نفقات نفقہ کی جمع ہے اور نفقہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو خرچ کی جائے جب کہ شرعی اصطلاح میں طعام لباس اور سکنی مکان کو نفقہ کہتے ہیں چونکہ نفقہ کی کئی نوعیتیں اور قسمیں ہوتی ہیں جیسے بیوی کا نفقہ اولاد کا نفقہ والدین کا نفقہ اور عزیز و اقارب کا نفقہ وغیرہ اس لئے نفقہ کی ان انواع کے اعتبار سے عنوان میں نفقات یعنی جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے نیز یہاں نفقہ سے اس کا عام مفہوم مراد ہے خواہ واجب ہو یا غیر واجب ہو۔
لونڈی غلام کے حقوق کا مطلب ہے ان کو کھلانا پہنانا اور ان پر ایسے کاموں کا بوجھ نہ ڈالنا جو ان کی طاقت و ہمت سے باہر ہوں۔
مرد پر اپنی بیوی کا نفقہ یعنی کھانے پینے کا خرچ لباس اور مکان دینا واجب ہے چاہے مرد عمر میں اپنی بیوی سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور خواہ بیوی مسلمان ہو یا کافرہ ہو خواہ بالغہ ہو یا ایسی نابالغہ ہو جس سے جماع نہ کیا جا سکتا ہو لیکن نفقہ واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس بیوی نے اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں شوہر کے سپرد کر دیا ہو اگر سپرد نہ کیا ہو تو اس کی وجہ یا تو اس کا کوئی حق ہو کہ جس کو ادا کرنے سے انکار کرتا ہو یا خود شوہر سپرد کرنے کا مطالبہ نہ کرتا ہو۔
بہتر یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنا ہم پیالہ وہم نوالہ بنائے دونوں ایک ساتھ رہیں اور حیثیت کے مطابق جو کچھ میسر ہو اس میں دونوں گزارہ کریں اور جیسا کہ شریف گھرانوں کا قاعدہ ہے شوہر باہر کسب معاش کرے اور بیوی گھر کے انتظامات کی ذمہ دار بنے شوہر جو کچھ کمائے اسکے مطابق جنس و سامان گھر میں مہیا کرے اور بیوی اپنی سلیقہ شعاری کے ذریعہ اس جنس و سامان کو پورے گھر اور متعلقین کی ضرورتوں میں صرف کرے اور اگر کسی وجہ سے شوہر و بیوی کا اس طرح ہم پیالہ وہم نوالہ رہنا ممکن نہ ہو اور بیوی قاضی و حاکم کے یہاں یہ درخواست کرے کہ میرے لئے شوہر پر نفقہ مقرر کر دیا جائے تو حاکم و قاضی کی طرف سے بیوی کے لئے ماہانہ نفقہ کھانے پینے کا خرچ مقرر کر دیا جائے گا۔ اور وہ مقرر مقدار اس کے سپرد کر دیا جائے گا اسی طرح ایک سال میں دو مرتبہ کپڑا دینا مقرر کیا جائے گا اور وہ مقرر کپڑا ہر ششماہی پر اس کے حوالہ کر دیا جائے گا اگر قاضی و حاکم نے عورت کے لئے ماہانہ نفقہ مقرر کر دیا تو شوہر اس کو ماہانہ ادا کرے گا اور اگر شوہر نے ماہانہ نہ دیا اور عورت نے روزانہ طلب کیا تو شام کے وقت عورت کو مطالبہ کرنے کا اختیار ہو گا۔
نفقہ مقرر کرنے کے سلسلہ میں اس مقدار کا لحاظ رکھا جائے گا جو بیوی کے لئے کافی ہو اور بغیر کسی اسراف و تنگی کے اپنا گزارہ کر سکے۔ رہی معیار کی بات تو اس میں میاں بیوی دونوں کی حالت و حیثیت کا اعتبار ہو گا اگر وہ دونوں مالی طور پر اچھی حالت و حیثیت کے مالک ہیں تو اچھی ہی حیثیت کا نفقہ بھی واجب ہو گا اور اگر وہ دونوں تنگ دست و مفلس ہوں تو نفقہ بھی اسی کے اعتبار سے واجب ہو گا اور اگر یہ صورت ہو کہ میاں تو خوش حال ہو اور بیوی تنگدست ہو یا میاں تنگدست ہو اور بیوی خوشحال ہو تو پھر درمیانی درجہ کا نفقہ واجب ہو گا یعنی وہ نفقہ دیا جائے گا جو خوشحالی کے درجہ سے کم ہو اور تنگدستی کے درجہ سے زیادہ ہو اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ بہرصورت شوہر ہی کی حالت کا اعتبار کیا جائے گا وہ جس حالت و حیثیت کا ہو گا اسی کے مطابق نفقہ مقرر کیا جائے گا خواہ بیوی کسی بھی حیثیت و حالت کی مالک ہو۔
اگر شوہر و بیوی کے درمیان خوشحالی و تنگدستی کے بارے میں اختلاف پیدا ہو جائے یعنی شوہر تو کہے کہ میں تنگدست ہوں اس لئے تنگدستی کا نفقہ دوں گا اور بیوی کہے کہ نہیں تم خوشحال ہو اس لیے میں خوشحالی کا نفقہ لوں گی اور پھر یہ معاملہ حاکم و قاضی کی عدالت میں پہنچے اور بیوی اپنے دعوی کے گواہ پیش کر دے تو ان گواہوں کا اعتبار کر کے بیوی کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر بیوی نے گواہ پیش نہ کئے تو پھر شوہر کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔
اگر بیوی کے ساتھ کوئی خادم یا خادمہ بھی ہے اور شوہر خوشحال ہے تو عورت کے نفقہ کے ساتھ اس خادم یا خادمہ کا نفقہ بھی شوہر پر واجب ہو گا اور اگر شوہر تنگ دست ہو تو اس خادم یا خادمہ کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہو گا۔
اگر حاکم و قاضی نے شوہر کی تنگدستی کی وجہ سے اس کی بیوی کے لئے تنگدستی کا نفقہ مقرر کر دیا اور پھر شوہر خوش حال ہو گیا اور بیوی نے خوش حالی کے نفقہ کا دعوی کر دیا تو اس کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا جائے گا اور اگر شوہر کی خوش حالی کی وجہ سے بیوی کے لئے خوشحالی کا نفقہ مقرر کیا گیا تھا اور پھر شوہر تنگدست ہو گیا تو اب تنگدستی کا نفقہ مقرر کر دیا جائے گا۔
جو عورت شوہر کی وفات کی عدت میں ہو اس کو نفقہ نہیں ملتا خواہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ ہو اسی طرح جو بیوی نافرمان ہو جائے یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر اور بلا کسی وجہ کے شوہر کے گھر سے چلی جائے تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہو گا۔ نیز جو بیوی کسی دین یعنی قرض وغیرہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قید خانہ میں ڈال دی گئی ہو یا اپنے میکہ میں ایسی بیمار ہو کہ شادی کے بعد شوہر کے گھر نہ بھیجی گئی ہو، یا اس کو کوئی غاصب لے کر بھاگ گیا ہو یا وہ اتنی کم عمر ہو کہ اسکے ساتھ جماع نہ کیا جا سکتا ہو اور یا بغیر شوہر کے حج کو چلی گئی ہو تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہو گا ہاں جو بیوی شوہر کے ساتھ حج کو جائے گی اس کا حضر کا نفقہ شوہر پر واجب ہو گا سفر کا خرچ اور سواری کا کرایہ واجب نہیں ہو گا۔
اگر بیوی اپنے میکہ میں بیمار ہوئی اور نکاح کے بعد ہی شوہر کے گھر بھیجی گئی تو اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں ہو گا البتہ جو بیوی اپنے شوہر کے گھر آ کر بیمار ہوئی ہے اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہو گا۔
شوہر کو چاہئے کہ بیوی کے رہنے کا ٹھکانہ و مکان شرعی مقاصد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق خود مقرر و مہیا کرے اور وہ مکان ایسا ہونا چاہئے جو خود اس کے اہل و عیال اور اس بیوی کے اہل و عیال سے خالی ہو اور اگر خود بیوی ان اہل و عیال کے ساتھ رہنا چاہے تو پھر اس طرح کا مکان بنا دینا واجب نہیں رہے گا۔
اگر شوہر کے گھر میں کئی کمرے ہوں اور ان میں سے ایک کمرہ کہ جس میں کواڑ اور تالہ کنجی وغیرہ ہو خالی کر کے بیوی کو دیدے تو یہ کافی ہے بیوی کو دوسرے کمرے کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہو گا۔
اگر شوہر چاہے کہ گھر میں بیوی کے پاس اس کے عزیز و اقارب کو اگرچہ دوسرے شوہر سے اس بیوی کا لڑکا ہی کیوں نہ ہو) آنے سے منع کر دے تو اس کو اس کا حق ہے ہاں اگر بیوی کے وہ عزیز و اقارب اس کے محرم ہوں تو ان کو بیوی کا سامنا کرنے یا اس سے بات چیت کرنے سے روکنے کا حق اس کو نہیں ہے اسی طرح شوہر کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ مہینہ میں ایک بار بیوی کو اپنے والدین کے پاس جانے یا والدین کو اس کے پاس آنے سے روکے یعنی ہفتہ میں ایک بار سے زائد آنے جانے سے روک سکتا ہے) اور والدین کے علاوہ دوسرے ذی رحم محرم رشتہ داروں کے پاس سال بھر میں ایک مرتبہ بیوی کے جانے یا بیوی کے پاس ان کے آنے پر پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے یعنی سال بھر میں ایک بار سے زائد ان کے آنے پر پابندی عائد کر سکتا ہے۔
جو عورت طلاق کی عدت میں ہو وہ شوہر سے نفقہ اور رہنے کے لئے مکان پانے کی مستحق ہے خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن ہو یا مغلظہ ہو اور خواہ عورت حاملہ ہو یا غیر حاملہ ہو، اسی طرح جو عورت ایسی تفریق جدائی کی عدت میں ہو جو کسی معصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی شرعی حق کی وجہ سے واقع ہوئی ہو تو اس کا نفقہ و سکنی بھی شوہر کے ذمہ ہو گا، مثلاً کوئی ام ولد یا مدبرہ کسی کے نکاح میں تھی اور پھر خیار عتق کی بناء پر اس نے شوہر سے جدائی اختیار کر لی یا کسی نابالغہ کا نکاح اس کے ولی نے کسی شخص سے کر دیا تھا اور پھر اس نے بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ کی بناء پر اس شوہر سے جدائی اختیار کر لی تو ان صورتوں میں بھی عورت نفقہ اور سکنی پانے کی مستحق ہو گی اور اگر عورت کسی ایسی تفریق (جدائی) کی عدت میں ہو جو کسی معصیت کی بناء پر واقع ہوئی ہو اور اسکا نفقہ و سکنی شوہر کے ذمہ نہیں ہو گا، مثلاً عورت نعوذ باللہ مرتد ہو گئی یا اس نے شوہر کے بیٹے سے کوئی ایسا برا فعل کرا لیا جس سے شوہر پر حرام ہو گئی جیسے اس سے ہم بستری کر لی یا اس کو شہوت سے چھو لیا یا اس کا بوسہ لیا اور اس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہو گئی اور وہ عدت میں بیٹھ گئی تو ان صورتوں میں وہ شوہر سے کھانے پینے کا خرچ اور رہنے کے لئے مکان پانے کی مستحق نہیں ہو گی۔
اگر کسی عورت کو تین طلاقیں دی گئیں اور وہ عدت میں بیٹھ گئی نیز نفقہ وسکنی کی حقدار رہی لیکن پھر زمانہ عدت میں نعوذ باللہ مرتد ہو گئی تو اس کے نفقہ و سکنی کا حق ساقط ہو جائے گا اور اگر عورت نے اپنے زمانہ عدت میں شوہر کے لڑکے یا شوہر کے باپ سے ناجائز تعلق قائم کر لیا یا شہوت سے بوس و کنار کرا لیا تو نفقہ وسکنی کی مستحق رہے گی بشرطیکہ وہ عدت طلاق رجعی کی نہ ہو بلکہ طلاق بائن مغلظہ کی ہو۔
نابالغ اولاد جس کی ذاتی ملکیت میں کچھ بھی مال و اسباب نہ ہو کے اخراجات اس کے باپ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ باپ خود تنگدست و مفلسی کیوں نہ ہو کوئی دوسرا آدمی اس ذمہ داری میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ اگر بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور اس کی ماں اس کے باپ کے نکاح میں ہو نیز وہ بچہ دوسری عورت کا دودھ پی لیتا ہو اور اس کی ماں اس کو دودھ پلانا نہ چاہتی ہو تو اس ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ہاں اگر بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ پیتا ہی نہ ہو یا ماں کے علاوہ دودھ پلانے والی نہ ملے تو اس صورت میں وہ دودھ پلانے پر مجبور کی جائے گی۔
اگر ماں بچہ کو دودھ پلانے سے انکار کر دے اور کوئی دوسری عورت دودھ پلانے والی ملتی ہو تو یہ حکم ہے کہ باپ دودھ پلانے والی کو مقرر کر دے جو بچہ کو ماں کے پاس آ کر دودھ پلائے اب اگر اس بچہ کی ذاتی ملکیت میں مال موجود ہو تو اس دودھ پلانے والی کی اجرت اس بچہ کے مال سے دی جائے گی۔ اگر بچہ کی ذاتی ملکیت میں مال موجود نہ ہو تو پھر دودھ پلانے کی اجرت باپ کے ذمہ ہو گی۔
اگر باپ بچہ کی ماں کو دودھ پلانے کے لئے اجارہ پر مقرر کرے اور وہ اس کے نکاح میں ہو یا طلاق رجعی کی عدت میں ہو تو یہ جائز نہیں ہے ہاں اگر وہ ماں طلاق بائن یا طلاق مغلظہ کی عدت میں ہو تو اس کو بھی دودھ پلانے کیلئے اجرت پر رکھنا بعض حضرات کے نزدیک تو ناجائز ہے اور بعض حضرات کے نزدیک جائز ہے اسی طرح عدت گزرنے کے بعد ماں کو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھ لینا جائز ہے بلکہ اس صورت میں تو وہ ماں دودھ پلانے والی کسی دوسری عورت کی بہ نسبت زیادہ اجرت کا مطالبہ نہ کرے تو اس کی حماقت ہو گی۔
اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ یا معتدہ کو اپنے اس بچہ کو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھے جو دوسری بیوی کے بطن سے ہو تو یہ اجارہ جائز ہے اگر کسی کی بالغ بیٹی بالکل مفلس و تنگدست ہو یا بالغ بیٹا اپاہج و معذور ہو تو ان کے اخراجات بھی باپ ہی کے ذمہ ہوں گی چنانچہ فتویٰ اسی پر ہے جبکہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان کے اخراجات کا دو تہائی حصہ باپ کے ذمہ اور ایک حصہ ماں کے ذمہ ہو گا۔
اصول یعنی باپ دادا دادی نانا نانی (خواہ اسکے اوپر کے درجہ کے ہوں) اگر محتاج ہوں تو ان کے اخراجات کی ذمہ داری اولاد پر ہے بشرطیکہ اولاد خوشحال و تونگر ہو اور خوشحال و تونگر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اولاد مالی طور پر اس حیثیت و درجہ کی ہو کہ اس کو صدقہ و زکوٰۃ کا مال لینا حرام ہو اگر تونگر اولاد میں مذکر و مؤنث یعنی بیٹا اور بیٹی دونوں ہوں تو اس نفقہ کی ذمہ داری دونوں پر برابر ہو گی۔
محتاج شخص کا نفقہ واجب ہونے کے سلسلے میں قرب و جزئیت کا اعتبار ہے نہ کہ ارث کا مثلاً اگر کسی محتاج شخص کی بیٹی اور پوتا دونوں مال دار ہوں تو اس کا نفقہ بیٹی پر واجب ہو گا باوجودیکہ اس شخص کی میراث دونوں کو پہنچتی ہے اسی طرح اگر کسی محتاج شخص کی نواسی اور بھائی دونوں مالدار ہوں تو اس کا نفقہ نواسی پر واجب ہو گا اگرچہ اس شخص کی میراث کا مستحق صرف بھائی ہو گا۔
ہر مالدار شخص پر اس کے ہر ذی رحم محرم کا نفقہ واجب ہے بشرطیکہ وہ ذی رحم محرم محتاج ہو یا نابالغ ہو یا مفلس عورت ہو یا اپاہج و معذور ہو یا اندھا ہو یا طالب علم ہو اور یا جہل و بیوقوفی یا کسی اور عذر کی بنا پر کمانے پر قادر نہ ہو اور اگر وہ مالدار شخص ان لوگوں پر خرچ نہ کرے تو اس کو خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ذی رحم محرم رشتہ داروں کا نفقہ مقدار میراث کے اعتبار سے واجب ہوتا ہے۔
اور میراث کی مقدار کے اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی محتاجی و تنگدستی کی وجہ سے اپنے ذی رحم محرم رشتہ داروں سے نفقہ حاصل کرنے کا مستحق ہے اگر اس کو مردہ تصور کر لیا جائے اور اس کی میراث کو اس کے ان ذی رحم محرم وارثوں پر تقسیم کیا جائے تو جس وارث کے حصہ میں میراث کی جو مقدار آئے گی وہی مقدار اس کے نفقہ کے طور پر اس ذی رحم محرم پر واجب ہو گی مثلاً زید ایک محتاج و تنگدست شخص ہے اس کے قریبی اعزاء ہیں صرف تین متفرق بہنیں ہیں یعنی ایک تو حقیقی بہن ہے ایک سوتیلی بہن ہے اور ایک اخیافی بہن ہے ان تینوں بہنوں پر زید کا نفقہ واجب ہے جس کو وہ تینوں اس طرح پورا کریں گی کہ زید کا پورا نفقہ پانچ برابر برابر حصوں میں کر کے تین خمس تو حقیقی بہن کے ذمہ ہو گا ایک خمس سوتیلی بہن کے ذمہ ہو گا اور ایک خمس اخیافی بہن کے ذمہ ہو گا مقدار کی یہ تقسیم بالکل اسی طرح ہے جس طرح ید کے ترکہ میں سے ان بہنوں کے حصہ کی میراث کی تقسیم ہو گی۔
نیز اس سلسلہ میں مقدار میراث کا درحقیقت ہر وقت متعین و معلوم ہونا شرط نہیں ہے بلکہ محض وراثت کی اہلیت کا ہونا شرط ہے چنانچہ اگر زید (جو محتاج و مفلس ہے) کا ایک ماموں ہے اور ایک چچا زاد بھائی ہے اور وہ دونوں ہی مالدار ہیں تو زید کا نفقہ اس کے ماموں پر واجب ہو گا۔
جو شخص محتاج و مفلس ہو اس پر کسی کا نفقہ واجب نہیں ہوتا خواہ وہ والدین ہوں یا ذی رحم محرم رشتہ دار لیکن بیوی اور اولاد کا نفقہ اس پر ہر حال میں واجب رہے گا۔
دین و مذہب کے اختلاف کی صورت میں ایک دوسرے پر نفقہ واجب نہیں ہوتا لیکن بیوی والدین دادا دادی اور اولاد اور اولاد کی اولاد خواہ مذکر ہوں یا مؤنث یہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ان کا نفقہ دین و مذہب کے اختلاف کے باوجود واجب ہوتا ہے۔
محتاج باپ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے نفقہ کے لئے اپنے لڑکے کا مال یعنی اشیاء منقولہ بیچ سکتا ہے لیکن عقار یعنی اشیاء غیر منقولہ جیسے زمین و باغات کو بیچنے کا اختیار نہیں ہو گا اسی طرح اس لڑکے پر اگر باپ کا نفقہ کے علاوہ کوئی اور دین یعنی قرض و مطالبہ ہو تو اس کے لئے لڑکے کی اشیاء منقولہ کو بھی بیچنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ نیز ماں کو اپنے لڑکے کا بھی کوئی مال خواہ اشیاء منقولہ ہو یا غیر منقولہ بیچنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک تو باپ کو بھی اشیاء منقولہ کے بیچنے کا اختیار نہیں ہے۔
آقا پر اپنے غلام اور باندی کے اخراجات کی کفالت ضروری ہے خواہ ان میں ملکیت پوری ہو جسے خالص غلام یا ادھوری ہو جیسے مدبرہ اور ام ولد اور خواہ کمسن ہوں یا بڑی عمر والے اور خواہ اپاہج و معذور ہوں۔ یا بالکل تندرست و توانا ہوں۔
اگر کوئی شخص اپنے غلاموں کی کفالت سے انکار کرے تو وہ غلام اس بات کے مختار ہوں گے کہ محنت و مزدوری کریں اور جو کچھ کمائیں اس سے اپنے اخراجات پورے کریں اور اگر ان کے لئے کوئی مزدوری کا کام نہ ہو اور وہ کما کر اپنے اخراجات پورے نہ کر سکتے ہوں تو پھر قاضی و حاکم کی طرف سے آقا کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان غلاموں کو فروخت کر دے۔
اگر کسی شخص نے کوئی جانور خریدا تو اس پر جانور کے چارہ پانی کا انتظام کرنا واجب ہے لیکن اگر ان کو چارہ پانی دینے سے انکار کر دیا تو اس کو قانونی طور پر اس جانور کو فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن دیانۃً اور اخلاقی طور پر اس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس جانور کو فروخت کر دے یا اسکے چارہ پانی کا انتظام کرے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہندہ بنت عتبہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !میرا شوہر ابوسفیان بہت بخیل اور حریص ہے وہ مجھ کو اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میری اولاد کی ضروریات کے لئے کافی ہو جائے البتہ اگر میں اس کے مال میں سے خود کچھ نکال لوں اس طرح اس کو خبر نہ ہو تو ہماری ضروریات پوری ہو جاتی ہیں تو کیا یہ جائز ہے کہ میں شوہر کو خبر کئے بغیر اس کے مال میں سے اپنی اور اولاد کی ضروریات کے بقدر کچھ نکال لوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنی اور اپنی اولاد کی ضروریات کے بقدر کہ جو شریعت کے مطابق ہو یعنی اوسط درجہ کا خرچ اس کے مال میں سے لے لیا کرو (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نفقہ بقدر ضرورت واجب ہے۔ چنانچہ تمام علماء کا اس پر اجماع و اتفاق ہے امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے کئی مسئلے ثابت ہوتے ہیں (١) مرد پر اس کی بیوی اور نابالغ اولاد (جس کی ذاتی ملکیت میں مال نہ ہو) کا نفقہ واجب ہے (٢) نفقہ ضرورت و حاجت کے بقدر واجب ہوتا ہے (٣) فتویٰ دیتے وقت یا کوئی شرعی حق نافذ کرتے وقت اجنبی عورت کا کلام سننا جائز ہے (٤) کسی شخص کے بارے میں ایسی کوئی بات بیان کرنا کہ جس کو اگر وہ سنے تو ناگواری محسوس کرے جائز ہے بشرطیکہ یہ بیان کرنا کہ کوئی مسئلہ پوچھنے یا فتویٰ لینے کی غرض سے ہو (٥) اگر کسی شخص پر کسی دوسرے شخص کا کوئی مالی مطالبہ ہو اور وہ اس کی ادائیگی نہ کرتا ہو تو مطالبہ والے کے لئے جائز ہے کہ وہ اس شخص کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنے مطالب کے بقدر لے لے (٦) بیوی بھی اپنے شوہر کے مال کے ذریعہ اپنی اولاد پر خرچ کرنے اور ان کی کفالت کرنے کی ذمہ دار ہے (٧) بیوی کو اپنی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے خواہ شوہر نے اس کی صریحاً اجازت دے دی ہو یا بیوی کو اس کی رضا مندی کا علم ہو (٨) قاضی اور حاکم کو یہ اختیار ہے کہ اگر وہ کسی معاملہ میں مناسب سمجھے تو محض اپنے علم اور اپنی معلومات کی بنیاد پر حکم جاری کر دے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہندہ سے گواہ طلب نہیں کئے بلکہ اپنی معلومات کی بنیاد پر حکم دے دیا۔
اور حضرت جابر ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالی تم میں سے کسی کو مال و دولت عطا کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پھر اس کے بعد حسب مراتب اپنے دیگر متعلقین اور اعزاء اور فقراء و مساکین پر خرچ کرے (مسلم)
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غلام کے بارے میں فرمایا کہ اس کی روٹی کپڑا اس کے آقا کے ذمہ ہے اور یہ کہ اس سے صرف اتنا کام لیا جائے جو اس کی طاقت وہمت کے مطابق ہو۔
تشریح
اس حدیث میں غلام کے بارے میں دو ہدایتیں ہیں ایک تو یہ کہ غلام کا نفقہ چونکہ اس کے مالک پر واجب ہے اس لئے مالک کو چاہئے کہ وہ اپنے غلام کو اس کی حاجت کے بقدر اور اپنے شہر کے عام دستور کے مطابق اس کو روٹی کپڑا دے یعنی اس کے شہر میں عام طور پر غلام کو جس مقدار میں اور جس معیار کا روٹی اور کپڑا دیا جاتا ہے اسی کے مطابق وہ بھی دے، دوسری ہدایت یہ ہے کہ اپنے غلام کو کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہ دیا جائے جس پر وہ مداومت نہ کر سکتا ہو اور جو اس کی ہمت و طاقت سے باہر ہو یا جس کی وجہ سے اس کے جسم میں کوئی ظاہری نقصان پہنچ سکتا ہو۔
گویا اس ہدایت کے ذریعہ یہ احساس دلایا گیا ہے کہ انسان اپنے غلام کے بارے میں یہ حقیقت ذہن میں رکھے کہ جس طرح مالک حقیقی یعنی اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ان کی طاقت و ہمت سے زیادہ کی عمل و فعل کا بار نہیں ڈالا ہے اور ان کو انہی احکام کا پابند کیا ہے جو ان کے قوائے فکر و عمل کے مطابق ہیں اسی طرح بندوں کو بھی جو مالک مجازی ہیں یہی چاہئے کہ وہ اپنے مملوک یعنی غلام پر کہ جو انہی کی طرح انسان ہیں ان کی طاقت وہمت سے باہر کسی کام کا بار نہ ڈالیں۔
حضرت ابن عباس سے یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ غلام کے تئیں مالک کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں (١) جب غلام نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو جلد بازی کا حکم نہ دے (٢) جب وہ کھانا کھا رہا ہو تو اس کو اپنے کسی کام کے لئے نہ اٹھائے (٣) اس کو اتنا کھانا دے جس سے اس کا پیٹ اچھی طرح بھر جائے۔
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غلام تمہارے بھائی ہیں اور دین و خلقت کے اعتبار سے تمہاری ہی طرح ہیں ان کو اللہ تعالی نے تمہاری آزمائش کے لئے ما تحت بنایا ہے لہذا اللہ تعالی جس شخص کے بھائی کو اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے (بخاری و مسلم)
تشریح
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ذریعہ مالک کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے غلام کو ہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اس کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے وجوب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق استحباب ہے چنانچہ مالک اس کے مملوک کا اسی حیثیت و مقدار کا نفقہ واجب ہے جو عرف عام اور رواج و دستور کے مطابق ہو خواہ وہ مالک کے کھانے کپڑے کے برابر ہو یا اس سے کم و زیادہ ہو یہاں تکہ کہ اگر مالک خواہ اپنے زہد و تقوی کی بناء پر یا ازارہ بخل اپنے کھانے پینے اور پہننے میں اس طرح کی تنگی کرتا ہو جو اس حیثیت کے لوگوں کے معیار کے منافی ہے تو ایسی تنگی مملوک کے حق میں جائز نہیں ہے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو کام غلام کے لئے مشکل نظر آئے اور وہ اس کو پورا کرنے میں دقت محسوس کرے تو اس کام کی تکمیل میں غلام کی مدد کرو خواہ خود اس کا ہاتھ بٹاؤ یا کسی دوسرے شخص کو اسکی مدد کرنے پر متعین کرو چنانچہ بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ وہ چکی پیسنے میں اپنی لونڈیوں کی مدد کرتے تھے بایں طور کہ ان لونڈیوں کے ساتھ مل کر چکی پیستے تھے۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے پاس ان کا کارندہ آیا تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے غلام اور لونڈیوں کو ان کا کھانا دے دیا ہے اس نے کہا کہ نہیں انہوں فرمایا کہ فوراً واپس جاؤ اور ان کو ان کا کھانا دو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی کے گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مملوک کو کھانا نہ دے، اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آدمی کے گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جس شخص کی روزی اس کے ہاتھ میں ہے یعنی اپنے اہل و عیال اور غلام لونڈی وہ اس کی روزی ضائع کرے (مسلم)
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے اور پھر وہ کھانا لے کر اس کے پاس آئے تو جس کھانے کے لئے اس نے گرمی اور دھوپ میں تکلیف اٹھائی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ آقا اس خادم کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھائے اور اس کے ساتھ کھانا کھائے اور اگر کھانا تھوڑا ہو اور کھانے والے زیادہ ہوں تو اس کھانے میں سے ایک دو لقمہ لے کر اس کے ہاتھ پر رکھ دے (مسلم)
تشریح
اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے خادموں اور نوکروں کے ساتھ کھانا کھانے میں عار محسوس نہ کرے کیونکہ خادم و نوکر بھی ایک انسان اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کا بھائی ہے پھر اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ ایک دستر خوان پر جتنے زیادہ لوگ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اس کھانے میں برکت ہوتی ہے چنانچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ افضل کھانا وہ ہے جس میں زیادہ ہاتھ پڑیں یہ بات ملحوظ رہے کہ حدیث میں خادم و نوکر کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھانے یا اس کھانے میں سے اس کو تھوڑا بہت دے دینے کا حکم دیا گیا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی غلام اپنے آقا کی خیرخواہی کرتا ہے یعنی اس کی دل وجان سے خدمت کرتا ہے اور پھر اللہ تعالی کی عبادت بھی اچھی طرح کرتا ہے تو اس کو دوہرا ثواب ملتا ہے (بخاری و مسلم)
تشریح
اس کو دوہرا ثواب ملنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک ثواب تو اپنے آقا کی خدمت کی وجہ سے اور ایک ثواب اللہ تعالی کی عبادت کے سبب سے ملتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اپنے آقا کی خیرخواہی یعنی اس کی خدمت کرنا بھی عبادت ہے بلکہ حقیقت میں وہ بھی خدا کی عبادت ہے۔ کیونکہ عبادت کا مطلب ہے اللہ تعالی کے حکم کی فرمانبرداری کرنا اور چونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم ہے کہ اپنے آقا کی خدمت و خیرخواہی کی جائے اس لئے جو غلام اپنے آقا کی خدمت کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالی کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے جیسا کہ ماں باپ کی خدمت و فرمانبرداری کرنے والے کو اسی لئے ثواب ملتا ہے کہ وہ والدین کی خدمت و اطاعت کے ذریعہ اللہ تعالی کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے بعض حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ غلام کو اس کے ہر عمل پر دوہرا ثواب ملتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک غلام کے لئے اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی بہترین خدمت اور اپنے پروردگار کی اچھی عبادت کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دے (یعنی غلام کے لئے سب سے بڑی سعادت یہی ہے کہ اس کی پوری زندگی اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و عبادت اور مالک مجازی کی خدمت و فرمانبرداری میں گزرے (بخاری و مسلم)
اور حضرت جریر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب غلام بھاگ جاتا ہے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ایک روایت میں حضرت جریر سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو غلام بھاگ گیا اس سے ذمہ ختم ہو گیا ایک روایت میں حضرت جریر ہی سے یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلام اپنے مالکوں کے ہاں سے بھاگا وہ کافر ہو گیا جب تک کہ ان کے پاس واپس نہ آ جائے (مسلم)
تشریح
اس سے ذمہ ختم ہو گیا کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی غلام بھاگ کر دار الحرب چلا گیا اور مرتد ہو گیا تو اس سے اسلام کی ذمہ داری ختم ہو گئی اور اس کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے درمیان جو عہد و امان تھا اور جس کی وجہ سے اسلامی قانون اس کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن تھا وہ منقطع ہو گیا لہذا اس کو قتل کر دینا جائز ہو گیا ہاں اگر وہ اپنے مالکوں کے ہاں سے بھاگ کر دار الحرب نہیں گیا بلکہ مسلمانوں ہی کے شہر میں چلا گیا اور مرتد نہیں ہوا تو اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہو گا اس صورت میں یہ جملہ اس سے ذمہ ختم ہو گیا کا مطلب یہ ہو گا کہ اس غلام کو بھاگنے کے جرم میں جائے تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ اسلامی قانون اس کی کوئی مدافعت نہیں کرے گا۔
وہ کافر ہو گیا کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس نے بھاگنے کو حلال جانا یعنی وہ اس عقیدے کے ساتھ بھاگا کہ وہ مالک کے ہاں سے میرا مفرور ہو جانا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے بلکہ یہ جائز ہے تو وہ حقیقۃً کافر ہو گیا اور اگر اس نے بھاگنے کو حلال نہیں جانا تو پھر اس صورت میں اس جملہ کا مطلب یا تو یہ ہو گا کہ وہ کفر کے قریب پہنچ گیا یا یہ کہ اس کے دائرہ کفر میں داخل ہو جانے کا خوف ہے یا اس نے کافروں کا سا عمل کیا اور یا یہ کہ اس نے اپنے مالک کا کفران نعمت کیا۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا ابو القاسم (نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم) فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنے بردہ پر زنا کی تہمت لگائے جبکہ حقیقت میں وہ اس بات سے پاک ہو جو اس کے بارے میں کہی گئی ہے تو قیامت کے دن اس شخص کو کوڑے مارے جائیں گے ہاں اگر وہ غلام واقعۃً ایسا ہو جیسا کہ کہا گیا یعنی اگر تہمت درست ہو تو پھر اس مالک کو کوڑے نہیں مارے جائیں گے (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام پر زنا کی جھوٹی تہمت لگائے تو اس کی سزا میں اگرچہ دنیا میں اس کو کوڑے نہیں لگائے جائیں گے لیکن آخرت میں تمام مخلوق کے سامنے اس کو اسطرح ذلیل کیا جائے گا کہ اس کو کوڑے لگائیں جائیں گے اس سے معلوم ہوا کہ غلام کی عزت و آبرو کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا چاہئے جتنا ایک آزاد شخص کی عزت و حرمت کا لحاظ کیا جاتا ہے اور وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے زیردستوں نوکروں اور غلاموں کو بے محابا گالیاں دیتے ہوئے آخرت کے عذاب سے نہیں ڈرتے۔
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے غلام کو ایسی سزا دے جس کا کوئی جرم ہی نہیں ہے یعنی بے گناہ مارے یا اس کو طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کر دے (مسلم)
تشریح
یوں تو بلا کسی وجہ کے کسی بھی شخص کو طمانچہ مارنا حرام ہے۔ لیکن یہاں بطور خاص غلام کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس کو بلا گناہ مارنے یا اس کے منہ پر طمانچہ لگانے کا تاوان یہ ہے کہ وہ اس غلام کو آزاد کر دے۔
٭٭ اور حضرت ابومسعود انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام کو پیٹ رہا تھا کہ میں نے اپنی پشت پر یہ آواز سنی ابومسعود! یاد رکھو اللہ تعالی تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی قدرت تم اس غلام پر رکھتے ہو جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم!مجھے اپنے اس فعل پر ندامت ہے اب میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یاد رکھو اگر تم اس غلام کو آزاد نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمہیں دوزخ کی آگ لگتی (مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم نے اپنے غلام کو مار کر ایک بڑا گناہ کیا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ تم نے اس غلام کو آزاد کر دیا اور اس گناہ کے بار سے ہلکے ہو گئے ورنہ چونکہ تم نے اس کو ناحق مارا ہے اس لئے اگر یہ تمہارا قصور معاف نہ کرتا تو اس کو آزاد نہ کرنے کی صورت میں تمہیں دوزخ میں ڈالا جاتا۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل اپنے مملوک کے حق میں نرمی کرنے اور انکے ساتھ حلم و مروت کا معاملہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ جس غلام کو مارا گیا ہے اس کو آزاد کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور وہ بھی بایں امید کہ آزاد کرنا ناحق مارنے کے گناہ کا کفارہ ہو جائے۔
حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں مالدار ہوں اور میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے باپ کے لئے ہیں کیونکہ تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے لہذا اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ (ابوداؤد نسائی ابن ماجہ)
تشریح
تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے باپ کے لئے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم پر اپنے باپ کی خدمت و اطاعت واجب ہے اسی طرح تم پر بھی واجب ہے کہ اپنا مال اپنے باپ پر خرچ کرو اور اس کی ضروریات زندگی پوری کرو نیز تمہارے باپ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ تمہارے مال میں تصرف کرے۔
گویا اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ باپ کا نفقہ بیٹے پر واجب ہوتا ہے اس حدیث کے ضمن میں یہ مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ چرا لے یا اسکی لونڈی سے جماع کر لے تو بسبب شبہ ملکیت اس پر حد شرعی سزا جاری نہیں ہوتی۔
تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے کا مطلب یہ ہے کہ انسان محنت و مشقت کر کے جو کچھ کماتا ہے اس میں سب سے حلال اور افضل کمائی اس کی اولاد ہوتی ہے لہذا اولاد جو کچھ کمائے وہ باپ کے لئے حلال ہے اور وہ باپ کے حق میں اپنی کمائی کے مثل ہے اولاد کو باپ کی کمائی اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ دراصل اولاد باپ کے ذریعہ اور اس کی سعی و فعل کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے۔
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک مفلس آدمی ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری نگہداشت میں ایک یتیم ہے تو کیا میں اس کے مال میں سے کچھ کھا لوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہاری نگرانی میں جو یتیم ہے تم اس کے مال میں سے کھا سکتے ہو بشرطیکہ اسراف فضول خرچی نہ کرو خرچ کرنے میں عجلت نہ کرو اور نہ اپنے لئے جمع کرو۔
تشریح
یتیم بچہ کے مال میں سے یتیم کے مربی کو اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تین باتوں سے مشروط کیا پہلی شرط تو یہ کہ اس کے مال میں سے صرف اتنا لیا جائے جو اصل ضروریات زندگی کے بقدر ہو اسراف اور اپنی ضرورت حاجت سے زیادہ خرچ کر کے اس یتیم کے مال کو ضائع نہ کیا جائے دوسری شرط یہ کہ اس کے مال میں سے جو کچھ بھی لیا جائے ضرورت کے وقت لیا جائے چنانچہ اس خوف سے کہ اگر یتیم بچہ بالغ ہو گیا تو اپنا تمام مال اپنے قبضہ میں لے لے گا ضرورت سے پہلے ہرگز نہ لیا جائے اور تیسری شرط یہ کہ اپنی ضرورت و حاجت کے نام پر اس کے مال میں سے نکال نکال کر اپنے لئے جمع نہ کیا جائے۔
بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ یتیم کے مربی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اگر محتاج و مفلس ہو تو اس یتیم کے مال میں سے اپنی ضرورت و حاجت کے بقدر اپنے اوپر خرچ کرے لیکن جو مربی خود خوشحال ہو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے چنانچہ یہ مسئلہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔
اور حضرت ام سلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مرض الموت میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ نماز پر مضبوطی سے قائم رہو اور جو لوگ تمہاری ملکیت میں ہیں یعنی لونڈی غلام ان کے حقوق ادا کرو (بیہقی اور احمد و ابو داؤد نے اسی طرح کی روایت حضرت علی سے نقل کی گئی ہے۔
تشریح
نماز پر مضبوطی سے قائم رہو کا مطلب یہ ہے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو کوئی نماز بلا عذر شرعی قضا نہ کرو اور نماز کے جو حقوق و آداب ہیں ان کو پورے طور پر ادا کرو۔
لونڈی غلام کا یہ حق ہے کہ ان کا مالک ان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، حسب حیثیت کپڑے پہنائے ناحق مارنے اور گالی گلوچ سے اجتناب کرے اور برا بھلا نہ کہے۔ اسی طرح جانوروں کا حق ادا کرنے کا بھی حکم ہے کہ جس شخص کی ملکیت میں جانور ہوں ان کے چارہ پانی کا انتظام کرے اور ان کو ناحق مارنے پیٹنے سے پرہیز کرے چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن ذمی اور جانوروں کی خصومت مسلمانوں کی خصومت سے زیادہ شدید ہو گی۔
اور ابوبکر صدیق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے مملوک لونڈی غلام کے ساتھ برائی و بدسلوکی کرنے والا جنت میں ابتدائی مرحلہ پر نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ داخل نہیں ہو گا۔ (ترمذی ابوداؤد)
اور حضرت رافع ابن مکیث نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے مملوک کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک خیر و برکت کا باعث ہے اور اپنے مملوک کے ساتھ بدسلوکی، بے برکتی کا باعث ہے (ابوداؤد) اور مشکوٰۃ کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے مصابیح کے علاوہ اور کسی کتاب میں وہ الفاظ نہیں دیکھے ہیں جو صاحب مصابیح نے اس حدیث میں نقل کئے ہیں اور وہ زائد الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا صدقہ و خیرات بری موت سے بچاتا ہے اور نیکی عمر کو بڑھاتی ہے۔
تشریح
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب مالک اپنے مملوک کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کرتا ہے تو وہ اپنے مالک و آقا کے بہت زیادہ تابعدار اور خیرخواہ بن جاتے ہیں اور جو کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے اسے وہ پوری دلجمعی اور محنت اور ایمان داری کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ چیزیں خیر و برکت کا باعث ہوتی ہیں اور اس کے برعکس اگر اپنے مملوک کے ساتھ بدسلوکی و بد خواہی کا معاملہ کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں میں مالک کی طرف سے بغض و نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور آخر کار وہ اپنے مالک کی جان و آبرو اور مال و دولت کی ہلاکت و نقصان کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کرتے۔
بری موت سے مراد یا تو مرگ مفاجات یعنی اچانک موت ہے یا توحید اور یاد حق سے غفلت کے ساتھ مرنا، مراد ہے۔ مرگ مفاجات اس اعتبار سے بری موت ہے کہ انسان یکایک موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے نہ تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے سلسلہ میں سرزد کوتاہیوں کی تلافی کا موقع ملتا ہے اور نہ توبہ کرنے کی مہلت نصیب ہوتی ہے۔
نیکی سے مراد مخلوق کے ساتھ احسان و سلوک کرنا ہے اور خالق کی اطاعت و عبادت بھی مراد ہو سکتی ہے نیکی کی وجہ سے عمر کا بڑھنا حقیقۃً بھی ممکن ہے بایں طور کہ اللہ تعالی کسی کی عمر کو کو معلق کر دے کہ اس بندہ کی عمر اتنے سال ہے لیکن اگر یہ نیکی کرے گا یعنی اپنے پروردگار کی اطاعت و عبادت اور مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک و خیرخواہی میں مشغول رہے گا تو اس کی عمر میں اتنے سال کا اضافہ ہو جائے گا لہذا نیکی کرنے کی صورت میں اس کی عمر اتنے ہی سال بڑھ جائے گی۔
یہ وضاحت تو زیادتی عمر کے حقیقی مفہوم مراد لینے کی صورت میں ہے اور اس کا معنوی مفہوم یہ ہے کہ نیکی کی وجہ سے عمر میں خیر و برکت حاصل ہوتی ہے یا نیکی کرنے والے کو اس کی موت کے بعد لوگ بھلائی کے ساتھ یاد کرتے ہیں پس معنوی طور پر یہ بھی عمر کا بڑھنا ہی ہے۔
روایت کے آخر میں مصنف مشکوٰۃ نے جو اعتراض کیا ہے وہ میرک رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق شیخ جزری کے اس قول سے ختم ہو جاتا ہے کہ اس روایت کو صاحب مصابیح نے جس طرح نقل کیا ہے بالکل اسی طرح پوری روایت امام احمد نے بھی نقل کی ہے۔
اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مثال کے طور پر اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام کو مارنے لگے اور وہ خدا کو یاد کرے یعنی یوں کہے کہ تمہیں خدا کا واسطہ مجھے معاف کر دو) تو تم اس کو مارنے سے اپنا ہاتھ روک لو اس روایت کو ترمذی اور شعب الایمان میں بیہقی کی روایت میں (فارفعوا ایدیکم) کی بجائے (فلیمسک) نقل کیا گیا ہے اور دونوں لفظ کا مطلب ایک ہی ہے)
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ تم اپنا ہاتھ روک لو کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس غلام کو مالک تادیباً مار رہا ہو اور اگر اس پر حد جاری کر رہا ہو یعنی شراب پینے یا کسی پر جھوٹی تہمت لگانے کی سزا میں اس کو کوڑے مار رہا ہو تو پھر ہاتھ نہ روکے بلکہ حد پوری کرے۔
اور حضرت ابو ایوب کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی کرائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے عزیزوں کے درمیان جدائی کرائے گا (ترمذی دارمی)
تشریح
ماں اور بیٹے سے مراد لونڈی اور اس کا بچہ ہے اسی طرح جدائی کرانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مالک مثلاً لونڈی کو تو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے اور بچہ کو اپنے پاس روک لے یا بچہ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے اور اس کی ماں کو اپنے پاس رہنے دے لہذا اگر کوئی شخص اسی طرح سے ماں اور بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرے گا تو قیامت کے دن اس موقف میں کہ جہاں تمام مخلوق اپنے تمام عزیزوں کے ساتھ جمع ہو گی اور لوگ اپنے پروردگار سے ایک دوسرے کی شفاعت کر رہے ہوں گے اللہ تعالی اس شخص اور اس کے عزیزوں میں مثلاً ماں باپ یا اولاد وغیرہ کے درمیان جدائی کرا دے گا۔
علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں صرف ماں بیٹے کا ذکر محض اتفاقی ہے ورنہ تو ہر چھوٹے کمسن بردہ اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار خواہ وہ ماں ہو باپ دادا ہو یا دادی اور بھائی ہو یا بہن کے درمیان جدائی کرانے کا یہی حکم ہے حنفیہ کے ہاں دو چھوٹے بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دینا جائز ہے۔
مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ چھوٹے کی قید سے بڑے کا استثناء ہو گیا یعنی اگر بڑے عمر والے بردہ کو اسکی ماں یا اس کے باپ یا کسی اور ذی رحم محرم رشتہ دار سے جدا کر دیا جائے تو جائز ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے کی تعریف کیا ہے تو اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کس عمر کے بردہ کو بڑا کہیں گے چنانچہ حضرت امام شافعی کے نزدیک تو سات برس یا آٹھ برس کی عمر والا بڑا کہلائے گا جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ جو بالغ ہو جائے وہ بڑا کہلائے گا نیز حضرت امام اعظم اور حضرت امام محمد کے نزدیک چھوٹے بچے اور اسکے ذی رحم محرم رشتہ دار کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے بیچنا مکروہ ہے جبکہ حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر ان دونوں یعنی بچہ اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار میں ولادتی قرابت ہو جیسے وہ دونوں ماں اور بیٹا ہوں یا باپ اور بیٹا ہوں تو اس صورت میں ان دونوں کو جدا کر کے بیچنا سرے سے جائز ہی نہیں ہو گا اور ان کا قول یہ بھی ہے کہ ولادت کی قرابت کے استثناء کے بغیر تمام ذی رحم محرم رشتہ داروں کے بارے میں یہی حکم ہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دو غلام عطا فرمائے جو آپس میں بھائی بھائی تھے پھر جب میں نے ان میں سے ایک کو بچ دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے پوچھا کہ علی تمہارا ایک غلام کہاں گیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتا دیا کہ ایک غلام میں نے بیچ دیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو واپس کر لو اس کو واپس کر لو (ترمذی ابن ماجہ)
تشریح
اس کو واپس کر لو کا مطلب یہ تھا کہ تم نے جو بیع کی ہے اس کو فسخ کر دو اور اس غلام کو اپنے پاس لے آؤ! تاکہ دونوں بھائیوں کے درمیان جدائی واقع نہ ہو اس جملہ کو تاکیداً دو مرتبہ فرمانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر ہے اور بیع مکروہ تحریمی ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے درمیان جدائی نہ کرانے کا حکم صرف ماں بیٹیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا یعنی ان دونوں میں ایک کو بیچ دیا اور ایک کو اپنے پاس رہنے دیا) چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا اور انہوں نے یعنی حضرت علی نے اس بیع کو فسخ کر دیا (ابوداؤد نے اس روایت کو بطریق انقطاع نقل کیا ہے)
تشریح
مذکورہ بالا دونوں حدیثیں حضرت امام ابویوسف کے اس مسلک کی دلیل ہیں کہ چھوٹے بردے اور اس کی ماں یا اس کے باپ کو ایک دوسرے سے الگ کر کے بیچنا ناجائز ہے۔
اور حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی اللہ تعالی اس پر موت کو آسان کر دے گا اور اس کو جنت میں داخل کر دے گا کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ نرمی کرنا ماں باپ پر شفقت کرنا اپنے مملوک پر احسان کرنا۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
ضعیف و کمزور سے ہر وہ شخص مراد ہے جو خواہ جسم و جان کے اعتبار سے ضعیف و ناتواں ہو یا مالی حالت کے اعتبار سے اور یا عقل و خرد کے اعتبار سے کمزور ہو احسان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مالک پر اس کے غلام کے تئیں جو کچھ واجب ہے اس سے بھی زیادہ اس کے ساتھ سلوک کرے۔
اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی کو ایک غلام عطاء کیا اور یہ حکم دیا کہ اس کو بے حکم شرعی مارنا نہیں کیونکہ میرے رب کی طرف سے مجھے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے اور میں نے اس غلام کو نماز پڑھتے دیکھا ہے (یہ الفاظ جو مشکوٰۃ میں مذکور ہیں) مصابیح کے ہیں اور دارقطنی کی تصنیف مجتبی میں یہ منقول ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نمازیوں کو مارنے کی ممانعت فرمائی۔
تشریح
نمازیوں کو مارنے سے ممانعت خدا کے نزدیک ان کے شرف و فضیلت کی بناء پر اور مخلوق خدا کے درمیان ان کی عزت و توقیر کو محفوظ رکھنے کے لئے ہے۔
طیبی نے اس موقع پر یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے دنیا میں نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے تو اس کے بے پایاں فضل و کرم سے امید ہے کہ وہ آخرت میں ان کو عذاب میں مبتلا کر کے ذلیل و رسوا نہیں کرے گا۔ ان شاء اللہ تعالی
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ہم کتنی مرتبہ اپنے غلام لونڈی کی خطائیں معاف کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا اس شخص نے پھر یہی سوال کیا تو اس مرتبہ بھی خاموش رہے پھر جب اس نے تیسری مرتبہ یہی پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہر روز ستر مرتبہ (ابوداؤد ترمذی نے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے۔
تشریح
ستر مرتبہ سے یہ خاص عدد مراد نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اہل عرب کے ہاں کسی چیز کی زیادتی اور کثرت کو بیان کرنے کے لئے عام طور پر ستر کا عدد ذکر کیا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد بھی واضح کرنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ مرتبہ ان کی خطائیں معاف کر دو۔
سائل کے سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خاموش رہنا سوال کی رکاکت کی بناء پر تھا کہ عفو تو مستحب اور پسندیدہ ہے کہ نہ کہ اس کو کسی خاص عدد کے ساتھ مقید کرنا مقصود ہے اور یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی کے انتظار میں خاموشی اختیار فرمائی ہو۔
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے مملوک لونڈی غلام میں سے جو لونڈی غلام تمہاری اطاعت و خدمت تمہاری خواہش کے مطابق کرے اور وہ تمہارے مزاج کے موافق ہو تو اس کو ہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور اس کو وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو کیونکہ جب وہ تمہارا دل خوش کرتا ہے تو تم بھی اس کا دل خوش کرو اور جو لونڈی غلام تمہارے مزاج کے موافق نہ ہو تو اس کو تکلیف نہ دو بلکہ بیچ ڈالو خدا کی مخلوق کو تکلیف دینا درست نہیں ہے (احمد ابوداؤد)
اور حضرت سہل ابن حنظلیہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک وپیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور ان کو اس اچھی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ تھکے نہ ہوں (ابوداؤد)
تشریح
ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو، کا مطلب یہ ہے کہ یہ بولنے پر قادر نہیں ہیں کہ اپنی بھوک و پیاس وغیرہ کا حال اپنے مالک سے بیان کر سکیں اس لئے ان کے چارہ پانی کے جو بھی اوقات ہوں ان میں ان کو کھلانے پلانے میں کوتاہی نہ کرو اس میں گویا اس بات کی دلیل ہے کہ چوپایوں کا چارہ پانی ان کے مالکوں پر واجب ہے۔
ان پر ایسی حالت میں سواری نہ کر الخ، کا مقصد گھاس دانہ کے ذریعہ کی خبر گیری رکھنے کی ترغیب دلانا ہے کہ ان کے گھاس دانہ میں کمی و کوتاہی نہ کرو تا کہ یہ قوی اور سواری کے قابل رہیں نیز جب یہ تھکنے کے قریب ہوں تو انکو چھوڑ دو اور گھاس دانہ دو جب وہ کھا پی لیں اور ان میں توانائی آ جائے تو اس کے بعد ان پر سواری یا بار برداری کرو کیونکہ اس طرح چوپائے فربہ ہوتے ہیں۔
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد نازل ہوا یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اس عادت کے ساتھ جو نیکی پر مبنی ہے یعنی امانت و دیانت کے ساتھ) اور بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال از راہ ظلم بلا استحقاق کھاتے برتتے ہیں تو جن لوگوں کے پاس یعنی جن کی نگرانی و پرورش میں یتیم تھے انہوں نے سخت احتیاط برتنی شروع کی اور ان کے کھانے کے سامان کو اپنے کھانے کے سامان سے اور ان کے پینے کی چیزوں کو اپنے پینے کی چیزوں سے الگ کر دیا یہاں تک کہ ان یتیموں کے کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو کچھ بچ رہتا اس کو اٹھا کر رکھ دیا جاتا جس کو وہ یتیم یا دوسرے وقت کھا پی لیتا یا وہ خراب ہو جاتا تھا۔ یہ بات ان نگرانوں کو بڑی شاق گزری چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم) سے یتیمی بچوں کا حکم پوچھتے ہیں فرما دیجئے کہ ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا زیادہ بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو وہ بچے تمہارے دینی بھائی ہیں چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان نگرانوں نے یتیموں کے کھانے پینے کو اپنے کھانے میں ملا لیا (ابوداؤد نسائی)
تشریح
حدیث میں مذکورہ دوسری آیت پوری یوں ہے
(اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْماً اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَاراً ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْراً) 4۔ النساء:10)
بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال از راہ ظلم یعنی بلا استحقاق کھاتے (برتتے) ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب جلتی آگ میں داخل ہوں گے۔
آخری آیت یوں ہے
(فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَيَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ) 2۔ البقرۃ:220)
اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یتیم بچوں کے (مال کو علیحدہ یا شامل رکھنے) کا حکم پوچھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے فرما دیجئے کہ ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا زیادہ بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو وہ بچے تمہارے دینی بھائی ہیں اور اللہ تعالی مصلحت کے ضائع کرنے والے اور مصلحت کی رعایت رکھنے والے کو الگ الگ جانتے ہیں اور اگر اللہ تعالی چاہتے تو سخت قانون مقرر کر کے تم کو مصیبت میں ڈال دیتے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ یتیموں کے مال کے بارے میں جب قرآن کریم کی مذکورہ ہدایت کے مطابق یتیموں کے نگران اور مربیوں نے سخت احتیاط برتنی شروع کی اور یتیموں کے مال کو اپنے مال و اسباب سے علیحدہ کر دینے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ذمہ داریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا بلکہ یتیموں کے مال کا نقصان بھی ہونے لگا تو ان مربیوں کی عرض پر اللہ تعالی نے یہاں اجازت عطا فرمائی کہ یتیموں کے نگران ان یتیموں کے مال و اسباب کو اپنے مال و اسباب میں ملا سکتے ہیں اور آیت (وااللہ یعلم المفسد) الخ کے ذریعہ اس طرف ارشاد فرمایا کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ مخلوط تو کر لو لیکن ان کے خیرخواہ اور ہمدرد بہرصورت رہو اپنی نیتوں کو خراب نہ کرو اور ان کے مال کو فریب و دغا کے ذریعہ نقصان نہ پہنچاؤ ! کیونکہ اللہ تعالی مصلحت کی رعایت رکھنے والوں اور نہ رکھنے والوں کو خوب جانتا ہے اگر کسی نگران نے بدنیتی بد خواہی اور بددیانتی کے ساتھ یتیم کے مال پر تصرف کیا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔
منقول ہے کہ حضرت امام محمد کے ایک شاگرد کا انتقال ہو گیا تو انہوں نے اس کی کتابیں فروخت کر کے اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ کے اس شاگرد نے اس کی وصیت تو کی نہیں تھی آپ نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت امام محمد نے اس کے جواب میں یہی آیت (وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ) 2۔ البقرۃ:220) پڑھی۔
اور حضرت ابوموسی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو باپ اور اس کے بیٹے کے درمیان اور دو بھائیوں کے درمیان جدائی ڈالے (ابن ماجہ دارقطنی)
تشریح
جدائی ڈالنے سے مراد ان دونوں میں سے کسی ایک کو بیچ ڈالنا یا ہبہ وغیرہ کر دینا ہے بشرطیکہ بیٹا یا ایک بھائی چھوٹا کمسن ہو اس کی تفصیل حضرت ابو ایوب کی روایت کی تشریح میں پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔ یا جدائی ڈالنے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ کسی باپ بیٹے یا دو بھائیوں کے درمیان لگائی بجھائی کے ذریعہ خفگی و ناراضگی اور جدائی پیدا کر دی جائے۔
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ جب کسی غزوہ وغیرہ میں قیدی لائے جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پورے گھر کو ہم میں سے کسی ایک شخص کو بطور لونڈی غلام عطا فرما دیتے تھے یعنی قیدیوں میں ایک گھر کے جتنے بھی افراد ہوتے ان سب کو آپ کسی ایک ہی شخص کے حوالے کر دیتے تھے) کیونکہ ان کے درمیان جدائی ڈالنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نا پسند تھا (ابن ماجہ)
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتا دوں کہ تم میں برے لوگ کون ہیں تو سنو براوہ شخص ہے کہ جو کھانا تنہا کھائے، اپنے غلام کو ناحق مارے اور کسی اپنی بخشش و عطاء سے فائدہ نہ پہنچائے (رزین)
تشریح
اس حدیث میں چند ایسی چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے جو ناپسندیدہ ہیں اور بری ہیں اور یہ چیزیں جن لوگوں کی خصلت بن جاتی ہیں وہ نا پسندیدہ اور برے سمجھے جاتے ہیں چنانچہ سب سے تنہا ہو کر کھانا برا ہے اپنے غلام کو بلا کسی جرم و خطا کے مارنا برا ہے اور کسی کو کچھ نہ دینا برا ہے حاصل یہ کہ جو لوگ بد خلق اور بخیل ہیں وہ برے ہیں۔
جامع صغیر میں ابن عساکر نے حضرت معاویہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتا دوں کہ لوگوں میں برے کون ہیں؟ برا وہ شخص ہے جو کھانا تنہا کھائے کسی کو اپنی بخشش و عطا سے فائدہ نہ پہنچائے تنہا سفر کرے اور اپنے غلام کو ناحق مارے اور کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے؟ وہ شخص اس سے بھی برا ہے جو لوگوں سے بغض رکھے اور لوگ اس سے بغض رکھیں اور کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے اس سے بھی برا وہ شخص ہے جس کے شر و فتنہ سے لوگ ڈریں اور اس سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھیں اور کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے اس سے بھی برا وہ شخص ہے جو اپنی آخرت کو دنیا کے عوض بیچ دے اور کیا تمہیں نہ بتاؤں کہ اس سے بھی برا کون شخص ہے؟ اس سے بھی برا وہ شخص ہے جو دین کے ذریعہ دنیا کمائے۔
اور حضرت ابوبکر صدیق راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے غلام لونڈی کے ساتھ برائی کرنے والا کبھی جنت میں داخل نہیں ہو گا یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت غلام لونڈی اور یتیموں کے اعتبار سے پچھلی تمام امتوں سے بڑھی ہوئی ہو گی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں غلام لونڈی اور یتیم بہت ہوں گے تو کیا اتنی کثرت کی حالت میں سب کے ساتھ خوش خلقی کا برتاؤ کرنا ممکن ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں میری امت میں لونڈی غلام بہت ہوں گے اور اتنی کثرت کی حالت میں سب ہی کے ساتھ خوش خلقی کا برتاؤ کرنا مشکل بھی بہت ہو گا لیکن اگر تم جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو تو تم ان کے ساتھ دوسری طرح ایسے حسان کرو جو ان کے ساتھ تمہاری بد خلقی کا بدلہ ہو جائیں اور وہ احسان یہ ہے کہ تم ان کو اپنے کی طرح عزیز رکھ یعنی ان پر بایں طور نرمی و رحم کیا کرو کہ ان پر کسی ایسے کام کا بوجھ نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو اور ان پر ظلم و زیادتی نہ کیا کرو) اور ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ہمیں دنیا میں نفع پہنچانے والی کون سی چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک گھوڑا جس کو تم اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے بانجھ رکھو اور ایک غلام جو تمہیں کفایت کرے (یعنی وہ تمہارے دنیاوی امور کو انجام دیتا رہے تا کہ تم فارغ رہ کر آخرت کے امور انجام دے سکو اور اگر تمہارا غلام نماز پڑھے تو وہ تمہارا بھائی ہے، لہذا اس کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کرو (ابن ماجہ)
تشریح
یہ فرمایا گیا ہے کہ امت میں لونڈی غلام اور یتیم بہت زیادہ ہوں گے تو اس کا سبب یہ ہے کہ جب جہاد کثرت سے ہو گا تو کفار کے قیدی بھی کثرت سے ہاتھ آئیں گے اور جہاد کی کثرت ہی سے مسلمان شہید ہوں گے اور جب مسلمان شہید ہوں گے تو ان کے بچے یتیم ہو جائیں گے۔