مشکوٰة شر یف

میت پر رونے کا بیان

میت پر رونے کا بیان

کسی عزیز و رشتہ دار اور دوست و متعلق شخص کی دائمی جدائی پر رنج و غم اور حسرت و افسوس کا ہونا ایک فطری بات ہے مرنے والا جتنا زیادہ قریب اور عزیز ہو گا۔ رنج و غم کی گھٹائیں اتنی ہی مہیب ہوں گی یہ ناممکن ہے کہ اپنے عزیز و متعلقین میں سے کسی کا انتقال ہو جائے اور دل روئے نہیں، آنکھیں آنسو بہائیں نہیں اور چہرہ رنج و الم اور حسرت و غم کی تصویر نہ بن جائے پھر اس فطری رنج و غم کا دوسرا رخ اظہار غم بھی ہے آنسو بہاتی آنکھیں اس کیفیت کا اظہار کرتی ہیں جو دل پر احساس جدائی کی سیاہ چادر تان دیتی ہے اور چہرہ رنج و غم کی برستی ہوئی گھٹا ان جذبات کی غمازی کرتی ہے جو رگ رگ میں دائمی فراق کی چنگاریاں بھر دیتے ہیں اسلام نے چونکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال کی راہ دکھائی ہے اور پیغمبر اسلام نے کیا خوشی اور کیا غم ہر مرحلہ پر انسانی وقار اور رکھ رکھاؤ کا معیار برقرار رکھا ہے اس لیے کیسے ممکن تھا کہ انسانی برادری کے اس جذباتی و فطری نازک موڑ پر راہنمائی نہ کی جاتی لہٰذا یہاں یہ باب قائم کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس مرحلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مقدس تعلیم اور آپ کا عمل کیا تھا؟

 

باب سے متعلق کچھ احکام و مسائل

کسی کے انتقال پر نوحہ اور چلائے بغیر رونا مکروہ نہیں ہے چلا کر اور نوحہ کے ساتھ رونا نیز میت کی زائد اور دوراز حقیقت تعریف توصیف بیان کرنا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں مروج تھا مکروہ ہے البتہ میت کی واقعی اور حقیقی تعریف و توصیف بطور بیان کے ذکر کرنا مکروہ نہیں ہے۔

 اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کے لواحقین سے اس کی تعزیت کرنی مستحب اور بڑی اچھی بات ہے اور تعزیت کا مفہوم یہ ہے کہ لواحقین کو صبر سکون کی تلقین کی جائے اور انہیں تسلی تشفی دی جائے۔ ایک سے زائد مرتبہ تعزیت نہ کی جائے انتقال کے تیسرے روز بطور خاص میت کے گھر جمع ہونا، کھانا پینا کرنا اور دوسری رسوم ادا کرنا کہ جسے ہماے یہاں تیجہ کہتے ہیں قطعی طور پر بدعت اور حرام ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ شریعت میں ان باتوں کی حقیقت نہیں ہے بلکہ میت کی وصیت کے بغیر اس کا مال خرچ کرنا یتیموں اور ورثاء کے مال میں تصرف کرنا جو بالکل ناجائز ہے۔

 قاموس کے مصنف مجدد الدین نے سفر السعادۃ میں لکھا ہے کہ پہلے میت کے لیے صرف یہ طریقہ تھا کہ لوگ نماز جنازہ کے لیے جمع ہوتے تھے لہٰذا اب یہ طریقہ دن اور رات متعین کر کے اور غیر ضروری تکلفات کر کے قرآن خوانی اور ختم وغیرہ کے لیے قبر پر یا کسی دوسری جگہ لوگوں کو جمع کرنا بدعت ہے۔

 تعزیت قبول کرنے کے لیے گھر میں یا مسجد میں بیٹھے رہنا جائز ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ جب حضرت جعفر، حضرت زید اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع ملی یہ تینوں حضرات غزوہ موت میں یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے ہیں تو آپ انتہائی رنج و غم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھ گئے وہیں تعزیت کرنے والے آتے اور آپ سے تعزیت کر کے چلے جاتے ہاں متعین دنوں اور متعین تاریخوں میں تعزیت کا وہ طور طریقہ جو بعد میں رائج ہو گیا اس وقت نہیں تھا۔

 بعد کے بہت سے علماء لکھتے ہیں کہ (دفن کے بعد) میت کے گھر تعزیت کے لیے بطور خاص جمع ہونا مکروہ ہے اور یہ بات تو سخت مکروہ ہے کہ میت کے اہل و عیال صرف اسی مقصد کے لیے گھر کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور لوگ وہاں جمع ہو کر تعزیت کریں کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ اس بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر چکیں تو منتشر ہو جائیں اور اپنے اپنے کام کاج میں لگ جائیں اسی طرح میت کے اہل و عیال کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہو جائیں۔ اسی طرح قبر کے چاروں طرف حلقہ باندھ کر قرآن خوانی مکروہ ہے۔

 تعزیت کرنے کا وقت مرنے کے بعد صرف تین دن تک ہے تین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے ہاں اگر تعزیت کرنے والا یا غمزدہ موجود نہ ہو تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب بھی ملاقات ہو اسی وقت تعزیت ادا کی جائے۔

 میت کو دفن کرنے کے بعد تعزیت کرنا دفن سے پہلے تعزیت کرنے سے اولیٰ ہے مگر یہ سلسلہ اس صورت میں ہے جب کہ میت کے اہل و عیال میں بہت زیادہ جزع فزع اور اظہار رنج و غم زیادہ شدید نہ ہو۔ اگر اہل و عیال زیادہ جزع و فزع میں مبتلا ہوں تو پھر دفن سے پہلے ہی تعزیت اولیٰ ہو گی۔

 عمومی طور پر میت کے تمام اقارب خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا عورت سب ہی سے تعزیت کرنا مستحب ہے ہاں اگر عورت جوان ہو تو اس سے تعزیت نہ کی جائے، البتہ اس عورت کے محرم اس سے بھی تعزیت کر سکتے ہیں۔

 

تعزیت کے وقت کیا الفاظ کہے جائیں

 مستحب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اہل میت سے تعزیت کرے تو اس سے صبر و تسلی کے اس قسم کے الفاظ کہے  اللہ تعالیٰ مرنے والے کو اپنی مغفرت و بخشش سے نوازے، اسی کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرے، سانحہ ارتحال کے اس سخت حادثہ پر تم سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور تم سب کو اس رنج و مصیبت کے بدلہ میں ثواب عطا فرمائے۔

 تعزیت کے لیے بہترین الفاظ وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے کہ :

ان للہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمی

 وہ چیز بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے جو اس نے لے لی ہے اور وہ چیز بھی اسی کی ملکیت میں ہے جو اس نے دے رکھی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے

 اگر کوئی غیر مسلم مر جائے اور اس کا قرابتی مسلمان ہو تو اس سے تعزیت اس طرح کی جائے کہ  اللہ تعالیٰ تمہیں بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور تمہیں بہترین صبر و سکون کی دولت سے نوازے اور اگر میت مسلمان ہو اور قرابتی غیر مسلمان تو اس سے اس طرح کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو بخشش و مغفرت سے نوازے اور تمہیں صبر و سکون عطا فرمائے۔ اور اگر میت اور قرابتی دونوں ہی غیر مسلم ہوں تو تعزیت ان الفاظ کے ذریعہ کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ عطا فرمائے اور تمہارے اہل و عیال میں کمی نہ فرمائے۔

 احساس رنج و غم پر تین دن تک اپنے کاروبار چھوڑ کر گر میں بیٹھے رہنا اگرچہ جائز ہے لیکن اس کا ترک اولیٰ ہے۔ اظہار رنج و غم کے لیے مردوں کو سیاہ کپڑا پہننا، رنج و مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑ ڈالنا، چاک گریباں ہو جانا یہ سب چیزیں ممنوع ہیں ہاں اگر عورتیں سیاہ کپڑے پہنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 کسی کے انتقال پر حد سے زیادہ جزع و فزع کرنا اور خواہ مخواہ کے ہنگامے کرنا مثلاً منہ اور ہاتھوں کو کالا کرنا، چاک گریباں ہو جانا، منہ نوچنا، بالوں کو بکھیر ڈالنا، سر پر مٹی ڈالنا، راتوں کو پیٹنا، سینہ کوبی کرنا، اور قبروں پر آگ روشن کرنا یہ سب باتیں زمانہ جاہلیت کی رسوم اور انتہائی غلط و باطل ہیں ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔

 جس گھر میں میت ہو جائے وہاں کھانا پکا کر بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اسے اس طرح ضروری اور لازم جان لینا کہ خواہ اس کے لیے آدھا قرض ہی کیوں نہ کرنا پڑے انتہائی غلط بات ہے اسی طرح تیسری روز یعنی تیجہ میں لوگوں کو بطور خاص مدعو کرنا اور برادری والوں کو کھانا کھلانا بھی بڑی بری بات اور بے فائدہ چیز ہے۔

 یہ بات بطور خاص یاد رکھیے کہ جو لوگ تیجہ کے نام پر جو کچھ خرافات اور اور واہیات حرکتیں کرتے ہیں وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں مثلاً موت کے تیسرے دن اس طرح انتظامات کیے جاتے ہیں کہ شادی بیاہ میں بھی کیا انتظامات ہوتے ہوں گے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے برادری والے جمع ہوتے ہیں فرش بچھتے ہیں، خیمے کھڑے کیے جاتے ہیں خوشبوئیں بانٹی جاتی ہیں یہ سب باتیں بدعت اور انتہائی گمراہ کن ہیں ان واہیات اور خرافات سے اجتناب ضروری ہے۔

 نصاب میں لکھا ہے کہ جن جگہوں پر یہ رسم جاری ہے کہ مرد موت کے تیسرے دن خوشبو لگاتے ہیں وہ عورتوں کے ساتھ مشابہت میں مبتلا ہیں کیونکہ عورتیں تیسرے روز سوگ ختم کرنے کے لیے خوشبو لگاتی ہیں لہٰذا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے لیکن یہ ممانعت خوشبو لگانے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس طرح اس وقت عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور شریعت نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔

 آداب تعزیت یہ ہیں کہ  جب کوئی شخص میت کے گھر تعزیت کے لئے جائے تو وہاں اہل خانہ کو سلام کرے، مصافحہ کرے ان کے ساتھ انتہائی تواضع اور نرمی کے ساتھ بات چیت کرے، بے فائدہ اور زیادہ گفتگو نہ کرے بلکہ صرف تسلی اور اطمینان اور صبر و سکون کے الفاظ کہے اور ہنسنے مسکرانے سے پرہیز کرے۔

صاحبزادے کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غم

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے گھر گئے جو (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کی دایہ کے شوہر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابراہیم کو (گود میں) لے کر بوسہ لیا اور سونگھا (یعنی اپنا منہ اور ناک ان کے منہ پر اس طرح رکھی جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے) اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد ہم پھر ابوسیف کے یہاں گئے جب کہ حضرت ابراہیم حالت نزع میں تھے چنانچہ (ان کی حالت دیکھ کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں! آپ نے فرمایا اے ابن عوف (آنسو کا بہنا) رحمت ہے۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ نے فرمایا آنکھیں آنسو بہا رہی اور دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہماری زبانوں پر وہی الفاظ ہیں جن سے ہمارا پروردگار راضی رہے اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے بے شک غمگین ہیں۔

 

تشریح

 

 ابوسیف کا نام براء تھا اور ان کی بیوی کا نام خولہ منذر تھا جو انصاریہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی دایہ تھیں ان کا گھرانہ پیشہ کے لحاظ سے لوہا تھا۔ حضرت ابراہیم صرف سولہ سترہ مہینے کے تھے کہ انتقال کر گئے چنانچہ اس حدیث میں ان کی حالت بیماری و نزع کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی دایہ کے گھر گئے اور انہیں گود میں لے کر پیار کیا اور جب ان کا آخری وقت دیکھا تو رونے لگے اسی وجہ سے حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا کہ اس قسم کے رقت انگیز مواقع پر لوگ تو روتے ہی ہیں مگر آپ کی عظمت شان اور کمال معرفت سے یہ بعید ہے کہ آپ روئیں۔ اس کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دیا کہ یہ رحمت ہے۔ یعنی میری آنکھیں بے صبری کی وجہ سے آنسو نہیں بہا رہی ہیں جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ کو اس حالت میں دیکھ کر جذبہ رحم امنڈ رہا ہے جو آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہہ رہا ہے۔

 دل غمگین ہے، میں اس طرح اشارہ ہے کہ جو شخص ایسے موقع پر بھی غمگین نہ ہو اور اس کا دل غم کی کسک محسوس نہ کرے اس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل نہیں ہے بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہے جب کہ نظروں کے سامنے لخت جگر دم توڑ رہا ہو ایسے نازک موقع پر بھی آنکھیں آنسو نہ بہائیں تو یہ صبر و ضبط نہیں ہے بلکہ اس احساس محبت و مروت اور جذبہ ترحم کا فقدان ہے لہٰذا یہ حال یعنی غمگین ہونا اہل کمال کے نزدیک کامل تر ہے یہ بنسبت اس چیز کے کہ بچہ کی موت ہو جائے اور چہرہ پر بشاشت و اطمینان کی لہریں دوڑ رہی ہوں۔

نواسے کا انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنسو

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی (حضرت زینب) نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کسی کے ذریعہ سے یہ پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا دم توڑ رہا ہے اس لیے (فورا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لے آئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس کے جواب میں) سلام کے بعد کہ کہلا بھیجا کہ جو چیز (یعنی اولاد وغیرہ) خدا نے لے لی وہ بھی اسی کی تھی اور جو چیز اس نے دے رکھی ہے وہ بھی اسی کی ہے (لہٰذا ان کے اٹھ جانے پر جزع و فزع نہ کرنا چاہئے کیونکہ چاہئے کیونکہ اس کی امانت تھی جسے اس نے واپس لے لیا) اور اس (خدا) کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے (یعنی تمہارے بیٹھے کی زندگی اتنے ہی دنوں کے لیے لکھی گئی تھی جتنے دن کہ وہ زندہ رہا۔ بس تمہیں صبر کرنا اور خدا سے ثواب کا طلب گار رہنا چاہے۔ حضرت زینب نے دوبارہ آدمی بھیجا اور (اس مرتبہ) انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قسم دی کہ ضرور ہی تشریف لائیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ کھڑے ہوئے حضرت سعد بن عبادہ حضرت معاذ بن جبل حضرت ابی بن کعب حضرت زید بن ثابت اور صحابہ میں سے دوسرے لوگ آپ کے ساتھ ہو لئے جب آپ صاحبزادی کے ہاں پہچے تو بچہ آپ کی گود میں دے دیا گیا جو جان کنی کی حالت میں تھا اسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں حضرت سعد نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمایا ہے اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے صرف انہیں لوگوں پر رحمت یعنی مہربانی کرتا ہے جو جذبہ ترحم رکھنے والے ہیں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 حضرت سعد نے چونکہ یہ گمان کیا کہ رونے کی تمام اقسام حرام و مکروہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت سہواً رو رہے ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں آگاہ کیا کہ رونے کی تمام اقسام حرام و مکروہ نہیں ہے بلکہ اس طرح رونا تو اس جذبہ ترحم کی علامت ہے جو دل میں امنڈ رہا ہوتا ہے ہاں نوحہ کے ساتھ رونا، چاک گریبان ہونا اور سینہ پیٹنا البتہ حرام و ممنوع ہے۔

با آواز بلند رونا برا ہے

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن مسعود بھی آپ کے ساتھ تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس پہنچے تو انہیں بے ہوشی کی حالت پایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ کیا ان کا انتقال ہو گیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (سعد کی حالت دیکھ) رونے لگے جب صحابہ نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے پھر آپ نے فرمایا۔ اچھی طرح سن لو ! کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسو بہانے اور دل کے غمگین ہونے پر عذاب نہیں کرتا آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا البتہ خدا اس کی وجہ سے عذاب بھی کرتا ہے اور رحم بھی یعنی اگر کسی حادثہ و مصیبت کے وقت زبان سے ناشکری کے یا بارگاہ الوہیت میں بے ادبی کے الفاظ نکلیں یا نوحہ کر کے رویا جائے تو یہ مستحق عذاب ہے اور اگر ایسے موقع پر زبان حمد و شکر میں مشغول رہے اور انا للہ پڑھا جائے تو مستحق رحمت و ثواب ہے نیز مردہ کو اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردہ کے اہل و عیال اور اس کے گھر والے باآواز بلند یعنی پکار پکار روتے ہیں یا نوحہ کرتے ہیں تو اس مردہ کو عذاب ہوتا ہے، اس مسئلہ کی تحقیق تیسری فصل میں آئے گی انشاء اللہ۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے (یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسے الفاظ اور ایسی آواز نکالے جو شرعاً ممنوع ہے جیسے نوحہ یا واویلا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یہاں رخساروں کو پیٹنے اور گریبان چاک کرنے والے کے لیے جو وعید فرمائی جا رہی ہے یہی وعید اس شخص کے لیے بھی ہے جو سر سے پگڑی و ٹوپی اتار پھینکے یا سر اور داڑھی کے بال نوچنے لگے کیونکہ ان سب چیزوں کا ایک ہی حکم ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابی بردہ کہتے ہیں (ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ بے ہوش ہو گئے تو ان کی عورت ام عبداللہ چلا چلا کر رونے لگی جب حضرت ابوموسیٰ کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم؟ کہ چلا چلا کر رونا کتنا برا ہے چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ پھر ابو موسیٰ ان سے یہ حدیث بیان کرنے لگے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو مصیبت و حادثہ کے وقت سر کے بال منڈائے چلاچلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ (بخار و مسلم) حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔

 

تشریح

 

 زمانہ جاہلیت میں اس قسم کے افعال عورتوں سے سرزد ہوتے تھے لہٰذا مسلمانوں کو ان باتوں سے اچھی طرح پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے شخص سے بیزار ہوتے ہیں جو ان غلط اور باطل چیزوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

نوحہ کی برائی

حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میرے امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے۔ (١) حسب پر فخر کرنا، (٢) نسب پر طعن کرنا (٣) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (٤) نوحہ کرنا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر قطران اور خارش کا کرتا ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  حسب ان خصلتوں کو کہتے ہیں جو اگر کسی مسلمان کے اندر موجود ہوں تو وہ ان کی موجودگی کی وجہ سے اپنے کو بہتر و اچھا سمجھتا ہے جیسے شجاعت و بہادری اور فصاحت وغیرہ۔  نسب پر طعن کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے نسب میں اس طرح عیب جوئی کی جائے کہ فلاں شخص کا باپ برا تھا اور فلاں شخص کا دادا کمتر تھا۔ چونکہ حسب پر فخر کرنے اور نسب پر طعن کرنے کی وجہ سے اپنی تعظیم و بڑائی اور دوسرے لوگوں کی حقارت لازم آتی ہے اس لیے یہ دونوں چیزیں ہی مذموم ہیں ہاں اسلام و کفر کے امتیاز کی بناء پر ان دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی اگر کوئی مسلمان اپنے ایمان و اسلام کی وجہ سے اپنے آپ کو بزرگ اور بڑا جانے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی وجہ سے حقیر و کمتر سمجھے تو یہ جائز ہے۔  ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنے سے مراد یہ ہے کہ ستاروں کی تاثیر پر بارش کی امید رکھنا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اگر فلاں ستارہ منزل میں داخل ہو جائے تو بارش ہو گی۔

 اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں ستارے کے فلاں منزل میں داخل ہونے کی وجہ سے بارش ہو گی، حرام ہے بلکہ جب بارش ہو تو یہ کہنا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں بارش سے سیراب کیا ہے۔

  نوحہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے تو اس پر واویلا کیا جائے اور میت کی اچھی خصلتیں رو رو کر اس طرح بیان کی جائے کہ ہائے وہ کتنا بہادر تھا، ہائے وہ ایسا تھا ہائے وہ ویسا تھا۔

  قطران کولتار کی مانند ایک دوا کا نام ہے جو سیاہ اور بدبو دار ہوتی ہے اور  ابہل درخت سے کہ جو ہوبر بھی کہا جاتا ہے نکلتی ہے اس اونٹ کے جسم پر ملتے ہیں جسے خارش ہو جاتی ہے چونکہ اس کے اندر حرارت اور گرمی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اونٹ کی خارش کو جلا دیتی ہے اس کا ایک خاص اثر یہ بھی ہے کہ آگ کا اثر بہت جلد قبول کرتی ہے اور جلدی ہی بھڑک اٹھتی ہے۔ ارشاد گرامی کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ نوحہ کرنے والی عورت اپنے برے فعل سے توبہ کیے بغیر مر گئی تو قیامت کے روز اس کے جسم پر خارش مسلط کی جائے گی پھر اس پر قطران ملی جائے گی تاکہ اس کی خارش میں اور زیادہ سوزش و جلن پیدا ہو اور وہ زیادہ ایذاء پائے۔

 

 

٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب چلا چلا کر رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خدا کے عذاب سے ڈرو! یعنی نوحہ نہ کرو ورنہ عذاب میں مبتلا کی جاؤ گی۔ اور صبر کرو! اس عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہچانا نہیں آپ کا ارشاد سن کر کہنے لگی کہ میرے پاس سے دور ہٹو، تم میرا غم کیا جانو کیونکہ تم میری مصیبت میں گرفتار نہیں ہوئے ہو۔ (جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے چلے آئے) تو اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے (پھر کیا تھا) وہ (بھاگی ہوئی) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے در د ولت پر حاضر ہوئی اسے دروازہ پر کوئی دربان و پہرہ دار نہیں ملا (جیسا کہ بادشاہوں اور امیروں کے دروازوں پر دربان و پہرہ دار ہوتے ہیں (پھر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میری گستاخی معاف فرمائیے) میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ صبر تو وہی کہلائے گا جو ابتداء مصیبت میں ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کتنا سچ اور مبنی بر حقیقت ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہے اسے دیکھو نہ دیکھو کہ بات کہنے والا کون ہے؟ اس قول پر عمل نہ صرف یہ کہ سچائی اور نیکی کی راہیں روشن کرتا چلا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات خجالت و شرمندگی سے بچاتا بھی ہے۔ اسی واقعہ پر نظر ڈالیے ایک عورت ایک غلط کام کر رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے نیکی و بھلائی کے راستہ پر لگانے کے لیے کچ ارشاد فرما رہے ہیں وہ عورت اتفاق سے آپ کو پہچانتی نہیں نہ صرف یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد سے اعراض کرتی ہے بلکہ ایک غلط جواب بھی دیتی ہے جب بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے وہ قیمتی بات کہنے والا کوئی ایرا خیرا نہیں تھا بلکہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی تھی تو اب اسے احساس ہوتا ہے کہ واقعی میں غلطی میں مبتلا تھی پشیمان ہو کر بھاگی ہو در رسالت پر حاضر ہوتی ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہے۔

 اب دیکھیے اگر وہ اس عارفانہ قول کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہچانے بغیر آپ کے ارشاد گرامی کے سامنے سر اطاعت خم کر دیتی تو نہ صرف یہ کہ نیکی و بھلائی کے راستہ کو اسی وقت پا لیتی بلکہ بعد کی خجالت و شرمندگی سے بھی بچ جاتی۔

 حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ کامل اور پسندیدہ صبر کہ جس پر ثواب ملتا ہے وہی ہوتا ہے جو ایذاء و مصیبت میں کیا جائے ورنہ آخر میں تو خود بخود صبر آ جاتا ہے بعد میں کسی نے صبر کیا تو کیا صبر کیا؟۔

نوحہ کرنا حرام ہے

مذکورہ بالا حدیثوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نوحہ کرنا اور میت کی عمدہ خصلتوں کو رو رو کر بیان کرنا نیز چلا کر رونا، رخساروں کو پینا، گریبان پھاڑنا، بالوں کو بکھیرنا، مونڈنا، اور نوچنا، منہ کالا کرنا، سر پر مٹی ڈالنا اور ایسی تمام چیزیں جو بے صبری پر دلالت کریں حرام ہیں۔

 

جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس مسلمان کے تین بچے اللہ کو پیارے ہو جائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا ہاں قسم پوری کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملہ ہاں قسم پوری کرنے کے لیے جائے گا سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد آیت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا) 19۔ مریم:71) کی طرف اشارہ ہے گویا اصل میں یہ آیت یوں ہے آیت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا) 19۔ مریم:71) یعنی خدا کی قسم! تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو دوزخ میں داخل نہ ہو اگرچہ وہ بجلی یا ہوا کی طرح ایک ہی لمحہ کے لیے کیوں نہ داخل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے اوپر پل صراط قائم کیا جائے گا ظاہر ہے کہ اس کے اوپر سے ہر شخص گزرے گا خواہ وہ مسلمان کافر اور خواہ نیک ہو یا بد فرق صرف اتنا ہو گا کہ جو بدکار ہوں گے وہ اس کے ذریعہ ایذاء پائیں گے بایں طور کہ وہ پل صراط کے اوپر سے دوزخ میں گر پڑیں گے اور نیکوکار کوئی ایذاء نہیں پائی گے بایں طور کے وہ اس کے اوپر سے گزر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں گے وہ دوزخ میں داخل کیا جائے ہاں صرف اتنے لمحہ کے لیے تو اس کا دوزخ تک جانا ممکن ہے کہ خدا کی قسم پوری ہو جائے اور وہ مختصر لمحہ بھی صرف پل صراط کے اوپر سے گزرنے کا وقفہ ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوزخ کے اندر داخل کیا جائے گا اور عذاب پائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کا عذاب نہیں پائے گا اور صرف پل صراط کے اوپر سے گزر جانا ہے اس آیت میں مذکور دخول دوزخ کا مصداق اور باری تعالیٰ کی قسم کے سچ اور پوری ہونے کے لیے کافی ہو گا۔

 اہل عرف اپنی روزہ مرہ کی بول چال میں کہا کرتے ہیں کہ میں نے یہ کام اپنی قسم پوری کرنے کے لیے کیا یعنی اس کام کو صرف اس قدر کیا کہ اس کی وجہ سے قسم پوری ہو جائے اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے اس کام کا ادنی ترین حصہ جو ایک قلیل ترین لمحہ میں گزر جائے کافی ہے۔

جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتنی ہی انصاری عورتوں سے فرمایا تم میں سے جس عورت کے بھی تین بچے مر جائیں اور وہ عورت ثواب کی طلبگار ہو تو وہ جنت میں داخل کی جائے گی۔ یہ سن کر ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا کہ یا دو بچے مر جائیں یعنی اس بشارت کو تین کے ساتھ خاص نہ کیجئے بلکہ یہ فرمائیے کہ تین مر جائیں یا دو مریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ہاں) دو بچے بھی مر جائیں تو یہ بشارت ہے (مسلم بخاری و مسلم دونوں کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسے تین بچے مریں جو حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوئے ہوں (تو یہ بشارت ہے)

 

تشریح

 

 ثواب کی طلبگار ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی عورت کے تین بچوں کو اپنے پاس بلا لے تو وہ ان کے مر جانے پر نوحہ اور جزع فزع نہ کرے بلکہ صبر و شکر کا دامن پکڑے رہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر خدا کی مرضی اور اس کی مصلحت کے آگے سر جھکا دے تو وہ بہشت میں داخل کی جائے گی۔

 اب اس بارے میں دونوں ہی احتمال ہیں کہ یا تو اسے ابتداء ہی میں بغیر عذاب میں مبتلا کیے ہوئے جنت میں داخل کر دیا جائے گا یا پھر یہ کہ ان بچوں کی سفارش و شفاعت کے بعد اسے جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا۔

 عورت کے عرض کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد  یا دو بچے مریں کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ جب آپ نے تین بچوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تو عورتوں نے تین کی تخصیص کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بارگاہ صمدیت کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توجہ کے اثر سے رحمت خداوندی نے اس خواہش کو قبول فرما کر فوراً ہی بذریعہ وحی مطلع کر دیا کہ اگر دو بچے بھی مر جائیں تب بھی یہ سعادت حاصل ہو گی یا پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بارے میں بطور خاص دعا مانگی اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا قبول ہو گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو وہ بشارت بھی سنا دی۔

 دوسری روایت میں غیر بالغ کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں سے عورتوں کو بہت زیادہ محبت ہوتی ہے بڑے بچوں کی بہ نسبت چھوٹے بچے اپنی ماں سے زیادہ قریب اور محبوب ہوتے ہیں اس لیے ان کے مرنے سے طبعی طور پر عورت کو بہت زیادہ رنج و غم ہوتا ہے۔

عزیز و محبوب کی موت پر صبر کی جزاء جنت ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کے عزیز و محبوب کو جو اہل دنیا سے اٹھا لیتا ہوں اور وہ بندہ اس پر ثواب کا طلبگار ہوتا ہے (یعنی صبر کرتا ہے) تو میرے پاس اس کے لیے جنت سے بہتر کوئی جزاء نہیں ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا اہل دنیا میں سے کوئی عزیز محبوب جیسے اولاد باپ ماں یا ان کے علاوہ کوئی بھی ایسا شخص جسے وہ عزیز و محبوب رکھتا تھا انتقال کر جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے اس صبر کی بناء پر اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائے گا۔ اہل دنیا، کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر اہل آخرت میں سے کوئی عزیز و محبوب مر جائے اور اس پر صبر کیا جائے تو اس سے بھی بڑی سعادت ملتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا اور کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کا راضی ہو جانا اس کے حق میں دنیا و آخرت کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑی فضیلت ہے۔

نوحہ کرنے اور نوحہ سننے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لعنت

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوحہ کرنے والی عورت اور نوحہ سننے والی عورت دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 نوحہ کرنے والی عورت سے مراد وہ عورت ہے جو میت کے عمدہ خصلتوں کو رو رو کر بیان کرے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ میت پر آواز کے ساتھ یعنی چلا چلا کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں نوحہ سننے والی عورت سے وہ عورت مراد ہے جو نوحہ کرنے والی عورت کے پاس بیٹھ کر قصداً اس کا نوحہ سنے اور اس کے نوحہ کو پسند کرے۔

مومن مصیبت و راحت ہر مرحلہ پر صابر و شاکر رہتا ہے

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مومن (کامل) کا عجب حال ہے اگر اسے راحت و بھلائی پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اور صبر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا مومن کو اس کے ہر کام میں ثواب ملتا ہے یہاں تک کہ وہ جو لقمہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے (اس پر بھی ثواب ملتا ہے) (بیہقی)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے ذریعہ مومن کی فضیلت اور اس کے امتیاز کو بطور فخر بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر خدائے واحد کا سپاس و شکر گزار رہتا ہے اگر اسے کوئی نعمت و راحت حاصل ہوتی ہے تو خدا کی تعریف کرتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت و تکلیف اپنے بازوؤں میں جکڑ لیتی ہے تو اس وقت بھی اس کی زبان حال و قال سے خدا کا شکر ہی ادا ہوتا ہے اور اس کی تعریف و بڑائی بیان کر کے وہ اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہے چنانچہ اسی لیے خدا نے بھی مومن کو یہ سعادت عطا فرمائی ہے کہ اس کے ہر مباح کام پر ثواب عطا فرماتا ہے بشرطیکہ اگر وہ خیر و بھلائی اور ثواب کی نیت کے ساتھ وہ کام کرے یعنی مومن کوئی بھی مباح کام کرے اگر اس کی نیت بخیر ہو گئی تو اسے اس کام پر ثواب دیا جائے مثال کے طور پر یہاں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے اور لقمہ دیتے وقت اس کی یہ نیت ہو کہ اپنے اس حق کی ادائیگی کے لیے جو میرے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر بیوی کے منہ میں لقمہ دے رہا ہوں تو اس کا یہ معمولی سا مباح کام اس کے حق میں ثواب کے اعتبار سے ایک عظیم سعادت بن جائے گا۔

مومن کی موت پر زمین و آسمان روتے ہیں

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ہر مسلمان کے لیے دو دروازے ہیں ایک دروازہ تو وہ ہے جس سے اس کے نیک اعمال اوپر آ جاتے ہیں اور دوسرا دروازہ وہ ہے جس سے اس کا رزق اترتا ہے چنانچہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اس کے دونوں دروازے روتے ہیں اس بات کو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھا جا سکتا ہے کہ آیت (فما بکت علیہم السماء والارض) یعنی (کافروں) کے لیے کہ آسمان رویا نہ زمین روئی (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ایک دروازہ تو وہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ مومن کے نیک اعمال جو زمین پر اس کے نامہ اعمال میں لکھے جا چکے ہیں آسمان پر جاتے ہیں اور پھر وہاں اعمال لکھنے کی وجہ دوبارہ اعمال نامہ میں لکھے جاتے ہیں، دوسرا دروازہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ رزق زمین پر اترتا ہے اور جس کے مقدر میں جتنا ہوتا ہے اتنا پہنچتا ہے۔

 لہٰذا جب کوئی مومن مرتا ہے تو دونوں دروازے روتے ہیں کیونکہ ایک دروازہ سے تو نیک اعمال اوپر جاتے تھے اور دوسرے دروازہ سے رزق اترتا تھا کہ جو نیک اعمال کے لیے معاون ہوتا ہے اس طرح دونوں دروازے مومن کے انتقال سے اس سعادت سے محروم ہو جاتے ہیں اور اپنی اس محرومی پر روتے ہیں۔

 اس بات کو اس آیت کریمہ سے سمجھایا گیا ہے بایں طور کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے حق میں فرمایا ہے کہ ان کے لیے نہ تو آسمان رویا نہ زمین روتی ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے لیے آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی روتی ہے۔

مر جانے والی چھوٹی اولاد ذخیر آخرت ہوتی ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  میری امت میں سے جس شخص کے دو بچے بالغ ہونے سے پہلے مر گئے اللہ تعالیٰ اسے ان دونوں بچوں کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا  (یہ سن کر حضرت عائشہ نے پوچھا کہ اور آپ کی امت میں سے جس شخص کا ایک ہی بچہ مرا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے موفقہ! جس شخص کا ایک بچہ مرا ہو اس کے لیے بھی یہ بشارت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت میں اگر جس شخص کا ایک بچہ بھی نہ مرا ہو؟ تو اس کے لیے کیا بشارت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر میں تو اپنی امت کا میر منزل ہوں ہی کیونکہ میری (وفات کی) مصیبت جیسی کسی اور مصیبت سے دوچار نہ ہوئے ہوں گے۔ (ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔)

 

تشریح

 

  فرط اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلہ سے پہلے منزل پر پہنچ کر اہل قافلہ کے لیے سامان خورد و نوش تیار کرتا ہے یہاں اس حدیث میں مذکور  فرط سے مراد وہ بچہ ہے جو بالغ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو جائے ایسے بچہ کو  فرط اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آخرت میں پہلے پہنچ کر اپنے والدین کے لیے جنت کی نعمتوں کا انتظام کرتا ہے یعنی وہ اپنے ماں باپ کو اللہ رب العزت سے سفارش و شفاعت کر کے جنت میں لے جائے گا۔ ہاں حدیث کے آخری جملہ فانا فرط امتی الخ میں فرط سے فوت شدہ نابالغ بچے مراد نہیں ہیں۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ کو کمال تعلق اور ان کی ذات خصوصیت نیز ان کے اوصاف فضائل کی بنا پر موفقہ کہہ کر مخاطب کیا جو مجموعہ فضل و کمال لقب ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اے عائشہ کہ جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و بھلائی اور اچھی باتوں کے پوچھنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی امت کے میر منزل ہوں بایں طور کہ میں ان سے پہلے آخرت میں پہنچ کر شفاعت کروں گا اور ان کو جنت میں لے جاؤں گا کیونکہ ثواب مصیبت اور مشقت کے بقدر ہوتا ہے یعنی مصیبت و مشقت جتنی سخت و شدید ہوتی ہے اتنا ہی ثواب زیادہ ملتا ہے لہٰذا اس دنیا سے میرا اٹھ جانا اس کے لیے اتنی بڑی مصیبت اور اتنا بڑا حادثہ ہے کہ اور کوئی مصیبت نہیں ہو سکتی، لہٰذا میرے بعد میری امت کا ہر فرد حقیقۃً اور حکماً اس حادثہ و مصیبت سے دوچار ہو گا اس لیے جن لوگوں کی چھوٹی اولاد فوت ہو کر ان کے لیے ذخیرہ آخر نہ بھی ہوئی ہو گی تو میرے وصال کا یہ حادثہ ہی ان کے لیے مذکورہ بالا سعادت و بشارت کے طور پر کافی ہو گا۔

اولاد کے انتقال پر صبر و شکر کا اجر

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کسی مومن بندے کا کوئی بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں یعنی ملک الموت اور اس کے معاون فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندہ کے بچہ کی روح قبض کی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہاں! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا وہ عرض کرتے ہیں کہ جی ہاں! پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے اس حادثہ پر میرے بندہ نے کیا کہا ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اس نے تیری تعریف کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے لیے جنت میں ایک بڑا گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دیا جاتا ہے۔

 اس گھر کا نام بیت الحمد اس لیے ہوتا ہے کہ وہ مصیبت و حادثہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا تسلیم و انقیاد کے بدلہ میں دیا جاتا ہے اس مناسب سے اس کا نام بیت الحمد (یعنی حمد و ثنا کا مکان) ہے۔

مصیبت زدہ کو تسلی دینے والے کا ثواب

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دیتا ہے تو اسے بھی مصیبت زدہ کے بقدر ثواب دیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے ہم اس روایت کو علی بن عاصم کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے مرفوع نہیں پاتے نیز امام ترمذی یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے اس روایت کو محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ ابن مسعود پر موقوف نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 مصیبت زدہ، عام ہے خواہ کسی کے انتقال کی مصیبت میں مبتلا ہو یا اس کے علاوہ کسی دوسرے حادثہ یا مصیبت سے دوچار ہو بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اطمینان و سکون دلاتا ہے اور اسے تسلی و تشفی دیتا ہے جو اپنے کسی عزیز و اقارب کے انتقال پر یا کسی بھی مصیبت کی وجہ سے غم زدہ ہو تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ اس مصیبت زدہ کو صبر کرنے سے ملتا ہے کیونکہ تسلی دینے والا جب مصیبت زدہ کو اطمینان و سکون دلاتا ہے بایں طور کہ اسے صبر کی تلقین کرتا ہے اور پھر وہ شخص صبر کرتا ہے تو گویا یہ شخص مصیبت زدہ کے صبر کا باعث بنتا ہے اس لیے الدال علی الخیر کفا علہ یعنی جو شخص اچھی بات کا راستہ بتاتا ہے اسے بھی اس راستہ پر چلنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے کے بمصداق اسے بھی اجر و سعادت سے نوازا جاتا ہے۔ اب اس بارے میں عمومیت ہے کہ چاہے تو تسلی خود مصیبت زدہ کے پاس پہنچ کر دی جائے یا اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پھر خط لکھ کر یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے اطمینان و سکون دلایا جائے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔

 حضرت امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ یہ روایت ابن مسعود پر موقوف ہے لیکن مرفوع ہی کے حکم میں ہے پھر یہ کہ اس کو ابن ماجہ کی اس روایت سے تقویت ملتی ہے جس کی سند حسن اور مرفوع ہے کہ۔ حدیث (ما من مسلم یعزی اخاہ بمصیبۃ الا کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ)۔ جو بھی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی مصیبت میں اسے صبر و سکون کی تلقین کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے بزرگی کا خلعت پہنائے گا۔

 

 

٭٭ حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس عوت کو تسلی دے گا جس کا بچہ مر گیا ہو تو اسے جنت میں بہت عمدہ لباس پہنایا جائے گا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

میت کے گھر کھانا بھیجنا مستحب ہے

حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت جعفر کے انتقال کی خبر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل بیت سے فرمایا کہ جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں ایک ایسا حادثہ پیش آیا ہے جو انہیں کھانا پکانے سے باز رکھتا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو اس کے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اہل و عیال کے لیے کھانا پکا کر بھیجیں اور کھانا بھی اتنا ہو کہ میت کے گھر والے اسے ایک دن اور ایک رات پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ میت کے گھر اس کے عزیزوں اور ہمسائیوں کی طرف سے تین تک کہ جو ایام تعزیت ہیں کھانا بھیجتے رہنا جائز ہے۔

میت کے گھر بھیجا جانے والا کھانا دوسرے لوگ بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں

اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ وہ کھانا جو میت کے گھر اس کے عزیزوں اور ہمسائیوں کی طرف سے آتا ہے میت کے گھر والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں، چنانچہ بعض علماء تو جواز کے قائل ہیں جب کہ بعض حضرات مثلاً ابو القاسم کا قول یہ ہے کہ اس شخص کے کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جو میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہے۔

 نیز علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی میت کے گھر کھانا پکا کر بھیجا جائے تو اس موقع پر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ میت کے گھر والے کھانا کھا بھی لیں کیونکہ ایسے غمناک ماحول میں کھانے پینے کا کوئی دھیان نہیں رہتا خاص طور پر میت کے گھر والے غم و الم کی وجہ سے کھانا وغیرہ کی خواہش نہیں رکھتے اس لیے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ انہیں کہہ سن کر کھانا ضرور کھلا دیا جائے تاکہ غم و الم کی زیادتی اور کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ضعف اور کمزوری میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

 نوحہ کرنے والی عورتوں کے لیے کھانا تیار کرنا تاکہ لوگ جمع ہوں اور کھائیں بدعت و مکروہ ہے بلکہ اس کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے تو یہ منقول ہے کہ ہم اسے نیاحت یعنی نوحہ کرنے کی ایک قسم شمار کرتے تھے۔ لہٰذا اس ارشاد سے تو اس چیز کا صریح حرام ہونا معلوم ہوتا ہے۔

 امام غزالی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی مقصد کے لیے میت کے گھر والوں کی طرف سے تیار کیے گئے کھانے میں شریک ہونا مکروہ ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ یہ کراہت اس شکل میں ہے جب کہ وہ کھانا اس مال سے تیار نہ کیا گیا ہو جو یتیم کا ہو یا اس شخص کی ملکیت ہو جو موجود نہ ہو اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کیا گیا ہو اور اگر کھانا ایسے مال سے تیار کیا گیا ہو جو یتیم یا غیر موجود شخص کی ملکیت میں ہو تو پھر اس کھانے میں شریک ہونا بغیر کسی اختلافی قول کے حرام ہے۔

میت کو نوحہ اور اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے

حضرت مغیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس میت کے لیے نوحہ کیا جاتا ہے اسے قیامت کے دن نوحہ کیے جانے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ اس وقت حضرت عائشہ سے یہ کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر یہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو میں نے حضرت عائشہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بخشے ابو عبدالرحمن (یہ حضرت عبداللہ بن عمر کی کنیت ہے) کو! جان لو کہ عبداللہ بن عمر نے جھوٹ نہیں بولا ہے بلکہ وہ بھول گئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بارے میں ایک خاص موقع پر یہ ارشاد فرمایا تھا یا یہ کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی اجتہادی خطا ہے کہ اس ارشاد سے عام حکم مراد لے رہے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ ایک یہودی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں اس قبر پر لوگ رو رہے تھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے عزیز و اقارب اس پر رو رہے ہیں اور وہ عورت اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا ہے۔

 

تشریح

 

 اللہ بخشے، اہل عرب میں یہ جملہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ کوئی شخص اپنی کسی بات اور گفتگو میں خطا کرتا ہے۔ حضرت عائشہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کہ اس کے عزیز و اقارب رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا ہے، کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہ لوگ کتنے جاہل اور نادان ہیں کہ وہ بدبخت عورت تو اپنی قبر کے اندر خدا کے عذاب میں مبتلا اور مطعون و خوار ہے جیسا کہ کافروں کا حال ہوتا ہے مگر یہ لوگ اسے مرحومہ سمجھ رہے ہیں اور اس سے محبت و تعلق کا اظہار کر رہا ہے لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات بطور خاص اس یہودی عورت کے بارے میں فرمائی تھی اس طرح دوسرے کافروں کے بارے میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے کہ ان کے عزیز و اقارب انہیں مرحوم سمجھ کر اور ان سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار کر کے روتے ہیں پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو یہ بھی نہیں فرمایا تھا کہ وہ ان کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے۔

 گویا حضرت عائشہ کے اعتراض کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو اس عورت کے کفر کی بناء پر فرمایا تھا کہ وہ اپنے کفر کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے اور عبداللہ بن عمر یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور کلیہ کے یہ ارشاد فرمایا کہ میت اپنے اوپر زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔

 یہ تو اس روایت کی وضاحت کی گئی ہے جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو علماء لکھتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ اعتراض بھی ان کے لیے اپنے اجتہاد پر مبنی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کا یہ اعتراض اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد خاص طور پر صرف اسی موقع سے منقول ہوا ہو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی مختلف الفاظ کے ساتھ اور حضرت عبداللہ بن عمر نیز دوسرے صحابہ کی متعدد روایتوں سے منقول ہے لہٰذا حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ یہ ارشاد اس خاص موقع پر اور صرف اس یہودیہ کے بارے میں تھا کچھ سمجھ میں نہیں آیا! بہرحال اس مسئلہ کی مزید وضاحت اگلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں دیکھئے۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کی صاحبزادی کا مکہ میں انتقال ہوا تو ہم لوگ ان کے یہاں آئے تاکہ نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوں حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس بھی وہاں آئے میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اتنے میں عبداللہ بن عمر نے حضرت عمرو بن عثمان سے جو ان کی طرف منہ کیے ہوئے بیٹھے تھے کہا کہ تم اپنے گھر والوں کو آواز اور نوحہ کے ساتھ رونے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ میت اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کے جواب میں کہا کہ حضرت عمر اس میں سے کچھ کہتے تھے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی سے تو میت پر عام طور پر رونے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے لیکن حضرت عمر اس ممانعت کو صرف قریب المرگ کے پاس آواز و نوحہ کے ساتھ رونے پر محمول کرتے تھے چنانچہ انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ جب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے واپس ہوا اور ہم بیداء پہنچے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک موضع ہے تو اچانک حضرت عمر نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے ایک قافلہ کو دیکھا انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم وہاں جا کر دیکھو کہ قافلہ میں کون ہے؟ چنانچہ میں نے وہاں جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت صہیب اور ان کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگ ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے آ کر حضرت عمر کو بتا دیا حضرت عمر نے فرمایا انہیں بلا لاؤ۔ میں پھر صہیب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ چلیے اور امیرالمومنین حضرت عمر فاروق سے ملیے اس کے بعد جب مدینہ میں حضرت عمر زخمی کر دیئے گئے تو حضرت صہیب روتے ہوئے ان کے پاس آئے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اے میرے بھائی، اے میرے آقا! یہ کیا ہوا! حضرت عمر نے اسی حالت میں صہیب سے فرمایا کہ تم میرے پاس آواز و بیان کے ساتھ رو رہے ہو؟ جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ مردہ یعنی یا  تو حقیقۃً یا قریب المرگ اپنے گھر والوں کے رونے بکی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یعنی ایسے رونے کی وجہ سے جو آواز نوحہ کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق کی وفات ہوئی تو میں نے ان کا یہ قول حضرت عائشہ کی خدمت میں عرض کیا وہ سن کر فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ حضرت عمر پر حم کرے! یہ بات نہیں ہے اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ مردہ اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یعنی نہ تو مطلقاً رونے کی وجہ سے اور نہ آواز و نوحہ کے ساتھ رونے کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ہاں البتہ اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے زیادتی کر دیتا ہے۔ پھر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اس کے ثبوت میں تمہارے لیے قرآن کریم کا یہ فیصلہ ہی کافی ہے کہ (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35۔ فاطر:18) کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس آیت کے مضمون کا مفہوم بھی تقریباً یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہنساتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی رلاتا ہے حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر یہ سن کر کچھ نہ بولے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح: ٢٣ھ ذی الحجہ کا مہینہ چھبیسویں تاریخ اور چہار شنبہ کا دن تھا صبح کی نماز کے وقت حضرت عمر مسجد نبوی میں نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے حاضرین نے صفیں باندھ لیں آپ محراب مسجد میں کھڑے ہو گئے ابھی آپ نے نماز شروع ہی کی تھی کہ مغیر بن شعبہ غلام ابو لولو لعین نے پیچھے جو گھات میں بیٹھا تھا دو دھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا خنجر پہلو میں لگا، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لعین چھ زخم لگائے حضرت عمر گر گئے انہیں اٹھا کر گھر لایا گیا، پورے مدینہ میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی لوگ جوق در جوق در خلافت پر حاضر ہونے لگے۔ انہیں میں حضرت صہیب بھی تھے، انہوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خون میں نہائے دیکھا تو بے اختیار رونے لگے اور یہ کہتے جاتے تھے  اے میرے بھائی، اے میرے آقا  حضرت ابن عباس اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر ہے ہیں بہرحال حضرت صہیب کے اس رونے اور ان کے اس کہنے کو نوحہ نہ سمجھ لیا جائے کیونکہ نوحہ وہ ہوتا ہے جو با آواز بلند اور بطریق بین ہو اور یہاں ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پائی جاتی لیکن حضرت عمر نے صہیب کو اس سے بھی احتیاطاً منع فرما دیا کہ اظہار غم کا یہ مباح طریقہ کہیں حدود سے تجاوز کر کے اس مرحلہ پر پہنچ جائے جہاں شریعت مانع ہوتی ہے۔

 حضرت عائشہ نے جو قسم کھا کر حدیث کی نفی کی تو وہاں حقیقت میں ان کی مراد حدیث کی نفی نہیں تھی بلکہ انہوں نے اس منہدم اور نتیجہ کی نفی کی جو حضرت عمر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث سے اخذ کیا تھا ورنہ تو جہاں تک نفس حدیث کا تعلق ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہے، اختلاف صرف اس حدیث کا مفہوم متعین کرنے میں ہے حضرت عمر اور حضرت عبداللہ تو اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ میت کے عذاب کا تعلق اس کے گھر والوں کے رونے سے یعنی اگر میت کے گھر والے میت پر روتے ہیں تو اسے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے خواہ میت مومن ہو یا کافر ہو۔

 حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی کافر کے حق میں ہے اور وہ بہر صورت عذاب میں مبتلا رہتا ہے چاہے اس کے گھر والے اس پر روئیں یا نہ روئیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ گھر والوں کے رونے کی وجہ سے کافر میت کے عذاب میں زیادتی کر دی جاتی ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ کافر رونے سے خوش اور راضی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض کافر تو مرتے وقت وصیت کر جاتے تھے کہ جب وہ مر جائیں تو اس پر رویا جائے اور نوحہ کیا جائے۔

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے مسلک کہ اہل میت کا رونا میت کے عذاب کا سبب نہیں ہوتا پر اس آیت کریمہ سے استدلال کرتی ہیں کہ ولاتزروازرۃ وزر اخریٰ یعنی ایک شخص کا گناہ کسی دوسرے شخص کے نامہ اعمال میں نہیں لکھا جاتا اور ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا ذمہ دار نہیں ہوتا تو اس پر اس گناہ کی سزا کا ترتب بھی نہیں ہو سکتا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے روتے ہیں نوحہ کرتے ہیں تو یہ ان کا فعل ان کا گناہ میت کے نامہ اعمال میں کیوں لکھے جانے لگے اور ان کے گناہ کی وجہ سے میت کو عذاب میں کیوں مبتلا کیا جانے لگا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس نے بھی یہ کہہ کر حضرت عمر کے مسلک کی نفی اور حضرت عائشہ کے قول کی تائید کی کہ انسان کا رونا اور ہنسنا اس کی خوشی اور غمی اللہ ہی کی طرف سے ہے کہ وہی ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے اس لیے رونے کو عذاب میں کیا دخل؟

 لیکن حضرت ابن عباس کے اس قول پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس طرح تو بندوں کے تمام ہی افعال اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے بندہ تو صرف انہیں کرتا ہے جس پر ثواب اور عذاب کا ترتب ہوتا ہے اگر کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی بد اعمالی کرتا ہے تو اس پر عذاب دیا جاتا ہے اب ہنسنے کی مثلاً لے لیجیے اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر وفور مسرت سے ہنستا ہے تو وہ ثواب پاتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر بطور تمسخر و استہزاء ہنستا ہے تو گناہ گار ہوتا ہے، اسی طرح غمی و خوشی کا معاملہ ہے بعض خوشی اور بعضے غم ایسے ہوتے ہیں جن پر ثواب دیا جاتا ہے بعضے خوشی اور بعضے غم ایسے ہوتے ہیں جن پر عذاب دیا جاتا ہے اس لیے حضرت عائشہ کے قول کی تائید اور حضرت عمر کے مسلک کی نفی میں حضرت ابن عباس کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ہاں ابن عباس کا یہ قول اس قید کے ساتھ تو صحیح ہو سکتا ہے کہ ہنسنا اور رونا بے اختیاری ہوں۔ یعنی اگر ہنسنے اور رونے میں اختیار کو دخل ہو گا تو پھر ان پر جواب اور عذاب کا ترتب ضرور ہو گا۔

 حدیث کا یہ آخری جملہ حضرت ابن عمر یہ سن کر کچھ نہ بولے۔ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت ابن عمر نے یہ قصہ سن کر ابن عباس کی بات مان لی بلکہ انہوں نے خاموشی اختیار کر کے بحث کو ختم کر دینا ہی مناسب سمجھا جیسا کہ اہل عرفان کی شان ہے۔

میت پر رونے کی ممانعت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس زید بن حارثہ، جعفر اور ابن رواحہ کے (غزوہ موتہ میں) شہید کر دئیے جانے کی اطلاع آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں) بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ پر رنج و غم کے آثار نمایاں تھے اور میں (آپ کی کیفیت) دروازے کے سوراخ سے دیکھے جا رہی تھی کہ اتنے میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ جعفر کے گھر کی عورتیں اس طرح کر رہی ہیں یعنی اس نے ان کے رونے کا ذکر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ جا کر انہیں منع کر دے۔ وہ چلا گیا (تھوڑی دیر کے بعد) دوسری مرتبہ واپس آ کر بتایا کہ عورتیں نہیں مان رہی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اس سے فرمایا کہ جا کر منع کر دو۔ وہ چلاگیا اور جا کر منع کیا اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! خدا کی قسم وہ عورتیں ہم پر غالب آ گئیں یعنی وہ ہمارا کہنا نہیں مان رہی ہیں حضرت عائشہ کا گمان ہے کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اس شخص سے کہنے لگی کہ خدا تمہاری ناک خاک آلود کرے تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رنج پہنچانے کا سبب بنے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو کیونکہ شدید رنج و غم کی وجہ سے جزع و فزع کی حالت میں نصیحت ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہے۔

 ارغم اللہ سے آخر تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا تمہیں ذلیل کرے کیونکہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایذاء پہنچائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رنچ پہنچانے کا سبب بنے اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ سن کر شدید رنج پہنچا کہ وہ عورتیں گناہ کبیرہ میں مبتلا ہیں اور منع کرنے کے باوجود رونے سے باز نہیں آ رہی ہیں اگر تم ڈانٹ ڈپٹ کر اور سختی کے ساتھ ان عورتوں کو اس فعل سے منع کر دیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ شدید روحانی اذیت و کوفت نہ ہوتی۔

 

 

٭٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میرے پہلے خاوند حضرت ابو سلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ ابو سلمہ مسافر تھے اور حالت مسافرت ہی میں مرے میں بھی ان کے لیے اس طرح روؤں گی کہ میرا رونا بیان کیا جائے گا (یعنی لوگوں میں چرچا ہو گا کہ ام سلمہ اس قدر روئی کہ اتنا کوئی بھی نہیں رویا) چنانچہ میں رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک ایک عورت آئی جو (رونے میں) میرے ساتھ شریک ہونے کا ارادہ رکھتی تھی، اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے سامنے آ گئے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارا یہ ارادہ ہے کہ شیطان کو اس گھر میں داخل کرو جس گھر سے اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ نکالا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر میں رونے سے رک گئی اور پھر میں (اس طرح) نہیں روئی (جس کی شریعت نے ممانعت کی ہے) (مسلم)

 

تشریح

 

 میں تو رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی، کا مطلب یہ ہے کہ میں رونے کا ارادہ کر رہی تھی اور اس موقع پر رونے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے سیاہ کپڑے وغیرہ انہیں مہیا کر رہی تھی۔

 بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلمہ کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ چلا چلا کر رونا اور نوحہ کرنا حرام ہے اگر انہیں ایسا معلوم ہوتا تو یقینی بات ہے کہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جو شریعت کی رو سے ناجائز و حرام ہے۔

 گھر میں سے دو مرتبہ شیطان کے نکلنے سے یا تو یہ مراد ہے کہ ایک مرتبہ تو اس وقت شیطان گھر سے نکال دیا گیا تھا جب کہ ابو سلمہ کفر و شرک کا سیاہ پراہن اتار کر ایمان و اسلام کا نورانی خلعت زیب تن کیا تھا اور دوسری مربتہ گھر سے اس وقت شیطان کو نکال دیا گیا جب کہ ابو سلمہ ظلم و جہل سے بھرپور اس دنیا سے ایمان و اسلام کے ساتھ رخصت ہو گئے تھے۔

بین کر نے کی ممانعت

حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ بن رواحہ (اتنے سخت بیمار ہوئے کہ موت کے قریب پہنچ گئے اور ان پر بے ہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ نے رونا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اے پہاڑ افسوس اور اے ایسے اور ویسے یعنی ان کی خوبیاں گن گن کر بیان کرنے لگیں جب حضرت عبداللہ ہوش میں آئے تو بہن سے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہی مجھے بطور تنبیہ کے کہا گیا ہے تم ایسے مثلاً جب تم نے کہا کہ واجبلاہ یعنی اے پہاڑ افسوس ہے تو مجھ کہا گیا تھا کہ تم پہاڑ کیوں ہو کہ لوگ تمہاری پناہ پکڑتے ہیں ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ چنانچہ جب عبداللہ کا انتقال ہوا (یعنی غزوہ موتہ میں شہید ہوئے) تو ان کی بہن ان پر روئی نہیں۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے اور اس کے عزیزوں میں سے کوئی رونے والا یہ کہہ کر روتا ہے کہ اے پہاڑ اے سردار وغیر وغیرہ۔ تو اللہ تعالیٰ میت پر دو دو فرشتے مقرر کر دیتا ہے جو اس کے سینے میں مکے مار مار کر پوچھتے ہیں کیا تو ایسے ہی تھا؟ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب حسن ہے۔

 

تشریح

 

 میت سے حقیقت یعنی مردہ بھی مراد ہو سکتا ہے اور قریب المرگ بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔

 میت پر رونے اور اس کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیے جانے کے بارے میں کچھ باتیں گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہیں اس موقعہ پر بھی اس مسئلہ کے بارے میں چند اور باتیں جانتے چلئے۔

 علامہ سیوطی نے شرح الصدور میں اس حدیث امن المیت لیعذب ببکاء اہلہ (یعنی میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے) کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس سلسلہ میں جتنے مسلک ہیں ان کو علامہ موصوف نے اس طرح سلسلہ وار نقل کیا ہے۔ (١) یہ حدیث اپنے ظاہر الفاظ و مفہوم کے مطابق مطلق ہے یعنی وصیت یا کافر کی قید نہیں ہے بلکہ میت پر چلا چلا کر رونے اور نوحہ کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بھی یہی رائے ہے۔ (٢) میت کو اس کے گھر والوں کی وجہ سے مطلقاً عذاب میں مبتلا نہیں کیا جاتا (٣) عذاب کا تعلق حالت سے ہے یعنی مردہ اس وقت عذاب میں مبتلا ہوتا ہے جب کہ اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہوتے ہیں اور وہ عذاب ان کے رونے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ مردہ کے اپنے گناہوں اور برے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے (٤) یہ حدیث مخصوص طور پر کافروں کے بارے میں ہے یہ دونوں اقوال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہیں۔ (٥) یہ حدیث اور یہ وعید خاص طور پر اس شخص کے بارے میں ہے جس کے یہاں نوحہ کا رسم و رواج ہو، امام بخاری کا یہی مسلک ہے۔ (٦) یہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو نوحہ کے لیے وصیت کر جائے یعنی جو شخص اپنے وارثوں سے کہہ جائے کہ میرے مرنے کے بعد نوحہ کیا جائے تو اسے اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اسی کا فعل ہے۔ (٧) یہ وعید اس شخص کے بارے میں ہے جو نوحہ نہ کرنے کی وصیت نہ کر جائے، چنانچہ جس شخص کو اپنے گھر والوں کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ میرے مرنے کے بعد نوحہ کریں گے تو اسے اپنے گھر والوں کو نوحہ نہ کرنے کی وصیت کرنا واجب ہو گا۔ (٨) میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اس وقت عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے جب کہ وہ میت کی ان باتوں کو بیان کر کے روئیں جو شرعی طور پر فی نفسہ بری اور انتہائی قابل نفرین ہو جسا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مر جاتا تھا تو لوگ یہ کہہ کہہ کر روتے تھے کہ اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے، اے اولاد کو یتیم کرنے والے، اے گھر کو خراب کرنے والے، (٩) عذاب سے مراد اہل میت کے مذکورہ بالا طریقہ سے بیان کر کے رونے کی وجہ سے میت پر ملائکہ کا غصہ ہونا ہے۔ (١٠) اہل میت جب نوحہ کرتے ہیں تو میت اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔

 بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عذاب سے مراد یہ ہے کہ جب اہل میت غلط طریقہ سے روتے ہیں اور اس بارے میں غیر شرعی روش اختیار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے میت کو شدید روحانی اذیت پہنچتی ہے اور اسے رنج ہوتا ہے جیسا کہ جب عالم برزخ میں دنیا سے کوئی روح آتی ہے اور وہاں پہلے سے موجود روحیں اس سے اپنے اعزہ کے متعلق پوچھتی ہیں اگر کسی روح کو اپنے متعلقین کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ برے اعمال اور گناہوں میں مبتلا ہیں تو اس روح کو رنج ہوتا ہے اور اگر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلقین نیکی اور بھلائی کی راہ پر گامزن ہیں تو اسے خوشی ہوتی ہے۔

 بہر حال مسئلہ کی پوری بحث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر میت اس گناہ کا خود سبب ہو گا یعنی وہ اگر مرنے سے پہلے یہ وصیت کر جائے کہ میری میت پر نوحہ کیا جائے چلا چلا کر رویا جائے یا یہ کہ وہ وصیت تو نہ کر جائے مگر ان امور سے خوش و راضی ہوتا ہو تو اس صورت میں حدیث میں مذکورہ عذاب اپنے حقیقی معنی پر محمول ہو گا بایں طور کہ اگر میت پر اہل میت نوحہ وغیرہ کریں گے تو اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اگر یہ صورت نہ ہو یعنی نہ تو میت نے وصیت کی ہو اور نہ وہ ان باتوں کو پسند کرتا ہو تو اس شکل میں عذاب اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہو گا بلکہ رنج اٹھانے پر محمول ہو گا خواہ یہ رنج اٹھانا حالت نزع میں ہو یا موت کے بعد نیز خواہ کافر ہو خواہ مسلمان اس بارے میں سب برابر ہیں اس طرح اس آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35۔ فاطر:18) اور ان احادیث کے درمیان جو کہ اس بارے میں میں مطلق منقول ہوئی ہیں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔

نوحہ اور چلائے بغیر رونا ممنوع نہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (جب) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولا میں سے کسی کا (یعنی حضرت زینت کا جیسا کہ اگلی روایت میں تصریح ہے) انتقال ہوا تو عورتیں جمع ہوئی اور ان پر رونے لگیں (یہ دیکھ کر) حضرت عمر فاروق کھڑے ہوئے اور (اقرباء) کو رونے سے منع کیا اور (اجنبیوں کو) مار مار کر بھگانے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (جب یہ دیکھا) تو فرمایا کہ عمر انہیں (اپنے حال پر) چھوڑ دو کیونکہ آنکھیں رو رہی ہیں اور دل مصیبت زدہ ہے نیز مرنے کا وقت قریب ہے۔ (احمد، نسائی)

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر عورتیں چلا چلا کر تو نہیں ہاں کچھ آواز سے رو رہی ہوں گی چنانچہ حضرت عمر فاروق نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں اس سے آگے بڑھ جائیں اور نوحہ وغیرہ کرنے لگیں جو شریعت کی نظر میں ممنوع ہے ان عورتوں کو رونے سے منع کرنا چاہا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر فاروق کو اس سے روک دیا اور ان کا عذر بیان فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ایسے سخت حادثہ اور غمناک موقعہ پر عورتوں کو اظہار رنج و غم کی اتنی بھی اجازت نہ دینا احتیاط اور دور اندیشی کا تقاضا تو ہو سکتا ہے لیکن فطرت کے خلاف ہو گا۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو عورتیں رونے لگیں حضرت عمر (اس بات کو کب برداشت کرنے والے تھے وہ) اپنے کوڑے سے مارنے لگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر کو اپنے ہاتھوں الگ کیا اور فرمایا کہ عمر نرمی اختیار کرو۔ پھر عورتوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو شیطان کی آواز سے دور رکھو (یعنی چلا چلا کر اور بیان کر کے ہرگز نہ رونا) پھر فرمایا کہ جو کچھ آنکھوں سے (یعنی آنسو) اور دل سے (یعنی رنج و غم) ظاہر ہو یہ خدا کی طرف سے ہے اور رحمت کا سبب ہے۔ (یعنی یہ چیزیں خدا کی پسندیدہ ہیں) اور جو کچھ ہاتھوں سے ظاہر ہو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ (احمد)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ اظہار رنج و غم کے وقت جو چیزیں ہاتھوں سے ظاہر ہوتی ہیں جیسے منہ پیٹنا کپڑے پھاڑنے اور بال نوچنے کھسوٹنے یا جو چیزیں زبان سے سرزد ہوتی ہیں جیسے چلانا و چیخنا نوحہ یعنی بین کرنا، یا زبان سے ایسی باتیں نکالنی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوں یہ سب چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں بایں طور کہ جب شیطان بہکاتا ہے تو یہ چیزیں صادر ہوتی ہیں اور ان چیزوں کو شیطان پسند کرتا ہے۔

 

ایک خاص واقعہ

حضرت امام بخاری رحمۃاللہ تعالیٰ بطریق تعلیق (یعنی بغیر سند کے) ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی کے صاحبزادے کہ جن کا نام بھی حسن ہی تھا کا انتقال ہوا تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک خیمہ کھڑا رکھا پھر جب انہوں نے اکھاڑا تو ہاتف غیبی کی ندا سنی کہ کیا خیمہ کھڑا کر کے کھوئے ہوئے کو پا لیا! پھر اس کے جواب میں دوسرے ہاتف غیبی کی یہ ندا سنی کہ ناامید ہوئی اور خیمہ اکھاڑ لیا۔

 

تشریح

 

 جب حسن بن علی کا انتقال ہوا تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک خیمہ کھڑا کر دیا جو سال بھر تک وہاں قائم رہا اور خود بھی وہیں پڑی رہیں اس طرح شوہر کے انتقال کی مصیبت اور احساس جدائی کا غم روز ان کے دل میں تازہ ہوتا رہا۔

 بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کی قبر پر خیمہ اس لیے کھڑا کیا تھا کہ ان کے دوست اور احباب ایصال ثواب اور قرآن خوانی کے لیے جمع ہو جایا کریں اور لوگ دعائے مغفرت و رحمت کے لیے آیا کریں۔

زمانہ جاہلیت کی ایک رسم اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تنبیہ

حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہما دونوں روایت کرتے ہیں کہ (ایک روز) ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک جنازے کے ساتھ چلے (چنانچہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنی چادریں اتار پھینکی تھیں اور کرتوں میں چل رہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (انہیں اس حال میں دیکھ کر) فرمایا کہ کیا تم لوگ جاہلیت کے فعل پر عمل کرتے ہو؟ یا جاہلیت کے کاموں کی مشابہت اختیار کرتے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا! (تمہاری یہ انتہائی نازیبا حرکت دیکھ کر) میرا تو ارادہ یہ ہوا کہ میں تمہارے لیے کوئی ایسی بد دعا کروں کہ تم اپنے گھروں کو دوسری شکلوں میں (یعنی بندر یا سور کی شکل ہو کر) واپس پہنچو۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر) ان لوگوں نے (فورا) اپنی چادریں اوڑھ لیں اور پھر دوبارہ کبھی ایسا کام نہ کیا۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ کرتوں کے اوپر چادریں اوڑھا کرتے تھے

 بہرحال زمانہ جاہلیت کی یہ ایک رسم تھی کہ جب لوگ جنازہ کے ساتھ چلتے تو اپنی چادریں اتار دیا کرتے تھے گویا اس سے پریشان حال کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب اتنے ذرا سے تغیر یعنی چادر اتار کر چلنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اتنی شدید تنبیہ اور وعید فرمائی تو ان لوگوں کا کیا حشر ہو گا جو اس سے کہیں زیادہ بڑی رسموں کو اختیار کیے ہوئے ہیں؟

کسی خلاف شرع چیز کی موجود گی میں جنازہ کے ساتھ جانے کی ممانعت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جنازہ کے ہمراہ جانے سے منع فرمایا جس کے ساتھ نوحہ کرنے والی ہو۔ (رواہ احمد و ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اگرچہ جنازہ کے ساتھ چلنا سنت ہے لیکن اس فعل بد کی موجودگی کی وجہ سے اس سنت کو ترک کر دینا چاہئے اس طرح کسی بھی خلاف شرع چیز کی موجودگی میں جنازہ کے ساتھ نہیں جانا چاہئے

 یہ حدیث اس مسئلہ کی بنیاد ہے کہ جس دعوت میں خلاف شرع باتیں پائی جائیں وہاں نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگرچہ دعوت قبول کرنا سنت ہے لیکن ایسے موقع پر غیر شرع باتوں اور افعال بد کی وجہ سے اس سنت پر عمل نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہو گا۔

فوت شدہ چھوٹے بچے اپنے والدین کو جنت میں لے جائیں گے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ (ایک دن) ان سے ایک شخص ملا اور کہنے لگا کہ میرا (چھوٹا) بچہ مر گیا جس کی وجہ سے میں بہت غمگین ہوں کیا آپ نے اپنے دوست یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ ان پر اللہ کی رحمتیں اور اللہ کا سلام نازل ہو کوئی ایسی بات بھی سنی ہے جو ہمارے مردوں (یعنی فوت شدہ چھوٹے بچوں) کی طرف سے ہمارے دلوں کو خوش کر دے (یعنی جس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے چھوٹے بچے مر گئے وہ آخرت میں ہمارے کچھ کام آئیں گے) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت میں دریا کے جانور کی طرح ہوں گے جب ان میں کسی کا باپ اسے ملے گا تو وہ بچے اپنے باپ کے کپڑے کا کونہ پکڑ لے گا اور اسے اس وقت تک نہ چھوڑے گا جب تک کہ اس باپ کو جنت میں داخل نہ کر دے گا۔ (مسلم احمد، الفاظ احمد کے ہیں)

 

تشریح

 

  دعا میص دعموص کی جمع ہے۔ دعموص پانی کے ایک چھوٹے سے سیاہ جانور (کیڑے) کو کہتے ہیں جو عام طور پر تالابوں میں پانی کم ہو جانے پر ظاہر ہوتا ہے نیز یہ جانور مستقل پانی میں نہیں رہتا ہے بلکہ وہ غوطہ خور ہوتا ہے یعنی غوطہ مارتا ہے اور باہر نکل آتا ہے اس جانور بعض جگہ جولایا بھی کہا جاتا ہے۔

 دعموص اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو سلاطین و امراء کے معاملات میں بہت زیادہ دخیل ہوتا ہے اور ان کے قوائے فکر و عمل پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔

 بہرحال فوت شدہ چھوٹے بچوں کو جنت میں (دعموص) سے بایں معنی تشبیہ دی گئی ہے کہ یہ بچے جنت میں سیر کرتے پھرتے ہیں جن طرح دنیا میں چھوٹے بچوں سے پردہ نہیں کیا جاتا اور کسی گھر میں جانے سے نہیں روکے جاتے اور نہ انہیں کہیں جانے سے منع کیا جاتا ہے اس طرح وہ چھوٹے بچے جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں ان کے کہیں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

 اس حدیث میں بطور خاص باپ کا ہی ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقعہ پر صرف باپ ہی کے بارے میں بات چل رہی ہو گی اس لیے اس کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ورنہ تو جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چھوٹا بچہ اپنے باپ کو جنت میں لے جائے گا اسی طرح اپنی ماں کو بھی جنت میں داخل کرائے گا چنانچہ بعض حدیثوں میں ماں باپ دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

بچوں کے مرنے کا اجر

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ! مردوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقدس ارشادات سے استفادہ کیا اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن ہمارے لیے بھی مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اس دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں بھی وہ باتیں بتائیں جو خدا نے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتائیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا تم عورتیں فلاں دن فلاں وقت اور فلاں مکان میں (یعنی مسجد میں یا کسی گھر میں) اور فلاں جگہ (یعنی مسجد یا مکان کے اگلے حصہ میں یا پچھلے حصہ میں) جمع ہو جانا، چنانچہ (جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق عوتیں جمع ہو گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ باتیں انہیں سکھائیں جو خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سکھائی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (یہ بھی فرمایا) کہ تم میں سے جس نے اپنی اولاد میں سے (تین لڑکے یا لڑکیاں) بھیج دی ہوں (یعنی اس کے تین بچے مر گئے ہوں) تو وہ بچے اس کے لیے آگ سے پردہ ہو جائیں گے (یعنی اسے دوزخ میں نہ جانے دیں گے) ان میں سے ایک عورت نے یہ الفاظ دو مرتبہ کہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یا جس عورت کے دو بچے مر گئے ہوں یا یا دو یا دو (جس عورت کے تین بچے مرے ہوں اس کے لیے بھی یہ ثواب ہے اور جس عورت کے دو ہی بچے مرے ہوں اس کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔

 

 

٭٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جن دو مسلمانوں کے (یعنی ماں اور باپ کے) تین بچے مر جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان دونوں یعنی ماں باپ کو جنت میں داخل کرے گا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ بھی فرما دیجیے کہ یا جن کے دو بچے بھی مر گئے ہوں (ان کے لیے بھی یہ بشارت ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں جن کے دو بچے بھی مر جائیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ بھی فرما دیجیے کہ یا ایک۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ایک بچہ (بھی اگر مر جائے تو اس کے والدین کے لیے بشارت ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کسی عورت کا کچا حمل بھی گر جائے تو وہ اپنی ماں کو اپنی آنول نال کے ذریعہ بہشت کی طرف کھینچے گا بشرطیکہ اس کی ماں صبر کرے اور اس کے مرنے کو (اپنے حق میں) ثواب شمار کرے۔ (احمد) ابن ماجہ نے اس روایت کو والذی نفسی بیدہ سے (آخر تک) نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 آنول نال اس جھلی کو کہتے ہیں جو پیدا ہونے کے وقت بچہ کی ناف سے لٹکی ہوتی ہے۔

 ارشاد گرامی لیجر امہ بسررہ میں آنول نال سے بچہ اور اس کے ماں کے درمیان تعلق و علاقہ کی طرف اشارہ گویا آنول نال رسی کی مانند ہو جائے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی ماں کو بہشت کی طرف کھینچے گا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب اس بچہ کے مر جانے کا اتنا ہی زیادہ ثواب ہے جو ابھی ناتمام ہی تھا اور جس سے ماں کو کوئی تعلق لگاؤ بھی پیدا نہیں ہو سکا تھا۔ تو اس بچہ کے مر جانے پر ماں کو کتنا کچھ ثواب ملے گا جو پلا پلایا اللہ کو پیارا ہو گیا ہو اور جس سے ماں کو کمال تعلق و لگاؤ بھی پیدا نہیں ہو سکا۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنی اولاد میں سے ایسے تین بچے جو حد بلوغت کو نہ پہنچے ہوں آگے بھیجے ہوں (یعنی اس کے مرنے سے پہلے مر گئے ہوں) تو وہ اس کے لیے آگ سے مضبوط پناہ ہوں گے۔ (یہ سن کر) حضرت ابوذر نے کہا کہ میں نے تو دو بچے بھیجے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور دو بھی! حضرت ابی بن کعب نے کہ جن کی کنیت ابوالمنذر ہے اور قاریوں کے سردار ہیں کہا کہ میں نے تو ایک ہی بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور ایک بھی (آگ سے پناہ ہو گا)۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

٭٭ حضرت قرہ مزنی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک شخص تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں آیا کرتا تھا اور اس کا لڑکا بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ کیا تم اسے (بہت ہی) عزیز رکھتے ہو (جو ہر وقت تمہارے ساتھ ہی ہوتا ہے) اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (میں اس سے اپنی محبت کو کیا بتاؤں بس) اللہ تعالیٰ آپ سے ایسی ہی محبت کرے جیسا کہ میں اپنے اس بچہ سے کرتا ہوں۔ (کچھ عرصہ کے بعد) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بچہ کو (اپنے باپ کے ساتھ) نہیں پایا تو پوچھا کہ فلاں شخص کا بیٹا کیا ہوا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کا لڑکا تو مر گیا۔ (اس کے بعد جب وہ شخص حاضر ہوا تو اس سے) آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ کل قیامت کے روز تم جنت کے جس دروازہ پر بھی جاؤ وہاں اپنے لڑکے کو اپنا منتظر پاؤ تاکہ وہ تمہاری سفارش کرے اور تمہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ بشارت بطور خاص اسی شخص کے لیے ہے یا سب کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم سب کے لیے (احمد)

ناتمام بچہ بھی اپنے والدین کو جنت میں لے جائے گا

حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب اللہ تعالیٰ سقط(یعنی ناتمام بچہ جو ماں کے پیٹ سے وقت سے پہلے گر گیا ہو گا) کے والدین کو دوزخ میں داخل (کرنے کا ارادہ) کرے گا تو وہ اپنے پروردگار سے جھگڑے گا چنانچہ اس سے کہا جائے گا کہ پروردگار سے جھگڑنے والے اے ناتمام بچے! اپنی ماں کو جنت میں لے جاؤ لہٰذا وہ ناتمام بچہ اپنے والدین کو اپنی آنول نال کے ذریعہ کھینچے گا یہاں تک کہ انہیں جنت میں لے جائے گا۔ (ابن ماجہ)

مصیبت و حادثہ پر صبر کا اجر جنت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (انسان کو مخاطب کرتے ہوئے) فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! اگر تو (کسی مصیبت کے وقت) صبر کرے اور صدمہ کی ابتدائی مرحلہ ہی پر ثواب کا طلب گار ہو تو میں تیرے لیے جنت سے کم کسی اجر و ثواب پر راضی نہیں ہوتا (یعنی میں تجھے اس کے بدلہ میں جنت ہی میں داخل کروں گا) (ابن ماجہ)

استرجاع کی فضیلت

حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جس مسلمان مرد و عورت کو کوئی مصیبت و صدمہ پہنچے اور خواہ کتنا ہی طویل زمانہ گزر جانے کے بعد وہ مصیبت و صدمہ یاد آ جائے اور وہ اس وقت انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ثواب ثابت کر دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے وہی اجر و ثواب عطا فرماتا ہے جو اس دن عطا کیا گیا تھا جب کہ وہ اس مصیبت و صدمہ سے دوچار ہوا تھا (اور اس پر صبر کیا تھا)۔ (احمد، بیہقی)

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ  رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اسے چاہئے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھے کیونکہ یہ بھی ایک مصیبت ہی ہے

 

 

تشریح

 

 غالباً جوتے کا تسمہ ٹوٹنے سے معمولی مصیبت و تکلیف سے مراد ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی معمولی درجہ کی بھی تکلیف و مصیبت پہنچے تو انا للہ پڑھنی چاہئے چنانچہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اچانک چراغ بجھ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت کریمہ پڑھی۔

نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر امت مرحومہ کا وصف عظیم

حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ اے عیسیٰ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کروں گا جب انہیں کوئی پسندیدہ چیز یعنی نعمت و راحت ملے گی تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے اور جب کوئی ناپسندیدہ چیز یعنی تکلیف و مصیبت پہنچے گی تو ثواب کی امید رکھیں گے اور صبر کریں گے در آنحالیکہ نہ تو عقل ہو گی اور بردباری۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے پروردگار! یہ کیوں کر ہو گا جب کہ نہ عقل ہو گی نہ بردباری! پروردگار نے فرمایا میں انہیں اپنی بردباری اور اپنے علم میں سے کچھ حصہ دے دوں گا۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔

 

تشریح

 

 یہاں امت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نیک و فرمانبردار اور صلحاء مراد ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد نہ عقل ہو گی نہ بردباری کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ مصیبت و تکلیف کی وجہ سے بردباری و عقل جاتی رہے گی، لیکن مصیبت و تکلیف پر صبر کریں گے اور ثواب کے طلب گار ہوں گے یعنی بردباری اور عقل یہ دونوں ایسے وصف ہیں کہ ان کی وجہ سے انسان مصیبت و حادثہ کے وقت جزع و فزع اور بے صبری اختیار کرنے سے باز رہتا ہے اور یہ جان کر صبر و سکون کے دامن کو پکڑے رہتا ہے کہ نفع و نقصان اور تکلیف و راحت سب کچھ اللہ رب العزت ہی کی طرف سے ہے لہٰذا ان دونوں اوصاف کے نہ ہونے کے باوجود صبر و سکون کے دامن کو پکڑے رہنا قابل تعجب بات ہے؟ چنانچہ اسی لیے حضرت عیسیٰ نے پوچھا کہ جب بردباری اور عقل ہی کا فقدان ہو گا تو پھر صبر کرنا کیسے ممکن؟ اور پھر ثواب کی امید کے کیا معنی؟ حضرت عیسیٰ کے اس اشکال اور ان کی اس حیرت کا جواب بارگاہ الوہیت سے یہ دیا گیا کہ ایسے مواقع پر امت مرحومہ کے افراد کی راہنمائی عقل و دانش اور حلم و بردباری کا وہ نور کرے گا جو کسبی نہیں ہو گا بلکہ میں اپنے پاس سے عقل و بردباری کی دولت بلا کسب عطا کروں گا جس کی وجہ سے بڑی بڑی مصیبت پر وہ صبر کریں گے اور ثواب کے امیدوار ہوں گے۔