مشکوٰة شر یف

نفل روزہ کا بیان

نفل روزہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نفل روزے رکھنے شروع کرتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزے رکھنا ختم نہیں کریں گے اور جب روزے نہ رکھنے پر آتے تو ہم کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی روزہ نہیں رکھیں گے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں پورے ماہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھتے تھے اتنے اور کسی مہینہ میں علاوہ رمضان کے نہیں رکھتے تھے) ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے پورے ماہ روزے رکھا کرتے تھے (یعنی) ماہ شعبان میں چند دن چھوڑ کر بقیہ دنوں میں روزے سے رہا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نفل روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ کبھی تو مسلسل کافی عرصہ تک روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کی اس کثرت اور تسلسل کو دیکھ کر لوگ گمان کرنے لگتے تھے کہ اب روزہ کا سلسلہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی ختم نہ کریں اور کبھی ایسا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلسل کافی عرصہ تک روزہ رکھتے ہی نہیں تھے یہاں تک کہ لوگ سوچتے کہ شاید اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نفل روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔

 دوسری روایت کے الفاظ کان یصوم الخ میں جملہ آخر یعنی دوسرے لفظ کان سے جملہ اول کی وضاحت مقصود ہے کہ شعبان کے پورے ماہ سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے اکثر دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے، بعض حضرات کے نزدیک مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک سال تو شعبان کے پورے ماہ اور دوسرے سال شعبان کے اکثر دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن شقیق (تابعی) کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے مہینہ روزہ رکھا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نہیں جانتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی کسی مہینہ میں پورے ماہ روزے رکھے ہوں علاوہ رمضان کے اور میں ایسا کوئی مہینہ بھی نہیں جانتی جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بالکل روزے نہ رکھے ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر مہینہ میں کچھ دن روزے سے رہا کرتے تھے (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی معمول رہا) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ (مسلم)

شعبان کے آخری دنوں کے روزے

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمران سے پوچھا یا کسی دوسرے شخص سے پوچھا اور عمران سنتے تھے کہ اے فلاں شخص کے باپ! کیا تم نے شعبان کے آخری دنوں کے روزے نہیں رکھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم رمضان کے روزوں سے فارغ ہو جاؤ تو دو دن روزے رکھ لینا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 جن صاحب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شعبان کے آخری دنوں کے بارے میں پوچھا تھا خواہ وہ عمران رہے ہوں یا کوئی دوسرے شخص انہوں نے بطریق نذر اپنے اوپر ہر مہینے کے آخری دو دنوں کے روزے واجب قرار دے رکھے تھے چنانچہ ایک مرتبہ شعبان کے آخری دو دنوں کے انہوں نے روزے نہیں رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہو جائے تو شعبان کے آخری دو دنوں کے بدلے دو روزے رکھ لینا۔

 بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر مہینہ کے آخری دو دن نفل روزے رکھا کرتے تھے ایک مرتبہ شعبان کے آخری دو دنوں میں اتفاق سے انہوں نے روزے نہیں رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بطور استحباب فرمایا کہ رمضان کے روزے ختم ہو جانے کے بعد ان دو دنوں کے بدلے دو دنوں کے روزے رکھ لینا۔

محرم میں نفل روزہ کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کے مہینے کے کہ وہ ماہ محرم ہے کہ روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ماہ محرم میں نفل روزے رکھنے بڑی فضیلت اور سعادت کی بات ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں ماہ محرم سے مراد یوم عاشورہ ہے جس کے روزے کی بہت زیادہ فضیلت منقول ہے اور اس کی تائید اس کے بعد آنے والی حدیث سے بھی ہوتی ہے بعض حفاظ حدیث فرماتے ہیں کہ رجب کے مہینہ میں روزے کے بارے میں احادیث منقول ہیں ان میں سے اکثر موضوع اور دوسروں کی اختراع ہیں۔

 اس حدیث میں ماہ محرم کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف کی گئی ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ نسبت تخصیص کی بناء پر نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہو کہ صرف محرم ہی اللہ کا مہینہ ہے بلکہ چونکہ تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں اس لیے اس موقع پر بطور خاص اللہ کی طرف محرم کے مہینہ کی نسبت اس ماہ مبارک کے شرف و فضیلت کے اظہار کے طور پر ہے۔

 حدیث کے دوسرے جزء سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز (یعنی نماز تہجد) سنت مؤکدہ نمازوں سے افضل ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اس لیے کہا جائے گا کہ یہاں پوری عبادت اس طرح ہے فرض نماز اور اس کی سنت مؤکدہ نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے یا پھر اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ اس اعتبار سے تو نماز تہجد، سنت مؤکدہ نماز سے افضل ہے کہ تہجد کی نماز میں مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے نیز یہ کہ نماز تہجد ریاء و نمائش سے پاک اور محفوظ ہوتی ہے اور سنت مؤکدہ نمازیں اس اعتبار سے افضل ہیں کہ ان کو پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے نیز یہ کہ وہ فرض نماز کے تابع ہوتی ہیں۔ آخر میں اتنی بات بھی ملحوظ رہے کہ وتر بھی فرض نماز کے حکم میں داخل ہے۔

یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی دن روزہ کا ارادہ کرتے ہوں اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں۔ مگر اس دن یعنی یوم عاشورہ کو اور اس مہینہ یعنی ماہ رمضان کو دوسرے دن اور دوسرے مہینہ پر فضیلت دیتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی دن روزہ کو دوسرے دنوں کے روزوں سے افضل قرار نہیں دیتے تھے البتہ یوم عاشورہ کے روزے کو دوسرے دنوں کے روزوں پر فضیلت دیتے تھے اسی طرح رمضان کے روزوں کو اور سب روزوں سے افضل قرار دیتے تھے۔

 علماء لکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فہم و گمان ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احوال و اقوال سے ایسا سمجھ لیا ہو ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے یوم عرفہ اور اس دن کا روزہ یوم عاشورہ اور اس دن کے روزہ سے افضل ہے۔

یوم عاشورہ کے روزے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو وہ دن ہے جو یہود و نصاریٰ کے ہاں بڑا با عظمت ہے اور چونکہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہمارا شیوہ ہے لہٰذا ہم روزہ رکھ کر اس دن کی عظمت کرنے میں یہود و نصاریٰ کی موافقت کیسے کریں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو ضرور روزہ رکھوں گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟ اس کی وضاحت اسی باب کی تیسری فصل کی پہلی حدیث میں آئے گی جس کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا چونکہ موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری بہ نسبت ہم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم عاشورہ کو روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

 یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی دنوں کا ہے گویا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو جو حکم دیا وہ بطور وجوب کے تھا۔ یہاں جو صورت ذکر کی گئی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دنیاوی زندگی کے آخری سال میں پیش آئی ہے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو حکم دیا وہ بطور استحباب کے ہے کیونکہ اس بارے میں وجوب کا حکم منسوخ ہو گیا تھا اور اس کی جگہ استحباب نے لے لی اس موقع پر صحابہ نے مذکورہ بالا عرضداشت پیش کی جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال اس دنیا میں رہا تو نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔

 اب اس میں احتمال ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ محرم کی دسویں تاریخ (عاشوراء) کی بجائے صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔ یا یہ کہ دسویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا اور پہلا احتمال ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور اس ترمیم سے مقصد یہ تھا کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئندہ سال تک اس دنیا میں تشریف فرما نہیں رہے بلکہ اسی سال ربیع الاول کے مہینہ میں واصل بحق ہو گئے اس طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نویں کا روزہ نہیں رکھا مگر علماء لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس عزم و ارادہ کی بنا پر امت کے لیے محرم کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنا سنت قرار پا گیا ہے۔

 محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھنا مستحب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے یہود کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔

یوم عرفہ کا روزہ

حضرت ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ عرفہ کے روز میرے سامنے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزہ کے بارے میں بحث کرنے لگے بعض لوگ تو کہہ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج روزہ سے ہیں اور بعض لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج روزہ سے نہیں ہیں یہ دیکھ کر میں نے دودھ کا ایک پیالہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا آپ اس وقت میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر کھڑے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دودھ لے کر پی لیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چچی تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنا حج کرنے والے کے لیے تو مسنون نہیں ہے البتہ دوسرے لوگوں کے لیے مسنون ہے۔

ذی الحجہ کے عشرہ اول میں روزہ رکھنے کا مسئلہ

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عشرہ میں روزہ رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 عشرہ سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ اول یعنی یکم تاریخ سے دس تاریخ تک کا عرصہ مراد ہے اس حدیث سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عشرہ میں کبھی روزہ نہیں رکھا ہے جب کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ اس عشرہ میں ہر دن (علاوہ دسویں تاریخ کے یعنی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک کے روزے کا ثواب ایک سال کے روزہ کے ثواب کے برابر ہے اور اس عشرہ کی ہر رات میں عبادت خداوندی کے لیے جاگنا شب قدر میں عبادت کے لیے جاگنے کے ثواب کے برابر ہے لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا روایت کی مراد کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اپنے علم کی نفی کی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ نہ رکھا ہو ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عشرہ میں روزہ رکھا ہو اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ ہوا ہو، یا پھر آخری درجہ میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عشرہ کے روزے کا مذکورہ بالا ثواب تو بیان فرمایا مگر خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس عشرہ میں روزہ رکھنے کا اتفاق نہ ہوا ہو۔

نفل روزے

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ کس طرح رکھتے ہیں؟ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر ہو گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت مجلس میں حاضر تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غصہ کی یہ کیفیت دیکھی تو فوراً بول اٹھے کہ ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے پر اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ جملے بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غصہ ٹھنڈا ہوا اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس شخص کے بارے کیا حکم ہے جو ہمیشہ روزہ رکھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ وہ بغیر روزہ رہا۔ یا فرمایا نہ روزہ رکھا اور نہ بغیر روزہ رہا۔ اس موقع پر راوی کو شک ہے کہ آپ نے لا صام ولا افطر یا لم یصم ولم یفطر فرمایا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دو دن تو روزہ سے رہے اور ایک دن بغیر روزہ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن روزہ نہ رکھے؟ فرمایا یہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن تو روزہ رکھے اور دو دن بغیر روزہ کے رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آ جائے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آ جائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہر مہینہ کے تین روزے ہمیشہ کے روزے کے برابر ہیں (یعنی ان کا ثواب ہمیشہ روزہ رکھنے کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور (غیر حج کی حالت میں) عرفہ کا روزہ تو مجھے خدا سے امید ہے کہ وہ اس روزہ کی وجہ سے اس سے پہلے سال کے گناہ دور کر دے گا اور اس کے بعد والے سال کے گناہ بھی دور کر دے گا یعنی یا تو اللہ تعالیٰ آئندہ سال گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا یہ کہ اگر گناہ سرزد ہوں گے تو معاف کر دئیے جائیں اور یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں بھی مجھے خدا سے امید ہے کہ وہ اس روزہ کی بناء پر ایک سال پہلے کے گناہ دور کر دے گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 سائل کو تو چاہئے تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے بارے میں سوال کرتا کہ میں نفل روزہ کیونکر اور کب کب رکھوں؟ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے احول و کوائف کے مطابق اسے کوئی جواب دیتے مگر وہ اپنے بارے میں پوچھنے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے بارے میں پوچھ بیٹھا جو ظاہر ہے کہ آداب نبوت کے نہ صرف خلاف ہی تھا بلکہ یہ ایک حد تک گستاخی بھی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر غصہ کے آثار ظاہر ہو گئے پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احوال و کوائف بالکل دوسری نوعیت کے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے افعال اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عبادت میں کثرت و قلت کے بھی اسرار و مصالح تھے اور ظاہر ہے کہ اسرار و مصالح ہر شخص کے افعال و عبادات میں نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے مسائل و مصالح ازواج مطہرات کے حقوق کی ادائیگی اور باہر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر و مدارات اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہا کرتے تھے ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نفل روزہ کثرت سے رکھتے۔

 من یصوم الدہر کلہ (جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟) سائل درحقیقت یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھنا چاہتا تھا مگر چونکہ اس نے اسلوب غلط اختیار کیا اس لیے اسی سوال کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس انداز سے نہایت ہی ادب و عاجزی کے ساتھ پوچھا کہ جو شخص ہمیشہ نفل روزہ رکھتا ہے اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ آیا وہ شخص اپنے اس عمل کی وجہ سے شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو جملہ لا صام ولا افطر ارشاد فرمایا اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ جملہ یا تو ایسے شخص کے لیے بطور تنبیہ و عابد ہے یا پھر یہ کہ اس شخص کے حال کی خبر ہے کہ نہ تو اس شخص نے روزہ رکھا کیونکہ اس طرح روزہ رکھنا شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی وہ بغیر روزہ رہا کیونکہ کھانا پینا اور تمام چیزیں اس نے ترک کئے رکھیں۔

 حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد اس شخص کے حق میں ہے جو ممنوع روزے بھی رکھے یعنی تمام سال روزے رکھے حتیٰ کی عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزے رکھنا چھوڑے ہاں اگر کوئی شخص ان ممنوع ایام میں روزے نہ رکھے تو یہ ارشاد اس کے حق میں نہیں ہو گا او وہ ان ایام کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں روزے رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ ان ممنوع ایام کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں روزے رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں منع فرماتے تھے یا پھر یہ کہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ اس طرح روزے رکھنا، جسم انسانی کو ضعیف و ناتواں کر دیتا ہے جس کی بناء پر ایسا شخص جہاد اور دوسرے حقوق کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہے لہٰذا ہمیشہ روزہ رکھتا اگر کسی شخص کو ضعف و ناتوانی میں مبتلا نہ کرے تو اس کے لیے ہمیشہ روزے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے حنفی محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے ضعف و ناتوانی لاحق ہو جاتی ہے اسی طرح فتاویٰ عالمگیری اور درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ صوم دہر (ہمیشہ روزہ رکھنا) مکروہ ہے۔

 ویطیق ذالک احد (کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو دن روزہ سے اور ایک دن بغیر روزہ رہنے پر قادر ہو اور اس میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اس طرح روزہ رکھ سکے تو اس کے لیے کوئی مضائقہ نہیں یا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح روزہ رکھنا افضل ہے۔

 ذالک صوم داؤد (یہ حضرت داؤد کا روزہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کا یہ طریقہ نہایت معتدل ہے اور اس میں عبادت و عادت کی رعایت بھی ہے اسلام چونکہ تمام مذاہب آسمانی کا ایک حسین سنگم ہے اس لئے مذہب نے ہر معاملہ میں توازن اور اعتدال کی راہ دکھائی ہے اس کے نظریات و اعمال میں نہ افراط ہے نہ تفریط چنانچہ اس لیے بعض مفکرین اسلام نے یہ کلیہ بیان کیا ہے کہ حصول علم میں اس انداز سے سعی و کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی وجہ سے عمل کی راہیں مسدود نہ ہو جائیں اور اعمال میں بھی اس طریقہ سے مشغولیت نہ ہو کہ اس کی وجہ سے علم کی روشنی حاصل نہ ہو سکے حاصل اس کلیہ کا یہ ہے کہ حصول علم کی بہت زیادہ سعی و کوشش عمل سے نہ روک دے اور عمل میں بے مشغولیت علم سے بے بہرہ نہ کر دے بلکہ اعتدال اور توازن کے ساتھ دونوں راہوں کو اپنایا جائے اسی لیے کہا گیا ہے کہ خیر الامور اوسطہا وشرہا تفریطہا وافراطہا یعنی کسی چیز کی بھلائی و بہتری اس کی درمیانی راہ میں پوشیدہ ہے اور اس کی برائی حد سے زیادہ زیادتی اور حد سے زیادہ کمی کو اختیار کرنے میں ہے نیز اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ۔ افضل الصیام صوم داؤد علی نبینا و علیہ السلام یعنی نفل روزوں میں سب سے بہتر روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے۔

 وددت انی طوقت (میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آ جائے) یعنی یہ میری عین پسند ہے کہ حق تعالیٰ مجھے اتنی طاقت اور قوت عطا فرمائے کہ ہر چوتھے دن روزہ رکھوں یعنی ایک دن تو روزہ رکھوں اور دو دن بغیر روزہ رہو اور اس سلسلہ میں دوسرے حقوق اور مسلمانوں کے مصالح میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ گویا اس ارشاد سے اس طرف اشارہ ہے کہ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا الا یہ کہ حق تعالیٰ کی طرف سے میرے اندر یہ طاقت و قوت و دیعت فرما دی جائے حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفل روزہ رکھنے کے سلسلہ میں اس صورت کو بھی پسند فرمایا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بسبب عدم طاقت اس پر عمل نہیں فرمایا۔

 ہر مہینہ کے تین روزے سے مراد ایام بیض یعنی ہر مہینہ کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ہیں مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہر مہینہ کی کسی بھی تین تاریخوں کے روزے مذکورہ ثواب کے حامل ہیں اور یہی قول صحیح بھی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نے جو آگے آ رہی ہے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔

پیر کے دن کی فضیلت

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر کتاب کا نزول شروع ہوا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 سوال کا مقصد یا تو پیر کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزہ رکھنے کا سبب معلوم کرنا تھا یا یہ مقصد تھا کہ پیر کے روز روزہ رکھنا مستحب کیوں ہے؟ بہر صورت پیر کے روزہ رکھنے اور اس کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ چونکہ اسی دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش ہوئی اور اسی دن دین فطرت دنیا میں نازل ہونا شروع ہوا اور اس طرح دنیا والوں کو ایک عظیم نعمت حاصل ہوئی اس لیے اس کے شکرانہ کے طور پر پیر کے دن روزہ رکھا جاتا ہے۔

ہر مہینہ میں تین دن نفل کے روزے

حضرت معاذہ عدویہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر مہینہ میں تین دن نفل روزے رکھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں! معاذہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مہینہ کے کون سے دنوں میں روزہ رکھ لیتے ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مہینہ کے کسی خاص دن روزہ رکھنے کا اہتمام نہیں فرماتے تھے (یعنی جس دن چاہتے روزہ رکھ لیتے کوئی خاص دن متعین نہ تھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مہینہ میں کسی بھی تین دن روزے رکھ لینے کافی ہیں جس دن چاہے روزہ رکھ لیا جائے تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کی قید نہیں ہے تاہم اکثر احادیث اور آثار میں چونکہ یہ تین تاریخیں مذکور ہیں اس لیے ان تین تاریخوں میں روزہ رکھنا افضل ہو گا ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی اور بھی کئی صورتیں منقول ہیں جو آگے مذکور ہوں گی۔

شش عید کے روزے

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے (اپنے راوی سے کہ جن کا نام عمر بن ثابت ہے) یہ حدیث بیان کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ روزے بھی رکھے تو وہ ہمیشہ روزہ رکھنے والے کی مانند ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا رمضان کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ دن روزے رکھنے کی جنہیں شش عید کے روزے بھی کہا جاتا ہے بڑے ثواب اور فضیلت کی بات ہے ان روزوں کے سلسلہ میں حضرت امام شافعی کے ہاں اولیٰ اور افضل یہ ہے کہ رمضان کے فوراً بعد یعنی دوسری تاریخ سے ساتویں تاریخ تک مسلسل یہ روزے رکھے جائیں جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک متفرق طور پر یہ روزے رکھنے افضل ہیں کہ پورے مہینہ میں جب بھی چاہے روزے رکھ لے۔

ممنوع روزے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فطر (عید) اور نحر (بقر عید) کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 نحر سے جنس یعنی نحر کے سب دن مراد ہیں یہاں یہ لفظ تغلیباً ذکر کیا گیا کیونکہ ایام تشریق میں بھی روزے رکھنے حرام ہیں اس مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ یوں تو نحر کے تین دن ہیں اور تشریق کے بھی تین دن ہیں مگر سب کا مجموعہ چار دن ہوتا ہے اسی طرح کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ صرف نحر کا دن ہے اور اس کے بعد دو دن یعنی گیارہویں اور بارہویں تاریخ ایام نحر بھی ہیں اور ایام تشریق بھی اور ان دونوں تاریخوں کے بعد ایک دن یعنی تیرہویں تاریخ صرف یوم تشریق ہے حاصل یہ کہ پانچ دن ایسے ہیں جن میں روزے رکھنے حرام ہیں ایک تو عید کا دن دوسرا بقر عید کا دن اور تین دن بقر عید کے بعد یعنی گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ۔

 

 

٭٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو دن (یعنی دو موقعے) ایسے ہیں جن میں روزہ جائز نہیں ہے عید کے دن اور بقر عید کے چار دن) یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے تیرہویں تاریخ تک)۔ (بخاری و مسلم)

ایام تشریق

حضرت نبیشہ ہزلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ایام تشریق تین دن ہیں ذی الحجہ کی گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ، یہاں ایام تشریق کا لفظ تغلیباً ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یوم نحر بقر عید کا دن بھی کھانے پینے کا دن ہے بلکہ اصل تو وہی دن ہے اور تین دن اس کے بعد تابع ہیں لہٰذا ان چار دنوں میں روزے رکھنے حرام ہیں۔

 حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نو روز اور مہر جان کو روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ ان دنوں میں روزہ رکھنے سے ان ایام کی تعظیم لازم آئے گی جو شریعت اسلامی میں ممنوع ہے ہاں اگر کوئی شخص اپنے معمول کے مطابق پہلے سے روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو اور اتفاق سے یہ ایام بھی اس کے معمول کے درمیان آ جائیں تو پھر ان دنوں کے روزے ممنوع نہیں ہوں گے۔

 وذکراللہ اس جملہ سے یہ انتباہ مقصود ہے کہ یہ ایام اگرچہ خوشی و مسرت اور کھانے پینے کے دن ہیں مگر ان امور میں مشغولیت کے باوجود خدا کی یاد اور عبادت سے غافل نہ ہونا چاہئے گویا اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ۔ آیت (وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِیٓ اَ یامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ) 2۔ البقرۃ:203)۔ اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کو گنتی کے چند دنوں میں۔ اور ذکراللہ سے مراد ایام تشریق میں نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی تکبیرات، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت تکبیرات اور حج کرنے والوں کے لئے رمی جمار وغیرہ ہیں۔

جمعہ کے دن روزہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے روز روزہ نہ رکھے ہاں اس طرح رکھ سکتا ہے کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ صرف جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے بلکہ جمعہ کے روزہ کے ساتھ پنج شنبہ یا ہفتہ کے دن بھی روزہ رکھ لے اور اگر دونوں دنوں یعنی پنج شنبہ و ہفتہ کے دن اور اس کے ساتھ جمعہ کے دن گویا تینوں دن روزہ رکھے تو بہتر ہے حدیث میں صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنے کی ممانعت ذکر فرمائی گئی ہے وہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک صرف جمعہ کے روزہ رکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام دنوں میں صرف جمعہ کی رات کو عبادت خداوندی کے لیے مخصوص نہ کرو اسی طرح تمام دنوں میں صرف جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے مخصوص نہ کرو ہاں اگر تم میں سے کسی کے روزہ کے درمیان کہ جو وہ پہلے سے رکھتا چلا آ رہا ہے جمعہ پڑ جائے تو پھر صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 یہود نے ہفتہ کے دن کو عبادت کے لیے مخصوص کر لیا اور وہ صرف اسی دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اسی طرح عیسائیون نے اتوار کے دن کو عبادت کے لیے مخصوص کر لیا اور صرف اسی دن کی بے انتہا تعظیم کرتے ہیں اور اسی دن مشغول رہتے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو اس غلط طریقہ سے روک دیا کہ تم بھی ان دونوں فرقوں کی طرح صرف جمعہ کی شب اور جمعہ کے دن کی جو اہمیت و فضیلت بیان کی ہے وہ تو برحق ہے اور اس دن کی اتنی ہی اہمیت و عظمت پیش نظر رہنی چاہئے اس میں کسی فرقہ کی مشابہت ہی کیوں نہ ہو مگر اپنی طرف سے اس کی تعظیم و تخصیص میں اضافہ نہ کرو یا پھر اس کی مخالفت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ تمام اوقات میں عبادات و طاعات میں مشغول رہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے کسی خاص وقت کو عبادت کے لیے مخصوص کر لینا اور بقیہ اوقات میں معطل پڑے رہنا قطعاً کار آمد نہیں ہے۔

 حدیث کے آخری الفاظ الا ان یکون فی صوم الخ کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص کا معمول تھا کہ وہ ہر دسویں گیارہویں روزہ رکھتا تھا اور اتفاق سے اسی دن جمعہ آ پڑا یا کسی شخص نے نذر مانی کہ میں فلاں تاریخ کو روزہ رکھوں گا اور وہ تاریخ جمعہ کو پڑ گئی تو ان اعذار کی وجہ سے صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہو گا۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ نماز تہجد کے لیے جمعہ کی شب کو مخصوص کر دینے کی اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ممانعت ہے چنانچہ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے، نیز علماء نے صلوۃ الرغائب کو بدعت اور مکروہ قرار دینے کے سلسلے میں اس حدیث کو بطور دلیل اختیار کیا ہے صلوۃ الرغائب وہ نماز کہلاتی تھی جو بطور خاص ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی شب میں پڑھی جاتی تھی چنانچہ علماء نے اس نماز کی بدعت و برائی اور اس نماز کو اختراع کرنے والے کی گمراہی و ضلالت کی وضاحت کے لئے مستقل طور پر بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

 مولا نا اسحٰق رحمۃ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اس حدیث کے سلسلے میں شارحین نے جو مذکورہ بالا توجیہات بیان کی ہیں تو یہ ان حضرات کے مسلک کے مطابق ہیں جن کے نزدیک صرف جمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے مگر حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی ان توجیہا کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حنفیہ کے ہاں صرف جمعہ کے روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ صرف جمعہ کے روز رکھنا جائز ہے بلکہ درمختار میں تو اسے مستحب بیان کیا گیا ہے اس سلسلہ میں حنفیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور دوسری فصل میں آئے گی لہٰذا ہو سکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ان تمام احادیث کے لئے ناسخ ہو جن سے صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا ممنوع معلوم ہوتا ہے۔

خدا کی راہ میں ایک دن نفل روزہ رکھنے کا اجر

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے خدا کی راہ میں (یعنی جہاد کے وقت یا یہ کہ خالص اللہ رب العزت کے لئے) ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کا منہ یعنی اس کی ذات کو (دوزخ کی) آگ سے ستر برس کی مسافت کے بقدر دور کر دے گا۔ (بخاری و مسلم)

اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ کیا مجھے یہ اطلاع نہیں ملی (یعنی مجھے یہ معلوم ہوا ہے) کہ تم (روزانہ) دن میں تو روزے رکھتے ہو اور (ہر رات میں) پوری شب اللہ کی عبادت اور ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو (بلکہ) روزہ بھی رکھو اور بغیر روزہ بھی رہو، رات میں عبادت خداوندی بھی کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے (لہٰذا اپنے بدن کو زیادہ مشقت اور ریاضت میں مبتلا نہ کرو تاکہ بیماری یا ہلاکت میں نہ پڑ جاؤ) تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے (اس لیے رات میں سویا بھی کرو تاکہ آنکھیں آرام و سکون پائیں) تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے (اس لیے اس کے شب باشی اور صحبت و مباشرت کرو) اور تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے، (لہٰذا ان کے ساتھ کلام و گفتگو کرو، ان کی خاطر و مہمانداری کرو اور ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک رہو) جس شخص نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا (البتہ) ہر مہینہ میں تین دن کے روزے ہمیشہ کے روزہ کے برابر ہیں لہٰذا ہر مہینہ میں تین دن (یعنی ایام بیض کے یا مطلقاً کسی بھی تین دن کے) روزے رکھ لیا کرو اور اسی طرح ہر مہینہ میں قرآن پڑھا کرو (یعنی ایک مہینہ میں ایک قرآن ختم کر لیا کرو) میں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ کی ہمت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (تو پھر) بہترین روزہ جو روزہ داؤد ہے رکھ لیا کرو (جس کا طریقہ یہ ہے کہ) ایک دن تو روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور سات راتوں میں ایک قرآن ختم کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو (یعنی نفل روزے رکھنے اور قرآن شریف ختم کرنے کی مذکورہ بالا تعداد و مقدار میں زیادتی نہ کرو) (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 شریعت نے اعمال میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کرنے پر بڑا زور دیا ہے چنانچہ نفل عبادات اور اعمال میں نہ اتنی کمی و کوتاہی کرنی چاہئے جس سے روحانی بالیدگی اور ترقی میں اضمحلال اور درجات عالیہ کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہو جائے اور نہ اتنی زیادتی کرنی چاہئے جس سے جسمانی قوت و طاقت بالکل ہی پژمردہ ہو جائے اور دنیاوی مباح امور میں تعطل رونما ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو منع فرمایا کہ نہ تو اتنے زیادہ روزے رکھو اور نہ اتنی زیادہ شب بیداری کرو تاکہ اس کی وجہ سے دوسری ضروری اور فرض عبادتوں میں خلل واقع نہ ہو اور نہ دوسرے انسانی و معاشرتی حقوق پس پشت پڑ جائیں ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے سے ہمیشہ کے روزے کا ثواب اس لیے لکھا جاتا ہے کہ ہر نیکی کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسا کہ کئی موقعوں پر بتایا جا چکا ہے لہٰذا اس حساب سے تین روزے باعتبار ثواب اور اجزاء کے تیس روزے کے برابر ہوئے اور مہینہ میں تین روزے رکھنے والا گویا پورے مہینہ روزہ سے رہا۔

پیر اور جمعرات کے روزے

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کے دن نفل روزے رکھا کرتے تھے۔ (ترمذی نسائی)

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عمل پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل پیش کئے جائیں تو میں روزہ سے ہوں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 بندوں کے جو بھی اعمال ہوتے ہیں ملائکہ ہر صبح و شام اوپر لے جاتے ہیں اور پھر وہ بارگاہ رب العزت میں ان دو دنوں میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس وضاحت کے پیش نظر اس حدیث اور اس حدیث میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا جس سے ثابت ہوا تھا کہ بندوں کے صبح کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے اور رات کے اعمال صبح کے اعمال سے پہلے (ہر روز) اوپر لے جائے جاتے ہیں یا پھر یہ کہا جائے گا کہ روزانہ ہر عمل تفصیلی طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان دو دونوں میں تمام اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں۔

ایام بیض کے روزے

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابوذر اگر تم مہینہ میں تین دن روزہ رکھنا چاہو تو تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں کو روزہ رکھو۔ (ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

 ہر مہینہ میں تین دن نفل روزے رکھنے کے سلسلے میں کئی طریقے منقول ہیں لیکن بہتر اور افضل یہی ہے کہ مذکورہ بالا تین تاریخوں میں کہ انہیں ایام بیض کہا جاتا ہے روزے رکھے جائیں۔

جمعہ کے دن نفل روزے رکھنا جائز ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی مہینہ کے شروع کے تین دنوں میں بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور ایسا کم ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے دن روزہ رکھتے ہوں۔ (ترمذی، نسائی) ابوداؤد نے اس روایت کو ثلثۃ ایام تک نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 پہلے کچھ احادیث گزری ہیں جن سے معلوم ہوا کہ صرف جمعہ کے روز نفل روزہ نہیں رکھنا چاہئے جب کہ یہ حدیث ان احادیث کے برعکس معلوم ہوتی ہے لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے ساتھ ایک دن پہلے ایک دن بعد بھی روزہ رکھا کرتے تھے یا یہ کہ صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ وصال کے روزے صرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے مخصوص تھے لیکن یہ تاویل ان حضرات کے مسلک کے پیش نظر ہے جو صرف جمعہ کے روز نفل روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں حنفی مسلک کے مطابق چونکہ جمعہ کے روز، روزہ رکھنا جائز ہے اس لئے حنفیہ کے ہاں اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ جمعہ کے دن روزہ کے جواز کو اسی حدیث سے ثابت کرتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہفتہ کے سب دنوں میں روزہ رکھتے تھے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مہینہ میں ہفتہ، اتوار، پیر کے دن اور کسی مہینہ میں منگل، بدھ جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 پہلی حدیث میں جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا ذکر تھا اور اس حدیث میں ہفتہ کے بقیہ دنوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہفتہ کے تمام دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے چونکہ تمام دن اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اس لئے آپ اسے مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ بعض دنوں میں روزہ رکھیں اور بعض دنوں میں نہ رکھیں گویا اس بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عدل و اعتدال کی راہ اختیار کی ہوئی تھی۔

نفل روزوں کی ابتداء پیر یا جمعرات سے

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے حکم فرماتے تھے کہ میں ہر مہینہ میں تین دن نفل روزے رکھوں اور ان کی ابتداء پیر یا جمعرات سے کروں۔ (ابو داؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 لفظ والخمیس میں واؤ، او کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مہینہ میں تین دن روزے رکھو اس طرح کہ پہلا روزہ تو پیر کے دن اور دوسرا تیسرا روزہ منگل اور بدھ کے دن ہو یا پہلا روزہ جمعرات کا ہو اور بقیہ دو روزے جمعہ اور ہفتہ کے ہوں چنانچہ طبرانی میں او یعنی او الخمیس ہی مذکورہ ہے بہر کیف روزہ رکھنے والا اختیار رکھتا ہے کہ ابتداء چاہے پیر کے دن سے کرے یا جمعرات کے دن سے دنوں متبرک ہیں۔

ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت کی وجہ

حضرت مسلم قرشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یا کسی اور شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے اوپر تمہارے اہل وعیال کا بھی حق ہے اسلیے رمضان میں اور ان ایام میں جو رمضان سے متصل ہیں یعنی شش عید کے روزے رکھو نیز زیادہ سے زیادہ ہر بدھ اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو، اگر تم نے یہ روزے رکھ لیے تو سمجھ کہ ہمیشہ روزے رکھے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ روزے رکھنے کی وجہ سے چونکہ ضعف لاحق ہو جاتا ہے جس کی بناء پر نہ صرف یہ کہ ادائیگی حقوق میں تعطل پڑتا ہے بلکہ دوسری عبادات میں بھی نقصان اور حجر واقع ہوتا ہے لہٰذا اسی سبب سے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ ہے ہاں جس شخص کو اس کی وجہ سے ضعف لاحق ہو تو اس کے لیے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہو گا بلکہ مستحب ہو گا اسی طرح دائمی روزے کی ممانعت کے سلسلہ میں منقول احادیث میں اور ان مشائخ و سلف کے عمل میں کہ جو ہمیشہ روزہ رکھتے تھے مذکورہ بالا وضاحت سے تطبیق بھی ہو جاتی ہے نیز ہو سکتا ہے کہ یہاں جو حدیث ذکر کی گئی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث سے پہلے ارشاد فرمائی ہو گی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے سے ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔

 ایک اور بات سمجھ لیجئے گزشتہ صفحات میں تشریحات کے ضمن میں علامہ ابن ہمام وغیرہ کے وہ اقوال نقل کیے گئے تھے جن میں سے یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ ہمیشہ کے روزے رکھنے مستقلاً مکروہ ہیں اور درمختار میں بھی یہی منقول ہے کہ دائمی طور پر روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے جب کہ یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا اسی وقت مکروہ ہے جب کہ روزہ دار کے ضعف و ناتوانی میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو مگر ضعف کا خوف نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہو گا، لہٰذا ان تمام اقوال میں مطابقت پیدا کی جائے کہ جن اقوال سے دائمی روزوں کا مطلقاً مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے درحقیقت ان کا محمول بھی خوف ضعف ہے یعنی ان اقوال کا مطلب بھی یہی ہے کہ اگر ضعف کا خوف ہو تو دائمی روزے مکروہ ہوں گے ورنہ نہیں!۔

عرفات میں عرفہ کے دن روزہ مکروہ ہے

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حج کرنے والا اگر عرفہ کے دن روزہ رکھے تو ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ضعف لاحق ہو جائے جس کی بناء پر عرفات میں دوسرے افعال و ارکان میں نقصان و خلل واقع ہو اس لئے ایسے شخص کے لیے عرفہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی گئی لیکن یہ ممانعت تحریمی کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ نہی تنزیہی ہے۔

صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ عزیزہ سے جن کا نام صماء رضی اللہ عنہ تھا نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، تم لوگ تنہا ہفتہ کے دن روزہ نہ رکھو الا یہ کہ اس دن روزہ رکھنا ضروری ہی ہو، لہٰذا اگر تم میں سے کوئی شخص انگور کے درخت کی چھال یا درخت کی لکڑی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو وہی چبائے۔ (احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

 

 

تشریح

 

 اس دن روزہ رکھنا ضروری ہو، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ضروری روزہ ہو مثلاً فرض یعنی رمضان کا روزہ ہو یا کفارہ یا نذر یا قضا کا ہو، ایسے ہی سنت موکدہ روزہ جیسے عرفہ اور عاشورہ کا روزہ ہو کہ یہ بھی ضروری روزہ ہی کے حکم میں ہیں یا اور کوئی مسنون و مستحب روزہ ہو تو اگر ان میں سے کوئی روزہ ہفتہ کے دن پڑ جائے تو اس کو ہفتہ کے دن رکھنا ممنوع نہیں ہو گا۔

 فان لم یجد احدکم الخ (اگر کوئی شخص تم میں سے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ہفتہ کے دن روزہ رکھ لیا تو اسے چاہئے کہ اگر اسے کچھ نہ ملے تو انگور کے درخت کی چھال یا درخت کی لکڑی چبا کر افطار کر دے اور روزہ توڑ ڈالے اور اگر اس قسم کی بھی کوئی چیز نہ ملے تو بھی کسی نہ کسی طرح روزہ توڑ ڈالے۔

 ہفتہ کے دن روزہ رکھنا اس لیے منع ہے کہ اس طرح اس دن کی تعظیم لازم آتی ہے اور اس تعظیم میں یہود کی مشابہت ہوتی ہے اگرچہ یہود اس دن روزہ نہیں رکھتے کیونکہ ان کے ہاں یہ یوم عید ہے تاہم وہ اس دن کی بہت زیادہ تعظیم کرتے ہیں لیکن اکثر علماء کے نزدیک ہفتہ کے دن کے روزہ کی ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔

خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھنے کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کی آگ کے درمیان ایک ایسی خندق حائل کر دے گا جو آسمان و زمین کے درمیانی فاصلہ کی برابر ہو گی۔ (ترمذی)

 

 

تشریح

 

 فی سبیل اللہ (خدا کی راہ میں) کا یہ مطلب ہے کہ جہاد میں یا حج کے راستہ میں یا عمرہ میں طلب علم کے عرصہ میں اور یا محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دن روزہ رکھے خندق سے مراد ہے بڑی زبردست رکاوٹ اور سخت پردہ و حصار۔

جاڑے میں روزہ رکھنا بلا مشقت ثواب حاصل کرنا ہے

اور حضرت عامر بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھنڈی غنیمت (یعنی بلا تعب و مشقت ثواب پانا) جاڑے میں روزہ رکھنا ہے (احمد ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ بعض حضرات کے نزدیک حضرت عامر بن مسعود صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ما من ایام احب الی اللہ قربانی کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے۔

یوم عاشورہ کا روزہ کیوں؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ یہودیوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی جماعت کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبویا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا اس لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ سے زیادہ قریب اور (ان کی طرف سے بطور شکر روزہ رکھنے کے) زیادہ حقدار ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوم عاشورہ کو خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری و مسلم)

ہفتہ و اتوار کے دن روزہ رکھنے میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے دنوں میں روزہ رکھنے کی بہ نسبت ہفتہ و اتوار کے دن زیادہ روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ دو دن مشرکین کے لیے عید ہیں کہ جن میں وہ روزہ نہیں رکھتے لہٰذا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میں ان دنوں میں روزہ رکھ کر ان کی مخالفت کروں۔ (احمد)

 

تشریح

 

 مشرکین سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور انہیں مشرک اس لیے فرمایا کہ یہود تو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے نصاریٰ (عیسائی) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔

 پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کے لئے منع فرمایا گیا ہے جب کہ یہ حدیث اس کے بالکل برعکس ہے ان دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ اس کا تعلق تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی سے ہے یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیات میں سے ہے اور گزشتہ حدیث کا تعلق صرف امت سے ہے۔ یعنی وہ ممانعت امت کی خصوصیات میں سے ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ روزہ سے منع کیا گیا ہے وہ روزہ وہ ہے جو اس دن کی تعظیم کے طور پر رکھا جائے اور پسندیدہ روزہ وہ ہے جو یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر رکھا جائے۔

فرضیت رمضان سے قبل عاشورہ کے روزے کی زیادہ تاکید تھی

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے ہمیں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے اس کی ترغیب دلاتے تھے اور اس دن کے آنے کے وقت ہماری خبر گیری کرتے تھے یعنی عاشورہ کا دن جب نزدیک آتا تو اس کے روزہ رکھنے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے مگر جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اور نہ اس سے منع کیا اور نہ ہی اس دن کے آنے کے وقت ہماری خبر گیری کی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 لفظ یامرنا مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں نا کے بغیر یعنی صرف یامر ہے مگر صحیح مسلم میں یامرنا ہی منقول ہے۔

سنت موکدہ روزے

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ترک نہیں فرماتے تھے کیونکہ سنت مؤکدہ ہیں اول یوم عاشورہ کا روزہ، دوم عشرہ ذی الحجہ یعنی ذی الحجہ کے ابتدائی نو دونوں کے روزے، سوم ہر مہینہ میں تین دنوں کے روزے، چہارم فجر سے پہلے دو رکعتیں فجر کی دو سنتیں۔ (نسائی)

ایام بیض کے روزے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایام بیض میں بغیر روزہ نہیں رہا کرتے تھے نہ گھر میں اور نہ سفر میں۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 ایام بیض سے مراد چاندنی راتوں کے دن ہیں یعنی قمری مہینوں کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ لہٰذا ایام بیض میں بیض سفید روشن، لیالی یعنی ان راتوں کی صفت ہے جن کے دنوں کو ایام بیض کہا جاتا ہے ان راتوں کو بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان راتوں میں چاندی اول سے آخر تک رہتی ہے گویا پوری رات روشن و چمکدار رہتی ہے یا پھر کہا جائے گا کہ بیض ایام ہی یعنی دنوں کی صفت ہے اور ان دنوں کو بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان ایام کے روزے گناہوں کی تاریکی کو دور کرتے ہیں اور قلوب کو روشن و مجلیٰ کرتے ہیں یا یہ دن ایام بیض اس لیے کہلاتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو ان کا تمام بدن سیاہ ہو گیا تھا جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو انہیں حکم دیا گیا کہ ان دنوں میں تین روزے رکھو چنانچہ انہوں نے تیرہویں کو روزہ رکھا تو ان کا تہائی بدن سفید اور روشن ہو گیا، چودہویں کو روزہ رکھا تو دو تہائی بدن سفید و روشن ہو گیا اور جب پندرہویں کو روزہ رکھا تو تمام بدن سفید روشن ہو گیا۔

ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے کی ترتیب

اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ وہ تین روزے جو ہر مہینہ میں رکھنے مسنون ہیں بارے طرح سے منقول ہیں ایک تو غیر معین کہ پورے مہینہ میں جب چاہے تین روزے رکھ لے، دوسرے یہ کہ مہینہ کے ابتدائی تین دنوں میں یعنی پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک تیسرے یہ کہ مہینہ کے کسی بھی سنیچر، اتوار، پیر کے دن، چوتھے یہ کہ مہینہ کے کسی بھی منگل، بدھ، جمعرات کے دن، پانچویں یہ کہ ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں، پندرہویں تاریخ کو چھٹے یہ کہ ان روزوں میں پہلا روزہ پیر کے دن اور دو منگل اور بدھ کے دن، ساتویں یہ کہ ان روزوں میں پہلا روزہ جمعرات کے دن ہو اور دو روزے جمعہ اور ہفتہ کے دن آٹھویں یہ کہ پہلا روزہ نوچندا پیر کو اور دو روزے دو جمعراتوں کو، نویں ایک نو چندی جمعرات کو اور دو دو شنبے کو، دسویں پیر اور جمعرات اور پھر اگلے ہفتے کا پیر، گیارہویں ہر عشرہ میں ایک روزہ، بارہویں مہینہ کے آخری دنوں میں تین روزے۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ ایام بیض یعنی تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو یہ روزے رکھے جائیں ویسے اختیار ہے کہ جب بھی اور جس طرح بھی یہ روزے رکھے جائیں ثواب بہر صورت حاصل ہو گا۔

 ایک بات اور پورے سال میں مسنون روزوں کی تعداد اکیاون ہے تینتیس روزے تو یہی ہیں یعنی بحساب تین روزے فی مہینہ نو روزے ذی الحجہ کے مہینہ میں پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک، ایک دن یوم عاشورہ کا ایک روزہ عاشورہ سے ایک دن پہلے ایک دن بعد کا ایک روزہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کا، اور چھ روزے شوال کے جو شش عید کے روزے کہلاتے ہیں۔

بدن کی زکوٰۃ روزہ رکھنا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر چیز کے لیے زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ رکھنا ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 چونکہ زکوٰۃ کا مفہوم ہے بڑھنا اور طہارت اس لیے ہر چیز کے لیے زکوٰۃ ہے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر چیز کے لیے بڑھوتری ہے جو اس چیز میں سے کچھ دے کر حاصل ہوتی ہے یا ہر چیز کے لیے پاکیزگی و طہارت کا ایک ذریعہ مقرر ہے جس کی وجہ سے وہ چیز پاکیزہ و طاہر ہوتی ہے۔ لہذا بدن کی زکوٰۃ یعنی بدن کی جسمانی صحت و تندرستی اور بدن کی روحانی پاکیزگی و طہارت کا ذریعہ روزہ ہے کہ روزہ کی وجہ سے اگرچہ بظاہر جسم کی طاقت و قوت کا کچھ حصہ گھلتا اور ناقص ہوتا ہے مگر حقیقت میں روزہ جسم کے نشو نما اور صحت و تندرستی میں برکت و اضافہ کا ایک ذریعہ بنتا ہے نیز اس کی وجہ سے بدن گناہوں سے پاک ہوتا ہے لہٰذا زکوٰۃ عبادت مالیہ ہے اور روزہ طاعت بدنیہ۔

پیر اور جمعرت کی فضیلت کیوں؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کے دن اکثر روزہ رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا پیر اور جمعرات وہ دن ہیں جس میں اللہ رب العزت ہر مسلمان کی بخشش کرتا ہے علاوہ ان دو لوگوں کے جو ترک تعلقات کئے ہوئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ (ان کے بارے میں ان فرشتوں سے جو آثار مغفرت ظاہر ہونے کے وقت برائیوں کو مٹانے پر مامور ہوتے ہیں) فرماتا ہے کہ انہیں چھوڑ دو تاوقتیکہ یہ آپس میں صلح کر لیں اس کے بعد ان کی مغفرت ہو گی۔ (احمد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کے پیش نظر ان دونوں دنوں کی بزرگی و فضیلت ظاہر فرمائی کہ میں اس بزرگی و فضیلت کے پیش نظر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت عام اور اس کی طرف سے مغفرت و بخشش کے کی نعمت عظمی کے شکر کے طور پر ان دونوں دنوں میں روزہ رکھتا ہوں۔

اللہ کی خوشنودی کے پیش نظر روزہ رکھنے والے کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ رب العزت کی رجا و خوشنودی کی خاطر ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دوزخ سے اڑتے ہوئے کوے کی مسافت کے بقدر دور رکھتا ہے جو بچہ ہو اور بوڑھا ہو کر مرے۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

 کہا جاتا ہے کہ کوے کی عمر ہزار ہزار برس کی ہوتی ہے لہٰذا فرمایا کہ اگر کوا ابتداء عمر سے اپنی عمر کے آخری حصہ تک اڑتا رہے تو غور کرو وہ کتنی زیادہ مسافت طے کرے گا جتنی مسافت وہ طے کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ روزہ دار کو دوزخ سے دور رکھتا ہے۔ بیہقی سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزہ دار کا سونا عبادت اس کی خاموشی تسبیح ہے اس کا عمل مضاعف ہے اس کی دعا مقبول ہے اور اس کے گناہ بخشے ہوئے ہیں۔

 بیہقی سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی کے پاس یہ وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو خبر دو کہ جو بھی بندہ محض میری خوشنودی کے حصول کی خاطر کسی دن روزہ رکھتا ہے تو میں نہ صرف یہ کہ اس کے جسم و بدن کو تندرست و توانا کرتا ہوں بلکہ اسے بہت زیادہ ثواب بھی دیتا ہوں۔

 خطیب سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس طرح نفل روزے رکھتا ہے کہ کسی کو بھی اس کے روزہ کی خبر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے علاوہ اور کسی ثواب پر راضی نہیں ہوتا یعنی اس کا ثواب یہی ہے کہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے۔

 عبرانی رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اس طرح نفل روزے رکھتا ہے کہ کسی کو بھی اس کے روزہ کی خبر نہیں ہوتی تو اللہ رب العزت کے پاس ایک خوان ہے جس پر ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ ویسی نعمتیں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں اور نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال بھی گزرتا ہے اس خوان پر صرف روزے دار بیٹھیں گے۔

نفل روزہ کی نیت دن میں کی جا سکتی ہے

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، پھر اس کے بعد ایک دن اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ہمارے لئے حیس ہدیہ میں آیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ لاؤ مجھے وہ دکھاؤ میں نے صبح روزہ رکھ لیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ حیس کھا لیا۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 میں نے اب روزہ رکھ لیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ میں نے روزہ کی نیت کر لی ہے اس سے معلوم ہوا کہ نفل روزہ کی نیت دن میں کرنی چاہئے چنانچہ اکثر ائمہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ کسی بھی قسم کا ہو خواہ فرض ہو یا نفل اس کی نیت رات ہی سے کرنی واجب ہے۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہے۔

 حیس ایک کھانے کا نام ہے جو مالیدہ کی طرح ہوتا تھا اور کھجور، گھی اور قروت سے بنایا جاتا تھا بہر کیف حدیث کے آخری الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ کی حالت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حیس لے کر تناول فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بغیر عذر کے بھی نفل روزہ توڑ ڈالنا جائز ہے چنانچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ نفل روزہ شروع کر دینے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہے اس کو توڑ ڈالنا جائز نہیں ہے ہاں کسی عذر کی بناء پر مثلاً مہمانداری وغیرہ کے پیش نظر نفل روزہ توڑا جا سکتا ہے، تاہم اس صورت میں بھی قضا واجب ہوتی ہے، چونکہ یہ حدیث اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لیے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلا عذر روزہ نہیں توڑا تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی ایسا عذر لاحق تھا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ توڑ ڈالا جس کو یہاں ذکر نہیں کیا گیا، اس مسئلہ میں حنفیہ کی دلیل آگے آ رہی ہے۔

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے گھی اور کھجور لائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تناول فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھی کو اس کی مشک میں اور کھجور کو اس کے برتن میں رکھ دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر کے ایک کونہ میں کھڑے ہو کر فرض کے علاوہ نماز پڑھنے لگے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کی ضیافت کے باوجود اس لئے روزہ نہیں توڑا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ اس سے ام سلیم رضی اللہ عنہا رنجیدہ نہیں ہوں گی۔

 اس بارے میں کہ آیا ضیافت نفل روزہ رکھنے والے کے لئے عذر ہے یا نہیں ؟ اگرچہ مشائخ کے ہاں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مہمان اور میزبان دونوں کے لئے ضیافت عذر ہے بشرطیکہ میزبان محض مہمان کے آنے اور اپنے ساتھ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خوش نہ ہو بلکہ ملول بھی ہو اسی طرح کھانے میں میزبان کی عدم شرکت سے مہمان کی دل شکنی اور اس کو ناگواری اور تنگی ہو حاصل یہ کہ اگر کھانے میں شرکت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہو تو ضیافت عذر ہے لہٰذا نفل روزہ توڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر بعد میں اس روزہ کی قضا ضروری ہو گی اور اگر یہ معلوم ہو کہ دل شکنی نہیں ہو گی تو روزہ نہ توڑنا چاہئے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ دار مہمان کے لیے مستحب ہے کہ وہ میزبان اور اس کے اہل و عیال کے حق میں دعائے خیر کرے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزہ دار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ کہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا اگر تم میں سے کسی کی دعوت کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کر لے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھ لے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کھانے میں شریک ہو۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 اگر روزہ دار مہمان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے میزبان کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا ہو جائے یا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے دشمنی یا نفرت پیدا ہو جانے کا خوف ہو تو اس صورت میں نفل روزہ توڑ دینا ہی واجب ہے۔ اور اگر مہمان یہ جانے کہ میزبان کھانا کھانے کی وجہ سے خوش تو ہو گا اور کھانا کھانے کی صورت میں وہ کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا بھی نہیں ہو گا۔ تو اس صورت میں نفل روزہ توڑنا مستحب ہے اور اگر اس کے نزدیک دونوں امر برابر ہوں تو اس کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ کہہ دے کہ انی صائم میں روزہ دار ہوں خواہ داعی کے یہاں جائے یا نہ جائے۔

 

 

 

٭٭ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں طرف بیٹھ گئیں اور ام ہانی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دائیں طرف بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں ایک لونڈی ایک برتن لے کر آئی جس میں پینے کی کوئی چیز تھی لونڈی نے وہ برتن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے کچھ پی کر وہ برتن ام ہانی رضی اللہ عنہا کو عنایت فرمایا۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے بھی اس میں سے پیا اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں نے افطار کر لیا کیونکہ میں روزے سے تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم نے رمضان کا کوئی قضا یا نذر کا روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں! بلکہ نفل روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر یہ نفل روزہ تھا تو کوئی حرج نہیں (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) ایک اور روایت میں جو احمد اور ترمذی نے اسی کی مانند نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں روزہ سے تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا مالک ہے چاہے روزہ رکھے چاہے افطار کرے۔

 

تشریح

 

 اپنے نفس کا مالک ہے کا مطلب یہ ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا خود مختار ہے کہ ابتدا چاہے تو روزہ رکھے یعنی روزہ کی نیت کرے، چاہے افطار کرے یعنی روزہ نہ رکھنے کو اختیار کرے، یا پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نفل روزہ رکھنے والا روزہ رکھنے کے بعد بھی مختار ہے کہ چاہے تو اپنا روزہ پورا کرے چاہے تو توڑ ڈالے، اس صورت میں اس کی تاویل یہ ہو گی کہ نفل روزہ دار کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر اس کے پیش نظر کوئی مصلحت ہو مثلاً کوئی شخص اس کی ضیافت کرے یا کسی جماعت کے پاس جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اگر روزہ توڑ کر ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہیں ہو گا تو لوگ وحشت و پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے تو اس صورت میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے تاکہ آپس میں میل ملاپ اور محبت و الفت کی فضا برقرار رہے لہٰذا ان الفاظ و معانی سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ نفل روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا ضروری نہیں ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ قضا کے ضروری ہونے کو ثابت کر رہی ہے۔

 ام ہانی رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بارے میں محدثین کے ہاں کلام ہے چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد محل بحث ہے اور منذری رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے اور اس کی اسناد میں بہت اختلاف ہے۔

 

 

٭٭ حضرت زہری رحمۃ اللہ حضرت عروہ رحمۃ اللہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ایک دن میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا دونوں روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا لایا گیا ہمیں اس کو کھانے کی خواہش ہوئی چنانچہ ہم نے کھا لیا اب ہمارے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور حفاظ حدیث کی ایک ایسی جماعت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو زہری سے اور زہری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اس میں عروہ کا واسطہ مذکور نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ نیز اس روایت کو امام ابوداؤد نے زمیل رحمۃ اللہ سے نقل کیا ہے جو حضرت عروہ کے آزاد کردہ غلام تھے زمیل نے عروہ سے اور عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 چونکہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا نفل روزہ توڑ دے تو اس کی قضا ضروری ہے اس لیے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ حکم کہ اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو بطور وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن شوافع کے ہاں چونکہ نفل روزہ کی قضا واجب نہیں ہے اس لیے ان کے نزدیک یہ حکم بطور استحباب ہے۔ روایت کے آخری جزء زہری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق ارسال نقل کیا ہے لفظ ارسال اسناد سے سقوط راوی کے معنی میں ہے جس کا مطلب ہے انقطاع واسطہ یعنی پہلی روایت کے سلسلہ اسناد میں زہری رحمۃ اللہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان عروہ کا جو واسطہ تھا وہ اس روایت میں نہیں ہے اگرچہ یہ اصطلاح اس معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر مشہور یہی ہے کہ مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جسے تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر نقل کرے۔

روزہ دار کے سامنے کھانا

حضرت ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے کھانا منگوایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام عمارہ سے فرمایا کہ تم بھی کھاؤ انہوں نے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب کسی روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے (اور اس کا دل کھانے کی خواہش کرتا ہے جس کی بناء پر اس کے لئے روزہ بڑا سکت ہو جاتا ہے) تو جب تک کھانے والے کھانے سے فارغ نہیں ہو جاتے فرشتے اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

 

 

٭٭ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کا کھانا کھا رہے تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ بلال آؤ کھانا کھاؤ! حضرت بلال نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں روزہ سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم تو اپنا رزق یہاں کھا رہے ہیں اور بلال رضی اللہ عنہ کا بہترین رزق جنت میں ہے بلال کیا تم جانتے ہو کہ جب روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے تو روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں۔ اور فرشتے اس کے لئے بخشش چاہتے ہیں جب تک کہ اس کے سامنے کھایا جاتا ہے۔ (بیہقی)