کفار کے خوف اور دشمن کے مقابل ہونے کے وقت جو نماز پڑھی جاتی ہے اسے نماز خوف کہتے ہیں۔ خوف کی نماز کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ نیز اکثر علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد یہ نماز باقی اور ثابت ہے اگرچہ بعض حضرات کا قول ہے کہ نماز خوف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ نیز بعض حضرات مثلاً حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ نماز حالت سفر کے ساتھ مخصوص ہے۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک یہ نماز سفر و حضر دونوں صورتوں میں جائز ہے۔
بحسب اختلاف زمانہ و مقام یہ نماز متعدد طریقوں سے روایت کی گئی ہے چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سولہ طریقوں سے منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس سے زائد اور بعض نے اس سے کم کہا ہے لیکن علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث میں جتنے بھی طریقے منقول ہیں تمام کے تمام معتبر ہیں علماء کے ہاں اختلاف صرف ترجیح اور فوقیت کے بارے میں ہے کہ کسی نے کسی طریقے کو ترجیح دی ہے اور اس پر عمل کیا ہے جو صحاح ستہ میں مذکور ہے۔
علامہ شمنی نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز خوف چار جگہ پڑھی ہے۔ ذات الرقاع بطن نخل، عسفان اور ذی قرد۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نماز خوف تھی تو حالت سفر میں مگر فقہاء نے اس پر قیاس کرتے ہوئے اس نماز کو حضر میں بھی جائز رکھا ہے۔
حضرت سالم ابن عبداللہ ابن عمر اپنے والد (حضرت عبداللہ ابن عمر) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گئے (جب) ہم دشمنوں کے سامنے ہوئے تو ہم نے ان (سے مقابل) ہونے کے لیے صفیں باندھ لیں، رسول اللہ ہمیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ کے ساتھ (نماز کے لیے) کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے مد مقابل کھڑی رہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے ساتھ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (نماز کی جماعت میں) شریک تھے ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے پھر وہ لوگ (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز میں تھے) ان لوگوں کی جگہ چلے گئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی (اور دشمن کے مد مقابل کھڑے تھے) جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ آئے (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز میں شریک ہو گئے) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے ہمراہ ایک رکوع اور دو سجدے کئے پھر سلام۔ اور یہ لوگ کھڑے ہو گئے اور ہر ایک نے اپنا اپنا ایک رکوع اور دو سجدے کر لیے ۔ نافع نے بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ مگر انہوں نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ اگر (عین جنگ کی حالت ہو اور) خوف اس سے بھی زیادہ ہو (کہ مذکورہ بالا طریقہ سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو) تو لوگ پیادہ کھڑے کھڑے یا (پیادہ نہ ہو سکیں تو) سواری پر اگر (ممکن ہو تو) قبلے کی طرف یا (اور اگر ممکن نہ ہو تو) کسی بھی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیں حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی نقل کئے ہوں گے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
نجد بلند زمین کو کہتے ہیں یہاں نجد سے مراد نجد حجاز ہے۔ نجد یمن مراد نہیں ہے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تعدد جماعت یعنی کئی کئی مرتبہ جماعت کرنا مکروہ ہے خصوصاً جب کہ تمام نمازی حاضر ہوں۔ ایسے ہی یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فرض نماز نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے جائز نہیں ہوتی ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو مرتبہ نماز پڑھاتے نیز جماعت کے واجب ہونے کی بھی یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسی حالت میں بھی جب کہ دشمن کا لشکر مد مقابل ہو جماعت نہ چھوڑی جائے۔
حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا طریقے سے نماز خوف کی ادائیگی اس وقت ضروری ہوتی ہے جب کہ سب لوگ ایک ہی آدمی کو امام بنانے پر مصر ہوں۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو پھر افضل یہ ہے کہ ایک امام ایک جماعت کو پوری نماز پڑھائے اور دوسرا امام دوسری جماعت کو پوری نماز پڑھائے۔
حدیث کے الفاظ فقام کل واحد منھم (اور یہ لوگ کھڑے ہو گئے الخ) کی تفصیل و فائدہ علماء حنفیہ میں سے بعض شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ جماعت جو بعد میں آ کر نماز میں شریک ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سلام پھیرنے کے بعد دشمن کے مقابلے میں چلی گئی اور پہلی جماعت جو پہلی رکعت میں شریک ہوئی تھی وہاں سے اپنی جگہ یعنی نماز پڑھنے آ گئی اور تنہا تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کی اور سلام پھیر کے دشمن کے مقابلہ پر چلی گئی اس کے بعد پھر دوسری جماعت یہاں آ گئی اور اس نے بھی تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کی اور سلام پھیر کے دشمن کے مقابلہ پر چلی گئی۔
ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض علماء سے یہی تفصیل اور طریقہ منقول ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ کا بھی یہی مسلک ہے۔ اگر یہ تفصیل حدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی ہے اور نہ صراحت کے ساتھ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے حضرت امام ابو حنیفہ کے مسلک کا ایک جز ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی جماعت ایک رکعت پڑھ کر چلی جائے اور دوسری جماعت دوسری رکعت میں آ کر امام کے ساتھ شریک ہو اور اس دوسری جماعت کی موجودگی میں امام اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر دے۔ البتہ حضرت امام اعظم کا پورا مسلک اور ان کا نقل کردہ پورا طریقہ ایک دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے جو حضرت عبداللہ ابن عباس پر موقوف ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا یہ مسلک اور ان کی روایت حضرت امام محمد نے اپنی کتاب الآثار میں نقل کی ہے۔
اس سلسلے میں اتنی بات سمجھ لینا چاہیے کہ نماز خوف کے بارے میں حضرت امام اعظم کا جو مسلک ہے اور انہوں نے جو تفصیل بیان کی ہے وہ حدیث موقوف سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ اس باب میں عقل کو کوئی دخل نہیں لہٰذا حدیث موقوف بھی حدیث مرفوع کے درجے میں ہو گی۔
اور پھر یہ کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ بھی ہے کہ صورت مذکورہ میں پہلی جماعت اپنی نماز بغیر قرأت کے لاحق کی طرح پوری کرے اور دوسری جماعت قرأت کے ساتھ پوری کرے جیسا کہ مسبوق اپنی نماز قرأت کے ساتھ پوری کرتے ہیں لیکن یہ صورت اس وقت کی ہے جب کہ نماز حالت سفر میں پڑھی جا رہی ہو اور امام مسافر ہو یا نماز دو رکعت والی نماز ہو اور اگر امام مقیم ہو اور نماز چار رکعتوں والی ہو تو دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک جماعت امام کے ساتھ دو دو رکعتوں پڑھے گی۔ لیکن نماز اگر تین رکعتیں والی ہو جیسے مغرب کی تو خواہ سفر ہو یا حضرت دونوں صورتوں میں پہلی جماعت امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے گی اور دوسری جماعت ایک رکعت اور ہر جماعت اپنی اپنی نماز مذکورہ بالا طریقے سے پوری کرے گی۔
حدیث کے آخری الفاظ قیا ما علی اقدامھم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نمازی رکوع اور سجدہ ترک کر دیں۔ یعنی مذکورہ بالا صورت میں جب کہ لوگ پیادہ کھڑے کھڑے یا سواری پر نماز پڑھیں تو رکوع اور سجدہ سر کے اشارے سے کر لیں نماز خوف کے سلسلے میں مذکورہ بالا طریقہ اگرچہ خلاف قیاس ہے کیونکہ خود حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک چلنا، سوار ہونا اور لڑنا نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ پھر یہ کہ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ عمل کثیر بہت ہوتا ہے بلکہ قبلے سے بھی انحراف ہوتا ہے لیکن چونکہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث صحیحہ میں نمازخوف اور اس کا طریقہ وارد ہو گیا ہے۔ اس لیے اسے مشروع رکھا گیا ہے۔
اور حضرت یزید ابن رومان حضرت صالح ابن خوات اور وہ اس آدمی سے جس نے سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ذات الرقاع کے دن نماز خوف پڑھی تھی (نماز خوف کا یہ طریقہ) نقل کرتے ہیں کہ (اس دن) ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (نماز کے لیے) صف بندی کی اور دوسری جماعت دشمن کے مقابل صف آرا ہو گئی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جماعت کے ہمراہ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھی ایک رکعت نماز پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے رہے اور اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی (یعنی دوسری رکعت جماعت نے خود تنہا پڑھی) پھر اس کے بعد یہ جماعت) (نماز سے فارغ ہو کر) واپس ہوئی اور دشمن کے مقابل صف آرا ہو گئی اور وہ جماعت جو دشمن کے مقابل صف آرا تھی (نماز کے لیے) آئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ دوسری رکعت جو باقی رہ گئی تھی اس جماعت کے ساتھ پڑھی اور (التحیات میں) بیٹھے رہے اور پھر اس جماعت نے اپنی وہ پہلی رکعت جو باقی تھی تنہا اور التحیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ شریک ہو گئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ (صحیح البخاری نے اس روایت کو ایک اور سند کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی اس طرح کہ قاسم وہ صالح ابن خوات سے اور وہ حضرت سہل ابن ابی حثمہ سے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں۔
تشریح
ذات الرقاع کے دن جس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی تھی ان کا نام سہل ابن ابی حثمہ ہے کیونکہ محمد ابن قاسم نے صلوٰۃ الخوف کی حدیث صالح ابن خوات سے اور انہوں نے حضرت سہل ابن ابی حثمہ سے نقل کی ہے جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت میں بیان کیا گیا ہے۔
ذات الرقاع ایک غزوے کا نام ہے جو ٥ ھ میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کفار کے مقابلے کے لیے گئے مگر بغیر جنگ کئے ہوئے واپسی ہوئی۔ اسی موقع پر یہ نماز پڑھی تھی۔
اس غزوے کو ذات الرقاع اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس وقت جو مسلمان غزوہ میں شریک ہونے کے لیے میدان جہاد کی طرف گئے تھے وہ ننگے پاؤں تھے جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں سوراخ ہو گئے تھے اور ناخن ٹوٹ گئے تھے چنانچہ ان مجاہدین نے اپنے پاؤں پر رقاع یعنی چیتھڑے لپیٹ لیے تھے اسی مناسبت سے یہ غزوہ ذات الرقاع (یعنی چیتھڑوں) والا کے نام سے مشہور ہوا۔
اس حدیث میں نماز خوف کا جو طریقہ نقل کیا گیا ہے یہ ایک اور طریقہ ہے اس میں بھی ہر جماعت نے ایک ایک رکعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھی اور ایک ایک رکعت تنہا پوری کی۔ لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ ہر ایک جماعت نے جو ایک ایک رکعت تنہا پڑھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نماز میں رہنے کے دوران ہی پڑھی جب کہ پہلے طریقے میں ہر ایک جماعت نے اپنی اپنی ایک رکعت نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد پڑھی تھی۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اسی طریقہ پر عمل کیا ہے جو اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (جہاد کے لیے روانہ ہوئے یہاں تکہ ہم ذات الرقاع پہنچے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ) جب ہمیں کوئی سایہ دار درخت ملتا تو ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے چھوڑ دیتے تھے۔ (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سائے میں استراحت فرمائیں چنانچہ ذات الرقاع میں ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ) ایک مشرک آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلوار جو درخت سے لٹکی ہوئی تھی اتار کر نیام سے کھینچ لی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر نہیں ہوئی کیونکہ یا تو آپ سو رہے تھے یا اس کی طرف سے غافل تھے) اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں (میں تجھ سے کیوں ڈرنے لگا کیونکہ میرے رب کے سوا دوسرا کوئی نہ مجھے نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان) اس نے کہا کہ پھر تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے تجھ سے اللہ بچائے گا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صحابہ کرام نے (جب یہ دیکھا تو) اس کو دھمکایا، اس نے تلوار نیام میں رکھ کر اسے درخت سے لٹکا دیا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پھر (ظہر یا عصر کی) نماز کے لیے اذان(اور تکبیر) کہی گئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (پہلے) ایک جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور وہ جماعت (دو رکعت نماز پڑھ کر دشمن کے مقابلے کے ارادے سے) پیچھے ہٹ گئی، پھر آپ نے دوسری جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس طرح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چار رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہ صرف یہ کہ نہایت شجاع تھے بلکہ کفار کی جانب سے پہنچائی جانے والی ایذا پر صبر کر تے تھے اور جاہل کفار اگر آپ کے ساتھ بے تمیزی کا کوئی معاملہ کرتے تھے تو آپ اسے انتہائی حلم کے ساتھ برداشت فرماتے تھے
واقدی نے ذکر کیا ہے کہ جب اس مشرک نے غلط ادارے کے ساتھ تلوار نکالی تو اس کی پیٹھ میں شدید درد شروع ہو گیا جس سے وہ بو کھلا گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔ وہ یہ حالت دیکھ مسلمان ہو گیا اور اس کی وجہ سے بہت زیادہ مخلوق نے ہدایت پائی۔ لیکن ابو عوانہ نے نقل کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے یہ عہد کیا کہ کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں لڑوں گا۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اس بد تمیزی پر اسے کوئی سزا نہیں دی۔ اس کی وجہ یا تو اس کی تالیف قلب تھی یا کوئی اور وجہ ہی ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے معاف فرما دیا۔
اس روایت کے بارے میں مولانا مظہر کا قول یہ ہے کہ اس سے پہلے نقل کی گئی روایت اور اس روایت میں اختلاف ہے باوجود اس کے دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی جگہ یعنی غزوہ ذات الرقاع سے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں روایتیں ایک ہی جگہ سے متعلق ہیں مگر اوقات میں فرق و اختلاف ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں روایتوں کا محمول یہ ہو گا کہ غزوہ ذات الرقاع میں اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مرتبہ نماز پڑھی ہے۔ ایک مرتبہ تو اس طریقہ کے مطابق جو سہل ابن ابی حثمہ نے بیان کیا ہے اور ایک مرتبہ اس طریقے کے مطابق جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر رہے ہیں۔ لہٰذا حضرت سہل کی روایت صبح کی نماز پر محمول کی جائے گی اور حضرت جابر کی اس روایت کا محمول ظہر یا عصر کی نماز ہو گی۔ یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں روایتیں تعداد غزوات پر محمول کی جائیں گی۔
جیسا کہ حضرت جابر کے ارشاد سے ثابت ہو رہا ہے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکعتیں پڑھیں اور دوسرے لوگوں کی دو ہی رکعتیں ہوئیں۔ تو علماء نے اس کی کئی وجہیں بیان کی ہیں ان میں سب سے صحیح اور بہتر توجیہ یہ ہے کہ یا تو یہ واقعہ آیت قصر کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے یا پھر یہ کہ جس جگہ یہ نماز پڑھی گئی تھی وہاں قصر واجب نہیں ہوتا تھا چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور علماء نے حدیث کے الفاظ لقوم رکعتان کی مراد یہ بیان کی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دو دو رکعتیں پڑھیں اور باقی دو دو رکعتیں تنہا تنہا پوری کیں۔ وا اللہ اعلم
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں (ایک مرتبہ) نماز خوف پڑھائی۔ چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے دو صفیں باندھ لیں اور دشمن ہمارے قبلے کے درمیان تھا آپ نے تکبیر کہی ہم سب نے بھی (یعنی دونوں صفوں نے) تکبیر کہی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے (دونوں صفوں نے) بھی (اپنے سر رکوع سے) اٹھائے، پھر سجدے کے لیے اس صف کے ساتھ جھکے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تھی (یعنی پہلی صف) اور دوسری صف دشمن کے مقابلے (قومہ ہی میں) کھڑی رہی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کر چکے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ وہ صف کھڑی ہو گئی (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تھی یعنی پہلی صف) تو پچھلی صف والے سجدے میں چلے گئے۔ پھر یہ کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد اگلی صف پیچھے ہٹ آئی اور (پچھلی صف آگے بڑھ گئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیام میں قرأت کی اور) رکوع کیا تو ہم سب نے بھی رکوع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے بھی رکوع سے سر اٹھایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدے میں گئے اور صف جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تھی اور پہلی رکعت میں پیچھے تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سجدے میں چلی گئی اور پچھلی صف (جو پہلی رکعت میں آگے تھی) دشمن کے مقابلے میں کھڑی رہی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب کی صف کے سب لوگ سجدے سے فارغ ہو گئے تو پچھلی صف نے سجدے کیا۔ پھر اس کے بعد آپ نے اور ہم سب نے (یعنی دونوں صفوں نے التحیات پڑھ کر) سلام پھریا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
نماز خوف کا یہ ایک اور طریقہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا وقت اور جیسا موقع دیکھتے اسی کے مطابق نماز خوف پڑھتے تھے۔ چنانچہ یہاں چونکہ دشمن سامنے ہی قبلے کی طرف تھا اس لیے اسلامی لشکر ایک ہی جگہ اس طرح نماز پڑھتا رہا کہ دشمن کا لشکر مد مقابل رہا چنانچہ کسی جماعت کو کسی اور طرف بھیجنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، پورا لشکر رکوع تک تو متفق رہا اس کے بعد صرف اتنا فرق ہوا کہ جب ایک صف سجدہ میں گئی تو دوسری صف کھڑی رہی اور جب دوسری صف سجدے میں گئی تو پہلی صف کھڑی رہی۔ جیسا کہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے علماء لکھتے ہیں کہ یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عسفان میں ادا فرمائی تھی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقام بطن نخل میں خوف کے وقت ظہر کی نماز پڑھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس طرح) نماز پڑھائی کہ ایک جماعت کو دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ پھر جب دوسری جماعت آئی تو اسے بھی دو رکعتیں نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ (شرح السنۃ)
تشریح
بطن نخل مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قصر کی نماز پڑھی۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکعتوں کے بجائے دو رکعت نماز ادا فرمائی اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والا اقتدا کر سکتا ہے۔
حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی تشریح بظاہر ایک سخت مسئلہ ہے کیونکہ اگر اسے سفر پر محمول کیا جائے تو نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کی اقتدا لازم آتی ہے اور حنفیہ کے ہاں یہ درست نہیں ہے لہٰذا یہ سفر کی نماز تو قرار نہیں دی جا سکتی۔ اب اگر اس حدیث کا محمول حضر کی نماز قرار دی جائے تو پھر ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا لازم آتا ہے جو نماز کے منافی ہے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ یہ کہا جائے کہ نماز تو حالت حضر ہی میں پڑھی گئی تھی البتہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیات میں سے تھا جو دوسروں کے لیے جائز نہیں ہے چنانچہ لوگوں نے اپنی بقیہ دو دو رکعتیں آپ کے سلام پھیرنے کے بعد بطور خود پوری کیں اس طرح ان کی بھی چار رکعتیں ہو گئیں۔
اس سلسلے میں حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو تحقیق پیش کی ہے وہ بہت مناسب معلوم ہوتی ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ایک فرض نماز دو مرتبہ پڑھی جا سکتی تھی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (جہاد کے لیے) فجنان اور عسفان کے درمیان اترے تو مشرک (آپس میں) کہنے لگے کہ مسلمانوں کی ایک نماز ہے جو ان کے نزدیک ان کے باپ اور بیٹے سے بھی زیادہ محبوب ہے اور وہ نماز عصر ہے چنانچہ تم اپنے مقصد (یعنی جنگ) کے لیے تیار ہو جاؤ اور جب مسلمان اس نماز میں مصروف ہوں تو) ان پر یکبارگی حملہ کر دو۔ جب ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں۔ ایک حصے کو تو نماز پڑھائیں اور دوسرا حصہ ان کے پیچھے دشمن کے خطرناک ارادوں کا جواب دینے کے لیے) کھڑا رہنا (اسی طرح دوسرے حصے کو نماز پڑھائیں تو پہلا حصہ دشمن کے مد مقابل رہے نیز تمام نمازیوں کو) چاہیے کہ اپنے دفاع کا سامان یعنی سپر و ہتھیار وغیرہ اپنے پاس رکھیں۔ اس طرح لوگوں کی تو (امام کے ساتھ) ایک ایک رکعت ہو جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دو رکعتیں۔ (جامع ترمذی و سنن نسائی)
تشریح
ضجنان ایک پہاڑ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے اور عسفان ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ سے دو منزل کے فاصلے پر واقع ہے۔