حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ، رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سفر اور حضر دونوں میں دو دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز (حسب معمول)برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱ (۳۵۰)، وتقصیر الصلاة ۵ (۱۰۹۰)، فضائل الصحابة ۷۶ (۳۷۲۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۸۵)، سنن النسائی/الصلاة ۳ (۴۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة ۱ (۹)، مسند احمد (۶/۲۳۴، ۲۴۱، ۲۶۵، ۲۷۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۹(۱۵۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اضافہ صرف چار رکعت والی نماز ظہر، عصر اور عشاء میں کیا گیا، مغرب کی حیثیت دن کے وتر کی ہے، اور فجر میں لمبی قرات مسنون ہے اس لئے ان دونوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ بعض علماء کے نزدیک سفر میں قصر واجب ہے اور بعض کے نزدیک رخصت ہے چاہے تو پوری پڑھے اور چاہے تو قصر کرے مگر قصر افضل ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ. ح وحَدَّثَنَا خُشَيْشٌ يَعْنِي ابْنَ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ، عَنْيَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَرَأَيْتَ إِقْصَارَ النَّاسِ الصَّلَاةَ، وَإِنَّمَا قَالَ تَعَالَى: إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101، فَقَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ الْيَوْمَ ؟ فَقَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ"صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ".
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے بتائیے کہ (سفر میں) لوگوں کے نماز قصر کرنے کا کیا مسئلہ ہے اللہ تعالیٰ تو فرما رہا ہے: "اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں مبتلا کر دیں گے"، تو اب تو وہ دن گزر چکا ہے تو آپ نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا ہے اس پر مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیا ہے لہٰذا تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۸۶)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء ۵ (۳۰۳۴)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ۱ (۱۴۳۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۳ (۱۰۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۵، ۳۶)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۹ (۱۵۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قصر نماز حالت خوف کے ساتھ خاص نہیں بلکہ امت کی آسانی کے لئے اسے سفر میں مشروع قرار دیا گیا خواہ سفر پر امن ہی کیوں نہ ہو۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ، فَذَكَرَهُ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ، وَحَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، كَمَا رَوَاهُ ابْنُ بَكْرٍ.
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی عمار کو بیان کرتے ہوئے سنا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو ابوعاصم اور حماد بن مسعدہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے اسے ابن بکر نے کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَزِيدَ الْهُنَائِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ قَصْرِ الصَّلَاةِ،فَقَالَ أَنَسٌ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلَاثَةِ فَرَاسِخَ، شُعْبَةُ شَكَّ، يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ".
یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۱)، وقد أخرجہ: حم(۳/ ۱۲۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قصر کے لئے مسافت کی تحدید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صریح قول نہیں ہے، فعلی احادیث میں سب سے صحیح یہی حدیث ہے ، اس کے مطابق (اکثر مسافت تین فرسخ کے مطابق) نو میل کی مسافت سے قصر کی جا سکتی ہے ، جو کیلو میٹر کے حساب سے ساڑھے چودہ کیلو میٹر ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: "صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَالْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے میں ظہر چار رکعت پڑھی اور ذو الحلیفہ میں عصر دو رکعت ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۵ (۱۰۸۹)، والحج ۲۴ (۱۵۴۶)، ۲۵ (۱۵۴۸)، ۱۱۹ (۱۷۱۴)، والجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۹۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۴ (۵۴۶)، سنن النسائی/الصلاة ۱۱ (۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۶، ۱۵۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/ ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۷۷، ۱۸۶، ۲۳۷، ۲۶۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۹ (۱۵۴۸)، ویأتي في الحج برقم ۱۷۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو اس کے لئے قصر کرنا جائز ہو جاتا ہے، ذوالحلیفہ مدینہ سے (مکہ کے راستے میں) تیرہ کیلو میٹر کی دوری پر ہے ، جو اہل مدینہ کی میقات ہے ، اس وقت یہ ’’ابیار علی‘‘ سے بھی مشہور ہے۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا عُشَّانَةَ الْمَعَافِرِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "يَعْجَبُ رَبُّكُمْ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةٍ بِجَبَلٍ، يُؤَذِّنُ بِالصَّلَاةِ وَيُصَلِّي، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ الصَّلَاةَ، يَخَافُ مِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تمہارا رب بکری کے اس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر نماز کے لیے اذان دیتا ۱؎ اور نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الأذان (۲۶/۶۶۷)، (تحفة الأشراف: ۹۹۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۵، ۱۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں تنہا آدمی کے لیے بھی اذان مشروع ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْمِسْحَاجِ بْنِ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَقُلْنَا: زَالَتِ الشَّمْسُ أَوْ لَمْ تَزُلْ، "صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ ارْتَحَلَ".
مسحاج بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم سے آپ کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، انہوں نے کہا: جب ہم لوگ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو ہم کہتے: سورج ڈھل گیا یا نہیں ۱؎ تو آپ ظہر پڑھتے پھر کوچ کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱۵ (۱۱۱۱)، ۱۶ (۱۱۱۲)، صحیح مسلم/المسافرین ۵ (۷۰۴)، سنن النسائی/المواقیت ۴۱ (۵۸۷)، مسند احمد (۳/ ۱۱۳، ۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر امام کو وقت ہو جانے کا یقین ہے تو مقتدیوں کے شک کا کوئی اعتبار نہ ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي حَمْزَةُ الْعَائِذِيُّ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي ضَبَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا لَمْ يَرْتَحِلْ حَتَّى يُصَلِّيَ الظُّهْرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ ؟ قَالَ: وَإِنْ كَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مقام پر قیام فرماتے تو ظہر پڑھ کر ہی کوچ فرماتے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: گرچہ نصف النہار ہوتا؟ انہوں نے کہا: اگرچہ نصف النہار ہوتا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/المواقیت ۲ (۴۹۹)، (تحفة الأشراف: ۵۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۰، ۱۲۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُمْ، أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ"فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَأَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مؤخر کی پھر نکلے اور ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی ۲؎پھر اندر (قیام گاہ میں) ۳؎ چلے گئے، پھر نکلے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۶ (۷۰۶)، والفضائل ۳ (۷۰۶/۱۰)، سنن النسائی/المواقیت ۴۱ (۵۸۸)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۴ (۱۰۷۰)، وانظر مایأتي برقم : ۱۲۲۰ ، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۲۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجمعة ۴۲ (۵۵۳)، موطا امام مالک/قصرالصلاة ۱(۲)، مسند احمد (۵/۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳، ۲۳۶، ۲۳۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۲(۱۵۵۶) (صحیح)
وضاحت: : جمع کی دو قسمیں ہیں : ایک صوری، دوسری حقیقی، پہلی نماز کو آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اول وقت میں پڑھنے کو جمع صوری کہتے ہیں، اور ایک نماز کو دوسری کے وقت میں جمع کر کے پڑھنے کو جمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دو صورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر، جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے یہ دونوں جمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لئے ہوئی ہے، اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے، کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا مشکل ہے۔ ۲؎ : اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین (دو نماز کو ایک وقت میں ادا کرنے) کی رخصت ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بھی دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے۔ ۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَسَارَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُومُ، فَقَالَ"إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِي سَفَرٍ جَمَعَ بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، فَنَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو صفیہ ۱؎ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے (اور چلتے رہے) یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے نظر آنے لگے، تو عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کرتے، پھر وہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے ٹھہر کر دونوں کو ایک ساتھ ادا کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، ((تحفة الأشراف: ۷۵۸۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۶ (۱۰۹۱)، والعمرة۲۰ (۱۸۰۵)، والجہاد ۱۳۶ (۳۰۰۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۵ (۷۰۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۷ (۵۵۵)، سنن النسائی/المواقیت ۴۳ (۵۹۶)، موطا امام مالک/قصر الصلاة ۱(۳)، مسند احمد (۲/۵۱، ۸۰، ۱۰۲، ۱۰۶، ۱۵۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۲(۱۵۵۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : صفیہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیوی تھیں، مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک یہ ہے کہ ’’حالت نزع کی خبر دی گئی‘‘، نسائی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ صفیہ نے خود خط لکھا کہ میں حالت نزع میں ہوں جلدی ملیں۔
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَإِنْ يَرْتَحِلْ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعَصْرِ، وَفِي الْمَغْرِبِ مِثْلُ ذَلِكَ إِنْ غَابَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَإِنْ يَرْتَحِلْ قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ، ثُمَّ جَمَعَ بَيْنَهُمَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ الْمُفَضَّلِ، وَاللَّيْثِ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفر سے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لیے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا تو عشاء کو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ عشاء کے لیے قیام کرتے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے، کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۱۲۰۶، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ قَطُّ فِي السَّفَرِ إِلَّا مَرَّةً". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا يُرْوَى عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ لَمْ يَرَ ابْنَ عُمَرَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا قَطُّ إِلَّا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، يَعْنِي لَيْلَةَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ، وَرُوِيَ مِنْ حَدِيثِ مَكْحُولٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ فَعَلَ ذَلِكَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک بار کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ادا نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث «ایوب عن نافع عن ابن عمر» سے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کرتے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۱۲۰۷)، (تحفة الأشراف: ۷۰۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ"، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: أَرَى ذَلِكَ كَانَ فِي مَطَرٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ نَحْوَهُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، وَرَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا إِلَى تَبُوكَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کسی خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کیا ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ایسا بارش میں ہوا ہو گا ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ نے مالک ہی کی طرح ابوالزبیر سے روایت کیا ہے، نیز اسے قرہ بن خالد نے بھی ابوالزبیر سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ یہ ایک سفر میں ہوا تھا جو ہم نے تبوک کی جانب کیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۶ (۷۰۵) سنن النسائی/المواقیت ۴۶ (۶۰۲)، (تحفة الأشراف: ۵۶۰۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت ۱۲ (۵۴۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۱ (۱۸۷)، موطا امام مالک/قصر الصلاة ۱(۴)، مسند احمد (۱/۲۲۱، ۲۲۳، ۲۸۳، ۳۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے ثابت ہوا کہ حالت حضر (قیام کی حالت) میں بھی ضرورت کے وقت دو نماز کو ایک ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے، البتہ اس کو عادت نہیں بنانا چاہئے۔ ۲؎ : لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت میں «من غير خوف ولا مطر» (یعنی بغیر کسی خوف اور بارش) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ"، فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بلا کسی خوف اور بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۶ (۷۰۵) سنن الترمذی/ الصلاة ۱ (۱۸۷)، سنن النسائی/المواقیت ۴۶ (۶۰۳)، (تحفة الأشراف: ۵۴۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو دو نماز کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہو گیا‘‘ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہو سکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ، أَنَّ مُؤَذِّنَ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "الصَّلَاةُ، قَالَ: سِرْ سِرْ حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ صَنَعَ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتُ فَسَارَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ مَسِيرَةَ ثَلَاثٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ نَافِعٍ نَحْوَ هَذَا بِإِسْنَادِهِ.
نافع اور عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مؤذن نے کہا: نماز (پڑھ لی جائے) (تو) ابن عمر نے کہا: چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیا ہے، چنانچہ انہوں نے اس دن اور رات میں تین دن کی مسافت طے کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جابر نے بھی نافع سے اسی سند سے اسی کی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۲۹۰) (صحیح) (لیکن اس حدیث میں وارد لفظ «قبل غیوب الشفق»"شفق غائب ہونے سے قبل" شاذ ہے، صحیح لفظ «حتی غاب الشفق» "شفق غائب ہونے کے بعد" ہے جیسا کہ حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں ہے )
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ ابْنِ جَابِرٍ، بِهَذَا الْمَعْنَى. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ ذَهَابِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا.
اس طریق سے بھی ابن جابر سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور عبداللہ بن علاء نے نافع سے یہ حدیث روایت کی ہے: اس میں ہے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہونے کا وقت ہوا تو وہ اترے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/ المواقیت ۴۴ (۵۹۶)، (تحفة الأشراف: ۷۷۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ. ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ"، وَلَمْ يَقُلْ سُلَيْمَانُ، وَمُسَدَّدٌ: بِنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فِي غَيْرِ مَطَرٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ہمارے ساتھ ظہر و عصر ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء ملا کر سات رکعتیں پڑھیں۔ سلیمان اور مسدد کی روایت میں «بنا» یعنی ہمارے ساتھ کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے صالح مولیٰ توامہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، اس میں «بغير مطر» "بغیر بارش" کے الفاظ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۱۲۱۰، (تحفة الأشراف: ۵۳۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَابَتْ لَهُ الشَّمْسُ بِمَكَّةَ"فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِسَرِفٍ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے کہ سورج ڈوب گیا تو آپ نے مقام سرف میں دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/المواقیت ۴۴ (۵۹۴)، (تحفة الأشراف: ۲۹۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۰۵، ۳۸۰) (ضعیف) (اس کے راوی "یحییٰ بن محمد الجاری" کے بارے میں کلام ہے )
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ جَارُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ،عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: بَيْنَهُمَا عَشَرَةُ أَمْيَالٍ، يَعْنِي بَيْنَ مَكَّةَ، وَسَرِفٍ.
ہشام بن سعد کہتے ہیں کہ دونوں یعنی مکہ اور سرف کے درمیان دس میل کا فاصلہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۰۹) (مقطوع)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ اللَّيْثِ، قَالَ: قَالَ رَبِيعَةُ، يَعْنِي كَتَبَ إِلَيْهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: وَأَنَا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَسِرْنَا، فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قَدْ أَمْسَى، قُلْنَا: الصَّلَاةُ، غَابَتِ الشَّمْسُ"فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، وَتَصَوَّبَتِ النُّجُومُ، ثُمَّ إِنَّهُ نَزَلَ فَصَلَّى الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ صَلَّى صَلَاتِي هَذِهِ"يَقُولُ: يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا بَعْدَ لَيْلٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ سَالِمٍ، وَرَوَاهُ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ذُؤَيْبٍ، أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَهُمَا مِنْ ابْنِ عُمَرَ كَانَ بَعْدَ غُيُوبِ الشَّفَقِ.
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، اس وقت میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا، پھر ہم چلے، جب دیکھا کہ رات آ گئی ہے تو ہم نے کہا: نماز (ادا کر لیں) لیکن آپ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی اور تارے پوری طرح جگمگا نے لگے، پھر آپ اترے، اور دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کیں، پھر کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلتے رہنا ہوتا تو میری اس نماز کی طرح آپ بھی نماز ادا کرتے یعنی دونوں کو رات ہو جانے پر ایک ساتھ پڑھتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث عاصم بن محمد نے اپنے بھائی سے اور انہوں نے سالم سے روایت کی ہے، اور ابن ابی نجیح نے اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن ذویب سے روایت کی ہے کہ ان دونوں نمازوں کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شفق غائب ہونے کے بعد جمع کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۱۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ مَوْهَبٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَكِبَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: كَانَ مُفَضَّلٌ قَاضِيَ مِصْرَ، وَكَانَ مُجَابَ الدَّعْوَةِ، وَهُوَ ابْنُ فَضَالَةَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کو جمع کرتے، اور اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مفضل مصر کے قاضی اور مستجاب لدعوات تھے، وہ فضالہ کے لڑکے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ تقصیر الصلاة ۱۵ (۱۱۱۱)، ۱۶ (۱۱۱۲)، صحیح مسلم/المسافرین ۵ (۷۰۴)، سنن النسائی/المواقیت ۴۱ (۵۸۷)،(تحفة الأشراف: ۱۵۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عُقَيْلٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: "وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ".
اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سند سے منقول ہے البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبَ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا قُتَيْبَةُ وَحْدَهُ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ اسے عصر سے ملا دیتے، اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کرتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے، اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرتے، اور اگر مغرب کے بعد کوچ کرتے تو عشاء میں جلدی فرماتے اور اسے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث سوائے قتیبہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۷ (۵۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم(۵/۲۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس سند اور متن میں قتیبہ منفرد ہیں ، دونوں سندوں اور متنوں میں فرق کے لئے دیکھئے حدیث نمبر: (۱۲۰۶ )۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ"فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، فَقَرَأَ فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی اور دونوں رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں «والتين والزيتون» پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۰۰ (۷۶۷)، ۱۰۲ (۷۶۹)، وتفسیر التین ۱ (۴۹۵۲)، والتوحید ۵۲ (۷۵۴۶)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۶ (۴۶۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۱۵ (۳۱۰)، سنن النسائی/الافتتاح ۷۳ (۱۰۰۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۰ (۸۳۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۵ (۲۷)، مسند احمد (۴/۲۸۴، ۲۸۶، ۲۹۱، ۳۰۲، ۳۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَفَرًا"فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ رَكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ".
براء بن عازب انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ سفروں میں رہا، لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے آپ نے دو رکعتیں ترک کی ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۶ (الجمعة ۴۱) (۵۵۰)، (تحفة الأشراف: ۱۹۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۹۲، ۲۹۵) (ضعیف) (اس کے راوی "ابو بسرة غفاری" لین الحدیث ہیں )
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، فَرَأَى نَاسًا قِيَامًا، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا أَتْمَمْتُ صَلَاتِي، يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ"فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"وَصَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَصَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَصَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21.
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا تو آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی پھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ (نماز کی حالت میں) کھڑے ہیں، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: یہ نفل پڑھ رہے ہیں، تو آپ نے کہا: بھتیجے! اگر مجھے نفل ۱؎ پڑھنی ہوتی تو میں اپنی نماز ہی پوری پڑھتا، میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا لیکن آپ نے دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، مجھے (سفر میں) عثمان رضی اللہ عنہ کی رفاقت بھی ملی لیکن انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور اللہ عزوجل فرما چکا ہے: «لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة» "تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱۱ (۱۱۰۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۸۹)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ۴ (۱۴۵۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۵ (۱۰۷۱)، (تحفة الأشراف: ۶۶۹۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۴ (الجمعة ۳۹) (۵۴۴)، مسند احمد (۲/۲۴، ۵۶)، سنن الدارمی/المناسک ۴۷ (۱۹۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نفل کی دو قسمیں ہیں: راتب سنتیں اور غیر راتب سنتیں، راتب سنتیں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں، اور غیر راتب عام نفلی نماز کو کہا جاتا ہے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسافر عام نفلی نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ سنن رواتب میں اختلاف ہے اور اس حدیث سے راتب سنتیں ہی مراد ہیں، اس سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ سفر میں سنن رواتب کا نہ پڑھنا افضل ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَيَّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ عَلَيْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، خواہ آپ کسی بھی طرف متوجہ ہوتے اور اسی پر وتر پڑھتے، البتہ اس پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۷ (۱۰۹۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۴ (۷۰۰)، سنن النسائی/الصلاة ۲۳ (۴۹۱)، والمساجد ۴۶ (۷۴۰)، والقبلة ۲ (۷۴۵)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۳ (۱۶۳۱)، (تحفة الأشراف: ۶۹۷۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۸ (۴۷۲)، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۱ (۱۶۸۷)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۲۷(۱۲۰۰)، موطا امام مالک/ قصر الصلاة ۳ (۱۵)، مسند احمد (۲/۵۷، ۱۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے ثابت ہوا کہ فرض کے سوا نفلی نماز اور وتر بھی سواری پر ادا کی جا سکتی ہے، ان کے لئے قبلہ رخ ہونے کی شرط نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالت سفر میں عام نفل پڑھ سکتے ہیں ، اور وتر اور فجر کی سنت سفر اور حضر دونوں میں تاکیداً پڑھنی چاہئے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْجَارُودِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنِي الْجَارُودُ بْنُ أَبِي سَبْرَةَ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا سَافَرَ فَأَرَادَ أَنْ يَتَطَوَّعَ اسْتَقْبَلَ بِنَاقَتِهِ الْقِبْلَةَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ صَلَّى حَيْثُ وَجَّهَهُ رِكَابُهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی قبلہ رخ کر لیتے اور تکبیر کہتے پھر نماز پڑھتے رہتے خواہ آپ کی سواری کا رخ کسی بھی طرف ہو جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۱۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱۰ (۱۱۰۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۴ (۷۰۰)، سنن النسائی/المساجد ۴۶ (۷۴۲)، موطا امام مالک/ قصر الصلاة ۷ (۲۶)، مسند احمد (۳/۲۰۳) (حسن)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِي الْحُبَابِ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ مُتَوَجِّهٌ إِلَى خَيْبَرَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ کا رخ خیبر کی جانب تھا۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ المسافرین ۴ (۷۰۰)، سنن النسائی/الصلاة ۲۳ (۴۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۰۸۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة ۷ (۲۵)، مسند احمد (۲/۷، ۴۹، ۵۲، ۵۷، ۷۵، ۸۳، ۱۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : خیبر مدینہ منورہ سے اتری سمت کا علاقہ ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، قَالَ: فَجِئْتُ وَهُوَ"يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، وَالسُّجُودُ أَخْفَضُ مِنَ الرُّكُوعِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا، میں (واپس) آیا تو دیکھا کہ آپ اپنی سواری پر مشرق کی جانب رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں (آپ کا) سجدہ رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھک کر ہوتا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۴۳ (۳۵۱)، (تحفة الأشراف: ۲۷۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳ ۳۳۲، ۳۷۹، ۳۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی رکوع اور سجدہ دونوں اشارے سے کرتے اور دونوں میں جھکتے تھے، لیکن سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: هَلْ رُخِّصَ لِلنِّسَاءِ أَنْ يُصَلِّينَ عَلَى الدَّوَابِّ ؟ قَالَتْ: لَمْ يُرَخَّصْ لَهُنَّ فِي ذَلِكَ فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا فِي الْمَكْتُوبَةِ.
عطا بن ابی رباح کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا عورتوں کو چوپایوں پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟ آپ نے کہا: مشکل میں ہوں یا سہولت میں، انہیں کسی حالت میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ محمد بن شعیب کہتے ہیں: یہ بات فرض نماز کے سلسلے میں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۹۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ وَهَذَا لَفْظُهُ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُ مَعَهُ الْفَتْحَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَمَانِي عَشْرَةَ لَيْلَةً لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، وَيَقُولُ: "يَا أَهْلَ الْبَلَدِ، صَلُّوا أَرْبَعًا فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا اور فتح مکہ میں آپ کے ساتھ موجود رہا، آپ نے مکہ میں اٹھارہ شب قیام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے اور فرماتے: "اے مکہ والو! تم چار پڑھو، کیونکہ ہم تو مسافر ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۴ (الجمعة ۳۹) (۵۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۰، ۴۳۱، ۴۳۲، ۴۴۰) (ضعیف) (اس کے راوی "علی بن زید بن جدعان" ضعیف ہیں )
وضاحت: ۱؎ : اس قسم کی ضعیف حدیثوں سے قصر کی مدت کی تحدید درست نہیں کیونکہ ان میں اس طرح کا چنداں اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اللہ کے رسول اگر مزید ٹھہرنے کا ارادہ کرتے تو نماز پوری پڑھتے اس بات کے لئے واضح ثبوت غزوہ تبوک کا وہ سفر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن تک قیام کیا اور برابر قصر کرتے رہے، اور غزوہ حنین میں چالیس روز تک قصر فرماتے رہے، نیز غازی کی مثال ایسے مسافر کی ہے جس کو اپنے سفر یا قیام کے بارے میں کوئی واضح بات نہ معلوم ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَقَامَ سَبْعَ عَشْرَةَ بِمَكَّةَ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَمَنْ أَقَامَ سَبْعَ عَشْرَةَ قَصَرَ، وَمَنْ أَقَامَ أَكْثَرَ أَتَمَّ. قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقَامَ تِسْعَ عَشْرَةَ..
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سترہ دن مکہ میں مقیم رہے، اور نماز قصر کرتے رہے، تو جو شخص سترہ دن قیام کرے وہ قصر کرے، اور جو اس سے زیادہ قیام کرے وہ اتمام کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد بن منصور نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انیس دن تک مقیم رہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱ (۱۰۸۰)، المغازي ۵۲ (۴۲۹۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۵ (الجمعة ۴۰) (۵۴۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۶ (۱۰۷۵)، (تحفة الأشراف: ۶۱۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۳) (شاذ) ( اس کے راوی حفص بن غیاث گرچہ ثقات میں سے ہیں، مگر اخیر عمر میں ذرا مختلط ہو گئے تھے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ عاصم الأحول کے تمام تلامذہ کے برخلاف سترہ دن کی روایت کر بیٹھے ہیں )
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ خَمْسَ عَشْرَةَ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، وَسَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ ابْنَ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے سال مکہ میں پندرہ روز قیام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز قصر کرتے رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث عبدہ بن سلیمان، احمد بن خالد وہبی اور سلمہ بن فضل نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے "ابن عباس رضی اللہ عنہما" کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ۷۶ (۱۰۶۷)، (تحفة الأشراف: ۵۸۴۹) (ضعیف منکر) (کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے اور اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ ابْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَقَامَ بِمَكَّةَ سَبْعَ عَشْرَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سترہ دن تک مقیم رہے اور دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۱۴۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳۰۲۱، ۳۱۵) (ضعیف منکر) (کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، اور اس کے راوی شریک حافظہ کے کمزور ہیں)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ"فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ"، فَقُلْنَا: هَلْ أَقَمْتُمْ بِهَا شَيْئًا ؟ قَالَ: أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ (اس سفر میں)دو رکعتیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آ گئے تو ہم لوگوں نے پوچھا: کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ ٹھہرے؟ انہوں نے جواب دیا: مکہ میں ہمارا قیام دس دن رہا ۱؎ ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱ (۱۰۸۱)، والمغازي ۵۲ (۴۲۹۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۹۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۵ (الجمعة۴۰) (۵۴۸)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ۱ (۱۴۳۷)، ۴ (۱۴۵۱)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۶ (۱۰۷۷) ، مسند احمد (۳/۱۸۷، ۱۹۰، ۲۸۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۰ (۱۵۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث حجۃ الوداع کے سفر کے بارے میں ہے ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث فتح مکہ کے بارے میں ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ الْمُثَنَّى وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: ابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"كَانَ إِذَا سَافَرَ سَارَ بَعْدَ مَا تَغْرُبُ الشَّمْسُ حَتَّى تَكَادَ أَنْ تُظْلِمَ، ثُمَّ يَنْزِلُ فَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَدْعُوا بِعَشَائِهِ فَيَتَعَشَّى، ثُمَّ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، ثُمَّ يَرْتَحِلُ، وَيَقُولُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ". قَالَ عُثْمَانُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، سَمِعْت أَبَا دَاوُد، يَقُولُ: وَرَوَى أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَنَسًا"كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ، وَيَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ"، وَرِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلُهُ.
عمر بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب سفر کرتے تو سورج ڈوبنے کے بعد بھی چلتے رہتے یہاں تک کہ اندھیرا چھا جانے کے قریب ہو جاتا، پھر آپ اترتے اور مغرب پڑھتے۔ پھر شام کا کھانا طلب کرتے اور کھا کر عشاء ادا کرتے۔ پھر کوچ فرماتے اور کہا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ عثمان کی روایت میں «أخبرني عبدالله بن محمد بن عمر بن علي» کے بجائے «عن عبدالله بن محمد بن عمر بن علي» ہے۔ (ابوعلی لولؤی کہتے ہیں) میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ اسامہ بن زید نے حفص بن عبیداللہ (بن انس بن مالک) سے روایت کی ہے کہ انس رضی اللہ عنہ جب شفق غائب ہو جاتی تو دونوں (مغرب اور عشاء) کو جمع کرتے اور کہتے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ زہری نے انس رضی اللہ عنہ سے انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، سنن النسائی/المواقیت ۴۴ (۵۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۵۰) (صحیح لغیرہ) ( اس کے راوی عبداللہ بن محمد بن عمر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ، جن میں سے ایک انس کی اگلی حدیث بھی ہے) وحدیث أنس أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱۴ (۱۱۱۱، ۱۱۱۲) (مقتصرا علی الظہر والعصر فقط)، صحیح مسلم/المسافرین ۵ (۷۰۴)، سنن النسائی/المواقیت ۴۲ (۵۹۵)، (مقتصرا علی الشق الأول مثل البخاری)، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَبُوكَ عِشْرِينَ يَوْمًا يَقْصُرُ الصَّلَاةَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: غَيْرُ مَعْمَرٍ لَا يُسْنِدُهُ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور نماز قصر کرتے رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: معمر کے علاوہ سبھی اسے مرسل روایت کرتے ہیں، کوئی اسے مسند روایت نہیں کرتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۵۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۹۵) (صحیح)
من رأى أن يصلي بهم وهم صفان فيكبر بهم جميعا ثم يركع بهم جميعا ثم يسجد الإمام والصف الذي يليه والآخرون قيام يحرسونهم فإذا قاموا سجد الآخرون الذين كانوا خلفهم ثم تأخر الصف الذي يليه إلى مقام الآخرين وتقدم الصف الأخير إلى مقامهم ثم يركع الإمام ويركعون جميعا ثم يسجد ويسجد الصف الذي يليه والآخرون يحرسونهم فإذا جلس الإمام والصف الذي يليه سجد الآخرون ثم جلسوا جميعا ثم سلم عليهم جميعا قال أبو داود هذا قول سفيان
( درج ذیل حدیث ) ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ امام انہیں نماز پڑھائے جبکہ مجاہدین کی دو صفیں ہوں ۔ امام ان سب کو اکٹھے ہی نماز شروع کرائے اور تکبیر تحریمہ کہے ۔ پھر یہ سب رکوع کریں ۔ پھر امام اور اس کے ساتھ متصل صف کے لوگ سجدہ کریں ، مگر پچھلی صف والے کھڑے رہیں اور ان کی نگرانی کریں ۔ جب وہ ( سجدے کر کے ) کھڑے ہو جائیں تو دوسری صف والے جو ان کے پیچھے کھڑے تھے سجدہ کریں ۔ پھر پہلی صف والے ، دوسری صف میں ہو جائیں اور دوسری صف والے پہلی صف میں آ جائیں ۔ پھر امام اور سب لوگ رکوع کریں ۔ پھر امام اور اس سے متصل صف والے سجدہ کریں ، پچھلی صف والے کھڑے نگرانی کرتے رہیں ۔ جب امام اور اس سے متصل صف والے سجدہ کر کے بیٹھ جائیں تو ( پھر ) دوسری صف والے سجدہ کریں اور سب بیٹھ جائیں اور پھر مل کر سلام پھیریں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جناب سفیان کا یہی قول ہے ۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُسْفَانَ، وَعَلَى الْمُشْرِكِينَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَصَلَّيْنَا الظُّهْرَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: لَقَدْ أَصَبْنَا غِرَّةً، لَقَدْ أَصَبْنَا غَفْلَةً، لَوْ كُنَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ وَهُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْقَصْرِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ"قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، وَالْمُشْرِكُونَ أَمَامَهُ فَصَفَّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفٌّ، وَصَفَّ بَعْدَ ذَلِكَ الصَّفِّ صَفٌّ آخَرُ، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكَعُوا جَمِيعًا، ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ الصَّفُّ الَّذِينَ يَلُونَهُ، وَقَامَ الْآخَرُونَ يَحْرُسُونَهُمْ، فَلَمَّا صَلَّى هَؤُلَاءِ السَّجْدَتَيْنِ وَقَامُوا سَجَدَ الْآخَرُونَ الَّذِينَ كَانُوا خَلْفَهُمْ، ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ إِلَى مَقَامِ الْآخَرِينَ، وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الْأَخِيرُ إِلَى مَقَامِ الصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكَعُوا جَمِيعًا ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ وَقَامَ الْآخَرُونَ يَحْرُسُونَهُمْ، فَلَمَّا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ سَجَدَ الْآخَرُونَ، ثُمَّ جَلَسُوا جَمِيعًا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، فَصَلَّاهَا بِعُسْفَانَ، وَصَلَّاهَا يَوْمَ بَنِي سُلَيْمٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى أَيُّوبُ، وَهِشَامٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، هَذَا الْمَعْنَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ دَاوُدُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَكَذَلِكَقَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى فِعْلَهُ، وَكَذَلِكَ عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ.
ابوعیاش زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام عسفان میں تھے، اس وقت مشرکوں کے سردار خالد بن ولید تھے، ہم نے ظہر پڑھی تو مشرکین کہنے لگے: ہم سے چوک ہو گئی، ہم غفلت کا شکار ہو گئے، کاش! ہم نے دوران نماز ان پر حملہ کر دیا ہوتا، چنانچہ ظہر اور عصر کے درمیان قصر کی آیت نازل ہوئی ۱؎ پھر جب عصر کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوئے، مشرکین آپ کے سامنے تھے، لوگوں نے آپ کے پیچھے ایک صف بنائی اور اس صف کے پیچھے ایک دوسری صف بنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے ساتھ بیک وقت رکوع کیا، لیکن سجدہ آپ نے اور صرف اس صف کے لوگوں نے کیا جو آپ سے قریب تر تھے اور باقی (پچھلی صف کے) لوگ کھڑے نگرانی کرتے رہے، پھر جب یہ لوگ سجدہ کر کے کھڑے ہو گئے تو باقی دوسرے لوگوں نے جو ان کے پیچھے تھے، سجدے کئے، پھر قریب والی صف پیچھے ہٹ کر دوسری صف کی جگہ پر چلی گئی، اور دوسری صف آگے بڑھ کر پہلی صف کی جگہ پر آ گئی، پھر سب نے مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع کیا، اس کے بعد سجدہ صرف آپ اور آپ سے قریب والی صف نے کیا اور بقیہ لوگ کھڑے نگرانی کرتے رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریب والی صف کے لوگ بیٹھ گئے تو بقیہ دوسروں نے سجدہ کیا، پھر سب ایک ساتھ بیٹھے اور ایک ساتھ سلام پھیرا، آپ نے عسفان میں اسی طرح نماز پڑھی اور بنی سلیم سے جنگ کے روز بھی اسی طرح نماز پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ایوب اور ہشام نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جابر سے اسی مفہوم کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ اسی طرح یہ حدیث داود بن حصین نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔ اسی طرح یہ حدیث عبدالملک نے عطا سے، عطاء نے جابر سے روایت کی ہے۔ اسی طرح قتادہ نے حسن سے، حسن نے حطان سے، حطان نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہی عمل نقل کیا ہے۔ اسی طرح عکرمہ بن خالد نے مجاہد سے مجاہد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اسی طرح ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور یہی ثوری کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/صلاة الخوف (۱۵۵۰، ۱۵۵۱ )، (تحفة الأشراف: ۳۷۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۵۹، ۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نسائی کی روایت میں ہے «فنزلت، يعني صلاة الخوف» دونوں روایتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ آیت قصر ہی آیت خوف ہے۔
فيصلي بالذين يلونه ركعة ثم يقوم قائما حتى يصلي الذين معه ركعة أخرى ثم ينصرفون فيصفون وجاه العدو وتجيء الطائفة الأخرى فيصلي بهم ركعة ويثبت جالسا فيتمون لأنفسهم ركعة أخرى ثم يسلم بهم جميعا
امام ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ہوں ، ایک رکعت پڑھائے ، پھر وہ یوں ہی کھڑا رہے یہاں تک کہ جو لوگ اس کے ساتھ ہیں دوسری رکعت پوری کر لیں ۔ پھر وہ واپس جا کر دشمن کے سامنے صف بستہ ہو جائیں اور دوسری ٹکڑی آئے تو وہ امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے ، اور امام یونہی بیٹھا رہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی دوسری رکعت بھی مکمل کر لیں پھر امام ان سب کے ساتھ سلام پھیرے ۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى بِأَصْحَابِهِ فِي خَوْفٍ فَجَعَلَهُمْ خَلْفَهُ صَفَّيْنِ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ يَلُونَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ خَلْفَهُمْ رَكْعَةً، ثُمَّ تَقَدَّمُوا وَتَأَخَّرَ الَّذِينَ كَانُوا قُدَّامَهُمْ فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ قَعَدَ حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ تَخَلَّفُوا رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ".
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ حالت خوف میں نماز ادا کی تو اپنے پیچھے دو صفیں بنائیں پھر جو آپ سے قریب تھے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے جو پہلی صف کے پیچھے تھے، ایک رکعت ادا کی، پھر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور جو لوگ دشمن کے سامنے تھے، آپ کے پیچھے آ گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر آپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے ایک رکعت اور پڑھی پھر آپ نے سلام پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۲ (۴۱۳۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۵۷ (۸۴۱و۸۴۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۸۱ (الجمعة ۴۶) (۵۶۶)، سنن النسائی/صلاة الخوف (۱۵۳۷)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵۱ (۱۲۵۹)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱ (۲)، مسند احمد (۳/۴۴۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۵(۱۵۶۳) (صحیح)
ثم سلموا ثم انصرفوا فكانوا وجاه العدو واختلف في السلام
امام ایک رکعت پڑھ کر کھڑا رہے اور لوگ خود سے اپنی دوسری رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیں ، پھر لوٹ کر دشمن کے سامنے جائیں ، سابقہ صورت اور اس صورت میں صرف سلام میں اختلاف ہے ۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَمَّنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْم ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاةَ الْخَوْفِ، أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ وَطَائِفَةً وِجَاهَ الْعَدُوِّ"فَصَلَّى بِالَّتِي مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا، وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوا وَصَفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ مِنْ صَلَاتِهِ، ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا، وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ". قَالَ مَالِكٌ: وَحَدِيثُ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ.
صالح بن خوات ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ذات الرقاع کے غزوہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف ادا کی وہ کہتے ہیں: ایک جماعت آپ کے ساتھ صف میں کھڑی ہوئی اور دوسری دشمن کے سامنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والی جماعت کے ساتھ ایک رکعت ادا کی پھر کھڑے رہے اور ان لوگوں نے (اس دوران میں) اپنی نماز پوری کر لی (یعنی دوسری رکعت بھی پڑھ لی) پھر وہ واپس دشمن کے سامنے صف بستہ ہو گئے اور دوسری جماعت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ اپنی رکعت ادا کی پھر بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنی دوسری رکعت پوری کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ مالک کہتے ہیں: یزید بن رومان کی حدیث میری مسموعات میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ الْأَنْصَارِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّ صَلَاةَ الْخَوْفِ: أَنْ يَقُومَ الْإِمَامُ، وَطَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَطَائِفَةٌ مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، فَيَرْكَعُ الْإِمَامُ رَكْعَةً وَيَسْجُدُ بِالَّذِينَ مَعَهُ، ثُمَّ يَقُومُ، فَإِذَا اسْتَوَى قَائِمًا ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمُ الرَّكْعَةَ الْبَاقِيَةَ، ثُمَّ سَلَّمُوا وَانْصَرَفُوا وَالْإِمَامُ قَائِمٌ، فَكَانُوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يُقْبِلُ الْآخَرُونَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُكَبِّرُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَيَرْكَعُ بِهِمْ وَيَسْجُدُ بِهِمْ، ثُمَّ يُسَلِّمُ فَيَقُومُونَ فَيَرْكَعُونَ لِأَنْفُسِهِمُ الرَّكْعَةَ الْبَاقِيَةَ، ثُمَّ يُسَلِّمُونَ. قَالَ أَبُو دَاوُد وَأَمَّا: رِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، نَحْوَ رِوَايَةِ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، إِلَّا أَنَّهُ خَالَفَهُ فِي السَّلَامِ، وَرِوَايَةُ عُبَيْدِ اللَّهِ، نَحْوَ رِوَايَةِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: وَيَثْبُتُ قَائِمًا.
صالح بن خوات انصاری کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ نماز خوف اس طرح ہو گی کہ امام (نماز کے لیے) کھڑا ہو گا اور اس کے ساتھیوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہو گی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی ہو گی، امام اور جو اس کے ساتھ ہوں گے رکوع اور سجدہ کریں گے پھر امام کھڑا ہو گا، جب پورے طور سے سیدھا کھڑا ہو جائے گا تو یونہی کھڑا رہے گا یہاں تک کہ لوگ اپنی باقی (دوسری) رکعت بھی ادا کر لیں گے، پھر وہ لوگ سلام پھیر کر واپس چلے جائیں گے اور امام کھڑا رہے گا، اب یہ دشمن کے سامنے ہوں گے اور جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، وہ آئیں گے اور امام کے پیچھے تکبیر (تکبیر تحریمہ)کہیں گے پھر وہ ان کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر کے اپنی دوسری رکعت پوری کرے گا پھر سلام پھیر دے گا، اس کے بعد یہ لوگ کھڑے ہو کر اپنی باقی رکعت ادا کریں گے پھر سلام پھیریں گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: رہی قاسم سے مروی یحییٰ بن سعید کی روایت تو وہ یزید بن رومان کی روایت ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ انہوں نے سلام میں اختلاف کیا ہے اور عبیداللہ کی روایت یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح ہے اس میں ہے کہ "(امام) کھڑا رہے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۱۲۳۷)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۵) (صحیح) (یہ حدیث موقوف ہے اور اس سے پہلے والی مرفوع ہے، پہلی میں جو صورت مذکور ہے وہی زیادہ صحیح ہے، یعنی دوسری جماعت کا امام کے ساتھ سلام پھیرنا)
ثم يصلي بمن معه ركعة ثم يأتون مصاف أصحابهم ويجيء الآخرون فيركعون لأنفسهم ركعة ثم يصلي بهم ركعة ثم تقبل الطائفة التي كانت مقابل العدو فيصلون لأنفسهم ركعة والإمام قاعد ثم يسلم بهم كلهم [ جميعا ]
سارے لوگ ایک ساتھ تکبیر ( تحریمہ ) کہیں گرچہ ان کی پیٹھ قبلہ کی طرف ہو پھر امام اپنے ساتھ کے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائے اور یہ لوگ اپنے ساتھیوں ( جو دشمن کے سامنے ہیں ) کی جگہ پر چلے جائیں ، اور دوسرا گروہ امام کے پیچھے آ جائے اور خود سے ایک رکعت پڑھے پھر امام انہیں ایک رکعت پڑھائے پھر وہ گروہ آئے جو دشمن کے مقابل میں تھا ( اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکا تھا ) خود سے ایک رکعت ادا کرے اور امام بیٹھا رہے پھر اکٹھا سب کے ۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، أَنَّهُ سَمِعَعُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ: هَلْ صَلَّيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ، قَالَ مَرْوَانُ: مَتَى ؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَامَ غَزْوَةِ نَجْدٍ، "قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ فَقَامَتْ مَعَهُ طَائِفَةٌ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى مُقَابِلَ الْعَدُوِّ وَظُهُورُهُمْ إِلَى الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرُوا جَمِيعًا الَّذِينَ مَعَهُ وَالَّذِينَ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، ثُمَّ رَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وَاحِدَةً وَرَكَعَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَهُ، ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي تَلِيهِ وَالْآخَرُونَ قِيَامٌ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَهُ فَذَهَبُوا إِلَى الْعَدُوِّ فَقَابَلُوهُمْ وَأَقْبَلَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ، فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ كَمَا هُوَ، ثُمَّ قَامُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً أُخْرَى وَرَكَعُوا مَعَهُ، وَسَجَدَ وَسَجَدُوا مَعَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلِي الْعَدُوِّ فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ، ثُمَّ كَانَ السَّلَامُ، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوا جَمِيعًا، فَكَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ، وَلِكُلِّ رَجُلٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ".
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے؟ ابوہریرہ نے جواب دیا: ہاں، مروان نے پوچھا: کب؟ ابوہریرہ نے کہا: جس سال غزوہ نجد پیش آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے تھی اور ان کی پیٹھیں قبلہ کی طرف تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی تو آپ کے ساتھ والے لوگوں نے اور ان لوگوں نے بھی جو دشمن کے سامنے کھڑے تھے (سبھوں نے) تکبیر تحریمہ کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور آپ کے ساتھ کھڑی جماعت نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے قریب والی جماعت نے بھی سجدہ کیا، اور دوسرے لوگ دشمن کے بالمقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور وہ جماعت بھی اٹھی جو آپ کے ساتھ تھی اور جا کر دشمن کے سامنے کھڑی ہو گئی، پھر وہ جماعت، جو دشمن کے سامنے کھڑی تھی (امام کے پیچھے) آ گئی اور اس نے رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کھڑے رہے جیسے تھے، پھر جب وہ جماعت (سجدہ سے) اٹھ کھڑی ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی، اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا پھر جو جماعت دشمن کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی آ گئی اور اس نے رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو پہلے سے آپ کے ساتھ موجود تھے بیٹھے رہے، پھر سلام پھیرا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سبھی لوگوں نے مل کر سلام پھیرا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوئیں اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک کی ایک ایک رکعت۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الخوف ۱۸(۱۵۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۰۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى نَجْدٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ مِنْ نَخْلٍ لَقِيَ جَمْعًا مِنْ غَطَفَانَ"فَذَكَرَ مَعْنَاهُ وَلَفْظُهُ"عَلَى غَيْرِ لَفْظِ حَيْوَةَ، وَقَالَ فِيهِ: "حِينَ رَكَعَ بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ، قَالَ: فَلَمَّا قَامُوا مَشَوْا الْقَهْقَرَى إِلَى مَصَافِّ أَصْحَابِهِمْ، وَلَمْ يَذْكُرِ اسْتِدْبَارَ الْقِبْلَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب ہم ذات الرقاع میں تھے تو غطفان کے کچھ لوگ ملے، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی لیکن اس کے الفاظ حیوۃ کے الفاظ سے مختلف ہیں اس میں «حين ركع بمن معه وسجد» کے الفاظ ہیں، نیز اس میں ہے «فلما قاموا مشوا القهقرى إلى مصاف أصحابهم» "یعنی جب وہ اٹھے تو الٹے پاؤں پھرے اور اپنے ساتھیوں کی صف میں آ کھڑے ہوئے"، اس میں انہوں نے «استدبار قبلہ» (قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے) کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۶۴) (صحیح)
وَأَمَّا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ فَحَدَّثَنَا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَتْ: "كَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرَتِ الطَّائِفَةُ الَّذِينَ صَفُّوا مَعَهُ، ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعُوا، ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوا، ثُمَّ مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، ثُمَّ سَجَدُوا لِأَنْفُسِهِمُ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ قَامُوا فَنَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ يَمْشُونَ الْقَهْقَرَى حَتَّى قَامُوا مِنْ وَرَائِهِمْ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَقَامُوا فَكَبَّرُوا، ثُمَّ رَكَعُوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَجَدُوا مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَجَدُوا لِأَنْفُسِهِمُ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ قَامَتِ الطَّائِفَتَانِ جَمِيعًا فَصَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكَعَ فَرَكَعُوا، ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا جَمِيعًا، ثُمَّ عَادَ فَسَجَدَ الثَّانِيَةَ وَسَجَدُوا مَعَهُ سَرِيعًا كَأَسْرَعِ الْإِسْرَاعِ جَاهِدًا لَا يَأْلُونَ سِرَاعًا، ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَارَكَهُ النَّاسُ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا".
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی واقعہ بیان کیا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی اور اس جماعت نے بھی جو آپ کے ساتھ صف میں کھڑی تھی تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا تو ان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی اٹھایا، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے اور وہ لوگ دوسرا سجدہ خود سے کر کے کھڑے ہوئے اور ایٹریوں کے بل پیچھے چلتے ہوئے الٹے پاؤں لوٹے، یہاں تک کہ ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے، اور دوسری جماعت آ کر کھڑی ہوئی، اس نے تکبیر کہی پھر خود سے رکوع کیا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دوسرا سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے اپنا دوسرا سجدہ کیا، پھر دونوں جماعتیں ایک ساتھ کھڑی ہوئیں اور دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا (ان سب نے بھی رکوع کیا)، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان سب نے بھی ایک ساتھ سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسرا سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی سجدہ کیا، اور جلدی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور لوگوں نے بھی سلام پھیرا، پھر آپ نماز سے فارغ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اس طرح لوگوں نے پوری نماز میں آپ کے ساتھ شرکت کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۷۵) (حسن)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَقَامُوا فِي مَقَامِ أُولَئِكَ، وَجَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً أُخْرَى، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَامَ هَؤُلَاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ، وَقَامَ هَؤُلَاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ نَافِعٌ، وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ قَوْلُ مَسْرُوقٍ، وَيُوسُفُ بْنُ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ رَوَى يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ فَعَلَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) آ گئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الخوف ۱ (۹۴۲)، المغازي ۳۱ (۴۱۳۳)، صحیح مسلم/المسافرین ۵۷ (۸۳۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۸۱ (الجمعة ۴۶) (۵۶۴)، سنن النسائی/الخوف ۱۸ (۱۵۳۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵۱ (۱۲۵۸)، (تحفة الأشراف: ۶۹۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۴۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَقَامُوا صَفَّيْنِ صَفٌّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفٌّ مُسْتَقْبِلَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ جَاءَ الْآخَرُونَ فَقَامُوا مَقَامَهُمْ وَاسْتَقْبَلَ هَؤُلَاءِ الْعَدُوَّ، فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ هَؤُلَاءِ فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمُوا، ثُمَّ ذَهَبُوا فَقَامُوا مَقَامَ أُولَئِكَ مُسْتَقْبِلِي الْعَدُوِّ وَرَجَعَ أُولَئِكَ إِلَى مَقَامِهِمْ فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمُوا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھائی تو ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور دوسری صف دشمن کے مقابل کھڑی ہوئی، آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر دوسری جماعت آئی اور ان کی جگہ کھڑی ہوئی اور یہ جماعت دشمن کے سامنے چلی گئی، اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر دیا، پھر یہ جماعت کھڑی ہوئی، اس نے دوسری رکعت ادا کر کے سلام پھیرا اور جا کر ان کی جگہ کھڑی ہو گئی، جو دشمن کے سامنے تھے، اب وہ لوگ ان کی جگہ آ گئے اور انہوں نے اپنی دوسری رکعت ادا کی پھر سلام پھیرا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۶۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۵، ۳۷۶، ۴۰۹) (ضعیف) ( ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: "فَكَبَّرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرَ الصَّفَّانِ جَمِيعًا". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ بِهَذَا الْمَعْنَى، عنْ خُصَيْفٍ، وَصَلَّى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ"هَكَذَا، إِلَّا أَنَّ الطَّائِفَةَ الَّتِي صَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ مَضَوْا إِلَى مَقَامِ أَصْحَابِهِمْ، وَجَاءَ هَؤُلَاءِ فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى مَقَامِ أُولَئِكَ فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً". قَالَ أَبُو دَاوُد: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّهُمْ غَزَوْا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ كَابُلَ فَصَلَّى بِنَا صَلَاةَ الْخَوْفِ.
اس طریق سے بھی خصیف سے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر(تکبیر تحریمہ) کہی اور دونوں صف کے سارے لوگوں نے بھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری نے بھی خصیف سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اور عبدالرحمٰن بن سمرہ نے اسی طرح یہ نماز ادا کی، البتہ اتنا فرق ضرور تھا کہ وہ گروہ جس کے ساتھ آپ نے ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر دیا، اپنے ساتھیوں کی جگہ واپس چلا گیا اور ان لوگوں نے آ کر خود سے ایک رکعت پوری کی۔ پھر وہ ان کی جگہ واپس چلے گئے اور اس گروہ نے آ کر اپنی باقی ماندہ رکعت خود سے ادا کی۔ ۱۲۴۵/م- ابوداؤد کہتے ہیں: ہم سے یہ حدیث مسلم بن ابراہیم نے بیان کی، مسلم کہتے ہیں: ہم سے عبدالصمد بن حبیب نے بیان کی، عبدالصمد کہتے ہیں: میرے والد نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے عبدالرحمٰن بن سمرہ کے ساتھ کابل کا جہاد کیا تو انہوں نے ہمیں نماز خوف پڑھائی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۶۰۷) (ضعیف) (عبد الصمد اور ان کے والد حبیب دونوں مجہول راوی ہیں )
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي الْأَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِطَبَرِسْتَانَ، فَقَامَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، فَصَلَّى بِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً وَبِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً وَلَمْ يَقْضُوا. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَا رَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَمُجَاهِدٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَزِيدُ الْفَقِيرُ، وَأَبُو مُوسَى. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَجُلٌ مِنَ التَّابِعِينَ لَيْسَ بِالْأَشْعَرِيِّ جَمِيعًا، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ الْفَقِيرِ: "إِنَّهُمْ قَضَوْا رَكْعَةً أُخْرَى"، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فَكَانَتْ لِلْقَوْمِ رَكْعَةً رَكْعَةً وَلِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ".
ثعلبہ بن زہدم کہتے ہیں کہ ہم لوگ سعید بن عاص کے ساتھ طبرستان میں تھے، وہ کھڑے ہوئے اور پوچھا: تم میں کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف ادا کی ہے؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے (پھر حذیفہ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی، اور دوسرے کو ایک رکعت) اور ان لوگوں نے (دوسری رکعت کی) قضاء نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح اسے عبیداللہ بن عبداللہ اور مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور عبداللہ بن شفیق نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور یزید فقیر اور ابوموسیٰ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوموسیٰ تابعی ہیں، ابوموسیٰ اشعری نہیں ہیں۔ یزید الفقیر کی روایت میں بعض راویوں نے شعبہ سے یوں روایت کی ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت قضاء کی تھی۔ اسی طرح اسے سماک حنفی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ نیز اسی طرح اسے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اس میں ہے: لوگوں کی ایک ایک رکعت ہوئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوئیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/صلاة الخوف (۱۵۳۰)، (تحفة الأشراف: ۳۳۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۵، ۳۹۹) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "فَرَضَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ، وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تم پر حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱ (۶۸۷)، سنن النسائی/الصلاة ۳ (۴۵۷)، وتقصیر الصلاة ۱ (۲۵۴، ۳۵۵)، والخوف ۱ (۱۵۳۳)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۷۳ (۱۰۶۸)، (تحفة الأشراف: ۶۳۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۷، ۲۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: "صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَوْفٍ الظُّهْرَ، فَصَفَّ بَعْضُهُمْ خَلْفَهُ، وَبَعْضُهُمْ بِإِزَاءِ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ فَانْطَلَقَ الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فَوَقَفُوا مَوْقِفَ أَصْحَابِهِمْ، ثُمَّ جَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّوْا خَلْفَهُ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَلِأَصْحَابِهِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ". وَبِذَلِكَ كَانَ يُفْتِي الْحَسَنُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ فِي الْمَغْرِبِ يَكُونُ لِلْإِمَامِ سِتُّ رَكَعَاتٍ وَلِلْقَوْمِ ثَلَاثٌ ثَلَاثٌ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ: عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی حالت میں ظہر ادا کی تو بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی اور بعض دشمن کے سامنے رہے، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، تو جو لوگ آپ کے ساتھ نماز میں تھے، وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کر کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ یہاں آ گئے پھر آپ کے پیچھے انہوں نے نماز پڑھی تو آپ نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں اور صحابہ کرام کی دو دو رکعتیں ہوئیں، اور حسن بصری اسی کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح مغرب میں امام کی چھ، اور دیگر لوگوں کی تین تین رکعتیں ہوں گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اور جابر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح سلیمان یشکری نے «عن جابر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الخوف۱۸ (۱۵۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۹، ۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ،عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَالِدِ بْنِ سُفْيَانَ الْهُذَلِيِّ وَكَانَ نَحْوَ عُرَنَةَ، وَعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: "اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ"، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ وَحَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَقُلْتُ: إِنِّي لأَخَافُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ مَا إِنْ أُؤَخِّرِ الصَّلَاةَ، فَانْطَلَقْتُ أَمْشِي وَأَنَا أُصَلِّي أُومِئُ إِيمَاءً نَحْوَهُ، فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْهُ، قَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَجْمَعُ لِهَذَا الرَّجُلِ فَجِئْتُكَ فِي ذَاكَ، قَالَ: إِنِّي لَفِي ذَاكَ، فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً حَتَّى إِذَا أَمْكَنَنِي عَلَوْتُهُ بِسَيْفِي حَتَّى بَرَدَ.
عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان ہذلی کی طرف بھیجا اور وہ عرنہ و عرفات کی جانب تھا تو فرمایا: "جاؤ اور اسے قتل کر دو"، عبداللہ کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھ لیا عصر کا وقت ہو گیا تھا تو میں نے (اپنے جی میں)کہا اگر میں رک کر نماز میں لگتا ہوں تو اس کے اور میرے درمیان فاصلہ ہو جائے گا، چنانچہ میں اشاروں سے نماز پڑھتے ہوئے مسلسل اس کی جانب چلتا رہا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: عرب کا ایک شخص، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلے) کے لیے تم (لوگوں کو) جمع کر رہے ہو ۱؎ تو میں اسی سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں، اس نے کہا: ہاں میں اسی کوشش میں ہوں، چنانچہ میں تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلتا رہا، جب مجھے مناسب موقع مل گیا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کر دیا اور وہ ٹھنڈا ہو گیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۱۴۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۹۶) (حسن) (اس کے راوی ابن عبد اللہ بن انیس لین الحدیث ہیں، لیکن اس حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ (۹۸۲) اور ابن حبان (۵۹۱) نے کی ہے، اور ابن حجر نے حسن کہا ہے (فتح الباری۲/۴۳۷)، البانی نے بھی اسے صحیح ابی داود میں رکھا ہے (۱۱۳۵/م) نیز ملاحظہ ہو: (الصحیحة ۳۲۹۳)
وضاحت: ۱؎ : یہ ذومعنی کلام ہے لیکن اللہ کا دشمن خالد بن سفیان ہذلی، عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے اس توریہ کو سمجھ نہیں سکا۔