مؤطا امام مالک

مکاتب کے بیان میں

مکاتب کے احکام کے بیان

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے مکاتب غلام رہے گا جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتابت میں سے باقی رہے۔

مکاتب کے احکام کے بیان

عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار کہتے تھے مکاتب غلام ہے جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتاب میں سے باقی ہے۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے میری رائے یہی ہے کہ اگر مکاتب اپنی بدل کتابت سے زیادہ مالک چھوڑ کر مر جائے اور اپنی اولاد کو جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی تھی یا عقد کتابت میں داخل تھی چھوڑ جائے تو پہلے اس کے مالک میں سے بدل کتابت ادا کریں گے پھر جس قدر بچ رہے گا اس کی وارث مکاتب کی اولاد ہو گی۔

مکاتب کے احکام کے بیان

حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ ایک مکاتب ابن متوکل کا مکہ میں مر گیا اور کچھ بدل کتابت اس پر باقی رہ گیا تھا اور لگوں کا قرض بھی تھا اور ایک بیٹی چھوڑ گیا تو مکہ کے عامل کو اس باب میں حکم کرنا دشوار ہو تو اس نے عبدالملک بن مروان کو لکھا عبدالملک نے اس کے جواب میں لکھا کہ پہلے لوگوں کا قرض ادا کر پھر جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے اس کو ادا کر بعد اس کے جو کچھ بچے وہ اس کی بیٹی اور مولی کو تقسیم کر دے۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے اگر غلام اپنے مولیٰ کو کہے مجھ کو مکاتب کر دے تو مولیٰ پر ضروری نہیں خواہ مخواہ مکاتب کرے اور میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ مولیٰ پر جبر ہو گا اپنے غلام کے مکاتب کرنے پر اور جب وہ شخص اس نے اللہ جل جلالہ کے اس قول کو بیان کرتا کہ مکاتب کرو اپنے غلاموں کو اگر اس میں بہتری جانو تو وہ یہ آیتیں  پڑھتے جب تم احرام کھول ڈالو شکار کرو۔ جب نماز ہو جائے تو پھیل جاؤ زمین میں اور اللہ کا فضل ڈھونڈو۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک بلکہ یہ امر اذن کے واسطے ہے نہ کہ وجود وجوب کے واسطے۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے میں نے بعض اہل علم سے سنا اس آیت کی تفسیر میں (دو تم اپنے مکاتبوں کو اس مالک سے جو دیا تم کو اللہ تعالیٰ نے) کہتے تھے مراد اس آیت سے یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر اس کے بدل کتابت میں سے کچھ معاف کر دے۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا اور اسی پر لوگوں کو عمل کرتے ہوئے پایا۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے جب غلام مکاتب ہو جائے اس کا مال اسی کو ملے گا۔ مگر اولاد اس کے عقد کتابت میں داخل نہ ہو گی البتہ جب شرط لگائے تو اولاد بھی داخل ہو گی۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا اور اس غلام کی ایک لونڈی تھی جو حاملہ تھی اس سے مگر حمل کا حال نہ غلام کو معلوم تھا نہ مولیٰ کو تو وہ بچہ جب پیدا ہو گا مکاتب کو نہ ملے گا بلکہ مولیٰ کو ملے گا البتہ لونڈی مکاتب ہی کی رہے گی کیونکہ وہ اس کا مال ہے۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے اگر ایک عورت اپنا مکاتب چھوڑ کر مر گئی اور اس کے دو وارث ہیں ایک خاوند اور ایک لڑکا اس عورت کا پھر مکاتب مر گیا قبل ادا کرنے بدل کتابت کے تو خاوند اور لڑکا موافق کتاب اللہ کے اس کی میراث کو تقسیم کر لیں گے۔ (ایک ربع خاوند کا ہو گا اور باقی بیٹے کا) اور جو بعد ادا کرنے بدل کتابت کے مرا تو میراث اس کی سب بیٹے کو ملے گی خاوند کو کچھ نہ ملے گا۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب اپنے غلام کو مکاتب کرے تو دیکھیں گے اگر اس نے رعایت کے طور پر بدل کتابت کم ٹھہریا ہے تو یہ کتابت جائز نہ ہو گی اور جو بدل کتابت اپنا فائدہ دیکھ کر ٹھہرایا ہے تو جائز ہو گی۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنی مکاتبہ لونڈی سے صحبت کرے اور وہ حاملہ ہو جائے تو اس لونڈی کو اختیار ہے چاہے وہ ام ولدبن کر رہے چاہے اپنی کتابت قائم رکھے اگر حاملہ نہ ہو تو وہ مکاتب رہے گی۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو غلام دو آدمیوں میں مشترکہ ہو اس کو کوئی مکاتب نہیں کر سکتا اگرچہ دوسرا شریک اجازت بھی دے بلکہ دونوں شریک مل کر مکاتب کر سکتے ہیں کیونکہ اگر ایک شریک اپنے حصہ کو مکاتب کر دے گا اور مکاتب بدل کتابت ادا کر دے گا تو اس قدر حصہ آزاد ہونا پڑے گا اب اس شریک پر جس نے کچھ حصہ آزاد کیا لام نہیں کہ دوسرے شریک کو ضمانت دے کر اس کی آزادی پوری کرے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم فرمایا ہے دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت ادا کرنے کا وہ عتاق میں ہے نہ کی کتابت میں۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے اگر اس شریک کو یہ مسئلہ معلوم نہ ہو وہ اپنے حصہ کو مکاتب کر کے کل یا بعض بدل کتابت وصول کرے تو جس قعف وصول کیا ہو اس کو وہ اور اس کا شریک اپنے حصوں کو موافق بانٹ لیں کتابت باطل ہو جائے گی اور وہ مکاتب بدستور غلام رہے گا۔

مکاتب کے احکام کے بیان

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو پھر ایک آدمی ان میں سے اس کو مہلت دے اور دوسرا نہ دے اور جس شخص نے مہلت نہ دی وہ اپنا کچھ حق وصول کر لے بعد اس کے مکاتب مر جائے اور اس قدر مال نہ چھوڑے کہ اس کے بدل کتابت کو کافی ہو تو جس قدر مال چھوڑ گیا ہے تو پہلے دونوں شریک اپنے اپنے بقایا وصول کر کے جو کچھ بچے گا برابر بانٹ لیں گے۔ اگر مکاتب عاجز ہو گا اور جس شخص نے مہلت نہ دی اس نے دوسرے شریک کی نسبت کچھ زیادہ وصول کر لیا ہے تو غلام دونوں میں آدھا آدھا مشترک رہے گا اور جس نے زیادہ لیا ہے وہ اپنے شریک کو کچھ نہ پھیرے گا کیونکہ اس نے اپنے شریک کی اجازت سے لیا ہے۔ اگر ایک نے اپنا حصہ معاف کر دیا تھا اور دوسرے نے کچھ وصول کیا پھر غلام عاجز ہو گیا تو وہ غلام دونوں میں مشترک رہے گا اور جس نے کچھ وصول کر لیا ہے وہ دوسرے شریک کو کچھ نہ دے گا کیونکہ اس نے اپنا حق وصول کیا اس کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کا قرض ایک ہی دستاویز کی فو سے ایک آدمی پر ہو پھر ایک شخص اس کو مہلت دے اور دوسرا حرض کر کے کچھ وصول کر لے بعد اس کے قرض دار مفلس ہو جائے پھر جس شخص نے وصول کر لیا ہے وہ دوسرے شریک کو اس میں سے کچھ نہ دے گا۔

کتابت میں ضمانت کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ چند غلام اگر ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں تو ایک کا بار دوسرے کو اٹھانا پڑے گا اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو بدل کتابت کم نہ ہو گا اگر کوئی ان میں سے عاجز ہو کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دے تو اس کے ساتھیوں کو چاہیے کہ موافق طاقت کے اس سے مزدوری کرائیں اور بدل کتابت کے ادا کرنے میں مدد لیں اگر سب آزاد ہوں گے وہ بھی آزاد ہو گا اور جو سب غلام ہوں گے وہ بھی غلام ہو گا۔

کتابت میں ضمانت کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ بدل کتابت کی ضمانت نہیں ہو سکتی تو غلام کو جب مولیٰ مکاتب کرے تو بدل کتابت کی ضمانت اگر غلام عاجز ہو جائے یا مر جائے کسی سے نہیں لے سکتا نہ یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے کیونکہ اگر کوئی شخص مکاتب کے بدل کتابت کا ضامن ہو اور مولیٰ اس پیچھا کرے ضامن سے بدل کتابت وصول کرے تو یہ وصول کرنا ناجائز طور پر ہو گا کیونکہ ضامن نے نہ مکاتب کو خرید کیا تاکہ جو مالک دیا ہے اس کے عوض میں آ جائے نہ مکاتب آزاد ہوا کہ وہ مالک اس کی آزادی کا بدلہ ہو بلکہ مکاتب جب عاجز ہو گیا تو پھر اپنے مولیٰ کا غلام ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابت دین صحیح نہیں جس کی ضمانت درست ہو۔

کتابت میں ضمانت کا بیان

کہا مالک نے جب غلام ایک ہی عقد میں مکتب کیے جائیں اور ان میں آپس میں ایسی قرابت نہ ہو جس کے سبب سے ایک دوسرے وارث نہ ہوں تو وہ سب ایک دوسرے کے کفیل ہوں گے کوئی ان میں سے بغیر دوسرے کے آزاد نہ ہو سکے گا۔ یہاں تک کہ بدل کتابت پورا پورا ادار کر دیں اگر ان میں سے کوئی مر جائے اور اس قدر مال چھوڑ گیا جو وسب کے بدل کتابت سے زیادہ ہے تو اس مال میں سے بدل کتابت ادا کیا جائے گا اور جو کچھ بچ رہے گا مولیٰ لے لے گا اس کے ساتھیوں کو نہ ملے گا پھر ایک غلام کی آزادی میں جس قدر روپیہ اس مال میں صرف ہوا ہے اس کو مولیٰ ہر ایک غلام سے مجرا لے گا۔ کیونکہ جو غلام مر گیا ہے وہ ان کا کفیل تھا جس قدر روپیہ اس کا ان کی آزادی میں اٹھا ان کو ادا کرنا پڑے گا۔ اگر اس مکاتب کا جو مر گیا کوئی آزاد لڑکا ہو جو حالت کتابت میں پیدا نہ ہوا ہو نہ عقد کتابت اس پر واقع ہوا ہو تو وہ اس کا وارث نہ ہو گا کیونکہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہ تھا۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

حضرت ام سلمہ اپنے مکاتبوں سے قطاعت کرتیں سونے چاندی پر۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو ایک شریک کو جائز نہیں کہ بغیر دوسرے شریک کی اذن کے اپنے حصے کی قطاعت کرے کیونکہ غلام اور اس کا مالک دونوں میں مشترک ہے ایک کو نہیں پہنچتا کہ اس کے مال میں تصرف کرے بغیر دوسرے شریک کے پوچھے ہوئے اگر ایک شریک نے قطاعت کے بغیر دوسرے سے پوچھے ہوئے اور زر قطاعت وصول کر لیا بعد اس کے مکاتب کچھ مال چھوڑ کر مرگیا تو قطاعت کر چکا اس کو اس مکاتب کے مالک میں استحقاق نہ ہو گا نہ یہ ہو سکے گا کہ زر قطاعت کو پھیر دے اور اس مکاتب کو پھر غلام کر لے البتہ جو شخص اپنے شریک کے اذن سے قطاعت کرے پھر مکاتب عاجز ہو جائے اور قطاعت کرنے والا یہ چاہے کہ زر قطاعت پھیر کر اس غلام کا اپنے حصے کے موافق مالک ہو جائے تو ہو سکتا ہے۔ اگر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو جس شریک نے قطاعت نہیں کی اس کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ مال بچے گا اس کو دونوں شریک اپنے حصے کے موافق بانٹ لیں گے اگر ایک نے قطاعت کی اور دوسرے نے نہ کی اور دوسرے نے نہ کی بعد اس کے مکاتب عاجز ہو گیا تو جس نے قطاعت کی اس سے کہا جائے گا اگر تجھ کو منظور ہے تو جس قدر روپیہ تو نے قطاعت کا لیا ہے اس کا آدھا اپنے شریک کو پھیر دے غلام تم دونوں میں مشرت رہے گا ورنہ پورا غلام اس شخص کا ہو جائے گا جس نے قطاعت نہیں کی۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک آدمی ان میں سے قطاعت کرے دوسرے کے اذن سے پھر جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی اسی قدر غلام سے وصول کرے جتنا قطاعت کرنے والے نے وصول کیا ہے یا اس سے زیادہ بعد اس کے مکاتب عاجز ہو جائے تو قطاعت والا قطاعت نہ کرنے والے سے کچھ پھیر نہ سکے گا اگر دوسرے شریک نے قطاعت سے کم وصول کیا پھر غلام عاجز ہو گیا تو قطاعت والے کو اختیار ہے اگر چاہے تو جتنی قطاعت زیادہ ہے اس کا نصف اپنے شریک کو دے کر غلام میں آدھم ساجھا کریں اگر نہ دے تو سارا غلام دوسرے شریک کا جائے گا اگر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ گیا اور قطاعت والے نے چاہا کہ جتنا زیادہ لیا ہے اس کا نصف اپنے شریک کو پھیر دے اور میراث میں شریک ہو جائے تو ہو سکتا ہے اور جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی مکاتب سے قطاعت کے برابر یا اس سے زیادہ وصول کر چکا ہے اس صورت میں میراث دونوں کے ملے گی کیونکہ ہر ایک نے اپنا حق وصول کر لیا۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک اس سے قطاعت کرے اپنے حق کے نصف پر دوسرے کے اذن سے پھر جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی مکاتب سے قطاعت سے کم وصول کرے بعد اس کے مکاتب عاجز ہو جائے تو قطاعت والا اگر چاہے جتنی قطاعت زیادہ ہے اس کا آدھا اپنے شریک کو دے کر غلام میں آدھم ساجھا کر لیں ورنہ اس قدر حصہ غلام کا دوسرے شریک کا ہو جائے گا۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے اس کی شرح یہ ہے کہ مثلاً ایک غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو دونوں مل کر اس کو مکاتب کریں پھر ایک شریک اپنے نصف حق پر غلام سے قطاعت کر لے یعنی پورے غلام کے ربع پر بعد اس کے مکاتب عاجز ہو جائے تو جس نے قطاعت کی ہے اس سے کہا جائے گا کہ جس قدر تو نے زیادہ لیا ہے اس کا نصف اپنے شریک کو پھیر دے اور غلام میں آدھم ساجھا رکھ اگر وہ انکار کرے تو قطاعت والے کا ربع غلام بھی اس شریک کو مل جائے گا اس صورت میں اس شریک کے تین ربع ہوں گے اور اس کا ایک ربع۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب سے اس مولیٰ قطاعت کرے اور وہ آزاد ہو جائے اور جس قدر قطاعت کا روپیہ مکاتب پر رہ جائے وہ اس پر قرض ہے بعد اس کے مکاتب مر جائے اور وہ مقروض ہو لوگوں کا تو مولیٰ دوسرے قرض خواہوں کے برابر نہ ہو گا بلکہ اس مال میں سے پہلے اور قرض خواہ اپنا قرضہ وصول کریں گے۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے جو مکاتب مقروض ہو اس سے مولیٰ قطاعت نہ کرے ایسا نہ ہو کہ وہ غلام آزاد ہو جائے بعد اس کے سارا مال اس کا قرض خواہوں کو مل جائے مولیٰ کو کچھ نہ ملے گا۔

مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر اس سے سونے پر قطاعت کرے اور بدل کتابت معاف کر دے اس شرط سے کہ زر قطاعت فی الفور دے دے تو اس میں کچھ قباحت نہیں ہے اور جس شخص نے اس کو مکروہ رکھا ہے اس نے یہ خیال کیا کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کا میعادی قرضہ کسی پر ہو وہ اس کے بدلے میں کچھ نقد لے کر قرضہ چھوڑ دے حالانکہ یہ قرض کی مثل نہیں ہے بلکہ قطاعت اس لیے ہوتی ہے کہ غلام جلد آزاد ہو جائے اور اس کے لیے میراث اور شہادت اور حدود لازم آ جائیں اور حرمت عتاقہ ثابت ہو جائے اور یہ نہیں لے کہ اس نے روپیوں کو روپیوں کے عوض میں یا سونے کو سونے کے عوض میں خریدا بلکہ اس کی مثال یہ ہے۔ ایک شخص نے اپنے غلام سے کہا تو مجھے اس قدر اشرفیاں لادے اور تو آزاد ہے پھر اس سے کم کر کے کہا اگر اتنے بھی لادے تو بھی تو آزاد ہے۔ کیونکہ بدل کتابت دین صحیح نہیں ہے ورنہ جب مکاتب مر جاتا تو مولیٰ بھی اور قرض خواہوں کے برابر اس کے مال کا دعویٰ دار ہوتا ہے۔

مکاتب کسی شخص کو زخمی کرے

کہا مالک نے اگر مکاتب کسی شخص کو ایسا زخمی کرے جس میں دیت واجب ہو تو اگر مکاتب اپنے بدل کتابت کے ساتھ دیت بھی ادا کر سکے تو دیت ادا کر دے وہ مکاتب بنا رہے گا اگر اس پر قدر نہ ہو تو اپنی کتابت سے عاجز ہوا کیونکہ دیت کا ادا کرنا کتابت پر مقدم ہے پھر جب دیت دینے سے عاجز ہو جائے تو اس کے مولیٰ کو اختیار ہے اگر چاہے تو دیت ادا کر دے اور مکاتب کو غلام سمجھ کر رکھ لے اب وہ بدستور اس کا غلام ہو جائے گا اگر چاہے تو خود مکاتب کو اس شخص کے حوالے کر جو زخمی ہوا ہے مگر مولیٰ پر لازم نہیں ہے کہ غلام دے ڈالنے سے زیادہ اور کچھ اپنا نقصان کرے۔

مکاتب کسی شخص کو زخمی کرے

کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ساتھ مکاتب ہوں پھر ان میں سے ایی غلام کسی شخص کو زخمی کرے تو سب غلاموں سے کہا چائے گا دیت ادا کرو اگر ادا کریں گے اپنی کتابت پر قائم رہیں گے اگر نہ کریں گے سب کے سب عاجز سمجھے جائیں گے چاہے جس غلام نے زخمی کیا ہے اس کو حوالے کر دے باقی غلام بدستور مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے کیونکہ وہ دیت دینے سے عاجز ہو گئے۔

مکاتب کسی شخص کو زخمی کرے

کہا مالک نے اس کی شرح یوں ایک شخص نے اپنے غلاموں کو تین ہزار درہم پر مکاتب کیا اور اس کے زخم کی دیت ایک ہزار درہم وصول پائی تو اب جب وہ مکاتب دو ہزار درہم ادا کر دے گا آزاد ہو جائے گا اگر مولیٰ کے اس غلام پر ہزارہی درہم بابت کتابت کے باقی تھے کہ ایک ہزار درہم دیت کے پائے تو ہو آزاد ہو جائے گا اور جس قدر درہم باقی تھے اس سے زیادہ دیت کے درہم پائے تو مولیٰ جتنے باقی تھے اتنے لے کر باقی مکاتب کو پھیر دے گا اور مکاتب آزاد ہو جائے گا یہ درست نہیں کہ مکاتب کی دیت اسی کو حوالہ کر دیں وہ کھا پی کر برابر کر دے پھر اگر عاجز ہو جائے تو کانا لنگڑا لولا ہو کر اپنے مولیٰ کے پاس آئے کیونکہ مولیٰ نے اس کو اختیار دیا تھا اس کے مال اور کمائی پر نہ اپنی اولاد کی قیمت یا اپنی دیت پر کہ وہ کھا پی کر برابر کر دے بلکہ مکاتب کی دیت اور اس کی اولاد کی دیت جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی یا ان پر عقد کتابت ہوا مولیٰ کو دی جائے گی اور اس کے بدل کتابت میں مجرا ہو گی۔

مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو روپیوں اشرفیوں پر مکاتب کرے وہ اس کی کتابت کو کسی اسباب کے بدلے میں بیچے مگر نقدا نقد وعدے پر نہیں کیونکہ اگر وعدہ کرے گا تو کالی کی بیع بعوض کالی کے ہو جائے گی یعنی دین کی بعوض دین کے اور اگر کسی مال پر مکاتب کیا ہو جیسے اونٹ یا گائے یا بکریاں یا غلاموں پر تو مشتری کو جائز ہے کہ روپیہ اشرفی دے کر اس کی کتابت خرید لے یا دوسری جنس دے کر سوا اس جنس کے جس پر مکاتب ہوا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقدا نقد دے دیر نہ کرے۔

مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

کہا مالک نے اگر چند شریک ہیں ایک مکاتب میں ان میں سے ایک شریک نے اپنا حصہ کتابت بیچنا چاہا ثلث یا ربع یا نصف تو مکاتب کو مثل شفیع کے یہ جبر نہیں پہنچتا کہ اس حصے کو خود خریدے کیونکہ یہ خرید مثل قطاعت کے ہے اور مکاتب کو یہ درست نہیں کہ اپنے شریک سے قطاعت کر لے مگر اور شریکوں کے اذن سے اور اس قدر حصہ خریدنے سے اس کو پوری آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی اور اپنے مال پر قادر نہیں ہے بلکہ تھوڑا حصہ خریدنے میں یہ بھی خیال ہے کہ عاجز ہو جائے کیونکہ اس کا مال اس خرید میں صرف ہو جائے گا اور یہ اس کی مثل نہیں ہے کہ مکاتب اپنے تئیں پورا پورا خرید لے ہاں جس صورت میں باقی شرکاء بھی اجازت دیں تو اوروں سے زیادہ اس کو اس حصے کے خریدنے کا استحقاق ہو گا۔

مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

کہا مالک نے مکاتب کی قسط کی بیع درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکہ ہے اس واسطے کہ اگر مکاتب عاجز ہو گیا تو اس کے ذمے جو روپیہ تھا باطل ہو گیا اور اگر مکاتب مر گیا یا مفلس ہو گیا اور اس پر لوگوں کے قرضے ہیں تو جس شخص نے اس کی قسط خریدی تو وہ قرض خواہوں کے برابر نہ ہو گا بلکہ مثل مکاتب کے مولیٰ کے ہو گا اور مولیٰ مکاتب کے قرض خواہوں کے برابر نہیں ہوتا اسی طرح خراج مولیٰ کا اگر غلام کے ذمے پر جمع ہو جائے تب بھی مولیٰ اور قرض خواہوں کے برابر نہ ہو گا۔

مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

کہا مالک نے مکاتب اگر اپنی کتابت کو خرید لے نقد روپیہ اشرفی کے بدلے میں یا کسی اسباب کے بدلے میں جو بدل کتابت کی جنس سے نہ ہو یا اسی جنس سے مؤجل ہو یا معجل ہو تو درست ہے۔

مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب مر جائے اور اپنی ام ولد اور اولاد صغار کو جو اسی ام ولد سے ہو یا کسی اور عورت سے چھوڑ جائے اور اولاد اس کی محنت مزدوری پر قادر نہ ہو اور کتابت سے عاجز ہو جانے کا خوف ہو تو ام ولد کو بیچ ڈالیں گے جب اس کی قیمت اس قدر ہو کہ بدل کتابت پورا پورا ادا ہو سکے کیونکہ مکاتب کو اگر خوف ہوتا عجز کا تو وہ اس ام ولد کو بیچ سکتا ہے اسی طرح اولاد پر جب خوف ہو گا عجز کا تو ان کے باپ کی ام ولد بیچی جائے گی اور وہ آزاد ہو جائیں گے اگر اس ولد کی قیمت بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور ام ولد سے محنت مزدوری نہ ہو سکے نہ مکاتب کی اولاد سے تو سب کے سب اپنے مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے۔

مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص مکاتب کی کتابت خریدے پھر مکاتب مر جائے قبل اپنی کتابت ادا کرنے کے تو جس شخص نے کتابت خریدی ہے وہی اس کا وارث ہو گا اگر مکاتب عاجز ہو جائے تو اسی کا غلام ہو جائے گا اور اگر مکاتب نے بدل کتابت اس شخص کو ادا کر دیا اور عاجز ہو گیا تو ولاء اس شخص کو ملے گی جس نے اس کو مکاتب کیا تھا نہ کہ اس شخص کو جس نے اس کی کتابت خریدی تھی۔

مکاتب کی محنت مزدوری کا بیان

عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا جو شخص اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کو مکاتب کرے اور پھر مر جائے تو اس کے بیٹے بدل کتابت کے ادا کرنے میں محنت مزدوری کریں گے یا غلام رہیں گے انہوں نے کہا سعی کریں گے اپنے باپ کی کتابت میں اور ان کے باپ کے مر جانے کی وجہ سے بدل کتابت میں کچھ کمی نہ ہو گی۔

مکاتب کی محنت مزدوری کا بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب کے بیٹے کمسن ہوں محنت مزدوری نہ کر سکیں تو ان کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کیا جائے گا اور اپنے باپ کے مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے مگر جس صورت میں مکاتب اس قدر مال چھوڑ جائے جو ان کے بلوغ تک کی قسطوں کو کافی ہو اس صورت میں بلوغ تک انتظار کیا جائے گا بعد بلوغ کے اگر بدل کتابت کو ادا کر دیں تو آزاد ہو جائیں گے اور اگر عاجز ہو جائیں تو غلام ہو جائیں گے۔

مکاتب کی محنت مزدوری کا بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب مر جائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے جو بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور اپنی اولاد اور ام ولد کو جو کتابت میں داخل ہو چھوڑ جائے پھر ام ولد یہ چاہے وہ مال لے کر اولاد کے اور اپنے آزاد کرنے میں محنت مزدوری کرے تو اگر وہ ام ولد معتبر اور مشقت محنت پر قادر ہو تو وہ مال اس کے حوالے کیا جائے گا ورنہ وہ مال مولیٰ لے لے گا اور ام ولد اور مکاتب کی اولاد غلام ہو جائیں گے مولیٰ کے۔

مکاتب کی محنت مزدوری کا بیان

کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ہی وقت میں مکاتب کیے جائیں اور ان میں آپس میں کوئی قرابت نہ ہو پھر بعض ان میں سے عاجز ہو جائیں اور بعض محنت مزدوری کر کے بدل کتابت ادا کریں تو سب آزاد ہو جائیں گے پھر جن لوگوں نے محنت مزدوری کی ہے وہ ان لوگوں سے عاجز ہو گئے تھے ان کا حصہ پھیر لیں گے۔

اگر مکاتب جو قسطیں مقرر ہوئی تھیں اس سے پہلے بدل کتابت ادا کر دے تو آزاد ہو جائے گا

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن وغیرہ سے روایت ہے کہ فرافصۃ بن عمیر کا ایک مکاتب تھا جو مدت پوری ہونے سے پہلے سب بدل کتابت لے کر آیا فرافصہ نے اس کے لینے سے انکار کیا مکاتب مروان کے پاس گیا جو حاکم تھا مدینہ کا اس سے بیان کیا مروان نے فرافصہ کو بلا بھیجا اور کہا بدل کتابت لے لے فرافصہ نے انکار کیا مروان نے حکم کیا کہ مکاتب سے وہ مال لے کر بیت المال میں رکھا جائے اور مکاتب سے کہا جا تو آزاد ہو گیا جب فرافصہ نے یہ حال دیکھا تو مال لے لیا۔

اگر مکاتب جو قسطیں مقرر ہوئی تھیں اس سے پہلے بدل کتابت ادا کر دے تو آزاد ہو جائے گا

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مکاتب اگر اپنی سب قسطوں کو مدت سے پیشتر ادا کر دے تو درست ہے اس کے مولی کو درست نہیں کہ لینے سے انکار کرے کیونکہ مولیٰ اس کے سبب سے ہر شرط کو اور خدمت کو اس کے ذمے سے اتار دیتا ہے اس لیے کہ کسی آدمی کی آزادی پوری نہیں ہوتی جب تک اس کی حرمت تمام نہ ہو اور اس کی گواہی جائز نہ ہو اور اس کو میراث کا استحقاق نہ ہو اور اس کے مولیٰ کو لائق نہیں کہ بعد آزادی کے اس پر کسی کام یا خدمت کی شرط لگائے۔

اگر مکاتب جو قسطیں مقرر ہوئی تھیں اس سے پہلے بدل کتابت ادا کر دے تو آزاد ہو جائے گا

کہا مالک نے جو مکاتب سخت بیمار ہو جائے اور یہ چاہے کہ سب قسطیں اپنے مولیٰ کو ادا کر کے آزاد ہو جائے تاکہ اس کے وارث میراث پائیں جو پہلے سے آزاد ہیں اس کی کتابت میں داخل نہیں ہیں تو مکاتب کو یہ امر درست ہے کیونکہ اس سے اس کی حرمت پوری ہوتی ہے اور اس کی گواہی درست ہوتی ہے اور جن آدمیوں کے قرضہ کا اقرار کرے وہ اقرار جائز ہوتا ہے اور اس کی وصیت درست ہوتی ہے اور اس کے مولیٰ کو انکار نہیں پہنچتا اس خیال سے کہ اپنا مال بچانا چاہتا ہے۔

جب مکاتب آزاد ہو جائے اس کی میراث کا بیان

سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ ایک مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک شخص ان میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے پھر مکاتب مر جائے اور بہت سا مال چھوڑ جائے تو سعید نے کہا جس نے آزاد نہیں کیا اس کا بدل کتابت ادا کر کے باقی جو کچھ بچے گا دونوں شخص بانٹ لیں گے۔

جب مکاتب آزاد ہو جائے اس کی میراث کا بیان

کہا مالک نے جب مکاتب آزاد ہو جائے تو اس کا وارث وہ شخص ہو گا جس نے مکاتب کیا یا مکاتب کے قریب سے قریب رشتہ دار مردوں میں سے جس دن مکاتب مرا ہے لڑکا ہو یا اور عصبہ۔

جب مکاتب آزاد ہو جائے اس کی میراث کا بیان

کہا مالک نے اس طرح جو شخص آزاد ہو جائے تو اس کی میراث اس شخص کو ملے گی جو آزاد کرنے والے کا قریب سے قریب رشتہ دار ہو لڑکا ہو یا اور کوئی عصبہ جس دن وہ غلام مرا ہے۔

جب مکاتب آزاد ہو جائے اس کی میراث کا بیان

کہا مالک نے اگر چند بھائی اکٹھا مکاتب کر دیئے جائیں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو جو کتابت میں پیدا ہوئی ہو یا عقد کتابت میں داخل ہو تو وہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اگر ان میں سے کسی کا لڑکا ہو گا جو کتابت میں پیدا ہوا ہو یا اس پر عقد کتابت واقع ہوا ہو اور وہ مر جائے تو پہلے اس کے مال میں سے سب کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ بچ رہے گا وہ اس کی اولاد کو ملے گا اس کے بھائیوں کو نہ ملے گا۔

مکاتب پر شرط لگانے کا بیان

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا سونے یا چاندی پر اور اس کی کتابت میں کوئی شرط لگا دی سفر یا خدمت یا اضحیہ کی لیکن اس شرط کو معین کر دیا پھر مکاتب اپنے قسطوں کے ادا کرنے پر مدت سے پہلے قادر ہو گیا اور اس نے قسطیں ادا کر دیں مگر یہ شرط اس پر باقی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گا اور حرمت اس کی پوری ہو جائے گی اب اس شرط کو دیکھیں گے اگر وہ شرط ایسی ہے جو مکاتب کو خود ادا کرنا پڑتی ہے (جیسے سفر یا خدمت کی شرط) تو یہ مکاتب پر لازم نہ ہو گی اور نہ مولیٰ کو اس شرط کے پورا کرنے کا استحقاق ہو گا اور جو شرط ایسی ہے جس میں کچھ دینا پڑتا ہے جیسے اضحیہ یا کپڑے کی شرط تو یہ مانند روپوں اشرفیوں کے ہو گی اس چیز کی قیمت لگا کر وہ بھی اپنی قسطوں کے ساتھ ادا کر دے گا جب تک ادا نہ کرے گا آزاد نہ ہو گا۔

مکاتب پر شرط لگانے کا بیان

کہا مالک نے مکاتب مثل اس غلام کے ہے جس کو مولیٰ آزاد کر دے دس برس تک خدمت کرنے کے بعد اگر مولیٰ مر جائے اور دس برس نہ گزرنے ہوں تو ورثاء کی خدمت میں دس برس پورے کرے گا اور ولاء اس کی اسی کو ملے گی جس نے اس کی آزادی ثابت کی یا اس کی اولاد کو مردوں میں سے یا عصبہ کو۔

مکاتب پر شرط لگانے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنے مکاتب سے شرط لگائے تو سفر نہ کرنا یا نکاح نہ کرنا یا میرے ملک میں سے باہر نہ جانا بغیر میرے پوچھے ہوئے اگر تو ایسا کرے گا تو تیری کتابت باطل کر دینا میرے اختیار میں ہو گا۔ اس صورت میں کتابت کا باطل کرنا اس کے اختیار میں نہ ہو گا اگرچہ مکاتب ان کاموں میں سے کوئی کام کرے اگر مکاتب کی کتابت کو مولیٰ باطل کرے تو مکاتب کو چاہیے کہ حاکم کے سامنے فریاد کرے وہ حکم کر دے کہ کتابت باطل نہیں ہو سکتی مگر اتنی بات ہے کہ مکاتب کو نکاح کرنا یا سفر کرنا یا ملک سے باہر جانا بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے درست نہیں ہے خواہ اس کی شرط ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو سو دینار کے بدلے میں مکاتب کرتا ہے اور غلام کے پاس ہزار دینار موجود ہوتے ہیں تو وہ نکاح کر کے ان دیناروں کو مہر کے بدلے میں تباہ ہو کر پھر عاجز ہو کر مولیٰ کے پاس آتا ہے نہ اس کے پاس مول ہوتا ہے نہ اور کچھ اس میں سراسر مولیٰ کا نقصان ہے یا مکاتب سفر کرتا ہے اور قسطوں کے دن آ جاتے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتا تو اس میں مولیٰ کا حرج ہوتا ہے اسی نظر سے مکاتب کو درست نہیں کہ بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے نکاح کرے یا سفر کرے بلکہ ان امورات کا اختیار کرنا مولیٰ کو ہے چاہے اجازت دے چاہے منع کرے۔

مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

کہا مالک نے مکاتب اپنے غلام کو آزاد نہیں کر سکتا مگر مولیٰ کے اذن سے اگر مولیٰ نے اذن دے دیا پھر مکاتب بھی آزاد ہو گیا تو ولاء اس کی مکاتب کو ملے گی اگر مکاتب آزاد ہونے سے پہلے مر گیا تو اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی اسی طرح اگر وہ غلام کی آزادی سے پہلے مر گیا جب بھی اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی۔

مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب نے بھی اپنے غلام کو مکاتب کیا پھر مکاتب کا مکاتب مکاتب سے پہلے آزاد ہو گیا تو اس کی ولاء مکتب کے مولیٰ کو ملے گی جب تک مکاتب آزاد نہ ہو جب مکاتب آزاد ہو جائے گا اس کے مکاتب کی ولاء اس کی طرف لوٹ آئے گی۔ اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مر گیا یا عاجز ہو گیا تو اس کی آزاد اولاد اپنے باپ کے مکاتب کی ولاء نہ پائیں گے کیونکہ ان کے باپ کو ولاء کا استحقاق نہیں ہوا تھا اس واسطے کہ وہ آزاد نہیں ہوا تھا۔

مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو پھر ایک شخص اپنا حق معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے پھر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو جس شخص نے معاف نہیں کیا وہ اپنا حق وصول کر کے جس قدر مال بچے گا وہ دونوں تقسیم کر لیں گے جیسے وہ غلامی کی حالت میں مرتا کیونکہ جس شخص نے اپنا حق چھوڑ دیا اس نے آزاد نہیں کیا بلکہ اپنا حق معاف کر دیا۔

مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

کہا مالک نے اس کی دلیل یہ ہے ایک شخص مر گیا اور ایک مکاتب چھوڑ گیا اور بیٹے اور بیٹیاں بھی چھوڑ گیا پھر ایک بیٹی نے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو ولاء اس کے واسطے ثابت نہ ہو گی اگر یہ آزادی ہوتی تو ولاء اس کے لیے ضروری ثابت ہوتی۔

مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

کہا مالک نے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنا حصہ آزاد کر دیا پھر مکاتب آزاد ہو گیا تو جس شخص نے آزاد کیا ہے اس کو باقی حصوں کی قیمت نہ دینا ہو گی اگر یہ آزادی ہوتی تو اس کو اوروں کے حصے کی قیمت بموجب حدیث سے دینا پڑتی۔

مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

کہا مالک نے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ جس میں کچھ اختلاف نہیں یہ ہے کہ جو شخص ایک حصہ مکاتب میں سے آزاد کر دے تو وہ اس کے مال سے آزاد نہ ہو گا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ولاء اس کو ملتی اس کے شریکوں کو نہ ملتی۔

جس مکاتب کا آزاد کرنا درست نہیں اس کا بیان

کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں تو مولیٰ ان میں سے ایک غلام کو آزاد نہیں کر سکتا جب تک باقی مکاتب راضی نہ ہوں اگر وہ کم سن ہوں تو ان کی رضامندی کا اعتبار نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چند غلاموں میں ایک غلام نہایت ہوشیار اور محنتی ہوتا ہے اس کے سبب سے توقع یہ ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کر کے اوروں کو بھی آزاد کرا دے مولیٰ کیا کرتا کہ اسی شخص کو آزاد کر دیتا ہے تاکہ باقی غلام محنت سے عاجز ہو کر غلام ہو جائیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں باقی غلاموں کا ضرر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسلام میں ضرر نہیں ہے۔

جس مکاتب کا آزاد کرنا درست نہیں اس کا بیان

کہا مالک نے اگر چند غلام مکاتب کیے جائیں اور ان میں کوئی غلام ایسا ہو کہ نہایت بوڑھا ہو یا نہایت کم سن ہو جس کے سبب سے اور غلاموں کو بدل کتابت کی ادا کرنے میں مدد نہ ملتی ہو تو مولیٰ کو اس کا آزاد کرنا درست ہے۔

مکاتب کی اور ام ولد کی آزادی کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر مکاتب مر جائے اور ام ولد چھوڑ جائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے کہ اس کو بدل کتابت کو مکتفی ہو تو وہ ام ولد مکاتب کے مولیٰ کی لونڈی ہو جائے گی کیونکہ وہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہیں ہوا نہ اولاد چھوڑ گیا جس کے ضمن میں ام ولد بھی آزاد ہو جائے۔

مکاتب کی اور ام ولد کی آزادی کا بیان

کہا مالک نے اگر مکاتب اپنے غلام کو آزاد کر دے یا اپنے مال میں سے کچھ صدقہ دے دے اور مولیٰ کو اس کی خبر نہ ہو یہاں تک کہ مکاتب آزاد ہو جائے تو اب مکاتب کو بعد آزادی کے اس صدقہ یا عتاق کا باطل کرنا نہیں پہنچتا البتہ اگر مولیٰ کو قبل آزادی کے اس کی خبر ہو گئی اور اس نے اجازت نہ دی تو وہ صدقہ یا عتاق لغو ہو جائے گا اب پھر مکاتب کو لازم نہیں کہ بعد آزادی کے اس غلام کو پھر آزاد کرے یا صدقہ نکالے البتہ خوشی سے کر سکتا ہے۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے اگر مولیٰ مرتے وقت اپنے مکاتب کو آزاد کر دے تو مکاتب کی اس حالت میں جس میں وہ ہے قیمت لگا دیں گے اگر قیمت اس کی بدل کتابت سے کم ہے تو ثلث مال میں وہ قیمت مکاتب کو معاف ہو جائے گی اور جس قدر بدل کتابت اس پر باقی ہے اس کی مقدار کی طرف خیال نہ آئے گا وہ اگر کسی کے ہاتھ سے مارا جائے تو اس کے قاتل پر قتل کے دن کی قیمت لازم آئے گی اور اگر مجروح ہو تو زخمی کرنے والے پر اس دن کی دیت لازم آئے گی اور ان سب امور میں کتابت کی مقدار کی طرف خیال نہ کریں گے کیونکہ جب تک اس پر بدل کتابت میں سے باقی ہے وہ غلام ہے البتہ اگر بدل کتابت قیمت سے کم باقی ہے تو جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے وہ ثلث مال میں معاف ہو جائے گا گویا میت نے مکاتب کے واسطے اس قدر مال کی وصیت کی۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے تفسیر اس کی یہ ہے مثلاً قیمت مکاتب کی ہزار درہم ہوں اور بدل کتابت میں اس پر سو درہم باقی ہوں تو گویا مولیٰ نے اس کے لیے سو درہم کی وصیت کی اگر ثلث مال میں سے سو درہم کی وصیت کی اگر ثلث مال میں سے سو درہم نکل سکیں تو آزاد ہو جائے گا۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے مرتے وقت تو اس کی قیمت لگا دیں گے اگر ثلث مال میں گنجائش ہو گی تو یہ عقد کتابت جائز ہو گا۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے اس کی تفسیر یہ ہے کہ غلام کی قیمت ہزار دینار ہو اور مولیٰ اس کو مرتے وقت دو سو دینار کو مکاتب کر گیا اور ثلث مال مولیٰ کا ہزار دینار کے مقدار ہو تو کتابت جائز ہو گی گویا یہ مولیٰ نے وصیت کی اپنے مکاتب کے لیے ثلث مال میں اگر مولیٰ نے اور بھی لوگوں کو وصیتیں کی ہیں اور ثلث مال مکاتب کی قیمت سے زیادہ نہیں ہے تو پہلے کتابت کی وصیت کو ادا کریں گے کیونکہ کتابت کا نتیجہ آزادی ہے اور آزادی اور وصیتوں پر مقدم ہے پھر اور وصیت والوں کو حکم ہو گا کہ مکاتب کا پیچھا کریں اور اس سے اپنی وصیتیں وصول کریں اور میت کے وارثوں کو اختیار ہے چاہیں وصیت والوں کو ان کی وصیتیں ادا کریں اور مکاتب کی کتابت آپ لے لیں اگر چاہیں مکاتب کو اور اس کے بدل کتابت کو وصیت والوں کے حوالے کر دیں کیونکہ ثلث مال مکاتب ہی میں رہ گیا ہے اور اس واسطے کہ جب کوئی شخص وصیت کرے پھر اس کے وارث یہ کہیں کہ یہ وصیت ثلث سے زیادہ ہے اور میت نے اپنے اختیار سے زیادہ تصرف کیا تو اس کے ورثہ کو اختیار ہو گا چاہیں تو وصیت والوں کو ان کی وصیتیں ادا کریں اور چاہیں تو میت کا ثلث مال وصیت والوں کے سپرد کر دیں اگر وارثوں نے مکاتب کو وصیت والوں کے سپرد کر دیا تو بدل کتابت وصیت والوں کا ہو جائے گا اب اگر مکاتب نے بدل کتابت ادا کر دیا تو سب وصیت والے اپنے حصوں کے موافق بانٹ لیں گے اگر مکاتب عاجز ہو گیا تو وصیت والوں کا غلام ہو جائے گا اب وصیت والے اس غلام کو وارثوں پر پھیر نہیں سکتے کیونکہ وارثوں نے اپنے اختیار سے اسے چھوڑ دیا اور اس واسطے کہ وصیت والوں کو جب وہ غلام مل گیا تو وہ اس کے ضامن ہو گئے اگر وہ غلام مر جاتا تو وارثوں سے یہ کچھ نہ لے سکتے اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مر گیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا تو وہ مال وصیت والوں کو ملے گا اگر مکاتب نے بدل کتابت ادا کر دیا تو وہ آزاد ہو جائے گا اور ولاء اس کی مکاتب کرنے والے کے عصبوں کو ملے گی۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے جس مکاتب پر مولیٰ کے ہزار درہم آتے ہوں پھر مولیٰ مرتے وقت ہزار درہم معاف کر دے تو مکاتب کی قیمت لگائی جائے گی اگر اس کی قیمت ہزار درہم ہوں گے تو گویا دسواں حصہ کتابت کا معاف ہوا اور قیمت کی رو سے دو سو درہم ہوئے تو گویا دسواں حصہ قیمت کا اس نے معاف کر دیا اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر مولیٰ سب بدل کتابت کو معاف کر دیتا تو ثلث مال میں صرف مکاتب کی قیمت کا حساب ہوتا یعنی ہزار درہم کا اگر نصف معاف کرتا تو ثلث مال میں نصف کا حساب ہوتا اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص مرتے وقت اپنے مکاتب کو ہزار درہم میں سے معاف کر دے مگر یہ نہ کہے کہ کون سی قسط میں یہ معافی ہو گی اول میں یا آخر میں تو ہر قسط میں سے دسواں حصہ معاف کیا جائے گا۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے جب آدمی اپنے مکاتب کو ہزار درہم اول کتابت یا آخر کتابت میں معاف کر دے اور بدل کتابت تین ہزار درہم ہوں تو مکاتب کی قیمت لگا دیں گے پھر اس قیمت کو تقسیم کریں گے ہر ایک ہزار پر جو ہزار کہ مدت اس کی کم ہے اس کی قیمت کم ہو گی بہ نسبت اس ہزار کے جو اس کے بعد سے اسی طرح جو ہزار سب کے اخیر میں ہو گا اس کی قیمت سب سے کم ہو گی کیونکہ جس قدر میعاد بڑھتی جائے گی اسی قدر قیمت گھٹتی جائے گی پھر جس ہزار پر معافی ہوئی ہے اس کی جو قیمت ان کو پڑے گی وہ ثلث مال میں سے وضع کی جائے گی اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے ہے۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے جس شخص نے مرتے وقت ربع مکاتب کی کسی کے لیے وصیت کی اور ربع کو آزاد کر دیا پھر وہ شخص مر گیا بعد اس کے مکاتب مر گیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا تو پہلے مولیٰ کے وارثوں کو اور موصی لہ کو جس قدر بدل کتابت باقی تھا دلا دیں گے پھر جس قدر مال بچ جائے گا ثلث اس میں سے موصی لہ کو ملے گا اور دو ثلث وارثوں کو۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے جس مکاتب کو مولیٰ مرتے وقت آزاد کر دے اور ثلث میں سے وہ آزاد نہ ہو سکے تو جس قدر گنجائش ہو گی اسی قدر آزاد ہو گا اور بدل کتابت میں سے اتنا وضع ہو جائے گا مثلاً مکاتب پر پانچ ہزار درہم تھے اور اس کی قیمت دو ہزار درہم تھی اور میت کا ثلث مال ہزار درہم ہے تو نصف مکاتب آزاد ہو جائے گا اور نصف بدل کتابت یعنی اڑھائی ہزار روپیہ ساقط ہو جائیں گے۔

مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے وصیت کی کہ فلانا غلام میرا آزاد ہے اور فلانے کو مکاتب کرنا پھر ثلث مال میں دونوں کی گنجائش نہ ہو تو آزادی مقدم ہو گی کتابت پر۔

مدبرہ کی اولاد کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے بعد اس کے اس کی اولاد پیدا ہو پھر وہ لونڈی مولیٰ کے سامنے مر جائے تو اس کی اولاد اپنی ماں کی طرح مدبر رہے گی جب مولیٰ مر جائے گا اور ثلث مال میں گنجائش ہو تو آزاد ہو جائے گی۔

مدبرہ کی اولاد کا بیان

کہا مالک نے اگر کوئی شخص حاملہ لونڈی کو بیچے مگر اس کے حمل کو نہ بیچے تو درست نہیں کس واسطے کیا معلوم ہے کہ وہ حمل مرد ہے یا عورت خوبصورت ہے یا بدصورت پورا ہے یا لنڈور زندہ ہے یا مردہ تو کس طور سے اس کی قیمت لونڈی کی قیمت میں سے وضع کرے گا۔

مدبرہ کی اولاد کا بیان

کہا مالک نے اگر ایک شخص ایک لونڈی یا غلام سو دینار کو خریدے اور قیمت ادا کرنے کی ایک میعاد مقرر کرے (مثلاً ایک مہینے کے وعدے پر) پھر بائع شرمندہ ہو کر خریدار سے کہے کہ اس بیع کو فسخ کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد یا اس قدر میعاد میں لے لے تو درست ہے اور اگر مشتری شرمندہ ہو کر بائع سے کہے کہ بیع فسح کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد لے لے یا اس میعاد کے بعد جو ٹھہری تھی تو درست نہیں کیونکہ یہ ایسا ہوا گویا بائع نے اپنے میعاد سے سو دینار کو ایک لونڈی اور دس دینار نقد یا میعادی پر بیع کیا تو سونے کی بیع سونے سے ہوئی میعاد پر اور یہ درست نہیں۔

جب غلام یا لونڈی بکے تو اس کا مال کس کو ملے

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے حضرت عمر نے فرمایا جو شخص غلام کو بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ مال بائع کو ملے گا مگر جب خریدار شرط کر لے کہ وہ مال میں لوں گا۔

جب غلام یا لونڈی بکے تو اس کا مال کس کو ملے

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کر لے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو اگرچہ وہ مال اس زر ثمن سے زیادہ ہو۔ جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰۃ نہیں ہے وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہو گی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہو جائے گا اور اگر یہ غلام آزاد ہو جاتا یا مکاتب تو اس کا مال اسی کو ملتا اگر مفلس ہو جاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا اس کے مولیٰ سے مؤاخذہ نہ ہوتا۔

غلام یا لونڈی کی بیع میں بائع سے کب تک مواخذہ ہو سکتا ہے

عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل دونوں نے خطبے میں بیان کیا کہ غلام اور لونڈی کے عیب کی جواب دہی بائع پر تین روز تک ہے خریدنے کے وقت سے اور ایک جواب دہی سال بھر تک ہے۔

غلام یا لونڈی کی بیع میں بائع سے کب تک مواخذہ ہو سکتا ہے

کہا مالک نے غلام اور لونڈی کو جو عارضہ لاحق ہو تین دن کے اندر وہ بائع کی طرف سے سمجھا جائے گا اور مشتری کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہو گا اور اگر جنون یا جذام یا برص نکلے تو ایک برس کے اندر پھیر دینے کا اختیار ہو گا بعد ایک سال کے پھر بائع سب باتوں سے بری ہو جائے اس کو کسی عیب کی جواب دہی لازم نہ ہو گی اگر کسی نے وارثوں میں سے یا اور لوگوں میں سے ایک غلام یا لونڈی کو پیچا اس شرط سے کہ بائع عیب کی جواب دہی سے بری ہے تو پھر بائع پر جواب دہی لازم نہ ہو گی البتہ اگر جان بوجھ کر اس نے کوئی عیب چھپایا ہو گا تو جواب دہی اس پر لازم ہو گی اور مشتری کو پھیر دینے کا اختیار ہو گا۔ یہ جواب دہی خاص غلام یا لونڈی میں ہے اور چیزوں میں نہیں۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک غلام بیچا آٹھ سو درہم کو اور مشتری سے شرط کر لی کہ عیب کی جواب دہی سے میں بری ہوا بعد اس کے مشتری نے کہا غلام کو ایک بیماری ہے تم نے مجھ سے اس کا بیان نہیں کیا تھا پھر دونوں میں جھگڑا ہوا اور گئے عثمان بن عفان کے پاس مشتری بولا کہ انہوں نے ایک غلام میرے ہاتھ بیچا اور اس کو ایک بیماری تھی انہوں نے بیان نہیں کیا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے شرط کر لی تھی عیب کی جواب دہی میں نہ کروں گا حضرت عثمان نے حکم کیا کہ عبداللہ بن عمر حلف کریں میں نے یہ غلام بیچا اور میرے علم میں اس کو کوئی بیماری نہ تھی عبداللہ نے قسم کھانے سے انکار کیا تو وہ غلام پھر آیا عبداللہ پاس اور اس بیماری سے اچھا ہو گیا پھر عبداللہ نے اس کو ایک ہزار پانچ سو درہم کا بیچا۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ جو شخص خریدے ایک لونڈی کو پھر وہ حاملہ ہو جائے خریدار سے یا غلام خرید لے پھر اس کو آزاد کر دے یا کوئی اور امر ایسا کرے جس کے سبب سے اس غلام یا لونڈی کا پھیرنا نہ ہو سکے بعد اس کے گواہ گواہی دیں کہ اس غلام یا لونڈی میں بائع کے پاس سے کوئی عیب تھا یا بائع خود اقرار کر لے کہ میرے پاس یہ عیب تھا یا اور کسی صورت سے معلوم ہو جائے کہ عیب بائع کے پاس ہی تھا تو اس غلام اور لونڈی کی خرید کے روز کے عیب سمیت قیمت لگا کر بے عیب کی بھی قیمت لگا دیں دونوں قیمتوں میں جس قدر فرق ہو اس قدرت مشتری بائع سے پھیر لے۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک غلام خریدا پھر اس میں ایسا عیب پایا جس کی وجہ سے وہ غلام بائع کو بھیر سکتا ہے مگر مشتری کے پاس جب وہ غلام آیا اس میں دوسرا عیب ہو گیا مثلاً اس کا کوئی عضو کٹ گیا یا کانا ہو گیا تو مشتری کو اختیار ہے چاہے اس غلام کو رکھ لے اور بائع سے عیب کا نقصان لے لے چاہے غلام کو واپس کر دے اور عیب کا تاوان دے اگر وہ غلام مشتری کے پاس مر گیا تو عیب سمیت قیمت لگا دیں گے خرید کے روز کی مثلاً جس دن خریدا تھا اس روز عیب سمیت اس غلام کی قیمت اسی دینار تھی اور بے عیب سو دینار تو مشتری بیس دینار بائع سے مجرا لے گا مگر قیمت اس کی لگائی جائے گی جس دن خریدا تھا۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر ایک شخص نے لونڈی خریدی پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کر دیا مگر اس سے جماع کر چکا تھا تو اگر وہ لونڈی باکرہ تھی تو جس قدر اس کی قیمت میں نقصان ہو گیا مشتری کو دینا ہو گا اور اگر ثییبہ تھی تو مشتری کو کچھ دینا نہ ہو گا۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص غلام یا لونڈی یا اور کوئی جانور بیچے یہ شرط لگا کر کہ اگر کوئی عیب نکلے گا تو میں بری ہوں یا بائع عیب کی جواب دہی سے بری ہو جائے گا مگر جب جان بوجھ کر کوئی عیب اس میں ہو اور وہ اس کو چھپائے اگر ایسا کرے گا تو یہ شرط مفید نہ ہو گی اور وہ چیز بائع کو واپس کی جائے گی۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا مالک نے اگر ایک لونڈی کو دو لونڈیوں کے بدلے میں بیچا پھر ان دو لونڈیوں میں سے ایک لونڈی میں کچھ عیب نکل جس کی وجہ سے وہ پھر سکتی ہے تو پہلے اس لونڈی کی قیمت لگائی جائے گی جس کے بدلے میں یہ دونوں لونڈیاں آئی ہیں پھر ان دونوں لونڈیوں کی بے عیب سمجھ کر قیمت لگا دیں گے پھر اس لونڈی کے زر ثمن کو ان دونوں لونڈیوں کی قیمت پر تقسیم کریں گے ہر ایک کا حصہ جدا ہو گا بے عیب لونڈی کا اس کے موافق اور عیب دار کا اس کے موافق پھر عیب دار لونڈی اس حصہ ثمن کے بدلے میں واپس کی جائے گی قلیل ہو یا کثیر مگر قیمت دو لونڈیوں کی اسی روز کی لگائی جائے گی جس دن وہ لونڈیاں مشتری کے قبضے میں آئی ہیں۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس سے مزدوری کرائی اور مزدوری کے دام حاصل کیے قلیل ہوں یا کثیر بعد اس کے اس غلام میں عیب نکلا جس کی وجہ سے وہ غلام پھیر سکتا ہے تو وہ اس غلام کو پھیر دے اور مزدوری کے پیسے رکھ لے اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہمارے نزدیک جماعت علماء کا یہی مذہب ہے اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس کے ہاتھ سے ایک گھر بنوایا جس کی بنوائی اس کی قیمت سے دوچند سہ چند ہے پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کر دیا تو غلام واپس ہو جائے گا اور بائع کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ مشتری سے گھر بنوانے کی مزدوری لے اسی طرح سے غلام کی کمائی بھی مشتری کی رہے گی۔

غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

کہا ملک نے اگر ایک شخص نے کئی غلام ایک ہی دفعہ (یعنی ایک ہی عقد میں) خریدے اب ان میں سے ایک غلام چوری کا نکلا یا اس میں کچھ عیب نکلا تو اگر وہی غلام سب غلاموں میں عمدہ اور ممتاز ہو گا اور اسی کی وجہ سے باقی غلام خریدے گئے ہوں تو ساری بیع فسخ ہو جائے گی اور سب غلام پھر واپس دیئے جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو صرف اس غلام کو پھیر دے گا اور زر ثمن میں سے بقدر اس کی قیمت کے حصہ لگا کر بائع سے واپس لے گا۔

لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان

عبد اللہ بن مسعود نے ایک لونڈی خریدی اپنی بی بی زینب ثقفیہ سے ان کی بی بی نے اس شرط سے بیچی کہ جب تم اس لونڈی کو بیچنا عبداللہ بن مسعود اس امر کو حضرت عمر سے بیان کیا انہوں نے کہا تو اس لونڈی سے صحبت مت کر جس میں کسی کی شرط لگی ہو۔

لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے آدمی کو اس لونڈی سے وطی کرنا درست ہے جس پر سب طرح کا اختیار ہو اگر چاہے اس کو بیچ ڈالے چاہے ہبہ کر دے چاہے رکھ چھوڑے جو چاہے سو کر سکے۔

لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص کسی لونڈی کو اس شرط پر خریدے کہ اس کو بیچوں گا نہیں یا ہبہ نہ کروں گا یا اس کی مثل اور کوئی شرط لگا دی تو اس لونڈی سے وطی کرنا درست نہیں کیونکہ جب اس کو اس لونڈی کے بیچنے یا ہبہ کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اس کی ملک پوری نہیں ہوئی اور جو لوازم تھے اس کی ملک کے وہ غیر کے اختیار میں رہے اور اس طرح کی بیع مکروہ ہے۔

خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے

ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے عثمان بن عفان کو ایک لونڈی ہدیہ دی مگر اس کا ایک خاوند تھا اور عبداللہ نے اس لونڈی کو بصرے میں خریدا تھا تو عثمان نے کہا میں اس لونڈی سے وطی نہ کروں گا جب تک اس کا خاوند اس کو چھوڑ نہ دے عبداللہ نے اس خاوند کو راضی کر دیا تو اس نے چھوڑ دیا۔

خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے

ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے ایک لونڈی خریدی بعد اس کے معلوم ہوا وہ خاوند رکھتی ہے تو اس کو واپس کر دیا۔

جب درخت بیچا جائے تو اس کے پھل اس میں شامل نہ ہوں گے

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کھجور کا درخت تابیر کیا ہو بیچ تو اس کے پھل بائع کے ہوں گے مگر جس صورت میں مشتری شرط کر لے کہ پھل میرے ہیں۔

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

ابن عمر سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ ان کی پختگی اور بہتری کا یقین ہو جائے منع کیا بائع کو اور مشتری کو۔

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ خوش رنگ ہو جائیں لوگوں نے کہا اس سے کیا مراد ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سرخ یا زرد ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا اگر اللہ ان پھلوں کو پکنے نہ دے تو کس چیز کے بدلے میں تم میں سے کوئی اپنی بھائی کا مال لے گا۔

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا پھلوں کی بیع سے یہاں تک کہ آفت کا خوف جاتا رہے۔

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

زید بن ثابت اپنے پھلوں کو اس وقت بیچتے جب ثریا کے تارے نکل آتے۔

جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

کہا مالک نے خربوزہ اور ککڑی اور گاجر کا بیچنا درست ہے جب ان کو بہتری کا حال معلوم ہو جائے پھر جو کچھ اگیں وہ فصل کے تمام ہونے تک مشتری کے ہوں گے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہر جگہ کے دستور اور رواج کے موافق حکم ہو گا اگر قبل اس وقت کے کسی آفت کے سبب نقصان ہو تہائی مال تک تو مشتری کو وہ نقصان مجرا دیا جائے گا تہائی سے کم اگر نقصان ہو تو مجرانہ دیا جائے گا۔

عریہ کے بیان میں

زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخصت دی عریہ والے اپنا میوہ بیچنے کی اٹکل سے۔

عریہ کے بیان میں

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخصت دی عریوں کے بیچنے کی اٹکل سے بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہوں یا پانچ وسق کے اندر ہوں۔

عریہ کے بیان میں

کہا مالک نے عریہ کا اندازہ درختوں پر کر لیا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو جائز رکھا یہ تولیہ یا اقالہ یا شرکت کے مثل ہے اگر یہ اور بیعوں کے مثل ہوتا تو کھانے کی چیزوں کا تولیہ یا اقالہ یا شرکت قبل قبضے کے نا درست ہے یہ بھی درست نہ ہوتا۔

پھلوں اور کھیتوں کی بیع میں آفت کا بیان

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص نے باغ کے پھل خریدے اور اس کی درستی میں مصروف ہوا مگر ایسی آفت آئی جس سے نقصان معلوم ہوا تو باغ کے مالک سے کہا یا تو پھلوں کی قیمت کچھ کم کر دو یا اس بیع کو فسخ کر ڈالو اس نے قسم کھا لی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریداری کر ڈالو اس نے قسم کھا لی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریدار کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آن کر یہ سب قصہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا قسم کھا لی اس نے کہ میں یہ بہتری کا کام نہ کروں گا جب مالک باغ کو یہ خبر پہنچی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا خریدار کہے وہ مجھ کو منظور ہے۔

پھلوں اور کھیتوں کی بیع میں آفت کا بیان

عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا مشتری کو نقصان دلانے کا جب کھیت یا میوے کو آفت پہنچے۔

پھلوں اور کھیتوں کی بیع میں آفت کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس آفت سے تہائی مال یا زیادہ نقصان ہوا ہو اگر اس سے کم نقصان ہو گا اس کا شمار نہیں۔

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کرنے کا بیان

قاسم بن محمد اپنے باغ کے میووں کو بیچتے پھر اس میں سے کچھ مستثنی کر لیتے۔

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کرنے کا بیان

عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ان کے دادا محمد بن عمرہ بن حزم نے اپنے باغ کا میوہ بیچا چار ہزار درہم کو اس میں سے آٹھ سو درہم کے کھجور مستثنی کر لئے اس باغ کا نام افرق تھا۔

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کرنے کا بیان

عمرہ بنت عبدالرحمن اپنے پھلوں کو بیچتیں اور اس میں سے کچھ نکال لیتیں۔

کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کرنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو آدمی اپنے باغ کا میوہ بچے اس کو اختیار ہے کہ تہائی مال تک مستثنیٰ کرے اس سے زیادہ درست نہیں اور جو سارے باغ میں سے ایک درخت یا درخت کے پھل مستثنی کر لے اور اس کو معین کر دے تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے کیونکہ گویا مالک نے سوائے ان درختوں کے باقی کو بیچا اور ان کو نہ بیچا اس امر کا مالک کو اختیار ہے۔

جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کھجور کو کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو عامل خبری پر ایک صاع کھجور لے کر دو صاع دیتا ہے کھجور دے کر ایک صاع لیتا ہے وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک صاع بہتر کھجور اور ایک صاع بری کھجور کے بدلے میں نہیں آتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور کو خرید کر لے۔

جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

ابو سعید اور ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو عامل مقرر کیا خیبر پر وہ عمدہ کھجور لے کر آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا سب کھجوریں خبیر کی ایسی ہی ہوتی ہیں وہ بولا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم اس کھجور میں سے ایک صاع دو صاع کے بدلے میں یا دو صاع تین صاع کے بدلے میں خرید کیا کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ کرے پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور روپے دے کر خرید لے۔

جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

زید بن ابو عیاش سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سعد بن ابی وقاص سے کہ جو کے غور اور حجاز میں پیدا ہوتا ہے کے بدلے میں بیچ سکتے ہیں انہوں نے کہا دونوں میں کونسا اچھا ہے بولے جو تو منع کیا اس سے اور سعد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے پوچھا کہ خشک کھجور کو رطب بدلے میں بیچنا کیسا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رطب جب سوکھ جاتا ہے تو وزن اس کا کم ہو جاتا ہے لوگوں نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا۔

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا مزابنہ اس کو کہتے ہیں کہ درخت پر پھل کھجور یا انگور اندازہ کر کے خشک کھجور یا انگور کے بدلے میں فروخت کی جائیں۔

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا مزابنہ اور محاقلہ سے مزابنہ کے معنی اوپر بیان ہوئے اور محاقلہ اس کو کہتے ہیں کہ گیہوں کا کھیت بدلے میں خشک گیہوں کے بیچے۔

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا مزابنہ اور محاقلہ سے دونوں کے معنی اوپر گزرے۔

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

ابن شہاب نے کہا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کہ زمین کو کرایہ پر دینا سونے اور چاندی کے عوض میں درست ہے بولے ہاں درست ہے کچھ قباحت نہیں ہے۔

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

کہا مالک نے جو چیز ڈھیر لگا کر بیچی جائے اور اس کا وزن اور کیل معلوم نہ ہو تولی اور ناپی ہوئی چیز کے بدلے میں وہ مزابنہ میں داخل ہے (بشرطیکہ ایک جنس ہو) اگر ایک شخص دوسرے سے کہے کہ یہ جو تیرا ڈھیر پڑا ہے گیہوں یا کھجور یا چارہ یا گٹھلیوں یا گھاس یا کسم یا روئی یا ریشم کا اس کو ناپ تول یا شمار اگر قدر سے نکلے تو میں تجھ کو مجرا دوں گا اور جو زیادہ نکلے تو میں لے لوں گا اس قسم کی بیع درست نہیں ہے بلکہ یہ جوئے کے مشابہ ہے۔

مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

کہا مالک نے اسی طرح اگر کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ یہ کپڑا اتنی ٹوپیوں کو کافی ہے اگر پڑے تو میں دوں گا اور جو بڑھے میں لے لوں گا یا اس کپڑے میں اتنے کرتے بنیں گے اگر کم پڑے میں دے دوں گا اور جو زیادہ ہو لے لوں گا یا اس قدر کھا لوں میں اتنی جوتیاں بنیں گی اگر کم پڑے میں دوں گا زیادہ ہو تو لے لوں گا یا اس قدر دانوں میں اتنا تیل نکلے گا اگر کم نکلے تو میں دوں گا زیادہ نکلے تو میرا ہے یہ سب مزابنہ میں داخل ہے جائز نہیں یا یوں کہے کہ تیرے اس ڈھیر کے بدلے میں پتوں یا گٹھلیوں یا روئی یا تر کاری یا کسم کے اس قدر پتے گٹھلیاں یا روئی یا ترکاری یا کسم تول ناپ کر دیتا ہوں ہر ایک کو اس کی جنس کے ساتھ بیچے تو بھی نادرست ہے۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے جو شخص کسی معین درختوں کے پھلوں کو خریدے یا ایک باغ کے میووں کو خریدے یا معین بکریوں کے دودھ کو خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے بشرطیکہ خریدار قیمت ادا کرتے ہی اپنا مال وصول کرنا شروع کر دے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روپیہ دے کر ایک کپہ میں سے کسی قدر گھی مول لے اس میں کچھ قباحت نہیں ہے اگر کپہ قبل گھی لینے کے پھٹ جائے اور گھی بہہ جائے تو خریدار اپنے روپے پھیر لے گا۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے مثال اس کی یہ ہے کہ ایک شخص تین ڈھیر کھجور کے لگائے ایک عجوہ کا جو پندرہ صاع ہے اور ایک بیس کا جو دس صاع ہے اور ایک عذق کا جو بارہ صاع ہے پھر مشتری نے کھجور والے دینار دے یا اس شرط سے کہ ان تینوں ڈھیروں میں سے جو میں چاہوں لے لوں گا تو یہ جائز نہیں۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے اونٹ یا غلام کو جو درزی یا بڑھئی یا اور کوئی کام کرتا ہو کرایہ کو دے یا مکان کرایہ پر دے اور زر کرایہ پیشگی لے لے بعد اس کے اونٹ یا غلام مر جائے اور گھر گر جائے تو اونٹ والا اسی طرح غلام یا مکان والا حساب کر کے جس قدر اجرت اس کے ذمہ پر باقی رہ گئی ہو واپس کر دے گا فرض کیجئیے کہ اگر مستاجر نے اپنا نصف حق وصول کیا تھا تو نصف اجرت اس کو واپس ملے گی۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے ان سب صورتوں میں سلف کرنا یعنی اجرت پیشگی دے دینا جب ہی درست ہے کہ اجرت دیتے ہی غلام یا اونٹ یا گھر پر قبضہ کر لے یا رطب توڑنا شروع کر دے یہ نہیں کہ اس میں دیر کرے یا کوئی میعاد ٹھہرائے۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے یہ سلف مکروہ ہے کہ کوئی شخص اونٹ کا کرایہ دے دے اونٹ والے سے یہ کہے کہ حج کے دنوں میں تیرے اونٹ پر سوار ہوں گا اور ابھی حج میں ایک عرصہ باقی ہو یا ایسا ہی غلام اور گھر میں کہے تو یہ صورت گویا اس طرح پر ہوئی کہ اگر وہ اونٹ یا غلام یا گھر اس وقت تک باقی رہے تو اسی کرایہ سے اس سے منفعت اٹھا لے اور اگر وہ اونٹ یا غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو اپنے کرایہ کے پیسے پھیر لے۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے اگر وہ شخص کرایہ دیتے ہی اونٹ یا غلام یا گھر پر قبضہ کر لیتا تو کراہت جاتی رہتی اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص غلام یا لونڈی خرید کر اپنے قبضے میں لائے اور قیمت ان کی ادا کرے بعد اس کے کسی عیب کی وجہ سے وہ غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو مشتری اپنا زر ثمن بائع سے پھیر لے اور اس میں کچھ قباحت نہیں ہے۔

پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے جو شخص کسی معین غلام یا اونٹ کو کرایہ پر لے اور قبضے کی ایک میعاد مقرر کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ فلاں تاریخ سے میں اونٹ یا غلام کو اپنے قبضے و تصرف میں لوں گا تو یہ جائز نہیں کیونکہ نہ مستاجر نے قبضہ کیا اس اونٹ یا غلام پر نہ موجر نے ایسے دین میں سلف کی جس کا دینا مستاجر پر واجب ہے۔

میووں کی بیع کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص کوئی میوہ تر یا خشک خریدے اس کو نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لے اور میوے کو میوے سے بدلیں اگر بیچے تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور جو میوہ لیا ایسا ہے کہ سوکھا کر کھایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے اس کو اگر میوے کے بدلے میں بیچے اور ایک جنس ہو تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور برابر بیچے کمی بیشی اس میں درست نہیں البتہ اگر جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد بیچنا چاہیے اس میں میعاد لگانا درست نہیں اور جو میوہ سُکھایا نہیں جاتا بلکہ تر کھایا جاتا ہے۔ جیسے خربوزہ ککڑی ، ترنج ، کیلا، گاجر، انار وغیرہ اس کو ایک دوسرے کے بدلے میں اگرچہ جنس ایک ہو کمی بیشی کے ساتھ بھی درست ہے جب اس میں میعاد نہ ہو نقدا نقد ہو۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں سعد کو کہ جتنے برتن سونے اور چاندی کے مال غنیمت میں آئے ہیں

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دینار کو ایک دینار کے بدلے میں بیچو اور ایک درہم کو ایک درہم کے بدلے میں نہ زیادہ کے بدلے میں۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت بیچو سونے کے بدلے میں سونا مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک دوسرے پر اور مت بیچو چاندی کے بدلے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک دوسرے پر نہ بیچو کچھ اس میں سے نقد وعدہ پر۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ایک سنار آیا اور بولا اے ابو عبدالرحمن میں سونے کا زیور بناتا ہوں پھر اس کے وزن سے زیادہ دینار لے کر اس کو بیچتا ہوں اور یہ زیادتی اپنی محنت کے عوض میں لیتا ہوں عبداللہ بن عمر منع کرتے رہے یہاں تک کہ عبداللہ بن عمر مسجد کے دروازے پر آئے یا اپنے جانور پر سوار ہونے کو آئے اس وقت عبداللہ بن عمر نے کہا دینار کو بدلے میں دینار کے اور درہم کو بدلے میں درہم کے بیچ اور زیادتی نہ لے یہی وصیت ہے۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

حضرت عثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت بیچو ایک دینار کو دو دینار کے بدلے میں نہ ایک درہم کو دو درہم کے بدلے میں۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے ایک برتن پانی پینے کا سونے یا چاندی کا اس کے وزن سے زیادہ سونے یا چاندی کے بدلے میں بیچا تو ابو الدردا نے ان سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے منع کرتے تھے مگر برابر برابر بیچنا درست رکھتے تھے معاویہ نے کہا میرے نزدیک کچھ قباحت نہیں ہے ابو الدردا نے کہا بھلا کان میرے عذر قبول کرے گا اگر میں معاویہ کو اس بدلہ دوں میں تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اپنی رائے بیان کرتے ہیں اب میں تمہارے ملک میں نہ رہوں گا پھر ابو دردا مدینہ میں حضرت عمر کے پاس آئے اور ان سے یہ قصہ بیان کیا حضرت عمر نے معاویہ کو لکھا کہ ایسی بیع نہ کریں مگر برابر تول کر۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا مت بیچو سونے کو بدلے میں سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کے بدلے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو اور دوسرا وعدے پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا بیچو سونے کو سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو دوسرا وعدہ پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

حضرت عمر نے کہا ایک دینار بدلے میں ایک دینار کے چاہے ایک درہم بدلے میں ایک درہم کے اور ایک صاع بدلے میں ایک صاع کے اور نہ بیچو نقد بدلے میں وعدے کے۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

سعید بن مسیب کہتے تھے نہیں ربا ہے مگر سونے میں یا چاندی میں یا جو چیز ناپ تول کر بکتی ہے کھانے پینے کی۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

سعید بن مسیب کہتے تھے روپیہ اشرفی کا کانٹا گویا ملک میں فساد کرنا ہے۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

کہا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اگر سونے کو چاندی کے بدلے میں یا چاندی کو سونے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے جب وہ ڈلی ہوں یا زیور ہوں لیکن روپے اشرفی کا خریدنا بغیر گنے ہوئے جائز نہیں بلکہ اس میں دھوکا ہے اور مسلمانوں کے دستور کے خلاف ہے لیکن سونے چاندی کا ڈلا یا زیور جو تل کے بکتا ہے اس کو اٹکل سے خریدنا جیسے گیہوں یا کھجور وغیرہ کو خریدتے ہیں برا نہیں ہے۔

سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

کہا مالک نے جو شخص کلام مجید یا تلوار یا انگوٹھی جس میں سونا یا چاندی لگا ہو روپے اشرفی کے بدلے میں خرید کرے تو دیکھیں گے اگر ان چیزوں میں سونا لگا ہوا ہے اور اشرفیوں کے بدلے میں اس کو خرید کیا اور اس چیز کی قیمت دو ثلث سے کم نہیں ہے اور جس قدر سونا اس میں لگا ہوا ہے اس کی قیمت ایک ثلث سے زیادہ نہیں ہے تو درست ہے جب نقدا نقد ہو اسی طرح اگر چاندی لگی ہوئی ہے اور روپیوں کے بدلے میں خرید کیا تب بھی یہی حکم ہے۔

بیع صرف کے بیان میں

مالک بن اوس نے کہا مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبید اللہ نے پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے لٹ پلٹ کرنے لگے اور کہا صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ آ جائے حضرت عمر نے یہ سن کر کہا نہیں قسم خدا کی مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور گیہوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقدا نقد اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور جو بدلے جو کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور نمک بدلے نمک کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد۔

بیع صرف کے بیان میں

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لیے پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے اور سب روپے اس کے واپس دے دے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور حضرت عمر نے فرمایا اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہو جائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہو جائے گا اسی واسطے یہ مکروہ ہے خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسرے طرف وعدہ خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔

مرطلہ کا بیان

یزید بن عبداللہ بن قسیط نے کہا سعید بن مسیب کو دیکھا جب سونے کو سونے کے بدلے میں بیچتے تو اپنے سونے کو ایک پلہ میں رکھتے اور دوسرا شخص اپنے سونے کو دوسرے پلے میں رکھتا جب ترازو کا کاٹنا برابر ہو جاتا تو دوسرے کا سونا لے لیتا اور اپنا سونا دے دیتے۔

مرطلہ کا بیان

کہا مالک نے جو شخص سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے تو کچھ قباحت نہیں اگرچہ ایک پلڑے میں گیارہ دینار چڑھیں اور دوسری طرف دس دینار جب نقدا نقد ہوں اور وزن برابر ہو اگرچہ شمار میں کم زیادہ ہوں ایسا ہی درہم کا حکم ہے۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص طعام خریدے پھر اس کو نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اناج خریدے پھر اس کو نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

عبداللہ بن عمر نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اناج خریدتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے وہ ہم کو حکم کرتا تھا کہ غلہ اس جگہ سے اٹھا لے جائیں جہاں خریدا ہے قبل اس کے کہ ہم اس کو بیع کریں۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ حکیم بن حزام نے غلہ خریدا جو حضرت عمر نے لوگوں کو دلوایا تھا پھر حکیم بن حزام نے اس غلہ کو بیچ ڈالا قبضہ سے پہلے جب حضرت عمر کو اس کی خبر پہنچی آپ نے وہ غلہ حکیم بن حزام کو پھروا دیا اور کہا جس غلہ کو تو خریدے پھر اس کو مت بیچ جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

امام مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم کے عہد حکومت میں لوگوں کو سندیں ملیں جار کے غلہ کی لوگوں نے ان سندوں کو بیچا ایک دوسرے کے ہاتھ قبل اس بات کے کہ غلہ اپنے قبضہ میں لائیں تو زید بن ثابت اور ایک اور صحابہ مروان کے پاس گئے اور کہا کیا تو ربا کو درست جانتا ہے اے مروان مروان نے کہا معاذاللہ کیا کہتے ہو انہوں نے کہا کہ یہ سندیں جن لوگوں نے خریدا پھر خرید کر دوبارہ بیچا قبلہ غلہ لینے کے مروان نے چوکیدار کو بھیجا کہ وہ سندیں لوگوں سے چھین کر سند والوں کے حوالے کر دیں۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

امام مالک کو پہنچا ایک شخص نے اناج خریدنا چاہا ایک شخص سے وعدے پر تو بائع مشتری کو بازار میں لے گیا اور اس کو بورے دکھا کر کہنے لگا کون سے غلہ میں تمہاری واسطے خرید کروں مشتری نے کہا کیا تو میرے ہاتھ اس چیز کا بیچتا ہے جو خود تیرے پاس نہیں ہے پھر بائع اور مشتری دونوں عبداللہ بن عمر کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا عبداللہ بن عمر نے مشتری سے کہا مت خریدو اس چیز کو جو بائع کے پاس نہیں ہے اور بائع سے کہا مت بیچ اس چیز کو جو تیرے پاس نہیں ہے۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

جمیل بن عبدالرحمن نے سعید بن مسیب سے کہا میں ان غلوں کو جو سرکار کی طرف سے لوگوں کو مقرر ہیں جار میں خرید کرتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ غلہ کو میعاد لگا کر لوگوں کے ہاتھ بیچوں سعید نے کہا تو چاہتا ہے ان لوگوں کو اسی غلہ میں سے ادا کرے جو تو نے خریدا ہے جمیل نے کہا ہاں سعید بن مسیب نے اس سے منع کیا۔

بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص اناج خرید کرے جیسے گیہوں جو جوار باجرہ ڈالیں وغیرہ جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا روٹی کے ساتھ کھانے کی چیزیں جیسے زیتون کا تیل یا گھی یا شہد یا سرکہ یا پنیر یا دودھ یا تل کا تیل اور جو اس کے مشابہ ہیں تو ان میں سے کوئی چیز نہ بیچے جب تک ان پر قبضہ نہ کر لے۔

اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار منع کرتے تھے اس بات سے کوئی شخص گیہوں کو سونے کے بدلے میں بیچے میعاد لگا کر پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور لے لے۔

اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

کثیر بن فرقد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے پوچھا کوئی شخص اناج کو سونے کے بدلے میں میعاد لگا کر بیچے پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور خرید لے انہوں نے کہا یہ مکروہ ہے اور منع کیا اس سے۔

اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

ابن شہاب سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔

اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

کہا مالک نے سعید بن المسیب اور سلیمان بن یسار ابوبکر بن محمد اور ابن شہاب نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آدمی گیہوں کو سونے کے بدلے میں بیچے پھر اس سونے کے بدلے کھجور خرید لے اسی شخص نے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے قبل اس بات کے کہ سونے پر قبضہ کرے اگر اس سونے کے بدلے میں کسی اور شخص سے کھجور خریدے سوائے اس شخص کے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے ہیں اور کھجور کی قیمت کا حوالے کر دے اس شخص پر جس کے ہاتھوں گیہوں بیچے ہیں تو درست ہے۔

اناج میں سلف کر نے کا بیان

عبداللہ بن عمر نے کہا کچھ قباحت نہیں اگر ایک مرد دوسرے مرد سے سلف کرے اناج میں جب اس کا وصف بیان کر دے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر جب وہ سلم کسی ایسے کھیت میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو یا ایسی کھجور میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو۔

اناج میں سلف کر نے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص سلف کرے اناج میں نرخ مقرر کر کے مدت معین پر تو جب مدت گزرے اور خریدار بائع کے پاس وہ اناج نہ پائے اور سلف کو مسخ کرے تو خریدار کو چاہیے اپنی چاندی یا سونا دیا ہو یا قیمت دی ہوئی بعینہ پھیر لے یہ نہ کرے کہ اس کے بدلے میں دوسری شئی بائع سے خرید لے جب تک اپنے ثمن پر قبضہ نہ کر لے کیونکہ اگر خریدار نے جو قیمت دی ہے اس کے سوا کچھ لے آیا اس کے بدلے میں دوسرا اسباب خرید لے تو اس نے اناج کو قبل قبضہ کے بیچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع کیا ہے۔

اناج میں سلف کر نے کا بیان

کہا مالک نے اگر مشتری نے بائع سے کہا سلف کو فسخ کر ڈال اور ثمن واپس کرنے کے لیے میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں تو یہ جائز نہیں اور اہل علم اس کو منع کرتے ہیں کیونکہ جب میعاد گزر گئی اور اناج بائع کے ذمہ واجب ہو اب مشتری نے اپنے حق وصول کرنے میں دیر کی اس شرط سے کہ بائع سلم کو فسخ کر ڈالے تو گویا مشتری نے اپنے اناج کو ایک مدت پر بیچا قبل قبضے کے۔

اناج میں سلف کر نے کا بیان

کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جب مدت پوری ہوئی اور خریدار نے اناج لینا پسند نہ کیا تو اس اناج کے بدلے میں کچھ روپے ٹھہرا لیے ایک مدت پر تو یہ اقالہ نہیں ہے اقالہ وہ ہے جس میں کمی بیشی بائع یا مشتری کی طرف سے نہ ہو اگر اس میں کمی بیشی ہو گی یا کوئی میعاد بڑھ جائے گی یا کچھ فائدہ مقرر ہو گا بائع کا یا مشتری کا تو وہ اقالہ بیع سمجھا جائے گا اور اقالہ اور شرکت اور تولیہ جب تک درست ہیں کہ کمی بیشی یا میعاد نہ ہو اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ نئی بیع سمجھیں گے۔ جن وجوہ سے بیع درست ہوتی ہے یہ بھی درست ہوں گی اور جن وجوہ سے بیع نادرست ہوتی ہے یہ بھی نادرست ہو گی۔

اناج میں سلف کر نے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص سلف میں عمدہ گیہوں ٹھہرائے پھر میعاد گزرنے کے بعد اس سے بہتر یا بری لے لے تو کچھ قباحت نہیں بشرطیکہ وزن وہی ہو جو ٹھہرا ہو یہی حکم انگور اور کھجور میں ہے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

سلیمان بن یسار نے کہا سعد بن ابی وقاص کے گدھے کا چارہ تمام ہو گیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر میں سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا زیادہ مت لیجیو۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

ابن معیقب دوسری سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

عبدالرحمن بن اسود کے جانور کا چارہ تمام ہو گیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نہ بیچا جائے گا گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور کھجور بدلے کھجور کے اور گیہوں بدلے میں کھجور کے اور کھجور بدلے میں انگور کے مگر نقدا نقد کسی طرف میعاد نہ ہو اگر میعاد ہو گی تو حرام ہو جائے گا اسی طرح جتنی چیزیں روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ بدلے تو نقدا نقد لے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے جتنی کھانے کی چیزیں ہیں یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں۔ مثلاً ایک مد گیہوں کو دو مد گیہوں کے بدلے میں یا ایک مد کھجور کو دو مد کھجور کے بدلے میں یا ایک مد انگور کو دو مد انگور کے بدلے میں نہ بیچیں گے اسی طرح جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب ان کی جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں اگرچہ نقدا نقد ہو جیسے کوئی چاندی کو چاندی کے بدلے میں اور سونے کو سونے کے بدلے میں اور بیچے تو کمی بیشی درست نہیں بلکہ ان سب چیزوں میں ضروری ہے کہ برابر ہوں۔ اور نقدا نقد ہوں۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے جب جنس میں اختلاف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد ہونا چاہیے جیسے کوئی ایک صاع کھجور کو دو صاع گیہوں کے بدلے میں یا ایک صاع کھجور کو دو صاع انگور کے بدلے یا ایک صاع گیہوں کے دو صاع گھی کے بدلے میں خریدے تو کچھ قباحت نہیں جب نقدا نقد ہوں میعاد نہ ہو اگر میعاد ہو گی تو درست نہیں۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر دوسرا گیہوں کا بورا اس کے بدلے میں لے یہ درست ہے کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر کھجور کا بورا اس کے بدلے میں لے نقدا نقد کیونکہ کھجور کو گیہوں کے بدلے میں ڈھیر لگا کر اٹکل سے بیچنا درست ہے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے جتنی چیزیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی ہیں جب ان میں جنس مختلف ہو تو ایک دوسرے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر بیچنا درست ہے جب نقدا نقد ہو اگر اس میں میعاد ہو تو درست نہیں جیسے کوئی چاندی سونے کے بدلے میں ان چیزوں کا ڈھیر لگا کر بیچے تو درست ہے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے گیہوں تول کر ایک ڈھیر بنایا اور وزن چھپا کر کسی کے ہاتھ بیچا تو یہ درست نہیں۔ اگر مشتری یہ چاہے کہ وہ گیہوں بائع کو واپس کر دے اس وجہ سے کہ بائع نے دیا ہو دانستہ وزن کو اس سے چھپایا اور دھوکا دیا تو ہو سکتا ہے اسی طرح جو چیز بائع وزن چھپا کر بیچے تو مشتری کا اس کے پھیر دینے کا اختیار ہے اور ہمیشہ اہل علم اس بیع کو منع کرتے رہے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے ایک روٹی کو دو روٹیوں سے بدلنا یا بڑی روٹی کو چھوٹی روٹی سے بدلنا اچھا نہیں البتہ اگر روٹی کو دوسری روٹی کے برابر سمجھے تو بدلنا درست ہے اگرچہ وزن نہ کرے۔

اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

کہا مالک نے ایک مد زبد اور ایک مد لبن کو دو مد زبد کے بدلے میں لینا درست نہیں کیونکہ اس نے اپنے زبد کی عمدگی لبن کے شریک کر کے برابر کر لی اگر علیحدہ لبن کو بیچتا تو کبھی ایک صاع لبن کے بدلے میں ایک صاع زبد نہ آتی۔ اس قسم کا مسئلہ اوپر بیان ہو چکا۔

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

سعید بن مسیب سے محمد بن عبداللہ بن مریم نے پوچھا میں غلہ خرید کرتا ہوں جار کا تو کبھی میں ایک دینار اور نصف درہم کو خرید کرتا ہوں کیا نصف درہم کے بدلے میں اناج دے دوں سعید نے کہا نہیں بلکہ ایک درہم دے دے اور جس قدر باقی رہے اس کے بدلے میں بھی اناج لے لے۔

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

محمد بن سیرین کہتے تھے مت بیچو دانوں کو بالی کے اندر جب تک پک نہ جائے۔

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اناج خریدے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر جب میعاد پوری ہو تو جس کے ذمہ اناج واجب ہے (مسلم الیہ) وہ کہے میرے پاس اناج نہیں ہے جو اناج میرے ذمہ ہے وہ میرے ہی ہاتھ بیچ ڈال اتنی میعاد پر وہ شخص (رب السلم) کہے یہ جائز نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا ہے اناج بیچنے کو جب تک قبضے میں نہ آئے جس کے ذمہ پر اناج ہے وہ کہے اچھا تو کوئی اور اناج میرے ہاتھ بیچ ڈال میعاد پر تاکہ میں اسی اناج کو تیرے حوالے کر دوں۔ تو یہ درست نہیں کیونکہ وہ شخص اناج دے کر پھیر لے گا اور بائع مشتری کو جو قیمت دے گا وہ گویا مشتری کی ہو گی جو اس نے بائع کو دی اور یہ اناج درمیان میں حلال کرنے والا ہو گا تو گویا اناج کی بیع ہو گی قبل قبضے کے۔

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے یہ اس واسطے کہ اہل علم نے ان چیزوں میں رواج اور دستور کا اعتبار رکھا ہے اور ان کو مثل بیع کے نہیں سمجھا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ناقص کم وزن روپے دیئے پھر مسلم الیہ نے اس کو پورے وزن کے روپے ادا کر دیئے تو یہ درست ہے مگر ناقص روپوں کی بیع پورے وزن کے روپوں کے بدلے میں درست نہیں اگر اس شخص نے سلم کرتے وقت ناقص کم وزن روپے دے کر پورے روپے لینے کی شرط کی تھی تو درست نہ ہو گا۔

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے اس کی نظیر یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزابنہ سے منع کیا اور عرایا کی اجازت دی وجہ یہ ہے کہ مزابنہ کا معاملہ رجارت اور ہوشیاری کے طور پر ہوتا ہے اور عرایا بطور احسان اور سلوک کے ہوتا ہے۔

اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ربع یا ثلث درہم یا اور کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے اس شرط پر کہ اس ربع یا ثلث یا کسر کے عوض میں اناج دے گا وعدے پر البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ ربع یا ثلث درہم یا کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے وعدے پر جب وعدہ گزرے تو ایک درہم حوالے کر دے اور باقی کے بدلے میں کوئی اور چیز خرید کر لے۔

احتکار کے بیان میں

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر نے فرمایا ہمارے بازار میں کوئی احتکار نہ کرے جن لوگوں کو ہاتھ میں حاجت سے زیادہ روپیہ ہے وہ کسی ایک غلہ کو جو ہمارے ملک میں آئے خرید کر احتکار نہ کریں اور جو شخص تکلیف اٹھا کر ہمارے ملک میں غلہ لائے گرمی یا جاڑے میں تو وہ مہمان ہے عمر کا جس طرح اللہ کو منظور ہو بیچے اور جس طرح اللہ کو منظور ہو رکھ چھوڑے۔

احتکار کے بیان میں

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب حاطب بن ابی بلتعہ کے پاس سے ہو کر گزرے اور وہ انگور بیچ رہے تھے بازار میں حضرت عمر نے فرمایا تو تم نرخ بڑھا دو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔

احتکار کے بیان میں

حضرت عثمان بن عفان منع کرتے تھے احتکار سے۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

حضرت علی نے اپنا اونٹ جس کا نام عصیفیر تھا بیس اونٹوں کے بدلے میں بیچا وعدے پر۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

عبد اللہ بن عمر نے ایک سانڈنی چار اونٹوں کے بدلے میں خریدی اور یہ ٹھہرایا کہ ان چار اونٹوں کو زبذہ میں بائع کو پہنچائیں گے۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ ایک جانور کے بدلے میں دو جانور بیچنا میعاد پر بیچنا درست ہے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ سے بدلنے میں کچھ قباحت نہیں اس طرح ایک اونٹ اور کچھ روپے دے کر دوسرا اونٹ لے لینے میں اگرچہ اونٹ کو نقد دے اور روپوں کو ادھار رکھے اور روپے نقد دے اور اونٹ کو ادھار رکھے یا دونوں کو ادھار رکھے تو بہتر نہیں ہے۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے اگر دو تین اونٹ لادنے کے دے کر ایک اونٹ سواری کا خریدے تو کچھ قباحت نہیں اگر ایک نوع کے جانور جیسے اونٹ یا بیل آپس میں ایسا اختلاف رکھتے ہوں کہ ان میں کھلم کھلا فرق ہو تو ایک جانور دے کر دو جانور خریدنا نقد یا ادھار دونوں طرح سے درست ہے اگر ایک دوسرے کے مشابہ ہوں خواہ جنس ایک ہو یا مختلف تو ایک جانور دے کر دو جانور لینا وعدے پر درست نہیں ہے۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جو اونٹ یکساں ہوں ان میں باہم فرق نہ ہو ذات میں اور بوجھ لادنے میں تو ایسے اونٹوں میں سے دو اونٹ دے کر ایک اونٹ لینا وعدے پر درست نہیں البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ اونٹ خرید کر قبل قبضہ کرنے کے دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالے جب کہ قیمت اس کی نقد لے لے۔

جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے جانور میں سلف کرنا درست ہے جب میعاد معین ہو اور اس جانور کے اوصاف اور حلیے بیان کر دے اور قیمت دے دے تو بائع کو اسی طرح کے جانور دینے ہوں گے اور مشتری کو لینے ہوں گے ہمارے شہر کے لوگ ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے رہے اور اسی کے قائل رہے۔

جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا حبل الحبلہ کی بیع سے یہ بیع ایام جاہلیت میں مروج تھی آدمی اونٹ خریدتا تھا اس وعدے پر کہ جب اونٹنی کا بچہ ہو گا اور پھر بچے کا بچہ اس وقت میں دام لوں گا۔

جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے

سعید بن مسیب نے کہا حیوان میں ربا نہیں ہے بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں ایک مضامیں کی دوسرے ملا قیح کی تیسے حبل الحبلہ کی مضامیں وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں ملاقیح وہ جانور جو رن کے پشت میں ہیں حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہو چکا ہے ،۔

جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے

کہا مالک نے معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کر چکا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع مشتری سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے البتہ اگر غیر معین جانور کو اوصاف بیان کر کے بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔

جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا جانور کے بیچنے سے گوشت کے بدلے میں۔

جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

سعید بن مسیب کہتے تھے یہ بھی جاہلیت کا جوا ہے گوشے کو ایک بکری یا دو بکریوں کے عوض میں بیچنا ،۔

جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

سعید بن مسیب کہتے تھے جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا منع ہے ابولزناد نے کہا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا اگر کوئی شخص دس بکریوں کے بدلے میں ایک اونٹ خرید کرے تو کیسا ہے سعید نے کہا اگر ذبح کرنے کے لئے خرید کرے تو کیسا ہے سعید نے کہا اگر ذبح کرنے کے لئے خرید کرے تو بہتر نہیں ابو لزناد نے کہا میں نے سب عالموں کو جانور کی بیع سے گوشت کے بدلے میں منع کرتے ہوئے پایا اور ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل کے زمانے میں عاملوں کے پروانوں میں اس کی ممانعت لکھی جاتی تھی۔

گوشت کو گوشت کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ گوشت اونٹ کا ہو یا بکری کا یا اور کسی جانور کا اس کا گوشت ، گوشت سے بدلنا درست نہیں مگر برابر تول کر نقدا نقد اگر اٹکل سے برابری کرے تو بھی کافی ہے۔

گوشت کو گوشت کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے مچھلیوں کا گوشت اگر اونٹ یا گائے یا بکری کے گوشت کے بدلے میں بیچے کم وبیش تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ نقدا نقد ہو میعاد نہ ہو۔

گوشت کو گوشت کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے پرندوں کا گوشت میرے نزدیک چرندوں اور مچھلیوں کے گوشت سے بڑا فرق رکھتا ہے اگر یہ کم و بیش بیچے جائیں تو کچھ قباحت نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ نقدا نقد ہو۔ میعاد نہ ہو۔

کتے کی بیع کا بیان

ابی مسعود انصاری سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت لینے سے اور خرچی سے فاحشہ کی اور کمائی سے فال نکالنے والے کی۔

بیع سلف کا بیان اور اسباب کو اسباب کے بدلے میں بیچنے کا بیان

رسول اللہ نے منع کیا ہے بیع سے اور سلف سے۔

بیع سلف کا بیان اور اسباب کو اسباب کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے میں تیرا اسباب اس شرط سے لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے سلف کرے اس طرح تو یہ جایز نہیں اگر سلف کی شرط موقوف کر دے تو بیع جائز ہو جائے گی۔

بیع سلف کا بیان اور اسباب کو اسباب کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے جن کپڑوں میں کھلم کھلا فرق ہے ان میں سے ایک کو دو یا تین کے بدلے میں بیع کرنا نقدا نقد یا میعاد پر طرح سے درست ہے اور جب ایک کپڑا دوسرے کپڑے کے مشابہ ہو اگر نام جدا جدا ہوں تو کمی بیشی درست ہے مگر ادھار درست نہیں۔

بیع سلف کا بیان اور اسباب کو اسباب کے بدلے میں بیچنے کا بیان

کہا مالک نے جس کپڑے کو خریدا اس کا بیچنا قبل قبضے کے بائع کے سوا اور کسی کے ہاتھ درست ہے۔ جب کہ اس کی قیمت نقد لے لے۔

اسباب میں سلف کرنے کا بیان

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سے ایک شخص نے پوچھا جو کوئی کپڑوں میں سلف کرے پھر قبل قبضے کے ان کو بیچنا چاہے ابن عباس نے کہا یہ چاندی کی بیع ہے چاندی کے بدلے میں اور اس کو مکروہ جانا۔

اسباب میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے ہماری دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ان کپڑوں کو اسی کے ہاتھ بیچنا چاہے جس سے خریدا ہے پہلی قیمت سے کچھ زیادہ پر کیونکہ اگر وہ کسی اور شخص سے ان کپڑوں کو بیچنا چاہے تو کچھ قباحت نہیں۔

اسباب میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص سلف کرے غلام میں یا جانور میں یا کسی اور اسباب میں اور اس کے اوصاف بیان کر دے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزرے تو مشتری ان چیزوں کو اسی بائع کے ہاتھ پہلی قیمت سے زیادہ پر نہ بیچے جب تک کہ ان چیزوں کو اپنے قبضے میں نہ لائے ورنہ ربا ہو جائے گا گویا بائع نے ایک مدت تک مشتری کے روپوں سے فائدہ اٹھایا پھر زیادہ دے کر اس کو پھیر دیا تو یہ عین ربا ہے۔

اسباب میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص سلف کرے سونا چاندی دے کر کسی اسباب میں یا جانور میں اور اس سے اوصاف بیان کر دے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزر جائے یا نہ گزرے تو مشتری اس اسباب یا جانور کو بائع کے ہاتھ کسی اور اسباب کے بدلے میں بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس اسباب کو نقد لے لے اس میں میعاد نہ ہو سوائے غلے کے کہ اس کا بیچنا قبل قبضے کے درست نہیں اور اگر مشتری اس اس اسباب کو سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ بیچے تو سونے چاندی کے بدلے میں بھی بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقد لے میعاد نہ ہو ورنہ کالئی کی بیع کالئی کے بدلے میں ہو جائے گی یعنی دین کے بدلے میں دین۔

اسباب میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے جو شخص کسی اسباب میں جو کھانے پینے کا نہیں ہے سلف کرے ایک میعاد پر تو مشتری کو اختیار ہے کہ اس اسباب کو سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ سونا یا چاندی یا اسباب کے بدلے میں فروخت کر ڈالے قبضے سے پیشتر مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ بائع کے ہاتھ ہی بیچے اگر ایسا کرے تو اسباب کے بدلے میں بید ڈالے تو کچھ قباحت نہیں مگر نقدا نقد بیچے۔

اسباب میں سلف کرنے کا بیان

کہا مالک نے جس نے روپے یا اشرفیاں دے کر سلف کی چار کپڑوں میں ایک میعاد پر اور ان کپڑوں کے اوصاف بیان کر دیئے۔ جب مدت گزری تو مشتری نے بائع پر ان چیزوں کا تقاضا کیا لیکن بائع کے پاس اس قسم کے کپڑے نہ نکلے بلکہ اس سے ہلکے اس وقت بائع نے کہا تو ان ہلکے کپڑوں میں سے آٹھ کپڑے لے لے تو مشتری کو لینا درست ہے مگر اسی وقت نقد لینا چاہیے دیر نہ کرے اگر ان آٹھ کپڑوں کی کوئی میعاد نہ کرے گا تو درست نہیں ہے اگر قبل میعاد گزرنے کے دوسرے کپڑے اسی قسم کے ٹھہرائے تو درست نہیں البتہ دوسرے قسم کے کپڑوں سے بدلنا درست ہے۔

تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو چیزیں تل کر بکتی ہیں سوائے چاندی اور سونے کے جیسے تانبا اور پیتل اور رانگ اور سیسہ اور لوہا اور پتے اور گھاس اور روئی وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے جب کہ نقدا نقد ہو مثلاً ایک رطل لوہے کہ دو رطل لوہے کے بدلے میں یا ایک رطل پیتل کو دو رطل پیتل کے بدلے میں لینا درست ہے مگر جب جنس ایک ہو تو وعدے پر لینا درست نہیں۔ اگر جنس مختلف ہو اس طرح کہ کھلم کھلا فرق ہو (جیسے پیتل بدلے میں لوہے کے) تو وعدے پر لینا بھی درست ہے۔ اگر کھلم کھلا فرق نہ ہو صرف نام کا فرق ہو جیسے قلعی اور سیسہ اور پیتل اور کانسی تو میعاد پر لینا مکروہ ہے۔

تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

کہا مالک نے ان چیزوں کو قبضے سے پہلے بیچنا درست ہے سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ نقد داموں پر جب ناپ تول کر لیا ضمان میں آ جاتی ہے اور ناپ تول کر خریدنے میں جب تک مشتری اس کو پھر ناپ تول نہ لے اور قبضہ نہ کر لے ضمان میں نہیں آتی۔ یہ حکم ان چیزوں کا میں نے اچھا نسا اور ہمارے نزدیک لوگوں کا عمل اسی پر رہا۔

تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کہ جو چیزیں کھانے اور پینے کی نہیں ہیں اور ناپ تول پر بکتی ہیں جیسے کسم اور گٹھلیاں یا پتے وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے اگرچہ جنس ایک ہو مگر ادھار درست نہیں اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی درست ہے اور ان چیزوں کو قبل قبضے کے بھی بیچنا درست ہے۔ سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ جب قیمت نقد لے لے۔

تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

کہا مالک نے جتنی چیزیں ایسی ہیں جو کام میں آتی ہیں جیسے ریتی اور چونا اگر اپنی جنس کے بدلے میں بیچی جائیں میعاد پر برابر برابر ہوں یا کم و بیش ناجائز ہیں اگر نقد بیچی جائیں تو درست ہے اگرچہ کم وبیش ہوں۔

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

امام مالک کو پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا دو بیعوں سے ایک بیع میں۔

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

ایک شخص نے دوسرے سے کہا تم میرے واسطے یہ اونٹ نقد خرید کر لو میں تم سے وعدے پر خرید کرلوں گا عبداللہ بن عمر نے اس کا برا جانا اور منع کیا

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

قاسم بن محمد سے سوال ہوا ایک شخص نے ایک چیز خریدی دس دینار کے بدلے میں یا پندرہ دینار اور ادھار کے بدلے میں تو قاسم بن محمد نے اس کو برا جانا اور اس سے منع کیا۔

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک کپڑا اس شرط سے خریدا اگر نقد دے تو دس دینار دے اگر وعدے پر دے تو پندرہ دینار دے بہر حال مشتری کو دونوں میں ایک قیمت دینا ضروری ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اس نے اگر دس دینار نقد نہ دیئے تو دس کے بدلے پندرہ ادھار ہوئے اور جو دس نقد دے دیئے تو گویا پندرہ ادھار اس کے بدلے میں لیے۔

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

کہا مالک نے اگر مشتری نے بائع سے کہا میں نے تجھ سے اس قسم کی کھجور پندرہ صاع یا اس قسم کی دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لی دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا یا یوں کہا میں نے تجھ سے اس قسم کی گیہوں پندرہ صاع یا اس قسم کی گیہوں دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لیے دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا تو یہ درست نہیں گویا اس نے دس صاع کھجور لے کر پھر اس کو چھوڑ کر پندرہ صاع کھجور لی یا دس صاع گیہوں چھوڑ کر اس کے عوض میں پندرہ صاع لیے یہ بھی اس میں داخل ہے یعنی دو بیع کرنا ایک بیع میں۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا دھوکے کی بیع سے

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے دھوکے کی بیع میں یہ داخل ہے کسی شخص کا جانور گم ہو گیا ہو یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کی قیمت پچاس دینار ہو ایک شخص اس سے کہے میں تیرے اس جانور یا غلام کو بیس دینار کو لیتا ہوں اگر وہ مل گیا تو بائع کے تیس دینار نقصان ہوئے اور جو نہ ملا تو مشتری کے پاس بیس دینار گئے۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے اس میں ایک بڑا دھوکا ہے معلوم نہیں وہ جانور یا غلام اسی حال میں ہے یا اس میں کوئی عیب ہو گیا یا ہنر ہو گیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت گھٹ بڑھ گئی۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ حمل کا خریدنا بھی دھوکے کی بیع میں داخل ہے معلوم نہیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں اگر نکلے تو خوبصورت ہو گا یا بدصورت پورا ہو گا یا لنڈورا۔ نر ہو یا مادہ اور ہر ایک کی قیمت کم و بیش ہے۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے مادہ کو بیچنا اور اس کے حمل کو مستثنیٰ کر لینا درست نہیں جیسے کوئی کسی سے کہے میری دودھ والی بکری کی قیمت تین دینار ہیں تو دو دینار کو لے لے مگر اس کے پیٹ کا بچہ جب پیدا ہو گا تو میں لے لوں گا یہ مکروہ ہے درست نہیں۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے زیتون کی لکڑی اس کے تیل کے اور تل تیل کے بدلے میں اور مکھن گھی کے بدلے میں بیچنا درست نہیں اس لیے کہ یہ مزابنہ میں داخل ہے۔ اور اس میں دھوکہ ہے معلوم نہیں اس تل یا لکڑی یا مکھن میں اسی قدر تیل یا گھی نکلتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے اسی طرح حب البان کا بیچنا روغن بان کے بدلے میں نادرست ہے البتہ حب البان کو خوشبودار بان کے بدلے میں بیچنا درست ہے کیونکہ وہ خوشبو ملانے سے تیل کے حکم میں نہ رہا۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے ایک شخص نے اپنی چیز کسی کے ہاتھ اس شرط پر بیچی کہ مشتری کو نقصان نہ ہو گا تو یہ جائز نہیں گویا بائع نے مشتری کو نوکر رکھا اگر اس چیز میں نفع ہو اور اگر اتنے ہی کو بکے جتنے کو خریدا ہے یا کم کو مشتری کی محنت برباد ہوئی تو یہ درست نہیں مشتری کو اس کی محنت کے موافق مزدوری ملے گی اور جو کچھ نفع نقصان ہو بائع کا ہو گا مگر یہ حکم جب ہے کہ مشتری اس چیز کو بیچ چکا ہو اگر اس نے نہیں بیچا تو بیع کو فسخ کریں گے۔

جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی چیز بیچ ڈالی پھر مشتری شرمندہ ہو کر بائع سے کہنے لگا کچھ قیمت کم کر دے بائع نے انکار کیا اور کہا تو غم نہ کھا بیچ دے تجھے نقصان نہ ہو گا اس میں کچھ قباحت نہیں نہ دھوکا ہے بلکہ بائع نے ایک رائے اپنی بیان کی کچھ اس شرط پر نہیں بیچا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

ملامسہ اور منابذہ کے بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا ملامسے اور منابذے سے۔

ملامسہ اور منابذہ کے بیان

کہا مالک نے ملامسہ اس کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑے کو چھوڑ کر خرید کر لے نہ اس کو کھولے نہ اندر سے دیکھے یا اندھیری رات میں خریدے نہ جانے اس میں کیا ہے اور منابذہ اس کو کہتے ہیں کہ بائع اپنا کپڑا مشتری کی طرف پھینک دے اور مشتری اپنا کپڑا بائع کی طرف نہ سوچیں نہ بچاریں یہ اس کے بدلے میں اور وہ اس کے بدلے میں یہ دونوں بیع ممنوع ہیں۔

ملامسہ اور منابذہ کے بیان

کہا مالک نے جوتھان تہہ کیا یا چادر بستے میں بندھی ہو تو اس کو بیچنا درست نہیں جب تک کھول کر اندر نہ دیکھے۔

مرابحہ کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کر کے دوسرے شہر میں لائے پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی اور تہہ کرنے کی مزدوری اور باندھا بوندھی کی اجرت اور اپنا خرچ اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کر لے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری کو اطلاع دے اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہو جائے تو کچھ قباحت نہیں۔

مرابحہ کا بیان

کہا مالک نے کپڑوں کی دھلائی اور رنگوائی اس لاگت میں داخل ہو گی اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا اب اگر کپڑا تلف ہو گیا تو کرایہ بار برداری کا محسوب ہو گا مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کر دیں گے جب دونوں راضی ہو جائیں کسی امر پر۔

مرابحہ کا بیان

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب سونے یا چاندی کے بدلے میں خریدا تو اس دن چاندی سونے کا بھاؤ یہ تھا کہ دس درہم کو ایک دینار آتا تھا پھر مشتری اس مال کو لے کر دوسرے شہر میں آیا اور اسی شہر میں مرابحہ کے کے طور پر بیچنا چاہا اسی نرخ پر جو سونے چاندی کا اس دن تھا اگر اس نے درہم کے بدلے میں خریدا تھا اور دیناروں کے بدلے میں بیچا یا دیناروں کے بدلے میں خریدا تھا اور درہموں کے بدلے میں بیچا اور اسباب موجود ہے۔ تلف نہیں ہوا تو خریدار کو اختیار ہو گا چاہے لے چاہے نہ لے اور اگر وہ اسباب تلف ہو گیا تو مشتری سے وہ ثمن جس کے عوض میں بائع نے خریدا تھا نفع حساب کر کے بائع کو دلا دیں گے۔

مرابحہ کا بیان

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے اپنی چیز جو سو دینار کو پڑی تھی دس فی صدی کے نفع پر بیچی پھر معلوم ہوا کہ وہ چیز نوے دینار کو پڑی تھی اور وہ چیز مشتری کے پاس تلف ہو گئی تو اب بائع کو اختیار ہو گا چاہے اس چیز کی قیمت بازار کی لے لے اس دم کی قیمت جس دن وہ شئے مشتری کے پاس آئی تھی مگر جس صورت میں قیمت بازار کی اس ثمن سے جو اول میں ٹھہری تھی یعنی ایک سو دس دینار سے زیادہ ہو تو بائع کو ایک سو دس دینار سے زیادہ نہ ملیں گے اور اگر چاہے تو نوے دینار پر اسی حساب سے نفع لگا کر یعنی ننانوے دینار لے لے مگر جس صورت میں یہ ثمن قیمت سے کم ہو تو بائع کا اختیار ہو گا۔

مرابحہ کا بیان

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک چیز مرابحہ پر بیچی اور کہا سو دینار کو مجھ کو پڑی ہے پھر اس کو معلوم ہوا ایک سو بیس دینار کو پڑی تو اب خریدار کو اختیار ہو گا اگر چاہے تو بائع کا اس دن کی قیمت بازار کی جس دن وہ شئے لی ہے دے دے اور اگر چاہے تو جس ثمن پر خرید کیا ہے نفع لگا کر جہاں تک پہنچے دے مگر جس صورت میں قیمت بازار کی پہلی ثمن سے (یعنی جو سو دینار پر لگی ہے) کم ہو تو مشتری کو یہ نہیں پہنچتا کہ اس سے کم دے اس واسطے کہ مشتری اس پر راضی ہوچکا ہے مگر بائع نے اس سے زیادہ بیان کیا تو خریدار کو اصلی ثمن سے کم کرنے کا اختیار نہ ہو گا۔

بر نامے پر بیع کرنے کا بیان

کہا مالک نے اگر چند آدمیوں نے مل کر اسباب خریدا اب ایک شخص دوسرا ان میں سے ایک شخص کو کہے تو نے جو اسباب خریدا ہے میں نے اس کے اوصاف سنے ہیں تو اپنا حصہ اس قدر نفع پر مجھے دے دے۔ میں تیری جگہ ان لوگوں کا شریک ہو جاؤں گا اور وہ منظور کرے بعد اس کے جب اس اسباب کو دیکھے تو برا اور گراں معلوم ہو اب اس کو اختیار نہ ہو گا لینا پڑے گا جب کہ اس کے ہاتھ بر نامے پر بیچا ہو اور اوصاف بتا دیئے ہوں۔

بر نامے پر بیع کرنے کا بیان

کہا مالک نے ایک شخص کے پاس مختلف کپڑوں کی گٹھڑیاں آئیں اور اس نے برنامہ سنا کے ان گٹھڑیوں کو فروخت کیا جب لوگوں نے مال کھول کر دیکھا تو گراں معلوم ہوا اور نادم ہوئے اس صورت میں وہ مال ان کو لینا ہو گا۔ جب کہ برنامے کے موافق ہو۔

جس بیع میں بائع اور مشتری کا اختیار ہو اس کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں مگر جس بیع میں اختیار کی شرط ہو۔

جس بیع میں بائع اور مشتری کا اختیار ہو اس کا بیان

عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب بائع اور مشتری اختلاف کریں توبائع کو قول معتبر ہو گا اور بیع کا رد کر ڈالیں گے۔

جس بیع میں بائع اور مشتری کا اختیار ہو اس کا بیان

کہا مالک نے ایک شخص نے ایک چیز بیچی اور بیچتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں فلانے سے مشورہ کروں گا اگر اس نے اجازت دی تو بیع نافذ ہے اور جو اس نے منع کیا تو بیع لغو ہے مشتری اس شرط پر راضی ہو گیا بعد اس کے پشیمان ہوا تو اس کو اختیار نہ ہو گا بلکہ بائع کو جب وہ شخص اجازت دے گا تو نافذ ہو جائے گا۔

جس بیع میں بائع اور مشتری کا اختیار ہو اس کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر ایک شخص کوئی چیز خرید کرے کسی شخص سے پھر ثمن میں اختلاف ہو بائع کہے میں نے دس دینار کو بیچا مشتری کہے میں نے پانچ دینار کو خریدا تو بائع سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو پانچ دینار کو مشتری کو دے دے نہیں تو تو قسم کھا اس امر پر میں نے اپنی چیز نہیں بیچی مگر دس دینار کو اگر بائع نے قسم کھائی تو مشتری سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو اس کی چیز دس دینار کو لے لے نہیں تو قسم کھا میں نے اس چیز کو نہیں خریدا مگر پانچ دینار کو مشتری نے یہ قسم کھائی تو وہ بری ہو جائے گا کیونکہ ہر ایک ان میں سے دوسرے کا مدعی ہے۔

قرض میں سود کا بیان

ابو صالح نے کہا میں نے اپنا کپڑا دار نخلہ والوں کے ہاتھ بیچا ایک وعدے پر جب میں کوفے جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا اگر کچھ کم کر دو تم تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں میں نے یہ زید بن ثابت سے بیان کیا انہوں نے کہا میں تجھے اس روپے کے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا۔

قرض میں سود کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے سوال ہوا ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو قرضدار یہ کہے یہ مجھ سے کچھ کم کر کے نقد لے لے اور قرض خواہ اس پر راضی ہو جائے تو عبداللہ بن عمر نے اس کو مکروہ جانا اور اس سے منع کیا۔

قرض میں سود کا بیان

زید بن اسلم نے کہا کیا جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو جب میعاد گزر جائے تو قرض خواہ قرضدار سے کہے یا تم قرض ادا کرو یا سود دو اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے نہیں تو قرض خواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔

قرض میں سود کا بیان

کہا مالک نے اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرض خواہ سے کہے تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں ڈیڑھ سو دینار کو بیع ڈال ایک میعاد پر یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اس لیے کہ قرض خواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کر لی اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی۔ بعوض پچاس دینار کے جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے اگر وہ ادا کر دیتا تو لے لیتا نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مالدار شخص کا دیر کرنا قرض ادا کرنے میں ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی حوالہ کیا جائے مالدار شخص پر تو چاہے کہ حوالہ قبول کر لے۔

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

موسی بن میسرہ نے سنا ایک شخص پوچھ رہا تھا سعید بن مسیب سے میں قرض کے بدل میں بیچا کرتا ہوں سعید نے کہا تو نہ بیچ مگر اس چیز کو جو تیرے پاس ہو۔

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز خرید کرے اس شرط پر کہ بائع وہ شئے مشتری کو اتنی مدت میں سپرد کر دے اس میں مشتری نے کوئی مصلحت رکھی ہو مثلاً اس وقت بازار میں اس مال کی نکاسی کی امید ہو یا اور کچھ غرض ہو پھر بائع اس وعدے میں خلاف کر اور مشتری چاہے کہ وہ شئے بائع کو پھیر دے تو مشتری کو یہ حق نہیں پہنچتا اور بیع لازم رہے گی اگر بائع اس شئے کو قبل میعاد کے لیے آیا تو مشتری پر جبر نہ کیا جائے گا اس کے لینے پر۔

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اناج خرید کر اس کو تول لے پھر ایک خریدار آئے جو مشتری سے اس اناج کو خرید کرنا چاہے مشتری اس سے کہے کہ میں اناج تول چکا ہوں اور وہ شخص مشتری کو سچا سمجھ کر اس غلے کو نقد مول لے لے تو کچھ قباحت نہیں مگر وعدے پر لینا مکروہ ہے جب تک وہ خریدار دوبارہ اس کو تول نہ لے۔

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے دین کا خریدنا درست نہیں خواہ غائب پر ہو یا حاضر پر مگر جب شخص حاضر اس کا اقرار کرے اسی طرح جو دین میت پر ہو اس کا بھی خریدنا درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکا ہے معلوم نہیں وہ قرض ملتا ہے یا نہیں اس واسطے اگر میت یا غائب پر اور بھی دین نکلا تو اس کے پیسے مفت گئے دوسرے یہ کہ وہ قرض اس کی ضمان میں داخل نہیں ہو اگر نہ پنٹا تو اس کے پیسے مفت گئے۔

قرض کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے بیع سلف(قرض) میں اور بیع عینہ میں یہ فرق ہے کہ بیع عینہ والا دس دینار نقد دے کر پندرہ دینار وعدے پر لیتا ہے تو یہ صریح دھوکا ہے اور بالکل فریب ہے۔

شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں

کہا مالک نے جس شخص نے کئی قسم کا کپڑا بیچا اور چند رقم کے کپڑے مستثنی کر لینے کی شرط کر لی تو کچھ قباحت نہیں اگر شرط نہیں کی تو وہ ان کپڑوں میں شریک ہو جائے گا۔ اس لیے کہ ایک رقم کے کپڑوں میں بھی کم و بیش ہوتی ہے۔

شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ شرکت اور تولیہ اور اقالہ کھانے کی چیزوں میں درست ہے ہے خواہ ان پر قبضہ ہوا ہو یانہ ہوا ہو مگر یہ ضروری ہے کہ نقد ہو میعاد نہ ہو اور کمی بیشی نہ ہوا اگر اس میں کمی بیشی ہو گی یا میعاد ہو گی تو یہ معاملے بیع سمجھے جائیں گے شرکت اور تولیہ اور اقالہ نہ ہوں گے۔

شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب جیسے کپڑا یا غلام یا لونڈی خرید کیا پھر ایک شخص نے اس سے کہا کہ مجھ کو بھی اس میں شریک کر لو اس نے قبول کیا اور دونوں نے مل کر بائع کو قیمت ادا کر دی پھر وہ اسباب کسی اور کا نکلا تو جو شخص شریک ہو وہ اپنے دام پہلے مشتری سے لے لے گا۔ اور وہ بائع سے لے گا مگر جس صورت میں مشتری نے خریدتے وقت بائع کے سامنے اس شریک سے کہہ دیا ہو کہ اگر بیع میں فتور نکلے تو اس کی جواب وہی بائع پر ہو گی تو اس صورت میں وہ شریک اپنا نقصان بائع سے لے گا اگر ایسا نہ ہو تو مشتری کی شرط کچھ کام نہ آئے گی اور تاوان کا نقصان اسی پر ہو گا۔

شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں

کہا مالک نے زید نے عمرو سے یہ کہا تو اس شئے کو خرید کر لے میرے اور اپنے ساجھے میں بکوا دوں گا۔ تو میری طرف سے بھی دام دے دے تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ سلف (قرض) ہے بکوا دینے کی شرط پر اگر وہ شئے تلف ہو جائے تو عمرو زید سے اس کے حصہ کے دام لے لے گا البتہ اگر عمرو ایک شئے خرید کر چکا پھر زید نے کہا مجھے بھی اس میں شریک کر لے نصف کا میں بکوادوں گا تو یہ درست ہے۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

ابی بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع کو ثمن وصول نہیں ہوئی لیکن بائع نے اپنی چیز بجنسہ مشتری کے پاس پائی تو بائع اس چیز کا زیادہ حقدار ہو گا اگر مشتری مر گیا تو اس چیز میں بائع اور قرض خواہوں کے برابر ہو گا۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

کہا مالک نے جس شخص نے کوئی اسباب بیچا پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی تو بائع اس کو لے لے گا اگر مشتری نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع زیادہ حقدار ہے بہ نسبت اور قرض خواہوں کے۔ اگر بائع تھوڑی سی ثمن پاچکا ہے پھر بائع یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرض خواہوں کے برابر ہے تو ہو سکتا ہے۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا بعد اس کے مشتری مفلس ہو گیا اب زمین کا بائع یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لیے لیتا ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں کے پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصہ زمین پر کتنا آتا ہے اور عملے پر کتنا آتا ہے اب بائع اور مشتری دونوں اس میں شریک رہیں گے زمین کا مالک اپنے حصہ کے موافق اور باقی قرض خواہ عملے کے موافق۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے جیسے زمین اور عملے کی قیمت پندرہ سو ہوئی اس میں سے زمین کی قیمت پانچ سو ہے اور عملے کی ہزار ہے تو زمین والے کا ایک ثلث ہو گا اور باقی قرض خواہوں کے دو ثلث ہوں گے۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

کہا مالک نے یہی حکم سوت میں ہے جب کہ مشتری نے اس کو بن لیا بعد اس کے قرضدار ہو کر مفلس ہو گیا۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

کہا مالک نے اگر مشتری نے اس چیز میں تصرف نہیں کیا مگر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی اب بائع یہ چاہتا ہے کہ اپنی شئے پھیر لے اور قرض خواہ چاہتے ہیں کہ وہ شئے بائع کو نہ دیں گو قرض خواہ ہوں کو اختیار ہے خواہ بائع کی ثمن پوری پوری حوالے کر دیں۔ اگر اس چیز کی قیمت گھٹ گئی تو بائع کو اختیار ہے خواہ اپنی چیز لے لے پھر اس کو مشتری کے مال سے کچھ غرض نہ ہو گی خواہ اپنی چیز نہ لے اور قرض خواہوں کے ساتھ شریک ہو جائے۔

قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

کہا مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اگر کسی شخص نے لونڈی خریدی یا جانور خریدا پھر اس لونڈی یا جانور کا مشتری کے پاس آن کر بچہ پیدا ہوا بعد اس کے مشتری مفلس ہو گیا تو وہ بچہ بائع ہو گا البتہ اگر قرض خواہ بائع کی پوری ثمن ادا کر دیں تو بچہ کو اور اس کی ماں کو دونوں کو رکھ سکتے ہیں۔

جس چیز میں سلف درست ہے

ابو رافع سے روایت ہے کہ جو مولی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرض لیا ایک چھوٹا اونٹ جب صدقے کے وقت ۔۔۔۔۔

جس چیز میں سلف درست ہے

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص سے روپے قرض لئے پھر اس سے اچھے ادا کئے وہ شخص بولا اے عبدالرحمن یہ تو میرے روپوں سے اچھے ہیں عبداللہ بن عمر نے کہا ہاں میں جانتا ہوں مگر میں اپنی خوشی سے دئے ہیں۔

جس چیز میں سلف درست ہے

کہا مالک نے جو شخص سونا چاندی یا اناج یا جانور قرض لے پھر اس سے بہتر ادا کرے تو کچھ قباحت نہیں جب کہ اس کی شرط نہ ہوئی ہو یا ایسی رسم نہ ہو یا اس کا وعدہ نہ کیا ہو اگر شرط یا رسم یا وعدے کے سبب سے ہو تو مکروہ ہے۔ بہتر نہیں۔

جس چیز میں سلف درست ہے

کہا مالک نے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوٹا اونٹ قرض لے کر اچھا بڑا اونٹ دیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روپے قرض لے کر اس سے بہت دیئے مگر اس کی شرط یا وعدہ نہیں ہوا تھا تو جو کوئی خوشی سے ایسا کرے حلال ہے۔

جس چیز میں سلف درست ہے

حضرت عمر بن خطابن سے کسی نے کہا جو شخص کسی کو اناج قرض دئیے اس شرط پر کہ فلانے شہر میں ادا کرنا انہوں نے اس کو مکروہ جانا اور کہا بار برداری کی اجرت کہاں جائے گی۔

جس چیز میں سلف درست ہے

ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شخص کو قرض دیا اور عمدہ اس سے ٹھہرایا عبداللہ بن عرمں نے کہا یہ ربا ہے اس نے کہا پھر کیا حکم کرتے ہو عبداللہ بن عمر نے کہا قرض تین طور پر ہے ایک خدا کے واسطے اس میں تو خدا کی رضا مندی ہے ایک اپنے دوست کی خوشی کے لئے اس میں دوست کی رضا مندی ہے ایک قرض اس واسطے ہے کہ حلال مال دے کر حرام مال لے یہ سود ہے پھر وہ شخص بولا اب مجھ کو کیا حکم کرتے ہو ابو عبدالرحمن انہوں نے کہا میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تو دستاویز کو پھاڑ ڈال اگر وہ شخص جس کو تو نے قرض دیا ہے جیسا مال تو نے دیا ہے ویسا ہی دے تو لے لے اگر اس سے برا دے اور تو لے لے تو تجھے اجر ہو گا اگر وہ اپنی خوشی سے اس سے اچھا دے تو اس نے تیرا شکریہ ادا کیا اور تو نے جو اتنے دنوں تک اس کو مہلت دی اس کا ثواب تجھے ملا۔

جس چیز میں سلف درست ہے

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص کسی کو قرض دے تو سوائے قرض ادا کرنے کے اور کوئی شرط نہ کرائے۔

جس چیز میں سلف درست ہے

عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے جو شخص کسی کو قرض دے اس سے زیادہ نہ ٹھہرائے اگر ایک مٹھی گھاس کی ہو۔

جس چیز میں سلف درست ہے

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کوئی جانور جس کا حلیہ اور صفت معلوم ہو کسی کو قرض دے تو کچھ قباحت نہیں اب مقروض ویسا ہی جانور ادا کرے۔ مگر لونڈی کو قرض لینا درست نہیں کیونکہ یہ ذریعہ ہے حرام کے حلال کرنے کا لوگ ایک دوسرے کی لونڈی قرض لے آئیں گے پھر جب تک جی چاہے گا اس سے جماع کریں گے بعد اس کے مالک کو پھیر دیں گے یہ تو حلال نہیں ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اور کسی کو اس کی اجازت نہ دی۔

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ بیچیں بعض تمہارے اوپر بعض کے۔

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مت ملو بنجاروں سے آگے بڑھ کر ان کا مال خریدنے کے واسطے اور نہ بیچنے ایک تم میں کا دوسرے کی بیع پر اور نہ بخش کرو اور نہ بیچے بستی والا دیہات والے کی طرف سے اور نہ جمع کرے دودھ اونٹ اور بکری کے تھنوں میں اگر کوئی ایسی اونٹنی یا بکری خریدے پھر دودھ دوہنے کے بعد اس کا حال معلوم ہو تو مشتری کو اختیار ہے اگر چاہے رکھ لے یا چاہے تو پھیر دے اور دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دے دے۔

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

کہا مالک نے یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ بیچے تم میں کا دوسرے کی بیع پر اس سے یہ مراد ہے کہ ایک شخص دوسرے کے مول پر مول نہ کرے جب بائع پہلے مول پر راضی ہو چکا ہو اور اپنی چیز تولنے لگا ہو اور عیب سے اپنے تئیں بری کرنے لگا ہو یا اور کوئی کام ایسا کرے جس سے معلوم ہو کہ بائع پہلے مول پر راضی ہو چکا ہے اور جو بائع پہلے مول پر راضی نہ ہو بلکہ وہ مال اسی طرح بیچنے کے واسطے رکھا ہوا تو ہر ایک کو اس کا مول کرنا درست ہے اور اگر ایک شخص کے مول کرتے ہی اور لوگوں کو مول کرنا منع ہو جائے تو اس میں بیچنے والے کا نقصان ہے۔

جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا نجش سے اور یہ نجش ہے کہ مال کی قیمت اس کی حیثیت سے زیادہ دینے لگے لینے کی نیت سے نہیں بلکہ اس غرض سے کہ دوسرا شخص دھوکا کھا کر اس قیمت کو لے لے۔

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا کہ مجھ کو لوگ فریب دیتے ہیں خرید و فروخت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تو خرید و فروخت کیا کرے تو کہہ دیا کر کہ فریب نہیں ہے وہ شخص جب معاملہ کرتا تو یہی کہا کرتا کہ فریب نہیں ہے۔

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ محمد بن منکدر کہتے تھے اللہ اس بندے کو چاہتا ہے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے اور خریدتے وقت بھی نرمی کرتا ہے قرص ادا کرتے وقت بھی نرمی کرتا ہے اور قرض وصول کرتے وقت بھی۔

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

سعید بن مسیب کہتے تھے جب تو ایسے ملک میں آئے جہاں کے لوگ پورا پورا ناپتے اور تولتے ہوں تو وہاں زیادہ رہ جب ایسے ایسے ملک میں آئے جہان کے لوگ ناپ تول میں کمی کر تے ہوں تو وہاں کم رہ۔

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے کوئی شخص اونٹ یا بکریاں یا کپڑا یا غلام لونڈی بے گنے جھنڈ کے جھنڈ خرید لے اچھا نہیں جو چیزیں گنتی ہے بکتی ہیں ان کو گن لینا بہتر ہے۔

بیع کے مختلف مسائل کا بیان

ابن شہاب سے سوال ہوا کوئی شخص ایک جانور کو لے پھر دوسرے شخص کو اس سے زیادہ پر کرایہ کو دے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔