اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ) میں آج کی رات سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کو دیکھتا رہوں گا چنانچہ (میں نے دیکھا کہ) پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں ہلکی پڑھیں پھر دو رکعتیں طویل سی پڑھیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھی جو ان دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پہلے پڑھی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر پڑھے اور یہ سب تیرہ رکعتیں ہو گئیں (صحیح مسلم) اور زید کا یہ قول کہ پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں سے کم تھیں ، صحیح مسلم میں حمیدی کی کتاب میں ہے کہ جس میں انہوں نے فقط مسلم کی ہی روایتیں نقل کی ہیں اور مؤطا امام مالک ، سنن ابی داؤد، نیز جامع الاصول سب میں چار مرتبہ منقول ہے۔
تشریح
اس حدیث سے صریحی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھی تھیں یا ایک ہی رکعت پڑھی تھی اور کیونکہ اگر دو رکعتیں ہلکی اس نماز میں شمار نہ کی جائیں تو وتر کی تین رکعتیں ثابت ہو جائیں گی اور اگر ان دونوں رکعتوں کو بھی اس نماز میں شامل کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وتر کی ایک ہی رکعت پڑھی گئی، تاہم صحیح اور ظاہر یہی ہے کہ دونوں ہلکی رکعتیں اس نماز میں شامل نہیں تھیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔
حمیدی کی کتاب جمع بین الصحیحین میں تین قسم کی احادیث منقول ہیں۔ (١) متفق علیہ یعنی بخاری اور مسلم دونوں کی روایتیں (٢) افراد صحیح بخاری یعنی وہ روایتیں جنہیں صرف صحیح البخاری نے نقل کیا ہے۔ (٣) افراد مسلم۔ یعنی وہ روایتیں جنہیں صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَ ھُمَادُوْنَ قَبْلَھُمَا متن صحیح مسلم میں چار مرتبہ منقول ہے اسی طرح کتاب حمیدی کہ جس میں صرف مسلم کی روایات منقول ہیں۔ موطا، امام مالک ، سنن ابی داؤد اور جامع الاصول میں بھی چار ہی مرتبہ منقول ہے۔ مؤلف مشکوٰۃ نے اس چیز کو یہاں اتنی شد و مد اور مبالغے کے ساتھ اس لیے بیان کیا ہے کہ صاحب مصابیح کا رد ہو جائے کہ انہوں نے اس عبارت کو تین مرتبہ نقل کیا ہے جس کی بنا پر رکعتوں کی تعداد گیارہ رہ جاتی ہے۔
اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب عمر کے آخری حصے کو پہنچے اور (بڑھاپے کی وجہ سے) بدن بھاری ہو گیا تو آپ اکثر نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو سورتیں آپس میں ہم مثل ہیں اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جنہیں جمع کرتے تھے انہیں جانتا ہوں۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ترتیب کے مطابق بیس سورتیں جو مفصل کے اول میں ہیں گن کر بتائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان سورتوں کو اس طرح جمع کرتے تھے کہ ایک ایک رکعت میں دو دو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور (ان بیس سورتوں میں) آخر کی دو سورتیں حم الدخان اور عم یتساء لون ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
فائدہ: آپس میں ہم مثل سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو طوالت و اختصار میں آپس میں برابر ہیں۔ مفصل کا مطلب باب القرأت میں بیان کیا جا چکا ہے۔ کہ قول مشہور کے مطابق سورہ حجرات سے آخر تک کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں وہ سورتیں جو آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب کے مطابق کہ جنہوں نے کلام اللہ کو جمع کیا تھا ، یکجا کیا تھا ، ان بیس سورتوں کی تفصیل ابوداؤد میں اس طرح مذکور ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایک رکعت میں دو ، دو سورتیں (اس طرح) پڑھا کرتے تھے کہ سورہ رحمن اور سورۂ نجم ایک رکعت میں اقتربت الساعۃ اور الحافۃ ایک رکعت میں، طور اور ذاریات ایک رکعت میں، اذا وقعت الواقعۃً اور سورہ نون ایک رکعت میں سال سائل اور والناز عات ایک رکعت میں ، ویل اللمطففین اور عبس ایک رکعت میں، مدثر اور مزمل ایک رکعت میں ، ھل اتی اور لا اقسم بیوم القیامۃ ایک رکعت میں ، عم یتساء لون اور مرسلات ایک رکعت میں دخان اور اذالشمس کورت ایک رکعت میں ابوداؤد نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ ترتیب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جمع کرنے کے مطابق ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ طریقے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورہ دخان اور عم یتساء لون ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں سورتیں نہ صرف یہ کہ ہم مثل اور آپس میں برابر نہیں ہیں بلکہ اس طرح حدیث کے اس آخری جز اور حدیث کے ظاہری معنی و مفہوم میں مطابقت نہیں رہے گی ، چنانچہ اس جزء کی توضیح یہ کی جائے گی کہ حدیث کے ان الفاظ کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ان بیس سورتوں میں سے آخری سورتیں حم الدخان اور اس کے ہم مثل یعنی اذا الشمس کورت اور عم یتساء لون اور اس کے ہم مثل یعنی والمرسلات ہیں۔ اس کا مطلب اب یہ ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک رکعت میں حم الد خان اور اذالشمس کورت پڑھتے تھے جو ہم مثل اور برابر کی سورتیں ہیں اسی طرح ایک رکعت میں عم یتساء لون اور والمرسلات پڑھتے تھے جو ہم مثل اور برابر کی سورتیں ہیں۔
قرآن پڑھنے کی ترتیب: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم اسی ترتیب کے مطابق پڑھا جائے جو اب مروج ہے کسی دوسری ترتیب کے مطابق نہ پڑھا جائے ، ہاں بچوں کو ضرورتاً یعنی تعلیم وغیرہ کی وجہ سے آخر کی طرف سے بھی پڑھا دینا جائز ہے اور اگر نماز میں خلاف ترتیب قرآن پڑھا جائے گا تو یہ خلاف اولیٰ ہو گا بلکہ بعض علماء کے نزدیک تو یہ مکروہ ہے چنانچہ حضرت امام احمد کا یہی مذہب ہے۔
پہلی رکعت میں سورہ وا لناس پڑھ لینے کا مسئلہ: اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی پہلی رکعت میں سورہ والناس پڑھ لے تو دوسری میں کیا پڑھے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس شکل میں دوسری رکعت میں بھی سورہ والناس ہی پڑھنی چاہیے ، لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر پہلی رکعت میں سورہ الناس پڑھی گئی ہے تو دوسری رکعت میں سورہ بقرہ شروع کر دی جائے اس طرح اس طرح الم سے لے کر مفلحون تک کی آیتیں پڑھی جائیں ، ایک روایت میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی یہی منقول ہے بلکہ یہی قول زیادہ اولیٰ ہے۔
٭٭حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو (تہجد کی) نماز پڑھتے دیکھا ہے چنانچہ (ان کا بیان ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر یہ کہا ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ (اللہ تعالیٰ، ملک ، غلبہ، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سبحانک اللہم پڑھ کر سورہ بقرہ کی قرأت فرمائی اور اس کے بعد رکوع کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رکوع (تقریباً) قیام کے برابر تھا رکوع میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سبحان رب العظیم کہا اور آپ کا کھڑا ہونا یعنی قومہ (تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا اور (رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لم حمدہ کہنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہتے لربی الحمد (میرے پر رودگار ہی کے لیے ساری تعریف ہے) پھر سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کی مقدار آپ کے قومے کے برابر تھی اور سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہتے سبحان ربی الاعلی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ سے سر اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں سجدوں کے درمیان (یعنی جلسہ میں) اپنے سجدے کے برابر بیٹھتے اور یہ کہتے رب اغفرلی رب اغفرلی (اے میرے رب میری بخش کر اے میرے رب مجھے بخش دے) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکعتیں پڑھیں۔ اور ان (چاروں رکعتوں میں) سورہ بقرہ، سورہ ال عمران، سورہ نساء اور سورہ مائدہ یا سورہ انعام پڑھیں (حدیث کے راوی) شعبہ کو شک واقع ہو گیا ہے (کہ حدیث میں آخری سورۃ مائدہ کا ذکر گیا تھا یا انعام کا)۔
تشریح
آپ کا رکوع قیام کے برابر تھا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حقیقۃً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رکوع تقریباً قیام کے برابر تھا، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں اتنی ہی دیر تک رہتے تھے جتنی دیر تک قیام کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ نے معمول سے کچھ زیادہ قیام کو طویل کیا تھا اسی طرح رکوع کو بھی مقدار معمول سے زیادہ دراز کیا ، ہاں کبھی دونوں یعنی قیام اور رکوع برابر ہوتے تھے جیسا کہ نسائی نے حضرت عوف بن مالک کی روایت نقل کی ہے۔
رب اغفرلی دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اس سلسلے میں یہ احتمال بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رب اغفرلی دو مرتبہ کہتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے احتمال دو سے زائد بہت مرتبہ کہنا ہو۔ وا اللہ اعلم۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی دس آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو وہ غافلین میں شمار نہیں کیا جاتا (یعنی اس کا نام صحیفہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا) اور جو آدمی سو آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام فرمانبرداروں میں لکھا جاتا ہے اور جو آدمی ہزار آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام بہت زیادہ ثواب پانے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو آدمی تہجد کی نماز میں دس ، سو یا ہزار آیتوں کی قرأت ترتیل اور اطمینان کے ساتھ کرے تو اسے مذکورہ بالا ثواب اور سعادت کی فضیلت حاصل ہو گی اور اگر کوئی آدمی اپنی نماز میں دس آیتیں پڑھے گا تو فضیلت و ثواب کے اعتبار سے وہ آدمی اس سے کمتر ہو گا جو سو آیتیں اپنی نماز میں پڑھے گا ، اسی طرح جو آدمی اپنی نماز سو آیات میں پڑھے گا تو وہ فضیلت و سعادت کے اعتبار سے اس آدمی سے کم تر ہو گا جو اپنی نماز میں ایک ہزار آیتوں کی قرأت کرے گا۔
اس موقع پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اوّل تو یہ کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد ایک رکعت میں پڑھنے کا اعتبار ہو گا یا ایک سے زائد رکعت میں یہ تعداد پڑھی جائے۔
دوم یہ کہ تعداد سورہ فاتحہ کی آیتوں کو شامل ہے یا اس کے علاوہ ہے۔
پہلے سوال کے متعلق علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد دو یا دو سے زیادہ رکعتوں میں پڑھی جائے۔
دوسرے سوال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ تو یہی مراد بتاتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے علاوہ دس آیتیں ہوں لیکن صحیح اور ظاہر یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ ثواب اس شکل میں بھی حاصل ہوتا ہے کہ مذکورہ تعداد سورہ فاتحہ کو شامل کر کے پڑھی جائے بایں طور کہ سات آیتیں تو سورہ فاتحہ کی ہو جائیں گی اور تین آیتیں مزید کہ جو نماز کی قرأت کا ادنی درجہ ہے۔
قانتین کے معنی ہیں اطاعت پر مواظبت اور مداومت کرنے والے یا عبادت خداوندی میں قیام (یعنی کھڑے ہونے) کو طویل کرنے والے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نماز میں سو آیتیں پڑھتے ہیں ان کا نام اطاعت خداوندی پر مواظبت و مداومت کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ یا عبادت خدا وندی میں قیام کو طویل کرنے والوں کی جماعت میں لکھا جاتا ہے جو انتہائی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔
علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے الفاظ سے جو اس حدیث کے فائدے میں ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مطلق ہے ، دن یا رات کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی خواہ کوئی سی بھی نماز ہو، دن کی ہو یا رات کی ہو جس نماز میں بھی آیتوں کی مذکورہ تعداد پڑھی جائے گی ، ثواب حاصل ہو گا، تاہم علامہ بغوی نے اس حدیث کو کامل ترین موقعہ پر یعنی باب صلاۃ اللیل میں نقل کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ رات کو (یعنی تہجد کی نماز میں) مذکورہ تعداد میں جو آیتیں پڑھی جائیں گی تو اس کا ثواب بہت زیادہ حاصل ہو گا۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ قیام کرنا اس بات سے کنایہ ہے کہ مذکورہ تعداد میں آیتیں یاد کی جائیں اور انہیں ہر وقت پڑھا جائے نیز یہ کہ ان کے معنی و مقاصد میں غور و فکر اور ان پر عمل کیا جائے۔ وا اللہ اعلم۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رات کی نماز میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات مختلف ہوتی تھی۔ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بلند آواز سے قرأت فرماتے ہیں اور کبھی پست آواز سے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جیسا وقت اور موقع دیکھتے اسی کے مطابق قرأت فرماتے ، چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا ہوتے اور دوسروں کی نیند خراب ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بآواز بلند قرأت فرماتے تھے اور اگر آس پاس کوئی سویا ہوا ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نیند اچاٹ ہونے کے خوف سے قرأت پست آواز سے فرماتے تھے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اتنی آواز سے قرأت فرماتے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حجرے کے اندر پڑھتے ہوتے تو باہر صحن میں موجود آدمی سن لیتا تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
یعنی نہ تو آپ بہت زیادہ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے اور نہ بالکل ہی پست آواز سے کہ کوئی سن بھی نہ سکے۔ بلکہ اتنی آواز سے پڑھا کرتے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حجرے کے اندر نماز پڑھتے ہوتے تو وہ لوگ جو باہر صحن میں موجود ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت سن لیتے تھے۔
اتنی بات جان لیجئے کہ قرأت کے سلسلے میں یہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق رات (یعنی تہجد) کی نماز سے ہے کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے تھے تو رات کی نماز کی بہ نسبت زیادہ بلند آواز سے قرأت فرماتے تھے۔
اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم رات کو باہر نکلے تو ناگہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جو نماز میں پست آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جو نماز میں بلند آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ، ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب (صبح کو) حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں یکجا (حاضر) ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، ابوبکر !(آج کی رات) ہم تمہارے پاس سے گزرے تو تم نماز میں پست آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں جس سے مناجات کر رہا تھا اسے ہی سنا رہا تھا (یعنی میں اپنے پروردگار سے مناجات میں مشغول تھا اور وہ سننے کے لیے بلند آواز کا محتاج نہیں ہے وہ ہر طرح سے سنتا ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ، عمر ! (آج کی رات) ہم تمہارے پاس سے (بھی) گزرے تھے تم نماز میں بآواز بلند (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں (بآواز بلند قرآن کریم پڑھ کر ان) سوئے ہوئے لوگوں کو جگاتا تھا (جو عبادت خداوندی یعنی تہجد کے وقت اٹھنا تو چاہتے ہیں مگر نیند کے غلبے کی وجہ سے ان کی آنکھیں کھل نہیں پاتیں) اور شیطان کو بھگاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دونوں کی باتیں سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا کہ ، ابوبکر ! تم اپنی آواز کو کچھ اور بلند کر و اور (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ) عمر ! تم اپنی آواز کو پست کرو یعنی اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حد اعتدال کی طرف دونوں کی راہنمائی فرمائی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)
اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک رات نماز تہجد میں) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم صبح تک کھڑے رہے اور یہ آیت پڑھتے رہے۔ آیت (اِنْ تُعَذِّبْہمْ فَاِنَّہمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨ 5۔ المائدہ:118) اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اگر تو انہیں بخش دے تو تو بڑا حکمت والا ہے۔ (سنن نسائی ، ابن ماجہ)
تشریح
حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی دن ! باری تعالیٰ کے حضور اپنی امت کے حق میں یہ آیت عرض کریں گے اور رحمت دو عالم شافع محشر، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے تہجد کے وقت اپنی امت کے حسب حال یہ آیت پڑھی یعنی پروردگار کے حضور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کا حال عرض کیا اور اللہ کی بخشش کے طلب گار ہوئے ، صدقے جائیے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر میری جان قربان) کہ نماز تہجد میں کھڑے ہونے کے وقت سے لے کے صبح تک بار بار یہی دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے اور اپنی امت کی مغفرت و بخشش چاہتے رہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم الف الف صلوٰۃ۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھ لے تو اسے چاہیے کہ جماعت شروع ہونے تک اپنی دائیں کروٹ پر لیٹا رہے۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد)
تشریح
فجر کی سنتیں پڑھ کر جماعت شروع ہونے تک دائیں کروٹ پر لیٹ رہنے کی توجیہ بعض حنفی علماء نے یہ بیان کی ہے کہ نماز تہجد اور رات کو عبادت خداوندی میں مشغول رہنے کی وجہ سے چونکہ سستی اور طبیعت میں گرانی پیدا ہو جاتی ہے اس لیے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر لیٹے رہنے کا حکم دیا تاکہ کسل و سستی ختم ہو جائے اور کچھ راحت و سکون حاصل ہو جائے جس کی وجہ سے فرض نماز اطمینان و سکون اور قلب و دماغ کی بشاشت و فرحت کے ساتھ ادا ہو۔
ابن مالک فرماتے ہیں کہ جو آدمی رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا ہے اور نماز تہجد پڑھتا ہے اس آدمی کے حق میں یہ (یعنی فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جانے کا حکم) امر استحباب ہے۔
حضرت سید زکریا جن کا شمار حنفیہ کے ہاں علم حدیث کے مشائخ میں ہوتا ہے ، فرماتے ہیں کہ لائق اور بہتر یہ ہے کہ یہ طریق (یعنی سنت پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹنا) پوشیدہ طور پر اختیار کرے یعنی گھر میں ایسا کرے۔ مسجد میں لوگوں کے سامنے نہ کرے ، نیز یہ کہ یہ لیٹنا محض لیٹنے کی حد تک رہے اور اپنے آپ کو نیند سے بچائے ، ایسا نہ ہو کہ لیٹ کر سو جائے اور اٹھ کر جماعت میں شریک ہو اور اس طرح فرض نماز بغیر وضو پڑھ لے۔
اور حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون سا عمل تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ مداومت عمل میں نے پھر (یہ) پوچھا کہ رات تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس وقت کھڑے ہوتے تھے؟ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مرغ کی آواز سنتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مداومت عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک اور با مقصد عمل جس کو کرنے والا ہمیشہ پابندی کے ساتھ کرتا رہے اور جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ اگرچہ وہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے اطراف میں تو عام طور پر مرغ رات کے بالکل آخر حصے یعنی صبح کے قریب بولتے ہیں مگر عرب میں عمومی طور پر آدھی رات کے بعد مرغ بولتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مرغ کے بولنے کی آواز سن کر اٹھتے تھے اور اس وقت تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ، اگر ہم چاہتے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کے وقت نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے ہی دیکھتے تھے اور اگر یہ چاہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سوتے ہوئے دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سوتے ہوئے ہی دیکھتے تھے۔ (سنن نسائی)
تشریح
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو تہجد وغیرہ پڑھنے کے سلسلے میں معتدل رویہ اختیار فرماتے تھے ، نہ تو تمام رات تہجد وغیرہ ہی میں گزار دیتے تھے اور نہ تمام رات سوتے ہی رہتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رات کو سوتے بھی تھے اور تہجد وغیرہ کی نماز بھی پڑھتے تھے۔
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ نماز تہجد وغیرہ کے لیے نہ تو تمام رات بیدار ہی رہتے تھے اور نہ تمام رات سوتے ہی رہتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو نماز تہجد وغیرہ میں مشغول بھی دیکھے جاتے تھے اور سوتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جاتا تھا۔
٭٭ اور حضرت حمید بن عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) جب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھا تو (اپنے دل میں یا اپنے بعض احباب سے کہا) کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (جب تہجد کے لیے اٹھیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم) کو میں نماز کے وقت دیکھتا رہوں گا تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال دیکھوں (اور پھر اسی کے مطابق عمل کروں) چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز کہ جسے عتمہ فرماتے ہیں پڑھ لی تو لیٹ گئے (اور کچھ دیر آرام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیدار ہوئے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کہ یہ آیت (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً) 3۔ آل عمران:191) پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت تک پہنچے (ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ١٩٤ ) 3۔ ال عمران:194) بے شک تو وعدے سے پھرا نہیں کرتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے بستر کی طرف متوجہ ہوئے اور وہاں سے مسواک نکالی، اس کے بعد ایک چھاگل میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رکھی ہوئی تھی (وضو کرنے یا مسواک تر کرنے کے لیے) پیالہ میں پانی نکالا پھر مسواک کرنے کے بعد (وضو کر کے یا پہلے کے وضو کے ساتھ نماز پڑھنے) کھڑے ہوئے اور (جب) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھ لی، میں نے (دل میں) کہا کہ جتنی دیر آپ سوئے تھے اتنی ہی دیر اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم لیٹ گئے اور میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ جتنی دیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی تھی اتنی ہی دیر سوئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیدار ہوئے اور جو کچھ پہلے کیا تھا وہی اب کیا یعنی مسواک وغیرہ کی اور جو کچھ (یعنی آیت مذکورہ) پہلے پڑھا تھا وہی اب پڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز فجر سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ کیا۔ (سنن نسائی)
تشریح
آیت پڑھنے کے سلسلے میں دو احتمال ہیں، ایک تو یہ کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رات کو مذکورہ آیت (ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ١٩٤ ) 3۔ ال عمران:194) تک ہی پڑھی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ نے یہ آیتیں آخر سورۃ تک پڑھی ہوں گی مگر سننے والے نے آیت (ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ١٩٤ ) 3۔ ال عمران:194) کے بعد کی آیتیں نہیں سنی ہوں گی۔
اسی طرح اس حدیث میں اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (نمبر آٹھ) میں تطبیق بھی پیدا ہو جائے گی جس سے معلوم ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر سورۃ تک تلاوت کی تھی۔
اور حضرت یعلی بن مملک کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) حضرت ام سلمہ زوجہ مطہرہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت اور نماز کے بارے میں پوچھا (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو پڑھتے تھے) انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز (اور قرأت بیان کرنے) سے تمہیں کیا (حاصل ہو گا تم میں اتنی قوت کہاں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر قرأت کر سکو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح نماز پڑھ سکو، اور اگر سننا ہی چاہتے ہو تو سنو کہ) آپ نمازپڑھتے ، پھر جتنی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اتنی ہی دیر تک سوتے ، پھر (اٹھ کر) اتنی ہی دیر تک نماز پڑھتے جتنی دیر تک سو چکے ہوتے پھر جتنی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اتنی ہی دیر تک سوتے یہاں تک کہ (یہ سلسلہ جاری رہتا اور) صبح ہو جاتی، اس کے بعد حضرت ام سلمہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت بیان کی یہاں تک کہ انہوں نے خوب واضح اور ایک ایک حرف قرأت کا بیان کیا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو تہجد (کی نماز) پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ (دعا) پڑھتے اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَیمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالاَ رْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآئُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ منیٰ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَا اِلٰہَ غَیرُکَ۔ (اے میرے رب تیرے ہی لیے تعریفیں ہیں تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور اس چیز کو جو ان کے درمیان ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں تو ہی زمین وآسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں سب کو روشن کرنے والا ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تو ہی زمین و آسمانوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا بادشاہ ہے اور سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں تو ہی حق ہے ، تیرا وعدہ حق ہے ، تیری ملاقات حق ہے تیرا کلام حق ہے بہشت حق ہے ، دوزخ حق ہے ، تمام نبی حق ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و سلم حق ہیں اور قیامت حق ہے ، اے پروردگار ً میں تیرا تابعدار ہوں ، میں نے تیرے تمام احکامات قبول کئے ، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسہ کیا ، تیری طرف میں نے رجوع کیا، تیری ہی مدد سے میں (دین کے) دشمنوں سے جھگڑتا ہوں اور تیرے ہی پاس اپنی فریاد لایا ہوں ، پس تو میرے ان گناہوں کو بھی بخش دے جو میں نے پہلے کئے ہیں اور ان گناہوں کو بھی جو بعد میں مجھ سے سرزد ہوں گے نیز ان گناہوں کو بھی (بخش دے) جو میں نے پوشیدہ طور پر اور ظاہری طور پر کئے اور جو کچھ میری خطائیں ہیں جنہیں تو ہی مجھ سے بہتر جانتا ہے (سب کو معاف کر دے) اور تو ہی (جسے چاہے) آگے کرنے والا اور پیچھے ڈال دینے والا ہے تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ظاہر تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا افتتاح یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد یا رکوع کے بعد قومہ میں پڑھتے تھے جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح ہے۔
٭٭اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو کھڑے ہوتے اور (تہجد کی) نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے۔ آیت (اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَئِیلَ وَمِیکَآئِیلَ وَاِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَینَ عِبَادِکَ فِی مَا کَانُوْا فِیہِ یخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ۔ اے اللہ ! اے پروردگار جبریل ، میکائیل، اسرفیل کے ! اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے اور پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز میں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں فیصلہ کرے گا، اے اللہ امر حق میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں میری راہنمائی کر، کیونکہ جسے تو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے (صحیح مسلم)
اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی رات کو بیدار ہو تو یہ تسبیح پڑھے آیت (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہ لَہ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ وَسُبْحَانَ اللّٰہ وَالْحَمْدُ للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و قوۃ الا بااللہ (ا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اس کے لیے بادشاہت ہے اور اس کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور پاک ہے اللہٗ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے اور عبادت کی قوت اللہ کی مدد سے ہے) اور اس کے بعد یہ کہے رب اغفرلی (اے میرے رب مجھے بخشش دے) یا فرمایا کہ پھر دعا کرے (یعنی راوی کو شک واقع ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص طور پر رب اغفرلی پڑھنے کو فرمایا یا یہ فرمایا کہ جو دعا چا ہے پڑھے) اس کی دعا قبول کی جائے گی، پھر اگر وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول کی جائے گی۔ (صحیح البخاری)
تشریح
تعار کے معنی بعض نے نیند سے بیدار ہونے اور بعض نے کروٹ لینے کے لکھے ہیں اور ابن مالک نے اس کے معنی آواز کے ساتھ جاگنے کے لکھے ہیں جیسا کہ بیدار ہونے کے وقت منہ سے آواز نکلتی ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پسند اور بہتر فرمایا ہے کہ جاگنے کے بعد جو آواز منہ سے نکلے وہ تسبیح وغیرہ کی آواز ہو چنانچہ اللہ سے تعلق رکھنے والے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کے منہ سے کلمہ یا اسی قسم کی تسبیح و دعا کی آواز نکلتی ہے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس دعا کو جو نیند سے بیدار ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے درھم الکیس فرماتے ہیں یعنی جس طرح کوئی آدمی درہم و روپیہ تھیلی میں رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اسی طرح یہ دعا ہے جو مومن کے قلب و دماغ میں محفوظ رہتی ہے جب وہ نیند سے بیدار ہوتا ہے اور یہ دعا اس کے منہ سے نکلتی ہے تو وہ بارگاہ رب العزت میں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو (نیند سے) بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے لَا اِلٰہ اِلَّا اَنْتَّ سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ لِذَنْبِی وَاَسْأَلُکَ رَحْمَتَکَ اَللّٰھُمَّ زِدْنِی عِلْماً وَلَا تُزِغْ قَلْبِی بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنِی وَھَبْ لِی مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔) (اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے ، اے اللہ ! میں تیری تعریف کے ساتھ تیرے تسبیح کرتا ہوں، اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ ! میرے علم میں زیادتی عطا فرما اور مجھے ہدایت یا فتہ بنانے کے بعد (حق سے باطل کی طرف میرے دل میں کجروی پیدا نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے میرے لیے (ایمان و ہدایت پر ثابت قدمی اور دینی توفیق کی) رحمت عطا فرما بے شک تو ہی بخشنے والا ہے۔
اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، جو بھی مسلمان رات کو پاکی کی حالت میں (یعنی وضو یا تیمم کر کے) ذکر اللہ کرتا ہوا سو جائے اور پھر رات کو بیدار ہونے کے بعد اللہ سے بھلائی کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے (دنیا یا آخرت میں ضرور ہی بھلائی دیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، ابوداؤد)
اور حضرت شریق الہوزنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم رات کو بیدار ہونے کے بعد (عبادت) کس چیز سے شروع کرتے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے (آج) وہ چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی (تو سنو کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو بیدار ہوتے تو (پہلے) اللہ اکبر دس مرتبہ الحمد اللہ دس مرتبہ، سبحان اللہ وبحمدہ دس مرتبہ، سبحان الملک القدوس دس مرتبہ کہتے ، دس مرتبہ استغفار کرتے ، لا الہ الا اللہ دس مرتبہ کہتے اور دس مرتبہ یہ کہتے : اللھم انی اعوذ بک من ضیق الدنیا وضیق یوم القیامۃ (اے پروردگار ! میں تجھ سے دنیا کی تنگی (یعنی سختیوں) اور آخرت کی تنگی سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز تہجد شروع فرماتے) (ابوداؤد)
تشریح
صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے ہاں دس تسبیحات ہیں جو سات سات مرتبہ پڑھی جاتی ہیں اور جنہیں ان کی اصطلاح میں مسبعات عشرۃ کہتے ہیں ، اس حدیث میں سات تسبیحات ہیں جنہیں دس دس مرتبہ پڑھنا ذکر کیا گیا۔ چنانچہ صوفیاء کی اصطلاح مسبعات عشرہ کے مقابلہ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اس حدیث میں مذکورہ تسبیحات اور ان کے اعداد کو معشرات سبعہ کہتے ہیں۔
٭٭حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر یہ پڑھتے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّ کَ وَلاَ اِلٰہَ غَیْرکْ (اے اللہ تو پاک ہے ہم تیر حمد کرتے ہیں تیرا نام بابرکت ہے تیری بزرگی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی کوئی معبود نہیں ہے) پھر اللہ اکبر کبیرا (ا اللہ بہت بڑا ہے بڑا) کہتے اور یہ دعا پڑھتے۔ اَعُوْذُ بِاﷲ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمَزَہٖ وَنَفَخَہٖ وَنَفْثِہٖ (میں اللہ سننے والے ، جاننے والے کی شیطان مردود سے ، اس کے وسوسے سے ، اس کے تکبر سے اور اس کے برے شعر سکھانے سے پناہ مانگتا ہوں، (جامع ترمذی و ابوداؤد ، سنن نسائی) ابوداؤد نے اپنی روایت میں حدیث کے الفاظ ولا الہ غیرک کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ پھر آپ لا الہ الا اللہ تین مرتبہ کہتے اور آخر حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ پھر پڑھتے یعنی اَعُوْذُ بِاﷲ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ الخ پڑھنے کے بعد قرأت فرماتے۔
٭٭اور حضرت ربیعہ کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارک کے قریب ہی رات بسر کیا کرتا تھا ، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سنا کرتا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو (تہجد کی) نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دیر تک سبحان رب العالمین (تمام عالم کا پروردگار پاک ہے) کہا کرتے تھے ، پھر دیر تک کہتے سبحان اللہ وبحمدہ (اللہ پاک ہے میں اس کے تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتا ہوں (سنن نسائی) ترمذی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
قیام اللیل (رات کے قیام) کا مطلب ہے رات کو عبادت خداوندی مثلاً نماز تہجد اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہنا اسی مناسبت سے قائم اللیل ان خوش نصیب اور سعادت لوگوں کو کہا جاتا ہے جو راتوں کو اٹھ کر اپنے پروردگار کی عبادت اور اس کے ذکر و یاد میں مشغول رہتے ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کو) سوتا ہے تو شیطان مردود اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے ، ہر گرہ پر (یہ کہہ کر) مارتا ہے (یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے) کہ ابھی بہت رات باقی ہے سوتا رہ لہٰذا اگر کوئی آدمی (شیطان کے اس مکر میں نہیں آتا اور عبادت الہٰی کے لیے) جاگتا ہے اور (دل میں ہی یا زبان سے) اللہ کو یاد کرتا ہے تو (غفلت و سستی کی) ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو (نجاست کی) دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اس کے بعد جب نماز پڑھتا ہے تو (کسالت و بطالت کی) تیسری گرہ (بھی کھل جاتی ہے چنانچہ ایسا آدمی شادماں اور پاک نفس صبح کرتا ہے ورنہ وہ (جو آدمی نہ جاگتا ہے نہ ذکر کرتا ہے اور نہ وضو کر کے نماز ہی پڑھتا ہے تو وہ) کاہل اور پلید نفس صبح کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
گرہ کے معنی و مراد کے تعین میں اختلاف ہے ابن مالک کا قول یہ ہے کہ گرہ سے مراد کسل و سستی کی گرہ ہے یعنی شیطان اپنی مکاریوں کے ساتھ رات کو عبادت خداوندی کے لیے اٹھنے والوں کے کسل و سستی کا باعث ہوتا ہے۔
میرک شاہ کے قول کے مطابق بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت پر محمول ہے یعنی شیطان مردود واقعی سونے والے کی گدی پر گرہ لگا دیتا ہے جیسا کہ جادوگر جادو کرتے وقت کسی پر گرہ لگاتے ہیں اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں منقول ہے۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ مجاز پر محمول ہے گویا گرہ لگانا جو ساحر کا فعل ہے کہ وہ اس کے ذریعے مسحور کو اس کی مراد سے روک دیتا ہے اس کے ساتھ سونے والے کو رات کو نماز پڑھنے اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے سے شیطان کے روکنے کو مشابہت دی گئی ہے۔ یعنی جس طرح ایک ساحر سحر کے وقت کسی پر گرہ لگا کر اس کو اس کے مقاصد سے روک دیتے ہیں بائیں طور کہ مسحور کی عملی قوتیں مفلوج ہو جاتی ہیں اسی طرح شیطان رات کو سونے والوں کو اپنی مکاریوں کے ذریعے اللہ کے ذکر اور نماز میں مشغول ہونے کے لیے اٹھنے سے روک دیتا ہے۔
کچھ علماء کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد دل کی گرہ اور شیطان کی طرف سے سونے والے کو ایک چیز پر مصمم اور قائم کرنا ہے یعنی شیطان سونے والے کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے اور اس بات کا اسے یقین دلاتا ہے کہ ابھی رات بہت باقی ہے ، سوتا رہ، لہٰذا بندہ شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بیدار ہو کر نماز پڑھنے سے رک جاتا ہے۔
حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو شیطان کے مکر و فریب میں نہیں پھنستا اور اس کے بہکا وے میں نہیں آتا بلکہ وہ وقت پر اٹھ کر نماز تہجد اور ذکر اللہ میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس کے لیے صبح اپنی جلو میں شادمانی و خوش نصیبی اور نفس کی پاکی و پاکیزگی کی سعادتیں لیے ہوئے آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہتا ہے اور اس کا دل و دماغ ہر قسم کے خوف و خطر سے لا پروا ہو کر دین و دنیا کے امور میں اطمینان سے لگا رہتا ہے۔
اس کے برخلاف جو آدمی رات کو شیطان کی عیاریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے مکر کے جال میں پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ رات کو اٹھ کر ذکر اللہ کرتا ہے اور نہ ہی نماز تہجد میں مشغول ہوتا ہے بلکہ سویا رہتا ہے تو اس کے لیے صبح اپنے دامن میں کسالت و بطالت و غفلت و پلید نفسی کے غلیظ ڈھر لے کر آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن پلید نفس، غمگین دل، متفکر اور اپنے امور کی انجام دہی میں حیران و پریشان اور کسل مند رہتا ہے یعنی سستی و غفلت کی وجہ سے وہ اپنے جس کام کو بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس میں ناکام اور بد دل رہتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے مکر و فریب کے جال میں مقید اور قرب خداوندی کی رحمتوں سے دور ہوتا ہے۔
اور حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کو (نماز پڑھنے کے لیے) اس قدر قیام کیا (یعنی اتنی دیر تک کھڑے رہے) کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک پاؤں پر ورم آگیا (یہ حال دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے تمام گناہ بخشش دئیے ہیں اور مجھے دین و دنیا کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے تو کیا میرا حق یہی ہے کہ میں عبادت کی محنت و مشقت اٹھا کر اس اللہ کا جس نے مجھے اپنی بیشمار رحمتوں اور نعمتوں سے سرفراز کیا ہے شکر گذار بندہ نہ بنوں؟ نہیں بلکہ اللہ نے مغفرت و بخشش کی جو نعمت مجھے عطا فرمائی ہے۔ اور اپنی جس لا محدود اور بے انتہا نعمتوں سے مجھے نوازا ہے اس کے پیش نظر میرا فرض ہے کہ میں اس کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت اٹھاؤں اور زیادہ سے زیادہ عبادت کروں تاکہ اس کا شکر ادا کرنے والا بندہ بن جاؤں۔
عباد کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کا مقولہ: حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ذات علم و فضل، ذہانت و فراست اور عقل و دانش کے اعتبار سے پوری امت میں امتیازی مقام کی حامل ہے عبادت کے بارے میں انہوں نے جو تجزیہ فرمایا ہے اور جو رائے قائم کی ہے اسے سنئے اور اپنے لیے مشعل راہ قرار دیجئے فرمایا
جن لوگوں نے (نعمتوں کی) طلب یعنی جنت کی آرزو اور ثواب کی تمنا) میں عبادت کی تو ایسی عبادت سوداگروں کی عبادت ہے۔
جن لوگوں نے (اللہ تعالیٰ کا عذاب اور دوزخ کے) ڈر سے عبادت کی تو وہ غلاموں کی عبادت ہے۔
اور جن لوگوں نے اپنے مولی کی دی ہوئی نعمتوں کی ادائیگی شکر کے لیے عبادت کی تو وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔ (اور یہی عبادت سب سے اونچے درجے کی عبادت ہے)۔
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر آیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا کہ وہ آدمی صبح تک سویا رہتا ہے نماز کے لئے نہیں اٹھتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ ایسا آدمی ہے کہ اس کے کان میں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے دونوں کانوں میں شیطان پیشاب کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
نماز سے مراد تہجد کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور فجر کی نماز بھی یعنی یا تو یہ آدمی تہجد کی نماز کے لیے نہیں اٹھتا ہو گا یا یہ کہ فجر کی نماز اس کی قضا ہو جاتی ہو گی۔
بہر حال شیطان کے پیشاب کرنے کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ حقیقۃً ایسا ہوتا ہے چنانچہ بعض صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ (کسی دن) ان کی آنکھ نہ کھلی جس کی وجہ سے (تہجد یا فجر کی فرض) نماز پڑھ سکے چنانچہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی جو سیاہ رنگ کا تھا آیا اور اس نے اپنا پیر اٹھا کر ان کے کان میں پیشاب کر دیا۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ شیطان کا پیشاب کرنا اس بات سے کنایہ ہے کہ شیطان ایسے آدمی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو آدمی کسی چیز کو حقیر و کمتر سمجھتا ہے تو اس پر پیشاب کر دیتا ہے۔
اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک روز رات کو سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم گھبرا کر یہ کہتے ہوئے بیدار ہو گئے کہ سبحان اللہ ! آج کی رات کس قدر خزانے اتارے گئے ہیں اور کس قدر فتنے نازل کئے گئے ہیں، ہے کوئی جو ان حجروں والیوں کو اٹھا دے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد ازواج مطہرات سے تھی کہ وہ (اٹھ کر) نماز پڑھیں تاکہ رحمت خداوندی حاصل کر سکیں اور عذاب و فتنوں سے بچ سکیں کیونکہ اکثر عورتیں دنیا میں تو کپڑے پہننے والی ہیں لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔ (صحیح البخاری)
تشریح
حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو خزانے اور مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں مقدر ہو چکے تھے کہ کس امتی کو کتنا مال و زر ملے گا اور کسی امتی کی قسمت میں کتنی دولت لکھی ہے اس رات کو ان کا اترنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہو گیا تھا اس طرح اس رات کو جتنے فتنے مقدر ہو چکے تھے وہ بھی اس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی سے معلوم ہو گئے تھے۔
ملا علی قاری اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں خزانے سے مراد رحمت خداوندی اور فتنے سے مراد اس کا عذاب ہے۔
عورتوں کے لیے وعید: حدیث کے آخری جز کے کئی مطلب ہیں اول یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں تو طرح طرح کے اور عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنیں اور ان پر فخر و مباہات کریں گی حالانکہ ان کی حالت یہ ہو گی کہ حکم خداوندی کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ آخرت میں نیک اور اچھے اعمال سے خالی ہوں گی۔ دوم یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں نیند کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی یعنی نیند کی غفلت کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل ہوں گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آخرت میں اچھے درجات اور بڑائیوں سے خالی ہوں گی ، سوم یہ کہ اکثر عورتیں جسم کو ظاہر کرنے والے ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی کہ وہ دنیا میں لباس پوش ہوں گی مگر آخرت کے حکم کے اعتبار سے ننگی ہوں گی یعنی جو کپڑے دیکھنے میں عمدہ خوبصورت اور باریک معلوم ہوتے ہیں جیسے کہ جالی اور نائیلون وغیرہ کے کپڑے کہ جن کا عورتوں کے لیے استعمال کرنا ازروئے شرع ممنوع ہے ایسے کپڑوں والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔
اس حدیث سے ان عورتوں کو خاص طور پر عبرت حاصل کرنی چاہیے جو آج کے فیشن زدہ دور میں کپڑوں کے معاملے میں انتہائی بے راہ روی اور غیر شرعی طریقہ اختیار کئے ہوئے اور ایسے ایسے کپڑے استعمال کرتی ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے خلاف اور آخرت کے عذاب کا موجب ہیںَ
مائیں اور بہنیں کان کھول کر سن لیں کہ دنیا چا ہے جتنی فیشن زدہ ہو جائے ، تہذیب و تمدن چا ہے جتنے عروج پر پہنچ جائیں اور انسان کی ذہنی و فکری اور عملی جولانیاں چا ہے چاند کو مسخر کر لیں ، اسلام اور پیغمبر اسلام کے وہ فرمان جو آج سے چودہ سو سال پہلے جاری ہوئے تھے آج بھی پوری طرح موجود ہیں، ان کی اہمیت اور ان پر عمل کرنے کی شدت کسی حال میں بھی ختم نہیں ہو سکتی ، اسلامی اور شرع احکام کا دقیانوسیت کے الفاظ سے مذاق اڑا کر ، فیشن کا نام لے کر آج بھلے کوئی عورت اپنی ظاہری زندگی کو اور دنیا کی نظروں میں جاذب نظر دیدہ زیب اور ماڈرن معزز بنا لے مگر اسے یاد رکھ لینا چاہیے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی اور موجودہ فیشن کے فانی رنگ و روپ کو ختم کر کے ایک دن اسے اس اللہ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے جو غفار و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ جبار و قہار بھی ہے اور پھر انہیں وہاں اپنی بد عملیوں کا جواب دینا ہو گا۔
اور حضر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر رات کو آخر انتہائی رات کے وقت ہمارا بزرگ و برتر پروردگار دنیا کے آسمان (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسے قبولیت بخشوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہو اور میں اسے بخشوں؟ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر اللہ جل شانہ اپنے (لطف و رحمت کے) دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو ایسے کو قرض دے جو نہ فقیر ہے اور نہ ظلم کرنے والا ہے اور صبح تک یہی فرماتا رہتا ہے۔
تشریح
یَنْزِلُ رَبَّنَا (ہمارا رب نزول فرماتا ہے) کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ جل شانہ خود آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے کیونکہ وہ جسم کی ثقالت و کثافت سے پاک و صاف ہے اور ایسا نور ہے جو ہمہ وقت کائنات کے ذرے ذرے پر محیط و حاوی ہے اور کسی خاص مقام و کسی وقت کا پابند نہیں ہے۔
چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اس کی تاویل کرتے ہوئے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ جل شانہ کا فرمان، اس کی رحمت یا اس کی ملائکہ اس وقت آسمان دنیا پر اترتے ہیں (ا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ اعلان کرتے ہیں) چنانچہ اس کی تائید ایک حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں مذکور ہے ، یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ ارشاد متشابہات میں سے ہے جس کے حقیقی معنی و مطلب اللہ جل شانہ ہی جانتے ہیں۔
مَنْ یَّدْ عُوْنِی دعا کے معنی ہیں پکارنا جیسا کہ بندہ کہے یا رب اس کے مقابلے پر اجابت اور قبولیت ہوتی ہے جیسے کہ پروردگار بندے کے اس پکارنے کے جواب میں کہے لبیک عبدی مَنْ یَّسْاَلَنِیْ سوال کے معنی کسی کا مانگنا اور اس کا طلب کرنا اور اس کے مقابلے میں سوال کا پورا کرنا ہے یعنی جو چیز طلب کی جائے اور مانگی جائے اس کا دینا۔
یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ اللہ جل شانہ (آسمان دنیا پر) اس وقت نزول فرماتا ہے جب اول تہائی رات گذر جاتی ہے نیز اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ اس وقت نزول فرماتا ہے جب آدھی رات یا دو تہائی رات گزرتی ہے کیونکہ احتمال ہے کہ بعض صورتوں میں تو نزول آخری تہائی رات کے وقت، بعض راتوں کو اول تہائی رات کے گزرنے کے بعد اور بعض راتوں کو آدھی یا دو تہائی رات گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔
مَنْ یُّقْرِضُ کون ہے جو قرض دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو بطریق قرض اور جزا لینے کے لیے بدنی اور مالی عبادت اللہ جل شانہ کو دے جو نہ تو فقیر ہے اور نہ عطا و بخشش سے عاجز ہے نیز یہ کہ نہ ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے عہد کو پورا نہ کرے یا ناقص ثواب دے۔ یعنی اس پیرائے سے مسلمانوں کو دنیا میں نیک و صالح عمل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ کون خوش نصیب اور با سعادت مسلمان ہے جو آخرت کی سعادتوں و راحتوں اور وہاں کے ثواب کی امید میں اس غنی پروردگار کے لیے دنیا میں نیک عمل کرے جو اس کے حق یعنی آخرت میں دنیا کے نیک عمل کا ثواب دینے سے عاجز نہیں ہے اور کون خوش نصیب و سعادت مند مومن ہے جو اس عادل اللہ کے لیے دنیا میں نیک عمل کرتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کا ثواب اس کے عمل سے بھی کئی گنا زیادہ کر کے دیتا ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بات بطور خاص قابل غور ہے کہ یہاں اللہ جل شانہ کی تعریف بایں طور کی گئی ہے اس کی پاک ذات سے ان دونوں صفات یعنی فقر اور ظلم کی نفی کی گئی ہے کیونکہ قرض کی واپسی کے سلسلے میں یہی دونوں صفتیں حائل ہوتی ہے۔ اگر کوئی عاجز و فقیر ہوتا ہے تو وہ قرض کی واپسی سے معذور ہوتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ظالم ہوتا ہے تو اپنے ظلم کی بنا پر قرض کی پوری ادائیگی نہیں کرتا بلکہ اس میں کمی و نقصان کر کے واپس کر دیتا ہے اور اللہ جل شانہ کی ذات ان دونوں صفتوں سے پاک ہے۔
نہ تو وہ ظالم ہے اور نہ عاجز فقیر ہے بلکہ عادل ہے اور غنی ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی دنیا میں بھلائی کرے گا اور نیک عمل کرے گا وہ اللہ جل شانہ کے پاس عقبی میں کامل جزاء اور ثواب پائے گا۔
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رات کو ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جو مسلمان اسے پاتا ہے اور اس میں اللہ جل شانہ سے دنیا یا آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے (ضرور) پورا فرماتا ہے اور (قبولیت کی) یہ ساعت ہر رات میں ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہر شب کو ایک گھڑی ضرور آتی ہے جو قبولیت کی خوشخبری اپنے دامن میں لیے ہوئی آتی ہے جس با سعادت و خوش نصیب مسلمان کو وہ ساعت اور وہ گھڑی نصیب ہو جاتی ہے۔ اور وہ اس میں جل شانہ کے سامنے اپنی جس دنیاوی و اخروی بھلائی کے لیے درخواست پیش کرتا ہے با مراد و کامیاب ہوتا ہے اور اس کی درخواست بارگاہ رب العزت سے قبولیت کا درجہ پاتی ہے ہاں وہ قبولیت اللہ جل شانہ کی طرف سے عطا و بخشش حکما بھی ہو سکتی ہے اور حقیقۃً بھی۔
ساعت قبولیت کے تعین کے بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ ساعت مبہم ہے جیسے لیلۃ القدر اور ساعت جمعہ کہ ان میں کسی خاص وقت کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ساعت فلاں وقت اور فلاں ٹائم آتی ہے اسی طرح ہر رات کو بھی قبولیت کی ساعت کا کوئی خاص وقت اور ٹائم مقرر نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت آ جاتی ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ نصف شب کا وقت ساعت قبولیت ہے وا اللہ اعلم۔
اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو تمام نمازوں میں سے حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز زیادہ پسند اور تمام روزوں میں سے حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے زیادہ پسند ہیں اور ان کی نماز کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے (یعنی نماز پڑھتے) اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سوتے اور وہ (روزہ اس طرح رکھتے تھے) ایک دن تو روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز اور ان کے روزے کا یہ طریقے بہت پسند تھا اس لیے اس طریقہ کے مطابق پڑھی جانے والی نفل نماز اور رکھے جانے والے نفل روزے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
مذکورہ بالا طریقے سے رات کو پڑھی جانے والی نماز اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اس لیے ہے کہ جب کوئی آدمی رات کے دو تہائی حصے سوئے گاا ور اس کا نفس اتنی دیر تک آرام کر لے گا تو اس کی عبادت پوری فرحت و بشاشت اور قلب و دماغ کے پورے نشاط کے ساتھ ادا ہو گی۔
اس طرح مذکورہ بالا طریقے سے رکھے جانے والے روزے بھی اس لیے پسندیدہ ہیں کہ اس میں نفس کو بہت زیادہ محنت و مشقت ہوتی ہے جو حاصل عبادت ہے۔
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم (رات اس طرح بسر کرتے تھے کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے ابتدائی حصے میں تو سوتے تھے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے (یعنی بیدار رہتے اور عبادت کرتے تھے) پھر اگر آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے (ہم بستری کی) ضرورت ہوتی تو اپنی ضرورت پوری کرتے اور سو جاتے ، چنانچہ اگر آپ (فجر کی) پہلی اذان کے وقت حالت ناپاکی میں ہوتے تو اٹھتے اور اپنے بدن پر پانی ڈالتے (یعنی نہاتے) اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہ سوتے تو نماز کے لیے وضو کرتے اور پھر فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
شمائل میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت تفصیلی طور پر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے ابتدائی حصہ میں (یعنی عشاء کی نماز کے بعد سے آدھی رات تک) سوتے پھر رابع و خامس سادس یعنی چوتھے و پانچویں و چھٹے حصے میں تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے جب سحر کا وقت ہوتا تو وتر پڑھتے پھر بستر پر (آرام فرمانے کے لیے) تشریف لے آتے (کیونکہ نماز تہجد وغیرہ سے فراغت کے بعد اور نماز فجر سے پہلے کچھ دیر تک آرام کرنا مستحب ہے تاکہ فجر کی نماز اور اس کے بعد کے اوراد و وظائف کی ادائیگی کے لیے بشاشت و قوت حاصل ہو سکے) پھر اگر کسی دن آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے ہم بستری کی ضرورت ہوتی تو اسے پورا کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی اذان سن کر اٹھتے اور اگر حالت ناپاکی میں ہوتے تو اپنے بدن پر پانی ڈالتے یعنی نہاتے اور اگر حالت ناپاکی میں نہ ہوتے تو وضو کرتے اور فجر کی سنت کی دونوں رکعتیں گھر ہی میں پڑھ کر نماز کے لیے باہر مسجد میں تشریف لے جاتے۔
اس تفصیل کی روشنی میں حدیث بالا کے ابتدائی جزء رات کے ابتدائی حصے میں سوتے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے تھے کے معنی واضح ہو گے ہیں۔
بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وظیفہ زوجیت سے فراغت کے بعد وضو کرتے ہوں گے ، اس کے بعد پھر سوتے ہوں گئے۔
ندائے اول (پہلی اذان) سے مراد اذان متعارف ہے اور دوسری اذان تکبیر کو کہتے ہیں۔
حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آدھی رات تو سوتے تھے اور آدھی رات اپنے پروردگار کی عبادت میں گزارتے تھے ، کیونکہ اول سدس یعنی رات کے ابتدائی چھٹے حصے میں عشاء تک جاگتے تھے پھر عشاء کے بعد دوسرے تیسرے سدس میں آرام فرماتے تھے پھر چوتھے اور پانچویں سدس میں بیدار رہتے اور چھٹے میں سو جاتے اس طرح تین سدس تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے اور تین سدس بیدار رہتے۔ (صلی اللہ علیہ و سلم)
اور حضرت ابو امامہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیام اللیل (یعنی نماز تہجد پڑھنے کو) ضروری جانو کیونکہ (اول تو) یہ طریقہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا ہے اور پھر مزید یہ کہ) قیام لیل تمہارے لیے پروردگار کی نزدیکی اور گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے ، نیز یہ کہ تمہیں گناہوں سے باز رکھنے والا ہے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
نیک لوگوں سے مراد پہلے زمانے کے انبیاء اور اولیاء ہیں گویا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں تو یہ نماز بطریق اولیٰ پڑھنی چاہیے کیونکہ تم تو پہلے کی تمام امتوں سے بہتر اور اعلیٰ ہو۔
یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جو لوگ تمام فرائض کی نماز تو پڑھتے ہیں لیکن تہجد کی نماز نہیں پڑھتے تو وہ صالحین کا ملین کے زمرے میں داخل نہیں ہیں بلکہ ان کا درجہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ظاہری طور پر زکوٰۃ دینے والوں کا درجہ ہوتا ہے ان لوگوں کے مقابلے پر جو پوشیدہ طور پر زکوٰۃ دیتے ہیں۔
اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین (قسم کے) لوگ ایسے ہیں جن کی طرف (دیکھ کر) اللہ جل شانہ ہنستا ہے (یعنی ان سے بے حد خوش ہوتا ہے اور ان کی طرف اپنی رحمت و عنایت کی نظر فرماتا ہے) (١) وہ آدمی جو رات کو تہجد کی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے (٢) وہ لوگ جو نماز پڑھنے کے لیے اپنی صفوں کو درست کرتے ہیں (٣) وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑنے کے لیے (یعنی جہاد کے وقت) صف بندی کرتے ہیں۔ (شرح السنۃ)
اور حضرت عمرو بن عنبسہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پروردگار اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب آخری شب میں ہوتا ہے لہٰذا اگر تم بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ضرور ہو یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور سند کی وجہ سے غریب ہے۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ، اب یہ قسمت اور مقدر والوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے۔
چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت خداوندی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہو جاتی ہے۔
بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔
آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے کا ہوتا ہے۔
حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔
ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تبلیغ کی ابتداء ہو چکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور توحید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بے چین کر دیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے ، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کر دیا ، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں دریافت کیا ، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بے پناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے ، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہے کہ ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔
دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی
دیوانہ تو ہر دوجہاں راچہ کند
انہوں نے پوچھا کہ اچھا وہ کہاں ملیں گے ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔
حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لیے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک (صلی اللہ علیہ و سلم) عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے۔؟ انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں (صلی اللہ علیہ و سلم) اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فوراً بولے کہ میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جبھی ایمان لائے ، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہو چکے تھے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہو گا تو میرے پاس آنا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو درجۂ کمال پر پہنچا دیا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد کی) نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر بیوی (نیند کے غلبے اور کثرت غفلت و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو (اس کی نیند ختم کرنے کے لیے) اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد) کی نماز پڑھے اور اپنے خاوند کو جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر شوہر (غلبہ و نیند و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)
تشریح
رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے سے مراد تہجد کی ہی نماز ہے لیکن اگر مرد و عورت کسی کی بھی کوئی نماز قضا ہو گئی ہو اور اس وقت اس کے ذمہ قضا ہو تو قضا نماز کا پڑھنا ہی اس وقت اولیٰ ہو گا۔
منہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو نماز پڑھنے اور پروردگار کی عبادت کے لیے بیدار کرنے کے واسطے جس طرح بھی ممکن ہو ، سعی و کوشش کرے۔
بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ خاوند و بیوی جس طرح سماجی زندگی اور دنیاوی امور میں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہوتے ہیں اسی طرح انہیں دینی امور، طاعت الہٰی اور عبادت خداوندی کے بارے میں ایک دوسرے کا مددگار و معاون بننا چاہیے اور اگر کسی وقت بیوی نماز نہ پڑھے تو شوہر کا حق ہے کہ وہ اسے جس طرح بھی ممکن ہو نماز پڑھنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح اگر خاوند نماز پڑھنے میں تساہل و سستی کرے یا کسی ایسی وجہ سے نماز پڑھنے سے رک جائے جو نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو بیوی کا حق ہے کہ وہ اسے پوری قوت سے نماز پڑھنے کے لیے کہے اور جو چیز اس کے نماز پڑھنے میں رکاوٹ بن رہی ہے اسے ختم کرے۔ مثلاً اگر میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک اس طرح غفلت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی نماز خواہ فرض نماز ہو یا تہجد وغیرہ کی نماز رہی جاتی ہو تو دونوں میں سے جو بھی بیدار ہو وہ دوسرے کو بھی نیند سے اٹھائے اگر وہ نہ اٹھے تو ایسی ترکیب کرے جس سے اس کی نیند ختم ہو جائے اور وہ اٹھ کر نماز پڑھ سکے۔
اسی طرح کسی ایک جگہ اجتماعی طور پر رہنے والے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور رفیقوں میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن کر رہیں اور ایک دوسرے کو نماز پڑھنے اور عبادت خداوندی میں مشغول و مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ کسی آدمی پر بھلائی کے معاملے میں جبر کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! کس وقت کی دعا بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آخری تہائی رات میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (جامع ترمذی)
اور حضرت ابو مالک اشعری راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کے باہر کی چیزیں اندر اور اندر کی چیزیں باہر دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ بالا خانے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کئے ہیں جو دوسرے لوگوں سے نرمی سے بات کرتے ہیں (غریب و ناداروں کو) کھانا کھلاتے ہیں، پے در پے (یعنی اکثر) نفل روزے رکھتے ہیں اور رات کو ایسے وقت (تہجد) کی نماز پڑھتے ہیں جب کہ (اکثر) لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ نیز جامع ترمذی نے بھی اس طرح کی روایت کو حضرت علی المرتضیٰ سے نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں لمن اطاب الکلام کے الفاظ ہیں (اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں)۔
تشریح
بعض علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں پے در پے نفل روزے رکھنے کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے تو اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ ہر مہینے میں کم سے کم تین روزے بہ نیت نفل رکھے جائیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک روز) مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ (دیکھو) فلاں آدمی کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا (یعنی تہجد کی نماز پڑھتا تھا) پھر بعد میں رات کے قیام کو اس نے چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
کوئی صحابی ہوں گے جو پہلے تو تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے مگر پھر بعد میں بغیر کسی عذر کے محض نفس کی خواہش میں مبتلا ہو کر اس عظیم سعادت سے کنارہ کشی کر بیٹھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو متنبہ فرمایا کہ دیکھو کہیں تم بھی انہیں کی طرح نماز تہجد کو چھوڑ کر فریب نفس میں مبتلا نہ ہو جانا کیونکہ ایسے لوگ جو نیک عمل کی عادت اور اپنے معمولات دینی کو بغیر کسی عذر و مجبوری کے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے سلسلے میں داخل ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں صحیح فیصلہ یہی ہے کہ تَارِکُ الْوِرْدِ مَلْعُونٌ (یعنی معمولات دینی کو چھوڑنے والا ملعون ہے۔)
گویا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت خداوندی کو ترک کر دینا اور عادت یعنی نفسانیت کے غلط راستے کی طرف لوٹنا درحقیقت سعادت مندی اور صلاح و فلاح میں زیادتی کے بعد نقصان کا واقع ہو جانا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بایں طور پناہ مانگی ہے کہ نعوذ باللہ من الحور بعد الکور (یعنی ہم زیادتی کے بعد نقصان کے واقع ہو جانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔
لہٰذا راہ طریق و شریعت کے سالک کو چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی عبادت خداوندی اور ذکر اللہ کی عادت کو ترک نہ کرے اور اس میں کمی نہ اختیار کرے بلکہ ان میں زیادتی ہی کا طالب رہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے جو آدمی زیادتی کا طالب نہیں ہے وہ نقصان کے راستے پر ہے۔
اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت داؤد کے لیے رات (کے آخری نصف حصہ میں) ایک وقت مقرر تھا جس میں وہ اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور فرماتے کہ آل داؤد ! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں اللہ بزرگ و برتر دعا کو قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر اور عشار (کی دعا) کے (یعنی ان دونوں کی دعا اس وقت بھی قبول نہیں ہوتی۔) (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
عشار سے چوکیدار قسم کے وہ راہزن مراد ہیں جو راستوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگوں کے مال از راہ ظلم لے لیتے ہیں اس سے وہ عمال بھی مراد لیے جا سکتے ہیں جو محصول وغیرہ کی وصولیابی کے لیے مقرر ہوتے ہیں اور نا جائز و غلط طریقے پر لوگوں سے ان کے مال و اسباب غصب کرتے ہیں۔
بہر حال حاصل یہ ہے کہ اس مقدس ساعت اور رحمت خداوندی کے عام فیضان کے اس بابرکت موقع پر بھی ساحر یعنی جادوگر اور عشار کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ ان لوگوں سے اللہ کی مخلوق کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور پروردگار عالم ان لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بہتر معاملہ نہیں فرماتا جو اس کی مخلوق کے لیے ایذا رسانی اور تکلیف و مصیبت کا سبب بنتے ہیں ، وجہ سے بعض عارفین کا یہ عارفانہ ارشاد ہے کہ کمال عبودیت یعنی پوری طرح اللہ کا بندہ ہو جانا چاہیے کہ حکم خداوندی کی تعظیم کی جائے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و مہربانی کا برتاؤ کیا جائے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کو پڑھی جانے والی (یعنی تہجد کی) نماز ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
حضرت میرک شاہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت ابو اسحٰق مروزی شافعی کے اس قول کی دلیل ہے کہ تہجد کی نماز سنن رواتب سے افضل ہے جبکہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ سنن رواتب افضل ہیں چنانچہ ابو اسحٰق مروزی ہی کا قول قوی تر ہے کیونکہ یہ حدیث صراحت کے ساتھ ان کے قول کی تائید کر رہی ہے۔
بہر حال اس مسئلے کی تحقیق یہ ہے کہ نماز تہجد بایں طور افضل ہے کہ اس نماز میں نفس بہت زیادہ مشقت میں مبتلا ہوتا ہے اور اس نماز کو پڑھنے والا ریا و نمائش سے بعید ہوتا ہے اور سنن رواتب بایں جہت افضل ہیں کہ فرض نمازوں کے ساتھ ان کے پڑھنے کے بہت تاکید کی گئی ہے نیز یہ کہ سنن رواتب فرض نمازوں کے لیے متمم ہیں یعنی ان کے ذریعے فرض نمازیں درجہ کمال و اتمام کو پہنچتی ہیں، لہٰذا اس طرح دونوں کی افضلیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے اور دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں ہے ، یا پھر رات کی نماز کی فضیلت کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ رات کی نماز اس لیے افضل ہے کہ یہ وتر پر بھی مشتمل ہے اور وتر واجب ہے۔
سید الطائف حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ انتقال کے بعد انہیں کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ پروردگار نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ
تاھت العبادات وفنیت الا شارات وما نفعنا الا رکعات صلینا ھا فی جوف اللیل۔
وہ باتیں جو میں حقائق و معارف کے بیان میں کہتا تھا جاتی رہیں اور وہ نکات جو میں بیان کیا کرتا تھا ختم ہو گئے مجھے تو صرف نماز کی ان چند رکعتوں نے فائدہ دیا جو نصف شب کو پڑھا کرتا تھا۔
گویا طالبین راہ حقیقت و شریعت اور سالکین راہ طریقت کو ترغیب دلائی گئی کہ تصوف و طریقت کے حکمات و نکات کے پیچھے نہ پڑو اور گفتار کے نہیں کردار کے غازی بنو، عملی زندگی کو سنوار نے اور اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانے کی پوری پوری کوشش کرو اور عبادت و ریاضت کا پورا پورا اہتمام کرو کیونکہ اسی میں دنیا کی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی۔
کارکن کار، بگزر از گفتار
کاندریں راہ کار دارو کار
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تو نماز پڑھتا ہے مگر صبح اٹھ کر چوری کرتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تم کہہ رہے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل ، بیہقی)
تشریح
نماز کی خاصیت ہے کہ وہ انسان کو برائی کے راستے سے روکتی ہے اور نیکی کے راستے پر گامزن کرتی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
آیت ( ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ) 29۔ العنکبوت:45)
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جب ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات کو تو عبادت خداوندی یعنی نماز تہجد میں مشغول رہتا اور صبح اٹھ کر چوری جیسے برے فعل کا مرتکب ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرمایا کہ اگر وہ خلوص نیت اور جذبہ خالص کے تحت رات کی نماز پر مداومت کرتا ہے تو انشاء اللہ جلد ہی اللہ تعالیٰ اس نماز کی برکت سے اسے اس فعل قبیح سے توبہ کی توفیق عطا فرما دے گا اور اپنے قلب و دماغ میں نماز کی برکت و نورانیت کے اثر کی وجہ سے وہ چوری سے باز رہے گا۔
اور حضرت ابو سعید خدری و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی رات میں بیوی کو جگائے اور وہ دونوں نماز پڑھیں ، یا یہ فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک دو رکعتیں اکٹھی پڑھیں تو وہ (دونو) ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کر نے والی عورتوں (کے زمرے) میں لکھے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد و ابن ماجہ)
تشریح
حدیث میں لفظ اہل سے مراد صرف بیوی بھی لی جا سکتی ہے اور بیوی اولاد، غلام اور لونڈیاں بھی مراد لی جا سکتی ہیں۔ درمیان روایت میں راوی کو شک واقع ہو گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ فَصَلَّیَا (یعنی اور وہ دونوں نماز پڑھیں) فرمایا ہے۔ یا لفظ صلی (یعنی ہر ایک دو رکعتیں اکٹھی پڑھیں) فرمایا ہے۔ بہر کیف یہ صرف لفظی اختلاف ہے دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔
آیت (وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰہ كَثِيْراً وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہ لَہمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْراً عَظِيْماً 35) 33۔ الاحزاب:35)
اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور بہت زیاہ ثواب (کا اجر و انعام) تیار کر رکھا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو خود بھی اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھے گا اور ذکر اللہ میں مشغول رہے گا اور اپنی بیوی و دیگر اہل خانہ کو بھی جگا کر اللہ کی عبادت میں مشغول رکھے گا تو ان سب کا شمار ان نیک و با سعادت مرد و عورتوں میں ہو گا جن کی فضیلت اس آیت میں بیان کی جاری ہے۔
اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری امت کے اشراف یعنی بلند مرتبہ لوگ قرآن اٹھانے والے (اور رات (میں اٹھنے) والے ہیں۔ (بیہقی)
تشریح
قرآن اٹھانے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم یاد کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں بایں طور کہ قرآن نے جن امور کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کو کرتے ہیں اور جن امور سے منع کیا ہے ان سے بچتے ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ میری امت کے بلند مرتبہ اور با سعادت افراد ہیں، چنانچہ قرآن حفظ کرنے والے اور اس کے احکام کے پابند لوگوں کی فضیلت ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جس آدمی نے قرآن حفظ کیا تو بیشک اس پر فیضان نبوت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں مگر اس کے پاس وحی (یعنی وحی جلی) نہیں آتی، البتہ وحی خفی اس کے پاس آتی ہے (یعنی وحی جلی کے مطالب و معارف کا فیضان اس کے قلب و دماغ پر ہوتا ہے) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم حفظ کرنے والا آدمی اس وجہ سے بہت زیادہ فضیلت و سعادت کا پیکر مانا جاتا ہے کہ اس کے قلب کے اندر قرآن کے الفاظ کی شکل میں نور نبوت و دیعت فرما دیا جاتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وحی خفی یعنی قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطالب و معارف کا فیضان اس کے قلب و دماغ کو منور کر دیتا ہے اور قرآن کے الفاظ کے نور کی برکت سے وحی جلی پر (جو کہ انبیاء کا مخصوص حصہ ہے) اس کا ایمان و ایقان قوی تر ہوتا ہے۔
علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ قرآن حفظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یاد کرے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالے ، بایں طور کہ قرآن نے جو احکام دیے ہیں ان پر پوری قلبی خلوص اور مداومت کے ساتھ عمل کرے ورنہ تو محض قرآن یاد کرنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ان لوگوں میں شمار کیا جاتا جن کے بارے میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ
آیت ( كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَاراً ) 62۔ الجمعہ:5)
یعنی (جو لوگ حافظ قرآن ہوں مگر عامل قرآن نہ ہوں تو) وہ ایسے ہیں جیسے کہ گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں۔
یعنی جس طرح کہ گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھے کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا بالکل اسی طرح قرآن پر عمل کرنے والے حافظ کو بھی قرآن حفظ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ سعادت و مرتبے کے اعتبار سے کسی بھی حیثیت میں نہیں ہوتا۔
اَصْحَابُ اللَّیْلِ (رات والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز و قرآن پڑھنے کے شب بیداری پر مداومت کرتے ہیں یعنی پابندی کے ساتھ روزانہ رات کو اٹھتے ہیں اور عبادت خداوندی و ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں ایسے لوگ خدا اور اللہ کے رسول کی نظروں میں بڑی فضیلت کے حامل ہوتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق امت مرحومہ کے بلند مرتبہ افراد میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ ان کے پدر بزرگوار حضرت عمر بن خطاب رات کو جس قدر اللہ چاہتا نماز پڑھتے رہتے اور رات جب آخر ہوتی تو اپنی زوجہ محترمہ کو نماز پڑھنے کے لیے اٹھاتے اور فرماتے کہ نماز پڑھو ، پھر یہ آیت پڑھتے (وَاْمُرْ اَہلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہا ۭ لَا نَسَْٔلُكَ رِزْقاً ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢ ) 20۔طہ:132) (اور اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) اپنے متعلقین کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس (کی مشقتوں) پر صبر کیجئے ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے رزق نہیں مانگتے ، رزق ہم ہی آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دیتے ہیں اور آخرت کی بھلائی تو پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔ (مالک)
تشریح
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے متعلقین اور اہل خانہ کو نماز پڑھنے کی ہدایت کرتے رہیے اور خود بھی نماز پڑھنے کی مشقتوں محنتوں پر صبر کیجئے اور اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلقین کو بھی جو محنت و مشقت اٹھانی پڑے اسے بھی برداشت کیجئے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مشغول رہیے ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کیجئے ، اسی سے ظاہری و باطنی غناء کے لیے مدد کے طلبگار رہیے اپنے رزق اور معاش کی فکر نہ کیجئے اور دیکھئے ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے رزق نہیں مانگتے کہ اپنے رزق اور اسباب معیشت کے حصول اور دوسروں کے لیے رزق کی ذمہ داری آپ کو جدوجہد اور محنت و سعی کے ایسے بندھنوں میں باندھ دے جو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے لیے ادائیگی نماز میں رکاوٹ بن جائے جس طرح ہم دوسروں کو رزق دیتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بھی رزق بخشتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا کام تو صرف یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے امور سے منہ موڑ کر اپنے قلب و دماغ کو صرف آخرت کی بھلائی اور اپنے متعلقین کی اصلاح میں مصروف رکھیے اور یہ جان لیجئے کہ عاقبت محمودہ یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ انجام کار بخیر ہونا صرف متقیوں اور اللہ کے نیک بندوں ہی کے لیے ہے
اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ جس طرح دنیاوی امور میں افراط و تفریط یعنی حد سے زیادہ زیادتی اور حد سے زیادہ کمی غیر نفع بخش ہے اسی طرح دینی امور یعنی اعمال نفل میں بھی افراط و تفریط مطلوب نہیں ہے بلکہ اس راستے پر بھی میانہ راوی اور ان میں اعتدال اختیار کرنا ضروری ہے۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم مہینہ (کے اکثر ایام) میں (نفل) روزہ نہ رکھتے ، یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مہینہ (اسی مہینے یا دوسرے مہینے کے اکثر ایام) میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ اب (اس مہینے کا) کوئی دن بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر روزے کے نہیں چھوڑیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو نماز پڑھتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے ہو تو نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ لیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو سوتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے ہی دیکھ لیتے۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعمال نفل میں اعتدال کی راہ اختیار فرماتے تھے چنانچہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ روزہ ہی رکھتے تھے کہ افراط یعنی زیادتی لازم آتی اور نہ ہمیشہ بغیر روزے کے ساتھ رہتے تھے کہ تفریط یعنی کمی لازم آتی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ ہر مہینے میں کچھ دن تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزے سے رہا کرتے تھے اور کچھ دن بغیر روزے کے۔
اسی طرح نفل نماز کے سلسلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے نہ تو تمام رات سوتے ہی تھے اور نہ تمام رات نماز ہی میں گزارتے تھے۔ غرضیکہ تمام امور میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل اوسط درجے کا تھا ، نہ زیادہ تھا اور نہ کم تھا۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (بندوں کے نیک اعمال میں) اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ اہل تصوف و طریقت اسی حدیث کے پیش نظر اوراد و وظائف کو ترک کرنا ایسا ہی برا جانتے ہیں جیسا کہ فرائض کے ترک کو، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ ترک اولیٰ ہے یعنی فرائض کے ترک اور اوراد و وظائف کے ترک میں فرق ہے ، فرائض کا ترک گناہ کبیرہ ہے جبکہ اوراد و وظائف کا ترک اولیٰ کا ترک کرنا ہے اور ظاہر کہ اولیٰ کا ترک کرنا فرائض کے ترک کرنے کے درجے میں نہیں آ سکتا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب بندے نے طاعت بغیر ضرورت کے ترک کی تو گویا اس نے مولی کی عبادت سے اعراض کیا لہٰذا وہ عتاب کا مستحق ہوا ، بخلاف مداومت کرنے والے کے کہ وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ پروردگار کا محبوب ہو۔
وَاِنْ قَلَّ (اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو) کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا عمل اگر اس پر مداومت و مواظبت اختیار کی جائے تو وہ زیادہ عمل سے جب کہ اس کے آداب و شرائط کی رعایت نہ ہوتی ہو اور ہمیشہ نہ کیا جاتا ہو ، بہتر ہے۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اسی قدر عمل کیا کرو جتنی کہ (ہمیشہ) کرنے کی طاقت رکھتے ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے میں) تنگی نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود تنگی نہ کرو (یعنی تنگ آ کر عبادت ہی نہ چھوڑ دو)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنے لیے اتنی زیادہ عبادت ضروری قرار نہ دے دو جسے تم ہمیشہ نباہنے کی طاقت نہ رکھتے ہو بلکہ اسی قدر عبادت کرو کہ جتنی تم ہمیشہ پابندی کے ساتھ کر سکو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے میں تنگی نہیں کرتا یعنی ثواب دینا ترک نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کی زیادتی سے پریشان ہو کر سرے سے عبادت ہی نہ چھوڑ دو۔
حاصل یہ کہ اللہ جل شانہ عبادت کرنے والے کو ثواب دئیے جاتا ہے ہاں اگر کوئی آدمی زیادتی کے سبب تھک کر عبادت چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ثواب دینا بھی چھوڑ دیتا ہے لہٰذا عبادت کے معاملے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہمیشہ عبادت جاری رہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے ثواب کا سلسلہ بھی قائم رہے
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہیں چا ہے کہ اسی وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ خوش دلی رہے اور جب طبیعت سست ہو جائے تو بیٹھ جاؤ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی راہ سعادت اور بھلائی اختیار کرنے والے کو چاہیے کہ عبادت میں اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کوشش کرے طاعت کے معاملے میں میانہ روی اختیار کرے اور تنگ دلی و انقباض کے ساتھ عبادت کرنے سے احتراز کرے۔ عبادت اسی وقت تک کرے جب تک کہ بشاشت قلبی اور سکون و اطمینان حاصل رہے۔ جب طبیعت سست ہو جائے تو عبادت ترک کر دے ، اگر کوئی آدمی عبادت کرتے کرتے تھک جائے اور سست ہو جائے ، نیز عبادت چھوڑ کر اس خیال سے کسی امر مباح میں مشغول ہو جائے مثلاً سو جائے یا گفتگو وغیرہ میں لگ جائے تاکہ آئندہ عبادت کے لیے مزید بشاشت و خوشی اور اطمینان و سکون حاصل ہو سکے تو اس کی یہ مشغولیت عبادت و طاعت ہی میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ عالم کی نیند (بھی) عبادت ہے
کسالت و ملالت اور طبیعت کی تنگی کے وقت نفل اعمال کو ترک کر دینے کے سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ایسے موقعہ پر جبکہ طبیعت میں اضمحلال اور سستی پیدا ہو جائے نفل اعمال کو ترک کر دینے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ عمل کا نفس پر گراں ہونا آخر کار عمل کے بالکل چھوٹ جانے یا اس میں نقصان واقع ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ نفس کو بہت زیادہ عبادت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ طبیعت عبادت کی مشقت و ریاضت کی خوگر ہو جائے ، کاہل طبیعت ، آرام طلب اور سست مزاج لوگوں کی طرح ہو جانا چاہیے جو کہ مختصر سی عبادت اور تھوڑے سے عمل میں بھی تھک جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت و مجاہدہ کو ادھورا چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن بہت زیادہ عبادت کرنے کی اگر عادت پڑ جاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ عبادت طبیعت پر گراں نہیں ہوتی، چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو پہلے دو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے ایک پارے کی تلاوت بھی گراں گزرتی تھی اور اس کی وجہ سے ان کی طبیعت میں سستی و اضمحلال پیدا ہو جاتا تھا انہوں نے ہی جب زیادہ عبادات اور ریاضت و مجاہدہ کی عادت پیدا کر لی اور اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو راہ خداوندی کی سعادتوں کے حصول کی خاطر مشقت و محنت کا عادی بنا لیا تو انہیں سو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے دس پاروں کی تلاوت بھی آسان معلوم ہونے لگی۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کی حالت میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ سو رہے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی اونگھتاہوا نماز پڑھتا ہے تو نیند کے غلبے کی وجہ سے اسے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ وہ تو مغفرت کا طالب ہو مگر (اونگھنے کی وجہ سے) اپنے نفس کے لیے (اس کی زبان سے) بد دعا نکل جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ کہ نیند کے غلبے اور اونگھنے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ ایسے وقت پر نہ تو دل و دماغ حاضر رہتے ہیں اور نہ زبان ہی قابو میں ہوتی ہے یہی وجہ سے کہ ایسی حالت میں انسان کہنا کچھ چاہتا ہے مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اس پر نیند کا غلبہ ہے اور وہ اونگھ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل و دماغ اور زبان پر غفلت و سستی کا قبضہ ہے اب وہ اس حالت میں کہنا چاہتا ہے
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔۔۔اے اللہ میری مغفرت فرما۔
مگر نیند کی غفلت اس کی زبان یہ الفاظ ادا کر رہی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اعفِرْلی۔۔۔ اے اللہ مجھے خاک آلود کر دے۔
دیکھا آپ نے؟نیند کی غفلت سے صرف ایک نقطے کے فرق نے کیا گل کھلا دیا کہاں تو اپنی مغفرت اور آخرت میں اپنی عزت و کامیابی کی دعا مانگنا چاہتا تھا اور کہاں اپنے نفس کے لیے بد دعا کے الفاظ نکال کر ذلت و خواری کا سامان کر بیٹھا، اسی لیے منع کیا جا رہا ہے کہ جب نیند کا غلبہ ہو اور اونگھ کا تسلط ہو تو ایسے وقت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیشک دین آسان ہے لیکن جو آدمی دین میں سختی کرتا ہے دین اس پر غالب آ جاتا ہے لہٰذا (دینی) امور میں میانہ روی اور اپنی طاقت کے مطابق عمل اختیار کرو اور جنت و سلامتی نیز اللہ رب العزت کے انعامات و اکرامات کے ساتھ خوش رہو (کیونکہ اللہ رب العزت تو تھوڑے ہی سے عمل پر) اگر وہ مداومت اور خلوص نیت کے ساتھ ہو تو بہت زیادہ ثواب دیتا ہے اور صبح کے وقت شام کے وقت نیز کچھ رات کے آخری حصے میں بھی اللہ رب العزت سے مدد مانگو۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس حدیث میں صفائی کے ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے کہ دین بہت آسان ہے انسانی مزاج و فطرت کے عین مطابق ہے اور انسان کی ذہنی، فکری ، عملی قوتیں بڑے سکون کے ساتھ اس کی ہمنوا بن سکتی ہے۔ ہاں اس کا تو کوئی علاج نہیں کہ کوئی آدمی اپنی طرف سے بے جا پابندیاں عائد کر کے اعمال کی زیادتی کرے اور دین شریعت میں اپنی طرف سے باتیں بڑھا کر خود ہی اپنے اوپر مشکلات و تنگیوں کو مسلط کرے۔
چنانچہ یہاں صراحت کے ساتھ حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ دین کے احکام بہت آسان مقرر کئے ہیں اس لیے رہبانیت کے طور پر ان احکام کو اپنے لیے سخت و ہیبت ناک نہ بناؤ۔
دین اس پر غالب آ جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے نفس پر غیر واجب باتیں واجب کر لیتا ہے اور مشکل طریقوں سے عبادت کی مشغولیت اختیار کر لینا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے یعنی وہ بعد میں دین کے حق کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہے اس طرح وہ مغلوب اور دین غالب ہو جاتا ہے۔
قَارِبُوْا کا مطلب یہ ہے کہ سہولت اور آسانیوں کے ساتھ دینی امور کے قریب ہو جاؤ اور اپنے اوپر بے جا پابندیوں کو عائد کر کے اور سختی و مشکلات میں اپنے آپ کو مبتلا کر کے دین سے بعد اختیار نہ کرو۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ قَارِبُوْا دراصل سَدِّدُوْا (یعنی میانہ روی اختیار کرو) کی تاکید ہے لہٰذا جو معنی سَدِّدُوْا کے ہیں وہی معنی قَارِبُوْا کے ہیں بعض حضرات نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اللہ جل شانہم کاقرب ڈھونڈو۔
بہر حال حدیث کا اصل یہ ہے کہ بہت زیادہ عبادت نہ کرو کہ ہر وقت اپنے آپ کو عبادت کی محنت و مشقت ہی میں مبتلا رکھو بلکہ ان تین اوقات میں عبادت کر لینے ہی کو غنیمت جانو یعنی دن کے ابتدائی حصے میں، دن کے آخری حصے میں اور رات کے آخری حصے میں، یہ تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (جو آدمی رات کو پورا وظیفہ پڑھے بغیر سو رہا یا وظیفہ کا کچھ حصہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس نے اس کو نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے لیے یہی لکھا جائے گا کہ گویا اس نے رات ہی کو پڑھا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی آدمی نے کلام اللہ، نماز اور اذکار کی قسم سے کچھ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے جسے وہ رات کو پڑھتا ہے مگر کسی دن وہ سو گیا اور اس کا پورا وظیفہ یا اس وظیفے کا کچھ حصہ رات کو پڑھنے سے رہ گیا اور اس نے نماز فجر، اور نماز ظہر کے درمیان یعنی زوال سے پہلے پڑھ لیا تو اس کے لیے رات ہی میں پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
اسی طرح دن کے وظیفہ کا حکم ہے کہ اگر دن کو وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس رات کو پڑھ لیا تو اس کے لیے دن میں ہی پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے رات دن آپس میں ایک دوسرے کے خلیفے ہیں۔
حدیث میں صرف رات کے وظیفے ہی کے بارے میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اکثر و بیشتر رات ہی کا وظیفہ رہ جاتا ہے یعنی نیند کے غلبے کی وجہ سے نماز تہجد اوراد و اذکار فوت ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
اور حضرت عمران بن حصیبن راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز کھڑے ہو کر پڑھو ، اور اگر (کسی عذر کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر) قادر نہ ہو سکو تو بیٹھ کر پڑھو ، اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے پر بھی) قادر نہ ہو سکو تو (پھر) کروٹ پر پڑھو۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اگر کوئی آدمی کسی عذر شدید مثلاً سخت بیماری وغیرہ کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو بیٹھ کر اپنی نماز ادا کرے اور اگر عذر اتنا شدید ہو کہ بیٹھ کر بھی قدرت سے باہر ہو تو پھر آخری مرحلہ یہ ہے کہ (لیٹے لیٹے) کروٹ سے بقبلہ ہو کر پڑھ لے پھر اس میں بھی اتنی آسانی کہ اگر کوئی آدمی قبلے کی طرف منہ نہ کر سکے یا یہ کہ کوئی آدمی ایسا پاس موجود نہ ہو جو معذور کا منہ قبلے کی طرف کر سکے تو جس طرف بھی منہ ہو ادھر ہی کی طرف پڑھ لے ، ایسے موقع پر کسی بھی سمت منہ کر کے نماز پڑھ لینا جائز ہے۔
حنفیہ فرماتے ہیں کہ لیٹ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ رو بقبلہ ہو کر چت لیٹے کندھے کے نیچے تکیہ رکھ کر سر کو اونچا کرے اور اشاروں سے نماز پڑھے۔ چنانچہ دارقطنی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس سے چت لیٹ کر ہی نماز پڑھنے کا اثبات ہوتا ہے یہاں جو حدیث ذکر کی گئی ہے اس کے بارہ میں حنفیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم بطور خاص حضرت عمران کے لیے فرمایا تھا کیونکہ وہ بواسیر کے مرض میں مبتلا تھے اور چت نہیں لیٹ سکتے تھے لہٰذا یہ حدیث دوسروں کے لیے حجت نہیں ہو سکتی۔
آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم فرض نماز کے لیے ارشاد فرمایا ہے اس لیے نفل نمازوں میں یہ بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔
اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو (کھڑے ہونے کی طاقت رکھنے کے) باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہتر تو وہی ہے جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے لیکن جو آدمی (نفل) نماز (بغیر عذر) کے بیٹھ کر پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت نصف ثواب ملے گا۔ (صحیح البخاری)
تشریح
یہ حدیث نفل نماز پر محمول ہے کیونکہ فرض نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے ہاں اگر کوئی عذر ہو تو قیام ساقط ہو جاتا ہے اور معذور بیٹھ کر فرض نماز بھی پڑھ سکتا ہے۔
بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نفل نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنے والے کو نماز کا پورا ثواب نہیں ملتا بلکہ جتنا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کو ملتا ہے اس کا نصف ثواب اسے ملتا ہے ہاں اگر کوئی عذر ہو کہ کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو تو پھر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اسے بھی پورا ثواب ملے گا۔
بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں: حضرت علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جو آدمی کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نفل نماز پڑھ سکتا ہے اور اسے قیام و قعود کی قدرت نہیں ہے تو آیا اس آدمی کے لئے نفل نماز لیٹ کر پڑھنا جائز ہے یا نہیں چنانچہ بعض علماء تو کہتے ہیں کہ بغیر عذر کے لیٹ کر نفل نماز جائز نہیں۔ مگر علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔
نیز اس جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنے والے کو بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے چنانچہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور حدیث سے ثابت ہونے کی وجہ سے یہی قول صحیح تر اور اولیٰ ہے۔
مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جائز نہیں ہے اور اس حدیث کے بارے میں ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ حدیث فرض نماز کے بارے میں ہے کہ اگر کوئی آدمی اس درجے بیمار ہو کہ مرض کی زیادتی اور شدت کے باوجود کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز پڑھنا اس کے لیے ممکن ہو تو اسے لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملے گا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی (وضو یا تیمم کے ذریعے نجاستوں سے یا یہ کہ گناہوں سے) پاک ہو کر اپنے بستر پر لیٹے اور نیند آنے تک (زبان سے یادل سے) ذکر اللہ میں مشغول رہے تو وہ رات کو جب بھی اس حال میں کروٹ بدلے کہ اللہ جل شانہ سے دنیا اور آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی ضرور دیتا ہے ، (یہ حدیث علامہ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب الاذکار میں ابن السنی کی روایت سے نقل کی ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمارا رب دو آدمیوں سے بہت خوش ہوتا ہے ایک تو وہ آدمی جو رات کو اپنے نرم بستر و لحاف سے اور اپنی محبوبہ اور بیوی کے پاس سے (تہجد) کی نماز کے لیے اٹھتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے میرے بندے کی طرف دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت اور ثواب) کے شوق سے اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ اور عذاب) کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرش و نرم بستر اور اپنی محبوبہ اور بیوی کو چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے کے لیے اٹھا۔ اور دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور (بغیر کسی شدید عذر کے) اپنے ساتھیوں سمیت میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا، مگر جب اسے بلا عذر میدان جہاد سے بھاگ نکلنے کی سزا ، اور پھر جنگ میں واپس آ جانے کا ثواب یاد آیا تو (میدان کار زار میں) واپس آگیا اور (اللہ کے دشمنوں سے) اس قدر لڑا کہ جام شہادت نوش کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میرے بندے کی طرف (بنظر تعجب) دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت و ثواب) کے شوق میں اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ و عذاب) کے خوف سے (میدان جنگ میں) لوٹ آیا اور راہ خدا میں یہاں تک لڑا کہ اپنی جان بھی دے دی۔ (شرح السنۃ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رات کے پر سکون ماحول اور آرام میں کسی آدمی کے لیے نرم بستر، آرام دہ لحاف اور محبوب بیوی کا قرب ہی سب سے زیادہ پسندیدہ اور پیاری چیزیں ہوتی ہیں مگر اس کے باجود وہ آدمی اپنے رب کی عبادت اور اس کی جزاء و انعام کے شوق میں ان سب چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اور پروردگار کے حضور اپنی بندگی و عبودیت کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی تمام پسندیدہ چیزیں دنیا میں تو قلب و دماغ کے سکون اور انسانی عیش و مسرت کا سامان بن سکتی ہیں مگر نہ تو یہ قبر میں نفع پہنچائیں گی اور نہ حشر میں کامیابی و سرخروئی کی ضامن ہوں گی۔ قبر اور حشر میں تو صرف پروردگار کی اطاعت اور اس کی عبادت ہی کام آئے گی اور وہی سعادت و کامیابی کی منزل سے ہم کنار کریں گی۔
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے واسطے عبادت کرنا اور اس پر ثواب کی امید رکھنا اخلاص اور کمال کے منافی نہیں ہے اگرچہ یہ اکمل درجے کے منافی ہے کیونکہ عبادت کے سلسلے میں اکمل درجہ یہی ہے کہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے اور اس سے کوئی غرض مثلاً ثواب کا حصول یا عذاب کا خوف وابستہ نہ ہو لیکن ہاں کوئی آدمی اگر عبادت محض ثواب کے واسطے یا عذاب کے خوف سے کرتا ہے تو اسے یہ نہ جان لینا چاہیے کہ اس کی یہ عبادت، عبادت نہیں صرف تضیع اوقات ہے۔
٭٭حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (بغیر عذر) بیٹھ کر (نفل) نماز پڑھنے والے کی نماز (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا (اتفاق سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے (جب نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز آدھی ہوتی ہے اور اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے (یعنی تم نے جو کچھ سنا ہے) صحیح ہے لیکن میں تم جیسا تو نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اہل عرب کی عادت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی سے کوئی تعجب کی بات دیکھتا ہے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور ان کے نزدیک ایسا کرنا کوئی خلاف ادب نہیں ہے بلکہ یہ کمال محبت اور انتہائی بے تکلفی کے سبب سے ہوتا ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے انتہا درجے کی محبت اور بے تکلفی تھی اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھ لی تو انہوں نے بھی از راہ تعجب اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر رکھا اور انہیں تعجب اس بات پر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو افضل بات پر عمل کیا کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھ کر نماز کیوں پڑھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ نہ تو دوسروں پر مجھے اور نہ مجھ پر دوسروں کو قیاس کرو کیونکہ یہ تو صرف میری خصوصیت ہے کہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھتا ہوں تو میری نماز ناقص نہیں ہوتی ہے ، میں چا ہے جس طرح بھی نماز پڑھوں میری نماز پوری ادا ہوتی ہے۔
اور حضرت سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ (ایک دن) قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی کہنے لگا کہ کاش میں نماز پڑھتا اور راحت پاتا جب لوگوں نے اس کے اس کہنے کو برا سمجھا تو اس نے کہا کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا کہ بلال ! نماز کے لیے تکبیر کہو تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں۔ (ابوداؤد)
تشریح
نماز کی تاثیر انسانی راحت و اطمینان اور قلبی سکون ہے جو آدمی خلوص قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اسے ایک عجیب قسم کی راحت ملتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں سکون و اطمینان کے خزانے بھر جاتے ہیں چنانچہ قبیلہء خزاعہ کے مذکورہ آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ نماز پڑھوں اور پھر اپنے پروردگار کی عبادت ، اس کی مناجات اور حمد اور اس کے کلام پاک کے پڑھنے کی لذت سے راحت و سکون حاصل کروں۔
لوگوں نے اس کے کہنے کو جو برا سمجھا تو ایک وجہ تھی وہ یہ کہ اس کے قول کے دو معنی محتمل تھے اول تو یہ کہ نماز کے ذریعے راحت پاؤں دوسرے یہ کہ نماز سے راحت پاؤں یعنی نمازپڑھ کر آرام سے بیٹھ جاؤں۔ اس کی مراد تو اول معنی تھے لیکن لوگوں نے دوسرے معنی مراد لیے جو انہیں پسند نہیں تھے اس لیے اس نے لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اور مراد کو واضح کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال سے فرمایا تھا نقل کیا کہ اے بلال تکبیر (اقامت) کہو تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تو بس اللہ کی عبادت ہی میں راحت تھی اور نماز میں مشغول رہنا ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے آرام و سکون کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ نماز ہی کے اندر اپنے پروردگار کی بڑائی اور اپنے خالق کی مناجات و حمد بیان کی جاتی ہے کہ ایک کامل و اکمل بندے کا اپنے پروردگار کی مناجات میں مشغول رہنا ہی اس کے لیے سب سے بڑی راحت ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ
قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلٰوۃ
مجھے تو نماز (ہی) میں راحت ملتی ہے۔