا  میرے (والد کی بات تو یہ تھی کہ) اگر ان کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی دشواری پیش آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم جبرائیل علیہ السلام سے پوچھ لیا کرتے تھے جب کہ میں ایسے شخص کو نہیں پاتا جس سے پوچھ لیا کروں گا اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی اس نے بڑی ذات کی پناہ مانگی۔ نیز میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ (بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذریعہ پناہ مانگے اس کو پناہ دو۔ لہٰذا میں نے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپ مجھے قاضی مقرر کریں  چنانچہ حضرت عثمان نے ان کو معاف کیا، لیکن ان سے فرمایا کہ ' کسی) اور کو آگاہ نہ کرنا کہ وہ منصب قضا قبول نہ کرے ورنہ لوگ عام طور پر اس منصب کو قبول کرنے سے گریز کرنے لگیں گے اور نظام حکومت معطل ہو کر رہ جائے گا۔