مشکوٰة شر یف

مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان

پیادہ پا سعی کرنا واجب ہے

حضرت قدامۃ بن عبداللہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کرتے دیکھا ہے اور اس وقت نہ مارنا تھا نہ ہانکنا تھا اور نہ ہٹو بچو کی آوازیں تھیں۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی جب کہ اوپر کی حدیث اور بعض دوسری احادیث سے یہ ثابت ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیادہ پا سعی کی ہے۔ لہٰذا احادیث کے اس تضاد کو یوں ختم کیا جائے کہ کسی سعی میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیادہ پا تھے اور کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعلیم امت کی خاطر یا کسی عذر کی وجہ سے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق بشرط قدرت پیادہ پا سعی کرنا واجب ہے اگر کوئی شخص بلا عذر سواری وغیرہ پر سعی کرے گا تو اس پر دم جانور ذبح کرنا واجب ہو گا۔

 حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ پر سوار ہو کر سعی کر رہے تھے تو اس وقت اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے اور اظہار شان کی خاطر نہ تو کسی کو مارتے دھکیلتے تھے اور نہ ہاتھ وغیرہ سے کسی کو ہٹاتے تھے اور نہ ہٹو بچو کی ہانک لگاتے تھے جیسا کہ امراء و سلاطین اور حکام نیز ظالم و مغرور لوگوں کی عادت ہے ، گویا اس جملہ کے ذریعہ ایسے لوگوں کو غیرت دلانا اور ان پر طعن مقصود ہے جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں۔

۲طواف میں اضطباع

حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حالت میں طواف کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سبز (دھاریوں والی) چادر کے ذریعہ اضطباع کیے ہوئے تھے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 پہلے بتایا جا چکا ہے کہ چادر کو اس طرح اوڑھنا کہ اسے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے ، اضطباع کہلاتا ہے۔ طواف کے وقت اس طرح چادر اوڑھنے کی وجہ بھی پہلے بیان کی جا چکی ہے۔

طواف میں اضطباع سنت ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے جعرانہ سے کہ جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے عمرہ کیا، چنانچہ سب نے خانہ کعبہ کے طواف کے پہلے تین پھیروں میں رمل کیا نیز انہوں نے طواف میں اپنی چادروں کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کاندھوں پر ڈال لیا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 اضطباع پورے طواف میں سنت ہے جب کہ رمل یعنی تیز اور اکڑ کر چلنا طواف کے پہلے دو تین پھیروں میں ہوتا ہے اتنی بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اضطباع صرف طواف کے وقت ہی مستحب ہے ، طواف کے علاوہ اوقات میں مستحب نہیں ہے ، نیز بعض لوگ جو ابتداء احرام ہی سے اضطباع اختیار کر لیتے ہیں اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔

استلام حجر اسود و رکن یمانی کی اہمیت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دونوں رکن استلام کرتے دیکھا ہے ہم نے ان دونوں رکن یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام نہ کبھی بھیڑ میں چھوڑا ہے اور نہ چھیڑ میں (یعنی کسی حال میں بھی ہم نے اس سعادت کو ترک نہیں کیا ہے) (بخاری و مسلم) نیز بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو ہاتھ سے چھوتے اور پھر اس ہاتھ کو چومتے اور فرماتے کہ جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے کبھی اس کو ترک نہیں کیا۔

بسبب عذر سوار ہو کر طواف کرنا جائز ہے

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حج کے دنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں جس کی وجہ سے پیادہ پا طواف نہیں کر سکتی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگوں سے ایک طرف ہو کر سوار پر طواف کر لو۔ چنانچہ میں نے اسی طرح طواف کیا، اور میں نے اس دوران دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کے پہلو میں یعنی خانہ کعبہ کی دیوار متصل نماز پڑھ رہے تھے اور نماز میں آیت (والطور و کتاب مسطور) کی قرأت فرما رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 سورہ طور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت میں پڑھی ہو گی اور دوسری رکعت میں کوئی اور سورہ پڑھی ہو گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی۔ یا یہ کہ سورہ طور کو دونوں ہی رکعتوں میں پڑھا ہو گا۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی بناء پر بیت اللہ کا طواف سوار ہو کر کرنا جائز ہے بلا عذر جائز نہیں ہے کیونکہ پیادہ پا طواف کرنا واجب ہے۔

بوسہ دیتے ہوئے حجر اسود سے حضرت عمر کا خطاب

حضرت عابس بن ربیعہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور اس کے سامنے یہ فرماتے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اس اعتقادی و عملی گمراہی کو روکنے کے لئے تھا کہ کہیں بعض نو مسلم اس پتھر کو پوجنے ہی نہ لگیں ، چنانچہ اس ارشاد سے آپ کی مراد یہی تھی کہ یہ پتھر بذات خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے ، اگر اس کی ذات سے کوئی نفع پہنچتا ہے تو صرف اسی حد تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں اس کو چومنے سے ثواب ملتا ہے۔

رکن یمانی پر دعا اور وہاں متعین فرشتوں کی آمین

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہاں یعنی رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں، چنانچہ جو شخص وہاں یہ دعا پڑھتا ہے ، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ، دعا یہ ہے۔ (اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرہ حسنۃ وقنا عذاب النار)۔ (ابن ماجہ) اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور دنیا و آخرت میں عافیت مانگتا ہوں ، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں اگ کے عذاب سے بچا۔

 

تشریح

 

 رکن یمانی کی جب یہ فضیلت ہے تو حجر اسود کی فضیلت تو اس سے بھی زائد ہو گی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فضیلت و امتیاز صرف رکن یمانی ہی کے ساتھ مختص ہو اور حجر اسود کے لئے اس سے زائد دوسری فضیلتیں ہوں۔ اس حدیث میں اور حدیث نمبر اکیس میں کہ جس میں یہ ذکر ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان۔ ربنا آتنا الخ۔ پڑھتے تھے ، کوئی منافات و تضاد نہیں ہے بایں طور کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طواف کے دوران رکن یمانی کی طرف پہنچتے اور چلتے ہوئے یہ دعا شروع کرتے تو ظاہر ہے کہ اس دعا کا پڑھنا رکن یمانی اور حج اسود کے درمیان ہی ہوتا ہو گا کیونکہ طواف کرتے ہوئے دعا کے لئے ٹھہرنا تو درست نہیں ہے۔ چنانچہ جو لوگ طواف کے دوران ٹھہر کر دعا پڑھتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔

طواف کی حالت میں تسبیح و تہلیل وغیرہ کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور طواف کے دوران۔ دعا (سبحان اللہ و الحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ)۔ کے علاوہ اور کوئی کلام نہ کرے تو اس کے دس گناہ محو کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور جو شخص طواف کرے اور اس طواف کرنے کی حالت میں کلام کرے تو وہ اپنے دونوں پاؤں کے ساتھ دریائے رحمت میں اسی طرح داخل ہوتا ہے جس طرح کوئی اپنے پاؤں کے ساتھ پانی میں داخل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزو کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص طواف کی حالت میں تسبیح و تکبیر اور تہلیل وغیرہ میں مشغول رہتا ہے اس کے گناہ دور ہوتے رہتے ہیں اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے درجات میں بلندی عطا فرمائی جاتی ہے۔

 دوسرا جزو  اور جو شخص طواف کرے اور اسی حالت میں کلام کرے درحقیقت پہلے ہی جزو کی تکرار ہے اور اس حالت میں کلام کرے میں کلام سے مراد تسبیح و تکبیر وغیرہ کے مذکورہ بالا کلمات پڑھنا ہیں، دوبارہ اس بات کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے ، تاکہ طواف کی حالت میں ان کلمات کا مزید ثواب بیان کیا جائے کہ ایک ثواب تو وہ ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ایک ثواب یہ ہے لیکن علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ حدیث کے اس دوسرے جز میں کلام سے مراد تسبیح و تکبیر وغیرہ کے مذکورہ بالا کلمات کے علاوہ دوسرے قسم کے اذکار اور اولیء کرام و مشائخ عظام کے منقولات و ارشادات وغیرہ ہیں۔

مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان

مکہ  کے لغوی معنی ہیں  ہلاک کرنا، برباد کرنا اس شہر مقدس کو مکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور اس شخص کو آخرت یا دنیا ہی میں ہلاک کرا دیتا ہے جو اس شہر میں ظلم و کجروی اختیار کرتا ہے۔

 اس باب میں ان چیزوں کو ذکر کیا جائے گا کہ مکہ آنے والا اس مقدس شہر میں کس طرف سے داخل ہو، کس طرف سے نکلے، کس وقت آئے اور یہ کہ داخلہ کے وقت کیا آداب و قواعد ملحوظ ہونے چاہئیں، نیز طواف اور اس کے متعلقات مثلاً حجر اسود کو بوسہ دینے وغیرہ کی کیفیات اور ان کے مسائل کا بیان ہو گا۔

مکہ کا مدخل اور مخرج

حضرت نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی مکہ آتے، تو ذی طوی میں رات گزارتے اور جب صبح ہوتی تو غسل کرتے اور نماز پڑھتے پھر دن کو مکہ میں داخل ہوتے اور جب مکہ سے واپس ہوتے تو اس وقت بھی ذی طویٰ سے گزرتے اور صبح تک وہیں رات بسر کرتے، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ذی طوی ایک جگہ کا نام ہے جو حدود حرم میں مقام تنعیم کی طرف واقع ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مکہ تشریف لائے تو استراحت کے لئے رات ذی طوی گزارتے پھر صبح غسل فرماتے اور نماز پڑھ کر اس شہر مقدس میں داخل ہوتے۔ نماز سے بظاہر نماز نفل مراد ہے جو وہاں جانے کے لئے پڑھتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے واپس ہوتے تو اس وقت بھی ذی طویٰ میں قیام فرماتے تاکہ رفقاء وہاں جمع ہو جائیں اور سب لوگوں کا سامان وغیرہ اکٹھا ہو جائے۔

 حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مکہ میں دن کے وقت داخل ہونا مستحب ہے تاکہ شہر میں داخل ہوتے ہی بیت اللہ شریف نظر آئے اور دعا کی جائے۔

 

 

٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حجۃ الوداع کے موقع پر) جب مکہ تشریف لائے تو شہر میں اس کے بلند حصہ کی طرف سے داخل ہوئے اور (واپسی کے وقت) نشیبی حصے کی طرف سے نکلے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مکہ کے جس طرف ذی طوی ہے وہی شہر کا بلند حصہ ہے، جنت المعلی یعنی مکہ کا مشہور قبرستان بھی اسی جانب ہے۔ شہر کی دوسری جانب نشیبی حصہ ہے۔

 پہلی حدیث اور اس حدیث میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مکہ کے نیشبی حصہ سے نکل کر جب مدینہ کا راستہ اختیار کرتے تو ذی طویٰ پہنچتے اور وہاں رات گزار کر صبح مدینہ کے لئے روانہ ہو جاتے۔

طواف کے لئے پاکی واجب ہے

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پہنچ کر جو سب سے پہلے کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا (یعنی عمرہ کا طواف کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قارن یا متمتع تھے اور عمرہ نہیں ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو آپ نے بھی بیت اللہ کے طواف سے افعال حج کی ابتداء کی اور عمرہ نہیں ہوا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا۔ کا مطلب یہ ہے کہ مکہ پہنچ کر طواف بیت اللہ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ وضو کیا، کیونکہ یہ بات پہلے ہی معلوم ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں غسل کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ غسل میں وضو بھی شامل ہوتا تھا۔ طواف کے صحیح ہونے کے لئے طہارت یعنی پاکی جمہور علماء کے نزدیک تو شرط ہے لیکن حنفیہ کے ہاں شرط نہیں ہے البتہ واجب ہے۔

 گزشتہ احادیث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ نے مکہ پہنچ کر عمرہ کیا، اس کے بعد جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے وہ تو احرام باندھے رہے اور جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ نہ لائے تھے انہوں نے احرام کھول دیا۔ لہٰذا  اور عمرہ نہ ہوا  کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کو فسخ یعنی موقوف کر کے عمرہ نہیں کیا اور احرام نہیں کھولا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے کیونکہ قارن تھے اور پھر آخر میں قربانی کے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کھولا۔ لہٰذا راوی نے یہ بات اس لئے کہی تاکہ ان لوگوں کی تردید ہو جائے جو یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کو فسخ کر کے عمرہ کیا۔

 یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ ان سب نے حج کے بعد الگ سے اور عمرہ نہیں کیا بلکہ اسی عمرہ پر اکتفاء کیا جو حج کے ساتھ شامل تھا۔

طواف میں رمل کا ذکر

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب حج یا عمرہ کا طواف کرتے تو پہلے تین شوط میں تیز تیز (اور اکڑ کر) چلتے (یعنی رمل کرتے) اور باقی چار شوط میں اپنی معمولی رفتار سے چلتے پھر طواف کی دو رکعت نماز پڑھتے اور اس کے بعد صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 خانہ کعبہ کے گرد ایک پھیرے کو شوط کہتے ہیں اور سات شوط کا ایک طواف ہوتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طواف کے وقت تین پھیروں میں تو اس طرح تیز چلتے کہ قدم پاس پاس رکھتے اور جلد جلد اٹھاتے اور دوڑتے اور اچھلتے نہ تھے اور باقی چار پھیرے اپنی معمولی رفتار سے چل کر کرتے۔

صفا اور مروہ کے درمیان سعی واجب ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف کے وقت حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں تو رمل کیا اور چار پھیروں میں اپنی معمولی رفتار سے چلے اور جب صفا و مرہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن مسیل میں دوڑتے تھے۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 سعی کرنا یعنی صفا و مروہ کے درمیان سات پھیرے کرنا حنفیہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت اما شافعی کے ہاں رکن ہے۔

  بطن مسیل صفا و مروہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے شناخت کے لئے اس کے دونوں سروں پر نشان بنے ہوئے ہیں، جنہیں میلین اخضری کہتے ہیں۔ سعی کے وقت اس جگہ تیز رفتاری سے چلنا تمام علماء کے نزدیک سنت ہے۔

حجر اسود کا بوسہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (جب حج یا عمرہ کے لئے) مکہ تشریف لائے تو حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا پھر (طواف کے لئے) داہنے ہاتھ کی طرف چلے، چنانچہ تین مرتبہ تو بازو ہلا کر اور جلدی جلدی چلے (جس طرح پہلوان چلتے ہیں) اور چار مرتبہ اپنی معمولی رفتار سے چلے۔ (مسلم)

 

 

٭٭ حضرت زبیر ابن عربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کو بوسہ دینے کے سلسلہ میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے ہاتھ لگاتے اور چومتے تھے۔ (بخاری)

استلام رکن یمانی

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خانہ کعبہ کے صرف دو رکن کا استلام کرتے دیکھا ہے جو یمن کی سمت ہیں۔ (بخاری مسلم)

 

تشریح

 

 کعبہ مقدسہ کے چار رکن یعنی چار کونے ہیں، ایک رکن تو وہ ہے جس میں حجر اسود نصب ہے، دوسرا اس کے سامنے ہے اور حقیقت میں  یمانی  اسی رکن کا نام ہے، مگر اس طرف کے دونوں ہی رکن کو تغلیباً رکن یمانی ہی کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دو رکن اور ہیں جن میں سے ایک تو رکن عراقی ہے اور دوسرا رکن شامی مگر ان دونوں کو رکن شامی ہی کہتے ہیں۔

 جن میں رکن حجر اسود ہے اس کو دوہری فضیلت حاصل ہے، ایک فضیلت تو اسے اس لئے حاصل ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے، اور دوسری فضیلت یوں حاصل ہے کہ اس میں حجر اسود ہے، جب کہ رکن یمانی کو صرف یہی ایک فضیلت حاصل ہے کہ اسے حضرت ابراہیم نے بنایا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ان دونوں رکن کو رکن شامی و عراقی پر فضیلت و برتری حاصل ہے۔ اسی لئے  اسلام  انہیں دونوں رکن کے ساتھ مختص ہے۔

  استلام  کے معنی ہیں  لمس کرنا یعنی چھونا  یہ چھونا خواہ ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ ہو یا بوسہ کے ساتھ اور یا دونوں کے ساتھ لہٰذا جب یہ لفظ رکن اسود کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس سے حجر اسود کو چومنا مقصود ہے اور جب رکن یمانی کی نسبت استعمال ہوتا ہے تو اس سے رکن یمانی کو صرف چھونا مراد ہوتا ہے۔

 چونکہ رکن اسود، رکن یمانی سے افضل ہے اس لئے اس کو بوسہ دیتے ہیں یا ہاتھ وغیرہ لگا کر یا کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کر کے چومتے ہیں، اور رکن یمانی کو صرف چوما جاتا ہے اس کو بوسہ نہیں دیا جاتا، بقیہ دونوں رکن یعنی شامی اور عراقی کو نہ بوسہ دیتے ہیں اور نہ ہاتھ لگاتے ہیں، چنانچہ مسئلہ یہی ہے کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی اور پتھر وغیرہ کو نہ چومنا چاہئے اور نہ ہاتھ لگانا چاہئے۔

اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور محجن کے ذریعہ حجر اسود کو بوسہ دیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حنفیہ کے ہاں چونکہ پیادہ پا طواف کرنا واجب ہے اس لئے اس حدیث کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی عذر اور مجبوری کی بناء پر اس طرح طواف کیا ہو گا۔ لہٰذا یہ طواف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مختص ہے کسی اور کو سواری پر بیٹھ کر طواف کرنا جائز نہیں ہے۔

 علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ اگرچہ پیادہ پا طواف کرنا افضل ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لئے طواف کیا تاکہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے رہیں۔

 یہاں ایک اشکال بھی واقع ہوتا ہے وہ یہ کہ احادیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر طواف کرتے ہوئے پہلے تین پھیروں میں رمل کیا تھا، جب کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں رمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟

 اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیادہ پا طواف کرنا اور اس کے تین پھیروں میں رمل کرنا طواف قدوم کے موقع پر تھا، اور اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کا تعلق طواف افاضہ سے ہے جو فرض ہے اور قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) ہوا تھا اور جسے طواف الرکن بھی کہتے ہیں۔ اور اس موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے رہیں۔ تاکہ طواف افعال و مسائل سیکھ لیں۔

  محجن اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کا سرا خمدار ہوتا ہے ا، اس کے ذریعہ حج اسود کو بوسہ دینے کی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس لکڑی سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے اس کو چومتے تھے۔

طریق استلام حجر اسود

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود کے سامنے آئے تو ایک چیز سے (یعنی لکڑی سے) کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں تھی اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 حجر اسود کو بوسہ دینے کا طریق تو یہ ہے کہ دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھ کر دونوں ہونٹوں کو حجر اسود پر لگایا جائے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجوم کی زیادتی اور لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرتے اور اسے چومتے ہوں گے، چنانچہ حنفیہ کا یہی مسلک ہے کہ حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے اس کو نہ چوما جائے۔ ہاں اگر کسی وجہ سے حجر اسود پر ہاتھ رکھنا اور اس کو چومنا ممکن نہ ہو تو پھر اشارہ کے ذریعہ ہی یہ سعادت حاصل کی جا سکتی ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور ایک خمدار سرے والی لکڑی سے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی حجر اسود کی طرف اشارہ کرتے اور اس لکڑی کو چومتے تھے۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بعض روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کو چوما، بعض روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کو ہاتھ لگا کر بوسہ دیا اور بعض روایتوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے بوسہ دینا ثابت ہے۔ لہٰذا ان تمام روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ کسی طواف میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا ہو گا کسی طواف میں ہاتھ لگا کر چوما ہو گا اور کسی طواف میں کثرت ہجوم و ازدحام کی وجہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کے ذریعہ استلام کر لیا ہو گا، یا پھر یہ کہ ایک طواف میں ہر شوط اور کسی شوط میں ازدحام کی وجہ سے اشارہ کے ذریعہ استلام کر لیتے ہوں گے۔

حائضہ طواف و سعی نہ کرے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے تو ہم لبیک کہتے وقت صرف حج کا ذکر کرتے تھے بعض حضرات نے یہ معنی لکھے ہیں کہ ہم صرف حج کا قصد کر تے تھے یعنی مقصود اصلی حج تھا عمرہ نہیں تھا، لہٰذا عمرہ کا ذکر نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عمرہ نیت میں بھی نہیں تھا۔ پھر جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے تو میں اس خیال سے رو رہی تھی کہ حیض کی وجہ سے میں حج نہ کر پاؤں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ شاید تمہارے ایام شروع ہو گئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تو ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لئے مقرر فرما دیا ہے اس کی وجہ سے رونے اور مضطرب ہونے کی کیا ضرورت ہے تم بھی وہی افعال کرو جو حاجی کرتے ہیں۔ ہاں جب تک پاک نہ ہو جاؤ(یعنی ایام ختم نہ ہو جائیں اور اس کے بعد نہا نہ لو۔ اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور نہ سعی کرنا کیونکہ سعی طواف کے بعد ہی صحیح ہوتی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  سرف ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریباً چھ میل اور مقام تنعیم سے جانب شمال تین یا چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے، اس جگہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی قبر ہے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی اسی جگہ ہوا، شب زفاف بھی یہیں گزری اور انتقال بھی یہیں ہوا۔

 اس حدیث کے پیش نظر ایک خلجان پیدا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ لا نذکر الا لحج (ہم صرف حج کا ذکر کرتے تھے) خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی اس روایت کے بالکل متضاد ہیں جو گزشتہ باب میں (دو) گزر چکی ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بارے میں یہ بتایا تھا کہ ولم اہلل الا بعمرۃ (یعنی میں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا) لہٰذا اس ظاہر تضاد کو دفع کرنے کے لئے یہ تاویل کی جائے گی کہ یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ لانذکر الا الحج کی مراد یہ ہے کہ اس سفر سے ہمارا اصل مقصد حج تھا اور چونکہ حج کی تین قسمیں ہیں یعنی افراد، تمتع اور قران، اس لئے ہم میں سے بعض تو مفرد تھے اور بعض متمتع اور بعض قارن۔ میں نے تمتع کا قصد کیا تھا، چنانچہ میں نے میقات سے عمرہ کا احرام باندھا مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی میرے ایام شروع ہو گئے جس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عرفہ کا دن اور وقوف عرفات کا وقت آ گیا اور اس طرح عمرہ کا وقت گزر کر ایام حج شروع ہو گئے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ میں عمرہ کا احرام تو کھول دوں اور حج کا احرام باندھ لوں اور پھر طواف اور سعی کے علاوہ دیگر افعال حج کروں۔

مشرکین کو طواف کعبہ کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع سے پہلے جس حج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لوگوں کا امیر حج بنا کر بھیجا تھا اس حج میں نحر (قربانی) کے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی اس جماعت کے ساتھ بھیجا جس کو یہ حکم دیا تھا کہ یہ وہ یہ اعلان کر دے کہ خبردار! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ حج 9ھ کے آخر میں فرض ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو اس سال دیگر دینی امور میں مشغولیت کی وجہ سے خود حج کو تشریف نہ لے جا سکے بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قافلہ حجاج کا امیر بنا کر حج کے لئے روانہ کیا۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع سے ایک سال پہلے کا ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو ایک جماعت کو کہ جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے لوگوں کے پاس بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ اس سال کے بعد آئندہ کوئی مشرک یعنی کافر بیت اللہ کا حج کرنے کے لئے نہ آئے کیونکہ حج کی سعادت عظمی صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کی گئی ہے اور انہوں نے یہ اعلان اس آیت کریمہ کے پیش نظر کرایا کہ۔ آیت (اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا) 9۔ التوبہ:28)۔ تمام مشرک نجس (ناپاک ہیں لہٰذا کوئی بھی مشرک اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ آئے۔

 نیز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کو یہ اعلان کرنے کا بھی حکم دیا کہ کوئی بھی شخص برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔ یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ ایام جاہلیت میں لوگ برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہم خدا کی یہ عظیم الشان عبادت ان کپڑوں میں کس طرح کر سکتے ہیں جن میں دن رات گناہ کیا کرتے تھے چنانچہ اسلام نے اس لغویت کو بند کیا اور حکم دیا کہ آئندہ کوئی بھی اس غیر اخلاقی و انسانی اور سراسر جہالت آمیز حرکت کی جرات نہ کرے۔

خانہ کعبہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ

حضرت مہاجر مکی (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو خانہ کعبہ کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے کہ آیا یہ مشروع ہے یا نہیں؟ تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج کیا تو ایسا نہ کرتے تھے (یعنی خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنے کے لئے اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ (ترمذی ابوداؤد)

 

تشریح

 

 زائر بیت اللہ، مکہ پہنچ کر جب مسجد حرام میں داخل ہوتا ہے وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ کعبہ مقدس کے جمال دل ربا پر نظر پڑتے ہی جو کچھ دل چاہے اپنے پروردگار سے مانگ لیا جائے۔

 اب سوال یہ ہے کہ اس وقت دعا مانگتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ بھی اٹھائے جائیں یا نہیں؟ چنانچہ یہ حدیث اس کا انکار کر رہی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافع اور حضرت امام مالک کا مسلک بھی یہی ہے کہ خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنے والا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے، جب کہ حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھائے جائیں اور دعا مانگی جائے۔ (طیبی)

 ملا علی قاری نے مرقات میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا مسلک اس کے برخلاف لکھا ہے یعنی ان کی نقل کے مطابق ان دونوں ائمہ کے ہاں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے لیکن انہیں ملا علی قاری نے اپنی ایک اور کتاب مناسک میں اس کو مکروہ لکھا ہے اگرچہ بعض علماء سے اس کا جواز بھی نقل کیا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور و معتمد کتاب ہدایہ اور در مختار سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس موقع پر ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔ 

سعی کے دوران صفا سے کعبہ کو دیکھنا اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب (حج و عمرہ کے لئے) تشریف لائے اور مکہ میں داخل ہوئے تو حجر اسود کے پاس گئے اور اس کو بوسہ دیا، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا اس کے بعد نماز طواف پڑھ کر صفا کی طرف آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ جب خانہ کعبہ کی طرف نظر اٹھائی تو دعا کے لئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور جس قدر چاہا اللہ کا ذکر (یعنی تکبیر و تہلیل) کرتے رہے اور دعا مانگتے رہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 سعی کے وقت جب صفا پر چڑھا جائے تو وہاں بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہئے اور پھر تکبیر و تہلیل کرنے اور درود پڑھنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہئے۔

 کبھی یہ طریقہ رہا ہو گا اور شاید اب بھی ہو کہ بعض لوگ اس موقع پر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے ہیں جیسا کہ نماز میں تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا جاتا ہے، خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ ایک غیر مشروع و غیر مسنون طریقہ ہے۔

نماز و طواف میں مماثلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا نماز کی مانند ہے اگرچہ تم اس میں کلام کرتے ہو، لہٰذا جو شخص طواف میں کلام کرے تو وہ لغو لا یعنی اور تغیر پسندیدہ کلام نہ ہو بلکہ نیک کلام ہی کرے۔ (ترمذی، نسائی، دارمی) اور امام ترمذی نے ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگ اس روایت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر موقوف کرتے ہیں (یعنی یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے۔)

 

تشریح

 

 نماز و طواف میں مماثلت کا تعلق ثواب سے ہے کہ جیسے نماز کا ثواب بہت زیادہ ہے ویسے ہی خانہ کعبہ کا طواف بھی کثیر ثواب حاصل ہے۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ جس طرح نماز میں بات چیت اور کلام مفسد ہے۔ اس طرح طواف میں کلام مفسد نہیں ہے۔ لہٰذا حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ کلام اور جو چیزیں کہ کلام کے حکم میں آتی ہیں جیسے کھانا پینا اور افعال کثیرہ وغیرہ طواف کے لئے مفسد نہیں ہیں۔

 حدیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ نماز اور طواف دونوں یکساں ہیں کیونکہ ایک فرق تو خود حدیث نے بتا دیا ہے اس کے علاوہ بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو دونوں کے ظاہری فرق کو واضح کرتی ہیں، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ جس طرح نماز میں استقبال قبلہ اور وقت شرط ہے اسی طرح طواف میں قبلہ رو ہونا اور کسی خاص وقت کا متعین ہونا شرط نہیں ہے۔

 اسی طرح نماز کی اور شرطیں جیسے طہارت حقیقیہ اور حکمیہ اور ستر کا چھپا ہونا، اگرچہ امام شافعی کے نزدیک طواف کے لئے اسی درجہ میں ہیں جس درجہ میں نماز کے لئے ہیں یعنی جس طرح یہ چیزیں نماز کی شرائط میں سے ہیں کہ ان کے بغیر نماز اداء ہی نہیں ہوتی اسی طرح طواف کے لئے بھی شرط ہیں لیکن حنفیہ کے ہاں یہ چیزیں طواف کے لئے صرف واجب کے درجہ میں ہیں شرط نہیں۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ طواف کرنا نماز کی مانند ہے، سے یہ لازم نہیں آتا کہ طواف بعینہٖ نماز کے درجہ کا عمل ہو جائے، بلکہ طواف کو نماز کی مانند کہنا خود اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ نماز طواف سے افضل ہے۔

حجر اسود کی حقیقت و ماہیت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حجر اسود بہشت سے اترا ہے یہ پتھر (پہلے) دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر ابن آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے (احمد، ترمذی) نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 وہ مقدس پتھر جسے آج حجر اسود (کالا پتھر) کہا جاتا ہے جب جنت سے اتر کر ظلم و جہل سے معمور اس دنیا میں آیا اور دنیا کے گنہگار باسیوں نے اسکو چھونا اور اس کو ہاتھ لگانا شروع کیا تو ان کے گناہوں نے کی تاثیر نے اس کا رنگ بدل دیا اور وہ پتھر جو دودھ سے زیادہ سفید تھا انسانوں کے گناہوں سے سیاہ ہو گیا۔

 اب غور کیجئے جب پتھر پر انسان کے گناہوں کا یہ اثر ہو سکتا ہے تو خود انسان کے قلوب پر ان گناہوں کا کیا اثر ہوتا ہو گا۔ معاذاللہ۔

قیامت کے دن حجر اسود کی گواہی

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا کہ خدا کی قسم! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا، پھر اس کو دو آنکھیں دی جائیں گی جن کے ذریعہ وہ دیکھے گا اور اس کو زبان دی جائے گی جس کے ذریعہ وہ بولے گا، چنانچہ وہ اس شخص کے حق میں گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کو بوسہ دیا ہو گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 جس نے حق کے ساتھ اس کو بوسہ دیا ہو گا، کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے ایمان، صدق اور یقین کے ساتھ اور محض طلب ثواب کی خاطر حجر اسود کو بوسہ دیا ہو گا قیامت میں وہ اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ اس شخص نے مجھے بوسہ دیا تھا۔

 یہ حدیث بھی اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن حجر اسود کو بالکل اسی طرح آنکھیں اور زبان عطا ہوں گی جس طرح انسان کو عطا کی گئی ہیں کیونکہ اللہ رب العزت جمادات میں بینائی اور گویائی پیدا کرنے پر قادر ہے۔ وہ اگر خون و گوشت کے ایک لوتھڑے کو دیکھنے اور بولنے کی قوت دے سکتا ہے تو اسی طرح ایک پتھر کو بھی دیکھنے اور بولنے پر قادر کر سکتا ہے۔

حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوت ہیں

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے۔ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا نور اٹھا لیا ہے (تاکہ ایمان بالغیب رہے) اگر ان کا نور باقی رہتا تو اس میں شک نہیں کہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری چیزوں کو روشن کر دیتا۔

استلام حجر اسود اور طواف کی فضیلت

حضرت عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں رکن یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگانے میں لوگوں پر جس طرح سبقت حاصل کرتے تھے اس طرح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کسی بھی صحابی کو ان دونوں رکن میں سے کسی پر سبقت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کروں تو مجھے مت روکو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں رکن کو ہاتھ لگانا گناہوں کے لئے کفارہ ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور اس کی محافظت کرے (یعنی طواف کے واجبات و سنن اور آداب بجا لائے تو اس کا ثواب غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔ نیز میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے۔ (طواف کرتے وقت) جب بھی کوئی قدم رکھتا ہے اور پھر اسے اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قدم رکھنے کے عوض تو اس کا گناہ ختم کرتا ہے اور قدم اٹھانے کے عوض اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے (یعنی طواف کرنے والے کا جب قدم رکھا جاتا ہے تو اس سے گناہ دور کر دیا جاتا ہے اور جب قدم اٹھتا ہے تو اس کی نیکیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس طرح پورے طواف میں اس کے گناہ ختم ہوتے رہتے ہیں اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے)۔ (ترمذی)

 

 

تشریح

 

  سبقت حاصل کرنے  کا مطلب یہ ہے کہ وہ حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کے لئے لوگوں کے ہجوم کو چیر پھاڑ کر آگے بڑھتے اور ان دونوں رکن کو ہاتھ لگاتے، لیکن ان کی یہ سبقت اس طرح ہوتی تھی کہ لوگوں کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی تھی، چنانچہ اگر کوئی شخص استلام کے لئے لوگوں کو دھکیلتا، گراتا ان دونوں رکن تک پہنچے اور لوگ اس کی وجہ سے ایذاء محسوس کریں تو وہ گنہگار ہو گا، لہٰذا ہجوم کی سورت میں ہاتھ کے ذریعہ دور سے اشارہ کر لینے ہی پر اکتفا کر لینا چاہئے۔

  سات مرتبہ طواف کرے میں تین احتمال ہیں ایک تو یہ کہ سات شوط کرے یعنی خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے اور یہ معلوم ہی ہے کہ سات شوط (چکر) کا ایک طواف ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ سات طواف کرے اور تیسرے یہ کہ سات روز تک طواف کرے۔

حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں رکن یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے۔ دعا (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار)۔ (ابوداؤد) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

سعی کا حکم

حضرت صفیہ بنت شیبہ کہتی ہیں کہ ابو تجراۃ کی بیٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں قریش کی عورتوں کے ساتھ آل ابوحسن کے گھر گئی تاکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھیں (اور اس طرح ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمال با کمال سے مشرف اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل و برکت سے مستفید ہوں) چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صفا و مروہ کے درمیان اس طرح سعی کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تہہ بند سعی دوڑنے میں تیزی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیروں کے گرد گھوم رہا تھا، نیز میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے کہ  سب لوگ سعی کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سعی کو لکھ دیا ہے، (شرح السنہ) اس روایت کو احمد نے بھی کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صفا و مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات مرتبہ چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں کہ جو حج کا ایک اہم رکن ہے صفا اور مروہ کی پہاڑیاں اب باقی نہیں رہی ہیں دونوں کٹ کٹا کر ختم ہو گئی ہیں صرف ان کی جگہیں متعین ہیں جہاں چند سیڑھیا بنا دی گئی ہیں، دونوں میں آپس کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ فرلانگ کا ہے۔ یہ بھی پہلے بتایا جا چکا ہے یہ سعی درحقیقت حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اس بھاگ دوڑ اور اضطراب کی یادگار ہے جس میں وہ اپنے شیر خوار بچے حضرت اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی تلاش میں ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان مبتلا ہوئی تھیں، اس کے بعد اللہ نے زمزم شریف پیدا فرمایا تھا، اسلام سے قبل عربوں نے ان دونوں پہاڑیوں پر ایک ایک بت رکھ دیا تھا۔ صفا کے بت کا نام اہناف تھا اور مروہ کے بت کا نام نائلہ تھا۔ صفا کی پہاڑی جبل ابوقبیس کے دامن میں تھی وہیں سے سعی شروع کی جاتی ہے، صفا اور مروہ کے درمیان وہ راستہ جس پر سعی کی جاتی ہے اور جسے مسعیٰ کہتے ہیں بیت اللہ کے مشرقی جانب ہے، یہ پہلے مسجد حرام سے باہر تھا، اب اس کے ساتھ ہی شامل کر دیا گیا ہے۔

 حدیث کے الفاظ فان اللہ کعب علیکم السعی کے معنی حضرت شافعی تو یہ مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی کو فرض کیا ہے، چنانچہ ان کے نزدیک صفا و مروہ کے درمیان سعی فرض ہے اگر کوئی شخص سعی نہیں کرے گا تو اس کا حج باطل ہو جائے گا۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں چونکہ سعی فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے اس لئے وہ اس جملہ کے یہ معنی مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی کو واجب کیا ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق اگر کوئی شخص سعی ترک کرے تو اس پر دم یعنی دنبہ وغیرہ ذبح کرنا واجب ہو جاتا ہے حج باطل نہیں ہوتا۔