استسقاء کے لغوی معنی ہیں پانی طلب کرنا اور اصطلاح شریعت میں اس کا مطلب ہے قحط اور خشک سالی میں طلب بارش کے لیے بتائے گئے طریقوں کے مطابق نماز پڑھنا اور دعا کرنا۔
اور حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے ہمراہ طلب بارش کے لیئے عید گاہ تشریف لئے گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دو رکعت نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قرأت فرمائی اور قبلہ رخ ہو کر دعا مانگی نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دعا کے لیے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور قبلہ رخ ہوتے وقت اپنی چادر پھیر دی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
فائدہ: حضرت امام شافعی اور صاحبین (حضرت امام یوسف اور حضرت امام محمد) کے نزدیک استسقاء کی نماز عید کی نماز کی طرح ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ استسقاء کی دو رکعت نماز اسی طرح پڑھی جائے جیسا کہ دوسری نماز پڑھی جاتی ہے۔
نماز استسقاء کے سلسلہ میں خود حنفیہ کے یہاں دو قول ہیں، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ استسقاء نماز نہیں ہے بلکہ دعا و استغفار ہے وہ فرماتے ہیں کہ جن اکثر احادیث میں استسقاء کا ذکر آیا ہے ان میں نماز مذکور نہیں ہے بلکہ صرف دعا کرنا مذکور ہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں صحیح روایت منقول ہے۔ کہ انھوں نے استسقاء کے لیے صرف دعا و استغفار پر اکتفا فرمایا نماز نہیں پڑھی، اگر اس سلسلہ میں نماز مسنون ہوتی تو وہ ترک نہ کرتے۔ اور ایسے ضروری مشہور واقعات کا انہیں معلوم نہ ہونا جب کہ زمانہ نبوت کو بھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے بعید ہے اور معلوم ہونے کی صورت میں اسے ترک کرنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان سے بعید تر ہے۔
صاحبین کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ ان حضرات کے نزدیک نہ صرف یہ کہ استسقاء کے لیے نماز منقول اور مسنون ہے بلکہ اس نماز میں جماعت اور خطبہ بھی مشروع ہے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول لا صلوۃ فی الاستسقاء (یعنی استسقاء کے لیے نماز نہیں ہے) کی مراد یہ ہے کہ اس نماز کے لیے جماعت خطبہ اور خصوصیت سنت و شرط نہیں، اگر ہر آدمی الگ الگ نفل نماز پڑھے اور دعا و استغفار کرے تو بہتر ہے۔ اس وقت حنفیہ کے یہاں فتوی صاحبین کے قول پر ہے کیونکہ نماز استسقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت اور منقول ہے جس کا ایک واضح ثبوت مذکورہ بالا حدیث ہے۔
نماز استسقاء کے سلسلہ میں یہ افضل ہے کہ اس کی دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت سورہ ق یا سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں اقتربت الساعۃ یا سورۃ غاشیہ کی قرأت کی جائے۔
چادر پھیرنا دراصل تغیر حالت کے لیے اچھا شگون لینے کے درجہ میں ہے جس طرح چادر الٹ پلٹ دی گئی ہے اسی طرح موجودہ حالت میں بھی تبدیلی اور تغیر ہو جائے بایں طور کہ قحط کے بدلہ ارزانی ہو جائے اور خشک سالی کی بجائے باران رحمت سے دنیا سیراب ہو جائے۔
چادر پھیرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لے جا کر دائیں ہاتھ سے چادر کی بائیں جانب کے نیچے کا کونا پکڑا جائے اور بائیں ہاتھ سے چادر کی دائیں جانب کے نیچے کا کونا پکڑ لیا جائے پھر دونوں ہاتھوں کو پیٹھ کے پیچھے اس طرح پھیرا اور پلٹا جائے کہ دائیں ہاتھ چادر کا پکڑا ہوا کونا دائیں مونڈھے پر آ جائے اور بائیں ہاتھ میں چادر کا پکڑا ہوا کونا بائیں مونڈھے پر آ جائے اس طریقہ سے چادر کو دایاں کونا تو بائیں ہو جائے گا اور بایاں کونا دائیں ہو جائے گا۔ نیز اور اوپر نیچے پہنچ جائے گا اور نیچے کا حصہ او پر جائے گا۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم استسقاء کے علاوہ اور کسی موقع پر دعا کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے چنانچہ (استسقاء کے لیے دعا کے وقت) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دونوں ہاتھ اتنے (زیادہ) بلند کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کی مراد استسقاء کے علاوہ کسی دوسرے موقع پر دعا کے وقت بالکل اٹھانے کی نفی نہیں ہے کیونکہ استسقاء کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی دعا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دونوں ہاتھوں کا بلند کرنا ثابت ہو چکا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے مواقع پر بھی دعا کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کا اتنا زیادہ اور سر سے اونچا بلند نہیں کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کوئی کپڑا نہ اوڑھے ہوتے تھے تو بغلوں کی سفیدی تک نظر آنے لگتی تھی۔ علماء لکھتے ہیں کہ جس مقصد اور مراد کے لیے دعا مانگی جا رہی ہو وہ مقصد جتنا زیادہ اہم اور عظیم ہو دعا کے وقت دونوں ہاتھ بھی اتنے زیادہ اوپر اٹھانے چاہئیں۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلب بارش کے لیے دعا مانگی تو اپنے دونوں ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کر لی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
علماء کرام نے لکھا ہے کہ بارش کے لیے دعا مانگتے وقت ہتھیلیوں کی پشت کو آسمان کی طرف کر دینا بھی اچھا شگون لینے کے درجہ میں ہے جیسا کہ چارد پلٹ کر اچھا شگون لیا جاتا ہے۔ ہاتھوں کی پشت کو آسمان کی طرف کرنا دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کرے اسی طرح بادلوں کے پیٹ بھی زمین کی طرف ہو جائیں اور وہ اپنے اندر کے ذخیرہ آب کو زمین پر انڈیل دیں۔
دعا کے وقت اٹھتے ہوئے ہاتھوں کی ہیئت کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ جو آدمی بلاء مثلاً قحط وغیرہ کے دور ہونے کے لئے دعا مانگے تو وہ اپنے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کرے اور جو آدمی اللہ تعالیٰ سے کسی نعمت کی طلب کے لیے دعا کرے تو وہ ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف کرے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب بارش دیکھتے تو یہ دعا مانگتے اللھم صیبا نافعا یعنی اے اللہ ! نفع دینے والی بارش خوب برسا۔ (صحیح البخاری)
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنے سر سے یا پیٹھ سے) کپڑا اتار لیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے (سر مبارک یا پیٹھ پر) اوپر بارش کا پانی گرنے لگا۔ ہم نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس لیے کہ یہ پانی اپنے پروردگار کے پاس سے ابھی ابھی آیا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ پانی اپنے رب کے حکم سے ابھی ابھی اوپر سے اترا ہے اور اس عالم کثیف کے اجراء سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے نہ ہی اس تک ابی گناہگاروں کے ہاتھ پہنچ پائے ہیں اس کے لیے یہ پانی متبرک ہے جس کا کچھ حصہ میں اپنے بدن پر لے رہا ہوں۔ علماء لکھتے ہیں کہ بارش کے وقت (اپنے کسی بھی مطلب اور مقصد کے لیے) دعا مانگنا سنت ہے کیونکہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔
حضرت عبد اللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ تشریف لے گئے اور وہاں بارش مانگی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ رخ ہوئے تو اپنی چارد کا دایاں کونا گھما کر اپنے بائیں مونڈے پر لائے اور چادر کا بایاں کو نا گھما کر اپنے دائیں مونڈھے پر لائے پھر اللہ تعالیٰ سے (بارش کے لیے) دعا مانگی۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث میں استسقاء کے لیے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ صرف دعا کا ذکر کیا گیا ہے
٭٭ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بارش طلب (کرنے کے لیے دعا) کی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر سیاہ رنگ کی چادر تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارادہ کیا کہ چادر کے نیچے کا کونا پلٹ کر اسے اوپر کی جانب لائیں (جیسا کہ چادر پھیرنے کا طریقہ ہے) مگر اس میں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دقت پیش آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہی مونڈھے پر چادر پلٹ لی۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق جب چادر پھیرنے میں دقت محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف یہ کیا کہ چادر کا دایاں کونا بائیں مونڈھے پر کر لیا اور بایاں کونا دائیں مونڈھے پر۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چادر مبارک دوسرے خطبہ میں پھیری تھی کیونکہ چادر پھیرنے کا وقت اور موقع وہی ہے۔
٭٭ اور حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو ابی اللحم کے آزاد کردہ غلام تھے، روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو احجالزیت کے پاس جو زوراء کے قریب ہے، بارش مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھرے ہوئے طلب بارش کے لیے دعا مانگ رہے تھے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ کی طرف اٹھائے ہوئے تھے جو سر سے اونچے نہیں تھے۔ جامع ترمذی اور سنن نسائی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
احجاالزیت مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہاں سیاہ پتھر تھے جو اتنے چمک دار تھے جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ان پتھر پر روغن زیتون ملا ہوا ہے۔ زوراء بھی مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔ اس حدیث میں دعا کے وقت اٹھے ہوئے ہاتھوں کی یہ ہیئت بیان کی جا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دونوں ہتھیلیاں منہ کی طرف یعنی اوپر کی جانب تھیں۔ بنا بریں یہ روایت اس روایت کے منافی نہیں ہے جس سے معلوم ہوا کہ دعا کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی ہتھیلیاں زمین کی طرف رکھتے تھے کیونکہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح سے دعا مانگتے کہ ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوتی تھیں جیسا کہ اس روایت سے معلوم ہوا۔ اور کبھی اس طرح اللہ کی بار گاہ میں دست سوال دراز کرتے تھے کہ ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوتی تھیں جیسا کہ گذشتہ روایت میں معلوم ہوا۔ اسی طرح یہاں اس روایت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اٹھے ہوئے ہاتھ سر مبارک سے اونچے نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا یہ بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کے منافی نہیں ہے جس سے معلوم ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم طلب بارش کے لیے دعا مانگتے وقت اپنے ہاتھ بہت زیادہ بلند کرتے تھے، یہاں بھی یہی بات ہے کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ بہت زیادہ بلند کرتے تھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے اور کبھی بہت زیادہ بلند نہیں کرتے تھے جیسا کہ یہاں عمیر بیان کر رہے ہیں۔
اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم استسقاء کے لیے باہر نکلے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کیفیت یہ تھی کہ (ظاہر میں تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم زینت ترک کئے ہوئے اور متواضع تھے (باطن میں) عاجزی و بیچارگی اور (ذکر اللہ میں زبان کی مشغولیت کے ساتھ) تضرع اختیار کئے ہوئے تھے۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
تشریح
بارش کے لیے دعا کرنے اور پروردگار سے رحمت مانگنے کے لیے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر نکلتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ظاہر و باطن اور زبان و دل گویا پورا وجود مبارک انتہائی بے چارگی اور عجز اختیار کئے ہوئے ہوتا تھا، چنانچہ نہ صرف یہ کہ وہ اس موقع پر بندہ کی انتہائی محتاجی و بیچارگی اور عاجزی کے اظہار کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ظاہری طور پر زیب و زینت (یعنی لباس وغیرہ میں خوش سلیقگی ترک کر کے سراپا عجز و انکسار ہوتے تھے بلکہ باطنی طور پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب مبارک خوف خدا سے لرزاں اور زبان مبارک تضرع و زاری میں مشغول ہوتی تھی۔
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ صحابی سے) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بارش مانگتے تو دعا پڑھتے اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھِیْمَتَکَ وَانْشُرْرَحْمَتَکَ وَاَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ یعنی اے اللہ اپنے بندوں اور اپنے جانوروں کو پانی سے سیراب فرما دے اپنی رحمت پھیلا دے، اور اپنی مردہ (یعنی خشک) زمینوں کو زندگی (یعنی شادابی و سبزی عطا فرما۔ (ابوداؤد)
٭٭ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (استسقاء کے لیے) ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور یہ دعا فرما رہے تھے اللھم اسقنا مغیثا مریا مریعا نا فعا غیر ضارعا جلا غیر اجل یعنی اے اللہ ؟ تو ہمیں بارش سے سیراب فرما جو فریاد رسی کرے اور جس کا انجام بہتر ہو اور جو ارزانی کرنے والی اور نفع پہنچانے والی ہو اور جلد آنے والی ہو دیر میں آنے والی نہ ہو۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس دعا کے بعد) آسمان ابر آلود ہو گیا۔ (ابوداؤد)
٭٭ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ عید گاہ میں منبر رکھا جائے چنانچہ جب عید گاہ میں منبر رکھ دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے ایک دن کے بارے میں طے کیا کہ اس دن سب لوگ عید گاہ چلیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (متعین دن) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورج کا کنارہ ظاہر ہوتے ہی (عید گاہ) تشریف لے گئے، اور منبر پر بیٹھ کر تکبیر کہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے شہروں کی قحط سالی اور بارش کے اپنے وقت پر نہ برسنے کی شکایت تھی اب اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس سے بارش کے لیے دعا مانگو اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے مہربان اور بخشش کرنے والا ہے یوم جزاء کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ ! تو معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی (بے پرواہ) ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں۔ ہم پر بارش برسا اور جو چیز کہ تو نازل کرے (یعنی بارش) اس کو ایک مدت دراز تک ہماری مدت اور (اس کے ذریعہ اپنے اپنے مقاصد و منافع تک) پہنچنے کا سبب بنا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اتنے بلند اٹھائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، پھر اپنی پشت مبارک لوگوں کی طرف پھیر کر اپنی چادر الٹی یا یہ کہ پھیری اور اپنے ہاتھ یوں ہی اٹھائے رہے پھر لوگوں کی طرف منہ کرے (منبر سے) نیچے تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ جب ہی اللہ تعالیٰ نے بادل ظاہر فرمائے جو گرجنے لگے اور بجلی چمکنے لگی، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش شروع ہو گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی مسجد تک نہ آئے پائے تھے کہ نالے بہنے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو سایہ (یعنی بارش سے بچنے کے لیے محفوظ مقام) ڈھونڈھنے میں جلدی کرتے دیکھا تو ہنس پڑھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول اللہ ہوں۔ (ابوداؤد)
تشریح
حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ نماز استسقاء کے بعد دو خطبے پڑھنا سنت ہے اور خطبہ کی ابتداء استغفار کے ساتھ کرنی چاہیے جیسے کہ عیدین کے
خطبہ کی ابتداء تکبیر کے ساتھ ہوتی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت امام احمد کے نزدیک خطبہ مشروع نہیں ہے صرف دعا و استغفار پر اکتفا کرنا چاہیے۔
حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اصحاب سنن اربعہ نے حضرت اسحٰق ابن عبداللہ کنانہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (استسقاء کے لیے) عید گاہ جا کر تمہاری طرح خطبہ نہیں پڑھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم برابر دعا کرتے گریہ وزاری کرتے اور اللہ کی عظمت و بڑائی بیان کرتے رہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعت نماز پڑھی جیسا کہ عید میں پڑھتے تھے۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ جب (بارش نہ ہونے کے وجہ سے) قحط سالی ہوتی تو امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب، حضرت عباس ابن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا فرماتے تھے چنانچہ وہ فرماتے اے اللہ ! ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلہ سے تجھ سے دعا کرتے تھے پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا اب ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ (اس دعا سے) بارش ہو جاتی تھی۔ (صحیح البخاری)
تشریح
منقول ہے کہ جب حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کرام جو ان کے ہمراہ ہوتے تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ اے پروردگار ! تیرے پیغمبر کی امت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے۔ خداوند! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر صحابہ کرام کی دعا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی کہ جب ہی بارش شروع ہو جاتی تھی۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء میں سے ایک نبی لوگوں کے ہمراہ استسقاء کے لیے نکلے پس اس نبی نے اچانک ایک چیونٹی کو دیکھا جو اپنے کچھ پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے (کھڑی) تھی (یہ دیکھ کر) نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ واپس چلو ! اس چیونٹی کی وجہ سے تمہاری دعا قبول کر لی گئی۔ (دارقطنی)
تشریح
منقول ہے کہ یہ نبی حضرت سلیمان علیہ السلام تھے۔ واقعہ سے مقصود درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی قدرت کا اظہار ہے اور یہ بتانا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پروردگار کی رحمت تمام مخلوقات پر یکساں ہیں بلکہ اس کا علم تمام موجودات کے احوال و کوائف کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مسبب الاسباب اور قاضی الحاجات ہے۔
اس واقعہ کے سلسلہ میں یہ بھی منقول ہے کہ وہ چیونٹی یہ دعاء کرتی تھی اللھم انا خلق من خلقک لا غنی بنا عن رزقک فلا نھلکنا بذنوب بنی ادم یعنی اے پروردگار ! تیری مخلوقات میں سے ہم ایک مخلوق ہیں تیرے رزق سے ہم مستغنی نہیں ہیں سو تو ہمیں انسانوں کو گناہوں کی وجہ سے ہلاک نہ کر۔