مشکوٰة شر یف

میناروں پر کنکریاں پھینکنے کا بیان

میناروں پر کنکریاں پھینکنے کا بیان

جمار دراصل سنگریزوں اور کنکریوں کو کہتے ہیں اور  جمار حج  ان سنگریزوں اور کنکریوں کا نام ہے جو مناروں پر مارے جاتے ہیں اور جن مناروں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں انہیں جمار کی مناسبت سے  جمرات  کہتے ہیں۔

 جمرات یعنی وہ منارے جن پر کنکریاں پھینکی جاتی ہیں تین ہیں۔ (١) جمرہ اولیٰ۔ (٢) جمرہ وسطی۔ (٣) مرہ عقبہ۔ یہ تینوں جمرات منیٰ میں واقع ہیں اور بقر عید کے روز یعنی دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ پر کنکریاں پھینکی جاتی ہیں، پھر گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں کو تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا واجب ہے۔

رمی جمرہ عقبہ سواری پر بھی جائز ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا، نحر (قربانی) کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر سوار کنکریاں مار رہے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ سے افعال حج سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ شاید میں اپنے اس حج کے بعد پھر حج نہ کر سکوں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ جو شخص منیٰ میں پیادہ پا پہنچے تو وہ پیادہ پا ہی جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارے اور پھر گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو تو تینوں جمرات پر پیادہ رہ کر ہی رمی کرے اور تیرہویں تاریخ کو سوار ہو کر کنکریاں مارے۔

 فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ جس رمی کے بعد دوسری رمی ہے جیسے جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی ٰ کی رمی تو اس رمی کو پیادہ کرنا ہی افضل ہے کیوں کہ اس رمی کے بعد وقوف کرنا، درود و دعا، وغیرہ میں مشغول ہونا ہوتا ہے اور ایسی صورت میں پیادہ پائی کی حالت عاجزی و تضرع کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے۔

 جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل کا تعلق ہے تو احادیث صحیحہ میں جو کچھ منقول ہے اس کا خلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نحر کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تو سواری پر کی ہے اور بقیہ دونوں کی رمی پیادہ کی ہے۔

کنکریوں کی تعداد اور اس کو پھینکنے کا طریقہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خذف کی کنکریوں کی طرح (یعنی چھوٹی چھوٹی) کنکریوں سے رمی جمار کرتے دیکھا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مناروں پر کنکریاں پھینکنے کا طریقہ کئی طرح سے منقول ہے لیکن زیادہ صحیح اور آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ کنکری کو شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے سروں سے پکڑ کر یعنی چٹکی میں رکھ کر پھینکا جائے، چنانچہ اب معمول بھی اسی طرح ہے۔

رمی جمار کا وقت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے دن کو چاشت کے وقت (یعنی زوال سے پہلے) منارے پر کنکریاں پھینکیں اور بعد کے دنوں میں دوپہر ڈھلنے کے بعد کنکریاں پھینکیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ضحیٰ دن کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب سے پہلے تک ہوتا ہے، بعد کے دنوں سے مراد ایام تشریق یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخیں ہیں۔ ان دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زوال آفتاب کے بعد رمی کی۔

 ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ دوسرے دن یعنی گیارہویں تاریخ کو رمی جمار کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہوتا ہے اسی طرح تیسرے دن یعنی بارہویں تاریخ کو بھی رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اب اس کے بعد اگر کوئی شخص مکہ جانا چاہے تو وہ تیرہویں تاریخ کو طلوع فجر سے پہلے جا سکتا ہے اور اگر طلوع فجر کے بعد مکہ جانا چاہے گا تو پھر اس پر اس دن کی رمی جمار واجب ہو جائے گی اب اس کے لئے رمی جمار کئے بغیر مکہ جانا درست نہیں ہو گا ہاں اس دن یعنی تیرہویں تاریخ کو زوال آفتاب سے پہلے بھی رمی جمار جائز ہو جائے گی۔

 اس موقع پر ایک یہ مسئلہ بھی جان لیجئے کہ اگر کوئی شخص کنکریاں مناروں پر پھینکے نہیں بلکہ ان پر ڈال دے تو یہ کافی ہو جائے گا مگر یہ چیز غیر پسندیدہ ہو گی بخلاف مناروں پر کنکریاں رکھ دینے کے کہ یہ اس طرح کافی بھی نہیں ہو گا۔

رمی جمار کے وقت تکبیر

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (رمی کے لئے) جمرہ کبریٰ (یعنی جمرہ عقبہ) پر پہنچے تو (اس طرح کھڑے ہوئے کہ) انہوں نے خانہ کعبہ کو اپنی بائیں طرف کیا اور منیٰ کو دائیں طرف اور پھر انہوں نے سات کنکریاں (اس طرح) پھینکیں کہ ہر کنکری پھینکتے ہوئے تکبیر کہتے تھے، پھر انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح اس ذات گرامی (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے پھینکی ہیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ پر اس طرح کھڑے ہوئے کہ خانہ کعبہ تو ان کی بائیں سمت میں تھا اور منیٰ دائیں سمت لیکن دوسرے جمرات پر اس طرح کھڑا ہونا مستحب ہے کہ منہ قبلہ کی طرف ہو۔

 رمی جمرہ میں سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں اور ہر کنکری پھینکتے ہوئے تکبیر کہی جاتی ہے چنانچہ بیہقی کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر کنکری کے ساتھ اس طرح تکبیر کہتے تھے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر دعا (اللہم اجعلہ حجا مبرورا وذنبا مغفوراً عملا مشکورا

 یوں تو پورا قرآن ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا ہے لیکن اس موقع پر خاص طور پر سورہ بقرہ کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ اس سورت میں حج کے احکام و افعال مذکور ہیں۔

جمرات پر سات کنکریاں پھینکنا واجب ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا استنجاء طاق ہے (یعنی استنجے کے لئے تین ڈھیلے لینے چاہئیں) کنکریاں پھینکنی طاق ہے (یعنی سات کنکریاں پھینکنی چاہئیں) صفا اور مروہ کے درمیان سعی طاق ہے (یعنی ان دونوں کے درمیان سات مرتبہ پھرنا چاہئے) خانہ کعبہ کے گرد طواف طاق ہے (یعنی سات چکر کا ایک طواف ہوتا ہے) اور جب تم میں سے کوئی شخص اگر کی دھونی لینا چاہئے تو اسے چاہئے کہ طاق (یعنی تین یا پانچ یا سات مرتبہ) لے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 جمرات (مناروں) پر سات سات کنکریاں پھینکنا واجب ہے، اسی طرح صفا و مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی واجب ہے اور جمہور علماء کے نزدیک ایک طواف کے لئے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر فرض ہیں جب کہ حنفیہ کے ہاں چار چکر تو فرض ہیں اور باقی واجب ہیں۔

سواری پر رمی جمار

حضرت قدامی بن عبداللہ بن عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے قربانی کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اونٹنی صہباء پر سوار (جمرہ عقبہ پر) کنکریاں پھینک رہے تھے نہ تو وہاں مارنا تھا نہ ہانکنا اور نہ ہٹو بچو کی آوازیں تھیں۔ (شافعی، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

 

 

تشریح

 

  صہباء اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کی رنگت کی سفیدی، سرخی آمیز، ہو بایں طور کہ اس کے بالوں کی نوکیں اوپر سے سرخ ہوں اور نیچے کی طرف سفیدی ہو۔

 حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح امراء و سلاطین اور سربراہ مملکت کی سواری کے آگے آگے نقیب و چوب دار راستہ کا انتظام و اہتمام کرتے ہوئے چلتے ہیں سرور کائنات اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری کے آگے اس طرح کا کوئی انتظام و اہتمام نہیں ہوتا تھا۔

سعی اور رمی جمار ذکر اللہ کا ذریعہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مناروں پر کنکریاں مارنا اور صفا اور مروہ کے درمیان پھرنا ذکر اللہ کے قیام کے لئے ہے (ترمذی، دارمی) امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 ظاہری طور پر یہ فعل ایسے ہیں کہ ان کا عبادت ہونا معلوم نہیں ہوتا اس لئے فرمایا کہ یہ دونوں فعل اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر ہوئے ہیں، چنانچہ یہ معلوم ہی ہے کہ ہر کنکری مارتے وقت تکبیر سنت اور سعی کے دوران وہ دعائیں پڑھنا بھی سنت ہے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔

منیٰ میں کسی کے لئے کوئی جگہ متعین نہیں ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے لئے منیٰ میں کوئی ایسی عمارت نہ بنوا دیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے سایہ کی جگہ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ نہیں! منیٰ اس شخص کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے جو پہلے پہنچے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ منیٰ میں پہنچنے میں خصوصیت سبقت کے ساتھ ہے مکان بنانے یا کوئی جگہ متعین کر لینے کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی منیٰ ایسی جگہ ہے جہاں کسی کے لئے کوئی خصوصیت نہیں ہے اور نہ وہاں کسی کے بیٹھنے کے لئے کوئی خاص جگہ متعین ہے بلکہ وہاں جو شخص جس جگہ پہلے پہنچ جائے وہی اس جگہ کا مستحق ہے۔

جمرات پر وقوف

حضرت نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پہلے دونوں مناروں کے نزدیک بہت دیر تک ٹھہرتے اور (وہاں اللہ کی تکبیر، اللہ کی تسبیح اور اللہ کی تحمید میں مشغول رہتے، نیز (ہاتھ اٹھا کر) اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے اور جمرہ عقبہ کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے۔ (مالک)

 

تشریح

 

 پہلے دونوں مناروں سے مراد جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب ان دونوں جمروں پر رمی کر چکے تو وہاں ٹھہر کر دعا وغیرہ میں مشغول رہتے، چنانچہ ان جمرات پر وقوف کرنا اور وقوف کے دوران دعا و زاری اور تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہنا مسنون ہے۔ مدت وقوف کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ ان جمرات پر اتنی دیر تک ٹھہرنا چاہئے جتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ ویسے بعض اہل اللہ کے بارے میں تو یہ منقول ہے کہ وہ ان جمرات پر اتنی دیر تک کھڑے رہے ہیں کہ ان کے پاؤں ورم کر گئے تھے۔

  اور جمرہ عقبہ کے پاس نہیں ٹھہرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعا کے لئے اس جمرہ پر نہ تو قربانی کے دن ٹھہرتے تھے اور نہ دوسرے ہی دنوں میں وقوف کرتے تھے تاہم اس سے دعا کا بالکل ترک کرنا لازم نہیں آتا۔ باب النحر میں وہ روایت آئے گی جس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔