صحیح بخاری

نماز خوف کا بیان

خوف کی نماز کا بیان

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا ‏‏‏‏ 101 ‏‏‏‏ وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِنْ وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَى لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً وَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا ‏‏‏‏ 102 ‏‏‏‏ سورة النساء آية 101-102.

اور اللہ پاک نے (سورۃ نساء) میں فرمایا اور جب تم مسافر ہو تو تم پر گناہ نہیں اگر تم نماز کم کر دو۔ فرمان الٰہی «عذابا مهينا‏» تک۔

خوف کی نماز کا بیان

حد یث نمبر - 942

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي صَلَاةَ الْخَوْفِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:‏‏‏‏ "غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ فَصَافَفْنَا لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ تُصَلِّي وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ وَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَجَاءُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے زہری سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ خوف پڑھی تھی؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہمیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا۔ دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم نے صفیں باندھیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی (تو ہم میں سے) ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ اب دوسری جماعت آئی۔ ان کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا۔ اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔

خوف کی نماز پیدل اور سوار رہ کر پڑھنا قرآن شریف میں «رجالا» ، «راجل» کی جمع ہے ( یعنی پاپیادہ )

حد یث نمبر - 943

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْنَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوًا مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ إِذَا اخْتَلَطُوا قِيَامًا، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏"وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَرُكْبَانًا".

ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید قرشی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجاہد کے قول کی طرح بیان کیا کہ جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جائیں تو کھڑے کھڑے نماز پڑھ لیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی روایت میں اضافہ اور کیا ہے کہ اگر کافر بہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کو دم نہ لینے دیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر (جس طور ممکن ہو) اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں۔

خوف کی نماز میں نمازی ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں

حد یث نمبر - 944

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّبَيْدِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ فَكَبَّرَ وَكَبَّرُوا مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَكَعَ وَرَكَعَ نَاسٌ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدُوا مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ لِلثَّانِيَةِ فَقَامَ الَّذِينَ سَجَدُوا وَحَرَسُوا إِخْوَانَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا مَعَهُ وَالنَّاسُ كُلُّهُمْ فِي صَلَاةٍ وَلَكِنْ يَحْرُسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا".

ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن حرب نے زبیدی سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دوسرے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں کھڑے ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی تو لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر لیا تھا وہ کھڑے کھڑے اپنے بھائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔ اور دوسرا گروہ آیا۔ (جو اب تک حفاظت کے لیے دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا بعد میں) اس نے بھی رکوع اور سجدے کئے۔ سب لوگ نماز میں تھے لیکن لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کر رہے تھے۔

اس بارے میں کہ اس وقت ( جب دشمن کے ) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم

وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ تَهَيَّأَ الْفَتْحُ وَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الصَّلَاةِ صَلَّوْا إِيمَاءً كُلُّ امْرِئٍ لِنَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الْإِيمَاءِ أَخَّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى يَنْكَشِفَ الْقِتَالُ أَوْ يَأْمَنُوا فَيُصَلُّوا رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا صَلَّوْا رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا لَا يُجْزِئُهُمُ التَّكْبِيرُ وَيُؤَخِّرُوهَا حَتَّى يَأْمَنُوا وَبِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مَكْحُولٌ:‏‏‏‏

اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہونے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قول ہے۔

 

 

وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ حَضَرْتُ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ حِصْنِ تُسْتَرَ عِنْدَ إِضَاءَةِ الْفَجْرِ وَاشْتَدَّ اشْتِعَالُ الْقِتَالِ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الصَّلَاةِ فَلَمْ نُصَلِّ إِلَّا بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ فَصَلَّيْنَاهَا وَنَحْنُ مَعَ أَبِي مُوسَى فَفُتِحَ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ وَمَا يَسُرُّنِي بِتِلْكَ الصَّلَاةِ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.

اور انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں تستر کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابوموسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی (گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہو گی۔

اس بارے میں کہ اس وقت ( جب دشمن کے ) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم

حد یث نمبر - 945

حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُبَارَكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا صَلَّيْتُ الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَأَنَا وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَزَلَ إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَابَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بَعْدَهَا".

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ بطحان کی طرف گئے (جو مدینہ میں ایک میدان تھا) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔

جو دشمن کے پیچھے لگا ہو یا دشمن اس کے پیچھے لگا ہو وہ سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز پڑھ لے

وَقَالَ الْوَلِيدُ ذَكَرْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ صَلَاةَ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ وَأَصْحَابِهِ عَلَى ظَهْرِ الدَّابَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا إِذَا تُخُوِّفَ الْفَوْتُ وَاحْتَجَّ الْوَلِيدُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ.

اور ولید بن مسلم نے کہا میں نے امام اوزاعی سے شرحبیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کی نماز کا ذکر کیا کہ انہوں نے سواری پر ہی نماز پڑھ لی، تو انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی مذہب ہے جب نماز قضاء ہونے کا ڈر ہو۔ اور ولید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اشارے سے دلیل لی کہ کوئی تم میں سے عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر۔

جو دشمن کے پیچھے لگا ہو یا دشمن اس کے پیچھے لگا ہو وہ سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز پڑھ لے

حد یث نمبر - 946

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنْ الْأَحْزَابِ:‏‏‏‏ "لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ"، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمُ الْعَصْرُ فِي الطَّرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ.

ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے (ابوسفیان لوٹے) تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔

حملہ کرنے سے پہلے صبح کی نماز اندھیرے میں جلدی پڑھ لینا اسی طرح لڑائی میں ( طلوع فجر کے بعد فوراً ادا کر لینا )

حد یث نمبر - 947

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏ وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الصُّبْحَ بِغَلَسٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكِبَ فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّكَكِ وَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْخَمِيسُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالْخَمِيسُ الْجَيْشُ فَظَهَرَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَ الْمُقَاتِلَةَ وَسَبَى الذَّرَارِيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَصَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ وَصَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَزَوَّجَهَا وَجَعَلَ صَدَاقَهَا عِتْقَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيز لِثَابِتٍ :‏‏‏‏ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًا مَا أَمْهَرَهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا فَتَبَسَّمَ".

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب اور ثابت بنانی نے، بیان کیا ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھا دی، پھر سوار ہوئے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچ گئے اور وہاں کے یہودیوں کو آپ کے آنے کی اطلاع ہو گئی) اور فرمایا «الله اكبر» خیبر پر بربادی آ گئی۔ ہم تو جب کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو گی۔ اس وقت خیبر کے یہودی گلیوں میں یہ کہتے ہوئے بھاگ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت آ گئے۔ راوی نے کہا کہ (روایت میں) لفظ«خميس» لشکر کے معنی میں ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی۔ لڑنے والے جوان قتل کر دئیے گئے، عورتیں اور بچے قید ہوئے۔ اتفاق سے صفیہ، دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اور آزادی ان کا مہر قرار پایا۔ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا: ابو محمد! کیا تم نے انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تھا کہ صفیہ کا مہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا انہوں نے جواب دیا کہ خود انہیں کو ان کے مہر میں دے دیا تھا۔ کہا کہ ابو محمد اس پر مسکرا دیئے۔